#IPPs
Explore tagged Tumblr posts
kpsolargroup · 14 days ago
Text
Independent Power Producers (IPPs) are driving the shift to clean energy by developing renewable power plants, investing in solar and wind energy, and expanding energy infrastructure. Learn how IPPs are shaping a sustainable future!
0 notes
azaadpakistan · 28 days ago
Text
Government Approves Revised Agreements with 14 IPPs to Cut Power Costs
0 notes
emergingpakistan · 3 months ago
Text
آئی پی پیز کے اثرات
Tumblr media
انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز جن کی مجموعی تعداد آٹھ درجن کے قریب ہے، قومی معیشت کا خون چوسنے اور ملک کو زبوں حالی سے دوچار کرنے کا کتنا بڑا سبب ہیں، اس کی نہایت خوفناک تفصیلات سامنے آرہی ہیں۔ ان سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ قومی وسائل کس بے دردی سے اور کتنی طویل مدت سے ان کی بھینٹ چڑھائے جارہے ہیں۔ اس ضمن میں ایک تازہ ترین رپورٹ سے ملک میں درآمدی ایندھن سے چلنے والے 26 آئی پی پیز کو گزشتہ دس سال کے دوران 1200 ارب روپے سے زائد ادا کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے جبکہ اس سے پہلے کا ڈیٹا سامنے آنے میں مزید ایک ماہ لگ سکتا ہے۔ درآمدی ایندھن سے چلنے والے ان بجلی گھروں کو بن��ش اور خرابی کے باوجود سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی کے مطابق سیکڑوں فنی خرابیوں کے باوجود ادائیگیاں بند نہیں کی گئیں۔ ان میں سے بعض پاور پلانٹس زیادہ تر وقت مکمل بند رہے اور بعض کو صرف بوقت ِضرورت چلایا گیا مگر کیپسٹی پیمنٹ سب کو ملتی رہی۔ 
Tumblr media
یہ بات واضح ہے کہ آئی پی پیز کی لوٹ کھسوٹ کا مسئلہ بجلی کی قیمتوں میں مسلسل اور بے تحاشا اضافوں کے باعث رونما ہونے والے عوامی دباؤ کی وجہ سے اٹھا ہے ورنہ صاحبان اختیار جس طرح عشروں سے خود اپنی آئی پی پیز کے ذریعے سے قومی وسائل بے دردی سے ہڑپ کررہے تھے، اس کا سلسلہ بدستور جاری رہتا۔ تاہم اب بہرصورت قوم کو اس ظلم اور استحصال سے نجات ملنی چاہیے۔ غیر ضروری اور غیرفعال آئی پی پیز سے کیے گئے معاہدے ختم کر کے باقی کے ساتھ منصفانہ شرائط پر نئے معاہدے کیے جانے چاہئیں اور ان کی تفصیلات سے قوم کو باخبر رکھا جانا چاہیے کیونکہ شفافیت کا اہتمام قومی وسائل کو من مانیوں اور ہر قسم کی کرپشن سے بچانے کا سب سے مؤثر ذریعہ ہے۔ علاوہ ازیں بجلی چوری کا بھی مکمل خاتمہ ناگزیر ہے۔ وفاقی وزیر توانائی کے مطابق اس سمت میں اقدامات جاری ہیں لیکن ان کا اعتبار مثبت نتائج ہی سے ہو گا۔
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
nepalenergyforum · 1 year ago
Text
Nepal’s Private Sector-led Thriving Power sector-a source of Inspiration in South Asia
Nestled amidst the majestic Himalayas, Nepal has not only captivated the world with its breathtaking landscapes and rich cultural tapestry but also harbors a hidden treasure trove – the immense potential of hydropower. In recent years, Nepal has embarked on a journey to unlock this potential, transforming itself from a nation grappling with energy shortages to a burgeoning regional energy…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
shiningpakistan · 1 year ago
Text
آئی پی پیز معاہدوں کی تجدید ملکی مفاد میں نہیں
Tumblr media
اپنے گزشتہ کئی کالموں میں بار بار حکومت سے آئی پی پیز سے گئے معاہدوں اور ان سے بجلی خریدے بغیر کیپسٹی سرچارج کی مد میں ادائیگی پر گہری تشویش کا اظہار کر چکا ہوں۔ میں نے یہاں تک کہا ہے کہ یہ کینسر زدہ معاہدے پاکستان کے پاور سیکٹر اور معیشت کو ڈبو سکتے ہیں لہٰذا جلدازجلد پاور سیکٹر میں اصلاحات لا کر اِن معاہدوں کی تجدید پر نظرثانی کی جائے جو پاکستان کو تباہی کی طرف لے جا رہے ہیں۔ سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے بجلی کے حالیہ اجلاس میں اس بات کا انکشاف کیا گیا ہے کہ رواں مالی سال 2023-24 میں بجلی کے صارفین کیپسٹی سرچارج کی مد میں 1300 ارب روپے بجلی خریدے بغیر آئی پی پیز کو ادا کرینگے۔ کیپسٹی سرچارج میں اضافے کی وجوہات میں روپے کی قدر میں مسلسل کمی، درآمدی کوئلے، RLNG اور بینکوں کا شرح سود میں اضافہ شامل ہے۔ گزشتہ 20 سال میں حکومت آئی پی پیز کو کیپسٹی سرچارج کی مد میں 8000 ارب روپے ادا کر چکی ہے جبکہ صرف گزشتہ سال 2000 ارب روپے ادا کئے گئے جو فوج کے بجٹ 1800 ارب روپے سے بھی زیادہ ہیں۔ آج کیپسٹی سرچارج کا یہ کینسر بڑھکر صارفین کے بلوں کا آدھے سے زیادہ تک پہنچ چکا ہے۔ 2021-22ء میں پاور سیکٹر میں ٹرانسمیشن اینڈ ڈسٹری بیوشن کے نقصانات اور چوری بڑھکر 550 ارب روپے (17 فیصد) تک پہنچ چکی ہے جس میں پشاور الیکٹریسٹی کے صرف ایک سال میں 154 ارب روپے (37 فیصد) کے نقصانات شامل ہیں جس میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے جو پورے سسٹم کو تباہ کر رہا ہے۔ 
اسمارٹ گرڈ اور جدید ٹیکنالوجی سے ہم ترسیل کے نقصانات کو ایک سال میں 50 فیصد کم کر سکتے ہیں لیکن ہم IMF کے مطالبے پر ان نقصانات کو عام صارفین سے بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کر کے وصول کر رہے ہیں جس سے بجلی کے نرخ ناقابل برداشت حد تک پہنچ چکے ہیں۔ میرے دوست اور فیصل آباد کے سابق ضلعی ناظم رانا زاہد توصیف نے مطالبہ کیا ہے کہ آئی پی پیز معاہدوں کی انکوائری اور بجلی خریدے بغیر کیپسٹی سرچارج کی ادائیگی پر ایک انکوائری کمیشن بنایا جائے اور ان کالی بھیڑوں کو، جو آئی پی پیز میں کک بیکس اور غیر حقیقی مراعات حاصل کر رہی ہیں، بے نقاب کیا جائے جس نے ملکی صنعت کو بھی خطے میں غیر مسابقتی بنا دیا ہے جس کا اندازہ ڈالر کی قیمت میں اضافے کے باوجود ملکی ایکسپورٹس میں مسلسل کمی سے لگایا جاسکتا ہے۔ بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی وجوہات میں آئی پی پیز کو بجلی خریدے بغیر کیپسٹی سرچارج کی ادائیگی، ٹرانسمیشن اینڈ ڈسٹری بیوشن نقصانات اور چوری، بجلی کے بلوں کی عدم ادائیگی، بلوں میں ٹیکسوں کی بھرمار، درآمدی کوئلے، فرنس آئل اور RLNG سے مہنگی بجلی کی پیداوار، فاٹا اور ٹیوب ویل کے صارفین کو سبسڈی اور واپڈا کے افسران کو مفت بجلی کی فراہمی شامل ہے۔ یہ سب خامیاں اور کوتاہیاں غریب صارفین سے بجلی کے بلوں کے ذریعے وصول کی جارہی ہیں جو سراسر ناانصافی ہے۔
Tumblr media
2018ء میں بجلی کا اوسط یونٹ 11.72 روپے تھا جسکے بعد PTI دور حکومت میں بجلی کے نرخ میں 60 فیصد اضافہ کیا گیا اور بجلی فی یونٹ تقریباً 18 روپے ہوگئی۔ PDM حکومت نے گزشتہ سوا سال میں 4 مرتبہ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کیا جس سے بجلی کی قیمت 50 روپے فی یونٹ سے بھی بڑھ گئی ہے جبکہ اسکی اصل لاگت 30 روپے سے بھی کم ہے۔ بجلی کے بلوں میں 14 ٹیکسز وصول کئے جاتے ہیں جن میں الیکٹریسٹی ڈیوٹی، جنرل سیلز ٹیکس، انکم ٹیکس، فیول پرائز ایڈجسٹمنٹ (FPA)، فنانشل کاسٹ سرچارج (FCS)، میٹر رینٹ، ریڈیو، ٹی وی ٹیکس، ایکسٹرا ٹیکس اور دیگر ٹیکسز شامل ہیں۔ بجلی کے بلوں پر سامنے آنے والا عوامی ردعمل فطری ہے۔ حکومت IMF کی منظوری کے بغیر عوام کو بجلی کے بلوں میں کوئی ریلیف نہیں دے سکتی۔ ملک میں معاشی اور صنعتی سرگرمیوں میں سست رفتاری کی وجہ سے بجلی کی طلب میں کمی آئی ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ملک میں معاشی اور صنعتی سرگرمیاں تیز ہوں اور آئی پی پیز کو بجلی خریدے بغیر ادائیگیاں کرنے کے بجائے بجلی خرید کر انہیں ادائیگیاں کی جائیں۔ حکومت نے 1995، 2002، 2012، 2015 اور 2020 کی پاور پالیسی کے تحت 42 آئی پی پیز سے 15663 میگاواٹ بجلی کے معاہدے کئے ہوئے ہیں جن میں سے زیادہ تر کی معیاد اس سال یا آئندہ سال ختم ہونیوالی ہے۔ 
سابق مشیر پیٹرولیم ندیم بابر نے حکومت سے سفارش کی تھی کہ آئی پی پیز معاہدوں کی پرانی شرائط پر تجدید نہ کی جائے بلکہ نئے معاہدوں میں ڈالر میں منافع اور کیپسٹی سرچارج کے بجائے صرف خریدی گئی بجلی کی ادائیگی Competative Bidding کے ذریعے سب سے کم نرخ والے آئی پی پیز سے بجلی خریدی جائے۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ زیادہ تر آئی پی پیز کی پلانٹ مشینری میں اوور انوائسنگ کی گئی ہے اور 10 سال میں 60 ارب روپے کی سرمایہ کاری پر 400 ارب منافع لے چکے ہیں اور اب یہ پلانٹ مفت ہو گئے ہیں اور ان سے بجلی کی پیداواری لاگت نہایت کم ہو گئی ہے۔ نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے آئی پی پیز معاہدوں کو غیر منصفانہ کہا ہے جبکہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے آئی پی پیز کو 10 سال میں کی گئی ادائیگیوں کی تفصیلات طلب کر لی ہیں۔ بجلی کی قیمتیں بڑھانے پر گزشتہ ایک ہفتے میں ایک درجن سے زائد افراد خود کشی کر چکے ہیں اور مہنگائی، غربت اور بیروزگاری کے ستائے لوگ سول نافر مانی کی طرف جارہے ہیں۔ نگراں حکومت کو چاہئے کہ آئی پی پیز معاہدوں کی پرانی شرائط پر تجدید نہ کی جائے۔ اسکے علاوہ درآمدی کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں کو تھرکول پر منتقل کیا جائے تاکہ مقامی کوئلے سے سستی بجلی پیدا کی جاسکے۔ یاد رکھیں کہ اس بار مہنگائی اور اضافی بلوں کا ڈسا مڈل کلاس طبقہ ہی الیکشن کا فیصلہ کریگا کیونکہ اسکے پاس اب کھونے کیلئے کچھ نہیں بچا۔
ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
risingpakistan · 1 year ago
Text
مہنگی بجلی سے نجات کیسے ممکن ہے؟
Tumblr media
بجلی کے نرخوں میں حالیہ اضافے نے جہاں انڈسٹری کا پہیہ روک دیا ہے وہیں صنعتکاروں، تاجروں، مزدوروں اور عام شہریوں کیلئے بجلی کے بلوں کی ادائیگی سب سے بڑا معاشی مسئلہ بن چکی ہے۔ یہ صورتحال ایک دن میں پیدا نہیں ہوئی بلکہ یہ گزشتہ تین دہائیوں کی بدانتظامی اور غلط پالیسیوں کا خمیازہ ہے جسے ہم آج بھگت رہے ہیں۔ سرکاری اعدادو شمار کے مطابق ملک میں بجلی کی مجموعی پیداوار کی استعداد 41 ہزار میگاواٹ ہے جس میں 10 ہزار 592 میگاواٹ ہائیڈل، 24 ہزار 95 میگاواٹ تھرمل، 3503 میگاواٹ نیوکلیئر اور 2783 میگاواٹ بجلی دیگر ذرائع سے حاصل ہوتی ہے۔ تاہم اگست 2023ء کے دوران بجلی کی زیادہ سے زیادہ پیداوار کا حجم 25 ہزار 516 میگاواٹ ریکارڈ کیا گیا جو کہ ہماری مجموعی پیداواری استعداد سے تقریباً 15 ہزار 500 میگاواٹ کم ہے۔ اس صورتحال کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ سردیوں کے موسم میں بجلی کی زیادہ سے زیادہ ضرورت 10 سے 12 ہزار میگاواٹ تک محدود ہو جاتی ہے یعنی ہماری مجموعی پیداواری استعداد کی 75 فیصد سے زائد بجلی کا کوئی مصرف نہیں رہتا۔
دوسری طرف نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کے اعداد و شمار کے مطابق جولائی 2023ء میں فرنس آئل پر مبنی پلانٹس سے پیدا ہونے والی بجلی کی قیمت 28.7 روپے فی یونٹ تھی۔ اسی طرح درآمدی مائع قدرتی گیس (ایل این جی) کی مدد سے پیدا ہونے والی بجلی 24.4 روپے فی یونٹ فروخت کی گئی۔ علاوہ ازیں ایران سے درآمد کی جانے والی بجلی کی قیمت بھی 10 روپے فی یونٹ سے بڑھکر 23.6 روپے فی یونٹ ہو گئی۔ اسی طرح مقامی گیس کے ذریعے بجلی پیدا کرنے کی لاگت میں بھی 100 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے اس کی قیمت پانچ روپے فی یونٹ سے بڑھ کر 13.6 روپے فی یونٹ ہو گئی جبکہ کوئلے سے بننے والی بجلی کی قیمت 11.5 روپے فی یونٹ رہی۔ بجلی پیدا کرنے والے تمام ذرائع میں سب سے سستی بجلی نیوکلیئر پاور پلانٹس سے حاصل ہوتی ہے جس کی فی یونٹ قیمت 1.16 روپے ہے۔ نیپرا کے مطابق تمام ذرائع سے پیدا ہونے والی بجلی 8.96 روپے فی یونٹ کے حساب سے بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کو فراہم کی گئی۔
Tumblr media
تاہم بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی جانب سے بجلی چوری، لائن لاسز، سرکاری ملازمین کو فراہم کی جانے والی مفت بجلی اور پاور پلانٹس کو کیپسٹی پیمنٹس کی مد میں کی جانے والی ادائیگیوں کا بوجھ صارفین پر ڈال کر بجلی کے نرخ دس روپے فی یونٹ سے بڑھا کر 30 سے 50 روپے فی یونٹ کر دیئے گئے ہیں۔ یہ اعداد وشمار اس بات کی غماضی کرتے ہیں کہ بجلی کی پیداواری لاگت، بجلی چوری اور لائن لاسز جتنے زیادہ بڑھیں گے اس کا اتنا ہی زیادہ بوجھ گھریلو اور صنعتی صارفین کو برداشت کرنا پڑے گا۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے صنعتکاروں نے بجلی کے بھاری بلوں سے بچنے کے لئے شام پانچ بجے کے بعد سرکاری بجلی کا استعمال کم سے کم یا محدود تر کر دیا ہے جبکہ بعض بڑے کاروباری اداروں نے بھی شام پانچ بجے کے بعد دفاتر میں کام مکمل طور پر بند کر دیا ہے۔ اسی طرح گھریلو صارفین کی جانب سے بھی بجلی کا استعمال کم سے کم کرنے کے باوجود ہزاروں روپے کے بل آنے کا سلسلہ ختم ہونے میں نہیں آ رہا۔ 
پاکستان میں بجلی کے استعمال میں گھریلو صارفین کا حصہ 47 فیصد، انڈسٹری کا 28 فیصد جبکہ زراعت اور کمرشل صارفین کا حصہ آٹھ، آٹھ فیصد ہے۔ صارفین کی اس شرح کو دیکھتے ہوئے ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ سستی اور قابل تجدید توانائی یعنی سولر پاور کو فروغ دیا جاتا لیکن حقیقت یہ ہے کہ سولر سے پیدا کی جانے والی بجلی کا مجموعی پیداواری استعداد میں حصہ دو فیصد سے بھی کم ہے۔ اس کے مقابلے میں پاکستان اپنی ضرورت کی 59 فیصد بجلی تھرمل، 26 فیصد ہائیڈل اور 9 فیصد بجلی نیوکلیئر پاور پلانٹ سے حاصل کرتا ہے۔ اس حوالے سے اگر گزشتہ پانچ سال کے اعداد وشمار کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ 2018 سے 2023 تک بجلی کی تھرمل پیداوار میں اضافہ اور ہائیڈل پیداوار میں کمی آئی ہے جبکہ قابل تجدید توانائی کی پیدوار میں اضافے کی شرح انتہائی سست ہے۔ پاکستان میں توانائی کا بحران اس وجہ سے بھی سنگین تر ہوتا جا رہا ہے کہ بجلی کی پیداوار کا زیادہ انحصار درآمدی تیل اور گیس ی�� پن بجلی پر ہے۔ 
عالمی سطح پر تیل اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کیساتھ ساتھ پاکستان کے آبی ذخائر سے بجلی کی پیداوار میں وقت گزرنے کیساتھ ساتھ کمی آ رہی ہے۔ اسلئے توانائی کے موجودہ بحران کے پیش نظر قابل تجدید توانائی کے ذرائع سے بجلی کی پیداوار بڑھانے پر زیادہ زور دینے کی ضرورت ہے۔ سولر انرجی اس وقت جدید دنیا میں استعمال ہونے والے سب سے کم مہنگے توانائی کے ذرائع میں سے ایک ہے لیکن ہم تقریباً 600 میگاواٹ بجلی سولر سے حاصل کر رہے ہیں جو مجموعی پیداوار کا 1.6 فیصد ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں توانائی کی طلب میں 2030ء تک آٹھ گنا اور 2050ء تک بیس گنا اضافہ متوقع ہے۔ ایسے میں سولر انرجی کے وسائل کو استعمال کرنا بہت ضروری ہو جاتا ہے کیونکہ پاکستان جغرافیائی طور پراس خطے میں واقع ہے جہاں سال بھر سورج کی روشنی موجود رہتی ہے۔ پاکستان کا جغرافیہ اور ماحولیاتی حالات سولر انرجی کے زیادہ سے زیادہ استعمال کیلئے مثالی ہیں۔ توانائی کے بحران کو نسبتاً کم وقت میں حل کرنے کیلئے بھی سولر انرجی انتہائی اہم ہے کیونکہ سولر پلیٹس اور پاور پلانٹس کوئی فضائی آلودگی یا گرین ہاؤس گیسں پیدا نہیں کرتے بلکہ سولر انرجی کے استعمال میں اضافے اور دیگر ذرائع سے پیدا ہونے والی بجلی کے استعمال میں کمی سے ماحول پر مثبت اثر پڑتا ہے۔
کاشف اشفاق
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
abrantepakjunyor · 2 years ago
Text
IPPs to pursue operation after interactions with the ECG.
As a result, the Independent Power Producers demanded a 30% interim payment by Friday, June 30, 2023, at midnight. If the IPPs follow through on their threats to cut off supply to the national grid over the over US$2 billion in unpaid arrears, players in the energy sector have expressed concern about an impending power crisis. According to a statement released by the IPPs on Friday, “As part of…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
grits-galraisedinthesouth · 11 hours ago
Text
Digital Justice: Criminalize Digital Criticism
Don't take the bait.
Criticism is NOT hate. In her quest for Digital Justice, Meghan Markle wants us to "hate on her."
Tumblr media Tumblr media
23 notes · View notes
inprogresspokemon · 8 months ago
Text
Unnamed IPP List
If you'd like to suggests names or vote for names that you like, the following are unnamed! I'll try to keep this list up-to-date and will keep it linked on my pinned post.
Ice/Ghost Eeveelution (new Eeveelution)
Terrakion - - ? - - Iron Boulder (new Paradox Pokemon)
Virizion - - ? - - Iron Leaves (new Paradox Pokemon)
Tyranitar - - ? - - Iron Thorns (new Paradox Pokemon)
Cetoddle - ? - Cetitan (new Gen 9)
Fire/Normal Eeveelution (new Eeveelution)
Whismur - ? - Loudred - ? - Exploud
Anorith - ? - Armaldo
Chingling - ? - Chimecho
Bidoof - ? - Bibarel
Cherubi - ? - Cherrim
Glameow - ? - Purugly
Karrablast - ? - Escavalier
Binacle - ? - Barbaracle (new redo)
Yungoos - ? - Gumshoos
Crabrawler - ? - Crabominable
Tandemaus - ? - Maushold
Charcadet - ? - Armarouge (new)
Frigibax - ? - Arctibax - ? - Baxcalibur
“Raging Bolt” - - ? - - Raikou
"Great Tusk" - - ? - - Donphan
"Brute Bonnet" - - ? - - Amoonguss
41 notes · View notes
idolkilling · 1 year ago
Text
Tumblr media
pokémon au jumpscare also on twitter !
14 notes · View notes
tsukietenma · 1 year ago
Text
Tumblr media
sotheby is so small
24 notes · View notes
kpsolargroup · 14 days ago
Text
IPPs and Their Efforts in Expanding Renewable Energy infrastructure
Tumblr media
The world is shifting towards renewable energy, and Independent Power Producers (IPPs) are leading the way. These private companies generate electricity using solar and wind energy, helping build a future that relies less on fossil fuels. Their work in setting up renewable power plants is key to making energy cleaner and more sustainable.
What Are Independent Power Producers (IPPs)?
IPPs are companies that produce electricity and sell it to utilities, businesses, or even directly to consumers. Unlike traditional power companies, they don’t own transmission lines; they focus entirely on generating energy efficiently. By increasing access to renewable energy and driving investment in renewable energy, they’re helping transform the way we power our homes and businesses.
How IPPs Are Expanding Renewable Energy
1. Building Renewable Power Plants
One of the biggest ways IPPs contribute to clean energy is by developing renewable power plants. These facilities use solar and wind energy to generate electricity, reducing dependence on traditional fuels. As these plants become more advanced, energy production gets more efficient and costs go down. Plus, relying on solar and wind energy significantly cuts down harmful emissions, making a big impact on environmental sustainability.
2. Pushing the Boundaries of Technology
To improve renewable energy production, IPPs constantly invest in new technology. They use cutting-edge solar panels, powerful wind turbines, and smart energy storage solutions to maximize output. The rise of artificial intelligence (AI) and automation in power plants also makes energy production more reliable and cost-effective. These innovations ensure that renewable energy remains a competitive and practical option for large-scale use.
3. Expanding Access to Clean Energy
Getting renewable energy to more people isn’t always easy. IPPs in India are working on expanding transmission systems so that solar and wind energy can reach more homes and businesses. By supporting decentralized power generation, they help provide energy to remote areas that previously had limited access. Smart grids are also being developed to make it easier to integrate renewable power plants with traditional energy networks.
4. Attracting Investments to Drive Growth
The more funding that flows into renewable energy, the faster it can grow. IPPs create profitable opportunities for investors, which speeds up the expansion of renewable power plants. Governments and private investors are also stepping up, offering incentives that encourage more businesses to enter the Independent Power Producer sector. Public-private partnerships are proving to be a great way to scale up infrastructure, making renewable energy more widely available.
The Challenges IPPs Face
Despite their success, IPPs run into some obstacles that slow down progress. These include:
Regulatory Hurdles: Different countries have different rules, making it difficult for Independent Power Producers to expand smoothly. Government policies sometimes change, causing delays in project approvals.
High Upfront Costs: Setting up renewable power plants requires a lot of money, and securing long-term funding can be a challenge. Some investors are still hesitant to fully commit to renewable energy production.
Grid Limitations: Many power grids were built for traditional energy sources and can’t always handle the volume of solar and wind energy being produced. Upgrading infrastructure takes time and money.
Weather Dependence: Since renewable power plants rely on sunlight and wind, unpredictable weather can impact electricity generation. However, advancements in energy storage solutions are helping address this issue.
How Governments Are Supporting IPPs
To help overcome these challenges, governments worldwide are offering various forms of support, such as:
Tax Breaks and Subsidies: These financial incentives make it easier for IPPs to build and expand renewable power plants.
Feed-in Tariffs: Some countries guarantee payments for energy that IPPs supply to the grid, making it a more stable business.
Green Bonds and Special Financing: Special funds are available to encourage investment in renewable energy and help grow infrastructure.
Grants for Research and Development: Funding for new technology helps improve solar and wind energy efficiency and storage.
The Future of IPPs in Renewable Energy
The demand for clean energy is rising fast, and IPPs will be at the heart of this transformation. With better government policies, stronger grids, and more investment, they’ll continue to expand renewable energy infrastructure worldwide. Exciting innovations like floating solar farms, offshore wind projects, and advanced battery storage will only make renewable power plants more efficient and widespread.
Conclusion
Independent Power Producers are leading the charge in renewable energy production. By building renewable power plants, improving solar and wind energy technology, and expanding access to clean energy, they are shaping a sustainable future. With the right support and ongoing innovation, IPPs will play an even bigger role in creating a cleaner, greener world.
Contact us to learn more about IPPs and their contributions to renewable energy production.
0 notes
azaadpakistan · 6 months ago
Text
Dunya Kamran Khan Kay Sath! Army Chief in Action | JI Protest | Imran Khan | IPPs | PTI-Mohsin Naqvi
0 notes
emergingpakistan · 1 year ago
Text
معیشت کی بربادی کا ذمے دار کون؟
Tumblr media
1990 کی دہائی میں آئی پی پی نے پاکستان میں بجلی کی پیداوار بڑھانے کے لیے سرمایہ کاری کرنے پیشکش کی، حکومت پاکستان نے جن شرائط پر معاہدہ کیا ان میں ایک شرط یہ بھی کہ حکومت پاکستان تیل خود خرید کر IPPs کو دے گی اور اس کی نرخ اس وقت کے ڈالر ریٹ پر فکس کر دی گئی۔ اس شرط کے مطابق عالمی منڈی میں تیل کی قیمت بڑھے یا زیادہ ہو جائے، حکومت پاکستان اس ہی مقررہ ڈالر ریٹ پر IPPs کو تیل فراہم کرنے کی پابند ہو گی۔ اس شرط کے تحت بڑھتی ہوئی تیل کی قیمت کا فرق حکومت پاکستان کو دینا ہو گا جب کہ ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت کا فرق بھی حکومت پاکستان کو برداشت کرنا پڑے گا۔ ہمیں آئی پی پی سے بجلی چونکہ ڈالر میں خریدنی ہے اس لیے ان کے ہر یونٹ کی قیمت آج کے ڈالر ریٹ کے مطابق ادا کرنی ہے۔ اس شرط کے اثرات کیا ہیں، وہ اب طشت از بام ہو چکے ہیں۔ ہم اس شرط پر عمل کرتے کرتے ملکی معیشت اور عوام کی کمر توڑ چکے ہیں۔دوسری شرط کے مطابق آئی پی پیز کی پیدا کردہ بجلی کو حکومت روپے کے بجائے ڈالر میں خریدے گی۔ اس شرط کی بنا پر پاکستان کثیر زر مبادلہ آئی پی پیز کو ادا کر رہا ہے۔ اس معاہدے کی ایک اور شرط یہ ہے کہ حکومت پاکستان اگر بجلی کا ایک یونٹ بھی نہ خریدے گی تب بھی اسے ائی پی پیز کو مقررہ قیمت ڈالر میں ادا کرنی ہو گی۔ حکومت پاکستان یہ رقم بھی عوام سے بجلی کے بلوں میں ایڈجسٹمنٹ کی مد میں وصول کر رہی ہے۔
Tumblr media
آپ ذرا غور تو کیجیے کہ پاکستان کے پالیسی میکرز نے کس بے دردی سے اپنی آنکھیں، کان اور دماغ بند کر کے اس معاہدے پر دستخط کر دیے، ��ہی نہیں بلکہ اس معاہدے کو بین الاقوامی قواعد کے تحت Sovereign Garrente بھی حاصل ہے۔اگر حکومت پاکستان یا پاکستانی عوام اس معاہدے پر عمل نہ کریں یا کسی بھی شق کی خلاف ورزی کریں گے تو بین الاقوامی قواعد کے مطابق انھیں جرمانہ یا حرجانہ بھی ادا کرنا ہو گا۔ 1990 سے اب تک برسراقتدار آنے والی تمام حکومتوں نے ان معاہدات میں ترمیم تک لانے کی کوئی عملی کوشش نہیں کی، یعنی ہر حکومت نے ذاتی مفادات کو ترجیح دی۔ 1990 سے لے کر اب تک ان معاہدات کو جاری رکھنے اور شرائط کو جوں کا توں رکھنے والوں کا احتساب ضرور ہونا چاہیے۔  مہنگی بجلی کا یہ ایک رخ ہے، دوسرا رخ بجلی چوری اور لائن لاسز ہے۔ ان نقصانات کی رقم بھی بجلی صارفین سے وصولی کی جارہی ہے۔ بجلی کی چوری کو روکنا یا بجلی کی ترسیل، ٹرانسمیشن لائنوں کو درست رکھنا، وفاقی حکومت اور محکمہ بجلی کے افسروں اور اہلکاروں کی ذمے داری ہے، انھیں بھرتی ہی ان کاموں کے لیے کیا جاتا ہے اور انھی کاموں کے عوض انھیں قومی خزانے سے تنخواہیں، مفت بجلی اور دیگر سہولتیں اور مراعات دی جاتی ہیں۔ 
بجلی چوری روکنے کے نام پر چھاپے مارنا اور گرفتاریاں کرنا دکھاوئے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ 2013 میں کپیسٹی پیمنٹ 200 ارب روپے تھی جو اب دو ہزار ارب روپے ہو چکی ہے۔ ملک کی معیشت جس حالت میں ہے اس سے ہم سب بخوبی واقف ہیں ملک اگر دیوالیہ نہیں بھی ہوا تو بھی دیوالیے کی دہلیز پر کھڑا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی عوام دیوالیہ ہو چکے ہیں عوام نہ تو وہ اپنا کچن چلانے کے قابل ہیں نہ ہی بچوں کی تعلیم کے اخراجات پورے کر سکتے ہیں نہ ہی ڈاکٹر اور اسپتال کو فیس دے کر علاج کرا سکتے ہیں۔ ہر دو ہفتے بعد تیل کی قیمتیں بڑھا دی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بجلی اور گیس کی قمیت بھی بڑھائی جارہی ہے۔ عوام تو بس یہی کہہ سکتے ہیں کہ ’’کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں۔ اس حوالے سے لکھنے کو تو بہت کچھ ہے میں آج کا کالم اس پر ہی ختم کرتے ہوئے اتنا ضرور کہوں گا کہ اس ملک کی معیشت اور عوام کے مفادات کے خلاف جتنے بھی اقدامات کیے کیے ہیں یہ سب فیصلے ہمارے حکمرانوں اور بیوروکریسی نے کیے ہیں۔
سرور منیر راؤ 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
super-sootica · 1 year ago
Text
Sometimes I go on prepping forums to have nose, and frankly they have good sustainability ideas sometimes, and it's soo funny how they differ:
Reasonable Prepper Person: I keep two weeks worth of extra food in case of an emergency or if I get sick. Also medicines, pharmacy could run out you know
Insane Prepper Person: I, the hardcore main character who will survive the apocalypse lone cowboy style have bought 3,000 guns and no food, I do not need water
29 notes · View notes
bizlybebo · 3 months ago
Text
on theme. thrwos up
3 notes · View notes