abdullahshaheen65
abdullahshaheen65
Abdullah Shaheen
32 posts
Work in Silence , Let your Victory Make the Noice ..!
Don't wanna be here? Send us removal request.
abdullahshaheen65 · 5 years ago
Text
پی ٹی ایم پاکستان اور افواج پاکستان کے خلاف بدکرار عورتوں کو ہتھیار کی طرح استعمال کر رہی ہے۔ گلالئی اسمعیل، ثناء اعتجاز اور ڈاکٹر فوزیہ وغیرہ کو لانچ کرنے بعد منظور کا یہ جملہ پی ٹی ایم میں خاصہ مقبول ہوا تھا کہ " گرانہ وطنہ جینکے بہ دے گٹینہ"۔
تاہم بدکردار عورتوں کی مدد پراپگینڈے کرنے کا یہ طریقہ نیا نہیں ہے۔ منظور کی پشت پناہی کرنے والے اس کو بہت پہلے سے پاکستان کے خلاف آزما رہے ہیں۔
آئیں آج اس پر کچھ بات کرتے ہیں۔
1988ء سے 2000ء کے درمیانی عرصے میں مغربی این جی اوز افواج پاکستان کے خلاف نفرت پھیلانے کے لیے پاکستان کے دفاعی بجٹ کے بارے میں مسلسل پراپیگینڈا کرتی رہیں۔
اس دور میں شدومد سے یہ جھوٹ پھیلایا گیا کہ پاک فوج 80 فیصد بجٹ کھا جاتی ہے۔
یہ جھوٹ اراکین پارلیمنٹ تک کی زبانوں پر چڑھ گیا اور کسی ایک شخص نے اس کو چیک کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔
یہ این جی اوز مختلف لڑاکا طیاروں کی قیمتوں کا موازنہ تعلیم اور صحت کے لیے مختص بجٹ کے ساتھ کرتی تھیں اور رائے عامہ کو افواج پاکستان کے خلاف کرتی تھیں۔
اس بحث کو بل کلنٹن نے پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان پر اپنی ایک تقریر میں مزید تقویت دی۔ جب اس نے کہا کہ پاکستانی قوم کو مونگ پھلی، جوار اور گندم کی زیادہ ضرورت ہے نہ کہ ایف 16 طیاروں کی۔ یاد رہے کہ ان طیاروں کی پاکستان قیمت ادا کر چکا تھا اور امریکہ طیارے دینے پر آمادہ نہ تھا۔ بل کلنٹن نے یہ تقریر 2000ء میں اپنے دورہ پاکستان کے موقع پر کی تھی۔
تاہم ان کوششوں کو کوئی خاص عوامی پزیرائی نہ مل سکی۔ 2000ء کے بعد انہوں نے افواج پاکستان کے مورال اور سالمیت کو نشانہ بنانے کے لیے طوائفوں کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔
مغرب میں طوائف ہونا کوئی خاص جرم نہیں سمجھا جاتا۔ بلکہ پورن انڈسٹری کی ترقی کے بعد ان کو سیلیبریٹیز کی حیثیت دی جاتی ہے۔ طوائفوں کے ساتھ ملوث ہونے کو افراد کا ذاتی فعل قرار دیا جاتا ہے۔ اسی طرح مغرب میں عورت کی عزت لوٹنا بھی بہت زیادہ گھناؤنا جرم نہیں سمجھا جاتا۔
اس کے برعکس پاکستان میں کسی طوائف کا کسی شخص پر محض الزام لگا دینا ہی اس شخص کی ذات، خاندان، قبیلے حتی کہ اس ادارے تک کو متاثر کرتا ہے جہاں وہ کام کر رہا ہے۔
ریاستی معاملات میں طوائفوں کا استعمال تقسیم سے قبل بھی تھا اور برطانیہ ان کو اپنی گرفت مضبوط رکھنے اور مقامی قیادتوں کو عوام کی نظروں میں گرانے کے لیے استعمال کرتا تھا۔
اگر آپ پشتون ہیں تو شائد آپ یقین نہ کریں کہ "بڈہ بیرے کا زبیر" بھی اسی چال کا شکار ہونے والا ایک کردار تھا۔
زبیر پشاور کے علاقے بڈہ بیر سے تعلق رکھنے والا ایک غیرت م��د پشتون تھا۔ یہ انگریزوں کے خلاف کام کرنے والا ایک غیر سیاسی کردار تھا جس کا کافی بڑا حلقہ اثر تھا۔
جب برطانوی راج اسکی سرگرمیاں روکنے میں ناکام رہی تو اس مضبوط شخص کے خلاف مقامی برطانوی نمائندوں نے ایک سازش تیار کی۔
اس وقت جب زبیر کی عمر 60 کا ہندسہ عبور کر چکی تھی برطانیہ نے کمار گلا نامی ایک طوائف کو زبیر کے خلاف ھائر کیا۔
21 ستمبر 1935ء کو کمار گلا کی شکایت پر زبیر کے خلاف زنا بالجبر کا مقدمہ دائر کیا گیا اور 10 جنوری 1936ء کو زبیر کو ڈھائی سال قید اور 15 روپے جرمانہ کی سزا سنائی گئی۔
بحوالہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
FIR No.34, Ellat No.109 Dated 21-9-1935 A.D, Thana Badabera
جبکہ کمار گلا کو نہ صرف 15 روپے انعام سے نوازا گیا بلکہ اس کو تاج برطانیہ کی آفیشل طوائف کی حیثیت بھی دی گئی۔ آپ کو کیا لگتا ہے کمار گلا کو انعام کس چیز کا دیا گیا تھا؟ عزت لٹنے کا زیبر کو خاموش کرنے کا؟
کمار گلا کے اس کیس کو اس وقت خوب اچھالا گیا۔
زیبر کو حاصل تمام تر عوامی حمایت یکلخت ختم ہوگئی اور وہ مکمل طور پر تنہائی میں چلا گیا۔ پشتونوں میں ایک نئے محاورے نے جنم لیا کہ " غم بہ ی دا بڈہ بیرے زیبر کوی "
مغرب کی یہ پریکٹس آج بھی جاری ہے۔
ماضی قریب میں مظفر گڑھ سے تعلق رکھنےو الی ایک تجربہ کار طوائف مختاراں مائی کے زریعے یہ کھیل کھیلا گیا اور پھر اپنے طاقتور میڈیا کے ذریعے پوری دنیا میں اسکی بھرپور تشہیر کی گئی۔
مختاراں مائی کو بے پناہ دولت اور شہرت ملی جبکہ پاکستان کو عالمی سطح پر زبردست قسم کی بدنامی۔
اگر مختاراں مائی کی عزت لٹی تھی تو اس کو انعامات کس چیز کے دئیے جا رہے تھے؟ عزت لٹنے کے یا پاکستان کے نامم پر دھبہ لگانے کے؟
درحقیقت مختاراں مائی والے تجربے کے بعد مغرب کے ہاتھ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے اور افواج پاکستان کی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کا ایک خطرناک ہتھیار ہاتھ آگیا۔
ڈیرہ بگٹی سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر شازیہ بھی ایسا ہی ایک کیس تھا۔ ڈاکٹری کے معزز پیشے سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر شازیہ مغربی این جی اوز کے ہاتھوں طوائف بننے پر تیار ہوگئیں۔
ڈاکٹر شازیہ کے ذریعے نہ صرف افواج پاکستان کو دھچکا دیا گیا بلکہ بلوچستان میں بغاوت برپا کر کے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی بھی کوشش کی گئی۔
ڈاکٹر شازیہ کو پاکستان کے حساس ترین مقام ڈیرہ بگٹی بلوچستان میں افواج پاکستان کے خلاف ھائر کیا گیا۔ پاک فوج کے کیپٹن حماد کے خلاف ریپ کا ایک فیک ڈراما تیار کیا گیا۔ ڈاکٹر شازیہ نے وہی کھیل کھیلا جو 1935ء میں کمار گلا نے بڈہ بیرے کے زبیر کے خلاف کھیلا تھا۔
نتیجہ بھی بلکل ویسا ہی رہا۔
اس جعلی ڈرامے کے فوراً بعد پاکستان میں موجود مغربی سپانسرڈ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے اس واقعے کو بے پناہ کوریج دی اور خوب اچھالا۔
اس ڈرامے نے افواج پاکستان کی ساکھ کو بالعموم اور بلوچستان میں بلخصوص متاثر کیا، بلوچستان کا امن تباہ کیا اور نواب اکبر بگٹی کی جان بھی لی۔
البتہ سرفراز بگٹی کا دعوی ہے کہ نواب اکبر بگٹی ڈاکٹر شازیہ والے اس کھیل سے نہ صرف واقف تھا بلکہ اسکا حصہ بھی تھا۔
کیا یہ بات دلچسپ نہیں کہ ڈاکٹر شازیہ اس ڈرامے سے پہلے ہی خواتین کے لیے کام کرنے والی کچھ نام نہاد انسانی حقوق کی تنظیموں سے وابستہ تھیں؟ :)
ڈاکٹر شازیہ کو دنیا بھر کی ہمدردیاں، مغرب کا پاسپورٹ اور بے پناہ انعام و اکرام سے نوازا گیا جس نے اس کو فکر معاش سے آزاد کر دیا۔
کیا یہ انعام و اکرام اس لیے تھا کہ مبینہ طور پر اس کی عزت لٹی تھی؟
یا یہ اس خدمت کی قیمت تھی جس نے پورے بلوچستان میں زلزلہ برپا کر دیا تھا؟
ضلع کرک سے تعلق رکھنے والی عظمی ایوب بھی این جی اوز ہی کی ہی متعارف کردہ طوائف تھی۔ اس نے بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں اور پولیس کے خلاف بلکل شازیہ کے انداز میں گینگ ریپ کا ڈراما کیا۔
اس ڈرامے نے پشاور ھائی کورٹ کی توجہ حاصل کی اور میڈیا میں بھی جگہ بنائی۔ لیکن بدقسمتی سے ڈرامے کی ڈائرکشن کافی کمزور رہی۔ تاہم عظمی ایوب سول کالونی میں پشاور ھائی کورٹ کے حکم پر ایک انتہائی مہنگا فلیٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہیں۔ لیکن عظمی ایوب عالمی پزیرائی حاصل نہ کر سکیں کیونکہ وہ ڈاکٹر شازیہ کی طرح زلزلہ برپا کرنے میں ناکام رہیں۔
غالب گمان ہے کہ 2009ء میں ریلیز ہونے والی سوات کی بدنام زمانہ ویڈیو میں بھی ایسی ہی کسی لڑکی کی خدمات حاصل کی گئی تھیں۔ اس ویڈیو کو پاکستان کی اعلی عدلیہ سمیت کئی تحقیقاتی اداروں نے جعلی قرار دیا۔ بقول ان کے ویڈیو سٹیج کی گئی تھی۔
اس وڈیو کی پاکستانی میڈیا نے بھرپور تشہیر کی تھی۔ ویڈیو کا مقصد پاک فوج پر پاکستانی عوام اور عالمی برادری کا دباؤ بڑھانا تھا تاکہ وہ اپنی ہی سرزمین پر جنگ کر سکیں اور پاک فوج کو سوات کی پیچیدہ وادیوں میں پھنسایا جا سکے۔
ویڈیو اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب رہی اور پاک فوج نے دہشت گردوں کے خلاف پہلا کے پی کے کے پہاوڑوں میں پہلا بڑا آپریشن لانچ کیا۔ تاہم یہ الگ بات ہے کہ افواج پاکستان نے ناقابل یقین تیزی سے یہ آپریشن مکمل کر کے دنیا کو حیران کر دیا۔
شرمین عبید چنائے بھی ایک عالمی طوائف ہی ہے۔ عام طوائف اپنا جسم بیچتی ہے لیکن شرمین عبید جیسی طوائفیں پورے قوم کے وقار اور عزت کا سودا کرتی ہیں۔ شرمین عبید نے غریب پاکستانی عورتوں کو دھوکہ دیا جن کے چہرے تیزاب پھینکے جانے سے بگڑ گئے تھے اور اس وعدے پر انکی ڈاکومینٹری ویڈیوز بنائیں کہ وہ انکا علاج کرے گی۔ ان ویڈیوز کے زریعے اس نے دنیا کے سامنے پاکستانی معاشرے کی منفی تصویر کشی کی اور پاکستان کو خواتین کے لیے ایک غیر محفوظ ملک ثابت کیا۔
غریب عورتوں کو دھوکہ دینے اور پاکستانی معاشرے کے خلاف منفی مواد تیار کرنے پر شرمین عبید چنائے کو آسکر ایوارڈ، عالمی شہرت اور بے پناہ دولت سے نوازا گیا۔
ویڈیوز بنانے والے کئی ماہرین کے نزدیک ان کی ویڈیوز میں سوائے اس کے اور کوئی خوبی نہیں کہ ان میں پاکستان پر تنقید کی گئی ہے۔
نام نہاد ملالہ یوسفزئی (ملالہ "یوسفزئی" نہیں بلکہ "ملاخیل" ہے) اس پیشے سے وابستہ عالمی اسٹیبلشمنٹ کا تیار کردہ سب سے بڑا کردار ہے۔ ضلع شانگلہ شاہ پور سے تعلق رکھنے والی ملالہ کا خاندان لنڈی خاص مینگورہ ضلع سوات میں نوے کی دہائی میں منتقل ہوا۔
ملالہ یوسفزئی کے لالچی باپ ضیاالدین یوسفزئی کو سی آئی اے نے بی بی سی کی مدد سے ھائر کیا۔ بی بی سی کے کاکڑ اور بٹا گرام سے تعلق رکھنے والے احسان داور نے ضیاالدین کو بی بی سی کے لیے "ڈائریز" کے نام پر جعلی اور انجنریڈ خطوط لکھنے کےلیے تیار کیا۔ عائشہ نامی لڑکی کے انکار کے بعد ضیاالدین یوسف زئی نے اس کام کے لیے اپنی بیٹی ملالہ پیش کی۔ ملالہ کے لیے گل مکئی کا قلمی نام تجویز کیا گیا۔
یہ ڈائریاں مبالغے سے بھرپور اور دہشت گردوں ( سی آئی اے ہی کی زرخرید ایجنٹس) کی کامیابیوں پر رننگ کمنٹریاں تھیں۔ انکا مقصد عوام کا مورال ڈاؤن کرنا، پاک فوج کو آپریشن کے لیے مجبور کرنا اور دنیا کو یقین دلانا تھا کہ پاکستانی ریاست اپنے کئی علاقے کھو چکی ہے اور دہشت گرد اسلام آباد کے قریب ہیں۔
گل مکئی کے نام سے لکھے گئے ان جعلی خطوط اور پاکستانی میڈیا نے لال مسجد والے واقعے کے ساتھ ملکر اس ساری صورت حال کو جنم دیا۔ لال مسجد کیس میں سی ڈی اے کے کچھ عناصر نے غیر ملکی اشارے پر اسلام آباد کے مختلف علاقوں میں اچانک 7 مساجد کو گرانے کا حکم دیا جس کے بعد وہ سارا کھیل شروع ہوا۔
ملالہ کو ھالینڈ نے امن کے ایوارڈ سے نوازا۔ جبکہ پاک فوج کے ہاتھوں شکست کھانے والے دہشت گردوں کو سی آئی اے نے افغانستان کے صوبوں کنڑ اور نورستان میں امریکہ اور نیٹو کی چھتری تلے محفوظ پناہ گاہیں فراہم کی گئیں۔ جہاں سے پاکستان میں انکی کاروائیاں آج بھی جاری ہیں۔
پی ٹی ایم نے طوائفوں کی اس فہرست میں مزید اضافہ کیا۔
پاکستان اور افواج پاکستان کے خلاف زہر اگلنے والی گلالئی اسمعیل، بشری گوہر، ثناء اعجاز، آئینہ درخانی، جلیلہ حیدر اور گل بخاری جیسی درجنوں بدکردار عورتیں متعارف کرائیں۔
ان میں سے ہر ایک اپنا انعام لینے کی متمنی ہے۔
ہر ایک کسی نہ کسی مغربی ملک کی شہریت لے چکی ے یا لینے والی ہے۔
پی ٹی ایم نے البتہ ظلم کیا یہ کہ ان بدکردار طوائفوں کو پشتونوں کی " ملی مشرے" قرار دے ڈالا۔
بی بی سی نے مختلف این جی اوز کے ساتھ ملکر پاکستان دشمن ایجنسیوں کے تعاؤن سے پاکستان پر دہشت گردی کے خلاف جنگ کو مسلط کیا۔
این جی اوز دہشت گردی کے لیے زمین ہموار کرتی رہیں تو پاکستانی میڈیا تمام دہشت گردانہ واقعات کو براہ راست نشر کر کے لوگوں کے دلوں میں دہشت پھیلاتا رہا اور یوں ریاست کو غیر مستحکم کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔
جبکہ پاک فوج اپنی ہی سرزمین پر اپنی جانیں دے کر دہشت گردوں کے چنگل سے پاکستانی علاقے چھڑاتی رہیں۔
پاکستانی عوام کا اپنے دفاع پر بھروسہ توڑنے کے لیے پاکستان پر ڈرون حملے جاری رکھے گئے۔
طالبان سے خفیہ روابط رکھنے والے ریمنڈ ڈیوس نے پاکستانی سرزمین پر پاکستانی ایجنسیوں کے دو اہلکاروں کو شہید کر دیا۔ دیت کے ذریعے اسکی رہائی کا حکم جاری کرنے والی ہماری بے مثل عدلیہ کا خطرناک کردار ارباب خان نامی مجسٹریٹ جیسا ہی تھا جس نے 80 سال قبل بڈہ بیرے کے زبیر کو سزا سنائی تھی
۔
خلاصہ یہ کہ
عوام میں پاک فوج کی بے پناہ مقبولیت کی وجہ سے مغرب کو پاکستان کو نیوکلئیر ہتھیاروں سے غیر مسلح کرنے میں مشکل پیش آرہی ہے۔
اس لیے پاک فوج کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے لیے مغرب نے طوائفوں کے ذریعے پاک فوج کو بدنام کرنے کی کوششیں کیں ��اکہ عوام اور افواج میں دوریاں پیدا کی جا سکیں بلکل ویسے ہی جیسے حکومت برطانیہ نے بڈہ بیرے کے زبیر کے ساتھ کیا تھا۔
کیا آپ نوٹ نہیں کر رہے میڈیا اور سوشل میڈیا پر موجود مغربی کٹھ پتلیوں کا سارا زور اسی پر ہے کہ کسی طرح عوام میں افواج کے خلاف نفرت پیدا کی جا سکے۔
آپ یقین کییجیے وہ وقت دور نہیں جب تھک ہار کر عالمی طاقتیں پاکستان کے سامنے دو آپشنز رکھیں گی کہ یا تو خود ہی اپنے ایٹمی اثاثوں سے دست بردار ہوجاؤ یا ہم بذریعہ طاقت تمھاری یہ صلاحیت ختم کرتے ہیں اور اسکا خمیازہ بھگتنے کے لیے تیار رہو۔
بلکل ایسے ہی آپشنز عراق کے صدام حسین، لیبیا کے معمر قضافی اور شام کے بشارلاسد کے سامنے رکھے گئے تھے۔
پے در پے 10 سالہ جمہوری دور میں پاکستان کو معاشی طور پر اس قدر تباہ کر دیا گیا ہے کہ بل کلنٹن کی طرح کوئی اور امریکہ صدر بھی پاکستانی عوام کو پیغام دے سکتا ہے کہ " تمھیں ایٹمی ہتھیاروں کی نہیں گندم اور مونگ پھلی کی ضرورت ہے " اور اس وقت بہت سے لوگ سر ہلاتے ہوئے کہیں گے کہ " ہاں یہ تو سچ کہہ رہا ہے۔ ایٹمی ہتھیاروں نے ہمیں کیا دیا "
دوسری طرف میرے سادہ دل بٹھکے ہوۓ پختوں اور پشتون بھائی کا استمال دل کھول کر پی ڈی ایم کر رہی ہے
قوم پرستوں کے نام چند موٹی موٹی باتیں ۔۔۔۔۔۔ !
جنگ صرف پشتون علاقوں میں ہی کیوں؟
کیونکہ پشتون علاقے میدان جنگ یعنی افغانستان کے بارڈر پر ہیں۔
افغانستان سے بھیجے جانے والے دہشت گرد پہلے فاٹا اور کے پی کے میں ہی داخل ہوتے ہیں۔
فاٹا میں ہی دہشت گردوں نے اپنے مراکز قائم کیے تھے اور فاٹا کو ہی فتح کیا تھا۔
تب ان کے خلاف جنگ کیا ٹوبہ ٹیک سنگھ میں لڑی جاتی؟؟
----------------------------
دہشت گردوں کی ریہرسل پشتونوں کا حلیہ کیوں بنایا جاتا ہے؟
اصل دہشت گردوں کی ویڈیوز موجود ہیں اور ان کو حقیقی زندگی میں دیکھنے والے لاکھوں لوگ بھی۔
کیا ریہرسل میں جو حلیے بنائے جاتے ہیں وہ اصل دہشت گردوں کے حلیوں سے مختلف ہوتے ہیں؟
یا آپ چاہتے ہیں کہ ان کو تہمبند باندھ کر ہاتھوں میں حقے پکڑائے جائیں؟
------------------------
دہشت گردی کا زیادہ تر شکار پشتون ہوئے ہیں!
تو کرنے والے کون تھے؟
دہشت گردوں کے سارے امیراور جنگجوؤں کی اکثریت پشتون ہی تھی بلکہ مقامی تھی یا پھر پشتونوں کی پناہ میں آئے ہوئے ازبک اور عرب۔ جبکہ کمانڈ کرنے والے افغانستان میں بیٹھے افغانی۔ جو پشتونوں ہی کی ایک نسل ہے۔
اس کے باؤجود فاٹا اور کے پی کے کے بعد سب سے زیادہ حملے پنجاب میں ہوئے ہیں!
-----------------------
پاک فوج نے بارودی سرنگیں بچھائی ہیں وہ ساری ��اف کریں!
یہ سرنگیں انہوں نے کب بچھائیں؟
کیا آپریشن سے پہلے؟
تب کیا دہشت گرد سکون سے بیٹھ کر تماشا دیکھتے رہے؟
یا آپریشن کے بعد؟
آپریشن کے بعد اسکی کیا ضرورت تھی بلکہ آپریشن سے پہلے بھی پاک فوج کو بارودی سرنگیں بچھانے کی کیا ضرورت؟
آج تک نہیں سنا کہ باردوی سرنگ کے دھماکے میں دہشت گرد ہلاک ہوئے البتہ پاک فوج کی ہی شہادتوں کی خبریں آتی ہیں۔ بلکہ سچائی یہ ہے کہ براہ راست حملوں کے بعد پاک فوج کی سب سے زیادہ شہادتیں بارودی سرنگوں کے دھماکوں میں ہی ہوئیں ہیں۔
جہاں تک صاف کرنی کی بات ہے تو پاک فوج ان کو مسلسل صاف کر رہی ہے لیکن یہ کس نے گن رکھے ہیں کہ کتنی ہیں اور کون یہ بتائیگا کہ " ہاں اب ساری صاف ہوگئی ہیں؟"
---------------------
غائب ہونے والے قبائیلی واپس کریں!
یہی مسنگ پرسنز کا کھیل بلوچستان میں بھی کھیلا گیا کہ غائب ہونے والے بلوچی واپس کریں۔ بعد میں واضح ہوگیا کہ انکی اکثریت یا بی ایل اے کے ہاتھوں ماری گئی ہے یا وہ ان کے ساتھ ملکر گوریلا جنگ لڑ رہے ہیں۔
یہ کہاں ثابت ہوا ہے کہ مسنگ پرسنز کتنے ہیں اور پاک فوج ہی کے پاس ہیں؟
-----------------
فوج کی آمد سے پہلے پشتون مغربی سرحد کے محافظ تھے اور امن تھا!
مغربی سرحد سے حملہ کب ہوا تھا جس کو پشتونوں نے روکا ہو؟
امن اس لیے تھا کہ وہاں سے کوئی حملہ نہیں ہوا تھا۔
دہشت گردوں کی شکل میں جیسے ہی پہلا حملہ ہوا، حملہ آوروں نے صرف چند ماہ کے اندر اندر پورے فاٹا کو فتح کر لیا۔
تب کیا پاک فوج پشتونوں کی ذلت اور گردنیں کٹنے کا تماشا دیکھتی رہتی؟
کیا یہ سچ نہیں ہے کہ وزیرستان کا آپریشن جنرل طارق خان نے کیا تھا جو ٹانک سے تعلق رکھنے والا ایک پشتون ہے۔
--------------------
پنجابیوں نے کے پی کے کو پسماندہ رکھا!
بھلا کیسے؟
پنجاب اور کے پی کے میں ترقی کا جو فرق ہے وہ شائد سینکڑوں سال پرانا ہے اور اسکی بنیادی وجہ پنجاب کی زرخیز زمینیں اور وافر پانی ہے۔ جس سے کے پی کے کا اکثر حصہ محروم ہے۔
قیام پاکستان کے بعد بھی اگر یہ فرق برقرار ہے تو چند سیدھی سادی باتیں سن لیجیے!
پاکستان پر ایوب خان، یحیی خان اور صدر غلام اسحاق خان کی شکل میں پشتون حکمران رہے انہوں نے یہ فرق دور کیوں نہیں کیا؟
ضیاءالحق اور پرویز مشرف بیس سال حاکم رہے جو مہاجر تھے۔
ان کے علاوہ ذولفقار علی بھٹو، بے نظیر اور زرداری حکمران رہے جو کہ سندھی تھے۔
نواز شریف کو اگر آپ پنجابی سمجھتے ہیں تو وہ پچھلے تیس سال سے پنجاب کا حکمران ہے اور اسی نواز شریف کو تمام پشتون قوم پرست "مشران" اپنا قبلہ و کعبہ قرار دیتے ہیں۔ :)
تب ذمہ دار کون ہے؟
دوسری بات سینکڑوں سال پرانا یہ فرق مٹانے کے لیے پاکستان کر امریکہ اور چین کا سارا بجٹ درکار ہوگا تاکہ پورے پاکستان کو ازسر نو تعمیر کیا جا سکے!
نیز فنڈز کی تقسیم میں آبادی کے حساب سے بلوچستان کے بعد سب سے زیادہ حصہ کے پی کے کو ملتا ہے اور سب سے کم پنجاب کو۔
لیکن ٹیکس کلیکشن میں سب سے بڑا حصہ پنجاب سے وصول کیا جاتا ہے۔
تقریباً 6 کروڑ پشتون آبادی میں سے صرف ڈھائی کروڑ کے قریب کے پی کے اور فاٹا میں آباد ہے باقی ساڑے تین کروڑ کو پنجاب اور کراچی نے سنبھال رکھا ہے۔
ہم نے کتنے پنجابیوں کو اپنے ہاں بسا رکھا ہے؟
---------------------
نقیب اللہ کے قاتل کو پکڑو!
ضرور پکڑو
اسکا ایک قاتل راؤ انوار نامی مہاجر ہے اور دوسرا امان اللہ مروت نامی پشتون۔
مرکز میں اچکزئی، اسفند یار ولی اور فضل الرحمن کے اتحادی نواز شریف کی حکومت ہے اور سندھ میں انہی تینوں کے اتحادی زرداری کی۔
راؤ انوار زرداری کا خاص بندہ ہے کون نہیں جانتا!
کیوں نہیں پکڑواتے؟
ویسے کبھی حساب کیا ہے کہ پولیس کے ہاتھوں ہر سال کتنے پنجابیوں کا انکاؤنٹر ہوتا ہے؟ ماڈل ٹاؤن میں تو انکی عورتوں کی منہ پر پولیس نے گولیاں ماریں۔ انہوں نے تو کبھی پاکستان کو گالیاں نہیں دیں!
----------------------
پنجاب ہماری بجلی اور گیس کھا جاتا ہے۔
تو کیا ہم ان کا چاول اور آٹا نہیں کھاتے؟
گھی کہاں سے آتا ہے؟
کیا پشاور میں پیا جانے والا زیادہ تر دودھ پنجاب سے نہیں آتا؟
اگر ہم پیسے دیتے ہیں تو پنجابی بھی اس گیس اور بجلی کا بل ادا کرتے ہیں۔
ہاں البتہ فاٹا میں آباد ہماری 60 سے 80 لاکھ آبادی بجلی کے بل سے مستثنی ہے جس کا کفارہ بقیہ پاکستان ادا کرتا ہے۔
کیا وہ ساڑے تین کروڑ پشتون جو بقیہ پاکستان میں آباد اور ان وسائل سے مستفید ہو رہے ہیں، ویسٹ انڈیز سے آئے ہیں؟
ویسے کی پی کے میں قائم ورسک اور تربیلا ملا کر بمشکل 2000 میگاواٹ بجلی پیدا نہیں کر رہے جبکہ پاکستان میں اس وقت 12000 سے 14000 میگاواٹ بجلی پیدا ہو رہی ہے۔
یہ زائد بجلی کہاں سے آرہی ہے؟
یہ اس تیل سے بن رہی ہے جو خریدنے کے لیے 80 فیصد سے زائد رقم ٹیکس کی شکل میں پنجاب اور سندھ ادا کرتا ہے۔ کیا انہوں نے کبھی گلا کیا؟؟
ویسے پاکستان کی پیداوار کا 60 فیصد گیس اس وقت سندھ پیدا کر رہا ہے البتہ تیل کا بڑا حصہ کے پی کے پیدا کرتا ہے۔ لیکن پاکستان کی ضرورت 4 لاکھ بیرل ہے جبکہ کے پی کے تقریباً 50 ہزار بیرل پیدا کرتا ہے۔
باقی ساڑھے تین لاکھ بیرل کہاں سے آتا ہے؟
تین لاکھ بیرل پاکستان خریدتا ہے اس ٹیکس سے جس کا 80 فیصد سندھ اور پنجاب ادا کرتے ہیں اور بڑا حصہ پنجاب۔
بجلی کی ایک اور بات بھی سن لیں۔
کیا ہماری یہ بدمعاشی کافی نہیں ہے کہ ہم نے پچھلے چالیس سال سے پنجاب کو خود اسکی سرزمین ( میاںوالی میں ) کالاباغ ڈیم نہیں بنانے دیا۔
اس ڈیم کے نہ بنانے سے پنجاب اور پورے پاکستان کو جتنا نقصان ہورہا ہے وہ پاکستان کے کل قرضے کے قریب قریب ہے۔ کیا انہوں نے گلا کیا؟؟
اور ایک آخری بات۔
اپنی دستکاریوں کے لیے مشہور پنجاب کا صرف ایک ضلع سیالکوٹ محض اپنے ہاتھوں کی محنت سے پورے کے پی کے سے زیادہ کما کر دیتا ہے۔ ان کو کوئی خاص حکومتی سپورٹ بھی حاصل نہیں۔ بلکہ سنا ہے انہوں نے ائر پورٹ تک اپنے لیے خود بنایا ہے۔
کیا ہم پشتونوں کے ہاتھ نہیں ہیں؟ بلکہ ہمارا دعوی ہے کہ ہم پنجابیوں سے زیادہ جفاکش ہیں۔ تو ہم کیوں نہیں کرتے؟
کس نے روکا ہے؟
یا ہمیں کوئی پلیٹ میں رکھ کر پیش کرے؟
-----------------------------------
خدا کے لیے ھوش میں آؤ۔
کبھی اسلام کے نام پر،
کبھی سرخوں سے متاثر ہو کر سوشلزازم کے نام پر،
اور اب حقوق کے نام پر ہر وقت اپنی ہی ریاست کے خلاف جنگ پر آمادہ مت رہو۔
امریکہ خود ہی ڈرون مارتا ہے اور پھر ڈیوا، مشال اور وائس آف امریکہ کے ذریعے تمھیں اکساتا بھی ہے کہ تم پر ڈرون ہوا ہے جسکا ذمہ دار پاکستان ہے، بدلہ لو۔
کیا یہ سچ نہیں ہے کہ پاکستان کے پشتونوں کے لیے دنیا کا سب سے غیر محفوظ ملک افغانستان ہے جہاں جان کی ضمانت نہ ہو تو افغانی ان کو قتل کرنے سے بھی نہیں چوکتے؟ اس وقت ان کو "لر و بر" یاد نہیں آتا؟
وہ افغانی تمھیں ان پنجابیوں کے خلاف اکسا رہے ہیں جو تمھارے لیے جانیں دے رہے ہیں!
کچھ تو عقل کرو!
اگر کسی مجب وطن پشتوں یا پختون کی دل ازاری ہوئی ہو تو دل سے معزرت
.
0 notes
abdullahshaheen65 · 5 years ago
Text
Tumblr media
Somewhere on Naran-Babusar Road, KPK.
2 notes · View notes
abdullahshaheen65 · 5 years ago
Text
Tumblr media
گلیات، ایبٹ آباد۔۔۔🌨🚙
Mesmerizing Kalabagh of Galyat in winters 💕
4 notes · View notes
abdullahshaheen65 · 5 years ago
Text
Tumblr media
شنگریلا ریزورٹ، کچورہ جھیل‎، سکردو، گلگت بلتستان 🌿
Scenic beauty of Shangrila Resort
(Lower Kachura Lake), Skardu valley .💕
1 note · View note
abdullahshaheen65 · 5 years ago
Text
Sleep peacefully we are here. 💯.
Tumblr media
1 note · View note
abdullahshaheen65 · 5 years ago
Text
#پاکستان کے #چوتھے #آرمی #چیف
#جرنل #موسی کی #مکمل #تاریخ
ایک#محب #وطن #عظیم #شخصیت
پاکستان آرمی کے سابق کمانڈر انچیف جنرل محمد موسی خان ہزارہ 20 اکتوبر 1908ء کو کوئیٹہ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سردار یزدان بخش خان المعروف یزدان خان نے 1890ء میں امیر جابر عبدالرحمان خان کی ہزارہ نسل کشی کی پالیسی سے بچنے کے لئے اس وقت کی برٹش بلوچستان میں مہاجرت اختیار کی تھی۔ وہ ہزارہ پائینر میں نائب صوبیدار کے عہدہ پر تھے، جہاں سے وہ ایک داخلی چپقلیش کی بنا پر قبل از وقت ریٹائر ہوئے تھے۔ موسی خان ہزارہ نے میٹرک تک تعلیم سنڈیمن ہائی سکول میں حاصل کی۔ سردار یزدان خان کے تعلقات ہزارہ پائینر کے بانی جنرل جیکب سے بہت اچھے تھے، انہی کی سفارش پر نوجوان موسی خان نےسپاہی کی حیثیت 18 روپے ماہوار تنخواہ پر 1926ء میں ہزارہ پائنر میں شمولیت اختیار کی۔ ہزارہ پائنر بنیادی طور پر انجئیرنگ کور کا حصہ تھا جس کے ذمے مواصلات یعنی روڈ، ریلوے ٹریکس کی تعمیر و دیکھ بھال تھا۔ اس وقت ہزارہ پائنر ژوب میں تعینات تھا۔ نوجوان موسی خان کیلئے یہ سخت امتحان کا دور تھا کیونکہ اسے سخت ترین جسمانی مشقت جیسے بیلچہ،کدال، جبل کا کام کرکے پہاڑ کاٹنا پڑ رہا تھا۔ بقول ان کے اس وقت ان کے ہاتھوں میں چھالے پڑ گئے تھے اور کام کے دوران خون رس رہا تھا لیکن انھوں نے ہمت نہیں ہاری۔
1927ء میں ان کی شادی ان کی کزن خانم گل شاہ سے ہوئی۔ بالآخر 6 سال کی طویل محنت، مشقت اور انتظار کے بعد 1932ء میں موسی خان ھزارہ پہلے 40 مقامی انڈیئنز کے ساتھ برٹش آرمی آفیسرز رینک میں شامل ہوگئے۔ یاد رہے کہ اس سے قبل مقامی لوگ صرف صوبیدار میجر کے عہدہ (نان کمیشنڈ آفیسر) تک ترقی کے حق دار تھے۔ ڈیرہ دھون ملٹری ایکیڈمی میں انکی تربیت ہوئی جہاں سے وہ 1935ء میں فارغ التحصیل ہوئے۔ 1941ء – 1938ء میں وہ دوسری عالمی جنگ کے دوران برما اور شمالی افریقی محاذ پر تعینات رہے۔ شمالی افریقہ کے محاذ پر اعلی عسکری صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے پر وہ “آرڈر آف دی برٹش ایمپائر” سے بھی نوازے گئے جو بہت کم ہندوستانیوں کے حصے میں آئے۔ محمد موسی خان ہزارہ کی ترقی کے مدارج:
1937ء لیفٹینینٹ1941ء کیپٹن 1942ء میجر 1947ء لیفٹینینٹ کرنل 1948ء برگیڈیئر 1951ء میجر جنرل اور کمانڈر مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش)
1957 لیفٹینینٹ جنرل کے عہدے پر ترقی اور چیف ��ف اسٹاف مقرر
27 اکتوبر 1958ء کو فُل جرنل کے عہدے پر ترقی اور، پاکستان مسلح افواج کے کمانڈرانچیف مقرر ہوئے۔ اس طرح 1926ء میں ایک عام سپاہی کی حیثیت سے اپنے سفر کا آغاز ہزارہ پائینر سے کرنے والے محمد موسی خان ہزارہ اپنی انتھک محنت، لگن اور استقامت سے 32 سال بعد دنیا کی پانچویں بڑی فوج کے سپاہ سالار کے اعلی ترین عہدے پر فائز ہوگئے۔
امپیریل ڈیفنس کالج لندن سیمت دنیا کی بہترین عسکری درسگاہوں سے فارغ التحصیل جنرل محمد موسی خان ہزارہ ایک خالص پیشہ ور آرمی سربراہ کی حیثیت سے اپنی فوج کی پیشہ ورانہ تربیت اور جنگی صلاحیتوں کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ جدید آلات حرب و ضرب کی خریداری پر خاصی توجہ دی جس کا ذکر انہوں نے تفصیل سے اپنی کتابوں “جوان ٹو جنرل” اور “مائی ورژن” میں کیا ھے۔ وہ خاص طور لیڈرشپ کوالٹی پر زیادہ زور دیتے تھے۔ بقول ان کے چاہے کوئی 10 سپاہیوں کی کمانڈ کررہے ہو یا پوری فوج کی ان میں قائدانہ صلاحیت اس حد تک ضروری ہے کہ اس کے بغیر چارہ نہیں”۔ انکی یہ کاوشیں 1965ء کی پاک – بھارت جنگ کے دوران کام آئی جب پاکستانی افواج نے پانچ گنا بڑی حملہ آور بھارتی افواج کا مشرقی و مغربی پاکستان کی بری، بحری اور فضا میں ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ لاہور، سیالکوٹ اور چونڈہ میں دونوں ملکوں کی تاریخ کی بڑی لڑائیاں لڑی گئیں۔ خاص طور پراس میں چونڈہ کا محاذ اس وجہ زیادہ مشہور ہوا جہاں دونوں ملکوں کی طرف دوسری عالمی جنگ کے بعد ٹینکوں کی سب سے بڑی لڑائی لڑی گئی جس میں بھارت کی طرف سے 225 ٹینک اور ڈیڑھ لاکھ آرمی کا مقابلہ پاکستان کے 150 ٹینک اور پچاس ہزار آرمی کررہی تھی۔ اس مشہور جنگ کے بارے میں خود جنرل موسی خان نے ایک محفل کے دوران بتایا کہ “وہ قیامت کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے لیکن اس دن چونڈہ کا محاذ ایک قیامت کا منظر پیش کررہا تھا۔ زمین میں سینکڑوں ٹینکیں گولے داغ رہے تھے جبکہ فضا سے جنگی جہاز آگ برسا رہے تھے۔ بقول ان کے اس وقت وہ ایک ہیلی کاپٹر سے اس ہولناک مناظر کو دیکھنے کے ساتھ ساتھ اپنی فوج کی کمان بھی سنبھال رہے تھے”۔ یہ بات مشہورھے کہ بھارتی جنرل نے 6 ستمبر کی رات حملہ کرتے ہوئے دعوا کیا تھا کہ وہ ناشتہ لاہور جیم خانہ میں کریں گے جو ہمیشہ کیلئے شرمندہ تعبیر رہا۔ اسی لیے جنرل محمد موسی خان ہزارہ کو 1965ء کی جنگ کا ہیرو کہتے ہیں۔ وہ 8 سال اس منصب جلیلہ پر فائز رہ کر 17 ستمبر 1966ء کو ریٹائر ہونے کے بعد گورنر مغربی پاکستان (موجودہ پاکستان) مقرر ہوئے اور مارچ 1969ء تک وہ اس عہدے پر رہے۔ائز رہ کر 17 ستمبر 1966ء کو ریٹائر ہونے کے بعد گورنر مغربی پاکستان (موجودہ پاکستان) مقرر ہوئے اور مارچ 1969ء تک وہ اس عہدے پر رہے۔ ان کے بعد مرحوم کو کئی دفعہ سفارت کی پیشکش بھی ہوئیں لیکن انہوں نے قبول نہیں کی۔
6 جولائی 1985ء کے المناک سانحے کے دوران انھوں نے ہزارہ قوم اور جنرل ضیاء کی مارشل لائی حکومت کے درمیان تاریخی کردار ادا کیا جس کی بناء پر دسمبر 1985ء میں گورنر بلوچستان مقرر ہوئے۔ وہ 12 مارچ 1992ء یعنی اپنی وفات تک اس عہدے پر فائز رہے جس کے دوران انھوں نے گڈ گورننس کی بہترین مثال قائم کی۔
جنرل محمد موسی خان ہزارہ کئی اعزازات سے بھی نوازے گئے جن میں ہلال امتیاز ملیٹری، ہلال جرات ملیٹری، ہلال قائداعظم سولئین، ہلال پاکستان سولئین شامل ہیں۔ وہ ہاکی کے بھی بہترین کھلاڑی تھے۔ ان کے نام سے آل پاکستان جنرل موسی خان ٹورنامینٹ کافی سالوں تک منعقد ہوتی رہی۔ خانم گل شاہ سے ان کے 6 بچے ہوئے۔ اسماعیل موسی (بچپن میں انتقال ہوا) ابراہیم موسی گالف کے اچھے کھلاڑی تھے (جوانی میں انتقال ھوا) حسن موسی اسکواش کے اچھے کھلاڑی اور ورلڈ سکواش فیڈریشن کے نائب صدر تھے ( کراچی میں مذہبی دہشتگردی کا نشانہ بنے)، عذرا موسی جنکی شادی ائرمارشل شربت علی چنگیزی سے ہوئی، مریم موسی جن کی شادی ڈاکٹر آغا انصار حسین سے ہوئی، اور زینب موسی جن کی شادی ونگ کمانڈر سکندرعلی سے ہوئی۔
جنرل محمد موسی خان ہزارہ اعلیٰ انتظامی صلاحیتوں کے مالک سادہ مزاج، پاکیزہ سیرت، اورکرپشن سے پاک انسان تھے۔ بلوچستان گورنرشپ کے دوران اکثر بغیر باڈی گارڈ کوئٹہ شہر اور مضافات خاص طور ہزارہ قبرستان، اپنی مرحومہ بیگم کی قبر پر فاتحہ پڑھنے آیا کرتے تھے۔ لوگوں سے بڑی محبت سے ملتے۔ یقیناً وہ اپنے طرز کے ان گنے چنے حکمرانوں میں تھے جن کو پاکستان اور پاکستانی عوام سے محبت تھی۔ اقدار و روایات کے امین تھے۔ مرحوم برگیڈئر خادم حسین خان چنگیزی نے ایک دفعہ بتایا کہ “آرمی چیف بننے کے بعد جب جنرل موسی خان ہزارہ پہلی بار کوئٹہ آئے تو دیگر ہزارہ لوگوں کے علاوہ ان کے والد سردار یزدان خان (مرحوم) بھی ویلر چیئر پر آئے ہوئے تھے حالانکہ جنرل موسی خان نے ان کی پیرینہ سالی کے باعث ان کو نہ لانے کی تاکید کی تھی۔ جب انہیں اپنے والد کے آنے کا پتہ چلا تو تمام پروٹوکول کو نظرانداز کرتے ہوئے فوراً ان کے پاس پہنچے ادب سے جھک کر انکے ہاتھ کا بوسہ لیا، خیریت دریافت کی اور پھر استقبالیہ کی طرف چلے گئے۔ ان کے اس عمل سے حاضرین عش عش کر اٹھے اور مان گئے کہ موسی خان ہزارہ واقعی میں اس منصب جلیلہ کے لائق ہیں۔ ان کا ایک اور واقعہ بھی مشہور ھے گورنرشپ کے دوران ایک دن وہ ہدہ کی طرف نکل گئے۔ وہاں ایک بزرگ بلوچ کو دیکھا جو اکیلا گارے سے اپنے گھر کی چھت کی لیپائی کچھ اسطرح کررہا تھا کہ پہلے نیچے اتر کر بالٹی میں گھارا ڈالتا اور پھرچھت پر چڑھ کر بذریعہ رسی اوپر کھینچ لیتا اور لیپائی کرتا۔ جنرل موسی خان ہزارہ نے اپنے ڈرائیور حاجی نصراللہ کو گاڑی ایک کونے میں لگانے کو کہا اور خود اس بزرگ کی طرف چلے گئے۔ استسفار پر بزرگ نے بتایا کہ ان کا کوئی بیٹا نہیں اس لئے انہیں اکیلے یہ کام کرنا پڑ رہا ہے۔ اس پر گورنر موسی خان نے کہا “گھارا میں ڈالتا ھوں آپ اوپر اپنی لیپائی کریں اور آخر میں اپنا کارڈ بھی دیتے گئے”۔ کہتے ہیں کئی دنوں بعد اس بزرگ نے وہ کارڈ کسی پڑھے لکھے کو دکھایا تو سن کر یقین ہی نہیں ہوا کہ وہ مدد کرنے والا شخص کوئی اور نہیں خود گورنر بلوچستان جنرل محمد موسی خان ہزارہ تھے۔ بعد میں وہ کارڈ لیکر گورنر ہاوس گیا اور حسب ضرورت امداد بھی ملی۔ اتفاق جنرل اسٹور کے سجاد علی بتاتے تھے کہ موسی خان ہزارہ کے دور میں گورنر ہاؤس کے بندے ایک پیکیٹ مصالہ کی بھی رسید ضرور لے کر جاتے۔ مرحوم ہرسال کروڑوں روپے قومی خزانے میں واپس کراتے۔ یہ روایت عرصے سے نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے سے مفقود ہے۔
مزید طوالت سے بچنے کیلئے ایک آخری نکتے کا ذکر کرکے مضمون کا اختتام کرتے ہیں اور وہ ان کے جسد خاکی کی ایران منتقلی ہے۔ میرے خیال میں برصغیر پاک و ہند کے شیعہ و سنی دونوں کے ایک طبقے میں یہ ایک طرح رواج سا پڑگیا تھا کہ وہ عقیدتی بنیادوں پر مذہبی شہروں جیسے بقیع، نجف، کربلا، بغداد وغیرہ میں مدفون ہونا چاہتے تھے۔ چونکہ صدر صدام حسین کے دور کے عراق میں ایسا ممکن نہ تھا سو جنرل موسی خان ہزارہ نے مشہد میں روضہ امام رضا سے متصل قبرستان میں مدفون ہونے کو ایک متبادل آپشن کے طورپر چنا ورنہ قرائین بتاتے ہیں کہ ان کی پہلی ترجیح نجف اشرف ہی تھی جوکہ ان کا ذاتی اور عقیدتی فیصلہ تھا۔ حب الوطنی یا غیر حب الوطنی سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ جنرل مرحوم اپنے عمل سے ثابت کرچکے تھے کہ وہ ایک نایاب ہیرا تھے الللہ پاک انھیں جنت میں اعلی مقام دے.
Tumblr media
0 notes
abdullahshaheen65 · 5 years ago
Text
Tumblr media
وزیر اعظم عمران خان نے قومی انٹلیجنس کوآرڈینیشن کمیٹی (این آئی سی سی) کے قیام کی منظوری دے دی.
اس نئے ادارے کی سربراہی انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کے ڈائریکٹر جنرل کریں گے ، جو اس کے چیئرمین کے طور پر کام کریں گے۔ این آئی سی سی ملک میں دو درجن سے زیادہ انٹیلیجنس تنظیموں کو مربوط کرنے کے طریقہ کار کے طور پر کام کرے گی۔ نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی بھی اس نئے ڈھانچے کا حِصّہ ہوگی۔
🤍💚🇵🇰
• ISI chief to head new organisation
• Absence of such a committee was seen as a hurdle to collective strategising
ISLAMABAD: Prime Minister Imran Khan has approved the setting up of the National Intelligence Coordination Committee (NICC), a senior security source said on Monday.
The new body would be led by the director general of the Inter-Services Intelligence (ISI), who would function as its chairman.
The intelligence agencies have had at least two rounds of discussions on the issue after which the proposal was submitted to the prime minister for approval. It is expected that the first meeting of the coordination body could be held as early as next week.
🤍💚🇵🇰
0 notes
abdullahshaheen65 · 5 years ago
Text
Tumblr media
Must visit Islamabad welcome🍂
The road of Faisal Mosque .
🔮Islamabad
0 notes
abdullahshaheen65 · 5 years ago
Text
Tumblr media
بری لا جھیل، دیوسائی نیشنل پارک، گلگت بلتستان۔۔🏞🌿
Stunning Bari-La Lake of Deosai National Park 💕
( Valley.)
1 note · View note
abdullahshaheen65 · 5 years ago
Text
#بریگیڈئیر #طارق #محمود #شہید کی #شہادت
پاک فوج کا وہ کمانڈو جسے اس صدی کا بہترین کمانڈو کہا جاتا تھا “بریگیڈیئر طارق محمود شہید”
آپ نے غضب کی نگاہ پائی تھی. جس کی جانب دیکھتے ،کیا مجال جو مد مقابل زیادہ دیر آپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھ پاتا صوفیائے کرام کے شہر ملتان میں 8 اکتوبر 1938 کو پیدا ہونے والا یہ سپاہی ایک داستان شجاعت کا ایک آمر کردار تھا آپ پیدائشی فوجی تھے، لاہور کے گورنمنٹ کالج سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ پشاور میں قانون کی تعلیم حاصل کرنے چلے گیے، مگر کوئی نہ کوئی ایسی چیز تھی جو آپ کے اندر ہل چل پیدا کرتی رہتی تھی، آپ سمجھ نہیں پارہے تھے کے آخر یہ کیا ہے، آپ راتوں کو سوتے ہوئے اٹھ کر بیٹھ جاتے، آپکو یوں لگتا تھا کے کوئی آواز دے رہا ہے کوئی بلا رہا ہے آخر ایک صبح وہ اٹھے، قانون کی تعلیم کو خیر باد کہا، اور فوج میں اپلائی کردیا، آپ جان گیے کہ دھرتی ماں کی پکار پر لبیک کہنے کا وقت آچکا ہیں، 1963 میں پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول سے ایک بہترین افسر بن کر پاس آوٹ ہوے، نام تو آپ کا طارق محمود تھا مگر دنیا میں ٹی ایم ٹائیگر اور (Man of Steel) یعنی ” مرد آہن ” کے نام سے مشہور ہوے ،،،،
فوج نے آپکو کمانڈو تربیت دی، اور تربیت مکمل کر کے آپ ایس ایس جی کمانڈوز کے پہلی بٹالین میں شامل ہوے، 1965 میں آپکو امریکہ میں ہونے والے ایک ایڈوانس سپیشل کورس کیلئے منتخب کیا گیا، مگر اس وقت 1965 کی پاک بھارت جنگ شروع ہوگئ، ٹی ایم ٹائیگر اپنے کمانڈر کے سامنے پیش ہوے اور احترام کے ساتھ امریکا جانے سے انکار کردیا، آپ نے کمانڈر سے کہا وہ وعدہ نبھانے کا وقت جو یہ خاکی وردی پہننے سے پہلے اس نے اپنے وطن سے کیا تھا، کمانڈر اپنی کرسی سے اٹھا، ٹائیگر کی طرف دیکھ کر مسکرایا اور آپ کے کاندھے پہ تھپکی دے کر وکٹری کا نشان بنایا، ٹائیگر کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی ، یہ وہ مسکراہٹ تھی جو شکار کرنے سے پہلے ٹائیگر کے چہرے پہ آتی تھی، 1965 کی جنگ میں آپ نے داستان شجاعت رقم کی، آپ اس بے جگری اور حکمت عملی سے لڑے کے دشمن دنگ رہ گیا، 1965 کی جنگ میں بے مثال بہادری پر ستارہ جرآت سے نوازا ،،،
1970 میں آپکو میجر کے رینک پر ترقی دی گئی، 1971 کی جنگ میں آپ نے دوبارہ شجاعت کے جوہر دکھائے، جہاں دشمن فوج کو لاشوں کے ڈھیر ملتے وہ سمجھ جاتے کہ یہاں ٹائیگر کا گزر ہوا ہے، ٹائیگر دشمن کی انٹیلی جنس نظر میں آچکا تھا، مگر کسی کی مجال نہ تھی، کہ ٹائیگر کے نزدیک آنے کی ہمت کرتا،،،
1971 کی جنگ کے بعد فوج نے آپکو ستارہ بسالت سے نوازا، 1974 میں ٹائیگر کو لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر ترقی دی گئی، اس دوران بھی دھرتی ماں کی آواز آپکو بلاتی تھی، آپ اب بھی راتوں کو اٹھ کر بیٹھ جاتے تھے، آپ شیر کی طرح دشمن پر جھپٹتے تھے مگر وہ آواز آپکو بلاتی رہتی، آپ مزید بے جگری سے لڑتے، فوج نے آپ کی خدمات دیکھتے ہوئے 1977 میں آپکو ستارہ بسالت سے نوازا
1982 میں بریگیڈیر کے عہدے پر ترقی کے بعد آپکو ایس ایس جی کمانڈوز کا کمانڈنٹ تعینات کیا گیا، یہی وہ وقت تھا جب پاکستان اور بھارت کے مابین سیاچن کا تنازع زور پکڑ چکا تھا، پاک فوج نے سیاچن گلیشئر واپس حاصل کرنے کیلئے ٹائیگر کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا، اور ٹائیگر نے اپنی ٹیم کے ساتھ برف پوش پہاڑوں میں دنیا کے بلند ترین محاز جنگ پر بھارت کی فوج کو بتا دیا کے شیر جب برف پوش پہاڑوں میں جھپٹے تو شکار کئے بغیر واپس نہیں جاتا بھارتی فوج سیاچن سے بھاگ کھڑی ہوئی، اور 1984 میں ٹائیگر ان برف پوش پہاڑوں پر سبز ہلالی پرچم لہرا چکا تھا اور فضا اللہ اکبـــــر کے نعرو سے گونج اٹھی تھی ،،،،،
5 ستمبر 1986 کو کراچی ائیر پورٹ پر ایک مسافر بردار امریکی طیارہ ہائی جیک کرلیا گیا، 360 افراد کی جان خطرے میں تھی، ہائی جیک طیارے کا چھڑوانا بریگیڈیئر طارق محمود کی ٹیم کوسونپ دیا گیا، ٹائیگر نے ایس ایس جی کمانڈوز کی ٹیم کمان کی اور ان پر ہلا بول دیا، ہائی جیکر نے ایس ایس جی کمانڈوز پر فائر کھول دی، مگر وہ نہیں جانتے تھے کہ ان کے مد مقابل کون ہے تھوڑی ہی دیر بعد سب ہائی جیکر گرفتار ہوکر، ٹائیگر کے قدمو میں تھے، یہ پہلا موقع تھا جب پاکستانی قوم کو بریگیڈیئر ٹائیگر کے بارے میں پتا چلا ،،،،
بریگیڈیئر ٹائیگر کو پاکستان ہی کا نہیں اس صدی کا بہترین کمانڈو کہا جاتا ہے، بھارت کے خفیہ ادارے اس حد تک خوف زدہ تھے کہ بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی کو ہر ہفتے بریگیڈیئر ٹائیگر کے بارے میں رپورٹ دی جا تھی اور بھارت ٹائیگر کے لگائے گئے زخموں کا بدلہ لینے کی تلاش میں تھا، اس معاملے پر پاکستان کی ایجنسی آئی ایس آئی بھی بے خبر نہ تھی، انہوں نے رپورٹ دی کہ بھارت بریگیڈیئر ٹائیگر کو قتل کرنے کے در پے ہے جس کے بعد ٹائیگر کی سیکورٹی سخت کردی گئی، ان معاملات پر وہ صرف مسکرایا کرتا تھا،،،
ٹائیگر نے بے شمار آپریشن میں حصہ لیا، جس میں آپ نے بے مثال شجاعت اور بہادری کی ��استانیں رقم کیں
یہ 29 مئی 1989 کا دن تھا گجرانوالہ کے نزدیک رہوالی میں آرمی ایوی ایشن کی پاسنگ آوٹ تھی، بریگیڈیئر ٹائیگر ایس ایس جی کمانڈوز کی پیرا ٹروپنگ ٹیم کو لیڈ کر رہے تھے، آج اس آواز کی گونج ٹائیگر کو اپنے کانوں میں بہت صاف سنائی دے رہی تھی فوج کا ایم آئی 17 ہیلی کاپٹر بریگیڈیئر ٹائیگر اور ٹیم کو لے کر فری فال کیلئے ہوا میں بلند ہوچکا تھا، جیسے ہی ہیلی کاپٹر مقررہ بلندی تک پہنچا، بریگیڈیئر ٹائیگر جست لگانے کیلئے اٹھے، ٹیم کی طرف وکٹری کا نشان بنایا اور ہیلی کاپٹر سے کود گئے، ایک دم ہی وہ آواز بہت قریب اور صاف ہوگئی، یہ ایک ماں کی آواز تھی دھرتی ماں کی آواز جو اپنے بیٹے کو پکار رہی تھی، ٹائیگر اس آواز کی مٹھاس میں کھو چکے تھے آپ نے بلندی تک آنے پر اپنا پیرا شوٹ کھولا مگر دھیان اس آواز کی طرف تھا، جس کی وجہ سے پیرا شوٹ نہ کھلا، جوں جوں ٹائیگر زمین کے قریب ہورہا تھا آواز بھی قریب سے آتی محسوس ہورہی تھی اس آواز میں وہی تڑپ تھی جو ایک ماں کی آواز میں ایک بیٹے کیلئے ہوتی ہیں، انہوں نے “ریزرو” پیرا شوٹ کھولنے کی کوشش کی لیکن انہیں احساس ہو چلا تھا، کہ اب اللہ کی امانت واپس کرنے کا وقت آچکا ہے سو اس جری نے خود کو خدا کے سپرد کردیا, اور دھرتی کا بیٹا دھرتی کے آغوش میں سما گیا اگلا دن پاکستانی قوم کیلئے سوگ کا دن تھا، اخباروں میں خبر آئی تھی، کہ پاکستانی کمانڈو بریگیڈیئر طارق مح��ود ٹائیگر فری فال کا مظاہرہ کرتے ہوئے پیرا شوٹ نہ کھلنے پر شہادت پاگئے.
یا اللہ پاک بریگیڈیئر طارق محمود صاحب کی قبر انور پر کروڑوں رحمتوں کا نزول فرما اور جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرما.
آمین.
Tumblr media
0 notes
abdullahshaheen65 · 5 years ago
Text
کیا #آپ #گمنام #ایٹ #پاس #چارلی کو جانتے ہیں
یہ ایک ایسے لیجنڈ پاکستانی بمبار پائلٹ کی داستان ہے جو ایک ہیرو تو بنا لیکن آج تک کوئی اس کا نام نہ جان سکا اور یہ ہیرو تاریخ میں گمنامی میں ہی دفن ہو گیا۔ پاک بھارت جنگ شروع ہوئی تو پاکستان کے بی 57 بمبار طیاروں نے رات کے اندھیرے میں بھارتی ہوائی اڈوں پر ہلہ بول دیا۔ بمبار طیارے عام طور پر بہت بھاری بھرکم ہوتے ہیں اور وہ دشمن کی توپوں اور طیاروں سے بچنے کے لیے زیادہ پھرتی نہیں دکھا پاتے اس لیے ان کے حملے رات کے اندھیرے میں ہوتے اور یہ طیارے زمین کے پاس پاس ریڈار کی نگاہ سے بچ کر اڑتے ہوئے اپنے ہدف تک پہنچتے۔
ہدف پر پہنچ کر پائلٹ یکدم طیارہ اوپر کھینچ کر ہدف پر ڈائیو کرتے اور ایک ہی حملے میں اپنے تمام بم گراتے ہوئے دشمن کے ہشیار ہونے سے پہلے اس کی توپوں کی رینج سے باہر ہو جاتے۔ پاکستانی بی 57 طیارے 500 پاؤنڈ کے آٹھ بم لے کر جاتے تھے اور اسی طریقہ کو فالو کرتے ہوئے ایک ہی حملے میں آٹھوں بم گراتے ہوئے آگے نکل جاتے تھے۔ لیکن ایسے حملے میں لازمی نہیں ہوتا تھا کہ سارے بم ہی نشانے پر گریں۔ اکثر ایسا ہوتا کہ دو بم ایک ہی ٹارگٹ پر جا گرتے۔ جس کی وجہ سے ایکوریسی کم رہتی تھی مگر یہ حملہ کرنے کا انتہائی محفوظ طریقہ تھا۔
لیکن بھارتیوں کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب جنگ کی پہلی رات آدم پور ائیر بیس پر ایک اکیلے بی 57 طیارے نے حملہ کیا۔ لیکن یہ طیارہ اور اس کے پائلٹ کوئی عام پائلٹ نہیں تھے۔ طیارہ پہلے غوطے میں آیا اور صرف ایک بم گرا کر آگے بڑھ گیا۔ بھارتیوں کا پہلا ری ایکشن یہی تھا کہ باقی بم کسی خرابی کی وجہ سے نہیں گر سکے۔ پر وہ ششدر رہ گئے جب بمبار طیارہ دوبارہ گھوم کر واپس آیا۔ اس نے پھر غوطہ لگایا اور ایک اور بم تاک کر ایک اور نشانے پر گرا کر آگے نکل گیا۔ اس دوران بھارتی طیارہ شکن توپوں نے ہوا میں گولیوں کا جال بن دیا تھا لیکن بمبار طیارے کے پائلٹ کو کوئی جلدی نہیں تھی نہ ہی اسے اپنی جان کا کوئی خوف تھا۔
وہ پھر واپس آیا ایک بم ایک اور نشانے پر انتہائی ایکوریسی سے گرایا اور آگے نکل گیا۔ یوں اس بمبار طیارے نے ہر ایک بم کو گرانے کے لیے الگ سے واپس آ کر غوطہ لگایا اور بم کو پورے غورو فکر کے ساتھ تاک کر نشانے پر پھینکا۔ اس طرح اس نے اپنی جان کو خطرے میں ضرور ڈالا تھا لیکن اس کے آٹھوں بم آٹھ انتہائی اہم ہدف تباہ کر چکے تھے یوں اس کی ایکوریسی 100 فیصد رہی تھی۔ اس حملے کے بعد بھارتیوں کی جانب سے اس بمبار پائلٹ کو ’’ایٹ پاس چارلی‘‘ ( 8 pass Charlie) کا نام دیا گیا۔ پوری جنگ کے دوران ’ایٹ پاس چارلی‘ مختلف اڈوں پر حملے کرتا رہا۔ وہ ہمیشہ اکیلا آتا تھا اور پہلے بم کے ساتھ ہی وہ بھارتیوں کو کھلا چیلنج دیتا کہ میں نے ابھی سات چکر اور لگانے ہیں تم سے جو ہوتا ہے کر کے دیکھ لو اور یہ اس پائلٹ کی مہارت کی انتہا تھی کہ کبھی کسی طیارہ شکن گن کی گولی اسے چھو بھی نہیں پائی۔
دشمن کو دھوکے میں ڈالنے کے لیے ایٹ پاس چارلی ایک انوکھا کام کیا کرتا تھا۔ اندھیری رات میں طیارہ تو دکھائی دیتا نہیں تھا تو دشمن کے توپچی طیارے کی آواز سن کر اندازہ لگاتے تھے کہ طیارہ کس جانب سے آ رہا ہے۔
ان توپچیوں کو پریشان کرنے کے لیے غوطہ لگاتے وقت ’چارلی‘ اپنے طیارے کا انجن بند کر دیتا۔ اگرچہ اس کی وجہ سے طیارے کو سنبھالنا بہت مشکل ہو جاتا لیکن بھارتی توپچیوں کو طیارے کے پتہ اس وقت چلتا جب وہ بم گرا چکا ہوتا اور اس کے بعد وہ انجن آن کر کے پلک جھپکتے میں ان کی رینج سے باہر نکل چکا ہوتا تھا۔ ایک بھارتی پائلٹ ’’پیڈی ارل‘‘ (Earl Paddy) کے ایٹ پاس چارلی کے بارے میں الفاظ یہ ہیں ’’ میں اس پاکستانی بمبار پائلٹ کے لیے انتہائی عزت کے جذبات رکھتا ہوں جسے ہماری زندگیوں کا سکون برباد کرنا انتہائی پسند تھا۔ ایٹ پاس چارلی ایک لیجنڈ تھا، لیکن اس کی یہ عادت بہت بری تھی کہ وہ چاند نکلنے کے ٹھیک 30 منٹ بعد اپنے ہدف پر پہنچ جاتا۔ عین اس وقت جب ہم اپنے پہلے جام ختم کر رہے ہوتے تھے۔ وہ ایک اونچے ترین درجے کا انتہائی پروفیشنل پائلٹ تھا۔
اپنے حملے کی سمت چھپانے کے لیے وہ غوطہ لگانے سے پہلے انجن بند کر دیتا اور جب تک توپچی فائر کھولتے وہ پھٹتے گولوں کی چھتری سے نیچے آ چکا ہوتا تھا اور بم گرانے کے بعد وہ انجن کو فل پاوور پر کر کے گولیوں کی رینج سے باہر نکل جاتا‘‘۔ لیکن اپنے دشمنوں کی جانب سے ایٹ پاس چارلی کا نام پانے والا یہ پائلٹ کبھی منظر عام پر نہیں آیا۔
یہ جانباز ’پی اے ایف‘ کی ’’دی بینڈٹس‘‘ (The Bandits)نامی سکوارڈن نمبر 7کے یہ سکوارڈن لیڈر نجیب اے خان تھے
طاقتور ھمیشہ طاقت ور نہیں رہتا
1۔ سماج کےلیے لڑو
2۔ لڑ نہيں سکتے تو لکھو
3۔ لکھ نہيں سکتے تو بولو
4۔ بول نہیں سکتے تو ساتھ دو
5۔ ساتھ بھی نہیں دے سکتے توجو لکھ، بول اور لڑرہےہیں تو انکی مدد کرو
6۔ اگر مدد بھی نا کر سکو تو انکے حوصلوں کو گرنے نہ دو کیوں کہ وہ آپکے حصے کی لڑائی لڑ رہےہیں.
Tumblr media
0 notes
abdullahshaheen65 · 6 years ago
Text
زمین میں چھلانگ🏃🕳
اگر ہم زمین کے آر پار ہونے والی ایک سرنگ بنا سکتے جو زمین کے مرکز تک پہنچ سکتی تو زمین کے درمیان تک پہنچنے میں اکیس منٹ لگتے۔ ظاہر ہے کہ ہم ایسا نہیں کر سکتے۔ اس سرنگ کو ��ورج کی سطح جتنا درجہ حرارت سہنا پڑے گا اور زمین کی سطح کے مقابلے میں ۳۵ لاکھ گنا زیادہ پریشر برداشت کرنا پڑے گا۔ ایسا کوئی میٹیریل نہیں جو ان حالات کو برداشت کر پائے لیکن فرض کرتے ہیں کہ ایسا سفر کرنا ممکن ہوتا تو چلیں پھر اپنی زمین گاڑی لے کر اس سرنگ میں چھلانگ لگاتے ہیں۔
جس طرح ہم نے اس میں چھلانگ لگائی، زمین کی گریویٹی نے مرکز کی طرف کھینچنا شروع کر دیا۔ ایک منٹ سے کم عرصے میں ہم زمین کی کرسٹ کو پار کر گئے، جو اس کے باہر کا سخت خول ہے۔ 35 کلومیٹر کی موٹائی اور زمین کے ماس کا محض ایک فیصد۔ زلزلوں کی لہروں سے ریس لگاتے ہم اب زمین کے سب سے بڑے حصے مینٹل کے اوپر ہیں۔ زمین کا نصف حجم اور 68 فیصد ماس رکھنے والا۔ اوپری مینٹل کی کثیف چٹانیں پلاسٹک کی طرح بہتی ہیں۔ ان سے گزر کر چند منٹ میں 660 کلومیٹر کی گہرائی میں پہنچے تو ایک اہم تبدیلی نظر آئی۔ نچلے مینٹل کی بیس پر آٹھ منٹ میں اس سیارے کا ایک پرسرار حصہ ہے جہاں عجیب سٹرکچر پائے جاتے ہیں اور سمندر کی تہہ کا ملبہ نیچے کا سفر کر کے یہاں پہنچتا ہے۔ جبکہ یہاں سے ایک پلُوم (کلغی) کی صورت میں ریسائیکل ہو کر گرم چٹان کی صورت میں واپس اوپر کو جاتا ہے۔ یہاں سے ان چٹانوں کو اوپر پہنچتے ہوئی کئی سو ملین برس لگیں گے، (اگر یہ اوپر تک کا سفر مکمل کر سکا تو)۔
مینٹل کی تہہ پر پہنچ کر اس سفر میں حیرت کے سب سے بڑے جھٹکے کی لئے تیار ہو جائیں۔ اس سفر میں منظر کی اتنی بڑی تبدیلی اور کہیں نہیں۔اچانک 2890 کلومیٹر کی گہرائی پر اس چٹانوں والے حصے کو پار کر کے مائع دھات شروع ہو جاتی ہے۔ یہ بیرونی کور ہے۔ مریخ کے سائز جتنی۔ زمین کا دس فیصد حجم لیکن ستائیس فیصد ماس۔ اگلے دو ہزار کلومیٹر تک ہم بغیر سورج کے سمندر میں ایک آبدوز کی طرح کا سفر کر رہے ہیں، اس کے گرداب، سلو موشن کے طوفان اور مائع دھات کے سائیکلون جو اپنے ساتھ برقی اور مقناطیسی فیلڈ رکھتے ہیں۔
اب اگلے حیرت کا جھٹکا آٹھ منٹ کے بعد کا ہے۔ 5100 کلومیٹر نیچے ایک انتہائی کثیف گیند جو خالص لوہے اور نکل کی ہے۔ اس کی لہروں جیسی تہہ ایسے لگ رہی ہے جیسے لوہے کے دیوہیکل درخت اگے ہوں۔ یہ کرسٹل کور ہے۔ سیارے کے حجم کا آدھ فیصد، چاند سے چھوٹی لیکن دو فیصد ماس اس کا ہے اور یہ زمین کا گہرا ترین اسرار یہاں پر ملے گا۔ یہاں پر لوہے کے کرسٹلز سے گزریں گے جو ایک سو کلومیٹر کی لمبائی کے ہو سکتے ہیں۔
ہماری زمین گاڑی کی رفتار اب 29000 کلومیٹر فی گھنٹہ ہو چکی ہے اور ہم مرکز تک پہنچ گئے ہیں۔ اب ہم بے وزن ہیں۔ اسی رفتار کی وجہ سے اب ہم بڑھتے جائیں گے۔ یہ سفر الٹی طرف کا ہو گا۔ وزن واپس آنا شروع ہو جائے گا۔ واپس مینٹل اور پھر کرسٹ کی طرف جو ٹوٹے ہوئے بڑی حصوں کی صورت میں ہے اور ہم اس کو ٹیکٹانک پلیٹ کہتے ہیں۔ اور پھر ہم سطح تک پہنچ جائیں گے۔ (اس مفروضاتی سوراخ میں سے ہوا نکال دی جائے تو اچھا ورنہ فرکشن کی وجہ سے سطح تک بغیر توانائی کے استعمال کے نہیں پہنچ سکیں گے)۔
عام طور پر اس کا ہم کم ہی سوچتے ہیں لیکن خشکی کے ٹکڑوں کو اس راستے سے ملانے کا راستہ براستہ مرکز بہت ہی کم جگہ پر ہے۔ زمین پر خشکی کے دوسری طرف تقریباً ہر جگہ سمندر ہے۔ ماسوائے چلی اور چین، سپین اور نیوزی لینڈ کے، اس سفر کو اگر خشکی سے شروع کریں گے تو بیالیس منٹ میں دوسری طرف ہمیشہ سمندر میں نکلیں گے۔
کیا ہم یہ سفر کر سکتے ہیں؟ ممکن ہے کہ کبھی ہم دور دراز کے ستاروں تک پہنچ سکیں، لیکن یہ والا سفر شاید پھر بھی پہنچ سے باہر رہے گا۔
🕳🕳🕳🕳🕳
Tumblr media
0 notes
abdullahshaheen65 · 6 years ago
Text
Jumping on the ground
If we could build a tunnel across the earth that could go to the middle of the earth, it would have taken twenty minutes to reach the middle of the earth. Obviously we can't do that. The tunnel will have to withstand the same temperature as the sun's surface and will have to withstand a million times more pressure than the earth's surface. There is no material that can withstand these conditions, but suppose that if it were possible to travel, they would take their land and jump into the tunnel.
As we jumped into it, the earth's gravity began to draw toward the center. In less than a minute we crossed the earth's crust, which is a hard shell from the outside. 35 km thick and only one percent of the mass of the earth. We are now on the edge of the mantle, the largest part of the earth, racing through the earthquake waves. Half of the earth's volume and mass is 68%. Many of the stones in the upper mantle flow like plastic. Within a few minutes, they reached a depth of 660 km. For eight minutes the base of the lower plateau is a mysterious part of the planet where strange structures are found and sea debris travels downwards. When one is recycled in the form of a beer (clug) and goes back up in the form of a hot rock. It will take several hundred million years to reach these rocks, (if it can complete the journey to the top).
Get ready for the biggest trek in the journey to the base of Mantle. Such a huge change of scenery is nowhere else in this journey. Suddenly, the metal begins to cross the rocky depths at 2890 km. This is the outer core. Size of Mars. Ten percent of the earth's mass but 27 percent of the mass. For the next two thousand kilometers, we are traveling like a submarine without the sun, its rotation, slow storms and liquid metal storms that carry electric and magnetic fields.
Now the next surprise shock is eight minutes later. At 5100 km, an extremely dense ball is made of pure iron and nickel. Its waves look like an iron giant ahead. This is the crystal core. But half of the planet is smaller than the moon, but about two percent of its mass and deep mysteries of the earth are found here. This iron will pass through the crystal, which can be up to one hundred kilometers in length.
Our ground car speed is now 29000 km / h and we have reached the center. We are now weightless. Because of this speed, we will now go even further. The journey will be the opposite. The weight will start to come back. Come back and then towards the crust which is in the form of broken parts and we call it tectonic plate. And then we will reach the surface. (If the air is removed from this hypothetical hole, otherwise it will not reach the surface without energy consumption due to friction).
Normally we rarely think about it, but the only way to connect the pieces of land with this route is at the center. On the other side of the earth, there is sea everywhere. Apart from Chile and China, Spain and New Zealand, if you start this journey from the beginning, you will always be on the other side in forty minutes.
Can we make this trip? We can reach some distant stars, but this journey may still be inaccessible.
Tumblr media
0 notes
abdullahshaheen65 · 6 years ago
Text
Tumblr media
ایک ناممکن حقیقت !
0 notes
abdullahshaheen65 · 6 years ago
Text
1 note · View note
abdullahshaheen65 · 6 years ago
Text
0 notes
abdullahshaheen65 · 6 years ago
Text
Tumblr media
0 notes