#مضحکہ
Explore tagged Tumblr posts
Text
یہ خیال ہی مضحکہ خیز ہے کہ "محبت چہروں کو ویران کرتی ہے"،
The very idea that "love destroys faces" is ridiculous
Farid Ahmad Farid
15 notes
·
View notes
Text
Cats FUNNNY videos | Pet animals fun videos | Funny Pets Vlogs | Video:13
Cats FUNNNY videos | Pet animals fun videos | Funny Pets Vlogs | Video:13 https://www.youtube.com/watch?v=eL7QQIvErYc Welcome to Funny Pets Vlogs channel, the ultimate destination for funny cats and dogs videos! Prepare to be entertained by the antics of our furry friends as they navigate through life with humor and charm. From playful kittens getting into mischief to goofy dogs with hilarious quirks, our videos capture the essence of pet comedy at its finest. Whether you're a cat person, a dog lover, or simply enjoy a good laugh, you'll find something to love in our collection of funny and heartwarming moments. Subscribe now and join our community of pet enthusiasts as we celebrate the joy of laughter and the love of animals! बिल्लियों के मज़ेदार वीडियो பூனைகள் வேடிக்கையான வீடியோக்கள் 貓有趣的視頻 videos divertidos de gatos বিড়াল মজার ভিডিও vídeos engraçados de gatos смешные видео с кошками 猫の面白いビデオ ಬೆಕ್ಕುಗಳ ತಮಾಷೆಯ ವೀಡಿಯೊಗಳು പൂച്ചകളുടെ രസകരമായ വീഡിയോകൾ मांजरी मजेदार व्हिडिओ పిల్లుల ఫన్నీ వీడియోలు 고양이 재미있는 동영상 chats vidéos drôles Katzen lustige Videos بلیوں کی مضحکہ خیز ویڈیوز બિલાડીઓ રમૂજી વિડિઓઝ kediler komik videolar video hài hước về mèo ਬਿੱਲੀਆਂ ਦੇ ਮਜ਼ਾਕੀਆ ਵੀਡੀਓ via Funny Pets Vlogs https://www.youtube.com/channel/UCu6uW3-wqyBqieqdJ1Ych-g July 01, 2024 at 06:30AM
#funnypetsvlogs#funnypets#petanimals#funnycats#funnydogs#funnycatsmeme#funnydogsmeme#funnycatsfighting#funnydogsfighting
0 notes
Link
0 notes
Text
عالمی عدالت انصاف میں اسرائیل کے خلاف مقدمہ کی کارروائی آج شروع ہوگی
اسرائیل کے خلاف آج جمعرات کو اقوام متحدہ کی اعلیٰ عدالت میں غزہ میں نسل کشی کے الزامات پر مقدمے کا آغاز ہوگا۔ ہیگ میں بین الاقوامی عدالت انصاف نے دسمبر میں جنوبی افریقہ کی طرف سے لائے گئے ایک مقدمے کی دو دن سماعت کرنے کا فیصلہ کیا تھا جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ جنگ 1948 کے نسل کشی کنونشن کی خلاف ورزی کرتی ہے۔ اسرائیلی حکومت کے ترجمان ایلون لیوی نے کہا کہ “ریاست اسرائیل جنوبی افریقہ کے مضحکہ خیز…
View On WordPress
0 notes
Text
کیا انتخابات سے ملک میں استحکام آسکے گا؟
خوشخبری یہ ہے کہ عام انتخابات کا انعقاد 8 فروری کو ہورہا ہے۔ بری خبر یہ ہے کہ یہ انتخابات بھی مذاق ثابت ہوسکتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد انتخابات کا شیڈول جاری کر دیا گیا، شاید اس صورتحال نے انتخابات کے حوالے سے ابہام کچھ حد تک کم کیا ہو لیکن ان کی شفافیت پر اب بھی سوالیہ نشان موجود ہیں۔ گمان یہ ہورہا ہے کہ پسندیدہ لوگوں کے لیے میدان صاف کیا جارہا ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کو انتخابی عمل سے دور رکھنے کی ہر ممکن کوششوں کے تناظر میں ان معاملہ مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے درمیان مقابلے پر آچکا ہے۔ اس پورے کھیل نے انتخابی عمل کو مضحکہ خیز بنا دیا ہے۔ یہ شاید پہلا موقع نہیں ہے کہ ہم نے ایسے حالات دیکھے ہوں لیکن صورتحال کبھی اتنی خطرناک نہیں تھی۔ یہ سب ’مثبت‘ نتائج سامنے لانے کی کوششیں ہیں۔ لیکن کھیل ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔ سیاسی جماعتوں کو اس طرح ختم نہیں کیا جاسکتا۔ خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کے طاقت کے مظاہرے نے ظلم و ستم اور پابندیوں کو ٹھکراتے ہوئے بڑھتی ہوئی مزاحمت کی جھلک پیش کی۔
سوشل میڈیا کے اس دور میں آواز دبانے کی کوششیں کامیاب نہیں ہوتیں۔ اب پی ٹی آئی ان پابندیوں کے خلاف مصنوعی ذہانت کا استعمال کررہی ہیں۔ حال ہی میں پی ٹی آئی نے انتخابی مہم کے ��یے اپنے پہلے ورچوئل جلسے کا انعقاد کیا۔ یہ خبریں بھی سامنے آئیں کہ مصنوعی ذہانت کے ذریعے پی ٹی آئی نے اپنے قائد عمران خان کی آواز بھی بنائی۔ اگرچہ انٹرنیٹ کی بندش کی وجہ سے 5 گھنٹے طویل یہ ورچول جلسہ تعطل کا شکار ہوا لیکن اس کے باوجود یہ کسی حد تک اپنا مؤقف پیش کرنے میں کامیاب رہے۔ مصنوعی ذہانت پر مبنی کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کا ایسا استعمال اس حوالے سے ریاست کی جانب سے عائد پابندیوں کی حدود کو ظاہر کرتا ہے جوکہ انتخابات سے قبل سیاسی حرکیات کو بھی متاثر کرسکتا ہے۔ یہ ان طاقتوں کے لیے مزید مشکلات پیدا کر دے گا جوکہ انتخابی عمل میں مداخلت کرنا چاہتی ہیں۔ مرکزی دھارے کی دو سیاسی جماعتوں یعنی مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی تو سوشل میڈیا کے استعمال میں بہت پیچھے ہیں جبکہ پی ٹی آئی کو سوشل میڈیا پر غلبہ حاصل ہے جس سے وہ نوجوانوں تک اپنا پیغام پہنچانے میں کافی حد تک کامیاب ہے۔
پی ٹی آئی کی جانب سے اپنے ووٹرز کو بڑی تعداد میں انتخابات والے دن باہر نکلنے کا پیغام، پولنگ کے روز حالات کو الگ رخ دے سکتا ہے۔ لیکن لگتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے پاس ابھی مزید پتے ہیں۔ پارٹی کی طرف سے کسی بھی ممکنہ چیلنج کو روکنے کے لیے ریاست کی جانب سے جابرانہ ہتھکنڈے اپنانے کے آثار نظر آرہے ہیں۔ جیسے جیسے انتخابات قریب آرہے ہیں، ہم دیکھ سکتے ہیں کہ کریک ڈاؤن کا دائرہ کار وسیع ہورہا ہے اور اب تیسرے اور چوتھے درجے کے رہنما بھی اس کریک ڈاؤن کی لپیٹ میں آرہے ہیں۔ وہ رہنما تائب ہونے سے انکار رہے ہیں انہیں شدید دباؤ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ پی ٹی آئی کی خواتین قیدیوں کی حالتِ زار بھی بدتر ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنے اُس فیصلے کو منسوخ کر دیا ہے جس میں سویلینز کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلانے کو غیرقانونی قرار دیا گیا تھا۔ یوں اس فیصلے کو سیاسی قیدیوں کو مزید دھمکانے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ لیکن پھر بھی ان تمام سخت اقدامات کے باوجود، لگ نہیں رہا کہ صورتحال پوری طرح قابو میں ہے۔
اگرچہ پی ٹی آئی کے پاس بیان بازی کے علاوہ کوئی واضح منصوبہ نہیں ہے لیکن درحقیقت ریاست کے جابرانہ اقدامات ان کی حمایت میں اضافہ کررہے ہیں۔ زبرد��تی پارٹی چھڑوانے اور ان کے امیدواروں کو انتخابات میں حصہ لینے سے روکنے کی کوششوں سے پی ٹی آئی کی حمایت میں کمی واقع نہیں ہورہی۔ یہ وہ ماحول ہے جس میں عام انتخابات کا انعقاد ہو گا۔ عوام میں یہ بڑھتا ہوا خیال کہ انتخابات کے نتائج کا فیصلہ ہو چکا ہے، انتخابی عمل کی ساکھ کو بری طرح متاثر کررہا ہے۔ اہم سوال یہ ہے کہ کیا ایسے انتخابات سے ملک میں استحکام آسکے گا یا پھر اس سے تقسیم میں مزید اضافہ ہو گا؟ سوشل میڈیا کے دور میں ریاست کے لیے اپنے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو دبانا انتہائی مشکل ہے۔ متنازع انتخابات کی ساکھ صورتحال کو انتہائی غیر مستحکم کرنے کا سبب بن سکتی ہے جس سے مستقبل کی حکومت کے لیے ملک کو درپیش متعدد چیلنجز سے نمٹنا مشکل ہو جائے گا۔ متنازع انتخابات کے بعد اقتدا�� میں آنے والی کسی بھی حکومت کی ساکھ انتہائی کمزور ہو گی جس سے ان کا سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ پر انحصار مزید بڑھے گا۔ اس سے ملک میں جمہوری عمل کو شدید نقصان پہنچے گا۔
ہمارے لیے یہ حقیقت لمحہِ فکریہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی اقتدار کے اس کھیل میں اسٹیلشمنٹ کے تمام جابرانہ اقدامات کا ساتھ رہی ہیں۔ درحقیقت سابق وزیراعظم نواز شریف کو اسٹیلشمنٹ کے اس نئے کھیل میں سب سے زیادہ فائدہ پہنچ رہا ہے۔ جس طرح اس پورے نظام میں تبدیلی لائی گئی ہے، اس تناظر میں ان کے خلاف مقدمات میں عدلیہ کا فیصلہ نواز شریف کے حق میں آنا کوئی حیران کُن بات نہیں ہے۔ اس عدالت جس نے انہیں پہلے ’مجرم‘ قرار دیا تھا، اب وہی عدالت انہیں ان الزامات سے بری کر رہی ہے۔ یہ ثابت شدہ ہے کہ ان کو اقتدار سے ہٹانے اور مجرم قرار دینے والی وہی قوتیں تھیں جو اب مبینہ طور پر 2024ء کے انتخابات میں ان کی سرپرستی کررہی ہیں۔ سزا معطلی کے بعد نواز شریف اب انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں جس سے ان کے چوتھی بار وزیراعظم بننے کے امکانات کو تقویت مل رہی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کو یقین ہے کہ وہ دوبارہ اقتدار میں آرہے ہیں۔ اب نواز شریف کی جگہ عمران خان کرپشن اور بغاوت جیسے مقدمات کا سامنا کررہے ہیں۔ سائفر کیس میں عمران خان پر پہلے ہی فردِجرم عائد ہو چکی ہے۔ سزا یافتہ ہونے کی وجہ سے وہ کوئی بھی حکومتی عہدہ سنبھالنے کے اہل نہیں ہیں۔
ہمارے عدالتی نظام کی مشکوک ساکھ اور جس طرح انہیں سزا دی گئی ہے، یہ بظاہر پولیٹیکل وکٹیمائزیشن کا ایک اور کیس معلوم ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے ماضی میں منعقد ہونے والے تمام انتخابات میں اسی طرح ہیرا پھیری کی گئی لیکن اس وقت جاری پری پول منیجمنٹ کی مثال ہمیں کم ہی ملتی ہے۔ انتخابی عمل میں اس قدر مداخلت تو ہمیں فوجی حکومتوں کے ادوار میں بھی دیکھنے کو نہیں ملی تھی۔ جس طرح ہمارے ملک کے ہر شعبے میں سیکیورٹی اسٹیلشمنٹ کا اثرورسوخ ہے اس سے انتخابات میں سویلین بالادستی انتہائی مشکل ہے اور اس سے ایک بار پھر ممکنہ طور پر ہائبرڈ اقتدار کا دور شروع ہو گا جس میں سویلین انتظامیہ کا ذیلی کردار ہو گا۔ ایک ریاست جو پہلے ہی لاتعداد مسائل میں گھری ہوئی ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ ایک ایسی مضبوط نمائندہ حکومت اقتدار میں آئے جو ملک کو درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرے۔ ملک کو سیاسی تقسیم کی ��ہیں بلکہ سیاسی طور پر متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ہمارے سیاستدان اپنی تاریخ سے کبھی بھی سبق نہیں سیکھتے۔ ان کی تمام تر توجہ صرف قلیل مدتی مفادات پر ہوتی ہے جبکہ جمہوریت کو مستحکم کرنے کے ہدف پر کوئی توجہ نہیں دیتا۔
زاہد حسین یہ مضمون 20 دسمبر 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
بشکریہ ڈان نیوز
#Imran Khan#Nawaz Sharif#Pakistan#Pakistan Elections#Pakistan Establishment#Pakistan Politics#PML-N#Politics#PPP#PTI#World
0 notes
Text
وطن کی فکر کر ناداں
دردِ دل رکھنے والوں کی ہر محفل میں ’’گھرکی بربادی‘‘ کا رونا رویا جارہا ہے، پڑھے لکھوں کی نشست میں بربادی کی وجوہات تلاش کرنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے، سنجیدہ لوگ یہ سوال بھی اٹھاتے ہیں کہ وطنِ عزیز کو اس ناگفتہ بہ حالت تک پہنچانے میں کس حکمران نے سب سے زیادہ حصّہ ڈالا ہے اور کونسا ادارہ جسدِ ملّت کو لگنے والے ناقابلِ علاج امراض کا زیادہ ذمّے دار ہے۔ صاحبانِ دانش کی بہت بڑی اکثریّت یہ سمجھتی ہے کہ خطرناک بیماری کا آغاز 2017 میں رجیم چینج یعنی منتخب وزیرِ اعظم کو انتہائی مضحکہ خیز طریقے سے ہٹانے کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا اور پھر 2023 تک اس کی شدّت میں اضافہ ہوتا گیا۔ حکومتی ایوانوں کے احوال سے باخبر حضرات اور اقتصادی ماہرین کی اکثریّت یہ سمجھتی ہے کہ پی ٹی آئی کا دورِ حکومت ملکی معیشت کی بنیادیں کھوکھلی کر گیا اور اس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی نالائقی، نااہلی، افتادِ طبع، نرگسیّت اور فسطائی سوچ کا بڑا بنیادی کردار تھا۔ اس کے بعد پی ڈی ایم کے حکماء بھی اپنے تمام تر ٹوٹکوں اور تجربوں کے باوجود مرض پر قابو پانے میں ناکام رہے۔ شہباز شریف صاحب آئی ایم ایف سے معاہدے کے علاوہ کوئی کارنامہ نہ دکھا سکے، وہ پنجاب کی طرح چند منظورِ نظر بیوروکریٹوں پر بہت زیادہ تکیہ کرتے رہے، محدود سوچ کے حامل اور تعصبات کے مارے ہوئے یہ بابو قومی سطح کے مسائل کا ادراک ہی نہ کرسکے۔
وہ صرف یاریاں پالتے رہے اور میرٹ کو پامال کرتے ہوئے کرپٹ افسروں کو اہم عہدوں پر لگواتے، اور بدنام افسروں کو پروموٹ کرواتے رہے۔ اس بار پی ایم آفس میں تعینات بیوروکریٹوں نے وزیرِاعظم کا امیج خراب کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ لہٰذا شہباز شریف صاحب کی تمام تر بھاگ دوڑ کے باوجود پی ڈی ایم کی حکومت کوئی قابلِ ذکر کامیابی حاصل نہ کر سکی۔ مختلف ادارے سروے کروا رہے رہے ہیں کہ ملک کو اس نہج تک پہنچانے میں اسٹیبلشمنٹ، سیاستدانوں، عدلیہ اور بیوروکریسی میں سے کس کا حصہ سب سے زیادہ ہے۔ میرے خیال میں وطنِ عزیز کو نقصان پہنچانے میں کسی نے کوئی کسر نہیں چھوڑی، مگر اس سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ فیصلہ سازی جس کے ہاتھ میں ہو گی اور جس کے پاس اختیارات زیادہ ہوں گے اصلاحِ احوال کی سب سے زیادہ ذمّے داری بھی اس کی ہو گی۔ لگتا ہے وہاں چیلنجز کی سنگینی کا بھی ادراک نہیں ہے اور اس سے نبرد آزما ہونے کے لیے درست افراد کے انتخاب (Right man for the right job) کی صلاحیّت کا بھی فقدان ہے۔ اہلِ سیاست کی یہ بہت بڑی ناکامی ہے کہ وزیراعظم اور قائدِ حزبِ اختلاف (چاہے نام کا ہی تھا) دونوں اپنے آئینی اختیار سے دستبردار ہو گئے اور نگران وزیراعظم کے لیے انھیں جو نام دیا گیا وہ انھوں نے پڑھ کر سنا دیا۔ عام تاثر یہی ہے کہ ایک دو پروفیشنلز کے علاوہ کابینہ کا انتخاب بادشاہوں کی طرح کیا گیا ہے۔
کسی شاعر کی کوئی غزل پسند آگئی تو اسے وزیر بنا دیا، کسی معمّر خاتون کی لچھے دار باتیں اچھی لگیں تو اسے مشیر لگا دیا۔ کسی مصوّر کی تصویر دل کو بھا گئی تو اس سے بھی وزارت کا حلف دلوا دیا، کیا ایسی کابینہ اس قدر گھمبیر مسائل کا حل تلاش کرسکے گی؟ اس وقت سب سے تشویشناک بات عوام کی بے چینی اور ناامیدی ہے۔ انھیں کہیں سے امید کی کرن نظر نہیں آتی، نوجوانوں میں یہ مایوسی اور ناامیدی بہت زیادہ بڑھی ہے اور وہ بہتر مستقبل کے لیے ملک چھوڑ کر جارہے ہیں، میں نے پچھلا کالم اسی بات پر لکھا تھا اور کچھ ملکوں کی مثالیں دے کر لوگوں کو ملک چھوڑنے سے روکنے کی کوشش کی تھی۔ اس پر بہت سی میلز موصول ہوئیں، کچھ لوگوں نے اتفاق بھی کیا مگر کچھ نے شدید اختلاف کیا۔ ڈیرہ غازی خان کے ایک نوجوان دانشور محمد طیّب فائق کھیتران کی میل قارئین سے شیئر کررہا ہوں۔ ’’جب سے آپ کی تحریریں پڑھ رہا ہوں تب سے لے کر آج تک یہ پہلی تحریر ہے جس میں ایسا محسوس ہوا ہے کہ یہ تحریر لکھتے ہوئے آپ کے ذہن و دل آپ کے ہمنوا نہیں بن سکے۔
ایک محب وطن پاکستانی ہونے کے ناتے آپ نے اپنا فریضہ ادا کرنا ضروری سمجھا لیکن یہ آپ بھی جانتے ہیں کہ آپ نے جس انداز میں یا جس بوجھل دل سے عوام کو روکنے کی کوشش کی ہے یہ آواز عوام کے دلوں تک نہیں پہنچے گی۔ آپ ہی بتائیں کہ جس ملک میں بھوک و افلاس، بے روزگاری اور مہنگائی، بد امنی، اسٹریٹ کرائمز، اور لاپتہ افراد جیسی بلائیں روزانہ صبح اٹھتے ہی نئی نئی صورتوں میں نازل ہوتی ہوں، جہاں کرپشن کا کبھی نہ رک سکنے والا سیلاب سب کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہو۔ ملک کے عوام حالات سے دل برداشتہ ہو کر خود کشیاں کر رہے ہوں بچوں کے گلے کاٹ رہے ہوں، بچے برائے فروخت یا گردہ برائے فروخت کے چارٹ گلے میں آویزاں کیے چوک پر کھڑے ہوں، جس ملک میں مزدور کی کل آمدن سے زیادہ بجلی کا بل آتا ہو اور احتجاج کرنے پر ڈنڈے پڑتے ہوں یا جیل بھیج دیا جاتا ہو آٹے کی قطار میں کھڑے ہوکر کئی عورتیں جان کی بازی ہار گئی ہوں، ملک قرض در قرض اور سود در سود کی دلدل میں پھنستا جا رہا ہو، حکمران طبقے کی کرپشن اور عیاشیاں مزید بڑھتی جا رہی ہوں وہاں بندہ کسی کو روکے بھی تو کس امید پر؟؟
اس ملک میں پہلے تین طبقے ہوتے تھے۔ امیر، متوسط اور غریب لیکن اب صرف دو طبقے ہیں امیر اور غریب جو متوسط تھے وہ غریب ہو چکے ہیں اور جو غریب تھے وہ غربت کی لائن سے بھی نیچے چلے گئے ہیں۔ آپ نے جاپان کا حوالہ دیا، جاپان پر تو ایک ایٹم بم گرایا گیا تھا ہم پر تو حکمران ہر روز ایٹم بم گراتے ہیں۔ جس جس نے بھی اس ملک کو لوٹا، برباد کیا کوئی ہے ایسا جو اُن کے گریبان میں ہاتھ ڈال سکے؟ یقیناً کوئی بھی نہیں۔ جب اشیائے خورد و نوش ہی اتنی مہنگی ہو چکی ہیں کہ انسان اگر بیس ہزار کما رہا ہے تو صرف کھانے پینے کا خرچ ہی پچاس ہزار تک چلا جائے تو وہ بندہ کیسے پورا کرے؟ کوئی متبادل راستہ؟ مڈل کلاس کے لوگوں نے بھی حالات سے مجبور ہو کر بھیک مانگنا شروع کر دیا ہے۔ پھر کسی جانے والے کو ہم کس طرح قائل کر سکتے ہیں کہ تم نہ جاؤ یہ ملک جنت بن جائے گا؟۔ ہم پر کوئی آفت نازل نہیں ہوئی بلکہ ہم ایک منظم طریقے سے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت برباد کیے جا رہے ہیں۔ آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ عمارت کو گرانے میں چند لمحات لگتے ہیں اور بنانے میں سالہا سال لگ جاتے ہیں۔
اس ملک کی اشرافیہ اور حکمرانوں نے 75 سال اس کی عمارت کو گرانے میں ہی تو صرف کیے ہیں۔ آپ اگر اگلی نسلوں کو بچانا چاہتے ہیں تو بجائے ان لوگوں کو روکنے کے ان کے نکلنے کے لیے کوئی محفوظ راستہ تجویز فرمائیں‘‘۔ اسی نوعیّت کی اور میلز بھی آئیں جن میں بڑے تلخ حقائق بیان کیے گئے ہیں۔ چلیں میں اپنے مشورے میں ترمیم کر لیتا ہوں’’آپ بہتر مستقبل کے لیے جہاں جانا چاہتے ہیں جائیں مگر وطنِ عزیز کو ہی اپنا گھر سمجھیں، گھر کی خبر لیتے رہیں اور اس سے ناطہ نہ توڑیں اور آپ کا گھر کبھی مدد کے لیے پکارے تو اس کی پُکار پر دل و جان سے لبّیک کہیں‘‘۔ گھر کی معیشت آئی سی یو میں ہو تو گھر کے ہر فرد کے دل میں اس چیز کا شدید احساس اور تشویش پیدا ہونی چاہیے، ہر فرد کو اپنے طرزِ زندگی میں سادگی اور کفایت شعاری اختیار کرنی چاہیے، گھر کے اخراجات میں واضح طور پر کمی آنی چاہیے، مگر ہمارے ہاں بدقسمتی سے مقتدر حلقے اخراجات میں کمی کرنے یا سادگی اختیار کرنے پر تیار نہیں۔ اشرافیہ کسی قسم کے ایثار کے لیے آمادہ نہیں، بیوروکریسی کے اللّے تللّے اور عیاشیاں کم ہونے کے بجائے بڑھ گئی ہیں۔
چاہیے تو یہ تھا کہ سینئر افسروں کو صرف ضرورت کے لیے ایک سرکاری گاڑی مہیّا کی جاتی اور باقی سب واپس لے لی جاتیں، مگر گاڑیاں واپس لینے کے بجائے ان کے جونیئر تری�� افسروں کے لیے بھی مہنگی ترین گاڑیاں خریدی گئی ہیں۔ ان حالات میں بیوروکریسی کو کچھ شرم اور حیاء کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا، خود مملکت کے سربراہ کا رویّہ انتہائی افسوسناک ہے۔ ملک کی معیشت ڈوب رہی ہے اور صدر تنخواہ بڑھانے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ لگتا ہے پورے کارواں کے دل سے احساسِ زیاں ہی جاتا رہا ہے اور کسی میں متاعِ کارواں چھننے کا افسوس، تشویش یا احساس تک نہیں ہے اور یہی چمن کی بربادی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔
؎ وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں
موجودہ انتہائی تشویشناک حالات کا فوری تقاضا ہے کہ سیاسی، عسکری اور عدالتی قیادت اپنے ذاتی اور گروہی مفاد سے اوپر اُٹھے اور صرف ملک کی بقاء اور فلاح کے لیے سر جوڑ کر بیٹھے، ان کے درمیان ایک نیا عمرانی معاہدہ طے پائے اور ایک نیا چارٹر اور روڈ میپ تشکیل دیا جائے۔ اس کے بعد یہ تمام لوگ قائدؒ کے مزار پر جاکر اس پر صدقِ دل سے عمل کرنے کا عہد کریں اور پھر ہر ادارہ اور ہر فرد پورے اخلاص اور نیک نیّتی سے اس عہد پر عمل پیرا ہو۔ ﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ قوم کے ہر فرد اور ہر ادارے کے اندر ملک کا درد اور سادگی اور ایثار اختیار کرنے کا جذبہ پیدا کر دے۔
ذوالفقار احمد چیمہ
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
Text
Mockery of statements at UN
عالمی برادری سے وزیر اعظم کا خطاب اور مضحکہ خیز رائے 24 ستمبر ، 2023 نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے جمعہ کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 78 ویں اجلاس سے خطاب اور اس کے بعد کی جانے والی پریس کانفرنس میں مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل کو پاک بھارت امن کی بنیاد قرار دیتے ہوئے بجا طور پر مطالبہ کیا ہے کہ ہندوتوا کے باعث ہونے والی بدامنی سمیت ہر قسم کی دہشت گردی کا سدِّ باب کیا جائے ، سکھ لیڈر ہردیپ…
View On WordPress
0 notes
Text
آپ پاکستان کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟
پاکستان کی وہ تلخ حقیقت جو اقتدار میں بیٹھے لوگوں اور بیوروکریٹس نے تشکیل دی ہے روزانہ اپنے آپ کو ظاہر کرتی ہے۔ آج ملک جن بحرانوں کی لپیٹ میں ہے اس کا موازنہ تو دسمبر 1971ء کے حالات سے بھی نہیں کیا جاسکتا۔ جب سے ہم نے مشرقی پاکستان کی صورت میں اپنا دایاں بازو کھویا اور ہمارے پہلے منتخب وزیراعظم کا عدالتی قتل کیا گیا اس کے بعد سے ہماری حالت المناک، افسوس ناک اور اب مضحکہ خیز بن چکی ہے۔ ان خراب حالات سے نکلنے کے راستے موجود ہیں لیکن ان راستوں پر ہمارے بدعنوان رہنما ایک رکاوٹ کی طرح کھڑے ہیں جو عوام کے اعتماد کو ٹھیس پہنچا کر مجرمانہ طریقے سے دولت کو جمع کرتے ہیں۔ ہمارے دانش وروں میں موجود الجھن اور ان کی غیرذمہ داری بھی ان خراب حالات سے نکلنے کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ ملک کا ہر بڑا ادارہ اور طاقت ور گروہ چاہے وہ حکومت ہو یا فوج، انٹیلی جنس ادارے، عدلیہ، پارلیمنٹ، سیاسی رہنما اور جماعتیں، میڈیا، تعلیم اور صحت کا نظام، سول سروسز، زمین دار، کاروباری اور مذہبی اشرافیہ وغیرہ سب ہی بری طرح ناکام ہو چکے ہیں۔ یہ سب مل کر ریاست کی بدحالی میں حصہ ڈال رہے ہیں۔ بنیادی مجرموں کا سب کو علم ہے لیکن انہیں اس کی کوئی پروا نہیں۔
بانیِ پاکستان، تحریکِ پاکستان اور پاکستان کے عوام کا متواتر مذاق بنتا ہے۔ اپنے آخری دنوں میں قائدِاعظم نے راجا صاحب محمودآباد کو کہا تھا کہ ’میں غداروں سے گھرا ہوا ہوں‘۔ آج تو پورا ملک انہیں کے نرغے میں ہے۔ ہمارا کوئی بھی دشمن اس عداوت کا مقابلہ نہیں کر سکتا جس کا اظہار ہمارے حکمران اپنے ہی ملک کے ساتھ کر رہے ہیں۔ ایک جانب وہ اپنی جیبیں بھرنے میں مصروف ہیں جبکہ دوسری جانب قومی سلامتی اور اقتصادی استحکام کی باتیں کرتے ہیں جبکہ ہمارے غریب طبقے کو غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے۔ اب سوالات کا وقت گزر چکا ہے کیوں کہ اب صرف جوابات دینے کا وقت ہے اور جوابات بھی اقدامات اور منظم تحاریک کی صورت میں دینے کی ضرورت ہے۔ یہاں سماج اور حقوق کے ایسے سرگرم کارکنان، کاروباری اور پیشہ ورانہ افراد موجود ہیں جو صورت حال میں کچھ تبدیلی لاسکتے ہیں۔ ملک میں تبدیلی کی رفتار کو تیز کرنے کے لیے انہیں متحد اور ایک دوسرے کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ عوام کو ایسے خادم چاہئیں جو ان کی خدمات میں پیش پیش رہیں۔ ایک مقبول رہنما ووٹ بینک کی جانب توجہ دیتا ہے اور عوام کو رعایا کے طور پر دیکھتا ہے جبکہ ایک حقیقی رہنما شہریوں کی خدمت کرتا ہے۔
تو اس کے لیے کیا کیا جاسکتا ہے؟ بہت کچھ۔ لیکن پہلے آپ خود سے یہ سوال کریں کہ آپ کیا کر سکتے ہیں پھر کسی سے بھی رابطہ کریں، اپنے خیالات کا اظہار کریں، اپنے دائرے کو وسعت دیں، اس پر اپنا وقت لگائیں، گفتگو کریں، اختلاف کریں، اتفاق کریں، اس پر عمل درآمد کریں اور اس کا جائزہ لیں۔ ان عوامل کو ہزار دفعہ اگر پورے ملک میں دہرایا جائے گا تو ہم خود دیکھیں گے کہ پاکستان میں تبدیلی بھی آئے گی اور یہ ترقی اور کامیابی بھی حاصل کرے گا۔ یوں ہمارے دشمن بھی آہستہ آہستہ اپنے عزائم سے پیچھے ہٹنے لگیں گے۔ آئین یا انتخابات کا بحران اہم تو ہے لیکن یہ ثانوی نوعیت کا ہے۔ بنیادی مسئلہ اس وقت ہمارے حکمرانوں کے غلط اقدامات کی وجہ سے بڑھتا ہوا موسمیاتی تبدیلی کا خطرہ ہے جو کہ ہر گزرتے سال کے ساتھ مزید بڑھتا جائے گا۔ جب تک درست طرز پر حکمرانی نہیں کی جائے گی تب تک انتخابات کی صورت میں یونہی ہمارے جمہوری نظام کا مذاق اڑایا جاتا رہے گا جبکہ پہلے سے لاحق وجودی خطرات ہمارے وجود کو ہی ختم کر دیں گے۔
حکمرانی دراصل عزم، اہلیت، ترجیحات، اصلاحات، وسائل، ردعمل، معلومات، منتقلی اور ملکیت کے عمل کا نام ہے۔ پاکستان کے پاس یہ سب اور بڑے پیمانے پر اہلیت بھی موجود ہے لیکن انہیں موجودہ نظام اور غدار طاقت ور اشرافیہ کے دھوکے کے مقابلے میں متحرک کرنا ہو گا۔ ہماری اور ان کی آنے والی نسلوں کو بچانے کے لیے انہیں متحرک کیا جائے گا۔ پاکستان کو بچانے کے لیے ہماری خارجہ پالیسی کو اپنا حصہ ڈالنا ہو گا۔ اصولی اور حقیقت پسندانہ پالیسیاں قومی بقا، تخلیق نو اور خوش حالی میں معاون ثابت ہوں گی۔ یہ چیزیں امن سے بھی مشروط ہیں۔ مسئلہ کشمیر جہاں ایک اصولی معاملہ ہے وہاں یہ انسانی حقوق کا چیلنج بھی ہے۔ پاکستان پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ تعلقات کو استوار کرے تاکہ کشمیر میں انصاف کی فراہمی کو ممکن بنایا سکے اور بھارت کے ساتھ کثیرالجہت تعاون کی فراہمی کے امکانات کو سیاسی طور پر ممکن بنایا جاسکے۔ اصولی سمجھوتے کے طریقے کو اختیار کر کے ہم باہمی تعاون کے امکانات کو بڑھا سکتے ہیں، ملکی وسائل کو منفی سے مثبت سطح پر لاسکتے ہیں اور سیکیورٹی کے اخراجات میں کمی کر سکتے ہیں۔ اسی طرح بہتر روابط قائم کرنے سے باہمی سطح پر نفرت انگیز بیانیے کو بھی ابھرنے کا موقع نہیں ملے گا۔
حالیہ دور میں ایسی کوئی وجہ نہیں ہے جس کی بنیاد پر پاکستان بھارت کے ساتھ جنگ نہ کرنے کے معاہدے پر بات چیت کے لیے آمادہ نہ ہو۔ کشمیر کے حوالے سے کسی مفاہمت تک پہنچنے کے لیے اس طرح کے اقدام سے بڑی مدد مل سکتی ہے۔ کشمیری عوام کی حمایت کی خاطر بات چیت سے انکار کرنے سے ہم کشمیری عوام کی کوئی مدد نہیں کررہے ہیں۔ ہمارے سامنے افغانستان کی مثال موجود ہے جہاں خارجہ پالیسی کو ہائی جیک کرنے سے سیاسی تباہی کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستان کی افغانستان کے حوالے سے پالیسی بھارت کے لیے ایک تحفہ ہے۔ افغانستان کی آزادی کا احترام کرنا اور اس کا اعتماد حاصل کرنا اس کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کرنے کا راستہ ہے جبکہ اس سے وسطی ایشیا اور ایران کے ساتھ علاقائی تعاون کے امکانات بھی وسیع ہوں گے۔ طالبان کے ساتھ موقع پرست پالیسیاں اپنا کر ہمیں کوئی مدد نہیں ملے گی اور نہ ہی ایسی پالیسیاں ہمارے کام آئیں گی جو حمایت کو عوامی دشمنی میں تبدیل کر دیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم پاکستان کے شہریوں کے لیے جو چاہتے ہیں وہی افغانستان کے شہریوں کے لیے بھی چاہیں۔ اس فریم ورک پر عمل پیرا ہو کر ہم افغانستان کے حوالے سے تمام معاملات کو باہمی تعاون سے اور اطمینان بخش طریقے سے حل کر سکتے ہیں۔
پاکستان کو ایک بڑے ہمسائے کے طور پر فراخ دلی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ پاکستان کے لیے صرف یہ دعویٰ کر دینا کافی نہیں ہے کہ وہ ایسی پالیسیوں پر عمل پیرا ہے بلکہ افغانستان کو یہ محسوس بھی ہونا چاہیے کہ پاکستان اس حوالے سے سنجیدہ ہے۔ امریکا نے چین کے عالمی حریف کے طور پر ابھرنے کو روکنے کی کوششوں میں عالم گیریت کے تصور کو ہی پلٹ دیا ہے۔ ڈی گلوبلائزیشن کی جانب جاتی اس دنیا میں پاکستان کو اپنے خطے یعنی ایشیا میں اپنے تعلقات کو بہتر بنانے کو ترجیح دینا ہو گی۔ چین بھی ایشیا میں ہی ہے اور وہ پاکستان کا دیرینہ دوست ثابت ہوا ہے۔ لیکن ایک ناکام پاکستان ان تعلقات کی اہمیت کا ادراک نہیں کر پائے گا۔ سی پیک منصوبے میں آنے والے اتار چڑھاؤ اس کی گواہی دیتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں امریکا کی پاکستان کے حوالے سے پالیسیوں کی بنیاد پاکستان کا ایک ناکام ریاست ہونا ہے۔ پاکستان کے لیے امریکا کی اہمیت کو رد نہیں کیا جاسکتا لیکن پاکستان کو اپنے تعلقات کی بنیاد کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔
اب معیشت کے حوالے سے بھی تھوڑی بات کر لیتے ہیں۔ پاکستان کی معاشی بدحالی کا کبھی امریکیوں، آئی ایم ایف اور کبھی چینیوں کو ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ آئی ایم ایف شاید امریکا کے دائرہ اختیار میں ہو لیکن وہ خود کو پاکستان پر مسلط نہیں کر رہا ہے۔ پاکستان اپنی رضامندی سے آئی ایم ایف کے پاس جاتا ہے جس کی اپنی شرائط ہوتی ہیں۔ اب یہ پاکستان پر منحصر ہوتا ہے کہ یا تو وہ ان شرائط کو تسلیم کرے یا پھر انہیں رد کر دے۔ تاہم پاکستان کے حکمران اصلاحات نہ لانے کے لیے آئی ایم ایف کو ڈھال کے طور پر پیش کرتے ہیں، اور اپنی لاپروائی اور خراب پالیسیوں کا خمیازہ پاکستانی عوام کے کھاتے میں ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان اصلاحات کو آزادانہ طور پر نافذ کیا جاسکتا ہے جس کی بنیاد پر آئی ایم ایف سے بہتر شرائط پر معاملات طے کیے جاسکتے ہیں۔ اسی طرح چین کو بھی موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا اور نہ ہی ہم یہ توقع کر سکتے ہیں کہ وہ پاکستان کی غیرذمہ دارانہ حکمرانی کی نتیجے میں ہونے والے نقصانات کی تلافی کرے گا۔
اشرف جہانگیر قاضی
یہ مضمون 2 مارچ 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
بشکریہ ڈان نیوز
0 notes
Text
متواتر جدول کیسے حفظ کریں؟
Kindly follow me to read interesting content on your passion and profession.
متواتر جدول سیکھنا ایک مشکل کام ہوسکتا ہے، لیکن تھوڑی سی تخلیقی صلاحیتوں اور مزاح کے ساتھ، یہ بہت زیادہ لطف اندوز ہوسکتا ہے۔ پیریڈک ��یبل کو مضحکہ خیز انداز میں حفظ کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے: یادداشتوں کا استعمال کریں: میمونکس میموری ایڈز ہیں جو معلومات کو کسی اور چیز سے جوڑ کر آپ کو یاد رکھنے میں مدد کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، آپ متواتر جدول کے پہلے دس عناصر (H, He, Li, Be, B, C, N, O, F) کو یاد…
View On WordPress
0 notes
Text
شفا یابی کے عمل کے بارے میں سب سے مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ یہ ایک تنہا سفر ہے جسے کوئی بھی اپنے ساتھ نہیں لے سکتا، یہ کسی کی کوششوں سے کم نہیں ہے، لیکن کوئی سوچ بھی نہیں سکتا ہے کہ آپ اپنے دل میں کیا محسوس کریں اور کہیں۔ آپ کی روح میں، وہ احساس جس کی آپ کو ضرورت محسوس نہیں ہوتی، کہ آپ کام نہیں کر رہے، لیکن آپ کو زندگی کی خاطر جاری رکھنا پڑتا ہے، آپ کھڑے نہیں ہوتے۔
The most ridiculous thing about the healing process is that it is a solitary journey that no one can take with you, it is not a minimization of anyone's attempts, but no one can imagine or take with you to say what you feel in your heart and in your soul, the feeling that you do not feel needed, that you are not working, but you have to continue for the sake of life You don't stand.
23 notes
·
View notes
Text
’’بھارتی ٹیم اگر ایشیاکپ نہیں کھیلتی تو کوئی اسپانسر نہیں ملے گا‘‘
بی سی سی آئی کے عہدیدار کا مضحکہ خیز دعویٰ (فوٹو: ٹوئٹر) بھارتی کرکٹ بورڈ (بی سی سی آئی) کے عہدیدار نے پاکستان پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایشیاکپ 2023 میں اگر بھارت کی ٹیم نہیں کھیلتی تو کوئی اسپانسر نہیں ملے گا۔ بی سی سی آئی کے عہدیدار نے دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی کرکٹ ٹیم پاکستان نہیں جائے گی، ایشیاکپ کو ہر صورت منتقل کرنا پڑے گا۔ کوہلی، روہت، شبمن گِل کے بغیر ٹورنامنٹ کو کوئی اسپانسر…
View On WordPress
0 notes
Text
’’بھارتی ٹیم اگر ایشیاکپ نہیں کھیلتی تو کوئی اسپانسر نہیں ملے گا‘‘
بی سی سی آئی کے عہدیدار کا مضحکہ خیز دعویٰ (فوٹو: ٹوئٹر) بھارتی کرکٹ بورڈ (بی سی سی آئی) کے عہدیدار نے پاکستان پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایشیاکپ 2023 میں اگر بھارت کی ٹیم نہیں کھیلتی تو کوئی اسپانسر نہیں ملے گا۔ بی سی سی آئی کے عہدیدار نے دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی کرکٹ ٹیم پاکستان نہیں جائے گی، ایشیاکپ کو ہر صورت منتقل کرنا پڑے گا۔ کوہلی، روہت، شبمن گِل کے بغیر ٹورنامنٹ کو کوئی اسپانسر…
View On WordPress
0 notes
Text
نیٹو سربراہ اجلاس، یوکرین کے لیے سکیورٹی وعدے، رکنیت کا وعدہ، پیوٹن زمین اور طاقت کے لالچی ہیں، بائیڈن
امریکی صدر جو بائیڈن نے نیٹو سربراہ کانفرنس کے اختتام پر روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن کو ’ زمین اور طاقت کا لالچی‘ قرار دیا، نیٹو سربراہ کانفرنس کے موقع پر امریکا اور اس کے اتحادیوں نے یوکرین کو ماسکو کے خلاف سکیورٹی کی نئی یقین دہانیاں کرائیں، یوکرین کے صدر زیلنسکی کی جانب سے نیٹو رکنیت کے لیے ٹائم لائن نہ دیئے جانے کو مضحکہ خیز قرار دئیے جانے کے بعد دنیا کے سب سے بڑے اور طاقتور فوجی بلاک نے…
View On WordPress
0 notes
Text
کیا کاشت کاروں سے انکم ٹیکس وصول کیا جانا چاہیے؟
ریونیو بڑھانے میں ناکامی کی وجہ سے پاکستان خود کو ہمیشہ بین الاقوامی قرض دہندگان کے رحم وکرم پر پاتا ہے۔ ��ی الحال ہم ایک آئی ایم ایف معاہدے میں شامل ہیں جو حکومت کو ریونیو میں اضافہ کرنے اور ٹیکس ٹو جی ڈی پی کے تناسب کو بہتر بنانے کا پابند کرتا ہے۔ ایسا اس وقت تک ممکن نہیں ہوسکتا جب تک ریاست معیشت کے تمام شعبوں پر یکساں طور پر ٹیکس عائد نہ کرے۔ ان شعبہ جات میں زرعی شعبہ بھی شامل ہے جہاں زرعی پیداوار پر مؤثر ٹیکس لگانے کی گنجائش موجود ہے۔ پاکستان کی 350 ارب ڈالرز کی مجموعی معیشت میں تقریباً پانچواں حصہ زراعت کا ہے۔ اگر یہ شعبہ معیشت میں اپنا منصفانہ حصہ ڈال رہا ہے تو موجودہ سال کے 9 ہزار 415 ارب روپے کی ٹیکس وصولی کے طے شدہ ہدف کا پانچواں حصہ زرعی پیداوار سے آنا چاہیے۔ تاہم متوقع رقم کا چھوٹا سا حصہ ہی حاصل ہو پاتا ہے۔ لوگوں میں اس عام غلط فہمی کو دور کرنے کی ضرورت ہے کہ زراعت کو انکم ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے کیونکہ ایسا نہیں ہے۔ انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء کے مطابق زراعت سے حاصل ہونے والی آمدنی پر دیگر کسی بھی آمدنی کی طرح ٹیکس عائد کیا جاتا ہے لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ یہ ٹیکس فیڈرل بورڈ آف ریونیو نہیں بلکہ صوبائی حکام وصول کرتے ہیں۔
کاشت کار اور دیگر مفاد پرست گروہ زرعی انکم ٹیکس کے خلاف مختلف دلائل پیش کرتے ہیں۔ وہ عام طور پر محسوس کرتے ہیں کہ چونکہ ان پر پہلے سے ہی بالواسطہ طور پر بھاری ٹیکس عائد کیا جاتا ہے اس لیے ان سے انکم ٹیکس وصول نہیں کیا جانا چاہیے۔ وہ اشیا کی قیمتوں پر کنٹرول کی شکایت بھی کرتے ہیں جوکہ ان کی آمدنی پر بالواسطہ ٹیکس جیسا ہے۔ اگرچہ ایسی شکایات غلط نہیں ہیں لیکن 2022ء میں گندم کی قیمتوں میں دگنا اضافہ ہونے سے قیمتوں پر حکومتی کنٹرول غیر موثر ہو گیا ہے۔ البتہ دیگر اجناس جیسے کپاس اور چاول کو برآمد کرنے کی آزادی ہے بلکہ حکومتی پالیسی کے تحت چاول کی برآمدات کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ دیگر اہم اجناس میں چینی وہ واحد شے ہے جو اس سے مستثنیٰ ہے۔ چینی سخت حکومتی کنٹرول کے تابع ہے اور اسے عام طور پر برآمدی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان پابندیوں کو پورا کرنے اور مقامی صنعتوں اور بڑے کاشت کاروں کو فائدہ پہنچانے کے لیے چینی کی درآمدات پر بھاری ٹیکس لگایا جاتا ہے۔ بہت سے ٹیکس ماہرین کا خیال ہے کہ محدود دستاویزی معیشت اور وسیع جغرافیائی رقبے پر زراعت کی وجہ سے اس پر زرعی ٹیکس کا نفاذ ممکن نہیں۔
شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے برطانوی نوآبادیاتی حکمرانوں نے زرعی ریونیو پر فرضی ٹیکس عائد کیا اور اس ٹیکس کی بنیاد اصل پیداوار یا پیداواری صلاحیت کے بجائے زمین کے کرائے پر رکھی۔ تاہم اگر یہ تصور کر لیا جائے کہ اب پالیسی سطح پر اس کام کو کرنے کا عزم موجود ہے تو سیٹلائٹ تصاویر اور مشین لرننگ ٹیکنالوجیز کے دور میں زراعت پر ٹیکس لگانا کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔ درحقیقت اگر کسان چاہتے ہیں کہ پاکستان میں زراعت کو باضابطہ طور پر بڑی معیشت کا حصہ سمجھا جائے اور قومی سپلائی چین کے حصے کے طور پر دستاویزی شکل دی جائے تو انہیں اس طرح کے خیال کی وکالت کرنی چاہیے۔ یہ بہت ہی مضحکہ خیز بات ہے کہ ریونیو اسٹاف اب بھی اپنے ہاتھوں سے زرعی ریونیو وصول کرتے ہیں بالکل ویسے ہی جیسے وہ گزشتہ 100 سالوں سے کرتے آرہے ہیں۔ مروجہ نظام میں اگر کوئی ادائیگی نہیں کرتا ہے یا اس سے زیادہ ٹیکس لیا جاتا ہے تو نگرانی یا ناانصافی کا ازالے کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے اس لیے اب وقت آگیا ہے کہ پورے نظام کو جدید بنایا جائے۔ اس سلسلے میں آئی ایم ایف اور دیگر قرض یا عطیہ دہندگان کو قیادت کرنا ہو گی کیونکہ ہمارا ملکی نظام ذاتی مفادات کے ماتحت نظر آتا ہے جس کی وجہ سے زراعت اور دیہی معیشتوں میں ٹیکنالوجی کے ذریعے شفافیت لانے کا امکان موجود نہیں ہے۔
بین الاقوامی قرض دہندگان اور ترقیاتی شراکت داروں کو چاہیے کہ وہ زرعی زمینوں کو ڈیجیٹل بنانے اور زمین کے ریکارڈز کو آسانی سے تلاش کرنے کے قابل بنانے کے لیے گرانٹ فراہم کریں۔ دوسرے مرحلے کے طور پر زرعی زمینوں کی تمام تصاویر سال بھر انفرادی کاشت کاروں (ان کی ملکیت میں موجود رقبے سے قطع نظر) کے ساتھ ساتھ حکومت کو فراہم کی جائیں۔ ان تصاویر کے ذریعے کسانوں کو وقتاً فوقتاً اپنی فصلوں کا جائزہ لینے کے قابل بنانا چاہیے (روزانہ جائزہ لینا بہترین ہو گا) جبکہ حکومت کو فصل کے حوالے سے اعدادوشمار کی نگرانی اور اسے جمع کرنے میں آسانی ہو گی۔ اس سے حکومت کو ٹیکس وصولی میں بہت حد تک مدد ملے گی کیونکہ ڈیجیٹل دور میں کچھ چھپایا نہیں جا سکتا۔ مشین لرننگ حکومت اور کسانوں کو سیٹلائٹ تصاویرکو سمجھنے میں مدد کر سکتی ہے اور یہاں تک کہ اگر تصویر کا تجزیہ کرنے کے لیے استعمال کیے جانے والے نظام، اس کام میں مکمل تربیت یافتہ ہوں تو کٹائی کے وقت مشین لرننگ مختلف فصلوں کی پیداواری صلاحیت کا اندازہ بھی لگا سکتی ہے۔
محدود وسائل کے پیش نظر زرعی ٹیکس کے ساتھ ساتھ مالیاتی منتقلی بھی ٹیکنالوجی کے تابع کرنے کی ضرورت ہے۔ کاشت کاروں کی سطح پر جو لوگ ٹیکس ادا کرنے سے انکار کرتے ہیں ان پر جرمانہ عائد کیا جانا چاہیے جیسے حکومت کو واجبات کی ادائیگی کے بغیر اپنی جائیداد کو خاندان کے افراد کو فروخت کرنے یا تحفے میں دینے پر پابندی ہونی چاہیے۔ یہ سب تب ہی ممکن ہے جب زمین کے ریکارڈ کو ڈیجیٹلائز کیا جائے۔ ٹیکنالوجی بڑے کاشت کاروں کو بھی ٹیکس نیٹ میں لانے میں مدد کرے گی جو ویسے تو تمام کاشت کاروں کا محض چار فیصد ہیں لیکن تقریباً 40 فیصد زرعی زمینوں کے مالک ہیں۔ اس سے زرعی انکم ٹیکس کی مد میں سیکڑوں ارب روپے کی وصولی ہو گی جبکہ کاشت کاری کے طریقوں کو جدید بنانے میں بھی مدد حاصل ہو گی۔
اعجاز اے نظامانی یہ مضمون 11 دسمبر 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
بشکریہ ڈان نیوز
0 notes
Text
پاکستان نے سی پیک پر بھارت کے مضحکہ خیز ریمارکس کو سختی سے مسترد کردیا۔
پاکستان نے سی پیک پر بھارت کے مضحکہ خیز ریمارکس کو سختی سے مسترد کردیا۔
گوادر پورٹ کی نمائندگی کی تصویر۔ — اے ایف پی/فائل اسلام آباد: وزارت خارجہ نے منگل کے روز چین پاکستان اقت��ادی راہداری (CPEC) کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش میں ہندوستانی وزارت خارجہ (MEA) کے سرکاری ترجمان کے بے بنیاد اور گمراہ کن ریمارکس کو واضح طور پر مسترد کردیا، وزارت کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان۔ . “CPEC ایک تبدیلی کا منصوبہ ہے اور خطے کے لیے استحکام، باہمی تعاون اور مشترکہ ترقی کا محرک ہے۔ بیلٹ…
View On WordPress
0 notes
Text
ہریتک روشن کے گھر کو غور سے دیکھیں ، اس مداح کے تبصرے پر اداکار کا مضحکہ خیز جواب آیا۔
ہریتک روشن کے گھر کو غور سے دیکھیں ، اس مداح کے تبصرے پر اداکار کا مضحکہ خیز جواب آیا۔
ہریتک روشن نے سوشل میڈیا پر جواب دے کر اپنے مداحوں کو کئی بار حیران کیا۔ حال ہی میں کچھ ایسا ہی ہوا۔ ہریتک روشن نے انسٹاگرام پر اپنی ایک تصویر پوسٹ کی۔ اس میں ان کی والدہ پنکی روشن بھی نظر آئیں۔ اس تصویر میں ، ایک پرستار کی توجہ اس کے پیچھے نظر آنے والی نمی پر پڑی۔ مداح نے کمنٹ باکس میں اس پر تبصرہ کیا ، جس پر ہریتک روشن نے ایک مضحکہ خیز جواب دیا ہے۔ ہریتک اپنی خوبصورت صبح دکھاتا ہے۔ ہریتک روشن…
View On WordPress
0 notes