#IPPs
Explore tagged Tumblr posts
Text
آئی پی پیز کے اثرات
انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز جن کی مجموعی تعداد آٹھ درجن کے قریب ہے، قومی معیشت کا خون چوسنے اور ملک کو زبوں حالی سے دوچار کرنے کا کتنا بڑا سبب ہیں، اس کی نہایت خوفناک تفصیلات سامنے آرہی ہیں۔ ان سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ قومی وسائل کس بے دردی سے اور کتنی طویل مدت سے ان کی بھینٹ چڑھائے جارہے ہیں۔ اس ضمن میں ایک تازہ ترین رپورٹ سے ملک میں درآمدی ایندھن سے چلنے والے 26 آئی پی پیز کو گزشتہ دس سال کے دوران 1200 ارب روپے سے زائد ادا کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے جبکہ اس سے پہلے کا ڈیٹا سامنے آنے میں مزید ایک ماہ لگ سکتا ہے۔ درآمدی ایندھن سے چلنے والے ان بجلی گھروں کو بندش اور خرابی کے باوجود سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی کے مطابق سیکڑوں فنی خرابیوں کے باوجود ادائیگیاں بند نہیں کی گئیں۔ ان میں سے بعض پاور پلانٹس زی��دہ تر وقت مکمل بند رہے اور بعض کو صرف بوقت ِضرورت چلایا گیا مگر کیپسٹی پیمنٹ سب کو ملتی رہی۔
یہ بات واضح ہے کہ آئی پی پیز کی لوٹ کھسوٹ کا مسئلہ بجلی کی قیمتوں میں مسلسل اور بے تحاشا اضافوں کے باعث رونما ہونے والے عوامی دباؤ کی وجہ سے اٹھا ہے ورنہ صاحبان اختیار جس طرح عشروں سے خود اپنی آئی پی پیز کے ذریعے سے قومی وسائل بے دردی سے ہڑپ کررہے تھے، اس کا سلسلہ بدستور جاری رہتا۔ تاہم اب بہرصورت قوم کو اس ظلم اور استحصال سے نجات ملنی چاہیے۔ غیر ضروری اور غیرفعال آئی پی پیز سے کیے گئے معاہدے ختم کر کے باقی کے ساتھ منصفانہ شرائط پر نئے معاہدے کیے جانے چاہئیں اور ان کی تفصیلات سے قوم کو باخبر رکھا جانا چاہیے کیونکہ شفافیت کا اہتمام قومی وسائل کو من مانیوں اور ہر قسم کی کرپشن سے بچانے کا سب سے مؤثر ذریعہ ہے۔ علاوہ ازیں بجلی چوری کا بھی مکمل خاتمہ ناگزیر ہے۔ وفاقی وزیر توانائی کے مطابق اس سمت میں اقدامات جاری ہیں لیکن ان کا اعتبار مثبت نتائج ہی سے ہو گا۔
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
Dunya Kamran Khan Kay Sath! Army Chief in Action | JI Protest | Imran Khan | IPPs | PTI-Mohsin Naqvi
#armycheif#ArmyChiefInaction#ArmyChiefMessage#imrankhan#ImranKhanApologises#ipps#ippsscandal#ji#jiprotest#MartialLawinBangladesh#PMHasinaWajid#pti
0 notes
Text
Nepal’s Private Sector-led Thriving Power sector-a source of Inspiration in South Asia
Nestled amidst the majestic Himalayas, Nepal has not only captivated the world with its breathtaking landscapes and rich cultural tapestry but also harbors a hidden treasure trove – the immense potential of hydropower. In recent years, Nepal has embarked on a journey to unlock this potential, transforming itself from a nation grappling with energy shortages to a burgeoning regional energy…
View On WordPress
0 notes
Text
آئی پی پیز معاہدوں کی تجدید ملکی مفاد میں نہیں
اپنے گزشتہ کئی کالموں میں بار بار حکومت سے آئی پی پیز سے گئے معاہدوں اور ان سے بجلی خریدے بغیر کیپسٹی سرچارج کی مد میں ادائیگی پر گہری تشویش کا اظہار کر چکا ہوں۔ میں نے یہاں تک کہا ہے کہ یہ کینسر زدہ معاہدے پاکستان کے پاور سیکٹر اور معیشت کو ڈبو سکتے ہیں لہٰذا جلدازجلد پاور سیکٹر میں اصلاحات لا کر اِن معاہدوں کی تجدید پر نظرثانی کی جائے جو پاکستان کو تباہی کی طرف لے جا رہے ہیں۔ سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے بجلی کے حالیہ اجلاس میں اس بات کا انکشاف کیا گیا ہے کہ رواں مالی سال 2023-24 میں بجلی کے صارفین کیپسٹی سرچارج کی مد میں 1300 ارب روپے بجلی خریدے بغیر آئی پی پیز کو ادا کرینگے۔ کیپسٹی سرچارج میں اضافے کی وجوہات میں روپے کی قدر میں مسلسل کمی، درآمدی کوئلے، RLNG اور بینکوں کا شرح سود میں اضافہ شامل ہے۔ گزشتہ 20 سال میں حکومت آئی پی پیز کو کیپسٹی سرچارج کی مد میں 8000 ارب روپے ادا کر چکی ہے جبکہ صرف گزشتہ سال 2000 ارب روپے ادا کئے گئے جو فوج کے بجٹ 1800 ارب روپے سے بھی زیادہ ہیں۔ آج کیپسٹی سرچارج کا یہ کینسر بڑھکر صارفین کے بلوں کا آدھے سے زیادہ تک پہنچ چکا ہے۔ 2021-22ء میں پاور سیکٹر میں ٹرانسمیشن اینڈ ڈسٹری بیوشن کے نقصانات اور چوری بڑھکر 550 ارب روپے (17 فیصد) تک پہنچ چکی ہے جس میں پشاور الیکٹریسٹی کے صرف ایک سال میں 154 ارب روپے (37 فیصد) کے نقصانات شامل ہیں جس میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے جو پورے سسٹم کو تباہ کر رہا ہے۔
اسمارٹ گرڈ اور جدید ٹیکنالوجی سے ہم ترسیل کے نقصانات کو ایک سال میں 50 فیصد کم کر سکتے ہیں لیکن ہم IMF کے مطالبے پر ان نقصانات کو عام صارفین سے بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کر کے وصول کر رہے ہیں جس سے بجلی کے نرخ ناقابل برداشت حد تک پہنچ چکے ہیں۔ میرے دوست اور فیصل آباد کے سابق ضلعی ناظم رانا زاہد توصیف نے مطالبہ کیا ہے کہ آئی پی پیز معاہدوں کی انکوائری اور بجلی خریدے بغیر کیپسٹی سرچارج کی ادائیگی پر ایک انکوائری کمیشن بنایا جائے اور ان کالی بھیڑوں کو، جو آئی پی پیز میں کک بیکس اور غیر حقیقی مراعات حاصل کر رہی ہیں، بے نقاب کیا جائے جس نے ملکی صنعت کو بھی خطے میں غیر مسابقتی بنا دیا ہے جس کا اندازہ ڈالر کی قیمت میں اضافے کے باوجود ملکی ایکسپورٹس میں مسلسل کمی سے لگایا جاسکتا ہے۔ بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی وجوہات میں آئی پی پیز کو بجلی خریدے بغیر کیپسٹی سرچارج کی ادائیگی، ٹرانسمیشن اینڈ ڈسٹری بیوشن نقصانات اور چوری، بجلی کے بلوں کی عدم ادائیگی، بلوں میں ٹیکسوں کی بھرمار، درآمدی کوئلے، فرنس آئل اور RLNG سے مہنگی بجلی کی پیداوار، فاٹا اور ٹیوب ویل کے صارفین کو سبسڈی اور واپڈا کے افسران کو مفت بجلی کی فراہمی شامل ہے۔ یہ سب خامیاں اور کوتاہیاں غریب صارفین سے بجلی کے بلوں کے ذریعے وصول کی جارہی ہیں جو سراسر ناانصافی ہے۔
2018ء میں بجلی کا اوسط یونٹ 11.72 روپے تھا جسکے بعد PTI دور حکومت میں بجلی کے نرخ میں 60 فیصد اضافہ کیا گیا اور بجلی فی یونٹ تقریباً 18 روپے ہوگئی۔ PDM حکومت نے گزشتہ سوا سال میں 4 مرتبہ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کیا جس سے بجلی کی قیمت 50 روپے فی یونٹ سے بھی بڑھ گئی ہے جبکہ اسکی اصل لاگت 30 روپے سے بھی کم ہے۔ بجلی کے بلوں میں 14 ٹیکسز وصول کئے جاتے ہیں جن میں الیکٹریسٹی ڈیوٹی، جنرل سیلز ٹیکس، انکم ٹیکس، فیول پرائز ایڈجسٹمنٹ (FPA)، فنانشل کاسٹ سرچارج (FCS)، میٹر رینٹ، ریڈیو، ٹی وی ٹیکس، ایکسٹرا ٹیکس اور دیگر ٹیکسز شامل ہیں۔ بجلی کے بلوں پر سامنے آنے والا عوامی ردعمل فطری ہے۔ حکومت IMF کی منظوری کے بغیر عوام کو بجلی کے بلوں میں کوئی ریلیف نہیں دے سکتی۔ ملک میں معاشی اور صنعتی سرگرمیوں میں سست رفتاری کی وجہ سے بجلی کی طلب میں کمی آئی ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ملک میں معاشی اور صنعتی سرگرمیاں تیز ہوں اور آئی پی پیز کو بجلی خریدے بغیر ادائیگیاں کرنے کے بجائے بجلی خرید کر انہیں ادائیگیاں کی جائیں۔ حکومت نے 1995، 2002، 2012، 2015 اور 2020 کی پاور پالیسی کے تحت 42 آئی پی پیز سے 15663 میگاواٹ بجلی کے معاہدے کئے ہوئے ہیں جن میں سے زیادہ تر کی معیاد اس سال یا آئندہ سال ختم ہونیوالی ہے۔
سابق مشیر پیٹرولیم ندیم بابر نے حکومت سے سفارش کی تھی کہ آئی پی پیز معاہدوں کی پرانی شرائط پر تجدید نہ کی جائے بلکہ نئے معاہدوں میں ڈالر میں منافع اور کیپسٹی سرچارج کے بجائے صرف خریدی گئی بجلی کی ادائیگی Competative Bidding کے ذریعے سب سے کم نرخ والے آئی پی پیز سے بجلی خریدی جائے۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ زیادہ تر آئی پی پیز کی پلانٹ مشینری میں اوور انوائسنگ کی گئی ہے اور 10 سال میں 60 ارب روپے کی سرمایہ کاری پر 400 ارب منافع لے چکے ہیں اور اب یہ پلانٹ مفت ہو گئے ہیں اور ان سے بجلی کی پیداواری لاگت نہایت کم ہو گئی ہے۔ نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے آئی پی پیز معاہدوں کو غیر منصفانہ کہا ہے جبکہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے آئی پی پیز کو 10 سال میں کی گئی ادائیگیوں کی تفصیلات طلب کر لی ہیں۔ بجلی کی قیمتیں بڑھانے پر گزشتہ ایک ہفتے میں ایک درجن سے زائد افراد خود کشی کر چکے ہیں اور مہنگائی، غربت اور بیروزگاری کے ستائے لوگ سول نافر مانی کی طرف جارہے ہیں۔ نگراں حکومت کو چاہئے کہ آئی پی پیز معاہدوں کی پرانی شرائط پر تجدید نہ کی جائے۔ اسکے علاوہ درآمدی کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں کو تھرکول پر منتقل کیا جائے تاکہ مقامی کوئلے سے سستی بجلی پیدا کی جاسکے۔ یاد رکھیں کہ اس بار مہنگائی اور اضافی بلوں کا ڈسا مڈل کلاس طبقہ ہی الیکشن کا فیصلہ کریگا کیونکہ اسکے پاس اب کھونے کیلئے کچھ نہیں بچا۔
ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
مہنگی بجلی سے نجات کیسے ممکن ہے؟
بجلی کے نرخوں میں حالیہ اضافے نے جہاں انڈسٹری کا پہیہ روک دیا ہے وہیں صنعتکاروں، تاجروں، مزدوروں اور عام شہریوں کیلئے بجلی کے بلوں کی ادائیگی سب سے بڑا معاشی مسئلہ بن چکی ہے۔ یہ صورتحال ایک دن میں پیدا نہیں ہوئی بلکہ یہ گزشتہ تین دہائیوں کی بدانتظامی اور غلط پالیسیوں کا خمیازہ ہے جسے ہم آج بھگت رہے ہیں۔ سرکاری اعدادو شمار کے مطابق ملک میں بجلی کی مجموعی پیداوار کی استعداد 41 ہزار میگاواٹ ہے جس میں 10 ہزار 592 میگاواٹ ہائیڈل، 24 ہزار 95 میگاواٹ تھرمل، 3503 میگاواٹ نیوکلیئر اور 2783 میگاواٹ بجلی دیگر ذرائع سے حاصل ہوتی ہے۔ تاہم اگست 2023ء کے دوران بجلی کی زیادہ سے زیادہ پیداوار کا حجم 25 ہزار 516 میگاواٹ ریکارڈ کیا گیا جو کہ ہماری مجموعی پیداواری استعداد سے تقریباً 15 ہزار 500 میگاواٹ کم ہے۔ اس صورتحال کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ سردیوں کے موسم میں بجلی کی زیادہ سے زیادہ ضرورت 10 سے 12 ہزار میگاواٹ تک محدود ہو جاتی ہے یعنی ہماری مجموعی پیداواری استعداد کی 75 فیصد سے زائد بجلی کا کوئی مصرف نہیں رہتا۔
دوسری طرف نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کے اعداد و شمار کے مطابق جولائی 2023ء میں فرنس آئل پر مبنی پلانٹس سے پیدا ہونے والی بجلی کی قیمت 28.7 روپے فی یونٹ تھی۔ اسی طرح درآمدی مائع قدرتی گیس (ایل این جی) کی مدد سے پیدا ہونے والی بجلی 24.4 روپے فی یونٹ فروخت کی گئی۔ علاوہ ازیں ایران سے درآمد کی جانے والی بجلی کی قیمت بھی 10 روپے فی یونٹ سے بڑھکر 23.6 روپے فی یونٹ ہو گئی۔ اسی طرح مقامی گیس کے ذریعے بجلی پیدا کرنے کی لاگت میں بھی 100 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے اس کی قیمت پانچ روپے فی یونٹ سے بڑھ کر 13.6 روپے فی یونٹ ہو گئی جبکہ کوئلے سے بننے والی بجلی کی قیمت 11.5 روپے فی یونٹ رہی۔ بجلی پیدا کرنے والے تمام ذرائع میں سب سے سستی بجلی نیوکلیئر پاور پلانٹس سے حاصل ہوتی ہے جس کی فی یونٹ قیمت 1.16 روپے ہے۔ نیپرا کے مطابق تمام ذرائع سے پیدا ہونے والی بجلی 8.96 روپے فی یونٹ کے حساب سے بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کو فراہم کی گئی۔
تاہم بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی جانب سے بجلی چوری، لائن لاسز، سرکاری ملازمین کو فراہم کی جانے والی مفت بجلی اور پاور پلانٹس کو کیپسٹی پیمنٹس کی مد میں کی جانے والی ادائیگیوں کا بوجھ صارفین پر ڈال کر بجلی کے نرخ دس روپے فی یونٹ سے بڑھا کر 30 سے 50 روپے فی یونٹ کر دیئے گئے ہیں۔ یہ اعداد وشمار اس بات کی غماضی کرتے ہیں کہ بجلی کی پیداواری لاگت، بجلی چوری اور لائن لاسز جتنے زیادہ بڑھیں گے اس کا اتنا ہی زیادہ بوجھ گھریلو اور صنعتی صارفین کو برداشت کرنا پڑے گا۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے صنعتکاروں نے بجلی کے بھاری بلوں سے بچنے کے لئے شام پانچ بجے کے بعد سرکاری بجلی کا استعمال کم سے کم یا محدود تر کر دیا ہے جبکہ بعض بڑے کاروباری اداروں نے بھی شام پانچ بجے کے بعد دفاتر میں کام مکمل طور پر بند کر دیا ہے۔ اسی طرح گھریلو صارفین کی جانب سے بھی بجلی کا استعمال کم سے کم کرنے کے باوجود ہزاروں روپے کے بل آنے کا سلسلہ ختم ہونے میں نہیں آ رہا۔
پاکستان میں بجلی کے استعمال میں گھریلو صارفین کا حصہ 47 فیصد، انڈسٹری کا 28 فیصد جبکہ زراعت اور کمرشل صارفین کا حصہ آٹھ، آٹھ فیصد ہے۔ صارفین کی اس شرح کو دیکھتے ہوئے ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ سستی اور قابل تجدید توانائی یعنی سولر پاور کو فروغ دیا جاتا لیکن حقیقت یہ ہے کہ سولر سے پیدا کی جانے والی بجلی کا مجموعی پیداواری استعداد میں حصہ دو فیصد سے بھی کم ہے۔ اس کے مقابلے میں پاکستان اپنی ضرورت کی 59 فیصد بجلی تھرمل، 26 فیصد ہائیڈل اور 9 فیصد بجلی نیوکلیئر پاور پلانٹ سے حاصل کرتا ہے۔ اس حوالے سے اگر گزشتہ پانچ سال کے اعداد وشمار کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ 2018 سے 2023 تک بجلی کی تھرمل پیداوار میں اضافہ اور ہائیڈل پیداوار میں کمی آئی ہے جبکہ قابل تجدید توانائی کی پیدوار میں اضافے کی شرح انتہائی سست ہے۔ پاکستان میں توانائی کا بحران اس وجہ سے بھی سنگین تر ہوتا جا رہا ہے کہ بجلی کی پیداوار کا زیادہ انحصار درآمدی تیل اور گیس یا پن بجلی پر ہے۔
عالمی سطح پر تیل اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کیساتھ ساتھ پاکستان کے آبی ذخائر سے بجلی کی پیداوار میں وقت گزرنے کیساتھ ساتھ کمی آ رہی ہے۔ اسلئے توانائی کے موجودہ بحران کے پیش نظر قابل تجدید توانائی کے ذرائع سے بجلی کی پیداوار بڑھانے پر زیادہ زور دینے کی ضرورت ہے۔ سولر انرجی اس وقت جدید دنیا میں استعمال ہونے والے سب سے کم مہنگے توانائی کے ذرائع میں سے ایک ہے لیکن ہم تقریباً 600 میگاواٹ بجلی سولر سے حاصل کر رہے ہیں جو مجموعی پیداوار کا 1.6 فیصد ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں توانائی کی طلب میں 2030ء تک آٹھ گنا اور 2050ء تک بیس گنا اضافہ متوقع ہے۔ ایسے میں سولر انرجی کے وسائل کو استعمال کرنا بہت ضروری ہو جاتا ہے کیونکہ پاکستان جغرافیائی طور پراس خطے میں واقع ہے جہاں سال بھر سورج کی روشنی موجود رہتی ہے۔ پاکستان کا جغرافیہ اور ماحولیاتی حالات سولر انرجی کے زیادہ سے زیادہ استعمال کیلئے مثالی ہیں۔ توانائی کے بحران کو نسبتاً کم وقت میں حل کرنے کیلئے بھی سولر انرجی انتہائی اہم ہے کیونکہ سولر پلیٹس اور پاور پلانٹس کوئی فضائی آلودگی یا گرین ہاؤس گیسں پیدا نہیں کرتے بلکہ سولر انرجی کے استعمال میں اضافے اور دیگر ذرائع سے پیدا ہونے والی بجلی کے استعمال میں کمی سے ماحول پر مثبت اثر پڑتا ہے۔
کاشف اشفاق
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
IPPs to pursue operation after interactions with the ECG.
As a result, the Independent Power Producers demanded a 30% interim payment by Friday, June 30, 2023, at midnight. If the IPPs follow through on their threats to cut off supply to the national grid over the over US$2 billion in unpaid arrears, players in the energy sector have expressed concern about an impending power crisis. According to a statement released by the IPPs on Friday, “As part of…
View On WordPress
0 notes
Video
Cerimónia de Entrega Prémio Iscte Políticas Públicas 2022_028 by Iscte - Instituto Universitário de Lisboa Via Flickr: A cerimónia de entrega dos prémios Iscte Políticas Públicas 2022, teve lugar no Grande Auditório do Iscte, a 29 de novembro de 2022. Vencedores: Administração Pública Local - Câmara Municipal do Porto com a política Rede de Restaurantes Solidários. Administração Pública Central - FCT Fundação para Ciência e a Tecnologia com a política, Plataforma NAU. Fotografia de Hugo Alexandre Cruz
#Fotografia de Hugo Alexandre Cruz#2022#2022-11-29#Cerimónia de Entrega Prémio Iscte Políticas Públicas 2022#IPPS#Iscte#Rui Pinto#flickr
0 notes
Text
Unnamed IPP List
If you'd like to suggests names or vote for names that you like, the following are unnamed! I'll try to keep this list up-to-date and will keep it linked on my pinned post.
Fire/Normal Eeveelution (new Eeveelution)
Bug/Ground Eeveelution
Wooper - ? - Clodsire
Whismur - ? - Loudred - ? - Exploud
Anorith - ? - Armaldo
Chingling - ? - Chimecho
Bidoof - ? - Bibarel
Cherubi - ? - Cherrim
Glameow - ? - Purugly
Karrablast - ? - Escavalier
Binacle - ? - Barbaracle (new redo)
Yungoos - ? - Gumshoos
Crabrawler - ? - Crabominable
Smoliv - ? - Dolliv - ? - Arboliva (new)
Tandemaus - ? - Maushold
Charcadet - ? - Armarouge (new)
Wiglett - ? - Wugtrio (new)
Frigibax - ? - Arctibax - ? - Baxcalibur
“Raging Bolt” - - ? - - Raikou
"Great Tusk" - - ? - - Donphan
"Brute Bonnet" - - ? - - Amoonguss
#Unnamed IPP List#masterlist#unnamed#I think this is everything that's currently unnamed but lmk if I missed anything!
40 notes
·
View notes
Text
προσκατασήπω, I also rot, Ipp.
31 notes
·
View notes
Text
Show Up, Take Photos
The Meghans are global frauds. Every "good" deed, Every word & Every dollar is a GRIFT. "Nigerian girls & women" my arse.💔
Do they really expect us to believe that a global games event could ever be hosted by a country that repeatedly loses track of women & children? Harry and Meghan have the lowest of low in IQs but the rest of the world can see that THIS poverty tourism trip is yet another SUSSEX SCAM.
No country will send disabled athletes or veterans to compete in a country that cannot keep track of school kids. Shame on Nigeria's Defense Minister and all at Invictus who are involved in this fraudulent visit.
"Bring Back our Girls 2.0
"The abduction of the 287 children in Kaduna state on March 7, 2024 near the West African nation’s capital, is one of the largest school kidnappings in the decade since the kidnapping of schoolgirls in Borno state’s Chibok village in 2014 stunned the world. Analysts and activists say the security lapses that allowed that mass abduction remain..."
"One man was shot dead as he tried to save the students, school authorities said"
"The parallels between the two kidnappings have created more worry for parents, as even to this day nearly 100 of the Chibok girls remain missing."
BY CHINEDU ASADU
March 8, 2024
ABUJA, Nigeria (AP) — "Security forces swept through large forests in Nigeria’s northwest region on Friday in search of nearly 300 children abducted from their school by motorcycle-riding gunmen in the latest mass kidnapping, which analysts and activists blamed on the failure of intelligence and a slow security response.
The abduction of the 287 children in Kaduna state, near the West African nation’s capital, is one of the largest school kidnappings in the decade since the kidnapping of schoolgirls in Borno state’s Chibok village in 2014 stunned the world. Analysts and activists say the security lapses that allowed that mass abduction remain.
The victims of the latest attack — among them at least 100 children aged 12 or under — were surrounded and marched into a forest just as they were starting the school day, said locals in Kuriga town, located 55 miles (89 kilometers) from the city of Kaduna. One man was shot dead as he tried to save the students, school authorities said."
J-P Mauro - published on 03/14/24
"With no word from the abductors, the bishops are calling on the state to identify the kidnappers and save the hostages.
The remote town of Kuriga, in Nigeria’s Kaduna state, is still reeling after dozens of armed extremists kidnapped hundreds of students out of their classes in broad daylight on the morning of March 7. Worried parents are now calling for government intervention, after days without any word from the abductors. As of March 13, the children have yet to be found.
The AP reports that at least 287 students were abducted – with about 100 of them aged 12 or under – making it one of the largest kidnappings since the 2014 abduction of the Chibok girls, when 275 girls were taken from their school by Boko Haram.
The parallels between the two kidnappings have created more worry for parents, as even to this day nearly 100 of the Chibok girls remain missing.
The March 7 kidnapping saw children taken from the school just as the day was starting, at around 8 a.m.. They were herded into the forest. It took authorities several hours to respond to the scene and begin a search operation, but it is unclear how deep into the forest the kidnappers went.
Locals have suggested that the abductors belong to a group of bandits who have been terrorizing remote villages in Nigeria’s northwest and central regions.
14-year-old Nigerian girl could declared a martyr. Nigeria is one of the places of most intense suffering for Christians in our day.
Bishop Wilfred Anagbe of Makurdi has called on the government to intercede on behalf of the Christian population, which he said is being targeted by these attacks. Bishop Anagbe told OSV:
“The kidnappings, killings and destroying churches we are experiencing every day are aimed at finishing Christians. We are worried that despite such killings and kidnappings, the government has never arrested anyone. As a church, we now demand that the government act quickly to stop these vices that continue to dishearten people.”
I try hard not to hate anyone, but The Meghans sure know how to push the right buttons. 🤐🤬
Safety 1st: The UK is unsafe but African countries where Nigerian schoolgirls are kidnapped & Zika Zones for childbearing royals are no problem.
Team Sussex: Global Court Jesters
#royal grifters#sussex scam#megxit#africa#african parks#scammers#nigeria#religious martyrs#christian persecution#kidnapping#nigerian girls#Nigerian Schoolchildren Kidnapped#Meghan & Harry are Frauds#Nigerian kidnappers#IPP Status#InGRIFTus#InFLICTus#racists#profit off poverty#poverty vultures#archewell is a fraud#show up do nothing#waaagh#spare us#worldwide privacy tour#misan harriman is a fraud#Sussex Global Court Jesters#poverty tourism#Bring Back Our Girls 2.0#meghan harry & misan are nigerian scammers
36 notes
·
View notes
Text
pokémon au jumpscare also on twitter !
#📁MEDIA IPS#Pokémon IPP#📁MY OCS#Umetarou Sano Lecce#Reis Cordis#Key Lime | Kee Parilla#📁OTHERS’ OCS#Brie Savoie#© Cet#Demari Nocenti#© mihlen#🎨ILLUST#clean#coloured#showcase
14 notes
·
View notes
Text
معیشت کی بربادی کا ذمے دار کون؟
1990 کی دہائی میں آئی پی پی نے پاکستان میں بجلی کی پیداوار بڑھانے کے لیے سرمایہ کاری کرنے پیشکش کی، حکومت پاکستان نے جن شرائط پر معاہدہ کیا ان میں ایک شرط یہ بھی کہ حکومت پاکستان تیل خود خرید کر IPPs کو دے گی اور اس کی نرخ اس وقت کے ڈالر ریٹ پر فکس کر دی گئی۔ اس شرط کے مطابق عالمی منڈی میں تیل ک�� قیمت بڑھے یا زیادہ ہو جائے، حکومت پاکستان اس ہی مقررہ ڈالر ریٹ پر IPPs کو تیل فراہم کرنے کی پابند ہو گی۔ اس شرط کے تحت بڑھتی ہوئی تیل کی قیمت کا فرق حکومت پاکستان کو دینا ہو گا جب کہ ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت کا فرق بھی حکومت پاکستان کو برداشت کرنا پڑے گا۔ ہمیں آئی پی پی سے بجلی چونکہ ڈالر میں خریدنی ہے اس لیے ان کے ہر یونٹ کی قیمت آج کے ڈالر ریٹ کے مطابق ادا کرنی ہے۔ اس شرط کے اثرات کیا ہیں، وہ اب طشت از بام ہو چکے ہیں۔ ہم اس شرط پر عمل کرتے کرتے ملکی معیشت اور عوام کی کمر توڑ چکے ہیں۔دوسری شرط کے مطابق آئی پی پیز کی پیدا کردہ بجلی کو حکومت روپے کے بجائے ڈالر میں خریدے گی۔ اس شرط کی بنا پر پاکستان کثیر زر مبادلہ آئی پی پیز کو ادا کر رہا ہے۔ اس معاہدے کی ایک اور شرط یہ ہے کہ حکومت پاکستان اگر بجلی کا ایک یونٹ بھی نہ خریدے گی تب بھی اسے ائی پی پیز کو مقررہ قیمت ڈالر میں ادا کرنی ہو گی۔ حکومت پاکستان یہ رقم بھی عوام سے بجلی کے بلوں میں ایڈجسٹمنٹ کی مد میں وصول کر رہی ہے۔
آپ ذرا غور تو کیجیے کہ پاکستان کے پالیسی میکرز نے کس بے دردی سے اپنی آنکھیں، کان اور دماغ بند کر کے اس معاہدے پر دستخط کر دیے، یہی نہیں بلکہ اس معاہدے کو بین الاقوامی قواعد کے تحت Sovereign Garrente بھی حاصل ہے۔اگر حکومت پاکستان یا پاکستانی عوام اس معاہدے پر عمل نہ کریں یا کسی بھی شق کی خلاف ورزی کریں گے تو بین الاقوامی قواعد کے مطابق انھیں جرمانہ یا حرجانہ بھی ادا کرنا ہو گا۔ 1990 سے اب تک برسراقتدار آنے والی تمام حکومتوں نے ان معاہدات میں ترمیم تک لانے کی کوئی عملی کوشش نہیں کی، یعنی ہر حکومت نے ذاتی مفادات کو ترجیح دی۔ 1990 سے لے کر اب تک ان معاہدات کو جاری رکھنے اور شرائط کو جوں کا توں رکھنے والوں کا احتساب ضرور ہونا چاہیے۔ مہنگی بجلی کا یہ ایک رخ ہے، دوسرا رخ بجلی چوری اور لائن لاسز ہے۔ ان نقصانات کی رقم بھی بجلی صارفین سے وصولی کی جارہی ہے۔ بجلی کی چوری کو روکنا یا بجلی کی ترسیل، ٹرانسمیشن لائنوں کو درست رکھنا، وفاقی حکومت اور محکمہ بجلی کے افسروں اور اہلکاروں کی ذمے داری ہے، انھیں بھرتی ہی ان کاموں کے لیے کیا جاتا ہے اور انھی کاموں کے عوض انھیں قومی خزانے سے تنخواہیں، مفت بجلی اور دیگر سہولتیں اور مراعات دی جاتی ہیں۔
بجلی چوری روکنے کے نام پر چھاپے مارنا اور گرفتاریاں کرنا دکھاوئے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ 2013 میں کپیسٹی پیمنٹ 200 ارب روپے تھی جو اب دو ہزار ارب روپے ہو چکی ہے۔ ملک کی معیشت جس حالت میں ہے اس سے ہم سب بخوبی واقف ہیں ملک اگر دیوالیہ نہیں بھی ہوا تو بھی دیوالیے کی دہلیز پر کھڑا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی عوام دیوالیہ ہو چکے ہیں عوام نہ تو وہ اپنا کچن چلانے کے قابل ہیں نہ ہی بچوں کی تعلیم کے اخراجات پورے کر سکتے ہیں نہ ہی ڈاکٹر اور اسپتال کو فیس دے کر علاج کرا سکتے ہیں۔ ہر دو ہفتے بعد تیل کی قیمتیں بڑھا دی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بجلی اور گیس کی قمیت بھی بڑھائی جارہی ہے۔ عوام تو بس یہی کہہ سکتے ہیں کہ ’’کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں۔ اس حوالے سے لکھنے کو تو بہت کچھ ہے میں آج کا کالم اس پر ہی ختم کرتے ہوئے اتنا ضرور کہوں گا کہ اس ملک کی معیشت اور عوام کے مفادات کے خلاف جتنے بھی اقدامات کیے کیے ہیں یہ سب فیصلے ہمارے حکمرانوں اور بیوروکریسی نے کیے ہیں۔
سرور منیر راؤ
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
Text
Inside Details Of Jamaat Islami And Government Agreement
0 notes
Text
sotheby is so small
24 notes
·
View notes
Text
Sometimes I go on prepping forums to have nose, and frankly they have good sustainability ideas sometimes, and it's soo funny how they differ:
Reasonable Prepper Person: I keep two weeks worth of extra food in case of an emergency or if I get sick. Also medicines, pharmacy could run out you know
Insane Prepper Person: I, the hardcore main character who will survive the apocalypse lone cowboy style have bought 3,000 guns and no food, I do not need water
#preppers#prepping#the ipp type are always the most useless people of them all#the 'i will be the spiritual teacher in the commune' energy#all fur coat and no knickers
26 notes
·
View notes
Text
وہ دن دور نہیں جب بجلی مفت ملے گی : وسعت اللہ خان
ضیا دور تک سنسر، کوڑے، تعزیر، مشائخ، الذولفقار، غیر جماعتی نظام، مثبت نتائج، ملٹری کورٹس، نشریاتی دوپٹہ جیسے الفاظ سے تو کان خوب مانوس تھے۔ مگر لوڈ شیڈنگ کس پرندے کا نام ہے، کوئی نہیں جانتا تھا۔ یا واپڈا تھا یا پھر کے ای ایس سی۔ بجلی کبھی کبھار جاتی ضرور تھی مگر وارسک، منگلا، تربیلا کے ہوتے بجلی کم بھی پڑ سکتی ہے، یہ تصور ہی محال تھا۔ بلکہ اتنی اضافی بجلی تھی کہ نور جہاں اور ناہید اختر کے گانوں میں بھی بن داس استعمال ہوتی تھی۔ مثلاً ’جلمی جوانی رت مستانی تن من جلتا جائے دور ہی رہنا دل والو نزدیک نہ کوئی آئے‘، ’میں بجلی ہوں میں شعلہ ہوں‘ یا پھر ’بجلی بھری ہے میرے انگ انگ میں جو مجھ کو چھو لے گا وہ جل جائے گا‘۔ یا پھر ’ہٹ جا پچھے کڑی توں اے کرنٹ مار دی اے‘ وغیرہ وغیرہ۔ اور جو بجلی فلمی شاعری سے بچ جاتی وہ شاہی قلعہ ٹائپ عمارات میں سیاسی قیدیوں کو جھٹکے دینے یا دو نمبر پیروں فقیروں کے ہاتھوں سائلین کے جن جھٹکانے میں صرف ہو جاتی۔
تب کے زمانے میں ڈسکو کا مطلب نازیہ حسن کا چارٹ بسٹر ’ڈسکو دیوانے‘ تھا۔ آج ڈسکو کا مطلب وہ بارہ برقی تقسیم کار نجی کمپنیاں ہیں جو ہم تک بجلی پہنچانے کے مرحلے میں صارف کو ڈسکو کرواتی ہیں اور پھر بھی کہتی ہیں کہ ’ساہنوں تے کچھ بچدا ای نئیں‘۔ نوے کی دہائی میں لوڈ شیڈنگ عوامی یادداشت کا حصہ بننے لگی اور آئی پی پیز (انڈیپینڈنٹ پاور پلانٹس) کی اصطلاح بھی جلوہ افروز ہوئی۔ پہلی بار پتا چلا کہ نجی شعبہ محض بجلی سے چلتا ہی نہیں خود بھی صنعتی پیمانے پر بجلی بناتا ہے۔ جیسے جیسے آئی پی پیز آتی گئیں ویسے ویسے لوڈ شیڈنگ بھی بڑھتی گئی۔ 2008 میں دورِ مشرف کے خاتمے کے بعد زرداری حکومت آئی تو وزیرِ پانی و بجلی راجہ پرویز اشرف نے اعلان کیا کہ دسمبر تک لوڈ شیڈنگ زیرو ہو جائے گی۔ مگر دسمبر کے بعد خود راجہ صاحب ٹوٹا ہوا تارہ ہو گئے۔ حتیٰ کہ جس دن 12 گھنٹے کے بجائے آٹھ گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہوتی اس روز عوام میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی۔ نواز شریف کی تیسری حکومت 2013 میں اسی وعدے پر اقتدار میں آئی کہ لوڈ شیڈنگ ختم کر دیں گے۔ مگر یہ نہ انھوں نے بتایا نہ کسی اور نے پوچھا کہ کس بھاؤ ختم کریں گے؟ سرکار اتنے جوش میں تھی کہ جتنی قومی کھپت تھی اس سے دوگنی برقی پیداوار کا انتظام کر لیا۔ مگر اس زائد از ضرورت پیداوار کا کرنا کیا ہے، یہ نہیں سوچا۔
واجبات کا بحران اتنا شدید تھا کہ میاں صاحب کے وزیرِ برقیات عابد شیر علی نے احکامات جاری کر دیے کہ کروڑوں روپے کے واجبات کی عدم ادائیگی کی پاداش میں پارلیمنٹ، ایوانِ صدر، وزیرِ اعظم ہاؤس اور وفاقی سیکریٹریٹ کی بجلی کاٹ دی جائے۔ مگر یہ ہو نہ سکا۔ شریف حکومت نے بجلی اکٹھی کرنے کے لیے چینی و غیر چینی کمپنیوں پر دروازے کھول دیے۔ آج صورت یہ ہے کہ پاکستان میں بجلی سازی کی گنجائش اکتالیس ہزار میگا واٹ مگر کھپت لگ بھگ اٹھائیس ہزار میگا واٹ ہے۔ جبکہ ٹرانسمیشن لائنیں اس قابل نہیں کہ اتنا بوجھ سہار سکیں۔ اوپر سے یہ بھی شرط ہے کہ بجلی استعمال ہو نہ ہو سرکار کو نجی کمپنیوں کو غیر استعمال شدہ بجلی کے بھی پیسے دینے ہیں۔ اس جنجال سے گردشی قرضے (سرکلر ڈیبٹ) کے عفریت نے جنم لیا۔ پیٹ بھر بھی جائے تو اگلے برس کمینا پھر اتنا کا اتنا ہو جاتا ہے۔ چنانچہ اس وقت گردشی قرضے کا حجم پونے تین ٹریلین روپے تک پہنچ گیا۔ گویا سرکلر ڈیبٹ وہ اژدھا ہے جس کی گرفت وقت کے ساتھ ساتھ اور کستی جاتی ہے۔
خود آئی پی پی پیز پر بھی گذشتہ برس تک بینکوں کے لگ بھگ اکتیس ارب روپے واجب الادا تھے۔ گویا ہر کسی کی گوٹ کسی اور کے ہاں پھنسی ہوئی ہے۔ ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ پلانٹ یا ڈیم سے میرے گھر تک جو بجلی آ رہی ہے وہ ٹرانسمیشن کے دوران ضائع بھی ہو رہی ہے۔ اسے لائن لاسز کہا جاتا ہے۔ سالِ گذشتہ اس نقصان کا تخمینہ پانچ سو بیس ارب روپے لگایا گیا۔ اس نقصان میں جدت کاری کے ذریعے کسی حد تک کمی ممکن ہے مگر پیسے چاہییں۔ مزید سنگین مسئلہ یہ ہے جو بجلی لائن لاسز کے بعد صارف تک پہنچ رہی ہے اس میں سے بھی سالانہ تین سو اسی ارب روپے کی بجلی چوری ہو رہی ہے۔ اس میں اشرافیہ، صنعت، زراعت، عام صارف، خوانچہ فروش، بڑے بڑے شب گیر جلسے۔ غرض جس کا بس چلتا ہے ہاتھ رنگ لیتا ہے۔ ان تین سو اسی ارب روپے میں سے اسی ارب روپے کی بجلی میٹرنگ وغیرہ میں ہیرا پھیری اور باقی کنڈے کے ذریعے چوری ہو رہی ہے۔پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیاں چوری شدہ بجلی کے پیسے بھی بل دینے والوں کے کھاتے میں ڈال دیتی ہیں۔ گذشتہ برس تک بجلی چوری کی سب سے زیادہ شکایات مبینہ طور پر پیسکو کو موصول ہوئیں۔ صرف بنوں کے ایک گرڈ سٹیشن سے پانچ ارب روپے کی بجلی چوری ہونے کی خبریں سامنے آئیں۔
ایک پورا زیلی کاروبار کنڈا ماہرین کی شکل میں پنپ رہا ہے۔ جبکہ بجلی کا باقاعدہ عملہ بھی شریک ہے۔ یہاں یہ کہنا ضروری ہے کہ ہر بھیڑ کالی نہیں پر ہر سفید بھیڑ بھی سفید نہیں۔ کہنے کو پاکستان دریاؤں، جھیلوں، پہاڑی چشموں کی سرزمین ہے۔ پھر بھی قومی پیداوار میں آبی بجلی کا حصہ ایک چوتھائی ہے۔ اٹھاون اعشاریہ اٹھ فیصد بجلی فرنس آئل، ایل این جی اور کوئلے وغیرہ سے پیدا ہوتی ہے۔ کوئلے کی کچھ مقدار چھوڑ کے باقی ایندھن باہر سے منگوایا جاتا ہے۔ گذشتہ ایک ڈیڑھ برس میں روپے کی قدر میں سو فیصد سے زائد گراوٹ کے سبب درآمدی ایندھن کی لاگت دوگنی سے زائد ہو گئی ہے۔ بجلی کی پیداوار میں جوہری کارخانوں کا حصہ آٹھ اعشاریہ چھ فیصد اور ہوا اور شمسی توانائی کا حصہ چھ اعشاریہ آٹھ فیصد ہے۔ حکومتوں کی خواہش تو بہت ہے کہ 2030 تک قدرتی ذرائع سے کم از کم بیس فیصد تک بجلی کشید کر لی جائے مگر ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پے دم نکلے۔
حیرت کی بات ہے کہ پاکستان میں اب بھی بجلی کی فی کس سالانہ کھپت چھ سو چوالیس کلو واٹ ہے۔ یعنی پاکستان ان گنے چنے ممالک میں آتا ہے جہاں بجلی کی کھپت عالمی کھپت کی اوسط کا محض 18 فیصد ہے۔ پھر بھی عام آدمی کی کمر ٹوٹ رہی ہے کیونکہ سب بے اعتدالیاں بل میں شامل کر دی گئی ہیں۔ سو روپے کی بجلی ٹیکسوں سمیت کم از کم دو سو روپے کی پڑ رہی ہے۔ چنانچہ جس کی تنخواہ 25 ہزار ہے اسے جب 45 ہزار روپے کا برقی ڈیتھ وارنٹ ملتا ہے تو ٹکریں مارنے، سڑک پر سینہ کوبی یا خود کشی کے سوا کوئی راستہ نہیں بچتا۔ شنوائی کا انتظام نہ ہونے کے برابر ہے۔ مگر ایک نہ ایک دن حکومت ہر آدمی کو مفت بجلی فراہم کرنے کے قابل ہو جائے گی۔ اس کا آغاز کئی برس پہلے سے بجلی کی صنعت سے وابستہ ملازموں، بیورو کریٹس، عدلیہ، وزرائے کرام، دفاعی افسران، مخصوص صنعتی و کاروباری اداروں کو مفت یا محض پیداواری لاگت پر یا سبسڈائزڈ ریٹ پر بجلی فراہم کرنے سے ہو چکا ہے۔ ایک دن ہمیں بھی یہ رعایتیں مل جائیں گی۔ میری دعا ہے کہ یہ دن دیکھنے کے لیے چوبیس کروڑ پچانوے لاکھ لوگ کم از کم سو برس زندہ رہیں۔ آمین۔
وسعت اللہ خان
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes