Tumgik
#امریکی صدر
googlynewstv · 2 months
Text
خاتون نجومی نے اگلےامریکی صدر کا نام بتاکرسب کوحیران کردیا
 امریکی صدر جوبائیڈن سے متعلق درست پیشگوئی کرنیوالی خاتون  نجومی نے اگلے امریکی صدر کانام بتاکرسب کوحیران کردیا۔ 40سالہ خاتون نجومی کی اگلے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہونے کی پیشگوئی کردی ۔ نجومی ایمی ٹرپ نے کہا ڈونلڈ ٹرمپ اپنی پیشہ ورانہ کامیابی کے عروج پر ہیں، انہیں آنے والے دنوں میں مزید غیر معمولی چیزوں کا سامنا کرنا پڑیگا۔ایمی ٹرپ نے یہ بھی پیشگوئی کی تھی کہ کملا ہیرس 2024 میں امریکی صدر کے لیے…
0 notes
urduchronicle · 9 months
Text
امریکی صدر اپنے وزیر دفاع کی بیماری سے ہستال داخل ہونے سے کئی دن تک لاعلم
ایک عہدیدار نے امریکی میڈیا کو بتایا کہ بائیڈن انتظامیہ کو کئی دنوں سے یہ نہیں بتایا گیا کہ امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن کو اسپتال میں داخل کیا گیا ہے۔ 70 سالہ مسٹر آسٹن کو پیر کو سرجری کے بعد پیچیدگیوں کی وجہ سے والٹر ریڈ میڈیکل سینٹر میں داخل کرایا گیا تھا۔ ایک اہلکار نے سی بی ایس کو بتایا کہ کم از کم جمعرات کی صبح تک وائٹ ہاؤس کو اس بارے میں مطلع نہیں کیا گیا تھا۔ مسٹر آسٹن نے کمیونیکیشن کی کمی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
globalknock · 11 months
Text
امریکی صدر کا پہلی مرتبہ فلسطینی صدر سے ٹیلی فونک رابطہ
(ویب ڈیسک ) امریکی صدر جو بائیڈن نے فلسطین کے صدر محمود عباس اور اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو سے ٹیلی فون پر بات چیت کی اور دونوں رہنماؤں پر زور دیا ہے کہ وہ علاقے میں انسانی امداد کی ترسیل کی اجازت دیں انہوں نے شہریوں کے تحفظ کی کوششوں کے لیے اپنی حمایت کی یقین دہانی کرائی ہے۔ خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق وائٹ ہاؤس سے جاری بیان کے مطابق صدر محمود عباس نے جو بائیڈن کو فلسطینی عوام…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
apnibaattv · 2 years
Text
وزیراعظم کی صدر بائیڈن سے ملاقات، امریکی سیلاب کی امداد کو سراہا۔
وزیراعظم کی صدر بائیڈن سے ملاقات، امریکی سیلاب کی امداد کو سراہا۔
وزیر اعظم شہباز شریف امریکی صدر جو بائیڈن اور خاتون اول جل بائیڈن کے ساتھ۔ بشکریہ پی ایم آفس نیویارک: وزیر اعظم شہباز شریف نے جمعہ کو صدر جو بائیڈن سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی (یو این جی اے) کے 77ویں اجلاس میں شرکت کرنے والے عالمی رہنماؤں کے استقبالیہ میں ملاقات کی۔ وزیراعظم آفس کی جانب سے ملاقات کی تصویر جاری کی گئی۔ وزیر اعظم شہباز کے معاون سلمان صوفی نے بتایا کہ ملاقات کے دوران وزیر اعظم نے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
faheemkhan882 · 1 year
Text
Tumblr media
چاند پر جانے کی وڈیو جعلی تھی
ایک اخباری کے مطابق :جو کہ امریکہ اور یورپ کے 12 دسمبر کے اخبارات میں چھپی ہے۔ خبر کا لنک بھی دے رہا ہوں۔
http://www.express.co.uk/news/science/626119/MOON-LANDINGS-FAKE-Shock-video-Stanley-Kubrick-admit-historic-event-HOAX-NASA
خبر کا خلاصہ کچھ یوں ہے
ہالی ووڈ کے معروف فلم ڈائریکٹر سٹینلے کبرک نے ایک ویڈیو میں تسلیم کیا ہے کہ امریکا کی جانب سے چاند پر مشن بھیجنے کا دعویٰ جعلی اور جھوٹ پر مبنی تھا اور میں ہی وہ شخص ہوں جس نے اس جھوٹ کو فلم بند کیا تھا ۔اس رپورٹ کے مطابق حال ہی میں ایک خفیہ ویڈیو ریلیز کی گئی ہے جس میں ہالی ووڈ کے آنجہانی ہدایتکار سٹینلے کبرک نے تسلیم کیا ہے کہ 1969ء میں چاند پر کوئی مشن نہیں گیا تھا بلکہ انہوں نے ا�� کی فلم بندی کی تھی۔ ہالی ووڈ کے ہدایتکار کی اس خفیہ ویڈیو کو 15 سال قبل فلم بند کیا گیا تھا۔ ان کی ویڈیو بنانے والے رپورٹر نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اس ویڈیو کو ان کی وفات کے 15 سال بعد افشاء کرے گا۔ اس کے چند ہی دن بعد سٹینلے کبرک کا انتقال ہو گیا تھا۔ اس خفیہ ویڈیو میں انہوں نے تسلیم کیا کہ چاند کی تسخیر پر اٹھائے جانے والے تمام سوالات درست ہیں یہ سب کچھ امریکی خلائی ادارے ناسا اور امریکی حکومت کی ایماء پر کیا گیا تھا۔اس وقت کے امریکی صدر جان ایف کینیڈی کو اس تمام معاملے کا علم تھا۔سٹینلے کبرک کا کہنا تھا کہ وہ امریکی عوام سے معذرت خواہ ہیں کیونکہ انہوں نے ان سے دھوکہ دہی کی ہے۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ میں نے امریکی حکومت اور ناسا کے کہنے پر مصنوعی چاند پر فلم بندی کی تھی میں اس فراڈ پر امریکی عوام کے سامنے شرمسار ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو یہ تھا اس وڈیو بنانے والا اصل کریکٹر جو اعتراف کرگیا کہ یہ سب کچھ جعلی تھا۔ اس سے پہلے میں اپنے دلچسپ معلومات پیج کے دوستوں کو اس کے بارے میں بتا چکا ہوں کہ اس وڈیو بنانے کی وجوہات اصل میں کیا تھیں۔ اور کچھ اس پر اٹھائے جانے والے اعتراضات بھی بتا چکا ہوں۔ یہ پوسٹ میں دوبارہ آپ کی دلچسپی اور علم میں اضافے کے لئے پیش کررہا ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چاند پر انسانی قدم کے ڈرامے کی وجوہات اور اعتراضات
چند دن پہلے میں نے "چاند پر قدم کا ڈرامہ" نامی آرٹیکل اس دلچسپ معلومات پیج پر پوسٹ کیا تھا ۔ جس پر کچھ دوستوں نے اعتراضات کئے تھے کہ "یہ سب بکواس ہے چاند پر قدم ایک حقیقت ہے"۔یا۔"خود تو کچھ کر نہیں سکتے اور دوسروں پر اعتراضات کرتے ہیں"۔ وغیرہ وغیرہ ۔اور بہت سارے دوست تو میری بات سے متفق بھی تھے۔ تو ان معترضین سے عرض یہ ہے کہ چاند پر قدم کا ڈرامہ کہنے والے پاکستان نہیں بلکہ خود امریکی اور یورپ کے ماہرین ہیں۔کیونکہ ہمارے پاس تو اتنی ٹیکنالوجی اور وسائل نہیں کہ ہم حقیقتِ حال جان سکیں۔ جن کے پاس تمام وسائل ہیں ان لوگوں نے ہی اس نظریے پر اعتراضات اٹھائے ہیں کہ یہ ایک باقاعدہ ڈرامہ تھا جو امریکہ اور روس کی سرد جنگ کے درمیان امریکہ نے روس پر برتری حاصل کرنے کے لئے گڑھا تھا۔ آئیے ان اعتراضات پر ایک نظر ڈالتے ہیں ۔ذہن میں رہے یہ اعتراضات کوئی پاکستانی نہیں کررہا بلکہ امریکی کررہے ہیں۔جن کو میں اپنے دلچسپ معلومات پیج کو دوستوں سے شئیر کررہا ہوں۔
1969 میں امریکی خلانورد نیل آرمسٹرانگ نے گرد سے اٹی ہوئی جس سرزمین پر قدم رکھا تھا، کیا وہ چاند کی سطح تھی یا یہ ہالی وڈ کے کسی سٹوڈیو میں تخلیق کیا گیا ایک تصور تھا؟ بہت سے لوگوں کی نظر میں یہ حقیقت آج بھی افسانہ ہے۔کیونکہ کچھ ہی سالوں میں خود امریکہ میں اس بات پر شک و شبہ ظاہر کیا جانے لگا کہ کیا واقعی انسان چاند پر اترا تھا؟
15 فروری 2001 کو Fox TV Network سے نشر ہونے والے ایک ایسے ہی پروگرام کا نام تھا
Conspiracy Theory: Did We Land on the Moon?
اس پروگرام میں بھی ماہرین نے بہت سے اعتراضات اٹھائے ہیں۔ اسی طرح یوٹیوب پر بھی یہ دو ڈاکیومینٹری دیکھنے والوں کے ذہن میں اس بارے ابہام پیدا کرنے کے لئے کافی موثر ہیں۔
Did man really go to the moon
Did We Ever Land On The Moon
پہلے اس ڈرامے کی وجوہات پر ایک نگاہ ڈالتے ہیں۔کہ آخر کیا وجہ تھی کہ امریکہ نے اتنا بڑا(تقریباکامیاب) ڈرامہ بنایا۔
سرد جنگ کے دوران امریکہ کو شدید خطرہ تھا کہ نہ صرف اس کے علاقے روسی ایٹمی ہتھیاروں کی زد میں ہیں بلکہ سرد جنگ کی وجہ سے شروع ہونے والی خلائی دوڑ میں بھی انہیں مات ہونے والی ہے۔ کیونکہ روس کی سپیس ٹیکنالوجی امریکہ سے بہت بہتر تھی۔ جنگ ویتنام میں ناکامی کی وجہ سے امریکیوں کا مورال بہت نچلی سطح تک آ چکا تھا۔
پہلا مصنوعی سیارہ خلا میں بھیجنے کے معاملے میں روس کو سبقت حاصل ہو چکی تھی جب اس نے 4 اکتوبر 1957 کو Sputnik 1 کو کامیابی کے ساتھ زمین کے مدار میں بھیجا۔ روس 1959 میں بغیر انسان والے خلائی جہاز چاند تک پہنچا چکا تھا۔ 12 اپریل 1961 کو روسی خلا نورد یوری گگارین نے 108 منٹ خلا میں زمیں کے گرد چکر کاٹ کر خلا میں جانے والے پہلے انسان کا اعزاز حاصل کیا۔ 23 دن بعد امریکی خلا نورد Alan Shepard خلا میں گیا مگر وہ مدار تک نہیں پہنچ سکا۔ ان حالات میں قوم کا مورال بڑھانے کے لیئے صدر کینڈی نے 25 مئی 1961 میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ ہم اس دہائی میں چاند پر اتر کہ بخیریت واپس آئیں گے۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ دہائی کے اختتام پر بھی اسے پورا کرنا امریکہ کے لئے ممکن نہ تھا اس لیئے عزت بچانے اور برتری جتانے کے لیئے جھوٹ کا سہارا لینا پڑا۔ امریکہ کے ایک راکٹ ساز ادارے میں کام کرنے والے شخصBill Kaysing کے مطابق اس وقت انسان بردار خلائی جہاز کے چاند سے بہ سلامت واپسی کے امکانات صرف 0.017% تھے۔ اس نے اپولو مشن کے اختتام کے صرف دو سال بعد یعنی 1974 میں ایک کتاب شائع کی جسکا نام تھا
We Never Went to the Moon:
America's Thirty Billion Dollar Swindle
3 اپریل 1966 کو روسی خلائ جہاز Luna 10 نے چاند کے مدار میں مصنوعی سیارہ چھوڑ کر امریکیوں پر مزید برتری ثابت کر دی۔ اب امریکہ کے لئے ناگزیر ہوگیا تھا کہ کچھ بڑا کیا جائے تاکہ ہمارا مورال بلند ہو۔
21 دسمبر 1968 میں NASA نے Apollo 8 کے ذریعے تین خلا نورد چاند کے مدار میں بھیجے جو چاند کی سطح پر نہیں اترے۔ غالباً یہNASA کا پہلا جھوٹ تھا اور جب کسی نے اس پر شک نہیں کیا تو امریکہ نے پوری دنیا کو بے وقوف بناتے ہوئے انسان کے چاند پر اترنے کا یہ ڈرامہ رچایا اورہالی وڈ کے ایک اسٹوڈیو میں جعلی فلمیں بنا کر دنیا کو دکھا دیں۔ اپولو 11 جو 16جولائی 1969 کو روانہ ہوا تھا درحقیقت آٹھ دن زمین کے مدار میں گردش کر کے واپس آ گیا۔
1994 میں Andrew Chaikin کی چھپنے والی ایک کتاب A Man on the Moon میں بتایا گیا ہے کہ ایسا ایک ڈرامہ رچانے کی بازگشت دسمبر 1968 میں بھی سنی گئی تھی۔
اب ان اعتراضات کی جانب آتے ہیں جو سائنسدانوں نے اٹھائے ہیں۔
1- ناقدین ناسا کے سائنسدانوں کے عظیم شاہکار اپالو گیارہ کو ہالی وڈ کے ڈائریکٹروں کی شاندار تخلیق سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس سفر اور چاند پر انسانی قدم کو متنازعہ ماننے والوں کی نظر میں ناسا کی جانب سے جاری کی گئی تصاویر میں کئی نقائص ہیں، جن سے ایسا لگتا ہے کہ جیسے چالیس سال قبل انسان سچ مچ چاند پر نہیں پہنچا تھا۔
2۔اس سفر کی حقیقت سے انکار کرنے والوں کا خیال ہے کہ تصاویر میں خلانوردوں کے سائے مختلف سائز کے ہیں اور چاند کی سطح پر اندھیرا دکھایا گیا ہے۔
3۔ ان افراد کا یہ بھی کہنا ہے کہ چاند کی سطح پر لی گئی ان تصاویر میں آسمان تو نمایاں ہے مگر وہاں کوئی ایک بھی ستارہ دکھائی نہیں دے رہا حالانکہ ہوا کی غیر موجودگی اور آلودگی سے پاک اس فضا میں آسمان پر ستاروں کی تعداد زیادہ بھی دکھائی دینی چاہئے تھی اور انہیں چمکنا بھی زیادہ چاہئے تھا۔
4۔ ان لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ ناسا کی ویڈیو میں خلانورد جب امریکی پرچم چاند کی سطح پر گاڑ دیتے ہیں تو وہ لہراتا ہے جب کہ چاند پر ہوا کی غیر موجودگی میں ایسا ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔
5۔چاند کی تسخیر کو نہ ماننے والے ایک نکتہ یہ بھی اٹھاتے ہیں کہ اس ویڈیو میں ایک خلانورد جب زمین پر گرتا ہے تو اسے دوتین مرتبہ اٹھنے کی کوشش کرنا پڑتی ہے۔ چاند پر کم کشش ثقل کی وجہ سے ایسا ہونا خود ایک تعجب کی بات ہے۔
6۔زمین کے بہت نزدیک خلائی مداروں میں جانے کے لیئے انسان سے پہلے جانوروں کو بھیجا گیا تھا اور پوری تسلی ہونے کے بعد انسان مدار میں گئے لیکن حیرت کی بات ہے کہ چاند جیسی دور دراز جگہ تک پہنچنے کے لئے پہلے جانوروں کو نہیں بھیجا گیا اور انسانوں نے براہ راست یہ خطرہ مول لیا۔
7۔ کچھ لوگ یہ اعتراض بھی کرتے ہیں کہ اگر انسان چاند پر پہنچ چکا تھا تو اب تک تو وہاں مستقل قیام گاہ بن چکی ہوتی مگر معاملہ برعکس ہے اور چاند پر جانے کا سلسلہ عرصہ دراز سے کسی معقول وجہ کے بغیر بند پڑا ہے۔ اگر 1969 میں انسان چاند پر اتر سکتا ہے تو اب ٹیکنالوجی کی اتنی ترقی کے بعد اسے مریخ پر ہونا چاہیے تھا مگر ایسا نہیں ہے۔ ناسا کے مطابق دسمبر 1972 میں اپولو 17 چاند پر جانے والا آخری انسان بردار خلائی جہاز تھا۔ یعنی 1972 سے یہ سلسلہ بالکل بند ہے ۔
8۔ چاند پر انسان کی پہلی چہل قدمی کی فلم کا سگنل دنیا تک ترسیل کے بعد
slow scan television -SSTV
فارمیٹ پر اینالوگ Analog ٹیپ پر ریکارڈ کیا گیا تھا۔ ان ٹیپ پر ٹیلی میٹری کا ڈاٹا بھی ریکارڈ تھا۔ عام گھریلو TV اس فارمیٹ پر کام نہیں کرتے اسلیئے 1969 میں اس سگنل کو نہایت بھونڈے طریقے سے عام TV پر دیکھے جانے کے قابل بنایا گیا تھا۔ اب ٹیکنالوجی اتنی ترقی کر چکی ہے کہ ایسے سگنل کو صاف ستھری اور عام TV پر دیکھنے کے قابل تصویروں میں بدل دے۔ جب ناسا سےSSTV کے اصلی ٹیپ مانگے گئے تو پتہ چلا کہ وہ ٹیپ دوبارہ استعمال میں لانے کے لئے مٹائے جا چکے ہیں یعنی اس ٹیپ پر ہم نے کوئی اور وڈیو ریکارڈ کردی ہے۔ اورناسا آج تک اصلی ٹیپ پیش نہیں کر سکا ہے۔
9۔ اسی طرح چاند پر جانے اور وہاں استعمال ہونے والی مشینوں کے بلیو پرنٹ اور تفصیلی ڈرائنگز بھی غائب ہیں۔
ان لوگوں کا اصرار رہا ہے کہ ان تمام نکات کی موجودگی میں چاند کو مسخر ماننا ناممکن ہے اور یہ تمام تصاویر اور ویڈیوز ہالی وڈ کے کسی بڑے اسٹوڈیو کا شاخسانہ ہیں۔تو یہ کچھ اعتراضات تھے جن کے تسلی بخش جوابات دیتے ہوئے ناسا ہمیشہ سے کتراتا رہا ہے۔ جو اس نے جوابات دیئے بھی ہیں وہ بھی نامکمل اور غیرشعوری ہیں۔
#fakemoonlanding
#معلومات #عالمی_معلومات #دنیا_بھر_کی_معلومات #جہان_کی_تازہ_معلومات #دنیا_کی_تحریریں #عالمی_خبریں #دنیا_کی_تاریخ #جغرافیائی_معلومات #دنیا_بھر_کے_سفر_کی_کہانیاں #عالمی_تجارت #عالمی_سیاست #تاریخ #اردو #اردو_معلومات #اردوادب
#Infotainment #information #History #WorldHistory #GlobalIssues #SocialTopics #WorldPolitics #Geopolitics #InternationalRelations #CulturalHeritage #WorldCulture #GlobalLeadership #CurrentAffairs #WorldEconomy #Urdu
بہرحال ہر انسان کے سوچنے کا انداز مختلف ہوتا ہےمیرے موقف سے ہر ایک کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
2 notes · View notes
emergingpakistan · 1 year
Text
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی گرفتاری
Tumblr media
 پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک میں تو سابق کیا، موجودہ حکمرانوں کی گرفتاریاں، مقدمات حتیٰ کہ پھانسی کی سزائیں بھی ہوتی رہی ہیں لیکن تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ امریکہ جیسی سپر پاور کے ایک سابق صدر کو ایک دو نہیں 34 فوجداری الزامات میں گرفتار کر لیا گیا اور ملزم گرفتاری دینے کے لئے خود عدالتی کمپلیکس پہنچا۔ امریکہ میں تاریخ رقم کرنے والے یہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہیں جنہیں اپنے کاروبار سے متعلق جھوٹے بیانات پر گرفتار کر لیا گیا۔ ارب پتی ٹرمپ جو اپنی شعلہ بیانی اور بڑبولا ہونے کی شہرت رکھتے ہیں گرفتاری خود دی اور اس مقصد کے لئے فلوریڈا سے اپنے ذاتی ہوائی جہاز میں طویل فاصلہ طے کر کے نیویارک پہنچے ۔ 
Tumblr media
عدالتی کمپلیکس کے باہر ان کے حامیوں اور مخالفین کی بڑی تعداد موجود تھی جو ان کے حق یا مخالفت میں نعرے لگارہے تھے تاہم اس موقع پر سخت سیکورٹی انتظامات کئے گئے تھے جس کی وجہ سے توڑ پھوڑ یا جلاؤ گھیراؤ کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا جس کا مظاہرہ حالیہ عرصے میں پاکستان میں اکثرکیا جاتا ہے۔ عدالت میں ٹرمپ کے فنگر پرنٹس لئے گئے اور تصویریں کھینچی گئیں۔ پھر رہا بھی کر دیا گیا۔ ان پر باقاعدہ مقدمہ کی کارروائی دسمبر تک ملتوی کر دی گئی۔ پاکستان ہوتا تو ٹرمپ گرفتاری دینے کے لئے اتنا کلف نہ کرتے اور کہہ دیتے کہ میں گرفتار ہونے کو تیار ہوں مگر میرے کارکن اجازت نہیں دیتے۔ مگر یہ امریکہ ہے جہاں اس کے ایک سابق طاقتور صدر نے بلا جوں وچرا خود کو قانون کے حوالے کر دیا۔ ان کے اس فعل کے پیچھے کئی سبق پنہاں ہیں جو پاکستان یا ایسے ہی دوسرے ممالک میں نظر نہیں آتے۔ قانون کی عملداری کی یہ نظیر امریکہ جیسے جمہوری ملکوں میں ہی دیکھی جاسکتی ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ
3 notes · View notes
mediazanewshd · 4 months
Link
0 notes
urduintl · 5 months
Text
0 notes
apnabannu · 6 months
Text
صدر کے تکیے سمیت ایئر فورس ون سے چیزیں چرانے سے باز رہیں، امریکی صحافیوں کو تنبیہ
http://dlvr.it/T4xMG5
0 notes
googlynewstv · 12 days
Text
نیا امریکی صدر ٹرمپ بنے یا کمیلا، پاکستان سے دوستی ممکن کیوں نہیں؟
امریکہ میں 5 نومبر کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ جیتیں یا کمیلا ہیرس، پاکستان کے ساتھ امریکی رویے یا تعلقات میں بہتری کی کوئی امید نہیں کی جا سکتی۔ وجہ یہ ہے کہ اب چاہے وہ ڈیموکریٹک پارٹی ہو یا ریپبلکن پارٹی، امریکی اسٹیبلشمنٹ اب پاکستان کو بطور چینی اتحادی دیکھتی ہے۔ لہازا چین، افغانستان اور پاکستان بارے امریکی پالیسی تقریباً ایک جیسی ہوگی۔ اس کا اندازہ اس بات سے بھی۔لگایا جا سکتا…
0 notes
urduchronicle · 11 months
Text
غزہ ہسپتال میں دھماکہ اسرائیل نے نہیں، کسی دوسری ٹیم نے کیا، بائیڈن نے تل ابیب کو کلین چٹ دے دی
تل ابیب  کے دورے کے دوران امریکی صدر جو بائیڈن نے غزہ کے ہسپتال میں دھماکے سے اسرائیل کو بری کرتے ہوئے ذمہ داری فلسطینی گروپ پر ڈال اور اسرائیل کو غزہ میں کارروائی کی کھلی چھوٹ کا بھی واضح اشارہ دیا۔ تل ابیب میں اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے ساتھ پریس بریفنگ میں جو بائیڈن نے کہا کہ میں کل غزہ کے ہسپتال میں ہونے والے دھماکے سے بہت افسردہ اور غمزدہ ہوں۔ اور جو کچھ میں نے دیکھا ہے اس کی بنیاد…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
shiningpakistan · 8 months
Text
پاکستان کو بھکاری بنانے کے ذمے دار
Tumblr media
پاکستان میں پہلے طویل مارشل لا کی مدت 1970 کے الیکشن میں جنرل یحییٰ نے ختم کی تھی اور جب تک پاکستان ایک تھا جو 1970 کے انتخابات کے نتائج تسلیم نہ کیے جانے پر دولخت 1971 میں ہوا تھا اور بنگلہ دیش وجود میں آیا تھا اس وقت تک مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان میں ایک بوجھ سمجھا جاتا تھا جو مغربی پاکستان سے بڑا تھا۔ جنرل ایوب کا دور 1969 میں ختم ہوا تھا جو بعد کے حالات دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ دور ہر قسم کی ترقی کا سنہری دور اور پاکستان دنیا میں نہایت اہمیت کا حامل ملک، مالی طور پر مستحکم اور جاپان و جرمنی کو مالی امداد اور دنیا میں قرضے دینے والا ملک تصور کیا جاتا تھا جس کے فوجی صدر کے دورہ امریکا پر استقبال کے لیے خود امریکی صدر اپنی کابینہ کے ساتھ آیا کرتے تھے۔ جہاں ایئرپورٹ پر صدر پاکستان کا شاندار استقبال کیا کرتے تھے اور خود امریکی صدور بھی پاکستان کے دورے کیا کرتے تھے جب کہ اب یہ حالت ہے کہ 15 سال پہلے امریکی صدر نے پاکستان کے خوشامد کرنے پر بھارت جاتے ہوئے پاکستان کے مختصر دورے پر آ کر ہم پر احسان کیا تھا جس کے بعد کوئی امریکی صدر پاکستان نہیں آیا اور اب پاکستانی حکمران خوشامد کر کے امریکا کے دورے کا وقت لیتے ہیں۔
جہاں کوئی امریکی وزیر بھی استقبال کے لیے ایئرپورٹ نہیں آتا اور امریکی صدر بعد میں وائٹ ہاؤس میں پاکستانی وزیر اعظم سے ہاتھ ملاتا ہے جس پر وہ بڑا فخر کرتا ہے۔ صدر جنرل ضیا الحق کو بھی امریکا میں اہمیت دی جاتی تھی کیونکہ جنرل ضیا امریکا کی ضرورت تھے جب کہ اس کے صرف گیارہ سال بعد صدر جنرل پرویز امریکا گئے تو انھیں جنرل ضیا جیسی اہمیت نہیں ملی تھی کیونکہ امریکا کو پاکستان کی ضرورت نہیں رہی تھی بلکہ امریکا جنرل پرویز کی ضرورت تھا۔ نئی نسل کو اب یہ سن کر بڑی حیرت ہوتی ہے جب اسے بتایا جاتا ہے کہ 1970 تک دنیا پاکستان کو اہمیت دیتی تھی اور پاکستان ان کی ضرورت تھا اور پاکستان آج کی طرح کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتا تھا بلکہ ضرورت پر دوسرے ملکوں کو قرض اور مالی و ضروری عطیات بھی دیا کرتا تھا۔ اس وقت یو اے ای جیسے ملک کے حکمران کا استقبال کمشنر کرتا تھا پھر وہ دور بھی آیا کہ یو اے ای کے حکمران کے استقبال کو پاکستانی وزیر اعظم ایئرپورٹ جاتے رہے اور یو اے ای سے قرضے اور امداد مانگنے پاکستان بھکاری کے طور پر سوٹ پہن کر یو اے ای، قطر، کویت، سعودی عرب جیسے ملکوں میں جاتے ہیں اور آئی ایم ایف سے قرض کے لیے اب پاکستان کو گر کر اور خوشامد کر کے موجودہ قرضہ حاصل کرنا پڑا جو تین قسطوں میں ملنا تھا اور اتحادی حکومت کے بعد چار ماہ میں نگراں حکومت کو دوسری قسط نہیں ملی۔
Tumblr media
1947 میں آزادی کے بعد کئی سالوں تک پاکستان مشکل حالات سے گزرا جس کے بعد 1970 تک پاکستان دوسروں کو قرضے دینے اور مالی امداد دینے والا ملک بنا رہا جس کے بعد 1988 تک جنرل ضیا الحق کے آمرانہ کہلانے والے دور کے بعد 2023 تک 35 سالوں میں انتخابات کے ذریعے بننے والی مسلم لیگ (ن)، (ق)، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کی حکومتوں میں سیاسی حکومتوں نے غیر ملکی قرضے لے کر ہماری آیندہ پیدا ہونے والی نسل کو بھی مقروض بنا دیا ہے اور 2023 تک ملک کا بچہ بچہ ایک لاکھ روپے سے زیادہ رقم کا مقروض ہے اور ہم دنیا میں اب قرضوں پر پل رہے ہیں۔ کسی شخص کی اگر مالی حالت کمزور ہو جائے تو وہ سب سے پہلے اپنے گھریلو اخراجات کم کرتا ہے۔ اچھے کھانے ترک کر کے زندہ رہنے والی خوراک پر آ جاتا ہے۔ جو شخص سال میں کئی جوڑے بناتا تھا وہ مجبوری میں گرمی سردی میں دو جوڑوں پر گزارا کرتا ہے اور اپنے اخراجات کم کر کے کوشش کرتا ہے کہ میسر مالی وسائل میں گزارا کرے اور اسے قرض نہ مانگنا پڑے کیونکہ قرض لینا اتنا مشکل نہیں جتنا ادا کرنا ہوتا ہے اسی طرح وہ اپنی عزت کا بھرم برقرار رکھ لیتا ہے۔
35 سیاسی حکومتوں میں جس پارٹی کی بھی حکومت آئی سب نے اپنے وسائل سے ملک چلانے کے بجائے غیر ملکی قرضوں پر شاہانہ طور پر حکومت کرنا اپنا منشور بنا رکھا ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف نے قرض اتارو ملک سنوارو مہم چلائی تھی مگر غیر ملکی قرض نہ اترا بلکہ قرضوں کے لیے ملک کو آئی ایم ایف کا غلام بنانے میں ہر سیاسی حکومت نے کردار ادا کیا۔ شاہانہ طور حکومتیں چلائیں خود کو بنایا، اپنوں کو دل بھر کر نوازا، اور پی ٹی آئی حکومت نے تو اپنوں کو باہر سے بلا کر نوازا وہ سب اب واپس باہر جا چکے ہیں اور عیش کر رہے ہیں اور ملک میں غریب کیا متوسط طبقہ بھی سخت پریشان ہے۔ نواز شریف کا اب کہنا ہے کہ ہم نے آئی ایم ایف سے قرض مانگنا بند کر دیا تھا جب کہ ان کے بھائی شہباز شریف کی اتحادی حکومت نے 2023 میں قرضہ وہ بھی تین قسطوں میں منظور کرایا تو اس عمل پر نواز شریف کو اپنے بھائی وزیر اعظم کو قرض مانگنے سے روکنا چاہیے تھا۔ اس وقت اتحادی حکومت میں شامل دولت مندوں کو اگر ملک سے محبت ہوتی تو وہ سب اپنی دولت میں سے ملک کے لیے اگر چوتھائی رقم بھی نکالتے تو انھیں قرض نہ لینا پڑتا۔
پاکستان کو موجودہ حالات میں پہنچا کر عالمی بھکاری بنانے والوں میں حکومت میں شامل رہ کر کرپشن کرنے والے صرف سیاستدان ہی نہیں ملک کے ہر ادارے کے کرپٹ افسران نے ملک کو لوٹا اور اندرون و بیرون ممالک میں جائیدادیں بنائیں اور وہاں کی شہریت لے کر اپنی ناجائز دولت اور اپنے خاندانوں کو محفوظ بنایا اور ملک کو اپنے پیروں پر کھڑے رہنے کے قابل بھی نہیں چھوڑا۔ ملک کے سرمایہ داروں نے دبا کر ٹیکس چوری کیے۔ ٹیکس بچانے کے لیے ٹیکس وصول کرنے والوں کو رشوت دی اور ملکی خزانہ بھرنے نہیں دیا۔ ملکی خزانہ ہر ایک نے لوٹا اور ملک کنگال کر دیا اور یہ سب ہی ملک کو بھکاری بنانے کے ذمے دار ہیں۔ کوئی کم کوئی زیادہ۔ انھوں نے ملک کو نہیں اپنے ذاتی مفادات کو ہی ترجیح دی انھیں ملک عزیز ہوتا تو پاکستان کبھی بھکاری نہ بنتا۔
محمد سعید آرائیں  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
globalknock · 8 months
Text
اہل فلسطین پہ ظلم وستم کرنے والی ؛ اسرائیلی افواج سزا سے کیسے بچتی ہیں؟ - ایکسپریس اردو
امریکا کے بانی عدل وانصاف کی اہمیت سے بخوبی آگاہ تھے۔ پہلے امریکی صدر ، جارج واشنگٹن کا قول ہے:’’دنیا کی سبھی اقوام سے ہم اچھے تعلقات رکھنا چاہتے ہیں اور انصاف کی راہ اپنائیں گے۔امن اور باہمی پیار ومحبت ہماری منزل ہے۔‘‘ اسی طرح امریکا کا ایک اور بانی و پہلا وزیر خزانہ، ایلیگزنڈر ہملٹن کہتا ہے:’’میں سمجھتا ہوں کہ ایک معاشرے کی سب سے پہلی ڈیوٹی انصاف فراہم کرنا ہے۔‘‘دیگر بانیان ِامریکا (فاؤنڈنگ…
View On WordPress
0 notes
pakistantime · 9 months
Text
’تسلیم کرلینا چاہیے کہ اسرائیل سلامتی کونسل کا ’مستقل رکن‘ ہے‘
Tumblr media
صرف 24 لاکھ لوگ یعنی شنگھائی کی آبادی کا بھی 5 فیصد اور ایک سپر پاور نے انہیں دھمکانے کے لیے دو طیارہ بردار بحری جہاز بھیج دیے تاکہ جنگی جرائم کا ارتکاب کرنے والے بن یامین نیتن یاہو کو اپنی غیر مشروط وفاداری کا یقین دلایا جا سکے۔ سلام ہے غزہ کے لوگوں کو۔ کیا اسرائیلی حملے کی مزاحمت کرنے والے ان لوگوں سے زیادہ بھی کوئی بہادر ہوسکتا ہے؟ حیرت انگیز بات تو امریکی، برطانوی اور فرانسیسی لیڈروں کا ایک صف میں کھڑے ہونا اور نیتن یاہو کو اس بات کا یقین دلانا ہے کہ ہیکلِ ثالث کا مستقبل تھرڈ رائیخ سے مختلف ہو گا۔ یہ ہیکل ثالث بھی ارضِ اسرائیل کے لیے مزید زمین چاہتا ہے، بالکل اسی طرح جیسے رائیخ کو لیبینسروم درکار تھا۔ نازی تو روس میں زمین کے متلاشی تھے جبکہ صہیونی، جیسا کہ برطانیہ میں لیبر پارٹی کے سابق رہنما جیریمی کوربن نے درست طور پر اشارہ کیا ہے، فلسطینی عوام کی قیمت پر ایسا چاہتے ہیں۔ مزید زمین کے لیے کبھی نہ ختم ہونے والی اسرائیلی لالچ کو پورا کرنے کا یہی طریقہ ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے جنگ بندی کی بات نہ کی جائے کیونکہ یہ نیتن یاہو کی خواہش نہیں۔
ہمیں اس بات کو تسلیم کرلینا چاہیے کہ اسرائیل سلامتی کونسل کا ’مستقل رکن‘ ہے اور اسے ویٹو بھی حاصل ہے۔ امریکی مندوب تو محض وائٹ ہاؤس کے ذریعے اسرائیل سے آنے والے احکامات پر عمل درآمد کرتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اسرائیل کے حکم سے انکار کے کیا نتائج ہوں گے۔ نومبر کے آخر میں، اپنے یرغمالیوں کی رہائی کو یقینی بنانے کے لیے اسرائیل نے حماس کے ساتھ ایک مختصر جنگ بندی پر اتفاق کیا۔ یرغمالیوں کے تبادلے کے بعد، نیتن یاہو نے غزہ کے شہری اہداف پر دوبارہ بمباری شروع کر دی، اور سلامتی کونسل جنگ بندی کی قرارداد منظور کرنے میں ناکام رہی۔ عام طور پر، جب سلامتی کونسل کوئی مشکل جغرافیائی سیاسی مسئلہ اٹھاتی ہے اور مندوبین کسی حل پر متفق ہونے میں ناکام رہتے ہیں، تو سب سے پہلے وہ یہ کرتے ہیں کہ خونریزی کے خاتمے کے لیے ایک بے ضرر قرارداد منظور کرتے ہیں۔ تاہم، موجودہ حالات میں، اس طرح کی تحریک اسرائیلی غصے کو جنم دے گی، کیونکہ یہ غزہ کے لوگوں کی جاری نسل کشی کو روک دے گی۔
Tumblr media
اسرائیل کے وفادار اتحادیوں کے طور پر، کونسل کے مغربی اراکین نے جنگ بندی کی قرارداد کو روک کر ایک ایسی بے حسی کا مظاہرہ کیا ہے جیسے ڈاکٹر بے ہوش کیے بغیر کسی مریض کا آپریشن کر دے۔ یہ افسوسناک صورتحال ہمیں بیلسن اور ٹریبلنکا میں رائیخس فیوہرر ہملر کی ایس ایس کے فوجیوں کی یاد دلاتی ہے۔ صہیونیوں کو صرف لوگوں قتل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ وہ زخمی اور حاملہ خواتین کو درد سے کراہتے ہوئے اور اس طبی امداد کے انتظار میں دیکھ کر افسوسناک خوشی سے لطف اندوز ہونا چاہتے تھے جو ایسا لگتا تھا کہ کبھی نہیں پہنچے گی۔ توقع کے عین مطابق واشنگٹن نے رفح میں اسرائیلی ہدایات کی تعمیل کی۔ اسرائیل کے حکم پر اور مصری حکومت کے تعاون سے خوراک اور طبی سامان لے جانے والے طیارے العریش ہوائی اڈے پر اترے اور سامان لے جانے والے ٹرک رفح جانے کے بجائے 206 کلومیٹر طویل مصری اسرائیل سرحد پر کسی رابطہ مقام کی طرف روانہ ہوئے۔ معائنے کے بعد وہ رفح کراسنگ پر گئے جہاں اسرائیلی حکام نے زخمیوں اور امداد کے منتظر لوگوں کو امداد کی جلد فراہمی روکنے کے لیے اس عمل میں مزید تاخیر کی۔
سچ تو یہ ہے کہ دنیا میں صرف ایک یہودی ریاست ہے لیکن دو صہیونی حکومتیں ہیں، ایک مقبوضہ بیت المقدس میں اور دوسری واشنگٹن میں۔ مؤخر الذکر یروشلم کی حکومت کے تابع ہے، اس کا کام بنیادی طور پر اسرائیل کے احکامات پر عمل کرنا ہے۔ اسے سمجھنے کے لیے آپ الاہلی ہسپتال پر بمباری کے جرم سے لیکود پارٹی کی حکومت کو بری الذمہ کرنے کے صدر جو بائیڈن کے فیصلے پر غور کریں۔ بائیڈن کی اپنی کوئی رائے نہیں تھی، وہ اسرائیل میں تھے اور ظاہر ہے کہ انہوں نے امریکی انٹیلی جنس اہلکاروں سے مشورہ کرنے کی زحمت نہیں کی۔ اس کے بجائے انہوں نے صرف وہی بات دہرائی جو نیتن یاہو نے ان سے کہی تھی۔ بعد میں نیویارک ٹائمز اور الجزیرہ کی تحقیقات سے بھی اس بات کی تصدیق ہوئی کہ یہ ایک اسرائیلی میزائل تھا جس نے ہسپتال کو قبرستان میں تبدیل کر دیا۔ کیا امریکی سیاست پر صہیونی اثرات مبالغہ آمیز ہیں؟ دو امریکی پروفیسر، جان جے میرشیمر اور اسٹیفن ایم والٹ کی کتاب ’دی اسرائیل لابی اینڈ یو ایس فارن پالیسی‘ میں اس کا ایک علمی جواب ملتا ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ بائیڈن کے رویے میں معمولی تبدیلی آئی ہے۔ ایک فنڈ ریزنگ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ لیکود پارٹی کی حکومت ’اسرائیل کی تاریخ کی سب سے قدامت پسند حکومت‘ ہے اور یہ کہ نیتن یاہو کو اپنی پالیسیاں بدلنی ہوں گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’اسرائیل فلسطینی ریاست کا انکار نہیں کرسکتا‘۔ تاہم اسرائیلی اثر و رسوخ کے بارے میں سچائی ایک ایسے شخص نے بیان کی جو ہر لحاظ سے صہیونی نظریے کی نمائندگی کرتا ہے اور اسے صبرا شاتیلہ میں قتل عام کی وجہ سے بیروت کا قصائی کہا جاتا ہے۔ اکتوبر 2001ء میں کابینہ کے اجلاس کے دوران، اسرائیلی وزیر خارجہ شمعون پیریز کی وزیر اعظم ایریل شیرون کے ساتھ تلخ کلامی ہوئی۔ ایریل شیرون نے غصے میں آتے ہوئے کہا کہ ’جب بھی ہم کچھ کرتے ہیں تو آپ مجھے کہتے ہیں کہ امریکی ایسا کریں گے اور ویسا کریں گے۔ ’میں آپ کو ایک بات واضح طور پر بتانا چاہتا ہوں، اسرائیل پر امریکی دباؤ کی فکر نہ کریں، ہم، یہودی لوگ، امریکا کو کنٹرول کرتے ہیں اور امریکی اسے جانتے ہیں‘۔ یہ خبر ایک اسرائیلی ریڈیو اسٹیشن کول اسرائیل نے نشر کی تھی۔
محمد علی صدیقی  یہ مضمون 16 دسمبر 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
بشکریہ ڈان نیوز
0 notes
pakistanpress · 10 months
Text
ایردوان امریکہ کے سامنے ڈٹ گئے
Tumblr media
ترکیہ، اس وقت نیٹو میں امریکہ کا قریبی اتحادی ہونے کے علاوہ یورپی یونین کی مستقل رکنیت حاصل کرنے کا منتظر ہے چنانچہ امریکہ اور یورپی یونین کے چند ایک رکن ممالک ترکیہ سے حماس کی حمایت ختم کرنے اور اسے دہشت گرد تنظیم قرار دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن صدر ایردوان نے یورپی یونین کے دباؤ کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔ امریکہ کسی نہ کسی طریقے سے صدر ایردوان کو اقتدار سے ہٹانے میں مصروف رہا ہے، اس نے پہلے ترکیہ میں فیتو دہشت گرد تنظیم کی پشت پناہی کرتے ہوئے ایردوان حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی، پھر بائیڈن نے صدر منتخب ہونے سے قبل صدر ایردوان کو مختلف طریقے سے اقتدار سے ہٹانے کیلئے، ترکیہ کی اپوزیشن کی حمایت کرنے کا کھلا پیغام دیا۔ پھر بائیڈن نے ترکیہ کی جیل میں جاسوسی کے الزام میں قید پادری Brunson کی رہائی کیلئے ترکیہ پر دبائو ڈالا اور رہا نہ کرنے کی صورت میں ترکیہ کو سبق سکھانے کی دھمکی بھی دی۔ اسی طرح یورپی یونین کے دس ممالک نے ترک بزنس مین عثمان کوالا کو رہا کروانے کیلئے ترکیہ پر شدید دباؤ ڈالا لیکن صدر ایردوان امریکہ اور یورپی یونین کی ان دھمکیوں سے ذرہ بھر بھی مرعوب نہ ہوئے بلکہ انہوں نے فوری طور پر ان دس ممالک کے سفیروں کو ناپسندیدہ شخصیات قرار دے کر جلا وطن کرنے کا حکم جاری کر دیا تاہم ان ملکوں کی جانب سے معذرت کرنے پر معاملے کو بگڑنے سے روک لیا گیا۔ 
Tumblr media
یہی وجہ ہے کہ گزشتہ ہفتے ترکیہ آئے ہوئے اعلیٰ امریکی حکام نے تر کیہ کی حماس کی کھل کر حمایت کیے جانے پر تشو یش سے آگاہ توضرور کیا لیکن وہ صدر ایردوان کے موقف کو اچھی طرح جاننے کی وجہ سے ترک حکام کو قائل کرنے میں ناکام رہے۔ امریکی انڈر سیکرٹری برائن نیلسن حماس اسرائیل جنگ میں تر کیہ سے حماس کو فنڈز کی منتقلی کے شواہد تو پیش نہ کر سکے تاہم انہوں نے ماضی میں ترکیہ کی جانب سے حماس کو فنڈز فراہم کیے جانے کا الزام ضرور عائد کیا جسے ترک وزارتِ خارجہ نے یکسر مسترد کر دیا۔ یاد رہے صدر ایردوان بڑے واشگاف الفاظ میں کہہ چکے ہیں کہ ان کا ملک حماس کو کوئی دہشت گرد تنظیم نہیں سمجھتا کیونکہ حماس فلسطین کی حقیقت ہے اور وہاں کی سیاسی جماعت ہے جو عام انتخابات جیت کر غزہ میں بر سر اقتدارآئی ہے۔ صدر ایردوان نے کہا کہ ترکیہ کسی بھی ملک کو ان کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کی اجازت نہیں دے گا، ترکیہ کی خارجہ پالیسی ترک عوام کی توقعات اور مفادات کےمطابق ہی انقرہ میں مرتب کی جاتی ہے۔ 
صدر ایردوان نے امریکی حکام کے دورے سے قبل پارلیمنٹ میں جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے گروپ اجلاس میں اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یا ہو کے بارے میں سخت بیان دیتے ہوئے یاہو کو " غزہ کا قصاب" اور اسرائیل کو ایک" دہشت گرد ریاست " قرار دے چکے ہیں۔ انہوں نے نیتن یا ہو کو عالمی عدالت کے روبرو پیش کرنے کیلئے اپنی تیاریوں سے بھی آگاہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ تقریباً 3 ہزار وکلاء نے دی ہیگ میں بین الاقوامی فوجداری عدالت میں اس حوالے سے پہلے ہی سے درخواستیں دے رکھی ہیں، جس میں بڑی تعداد میں ترک وکلاء اور ترک اراکین پارلیمنٹ بھی شامل ہیں جو اس کیس کی پیروی کریں گے۔ وہاں ہمیں یقین ہے جس طرح سربیہ اور کوسوو میں مسلمانوں کی نسل کشی کرنے والے"سربیہ قصاب" کرادزیچ کو دی ہیگ کی عالمی عدالت سے سزا دلوائی گئی تھی بالکل اسی طرح "غزہ کے قصاب" نیتن یا ہو کو نسل کشی کے الزام میں سزا دلوا کر ہی دم لیں گے۔
ہزاروں سال سے آباد فلسطینیوں کے مکانات، زمینوں اور دفاتر کو ناجائز طور پر اپنے قبضے میں لے رکھا ہے جسے کسی بھی صورت قابلِ قبول قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہ ریاستی دہشت گردی ہے اور ہم اس ریاستی دہشت گردی پرخاموش نہیں رہ سکتے۔ ہمارے بین الاقوامی رابطوں کا سب سے اہم ایجنڈا بلا شبہ غزہ کی جنگ ہے۔ صدر ایردوان نے اس وقت تک 50 سے زائد عالمی رہنمائوں سے رابطہ کیا ہے۔ وہ رواں ہفتے 2 اہم دورے کر رہے ہیں، پہلے قطر اور پھر یونان کا دورہ کریں گے قطر نے ترکیہ ہی کے تعاون سے اسرائیل اور حماس تنازع کو روکنے میں ثالثی کا کردار ادا کیا تھا اور اب وہ اس دورے کے دوران قطر کے امیر سے مستقل جنگ بندی کیلئے کیے جانے والے اقدامات پر تبادلہ خیال کریں گے جبکہ یونان کے دورے میں غزہ کی صورتحال پر بھی غور کیا جائے گا۔
ڈاکٹر فر قان حمید
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
emergingpakistan · 6 months
Text
سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کی اہلیت
Tumblr media
سینئر سیاسی رہنما اور سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ سیاسی جماعتوں میں ملکی مسائل حل کرنے کی اہلیت ہی نہیں ہے، انھیں علم ہی نہیں ہے کہ ملکی مسائل کا حل کیا ہے۔ سینئر سیاسی رہنما مخدوم جاوید ہاشمی کا کہنا ہے کہ سیاستدان صرف اپنے لیے نہیں بلکہ قوم کے بچوں کے لیے آگے آئیں اور ان کے بہتر مستقبل کا سوچیں۔ الیکشن میں ایسا ہی ہوتا آیا ہے، اس لیے انتخابی نتائج تسلیم کریں۔ ملک میں سیاسی جماعتوں کی مختلف حکومتوں کی مدت تین آمرانہ حکومتوں سے زیادہ ہو چکی ہے۔ گزشتہ 16 برس سے ملک آمریت سے محفوظ ہے۔ 2008 کے الیکشن کے بعد سے ملک میں تین جماعتوں کے وزرائے اعظم نے ہی حکومت کی ہے مگر تینوں پارٹیوں کے منتخب وزیر اعظم اپنی مدت پوری نہیں کر سکے البتہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی حکومتوں اور تین اسمبلیوں نے اپنی آئینی مدت پوری کی ہے۔ پی ٹی آئی کے وزیر اعظم کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے آئینی طور پر ہٹایا گیا، یوں اسمبلیاں برقرار رہیں اور پانچوں قومی و صوبائی اسمبلیوں نے اپنی مدت پوری کی۔ پی ٹی آئی کے وزیر اعظم نے اقتدار سے محرومی کے بعد پہلے قومی اسمبلی سے اپنے ارکان کے استعفے دلائے اور بعد میں اپنے سیاسی مفاد کے لیے پنجاب و کے پی کی اسمبلیاں قبل از وقت تڑوا کر اپنے وزرائے اعلیٰ کو بھی اقتدار میں نہیں رہنے دیا اور اپنی ضد اور انا کی خاطر اپنی اچھی بھلی دو صوبائی حکومتیں اس لیے ختم کرائیں کہ وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن قبل ازوقت جنرل الیکشن کرانے پر مجبور ہو جائے لیکن عمران خان کی یہ خواہش ناتمام ہی رہی۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے دونوں وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف کو عدالتی فیصلوں نے مدت پوری نہیں کرنے دی تھی اور دونوں کو نااہل کیا تھا۔ نااہلی کے دونوں عدالتی فیصلوں سے قبل 1999 تک فوجی جنرلوں اور 58/2-B کے اختیار کے حامل سویلین صدور نے وزرائے اعظم برطرف کیے اور اسمبلیاں ختم کیں اور 1985 سے 1999 تک کسی وزیر اعظم کو مدت پوری نہیں کرنے دی۔ 1999 میں نواز شریف کو برطرف کرنے والے جنرل پرویز مشرف نے سپریم کورٹ کے حکم پر ملک میں 2002 میں الیکشن کرایا اور 2007 تک تمام اسمبلیوں کو مدت پوری کرنے کا موقعہ دیا اور اپنی بنائی گئی مسلم لیگ (ق) کی حکومت میں ظفر اللہ جمالی کو ضرور تبدیل کیا اور غیر سیاسی وزیر اعظم شوکت عزیز کے ذریعے حکومت کے 5 سال مکمل کرائے تھے اور یہ واحد فوجی جنرل تھے جنھوں نے اسمبلیوں کی مدت پوری کرائی اور خود کو وردی میں صدر منتخب کرایا اور بعد میں صدر رہ کر فوجی وردی اتار دی تھی۔ 1999 تک پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) اپنے اقتدار کے گیارہ برسوں میں ایک دوسرے کی حکومتیں ختم کرائیں اور دو دو باریاں لیں اور دونوں ہی حکومتیں خود ان کے منتخب صدور نے ختم کیں اور فوجی مداخلت 1999 میں ہوئی جس کے بعد سے فوج نے برائے راست کوئی مداخلت نہیں کی مگر 2018 تک تمام حکومتیں اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے قائم ہوئیں اور پی ٹی آئی حکومت بنوائی گئی۔
Tumblr media
2018 میں پہلی بار پی ٹی آئی کی حکومت بنوائی گئی جو اس کے وزیر اعظم کے غیر جمہوری رویے، من مانیوں اور انتقامی کارروائیوں کے باعث تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ختم ہو گئی جس کو برطرف وزیر اعظم نے غلط رنگ دیا۔ کبھی تحریک عدم اعتماد کو امریکی سازش قرار دیا، کبھی جنرل قمر جاوید باجوہ کو ذمے دار قرار دیا اور میر صادق، میر جعفر اور جانور تک کا طعنہ دیا گیا۔ اپنی آئینی برطرفی کے بعد انھیں جمہوری طور اسمبلیوں میں رہنا چاہیے تھا اور جنرل قمر جاوید باجوہ کی خوشامد نہیں کرنی چاہیے تھی کہ وہ انھیں دوبارہ وزیر اعظم بنوا دیں، جنرل صاحب نے اپوزیشن کو تحریک عدم اعتماد واپس لینے کا بھی کہا تھا مگر اپوزیشن نہیں مانی تھی کیونکہ اس کی تحریک عدم اعتماد آئینی تھی جو پہلی بار کامیاب ہوئی تھی۔ سیاسی جماعتیں کہہ رہی ہیں کہ فوج غیر جانبدار رہے، آئین کے مطابق اسٹیبلشمنٹ کسی وزیر اعظم کولائے نہ ہٹائے ، یہ درست ہے مگر اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کے ذمے دار تو خود سیاستدان اور سیاسی پارٹیاں ہیں۔ 1970 تک ملک میں جو ہوتا رہا اس کے ذمے دار سیاسی رہنما اور ان کی اپنی پارٹیاں تھیں جنھوں نے جنرل ایوب کو باعزت واپسی کا راستہ نہیں دیا۔
1977 میں بھٹو حکومت میں انتخابی دھاندلی کے بعد ملک گیر تحریک چلی۔ وزیر اعظم بھٹو کی وجہ سے مارشل لا لگا۔ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف ایک دوسرے کی حکومت ہٹانے کی کوشش کرتے رہے۔ نواز شریف اگر جنرل پرویز مشرف کو غلط طور نہ ہٹاتے، پی ٹی آئی وزیر اعظم اگر پی پی اور (ن) لیگ کو ساتھ لے کر چلتے تو آج تنہا نہ ہوتے۔ سیاستدانوں میں ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا جذبہ ہوتا، پی ٹی آئی دوسری جماعتوں سے مل کر مسائل کا حل تلاش کرتی اور اس کے چیئرمین نئی نسل کو بگاڑنے کے بجائے ملک کے بچوں کا سوچتے تو آج جیل میں نہ ہوتے۔ دوسروں کو چور، ڈاکو قرار نہ دیتے تو سیاستدان اور سیاسی پارٹیاں ملک کے مفاد اور مسائل کے حل پر آپس میں متحد ہو جاتیں تو ملک میں سیاسی استحکام ہوتا، پی پی اور (ن) لیگ کی طرح پی ٹی آئی نے اقتدار کے بجائے ملک کا سوچا ہوتا تو آج ملک میں سیاسی دشمنی اور انتشار نہ ہوتا۔
محمد سعید آرائیں 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes