#معاہدہ کی خلاف ورزی
Explore tagged Tumblr posts
Text
خام تیل کے معاہدے کی تفصیلات طے کرنے کے لیے روسی حکام کی پاکستان آمد
روس سے خام تیل کی درآمد کے معاہدے پراہم پیشرفت ہوئی ہے، روسی وفد معاہدے کی مزید تفصیلات طے کرنے آج پاکستان پہنچے گا۔ پاکستان اور روسی حکام نے گزشتہ ماہ میں تیل کی فراہمی کے طویل المدتی معاہدے پر دستخط کیے تھے ذرائع کا کہنا ہے کہ روس حکام پرائس کیپ کی حد پر طویل المدتی معاہدہ پر بات چیت کرنے پاکستان آ رہے ہیں، پاکستان روسی تیل پر پراٸس کیپ کی امریکی شرط کی خلاف ورزی پر مبنی معاہدے کا حامی…
View On WordPress
0 notes
Text
🌹🌹𝗙𝗨𝗟𝗙𝗜𝗟𝗟𝗜𝗡𝗚 𝗧𝗛𝗘 𝗖𝗢𝗡𝗧𝗥𝗔𝗖𝗧.
♦️ *_"A journey towards excellence"_* ♦️
✨ *Set your standard in the realm of love !*
*(اپنا مقام پیدا کر...)*
؏ *تم جو نہ اٹھے تو کروٹ نہ لے گی سحر.....*
🔹 *100 PRINCIPLES FOR PURPOSEFUL*
*LIVING* 🔹
4️⃣0️⃣ *of* 1️⃣0️⃣0️⃣
*(اردو اور انگریزی)*
🍁𝗙𝗨𝗟𝗙𝗜𝗟𝗟𝗜𝗡𝗚 𝗧𝗛𝗘 𝗖𝗢𝗡𝗧𝗥𝗔𝗖𝗧:
*The Quran enjoins the believers to fulfil a covenant one has made.*
(Quran 2:40)
*We will be questioned before God about the covenant.*
*This shows that the covenant is not just a matter between two people. God is also involved in this matter as a third party.*
*The importance of fulfilling a covenant (agreement) is so great that man either should not make a covenant with anyone or if he makes one, he must fulfil it.*
*Not making a covenant is not a crime. But not fulfilling it is a serious crime.*
*Breaking even one covenant is such a great crime that it is tantamount to breaking all human covenants.*
Why is every breach of contract or covenant a breach of all human covenants?
*This is because the whole system of social justice is based on respecting covenants.*
*If respect for covenants is lost, the atmosphere of justice in society will come to an end.*
🌹🌹 _*And Our ( Apni ) Journey*_
*_Continues_ ...* *________________________________________*
*؏* *منزل سے آگے بڑھ کر منزل تلاش کر*
*مل جائے تجھکو دریا تو سمندر تلاش کر*
🍁 *عہد (معاہدے) کو پورا کرنا :*
*قرآن مجید میں اللہ سبحانہ وتعالی مومنوں کو اپنے عہد کو پورا کرنے کا حکم دیتا ہے۔*
*"اے یعقوب کی اولاد! میرے وہ احسان یاد کرو جو میں نے تم پر کئے تھے اور اس اقرار کو پورا کرو جو تم نے مجھ سے کیا تھا۔ میں اس اقرار کو پورا کروں گا جو میں نے تم سے کیا تھا اور مجھی سے ڈرتے رہو" -*
(قرآن 2:40)
*ہم سے عہد (معاہدے) کے بارے میں خدا کے سامنے سوال کیا جائے گا۔*
*اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عہد صرف دو لوگوں کے درمیان معاملہ نہیں ہے۔ خدا بھی اس معاملے میں تیسرے فریق کے طور پر شامل ہوتا ہے۔*
*عہد (معاہدہ) کو پورا کرنے کی اہمیت اس قدر ہے کہ انسان یا تو کسی سے عہد ہی نہ کرے اور اگر کرے تو ہر قیمت پر اس کو پورا کرے.*
*عہد نہ کرنا جرم نہیں۔ لیکن اسے پورا نہ کرنا سنگین جرم ہے۔*
*ایک عہد کو توڑنا اتنا بڑا جرم ہے کہ یہ تمام انسانی عہدوں کو توڑنے کے مترادف ہے۔*
ہر معاہدہ یا عہد کی خلاف ورزی تمام انسانی عہدوں کی خلاف ورزی کیوں ہے؟
*اس کی وجہ یہ ہے کہ سماجی انصاف کا پورا نظام عہدوں کے احترام پر مبنی ہے۔*
*اگر عہدوں کا احترام ختم ہو جائے تو معاشرے میں انصاف کی فضا ختم ہو جائے گی۔*
〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️
🌹🌹 *وعدہ پورا کرنا، مومن کی شان ہے !* 🌹🌹
*ارشادِ الٰہی ہے: "اور وعدہ کو پورا کرو، بے شک وعدہ کے بارے میں بازپُرس ہوگی"۔* ( بنی اسرائیل۱۷:۳۴)
انسان *اللہ ربّ العزت سے عہد کرتا ہے* اور آپس میں ایک دوسرے سے بھی قول و قرار کرتا ہے،یعنی ایفاے عہد کا تعلق *حقوق اللہ* اور *حقوق العباد* دونوں سے ہے۔
*’’ جس کی باز پرس خدا فرمائے اس کی اہمیت کتنی بڑی ہوگی"۔*
🔸 *وعدہ خلافی ، جھوٹ اور منافقت:*
*رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "منافق کی تین نشانیاں ہیں : جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے، اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے"۔* (بخاری)
*حقیقت یہ ہے کہ جس کا قلب نفاق کا مسکن بن جائے اس کا انجام بڑا تباہ کن ہوگا۔*
*نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ’’اس کا دین دین نہیں جسے عہد کا پاس و لحاظ نہ ہو‘‘* (احمد)۔
*نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تین شخص ایسے ہیں جن کا میں قیامت کے دن خصم بنوں گا[یعنی ان کے خلاف مقدمہ کھڑا کروں گا] ۔ان میں ایک وہ ہے جس نے میرا واسطہ دے کر کوئی معاہدہ کیا اور پھر اسے توڑدیا۔*
*حقیقت یہ کہ ایفاے عہد کے با�� میں بھی نبی کریم ﷺ کا اسوۂ مبارکہ مثالی رہا ہے ۔ آپؐ پوری زندگی سچا ئی، ایفاے عہد اور امانت داری کا مظاہرہ بلاکسی ��متیاز سب کے ساتھ کرتے رہے ۔*
بلا شبہہ *سیرتِ نبوی ﷺ* سے یہ قیمتی سبق ملتا ہے کہ *قول وقرار کی پابندی اور وفاے عہد مومن کی شان ہوتی ہے،* جس سے وہ کسی قیمت پر دستبردار ہونا گوارا نہیں کرتا ۔
🔸 *وعدہ خلافی اور معاشرتی مسائل :*
*قرآن و حدیث کی نظر میں عہد کا پاس ولحاظ رکھنے اور وعدہ پورا کرنے کی بڑی اہمیت ہے اور یہ کہ عہد شکنی یا وعدہ خلافی ایک سنگین جرم یا بڑے گناہ کا کام ہے۔*
*وعدہ خلافی خود برائی ہے اور بہت سی برائیوں کو جنم دیتی ہے جن میں غلط بیانی،کذب ، حقیقی صورتِ حال پر پردہ پوشی، منافقانہ رویہ وغیرہ شامل ہیں۔*
*آپؐ کا یہ ارشاد گرامی حکمت سے معمور ہے کہ "اپنے بھائی سے ایسا وعدہ نہ کرو جسے تم پورا نہ کرسکو"* ( جامع ترمذی)۔
🔸 *ایفاے عہد کی برکات :*
*ایفاے وعدہ بہت سے فیوض و برکات کا وسیلہ بنتا ہے ۔ اول یہ کہ یہ دونوں اصحابِ معاملہ کے لیے نفع بخش ثابت ہوتا ہے ۔ سب سے بڑی بات یہ کہ وعدہ پورا کرنے والے کو سکون و اطمینان نصیب ہوتا ہے اور اس سے صاحبِ معاملہ کو بھی سہولت و راحت ملتی ہے۔ دوسرے یہ کہ وعدہ پورا کرنے والا وقت کے ضیاع سے خود محفوظ رہتا ہے اور دوسروں کو بھی اس سے محفوظ رکھتا ہے۔ اس میں کیا شبہہ ہے کہ جو کام وقت پر انجام پاجاتا ہے وہ دونوں فریقِ معاملہ کے لیے وجہِ مسرت ہوتا ہے۔ تیسرے اس وصف کی ایک برکت یہ بھی ہے کہ اس کی وجہ سے اعتماد قائم ہوتا ہے،یعنی وعدے کا پکّا قابلِ اعتبار سمجھا جاتا ہے اور لوگ اس سے معاملہ کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتے۔ بلاخوف و خطر اس سے معاملات طے کرتے یا لین دین کرتے ہیں۔*
*’’ اس طرح آدمی کو اطمینان ہوکہ اس کے ساتھ وعدہ خلافی نہ ہوگی ، جو عہد وپیمان ہوا ہے وہ لازماً پورا ہوگا، تو وہ بے خوف وخطر معاملہ کرسکتا اور آگے بڑھ سکتا ہے۔اس سے پورے معاشرے میں امن و سکون کاماحول ہوگا اور ترقی کی راہیں کھلیں گی‘‘ ۔*
🔸 *وعدہ اور احساسِ جواب دہی:*
*رہا یہ مسئلہ کہ اللہ کے بند وں میں یہ صفت کیسے پرورش پاتی ہے؟ قر آن کریم سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ خوبی تقویٰ کے اثر سے پیدا ہوتی ہے۔ وہ لوگ جو عہد کو پورا کرتے ہیں اور معاہدے کا پاس و لحاظ رکھتے ہیں، انھیں متقین سے تعبیر کیا گیا ہے اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ انھیں اللہ کی محبت نصیب ہوتی ہے (التوبۃ۹ :۴،۷)۔ بلا شبہہ اللہ ربّ العزت کی نگاہ میں محبوبیت کا مقام پالینا بہت بڑا شرف و فضل ہے جو اللہ کے رحم و کرم سے عہد یا وعدہ کی حرمت و تقدس کا پاس و لحاظ رکھنے والوں کو عطا ہوتا ہے ۔ بلا شبہہ وہی شخص وعدہ پورا کرنے کا خوگر ہوتا ہے جو اللہ سے ڈرتا ہے اور روزِ جزا اس کے حضور حاضری و بازپُرس کا احساس تازہ رکھتا ہے۔ ایسے شخص کا دل وعدہ کی خلاف ورزی کے خیال سے ہی کانپ اٹھتا ہے ، چاہے کچھ بھی ہوجائے وہ وعدہ پورا کرکے رہتا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وعدہ پورا کرنے میں بڑی سخت آزمایشوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ وقت کی قربانی ہے، اپنے ذاتی تقاضوں کو تیاگ دینا ہے ،دوسرے کی ضرورت کو مقدم رکھنا ہے اور اپنے نقصانات کو گوارا کرنا ہے۔ اس کٹھن آزمایش سے وہی مومن کامیابی کے ساتھ نکل سکتا ہے، جس کا دل تقویٰ کا مَسکن بن جائے اور جس پر اللہ ربّ العزت کے سامنے حاضری اور جواب دہی کا احساس غالب رہے۔*
*مختصر یہ کہ وعدہ پورا کرنا اہلِ ایمان کا امتیازی وصف ہے۔ اس سے ان کی شناخت بنتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وعدہ خلافی مومن کی شان کے خلاف ہے۔ عہد یا وعد ہ کسی سے کیا جائے ، اس کا پورا کرنا بلا شبہ قرآن و حدیث کی رُو سے لازمی ہے۔ اس کی خلاف ورزی ایک بد ترین خصلت ہے اور عند اللہ انتہائی ناپسندیدہ عمل ہے ۔ یہ برائی دنیا میں موجبِ وبال ہے اور آخرت میں وجہِ خسران اور باعثِ ذلت و رسوائی ہوگی۔*
*اللہ ربّ العزت ہم سب کو ا یفاے وعدہ کی صفت سے متصف فرمائے اور ہمیں ان تمام باتوں و کاموں سے دور ر ہنے کی توفیق عنایت کرے، جو اس کی ناپسندیدگی و ناراضی کا باعث بنتے ہیں۔*
*آمین ثمّ آمین!*
🌹🌹 *اور اپنا سفر جاری ہے....*
0 notes
Text
معیشت کی بربادی کا ذمے دار کون؟
1990 کی دہائی میں آئی پی پی نے پاکستان میں بجلی کی پیداوار بڑھانے کے لیے سرمایہ کاری کرنے پیشکش کی، حکومت پاکستان نے جن شرائط پر معاہدہ کیا ان میں ایک شرط یہ بھی کہ حکومت پاکستان تیل خود خرید کر IPPs کو دے گی اور اس کی نرخ اس وقت کے ڈالر ریٹ پر فکس کر دی گئی۔ اس شرط کے مطابق عالمی منڈی میں تیل کی قیمت بڑھے یا زیادہ ہو جائے، حکومت پاکستان اس ہی مقررہ ڈالر ریٹ پر IPPs کو تیل فراہم کرنے کی پابند ہو گی۔ اس شرط کے تحت بڑھتی ہوئی تیل کی قیمت کا فرق حکومت پاکستان کو دینا ہو گا جب کہ ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت کا فرق بھی حکومت پاکستان کو برداشت کرنا پڑے گا۔ ہمیں آئی پی پی سے بجلی چونکہ ڈالر میں خریدنی ہے اس لیے ان کے ہر یونٹ کی قیمت آج کے ڈالر ریٹ کے مطابق ادا کرنی ہے۔ اس شرط کے اثرات کیا ہیں، وہ اب طشت از بام ہو چکے ہیں۔ ہم اس شرط پر عمل کرتے کرتے ملکی معیشت اور عوام کی کمر توڑ چکے ہیں۔دوسری شرط کے مطابق آئی پی پیز کی پیدا کردہ بجلی کو حکومت روپے کے بجائے ڈالر میں خریدے گی۔ اس شرط کی بنا پر پاکستان کثیر زر مبادلہ آئی پی پیز کو ادا کر رہا ہے۔ اس معاہدے کی ایک اور شرط یہ ہے کہ حکومت پاکستان اگر بجلی کا ایک یونٹ بھی نہ خریدے گی تب بھی اسے ائی پی پیز کو مقررہ قیمت ڈالر میں ادا کرنی ہو گی۔ حکومت پاکستان یہ رقم بھی عوام سے بجلی کے بلوں میں ایڈجسٹمنٹ کی مد میں وصول کر رہی ہے۔
آپ ذرا غور تو کیجیے کہ پاکستان کے پالیسی میکرز نے کس بے دردی سے اپنی آنکھیں، کان اور دماغ بند کر کے اس معاہدے پر دستخط کر دیے، یہی نہیں بلکہ اس معاہدے کو بین الاقوامی قواعد کے تحت Sovereign Garrente بھی حاصل ہے۔اگر حکومت پاکستان یا پاکستانی عوام اس معاہدے پر عمل نہ کریں یا کسی بھی شق کی خلاف ورزی کریں گے تو بین الاقوامی قواعد کے مطابق انھیں جرمانہ یا حرجانہ بھی ادا کرنا ہو گا۔ 1990 سے اب تک برسراقتدار آنے والی تمام حکومتوں نے ان معاہدات میں ترمیم تک لانے کی کوئی عملی کوشش نہیں کی، یعنی ہر حکومت نے ذاتی مفادات کو ترجیح دی۔ 1990 سے لے کر اب تک ان معاہدات کو جاری رکھنے اور شرائط کو جوں کا توں رکھنے والوں کا احتساب ضرور ہونا چاہیے۔ مہنگی بجلی کا یہ ایک رخ ہے، دوسرا رخ بجلی چوری اور لائن لاسز ہے۔ ان نقصانات کی رقم بھی بجلی صارفین سے وصولی کی جارہی ہے۔ بجلی کی چوری کو روکنا یا بجلی کی ترسیل، ٹرانسمیشن لائنوں کو درست رکھنا، وفاقی حکومت اور محکمہ بجلی کے افسروں اور اہلکاروں کی ذمے داری ہے، انھیں بھرتی ہی ان کاموں کے لیے کیا جاتا ہے اور انھی کاموں کے عوض انھیں قومی خزانے سے تنخواہیں، مفت بجلی اور دیگر سہولتیں اور مراعات دی جاتی ہیں۔
بجلی چوری روکنے کے نام پر چھاپے مارنا اور گرفتاریاں کرنا دکھاوئے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ 2013 میں کپیسٹی پیمنٹ 200 ارب روپے تھی جو اب دو ہزار ارب روپے ہو چکی ہے۔ ملک کی معیشت جس حالت میں ہے اس سے ہم سب بخوبی واقف ہیں ملک اگر دیوالیہ نہیں بھی ہوا تو بھی دیوالیے کی دہلیز پر کھڑا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی عوام دیوالیہ ہو چکے ہیں عوام نہ تو وہ اپنا کچن چلانے کے قابل ہیں نہ ہی بچوں کی تعلیم کے اخراجات پورے کر سکتے ہیں نہ ہی ڈاکٹر اور اسپتال کو فیس دے کر علاج کرا سکتے ہیں۔ ہر دو ہفتے بعد تیل کی قیمتیں بڑھا دی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بجلی اور گیس کی قمیت بھی بڑھائی جارہی ہے۔ عوام تو بس یہی کہہ سکتے ہیں کہ ’’کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں۔ اس حوالے سے لکھنے کو تو بہت کچھ ہے میں آج کا کالم اس پر ہی ختم کرتے ہوئے اتنا ضرور کہوں گا کہ اس ملک کی معیشت اور عوام کے مفادات کے خلاف جتنے بھی اقدامات کیے کیے ہیں یہ سب فیصلے ہمارے حکمرانوں اور بیوروکری��ی نے کیے ہیں۔
سرور منیر راؤ
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
Text
جانسن کو بریکسٹ قوانین پر پارلیمانی شکست کا سامنا کرنا پڑا
جانسن کو بریکسٹ قوانین پر پارلیمانی شکست کا سامنا کرنا پڑا
وزیر اعظم بورس جانسن کو پیر کے آخر میں پارلیمنٹ کے ایوان بالا میں مجوزہ قوانین کے سلسلے میں بھاری شکست کا سامنا کرنا پڑا ، جس سے وہ بریکسٹ معاہدے کی خلاف ورزی کر سکیں گے ، اس منصوبے کو امریکی صدر کے منتخب کردہ جو بائیڈن نے تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
انٹرنل مارکیٹ بل بریکسٹ کے بعد برطانیہ میں چاروں ممالک کے مابین تجارت کے تحفظ کے لئے بنایا گیا تھا۔ اس میں ایسی شقیں شامل ہیں جو وزرا کے بقول…
View On WordPress
0 notes
Text
انیس سالہ جنگ کے بعد طالبان اور امریکہ کے درمیان تاریخی امن معاہدہ
افغانستان میں 19 سالہ جنگ کے بعد قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکہ اور طالبان کے درمیان تاریخی امن معاہدے پر دستخط ہو گئے ہیں۔ معاہدے کے مطابق اگر طالبان معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کرتے تو امریکہ اور ان کے نیٹو اتحادی اگلے 14 ماہ میں افغانستان سے اپنی تمام افواج واپس بلا لیں گے۔ معاہدے پر امارتِ اسلامیہ افغانستان کی جانب سے طالبان رہنما ملا عبدالغنی برادر اور امریکہ کی جانب سے خصوصی نمائندے زلمی خلیل زاد نے دستخط کیے ہیں۔ معاہدہ ہونے کے بعد امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’اگر افغان طالبان امن و امان کی ضمانتوں اور افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کے وعدے پر عمل درآمد نہیں کرتے تو ہم اس تاریخی معاہدے کو ختم کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریں گے۔‘ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق کابل میں موجود مارک ایسپر نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا کہ ’اگر طالبان اپنے وعدوں پر پورا نہیں اترتے تو وہ اپنے ہم وطن افغانوں کے ساتھ بیٹھنے اور اپنے ملک کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا موقع کھو دیں گے۔‘
تمام افغانوں کو امن اور خوشحالی کے ساتھ رہنے کا حق ہے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومیو نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’آج امن کی فتح ہوئی ہے لیکن افغانوں کی اصل فتح تب ہو گی جب افغانستان میں امن و سلامتی ہو گی۔‘ انہوں نے کہا ہے کہ افغان اور امریکی فورسز نے مل کر قیام امن کے لیے کام کیا ہے۔ امن کے بعد افغانوں نے اپنے مستقبل کا تعین کرنا ہے۔ ’امریکہ اور طالبان دہائیوں کے بعد اپنے تنازعات کو ختم کر رہے ہیں۔‘ امریکی وزیر خارجہ کے مطابق ’تمام افغانوں کو امن اور خوشحالی کے ساتھ رہنے کا حق ہے۔‘ انہوں نے افغانستان میں قیام امن کے لیے خلیل زاد زلمے کے کرداد کی بھی تعریف کی۔
معاہدے پر دستخط کے بعد دوحہ ہی میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا کہ ’افغان طالبان القاعدہ کے ساتھ تمام روابط ختم کرنے کا وعدہ پورا کریں۔‘��انہوں نے کہا کہ ’افغان عوام کی حقیقت میں جیت تب ہو گی جب وہ امن سے رہ سکیں گے۔‘ مائیک پومپیو نے پاکستان کے امن معاہدے میں کردار کو سراہتے ہوئے کہا کہ ’افغانستان میں امن لانے کے لیے آئندہ بھی پاکستان اپنا کردار ادا کرے۔‘ انہوں نے یقین دہانی کروائی کہ ’امریکہ آئندہ بھی افغانستان میں امن کے لیے اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔‘ امریکی وزیر خارجہ نے افغان عوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’انہیں امن کی کوششوں کو خراب کرنے والے عوامل کو مسترد کرنا ہو گا۔‘ انہوں نے کہا کہ ’امریکہ یقینی بنائے گا کہ آئندہ افغانستان کی سرزمین سے امریکی عوام پر کوئی حملہ نہ ہو۔‘
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ملا عبدالغنی برادر نے کہا ہے کہ ’ہم سب افغانستان اور افغان عوام کی ترقی و خوشحالی چاہتے ہیں۔‘ انہوں نے کہا کہ ’تمام افغان گروپوں کو کہتا ہوں ایک مکمل اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے اکٹھے ہوں۔ ہم تمام ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات کے خواہاں ہیں۔‘ فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق افغانستان میں قیام امن کے لیے اس معاہدے کو انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ اس معاہدے کے بعد طالبان کی جانب سے امن کی کچھ ضمانتوں کے بعد افغانستان سے ہزاروں امریکی فوجیوں کی وطن واپسی کی راہ ہموار ہو جائے گی۔
بشکریہ اردو نیوز
1 note
·
View note
Photo
واقعہ کربلا کا حقیقی پس منظر اور امیر معاویہ کی سازش(حصہ دوئم) . یہ وہی امیر معاویہ ہے جس نے مسجد الحرام میں خانہ منبر پر بیٹھ کر جھوٹ بولا ، اس کے علاوہ جو امیر معاویہ نے امام حسن مجتبیٰ سے معاہدہ کیا تھا اس کی بھی خلاف ورزی کی ۔امیر معاویہ کی کوشش یہ تھی کہ مسلمان اُمت میں اس کے خلاف جو چہ مہ گوئیاں ہو رہی ہیں اس کو کیسے خاموش کرایا جائے۔یہ وہی دور تھا جس میں باقاعدہ احادیث پر کام کیا گیا اور بیشمارجھوٹی اور من گھڑت احادیث بنائی گئیں۔ایک امام گزرے ہیں امام احمد بن حنبل ، انہوں نے ایک اسلامی رہبر کی حیثیت کچھ باتیں کہیں جیسے انہوں نے کہا حدیث کی سند کو چھوڑ دو، عالموں کی سند اور اجماع میری نظر میں کوئی اہمیت نہیں رکھتا خاص طور پر اُس حدیث کے مقابلے میں جو بھلے ہی ضعیف اور موضوع ہو ۔ میں کسی عالم کی بات کو ماننے کے بجائےاُس موضوع حدیث کو ماننا زیادہ پسند کروں گا۔یہاں پر انہوں نے باقاعدہ آئماکرام کو جھٹلانے کیلئےاُن جھوٹی حدیثوں کا سہارا لیا ۔ . https://www.mehdifoundation.com/latest/articles/waqia-karbala-ka-haqeqi-pas-manzar-aur-amir-moviya-ki-sazish-part-2/ . #امام_مہدی #گوھرشاہی #اللہ #واقعہ_کربلا #اسلام #اہل_کوفہ #باطنی_علم #نورانیت #تصوف #صراط_مستقیم #مذہب #عالم_اسلام #مومن #باطنی_تعلیم #مسلمان #مہدی_فاؤنڈیشن_انٹرنیشنل #مقدس #دین_الہی #ذکر_قلب #کام_کی_باتیں #تعلیمات_گوہر_شاہی #گوہر_نایاب #روحانیت #اقوال #ALRATV #اصل_صوفی https://www.instagram.com/p/BvdD6-3HFYJ/?utm_source=ig_tumblr_share&igshid=y941ofo5rwtb
#امام_مہدی#گوھرشاہی#اللہ#واقعہ_کربلا#اسلام#اہل_کوفہ#باطنی_علم#نورانیت#تصوف#صراط_مستقیم#مذہب#عالم_اسلام#مومن#باطنی_تعلیم#مسلمان#مہدی_فاؤنڈیشن_انٹرنیشنل#مقدس#دین_الہی#ذکر_قلب#کام_کی_باتیں#تعلیمات_گوہر_شاہی#گوہر_نایاب#روحانیت#اقوا��#alratv#اصل_صوفی
1 note
·
View note
Text
بھارتی کامیڈین کپل شرما بڑی مشکل میں پھنس گئے
بھارتی کامیڈین کپل شرما بڑی مشکل میں پھنس گئے
ممبئی(آوزنیوز)بھارت کے معروف کامیڈین کپل شرما پر امریکا کی عدالت میں مقدمہ دائر کردیا گیا ہے۔ غیر ملکی میڈیا رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کپل شرما پر معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام لگا کر امریکی ریاست نیو یارک کی عدالت میں ان کے خلاف مقدمہ دائر کیا گیا ہے۔ کپل شرما کے خلاف مقدمہ درج کروانے والی کمپنی نے دعویٰ کیا ہے کہ 2015 میں کپل شرما نے شمالی امریکا کا دورہ کیا تھا۔ انہوں نے معاہدہ کیا تھا کہ…
View On WordPress
0 notes
Text
بھارت کے معروف کامیڈین کپل شرما مشکل میں پڑگئے ان پر امریکا کی عدالت میں مقدمہ دائر کردیا گیا . بتایا گیا ہے کہ کپل شرما پر معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام لگا کر امریکی ریاست نیو یارک کی عدالت میں ان کے خلاف مقدمہ دائر کیا گیا ہے۔ کپل شرما کے خلاف مقدمہ درج کروانے والی کمپنی نے دعویٰ کیا ہے کہ 2015 میں کپل شرما نے شمالی امریکا کا دورہ کیا تھا انہوں نے معاہدہ کیا تھا کہ چھ مختلف شہروں میں شوز کریں…
View On WordPress
0 notes
Text
مفتاح اسماعیل نے ڈالر کی قیمت میں اضافے کا ذمہ دار عمران خان کی آئی ایم ایف سے ڈیل اور اس کی خلاف ورزی کو قرار دیا۔
مفتاح اسماعیل نے ڈالر کی قیمت میں اضافے کا ذمہ دار عمران خان کی آئی ایم ایف سے ڈیل اور اس کی خلاف ورزی کو قرار دیا۔
وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل 20 اپریل 2022 کو اسلام آباد میں NPC میں ایک پریس کانفرنس کے دوران گفتگو کر رہے ہیں۔ — INP/فائل پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان پر الزام لگاتے ہوئے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے جمعہ کو کہا کہ خان کا انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ معاہدہ اور اس کی خلاف ورزی ڈالر میں اضافے اور مہنگائی میں اضافے کی وجہ ہے۔ ٹویٹر پر وزیر خزانہ نے پی ٹی آئی کی قیادت والی حکومت کو…
View On WordPress
#آئی#اس#اسماعیل#اضافے#اور#ایف#ایم#خان#خلاف#دار#دیا#ذمہ#ڈالر#ڈیل#سے#عمران#قرار#قیمت#کا#کو#کی#مفتاح#میں#نے#ورزی
0 notes
Text
جوہری معاہدہ بحال کرنے کے لیے امریکا خیر سگالی اور عزم کو ثابت کرے، ایرانی صدر
ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے منگل کو کہا کہ امریکہ کو تہران کے 2015 کے جوہری معاہدے کو بحال کرنے کے لیے اپنی “خیر سگالی اور عزم” کو ثابت کرنا چاہیے۔ رئیسی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں تہران اور ایران کے درمیان مشترکہ جامع ایکشن پلان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ امریکا نے جوہری معاہدے سے یکطرفہ طور پر نکل کر معاہدے اور نیک نیتی کے اصول کی خلاف ورزی کی۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018…
View On WordPress
0 notes
Text
حکومت کو آئی ایم ایف کے بعد ’میثاقِ معیشت‘ کی طرف جانا چاہیے؟
یہ کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ جب ہم نے بیل آؤٹ کے لیے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ یہاں تک کہ جو لوگ ’اصولوں کی خلاف ورزی!‘ کا شور مچا رہے ہیں وہ بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ پروگرام ناگزیر بن گیا تھا۔ مالیاتی ادارے کی عائد کردہ شرائط کسی کو پسند ہوں یا نہیں، مگر یہ طے ہے کہ یہ شرائط اور معاشی استحکام کا عمل دشواری سے بھرپور ہے۔ مگر کیا ہمارے پاس اس کے علاوہ دوسرا کوئی راستہ ہے؟ معیشت اگر لڑکھڑاہٹ کا شکار ہو تو اسے ٹھیک کرنا ہی پڑتا ہے اور اس مقصد کے لیے سخت فیصلے درکار ہوتے ہیں۔ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان عملے کی سطح کا معاہدہ طے پا چکا ہے، تاہم اسٹیک ہولڈرز کی جانب سے اس حوالے سے حتمی اشارہ ملنا باقی ہے اور ابھی تک معاہدے کی تفصیلات کو منظرِ عام پر نہیں لایا گیا ہے۔ مگر اس سب کے باوجود آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ پاکستانی تاریخ میں سب سے سخت ترین آئی ایم ایف پروگرام ہو گا۔
اس بار شرائط کا تعلق صرف معیشت سے نہیں بلکہ سیاسی عمل میں بھی اس کے اثرات کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔ آخری منظوری حکومت کی جانب سے چند مطلوبہ اہم اقدامات اٹھانے سے مشروط ہے۔ ایسی تجویز کا اشارہ بھی ملا ہے کہ اس پروگرام کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی کلیئرنس سے جوڑا جائے۔��پاکستان اگرچہ آئی ایم ایف کے پاس ایک درجن سے زائد بار جا چکا ہے، لیکن پروگرامز کو، جزوی طور پر یا مکمل طور پر عمل کرنے کی کچھ خاص اچھی ساکھ نہیں رکھتا۔ گزشتہ 3 دہائیوں کے دوران ہر حکومت آئی ایم ایف کے اسٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ پروگرام میں داخل ہوئی مگر معاشی صورتحال بد سے بدتر ہوتی چلی گئی۔ جہاں آئی ایم ایف کی چند ہدایات بلاشبہ ہمیں زبردست طریقے سے متاثر کریں گی وہیں کئی ایڈجسٹمنٹس اور اصلاحات جن پر ہم اتفاق کر چکے ہیں ان پر ہمیں پہلے ہی عمل کر لینا چاہیے تھا۔ اس بات پر ہمیں غور و فکر کرنا چاہیے کہ آئی ایم ایف کے گزشتہ پروگرام کی تکمیل کے 3 سال بعد ہی ہم کیوں مالی مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں۔ یہ تو واضح ہے کہ ہم کبھی بھی وعدوں پر عمل پیرا نہیں رہتے۔
ہمیں اب بظاہر طور پر سب کچھ شروع سے شروع کرنا ہو گا وہ بھی پہلے سے زیادہ ناموافق شرائط کے ساتھ۔ ہمیں اس بات کی قطعی طور پر ضرورت نہیں تھی کہ آئی ایم ایف ہمیں یہ بتائے کہ کہ ہمارے ٹیکس بیس کو وسیع کرنا ہے، ریوینیو میں اضافہ کرنا ہے، سرکاری اداروں کے خسارے ختم کرنے ہیں اور سرکاری اخراجات میں کمی لانی ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ وہ اسٹرکچرل اصلاحات لانے کے اپنے وعدوں کو پورا کرنے کے لیے سنجیدہ ہے۔ کیا ہم اس سے پہلے ہم یہ سب نہیں سن چکے؟ 9 ماہ کی حکمرانی کے دوران متعدد بار اپنے فیصلوں سے پیچھے ہٹنے والی پی ٹی آئی حکومت اب تک کوئی خاص امید جگا نہیں پائی ہے۔ نئی اقتصادی ٹیم بظاہر زیادہ تجربہ کار اور پروفیشنل تو نظر آسکتی ہے مگر سخت زمینی حقائق سے نمٹنے کے لیے اتنا کافی نہیں ہے۔
اس کا تعلق معیشت سے زیادہ سیاست سے ہے۔ کسی بھی معنی خیز اصلاحاتی عمل میں سب سے بڑی رکاوٹ ریاست کے ایک حد سے زیادہ سرگرم ادارے اور حکمران اشرافیہ ہیں۔ ان کے ذاتی مفادات اس قدر طاقتور ہوتے ہیں کہ کوئی بھی حکومت ان کے خلاف کوئی بھی اقدام نہیں اٹھا پاتی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان تمام مشکلات کا بوجھ متوسط اور غریب افراد پر پڑتا ہے۔ امیر اور طاقتور افراد سے ٹیکس اکٹھا کرنا حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہو گا۔ کسی بھی قسم کی اصلاحات کے خلاف اس حکمران اشرافیہ کی جانب سے زبردست مزاحمت سامنے آسکتی ہے جو خود کو حاصل مراعا�� ترک کرنے کو تیار ہی نہیں ہے ۔ حکومت اس وعدے کے ساتھ اقتدار میں آئی کہ وہ ٹیکس کے جال کو بڑھائے گی، لیکن حکومت گزشتہ سالانہ بجٹ میں متعین کردہ اہداف کو بھی حاصل نہیں کر سکی، ایسے میں مجموعی ٹیکس ادائیگیوں کے حجم میں اضافہ تو دُور کی بات ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ خسارہ اب 300 ارب روپے سے بھی زیادہ ہے۔
آئی ایم ایف پروگرام کے تحت حکومت کو نئی ٹیکس کاری اور وصولی کے بہتر نظام کے ذریعے پہلے کے مقابلے میں 700 ارب روپے کا اضافہ کرنا ہے۔ اعلیٰ عہدیداروں کو بار بار بدلنے سے وفاقی ریوینیو بورڈ کی کارکردگی بہتر نہیں ہونے والی۔ حتیٰ کہ اگر اس محکمے میں اصلاحات لانے کے لیے کچھ اقدامات اٹھائے بھی جاتے ہیں تو بھی ان کے نتائج شاید فوری طور پر برآمد نہ ہو سکیں۔ گزشتہ حکومت نے جب ٹیکس ایمنسٹی اسکیم متعارف کروائی تو پی ٹی آئی نے اس کو ’کرپشن کو قانونی شکل‘ کے مترادف قرار دیا تھا، لیکن اب جب اپنی حکومت آئی تو پہلے کے مقابلے میں زیادہ رعایتوں کے ساتھ اس اسکیم کو متعارف کروا دیا گیا ہے۔ گزشتہ کئی اسکیموں کے بعد اب اس تازہ اسکیم کو لے کر یہ ڈھول پیٹا جا رہا ہے کہ اس سے بڑی تعداد میں کالی معیشت کو مرکزی دھارے میں لانا ممکن ہو گا، لیکن مختلف حکومتوں کی جانب سے متعارف کردہ اسکیمیں لوگوں کی چھپی ہوئی دولت ظاہر کروانے اور اسے ٹیکس کے جال میں لانے میں زیادہ کامیابی حاصل نہیں کر پائی ہیں۔ چلیے دیکھتے ہیں کہ لوگ اس ترغیبی مراعت پر ردِعمل دیتے ہیں یا نہیں۔
حکومت کے لیے سب سے مشکل چیلنج غیر ترقیاتی اخراجات میں کٹوتی ہو سکتا ہے۔ عمران خان کی کفایت شعاری پر مبنی مہم مالی صورتحال پر کوئی خاطر خواہ اثرات مرتب نہیں کر پائی ہے۔ لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ سرکاری اداروں کے ساتھ زیادتی کو بند کیا جائے، اب یہ ضروری ہو گیا ہے کہ ہر ایک ادارے کے اضافی اخراجات میں کمی کی جائے۔ ملکی بجٹ کا چوتھا بڑا حصہ دفاعی اخراجات کی صورت ہوتا ہے، لیکن ہمارے یہاں ابھی تک یہ ایسا موضوع ہے جس پر بات نہیں کی جا سکتی، لیکن اب ضروری ہے کہ اس معاملے پر ناصرف بات کی جائے، بلکہ اس پر نظرِثانی بھی ضروری ہے۔ اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ سیکیورٹی ایک اہم ترین معاملہ ہے، لیکن معیشت کی مضبوطی سے بھی تو انکار نہیں کیا جا سکتا۔ بحران کا شکار معیشت ممکنہ طور پر سب سے بڑا سیکیورٹی خطرہ بن سکتی ہے۔ بیرونی امداد پر انحصار ہونے کی وجہ سے ہماری خود مختاری پر تو ویسے بھی سمجھوتا ہو چکا ہے۔ لہٰذا سیکیورٹی پر آنچ آئے بغیر اس مد میں کتوٹی کی گنجائش بہرحال موجود رہتی ہے۔ کفایت شعاری کی مہم مسلح افواج تک پہنچنی چاہیے۔
یہ تو صاف ہے کہ وفاقی حکومت تنہا اس مالی بحران کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ 18 ویں ترمیم کے بعد صورتحال مزید پیچیدہ بن چکی ہے کیونکہ ترمیم کے تحت صوبوں کو زبردست حد تک مالی اور انتظامی خود مختاری حاصل ہے۔ ملک کو اس دلدل سے نکالنے کے لیے سیاسی ہم آہنگی کا قیام ضروری ہے۔ اقتصادی اور مالی طور پر ہمارے بُرے حالات کی ایک اہم وجہ سیاسی عدم استحکام ہے۔ ایک مخلوط حکومت کے لیے مشکل اور غیر مقبول فیصلے کرنا اور ان پر عمل درآمد کروانا انتہائی مشکل کام ہوتا ہے۔ آئی ایم ایف معاہدہ صورتحال کو سنبھالنے کی خاطر کچھ وقت کے لیے مالی سہارا تو فراہم کرے گا لیکن اگر ہمیں بحران سے نکلنا ہے اور ترقی کی طرف گامزن ہونا ہے تو اس کے لیے بہت کچھ کرنا ہو گا۔
پی ٹی آئی حکومت کے لیے ضروری ہے کہ وہ نہ صرف آئی ایم ایف پروگرام بلکہ صوبائی حکومتوں کے ساتھ مشاورتی عمل شروع کرنے کے لیے حزبِ اختلاف کو اپنے ساتھ بٹھائے۔ حکومت کے لیے سیاسی استحکام کے بغیر اقتصادی استحکام کا حصول ممکن نہیں ہو سکتا۔ لڑائی جھگڑے کے موجودہ ماحول نے سیاسی غیر یقینی کی صورتحال کو سنگین حد تک بڑھا دیا ہے جس کا براہِ راست اثر معیشت پر پڑتا ہے۔ سب سے اہم بات یہ کہ و��یرِاعظم عمران خان کو چاہیے کہ وہ سیاسی درجہ حرارت کو کم کرنے کے لیے اسٹیٹس مین شپ کا مظاہرہ کریں اور انہیں چاہیے کہ وہ سابق وزیرِ اعظم شاید خاقان عباسی کی جانب سے ’میثاق معیشت‘ پر بین الجماعتی مذکرات کے آغاز کی پیش کش کو قبول کر لیں۔
زاہد حسین بشکریہ ڈان نیوز
4 notes
·
View notes
Text
پوتن نے بائیڈن اور نیٹو پر واضح کر دیا کہ وہ کیا چاہتے ہیں
��وس کے مغرب کے ساتھ حالیہ تعلقات میں ولادی میر پوتن کے صبر کا پیمانہ ہر سات سال بعد لبریز ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ روس کے عبوری صدر بننے کے سات سال بعد 2007 میں انہوں نے سالانہ میونخ سکیورٹی کانفرنس میں ایک تقریر کے دوران نیٹو کی توسیع کو روس کی سلامتی کے لیے خطرہ اور مغربی یقین دہانیوں کی خلاف ورزی قرار دیا۔ سات سال بعد 2014 میں انہوں نے یوکرین کی تحریک کو مغرب کی شہ پر اٹھنے والی تحریک کے طور پر دیکھا اور اس کے جواب کریمیا کو چھین کر اسے روس کا حصہ بنا دیا۔ اور اب سات سال بعد پھر انہوں نے سلامتی کے دو معاہدوں کے مسودوں کی شکل میں مبینہ طور پر’الٹی میٹیم‘ دیا ہے۔ ان معاہدوں میں ایک امریکہ اور دوسرا نیٹو کے غور کرنے کے لیے ہے۔ تینوں باتوں میں سے ان مجوزہ معاہدوں کو سب سے زیادہ مثبت سمجھا جانا چاہیے جو یوکرین پر ممکنہ روسی حملے کے حوالے سے مغرب کی جانب سے خطرے کی گھنٹی بجائے جانے کے پیش نظر عجیب فیصلہ دکھائی دے سکتے ہیں۔
تاہم بات یہ ہے کہ گذشتہ 20 سالوں میں اکثر مغربی حکومتوں اور روس پر نظر رکھنے والوں کو مستقل شکایت رہی ہے کہ وہ نہیں جانتے کہ پوتن کیا چاہتے ہیں۔ اب نہ جاننے کے لیے کوئی بہانہ نہیں ہو سکتا۔ روسی وزارت خارجہ نے ان دو مجوزہ معاہدوں میں کسی بات کو مبہم نہیں رکھا۔ صدر بائیڈن اور نیٹو ارکان میں سے نصف (’نصف‘ روس کی شرط ہے) نے جو کچھ کرنا ہے وہ یہ کہ جینیوا یا کہیں بھی جا کر ان معاہدوں پر دستخط کریں جو بلاشبہ نہیں ہو گا۔ کئی اعتبار سے یہ دستاویزات ماضی کی یاد دلاتی ہیں۔ سرد جنگ کے آخری دور کی جب امریکہ اور روس ہتھیاروں کے کئی انتہائی خفیہ معاہدوں اور ہیلسنکی فائنل ایکٹ کے پابند تھے۔ اس ایکٹ میں مشرق اور مغرب کی تقسیم کی دونوں جانب مشترکہ حقوق اور فرائض طے کیے گئے تھے۔
اس طرح بڑے پیمانے پر اپنائے گئے روسی نظریے کی عکاسی ہوتی ہے کہ وہ تقسیم جس کی علامت دیوار برلن ہوا کرتی تھی، ابھی ختم نہیں ہوئی جس کی کہ انہیں امید تھی بلکہ صرف اتنا ہوا ہے کہ یہ تقسیم سوویت یونین کے خاتمے کے بعد مشرق میں روسی سرحد کی جانب منتقل ہو گئی ہے۔ نیٹو کی جانب سے جینز سٹولٹن برگ پہلے ہی معاہدوں کو ناقابل غور قرار دے چکے ہیں اور بہت سا ایسا ہی ہے، بعض افراد کے نزدیک تو پورا تصور ہی، جسے زیادہ تر نیٹو ارکان انفرادی سطح پر مسترد کر دیں گے۔ اگرچہ امریکہ نے یہ کہہ کر اسے یکسر مسترد کرنے سے گریز کیا ہے کہ ان حالات میں کہ جب بائیڈن دستخط کرنے میں جلدبازی کا مظاہرہ نہیں کریں گے اس لیے بحث کی بنیاد مل سکتی ہے۔ سٹولٹن برگ کی بات درست ہے۔ اگرچہ روس جو تجویز کر رہا ہے اس میں زیادہ تر واضح اور عام ہے۔ جہاں تک مجھے یاد ہے ایسا پہلی بار ہوا ہے۔ اس بار روس کو ٹھیک کس بات پر پریشانی ہے۔
معاہدوں کے مسودوں میں تین بنیادی مطالبات ہیں۔ ایک امریکہ، نیٹو اور روس کے لیے ہے کہ وہ فوج کی تعیناتی اور نقل و حرکت اور فوجی صلاحیت کے حوالے سے مشترکہ شرائط کی پ��بند ہوں تاکہ انہیں یورپ میں موجودہ روس-مغرب سرحد کے دونوں جانب فاصلے پر رکھا جا سکے۔ ایسا اس قسم کے واقعات (بشمول موسم گرما میں بحیرہ اسود میں برطانوی اور روسی جنگی جہازوں کے درمیان مڈھ بھیڑ) اورسرحد کے قریب فوج کے اجتماع کو روکنے کے لیے کیا گیا جس کے نتیجے میں حادثاتی طور پر جنگ چھڑ سکتی ہے۔ پہلی نظر میں دوسرا مطالبہ یہ دکھائی دیتا ہے کہ گویا روس نیٹو کی مشرق میں توسیع کا خاتمہ چاہتا ہے۔ لیکن اصلی مطالبہ یہ ہے کہ کوئی غیر ملکی نیٹو افواج یا ہتھیار سابق سویت یونین کے رکن ممالک کی سرزمین پر نہ رکھے جائیں۔ اس مطلب یہ ہو گا کہ کوئی نام دیے بغیر عملی طور پر وہ ضمانتیں بحال ہو جائیں جن کے بارے میں روس کا ماننا ہے کہ وہ اسے وارسا معاہدہ ختم ہونے پر دی گئی تھیں۔
روس کے تیسرے بہت واضح مطالبے کے بارے میں کہا گیا کہ امریکہ اور نیٹو رسمی طور پر ذمہ داری لیں کہ اتحاد میں مزید توسیع نہیں ہو گی اور خاص طور پر یوکرین اس کا حصہ نہیں بنے گا۔ اصولی طور پر اس آخری شرط پر بات چیت کا آغاز تک نہیں ہو گا۔ نیٹو کی طویل عرصے سے پالیسی چلی آ رہی ہے کہ وہ جو کچھ بھی کرے کوئی تیسرا فریق اس کے فیصلے کو ویٹو نہیں کرے گا۔ تاہم صورت حال مختلف ہو سکتی ہے۔ ماضی میں 2008 میں یوکرین اور جارجیا کو رکن بنانے پر نیٹو میں اختلاف پیدا ہو گیا تھا اور اس مقصد کے لیے جھوٹا وعدہ کیا گیا کہ رکنیت مسترد نہیں کی گئی۔ اب اگر نیٹو میں توسیع کی امریکی خواہش سرد پڑ ��کی ہے تو مزید توسیع ایجنڈے کا حصہ نہیں ہو گی۔ اس کے باوجود اگر روس کو امید ہے کہ اس معاملے کو معاہدے میں شامل کیا جائے تو اسے مایوسی ہو گی۔ اور جب کہ نیٹو میں’نئے‘ارکان شامل ہو چکے ہیں وہ ان ملکوں میں امریکی اور دوسری غیرملکی فوجوں کی تعیناتی کی کسی بھی حد تک مزاحمت کرے گا جو 1997 کے بعد نیٹو کا حصہ بنے۔ تاہم اس کے باوجود اس معاملے پر بحث کی گنجائش ہو سکتی ہے۔
نیٹو ارکان اس بات پر تقسیم ہیں کہ روس کے ساتھ معاملات طے کیے جائیں یا اسے الگ تھلگ کر دیا جائے اور اب امریکہ میں بعض بااثر آوازیں متنبہ کر رہی ہیں کہ مشرق کی جانب توسیع کے نتیجے میں نیٹو آرٹیکل پانچ کی شکل میں غیردانشمندانہ طور پر قسمت کے ہاتھ میں یرغمال بن گیا ہے۔ آرٹیکل پانچ کا مطلب ہے کہ ایک رکن پر حملہ تمام ارکان پر حملے کے طور پر لیا جائے گا۔ یہ تحفط بڑی وجہ ہے جس کی بنیاد پر بالٹک ریاستیں اور معاہدہ وارسا کے سابق ارکان نیٹو میں شامل ہونے میں اتنی دلچسپی رکھتے تھے لیکن کیا امریکی روس کے ساتھ جنگ میں حقیقت پسندانہ طور پر ان کی فوج کی مدد کریں گے۔ مثال کے طور ایستونیا کی؟ یہ سب کہنے کے بعد تاہم روس کے معاہدوں کے مسودوں کو بات کو آگے بڑھانے کے حربے سے بڑھ کر کچھ لینا یقینی طور پر غلط ہو گا۔ اس وقت ایسا لگ رہا ہے کہ یا تو ماسکو سلامتی کے ان خدشات کو یورپ کی جانب سے تسلیم نہ کرنے پر ناراض ہے جنہیں وہ جائز سمجھتا ہے.
بنیادی طور پر یوکرین کے معاملے میں یا پوتن کو امید ہے کہ بائیڈن کی شکل میں ان کا واسطہ ایسے امریکی صدر کے ساتھ ہے جن کے ساتھ وہ تھوڑے وقت میں پہلی بار معاملات طے کر سکتے ہیں۔ دونوں رہنما جون میں جنیوا میں ہونے والی رسمی سربراہ ملاقات کے بعد ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں ہیں اور حال میں انہوں نے کانفرنس کال کی ایپ زوم پر دو گھنٹے بات چیت کی ہے۔ ماہرین ورکنگ گروپس کی شکل میں مبینہ طور پر تندہی کے ساتھ کام میں مصروف ہیں۔ کم از کم اتنا ہوا کہ معاہدوں کے مسودوں نے انہیں مزید معاملات پر بات چیت کا موقع فراہم کیا ہے۔ تاہم شاید ان معاہدوں کا سب سے زیادہ مفید پہلو ان کا انداز ہے۔ شائد اتفاق سے وہ بیک وقت روس کے خدشات کی عکاسی کرتے ہیں۔ نیٹو کا ہمیشہ اصرار رہا ہے کہ یہ ایک دفاعی اتحاد ہے۔ اس لیے روس کو کسی بات کا ڈر نہیں ہونا چاہیے تاہم اتحاد روسی سرحدوں کے قریب آ سکتا ہے۔ جو بات ان معاہدوں کے مسودہ سے ظاہر ہوتی وہ یہ ہے کہ روس نیٹو کی پیش قدمی کو جارحیت اورخود روس کے بارے میں مغربی عزائم کے ابتدایے کے طور پر دیکھتا ہے۔
واشنگٹن یا لندن حتیٰ کہ برلن کے نقطہ نظر سے یہ خوف، خیالی حتیٰ کہ فضول دکھائی دے سکتا ہے۔ تاہم ماسکو سمجھتا ہے، جیسا کہ ان معاہدوں سے واضح ہوتا ہے کہ یوکرین نیٹو کا رکن بن جائے تو وہ خود روس کے خلاف مغربی پیش قدمی کا پلیٹ فارم ہو ثابت ہو گا۔ مغرب روس کے یوکرین پر حملے کے خطرے کے بارے میں جو بھی بات کرتا ہے اس کا ایک عکس موجود ہے یعنی نیٹو کی طرف سے روس کو براہ راست لاحق خطرہ۔ مغرب کی جانب بالآخر اسے سمجھ لینے کی صورت میں مغرب میں عظیم تر سلامتی ممکن ہو سکتی ہے۔ اور روس کی جانب سے جو کچھ تجویز کیا جا رہا ہے اس میں مثبت باتیں موجود ہیں۔ سرحد کی دوسری جانب کشیدگی میں کمی کا روس کو بھی جواب دینا ہو گا۔ یہ بھی دکھائی دیتا ہے کہ ماسکو نے اس حد تک نیٹو میں توسیع کی حقیقت تسلیم کر لی ہے۔ اس کا مسئلہ پولینڈ، بالٹک ریاستوں اور یوکرین جیسے ممالک کے ساتھ ہے جنہوں نے امریکہ اور دوسری غیرملکی نیٹو افواج اور ان کے ساتھ آنے والے جنگی سازوسامان کو جگہ دے رکھی ہے۔
مثال کے طور پر پولینڈ جس کی فوج نیٹو کے معیار کے مطابق تربیت یافتہ اور اسلحے سے لیس ہو اورجب اور جہاں ضرورت ہو نیٹو کے مشنز میں کردار ادا کرے تو ایسا لگتا ہے کہ اسے قبول کرلیا جائے گا۔ معاہدوں کے مسودے میں نیٹو کو یورپ میں سلامتی کے لیے مذاکرات میں شراکت دار کے طور پر بھی تسلیم کیا گیا ہے۔ کم از کم اتنا ہوا ہے کہ ان دستاویزات میں نئے انداز میں واضح ہوا ہے کہ روس سلامتی کی ضمانتوں کی ضرورت کے بارے میں کیسا اور کیوں محسوس کرتا ہے۔ یہ دستاویزات ماضی میں 2009 میں اس کے وقت کے روسی صدر دمتری میدویدوف کے تجویز کردہ سلامتی کے بڑے منصوبے کے مقابلے میں بیک وقت زیادہ مخصوص اور کم خواہشات پر مبنی ہیں۔ ان میں روس کی خواہشات پر مبنی فہرست شامل نہیں ہے۔ اب اس بات کی ضرورت ہے کہ امریکہ اور نیٹو اپنی خواہشات کی فہرست مرتب کریں اور کئی سال میں پہلی مرتبہ سنجیدہ مذاکرات شروع کریں۔
میری ڈیجیوسکی
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
0 notes
Text
ریکوڈک منصوبہ کیا ہے؟
پاکستان اور ایران کی سرحد کے قریب بلوچستان کے ضلع چاغی کی تحصیل نوکنڈی میں واقع صحرائی علاقہ ریکوڈک دراصل سونے اور تانبے کے ذخائر کی وجہ سے مشہور ہے، جو پوری دنیا کے ذخائر کے پانچویں حصے کے برابر ہیں. کہا جاتا ہے کہ اس سے قبل یہاں ایک آتش فشاں تھا۔ ریکوڈک کے علاقے سے سونے اور تانبا نکالنے کے لیے اس وقت کے وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ذوالفقار علی مگسی نے 23 جولائی 1993 کو آسٹریلیا کی ایک کان کن کمپنی بی ایچ پی بلیٹن کے ساتھ معاہدہ کیا اور اس کمپنی کو چاغی میں معدنیات کی کھوج کے حقوق دے دیے۔ اس معاہدے کو چاغی ہلز ایکسپلوریشن جوائنٹ وینچر ایگریمنٹ (سی ایچ ای جے وی اے) کہا جاتا ہے، جس کے تحت بلوچستان حکومت کا حصہ 25 فیصد اور بی ایچ پی کمپنی کا حصہ 75 فیصد مقرر کیا گیا تھا۔
1993 سے 1997 کے درمیان چاغی میں اُن مقامات کی نشاندہی کی گئی، جہاں کھدائی کی جا سکتی تھی۔ اس پورے علاقے کو ریکو ڈک کمپلیکس کہا جاتا ہے، جس کے بعد بی ایچ پی نے معدنیات کی تلاش کے لیے لائسنس حاصل کیا اور جلد ہی اس علاقے سے سونے اور تانبے کے ذخائر دریافت ہو گئے۔ تاہم 2000 میں آسٹریلین مینکور کمپنی نے بی ایچ پی بلیٹن کے شیئرز خرید لیے اور اس طرح ریکوڈک سے سونا اور تانبا نکالنے کا یہ منصوبہ اطالوی کمپنی ٹی تھیان کاپر کمپنی (ٹی سی سی) کو منتقل ہو گیا، جو کینیڈا کی کمپنی بیرک گولڈ کارپوریشن اور چلی کی کمپنی اینٹوفگستا کے مابین مشترکہ کاروبار کی ایک کمپنی ہے۔
اس کے ساتھ ہی ریکوڈک ایک مشترکہ منصوبہ بن گیا، جس میں بلوچستان حکومت کا حصہ 25 فیصد جبکہ اینٹوفگسٹا اور بیرک گولڈ کا حصہ 37.5 ، 37.5 فیصد تھا۔ اصولاً حکومت بلوچستان کو ٹی سی سی کے ساتھ نیا معاہدہ کرنا چاہیے تھا، لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔ ٹی تھیان نے 2002ء میں کھدائی کا لائسنس حاصل کیا، جس کی 2006ء میں مزید تین سال کے لیے تجدید کی گئی اور 2008 تک سپریم کورٹ میں کیس دائر ہونے تک اسی معاہدے کے تحت کام چلتا رہا۔ تاہم 2011 میں بلوچستان حکومت کی جانب سے ٹی سی سی کی جانب سے دی گئی مائننگ لیز کی درخواست بے قاعدگی کی بنا پر مسترد کر دی گئی.
جس پر یہ کمپنی اس معاملے کو واشنگٹن ڈی سی میں واقع ورلڈ بینک کے انٹرنیشنل سینٹر فار سیٹلمنٹ آف انویسٹمنٹ ڈسپیوٹس ٹربیونل (آئی سی ایس آئی ڈی) کے پاس لے گئی تاکہ اسے اس سرمایہ کاری کا معاوضہ مل سکے جو اس نے اس منصوبے پر اب تک کی تھی اور جس کی لاگت 40 کروڑ ڈالر بتائی گئی تھی۔ ٹی سی سی کی جانب سے بلوچستان حکومت کے خلاف ہرجانے کا دعویٰ کرتے ہوئے الزام عائد کیا گیا کہ صوبائی حکومت نے 1993 کے چاغی ہلز ایکسپلوریشن جوائنٹ وینچر ایگریمنٹ کی خلاف ورزی کی ہے۔ دوسری جانب سپریم کورٹ میں کیس دائر ہونے کے پانچ سال بعد یعنی 2013 میں اُس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ریکوڈک میں سونے اور دیگر معدنیات کے ذخائر کی تلاش کے معاہدے کو کالعدم قرار دے دیا۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں اس معاہدے کو ملک کے منرل رولز اور ملکیت کی منتقلی کے قوانین کے خلاف قرار دیا۔ قیاس کیا گیا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے 1993 میں کیے گئے معاہدے کو کالعدم قرار دیے جانے کے بعد بین الاقوامی ٹریبونل میں ٹی تھیان کمپنی کا مقدمہ کمزور ہو گیا۔ 2008 میں سوسائٹی آف جیولاجسٹس کے تحت شائع ہونے والی ٹی سی سی کے ماہرینِ ارضیات کی ایک تحقیق کے مطابق ریکو ڈک میں ایک کروڑ 80 لاکھ ٹن تانبہ اور 3 کروڑ 20 لاکھ اونس سونا موجود ہے اور ان کی کوالٹی اعلیٰ ترین کوالٹی ہے۔ 33 لاکھ 47 ہزار ایکٹر پر واقع اس منصوبے سے ایک اندازے کے مطابق روزانہ 15 ہزار ٹن سونا اورتانبا نکالا جا سکتا ہے جس سے پسماندگی اور غربت کے شکار صوبہ بلوچستان کو سالانہ اربوں ڈالر آمدنی ہو سکتی ہے۔
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
1 note
·
View note
Text
تحریک طالبان پاکستان نے حکومت پر معاہدہ کی خلاف ورزی کالگایا الزام
تحریک طالبان پاکستان نے حکومت پر معاہدہ کی خلاف ورزی کالگایا الزام
تحریک طالبان پاکستان نے حکومت پر معاہدہ کی خلاف ورزی کالگایا الزام پشاور،10دسمبر ( آئی این ایس انڈیا ) حکومت پاکستان اور کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے درمیان جنگ بندی معاہدے کی میعاد ختم ہو گئی ہے اور ٹی ٹی پی نے حکومت پر معاہدے کی خلاف ورزی کا بھی الزام عائد کیا ہے۔حکومت کی طرف سے اب تک اس معاہدے کے مستقبل کے بارے میں کوئی باضابط اعلان نہیں کیا گیا۔ البتہ خیبر…
View On WordPress
0 notes
Text
پاکستانیوں کو نوکریاں دینے کیلیے حکومت اور سعودی عرب کے درمیان دو معاہدے
پاکستانیوں کو نوکریاں دینے کیلیے حکومت اور سعودی عرب کے درمیان دو معاہدے
سعودی عرب نے پاکستانی ورکرز کی بھرتی اور ہنر کی تصدیق کے پروگرام سے متعلق حکومت کے ساتھ دو معاہدوں پر دستخط کردیے۔ معاہدوں پر دستخط کی تقریب وفاقی وزیر برائے تعلیم، پیشہ ورانہ تربیت اور قومی ورثہ شفقت محمود کے دورہ سعودی عرب کے دوران ہوئی۔ یہ معاہدہ تنازعات کو حل کرنے اور کسی بھی خلاف ورزی پر ریکروٹمنٹ دفاتر، کمپنیوں یا ایجنسیوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنے میں بھی مدد دے گا۔ ہنر کی تصدیق کے…
View On WordPress
0 notes
Text
پاکستانیوں کو نوکریاں دینے کیلیے حکومت اور سعودی عرب کے درمیان دو معاہدے - اردو نیوز پیڈیا
پاکستانیوں کو نوکریاں دینے کیلیے حکومت اور سعودی عرب کے درمیان دو معاہدے – اردو نیوز پیڈیا
اردو نیوز پیڈیا آن لائین اسلام آباد: سعودی عرب نے پاکستانی ورکرز کی بھرتی اور ہنر کی تصدیق کے پروگرام سے متعلق حکومت کے ساتھ دو معاہدوں پر دستخط کردیے۔ معاہدوں پر دستخط کی تقریب وفاقی وزیر برائے تعلیم، پیشہ ورانہ تربیت اور قومی ورثہ شفقت محمود کے دورہ سعودی عرب کے دوران ہوئی۔ یہ معاہدہ تنازعات کو حل کرنے اور کسی بھی خلاف ورزی پر ریکروٹمنٹ دفاتر، کمپنیوں یا ایجنسیوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی…
View On WordPress
0 notes