#pakistan elections
Explore tagged Tumblr posts
Text
Here's to hoping that Pakistan has a better future (We want Imran Khan back) Happy 77th independence day, even if I don't live there, im still Pakistani ❤️🇵🇰
#pakistan#pakistan independence day#pakistani independence day#pakistan elections#imran khan#free imran khan#fuck nawaz sharif#fuck shabaz sharif#fuck the entire corrupt family and government#pti#PTI#pakistan tehreek e insaf#we want imran khan#independence day#14th august#14th august 2024
7 notes
·
View notes
Text
🇵🇰 🚨
INTERFERENCE AT THE POLLS RECORDED BY PAKISTANI VOTERS IN 2024 GENERAL ELECTION
📹 Scenes of interference by the Pakistani military in Thursday's contentious Pakistan General Elections to intimidate PTI supporters out of voting for their preferred candidates.
Protests have since broken out across Pakistan as PTI supports hit the streets to demand an end to the persecution of Imran Khan and his PTI party.
#source
@WorkerSolidarityNews
#pakistan#pakistan elections#pakistan news#pakistan politics#politics#news#geopolitics#world news#global news#international news#breaking news#current events#voter intimidation#imran khan#pti#elections
18 notes
·
View notes
Text
Pakistan closes borders and suspends mobile phones for polling day
Pakistan temporarily shut down parts of its land borders and suspended mobile phone services on Thursday to ensure the safety of voters in the general election, Reuters reported.
The government’s decision to deploy tens of thousands of soldiers at polling stations and across the country came after 26 people were killed in two blasts near polling stations in the southwestern province of Balochistan on Wednesday. Islamic State later claimed responsibility for the explosions. Pakistan’s foreign ministry stated on X:
As a result of the recent incidents of terrorism in the country precious lives have been lost, security measures are essential to maintain the law and order situation and deal with possible threats.
Read more HERE
#world news#world politics#news#pakistan#pakistan politics#pakistan news#pakistan elections#mobile phones#border security#border patrol#election#elections#election 2024#elections 2024#2024 election#2024 elections
2 notes
·
View notes
Text
نگران حکومت کی ضرروت ہی کیا ہے؟
انتخابات دنیا بھر میں ہوتے ہیں لیکن نگران حکومتوں کے نام پر غیر منتخب لوگوں کو اقتدار میں لا بٹھانے کی یہ رسم صرف پاکستان میں ہے۔ سوال یہ ہے اس بندوبست کی افادیت کیا ہے اور نگران حکومتوں کے انتخاب، اہلیت، اختیارات اور کارکردگی کے حوالے سے کوئی قوانین اور ضابطے موجود ہیں یا نہیں؟ کیا وجہ ہے کہ جہاں غیر منتخب نگران حکومتوں کے بغیر انتخابات ہوتے ہیں وہاں تو معاملات خوش اسلوبی کے ساتھ نبٹا لیے جاتے ہیں اور ہمارے ملک میں نگران حکومتوں کے ہوتے ہوئے بھی انتخابات متنازع ہو جاتے ہیں؟ نگران حکومت کے نام پر عارضی ہی سہی، ایک پورا حکومتی بندوبست قائم کیا جاتا ہے۔ لیکن اس بندوبست کے بارے میں تفصیلی قانون سازی آج تک نہیں ہو سکی۔ الیکشن ایکٹ کی دفعہ 230 اور آئین کے آرٹیکل 224 میں کچھ بنیادیں باتیں لکھ دی گئی ہیں لیکن وہ ناکافی اور مبہم ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ ایک رکن پارلیمان کی اہلیت کے لیے تو ایک کڑا معیار مقرر کیا گیا ہے لیکن نگران حکومت کی اہلیت کے لیے کوئی اصول طے نہیں کیا گیا؟ وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ اور قائد حزب اختلاف کوئی نام تجویز کر دیں تو اس نام کی اہلیت کو پرکھنے کے لیے کوئی قانون اور ضابطہ تو ہونا چاہیے، وہ کہاں ہے؟
یہی معاملہ نگران کابینہ کا ہے۔ آئین کا آرٹیکل A 224 (1) صرف یہ بتاتا ہے کہ نگران کابینہ کا انتخاب نگران وزیر اعظم اور نگران وزرائے اعلی کی ایڈوائس پر ہو گا لیکن یہ کہیں نہیں بتایا کہ نگران کابینہ کے لیے اہلیت کا پیمانہ کیا ہو گا۔ ایک جمہوری معاشرے میں ایسا صوابدیدی اختیار حیران کن ہے۔ ��وسرا سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس کے اختیارات کا دائرہ کار کیا ہے؟َ وہ کون سے کام کر سکتی ہے اور کون سے کام نہیں کر سکتی؟ اس کی مراعات کیا ہوں گی؟ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ وہ کس کو جواب دہ ہو گی؟ حیران کن بات یہ ہے کہ ان سولات کا تفصیلی جواب نہ آئین میں موجود ہے نہ ہی الیکشن ایکٹ میں۔ الیکشن ایکٹ کی دفعہ 230 میں کچھ وضاحت ہے لیکن ناکافی ہے۔ نگران حکومت کا مینڈیٹ دو جمع دو چار کی طرح تحریری طور پر موجود ہونا چاہیے۔ یہ پہلو بھی قابل غور ہے کہ نگران حکومت کی کوئی حزب اختلاف نہیں ہوتی اور اسے کسی صوبائی اسمبلی یا قومی اسمبلی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ اس کے وزراء کسی ایوان کو جواب دہ نہیں ہوتے۔ ان سے کسی فورم پر سوال نہیں ہوتا۔ نگران حکومتوں کے دورانیے میں، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیاں تو موجود نہیں ہوتیں لیکن سینیٹ جیسا ادارہ تو موجود ہوتا ہے، سوال یہ ہے اس دورانیے میں سینیٹ کا کوئی کردار نہیں ہو سکتا؟
ہم نے ساری دنیا سے نرالا، نگران حکومتوں کا تصور اپنایا ہے۔ ہمیں سوچنا ہو گا کہ اس نامعتبر بندوبست نے ہمیں کیا دیا اور ہمیں اس پر اصرار کیوں ہے؟ نگران حکومت کے قیام کا واحد بنیادی مقصد انتخابات میں الیکشن کمیشن کی معاونت ہے۔ سوال یہ ہے اس کے لیے غیر منتخب لوگوں کو حکومت سونپنے کی کیا ضرورت ہے؟ حکومت سرکاری محکموں اور وزارتوں کی صورت چلتی ہے، کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ انتخابات کے لیے نگران حکومت بنانے کی بجائے حکومتی مشینری کو الیکشن کمیشن ہی کے ماتحت کر دیا جائے؟ جب آئین نے آرٹیکل 220 میں تمام اتھارٹیز کو چاہے وہ وفاقی ہوں یا صوبائی، یہ حکم دے رکھا ہے کہ وہ الیکشن کمیشن اور چیف الیکشن کمشنر کے کی مدد کریں گے تو پھر باقی کیا رہ جاتا ہے جس کے لیے غیر منتخب حکومت مسلط کی جائے؟ معمول کے کام چلانا بلا شبہ ضروری ہیں تا کہ ریاستی امور معطل نہ ہو جائیں لیکن اس کی متعدد شکلیں اور بھی ہو سکتی ہیں اور اس کے لیے غیر منتخب لوگووں کی حکومت بنانا ضروری نہیں۔
سینیٹ کی شکل میں جو واحد منتخب ادارہ اس دورانیے میں موجود ہوتا ہے، اسے عضو معطل کیوں بنا دیا گیا ہے۔ کم از کم اتنا تو ہو سکتا ہے کہ غیر منتخب نگران حکومت کو سینٹ کے سامنے جواب دہ قرار دیا۔ ہمارے اہل سیاست کو اس بات کا احساس ہی نہیں کہ وہ کتنی محنت سے خود ہی خود کو بددیانت، ناقابل بھروسہ اور خائن ثابت کرنے پر تلے بیٹھے ہیں کہ اگر منتخب حکومت ہی کو نگران حکومت کی ذمہ داری دی گئی تو وہ ��ازمی بد دیانتی اور خیانت کا ��ظاہرہ کرتے ہوئے دھاندلی کریں گے؟ قانونی اورآئینی طور پر سارے اراکین پارلیمان سچے، نیک، پارسا، دیانت دار، امین اور سمجھ دار ہیں اور ان میں کوئی بھی فاسق نہیں ہے لیکن اس کے باوجود ان میں اس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ ان میں سے کوئی بھی اس قابل نہیں کہ عام انتخابات کے لیے اس کی دیانت اور امانت داری کا یقین کیا جا سکے۔ یاد رہے کہ نگران حکومت کا تصور جمہوری حکومت نے نہیں دیا تھا۔ جمہوری حکومتیں البتہ اسے سرمایہ سمجھ کر گلے سے لگائے ہوئے ہں اور انہیں احساس ہی نہیں یہ اصل میں ان کے اخلاقی وجود پر عدم اعتماد ہےا ور ایک فرد جرم ہے۔ نگران حکومت کے موجودہ غیر منتخب ڈھانچے کے ہوتے ہوئے ہماری سیاست کے اخلاقی وجود کو کسی دشمن کی حاجت نہیں۔ یہ الگ بات کہ انہیں اس حادثے کی کوئی خبر ہی نہیں۔
آصف محمود
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
2 notes
·
View notes
Text
Pakistan Elections News: Rawalpindi Commissioner Resigns, Makes Big Allegation On Election Commission | Raj Express
Who will be Pakistan's new Prime Minister? That's the burning question. The Pakistan Muslim League-Nawaz is poised to form the government, with reports suggesting that Shehbaz Sharif, not Nawaz Sharif, may take the oath of Prime Minister.
youtube
0 notes
Text
نواز شریف کہاں ہیں؟
نواز شریف نے اپنی آخری سیاسی اننگ بغیر کھیلے ہی ختم کر دی۔ ایک ایسا شخص جو چار دہائیوں تک وطن عزیز کی سیاست پر چھایا رہا۔ ان کی سیاست کا یوں اختتام کسی نے سوچا بھی نہ تھا۔ اگرچہ وہ آمریت کی نرسری میں پلے لیکن اس کے باوجود انہوں نے ایک مزاحمتی سیاست دان کا روپ اختیار کیا جس کی وجہ سے انہوں نے بے مثال مقبولیت حاصل کی۔ انہوں نے'' میں ڈکٹیشن نہیں لوں گا '' کا نعرہ لگایا اور قوم کی آنکھوں کا تارا بن گئے۔ ان کا سیاسی کیریئر ہر قسم کے اتار چڑھاؤ سے عبارت ہے۔ انہوں نے ایٹمی دھماکے کر کے خود کو محسن پاکستان کے طور پر پیش کیا تو دوسری طرف اٹل بہاری واجپائی کو لاہور میں بلایا اور جب دوبارہ موقع ملا تو نریندر م��دی کو اپنی گھریلو تقریبات میں مدعو کیا اور وہ بھی سفارتی پروٹوکول کو بالائے طاق رکھتے ہوئے لاہور آئے اور شریف فیملی کے ساتھ وقت گزارا۔ ان کی زندگی ایک طرح سے مختلف تضادات سے عبارت تھی۔ وہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونے کا دعویٰ کرتے تھے لیکن ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے ہی اپنے اقتدار کو طول دیا۔ عوامی طاقت اور مقتدرہ کی اشیرباد سے وہ جب بھی اقتدار میں آئے ان کے اقتدار کا خاتمہ غیر فطری انداز میں ہوا۔ وہ اپنی نوعیت کے واحد حکمراں ہیں جو بذات خود اپنی کوئی بھی آئینی مدت پوری نہ کر سکے۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وہ پاکستان کے واحد حکمراں تھے جو وطن عزیز کے چاروں صوبوں میں یکساں مقبول تھے۔ انہوں نے اپنے عروج کے دنوں میں ملک کے تمام علاقوں میں بھرپور عوامی جلسے کیے۔ ہر صوبے کے سیاست دانوں کے ساتھ قریبی روابط رکھے۔ انہوں نے پاکستان کی ترقی میں بھی اپنا نمایاں کردار ادا کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے تشکیل دیے ہوئے ایٹمی پروگرام کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ آصف علی زرداری کے شروع کیے ہوئے سی پیک کو عملی شکل دی۔ پاکستان میں انفراسٹرکچر کا جال بچھایا لیکن پانامہ کا ڈنگ لگنے کے بعد ان کے اقتدار کو وہ زوال آیا کہ جو عروج کی طرح بے مثال تھا۔ جلاوطنی میاں نواز شریف کے لیے کوئی نئی بات نہ تھی۔ انہوں نے مشرف کے ساتھ معاہدہ کر کے خود ساختہ جلاوطنی اختیار کیے رکھی تاہم 2018 کے بعد کی جلاوطنی اس لحاظ سے منفرد تھی کہ لندن میں قیام کے دوران عوام کا ہجوم انکے گھر کے باہر رہتا جسکے باعث وہ لندن میں بھی محصور ہی رہے۔ اس دوران پاکستان کی سیاست میں کئی اتار چڑھاؤ آئے۔عمران خان کا جادو سر چڑھ کر بولتا رہا یہاں تک کہ ''رجیم چینج'' کے ذریعے عمران خان کی حکومت ختم کر دی گئی۔
یہی وہ وقت تھا جب ایک طرف عمران خان کا عروج شروع ہوا اور میاں نواز شریف کا بتدریج زوال۔ پی ڈی ایم نے میاں شہباز شریف کی سربراہی میں جو حکومت قائم کی اس نے نہ صرف مسلم لیگ کو نقصان پہنچایا بلکہ میاں نواز شریف جیسے مدبر سیاستدان کی شہرت کو بھی داغدار کر دیا۔ نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ وہ نواز شریف جو مقتدرہ سے لڑائی کر کے عوام کی آنکھوں کا تارا تھا، ''ووٹ کو عزت دو'' کے نعرے نے کر��چی سے لے کر خیبر تک بیداری کی ایک لہر پیدا کر دی تھی، ان کو اپنے اس نظریے سے بھی پیچھے ہٹنا پڑا اور ووٹ کو عزت دو کے نعرے پر بھی خاموشی اختیار کرنا پڑی۔ انہوں نے ایک طرف مقتدرہ سے ہاتھ ملایا تو دوسری طرف عوام نے بھی انہیں اپنے دل سے اتار دیا۔ 2024 کے انتخابات ایک کھلی کتاب کی مانند ہیں۔ اس میں تحریک انصاف کی مشکیں کسی گئیں۔عمران خان کو پابند سلاسل کیا گیا۔ اس کی جماعت کا انتخابی نشان چھین لیا گیا اور مسلم لیگ کو کھلی چھٹی دی گئی۔
میاں نواز شریف شاید نوشتہ دیوار پڑھ چکے تھے اس لیے انہوں نے ان انتخابات میں وہ روایتی سرگرمی نہ دکھائی جو ان کا خاصہ تھی اور جن جلسوں سے خطاب کیا وہ بھی بے رغبتی کے عالم میں تھا جس کے نتائج انہیں آٹھ فروری کو دیکھنا پڑے۔ لیکن اس سارے اہتمام کے باوجود عمران خان کا جادو ایک مرتبہ پھر نصف النہار پہنچ گیا۔ اور اس وقت زمینی حقائق یہ ہیں کہ ملک پر چار دہائیوں سے حکومت کرنے والا شخص ایک گھر میں بند ہے تو دوسری طرف قیدی نمبر 804 پورے ملک پر حکومت کر رہا ہے۔ کمشنر راولپنڈی لیاقت چٹھہ کے الزامات نے انتخابات کی رہی سہی ساکھ بھی خاک میں ملا دی ہے۔ مسلم لیگ ن کو جس انداز میں فتح دلوائی گئی اور نشستیں جس طرح گھٹائی اور بڑھائی گئیں اسنے انتخابات کی شفافیت کو تو مشکوک بنایا ہی ہے میاں نواز شریف اور مسلم لیگ کی شناخت کو بھی گہری زک پہنچائی ہے۔ اس حالیہ فتح سے تو بہتر تھا کہ میاں نواز شریف لندن میں ہی قیام پذیر رہتے کم از کم ان کا بھرم ہی برقرار رہتا۔ میری دانست میں میاں نواز شریف اس خطے کے سب سے تجربہ کار رہنما ہیں۔
اپنی سیاست کا اس انداز میں اختتام کرنے کے بجائے خواجہ سعد رفیق کی طرح دل بڑا کر کے اپنی شکست تسلیم کرنی چاہیے اور جنہیں عوام نے مینڈیٹ دیا ہے انکا حق تسلیم کرنا چاہیے۔ انہیں چپ کا روزہ توڑ کر تحمل اور بردباری سے فیصلے کرنے چاہئیں۔ انتقام کی سیاست کو دفن کر کے سیاست اور اقتدار سے بالاتر ہو کر ملک و قوم کی خدمت کرنی چاہیے۔ ہماری قوم کو بھی اپنے رہنماؤں کو باعزت طریقے سے رخصت کرنے کی روایت ڈالنی چاہیے۔ جس انداز میں نواز شریف کو خدا حافظ کہا جا رہا ہے وہ ہرگز مناسب نہیں۔
پیر فاروق بہاو الحق شاہ
بشکریہ روزنامہ جنگ
#Nawaz Sharif#Nawaz Sharif Politics#Pakistan#Pakistan elections#Pakistan Politics#PML-N#Politics#World
0 notes
Text
0 notes
Text
See the general situation at polling station in Pakistan towards voting today.
youtube
0 notes
Text
Pakistan Election Result: जेल में रहकर नवाज शरीफ को कड़ी टक्कर! इमरान खान की ये तरकीब आई काम
पाकिस्तान में नेशनल असेंबली और प्रांतीय चुनाव के लिए वोटिंग खत्म होने के बाद से मतगणना जारी है जिसपर पूरी दुनिया की नजर टिकी हुई है. मतगणना के बीच रुझान आने शुरू हो गये हैं. आधिकारिक नतीजे 9 फरवरी तक आने की बात कही जा रही है. जेल में बंद पूर्व प्रधानमंत्री इमरान खान की पार्टी पाकिस्तान तहरीक-ए-इंसाफ (पीटीआई) समर्थित निर्दलीय उम्मीदवार चुनावी मैदान में कमाल करते ���जर आ रहे हैं.
0 notes
Text
شفاف الیکشن اور حقیقی تبدیلی؟
سپریم کورٹ کے واضح فیصلے کے باوجود سینیٹ میں بار بارعام انتخابات کے التوا کی قرار داد کو منظور کرنا افسوس کا مقام ہے۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ کچھ عناصر پاکستان میں جمہوری عمل کو پروان چڑھتا نہیں دیکھ سکتے اس لیے وہ ان مذموم حرکات سے باز نہیں آ رہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ترکی میں خوفناک زلزلے کے باوجود الیکشن کا پر امن انعقاد ہو سکتا ہے تو پاکستان میں کیوں نہیں ہو سکتا۔ الیکشن سے فرار کی راہیں تلاش کرنے والے درحقیت عوام کا سامنا کرنے سے ڈرتے ہیں۔ بر وقت انتخابات سے ملک میں جمہوریت کو تقویت ملے گی اور منتخب حکومت عوام کو درپیش مسائل کے حل کے لئے اپنے ایجنڈے کے مطابق کام کر سکے گی۔ انتخابات کے التوا کی کوششیں درحقیقت توہین عدالت اور ملک و جمہوریت کے خلاف سازش ہے۔ ان حالات میں الیکشن کمیشن شفاف و غیرجانبدار انتخابات کیلئے تمام جماعتوں کو سیاست وانتخابی مہم چلانے کے برابر مواقع دینے کو یقینی بنانے کیلئے اقدامات کرے۔ الیکشن میں تاخیر کی باتوں سے غیر جمہوری قوتیں مستحکم ہوں گی۔ بدقسمتی سے یہ دکھائی دے رہا ہے کہ ایک مخصوص جماعت کے لئے اقتدار کی راہ ہموار کی جا ر ہے۔
شفاف اور منصفانہ انتخابات کے لئے ضروری ہے کہ الیکشن کمیشن اپنی آئینی و قانونی ذمہ داریہ ادا کرے۔ جب تک ملک میں منتخب حکومت برسر اقتدار نہیں آئے گی اس وقت تک اضطراب اور افراتفری کی صورتحال پر قابو نہیں پایا جا سکتا، مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ الیکشن کمیشن صاف شفاف انتخابی عمل کو یقینی بنائے۔ انشااللہ آٹھ فروری، قوم کے حقیقی نمائندوں کی کامیابی کا دن ہو گا۔ قوم نے سب کو آزما لیا، کسی نے روٹی کپڑا اور مکان کے نام پر بے وقوف بنایا، کسی نے پاکستان کے عوام کو ایشین ٹائیگر بنانے کا خواب دکھایا اور کسی نے ریاست مدینہ کا نعرہ لگا کر قوم کو دھوکہ دیا، سب کی حقیقت اب آشکار ہو چکی ہے۔ ملک و قوم آج جن مسائل کی زد میں ہیں جن میں مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کا برابر کا حصہ ہے۔ تینوں نے بر سر اقتدار آکر آئی ایم ایف غلامی کو قبول اور ظالمانہ ٹیکس لگا کر مہنگائی میں اضافہ کیا۔ قو م کے پاس ان لوگوں سے نجات حاصل کرنے کا اب بہترین موقع ہے۔ دیانتدار، باکردار اور صاف ستھری قیادت ہی وطن عزیز کو ترقی کی شاہراہ پر ڈال سکتی ہے۔
ماضی میں بھی مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی ��اریاں لے کر اقتدار حاصل کرتی رہیں۔پھر پی ٹی آئی، پی ڈی ایم کے بعد اب نگراں حکومت نے عوام کے جذبات کو بری طرح مجروع کیا ہے۔ گزشتہ ادوار میں کوئی ایک وعدہ بھی ایسا نہیں ہے جس کو انھوں نے پورا کیا ہو۔ ماضی میں بر سراقتدار آنے والی جماعتوں نے عوام کا معیار زندگی بہتر نہیں ہونے دیا جس کی وجہ سے پریشان حال عوام ان پارٹیوں سے مایوس ہو چکے ہیں اور پاکستان کیلئے کسی مسیحا کے منتظر ہیں۔ اب پاکستانی قوم ملک میں حقیقی تبدیلی چاہتی ہے۔ ایک ایسی تبدیلی جس میں ملک کے ہر شہری کو عزت کے ساتھ روزگار ملے۔ تعلیم، صحت اور بنیادی سہولتیں ان کوحاصل ہوں۔ ہر فرد کو انصاف ملے۔ کوئی طاقتور کسی کمزور کا حق غصب نہ کر سکے۔ ایسی حقیقی تبدیلی جواب جماعت اسلامی ہی لاسکتی ہے اس نے کراچی، گوادر، خیبر پختونخواہ، پنجاب سمیت ملک بھر میں ہمیشہ مشکل وقت میں ڈیلیور کیا ہے۔ ہمارے ہاں جب تک اسمبلیوں کو کرپٹ افراد سے پاک نہیں کر لیا جاتا اس وقت تک حالات بہتر نہیں ہو سکتے۔
پوری قوم گزشتہ حکومتوں کی غلط معاشی پالیسیوں کا خمیازہ اب تک بھگت رہی ہے۔ طرفا تماشا یہ ہے کہ بجلی کی فی یونٹ قیمت اب 56 روپے تک پہنچ چکی ہے جبکہ قوم کو اسمیں مزید اضافے کی نوید سنائی جا رہی ہے۔ بجلی فی یونٹ 5 روپے 62 پیسے مذید مہنگی ہونے کا امکان ہے جس کی منظوری کی صورت میں صارفین پر 49 ارب سے زائد کا بوجھ پڑے گا۔ ایک طرف حکومت پٹرول کی قیمت میں کمی کرتی ہے تو دوسری جانب کسی اور چیز کی قیمت میں اضافہ کر کے عوام کی خوشی کو غارت کر دیا جاتا ہے۔ لگتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے عوام کو ریلیف نہ دینے کا حلف اٹھا رکھا ہے۔ ہماری اشرافیہ نے بیرونی قرضوں کا 90 فیصد خود استعمال کیا ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر پاکستانی ڈھائی لاکھ کا مقروض ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ غریب کیلئے ہسپتالوں میں علاج نہیں ہے تعلیمی اداروں کے دروازے غریب کے بچے کیلئے بند ہیں، ملک پراس وقت 80 ہزار ارب کا قرضہ ہے۔
پاکستانی عوام انشا ء اللہ ووٹ کی طاقت سے اہل ودیانتدار لوگوں کو کامیاب کر کے ملک و اپنی نسلوں کے مستقبل کو محفوظ بنائیں گے۔ آئندہ عام انتخابات کے بعد آنے والی حکومت کوملک و قوم کی ترقی و خوشحالی کے لئے مالی بدعنوانی، ٹیکس چوری، حوالہ ہندی، اسمگلنگ میں ملوث افراد کا جڑ سے خاتمہ کرنا ہو گا۔ بجلی، گیس، پٹرولیم مصنوعات، چینی، آٹا سب کچھ عوام کی پہنچ سے باہر ہو چکا ہے۔ قرضہ ہڑپ کرنے والوں اور کرپٹ افراد کی جائدادیں نیلام کر کے قومی خزانہ میں جمع کرائی جانی چاہئیں۔ 76 برسوں سے ملک میں تجربات کئے جا رہے ہیں۔ 13 جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم نے بھی اپنے سولہ ماہ کے دوران بدترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس وقت نوجوان رشوت اور سفارش کے بغیر نوکری نہیں حاصل کر سکتے۔ نوجوان��ں کو ملازمت اور روزگار الاؤنس دیا جانا چاہیے۔ اگر دنیا کے کئی ممالک یہ سہولتیں دے سکتے ہیں تو پاکستان میں کیوں نہیں ہو سکتا؟ خوشحال مستقبل کیلئے سیاسی و معاشی استحکام ناگزیر ہو چکا ہے۔
محمد فاروق چوہان
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
In Pakistan, the current election is considered to be the most rigged in the country's history. Former PM Imran Khan is in prison and barred from election because the corrupt cronies (Nawaz Sharif, Shabaz Sharif, etc) know they'll never get enough votes to beat him.
Overnight, they forged votes and got the army to threaten voters.
🇵🇰Pakistan stands with Imran Khan. 🇵🇰
16 notes
·
View notes
Text
🇵🇰 🚨
PROTESTS AFTER INDEPENDENT CANDIDATES FORMERLY OF PTI, PARTY OF IMRAN KHAN, DEFEAT WESTERN-BACKED OPPONENTS
Despite the jailing of Imran Khan and the banning of his PTI (Pakistan Tehreek-e-insaf) Party, several independent candidates formerly of PTI won big in the 2024 Pakistan General Elections, held February 8th.
Pakistan has been in turmoil ever since Imran Khan, Prime Minister since August 2018, was ousted in a Lawfare coup by Western-backed opposition forces in the Pakistani government and military. Khan has since been detained on trumped-up charges, some of which include accusations of an illegal marriage to his third wife, whom he married in 2018 shortly before assuming office.
After Khan's ouster, PTI supporters protested en mass against the government, leading to several violent incidents which the government then used to strip the party of its symbols and prevent candidates from running under the party's banner. PTI candidates have since been forced to run as independents.
Several high-profile former members of PTI turned against Khan under pressure and were trounced in this week's elections, with several lesser-known ex-PTI members defeating the turncoats.
During the elections, which were held on Thursday February 8th, several reports of pressuring and ballot stuffing accusations emerged, with videos posted online showing interference at the polls.
Still, independent, PTI-backed candidates won at least 92 seats, which though not enough to form a government on its own, could make it a major player during negotiations to form a coalition, if not suppressed.
Any coalition will need 169 seats to support its bid before forming a new government, with the Western-backed Muslim League winning the most seats and most likely to form a governing coalition.
Delays in results and fears of a stalemate and further political turmoil has brought thousands of PTI and Khan supporters out into the streets to protest the government's attempts to eliminate PTI and Khan as a threat to the current elite faction governing the country.
#source1
#source2
#videosource
@WorkerSolidarityNews
#pakistan#pakistan news#pakistan politics#pakistan elections#pakistan general elections#elections#middle east#politics#news#geopolitics#world news#global news#international news#western asia#pakistani elections#pakistani politics#pakistani news#imran khan#pti#pretests#pakistan protests
16 notes
·
View notes
Text
#elections#India elections#UK elections#US elections#Pakistan elections#Bangladesh elections#2024 elections#democracy test#political news#electoral fortunes#voter turnout#Rishi Sunak#general election#Institute for Government#Labour Party#Conservative Party#cost-of-living crisis#Tory infighting#Brexit vote#Keir Starmer#Lord Karan Bilimoria#party unity#tax policies#national insurance#Bharatiya Janata Party#BJP#voter outreach campaign#Narendra Modi#political stability#infrastructure investment
0 notes
Text
بنگلہ دیش اور پاکستان کا سیاسی بحران : ایک تقابل
بنگلہ دیش میں انتخابات ہو چکے ہیں اور پاکستان میں ہونے ہی والے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے سیاسی منظر نامے میں کہاں کہاں اور کتنی مماثلت ہے؟ پاکستان اور بنگلہ دیش دونوں سیاسی عدم استحکام کی طرف بڑھ رہے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ دونوں ممالک میں حزب اختلاف کے لیے سازگار ماحول نہیں ہے۔ اپوزیشن دونوں جگہ بےبسی کے عالم میں ہے، بادی النظر میں دونوں میں بہت سی مماثلت ہے لیکن اس مماثلت کی مبادیات وہ نہیں جو نظر آ رہی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بنگلہ دیش کی اصل خرابی وہاں کے انتخابی عمل میں نہیں ہے۔ یہ خرابی وہاں حسینہ واجد کے یک جماعتی اقتدار کے تصور میں ہے۔ یہ جمہوری رویہ نہیں ہے۔ یہ جمہوری فاشزم ہے۔ وہ کسی سیاسی حریف کے وجود کو برداشت کرنے کی قائل نہیں۔ ان کے خیال میں خیر کا منبع ان کی ذات اور ان کی جماعت ہے اور حریفوں کو ہر سطح پر کچل دینا ہی ملک کی حقیقی خدمت ہے۔ پاکستان کی اصل خرابی بھی انتخابی عمل کے نشیب و فراز میں نہیں، یہ عمران خان کے یک جماعتی اقتدار کے تصور میں ہے۔ وہ بھی کسی سیاسی حریف کے وجود کو کسی بھی ��طح پر برداشت کرنے کے روادار نہیں تھے۔ ان کے ہاں بھی خیر اور شر کو جانچنے کا معیار ان کی ذات ہے۔ جو ان کے ساتھ ہیں وہ خیر کے ساتھ ہیں، جو ان کے ساتھ نہیں ہیں وہ بدی کی قوت ہیں۔
کبھی خیال آتا ہے کہ یہ فاشزم شاید اس خطے کے مزاج میں ہے۔ کیونکہ مودی کا اقتدار بھی اسی رویے کا عکاس ہے۔ پھر یہ کہ خود پاکستان میں صرف عمران خان کا دامن اس آزار سے آلودہ نہیں، بلکہ نواز شریف، آصف زرداری اور دیگر قائدین بھی درجہ بدرجہ اسی جمہوری فاشزم ہی کو جمہوریت سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے ملک میں سیاسی جماعتیں ایک ادارہ نہیں بن سکیں اور پی ڈی ایم بھی عملاً پاکستان ڈیموکریٹک مونارکس کا منظر پیش کرتی ہے۔ بر صغیر کے اس آزار کا سماجی مطالعہ ہونا چاہیے۔ جمہوریت میں کسی گروہ کو مقبولیت حاصل ہو جائے مگر وہ کسی دوسرے کے وجود کا قائل نہ ہو تو یہ رویہ پاپولر جمہوری فاشزم کہلاتا ہے۔ پاکستان اور بنگلہ دیش دونوں معاشرے اسی بحران سے اور اسی چیلنج سے دوچار ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ایک ملک میں یہ طرز عمل حصول اقتدار کے جتن کر رہا ہے اور دوسرے ملک میں یہ رویہ بقائے اقتدار کی کوششوں میں مصروف ہے۔ افتاد طبع اور ترجیحات یکساں ہیں۔ حسینہ واجد اقتدار کی چوتھی مدت کی شروعات کر رہی ہیں اور ان کے حریفوں پرعرصہ حیات تنگ ہو چکا ہے۔ عمران خان کے اقتدار کا پہلا دور دیکھ کر تصور کیا جا سکتا ہے کہ وہ بھی اوپر تلے دو تین ادوار اقتدار میں گزارتے تو مخالفین پر کیا بیتتی اور سماج کو کیسے امتحان سے گزرنا پڑتا۔
اقتدار سے الگ ہونا حسینہ واجد کے لیے کوئی آپشن نہیں ہے، طویل دورانیے کا یک جماعتی اقتدار ہی ان کا مقصود ہے جس میں اختیارات کا گھنٹہ گھر ان کی ذات ہو اور وہ اس کے لیے کسی بھی حد سے گزر جانے کو تیار ہیں۔ عمران خان کے ہاں بھی سیاست کا ایسا کوئی تصور نہیں پایا جاتا جس میں اقتدار کے منصب پر ان کے علاوہ کوئی اور ہو۔ چنانچہ جب وہ اقتدار میں آئے تو ان کے مداح عجیب سے بےنیازی اوڑھ کر اعلان کیا کرتے تھے کہ آئین اور قانون اپنے پاس رکھیے، خان پانچ سالوں کے لے نہیں، دس پندرہ سال کے لیے آیا ہے اور پھر اقتدار سے الگ ہوئے تو ان کا رد عمل سب کے سامنے ہے۔ بنگلہ دیش کے جمہوری بحران کی جوہری طور وجہ یہ ہے کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے اقتدار حسینہ واجد کے پاس رہے اور پاکستان کے حالیہ بحران کی جوہری وجہ یہ ہے کہ عمران خان کو اقتدار سے کیوں نکالا گیا۔ ��دم اعتماد ہوا تو یہ امریکی سازش قرار پایا اور اقتدار نہ رہا تو جس صاحب منصب کو قوم کا باپ قرار دیا جاتا تھا، اسی باپ کو حریف قرار دے دیا۔ کسی دن حسینہ واجد اقتدار سے الگ ہوئیں تو ان کے رد عمل میں ایسی ہی تندی کا پایا جانا باعث حیرت نہیں ہو گا۔
دونوں کرداروں کا عمومی رویہ بھی ایک جیسا ہے۔ ایک کے لیے چیلنج اس کے سیاسی حریف ہیں اور اس نے ان کا ناطقہ بند کر دیا ہے دووسرے کا غم و غصہ یہ ہے کہ اس کے یک جماعتی شخصی اقتدار کے دوام میں ادارے اس کے سہولت کار کیوں نہیں بنے۔ فاشزم اور جمہوریت کا فرق ہر دو جگہوں پر نمایاں ہے۔ چنانچہ بنگلہ دیش کی اپوزیشن نے بنگلہ دیش کی ریاست کو سینگوں پر نہیں لیا۔ اس نے یہ نہیں کہا کہ ہمارا رہنما ہماری ریڈ لائن ہے، کسی نے یہ نہیں کہا اسے اقتدار نہیں ملتا تو بنگلہ دیش کے باقی رہنے کا فائدہ ہی کوئی نہیں، کسی نے اوورسیز بنگالیوں سے یہ مطالبہ نہیں کیا کہ بنگلہ دیش پیسے بھیجنے بند کر دو۔ کسی نے یہ اعلان نہیں کیا کہ ہم اقتدار میں نہیں تو ہماری بلا سے، بھلے بنگلہ دیش پر ایٹم بم مار دو۔دونوں ملکوں کے انتخابی عمل سے جڑی مماثلت اصل میں مماثلت معکوس ہے۔ بنگلہ دیش میں اپوزیشن کی لاشیں ہتھ کڑیوں اور بیڑیوں میں برآمد ہوتی ہیں، پاکستن میں اپوزیشن دیسی مرغی کھا رہی ہے اور ٹریڈ مل پر دوڑ رہی ہے۔ بنگلہ دیش کی اپوزیشن کا ہدف ریاست نہیں ہے، پاکستان کی اپوزیشن سے کسی کو امان نہیں۔
البتہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ بنگلہ دیش کی اپوزیشن دودھ کی دھلی ہے یا پاکستان کی پی ڈی ایم دودھ کی دھلی ہے۔ سیاست کی قباحتیں دونوں طرف موجود ہیں۔ تاہم بحران کی حقیقی وجہ یہ قباحتیں نہی ہیں۔ بحران کی اصل وجہ یک جماعتی جمہوری فاشزم ہے جو کسی بھی حال میں ہو، اسے کسی دوسرے کا وجود برداشت نہیں۔ یہی اصل مماثلت ہے۔ دونوں ممالک کے لیے جمہوریت یا انتخابی عمل چیلنج نہیں، اصل چیلنج یک جماعتی جمہوری فاشزم ہے۔
آصف محمود
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
0 notes
Text
Pakistan Election Results: Elections Again In Pakistan Amid Counting Of Votes | Raj Express
After Pakistan's National Assembly and provincial elections, it's been two days, but full results are still pending. No party has clinched a majority so far.
youtube
0 notes
Text
الیکشن ہو رہے ہیں یا منہ پہ مارے جا رہے ہیں؟
سپریم کورٹ کو الیکشن کی تاریخ مقرر کرنے کے لیے پہلے تو متعلقہ اداروں کے سر آپس میں ٹکرانے پڑے۔ جب عدالتِ عظمیٰ کے بے حد اصرار پر آٹھ فروری کی تاریخ کا اعلان ہو گیا تب بھی آنا کانی ہیرا پھیری کی کوشش جاری رہی اور معزز عدالت کو ایک بار پھر آٹھ تاریخ کو کھونٹے سے باندھنے کے لیے مداخلت کرنا پڑی چنانچہ مرتا کیا نہ کرتا۔ بالکل نوے نکور ناتجربہ کار دو کروڑ پینتیس لاکھ فرسٹ ٹائمر ووٹروں سے خائف اسٹیبلشمنٹ الیکشن کروانے پر آمادہ تو ہے مگر اب تک کی حرکتیں بتا رہی ہیں کہ گویا یہ الیکشن منعقد نہیں ہو رہے قوم کے منہ پہ مارے جا رہے ہیں ’لے مر ٹھونس لے۔‘ کسی ستم ظریف نے سوشل میڈیا پر پوسٹ لگائی ’آج مورخہ چوبیس دسمبر کاغذاتِ نامزدگی چھیننے کا آخری دن ہے۔‘ اسٹیبلشمنٹ کی ذہنی کیفیت کو پڑھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ آٹھ فروری کو (خدانخواستہ ) الیکشن ہوا تو اتنا شفاف ہو گا کہ سب اس میں اپنا سا منہ دیکھتے رہ جائیں گے۔ ہمیں اور آپ کو گذشتہ الیکشنز کی قدر و قیمت بھی تب ہی معلوم ہو گی جب آٹھ فروری کے بعد بھی زنجیربکف پالیسیوں کا تسل��ل جاری رکھنے اور وعدوں کے تازہ خربوزے پھوڑنے کے کام کے لیے ایک اور منتخب ’نگراں حکومت‘ حجلہِ عروسی میں داخل ہو گی۔
شیر، مگرمچھ، بھیڑیے اور باز پر مشتمل چار رکنی کمیٹی کی نگرانی میں تیندوے، بکری، طوطے، گرگٹ، ہرن، مینڈک، بارہ سینگے، سانپ، کوّے، اور لگڑبگے پر مشتمل مخلوط سرکار جنگل کا نظام چلائے گی۔ یعنی ایک اور ہزمیجسٹیز لائل گورنمنٹ اور ہز میجسٹیز لائل اپوزیشن۔ شکار آدھا آدھا۔ نظام کی گرفت اس قدر سخت ہے کہ ہمارے مہربان ژوب کے انوار الحق کاکڑ جو ہم صحافیوں سے ایک برس پہلے تک اس بات پر خفا ہو جاتے تھے کہ یار تم لوگ کوئٹہ آ کے ملے بغیر کیسے چلے جاتے ہو۔ آج انہی کے صوبے کے کچھ مہمان ان کے سرکاری گھر سے محض دو کلومیٹر پرے پڑے ہیں۔ مگر کاکڑ صاحب شاید ان سے کبھی بھی نظریں ملا کے گلہ نہ کر سکیں گے کہ تم میرے صوبے سے آئے ہو۔ میرے لوگ ہو۔ اس موسم میں یہاں کیوں پڑے ہو۔ اتنا بڑا وزیرِ اعظم ہاؤس اور وہاں کے تمام روپہلے آتش دان حاضر ہیں۔ چل کے آرام کرو، بھلے دھرنا دو اور پھر بتاؤ کہ میں تمہاری کیا خدمت کروں۔
کاکڑ صاحب کا مطالعہ خاصا وسیع ہے اور منطق کا سویٹر بننے کے لیے بھی ہمیشہ اچھی کوالٹی کا اون استعمال کرتے ہیں لہٰذا یہ گمان بھی ممکن نہیں کہ انھوں نے یہ بلوچی کہاوت سنی ہی نہ ہو کہ ’ایک پیالہ پانی کی قیمت سو برس کی وفاداری ہے‘۔ جو آدمی گھر آئے مہمانوں کو ایک کٹورہ پانی بھی نہ بجھوا سکے۔ اس کی بے چارگی کا عالم اللہ اللہ۔ سوری سوری سوری۔۔۔ شاید میں کچھ غلط کہہ گیا۔ اسلام آباد نے ان مہمانوں کو کٹورہ بھر پانی نہیں بھجوایا بلکہ ان پر ٹھنڈے پانی سے بھرا پورا ٹینکر برسا کے والہانہ سواگت کیا۔ تاکہ کل کوئی یہ طعنہ نہ دے سکے کہ گھر آئے مہمان کو پانی تک نہ پوچھا۔ کچھ حاسدوں کا کہنا ہے کہ اگر یہ مہمان کوئی مسلح بلوچ سرمچار یا طالبان ہوتے اور ہتھیار ڈالنے پر آمادہ ہوتے یا پھر 2014 کے دھرنے کی طرز پر پارلیمنٹ کے جنگلوں پر اپنے کپڑے سکھا رہے ہوتے اور وزیرِ اعظم ہاؤس کے گیٹ پھلانگنے کی کوشش کر رہے ہوتے اور مسل��ل الٹی میٹم دے رہے ہوتے اور کچھ نادیدہ سائے ان کے آگے پیچھے متحرک ہوتے تو شاید وزیرِ اعظم ان کا خیرمقدم ذاتی طور پر کرتے۔
مگر وفاق سے آخری امید رکھنے والے یہ مسلسل بے آرام بچے اور بوڑھے ایک دن جب اتمامِ حجت کے بعد خالی ہاتھ گھر لوٹیں گے تو ہو سکتا ہے کوئی وطن دشمن انھیں ایسی حرکتوں سے اکسانے کی کوشش کرے۔
کبھی لوٹ آئیں تو پوچھنا نہیں، دیکھنا انھیں غور سے جنہیں راستے میں خبر ہوئی کہ یہ راستہ کوئی اور ہے (سلیم کوثر) اور جنہیں آٹھ فروری کے بعد بلوچستان میں بھی حکمرانی کی اداکاری کرنی ہے وہ کیا ہوئے؟ کوئی وفاق پرست بلاول یا مریم جو کوئٹہ جا کر بلوچ بچے بچیوں کے سر پر ہاتھ رکھ کے اور گلے لگا کے فوٹو سیشن کرتے ہیں اب تک اسلام آباد پریس کلب کے اطراف میں بھی نہیں پھٹکے۔ منافقت اور دنیا دکھاوے میں بھی اس قدر احتیاط پسندی؟ ممکنہ خیرات چھن جانے کا اتنا خوف؟ استغفراللہ۔۔۔
برہنہ ہیں سرِ بازار تو کیا بھلا اندھوں سے پردہ کیوں کریں ہم
چبا لیں کیوں نہ خود ہی اپنا ڈھانچہ تمہیں راتب مہیا کیوں کریں ہم ( جون ایلیا )
وسعت اللہ خان
بشکریہ بی بی سی اردو
#Anwar Ul Haq Kakar#Pakistan#Pakistan Elections#Pakistan Elections 2024#Pakistan Politics#Politics#World
0 notes