#امریکی صدر
Explore tagged Tumblr posts
Text
امریکی صدر ٹرمپ نے یوتھیوں کی امیدوں پر پانی کیسے پھیر دیا؟
معروف صحافی اور تجزیہ کار نصرت جاوید نے کہا ہے کہ عاشقان عمران خان کی توقعات کے برعکس نو منتخب امریکی صدر ٹرمپ نے اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد اپنے پہلے خطاب میں بانی پی ٹی آئی کے حوالے سے ایسی کوئی بات نہیں کی جس کی وہ امید لگائے بیٹھے تھے۔ اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں نصرت جاوید کہتے ہیں کہ گزشتہ کئی مہینوں سے امریکہ میں پاکستان چھوڑ کر مقیم ہوئے ہم سے کہیں زیادہ ذہین وفطین افراد ہمیں بتائے چلے…
0 notes
Text
امریکی صدر اپنے وزیر دفاع کی بیماری سے ہستال داخل ہونے سے کئی دن تک لاعلم
ایک عہدیدار نے امریکی میڈیا کو بتایا کہ بائیڈن انتظامیہ کو کئی دنوں سے یہ نہیں بتایا گیا کہ امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن کو اسپتال میں داخل کیا گیا ہے۔ 70 سالہ مسٹر آسٹن کو پیر کو سرجری کے بعد پیچیدگیوں کی وجہ سے والٹر ریڈ میڈیکل سینٹر میں داخل کرایا گیا تھا۔ ایک اہلکار نے سی بی ایس کو بتایا کہ کم از کم جمعرات کی صبح تک وائٹ ہاؤس کو اس بارے میں مطلع نہیں کیا گیا تھا۔ مسٹر آسٹن نے کمیونیکیشن کی کمی…
View On WordPress
0 notes
Text
ہنٹربائیڈن کی معافی پر نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ کا ردعمل بھی آ گیا
واشنگٹن(ڈیلی پاکستان آن لائن)امریکی صدر جوبائیڈن کےبیٹے ہنٹربائیڈن کی معافی پر نومنتخب صدر ڈونلڈٹرمپ کا ردعمل بھی آگیا۔ امریکی میڈیا کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے ہنٹربائیڈن کی معافی کو انصاف کا غلط استعمال قرار دیدیا۔ ٹرمپ کے ترجمان سٹیون چیونگ نے بیان میں کہا ہے کہ ڈیموکریٹ کے زیرکنٹرول محکمہ انصاف جسٹس سسٹم کو نشانہ بنانے کا مجرم ہے،انصاف کا نظام درست کرکے تمام امریکیوں کیلئے بحال کیا جانا چاہئے…
0 notes
Text
امریکی صدر کا پہلی مرتبہ فلسطینی صدر سے ٹیلی فونک رابطہ
(ویب ڈیسک ) امریکی صدر جو بائیڈن نے فلسطین کے صدر محمود عباس اور اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو سے ٹیلی فون پر بات چیت کی اور دونوں رہنماؤں پر زور دیا ہے کہ وہ علاقے میں انسانی امداد کی ترسیل کی اجازت دیں انہوں نے شہریوں کے تحفظ کی کوششوں کے لیے اپنی حمایت کی یقین دہانی کرائی ہے۔ خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق وائٹ ہاؤس سے جاری بیان کے مطابق صدر محمود عباس نے جو بائیڈن کو فلسطینی عوام…
View On WordPress
#24 News#first time#Palestinian President#telephone contact#امریکی صدر، پہلی مرتبہ، فلسطینی صدر ،ٹیلی فونک رابطہ،24 نیوز American President
0 notes
Text
وہ امریکہ اب نہیں رہا
امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ اور کملا ہیرس کے درمیان صدارتی انتخاب ایک حقیقت کے سامنے بے بس تھا اور وہ ہے اکیسویں صدی میں امریکہ کی مسلسل تنزلی۔ امریکہ نے اپنی قیادت، اعتماد، اخلاقی ساکھ اور اقتصادی برتری کھو دی ہے۔ 20 جنوری 2025 کو صدر ٹرمپ ایک ہی وقت میں امریکی گھمنڈ کے تازہ ترین علمبردار اور امریکی تنزلی کے جنازہ بردار کا حلف اٹھائیں گے۔ 1987 میں پال کینیڈی کی کتاب ’دی رائز اینڈ فال آف دی گریٹ پاورز‘ نے اس وقت تنازعہ کھڑا کیا جب اس نے ’امپیریل اوور سٹریچ‘ یعنی طاقت سے زیادہ غیر معمولی پھیلاؤ کو امریکی زوال کی ممکنہ وجہ قرار دیا۔ اس وقت امریکہ کی سب سے بڑی پریشانی کا باعث جاپان تھا، جو اپنی نمایاں دولت، جدید ٹیکنالوجی اورمعاشی انتظام کے نئے طریقوں کے ساتھ امریکہ کو چیلنج کر رہا تھا۔ 1989 کا اہم سال افغانستان سے سوویت یونین کی واپسی کے ساتھ شروع ہوا۔ فرانسیس فوکویاما نے اپنے مضمون ’دی اینڈ آف ہسٹری‘ میں لبرل جمہوریت اور سرمایہ داری کی تاریخ میں حتمی فتح کا اعلان کیا۔ دیوارِ برلن نومبر 1989 میں گری اور اس کے ساتھ ہی سوویت استبداد کا پردہ بھی گر گیا۔ امریکی فاتحین نے دعویٰ کیا کہ سوویت یونین نے ’اوور سٹریچ‘ کا شکار ہو کر شکست کھائی۔
سوویت یونین کی جانب سے 1990 میں جرمنی کے دوبارہ اتحاد پر اتفاق اور صدام حسین کے کویت پر حملے نے ’نیو ورلڈ آرڈر‘ کو جنم دیا۔ 1991 کا سال عراق میں امریکہ کی فتح سے شروع ہوا اور سوویت یونین کی تحلیل پر ختم ہوا۔ 1991 سے 2001 کا عشرہ امریکہ کے ہائپر پاور ہونے کا دور تھا۔ سوویت یونین کے بکھرنے، چین کی کمزوری اور انٹرنیٹ کے کمرشل استعمال میں آنے سے امریکہ نے ’غیر معمولی عظمت‘ کا لطف اٹھایا جیسا کہ ایڈورڈ گِبن نے اپنی کتاب ’دی ڈیکلائن اینڈ فال آف دی رومن ایمپائر‘ میں بیان کیا۔ امریکہ کے سامنے کوئی حریف نہیں تھا یوں لگتا تھا کہ 20ویں صدی کی طرح 21ویں صدی میں بھی امریکہ ہی مستقبل کی طاقت ہو گا۔ ستمبر 2001 کی ایک صبح، کئی سو سالوں سے موجود امریکی رجائیت اور اعتماد دہشت گردی کے سامنے ڈھیر ہو گئے اور ان کی جگہ تکبر اور تنگ نظر قومیت پرستی نے لے لی، جس کا اظہار امریکی ووٹروں نے ایک مرتبہ پھر ڈونلڈ ٹرمپ کو منتخب کر کے کیا ہے۔ 21ویں صدی کے پہلے عشرے میں دو جنگوں اور دو اقتصادی واقعات نے امریکی زوال کوتیز تر کیا۔
اس وقت کی واحد سُپر پاور نے افغانستان پرغیظ وغضب کے ساتھ اور عراق پر تکبر کے ساتھ حملہ کیا۔ امریکہ کو دونوں جنگوں میں شکست ہوئی۔ 2003 میں عراق پرامریکی حملہ دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر کے سوویت یونین پر حملے کے بعد جنگی حکمت عملی کی سب سے بڑی غلطی تھی۔ افغانستان میں امریکہ کی شکست دہائیوں پر محیط، کئی کھرب ڈالر کی فوجی، تکنیکی، سٹریٹیجک اور سیاسی تباہی تھی۔ عراق اور افغانستان نے پروفیسر کینیڈی کے نظریے ’امپیریل اوور سٹریچ‘ کی تصدیق کر دی۔ 2000 میں چین کی ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (ڈبلیو ٹی او) میں شمولیت اور 2008 کے مالیاتی بحران نے امریکہ کو 9/11 سے زیادہ کمزور کیا۔ چین کی ڈبلیو ٹی او میں شمولیت نے امریکی صنعت کو کھوکھلا کر دیا۔ 2010 تک چین دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت بن چکا تھا۔ 2024 میں چینی معیشت جاپان، بھارت اور جرمنی کی مشترکہ معیشت سے بڑی ہو چکی ہے۔ 2008 کے مالیاتی بحران نے مغربی اقتصادی ترقی کو تقریباً دو دہائیوں کے لیے سست کر دیا اور نیولبرل جمہوریت اور اس کی اقتصادی شاخ، گلوبلائزیشن میں مغربی عوام کے اعتماد کو ہلا کر رکھ دیا۔
جب مغربی جمہوریتوں کے ووٹر جمہوریت پر سوال اٹھا رہے تھے، چین ہر سال نہیں بلکہ ہر دہائی میں معاشی ترقی کے جھنڈے گاڑ رہا تھا۔ امریکہ اور مغرب نے اشتراکیت کے خلاف سرد جنگ اس لیے نہیں جیتی کہ ان کے نظریات بہتر تھے، بلکہ اس لیے جیتی کہ وہ دہائیوں تک کمیونسٹ بلاک کے مقابلے میں زیادہ دولت مند اور تکنیکی طور پر جدیدیت کے حامل تھے۔ چینی معاشی کارکردگی نے لبرل جمہوریت، اقتصادی ترقی اور تکنیکی جدت کے درمیان مغرب کا رشتہ کاٹ کر رکھ دیا ہے، کوئی تعجب نہیں کہ دنیا بھر میں ووٹر استبدادی عوامی قیادت کی طرف رجوع کر رہے ہیں، چاہے وہ انڈونیشیا ہو، بھارت ہو، ہنگری ہو، یا اب امریکہ ہو۔ امریکہ کی تنزلی کا آخری پہلو اخلاقی ہے جسے مورخ ایڈورڈ گِبن نے ’معاشرتی فضائل‘ کی کمی لکھا تھا۔ سیاہ فاموں کی غلامی سے لے کرعراق کی ابو غریب جیل میں انسانی حقوق کی پامالی تک، امریکی طرز عمل میں منافقت ہمیشہ موجود رہی ہے۔ تاہم سرد جنگ کے دوران، جب تک سوویت یونین اور اس کے اتحادی اپنے شہریوں کی آزادیوں کو دباتے، ان کے اقتصادی حقوق چھینتے اور ان کی غریبی میں اضافہ کرتے رہے اور اس کے برعکس امریکہ ضرورت مند ممالک کی مدد کرتا رہا، ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی حملوں کی اخلاقی ہولناکی کو نظرا نداز کیا جاتا رہا۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ نے نئے بین الاقوامی اداروں کی تخلیق اور قیادت کی جو جنگ کو روکنے اور غریب ممالک کی مدد کے لیے بنائے گئے تھے۔ اقوام متحدہ، آئی ایم ایف، نیٹو اور ورلڈ بینک اس کی اہم مثالیں ہیں۔ ان اداروں کے فوائد پر بحث ہو سکتی ہے۔ جو چیز بحث سے بالاتر ہے وہ یہ ہے کہ یہ ادارے امریکی اولیت کو مضبوط کرتے ہیں اور ساتھ ہی امریکہ کو دوسرے ملکوں کو اخلاقی بھاشن دینے کا جواز فراہم کرتے ہیں۔ امریکہ اپنے حواری ملکوں کو کئی دہائیوں سے تحفظ فراہم کر رہا ہے، بین الاقوامی معاشی معاملات میں امریکہ نے ’قواعد پر مبنی بین الاقوامی نظام‘ کی تخلیق کی اور اس کا دفاع کیا۔ سوویت یونین کے خلاف سرد جنگ کو ایک اخلاقی جنگ میں تبدیل کیا، جس میں انسانی حقوق اور جمہوریت کے لیے بیانیے کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ امریکہ کی تنزلی صرف افغانستان اور عراق میں ہی نظر نہیں آتی بلکہ کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ اس کی ابتدا 1971 میں سونے کے معیار کو زبردستی ترک کرنے سے ہوئی۔ 1973 میں اوپیک تیل کے بائیکاٹ سے اس تنزلی میں تیزی پیدا ہوئی جوکہ 1974 میں صدر نکسن کے استعفے اور 1975 میں ویت نام سے شرمناک انخلا سے تیز تر ہوئی۔
1970 کی دہائی میں امریکی تنزلی کا اثر امریکی شہروں میں واضح طور پر نظر آیا۔ معاشرتی طور پر 1995 میں اوکلاہوما پر بمباری، 2005 میں قطرینا طوفان اور کووڈ 19 کے دوران 12 لاکھ سے زیادہ امریکیوں کی ہلاکت نے اس تنزلی کو دنیا پر واضح کر دیا۔ آج دنیا کے مستقبل کا استعارہ امریکی شہر نہیں بلکہ مشرق وسطیٰ اور مشرقی ایشیا کے شہر ہیں۔ امریکہ آج بھی دنیا میں فوجی اخراجات اور پوری دنیا میں فوجی طاقت کی موجودگی میں سب سے آگے ہے۔ امریکہ اپنے دفاع پر اگلے آٹھ ممالک سے زیادہ خرچ کرتا ہے۔ دفاعی اعتبار سے امریکہ اب بھی واحد سپر پاور ہے۔ امریکی معیشت آج بھی دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے، جس کی موجودہ سب سے بڑی طاقت انٹرنیٹ پر مبنی ہے۔ ہالی وڈ اور مقبول ثقافت کی نرم طاقت ابھی تک پُراثر ہے۔ امریکی ڈالر دنیا کی غالب کرنسی ہے اور امریکی استعمار کو قائم رکھنے میں طاقتور ہتھیار ہے۔ امریکہ زوال پذیر ہو رہا ہے، لیکن روم کی سلطنت کی طرح اس کا انہدام ابھی نظر نہیں آ رہا لیکن امریکی قوم کی سخاوت، کشادگی اور روح کے وسیع پن کا انہدام ہو گیا ہے۔
امریکی سیاسی قیادت کا معیاراتنی تیزی سے گرا ہے جتنا کہ اس کی جمہوریت کا معیار، جس کی واضح مثال 6 جنوری 2021 کو امریکی کانگرس پر ہونے والا مسلح حملہ ��ے۔ اکتوبر 2023 کے بعد امریکہ نے اپنی اخلاقی حیثیت کے آخری چیتھڑے بھی کھو دیے ہیں، جب اس نے وہ ہتھیار فراہم کیے جو غزہ میں 42 ہزار سے زائد بے گناہ، نہتے انسانوں اور بچوں کی جان لے چکے ہیں اور جب امریکہ نے انسانی حقوق کو ملیامیٹ کرنے والی نسل کشی، ظالمانہ بمباری، جبری بے دخلی اور سفاک قتل عام پر آنکھیں بند کر لیں۔ یہ دلیل دی جاسکتی ہے کہ امریکہ دوسری جنگ عظیم سے پہلے کی صورت حال میں واپس جا رہا ہے، یعنی دنیا کی دوسری بڑی طاقتوں کے درمیان ایک طاقت، لیکن ہم نے پچھلی دہائیوں میں ایک کھلا، سخاوت سے بھرا اور خوش آمدید کہنے والا امریکہ بھی دیکھا ہے جو اپنی تمام خامیوں کے باوجود اپنے بنیادی جمہوری تصورات اور انسانی اصولوں پر عمل کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ وہ امریکہ اب نہیں رہا۔
خرم دستگیر خان خرم دستگیر مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر برائے خارجہ امور اور سابق وزیرِ دفاع رہ چکے ہیں۔
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
2 notes
·
View notes
Text
چاند پر جانے کی وڈیو جعلی تھی
ایک اخباری کے مطابق :جو کہ امریکہ اور یورپ کے 12 دسمبر کے اخبارات میں چھپی ہے۔ خبر کا لنک بھی دے رہا ہوں۔
http://www.express.co.uk/news/science/626119/MOON-LANDINGS-FAKE-Shock-video-Stanley-Kubrick-admit-historic-event-HOAX-NASA
خبر کا خلاصہ کچھ یوں ہے
ہالی ووڈ کے معروف فلم ڈائریکٹر سٹینلے کبرک نے ایک ویڈیو میں تسلیم کیا ہے کہ امریکا کی جانب سے چاند پر مشن بھیجنے کا دعویٰ جعلی اور جھوٹ پر مبنی تھا اور میں ہی وہ شخص ہوں جس نے اس جھوٹ کو فلم بند کیا تھا ۔اس رپورٹ کے مطابق حال ہی میں ایک خفیہ ویڈیو ریلیز کی گئی ہے جس میں ہالی ووڈ کے آنجہانی ہدایتکار سٹینلے کبرک نے تسلیم کیا ہے کہ 1969ء میں چاند پر کوئی مشن نہیں گیا تھا بلکہ انہوں نے اس کی فلم بندی کی تھی۔ ہالی ووڈ کے ہدایتکار کی اس خفیہ ویڈیو کو 15 سال قبل فلم بند کیا گیا تھا۔ ان ک�� ویڈیو بنانے والے رپورٹر نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اس ویڈیو کو ان کی وفات کے 15 سال بعد افشاء کرے گا۔ اس کے چند ہی دن بعد سٹینلے کبرک کا انتقال ہو گیا تھا۔ اس خفیہ ویڈیو میں انہوں نے تسلیم کیا کہ چاند کی تسخیر پر اٹھائے جانے والے تمام سوالات درست ہیں یہ سب کچھ امریکی خلائی ادارے ناسا اور امریکی حکومت کی ایماء پر کیا گیا تھا۔اس وقت کے امریکی صدر جان ایف کینیڈی کو اس تمام معاملے کا علم تھا۔سٹینلے کبرک کا کہنا تھا کہ وہ امریکی عوام سے معذرت خواہ ہیں کیونکہ انہوں نے ان سے دھوکہ دہی کی ہے۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ میں نے امریکی حکومت اور ناسا کے کہنے پر مصنوعی چاند پر فلم بندی کی تھی میں اس فراڈ پر امریکی عوام کے سامنے شرمسار ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو یہ تھا اس وڈیو بنانے والا اصل کریکٹر جو اعتراف کرگیا کہ یہ سب کچھ جعلی تھا۔ اس سے پہلے میں اپنے دلچسپ معلومات پیج کے دوستوں کو اس کے بارے میں بتا چکا ہوں کہ اس وڈیو بنانے کی وجوہات اصل میں کیا تھیں۔ اور کچھ اس پر اٹھائے جانے والے اعتراضات بھی بتا چکا ہوں۔ یہ پوسٹ میں دوبارہ آپ کی دلچسپی اور علم میں اضافے کے لئے پیش کررہا ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چاند پر انسانی قدم کے ڈرامے کی وجوہات اور اعتراضات
چند دن پہلے میں نے "چاند پر قدم کا ڈرامہ" نامی آرٹیکل اس دلچسپ معلومات پیج پر پوسٹ کیا تھا ۔ جس پر کچھ دوستوں نے اعتراضات کئے تھے کہ "یہ سب بکواس ہے چاند پر قدم ایک حقیقت ہے"۔یا۔"خود تو کچھ کر نہیں سکتے اور دوسروں پر اعتراضات کرتے ہیں"۔ وغیرہ وغیرہ ۔اور بہت سارے دوست تو میری بات سے متفق بھی تھے۔ تو ان معترضین سے عرض یہ ہے کہ چاند پر قدم کا ڈرامہ کہنے والے پاکستان نہیں بلکہ خود امریکی اور یورپ کے ماہرین ہیں۔کیونکہ ہمارے پاس تو اتنی ٹیکنالوجی اور وسائل نہیں کہ ہم حقیقتِ حال جان سکیں۔ جن کے پاس تمام وسائل ہیں ان لوگوں نے ہی اس نظریے پر اعتراضات اٹھائے ہیں کہ یہ ایک باقاعدہ ڈرامہ تھا جو امریکہ اور روس کی سرد جنگ کے درمیان امریکہ نے روس پر برتری حاصل کرنے کے لئے گڑھا تھا۔ آئیے ان اعتراضات پر ایک نظر ڈالتے ہیں ۔ذہن میں رہے یہ اعتراضات کوئی پاکستانی نہیں کررہا بلکہ امریکی کررہے ہیں۔جن کو میں اپنے دلچسپ معلومات پیج کو دوستوں سے شئیر کررہا ہوں۔
1969 میں امریکی خلانورد نیل آرمسٹرانگ نے گرد سے اٹی ہوئی جس سرزمین پر قدم رکھا تھا، کیا وہ چاند کی سطح تھی یا یہ ہالی وڈ کے کسی سٹوڈیو میں تخلیق کیا گیا ایک تصور تھا؟ بہت سے لوگوں کی نظر میں یہ حقیقت آج بھی افسانہ ہے۔کیونکہ کچھ ہی سالوں میں خود امریکہ میں اس بات پر شک و شبہ ظاہر کیا جانے لگا کہ کیا واقعی انسان چاند پر اترا تھا؟
15 فروری 2001 کو Fox TV Network سے نشر ہونے والے ایک ایسے ہی پروگرام کا نام تھا
Conspiracy Theory: Did We Land on the Moon?
اس پروگرام میں بھی ماہرین نے بہت سے اعتراضات اٹھائے ہیں۔ اسی طرح یوٹیوب پر بھی یہ دو ڈاکیومینٹری دیکھنے والوں کے ذہن میں اس بارے ابہام پیدا کرنے کے لئے کافی موثر ہیں۔
Did man really go to the moon
Did We Ever Land On The Moon
پہلے اس ڈرامے کی وجوہات پر ایک نگاہ ڈالتے ہیں۔کہ آخر کیا وجہ تھی ک�� امریکہ نے اتنا بڑا(تقریباکامیاب) ڈرامہ بنایا۔
سرد جنگ کے دوران امریکہ کو شدید خطرہ تھا کہ نہ صرف اس کے علاقے روسی ایٹمی ہتھیاروں کی زد میں ہیں بلکہ سرد جنگ کی وجہ سے شروع ہونے والی خلائی دوڑ میں بھی انہیں مات ہونے والی ہے۔ کیونکہ روس کی سپیس ٹیکنالوجی امریکہ سے بہت بہتر تھی۔ جنگ ویتنام میں ناکامی کی وجہ سے امریکیوں کا مورال بہت نچلی سطح تک آ چکا تھا۔
پہلا مصنوعی سیارہ خلا میں بھیجنے کے معاملے میں روس کو سبقت حاصل ہو چکی تھی جب اس نے 4 اکتوبر 1957 کو Sputnik 1 کو کامیابی کے ساتھ زمین کے مدار میں بھیجا۔ روس 1959 میں بغیر انسان والے خلائی جہاز چاند تک پہنچا چکا تھا۔ 12 اپریل 1961 کو روسی خلا نورد یوری گگارین نے 108 منٹ خلا میں زمیں کے گرد چکر کاٹ کر خلا میں جانے والے پہلے انسان کا اعزاز حاصل کیا۔ 23 دن بعد امریکی خلا نورد Alan Shepard خلا میں گیا مگر وہ مدار تک نہیں پہنچ سکا۔ ان حالات میں قوم کا مورال بڑھانے کے لیئے صدر کینڈی نے 25 مئی 1961 میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ ہم اس دہائی میں چاند پر اتر کہ بخیریت واپس آئیں گے۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ دہائی کے اختتام پر بھی اسے پورا کرنا امریکہ کے لئے ممکن نہ تھا اس لیئے عزت بچانے اور برتری جتانے کے لیئے جھوٹ کا سہارا لینا پڑا۔ امریکہ کے ایک راکٹ ساز ادارے میں کام کرنے والے شخصBill Kaysing کے مطابق اس وقت انسان بردار خلائی جہاز کے چاند سے بہ سلامت واپسی کے امکانات صرف 0.017% تھے۔ اس نے اپولو مشن کے اختتام کے صرف دو سال بعد یعنی 1974 میں ایک کتاب شائع کی جسکا نام تھا
We Never Went to the Moon:
America's Thirty Billion Dollar Swindle
3 اپریل 1966 کو روسی خلائ جہاز Luna 10 نے چاند کے مدار میں مصنوعی سیارہ چھوڑ کر امریکیوں پر مزید برتری ثابت کر دی۔ اب امریکہ کے لئے ناگزیر ہوگیا تھا کہ کچھ بڑا کیا جائے تاکہ ہمارا مورال بلند ہو۔
21 دسمبر 1968 میں NASA نے Apollo 8 کے ذریعے تین خلا نورد چاند کے مدار میں بھیجے جو چاند کی سطح پر نہیں اترے۔ غالباً یہNASA کا پہلا جھوٹ تھا اور جب کسی نے اس پر شک نہیں کیا تو امریکہ نے پوری دنیا کو بے وقوف بناتے ہوئے انسان کے چاند پر اترنے کا یہ ڈرامہ رچایا اورہالی وڈ کے ایک اسٹوڈیو میں جعلی فلمیں بنا کر دنیا کو دکھا دیں۔ اپولو 11 جو 16جولائی 1969 کو روانہ ہوا تھا درحقیقت آٹھ دن زمین کے مدار میں گردش کر کے واپس آ گیا۔
1994 میں Andrew Chaikin کی چھپنے والی ایک کتاب A Man on the Moon میں بتایا گیا ہے کہ ایسا ایک ڈرامہ رچانے کی بازگشت دسمبر 1968 میں بھی سنی گئی تھی۔
اب ان اعتراضات کی جانب آتے ہیں جو سائنسدانوں نے اٹھائے ہیں۔
1- ناقدین ناسا کے سائنسدانوں کے عظیم شاہکار اپالو گیارہ کو ہالی وڈ کے ڈائریکٹروں کی شاندار تخلیق سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس سفر اور چاند پر انسانی قدم کو متنازعہ ماننے والوں کی نظر میں ناسا کی جانب سے جاری کی گئی تصاویر میں کئی نقائص ہیں، جن سے ایسا لگتا ہے کہ جیسے چالیس سال قبل انسان سچ مچ چاند پر نہیں پہنچا تھا۔
2۔اس سفر کی حقیقت سے انکار کرنے والوں کا خیال ہے کہ تصاویر میں خلانوردوں کے سائے مختلف سائز کے ہیں اور چاند کی سطح پر اندھیرا دکھایا گیا ہے۔
3۔ ان افراد کا یہ بھی کہنا ہے کہ چاند کی سطح پر لی گئی ان تصاویر میں آسمان تو نمایاں ہے مگر وہاں کوئی ایک بھی ستارہ دکھائی نہیں دے رہا حالانکہ ہوا کی غیر موجودگی اور آلودگی سے پاک اس فضا میں آسمان پر ستاروں کی تعداد زیادہ بھی دکھائی دینی چاہئے تھی اور انہیں چمکنا بھی زیادہ چاہئے تھا۔
4۔ ان لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ ناسا کی ویڈیو میں خلانورد جب امریکی پرچم چاند کی سطح پر گاڑ دیتے ہیں تو وہ لہراتا ہے جب کہ چاند پر ہوا کی غیر موجودگی میں ایسا ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔
5۔چاند کی تسخیر کو نہ ماننے والے ایک نکتہ یہ بھی اٹھاتے ہیں کہ اس ویڈیو میں ایک خلانورد جب زمین پر گرتا ہے تو اسے دوتین مرتبہ اٹھنے کی کوشش کرنا پڑتی ہے۔ چاند پر کم کشش ثقل کی وجہ سے ایسا ہونا خود ایک تعجب کی بات ہے۔
6۔زمین کے بہت نزدیک خلائی مداروں میں جانے کے لیئے انسان سے پہلے جانوروں کو بھیجا گیا تھا اور پوری تسلی ہونے کے بعد انسان مدار میں گئے لیکن حیرت کی بات ہے کہ چاند جیسی دور دراز جگہ تک پہنچنے کے لئے پہلے جانوروں کو نہیں بھیجا گیا اور انسانوں نے براہ راست یہ خطرہ مول لیا۔
7۔ کچھ لوگ یہ اعتراض بھی کرتے ہیں کہ اگر انسان چاند پر پہنچ چکا تھا تو اب تک تو وہاں مستقل قیام گاہ بن چکی ہوتی مگر معاملہ برعکس ہے اور چاند پر جانے کا سلسلہ عرصہ دراز سے کسی معقول وجہ کے بغیر بند پڑا ہے۔ اگر 1969 میں انسان چاند پر اتر سکتا ہے تو اب ٹیکنالوجی کی اتنی ترقی کے بعد اسے مریخ پر ہونا چاہیے تھا مگر ایسا نہیں ہے۔ ناسا کے مطابق دسمبر 1972 میں اپولو 17 چاند پر جانے والا آخری انسان بردار خلائی جہاز تھا۔ یعنی 1972 سے یہ سلسلہ بالکل بند ہے ۔
8۔ چاند پر انسان کی پہلی چہل قدمی کی فلم کا سگنل دنیا تک ترسیل کے بعد
slow scan television -SSTV
فارمیٹ پر اینالوگ Analog ٹیپ پر ریکارڈ کیا گیا تھا۔ ان ٹیپ پر ٹیلی میٹری کا ڈاٹا بھی ریکارڈ تھا۔ عام گھریلو TV اس فارمیٹ پر کام نہیں کرتے اسلیئے 1969 میں اس سگنل کو نہایت بھونڈے طریقے سے عام TV پر دیکھے جانے کے قابل بنایا گیا تھا۔ اب ٹیکنالوجی اتنی ترقی کر چکی ہے کہ ایسے سگنل کو صاف ستھری اور عام TV پر دیکھنے کے قابل تصویروں میں بدل دے۔ جب ناسا سےSSTV کے اصلی ٹیپ مانگے گئے تو پتہ چلا کہ وہ ٹیپ دوبارہ استعمال میں لانے کے لئے مٹائے جا چکے ہیں یعنی اس ٹیپ پر ہم نے کوئی اور وڈیو ریکارڈ کردی ہے۔ اورناسا آج تک اصلی ٹیپ پیش نہیں کر سکا ہے۔
9۔ اسی طرح چاند پر جانے اور وہاں استعمال ہونے والی مشینوں کے بلیو پرنٹ اور تفصیلی ڈرائنگز بھی غائب ہیں۔
ان لوگوں کا اصرار رہا ہے کہ ان تمام نکات کی موجودگی میں چاند کو مسخر ماننا ناممکن ہے اور یہ تمام تصاویر اور ویڈیوز ہالی وڈ کے کسی بڑے اسٹوڈیو کا شاخسانہ ہیں۔تو یہ کچھ اعتراضات تھے جن کے تسلی بخش جوابات دیتے ہوئے ناسا ہمیشہ سے کتراتا رہا ہے۔ جو اس نے جوابات دیئے بھی ہیں وہ بھی نامکمل اور غیرشعوری ہیں۔
#fakemoonlanding
#معلومات #عالمی_معلومات #دنیا_بھر_کی_معلومات #جہان_کی_تازہ_معلومات #دنیا_کی_تحریریں #عالمی_خبریں #دنیا_کی_تاریخ #جغرافیائی_معلومات #دنیا_بھر_کے_سفر_کی_کہانیاں #عالمی_تجارت #عالمی_سیاست #تاریخ #اردو #اردو_معلومات #اردوادب
#Infotainment #information #History #WorldHistory #GlobalIssues #SocialTopics #WorldPolitics #Geopolitics #InternationalRelations #CulturalHeritage #WorldCulture #GlobalLeadership #CurrentAffairs #WorldEconomy #Urdu
بہرحال ہر انسان کے سوچنے کا انداز مختلف ہوتا ہےمیرے موقف سے ہر ایک کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
#urdu shayari#urdu poetry#urdu#urdu shairi#urdupoetry#urdu quote#urdu poem#urduadab#poetry#urdu adab#urdu sher#urdu poems#urdu literature#urduposts#urdualfaz#urdushayri#urdushayari#اردو شعر#اردو غزل#اردو شاعری#اردو#اردو ادب#اردو زبان#اردو خبریں#حقیقت#realislam#reality
2 notes
·
View notes
Text
0 notes
Text
پاکستان کا میزائل پروگرام نشانے پر؟
پاکستان کا میزائل پروگرام ایک مرتبہ پھر عالمی میڈیا کی زینت ہے۔ ان خبروں میں تیزی اس وقت آئی جب امریکی تھنک ٹینک کارنیگی انڈاؤمنٹ کے زیرِاہتمام ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے، چند ہفتوں کے مہمان امریکی صدر جو بائیڈن کے قومی سلامتی کے نائب مشیر جان فائنر کا کہنا تھا کہ پاکستان نے لانگ رینج میزائل سسٹم اور ایسے دیگر ہتھیار بنا لئے ہیں جو اسے بڑی راکٹ موٹرز کے (ذریعے) تجربات کرنے کی صلاحیت دیتے ہیں۔ انہوں نے یہ دعویٰ بھی کر ڈالا کہ اس میزائل سسٹم سے امریکہ کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ جبکہ عالمی سیاست سے معمولی واقفیت رکھنے والا شخص یہ جانتا ہے کہ پاکستان کا ایٹمی یا میزائل پروگرام صرف اور صرف بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم سے بچنے کیلئے ترتیب دیا گیا ہے۔ مذکورہ بیان اس وقت دیا گیا جب امریکہ میں انتقال اقتدار کا مرحلہ مکمل کیا جا رہا ہے۔ عالمی تجزیہ کاروں کے مطابق بھارتی لابی، بائیڈن انتظامیہ میں کافی موثر تھی اس نے دم توڑتی حکومت سے بیان دلوا کر پاکستان پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی ہے جبکہ پینٹاگون کے ترجمان نے اس بیان سے فاصلہ اختیار کیا ہے جسکا واضح مطلب ہے کہ امریکی اسٹیبلشمنٹ اس بیان کیساتھ کھڑی نظر نہیں ا ٓرہی۔
دنیا کے جغرافیہ پر نظر دوڑائی جائے تو پاکستان اپنی نوعیت کا واحد ملک ہے جس کے ہمسائے میں ایک ایسا ملک موجود ہے جو ہر وقت اسے عدم استحکام سے دوچار کرنے کی سازشوں میں مصروف رہتا ہے۔ بھارت نے روز اول سے پاکستان کا وجود تسلیم نہیں کیا یہی وجہ ہے کہ وہ پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ بھارت جیسے مکار دشمن کا مقابلہ کرنے کیلئے ریاست پاکستان 1947ء سے لیکر آج تک مختلف اقدامات کرتی رہی ہے لیکن ان سارے اقدامات کا مطمح نظر اپنا دفاع اور اپنی جغرافیائی سرحدوں کا تحفظ ہوتا ہے۔ عالمی امن کیساتھ پاکستان کی کمٹمنٹ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستانی وزیراعظم محمد علی بوگرا نے امریکی صدر آئزن ہاور کیساتھ ایک ایسے معاہدے پر دستخط کئے تھے جس میں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ پاکستان اپنا ایٹمی پروگرام پرامن رکھے گا۔ لیکن جب بھارت کی جانب سے توسیع پسندانہ عزائم سامنے آئے تو پاکستان بھی اپنا حق دفاع استعمال کرنے پر مجبور ہوا۔
پاکستان نے اپنا جوہری پروگرام 1970ء کی دہائی میں شروع کیا اور پھر مسلسل اس پر کام جاری ہے۔ 1974 ء میں بھارت نے ایٹمی دھماکے کر کے اس دوڑ میں پہل کی پاکستان نے طویل عرصہ کے بعد 1998ء میں ایٹمی دھماکے کر کے بھارتی منصوبوں کا جواب دیا۔ اسی طرح پاکستان کا ایٹمی میزائل بھی پرامن مقاصد کیلئے ہے۔ آج پاکستان نہ صرف ایک جوہری طاقت ہے بلکہ اسکے جوہری میزائل دنیا میں بہترین مانے جاتے ہیں۔ پاکستان کا 37 میل (60 کلومیٹر) تک مار کرنیوالا ’نصر‘ نامی ٹیکٹکل میزائل ایک ایسا جوہری میزائل ہے، جو دنیا بھر میں اہمیت تسلیم کروا چکا ہے۔ حتف میزائل ایک ملٹی ٹیوب بلیسٹک میزائل ہے، یعنی لانچ کرنیوالی وہیکل سے ایک سے زائد میزائل داغے جا سکتے ہیں۔ غزنوی ہائپر سانک میزائل ہے، جو زمین سے زمین تک مار کرتا ہے جبکہ اسکی رینج 290 کلومیٹر تک ہے۔ ابدالی بھی سوپر سانک زمین سے زمین تک مار کرنیوالا میزائل ہے جبکہ اسکی رینج 180 سے 200 کلومیٹر تک ہے۔ غوری میزائل میڈیم رینج کا میزائل ہے، جو زمین سے زمین تک مار کرتا ہے اور 700 کلوگرام وزن اٹھا کر 1500 کلومیٹر تک جا سکتا ہے۔
شاہین I بھی ایک سپر سانک زمین سے زمین تک مار کرنیوالا بلیسٹک میزائل ہے، جو 750 کلومیٹر تک روایتی اور جوہری مواد لے جاسکتا ہے۔ غوری II ایک میڈیم رینج بلیسٹک میزائل ہے، جسکی رینج 2000 کلومیٹر ہے۔ شاہین II زمینی بلیسٹک سپر سانک میزائل ہے، جو زمین سے زمین تک مار کر سکتا ہے اور اسکی رینج بھی 2000 کلومیٹر ہے۔ شاہین III میزائل 9 مارچ 2015ء کو ٹیسٹ کیا گیا۔ اسکی پہنچ 2750 کلومیٹر تک ہے اور اسکی بدولت پاکستان کا ہر دشمن اب رینج میں آ گیا ہے۔ پاکستان نے زمین سے زمین پر مار کرنیوالے بیلسٹک میزائل غزنوی کا کامیاب تجربہ کیا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق غزنوی میزائل کا تجربہ رات میں کیا گیا اور رات کے وقت میزائل داغنے کی کامیاب تربیتی مشق کی گئی۔ اسی طرح ابابیل میزائل نظام پاکستان کے دفاعی نظام کا ایک اہم جزو ہے۔ مئی 2016ء میں بھارت نے اسرائیل کی مدد سے ’آشون بیلسٹک میزائل شکن نظام‘ کا تجربہ کیا جسکا مقصد بھارتی فضائوں کے اندر بھارتی تنصیبات اور اہم مقامات کے گرد ایسا دفاعی نظام تشکیل دینا تھا، جسکے ذریعے اس طرف آنیوالے پاکستانی میزائلوں کو فضا میں ہی تباہ کیا جا سکے۔
اس صورتحال کا مقابلہ کرنے کیلئے پاکستان نے کثیر الاہداف میزائل نظام پر کام شروع کیا۔ ابابیل میزائل نظام ایک وقت میں کئی ایٹم بم لے جاسکتا ہے، ایک خاص بلندی پر پہنچ کر یہ وقفے وقفے سے ایٹم بم گراتا ہے، ہرایٹم بم کا ہدف مختلف ہوتا ہے۔ گویا اس ��ر نصب ایٹم بم ایسے اسمارٹ ایٹم بم ہوتے ہیں، جومطلوبہ بلندی سے گرائے جانے کے بعد نہ صرف اپنے اہداف کی جانب آزادانہ طور بڑھتے ہیں بلکہ میزائل شکن نظام کو چکمہ دینے کیلئے ’’مصنوعی ذہانت‘‘ سے آگے بڑھتے ہیں۔ یہ ایسی صلاحیت ہے جو صرف امریکا، برطانیہ، روس، چین اور فرانس کے پاس ہے۔ پاکستان اس ٹیکنالوجی کا حامل دنیا کا چھٹا ملک ہے۔ پاکستان کے مقابلے میں بھارت کہیں زیادہ ایٹمی صلاحیت کا مالک ہے۔ اسکی ایٹمی آبدوزوں کا نظام پوری دنیا کی سلامتی کیلئے خطرہ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دنیا پاکستان کی جغرافیائی نزاکتوں کو سمجھے۔ پاکستان پر پابندی کے بجائے بھارت کو سمجھائے کہ وہ عالمی امن سے کھلواڑ بند کرے۔ پاکستان کسی بھی آزاد ریاست کی طرح اپنا حق دفاع استعمال کرتا رہیگا اور اپنی سلامتی کیلئے اقدامات جاری رکھے گا۔ اس معاملہ پر پوری قوم یکسو ہے۔
پیر فاروق بہاو الحق شاہ
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
ہواوے کا چینی آپریٹنگ سسٹم ’ہارمنی‘ کے ساتھ نیا سمارٹ فون متعارف
چینی ٹیکناجی کمپنی ہواوے نے مکمل طور پر چین میں بنے آپریٹنگ سسٹم سے لیس اپنا پہلا سمارٹ فون متعارف کرا دیا ہے۔ یہ ہوواوے کا اپنے مغربی مسابقتی اداروں کے غلبے کو چیلنج کرنے کی لڑائی میں ایک اہم امتحان ہے۔ ایپل کا آئی او ایس اور گوگل کا اینڈرائیڈ اس وقت زیادہ تر موبائل فونز میں استعمال ہوتا ہے، لیکن ہواوے اپنے جدید ترین میٹ 70 ڈیوائسز کے ساتھ اسے تبدیل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جو کمپنی کے اپنے ہارمونی او ایس نیکسٹ پر چلتے ہیں۔ یہ لانچ ہواوے کے لیے بڑی کامیابی کا نقطہ عروج ہے، جو حالیہ برسوں میں سخت امریکی پابندیوں کا شکار رہی لیکن اب اپنی فروخت میں زبردست اضافے کے ساتھ دوبارہ ابھر رہی ہے۔ کنسلٹنگ فرم البرائٹ سٹون برج گروپ کے چین اور ٹیکنالوجی پالیسی کے سربراہ پال ٹریولو نے بتایا کہ ’قابل عمل اور وسیع پیمانے پر قابل استعمال موبائل آپریٹنگ سسٹم کی تلاش، جو مغربی کمپنیوں کے کنٹرول سے آزاد ہو، چین میں ایک طویل عرصے سے جاری ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ لیکن یہ نیا سمارٹ فون جو اندرون ملک تیارکردہ جدید چپ سے بھی لیس ہے، ظاہر کرتا ہے کہ چینی ٹیکنالوجی کمپنیاں ’ڈٹی رہ سکتی ہیں۔‘
میٹ 70 شینزین میں ہواوے کے ہیڈکوارٹر میں ایک کمپنی لانچ ایونٹ میں پیش کیا گیا۔ ہواوے کے آن لائن شاپنگ پلیٹ فارم کے مطابق 30 لاکھ سے زیادہ یونٹس کی پہلے ہی بکنگ ہو چکی ہے، البتہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ تمام خریدے بھی جائیں گے۔ پچھلے ورژن کے برعکس جو اینڈروئڈ کے اوپن سورس کوڈ پر مبنی تھا، آپریٹنگ سسٹم ہارمونی نیکسٹ ان تمام ایپس کی مکمل طور پر نئے سرے سے پروگرامنگ کا تقاضا کرتا ہے جو یہ سمارٹ فونز چلاتا ہے۔ گیری نگ، نیٹکسز کے سینیئر ماہر معیشت، نے بتایا کہ ’ہارمنی نیکسٹ پہلا مکمل مقامی طور پر تیار کردہ آپریٹنگ سسٹم ہے جو چین کے لیے مغربی ٹیکنالوجیز پر انحصار کم کرنے اور سافٹ ویئر کی کارکردگی میں بہتری لانے کے لیے ایک سنگ میل ہے۔‘ تاہم نگ کا کہنا تھا کہ ’اگرچہ چینی کمپنیاں ہواوے کے ایکوسسٹم میں حصہ ڈالنے کے لیے وسائل مختص کرنے پر آمادہ ہو سکتی ہیں، یہ دیکھنا باقی ہے کہ آیا ہارمونی نیکسٹ عالمی صارفین کو اتنی ہی ایپس اور فیچرز فراہم کر سکتا ہے۔‘
بلند توقعات ہواوے بیجنگ اور واشنگٹن کے درمیان شدید تکنیکی مسابقت کا محور ہے۔ امریکی حکام نے خبردار کیا کہ اس کے آلات چینی حکام کی جانب سے جاسوسی کے لیے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ ہواوے ان الزامات کو وہ مسترد کرتے ہی۔ 2019 سے امریکی پابندیوں نے ہواوے کو عالمی ٹیکنالوجی سپلائی چینز اور امریکی ساختہ اجزا سے کاٹ دیا، جس کے نتیجے میں اس کی سمارٹ فونز کی پیداوار پر ابتدائی طور پر سخت منفی اثر پڑا۔ یہ تنازع مزید شدت اختیار کرنے والا ہے، کیونکہ نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چینی درآمدات پر بڑے ٹیرف لگانے کا ارادہ ظاہر کیا ہے، جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ بیجنگ کے غیر منصفانہ تجارتی طریقوں کا جواب ہے۔ ٹیکنالوجی ریسرچ فرم کینالیس کے سینیئر تجزیہ کار ٹوبی ژو کے مطابق: ’ہواوے کی ٹیک انڈسٹری کو متاثر کرنے کی بجائے، چینی ٹیک انڈسٹری کے خود انحصاری کے رجحان نے ہواوے کی ترقی کو ممکن بنایا۔‘
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
0 notes
Text
کملا ہیرس کا حملہ ڈونلڈ ٹرمپ نے کیسے ناکام کیا؟ جیت کی چند اہم وجوہات
امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت ایک تاریخی موڑ ہے۔ انہوں نے ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار کملا ہیرس کو شکست دی۔ یہ پہلی بار تھا کہ سابق صدر، جو پچھلا الیکشن ہار چکے تھے، دوبارہ صدر بننے میں کامیاب ہوئے۔ ٹرمپ کی جیت کے کچھ اہم عوامل، جو مختلف سروے اور عوامی آراء سے سامنے آئے، درج ذیل ہیں: معیشت امریکی عوام نے معیشت کو انتخابی مہم میں اہم مسئلہ قرار دیا۔ بائیڈن کے دور میں معیشت میں اتار چڑھاؤ دیکھنے کو…
0 notes
Text
بہ تسلیمات نظامت اعلیٰ تعلقات عامہ پنجاب
لاہور، فون نمبر:99201390
ڈاکٹر محمد عمران اسلم/پی آر او ٹو سی ایم
ہینڈ آؤٹ نمبر1019
وزیراعلیٰ مریم نواز اور مسلم لیگ(ن) کے صدر محمد نواز شریف سے امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم کی ملاقات، قونصل جنرل کرسٹن ہاکنز بھی موجود تھیں
امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم اور قونصل جنرل ہاکنز کا پاکستان اور امریکہ کے درمیان تجارتی مواقع بڑھانے پر تبادلہ خیال
مستقبل کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے سرمایہ کاری کے مواقع بڑھانے پر غور، دونوں ممالک کے عوام کے درمیان تعلقات مزید بہتر بنانے کے مواقع پر گفتگو
پاکستان اور امریکہ کے مابین بہترین دوستانہ تعلقات ہیں،مزید تقویت دینے کے لئے پر عزم ہیں:مریم نوازشریف
لاہور23ستمبر:……وزیراعلیٰ پنجاب مریم نوازشریف اور پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر محمد نواز شریف سے امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم(Mr. Donald Blome) نے ملاقات کی جس میں باہمی دلچسپی کے امور، پاک امریکہ تعلقات کے فروغ اور مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ وزیر اعلیٰ مریم نوازشریف نے اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور امریکہ کے مابین بہترین دوستانہ تعلقات ہیں،مزید تقویت دینے کے لئے پر عزم ہیں۔پاک امریکا تجارت میں بے پناہ پوٹینشل موجود ہے جس سے مستفید ہونے کی ضرورت ہے۔ حکومت نے مختصر عرصے میں متعدد شعبوں میں نمایاں کامیاں حاصل کی ہیں۔ پاکستان ماضی کے مقابلے میں زیادہ محفوظ اور پرامن ہے۔انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے گڈ گورننس اور��فافیت کے نئے معیار قائم کئے ہیں۔ پاکستان نے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف جنگ میں شاندار کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم اور قونصل جنرل کرسٹن ہاکنز نے پاکستان اور امریکہ کے درمیان تجارتی مواقع بڑھانے پر تبادلہ خیال کیا۔ ملاقات میں مستقبل کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے سرمایہ کاری کے مواقع بڑھانے پر غورکیا گیا اور دونوں ممالک کے عوام کے درمیان تعلقات مزید بہتر بنانے کے مواقع پر گفتگو بھی کی گئی۔ سینئر صوبائی وزیر مریم اورنگزیب، معاون خصوصی راشد نصراللہ اور دیگر بھی اس موقع پر موجود تھے۔
0 notes
Text
ڈونلڈ ٹرمپ نے کیرولین لیویٹ کوبڑے عہدے سے نواز دیا
نو منتخب امریکی صدر کی جانب سے اپنی کابینہ ارکان کے ناموں کےاعلان کاسلسلہ جاری ہے،ڈونلڈ ٹرمپ نےنامزدگی کرتے ہوئے کیرولین لیویٹ کووائٹ ہاؤس کی ترجمان نامزد کردیا ہے۔ امریکی میڈیا کےمطابق ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے نامزد کردہ کیرولین لیویٹ اب تک وائٹ ہاؤس کی کم ع��ر ترین ترجمان ہوں گی۔ امریکی میڈیا رپورٹس کےمطابق کیرولین لیویٹ وائٹ ہاؤس میں ڈونلڈ ٹرمپ کےروز مرہ امور سے متعلق میڈیاکو آگاہ کریں…
0 notes
Text
غزہ ہسپتال میں دھماکہ اسرائیل نے نہیں، کسی دوسری ٹیم نے کیا، بائیڈن نے تل ابیب کو کلین چٹ دے دی
تل ابیب کے دورے کے دوران امریکی صدر جو بائیڈن نے غزہ کے ہسپتال میں دھماکے سے اسرائیل کو ��ری کرتے ہوئے ذمہ داری فلسطینی گروپ پر ڈال اور اسرائیل کو غزہ میں کارروائی کی کھلی چھوٹ کا بھی واضح اشارہ دیا۔ تل ابیب میں اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے ساتھ پریس بریفنگ میں جو بائیڈن نے کہا کہ میں کل غزہ کے ہسپتال میں ہونے والے دھماکے سے بہت افسردہ اور غمزدہ ہوں۔ اور جو کچھ میں نے دیکھا ہے اس کی بنیاد…
View On WordPress
0 notes
Text
روس کی امریکی صدر جوبائیڈن کو براہ راست جنگ کی دھمکی
ماسکو (ڈیلی پاکستان آن لائن) روس نے کہا ہے کہ امریکی صدر کی جانب سے یوکرین کو طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل کے استعمال کی اجازت دینا براہ راست جنگ میں شریک ہونے کے مترادف ہے۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق روسی ایوان صدر کے جانب سے جاری ہونیوالے بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکہ میزائل پالیسی میں تبدیلی صرف جنگ کو بڑھاوا دینے کے لیے کر رہا ہے، یوکرین کو روسی علاقوں پر حملے کے لیے امریکی ساختہ…
0 notes
Link
0 notes
Text
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی گرفتاری
پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک میں تو سابق کیا، موجودہ حکمرانوں کی گرفتاریاں، مقدمات حتیٰ کہ پھانسی کی سزائیں بھی ہوتی رہی ہیں لیکن تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ امریکہ جیسی سپر پاور کے ایک سابق صدر کو ایک دو نہیں 34 فوجداری الزامات میں گرفتار کر لیا گیا اور ملزم گرفتاری دینے کے لئے خود عدالتی کمپلیکس پہنچا۔ امریکہ میں تاریخ رقم کرنے والے یہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہیں جنہیں اپنے کاروبار سے متعلق جھوٹے بیانات پر گرفتار کر لیا گیا۔ ارب پتی ٹرمپ جو اپنی شعلہ بیانی اور بڑبولا ہونے کی شہرت رکھتے ہیں گرفتاری خود دی اور اس مقصد کے لئے فلوریڈا سے اپنے ذاتی ہوائی جہاز میں طویل فاصلہ طے کر کے نیویارک پہنچے ۔
عدالتی کمپلیکس کے باہر ان کے حامیوں اور مخالفین کی بڑی تعداد موجود تھی جو ان کے حق یا مخالفت میں نعرے لگارہے تھے تاہم اس موقع پر سخت سیکورٹی انتظامات کئے گئے تھے جس کی وجہ سے توڑ پھوڑ یا جلاؤ گھیراؤ کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا جس کا مظاہرہ حالیہ عرصے میں پاکستان میں اکثرکیا جاتا ہے۔ عدالت میں ٹرمپ کے فنگر پرنٹس لئے گئے اور تصویریں کھینچی گئیں۔ پھر رہا بھی کر دیا گیا۔ ان پر باقاعدہ مقدمہ کی کارروائی دسمبر تک ملتوی کر دی گئی۔ پاکستان ہوتا تو ٹرمپ گرفتاری دینے کے لئے اتنا کلف نہ کرتے اور کہہ دیتے کہ میں گرفتار ہونے کو تیار ہوں مگر میرے کارکن اجازت نہیں دیتے۔ مگر یہ امریکہ ہے جہاں اس کے ایک سابق طاقتور صدر نے بلا جوں وچرا خود کو قانون کے حوالے کر دیا۔ ان کے اس فعل کے پیچھے کئی سبق پنہاں ہیں جو پاکستان یا ایسے ہی دوسرے ممالک میں نظر نہیں آتے۔ قانون کی عملداری کی یہ نظیر امریکہ جیسے جمہوری ملکوں میں ہی دیکھی جاسکتی ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ
3 notes
·
View notes