#موجودہ حکومت
Explore tagged Tumblr posts
Text
فچ نے موجودہ حکومت 18ماہ قائم رہنے کی پیشگوئی کردی
معاشی درجہ بندی کے ادارے فچ نے موجودہ حکومت صرف 18ماہ تک قائم رہنے کی پیشگوئی کردی۔ فچ کی رپورٹ کے مطابق موجودہ حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ مل کر ساری معاشی اصلاحات کرے گی،اگر موجودہ حکومت ختم ہوئی پاکستان میں ٹیکنوکریٹ کی حکومت آئے گی۔ پاکستان کے فروری کے الیکشن میں آزاد امیدواروں کو بڑی کامیابی ملی،جیتے والے آزاد امیدوار کو جیل میں قید بانی پی ٹی آئی کی حمایت حاصل تھی،پاکستان کے شہروں میں…
0 notes
Text
حرم مکی میں مسعی (سعی کی کرنے کی جگہ) کی توسیع کا منصوبہ
مکہ مکرمہ میں مسجد الحرام میں مسعی (سعی کی کرنے کی جگہ) کے توسیعی منصوبے کے نتیجے میں اب اس کی کُل منزلوں کی تعداد 4 ہو گئی ہے جن کا مجموعی رقبہ 87 ہزار مربع میٹر سے تجاوز کر چکا ہے۔ منصوبے کے ایک ذمہ دار کا کہنا ہے کہ "رواں سال رمضان المبارک میں مطاف کے میزانائن کو پُل کے ذریعے مسعی کے میزانائن سے ملا دیا گیا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ معذور افراد کے لیے داخل ہونے کے دو راستے ہیں۔ مغربی سمت سے آنے والوں کے لیے "جسر شبیکہ" اور جنوبی سمت سے آنے والوں کے لیے "جسر جیاد" ہے۔ سعودی حکومت کی جانب سے حرم شریف کی نئی توسیع کے نتیجے میں ایک گھنٹے کے اندر مجموعی طور پر 1 لاکھ 18 ہزار افراد سعی کرسکیں گے۔ مسعی کی بالائی منزلوں تک پہنچنے کے لیے خودکار متحرک زینوں اور لفٹوں کے علاوہ تین پُل بھی موجود ہیں۔
اس سلسلے میں معتمرین نے مسعی کی نئی توسیع پر مسرت و افتخار کے ملے جلے جذبات کا اظہار کیا۔ ایک بزرگ معتمر کے مطابق سابق فرماں روا شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کے دور سے موجودہ خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے دور تک ہونے والی توسیعات قابل تحسین ہیں۔ ایک دوسرے معتمر نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ صفا اور مروہ کے درمیان چار منزلہ مسعی نے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو اپنے اندر سمو لیا ہے اور حالیہ توسیع کے بعد معتمرین کو سو فی صد راحت اور آرام میسر آرہا ہے۔ مسعی کے منصوبے کی عمارت اپنی تمام منزلوں، سعی اور دیگر خدمات کے علاقوں سمیت مجموعی طور پر تقریبا 1 لاکھ 25 ہزار مربع میٹر پر مشتمل ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکام، اژدہام کو انتہائی حد تک کم کرنے اور مناسک کی ادائیگی کے لیے نقل و حرکت کو آسان بنانے کی کس قدر خواہش رکھتے ہیں۔
بشکریہ العربیہ اردو
3 notes
·
View notes
Text
کاشغر' گوادر ریلوے لائن
28 اپریل 2023 کے اخبارات میں ایک بہت ہی اچھی خبر شایع ہوئی ہے‘ خبر کے مطابق ’’چین کے روڈ اور بیلٹ پروجیکٹ کے مہنگے ترین منصوبے کی فزیبیلٹی رپورٹ تیار کر لی گئی ہے‘ جس میں گوادر سے سنکیانگ تک 58 ارب ڈالر کے نئے ریل منصوبے کی تجویز دی گئی ہے‘ 1860 میل طویل ریلوے سسٹم گوادر کو سنکیانگ کے شہر کاشغر سے ملا دے گا‘‘۔ انگریز نے ہندوستان اور پاکستان کو جاتے ہوئے جو تحفے دیے‘ ان میں ریل سب سے بہترین ذریعہ سفر تھا۔ اب تو ہم ریلوے کے ساتھ ساتھ اس کی پٹڑیاں بھی کباڑ میں فروخت کر کے کھا چکے ہیں‘ معلوم نہیں ہمارا پیٹ کب بھرے گا؟ اب چین کے تعاون سے نئی ریلوے لائن اور موٹر وے کا چرچا ہے‘ جو چین کے مغربی صوبے سنکیانگ کے شہر کاشغر کو بحیرہ عرب کے دہانے پر واقع پاکستان کی بندر گاہ گوادر سے ملائے گی۔ چین سے آنے والی اس سڑک اور ریلوے لائن کا روٹ پاکستان میں کون سا ہونا چاہیے اس سلسلے میں مختلف فورموں پر بحث ہو رہی ہے‘ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے بھی اس پر کافی بحث کی ہے اور مختلف تجاویز پیش کی ہیں، اس سلسلے میں سب سے بہترین حل نواز شریف کے دور حکومت میں اس وقت کے چیئرمین ریلوے و چیئرمین واپڈا محترم شکیل درانی نے پیش کیا تھا، قارئین کی دلچسپی کے لیے یہ تجاویز پیش خدمت ہیں‘ وہ لکھتے ہیں کہ ’’ کاشغر سے گوادر تک ریلوے لائن اور شاہراہ‘ کی بہت زیادہ اسٹرٹیجک اور اقتصادی اہمیت ہو گی۔
کوہاٹ‘ بنوں‘ ڈیرہ اسماعیل ��ان‘ ڈیرہ غازی خان اور اندرون بلوچستان کے علاقوں کی دوسرے علاقوں کی بہ نسبت پسماندگی کی بڑی وجہ ریلوے لائن کا نہ ہونا بھی ہے۔ ضروری ہے کہ کاشغر سے گوادر تک ریلوے لائن اور سڑک کے روٹ کے لیے وہ علاقے منتخب کیے جائیں جو پسماندہ اور دور دراز واقع ہوں تاکہ ان علاقوں کو بھی ترقی کے ثمرات سے فائدہ اٹھانے کا موقع مل سکے۔ سنکیانگ کے شہر کاشغر سے آنے والا راستہ دو اطراف سے پاکستان میں داخل ہو سکتا ہے‘ یہ کاشغر کے نزدیک درہ کلیک ور درہ منٹاکا سے گزرے گی چونکہ یہ درے کاشغر کے نزدیک ہیں یا پھر یہ درہ خنجراب سے ہوکر آ سکتی ہے‘ اول ذکر درّے پرانے قافلوں کے راستے ہیں اور شاید ان کے ذریعے گلگت تک ایک متبادل راستہ بذریعہ غذر مل جائے گا‘ یہ راستہ آگے ملک کے باقی علاقوں کے ساتھ مل جائے گا اور یہ موجودہ قراقرم ہائی وے کے علاوہ ہو گا۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ دریائے سندھ کے دائیں کنارے پر انڈس ہائی وے نے پہلے سے ہی کراچی اور پشاور کے درمیان فاصلہ 300 میل کم کر دیا ہے‘ اس طرح نئی ریلوے لائن بھی پرانی کی نسبت چھوٹی ہو گی پرانی لائن کی مرمت اور سگنلنگ کے نظام کو بہتر کر کے اسپیڈ بڑھائی جا سکتی ہے‘ بجائے اس کے کہ نئی لائن بچھائی جائے‘ پرانی لائن کو لاہور سے پنڈی تک ڈبل کیا جائے اس سے اخراجات بھی کم ہوں گے‘ نئی ریلوے لائن کو کشمور سے آگے بلوچستان کے اندرونی علاقوں خضدار اور تربت وغیرہ سے گزار کر گوادر تک لایا جائے۔
کوئٹہ کے لیے موجودہ لائن بہتر رہے گی اور اس کو گوادر تک توسیع دی جائے تاکہ سیندک‘ریکوڈیک اور دوسرے علاقوں کی معدنیات کو برآمد کے لیے گوادر بندرگاہ تک لانے میں آسانی ہو ۔ تربت‘ پنچ گور‘ آواران‘ خاران اور خضدار کی پسماندگی کا اندازہ ان لوگوں کو ہو سکتا ہے جنھوں نے یہ علاقے خود دیکھے ہوں یہ علاقے پاکستان کا حصہ ہیں اور ریاست کی طرف سے بہتر سلوک کے مستحق ہیں، دریائے سندھ کے داہنے کنارے پر واقع انڈس ہائی وے آج کل افغانستان کی درآمدی اور برآمدی تجارت کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ بنوں میرعلی روڈ آگے سرحد پر واقع غلام خان کسٹم پوسٹ سے جا ملتی ہے۔ 2005 میں کی گئی انڈس ہائی وے کے ساتھ نئی ریلوے لائن کی فیزیبلٹی رپورٹ موجود ہے، اس سے استفادہ کیا جا سکتا ہے، اس ریلوے لائن کو افغانستان تک توسیع دی جا سکتی ہے‘ کوئٹہ چمن لائن بھی بہت مناسب ہے‘ دادو سے گوادر تک ریلوے لائن صرف پیسوں کا ضیاع ہو گا، گوادر سے کراچی تک کوسٹل ہائی وے اس بندرگاہ کی فوری ضروریات کے لیے کافی ہے۔ پاکستان میں بہت سے علاقے حکومتوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے پسماندہ رہ گئے ہیں ’اس لیے مستقبل میں جو بھی منصوبہ بنے اس کا ہدف پسماندہ علاقوں کی ترقی ہونا چائے‘‘۔
جمیل مرغز
بشکریہ ایکپریس نیوز
2 notes
·
View notes
Text
ڈاکٹر عافیہ بہت ظلم سہہ چکی
امریکی جیل میں 13 سال سے قید پاکستان کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے ان کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کی ڈھائی گھنٹے طویل ملاقات ہوئی۔ خبروں کے مطابق یہ ملاقات ٹیکساس کے شہر فورورتھ کی جیل ایف ایم سی کارس ول میں ہوئی۔ ڈاکٹر عافیہ سے ان کے خاندان کے کسی فرد کی یہ پہلی ملاقات تھی۔ ڈاکٹر عافیہ کو لاپتہ ہوے 24 سال اور امریکی قید میں 13 سال کا طویل عرصہ گزر چکا لیکن اس کے باوجود دونوں بہنوں کو نہ ہاتھ ملانے دیا گیا نہ وہ گلے مل سکیں۔ جماعت اسلامی کے رہنما سینیٹر مشتاق احمد، جو ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کے ہمراہ امریکہ گئے ہوئے ہیں، نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا کہ دونوں بہنوں کی یہ ملاقات جیل کے ایک کمرے میں ہوئی لیکن دونوں کے درمیان موٹا شیشہ لگا تھا جس سے وہ ایک دوسرے کو دیکھ اور سن تو سکتی تھیں لیکن چھو نہیں سکتی تھیں۔ سفید اسکارف اور خاکی جیل ڈرس میں ملبوس عافیہ صدیقی سے اُن کی بہن کی ڈھائی گھنٹے کی اس ملاقات میں پہلے ایک گھنٹہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے روز روز اپنے اوپر گزرنے والی اذیت کی تفصیلات بتائیں۔ ڈاکٹر عافیہ اپنی بہن سے اپنی ماں (جو اُن کی قید کے دوران وفات پاچکی ہیں) اور اپنے بچوں کے بارے میں پوچھتی رہیں اور کہا کہ ماں اور بچے اُنہیں ہر وقت یاد آتے ہیں۔
ڈاکٹر عافیہ کو اپنی ماں کی وفات کا علم نہیں ہے۔ امریکہ کی قید میں پاکستان کی اس بیٹی کے سامنے والے دانت جیل میں ہوئے حملے میں ضائع ہو چکے ہیں اور اُن کے سر پر لگنے والی ایک چوٹ کی وجہ سے انہیں سننے میں بھی مشکل پیش آ رہی تھی۔ سینیٹر مشتاق کے مطابق کل ڈاکٹر عافیہ سے اُن کی ڈاکٹر فوزیہ ا��ر کلائیو اسٹافورڈ اسمتھ سمیت جیل میں ملاقات ہو گی۔ اُنہوں نے ڈاکٹر فوزیہ کی (عافیہ صدیقی سے) ملاقات کا افسوسناک احوال سناتے ہوئے کہا کہ اگرچہ صورتحال تشویشناک ہے لیکن ملاقاتوں کا، بات چیت کاراستہ کھل گیا ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام آواز اُٹھائیں اور حکمرانوں کو مجبور کریں کہ وہ فوری اقدامات کر کے عافیہ صدیقی کی رہائی کا معاملہ امریکی حکومت کے ساتھ اُٹھائیں۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے اُن کی ملاقات کا یہ مختصر احوال پڑھ کر دل رنجیدہ ہو گیا۔ سوچ رہا ہوں کہ اُن افراد کے ضمیر پر کتنا بوجھ ہو گا جنہوں نے پاکستان کی اس بیٹی کو امریکہ کے حوالے کیا ،جہاں ایک نام نہاد مقدمے میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو اسی پچاسی سال کی سزا سنا دی گئی۔
یہ ظلم پرویزمشرف کے دور میں ہوا۔ پرویزمشرف کا انتقال ہو چکا ہے، جنہو ں نے اپنی کتاب میں تسلیم کیا کہ اُنہوں نے ڈالرز کے بدلے پاکستانیوں کو امریکہ کے حوالے کیا۔ امریکہ کے دباو میں اپنے شہریوں اور پاکستان کی ایک بیٹی کو امریکہ کے حوالے کرنے میں ایجنسیوں کے جن افراد کا کردار تھا وہ بھی آج کیا سوچتے ہوں گے۔؟ بڑی تعداد میں امریکہ کے حوالے کئے گئے پاکستانی جنہیں گوانتامو بے میں انتہائی مشکل حالات میں رکھا گیا تھا اُن میں سے کئی پاکستان واپس لوٹ چکے لیکن اس گھناونے کھیل میں شامل اُس وقت کے ہمارے ذمہ دار اور کرتا دھرتا اپنے رب کو کیا جواب دیں گے۔ نجانے کب تک ڈاکٹر عافیہ امریکی جیل میں پڑی رہیں گی۔ ہماری مختلف سیاسی جماعتیں یہ وعدہ کرتی رہیں کہ ڈاکٹر عافیہ کو پاکستان واپس لانے کیلئے امریکہ سے بات چیت کی جائے گی۔ اس دوران ن لیگ، تحریک انصاف اورپیپلز پارٹی کی حکومتیں آئیں لیکن ڈاکٹر عافیہ کی واپسی کیلئے کوئی سنجیدہ کوشش کبھی ہوتی دکھائی نہ دی۔ یہ موجودہ حکومت کی بھی ذمہ داری ہے کہ ڈاکٹر عافیہ کی پاکستان منتقلی کا مسئلہ امریکہ کے سامنے سنجیدگی سے اُٹھائے اور اُس وقت تک اس کیس کا پیچھا کرے جب تک کہ پاکستان کی اس بیٹی کی واپسی ممکن نہیں ہوتی۔ ڈاکٹر عافیہ پہلے ہی بہت ظلم سہہ چکی۔
انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ
2 notes
·
View notes
Text
پاکستان کی دو بنیادی خرابیاں
ہمیں ایک طرف معاشرتی طور پر انتہائی گراوٹ کا سامنا ہے تو دوسری طرف ہماری حکومت اور ریاست عوام سے متعلق اپنی ذمہ دریاں ادا کرنے میں مکمل طور پر ناکام دکھائی دیتی ہیں۔ اخلاقی گراوٹ کی وجہ سے ہم بحیثیت معاشرہ ہر قسم کی خرابیوں اور برائیوں کا شکار ہیں، کون سی برائی ایسی ہے جو ہم میں موجودہ نہیں۔ جھوٹ، فراڈ، دھوکہ، ملاوٹ، رشوت، سفارش اور ایسی ایسی اخلاقی برائیاں کہ گننا مشکل ہو چکا۔ حکومتی اور ریاستی مشینری اتنی کرپٹ اور نااہل ہو چکی کہ کسی بھی سرکاری محکمے کا نام لے لیں کوئی اپنا کام ایمانداری اور ذمہ داری سے ادا نہیں کرتا جس کی وجہ سے عوام کی سہولت اور فلاح کیلئے قائم کیے گئے ان اداروں میں سروس ڈیلوری کی بجائے عوام کو دھکے کھانے پر مجبور کیا جاتا ہے اور کوئی کام رشوت اور سفارش کے بغیر نہیں ہوتا۔ ان سرکاری محکموں میں بیٹھے سرکاری ملازم جائز سے جائز کام پر بھی عوام کو رُلاتے ہیں، ان کی عزت نفس کو مجروح کیا جاتا ہے۔ سرکاری ملازمین اپنی ڈیوٹی کو ایمانداری سے ادا کرنے کی بجائے ایسے کام کرتے ہیں جیسے عوام پر احسان کر رہے ہوں۔
ہمارے معاشرے اور حکومت سے متعلق ان دو بنیادی خرابیوں (اخلاقی و معاشرتی گراوٹ اور حکومتی و ریاستی مشینری کی ناکامی) کے بارے میں جس سے بات کریں سب مانتے ہیں کہ یہ بہت بڑی خرابیاں ہیں۔ سیاسی جماعتیں اور حکومتیں بھی یہ تسلیم کرتی ہیں لیکن کوئی بھی حکومت، کوئی بھی بڑی سیاسی جماعت ان دو بنیادی خرابیوں کو ٹھیک کرنے کیلئے کچھ نہیں کر رہی۔ ��ب معاشرتی و اخلاقی گراوٹ کو روکنے کی کوئی تدبیر نہیں کی جائے گی تو پھر اس کا نتیجہ ہمارے ہاں مزید معاشرتی خرابیوں اور نئی نئی اخلاقی برائیوں کی صورت نکلے گا اور یہی کچھ یہاں ہو رہا ہے۔ اگر ریاست اور حکومت سرکاری وانتظامی مشینری کو اپنی بنیادی ذمہ داری ایمانداری کے ساتھ سر انجام دینے میں دلچسپی نہیں لے گی تو نہ یہاں عوام کو کوئی ریلیف مل سکتا ہے، نہ ہی ملک و قوم کی ترقی ممکن ہے۔ معاشرتی بگاڑ کو روکنے کیلئے افراد اور معاشرہ کی کردار سازی کیلئے کام کرنا پڑے گا جس میں تعلیمی اداروں، مسجد و منبر، میڈیا اور سیاسی جماعتوں کا کردار بہت اہم ہے جس کیلئے حکومت کو بنیادی رول ادا کرنا پڑے گا۔
یعنی حکومت کو ایک طرف تعلیم کے ساتھ تربیت کو نصاب اور نظام تعلیم کا بنیادی حصہ بنانا پڑے گا تو دوسری طرف میڈیا، مذہبی طبقات، سیاسی جماعتوں کے ذریعے معاشرے کی کردار سازی پر فوکس کرنا پڑے گا۔ اس سلسلے میں وفاقی و صوبائی حکومتوں کو جنگی بنیادوں پر کام کرنا چاہیے لیکن ایسا ہو نہیں رہا۔ وفاق کی سطح پر موجودہ سیکریٹری تعلیم اپنی ذاتی دلچسپی کی وجہ سے کردار سازی کیلئے اسلام آباد کے سرکاری تعلیمی اداروں میں کچھ کام کر رہے ہیں لیکن یہ وہ بڑا چیلنج ہے جس کیلئے وزیر اعظم اور وزرائے اعلی کو ذاتی دلچسپی لینی چاہیے۔ اگر تعلیم کے ساتھ تربیت بھی ہو گی، معاشرے کی کردار سازی پر کام ہو رہا ہو گا تو معاشرتی و اخلاقی برائیوں میں خاطر خواہ کمی کے ساتھ ہم بہتر قوم بن جائیں گے۔ حکومت و ریاست سے متعلق ناکامیوں اور نااہلیوں کا اگر ادراک کرنا ہے تو اُس کیلئے سرکاری مشینری کو اپنی ذاتی پسند، ناپسند کی بجائے میرٹ اوراہلیت کی بنیاد پر ایک نظام کے تحت چلایا جائے۔ یہ نظام ہماری سرکاری فائلوں میں تو موجود ہے لیکن سفارش، اقربا پروری اور ذاتی پسند، ناپسند کی وجہ سے ہماری سرکاری مشینری مکمل سیاست زدہ ہو چکی جس کی وجہ سے ہم نااہل حکمرانی اور کرپشن کی وجہ سے دنیا میں بدنام ہیں۔
وزیر اعظم اور وزرائے اعلیٰ کیلئے بہتر طرز حکمرانی کا بڑا آسان نسخہ ہے کہ وہ سول سروس اور پولیس یعنی سرکاری مشینری کو غیر سیاسی کر دیں، ہر تعیناتی میرٹ اور قابلیت کی بنیاد پر کی جائے اور یہ کام اُنہی اداروں کو کرنا چاہیے جو اس مقصد کیلئے بنائے گئے۔ اس سے ہر سرکاری محکمہ کے کام میں بہتری آئے گی۔ حکمران اگر عوام کو ریلیف دینا چاہتے ہیں تو سرکاری مشینری کو غیر سیاسی کر کے صرف فوکس اس نکتہ پر رکھیں کہ کون سا سرکاری ادارہ اور کون سا سرکاری افسر اپنی ذمہ داری اور ڈیوٹی ادا کرنے میں ناکام ہے۔ جب سرکاری ادارے اپنا کام کریں گے تو عوام خوش ہونگے اور ملک ترقی کرے گا۔
انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
0 notes
Text
غیرملکی قرض، مال مفت دل بے رحم
موجودہ حکومت سے ہرگز یہ توقع نہ تھی کہ IMF سے قرضہ منظورہوتے ہی وہ بے دریغ اپنے اخراجات بڑھا دے گی۔ وہ صبح وشام عوام سے ہمدردی اور انھیں ریلیف بہم پہنچانے کے دعوے توبہت کرتی رہتی ہے لیکن عملاً اس نے انھیں کوئی ایسا بڑا ریلیف نہیں پہنچایا ہے جیسا اس نے اپنے وزرا اور ارکان پارلیمنٹ کو صرف ایک جھٹکے میں پہنچا دیا ہے۔ ہمارے وزیر خزانہ ہر بار عوام کو یہ تسلیاں دیتے دکھائی دیتے ہیں کہ آپ اگلے چند ماہ میں حکومتی اخراجات کم ہوتے دیکھیں گے۔ اُن کے مطابق حکومت جسے اپنے غریب عوام کا بہت خیال ہے وہ بہت جلد سرکاری اخراجات کم کرے گی، مگر ہم نے پچھلے چند ماہ میں اخراجات کم ہوتے تو کیا بلکہ بے دریغ بڑھتے ہوئے ہی دیکھے ہیں۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے نام نہاد مسیحا عوام سے تو ہر وقت قربانی دینے کی درخواستیں کرتے ہیں لیکن خود وہ کسی بھی قسم کی قربانی دینے کو تیار نہیں ہیں۔ یہ سارے کے سارے خود ساختہ عوامی غم خوار اللہ کے فضل سے کسی غریب طبقہ سے تعلق نہیں رکھتے ہیں۔
اِن میں بہت سے بڑے بڑے جاگیردار اور سرمایہ دار لوگ ہیں۔ پشت درپشت اِن کی جاگیریں ان کی اولادوں میں بٹتی رہی ہیں۔ اُن کی زمینوں کا ہی تعین کیا جائے تو تقریباً آدھا پاکستان انھی لوگوں کی ملکیت ہے۔ اِنکے گھروں میں وہ فاقے نہیں ہو رہے جن سے ہمارے بیشتر عوام دوچار ہیں۔ ملک میں جب بھی کوئی بحران آتا ہے تو یہ سب لوگ ترک وطن کر کے دیار غیر میں جا بستے ہیں۔ جن لوگوں سے یہ ووٹ لے کر پارلیمنٹ کے منتخب ارکان بنتے ہیں انھیں ہی برے وقت میں تنہا چھوڑ جاتے ہیں۔ وطن عزیز کے معرض وجود میں آنے کے دن سے لے کر آج تک اس ملک میں جب جب کوئی بحران آیا ہے قربانیاں صرف غریب عوام نے ہی دی ہیں۔مالی مشکلات پیدا کرنے کے اصل ذمے دار یہی لوگ ہیں جب کہ قربانیاں عوام سے مانگی جاتی ہیں۔ ٹیکسوں کی بھرمار اور اشیائے خورونوش کی گرانی عوام کو برداشت کرنا پڑتی ہے۔ IMF کی کڑی شرطوں کا سارا بوجھ عوام پر ڈالا جاتا ہے اور عالمی مالی ادارے جب کوئی قرضہ منظور کر دیتے ہیں تو شاہانہ خرچ اِنہی خیر خواہوں کے شروع ہو جاتے ہیں۔
ہماری سمجھ میں نہیں آرہا کہ ارکان پارلیمنٹ اور حکومتی اہل کاروں کی تنخواہوں میں یکمشت اتنا بڑا اضافہ کرنے کی بھلا ایسی کیا بڑی ضرورت آن پڑی تھی کہ پچاس فیصد نہیں سو فیصد نہیں چار سو سے لے کر نو سو فیصدی تک ایک ہی چھلانگ میں بڑھا دی گئی ہیں۔ جب کہ ان بھاری تنخواہوں کے علاوہ دیگر مراعات اور بھی دی جارہی ہیں۔ ان کے گھر کے اخراجات بھی حکومت کے خزانوں سے پورے کیے جاتے ہیں۔ بجلی، گیس اور ٹیلیفون تک کے بلوں کی ادائیگی عوام کے پیسوں سے کی جاتی ہے۔ پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں حاضری ��گانے کے الاؤنس بھی اس کے علاوہ ملتے ہیں۔ پارلیمنٹ کی کیفے ٹیریا میں انھیں لنچ اور ڈنر بھی بہت ہی ارزاں داموں میں ملا کرتے ہیں۔ اِنکے سفری اخراجات بھی عوام کے ٹیکسوں سے پورے کیے جاتے ہیں، پھر کیا وجہ ہے کہ انھیں اتنی بڑی بڑی تنخواہوں سے نوازا گیا ہے۔ IMF نے ابھی صرف ایک ملین ڈالر ہی دیے ہیں اور ہمارے مسیحاؤں نے فوراً ہی اس میں سے اپنا حصہ سمیٹ لیا ہے، مگر جب یہ قرض ادا کرنے کی بات ہو گی تو عوام سے وصول کیا جائے گا۔
حکومت نے تو یہ کام کر کے اپنے ساتھیوں کی دلجوئی کر دی ہے مگر ہمیں یہ توقع نہ تھی کہ اپوزیشن کے ارکان اس کی اس حرکت پر خاموش رہیںگے۔ پاکستان تحریک انصاف جو ہر حکومتی کام پر زبردست تنقید کرتی دکھائی دیتی ہے اس معاملے میں مکمل خاموشی طاری کیے ہوئے ہے۔ اس بہتی گنگا میں اس نے بھی اشنان کرنے میں بڑی راحت محسوس کی ہے اور مال غنیمت سمجھ کر جو آتا ہے ہنسی خوشی قبول کر لیا ہے۔ یہاں اسے اپنے غریب عوام کا ذرہ بھر بھی خیال نہیں آیا۔ کوئی منحنی سی آواز بھی پارلیمنٹ میں بلند نہیں کی۔ غریب عوام کو ابھی تک اس حکومت سے کوئی بڑا ریلیف نہیں ملا ہے۔ مہنگائی کی کمی کے جو دعوے کیے جارہے ہیں تو زمینی حقائق کے بالکل برخلاف ہیں، کسی شئے کی قیمت کم نہیں ہوئی ہے۔ جس آٹے کی قیمت کم کیے جانے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے وہ ایک بار پھر پرانی قیمتوں کو پہنچ چکا ہے۔ عوام کی سب بڑی مشکل بجلی اورگیس کے بلز ہیں۔اس مد میں انھیں ابھی تک کوئی ریلیف نہیں ملا ہے۔
سردیوں میں صرف تین ماہ کے لیے جو رعایتی سیل حکومت نے لگائی ہے۔ وہ بھی حیران کن ہے کہ جتنی زیادہ بجلی خرچ کرو گے اتنا زیادہ ریلیف ملے گا۔ یعنی گزشتہ برس اِن تین سال میں عوام نے جتنی بجلی خرچ کی ہے اس سے زیادہ اگر وہ اس سال اِن تین مہینوں میں خرچ کریں گے تو حکومت اس اضافی بجلی پر کچھ ریلیف فراہم کریگی۔ سبحان اللہ سردیوں میں عام عوام ویسے ہی کم بجلی خرچ کرتے ہیں انھیں زیادہ بجلی خرچ کرنے پر اکسایا جا رہا ہے۔ یہ ریلیف بھی انھی امیروں کو ملے گا جو سردیوں میں الیکٹرک ہیٹر چلاتے ہیں۔ غریب عوام کو کچھ نہیں ملے گا۔ اس نام نہاد ریلیف کی تشہیراخبارات میں بڑے بڑے اشتہاروں کے ذریعے کی جارہی ہے جنھیں دیکھ کر عوام قطعاً خوش نہیں ہو رہے بلکہ نالاں اور سیخ پا ہو رہے ہیں ۔ خدارا عقل کے ناخن لیں اورصحیح معنوں میں عوام کو ریلیف بہم پہنچانے کی کوشش کریں۔ غیرملکی قرضوں سے انھیں نجات دیں اور کچھ دنوں کے لیے سکھ کا سانس لینے دیں۔ ابھی معیشت پوری طرح بحال بھی نہیں ہوئی ہے اور قرض کو مال مفت سمجھ کر اپنے ہی لوگوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ اسے اس بے رحمی سے خرچ کیا جارہا ہے جیسے پھر کبھی موقع نہیں ملے گا۔ کسی بھی رکن پارلیمنٹ کا سویا ہوا ضمیراس شاہانہ اخراجات پر نہیں جاگا۔
IMF جو حکومتی ہر اقدام پر کڑی نظر رکھتی ہے وہ بھی نجانے کیوں اس غیر ضروری فراخدلی پر خاموش ہے۔ وہ دراصل چاہتی بھی یہی ہے کہ یہ ملک اور اس کے عوام اسی طرح قرض لینے کے لیے ہمیشہ اس کے محتاج بنے رہیں اور وہ چند ملین قرض دینے کے بہانے ان پر پابندیاں لگا��ی رہے۔ وہ ہرگز نہیں چاہتی کہ ہم اس کے چنگل سے آزاد ہو کر خود مختار اور خود کفیل ہو پائیں۔ اس کی ہشت پالی گرفت ہمیں کبھی بھی اپنے شکنجہ سے نکلنے نہیں دے گی۔ یہ سی پیک اور معدنیات کے بڑے بڑے ذخائر سب فریب نظر ہیں۔ ہم کبھی بھی اِن سے فیضیاب نہیں ہو پائیںگے۔ ہمیں برباد کرنے کے لیے تو اُن کے پاس بہت سے آپشن ہیں۔ کبھی سیاسی افراتفری اور کبھی منتخب حکومت کی اچانک تبدیلی۔ کبھی ایران کے ساتھ تجارتی معاہدوں پر پابندیاں تو کبھی سی پیک رول بیک کرنے کی کوششیں۔ اسی طرح اور ممالک نے بھی ایسے ہی کئی MOU سائن کیے ہیں لیکن وہ بھی صرف کاغذوں پر موجود ہیں ،عملاً کوئی قدم بھی ابھی نہیں بڑھایا ہے۔ حالات جب اتنے شکستہ اور برے ہوں تو ہمیں اپنا ہاتھ بھی ہولہ رکھنا چاہیے۔ پڑوسی ملک بھارت کے زرمبادلہ کے ذخائر ہم سے کہیں زیادہ ہیں لیکن وہاں کے پارلیمنٹرین کی تنخواہیں اور مراعات ہم سے بہت ہی کم ہیں۔ یہی سوچ کر ہمارے حکمرانوں کو احساس کرنا چاہیے کہ ہم کیونکر اتنے شاہانہ خرچ کے مرتکب ہو رہے ہیں۔
ڈاکٹر منصور نورانی
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
Text
پاکستان کے تعلیمی نظام کا المیہ ۔ سرکاری اسکولوں کی بدحالی ۔ پرائیوٹ اسکولوں کی مہنگائی
پاکستان میں تعلیم ایک بنیادی حق ہونے کے باوجود، سرکاری اور پرائیویٹ اسکولوں میں موجود مختلف مسائل اس کے فروغ کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ سرکاری اسکولوں کی حالت بہت ہی تشویش ناک ہے، جبکہ پرائیویٹ اسکولوں میں مہنگائی کی شرح نے متوسط طبقے کو تعلیم سے محروم کر دیا ہے۔ دونوں کی موجودہ صورتحال اور ان کے اثرات پر ایک نظر ڈالنا ضروری ہے تاکہ ہم پاکستان کے تعلیمی نظام کی اصلاح کی طرف قدم بڑھا سکیں۔
سرکاری اسکولوں کا بدحال نظام ۔

پاکستان میں سرکاری اسکولوں کا نظام اکثر نظرانداز کیا جاتا ہے اور ان کی حالت دن بدن خراب ہوتی جا رہی ہے۔ ان اسکولوں میں تعلیمی سہولتوں کی کمی، ناقص انفراسٹرکچر، اور اساتذہ کی غیر حاضری ایک معمول بن چکا ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ "گھوسٹ اساتذہ" کا ہے، جنہیں تنخواہ تو پوری ملتی ہے مگر وہ اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں کوتاہی برتتے ہیں۔ ایسے اساتذہ کے ہوتے ہوئے، بچوں کو معیاری تعلیم دینے کا تصور بھی ممکن نہیں رہتا۔ ان اساتذہ کی غیر حاضری اور لاپرواہی کے سبب تعلیمی معیار نہ صرف متاثر ہوتا ہے بلکہ بچوں کی تعلیم کا پورا نظام ہی داؤ پر لگ جاتا ہے۔
سرکاری اسکولوں میں انفراسٹرکچر کا فقدان بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ کلاس رومز کی حالت انتہائی خراب ہے، فرنیچر ٹوٹا پھوٹا ہے، اور تدریسی مواد کی کمی کا سامنا ہے۔ اس کے علاوہ، اسکولوں میں بنیادی سہولتیں جیسے پانی، ٹوائلٹس، اور صحت کی سہولتیں بھی اکثر غائب ہوتی ہیں۔ ایسے ماحول میں بچوں کا تعلیم حاصل کرنا اور کامیاب ہونا ایک چیلنج بن جاتا ہے۔
پرائیویٹ اسکولوں کی مہنگائی ۔

دوسری طرف، پاکستان کے پرائیویٹ اسکولوں میں تعلیم کا معیار تو بہتر ہو سکتا ہے، لیکن ان اسکولوں کی فیسیں اتنی زیادہ ہیں کہ وہ متوسط طبقے کے لئے قابل برداشت نہیں رہیں۔ ماہانہ فیسوں کی قیمتیں اتنی بڑھ چکی ہیں کہ ایک خاندان کے لئے اپنے بچوں کو اچھے اسکول میں پڑھانا تقریباً ناممکن ہوگیا ہے۔ اس کے علاوہ، کتابوں کی قیمتیں بھی بے تحاشہ بڑھ گئی ہیں۔ والدین کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ مخصوص دکانوں سے ہی کتابیں اور یونیفارم خریدیں، جس سے ان پر مزید مالی بوجھ پڑتا ہے۔
پرائیویٹ اسکولوں کا ایک اور مسئلہ ان اسکولوں میں ہونے والے مختلف فنکشنز اور تقریبات ہیں۔ ہر ماہ کسی نہ کسی دن کو "چلڈرن ڈے"، "مدرز ڈے"، "فادرز ڈے" یا کسی اور تہوار کے طور پر منایا جاتا ہے، اور ان تقریبات کے لیے والدین سے ہزاروں روپے کی رقم وصول کی جاتی ہے۔ ان فنکشنز کا مقصد بچوں کی تفریح ہے، مگر اس کے بدلے والدین پر مزید مالی بوجھ ڈالا جاتا ہے، جو کہ پہلے ہی مہنگائی کے ہاتھوں پریشان ہیں۔
سرکاری اور پرائیویٹ اسکولوں کی
اصلاح کی ضرورت ۔
پاکستان کے تعلیمی نظام کی اصلاح کے لئے دونوں سرکاری اور پرائیویٹ اسکولوں میں بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ سرکاری اسکولوں میں اساتذہ کی حاضری کو یقینی بنانے کے لیے سخت نگرانی اور چیک اینڈ بیلنس کا نظام ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ، اسکولوں میں بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کے لیے حکومت کو زیادہ فنڈز مختص کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بچے بہتر ماحول میں تعلیم حاصل کر سکیں۔
دوسری جانب، پرائیویٹ اسکولوں کی فیسوں میں کمی لانے کے لیے حکومت کو مناسب پالیسیز وضع کرنی چاہئیں تاکہ وہ صرف مالی منفعت کی بجائے تعلیمی معیار پر بھی توجہ دیں۔ اسکولوں کی فیسیں اس حد تک بڑھائی جائیں کہ وہ متوسط طبقے کے لوگوں کے لئے قابل برداشت ہوں اور بچوں کو معیاری تعلیم مل سکے۔ اسکولوں کی جانب سے غیر ضروری تقریبات اور فنکشنز پر خرچ کی جانے والی رقم کو کم کرنا بھی ضروری ہے۔
نتیجہ
پاکستان میں تعلیمی نظام کا بحران دونوں سرکاری اور پرائیویٹ اسکولوں کی ناکامی کی وجہ سے ہے۔ جہاں ایک طرف سرکاری اسکولوں کی حالت زار ہے، وہاں دوسری طرف پرائیویٹ اسکولوں کی مہنگائی نے بچوں کی تعلیم کو صرف امیروں تک محدود کر دیا ہے۔ ان مسائل کا حل صرف اس وقت ممکن ہے جب حکومت اور نجی ادارے مل کر تعلیمی اصلاحات کی طرف قدم بڑھائیں۔ اگر ہم نے اپنے تعلیمی نظام کو بہتر نہ کیا تو پاکستان کا مستقبل خطرے میں پڑ جائے گا۔
تحریر : فاطمہ نسیم
تاریخ : 16 دسمبر 2024
0 notes
Text
خیبرپختونخوا میں گھروں کی تعمیر کیلئے 15 لاکھ روپے تک بلاسود قرضہ، مفاہمتی یادداشت پر دستخط ہو گئے
(ویب ڈیسک) کم آمدن والے افراد کو معیاری رہائش کی فراہمی کیلئے خیبرپختونخوا حکومت کا شاندار منصوبہ، احساس اپنا گھر اسکیم کے تحت محکمہ ہاؤسنگ اور بینک آف خیبر کے درمیان مفاہمتی یادداشت پر دستخط ہو گئے۔ کم آمدن افراد کو نئے گھر کی تعمیر یا موجودہ گھر کی مرمت کیلئے 15 لاکھ روپے تک کے بلاد سود قرضے دیے جائیں گے،وزیراعلیٰ ہاؤس میں تقریب کا انعقاد کیا گیا، اس اسکیم پر 4 ارب روپے کی لاگت آئے گی،قرضوں کی…
0 notes
Text
فری بلوچستان موومنٹ نے ایران کیلئے جمہوری عبوری منصوبے کاروڈ میپ پیش کردیا۔ ترجمہ: ادارہ ہمگام
https://humgaam.net/?p=99577
فری بلوچستان موومنٹ نے قومی رہنما حیربیار مری کی سرابراہی میں ایران کے لیے جمہوری عبوری منصوبہ کا جامعہ روڈ میپ پیش کیا ہے ۔ یہ منصوبہ فری بلوچستان موومنٹ نے ایران میں موجود دیگر نسلی گروہوں، جیسے کرد، اہوازی، اور آذری اقوام کے سامنے پیش کیا ہے۔ اس منصوبے کو ان سب نے متفقہ طور پر منظور کر لیا ہے۔ فی الحال، یہ واحد منصوبہ ہے جس پر وسیع پیمانے پر تمام غیرفارسی اقوام نے اتفاق کیا ہے۔
موجودہ ایرانی تھیوکریٹک (مذہبی) حکومت کو فارسیوں اور غیر فارسیوں دونوں کی طرف سے عوامی مزاحمت کا سامنا ہے۔ کردستان اور بلوچستان جیسے علاقوں میں موجود مسلح قومی مزاحمتی گروہ حکومت کا تختہ الٹنے اور اپنی آزادی دوبارہ حاصل کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ لیکن تصور کریں کہ اگر حکومت آج گر جائے تو اس کے بعد کیا ہوگا؟
کیا بلوچ، کرد، عرب، اور ترک ملا رجیم کے بعد بھی ایران کے ساتھ تنازعے میں الجھ جائیں گے؟ کیا نئی حکومت بلوچستان، کردستان، الاحواز، اور ترک آذربائیجان میں آزادی کی عوامی تحریکوں کو دبانے کے لیے فوجی طاقت کا استعمال کرے گی؟کیا ایران دوبارہ ایک طویل مدتی تنازعے میں الجھ جائے گا؟ کیا فارسی ، غیر فارسی علاقوں میں نسلی تطہیر کرتے ہوئے وہاں فارسیوں کی آبادکاری کریں گے ؟”
اس مسئلے کو حل کرنے اور ایران میں داخلی تنازعے سے بچنے کا بہترین راستہ جمہوری عبوری منصوبہ ہے۔ ��نصوبے کے تفاصیل درج ہیں:
ایران کے لیے جمہوری عبوری منصوبہ کا مکمل متن:
تعارف
ایران، جسے مغربی د��یا میں 1935 تک فارس یا فارسی سلطنت کے نام سے جانا جاتا تھا، ایک جدید نوآبادیاتی جغرافیائی و سیاسی تشکیل ہے۔ اس کی موجودہ سرحدوں میں فارس، بلوچ، کرد، ترک، عرب، اور دیگر تاریخی اقوام کے علاقے شامل ہیں۔ “ایرانی” اور “فارسی” کے اصطلاحات کا اکثر مترادف کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، مگر علمِ بشریات کے مطابق، ایرانی قومیت اور ایرانی لوگوں کے بطور نسلی-لسانی گروہ کے مختلف تشریحات ہیں۔
جدید ایرانی اقوام میں بلوچ، کرد، لور، مازندرانی، اوسیٹین، تات، تاجک، تالش، پشتون، پامیری، فارسی، یغنوبی، وخی، اور گیلک شامل ہیں۔ یہ اقوام ایرانی سطح مرتفع (Iranian plateau)پر آباد ہیں، جو ایک جغرافیائی و سیاسی خطہ ہے اور جدید افغانستان، آذربائیجان، ایران، عراق (عراقی کردستان)، پاکستان (خیبر پختونخوا اور مقبوضہ بلوچستان) اور ترکمانستان کے کچھ حصوں پر مشتمل ہے۔
ایران/فارس
تاریخی طور پر، فارس قدیم فارسی سلطنت پر حکومت کرتے رہے، یہاں تک کہ سکندر اعظم نے ان کو شکست دے کر فتح کر لیا۔ سکندر کی وفات کے بعد، اس کی سلطنت اس کے جرنیلوں کےحکمرانی میں آ گئی۔ بعد ازاں، قدیم دور میں مختلف فارسی اور غیر فارسی خاندانوں نے اس خطے پر حکومت کی۔ تاہم، عربوں کی فتح کے بعد، یہ مسلسل غیر فارسی حکمرانوں کے زیرِ اثر رہا، یہاں تک کہ 20ویں صدی کے اوائل میں ایک فوجی افسر رضا میرپنج نے برطانوی حمایت کے ساتھ اقتدار پر قبضہ کیا اور قاجار سلطنت کو تحلیل کر دیا، جو کہ ایک ترک خاندان کی حکومت تھی۔
رضا میرپنج، جو بعد میں رضا پہلوی کہلایا، نے مغربی طاقتوں کی مدد سے موجودہ ایران کو مرکزیت دی اور غیر فارسی اقوام کی خودمختاری اور آزادی کو دبا دیا۔ رضا پہلوی نے فارسی قوم پرستی کو فروغ دیا اور دعویٰ کیا کہ یہ قدیم فارسی سلطنت کا تسلسل ہے۔ رضا اور اس کے جانشین محمد رضا نے موجودہ ایران میں مرکزیت Centralization))اور فارسیانے (Persianisation) کی پالیسیاں اپنائیں۔ ان پالیسیوں کا نتیجہ شہری بدامنی، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، اور سیاسی جبر کی صورت میں برآمد ہوا، جو بالآخر ایک انقلاب پر منتج ہوا جسے شیعہ ملاؤں نے اپنے قبضے میں لے لیا، کیونکہ اس وقت مذہبی گروہ سیاسی مخالفین کے مقابلے میں زیادہ منظم تھے۔
سال 1979 کے بعد سے، ایرانی ملا ایران پر حکومت کر رہے ہیں۔ یہ لوگ مذہبی انتہا پسند ہونے کے باوجود پہلوی خاندان کی طرح قوم پرست ہیں۔ انہوں نے غیر فارسی اقوام کے خلاف فارسیانے کی پالیسیوں کو جاری رکھا اور بلوچ، عرب، ترک، اور کرد اقوام کی نسلی تطہیر میں ملوث رہے۔
ایران جدید دور میں کبھی ایک واحد ملک نہیں رہا۔ ایران کا اتحاد ہمیشہ طاقت کے زور پر قائم کیا گیا، سامراجی مقاصد کے تحت جو فارسیوں کو نہ صرف فارسی سرزمین بلکہ ایران کے ان تمام علاقوں کا حکمران تصور کرتے تھے جو تاریخی طور پر مختلف اقوام کا وطن رہی ہیں۔ سامراج کا دور بہت پہلے ختم ہو چکا ہے۔ فارسیوں کے غیر جمہوری تجربے کے بدولت ہی آج ملّا اقتدار میں ہیں۔ لہٰذا، ایران کے مسئلے کے کسی بھی طویل مدتی حل کے لیے بنیادی مسئلے کو حل کرنا ہوگا، یعنی اقوام کے دور میں ایک سلطنت کی تشکیل۔
مسئلے کی بنیادی وجہ کا حل
ایران میں بحران کی بنیادی وجہ مختلف اقوام پر ایران کو بطور ملک مسلط کرنا ہے، جن کا اس کا حصہ بننے کا ارادہ نہیں، یا جن کی اپنی منفرد ریاستوں کی تاریخ ہے، یا جو ماضی کی ناانصافیوں کی وجہ سے محسوس کرتے ہیں کہ وہ آزاد اقوام بنے بغیر ترقی یا کامیابی حاصل نہیں کر سکتے، اپنے قوانین خود نہیں بنا سکتے۔
مثال کے طور پر، کچھ فارسی جمہوریہ (Republic) کے حق میں ہیں، جبکہ دیگر بادشاہت کی حمایت کرتے ہیں۔ اگر فارسیوں کی اکثریت بادشاہت کا انتخاب کرے تو بلوچوں، کردوں، عربوں، اور ترکوں کو کیوں مجبور کیا جائے کہ وہ ایک فارسی بادشاہ کو اپنا حکمران تسلیم کریں؟ 1979 کے انقلاب کے دوران فارسی اکثریت نے خمینی کی حمایت کی اور اس طرح مذہبی حکومت کو جائز قرار دیا۔ ایران کے بنیادی مسائل میں سے ایک یہ ہے کہ آیا فارس دیگر اقوام پر اپنی مرضی اور سیاسی فیصلے مسلط کریں، یا صرف اپنی قوم کے فیصلوں اور سیاسی ذمہ داریوں کے پابند ہوں۔ اگر ایک قوم کا دوسری قوم پر اپنی مرضی مسلط کرنا غلط ہے تو غیر فارسی اقوام کو فارسیوں کے فیصلوں کے نتائج کیوں بھگتنا پڑیں، جیسا کہ رضا شاہ کے 1921 کے بغاوت یا 1979 کے انقلاب میں ہوا، جو غیر فارسی اقوام کے لیے تباہی اور بدحالی کا باعث بنی۔
اسی طرح بلوچ، کرد، ترک، عرب اور دیگر اقوام کو بھی اپنے قومی حقِ خودارادیت کا حق حاصل ہونا چاہیے اور انہیں اپنے فیصلوں اور غلطیوں کی ذمہ داری آزاد اقوام کی حیثیت سے خود اٹھانی چاہیے۔ زیادہ تر جغرافیائی اقوام، یعنی وہ جو اپنے آبائی علاقے میں آباد ہیں اور اپنے تاریخی علاقوں میں اکثریت میں ہیں، اپنی ریاستیں قائم کرنے کی خواہش رکھتی ہیں۔ یہ اقوام آزاد ریاستوں جیسے بلوچستان، کردستان، ترک آذربائیجان، اور الاحواز کے قیام کی جدوجہد کر رہی ہیں۔
جمہوری حل ان اقوام کو ان کے قومی حقوق دینے کے ساتھ ساتھ ان کی آزادی کی امنگوں کا احترام کرے گا۔ لیکن یہ حقوق ایک مقررہ مدت کے اندر نافذ کیے جانے چاہییں تاکہ افراتفری، بدامنی اور عدم استحکام سے بچا جا سکے۔ اس طریقے سے ایران میں غیر فارسی اقوام کے قومی مسائل کو جمہوری اصولوں اور طریقوں کے تحت حل کرنے کی راہ ہموار ہوگی۔
جمہوری راستے سے قومی آزادی کا حل
موجودہ ایرانی تھیوکریٹک (مذہبی) حکومت کو فارسیوں اور غیر فارسیوں دونوں کی طرف سے عوامی مزاحمت کا سامنا ہے۔ کردستان اور بلوچستان جیسے علاقوں میں موجود مسلح قومی مزاحمتی گروہ حکومت کا تختہ الٹنے اور اپنی آزادی دوبارہ حاصل کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ لیکن تصور کریں کہ اگر حکومت آج گر جائے تو اس کے بعد کیا ہوگا؟
کیا بلوچ، کرد، عرب، اور ترک ملا رجیم کے بعد بھی ایران کے ساتھ تنازعے میں الجھ جائیں گے؟ کیا نئی حکومت بلوچستان، کردستان، الاحواز، اور ترک آذربائیجان میں آزادی کی عوامی تحریکوں کو دبانے کے لیے فوجی طاقت کا استعمال کرے گی؟کیا ایران دوبارہ ایک طویل مدتی تنازعے میں الجھ جائے گا؟ کیا فارسی ، غیر فارسی علاقوں میں نسلی تطہیر کرتے ہوئے وہاں فارسیوں کی آبادکاری کریں گے؟
ایران میں اس مسئلے کا بہترین حل اور داخلی تنازعے سے بچنے کا راستہ ایک جمہوری عبوری منصوبے کے ذریعے ممکن ہے۔ اس منصوبے کے تحت، ایرانی/فارسی قبضے میں رہنے والی اقوام فوری طور پر علیحدگی کا اعلان نہیں کریں گی، اور نہ ہی فارسیوں کو پہلوی خاندان کی طرح ایران پر غلبہ حاصل کرنے کی اجازت دی جائے گی۔ یہ مفاہمت تمام فریقین کے لیے فائدہ مند ہوگی اور امن، جمہوریت، آزادی، اور قومی آزادی کے حصول کا راستہ ہموار کرے گی۔
یہ جمہوری عبوری منصوبہ ایک معاہدے کی صورت میں ہوگا جس کے لیے بین الاقوامی ضامن موجود ہوں گے۔ اگر فارس یا کوئی اور گروہ اس منصوبے پر عملدرآمد میں رکاوٹ ڈالے تو غیر فارسی اقوام کو یکطرفہ آزادی کا قانونی حق حاصل ہوگا۔
پہلا مرحلہ: کونسل کا قیام اور اختیارات کی منتقلی
عبوری کونسل ایک انتظامی ادارے کے طور پر قائم کی جائے گی جو ایران کی عبوری حکومت کے طور پر کام کرے گی۔ اس کا مقصد موجودہ حکومت کو گرانا، مابعد ملا رجیم ایران کو چلانا، اور عبوری منصوبے پر عملدرآمد کرنا ہوگا۔ یہ کونسل اپوزیشن کے اکثریتی گروہوں کے درمیان معاہدے کے ذریعے تشکیل دی جائے گی، جو جغرافیائی بنیادوں پر اقوام اور فارسیوں کی بھی نمائندگی کرےگی۔
کونسل کا کوئی بھی فیصلہ، قرارداد، یا منصوبہ جو قومی حق خودارادیت، قومی آزادی، ریاستی خودمختاری کے حق، یا بین الاقوامی معاہدہ برائے شہری و سیاسی حقوق کے اصولوں کے منافی ہو، غیر قانونی اور کالعدم سمجھا جائے گا۔ عبوری کونسل کے قیام کی بنیادی شرط یہی ہوگی کہ وہ عبوری منصوبے پر عملدرآمد کو یقینی بنائے اور اقوام کو جمہوری طریقے سے اپنے قومی مستقبل کا تعین کرنے کا موقع فراہم کرے۔
کونسل میں ہر جغرافیائی قوم کو مساوی نمائندگی دی جائے گی، خواہ ان کی آبادی کا حجم کچھ بھی ہو۔ نمائندے ان سیاسی تحریکوں کے ذریعے مقرر کیے جائیں گے جو موجودہ ملا حکومت کو گرانے کے لیے کوشاں ہیں۔ تمام اقوام ایران کو آزاد کرانے اورموجودہ حکومت کو ختم کرنے کے لیے مسلح اور سیاسی مزاحمت کا حصہ بن کر مشترکہ جدوجہد کریں گی۔
ہر تاریخی لحاظ سے علاقہ دار قوم اپنی سرزمین کو ملا حکومت اور اس کی افواج سے آزاد کرانے کی ذمہ داری خود اٹھائے گی۔ عبوری کونسل ان اقوام کے اتحاد سے وجود میں آئے گی جو موجودہ حکومت کو ختم کرنے اور جمہوری نظام قائم کرنے کے لیے مل کر کام کریں گی۔
مثالی طور پر (ideally) ، عبوری کونسل حکومت کے خاتمے سے پہلے قائم کی جانی چاہیے۔ یہ کونسل سوئس فیڈرل کونسل کے ماڈل پر کام کرے گی، جس میں تمام اراکین اجتماعی طور پر ریاست اور ایران کی عبوری حکومت کے سربراہ کے طور پر خدمات انجام دیں گے۔ عبوری دور میں انتظامی اختیارات تمام اقوام کے درمیان مساوی طور پر تقسیم ہوں گے، اور تمام اقتصادی، سیاسی، اور فوجی فیصلے شامل اقوام کی متفقہ رضامندی سے کیے جائیں گے۔
ایران کی موجودہ حکومت 18 وزارتوں پر مشتمل ہے۔ عبوری دور میں ان وزارتوں میں سے بیشتر میں جامع اصلاحات کی جائیں گی اور ان کے اختیارات جزوی طور پر صوبوں کو منتقل کیے جائیں گے۔ عبوری کونسل صرف ان وزارتوں کو مرکزی کنٹرول میں رکھے گی جو ریاست کے بنیادی انتظامی امور کے لیے ضروری ہوں گی۔ ان میں دفاع، توانائی، معیشت، انصاف، پٹرولیم، اور خارجہ امور شامل ہیں، جو تیسرے مرحلے کی تکمیل تک مرکزی کنٹرول میں رہیں گی۔
صوبائی صلاحیت سازی کو فروغ دینے کے لیے، تمام وزارتیں سوائے خارجہ امور کے اپنے صوبائی دفاتر قائم کریں گی تاکہ وفاقی، کنفیڈرل، یا آزادی کی جانب ہموار منتقلی ممکن ہو سکے۔ وزارت خارجہ بین الاقوامی تعاون کو فروغ دینے اور عبوری منصوبے کے نفاذ میں کونسل کی مدد پر توجہ مرکوز کرے گی۔
تیسرے مرحلے کے بعد، صوبائی حکومتوں کو اپنے غیر ملکی نمائندہ دفاتر قائم کرنے کا اختیار حاصل ہوگا، جیسا کہ مغربی ممالک میں اسکاٹ لینڈ، کیوبیک، اور کیٹالونیا جیسے خودمختار علاقوں میں موجود ہے۔
انتظامی اختیارات حاصل کرنے کے فوراً بعد، عبوری کونسل اختیارات کی فوری منتقلی کے عمل کا آغاز کرے گی۔ یہ عمل صوبوں کو اپنی آئین سازی میں مدد فراہم کرے گا، جو تیسرے مرحلے کے دوران نافذ کی جائے گی۔ صوبائی گورنر اور اہم شعبوں کے سربراہوں کو 36 ماہ کی مدت کے لیے عبوری کونسل اور تحریکوں کے نمائندوں کے ذریعے مشترکہ طور پر مقرر کیا جائے گا۔
فی الحال، ایران ایک انتہائی مرکزیت پسند ریاست ہے، جہاں تمام بڑے فیصلے تہران میں کیے جاتے ہیں۔ عبوری کونسل گورننس کے عمل کو غیر مرکزیت دے کر زیادہ تر مرکزی وزارتوں کو تہران سے صوبوں میں منتقل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ہر شعبے کی سربراہی ایک صوبائی وزیر کرے گا، جبکہ صوبے کے سربراہ کو گورنر کے طور پر مقرر کیا جائے گا۔ گورنر صوبے کا انتظامی اختیار رکھے گا، اور تمام شعبوں کے سربراہان صوبائی کابینہ تشکیل دیں گے۔
موجودہ صوبوں کو درج ذیل شعبوں کے انتظامی اختیارات دیے جائیں گے: • زراعت، جنگلات، اور ماہی گیری • سرحدی تحفظ • تعلیم • ماحولیات • ایمرجنسی خدمات • صحت اور سماجی دیکھ بھال • رہائش • قانون نافذ کرنے والے ادارے • مقامی حکومت • شاہراہیں اور نقل و حمل • صفائی ستھرائی اور فضلے کا انتظام
دوسرا مرحلہ: ایران کی تنظیمِ نو اندرونی سرحدوں کی نئی تشکیل اور اکائیوں کا قیام
حکومت کے خاتمے کے بعد اندرونی سرحدوں کے مسئلے پر توجہ دی جائے گی۔ تاریخی دستاویزات، نقشے، آبادی کے اعداد و شمار، اور دیگر متعلقہ عوامل کی بنیاد پر ایران کی اندرونی سرحدوں کو 36 ماہ کے اندر دوبارہ ترتیب دیا جائے گا۔ ایران میں موجودہ صوبائی اور انتظامی تقسیم غیر فارسی اقوام کے علاقوں کو تقسیم کرنے اور انہیں فارسی اکثریتی صوبوں میں ضم کرنے کے لیے جان بوجھ کر ترتیب دی گئی تھی، جو گزشتہ ایک صدی کے دوران گہری منصوبہ بندی کے تحت کی گئی حدبندی کی حکمت عملی تھی۔
کسی بھی جمہوری حل کے لیے، خواہ وہ وفاقی نظام ہو، کنفیڈرل نظام ہو، یا آزادی، کے لیے اندرونی سرحدوں کا مسئلہ حل کرنا اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ اس مسئلے کو حل کیے بغیر ایران میں کوئی جمہوری حل مؤثر طریقے سے نافذ نہیں کیا جا سکتا۔ اگر صوبائی سرحدیں متنازع رہیں تو وفاقیت کمزور پڑ جائے گی، اور علاقوں کی تقسیم اور ان کے فارسی خطوں میں انضمام سے جڑی تاریخی ناانصافیاں جوں کی توں برقرار رہیں گی۔کنفیڈریشن اس صورت میں ناممکن ہو گی اگر شریک اکائیاں تاریخی وطنوں پر مبنی نہ ہوں، جس کے نتیجے میں غیر فارسی قوموں کی بڑی تعداد فارسی حکمرانی کے ماتحت رہ جائے گی۔ اس اہم مسئلے کو نظرانداز کرنا خطے کو مسلسل بےچینی، نسلی کشیدگی، اور طویل تنازعات کی طرف دھکیل سکتی ہے۔
سب سے پہلے، عبوری کونسل غیر فارسی اقوام کو متاثر کرنے والی جغرافیائی حدود کے مسئلے کو ترجیح دے گی۔ 36 ماہ کے اندر ان علاقوں کو ان اقوام کے سپرد کیا جائے گا، جنہیں استعماری دور میں فارسی اکثریتی علاقوں میں ضم کیا گیا تھا۔ ایران کے صوبوں کو جغرافیائی طور پر خود مختار قومی خطوں میں سیاسی طور پر از سر نو منظم کیا جائے گا، تاکہ ہر قوم کے علاقے کو ایک واحد خطے میں متحد کیا جا سکے۔
یہ خطے عبوری ایران کے جزو کے طور پر تسلیم کیے جائیں گے، اور عبوری دور کے دوران ہر خطہ ایک مساوی اکائی کے طور پر تسلیم کیا جائے گا۔ یہ اکائیاں جغرافیائی طور پر متعین اقوام پر مبنی ہوں گی، جیسے عربستان -الاحواز، آذربائیجان، بلوچستان، گیلان، کردستان، فارس اور دیگر۔
کونسل ہر خطے کو اپنے قانونی، مالیاتی، سیاسی، اور فوجی ادارے قائم کرنے میں مدد فراہم کرے گی اور آزادانہ و منصفانہ انتخابات کے انعقاد کے لیے بین الاقوامی نگرانی میں معاونت کرے گی۔ ہر خطہ اپنا آئین، عملیاتی شعبہ، پارلیمنٹ، اور انتظامی ڈھانچہ قائم کرے گا۔
اگر 36 ماہ کے اندر کچھ علاقوں پر سرحدی تنازعات حل نہ ہو سکیں، تو کونسل مخلوط قومی آبادی والے ان متنازعہ علاقوں کا نظم و نسق سنبھالے گی تاکہ استحکام، امن، اور ہمسایہ خطوں کے درمیان مثبت تعلقات کو یقینی بنایا جا سکے۔ کونسل، جو تمام قومیتوں کی نمائندگی کرے گی، ان علاقوں پر اس وقت تک اختیار رکھے گی جب تک کہ مسئلہ ریزیلیوشن کمیشن کے ذریعے حل نہ ہو جائے۔
اگر کمیشن 12 ماہ کے اندر تنازعہ حل کرنے میں ناکام رہے تو ملوث فریقین کو عدم جارحیت معاہدوں پر دستخط کرنے ہونگے۔ اس کے بعد کونسل متنازعہ علاقے کا انتظام کسی غیرجانبدار ادارے یا اداروں کو منتقل کرے گی۔ دعوے دار فریقین اس منتقلی کو روک نہیں سکیں گے، لیکن انہیں ممکنہ منتظم یا منتظمین پر باہمی اتفاق کرنا ہوگا۔
غیر جانبدار انتظامیہ کے دوران تنازعہ کسی بین الاقوامی عدالت یا ثالثی ٹریبونل کے سپرد کیا جائے گا۔ غیر جانبدار ادارے اس وقت تک علاقے کا انتظام سنبھالے رکھیں گے جب تک کہ حتمی فیصلہ نہیں آ جاتا۔ اس کے بعد علاقے کا اختیار عدالت یا ٹریبونل کے فیصلے کے مطابق متعلقہ خطے یا خطوں کو منتقل کر دیا جائے گا۔
تیسرا مرحلہ: خود مختار اکائیاں اور انتخابات
جب سرحدی تنازعات حل ہو جائیں اور ایران کو خود مختار اکائیوں میں سیاسی طور پر از سر نو منظم کیا جائے، تو عبوری کونسل بین الاقوامی برادری کی مدد اور نگرانی کے ساتھ ایک غیر جانبدار الیکشن کمیشن قائم کرے گی۔ یہ الیکشن کمیشن جس کی حمایت اور نگرانی بین الاقوامی برادری بھی کرے گی ، علاقائی پارلیمانوں اور انتظامیہ کے لیے آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے منصوبے، تیاری، اور انعقاد کا ذمہ دار ہوگا۔
عبوری دور میں، ہر خود مختار خطہ اپنے آئین، انتظامیہ اور قانون ساز ادارے کے ساتھ خود مختار طور پر کام کرے گا۔ خطے کے آئین میں انتخاب کا طریقہ، قانون سازوں کی مدت، قانون ساز اداروں کے اختیارات، انتظامیہ کے اختیارات، اور علاقائی گورننس کے لیے دیگر سیاسی ڈھانچے کی وضاحت ہوگی۔
چوتھا مرحلہ: آزادی، کنفیڈریشن، یا فیڈریشن
جب ایران کو تاریخی قومی سرحدوں پر مبنی خودمختار اکائیوں میں دوبارہ منظم کیا جائے گا، اور ان اکائیوں کو اپنے اداروں اور آئین کے ساتھ بااختیار بنا دیا جائے گا، تب چوتھے مرحلے کا آغاز ہوگا۔
پہلا ریفرنڈم
تیسرے مرحلے کی تکمیل کے 24 ماہ بعد، فارس کے علاوہ ہر خطہ یہ فیصلہ کرنے کے لیے ایک ریفرنڈم منعقد کرے گا کہ آیا وہ ایک آزاد ریاست بننا چاہتا ہے یا ایران/فارس کے ساتھ سیاسی اتحاد میں رہنا چاہتا ہے۔ ریفرنڈم کا سوال واضح طور پر مرتب کیا جائے گا، اور ہر خطے کے مستقل رہائشیوں اور مقامی باشندوں کو دو غیر مبہم انتخاب دیے جائیں گے۔ ہر خطے میں الگ ریفرنڈم منعقد ہوگا، تاکہ وہ اپنا سیاسی مستقبل آزادانہ طور پر طے کر سکیں۔
تاہم، وہ فارسی جو غیر فارسی اقوام کے علاقوں میں جان بوجھ کر ان خطوں کی آبادیاتی ساخت کو تبدیل کرنے کی پالیسی کے تحت آباد کیے گئے، ان ریفرنڈمز میں ووٹ دینے کے اہل نہیں ہوں گے۔
نتائج کا نفاذ
جو علاقے آزادی کے حق میں ووٹ دیں گے، انہیں خودمختاری دی جائے گی اور ایران کی طرف سے باضابطہ طور پر آزاد ریاستوں کے طور پر تسلیم کیا جائے گا۔ اس کے بعد، مالیات، جائیداد، اور اثاثوں سے متعلق مسائل پر بات چیت کی جائے گی۔ ان مذاکرات میں ایران/فارس اور نئی آزاد خودمختار ریاستوں کے درمیان ریاستی تعلقات کا قیام بھی شامل ہوگا۔
دوسرا ریفرنڈم
پہلے ریفرنڈم کے 12 ماہ بعد دوسرا ریفرنڈم منعقد ہوگا۔ اس ووٹ میں، خودمختار خطے جنہوں نے آزادی کو مسترد کیا اور ایران کے ساتھ سیاسی اتحاد کا انتخاب کیا، جمہوری عمل کے ذریعے ملک کے سیاسی نظام کا تعین کریں گے۔ فارس کی خودمختار ریاست بھی اس ریفرنڈم میں شریک ہوگی۔
سیاسی اتحاد کا انتخاب کرنے والے ہر خطے کی آبادی فیصلہ کرے گی کہ آیا ایران کو وفاقی (Federal) یا کنفیڈرل (Confederal) نظام اپنانا چاہیے۔
نتیجہ نافذ کرنے کا عمل
دوسرے ریفرنڈم کے بعد، ایک آئینی کمیشن بین الاقوامی نگرانی کے تحت قائم کیا جائے گا۔ وہ تمام سیاسی جماعتیں، جن کے خطوں نے ایران کے ساتھ اتحاد کا انتخاب کیا ہوگا، نئے آئین کی تشکیل میں شریک ہوں گی۔ آئین ریفرنڈم کے نتائج کی بنیاد پر تیار کیا جائے گا۔
اگر اکثریت وفاقیت کے حق میں ووٹ دے، تو کمیشن وفاقی آئین کا مسودہ تیار کرے گا۔ اس کے برعکس، اگر اکثریت کنفیڈریشن کے حق میں ووٹ دے، تو کمیشن کنفیڈرل آئین کا مسودہ تیار کرے گا۔آئین کے مسودے کی تیاری کا عمل شفاف ہونا ضروری ہے، جس میں عوام کی شرکت اور قانونِ آئین کے بین الاقوامی ماہرین سے مشاورت شامل ہوگی۔ نئے آئین کے حتمی مسودے کا ان تمام خطوں کی آئینی اسمبلیوں سے منظور ہونا ضروری قرار پائے گا جنہوں نے ایران کے ساتھ سیاسی اتحاد کے لیے ووٹ دیا۔
ایران اور نئی آزاد ریاستوں میں قومی اقلیتوں کا تحفظ
ایران کی اندرونی تنظیمِ نو اور خودمختار قومی خطوں کے قیام کے بعد بھی قومی اقلیتوں سے متعلق چیلنجز موجود رہیں گے۔ ہر خودمختار قوم میں ناگزیر طور پر دیگر اقوام کی چھوٹی آبادی شامل ہوگی، جنہیں قومی اقلیتوں کا درجہ حاصل ہوگا۔ یہ وہ گروہ ہوں گے جو اپنی تاریخی سرزمینوں سے باہر رہ رہے ہوں گے، خواہ وہ نئی آزاد ریاستوں میں ہوں یا ایران کے اندر۔
یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ سیاسی سرحدوں کی از سرِ نو حد بندی کتنی ہی دانشمندانہ کیوں نہ ہو، نسلی یا قومی اقلیتوں سے متعلق پیچیدگیوں کو مکمل طور پر ختم نہیں کر سکتی۔ تمام فریقین خواہ وہ آزادی کا انتخاب کریں یا ایران کے ساتھ اتحاد میں رہیں کو قومی اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ایک معاہدے پر بات چیت اور اتفاق کرنا ہوگا۔
یہ کثیر الجہتی معاہدہ ان کی ثقافت، آزادی اور انسانی و شہری حقوق کے تحفظ کو مدنظر رکھتے ہوئے تیار کیا جائے گا۔ تجویز ہے کہ ایک جامع معاہدہ اور فریم ورک تیار کیا جائے، جو فریم ورک کنونشن فار دی پروٹیکشن آف نیشنل مائناریٹیز کے اصولوں کی بنیاد پر ہو۔
0 notes
Text
با تسلیمات ڈسٹرکٹ انفارمیشن آفس قصور
محکمہ تعلقات عامہ حکومت پنجاب
٭٭٭٭٭
ڈپٹی کمشنر کی ہدایات‘اسسٹنٹ کمشنرز کے ہسپتالوں اور شادی ہالوں کے دورے
ہسپتالوں میں طبی سہولیات اور شادیوں پر ون ڈش پر عملدرآمد کا جائزہ لیا‘خلاف ورزی پر شادی ہال کو بھاری جرمانہ عائد
قصور(07نومبر 2024ء)ڈپٹی کمشنر کی ہدایات کی روشنی میں اسسٹنٹ کمشنرز کے ہسپتالوں اور شادی ہالوں کے دورے‘ہسپتالوں میں طبی سہولیات اور شادیوں پر ون ڈش پر عملدرآمد کا جائزہ لیا‘خلاف ورزی پر شادی ہال کو بھاری جرمانہ عائد۔ اسسٹنٹ کمشنر تحصیل کوٹ رادھاکشن ڈاکٹر محمد انس سعید نے ٹی ایچ کیو ہسپتال کوٹ رادھاکشن اور اسسٹنٹ کمشنر قصور عطیہ عنایت مدنی نے رورل ہیلتھ سینٹر مصطفی آباد کا دورہ کر کے ڈاکٹرز و عملے کی حاضری، صفائی ستھرائی، میڈیسن کی دسیتابی اور مریضوں کو دی جانیوالی طبی سہولیات کا جائزہ لیا۔ مریضوں اور انکے لواحقین سے دستیاب سہولیات بارے بھی دریافت کیا۔ اس موقع پر اسسٹنٹ کمشنرز کا کہنا تھا کہ وزیر اعلی پنجاب مریم نوازشریف کے ویژن کے مطابق تمام سرکاری ہسپتالوں میں عوام کو صحت کی تمام سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنایا جا رہا ہے۔ علاوہ ازیں اسسٹنٹ کمشنر کوٹ رادھاکشن نے شادیوں پر ون ڈش کو چیک کرنے کیلئے مختلف شادی ہالوں کا بھی معائنہ کیا اور ون ڈش کے قانون پر عملدرآمد کا جائزہ لیا خلاف ورزی پر ایک شادی ہال کو بھاری جرمانہ عائد کیا۔
٭٭٭٭٭
ڈپٹی کمشنر کی ہدایات‘ڈسٹرکٹ اینٹا مالوجسٹ چوہدری محمد خرم ابراہیم کا مختلف علاقوں کا دورہ،
ڈینگی ٹیموں کی کارکردگی کو چیک کیا‘ڈینگی لاروا ملنے پر 1716افراد کو نوٹسز‘ 4پرائمسزسیل‘28افراد کیخلاف ایف آئی آرز درج
قصور(07نومبر 2024ء)ڈپٹی کمشنر کی ہدایات کی روشنی میں ضلع بھر میں ڈینگی تدارک سرگرمیاں تیز کر دی گئیں‘ڈسٹرکٹ اینٹا مالوجسٹ چوہدری محمد خرم ابراہیم کا مختلف علاقوں کا دورہ،ڈینگی سرویلنس ٹیموں کی کارکردگی کو چیک کیا‘ڈینگی لاروا ملنے پر 1716افراد کو نوٹسز‘ 4پرائمسزسیل جبکہ28افراد کیخلاف ایف آئی آرز درج۔ تفصیلات کیمطابق ڈینگی تدارک اور اسکی روک تھام کے حوالے سے گزشتہ ایک ماہ کی کارکردگی رپورٹ میں ڈسٹرکٹ اینٹا مالوجسٹ چوہدری محمد خرم ابراہیم نے ان ڈور اور آؤٹ ڈور ڈینگی سرویلنس ٹیموں کی کارکردگی اور مختلف مقامات پر ڈینگی سرویلنس کو چیک کیا تا ہم ڈینگی مچھر اور لاروا کی پیدائش کی جگہیں دریافت ہونے پر 1716افراد کو لیگل نوٹسز جاری کئے 28افراد کیخلاف مقدمات کا اندراج کروایا اور 4پرائمیسز کو کر دیا۔ ڈسٹرکٹ اینٹا مالوجسٹ نے آؤٹ ڈور اور ان ڈور ڈینگی سرویلنس ٹیموں کو مزید متحرک ہو کر کام کرنے کی ہدایت کی کیونکہ موجودہ موسم ڈینگی مچھر کی افزائش کیلئے ساز گار ہے۔انہوں نے شہریوں سے اپیل کی کہ وہ ڈینگی لاروا کی تلفی کو یقینی بنانے کیلئے ساتھ دیں اور اپنے گھروں کی چھتوں اور صحن کی صفائی ستھرائی کو یقینی بنائیں اور پانی جمع نہ ہونے دیں۔
٭٭٭٭٭
وزیراعلی پنجاب کی خصوصی ہدایات‘اسسٹنٹ کمشنر زکے عام مارکیٹوں کے دورے
اشیائے ضروریہ‘روٹی و نان کی قیمتوں اور وزن کو چیک کیا‘خلاف ورزیوں پر متعدد دوکانداروں کو جرمانے عائد
قصور(07نومبر 2024ء)وزیراعلی پنجاب مریم نواز شریف کے احکامات اور ڈپٹی کمشنر کی ہدایات پر اسسٹنٹ کمشنر زکے عام مارکیٹوں کے دورے‘اشیائے ضروریہ‘پھلوں، سبزیوں اور روٹی و نان کی قیمتوں اور وزن کو چیک کیا‘خلاف ورزیوں پر متعدد دوکانداروں کو بھاری جرمانے عائد۔ تفصیلات کے مطابق اسسٹنٹ کمشنر زقصور عطیہ عنایت مدنی، کمشنر کوٹ رادھاکشن ڈاکٹر محمد انس سعید، پتوکی ڈاکٹر مکرم سلطان اور چونیاں طلحہ انور نے اپنی اپنی تحصیلوں میں عام مارکیٹوں کا دورہ کر کے اشیائے ضروریہ، بیکری آئیٹمز، پھلوں، سبزیوں اور روٹی و نان کی قیمتوں اور وزن کو چیک کیا تاہم متعدد جگہوں پر خلاف ورزیوں کی صورت میں ذمہ داریوں کو بھاری جرمانے عائد کئے۔ اس موقع پر اسسٹنٹ کمشنرز کا کہنا تھا کہ اشیائے ضروریہ، پھلوں، سبزیوں��روٹی و نان اور بریڈ کی مقررکردہ قیمتوں کی خلاف ورزی کرنیوالے دوکانوں سے سختی سے نمٹا جائیگا اور انکے خلاف سخت قانونی کاروائی عمل میں لائی جائیگی۔
٭٭٭٭٭
0 notes
Text
حکومت سے مذاکرات کے باوجود عمران کی رہائی ممکن کیوں نہیں؟
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار انصار عباسی نے کہا ہے کہ اگر کسی کو یہ ��لط فہمی ہے کہ حکومت کے ساتھ مذاکرات کے نتیجے میں عمران خان جیل سے باہر آ پائیں گے تو اسے دور کر لے کیونکہ اس بات کا رتی بھر بھی امکان نہیں۔ اپنے تازہ تجزیے میں انصار عباسی کہتے ہیں کہ اگر کوئی یہ سوچ رہا ہے کہ حکومت اور تحریک انصاف کی قیادت کے مابین مذاکرات کے نتیجے میں موجودہ نظام میں کوئی بڑی تبدیلی آ جائے گی، اور عمران خان جیل…
0 notes
Text
نواز شریف کا نوحہ
بہت عرصے کے بعد نواز شریف پارلیمنٹ میں بولے۔ وہ بولے کم اور اپنے دل کا غم دو اشعار سُنا کر بیان کیا فرمایا کہ عدلیہ نے ہمیں اتنے دُکھ دیے ہیں کہ یہ شعر سُن لیں: ناز و انداز سے کہتے کہ جینا ہو گا زہر بھی دیتے ہیں تو کہتے ہیں کہ پینا ہو گا
جب میں پیتا ہوں تو کہتے ہیں کہ مرتا بھی نہیں اور جب میں مرتا ہوں تو کہتے ہیں کہ جینا ہو گا
26ویں آئینی ترمیم پاس ہو رہی تھی۔ عدلیہ کے یا تو پر کاٹے جا رہے تھے یا اُسے آئین کے دائرے میں لایا جا رہا تھا لیکن یہ حکومت اور اُس کے اتحادیوں کی جیت کا دن تھا۔ مہینوں کی تگ و دو کے بعد، مذاکرات کے ذریعے یا دھمکیوں کے راستے یا کچھ دو، کچھ لو کی پالیسی اختیار کر کے یا دو، چار ارکان کو خرید کر یا غائب کر کے حکومت نے اپنے اعداد پورے کر لیے تھے۔ حکومت کے لیے خوشی کا دن تھا ایسے میں حکومت کے روحانی باپ اپنے ماضی کے زخم کیوں کُرید رہے تھے۔ شعر وزن میں ہیں یا نہیں، حسبِ حال ہیں یا نہیں اس کا فیصلہ تو ادبی نقاد اور سیاسی مبصرین کر سکتے ہیں۔ عام دیکھنے والوں کو تو پرانی اُردو فلموں کے وہ سین یاد آ گئے جب ایک گھر میں بارات پہنچتی ہے، ڈولی اٹھنے والی ہوتی ہے اور دلہن کا ناکام عاشق ایک اُداس دُھن میں گانا گانے لگتا ہے۔
تین بار مُلک کے وزیر اعظم سے ناکام عاشق کا سفر نواز شریف نے عوام کی آنکھوں کے سامنے طے کیا ہے۔ اسٹیبلیشمنٹ نے بنایا پھر نکالا، پھر عوام نے بنایا مشرف نے نکالا پھر عوام نے بنایا عدلیہ نے نکالا، تو ظاہر ہے عدلیہ کو زہر دینے اور پھر جینے مرنے کے طعنے بنتے ہیں لیکن جس مُلک میں وہ چاہتے ہیں کہ عوام اُن کے غم کو سمجھیں اُسی مُلک میں اُن کے چھوٹے بھائی وزیراعظم ہیں، اُن کے سمدھی نائب وزیر اعظم ہیں، اُن کی بیٹی مُلک کے سب سے بڑے صوبے کی طاقتور وزیراعلیٰ ہیں پھر بھی ہم سے یہ گلہ ہے کہ دلدار نہیں۔ اُن کا غم اُس بزرگ کا غم لگتا ہے جو چار شادیوں اور چودہ بچوں کے بعد پوتے پوتیوں سے شکوہ کرتے پائے جاتے ہیں کہ مُجھے سچا پیار نہیں ملا۔ نواز شریف اور عمران خان: کرکٹ سے سیاست اور رفاقت سے عداوت تک کا سفر 7 فروری 2024 عمران خان اور نواز شریف: دونوں کی وہ مماثلت جو مٹ نہیں سکتی! 13 اپريل 2022 ’نواز شریف کو کوئی نہیں ہنسا سکتا‘ 19 مئ 2024 ایرانی مہمان اور ادب نواز شہباز شریف 24 اپريل 2024
پرانے بادشاہوں کو ہٹانے کے دو ہی طریقے تھے یا تختہِ دار یا قید خانہ، یا کبھی کبھی رحم دل بادشاہ اپنے سے پہلے والے بادشاہ کو مقدس مقامات کی زیارت کے لیے بھیج دیا کرتے تھے۔ پاکستان بادشاہت نہیں۔ پاکستان کے موجودہ حکمران نواز شریف کو اپنا اصلی باپ بھی مانتے ہیں، سیاسی بھی، روحانی بھی۔ اپنی جلاوطنی کے دنوں میں نواز شریف مقدس مقامات میں خوب عبادات کر چُکے ہیں۔ جب چاہیں پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر عوام کے ساتھ اپنا وژن، اپنے غم بھی بیان کر سکتے ہیں۔ جب دل کرے کسی منصوبے کے افتتاح کے لیے فیتہ کاٹنے یا اپنی بیٹی کا راج دیکھنے کے لیے بھی پہنچ سکتے ہیں۔ اب کیا ہی اچھا ہو کہ وہ اُس مُلک کے دورے پر نکلیں جس نے اُنھیں تین بار وزیراعظم مُنتخب کیا، قید بھی کیا، دل بھی توڑا جلاوطن بھی کیا لیکن بالاخر اُن کو روحانی حکمران مان لیا۔ چونکہ اُن کے پاس فی الحال کوئی سرکاری عہدہ نہیں تو وہ جس سے چاہیں مل سکتے ہیں۔
ان کا غم تو ہم سُنتے آئے ہیں، وہ اور کچھ نہیں تو اپنی رعایا کا غم سُننے ہی نکل پڑیں، کبھی کسی بلوچ خاندان کے احتجاجی کیمپ میں جا کر بیٹھ جائیں، کبھی جا کر ماہ رنگ بلوچ کو تسلّی دیں کہ ریاست نے میرے ساتھ بھی ظلم کیا تھا، میں نے اپنے لیے انصاف کی جنگ لڑی، اب میں آپ کے ساتھ چلتا ہوں۔ کبھی منظور پشتین کو مشورہ دیں کہ ہاں کبھی کبھی عسکری اداروں کے خلاف سخت زبان بولنی پڑتی ہے لیکن میں آپ کو بتاتا ہوں کے اُن کے ساتھ آنکھ مچولی میں دو قدم آگے کیسے رہا جاتا ہے۔ لیکن ہم سب جاتنے ہیں ��ہ وہ ایسا نہیں کریں گے۔ عدلیہ کے ساتھ بھی جنگ کا ایک ہی مقصد تھا کہ جج اُن کے بھائی اور بچوں کے ساتھ نہ کر سکیں جو اُن کے ساتھ کیا۔ نواز شریف شاید پاکستان کی تاریخ کے سب سے خوش قسمت سیاستدان ہیں لیکن وہ یہ خوش قسمتی عوام کے ساتھ بانٹنے کو تیار نہیں ہیں۔ عوام کے ساتھ وہ صرف اپنا غم بانٹنا چاہتے ہیں اور اُداس دُھنوں میں اپنے مرنے اور جینے کا گیت گانا چاہتے ہیں۔
محمد حنیف
بشکریہ ب�� بی سی اردو
0 notes
Text
کیا معیشت دم توڑ چکی ہے؟
کمال فنکاری بلکہ اوج ثریا سے منسلک لازوال عیاری سے اصل معاملات چھپائے جا رہے ہیں۔ جذباتیت‘ شدید نعرے بازی اور کھوکھلے وعدوں سے ایک سموک سکرین قائم کی گئی ہے جس میں ملک کی ریڑھ کی ہڈی‘ یعنی معیشت کے فوت ہونے کے المیہ کو خود فریبی کا کفن پہنا کر چھپایا جا رہا ہے۔ ذمہ داری سے گزارش کر رہا ہوں کہ پاکستان کی معیشت دم توڑ چکی ہے۔ دھوکہ بازی کے ماہر بھرپور طریقے سے غلط اعداد فراہم کر رہے ہیں۔ قوم کو اصل حقیقت سے مکمل دور کر دیا گیا ہے۔ مگر انفارمیشن کے اس جدید دور میں لوگوں کو مسلسل فریب دینا ناممکن ہو چکا ہے۔ طالب علم کو کوئی غرض نہیں کہ سیاسی حالات کیا ہیں۔ کون پابند سلاسل ہے اور کون سا پنچھی آزاد ہوا میں لوٹن کتوبر کی طرح قلابازیاں کھا رہا ہے۔ اہم ترین نکتہ صرف ایک ہے کہ پاکستان کے معاشی حالات کیا ہیں؟ کیا وہ بہتری کی جانب رواں دواں ہیں یا ذلت کی پاتال میں گم ہو چکے ہیں۔ عوام کی بات کرنا بھی عبث ہے۔ اس لیے کہ اس بدقسمت خطے میں ڈھائی ہزار برس سے عام آدمی کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔
عام آدمی چندرگپت موریا اور اشوکا کے زمانے سے دربدر ہے۔ اور اگر ہمارے خطے میں جوہری تبدیلی نہ آئی یا نہ لائی گئی۔ تو یقین فرمائیے کہ کم از کم پاکستان میں حسب روایت اور تاریخ کے غالیچے پر براجمان طبقہ تباہی کا صور اسرافیل پھونک رہا ہے۔ معیشت کو ٹھیک سمت میں اگر موجودہ وزیراعظم اور وزیر خزانہ نہیں لے کر جائے گا تو پھر کون یہ اہم ترین کام کرے گا۔ غور کیجیے۔ اگر کوئی ایسی بیرونی اور اندرونی منصوبہ بندی ہے کہ پاکستان کو سابقہ سوویت یونین کی طرز پر آرے سے کاٹنا ہے ۔ تو پھر تو درست ہے ۔ مگر وہ کون لوگ اور ادارے ہیں جو جانتے بوجھتے ہوئے بھی ملکی معیشت کو دفنانے کی بھرپور کوشش میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ ہمیں تو بتایا گیا ہے کہ ریاستی اداروں کی عقابی نظرسے کوئی امر پوشیدہ نہیں ہے۔ تو پھر ملکی معیشت کا جنازہ کس طرح نکال دیا گیا۔ ڈاکٹر اشفاق حسین جیسے جید معیشت دان‘ گال پیٹ پیٹ کر ملک کی معاشی زبوں حالی کا ذکر عرصے سے کر رہے ہیں۔ کیوں ان جیسے دانا لوگوں کی باتوں کو اہمیت نہیں دی گئی۔ گمان تو یہ ہے کہ واقعی ایک پلان ہے‘ جس میں مرکزیت صرف ایک سیاسی جماعت کو ختم کرنا ہے۔ اس اثناء میں‘ اگر معیشت ختم ہو گئی تو اسے زیادہ سے زیادہ Collateral damage کے طور پر ��رداشت کرنا ہے۔
صاحبان! اگر واقعی یہ سب کچھ آدھا جھوٹ اور آدھا سچ ہے۔ تب بھی مشکل صورتحال پیدا ہو چکی ہے۔ بین الاقوامی اقتصادی اداروں کے سامنے ہم گھٹنوں کے بل نہیں بلکہ سربسجود ہونے کے باوجود ’’ایک دھیلہ یا ایک پائی‘‘ کا قرضہ حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ یہ سچ بھرپور طریقے سے چھپایا جا رہا ہے۔ وزیرخزانہ کے نعروں کے باوجود ورلڈ بینک پاکستان کی کسی قسم کی کوئی مدد کرنے کو تیار نہیں ہے۔ اس پر کمال یہ ہے کہ وزیراعظم ‘ وزیراعلیٰ ‘ گورنر صاحبان ‘ وزراء اور ریاستی اداروں کے سربراہان ہر طرح کی مالی مراعات لے رہے ہیں۔ جن کا ترقی یافتہ ممالک میں بھی تصور نہیں کیا جا سکتا۔ سرکاری ہوائی جہاز‘ سرکاری ہیلی کاپٹر‘ حکومتی قیمتی ترین گاڑیاں‘ رکشے کی طرح استعمال کی جا رہی ہیں۔ چلیئے‘ اس ادنیٰ اداکاری کا کوئی مثبت نتیجہ نکل آئے۔ تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مگر ایک سال سے تو کسی قسم کا کوئی ٹھنڈی ہوا کا جھونکا نہیں آیا۔ کسی قسم کی ایسی بات نہیں کر رہا‘ جس کا ثبوت نہ ہو۔
ایکسپریس ٹربیون میں برادرم شہباز رانا کی ملکی معیشت کے متعلق رپورٹ رونگٹے کھڑے کر دینے والی ہے۔ یہ چھبیس مئی کو شائع ہوئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ‘ پاکستان کی معیشت سکڑ کر صرف اور صرف 341 بلین ڈالر تک آ چکی ہے۔ یہ ناقابل یقین کمی‘ ملکی معیشت کا نو فیصد ہے۔ یعنی گزشتہ ایک برس میں اقتصادی طور پر ملک خوفناک طور پر غرق کیا گیا ہے۔ یہ 34 بلین ڈالر کا جھٹکا ہے۔ اس کی وضاحت کون کرے گا۔ اس کا کسی کو بھی علم نہیں۔ انفرادی آمدنی‘ پچھلے اقتصادی برس سے گیارہ فیصد کم ہو کر 1568 ڈالر پر آ چکی ہے۔ یعنی یہ گیارہ فیصد یا 198 ڈالر کی کمی ہے۔ یہ اعداد و شمار کسی غیر سرکاری ادارے کے نہیں‘ بلکہ چند دن قبل نیشنل اکاؤنٹس کمپنی (NAC) میں سرکاری سطح پر پیش کئے گئے تھے۔ اور ان پر سرکار کی مہر ثابت ہو چکی ہے۔ معیشت کا سکڑنا اور انفرادی آمدنی میں مسلسل گراؤٹ کسی بھی حکومت کی ناکامی کا اعلانیہ نہیں تو اور کیا ہے۔ تف ہے کہ ملک کے ذمہ دار افراد میں سے کسی نے اس نوحہ پر گفتگو کرنی پسند کی ہو۔ ہاں۔ صبح سے رات گئے تک‘ سیاسی اداکار‘ سیاسی مخالفین کے لتے لیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اب تو سیاسی مخالفین کو غدار اور غیر محب وطن ہونے کے سرٹیفکیٹ بھی تواتر سے بانٹے جا رہے ہیں۔ ماضی میں یہ کھیل کئی بار کھیلا جا چکا ہے۔
ہم نے ملک تڑوا لیا۔ لیکن کوئی سبق نہیں سیکھا۔ یہ کھیل آج بھی جاری ہے۔ معیشت کے ساتھ ساتھ ملک کی سالمیت سے بھی کھیلا جا رہا ہے۔ عمران خان تو خیر‘ سیاست کی پیچیدگیوں سے نابلد انسان ہے۔ مگر موجودہ تجربہ کار قائدین کیوں ناکام ہو گئے ہیں۔ خاکم بدہن‘ کہیں ملک توڑنے کا نسخہ‘ دوبارہ زیر استعمال تو نہیں ہے۔ وثوق سے کچھ کہنا ناممکن ہے۔ معیشت پر برادرم شہباز رانا کی رپورٹ میں تو یہاں تک درج ہے کہ بیورو آف سٹیسٹسکس (BOS) کو جعلی اعداد و شمار دینے پر مجبور کیا گیا ہے۔ یہ دباؤ حکومت وقت کے سرخیل کی طرف سے آیا ہے۔ بیورو نے ملکی معیشت کو منفی 0.5 فیصد پر رکھا تھا۔ مگر اس رپورٹ کے بقول وزارت خزانہ اور دیگرطاقتور فریقین نے یہ عدد جعل سازی سے تبدیل کروا کر مثبت 0.3 فیصد کروایا ہے۔ دل تھام کر سنیے۔ ملک میں آبادی بڑھنے کی شرح دو فیصد ہے۔ اگر 0.3 فیصد ملکی ترقی کو تسلیم کر بھی لیا جائے۔ تب بھی ملکی معیشت 1.7 فیصد منفی ڈھلان پر ہے۔ یہ معاملات کسی بھی ملک کی بربادی کے لیے ضرورت سے زیادہ ہیں۔ ہمارے دشمن شادیانے بجا رہے ہیں۔ اندازہ فرمائیے کہ اس رپورٹ کے مطابق‘ موجودہ حکومت نے 2022ء کے سیلاب میں دس لاکھ جانوروں کے نقصان کا ڈھنڈورا پیٹا تھا۔ Livestock سیکٹر کی بات کر رہا ہوں۔ مگر BOS کے مطابق حکومت کے یہ اعداد بھی مکمل طور پر غلط ہیں۔
سرکاری ادارے کے مطابق جانوروں کا نقصان صرف دو لاکھ ہے۔ سوچیئے۔ عالمی برادری اور ادارے‘ ہمارے اوپر کس طرح قہقہے لگا رہے ہونگے۔ اس تجزیہ کے مطابق زراعت کے شعبہ میں نمو 1.6 فیصد رکھی گئی ہے۔ یہ عدد بھی کسی بنیاد کے بغیر ہوا میں معلق ہے۔ وجہ یہ کہ کپاس کی فصل اکتالیس فیصد کم ہوئی ہے۔ کپاس کو روئی بنانے کے عمل میں 23 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ چاول کی فصل میں اکیس فیصد کمی موجود ہے۔ یہ سب کچھ برادرم شہباز رانا کی شائع شدہ رپورٹ میں درج ہے۔ مگر ذرا میڈیا ‘ میڈیا رپورٹنگ پر نظر ڈالیے ۔ تو سوائے سیاست یا گالم گلوچ کے کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ وہاں کوئی بھی ’’مہاشے‘‘ ذکر نہیں کرتا کہ معیشت بھی مقدس ہے۔ اگر یہ بیٹھ گئی تو سب کچھ عملی طور پر ہوا میں اڑ جائے گا۔ مگر کسی بھی طرف سے کوئی سنجیدہ بات سننے کو نہیں آتی۔ وزیر خزانہ کے یہ جملے‘ ’’کہ ہر چیز ٹھیک ہو جائے گی‘‘۔ بس فکر کی کوئی بات نہیں۔ ان پر شائد میرے جیسے لا علم اشخاص تو ��قین کر لیں۔ مگر سنجیدہ بین الاقوامی اقتصادی ادارے اور ماہرین صرف ان جملوں پر ہنس ہی سکتے ہیں۔
معیشت ڈوب گئی تو پچیس کروڑ انسان‘ کتنے بڑے عذاب میں غرقاب ہو جائیںگے۔ اس پر بھی کوئی بات نہیں کرتا۔ موجودہ حکومت کی سیاست‘ سیاسی بیانات اور کارروائیاں ایک طرف۔ مگر عملی طور پر ہماری معیشت دم توڑ چکی ہے۔ صرف سرکاری طور پر تسلیم نہیں کیا جا رہا۔ سوال ہو سکتا ہے کہ ملک چل کیسے رہا ہے۔ اس کا جواب صرف یہ ہے‘ کہ ہماری بلیک اکانومی حد درجہ مضبوط اور فعال ہے۔ یہ واحد وجہ ہے کہ ہم خانہ جنگی میں نہیں جا رہے۔ مگر شائد تھوڑے عرصے کے بعد‘ یہ آخری عذاب بھی بھگتنا پڑے۔ مگر حضور‘ تھوڑا سا سچ بول ہی دیجئے۔ مردہ معیشت کی تدفین کب کرنی ہے!
راؤ منظر حیات
بشکریہ ایکسپریس نیوز
2 notes
·
View notes
Text
آئینی بینچز، حکومت من پسند 7 ججز نامزد کرنے میں کامیاب
اسلام آباد: وفاقی حکومت آئندہ 2ماہ میں آئینی بینچوں کے لیے 7ججوں کو اپنی مرضی سے نامزد کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ ایک سینئر حکومتی اہلکار نے کہا ہے کہ جسٹس عائشہ ملک کو بھی نامزد کیا گیا ہے حالانکہ ماضی قریب میں ا��ھوں نے موجودہ حکومت کے خلاف فیصلے دیے۔ حالیہ تنازع کے پیش نظر جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کو آئینی بنچوں کے لیے نامزد کرنا مشکل تھا۔تاہم اب یہ بوجھ 7ججوں پر ہے کہ وہ…
0 notes
Text
نان فائلرز کو فائلرز بنانے کا چیلنج
پاکستان اس وقت جن معاشی مسائل کا سامنا کر رہا ہے اس کی بنیادی وجہ ریاست کے وسائل کی کمی اور اخراجات میں مسلسل اضافہ ہے۔ اسی بنیادی خرابی کے سبب ہر حکومت کو مالی خسارہ پورا کرنے کیلئے دوست ممالک اور عالمی مالیاتی اداروں سے بلند شرح سود اور سخت شرائط پر قرضے لینا پڑتے ہیں جس کا خمیازہ پھر عام آدمی کو مہنگائی اور معاشی بدحالی کی شکل میں بھگتنا پڑتا ہے۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ پہلے سے ٹیکس نیٹ میں شامل طبقات بھی ٹیکس کی شرح میں مسلسل اضافے اور ٹیکس در ٹیکس ادائیگیوں کے باعث مالی مشکلات کا شکار ہیں جبکہ عام آدمی کیلئے بھی ہر چیز کی خریداری پر بھاری سیلز ٹیکس کی ادائیگی لازمی ہے۔ ایسے میں افسوسناک امر یہ ہے کہ اب بھی ملک میں بہت سے شعبے ایسے ہیں جہاں ٹیکس دینے کا کوئی تصور ہی نہیں ہے۔ علاوہ ازیں وہ طبقہ جس پر ٹیکس قوانین لازمی طور پر لاگو ہونے چاہئیں انہیں بھی نان فائلر کے نام پر ٹیکس نیٹ سے باہر رہنے کی سہولت موجود ہے۔ اس وقت پاکستان کو ٹیکس نیٹ بڑھانے کے حوالے سے جن چیلنجز کا سامنا ہے ان میں غیر دستاویزی معیشت سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اس سے ایک طرف حکومت کی ٹیکس مشینری کی بدانتظامی ظاہر ہوتی ہے جسکی وجہ سے بہت سے کاروباری افراد غیر رسمی معیشت کا حصہ رہتے ہوئے ٹیکس کی ادائیگی سے بچ جاتے ہیں۔
اس حوالے سے لوگوں میں حکومت کی ٹیکس مشینری پر عدم اعتماد بھی ایک بڑی رکاوٹ ہے کیونکہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر وہ رضاکارانہ طور پر ٹیکس نیٹ کا حصہ بنیں گے تو انہیں ٹیکس اکٹھا کرنے والے اداروں کے عملے کی طرف سے بلا جواز تنگ کرنے کا اندیشہ بڑھ جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ ٹیکس پالیسیوں میں متواتر تبدیلیاں اور غیر واضح ٹیکس قوانین بھی ٹیکس دہندگان کیلئے سمجھ بوجھ اور تعمیل کو مزید پیچیدہ بنانے کا باعث ہیں۔ ٹیکس نیٹ میں توسیع کیلئے اس خامی کو ٹیکس میکانزم اور قوانین بہتر بنا کر دور کیا جا سکتا ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان میں ٹیکس وصولی کا نظام بنیادی طور پر فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے تحت کام کرتا ہے۔ تاہم اس محکمے کو بھی عملے کی مبینہ نااہلیوں، بدعنوانیوں اور ناکافی وسائل کے باعث مسائل کا سامنا ہے۔ علاوہ ازیں ٹیکس وصولیوں میں اضافے اور ٹیکس نیٹ میں توسیع کے حوالے سے ایک اور اہم فیکٹر سیاسی قیادت یا حکومت کا عزم ہے کیونکہ زراعت، پراپرٹی اور ریٹیل سیکٹر اپنے سیاسی اثرورسوخ کے باعث ہی طویل عرصے سے عملی طور پر ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں۔ ان طبقات کو ٹیکس نیٹ میں لانے کیلئے جب بھی حکومت کی طرف سے کوئی پالیسی بنائی جاتی ہے تو اسے اندر سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور آخر میں یہ کوشش سیاسی سمجھوتوں کی نذر ہو جاتی ہے۔
ان وجوہات کی بنا پر اب حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ حکومت کو بھی یہ واضح نظر آنا شروع ہو گیا ہے کہ اگر اس نے اب بھی ان مسائل کو حل کرنے کیلئے ٹیکس اصلاحات نہ کیں اور نان فائلر کو فائلر بنانے کی پالیسی پر عمل نہ کیا تو اس کیلئے موجودہ معاشی استحکام کو برقرار رکھنا مشکل ہو جائے گا۔ اس سلسلے میں حال ہی میں حکومت کی طرف سے قومی اسمبلی میں یہ بل پیش کیا گیا ہے کہ نان فائلر افراد پر کاروں، جائیدادوں کی خریداری اور بینک اکاؤنٹس کھولنے پر پابندی عائد کی جائے۔ اسی طرح حکومت نے ٹیکس دہندگان کے خفیہ ڈیٹا کو کمرشل بینکوں اور نجی طور پر رکھے گئے ٹیکس آڈیٹرز کے ساتھ شیئر کرنےکیلئے بھی پارلیمنٹ سے منظوری مانگی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ نان فائلرز کے بینک اکاؤنٹس منجمد کرنے اور سیلز ٹیکس رجیم میں رجسٹرڈ نہ ہونیوالے افراد کے کاروبار اور جائیدادیں ضبط کرنے کے اختیارات بھی مانگے گئے ہیں۔ اس بل میں تجویز کیا گیا ہے کہ نان فائلرز کو اپنے بینک کھاتوں سے ایک خاص حد سے زیادہ رقم نکالنے کی اجازت نہیں ہو گی۔
مجوزہ بل میں جہاں کچھ اچھی چیزیں شامل ہیں وہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ حکومت نے ماضی میں کئے گئے اپنے ہی اعلانات کے برعکس نان فائلر کیٹیگری کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا ہے۔ اس سلسلے میں انکم ٹیکس آرڈیننس کے 10ویں شیڈول کو حذف کرنے کی ضرورت ہے جو نان فائلرز کیلئے زیادہ شرح کی ادائیگی کرکے فائلر بننے سے بچنے کا راستہ فراہم کرتا ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ایف بی آر کے اپنے اعدادو شمار کے مطابق ایک کروڑ دس لاکھ سے زائد نان فائلرز میں سے نومبر تک صرف 56 لاکھ افراد نے اپنے انکم ٹیکس گوشوارے جمع کروائے ہیں۔ دیگر نان فائلرز ٹیکس نظام کی عدم فعالیت اور کمزوری یا حکومت کی سیاسی مجبوریوں کی وجہ سے تاحال ٹیکس ریٹرنز فائل کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ دوسری طرف ایف بی آر کو گزشتہ پانچ ماہ میں 340 ارب روپے کے ٹیکس شارٹ فال کا سامنا ہے۔ اس وجہ سے اندیشہ ہے کہ حکومت ٹیکس وصولیوں کا ہدف پورا کرنے کیلئے پہلے سے ٹیکس نیٹ میں موجود افراد پر کوئی نیا ٹیکس لگا سکتی ہے یا پہلے سے نافذ شدہ ٹیکس کی شرح میں اضافہ کر سکتی ہے۔
حالانکہ رواں مالی سال کے وفاقی بجٹ میں ٹیکس محصولات کا ہدف پہلے ہی 13 ہزار ارب روپے رکھا گیا ہے جو گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 40 فیصد زیادہ ہے۔ اس ہدف کو حاصل کرنے کیلئے حکومت ٹیکس دہندگان پر نئے ٹیکس لگانے کے علاوہ براہ راست ٹیکسوں میں 48 فیصد اور بالواسطہ ٹیکسوں میں 35 فیصد اضافہ کر چکی ہے۔ ایسے میں ضروری ہے کہ حکومت ایسے کسی بھی اقدام سے باز رہے جس کے باعث پہلے سے ٹیکس نیٹ میں شامل افراد پر مالی بوجھ ناقابل برداشت ہو جائے اور وہ بھی فرار کے راستے ڈھونڈنے شروع کر دیں۔
چوہدری سلامت علی
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes