#موجودہ حکومت
Explore tagged Tumblr posts
Text
فچ نے موجودہ حکومت 18ماہ قائم رہنے کی پیشگوئی کردی
معاشی درجہ بندی کے ادارے فچ نے موجودہ حکومت صرف 18ماہ تک قائم رہنے کی پیشگوئی کردی۔ فچ کی رپورٹ کے مطابق موجودہ حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ مل کر ساری معاشی اصلاحات کرے گی،اگر موجودہ حکومت ختم ہوئی پاکستان میں ٹیکنوکریٹ کی حکومت آئے گی۔ پاکستان کے فروری کے الیکشن میں آزاد امیدواروں کو بڑی کامیابی ملی،جیتے والے آزاد امیدوار کو جیل میں قید بانی پی ٹی آئی کی حمایت حاصل تھی،پاکستان کے شہروں میں…
0 notes
Text
حرم مکی میں مسعی (سعی کی کرنے کی جگہ) کی توسیع کا منصوبہ
مکہ مکرمہ میں مسجد الحرام میں مسعی (سعی کی کرنے کی جگہ) کے توسیعی منصوبے کے نتیجے میں اب اس کی کُل منزلوں کی تعداد 4 ہو گئی ہے جن کا مجموعی رقبہ 87 ہزار مربع میٹر سے تجاوز کر چکا ہے۔ منصوبے کے ایک ذمہ دار کا کہنا ہے کہ "رواں سال رمضان المبارک میں مطاف کے میزانائن کو پُل کے ذریعے مسعی کے میزانائن سے ملا دیا گیا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ معذور افراد کے لیے داخل ہونے کے دو راستے ہیں۔ مغربی سمت سے آنے والوں کے لیے "جسر شبیکہ" اور جنوبی سمت سے آنے والوں کے لیے "جسر جیاد" ہے۔ سعودی حکومت کی جانب سے حرم شریف کی نئی توسیع کے نتیجے میں ایک گھنٹے کے اندر مجموعی طور پر 1 لاکھ 18 ہزار افراد سعی کرسکیں گے۔ مسعی کی بالائی منزلوں تک پہنچنے کے لیے خودکار متحرک زینوں اور لفٹوں کے علاوہ تین پُل بھی موجود ہیں۔
اس سلسلے میں معتمرین نے مسعی کی نئی توسیع پر مسرت و افتخار کے ملے جلے جذبات کا اظہار کیا۔ ایک بزرگ معتمر کے مطابق سابق فرماں روا شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کے دور سے موجودہ خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے دور ��ک ہونے والی توسیعات قابل تحسین ہیں۔ ایک دوسرے معتمر نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ صفا اور مروہ کے درمیان چار منزلہ مسعی نے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو اپنے اندر سمو لیا ہے اور حالیہ توسیع کے بعد معتمرین کو سو فی صد راحت اور آرام میسر آرہا ہے۔ مسعی کے منصوبے کی عمارت اپنی تمام منزلوں، سعی اور دیگر خدمات کے علاقوں سمیت مجموعی طور پر تقریبا 1 لاکھ 25 ہزار مربع میٹر پر مشتمل ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکام، اژدہام کو انتہائی حد تک کم کرنے اور مناسک کی ادائیگی کے لیے نقل و حرکت کو آسان بنانے کی کس قدر خواہش رکھتے ہیں۔
بشکریہ العربیہ اردو
3 notes
·
View notes
Text
کاشغر' گوادر ریلوے لائن
28 اپریل 2023 کے اخبارات میں ایک بہت ہی اچھی خبر شایع ہوئی ہے‘ خبر کے مطابق ’’چین کے روڈ اور بیلٹ پروجیکٹ کے مہنگے ترین منصوبے کی فزیبیلٹی رپورٹ تیار کر لی گئی ہے‘ جس میں گوادر سے سنکیانگ تک 58 ارب ڈالر کے نئے ریل منصوبے کی تجویز دی گئی ہے‘ 1860 میل طویل ریلوے سسٹم گوادر کو سنکیانگ کے شہر کاشغر سے ملا دے گا‘‘۔ انگریز نے ہندوستان اور پاکستان کو جاتے ہوئے جو تحفے دیے‘ ان میں ریل سب سے بہترین ذریعہ سفر تھا۔ اب تو ہم ریلوے کے ساتھ ساتھ اس کی پٹڑیاں بھی کباڑ میں فروخت کر کے کھا چکے ہیں‘ معلوم نہیں ہمارا پیٹ کب بھرے گا؟ اب چین کے تعاون سے نئی ریلوے لائن اور موٹر وے کا چرچا ہے‘ جو چین کے مغربی صوبے سنکیانگ کے شہر کاشغر کو بحیرہ عرب کے دہانے پر واقع پاکستان کی بندر گاہ گوادر سے ملائے گی۔ چین سے آنے والی اس سڑک اور ریلوے لائن کا روٹ پاکستان میں کون سا ہونا چاہیے اس سلسلے میں مختلف فورموں پر بحث ہو رہی ہے‘ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے بھی اس پر کافی بحث کی ہے اور مختلف تجاویز پیش کی ہیں، اس سلسلے میں سب سے بہترین حل نواز شریف کے دور حکومت میں اس وقت کے چیئرمین ریلوے و چیئرمین واپڈا محترم شکیل درانی نے پیش کیا تھا، قارئین کی دلچسپی کے لیے یہ تجاویز پیش خدمت ہیں‘ وہ لکھتے ہیں کہ ’’ کاشغر سے گوادر تک ریلوے لائن اور شاہراہ‘ کی بہت زیادہ اسٹرٹیجک اور اقتصادی اہمیت ہو گی۔
کوہاٹ‘ ��نوں‘ ڈیرہ اسماعیل خان‘ ڈیرہ غازی خان اور اندرون بلوچستان کے علاقوں کی دوسرے علاقوں کی بہ نسبت پسماندگی کی بڑی وجہ ریلوے لائن کا نہ ہونا بھی ہے۔ ضروری ہے کہ کاشغر سے گوادر تک ریلوے لائن اور سڑک کے روٹ کے لیے وہ علاقے منتخب کیے جائیں جو پسماندہ اور دور دراز واقع ہوں تاکہ ان علاقوں کو بھی ترقی کے ثمرات سے فائدہ اٹھانے کا موقع مل سکے۔ سنکیانگ کے شہر کاشغر سے آنے والا راستہ دو اطراف سے پاکستان میں داخل ہو سکتا ہے‘ یہ کاشغر کے نزدیک درہ کلیک ور درہ منٹاکا سے گزرے گی چونکہ یہ درے کاشغر کے نزدیک ہیں یا پھر یہ درہ خنجراب سے ہوکر آ سکتی ہے‘ اول ذکر درّے پرانے قافلوں کے راستے ہیں اور شاید ان کے ذریعے گلگت تک ایک متبادل راستہ بذریعہ غذر مل جائے گا‘ یہ راستہ آگے ملک کے باقی علاقوں کے ساتھ مل جائے گا اور یہ موجودہ قراقرم ہائی وے کے علاوہ ہو گا۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ دریائے سندھ کے دائیں کنارے پر انڈس ہائی وے نے پہلے سے ہی کراچی اور پشاور کے درمیان فاصلہ 300 میل کم کر دیا ہے‘ اس طرح نئی ریلوے لائن بھی پرانی کی نسبت چھوٹی ہو گی پرانی لائن کی مرمت اور سگنلنگ کے نظام کو بہتر کر کے اسپیڈ بڑھائی جا سکتی ہے‘ بجائے اس کے کہ نئی لائن بچھائی جائے‘ پرانی لائن کو لاہور سے پنڈی تک ڈبل کیا جائے اس سے اخراجات بھی کم ہوں گے‘ نئی ریلوے لائن کو کشمور سے آگے بلوچستان کے اندرونی علاقوں خضدار اور تربت وغیرہ سے گزار کر گوادر تک لایا جائے۔
کوئٹہ کے لیے موجودہ لائن بہتر رہے گی اور اس کو گوادر تک توسیع دی جائے تاکہ سیندک‘ریکوڈیک اور دوسرے علاقوں کی معدنیات کو برآمد کے لیے گوادر بندرگاہ تک لانے میں آسانی ہو ۔ تربت‘ پنچ گور‘ آواران‘ خاران اور خضدار کی پسماندگی کا اندازہ ان لوگوں کو ہو سکتا ہے جنھوں نے یہ علاقے خود دیکھے ہوں یہ علاقے پاکستان کا حصہ ہیں اور ریاست کی طرف سے بہتر سلوک کے مستحق ہیں، دریائے سندھ کے داہنے کنارے پر واقع انڈس ہائی وے آج کل افغانستان کی درآمدی اور برآمدی تجارت کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ بنوں میرعلی روڈ آگے سرحد پر واقع غلام خان کسٹم پوسٹ سے جا ملتی ہے۔ 2005 میں کی گئی انڈس ہائی وے کے ساتھ نئی ریلوے لائن کی فیزیبلٹی رپورٹ موجود ہے، اس سے استفادہ کیا جا سکتا ہے، اس ریلوے لائن کو افغانستان تک توسیع دی جا سکتی ہے‘ کوئٹہ چمن لائن بھی بہت مناسب ہے‘ دادو سے گوادر تک ریلوے لائن صرف پیسوں کا ضیاع ہو گا، گوادر سے کراچی تک کوسٹل ہائی وے اس بندرگاہ کی فوری ضروریات کے لیے کافی ہے۔ پاکستان میں بہت سے علاقے حکومتوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے پسماندہ رہ گئے ہیں ’اس لیے مستقبل میں جو بھی منصوبہ بنے اس کا ہدف پسماندہ علاقوں کی ترقی ہونا چائے‘‘۔
جمیل مرغز
بشکریہ ایکپریس نیوز
2 notes
·
View notes
Text
ڈاکٹر عافیہ بہت ظلم سہہ چکی
امریکی جیل میں 13 سال سے قید پاکستان کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے ان کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کی ڈھائی گھنٹے طویل ملاقات ہوئی۔ خبروں کے مطابق یہ ملاقات ٹیکساس کے شہر فورورتھ کی جیل ایف ایم سی کارس ول میں ہوئی۔ ڈاکٹر عافیہ سے ان کے خاندان کے کسی فرد کی یہ پہلی ملاقات تھی۔ ڈاکٹر عافیہ کو لاپتہ ہوے 24 سال اور امریکی قید میں 13 سال کا طویل عرصہ گزر چکا لیکن اس کے باوجود دونوں بہنوں کو نہ ہاتھ ملانے دیا گیا نہ وہ گلے مل سکیں۔ جماعت اسلامی کے رہنما سینیٹر مشتاق احمد، جو ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کے ہمراہ امریکہ گئے ہوئے ہیں، نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا کہ دونوں بہنوں کی یہ ملاقات جیل کے ایک کمرے میں ہوئی لیکن دونوں کے درمیان موٹا شیشہ لگا تھا جس سے وہ ایک دوسرے کو دیکھ اور سن تو سکتی تھیں لیکن چھو نہیں سکتی تھیں۔ سفید اسکارف اور خاکی جیل ڈرس میں ملبوس عافیہ صدیقی سے اُن کی بہن کی ڈھائی گھنٹے کی اس ملاقات میں پہلے ایک گھنٹہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے روز روز اپنے اوپر گزرنے والی اذیت کی تفصیلات بتائیں۔ ڈاکٹر عافیہ اپنی بہن سے اپنی ماں (جو اُن کی قید کے دوران وفات پاچکی ہیں) اور اپنے بچوں کے بارے میں پوچھتی رہیں اور کہا کہ ماں اور بچے اُنہیں ہر وقت یاد آتے ہیں۔
ڈاکٹر عافیہ کو اپنی ماں کی وفات کا علم نہیں ہے۔ امریکہ کی قید میں پاکستان کی اس بیٹی کے سامنے والے دانت جیل میں ہوئے حملے میں ضائع ہو چکے ہیں اور اُن کے سر پر لگنے والی ایک چوٹ کی وجہ سے انہیں سننے میں بھی مشکل پیش آ رہی تھی۔ سینیٹر مشتاق کے مطابق کل ڈاکٹر عافیہ سے اُن کی ڈاکٹر فوزیہ اور کلائیو اسٹافورڈ اسمتھ سمیت جیل میں ملاقات ہو گی۔ اُنہوں نے ڈاکٹر فوزیہ کی (عافیہ صدیقی سے) ملاقات کا افسوسناک احوال سناتے ہوئے کہا کہ اگرچہ صورتحال تشویشناک ہے لیکن ملاقاتوں کا، بات چیت کاراستہ کھل گیا ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام آواز اُٹھائیں اور حکمرانوں کو مجبور کریں کہ وہ فوری اقدامات کر کے عافیہ صدیقی کی رہائی کا معاملہ امریکی حکومت کے ساتھ اُٹھائیں۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے اُن کی ملاقات کا یہ مختصر احوال پڑھ کر دل رنجیدہ ہو گیا۔ سوچ رہا ہوں کہ اُن افراد کے ضمیر پر کتنا بوجھ ہو گا جنہوں نے پاکستان کی اس بیٹی کو امریکہ کے حوالے کیا ،جہاں ایک نام نہاد مقدمے میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو اسی پچاسی سال کی سزا سنا دی گئی۔
یہ ظلم پرویزمشرف کے دور میں ہوا۔ پرویزمشرف کا انتقال ہو چکا ہے، جنہو ں نے اپنی کتاب میں تسلیم کیا کہ اُنہوں نے ڈالرز کے بدلے پاکستانیوں کو امریکہ کے حوالے کیا۔ امریکہ کے دباو میں اپنے شہریوں اور پاکستان کی ایک بیٹی کو امریکہ کے حوالے کرنے میں ایجنسیوں کے جن افراد کا کردار تھا وہ بھی آج کیا سوچتے ہوں گے۔؟ بڑی تعداد میں امریکہ کے حوالے کئے گئے پاکستانی جنہیں گوانتامو بے میں انتہائی مشکل حالات میں رکھا گیا تھا اُن میں سے کئی پاکستان واپس لوٹ چکے لیکن اس گھناونے کھیل میں شامل اُس وقت کے ہمارے ذمہ دار اور کرتا دھرتا اپنے رب کو کیا جواب دیں گے۔ نجانے کب تک ڈاکٹر عافیہ امریکی جیل میں پڑی رہیں گی۔ ہماری مختلف سیاسی جماعتیں یہ وعدہ کرتی رہیں کہ ڈاکٹر عافیہ کو پاکستان واپس لانے کیلئے امریکہ سے بات چیت کی جائے گی۔ اس دوران ن لیگ، تحریک انصاف اورپیپلز پارٹی کی حکومتیں آئیں لیکن ڈاکٹر عافیہ کی واپسی کیلئے کوئی سنجیدہ کوشش کبھی ہوتی دکھائی نہ دی۔ یہ موجودہ حکومت کی بھی ذمہ داری ہے کہ ڈاکٹر عافیہ کی پاکستان منتقلی کا مسئلہ امریکہ کے سامنے سنجیدگی سے اُٹھائے اور اُس وقت تک اس کیس کا پیچھا کرے جب تک کہ پاکستان کی اس بیٹی کی واپسی ممکن نہیں ہوتی۔ ڈاکٹر عافیہ پہلے ہی بہت ظلم سہہ چکی۔
انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ
2 notes
·
View notes
Text
با تسلیمات ڈسٹرکٹ انفارمیشن آفس قصور
محکمہ تعلقات عامہ حکومت پنجاب
٭٭٭٭٭
ڈپٹی کمشنر کی ہدایات‘اسسٹنٹ کمشنرز کے ہسپتالوں اور شادی ہالوں کے دورے
ہسپتالوں میں طبی سہولیات اور شادیوں پر ون ڈش پر عملدرآمد کا جائزہ لیا‘خلاف ورزی پر شادی ہال کو بھاری جرمانہ عائد
قصور(07نومبر 2024ء)ڈپٹی کمشنر کی ہدایات کی روشنی میں اسسٹنٹ کمشنرز کے ہسپتالوں اور شادی ہالوں کے دورے‘ہسپتالوں میں طبی سہولیات اور شادیوں پر ون ڈش پر عملدرآمد کا جائزہ لیا‘خلاف ورزی پر شادی ہال کو بھاری جرمانہ عائد۔ اسسٹنٹ کمشنر تحصیل کوٹ رادھاکشن ڈاکٹر محمد انس سعید نے ٹی ایچ کیو ہسپتال کوٹ رادھاکشن اور اسسٹنٹ کمشنر قصور عطیہ عنایت مدنی نے رورل ہیلتھ سینٹر مصطفی آباد کا دورہ کر کے ڈاکٹرز و عملے کی حاضری، صفائی ستھرائی، میڈیسن کی دسیتابی اور مریضوں کو دی جانیوالی طبی سہولیات کا جائزہ لیا۔ مریضوں اور انکے لواحقین سے دستیاب سہولیات بارے بھی دریافت کیا۔ اس موقع پر اسسٹنٹ کمشنرز کا کہنا تھا کہ وزیر اعلی پنجاب مریم نوازشریف کے ویژن کے مطابق تمام سرکاری ہسپتالوں میں عوام کو صحت کی تمام سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنایا جا رہا ہے۔ علاوہ ازیں اسسٹنٹ کمشنر کوٹ رادھاکشن نے شادیوں پر ون ڈش کو چیک کرنے کیلئے مختلف شادی ہالوں کا بھی معائنہ کیا اور ون ڈش کے قانون پر عملدرآمد کا جائزہ لیا خلاف ورزی پر ایک شادی ہال کو بھاری جرمانہ عائد کیا۔
٭٭٭٭٭
ڈپٹی کمشنر کی ہدایات‘ڈسٹرکٹ اینٹا مالوجسٹ چوہدری محمد خرم ابراہیم کا مختلف علاقوں کا دورہ،
ڈینگی ٹیموں کی کارکردگی کو چیک کیا‘ڈینگی لاروا ملنے پر 1716افراد کو نوٹسز‘ 4پرائمسزسیل‘28افراد کیخلاف ایف آئی آرز درج
قصور(07نومبر 2024ء)ڈپٹی کمشنر کی ہدایات کی روشنی میں ضلع بھر میں ڈینگی تدارک سرگرمیاں تیز کر دی گئیں‘ڈسٹرکٹ اینٹا مالوجسٹ چوہدری محمد خرم ابراہیم کا مختلف علاقوں کا دورہ،ڈینگی سرویلنس ٹیموں کی کارکردگی کو چیک کیا‘ڈینگی لاروا ملنے پر 1716افراد کو نوٹسز‘ 4پرائمسزسیل جبکہ28افراد کیخلاف ایف آئی آرز درج۔ تفصیلات کیمطابق ڈینگی تدارک اور اسکی روک تھام کے حوالے سے گزشتہ ایک ماہ کی کارکردگی رپورٹ میں ڈسٹرکٹ اینٹا مالوجسٹ چوہدری محمد خرم ابراہیم نے ان ڈور اور آؤٹ ڈور ڈینگی سرویلنس ٹیموں کی کارکردگی اور مختلف مقامات پر ڈینگی سرویلنس کو چیک کیا تا ہم ڈینگی مچھر اور لاروا کی پیدائش کی جگہیں دریافت ہونے پر 1716افراد کو لیگل نوٹسز جاری کئے 28افراد کیخلاف مقدمات کا اندراج کروایا اور 4پرائمیسز کو کر دیا۔ ڈسٹرکٹ اینٹا مالوجسٹ نے آؤٹ ڈور اور ان ڈور ڈینگی سرویلنس ٹیموں کو مزید متحرک ہو کر کام کرنے کی ہدایت کی کیونکہ موجودہ موسم ڈینگی مچھر کی افزائش کیلئے ساز گار ہے۔انہوں نے شہریوں سے اپیل کی کہ وہ ڈینگی لاروا کی تلفی کو یقینی بنانے کیلئے ساتھ دیں اور اپنے گھروں کی چھتوں اور صحن کی صفائی ستھرائی کو یقینی بنائیں اور پانی جمع نہ ہونے دیں۔
٭٭٭٭٭
وزیراعلی پنجاب کی خصوصی ہدایات‘اسسٹنٹ کمشنر زکے عام مارکیٹوں کے دورے
اشیائے ضروریہ‘روٹی و نان کی قیمتوں اور وزن کو چیک کیا‘خلاف ورزیوں پر متعدد دوکانداروں کو جرمانے عائد
قصور(07نومبر 2024ء)وزیراعلی پنجاب مریم نواز شریف کے احکامات اور ڈپٹی کمشنر کی ہدایات پر اسسٹنٹ کمشنر زکے عام مارکیٹوں کے دورے‘اشیائے ضروریہ‘پھلوں، سبزیوں اور روٹی و نان کی قیمتوں اور وزن کو چیک کیا‘خلاف ورزیوں پر متعدد دوکانداروں کو بھاری جرمانے عائد۔ تفصیلات ک�� مطابق اسسٹنٹ کمشنر زقصور عطیہ عنایت مدنی، کمشنر کوٹ رادھاکشن ڈاکٹر محمد انس سعید، پ��وکی ڈاکٹر مکرم سلطان اور چونیاں طلحہ انور نے اپنی اپنی تحصیلوں میں عام مارکیٹوں کا دورہ کر کے اشیائے ضروریہ، بیکری آئیٹمز، پھلوں، سبزیوں اور روٹی و نان کی قیمتوں اور وزن کو چیک کیا تاہم متعدد جگہوں پر خلاف ورزیوں کی صورت میں ذمہ داریوں کو بھاری جرمانے عائد کئے۔ اس موقع پر اسسٹنٹ کمشنرز کا کہنا تھا کہ اشیائے ضروریہ، پھلوں، سبزیوں،روٹی و نان اور بریڈ کی مقررکردہ قیمتوں کی خلاف ورزی کرنیوالے دوکانوں سے سختی سے نمٹا جائیگا اور انکے خلاف سخت قانونی کاروائی عمل میں لائی جائیگی۔
٭٭٭٭٭
0 notes
Text
نواز شریف کا نوحہ
بہت عرصے کے بعد نواز شریف پارلیمنٹ میں بولے۔ وہ بولے کم اور اپنے دل کا غم دو اشعار سُنا کر بیان کیا فرمایا کہ عدلیہ نے ہمیں اتنے دُکھ دیے ہیں کہ یہ شعر سُن لیں: ناز و انداز سے کہتے کہ جینا ہو گا زہر بھی دیتے ہیں تو کہتے ہیں کہ پینا ہو گا
جب میں پیتا ہوں تو کہتے ہیں کہ مرتا بھی نہیں اور جب میں مرتا ہوں تو کہتے ہیں کہ جینا ہو گا
26ویں آئینی ترمیم پاس ہو رہی تھی۔ عدلیہ کے یا تو پر کاٹے جا رہے تھے یا اُسے آئین کے دائرے میں لایا جا رہا تھا لیکن یہ حکومت اور اُس کے اتحادیوں کی جیت کا دن تھا۔ مہینوں کی تگ و دو کے بعد، مذاکرات کے ذریعے یا دھمکیوں کے راستے یا کچھ دو، کچھ لو کی پالیسی اختیار کر کے یا دو، چار ارکان کو خرید کر یا غائب کر کے حکومت نے اپنے اعداد پورے کر لیے تھے۔ حکومت کے لیے خوشی کا دن تھا ایسے میں حکومت کے روحانی باپ اپنے ماضی کے زخم کیوں کُرید رہے تھے۔ شعر وزن میں ہیں یا نہیں، حسبِ حال ہیں یا نہیں اس کا فیصلہ تو ادبی نقاد اور سیاسی مبصرین کر سکتے ہیں۔ عام دیکھنے والوں کو تو پرانی اُردو فلموں کے وہ سین یاد آ گئے جب ایک گھر میں بارات پہنچتی ہے، ڈولی اٹھنے والی ہوتی ہے اور دلہن کا ناکام عاشق ایک اُداس دُھن میں گانا گانے لگتا ہے۔
تین بار مُلک کے وزیر اعظم سے ناکام عاشق کا سفر نواز شریف نے عوام کی آنکھوں کے سامنے طے کیا ہے۔ اسٹیبلیشمنٹ نے بنایا پھر نکالا، پھر عوام نے بنایا مشرف نے نکالا پھر عوام نے بنایا عدلیہ نے نکالا، تو ظاہر ہے عدلیہ کو زہر دینے اور پھر جینے مرنے کے طعنے بنتے ہیں لیکن جس مُلک میں وہ چاہتے ہیں کہ عوام اُن کے غم کو سمجھیں اُسی مُلک میں اُن کے چھوٹے بھائی وزیراعظم ہیں، اُن کے سمدھی نائب وزیر اعظم ہیں، اُن کی بیٹی مُلک کے سب سے بڑے صوبے کی طاقتور وزیراعلیٰ ہیں پھر بھی ہم سے یہ گلہ ہے کہ دلدار نہیں۔ اُن کا غم اُس بزرگ کا غم لگتا ہے جو چار شادیوں اور چودہ بچوں کے بعد پوتے پوتیوں سے شکوہ کرتے پائے جاتے ہیں کہ مُجھے سچا پیار نہیں ملا۔ نواز شریف اور عمران خان: کرکٹ سے سیاست اور رفاقت سے عداوت تک کا سفر 7 فروری 2024 عمران خان اور نواز شریف: دونوں کی وہ مماثلت جو مٹ نہیں سکتی! 13 اپريل 2022 ’نواز شریف کو کوئی نہیں ہنسا سکتا‘ 19 مئ 2024 ایرانی مہمان اور ادب نواز شہباز شریف 24 اپريل 2024
پرانے بادشاہوں کو ہٹانے کے دو ہی طریقے تھے یا تختہِ دار یا قید خانہ، یا کبھی کبھی رحم دل بادشاہ اپنے سے پہلے والے بادشاہ کو مقدس مقامات کی زیارت کے لیے بھیج دیا کرتے تھے۔ پاکستان بادشاہت نہیں۔ پاکستان کے موجودہ حکمران نواز شریف کو اپنا اصلی باپ بھی مانتے ہیں، سیاسی بھی، روحانی بھی۔ اپنی جلاوطنی کے دنوں میں نواز شریف مقدس مقامات میں خوب عبادات کر چُکے ہیں۔ جب چاہیں پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر عوام کے ساتھ اپنا وژن، اپنے غم بھی بیان کر سکتے ہیں۔ جب دل کرے کسی منصوبے کے افتتاح کے لیے فیتہ کاٹنے یا اپنی بیٹی کا راج دیکھنے کے لیے بھی پہنچ سکتے ہیں۔ اب کیا ہی اچھا ہو کہ وہ اُس مُلک کے دورے پر نکلیں جس نے اُنھیں تین بار وزیراعظم مُنتخب کیا، قید بھی کیا، دل بھی توڑا جلاوطن بھی کیا لیکن بالاخر اُن کو روحانی حکمران مان لیا۔ چونکہ اُن کے پاس فی الحال کوئی سرکاری عہدہ نہیں تو وہ جس سے چاہیں مل سکتے ہیں۔
ان کا غم تو ہم سُنتے آئے ہیں، وہ اور کچھ نہیں تو اپنی رعایا کا غم سُننے ہی نکل پڑیں، کبھی کسی بلوچ خاندان کے احتجاجی کیمپ میں جا کر بیٹھ جائیں، کبھی جا کر ماہ رنگ بلوچ کو تسلّی دیں کہ ریاست نے میرے ساتھ بھی ظلم کیا تھا، میں نے اپنے لیے انصاف کی جنگ لڑی، اب میں آپ کے ساتھ چلتا ہوں۔ کبھی منظور پشتین کو مشورہ دیں کہ ہاں کبھی کبھی عسکری اداروں کے خلاف سخت زبان بولنی پڑتی ہے لیکن میں آپ کو بتاتا ہوں کے اُن کے ساتھ آنکھ مچولی میں دو قدم آگے کیسے رہا جاتا ہے۔ لیکن ہم سب جاتنے ہیں کہ وہ ایسا نہیں کریں گے۔ عدلیہ کے ساتھ بھی جنگ کا ایک ہی مقصد تھا کہ جج اُن کے ��ھائی اور بچوں کے ساتھ نہ کر سکیں جو اُن کے ساتھ کیا۔ نواز شریف شاید پاکستان کی تاریخ کے سب سے خوش قسمت سیاستدان ہیں لیکن وہ یہ خوش قسمتی عوام کے ساتھ بانٹنے کو تیار نہیں ہیں۔ عوام کے ساتھ وہ صرف اپنا غم بانٹنا چاہتے ہیں اور اُداس دُھنوں میں اپنے مرنے اور جینے کا گیت گانا چاہتے ہیں۔
محمد حنیف
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
Text
آئینی بینچز، حکومت من پسند 7 ججز نامزد کرنے میں کامیاب
اسلام آباد: وفاقی حکومت آئندہ 2ماہ میں آئینی بینچوں کے لیے 7ججوں کو اپنی مرضی سے نامزد کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ ایک سین��ر حکومتی اہلکار نے کہا ہے کہ جسٹس عائشہ ملک کو بھی نامزد کیا گیا ہے حالانکہ ماضی قریب میں انھوں نے موجودہ حکومت کے خلاف فیصلے دیے۔ حالیہ تنازع کے پیش نظر جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کو آئینی بنچوں کے لیے نامزد کرنا مشکل تھا۔تاہم اب یہ بوجھ 7ججوں پر ہے کہ وہ…
0 notes
Text
خیبرپختونخوا حکومت نے عوام کے دل جیت لئے
(24نیوز)خیبرپختونخوا حکومت نے صحت کارڈ کے دائرے کار کو وسیع کرتے ہوئے لائف انشورنس کو بھی اس منصوبے میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق وزیر اعلی خیبر پختونخوا سردار علی امین گنڈاپور سے انصاف ڈاکٹر فورم کے وفد کی ملاقات ہوئی جس میں صحت کے شعبے میں اصلاحات، ہسپتالوں میں ہیلتھ کئیر سروس ڈیلیوری کی بہتری اور ڈاکٹروں کے مسائل پر تبادلہ خیال کیا۔وزیراعلیٰ نے کہا کہ صحت کا شعبہ موجودہ…
0 notes
Text
رواں سال اپریل کے مہینے میں بھی گندم درآمد کیے جانے کا انکشاف
اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن) رواں سال مسلسل 2 ماہ تک گندم درآمد کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے، تقریبا 64 ارب 19 کروڑ 20 لاکھ روپے مالیت کی گندم درآمد کی گئی ۔ 24 نیوز کے مطابق شہباز حکومت نے دوسرے ماہ یعنی اپریل میں بھی گندم کی درآمد جاری رکھی ، اپریل میں 86 ہزار800میٹرک ٹن گندم درآمد کی گئی ، اپریل2024 میں7ارب روپے مالیت سے زائد کی گندم درآمد ہوئی، موجودہ حکومت کے پہلے 2 ماہ میں تقریبا 7…
0 notes
Text
مہنگے ریلوے سفر میں بدحال مسافر
پٹرولیم مصنوعات کی بڑھتی قیمتوں کے باعث پاکستان ریلوے نے مسافر ٹرینوں اور مال گاڑیوں کے کرایوں میں اضافے کا سلسلہ شروع کیا تھا، وہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے باوجود برقرار ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں عالمی سطح پر کمی و بیشی ہوتی رہی مگر پاکستان ریلوے کے کرایوں میں کمی نہیں ہوئی اور مسلم لیگ (ن) کی موجودہ حکومت نے ریلوے کے اہم محکمے کو لاوارث چھوڑ رکھا ہے، جہاں کوئی وزیر موجود نہیں اور اویس لغاری کو چند روز کے لیے ریلوے کا وزیر بنایا گیا تھا جس کے بعد سے ریلوے افسران ہی فیصلے کر رہے ہیں۔ جنھیں مسافروں کا کوئی احساس نہیں جس کی وجہ سے ریلوے مسافر لاوارث ہو کر سفر کر رہے ہیں جب کہ ریلوے کے بڑے افسروں کے سفر کے لیے ریلوے کے خصوصی اور شاہانہ سہولتوں سے آراستہ سیلون موجود ہیں جو مسافروں کا سفر ان کی بوگیوں میں جا کر دیکھیں تو شاید انھیں احساس ہو جائے کہ ریلوے مسافر کس بدحالی میں سفر کرتے آ رہے ہیں مگر وہ ایسا کیوں کریں گے ریلوے ٹرینوں میں بزنس کلاس اور اسٹینڈرڈ اے سی ہیں جب کہ اکنامی کلاس تیسرے درجے کی کلاس ہے۔ تیز رفتار ٹرینوں جن کے کرائے بھی کچھ زیادہ ہیں ان میں کچھ بہتر بوگیاں اکنامی میں لگا دی جاتی ہیں مگر بعض دفعہ قراقرم اور بزنس ٹرین میں بھی پرانی اور خستہ بوگیاں جو سفر کے اب قابل نہیں مگر وہ بھی لگا دی جاتی ہیں جب کہ باقی ٹرینوں میں لگائی جانے والی اکنامی بوگیاں انتہائی خستہ حال اور ناقابل سفر ہوتی ہیں۔
جن کے پنکھے خراب، بلب غائب، واش روم گندے اور بعض میں اندر سے بند کرنے کے لاک تک نہیں ہوتے۔ اے سی کلاسز میں تو لوٹے اور ٹشو رول اور ہاتھ دھونے کا لیکوڈ ضرور ہوتا ہے مگر اکنامی کے لاوارث مسافر لوٹوں تک سے محروم ہوتے ہیں اور مسافر خریدے ہوئے پانی کو پینے کے بعد وہ خالی بوتلیں واش روم میں رکھ دیتے ہیں جو دوسروں کے بھی کام آ جاتی ہیں۔ اے سی بوگیوں میں مسافر کم اور سہولتیں موجود ہوتی ہیں۔ جہاں فاصلے کے بعد صفائی کرنے والے دوران سفر آ جاتے ہیں یا کوئٹہ سے پشاور یا کراچی سے لاہور، روہڑی اور راولپنڈی و پشاور تک کی گاڑیوں میں صفائی کا عملہ مقرر ہے جو پورے سفر میں ایک دو اسٹیشنوں پر اے سی کوچز کی صفائی کر دیتے ہیں مگر اکنامی کلاس کے مسافروں کو رفع حاجت کے لیے پانی کی معقول فراہمی، صفائی اور روشنی اور پنکھوں کی ہوا سے مکمل محروم رکھا جاتا ہے جہاں گرمی میں پنکھے چلتے ہیں تو لائٹ نہیں ہوتی۔ واش رومز بدتر اور پانی سے محروم ہوتے ہیں۔ اکنامی کلاس میں بہت سے مسافر سیٹ ریزرو نہ ہونے کی وجہ سے مجبوری میں فرش پر بھی سفر کر لیتے ہیں۔ اکنامی کلاسز میں مسافر بھی زیادہ ہوتے ہیں اور ان بوگیوں میں پانی جلد ختم ہو جاتا ہے۔
کراچی سے چلنے والی ٹرینوں میں روہڑی، ملتان اور لاہور میں پانی بھرا جاتا ہے اور دوران سفر واش رومز کا پانی ختم ہو جائے تو مسافروں کو گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا ہے یا ضرورت پر خود ہی متبادل انتظام کرنا پڑتا ہے۔ ایئرپورٹس کی طرح تمام ریلوے اسٹیشنوں پر فراہم کردہ کھانا اور غیر معیاری ہوتا ہے جب کہ دوران سفر خوردنی اشیا، پانی کی بوتلوں اور کنفیکیشنری کے نرخ اسٹیشنوں سے بھی زیادہ ہوتے ہیں اور چائے و کھانا فروخت کرانے والوں کے ٹھیکیدار ریلوے عملے اور افسروں کو مفت کھانا اور چائے فراہم کرتے ہیں اور قیمت مسافروں سے وصول کر لیتے ہیں۔ ٹرینوں میں دوران سفر مسافروں کو تکیے اور چادریں مہنگے کرائے پر دی جاتی ہیں جو صاف نہیں ہوتے اور پرانے ہوتے ہیں۔ ریلوے اسٹیشنوں اور دوران سفر فروخت ہونے والی اشیائے ضرورت اور خوردنی کے سرکاری طور پر نرخ مقرر نہیں ہوتے اور مسافروں کو بازار سے کافی مہنگے ملتے ہیں جن کا کوئی معیار نہیں ہوتا۔ ریلوے کے سفر سڑکوں کے سفر کے مقابلے میں آسان اور آرام دہ کہا جاتا ہے مگر لمبے سفر کی ٹرینوں کی بعض بوگیاں ایسی بھی ہوتی ہیں جن کی اوپر کی نشست پر صرف لیٹا جا سکتا ہے بیٹھا نہیں جا سکتا۔ دوران سفر سامان کی حفاظت خود مسافروں کی ذمے داری ہے مگر رات کو بوگی میں روشنی کی فراہمی ریلوے اپنی ذمے داری نہیں سمجھتی اور مسافروں کو کھانا کھانے اور ضرورت پر اپنے موبائل فونز سے روشنی کرنا پڑتی ہے۔
محمد سعید آرائیں
بشکریہ ایکسپریس نیوز
#Economy#Pakistan Economy#Pakistan Railway Crisis#Pakistan Railway History#Pakistan Railway Problems#Pakistan Railways#World
0 notes
Text
جسٹس منصورعلی شاہ پرعمراندازجج ہونے کا الزام کیوں لگتا ہے؟
معروف لکھاری اور تجزیہ کار حماد غزنوی نے کہا ہے کہ اس وقت پاکستان میں جو سیاسی بحران چل رہا ہے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے ک عمران خان اور انکی جماعت نے یہ تاثر قائم کر دیا ہے کہ اگلا چیف جسٹس ’ان کا آدمی‘ ہے جو سب سے پہلے موجودہ حکومت کا خاتمہ کرے گا اور پھر قیدی نمبر 804 کو رہا کر دے گا۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ جسٹس منصور شاہ کے کچھ عدالتی فیصلوں اور ایکشنز نے اس تاثر کو تقویت فراہم کی ہے۔…
0 notes
Text
Regional Urdu Text Bulletin, Chhatrapati Sambhajinagar
Date: 26 July-2024
Time: 09:00-09:10 am
آکاشوانی چھترپتی سمبھاجی نگر
علاقائی خبریں
تاریخ: ۲۶؍ جولائی ۲۰۲۴ء
وقت: ۱۰:۹-۰۰:۹
***** ***** *****
::::: سرخیاں::::::
پیش ہے خاص خبروں کی سرخیاں:
٭ پیاز کے ذخیرےکیلئے چھترپتی سمبھاجی نگر سمیت ناسک اور شولاپور میں جوہری توانائی پرمبنی پیاز کے مہابینک منصوبے قائم کیے جائیں گے۔
٭ دودھ اور دودھ کی مصنوعات میں ملاوٹ کی روک تھام کیلئے علیحدہ قانون وضع کرنے کا وزیر اعلیٰ کا اعلان۔
٭ ریاست کے بیشتر حصوں میں بارش سے نظام زندگی مفلوج؛ سرکاری مشنریوں کو تال میل کے ساتھ حالات سے نمٹنے کی ہد ایات۔
اور۔۔۔٭ پیرس اولمپک مقابلوں میںبھارت کی خواتین اور مرد تیر انداز کوارٹر فائنل میں داخل، اولمپک مقابلوں کا آج باقاعدہ افتتاح۔
***** ***** *****
اب خبریں تفصیل سے:
وزیرِ اعلیٰ ایکناتھ شندے نے ریاست کے چھترپتی سمبھاجی نگر سمیت ناسک اور شولاپور میں فوری طور پر پیاز کے مہا بینک پروجیکٹ شروع کرنے کی ہدایت دی ہے۔ ریاست میں پیاز کے نقصان کی رو ک تھام اور پیاز کا ذخیرہ کرنے کیلئےجوہری توانائی پر چلنے والا پیاز بینک پروجیکٹ شروع کیا جا رہا ہے ۔ کل اس خصوص میں منعقدہ جائزاتی اجلاس میں وزیر اعلیٰ نےیہ ہدایات دیں۔ ان بینکوں کے قیام کیلئے صنعتی ترقیاتی کارپوریشن، شعبۂ مارکیٹنگ اور ریاستی شاہراہ ترقیات کارپوریشن کی دستیاب جگہوں کا استعمال کرنے کی ہد ایات بھی وزیرِ اعلیٰ نے دیں۔
***** ***** *****
وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے نے دودھ اور دودھ سے تیار ہونے والی اشیا‘ میں ملاوٹ کی روک تھام کیلئےریاستی حکومت کی جانب سے ایک علیحدہ سخت قانون بنانے کا اعلان کیا ہے۔ کل‘ اس سلسلے میں منعقدہ میٹنگ کے بعد وزیرِ اعلیٰ نے یہ جانکاری دی۔ نیا قانون‘ موجودہ ریاستی قانون ‘مہاراشٹر پروہیبیشن آف ڈینجرس ایکٹیویٹیز،( (MPDA سے بھی زیادہ سخت ہوگا۔ وزیر اعلیٰ نے مزید کہا کہ خوراک میں ملاوٹ کرنے والوں کے خلاف غیر ضمانتی مقدمہ درج کرنے کےسلسلے میں بھی مرکزی حکومت سے سفارش کی جائیگی۔
دریں اثنا، وزیر اعلیٰ نے سابق فوجیوں کی فلاح و بہبود کیلئے ایک کارپوریشن قائم کرنے کے احکامات بھی دیئے ہیں۔ اسی طرح ریاست کے سبھی سرکاری دفاتر میں اہل امیدواروں کو انٹرن شپ کے مواقع فراہم کرنے کی ہد ایت بھی وزیر اعلیٰ نے دی ہے۔ اس اسکیم کے تحت گڈچرولی ضلع کی سونالی گیڈام کو ریاست میں پہلی تقرری دی گئی ہے۔
***** ***** *****
ریاست کے مختلف حصوں میں گزشتہ ��وز ہوئی موسلادھار بارش سے معمولاتِ زندگی درہم برہم ہوگئے۔ پونے میںاس بارش کا سب سے زیادہ اثر رہا۔ کھڑک واسلہ ڈیم سے مُٹھا ندی میں پانی چھوڑنے کے سبب شہر کی کئی بستیوں میں پانی داخل ہو گیا۔ سنہہ گڑھ روڈ پر واقع ایکتا نگر میں نیشنل ڈیزاسٹر رِسپانس دستے اور فوج کے جوانوں نے شہریوں کو محفوظ مقام پر منتقل کیا۔ جبکہ پونے ضلعے میں کل کی بارش کے سبب مختلف حادثات میں چار افراد کی موت اور 12 افراد زخمی ہوگئے۔
ممبئی، پنویل، پال گھر، کلیان ۔ڈومبیولی، رائے گڑھ، رتناگیری اور ستارااضلاع میں بھی کل شدید بارش ہوئی۔ ممبئی کے کئی نشیبی علاقوں میں پانی بھر جانے کی وجہ سے راستوں سمیت ٹرینوں کی آمدورفت پر اثر پڑا۔ تھانے ضلع کی الہاس ندی خطرے کے نشان کو عبور کر چکی ہے اور بیشتر راستوں پر ٹریفک کی آمد و رفت بند کر دی گئی ہے۔ رائے گڑھ ضلع کی ساوتری اور امبا ندیوں نے بھی خطرے کا نشان پار کرلیا ہے۔
کولہاپور ضلعے کے رادھا نگری آبی پشتے سے پانی کا اخراج کیے جانے سے پنچ گنگا ندی نے خطرے کے نشان کو عبور کر لیا ہے۔ ندی کے اطرا ف کے دیہاتوں کے ساکنان کو محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا گیا ہے۔
دھاراشیو ضلع میں اب تک اوسطاً 395 ملی میٹر بارش کا اندراج کیا گیا ہے اور یہ بارش خریف کی فصلوں کیلئے مفید ہونے سمیت ضلع میں آبی سطح کو بڑھانے میں مددگار ثابت ہونے کی توقع کی جارہی ہے۔
لاتور ضلعے میں اب تک تقریباً 432 ملی میٹر بارش درج کی گئی ہے۔ ضلع کے کئی ندیوں اورنالوںمیں طغیانی آنے کی وجہ سے ضلع کے مانجرا، ماکنی، نمن تیرنا آبی پشتوں میں پانی کی مسلسل آمد جاری ہے۔ ضلع میں کئی مقامات پر پل زیرِ آب آگئے ہیں‘ جس کے سبب متعلقہ راستے ٹریفک کیلئے بند ہوگئے ہیں۔
ناندیڑ ضلعے کا وشنو پوری آبی منصوبہ 83 فیصد بھر چکا ہے۔ ناندیڑ کے ضلع کلکٹر ابھیجیت رائوت نےبتایا کہ ڈیم کے دروازے کسی بھی وقت کھولےجاسکتے ہیں، لہٰذا ساحلی علاقوں پر آباددیہاتوں کو چوکنا رہنے کی ہد ایات جاری کی گئی ہیں۔
***** ***** *****
محکمہ موسمیات نے آئندہ 24 گھنٹوں کے دوران ریاست کے چاروں ڈویژنوں میں بیشتر مقامات پر بارش ہونے کی پیش گوئی کی ہے۔ اس دوران کوکن اور وسطی مہاراشٹر کے مختلف مقامات پر موسلادھار بارش ہونے کا امکان ہے۔
***** ***** *****
ریاست میں سیلابی صورتحال سے متاثرہ علاقوں میں جنگی پیمانے پر راحت رسانی کے کام کیے جارہے ہیں۔ لہٰذ ا وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے نے شہریوں سے ضرو رت کے مطابق ہی گھرو ں سے باہر نکلنے کی اپیل کی ہے۔ وزیر اعلیٰ نے قومی اور ریاستی انس��ادِ آفاتِ سماوی دستوں، فوج، بحریہ، پولس، آتش فرو دستے سمیت شعبۂ صحت کے ذمہ دارا ن کو آپسی تال میل کے ذریعے ضرورت کے مطابق شہریوں کا تعاون کرنے کی ہدایات دی ہیں۔
***** ***** *****
قانون ساز اسمبلی میں قائدِ حزب اختلاف وجے وڑیٹیوار نے کہا ہے کہ ریاست میں طوفانی بارشوں کی وجہ سے کسان طبقہ ایک بار پھر مشکلات سے دوچار ہوا ہے۔ لہٰذا نقصان سے متاثرہ کسانوں کو خاطر خواہ امداد فراہم کر نے کا انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے۔
***** ***** *****
ریاست کے مختلف حصوں میں جار ی شدید بارش کے پیش نظر آج معلّنہ دسویں اور بارہویں کے سپلیمنٹری امتحانات کے پرچے ملتوی کر دیے گئے ہیں۔ آج،دہم جماعت کا سائنس اور ٹیکنالوجی حصہ دوم، مضمون کا پرچہ آئندہ 31 جولائی بروز بدھ صبح گیارہ بجے سے دوپہرایک بجے کے درمیان منعقد ہوگا۔ جبکہ بارہویں جماعت کے کامرس آرگنائزیشن اینڈ مینجمنٹ، علمِ اغذیات سمیت ایم سی وی سی حصہ دوم کا پرچہ آئندہ9 اگست برو زِ جمعہ کو صبح گیارہ تا دوپہر دو بجے کے درمیان لیا جائےگا۔ ان پرچہ جات کے علاوہ سپلیمنٹری امتحانات کے نظام الاوقات میں دیگر کوئی تبدیلی نہ کرنے کی اطلاع تعلیمی بورڈ کی جانب سے دی گئی ہے۔
***** ***** *****
آج کارگل جنگ میں فتح کا 25 واں یومِ تاسیس منایا جا رہا ہے۔ اس مناسبت سے وزیر اعظم نریندر مودی کارگل جنگ کی یادگار پر شہیدوں کے اعزاز میں گلہائے عقیدت نچھاور کریں گے۔ ساتھ ہی وزیراعظم ٹیلی کانفرنسنگ سسٹم کے ذریعے شِنکون لا نامی زیرِ زمین منصوبے کا سنگ بنیاد بھی رکھیں گے۔ جبکہ کارگل فتح دِن کے موقع پر آج ستارا میں وزیر اعلیٰ کی موجودگی میں ایک پروگرام کا انعقاد کیا گیا ہے۔
***** ***** *****
یہ خبریں آکاشوانی چھترپتی سمبھاجی نگر سے نشر کی جارہی ہیں۔
***** ***** *****
پیرس اولمپک کھیلوں میں بھارت نےشاندار کارکرد گی سے حصولِ تمغہ جات مہم کا آغاز کیا ہے۔ تیر اندا زی میں بھارتی خواتین اور مرد کھلاڑیوںنے کوارٹر فائنل میں اپنی جگہ بنالی ہے۔ تیر اند از ترون دیپ رائے اورپروین جادھوسمیت دیپیکا کماری‘ اَنکیتا بھگت‘ بھجن کور اور بی دھیرج نے سنگل رینکنگ ر ائونڈ میں حصہ لیا۔
ٹورنامنٹ کے باقی مرحلے 28 جولائی تا 4 اگست کے درمیان ہوں گے۔ جبکہ پیرس اولمپک کھیلوں کی افتتاحی تقریب ا ٓج بھارتی وقت کے مطابق رات گیارہ بجے شرو ع ہوگی۔ بیڈمنٹن کھلاڑی پی وی سندھو اور ٹیبل ٹینس کھلاڑی شرتھ کمل کو بھارت کے پرچم بردار ہونے کا اعزاز دیا گیا ہے۔
ٹوکیو اولمپکس میں ایک گولڈ میڈل سمیت سات تمغے جیتنے والے 117 کھلاڑیوں پر مشتمل بھارتی دستہ پیرس میں داخل ہوچکا ہے۔ ایتھلیٹکس میں سب سے زیادہ 29، نشانے بازی میں 21، بیڈمنٹن 7 اور تیر اندازی اور کشتی ز��رے میں فی کس چھ کھلاڑی شرکت کررہے ہیں۔ ان میں، سبھی کی نظریں اسٹیپل چیس میں بیڑ کے اویناش سابڑے، تیر اندازی میں پروین جادھو، بیڈمنٹن میں چراغ شیٹی، نشانے بازی میں سوپنیل کُسڑے اور ہائی جمپ میں سرویش کشارے پر ٹکی ہوئی ہیں، ۔ ٹوکیو اولمپکس میں شاندارکارکردگی کے بعد اویناش سابڑے سے تمغے کی بہت زیادہ امیدیں وابستہ ہوئی ہیں۔
***** ***** *****
34ویں ریاستی جونیئر تائیکواندو ٹورنامنٹ کا آج سے بیڑ میں آغاز ہورہا ہے۔ ریاست بھر سے تقریباً ساڑھے چار سو کھلاڑی اس ٹورنامنٹ میں شرکت کیلئے بیڑ پہنچ چکے ہیں۔ 27جولائی تک یہ مقابلے جا ری رہیں گے۔ اس ٹورنامنٹ میں کل شام پُومسے زمرے کے مقابلے ہونے کی اطلاع ہمارے نامہ نگار نے دی ہے۔
***** ***** *****
پربھنی پولس محکمے کے موٹر شعبے کی جانب سے ’’شی وَین‘‘ تیار کی گئی ہے۔ اس جدید گاڑی میں خواتین پولس ملازمین کیلئے درکا ر ضروری سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔ پولس سپرنٹنڈنٹ رو یندر سنگھ پردیشی نے کل اس وَین کا افتتاح کرتے ہوئے بتایاکہ یہ وَین بندوبست پر تعینات خواتین پولس ملازمین کیلئے تیار کی گئی ہے۔
***** ***** *****
چھترپتی سمبھاجی نگر کے زرعی سائنس مرکز میں ’’آم ؛بہتر زرعی طریقہ‘‘کے موضوع پر کل ایک ر وزہ تربیتی کیمپ منعقد ہوا۔ پربھنی کی وسنت رائو نائیک مراٹھواڑہ زرعی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر اِندر مَنی کے ہاتھوں پروگرام کا افتتاح عمل میں آیا۔ اس کیمپ میں سو سے زائد کسانوں نے شرکت کی۔
***** ***** *****
وسطی ر یلوے کے دَونڈ ریلوے اسٹیشن پر درستی کے کاموں کے پیشِ نظر آئندہ اتوار سے کچھ ریلوے گاڑیوں کی خدمات آئندہ چند دِنوں تک منسوخ کردی گئی ہیں۔ ان میں ناندیڑ۔ پنویل۔ ناندیڑ‘ پونے۔ نظام آباد۔ پونے‘ او ر نظام آباد۔ پنڈھر پور گاڑیاں شامل ہیں۔ جنوب وسطی ریلوے کے ناندیڑ زون دفتر نے مسافروں سے اس منسوخی کو نوٹ کرنے کی اپیل کی ہے۔
***** ***** *****
::::: سرخیاں::::::
آخرمیں اس بلیٹن کی خاص خبریں ایک بار پھر:
٭ پیاز کے ذخیرےکیلئے چھترپتی سمبھاجی نگر سمیت ناسک اور شولاپور میں جوہری توانائی پرمبنی پیاز کے مہابینک منصوبے قائم کیے جائیں گے۔
٭ دودھ اور دودھ کی مصنوعات میں ملاوٹ کی روک تھام کیلئے علیحدہ قانون وضع کرنے کا وزیر اعلیٰ کا اعلان۔
٭ ریاست کے بیشتر حصوں میں بارش سے نظام زندگی مفلوج؛ سرکاری مشنریوں کو تال میل کے ساتھ حالات سے نمٹنے کی ہد ایات۔
اور۔۔۔٭ پیرس اولمپک مقابلوں میںبھارت کی خواتین اور مرد تیر انداز کوارٹر فائنل میں داخل، اولمپک مقابلوں کا آج باقاعدہ افتتاح۔
***** ***** *****
0 notes
Text
کیا معیشت دم توڑ چکی ہے؟
کمال فنکاری بلکہ اوج ثریا سے منسلک لازوال عیاری سے اصل معاملات چھپائے جا رہے ہیں۔ جذباتیت‘ شدید نعرے بازی اور کھوکھلے وعدوں سے ایک سموک سکرین قائم کی گئی ہے جس میں ملک کی ریڑھ کی ہڈی‘ یعنی معیشت کے فوت ہونے کے المیہ کو خود فریبی کا کفن پہنا کر چھپایا جا رہا ہے۔ ذمہ داری سے گزارش کر رہا ہوں کہ پاکستان کی معیشت دم توڑ چکی ہے۔ دھوکہ بازی کے ماہر بھرپور طریقے سے غلط اعداد فراہم کر رہے ہیں۔ قوم کو اصل حقیقت سے مکمل دور کر دیا گیا ہے۔ مگر انفارمیشن کے اس جدید دور میں لوگوں کو مسلسل فریب دینا ناممکن ہو چکا ہے۔ طالب علم کو کوئی غرض نہیں کہ سیاسی حالات کیا ہیں۔ کون پابند سلاسل ہے اور کون سا پنچھی آزاد ہوا میں لوٹن کتوبر کی طرح قلابازیاں کھا رہا ہے۔ اہم ترین نکتہ صرف ایک ہے کہ پاکستان کے معاشی حالات کیا ہیں؟ کیا وہ بہتری کی جانب رواں دواں ہیں یا ذلت کی پاتال میں گم ہو چکے ہیں۔ عوام کی بات کرنا بھی عبث ہے۔ اس لیے کہ اس بدقسمت خطے میں ڈھائی ہزار برس سے عام آدمی کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔
عام آدمی چندرگپت موریا اور اشوکا کے زمانے سے دربدر ہے۔ اور اگر ہمارے خطے میں جوہری تبدیلی نہ آئی یا نہ لائی گئی۔ تو یقین فرمائیے کہ کم از کم پاکستان میں حسب روایت اور تاریخ کے غالیچے پر براجمان طبقہ تباہی کا صور اسرافیل پھونک رہا ہے۔ معیشت کو ٹھیک سمت میں اگر موجودہ وزیراعظم اور وزیر خزانہ نہیں لے کر جائے گا تو پھر کون یہ اہم ترین کام کرے گا۔ غور کیجیے۔ اگر کوئی ایسی بیرونی اور اندرونی منصوبہ بندی ہے کہ پاکستان کو سابقہ سوویت یونین کی طرز پر آرے سے کاٹنا ہے ۔ تو پھر تو درست ہے ۔ مگر وہ کون لوگ اور ادارے ہیں جو جانتے بوجھتے ہوئے بھی ملکی معیشت کو دفنانے کی بھرپور کوشش میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ ہمیں تو بتایا گیا ہے کہ ریاستی اداروں کی عقابی نظرسے کوئی امر پوشیدہ نہیں ہے۔ تو پھر ملکی معیشت کا جنازہ کس طرح نکال دیا گیا۔ ڈاکٹر اشفاق حسین جیسے جید معیشت دان‘ گال پیٹ پیٹ کر ملک کی معاشی زبوں حالی کا ذکر عرصے سے کر رہے ہیں۔ کیوں ان جیسے دانا لوگوں کی باتوں کو اہمیت نہیں دی گئی۔ گمان تو یہ ہے کہ واقعی ایک پلان ہے‘ جس میں مرکزیت صرف ایک سیاسی جماعت کو ختم کرنا ہے۔ اس اثناء میں‘ اگر معیشت ختم ہو گئی تو اسے زیادہ سے زیادہ Collateral damage کے طور پر برداشت کرنا ہے۔
صاحبان! اگر واقعی یہ سب کچھ آدھا جھوٹ اور آدھا سچ ہے۔ تب بھی مشکل صورتحال پیدا ہو چکی ہے۔ بین الاقوامی اقتصادی اداروں کے سامنے ہم گھٹنوں کے بل نہیں بلکہ سربسجود ہونے کے باوجود ’’ایک دھیلہ یا ایک پائی‘‘ کا قرضہ حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ یہ سچ بھرپور طریقے سے چھپایا جا رہا ہے۔ وزیرخزانہ کے نعروں کے باوجود ورلڈ بینک پاکستان کی کسی قسم کی کوئی مدد کرنے کو تیار نہیں ہے۔ اس پر کمال یہ ہے کہ وزیراعظم ‘ وزیراعلیٰ ‘ گورنر صاحبان ‘ وزراء اور ریاستی اداروں کے سربراہان ہر طرح کی مالی مراعات لے رہے ہیں۔ جن کا ترقی یافتہ ممالک میں بھی تصور نہیں کیا جا سکتا۔ سرکاری ہوائی جہاز‘ سرکاری ہیلی کاپٹر‘ حکومتی قیمتی ترین گاڑیاں‘ رک��ے کی طرح استعمال کی جا رہی ہیں۔ چلیئے‘ اس ادنیٰ اداکاری کا کوئی مثبت نتیجہ نکل آئے۔ تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مگر ایک سال سے تو کسی قسم کا کوئی ٹھنڈی ہوا کا جھونکا نہیں آیا۔ کسی قسم کی ایسی بات نہیں کر رہا‘ جس کا ثبوت نہ ہو۔
ایکسپریس ٹربیون میں برادرم شہباز رانا کی ملکی معیشت کے متعلق رپورٹ رونگٹے کھڑے کر دینے والی ہے۔ یہ چھبیس مئی کو شائع ہوئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ‘ پاکستان کی معیشت سکڑ کر صرف اور صرف 341 بلین ڈالر تک آ چکی ہے۔ یہ ناقابل یقین کمی‘ ملکی معیشت کا نو فیصد ہے۔ یعنی گزشتہ ایک برس میں اقتصادی طور پر ملک خوفناک طور پر غرق کیا گیا ہے۔ یہ 34 بلین ڈالر کا جھٹکا ہے۔ اس کی وضاحت کون کرے گا۔ اس کا کسی کو بھی علم نہیں۔ انفرادی آمدنی‘ پچھلے اقتصادی برس سے گیارہ فیصد کم ہو کر 1568 ڈالر پر آ چکی ہے۔ یعنی یہ گیارہ فیصد یا 198 ڈالر کی کمی ہے۔ یہ اعداد و شمار کسی غیر سرکاری ادارے کے نہیں‘ بلکہ چند دن قبل نیشنل اکاؤنٹس کمپنی (NAC) میں سرکاری سطح پر پیش کئے گئے تھے۔ اور ان پر سرکار کی مہر ثابت ہو چکی ہے۔ معیشت کا سکڑنا اور انفرادی آمدنی میں مسلسل گراؤٹ کسی بھی حکومت کی ناکامی کا اعلانیہ نہیں تو اور کیا ہے۔ تف ہے کہ ملک کے ذمہ دار افراد میں سے کسی نے اس نوحہ پر گفتگو کرنی پسند کی ہو۔ ہاں۔ صبح سے رات گئے تک‘ سیاسی اداکار‘ سیاسی مخالفین کے لتے لیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اب تو سیاسی مخالفین کو غدار اور غیر محب وطن ہونے کے سرٹیفکیٹ بھی تواتر سے بانٹے جا رہے ہیں۔ ماضی میں یہ کھیل کئی بار کھیلا جا چکا ہے۔
ہم نے ملک تڑوا لیا۔ لیکن کوئی سبق نہیں سیکھا۔ یہ کھیل آج بھی جاری ہے۔ معیشت کے ساتھ ساتھ ملک کی سالمیت سے بھی کھیلا جا رہا ہے۔ عمران خان تو خیر‘ سیاست کی پیچیدگیوں سے نابلد انسان ہے۔ مگر موجودہ تجربہ کار قائدین کیوں ناکام ہو گئے ہیں۔ خاکم بدہن‘ کہیں ملک توڑنے کا نسخہ‘ دوبارہ زیر استعمال تو نہیں ہے۔ وثوق سے کچھ کہنا ناممکن ہے۔ معیشت پر برادرم شہباز رانا کی رپورٹ میں تو یہاں تک درج ہے کہ بیورو آف سٹیسٹسکس (BOS) کو جعلی اعداد و شمار دینے پر مجبور کیا گیا ہے۔ یہ دباؤ حکومت وقت کے سرخیل کی طرف سے آیا ہے۔ بیورو نے ملکی معیشت کو منفی 0.5 فیصد پر رکھا تھا۔ مگر اس رپورٹ کے بقول وزارت خزانہ اور دیگرطاقتور فریقین نے یہ عدد جعل سازی سے تبدیل کروا کر مثبت 0.3 فیصد کروایا ہے۔ دل تھام کر سنیے۔ ملک میں آبادی بڑھنے کی شرح دو فیصد ہے۔ اگر 0.3 فیصد ملکی ترقی کو تسلیم کر بھی لیا جائے۔ تب بھی ملکی معیشت 1.7 فیصد منفی ڈھلان پر ہے۔ یہ معاملات کسی بھی ملک کی بربادی کے لیے ضرورت سے زیادہ ہیں۔ ہمارے دشمن شادیانے بجا رہے ہیں۔ اندازہ فرمائیے کہ اس رپورٹ کے مطابق‘ موجودہ حکومت نے 2022ء کے سیلاب میں دس لاکھ جانوروں کے نقصان کا ڈھنڈورا پیٹا تھا۔ Livestock سیکٹر کی بات کر رہا ہوں۔ مگر BOS کے مطابق حکومت کے یہ اعداد بھی مکمل طور پر غلط ہیں۔
سرکاری ادارے کے مطابق جانوروں کا نقصان صرف دو لاکھ ہے۔ سوچیئے۔ عالمی برادری اور ادارے‘ ہمارے اوپر کس طرح قہقہے لگا رہے ہونگے۔ اس تجزیہ کے مطابق زراعت کے شعبہ میں نمو 1.6 فیصد رکھی گئی ہے۔ یہ عدد بھی کسی بنیاد کے بغیر ہوا میں معلق ہے۔ وجہ یہ کہ کپاس کی فصل اکتالیس فیصد کم ہوئی ہے۔ کپاس کو روئی بنانے کے عمل میں 23 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ چاول کی فصل میں اکیس فیصد کمی موجود ہے۔ یہ سب کچھ برادرم شہباز رانا کی شائع شدہ رپورٹ میں درج ہے۔ مگر ذرا میڈیا ‘ میڈیا رپورٹنگ پر نظر ڈالیے ۔ تو سوائے سیاست یا گالم گلوچ کے کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ وہاں کوئی بھی ’’مہاشے‘‘ ذکر نہیں کرتا کہ معیشت بھی مقدس ہے۔ اگر یہ بیٹھ گئی تو سب کچھ عملی طور پر ہوا میں اڑ جائے گا۔ مگر کسی بھی طرف سے کوئی سنجیدہ بات سننے کو نہیں آتی۔ وزیر خزانہ کے یہ جملے‘ ’’کہ ہر چیز ٹھیک ہو جائے گی‘‘۔ بس فکر کی کوئی بات نہیں۔ ان پر شائد میرے جیسے لا علم اشخاص تو یقین کر لیں۔ مگر سنجیدہ بین الاقوامی اقتصادی ادارے اور ماہرین صرف ان جملوں پر ہنس ہی سکتے ہیں۔
معیشت ڈوب گئی تو پچیس کروڑ انسان‘ کتنے بڑے عذاب میں غرقاب ہو جائیںگے۔ اس پر بھی کوئی بات نہیں کرتا۔ موجودہ حکومت کی سیاست‘ سیاسی بیانات اور کارروائیاں ایک طرف۔ مگر عملی طور پر ہماری معیشت دم توڑ چکی ہے۔ صرف سرکاری طور پر تسلیم نہیں کیا جا رہا۔ سوال ہو سکتا ہے کہ ملک چل کیسے رہا ہے۔ اس کا جواب صرف یہ ہے‘ کہ ہماری بلیک اکانومی حد درجہ مضبوط اور فعال ہے۔ یہ واحد وجہ ہے کہ ہم خانہ جنگی میں نہیں جا رہے۔ مگر شائد تھوڑے عرصے کے بعد‘ یہ آخری عذاب بھی بھگتنا پڑے۔ مگر حضور‘ تھوڑا سا سچ بول ہی دیجئے۔ مردہ معیشت کی تدفین کب کرنی ہے!
راؤ منظر حیات
بشکریہ ایکسپریس نیوز
2 notes
·
View notes
Text
سستی روٹی سستا وقار
موجودہ حکومت کی اوقات: سستی روٹی سستا وقار بے سہارا، مجبور، بے کس، بے بس، غریب غربا، مسکینوں اور معاشرے کے تھکے ہاروں کے لیے بنائے گئے لنگر خانوں کو بند کر کے روٹی 4 روپے سستی کر کے شہرت اور واہ واہ کمانے والوں پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہو! یہ وہ طبقہ ہے جسے پاکستان کی عوام پر اللہ تعالی کے عذاب کی صورت میں نازل کیا گیا ہے مگر عوام کو اسکا اندازہ نہیں! یہ لوگ سیاستدان نہیں بلکہ انکو سیاست…
View On WordPress
0 notes
Text
بہ تسلیمات ڈسٹرکٹ انفارمیشن آفیسر ننکانہ صاحب
ننکانہ صاحب:11 اکتوبر 2024
ممبر قومی اسمبلی ڈاکٹر شذرہ منصب علی خان کھرل اور ممبر صوبائی اسمبلی کا محکمہ زراعت اور سوشل ویلفیئر کے دفتر کا دورہ
ممبر قومی و صوبائی اسمبلی نے کسان کارڈز اور ہمت کارڈز کی تقسیم کے عمل کا بغور جائزہ لیا
ڈپٹی کمشنر ننکانہ محمد تسلیم اختر راو نے وزیر اعلی پنجاب کے مثالی منصوبوں بارے ممبران اسمبلییز کو بریفنگ دی
حکومت پنجاب کی جانب سے ضلع ننکانہ صاحب کو 23 ہزار سے زائد کسانوں کی رجسٹریشن کا ٹارگٹ دیا گیا ہے۔بریفنگ
ضلعی انتظامیہ نے17 ہزار سے زائد کسانوں کی رجسٹریشن کا عمل مکمل کر لیا۔ڈی سی ننکانہ
ضلع ننکانہ کے 04 ہزار سے زائد زمینداروں میں کسان کارڈز تقسیم کیے جا چکے ہیں۔ڈپٹی کمشنر ننکانہ
ممبر قومی و صوبائی اسمبلی نے کسان کارڈز اور ہمت کارڈز کی تقسیم کے پراسس کا تفصیلی جائزہ لیا
ممبران اسمبلیز نے سرکاری دفاتر میں کسانوں اور معذور افراد کو دی جانے والی سہولیات کا بغور جائزہ بھی لیا
ممبر قومی و صوبائی اسمبلی نے سرکاری دفاتر میں موجود کسانوں اور معذور افراد میں کارڈز تقسیم کیے
اسسٹنٹ کمشنر ننکانہ وجیہہ ثمرین ، ڈپٹی ڈائریکٹر زراعت ، ڈپٹی ڈائریکٹر سوشل ویلفیئر سمیت دیگر افسران بھی موجود
وزیر اعلی پنجاب کی جانب سے زراعت کے شعبہ کی ترقی کے لیے کسان کارڈز کا اجراء انقلابی اقدام ہے۔ممبر قومی اسمبلی ڈاکٹر شذرہ منصب
موجودہ حکومت کا ویژن کسانوں کو معاشی طور پر مضبوط بنانا ہے۔ممبر قومی اسمبلی
کسان پاکستان کی ترقی کا ضامن ہے ، کسان خوشحال ہو گا تو پاکستان خوشحال ہو گا۔ڈاکٹر شذرہ منصب علی خان
کسان کسی بھی ملک کی معاشی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ممبر صوبائی اسمبلی آغا علی حیدر خان
ضلع ننکانہ کو ابتک 1 ہزار سے زائد معذور افراد کی درخواستیں موصول ہوئیں
حکومت پنجاب کی جانب سے ضلعی انتظامیہ کو 8 سو سے زائد معذور افراد کے ہمت کارڈز موصول ہو چکے
ضلع ننکانہ صاحب کے 2 سو سے زائد معذور افراد میں ہمت کارڈز تقسیم کیے جا چکے ہیں
معذور افراد میں امدادی رقوم کی تقسیم وزیر اعلی پنجاب کا انسان دوست اور غریب پرور مثالی اقدام ہے۔ممبر قومی اسمبلی ڈاکٹر شذرہ منصب علی خان کھرل
پنجاب کی تاریخ میں پہلی مرتبہ معذور افراد میں مالی امداد کی جا رہی ہے۔ممبر صوبائی اسمبلی آغا علی حیدر خان
ضلعی انتظامیہ کی جانب معذور افراد کو بلاتفریق اور باعزت طریقے سے رقوم کی تقسیم کا سلسلہ جاری ہے۔ممبر صوبائی اسمبلی
حکومت پنجاب کی جانب سے رجسٹرڈ معذور افراد کو 10 ہزار 5 سو روپے کی سہ ماہی قسط جاری کی جائیگی۔آغا علی حیدر خان
تمام رجسٹرڈ معذور افراد ہر تین ماہ بعد اپنے ہمت اے ٹی ایم کارڈز کے ذریعے کسی بھی بینک سے امدادی رقوم حاصل کر سکیں گے۔ممبر صوبائی اسمبلی
0 notes
Text
ذمہ دارانہ صحافت کو اصل خطرہ کس سے؟
چلیں مان لیتے ہیں کہ پنجاب حکومت کا میڈیا کے متعلق بنایا گیا قانون کالا ہے اور اسی بنیاد پر صحافتی تنظیموں نے اسے مسترد کر دیا۔ لیکن کیا یہ حقیقت نہیں کہ میڈیا اور سوشل میڈیا کے ہاتھوں کسی کی عزت محفوظ نہیں، جھوٹ بہتان تراشی اور فیک نیوز ہمارے میڈیا بالخصوص سوشل میڈیا کا معمول بن چکا۔ ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر جھوٹے الزامات لگانا، کسی کی پگڑی اچھالنا، دوسروں پر غداری اور گستاخی تک کے سنگین الزامات لگانا، دوسروں کی زندگیوں تک کو خطرہ میں ڈالنا کیا یہ ہم نہیں کرتے رہے۔ ایسا کرنے والوں کے خلاف کیا کارروائی ہوئی؟ ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر فتنہ انگیزی کرنے والے کتنوں کو سزائیں دی گئیں؟ کس طرح ٹی وی چینلز نے دوسرے ٹی وی چینلز اور صحافیوں کے خلاف جھوٹ کی بنیاد پر مہمات چلائیں، صحافیوں نے صحافیوں پر غداری کے فتوے لگائے، گستاخی تک کے الزامات لگائے لیکن کسی کے خلاف کوئی ایکشن نہ ہوا۔ ایسا کیوں ہے کہ برطانیہ میں انہی الزامات پر ہمارے ہی ٹی وی چینلز اور صحافیوں پر جرمانے عائد کیے گئے جس پر نہ کسی نے آزادی رائے کی بات کی اور نہ ہی آزادی صحافت کیلئے خطرہ محسوس کیا۔
جہاں تک سوشل میڈیا کا تعلق ہے تو اُس نے تو تمام حدیں پار کر دیں۔ کسی کو گالی دینا ہی اس کی آزادی ہے؟ کسی پر سنگین سے سنگین الزام لگایا جائے تو اس پر بھی کوئی پوچھ گچھ نہیں؟جو دل میں آئے کہہ دو چاہے کسی کے بھی متعلق ہو۔ جھوٹی اطلاعات یعنی فیک نیوز بنا بنا کر پھیلائی جاتی ہیں، ٹرولنگ اور بہتان تراشی کی بنیاد پر ٹرینڈز چلانا کھیل بن چکا ہے۔ گستاخانہ مواد بھی سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلایا جاتا ہے، ملک دشمنی کی بھی حدیں پار کی جاتی ہیں لیکن جب کسی کے خلاف حکومت ایکشن لیتی ہے تو شور مچ جاتا ہے کہ آزادی رائے پر حملہ ہو گیا۔ صحافتی تنظیموں سے م��را سو��ل ہے کہ جو کچھ میڈیا اور سوشل میڈیا کے متعلق میں نے اوپر لکھا کیا ایسا ہی نہیں ہو رہا یا ہوتا رہا؟ اگر یہ سچ ہے تو پھر صحافتی تنظیموں نے جو کچھ میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے غلط ہو رہا ہے اور جس کا شکار میڈیا کے افراد خود بھی ہیں، اسے روکنے کیلئے کیا اقدامات کیے؟
جب ہم ذمہ دارانہ صحافت کو پروموٹ کرنے کیلئے خود اپنی ذمہ داری محسوس نہیں کریں گے، جب ہم سوشل میڈیا یا میڈیا کو استعمال کر کے بہتان تراشی اور فتنہ انگیزی کرنے والوں کے احتساب کی بجائے اگر خود قانون کی گرفت میں آتے ہیں تو ہم اسے آزادی رائے اور آزادی صحافت کا مقدمہ بنا کر پیش کریں گے تو پھر جو کچھ غلط ہو رہا ہے وہ درست کیسے ہو گا۔ جب ہم اپنی ذمہ داری محسوس نہیں کریں گے تو پھر حکومتوں کو موقع ملے گا کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق میڈیا اور سوشل میڈیا کے متعلق قوانین بنا دیں۔ اور پھر جب کوئی بھی حکومت میڈیا سے متعلق کوئی قانون بناتی ہے یا بنانے پر غور کرتی ہے تو اُسے آزادی صحافت اور آزادی رائے پر حملہ سمجھا جاتا ہے۔ سیاستدانوں کا تو یہ وطیرہ رہا ہے کہ جو حکومت میں ہو ں تووہ میڈیا کے متعلق قانون میں تبدیلی چاہتے ہیں جبکہ وہی جب اپوزیشن میں ہوں تو میڈیا کے ساتھ یکجہتی کیلئے کھڑے ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حکومت میڈیا پر قدغنیں لگانا چاہ رہی ہے۔
وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے چند سال پہلے تحریک انصاف کی حکومت کے دور میں بنائے جانے والے میڈیا سے متعلق قانون کے حوالے سے جو کہا تھا اُس کی وڈیو ٹی وی چینلز پر چلائی گئی۔ کل جو وہ کہہ رہی تھیں آج وہ اُس کا الٹ کر رہی ہیں جبکہ تحریک انصاف اب اپوزیشن میں ہونے کی بنیاد پر میڈیا تنظیموں کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان کر رہی ہے۔ سیاست کے اس کھیل پر اعتراض اپنی جگہ لیکن میری صحافتی تنظیموں سے درخواست ہے کہ وہ میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلائے جانے والے جھوٹ، فیک نیوز، فتنہ انگیزی وغیرہ کے خلاف نہ صرف اپنی آواز اُٹھائیں بلکہ موجودہ قوانین میں اگر کوئی کمی کسر ہے تو اُسے دور کرنے کا مطالبہ کریں تاکہ ذمہ دارانہ صحافت کو جو خطرہ فیک نیوز اور فتنہ پھیلانے والوں کی طرف سے ہے اُس کے آگے بند باندھا جا سکے۔
انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes