#Pakistan E
Explore tagged Tumblr posts
Text
Rah e junoon (2023)
#rah e junoon#danish taimoor#komal meer#nature#travel#mountain#views#photography#recent#pakistan#tv show#urdu#edited
177 notes
·
View notes
Text
Imama: Acha, mai aik arab likh deti tw kiya kartay?
Salar: Tw aik arab bhi de deta.
Imama: Kahan se dete.. fraud kartay?
Salar: Kiyun karta? Kamaa kr deta.
Imama: Saari umer kamaatay hi rehtay phir.
Salar: Acha hota, sari umer tumhara qarzdaar hi rehta. Waqyi acha hota.
Aab e Hayat by Umera Ahmed
#aab e hayat#peer e kamil#umera ahmed#salaar sikandar#imama hashim#salar x imama#urdu novels#urdu literature#desi novels#pak novels#desi tumblr#just desi things#desi larki#life of a desi girl#desi problems#desi academia#desi people#pakistan#desi life#urdu aesthetic#novels aesthetics#urdu stuff#pakistani aesthetics#desi culture#desiblr#desi things#urdu#desi
171 notes
·
View notes
Text
On 11 February 1961, the Queen and Prince Philip attended a dinner given by the Commander-in-Chief of the Pakistan Army.
The Queen wore a crinoline gown of pale blue silk faille, embroidered all over with white beads in a feather motif, designed by Norman Hartnell for this occasion.
As for the jewelry, she wore the Girls of Great Britain and Ireland tiara, Queen Victoria’s Golden Jubilee necklace, the Edinburgh wedding bracelet, and her Jaeger-LeCoultre Calibre 101 watch.
41 notes
·
View notes
Text
#islam#quran#islamic#muslim#islamicquotes#pakistan#islamic group#muslim community#muslim countries#hijr e aswad#makkah madina#istanbul#hadith#salah#arabic dua#dua#jumahmubarak#hadith sahih#urdu#islamicreminders#tahujjud
8 notes
·
View notes
Text
Here's to hoping that Pakistan has a better future (We want Imran Khan back) Happy 77th independence day, even if I don't live there, im still Pakistani ❤️🇵🇰
#pakistan#pakistan independence day#pakistani independence day#pakistan elections#imran khan#free imran khan#fuck nawaz sharif#fuck shabaz sharif#fuck the entire corrupt family and government#pti#PTI#pakistan tehreek e insaf#we want imran khan#independence day#14th august#14th august 2024
7 notes
·
View notes
Text
This is Karachi, no leader in the world commands such respect from his nation.
7 notes
·
View notes
Photo
GORA QABRISTAN which means “White Graveyard” is one of the oldest Christian cemeteries that exists on the Shahrah-e-Faisal, Karachi. The date shown on a tombstone inside the graveyard mentions it to be as of 1843.
SM Rafiq Photography
#SM Rafiq#GORA QABRISTAN#Gora Qabaristan#cemetery#Shahrah e Faisal#karachi#Pakistan#19th century#history#colonial
69 notes
·
View notes
Text
Should the heavens relent, should some wine be on call
I wouldn't care, if every calamity rained down upon me!
Moonshine flows down decanted from the firmament;
the sun rises out of the saaqi's hands
Let every bloodshot vein be reignited again.
She arrives before me, unveiled.
On every page of life this heart is witness
to your several kindnesses, your fealty.
While counting the times this world tormented me;
the thought of you today was beyond all reckoning.
-Faiz Ahmed Faiz
Translated by Mustansir Dalvi
#urdu#faiz ahmed faiz#mehreen khan#aesthetic#poetry#desi#pakistan#pakistani#dark academia#desiblr#desi academia#desi aesthetic#light academia#kar raha tha ghum-e-jahan ka hisab#urdu literature#urduposts#اردو پوسٹ#اردو غزل#اردو ادب#اردو#poemsaboutlove#poets on tumblr#poetry in translation#poetry blog#poets#urdu shayari
69 notes
·
View notes
Text
🎥Insta @ JamshedBurkii
Takht-e-Sulaiman is a peak of the Sulaiman Mountains, located near the town of Darazinda in the Dera Ismail Khan Subdivision of Khyber Pakhtunkhwa, Pakistan.
17 notes
·
View notes
Text
8 notes
·
View notes
Text
عام انتخابات اور عوامی لاتعلقی
عام انتخابات کے انعقاد میں گنتی کے دن باقی ہیں لیکن سوشل میڈیا کے علاوہ گراؤنڈ پر عام انتخابات کا ماحول بنتا ہوا نظر نہیں آرہا۔ کسی بڑی سیاسی جماعت کو جلسے کرنے کی جرات نہیں ہو رہی اور اگر کوئی بڑا سیاسی لیڈر جلسہ کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے عوامی سرد مہری کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور میاں نواز شریف جیسا سینئر سیاستدان اپنی تقریر 20 منٹ میں سمیٹتے ہوئے وہاں سے نکل جانے میں ہی عافیت سمجھتا ہے۔ اگرچہ بعض جگہوں پر بلاول بھٹو اور مریم نواز جلسے منعقد کر رہے ہیں لیکن وہاں کی رونق ماضی کے انتخابی جلسوں سے یکسر مختلف ہے۔ پاکستان کا مقبول ترین سیاسی لیڈر اس وقت پابند سلاسل ہے اور اس کی جماعت کو جلسے کرنے کی اجازت نہیں جبکہ عوام اسی کی ��ات سننا چاہتے ہیں۔ جبکہ جنہیں 'آزاد چھوڑ دیا گیا ہے انہیں جلسے کرنے کی آزادی تو ہے لیکن عوام ان کی بات پر کان دھرنے کے لیے تیار نہیں۔ کراچی سے لے کر خیبر تک سنسان انتخابی ماحول ہے تقریریں ہیں کہ بے روح اور عوام ہیں کہ لا تعلق۔
اس لاتعلقی کی متعدد وجوہات ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ تحریک انصاف کے خلاف جاری کریک ڈاؤن ہے۔ الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کو اس کے انتخابی نشان سے محروم کر دیا اور ان کے نامزد امیدواروں کو بغیر نشان کے انتخابات لڑنے پر مجبور کیا گیا۔ ایک مرتبہ پھر وہی عمل دہرایا گیا جو 2017 میں میاں نواز شریف کی مسلم لیگ کے ساتھ کیا گیا تھا۔عمران خان اور ان کے اہم ساتھی مقدمات کی وجہ سے سلاخوں کے پیچھے ہیں اور وہ 9 مئی سمیت متعدد مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان اقدامات نے نہ صرف انتخابات کو متنازع بنا دیا ہے بلکہ انہیں عوام سے بھی دور کر دیا ہے۔ دوسری بڑی وجہ گزشتہ دو سال سے جاری شدید معاشی بحران ہے۔ شہباز حکومت نے عوام کی بنیادی استعمال کی چیزوں اور اشیاء خورد و نوش عوام کی پہنچ سے دور کر دیے تھے اور ان اقدامات کا نتیجہ یہ ہے کہ عام آدمی بجلی کا بل بھی ادا کرنے سے قاصر ہے۔ بیشتر عوام اپنے اور اپنے گھر والوں کے لیے دو وقت کی روٹی کا انتظام کرنے میں مصروف ہیں۔ انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ انتخابات ہوتے ہیں یا نہیں اگلی حکومت کون بناتا ہے، حکومت کا اتحادی کون کون ہو گا اور اپوزیشن کس کا مقدر ٹھہرے گی۔
انہیں تو اس بات سے غرض ہے کہ ان کے بچے کھانا کھا سکیں گے یا نہیں، وہ اپنے بچوں کی فیسیں ادا کر سکیں گے یا نہیں۔ شہباز حکومت کے اقدامات کے باعث آج معیشت اوندھے منہ پڑی ہے۔ ملازم پیشہ افراد اپنی ضروریات زندگی پورا کرنے کے لیے ایک سے زائد جگہوں پر ملازمتیں کرنے پر مجبور ہیں۔ کاروباری طبقہ جو پہلے ہی بے ہنگم ٹیکسوں کی وجہ سے دباؤ کا شکار تھا عوام کی کمزور ہوتی معاشی حالت نے اس کی کمر بھی توڑ کے رکھ دی ہے۔ مالی بد انتظامی اور سیاسی عدم استحکام نے معیشت کی ڈوبتی کشتی پر بوجھ میں اض��فہ کر دیا ہے جس کی وجہ سے وہ معاشی دلدل میں دھنستی جا رہی ہے جس کے براہ راست اثرات عوام پر منتقل ہو رہے ہیں۔ نگراں حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں نمایاں کمی کی ہے لیکن بدانتظامی کے باعث اس کے ثمرات عام آدمی تک نہیں پہنچ رہے۔ ذرائع نقل و حمل کے کرایوں میں کمی نہیں آئی نہ ہی بازار میں اشیائے صرف کی قیمتوں میں نمایاں کمی دیکھنے کو ملی ہے۔ جس کے باعث عوامی بیزاری میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جو انہیں انتخابات اور انتخابی عمل سے دور کر رہا ہے۔
میری دانست میں اس کی تیسری بڑی وجہ ریاستی اداروں اور عام آدمی کے مابین اعتماد کا فقدان ہے عوام اس بات پر توجہ ہی نہیں دے رہے کہ آٹھ فروری کے انتخابات میں کون سی جماعت زیادہ نشستیں حاصل کرے گی کیونکہ ایک تاثر بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ آپ جس کو چاہیں ووٹ دیں ایک مخصوص سیاسی جماعت کو ہی اقتدار کے منصب پر فائز کیا جائے گا۔ اس عدم اعتماد کے باعث بھی عوام اس انتخابی مشق سے لا تعلق نظر آتے ہیں۔ رہی سہی کسر الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کی گئی ووٹر لسٹوں نے پوری کر دی ہے۔ ان ووٹر لسٹوں میں بد انتظامی اور نالائقیوں کے ریکارڈ قائم ہوئے ہیں۔ بہت کم لوگ ایسے ہیں جن کے ووٹ ماضی میں قائم کردہ پولنگ اسٹیشن پر موجود ہیں۔ ووٹر لسٹوں میں غلطیوں کی بھرمار ہے، ایک وارڈ کے ووٹ دوسرے وارڈ کے پولنگ اسٹیشن پر شفٹ کر دیے گئے ہیں۔ الیکشن کمیشن کا سسٹم ابھی سے بیٹھ گیا ہے اور مخصوص نمبر پر کیے گئے میسج کا جواب ہی موصول نہیں ہوتا۔
ووٹر لسٹیں جاری ہونے کے بعد امیدواروں اور ان کے انتخابی ایجنٹوں میں عجیب بے چینی اور مایوسی کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔ شہروں میں ووٹر لسٹوں کی یہ کیفیت ہے تو دیہات میں کیا حال ہو گا۔ اور اس پر مستزاد یہ کہ روزانہ انتخابات کے حوالے سے نت نئی افواہوں کا طوفان آ جاتا ہے جو امیدواروں کو بددل کرنے کے ساتھ ساتھ عوام میں غیر یقینی کی کیفیت پختہ کر دیتا ہے۔ اور پھر یہ سوال بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ اگر ایک مخصوص گروہ کو انجینئرنگ کے ذریعے اقتدار پر مسلط کر بھی دیا گیا تو کیا وہ عوام کے دکھوں کا مداوا کر بھی سکے گا؟ عوام کی مشکلات کم کرنے کے لیے منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کی اشد ضرورت ہے جس میں تمام جماعتوں کو انتخاب میں حصہ لینے کے مساوی مواقع میسر ہوں اور ساتھ ساتھ ووٹر لسٹوں میں پائی جانے والی غلطیوں بے ضابطگیوں اور نالائقیوں کے مرتکب افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔عوام کو ان کے جمہوری حق کے استعمال سے محروم کرنے کی سازش اگر کامیاب ہو گئی تو یہ ملک کے جمہوری نظام کے لیے اچھا شگون نہیں ہو گا۔
پیر فاروق بہاو الحق شاہ
بشکریہ روزنامہ جنگ
#Imran Khan#Pakistan#Pakistan Election 2024#Pakistan Politics#Pakistan Tehreek-e-Insaf#Politics#PTI#World
4 notes
·
View notes
Text
Imama: Jannat mai kia hoga?
Salaar: Tum
Imama: Sirf mai? Tum nhi hogay?
Salaar: Pata nahi.
Imama: Phir tum kese jantay hou mai wahan hongi?
Salaar: Jannat k ilawa kahin aur rakha ja sakta hai tumhe?
Aab e Hayaat by Umera Ahmed
#aab e hayat#peer e kamil#umera ahmed#Salaar Sikandar#imama hashim#urdu novels#paknovels#urdu literature#urdu adab#desi tumblr#just desi things#desi larki#life of a desi girl#desi academia#urdu aesthetic#urdu stuff#pakistani aesthetics#pakistan
214 notes
·
View notes
Text
On 10 February 1961, the Queen and Prince Philip attended a dinner given by the Governor of Lahore during their tour of Pakistan.
The Queen wore a yellow duchesse satin gown designed by Hardy Amies for this occasion. It was embroidered with flowers at the bottom of the skirt and had a detachable train at the back.
As for the jewelry, she wore the Girls of Great Britain and Ireland tiara, the Greville chandelier earrings, the diamond festoon necklace, and the Edinburgh wedding bracelet.
55 notes
·
View notes
Text
Qunoot-e-Naazilah
#Qunoot-e-Naazilah#islam#quran#islamic#muslim#islamicquotes#pakistan#islamic group#muslim community#muslim countries#istanbul
5 notes
·
View notes
Text
پی ٹی آئی کا ووٹ بینک کہاں جائے گا؟
9 مئی کو ہونے والی ہنگاموں کے ملکی سیاست پر فوری اور اہم نتائج سامنے آئے۔ 9 مئی کو ہونے والے پُرتشدد واقعات چیئرمین پاکستان تحریکِ انصاف کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ جاری تصادم کی ایک کڑی تھے جس کے نتیجے میں ملک بھر میں پی ٹی آئی کارکنان کے خلاف کریک ڈاؤن شروع ہوا۔ پھر یہ جماعت بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونا شروع ہو گئی کیونکہ اس کے زیادہ تر رہنماؤں اور سابق اراکینِ پارلیمنٹ نے منظم عمل کے تحت پارٹی سے استعفے دینا شروع کر دیے اور یہ عمل اب بھی جاری ہے۔ تمام منحرف اراکین نے ایک ہی اسکرپٹ دہرائی جس میں انہوں نے فوجی تنصیبات پر حملے کی مذمت کی اور پارٹی کو اشتعال انگیزی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے پارٹی سے علحیدگی اختیار کی۔ حکمران اتحاد کی جانب سے چیئرمین پی ٹی آئی پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔ وزرا نے خبردار کیا ہے کہ 9 مئی کے واقعات کے ’ماسٹر مائنڈ‘ ہونے کے الزام پر انہیں فوجی عدالت میں مقدمے کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جبکہ ان کی جماعت پر پابندی بھی لگائی جاسکتی ہے۔ مشکل حالات کا شکار چیئرمین پی ٹی آئی جو اب متعدد عدالتی مقدمات کا بھی سامنا کررہے ہیں، انہوں نے سختی سے ان الزامات کی تردید کی ہے۔
انہوں بڑے پیمانے پر ہونے والی گرفتاریوں اور جبری اقدمات کی مذمت کرتے ہوئے چیئرمین پی ٹی آئی نے یہ دعویٰ کیا کہ پارٹی رہنماؤں کو پارٹی چھوڑنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ اس کے باوجود اپنی سابقہ پوزیشن سے ڈرامائی انداز میں پیچھے ہٹتے ہوئے انہوں نے حکومت کو مذاکرات کی پیشکش کی ہے۔ تاہم، وزیراعظم شہباز شریف نے ان کی اس پیشکش کو ٹھکرا دیا اور ان لوگوں کے ساتھ بات چیت کے امکان کو مسترد کر دیا ہے جنہیں انہوں نے ’انتشار پسند اور اشتعال پسند‘ قرار دیا جو ’سیاستانوں کا لبادہ اوڑھتے ہیں لیکن ریاستی تنصیبات پر حملہ کرتے ہیں‘۔ پی ٹی آئی کی ٹوٹ پھوٹ نے سیاسی منظرنامے کو ایک نئی شکل دینا شروع کر دی ہے۔ اگرچہ سیاسی صف بندی ممکنہ طور پر اس وقت تک جاری رہے گی جب تک کہ انتخابات کا حتمی اعلان نہیں ہو جاتا، لیکن اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انتخابی صورت حال کیا ہو گی۔ ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ پی ٹی آئی کا ووٹ بینک کہاں جائے گا؟ جہانگیر خان ترین کی جانب سے ایک ایسی پارٹی بنانے کی کوششیں جاری ہیں جو پی ٹی آئی چھوڑنے والے ’الیکٹ ایبلز‘ کو اپنی جانب متوجہ کرے اور ووٹرز کو ’تیسرا آپشن‘ مہیا کرے۔
تاہم جہانگیر ترین جیسے ایک ہوشیار سیاست دان اور متحرک کاروباری شخصیت کو اس طرح کا اہم کردار ادا کرنے کے لیے پہلے خود پر لگا نااہلی کا داغ ہٹانا ہو گا۔ یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہو گا کہ وہ پارٹی کے قیام میں کس حد تک کامیاب ہوں گے جبکہ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اگر انہوں نے پی ٹی آئی کے سابق ارکان کو شمولیت پر آمادہ کر لیا تو کیا وہ پی ٹی آئی کے ووٹرز کو بھی اپنے ساتھ لائیں گے۔ اس معاملے نے ملک کی انتخابی سیاست کو بہت زیادہ متحرک کر دیا ہے۔ پنجاب ایک ایسا میدانِ جنگ ہے جہاں سے جیتنے والی پارٹی ممکنہ طور پر وفاق میں حکومت بناتی ہے، اگر اس صوبے میں جماعتوں کے درمیان ووٹ بینک تقسیم ہو جاتا ہے تو مرکز میں کوئی بھی جماعت اکثریت حاصل نہیں کر پائے گی اور ایک ایسی پارلیمنٹ وجود میں آئے گی جس میں کسی بھی پارٹی کے پاس واضح اکثریت نہیں ہو گی۔ کیا پی ٹی آئی کے ووٹرز یہ جانتے ہوئے بھی ووٹ ڈالنے آئیں گے کہ ان کی جماعت تتربتر ہو چکی ہے اور ان کے لیڈر کے خلاف قانونی مقدمات ہیں اس لیڈر کا اقتدار میں واپس آنے کا بہت کم امکان ہے؟ خاص طور پر اب جب نوجوان ووٹرز رائے دہندگان کا ایک بڑا حصہ ہیں تو اس صورتحال کا مجموعی ووٹرز ٹرن آؤٹ پر گہرا اثر پڑے گا۔
اس بات کا امکان نہایت کم ہے کہ پی ٹی آئی کے سپورٹرز پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور مسلم لیگ (ن) جیسی دو روایتی پارٹیوں کی حمایت کرنے پر آمادہ ہوں، حالانکہ پی پی پی نے جنوبی پنجاب میں منحرف ووٹرز کو اپنی جانب راغب کیا ہے۔ آخر ان دونوں جماعتوں کو مسترد کرنے کے بعد ہی پی ٹی آئی کو لوگوں نے سپورٹ کرنا شروع کیا۔ کیا جہانگیر ترین کی نئی جماعت انہیں اپنی جانب راغب کر پائے گی؟ یہ بات بھی مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ ماضی میں ووٹروں نے وفاداریاں تبدیل کرنے والے امیدواروں کو ووٹ دینے سے گریز کیا ہے۔ تو اگر پی ٹی آئی کا ووٹ تقسیم ہوتا ہے تو کیا اس سے روایتی جماعتوں میں سے کسی ایک کو فائدہ پہنچے گا؟ اس وقت بہت زیادہ غیر یقینی پائی جاتی ہے خاص طور پر ایسے حالات میں کہ جب حکومت کی جانب سے انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔ چونکہ پارلیمنٹ کی مدت 16 اگست کو ختم ہو رہی ہے اس لیے انتخابات میں تاخیر نہیں ہو سکتی، اس وجہ سے جب انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہو گا تو انتخابی اعداد و شمار سیاسی صف بندیوں کا تعین کرنا شروع کر دیں گے اور انتخابی مقابلے کی نوعیت کے بارے میں تصویر واضح طور پر سامنے آئے گی۔
لیکن اس وقت کوئی بھی سیاسی جماعت اپنے پالیسی پروگرامز یا ملک کے مستقبل کے حوالے سے وژن طے کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ ملک کو درپیش مسائل سے کیسے نمٹا جائے، اس حوالے سے کسی بھی سیاسی جماعت نے کوئی تجویز پیش نہیں کی ہے۔ سیاسی جماعتیں اقتدار کی کشمکش میں مصروف ہیں اور مستقبل کے لیے پالیسی منصوبے تیار کرنے کے بجائے اپنے سیاسی مخالفین کو زیر کرنے کی کوشش میں ��ظر آرہی ہیں۔ یہ غیریقینی کی صورتحال ہماری ملک کی سیاست کے لازمی جز کی طرح ہو چکی ہے۔ البتہ جو چیز یقینی ہے وہ ہے ہماری معیشت کا عدم استحکام۔ تمام معاشی اشاریے بدستور خراب ہوتے جا رہے ہیں جبکہ پی ڈی ایم کی حکومت میں ہماری معیشت تیزی سے زوال کی جانب جارہی ہے۔ حکومت کی طرف سے ڈیفالٹ کے امکانات رد کرنے کے باوجود ملک اب بھی اپنے قرضوں پر ڈیفالٹ کے دہانے پر کھڑا ہے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے بیل آؤٹ ملنے کے امکان بھی مبہم ہیں۔ وزیراعظم نے حال ہی میں آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا سے تعطل کا شکار پروگرام دوبارہ شروع کرنے کے حوالے سے بات کی۔
تاہم آئی ایم ایف نے تب تک اسٹاف لیول معاہدہ نہ کرنے کا کہا جب تک پاکستان اس مالی سال (جو 30 جون کو ختم ہو رہا ہے) کے اختتام تک اپنے کرنٹ اکاؤنٹ میں 6 بلین ڈالر کے خلا کو پُر کرنے کے لیے فنانسنگ کا بندوبست نہیں کر تا۔ ملک کے ذخائر تقریباً 4 ارب ڈالرز تک آگئے ہیں جو درآمدات پر عائد پابندیوں کے باوجود ایک ماہ سے بھی کم کی درآمدات کے لیے ہی پورے ہو سکتے ہیں۔ حکومت نے پاکستان میں ادائیگیوں کے توازن کے بدترین بحران کو ختم کرنے کے لیے درآمدی کنٹرولز لگانے جیسے وقتی اقدامات کے ذریعے معیشت کو سنبھالنے کی کوشش کی ہے۔ اس نے اقتصادی صورتحال پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ حالیہ مالی سال کے لیے سرکاری طور پر تخمینہ شدہ جی ڈی پی کی شرح نمو گزشتہ مالی سال کے 6 فیصد کے مقابلے میں 0.3 فیصد ہے۔ لیکن اس مایوس کن تعداد پر بھی سب کو یقین نہیں ہے۔ صنعتی شعبہ بھی 3 فیصد تک سکڑ گیا ہے جس کی وجہ سے بہت سے کاروبار بند ہو رہے ہیں، لوگوں کی ملازمتیں ختم ہو رہی ہیں اور اشیا کی قلت پیدا ہو رہی ہے۔
گزشتہ سال آنے والے تباہ کُن سیلاب کے نتیجے میں ملک میں زرعی شعبے پر شدید اثرات مرتب ہوئے اور پیداوار میں واضح کمی دیکھی گئی ہے۔ درآمدات پر پابندیوں اور خام مال کی قلت کے باعث ملک کی برآمدات میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔ دوسری جانب افراطِ زر بلند ترین شرح کو چھو رہی ہے جبکہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں ریکارڈ کمی واقع ہوئی ہے۔ کہا جارہا ہے کہ انتخابات کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت اب ’ریلیف بجٹ‘ پیش کرنے جارہی ہے جس میں عوام کے مفاد میں اقدامات لیے جانے کی توقع کی جارہی ہے۔ اس سے ملک میں معاشی بحران کی صورتحال مزید پیچیدہ ہو گی۔ سیاست کو معیشت پر فوقیت دینے کی وجہ سے ہمارے ملک کی صورتحال زوال کی جانب جارہی ہے۔ ملک کا مستقبل سیاسی غیریقینی اور معاشی بحران کی صورتحال سے گھرا ہوا ہے جسے حل کرنے کے لیے ساختی اصلاحات اور فیصلہ کُن اقدامات کی ضرورت ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان کے پاس ایسی کوئی قیادت ہے جو ان تمام حالات کو سمجھتی ہو اور ملک کے مفادات کو اپنے مفادات پر ترجیح دینے کے قابل ہو۔
ملیحہ لودھی
یہ مضمون 6 جون 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
بشکریہ ڈان نیوز
9 notes
·
View notes
Text
No one can defeat you as long as you are firm in your belief.
4 notes
·
View notes