#بریکسٹ
Explore tagged Tumblr posts
Text
یوکرین کا بریکسٹ سے موازنہ کرنے پر برطانیہ کے وزیر اعظم جانسن کی تنقید روس یوکرین جنگ کی خبریں۔
یوکرین کا بریکسٹ سے موازنہ کرنے پر برطانیہ کے وزیر اعظم جانسن کی تنقید روس یوکرین جنگ کی خبریں۔
بورس جانسن یوکرین کی مزاحمت کا بریکسٹ سے موازنہ کرنے پر تنقید کی زد میں آتے ہیں، بشمول ان کے اپنے اراکین پارلیمنٹ۔ برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن، ان کے اپنے ایم پیز سمیت، یہ کہنے کے بعد تنقید کی زد میں آگئے ہیں کہ بریکسٹ نے ظاہر کیا کہ برطانویوں نے یوکرائنیوں کی طرح آزادی کے لیے ایک ہی “جذبہ” کا اشتراک کیا۔ ہفتے کے روز شمالی انگلینڈ کے بلیک پول میں اپنی کنزرویٹو پارٹی کی کانفرنس سے خطاب میں،…
View On WordPress
0 notes
Text
بریکسٹ مشرق وسطی کو کیسے متاثر کرسکتا ہے؟ | بریکسٹ نیوز
بریکسٹ مشرق وسطی کو کیسے متاثر کرسکتا ہے؟ | بریکسٹ نیوز
لندن ، برطانیہ۔ برسوں کی سخت گفت و شنید کے بعد تجارتی معاہدے پر اتفاق ہونے کے بعد ، برطانیہ کا یوروپی یونین کے معاشی اور سیاسی مدار سے نکلنا نزع ہے۔ برطانیہ اور یورپی یونین کے مابین تعلقات کی ترقی کے بارے میں بہت کچھ ہوا ہے ، لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ اس تاریخی طلاق سے خارجہ پالیسی کے دیگر اہم شعبوں یعنی مشرق وسطی میں تجارت اور سلامتی کو بھی متاثر کیا جاسکتا ہے۔ کنگز کالج لندن کے انسٹی ٹیوٹ آف…
View On WordPress
0 notes
Text
جانسن کو بریکسٹ قوانین پر پارلیمانی شکست کا سامنا کرنا پڑا
جانسن کو بریکسٹ قوانین پر پارلیمانی شکست کا سامنا کرنا پڑا
وزیر اعظم بورس جانسن کو پیر کے آخر میں پارلیمنٹ کے ایوان بالا میں مجوزہ قوانین کے سلسلے میں بھاری شکست کا سامنا کرنا پڑا ، جس سے وہ بریکسٹ معاہدے کی خلاف ورزی کر سکیں گے ، اس منصوبے کو امریکی صدر کے منتخب کردہ جو بائیڈن نے تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
انٹرنل مارکیٹ بل بریکسٹ کے بعد برطانیہ میں چاروں ممالک کے مابین تجارت کے تحفظ کے لئے بنایا گیا تھا۔ اس میں ایسی شقیں شامل ہیں جو وزرا کے بقول…
View On WordPress
0 notes
Text
پناہ کے متلاشیوں میں سے صرف 1% ہوم آفس بریکسٹ کے بعد ڈی پورٹ کیے گئے یورپی یونین کو ڈیپورٹ کرنا چاہتا ہے۔ #ٹاپسٹوریز
New Post has been published on https://mediaboxup.com/%d9%be%d9%86%d8%a7%db%81-%da%a9%db%92-%d9%85%d8%aa%d9%84%d8%a7%d8%b4%db%8c%d9%88%da%ba-%d9%85%db%8c%da%ba-%d8%b3%db%92-%d8%b5%d8%b1%d9%81-1-%db%81%d9%88%d9%85-%d8%a2%d9%81%d8%b3-%d8%a8%d8%b1%db%8c/
پناہ کے متلاشیوں میں سے صرف 1% ہوم آفس بریکسٹ کے بعد ڈی پورٹ کیے گئے یورپی یونین کو ڈیپورٹ کرنا چاہتا ہے۔
نئے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ہوم آفس نے جن پناہ گزینوں کو یورپی یونین میں بھیجنے کی کوشش کی ان میں سے 1 فیصد سے بھی کم کو دراصل گزشتہ سال ملک بدر کر دیا گیا تھا۔
حکومتی اعداد و شمار سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ پناہ کے متلاشی برطانیہ میں ان کے دعوے پر ابتدائی فیصلے کا انتظار 100,000 سے زیادہ کی ریکارڈ بلندی پر ہے۔
2021 میں، ہوم آفس نے “ناقابل قبولیت کی بنیادوں” پر غور کے لیے پناہ کے 9,622 دعویداروں کی نشاندہی کی – مطلب کہ وہ انہیں یورپی یونین کے ان ممالک میں واپس بھیجنا چاہتے ہیں جہاں سے انہوں نے سفر کیا تھا۔ ان میں سے 8,500 سے زیادہ نے بعد میں اپنے سیاسی پناہ کے دعوے کو روک دیا تھا۔
تاہم، ان میں سے صرف 11 ہی اصل میں براعظم کو واپس کیے گئے تھے۔
ہوم سکریٹری نے کہا ہے کہ وہ ڈبلن ریگولیشن کو تبدیل کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں، جس نے پہلے پناہ کے متلاشیوں کو یورپی یونین کے رکن ممالک میں واپس کرنے کی اجازت دی تھی جب کہ برطانیہ “دو طرفہ واپسی کے انتظامات” کے ساتھ بلاک کا حصہ تھا۔
لیکن آزاد سمجھتا ہے کہ ایسا کوئی معاہدہ نہیں ہوا ہے۔
جمعرات کو شائع ہونے والے سرکاری اعداد و شمار سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ 2021 کے آخر میں 100,564 افراد کے پاس ابتدائی سیاسی پناہ کا دعویٰ زیر التوا تھا – پچھلے سال کے مقابلے میں 55 فیصد اور 2017 میں 241 فیصد زیادہ۔
پچھلے سال بھی برطانیہ میں تقریباً 20 سالوں میں سب سے زیادہ سیاسی پناہ کے دعوے دیکھنے میں آئے، 48,540۔ آخری مرتبہ یہ حد سے تجاوز 2003 میں ہوئی تھی جب 49,407 دعوے درج کیے گئے تھے۔
دریں اثنا، ظلم �� ستم سے فرار ہونے کے بعد دوبارہ آباد کاری کی اسکیموں کے تحت برطانیہ لائے جانے والوں کی تعداد گزشتہ دو سالوں میں 254 فیصد کم ہو گئی ہے، جو کہ 2019 میں 5,612 سے بڑھ کر گزشتہ سال 1,587 ہو گئی۔
امیگریشن کے وزیر کیون فوسٹر نے کہا: “برطانیہ کا سیاسی پناہ کا نظام ٹوٹ چکا ہے اور دو دہائیوں سے زیادہ عرصے سے اس میں اصلاح نہیں کی گئی ہے۔ یہ حکومت ہمارے قوانین اور برطانیہ کے ٹیکس دہندگان کے کھلے عام استحصال کو ختم کرنے کے لیے سخت فیصلے کر کے برطانیہ میں غیر قانونی داخلے اور سیاسی پناہ کے لیے ہمارے ملک کے طریقہ کار کو درست کر رہی ہے۔
“ہم جانتے ہیں کہ اس مسئلے کا کوئی آسان حل نہیں ہے لیکن امیگریشن کے لیے ہمارا نیا منصوبہ منصفانہ لیکن مضبوط نظام فراہم کرے گا جسے برطانوی عوام نے بار بار ووٹ دیا ہے۔”
مزید پیروی کرتا ہے..
Source link
0 notes
Text
برطانیہ ، خلیجی ممالک آزاد تجارتی معاہدے پر بات چیت کر رہے ہیں۔ ایکسپریس ٹریبیون۔
برطانیہ ، خلیجی ممالک آزاد تجارتی معاہدے پر بات چیت کر رہے ہیں۔ ایکسپریس ٹریبیون۔
ماناما: بحرین نے کہا کہ برطانیہ اور چھ خلیج تعاون کونسل (جی سی سی) ریاستوں نے آزاد تجارتی معاہدے (ایف ٹی اے) پر ابتدائی بات چیت شروع کر دی ہے ، جیسا کہ لندن بریکسٹ کے بعد اپنی تجارتی پوزیشن کو مستحکم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ بحرین کے وزیر صنعت ، تجارت اور سیاحت زید بن راشد الزیانی نے جمعہ کے روز کہا ، “جی سی سی ممالک اور برطانیہ کے مابین ایف ٹی اے مذاکرات کے باضابطہ آغاز کا اعلان کرتے ہوئے مجھے…
View On WordPress
0 notes
Text
امریکہ اور برطانیہ کو بیک وقت نہ ختم ہونے والے سیاسی بحرانوں کا سامنا
امریکہ اور برطانیہ دنوں ایسے سیاسی بحرانوں سے گزر رہے ہیں جو ختم ہوتے دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔ امریکی ایوان نمائیندگان کے نئے منتخب ہونے والے ارکان نے سنیٹ پر زور دیا کہ وہ شٹ ڈاؤن یعنی حکومت کی بندش کے بارے اخراجاتی بلوں پر ووٹنگ کروایں جبکہ برطانوی وزیر اعظم تھیریسا مے پارلیمان میں بریکسٹ کے سمجھوتے کی شکست کے بعد عدم اعتماد کی ووٹنگ میں بال بال بچیں۔ ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے نئے ارکان کانگریس نے سنیٹ پر زور دیا کہ وہ اس مالی بل پر رائے شماری کا اہتمام کرے جس سے شٹ ڈاؤن ختم کیا جا سکے۔ ایوان نمائیندگان میں ڈیموکریٹک پارٹی کی نو منتخب رکن اِلہان عمر کا کہنا ہے ’’ہم نے سنیٹ میں اکثریتی فریق کو وہی بل بھجوائے ہیں جن کے حق میں وہ پہلےووٹ دے چکے ہیں۔ اب ہم اُنہیں یہ بل منظور کرنے کیلئے اپنی انتظامیہ کی طرف سے اجازت کا انتظار کئے بغیر لیڈرشپ دکھانے کا ایک موقع فراہم کر رہے ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بل پر دستخط کر دئے ہیں جس کے ذریعے فرلو پر جانے والے یا پھر بغیر تنخواہ کے کام کرنے والے لگ بھگ 800,000 سرکاری ملازمین کو معاوضے کی ادائیگی کی جا سکتی ہے۔ تاہم صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ جب تک امریکہ، میکسیکو سرحد پر دیوار کی تعمیر کیلئے فنڈنگ کی منظوری نہیں دی جاتی، وہ شٹ ڈاؤن ختم نہیں کریں گے۔ اُدھر برطانوی وزیر اعظم تھیریسا مے کی بریکسٹ سمجھوتے سے متعلق اپنی پارلیمان کے ساتھ محاذ آرائی جاری ہے۔ یہ سمجھوتا اُنہوں نے یورپین یونین کے ساتھ کیا تھا۔ یونیورسٹی آف نارتھ کیرولائینا میں سیاسیات کے ماہر کلاس لیرس کا کہنا ہے کہ مغربی دنیا کی دونوں کلیدی جمہوریتوں کے بحران عوامی معاملات سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بریکسٹ پر ریفرنڈم 2016 کے وسط میں ہوا تھا۔ ٹرمپ اس کے چند ماہ بعد صدر منتخب ہوئے تھے۔ ان دونوں میں ایک واضح تعلق موجود ہے کیونکہ 2016 عوامیت کی تحریک کا نقطہ آغاز تھا اور ان دونوں ملکوں نے اس سلسلے میں ایک دوسرے سے تعاون کیا۔
لیرس کا کہنا ہے کہ ٹرمپ اور بریکسٹ کے لیڈر نائجل فیراج نے کھلے عام ایک دوسرے کی حمیت کی۔ وہ کہتے ہیں کہ صدر ٹرمپ کی طرف سے دیوار کی تعمیر پر اصرار اور برطانیہ کی یورپین یونین سے علیحدگی ایسے معاملات ہیں جن سے عالمی معیشت اور امیگریشن کیلئے شدید خدشات پیدا ہوتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے، ’’اقتصادی انحطاط کا خوف، غیر ملکیوں سے متعلق خوف، پناہ گزینوں کا خوف اور قومی شناخت کھو جانے کا خوف، میرے خیال میں لوگوں کی اکثریت اس سے گزر رہی ہے اور ان میں برطانیہ اور امریکہ کے عوام کا بڑا طبقہ شامل ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ طویل مدت تک جاری رہنے والے ان سیاسی بحرانوں سے دنیا بھر میں امریکہ اور برطانیہ کے اثرو رسوخ میں کمی واقع ہو رہی ہے اور روسی صدر ولادی میر پوٹن اس سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
کلاس لیرس کا کہنا ہے کہ اُن کے خیال میں اس کا براہ راست فائدہ پوٹن کو نہیں پہنچ رہا ہے۔ تاہم چاہے امریکہ ہو یا برطانیہ، کوئی بھی ایسا معاملہ جو مغرب کے مضبوط جمہوری ملکوں کو نقصان پہنچاتا ہے وہ امریکہ اور برطانیہ کے دوست ممالک کیلئے اچھا نہیں ہے۔ لیرس کا کہنا ہے کہ امریکہ میں شٹ ڈاؤن اُس وقت ختم ہو گا جب یہ امریکی معیشت کو متاثر کرنے لگے گا۔ برطانیہ کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ بحران کے نتیجے میں ایک اور ریفرنڈم منعقد ہو سکتا ہے۔ یہ ایسا ریفرنڈم ہو گا جس میں ووٹ دینے والے لوگ یورپین یونین سے برطانیہ کی علیحدگی کے اثرات کا پہلے کی نسبت بہتر طور پر با خبر ہوں گے۔
بشکریہ وائس آف امریکہ
0 notes
Text
امریکہ اور برطانیہ کو بیک وقت نہ ختم ہونے والے سیاسی بحرانوں کا سامنا
واشنگٹن —
امریکہ اور برطانیہ دنوں ایسے سیاسی بحرانوں سے گزر رہے ہیں جو ختم ہوتے دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔ امریکی ایوان نمائیندگان کے نئے منتخب ہونے والے ارکان نے بدھ کے روز سنیٹ پر زور دیا کہ وہ شٹ ڈاؤن یعنی حکومت کی بندش کے بارے اخراجاتی بلوں پر ووٹنگ کروایں جبکہ برطانوی وزیر اعظم تھیریسا مے پارلیمان میں بریکسٹ کے سمجھوتے کی شکست کے بعدکل بدھ کے روز عدم اعتماد کی ووٹنگ میں بال بال بچیں۔
ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے نئے ارکان کانگریس نے کل بدھ کے روز سنیٹ پر زور دیا کہ وہ اس مالی بل پر رائے شماری کا اہتمام کرے جس سے شٹ ڈاؤن ختم کیا جا سکے۔ ایوان نمائیندگان میں ڈیموکریٹک پارٹی کی نو منتخب رکن اِلہان عمر کا کہنا ہے ’’ہم نے سنیٹ میں اکثریتی فریق کو وہی بل بھجوائے ہیں جن کے حق میں وہ پہلےووٹ دے چکے ہیں۔ اب ہم اُنہیں یہ بل منظور کرنے کیلئے اپنی انتظامیہ کی طرف سے اجازت کا انتظار کئے بغیر لیڈرشپ دکھانے کا ایک موقع فراہم کر رہے ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بل پر دستخط کر دئے ہیں جس کے ذریعے فرلو پر جانے والے یا پھر بغیر تنخواہ کے کام کرنے والے لگ بھگ 800,000 سرکاری ملازمین کو معاوضے کی ادائیگی کی جا سکتی ہے۔ تاہم صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ جب تک امریکہ۔میکسیکو سرحد پر دیوار کی تعمیر کیلئے فنڈنگ کی منظوری نہیں دی جاتی، وہ شٹ ڈاؤن ختم نہیں کریں گے۔
اُدھر برطانوی وزیر اعظم تھیریسا مے کی بریکسٹ سمجھوتے سے متعلق اپنی پارلیمان کے ساتھ محاذ آرائی جاری ہے۔ یہ سمجھوتا اُنہوں نے یورپین یونین کے ساتھ کیا تھا۔
یونیورسٹی آف نارتھ کیرولائینا میں سیاسیات کے ماہر کلاس لیرس کا کہنا ہے کہ مغربی دنیا کی دونوں کلیدی جمہوریتوں کے بحران عوامی معاملات سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بریکسٹ پر ریفرنڈم 2016 کے وسط میں ہوا تھا۔ ٹرمپ اس کے چند ماہ بعد صدر منتخب ہوئے تھے۔ ان دونوں میں ایک واضح تعلق موجود ہے کیونکہ 2016 عوامیت کی تحریک کا نقطہ آغاز تھا اور ان دونوں ملکوں نے اس سلسلے میں ایک دوسرے سے تعاون کیا۔۔
لیرس کا کہنا ہے کہ ٹرمپ اور بریکسٹ کے لیڈر نائجل فیراج نے کھلے عام ایک دوسرےکی حمیت کی۔ وہ کہتے ہیں کہ صدر ٹرمپ کی طرف سے دیوار کی تعمیر پر اصرار اور برطانیہ کی یورپین یونین سے علیحدگی ایسے معاملات ہیں جن سے عالمی معیشت اور امیگریشن کیلئےشدید خدشات پیدا ہوتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے، ’’اقتصادی انحطاط کا خوف، غیر ملکیوں سے متعلق خوف، پناہ گزینوں کا خوف اور قومی شناخت کھو جانے کا خوف، میرے خیال میں لوگوں کی اکثریت اس سے گزر رہی ہے اور ان میں برطانیہ اور امریکہ کے عوام کا بڑا طبقہ شامل ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ طویل مدت تک جاری رہنے والے ان سیاسی بحرانوں سے دنیا بھر میں امریکہ اور برطانیہ کے اثرورسوخ میں کمی واقع ہو رہی ہے اور روسی صدر ولادی میر پوٹن اس سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کلاس لیرس کا کہنا ہے کہ اُن کے خیال میں اس کا براہ راست فائدہ پوٹن کو نہیں پہنچ رہا ہے۔ تاہم چاہے امریکہ ہو یا برطانیہ، کوئی بھی ایسا معاملہ جو مغرب کے مضبوط جمہوری ملکوں کو نقصان پہنچاتا ہے وہ امریکہ اور برطانیہ کے دوست ممالک کیلئے اچھا نہیں ہے۔
لیرس کا کہنا ہے کہ امریکہ میں شٹ ڈاؤن اُس وقت ختم ہو گا جب یہ امریکی معیشت کو متاثر کرنے لگے گا۔ برطانیہ کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ بحران کے نتیجے میں ایک اور ریفرنڈم منعقد ہو سکتا ہے۔ یہ ایسا ریفرنڈم ہو گا جس میں ووٹ دینے والے لوگ یورپین یونین سے برطانیہ کی علیحدگی کے اثرات کا پہلے کی نسبت بہتر طور پر با خبرہوں گے۔
The post امریکہ اور برطانیہ کو بیک وقت نہ ختم ہونے والے سیاسی بحرانوں کا سامنا appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain http://bit.ly/2sBtau8 via Urdu News Paper
#urdu news paper#indian urdu news papers#inquilab urdu news paper#sahara urdu news paper#kashmir urdu
0 notes
Text
امریکہ اور برطانیہ کو بیک وقت نہ ختم ہونے والے سیاسی بحرانوں کا سامنا
واشنگٹن —
امریکہ اور برطانیہ دنوں ایسے سیاسی بحرانوں سے گزر رہے ہیں جو ختم ہوتے دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔ امریکی ایوان نمائیندگان کے نئے منتخب ہونے والے ارکان نے بدھ کے روز سنیٹ پر زور دیا کہ وہ شٹ ڈاؤن یعنی حکومت کی بندش کے بارے اخراجاتی بلوں پر ووٹنگ کروایں جبکہ برطانوی وزیر اعظم تھیریسا مے پارلیمان میں بریکسٹ کے سمجھوتے کی شکست کے بعدکل بدھ کے روز عدم اعتماد کی ووٹنگ میں بال بال بچیں۔
ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے نئے ارکان کانگریس نے کل بدھ کے روز سنیٹ پر زور دیا کہ وہ اس مالی بل پر رائے شماری کا اہتمام کرے جس سے شٹ ڈاؤن ختم کیا جا سکے۔ ایوان نمائیندگان میں ڈیموکریٹک پارٹی کی نو منتخب رکن اِلہان عمر کا کہنا ہے ’’ہم نے سنیٹ میں اکثریتی فریق کو وہی بل بھجوائے ہیں جن کے حق میں وہ پہلےووٹ دے چکے ہیں۔ اب ہم اُنہیں یہ بل منظور کرنے کیلئے اپنی انتظامیہ کی طرف سے اجازت کا انتظار کئے بغیر لیڈرشپ دکھانے کا ایک موقع فراہم کر رہے ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بل پر دستخط کر دئے ہیں جس کے ذریعے فرلو پر جانے والے یا پھر بغیر تنخواہ کے کام کرنے والے لگ بھگ 800,000 سرکاری ملازمین کو معاوضے کی ادائیگی کی جا سکتی ہے۔ تاہم صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ جب تک امریکہ۔میکسیکو سرحد پر دیوار کی تعمیر کیلئے فنڈن�� کی منظوری نہیں دی جاتی، وہ شٹ ڈاؤن ختم نہیں کریں گے۔
اُدھر برطانوی وزیر اعظم تھیریسا مے کی بریکسٹ سمجھوتے سے متعلق اپنی پارلیمان کے ساتھ محاذ آرائی جاری ہے۔ یہ سمجھوتا اُنہوں نے یورپین یونین کے ساتھ کیا تھا۔
یونیورسٹی آف نارتھ کیرولائینا میں سیاسیات کے ماہر کلاس لیرس کا کہنا ہے کہ مغربی دنیا کی دونوں کلیدی جمہوریتوں کے بحران عوامی معاملات سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بریکسٹ پر ریفرنڈم 2016 کے وسط میں ہوا تھا۔ ٹرمپ اس کے چند ماہ بعد صدر منتخب ہوئے تھے۔ ان دونوں میں ایک واضح تعلق موجود ہے کیونکہ 2016 عوامیت کی تحریک کا نقطہ آغاز تھا اور ان دونوں ملکوں نے اس سلسلے میں ایک دوسرے سے تعاون کیا۔۔
لیرس کا کہنا ہے کہ ٹرمپ اور بریکسٹ کے لیڈر نائجل فیراج نے کھلے عام ایک دوسرےکی حمیت کی۔ وہ کہتے ہیں کہ صدر ٹرمپ کی طرف سے دیوار کی تعمیر پر اصرار اور برطانیہ کی یورپین یونین سے علیحدگی ایسے معاملات ہیں جن سے عالمی معیشت اور امیگریشن کیلئےشدید خدشات پیدا ہوتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے، ’’اقتصادی انحطاط کا خوف، غیر ملکیوں سے متعلق خوف، پناہ گزینوں کا خوف اور قومی شناخت کھو جانے کا خوف، میرے خیال میں لوگوں کی اکثریت اس سے گزر رہی ہے اور ان میں برطانیہ اور امریکہ کے عوام کا بڑا طبقہ شامل ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ طویل مدت تک جاری رہنے والے ان سیاسی بحرانوں سے دنیا بھر میں امریکہ اور برطانیہ کے اثرورسوخ میں کمی واقع ہو رہی ہے اور روسی صدر ولادی میر پوٹن اس سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کلاس لیرس کا کہنا ہے کہ اُن کے خیال میں اس کا براہ راست فائدہ پوٹن کو نہیں پہنچ رہا ہے۔ تاہم چاہے امریکہ ہو یا برطانیہ، کوئی بھی ایسا معاملہ جو مغرب کے مضبوط جمہوری ملکوں کو نقصان پہنچاتا ہے وہ امریکہ اور برطانیہ کے دوست ممالک کیلئے اچھا نہیں ہے۔
لیرس کا کہنا ہے کہ امریکہ میں شٹ ڈاؤن اُس وقت ختم ہو گا جب یہ امریکی معیشت کو متاثر کرنے لگے گا۔ برطانیہ کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ بحران کے نتیجے میں ایک اور ریفرنڈم منعقد ہو سکتا ہے۔ یہ ایسا ریفرنڈم ہو گا جس میں ووٹ دینے والے لوگ یورپین یونین سے برطانیہ کی علیحدگی کے اثرات کا پہلے کی نسبت بہتر طور پر با خبرہوں گے۔
The post امریکہ اور برطانیہ کو بیک وقت نہ ختم ہونے والے سیاسی بحرانوں کا سامنا appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain http://bit.ly/2sBtau8 via
#jang news today#jang akhbar today#pakistan urdu newspapers online#pakistan papers#daily jang pk#dail
0 notes
Text
امریکہ اور برطانیہ کو بیک وقت نہ ختم ہونے والے سیاسی بحرانوں کا سامنا
واشنگٹن —
امریکہ اور برطانیہ دنوں ایسے سیاسی بحرانوں سے گزر رہے ہیں جو ختم ہوتے دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔ امریکی ایوان نمائیندگان کے نئے منتخب ہونے والے ارکان نے بدھ کے روز سنیٹ پر زور دیا کہ وہ شٹ ڈاؤن یعنی حکومت کی بندش کے بارے اخراجاتی بلوں پر ووٹنگ کروایں جبکہ برطانوی وزیر اعظم تھیریسا مے پارلیمان میں بریکسٹ کے سمجھوتے کی شکست کے بعدکل بدھ کے روز عدم اعتماد کی ووٹنگ میں بال بال بچیں۔
ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے نئے ارکان کانگریس نے کل بدھ کے روز سنیٹ پر زور دیا کہ وہ اس مالی بل پر رائے شماری کا اہتمام کرے جس سے شٹ ڈاؤن ختم کیا جا سکے۔ ایوان نمائیندگان میں ڈیموکریٹک پارٹی کی نو منتخب رکن اِلہان عمر کا کہنا ہے ’’ہم نے سنیٹ میں اکثریتی فریق کو وہی بل بھجوائے ہیں جن کے حق میں وہ پہلےووٹ دے چکے ہیں۔ اب ہم اُنہیں یہ بل منظور کرنے کیلئے اپنی انتظامیہ کی طرف سے اجازت کا انتظار کئے بغیر لیڈرشپ دکھانے کا ایک موقع فراہم کر رہے ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بل پر دستخط کر دئے ہیں جس کے ذریعے فرلو پر جانے والے یا پھر بغیر تنخواہ کے کام کرنے والے لگ بھگ 800,000 سرکاری ملازمین کو معاوضے کی ادائیگی کی جا سکتی ہے۔ تاہم صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ جب تک امریکہ۔میکسیکو سرحد پر دیوار کی تعمیر کیلئے فنڈنگ کی منظوری نہیں دی جاتی، وہ شٹ ڈاؤن ختم نہیں کریں گے۔
اُدھر برطانوی وزیر اعظم تھیریسا مے کی بریکسٹ سمجھوتے سے متعلق اپنی پارلیمان کے ساتھ محاذ آرائی جاری ہے۔ یہ سمجھوتا اُنہوں نے یورپین یونین کے ساتھ کیا تھا۔
یونیورسٹی آف نارتھ کیرولائینا میں سیاسیات کے ماہر کلاس لیرس کا کہنا ہے کہ مغربی دنیا کی دونوں کلیدی جمہوریتوں کے بحران عوامی معاملات سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بریکسٹ پر ریفرنڈم 2016 کے وسط میں ہوا تھا۔ ٹرمپ اس کے چند ماہ بعد صدر منتخب ہوئے تھے۔ ان دونوں میں ایک واضح تعلق موجود ہے کیونکہ 2016 عوامیت کی تحریک کا نقطہ آغاز تھا اور ان دونوں ملکوں نے اس سلسلے میں ایک دوسرے سے تعاون کیا۔۔
لیرس کا کہنا ہے کہ ٹرمپ اور بریکسٹ کے لیڈر نائجل فیراج نے کھلے عام ایک دوسرےکی حمیت کی۔ وہ کہتے ہیں کہ صدر ٹرمپ کی طرف سے دیوار کی تعمیر پر اصرار اور برطانیہ کی یورپین یونین سے علیحدگی ایسے معاملات ہیں جن سے عالمی معیشت اور امیگریشن کیلئےشدید خدشات پیدا ہوتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے، ’’اقتصادی انحطاط کا خوف، غیر ملکیوں سے متعلق خوف، پناہ گزینوں کا خوف اور قومی شناخت کھو جانے کا خوف، میرے خیال میں لوگوں کی اکثریت اس سے گزر رہی ہے اور ان میں برطانیہ اور امریکہ کے عوام کا بڑا طبقہ شامل ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ طویل مدت تک جاری رہنے والے ان سیاسی بحرانوں سے دنیا بھر میں امریکہ اور برطانیہ کے اثرورسوخ میں کمی واقع ہو رہی ہے اور روسی صدر ولادی میر پوٹن اس سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کلاس لیرس کا کہنا ہے کہ اُن کے خیال میں اس کا براہ راست فائدہ پوٹن کو نہیں پہنچ رہا ہے۔ تاہم چاہے امریکہ ہو یا برطانیہ، کوئی بھی ایسا معاملہ جو مغرب کے مضبوط جمہوری ملکوں کو نقصان پہنچاتا ہے وہ امریکہ اور برطانیہ کے دوست ممالک کیلئے اچھا نہیں ہے۔
لیرس کا کہنا ہے کہ امریکہ میں شٹ ڈاؤن اُس وقت ختم ہو گا جب یہ امریکی معیشت کو متاثر کرنے لگے گا۔ برطانیہ کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ بحران کے نتیجے میں ایک اور ریفرنڈم منعقد ہو سکتا ہے۔ یہ ایسا ریفرنڈم ہو گا جس میں ووٹ دینے والے لوگ یورپین یونین سے برطانیہ کی علیحدگی کے اثرات کا پہلے کی نسبت بہتر طور پر با خبرہوں گے۔
The post امریکہ اور برطانیہ کو بیک وقت نہ ختم ہونے والے سیاسی بحرانوں کا سامنا appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain http://bit.ly/2sBtau8 via Daily Khabrain
0 notes
Text
یوروپی یونین اور برطانیہ نے بریکسٹ کے بعد کے تجارتی معاہدے پر مہر ثبت کردی
یوروپی یونین اور برطانیہ نے بریکسٹ کے بعد کے تجارتی معاہدے پر مہر ثبت کردی
24 دسمبر 2020 کو وسطی لندن میں 10 ڈاوننگ اسٹریٹ کے اندر ، بریکسٹ کے بعد تجارت کے معاہدے پر قوم کو اپ ڈیٹ کرنے کے لئے برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن کے اشاروں پر اشارہ کیا گیا۔ – اے ایف پی / پول / پال گروور برسلز: برطانیہ اور یوروپی یونین نے بالآخر بروکسٹ کے بعد تجارت کے معاہدے پر زوردار حملہ کیا ہے جس کی انہیں امید ہے کہ کئی ماہ تک جاری رہنے والے مذاکرات کے بعد بلاک سے برطانیہ کے رخصت ہونے کے…
View On WordPress
0 notes
Text
بریکسٹ: معاہدے کے بعد پورے دن میں برطانیہ کی مارکیٹوں میں ریلی بریکسٹ نیوز
بریکسٹ: معاہدے کے بعد پورے دن میں برطانیہ کی مارکیٹوں میں ریلی بریکسٹ نیوز
پونڈ چڑھ گیا ، ایف ٹی ایس ای 100 انڈیکس تقریبا دو مہینوں میں سب سے زیادہ بڑھ گیا اور منگل کے روز طویل عرصے سے چلنے والے سٹرلنگ کارپوریٹ بانڈ نے ہم عمر افراد کی قیادت کی۔ ایک بریکسٹ معاہدے نے ملک کے معاشی مستقبل کے بارے میں وزن کی سالوں کی غیر یقینی صورتحال کے خاتمے کے بعد ، سرمایہ کاروں نے تجارت کے پہلے پورے دن برطانیہ کی منڈیوں میں ڈالا۔ پونڈ چڑھ گیا ، ایف ٹی ایس ای 100 انڈیکس تقریبا دو مہینوں…
View On WordPress
0 notes
Text
برطانیہ کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کے تصفیہ کے بغیر بریکسٹ مذاکرات کو دوبارہ شروع کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے
برطانیہ کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کے تصفیہ کے بغیر بریکسٹ مذاکرات کو دوبارہ شروع کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے
برطانوی حکومت نے پیر کے روز کہا تھا کہ اگلے سال سے برسلز کو نئی برطانیہ کی خودمختاری کو تسلیم کرنے کے لئے بروکسلز کو پیش کیے بغیر یورپی یونین کے ساتھ بریکسٹ مذاکرات کو دوبارہ شروع کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
سینئر وزیر مائیکل گو نے پارلیمنٹ کو بتایا ، “جب تک کہ یورپی یونین اس پوزیشن پر قائم رہے اس وقت تک مذاکرات کے ساتھ آگے بڑھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اس طرح کی بات چیت بے معنی ہوگی اور ہمیں…
View On WordPress
#بات کرتا ہے#بریکسٹ#بغیر#پوائنٹ#دوبارہ شروع کریں#کا کہنا ہے کہ#لچک#متحدہ سلطنت یونائیٹڈ کنگڈم#متحدہ یورپ#مجھکو#نہیں
0 notes
Text
بورس جانسن کی خبر: برسلز نے یورپی یونین کے شہریوں کے ساتھ برطانیہ کے سلوک پر تنقید کی۔ #ٹاپسٹوریز
New Post has been published on https://mediaboxup.com/%d8%a8%d9%88%d8%b1%d8%b3-%d8%ac%d8%a7%d9%86%d8%b3%d9%86-%da%a9%db%8c-%d8%ae%d8%a8%d8%b1-%d8%a8%d8%b1%d8%b3%d9%84%d8%b2-%d9%86%db%92-%db%8c%d9%88%d8%b1%d9%be%db%8c-%db%8c%d9%88%d9%86%db%8c%d9%86/
بورس جانسن کی خبر: برسلز نے یورپی یونین کے شہریوں کے ساتھ برطانیہ کے سلوک پر تنقید کی۔
نیٹلی ایلفیک کا دعویٰ ہے کہ ڈوور میں ٹریفک جام برسلز کی بیوروکریسی کی وجہ سے ہے نہ کہ بریکسٹ
دی یورپی یونین انگریزوں کو خبردار کیا ہے۔ حکومت برطانیہ میں رہنے والے اپنے شہریوں کے ساتھ ہونے والے سلوک کے بعد بریگزٹ میں بات کرتا ہے برسلز بقایا مسائل پر کوئی پیش رفت کرنے میں ناکام رہے، بشمول متنازعہ تجارتی انتظامات جن کے بارے میں کاروباری اداروں نے خبردار کیا ہے کہ انہیں لاکھوں کا نقصان ہو رہا ہے۔
سیکرٹری خارجہ لِز ٹرس اور یورپی کمیشن کے نائب صدر ماروس سیفکووچ نے پیر کو ملاقات کی جس کا مقصد متنازعہ آئرش سمندر سے منسلک سرخ فیتے کو کم کرنا ہے۔ تجارت قواعد
لیکن مسٹر سیفکووچ نے کہا کہ حالیہ مہینوں میں تیز گفت و شنید کے باوجود “نہ تو کوئی پیش رفت ہوئی ہے اور نہ ہی کوئی خرابی”، ساتھ ہی یہ خدشہ بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ اگر یورپی یونین کے شہری اپنی حیثیت کو پہلے سے طے شدہ سے تبدیل کرنے کے لیے بروقت درخواست نہیں دیتے ہیں تو وہ رہائشی حیثیت سے محروم ہو سکتے ہیں۔ آباد
انہوں نے اس بارے میں بھی وضاحت طلب کی کہ آیا نئی رہائشی حیثیت والے یورپی یونین کے شہریوں کو ان حقوق کی ضمانت دی گئی ہے جو بریکسٹ انخلا کے معاہدے کے تحت ہیں یا یو کے امیگریشن قانون کے تحت، اور دونوں معاملات پر برطانیہ کے موقف پر “افسوس” کا اظہار کیا۔
براعظم پر اپنے قریبی اقتصادی شراکت داروں کے ساتھ کھڑی کی گئی تجارتی رکاوٹوں سے کاروبار کے لیے جاری نتائج کے درمیان، برطانیہ ��ی کچھ فرموں نے خبردار کیا ہے کہ یورپی آرڈرز میں 80 فیصد سے زیادہ کمی آئی ہے۔
تازہ ترین اپ ڈیٹ دکھائیں۔
1645517701
صبح بخیر اور خوش آمدید آزادبرطانیہ کی سیاسی خبروں کی لائیو کوریج۔
یوکرین کے بحران پر تازہ ترین اپ ڈیٹس کے لیے، ہمارے لائیو بلاگ پر جائیں۔ یہاں.
اور کوویڈ کے بارے میں تازہ ترین خبروں کے لیے، ہمارا علیحدہ لائیو بلاگ پڑھیں یہاں.
ٹام بیچلر22 فروری 2022 08:15
Source link
0 notes
Text
امریکہ اور برطانیہ کو بیک وقت نہ ختم ہونے والے سیاسی بحرانوں کا سامنا
واشنگٹن —
امریکہ اور برطانیہ دنوں ایسے سیاسی بحرانوں سے گزر رہے ہیں جو ختم ہوتے دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔ امریکی ایوان نمائیندگان کے نئے منتخب ہونے والے ارکان نے بدھ کے روز سنیٹ پر زور دیا کہ وہ شٹ ڈاؤن یعنی حکومت کی بندش کے بارے اخراجاتی بلوں پر ووٹنگ کروایں جبکہ برطانوی وزیر اعظم تھیریسا مے پارلیمان میں بریکسٹ کے سمجھوتے کی شکست کے بعدکل بدھ کے روز عدم اعتماد کی ووٹنگ میں بال بال بچیں۔
ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے نئے ارکان کانگریس نے کل بدھ کے روز سنیٹ پر زور دیا کہ وہ اس مالی بل پر رائے شماری کا اہتمام کرے جس سے شٹ ڈاؤن ختم کیا جا سکے۔ ایوان نمائیندگان میں ڈیموکریٹک پارٹی کی نو منتخب رکن اِلہان عمر کا کہنا ہے ’’ہم نے سنیٹ میں اکثریتی فریق کو وہی بل بھجوائے ہیں جن کے حق میں وہ پہلےووٹ دے چکے ہیں۔ اب ہم اُنہیں یہ بل منظور کرنے کیلئے اپنی انتظامیہ کی طرف سے اجازت کا انتظار کئے بغیر لیڈرشپ دکھانے کا ایک موقع فراہم کر رہے ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بل پر دستخط کر دئے ہیں جس کے ذریعے فرلو پر جانے والے یا پھر بغیر تنخواہ کے کام کرنے والے لگ بھگ 800,000 سرکاری ملازمین کو معاوضے کی ادائیگی کی جا سکتی ہے۔ تاہم صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ جب تک امریکہ۔میکسیکو سرحد پر دیوار کی تعمیر کیلئے فنڈنگ کی منظوری نہیں دی جاتی، وہ شٹ ڈاؤن ختم نہیں کریں گے۔
اُدھر برطانوی وزیر اعظم تھیریسا مے کی بریکسٹ سمجھوتے سے متعلق اپنی پارلیمان کے ساتھ محاذ آرائی جاری ہے۔ یہ سمجھوتا اُنہوں نے یورپین یونین کے ساتھ کیا تھا۔
یونیورسٹی آف نارتھ کیرولائینا میں سیاسیات کے ماہر کلاس لیرس کا کہنا ہے کہ مغربی دنیا کی دونوں کلیدی جمہوریتوں کے بحران عوامی معاملات سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بریکسٹ پر ریفرنڈم 2016 کے وسط میں ہوا تھا۔ ٹرمپ اس کے چند ماہ بعد صدر منتخب ہوئے تھے۔ ان دونوں میں ایک واضح تعلق موجود ہے کیونکہ 2016 عوامیت کی تحریک کا نقطہ آغاز تھا اور ان دونوں ملکوں نے اس سلسلے میں ایک دوسرے سے تعاون کیا۔۔
لیرس کا کہنا ہے کہ ٹرمپ اور بریکسٹ کے لیڈر نائجل فیراج نے کھلے عام ایک دوسرےکی حمیت کی۔ وہ کہتے ہیں کہ صدر ٹرمپ کی طرف سے دیوار کی تعمیر پر اصرار اور برطانیہ کی یورپین یونین سے علیحدگی ایسے معاملات ہیں جن سے عالمی معیشت اور امیگریشن کیلئےشدید خدشات پیدا ہوتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے، ’’اقتصادی انحطاط کا خوف، غیر ملکیوں سے متعلق خوف، پناہ گزینوں کا خوف اور قومی شناخت کھو جانے کا خوف، میرے خیال میں لوگوں کی اکثریت اس سے گزر رہی ہے اور ان میں برطانیہ اور امریکہ کے عوام کا بڑا طبقہ شامل ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ طویل مدت تک جاری رہنے والے ان سیاسی بحرانوں سے دنیا بھر میں امریکہ اور برطانیہ کے اثرورسوخ میں کمی واقع ہو رہی ہے اور روسی صدر ولادی میر پوٹن اس سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کلاس لیرس کا کہنا ہے کہ اُن کے خیال میں اس کا براہ راست فائدہ پوٹن کو نہیں پہنچ رہا ہے۔ تاہم چاہے امریکہ ہو یا برطانیہ، کوئی بھی ایسا معاملہ جو مغرب کے مضبوط جمہوری ملکوں کو نقصان پہنچاتا ہے وہ امریکہ اور برطانیہ کے دوست ممالک کیلئے اچھا نہیں ہے۔
لیرس کا کہنا ہے کہ امریکہ میں شٹ ڈاؤن اُس وقت ختم ہو گا جب یہ امریکی معیشت کو متاثر کرنے لگے گا۔ برطانیہ کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ بحران کے نتیجے میں ایک اور ریفرنڈم منعقد ہو سکتا ہے۔ یہ ایسا ریفرنڈم ہو گا جس میں ووٹ دینے والے لوگ یورپین یونین سے برطانیہ کی علیحدگی کے اثرات کا پہلے کی نسبت بہتر طور پر با خبرہوں گے۔
The post امریکہ اور برطانیہ کو بیک وقت نہ ختم ہونے والے سیاسی بحرانوں کا سامنا appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain http://bit.ly/2sBtau8 via Urdu News
0 notes
Text
امریکہ اور برطانیہ کو بیک وقت نہ ختم ہونے والے سیاسی بحرانوں کا سامنا
واشنگٹن —
امریکہ اور برطانیہ دنوں ایسے سیاسی بحرانوں سے گزر رہے ہیں جو ختم ہوتے دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔ امریکی ایوان نمائیندگان کے نئے منتخب ہونے والے ارکان نے بدھ کے روز سنیٹ پر زور دیا کہ وہ شٹ ڈاؤن یعنی حکومت کی بندش کے بارے اخراجاتی بلوں پر ووٹنگ کروایں جبکہ برطانوی وزیر اعظم تھیریسا مے پارلیمان میں بریکسٹ کے سمجھوتے کی شکست کے بعدکل بدھ کے روز عدم اعتماد کی ووٹنگ میں بال بال بچیں۔
ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے نئے ارکان کانگریس نے کل بدھ کے روز سنیٹ پر زور دیا کہ وہ اس مالی بل پر رائے شماری کا اہتمام کرے جس سے شٹ ڈاؤن ختم کیا جا سکے۔ ایوان نمائیندگان میں ڈیموکریٹک پارٹی کی نو منتخب رکن اِلہان عمر کا کہنا ہے ’’ہم نے سنیٹ میں اکثریتی فریق کو وہی بل بھجوائے ہیں جن کے حق میں وہ پہلےووٹ دے چکے ہیں۔ اب ہم اُنہیں یہ بل منظور کرنے کیلئے اپنی انتظامیہ کی طرف سے اجازت کا انتظار کئے بغیر لیڈرشپ دکھانے کا ایک موقع فراہم کر رہے ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بل پر دستخط کر دئے ہیں جس کے ذریعے فرلو پر جانے والے یا پھر بغیر تنخواہ کے کام کرنے والے لگ بھگ 800,000 سرکاری ملازمین کو معاوضے کی ادائیگی کی جا سکتی ہے۔ تاہم صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ جب تک امریکہ۔میکسیکو سرحد پر دیوار کی تعمیر کیلئے فنڈنگ کی منظوری نہیں دی جاتی، وہ شٹ ڈاؤن ختم نہیں کریں گے۔
اُدھر برطانوی وزیر اعظم تھیریسا مے کی بریکسٹ سمجھوتے سے متعلق اپنی پارلیمان کے ساتھ محاذ آرائی جاری ہے۔ یہ سمجھوتا اُنہوں نے یورپین یونین کے ساتھ کیا تھا۔
یونیورسٹی آف نارتھ کیرولائینا میں سیاسیات کے ماہر کلاس لیرس کا کہنا ہے کہ مغربی دنیا کی دونوں کلیدی جمہوریتوں کے بحران عوامی معاملات سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بریکسٹ پر ریفرنڈم 2016 کے وسط میں ہوا تھا۔ ٹرمپ اس کے چند ماہ بعد صدر منتخب ہوئے تھے۔ ان دونوں میں ایک واضح تعلق موجود ہے کیونکہ 2016 عوامیت کی تحریک کا نقطہ آغاز تھا اور ان دونوں ملکوں نے اس سلسلے میں ایک دوسرے سے تعاون کیا۔۔
لیرس کا کہنا ہے کہ ٹرمپ اور بریکسٹ کے لیڈر نائجل فیراج نے کھلے عام ایک دوسرےکی حمیت کی۔ وہ کہتے ہیں کہ صدر ٹرمپ کی طرف سے دیوار کی تعمیر پر اصرار اور برطانیہ کی یورپین یونین سے علیحدگی ایسے معاملات ہیں جن سے عالمی معیشت اور امیگریشن کیلئےشدید خدشات پیدا ہوتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے، ’’اقتصادی انحطاط کا خوف، غیر ملکیوں سے متعلق خوف، پناہ گزینوں کا خوف اور قومی شناخت کھو جانے کا خوف، میرے خیال میں لوگوں کی اکثریت اس سے گزر رہی ہے اور ان میں برطانیہ اور امریکہ کے عوام کا بڑا طبقہ شامل ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ طویل مدت تک جاری رہنے والے ان سیاسی بحرانوں سے دنیا بھر میں امریکہ اور برطانیہ کے اثرورسوخ میں کمی واقع ہو رہی ہے اور روسی صدر ولادی میر پوٹن اس سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کلاس لیرس کا کہنا ہے کہ اُن کے خیال میں اس کا براہ راست فائدہ پوٹن کو نہیں پہنچ رہا ہے۔ تاہم چاہے امریکہ ہو یا برطانیہ، کوئی بھی ایسا معاملہ جو مغرب کے مضبوط جمہوری ملکوں کو نقصان پہنچاتا ہے وہ امریکہ اور برطانیہ کے دوست ممالک کیلئے اچھا نہیں ہے۔
لیرس کا کہنا ہے کہ امریکہ میں شٹ ڈاؤن اُس وقت ختم ہو گا جب یہ امریکی معیشت کو متاثر کرنے لگے گا۔ برطانیہ کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ بحران کے نتیجے میں ایک اور ریفرنڈم منعقد ہو سکتا ہے۔ یہ ایسا ریفرنڈم ہو گا جس میں ووٹ دینے والے لوگ یورپین یونین سے برطانیہ کی علیحدگی کے اثرات کا پہلے کی نسبت بہتر طور پر با خبرہوں گے۔
The post امریکہ اور برطانیہ کو بیک وقت نہ ختم ہونے والے سیاسی بحرانوں کا سامنا appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain http://bit.ly/2sBtau8 via Roznama Urdu
#jang online newspaper#roznama urdu#naija newspapers#khabrain news epaper#all pakistani newspapers in
0 notes
Text
GBPUSD اوور ہیڈ مزاحمت کا احترام کرتا ہے اور وسیع بینڈ میں رہتا ہے
GBPUSD اوور ہیڈ مزاحمت کا احترام کرتا ہے اور وسیع بینڈ میں رہتا ہے
[ad_1]
GBPUSD میں یکم کی طرح دوسری آیت
کل GBPUSD پر ایک پوسٹ میں میں نے لکھا تھا:
…. جی بی پی کے جوڑے میں سرخیوں کی خبر متعدد مختلف سمتوں سے آسکتی ہے۔ کوویڈ ہے۔ اسٹاک سے بہاؤ ہے اور بریکسٹ بھی ہے۔ اس سے تجارت خاص طور پر غیر مستحکم ہوسکتی ہے جیسا کہ ہم نے دیکھا ہے۔
تکنیکی طور پر ، 200 گھنٹے چلنے والی اوسط (گرین لائن) 16 اکتوبر کے بعد سے اور 1.3017 رقبے پر 50 range retretment کے قریب ہے۔ اس…
View On WordPress
0 notes