#مریان
Explore tagged Tumblr posts
lastnewsiran · 2 years ago
Text
تسمه کش اتوماتیک چیست و برای چه صنایعی کاربرد دارد؟
Tumblr media
تسمه کش اتوماتیک (auto strapping machine) یک تکنولوژی مهم و موثر جهت استفاده در فعالیت های نوین صنعتی است. این تکنولوژی برای کنترل تنش در برخی از ابزارهای صنعتی و تسمه های تاییدی به کار می رود. این ابزار به کاربران اجازه می دهد تا فشار نصب تسمه ها را به طور هوشمند در نظر گرفته و از طریق نرم افزارهای راه اندازی شده روی سخت افزارنفوذی کنترل کند. تسمه کش اتوماتیک مورد استفاده در یک سری صنایع است که در آنها از تسمه های قابل تنش برای انجام فعالیت های مختلف استفاده می شود.
به عنوان مثال، استفاده از تسمه کش در صنایع معدنی، کارخانه های مواد غذایی، فرآورده های ��لزی، پیمانکاری های نفت و گاز، پیمانکاری های نیروگاهی، ساخت انواع ماشین آلات و ساختمانی، مواد پلاستیکی، مواد پلی مریان، دستگاه های انبارداری، انواع تجهیزات مورد استفاده در بسته بندی، تولید مواد شیمیایی، نصب نظارت و فناوری اطلاعات و ارتباطات، و نصب ابزارهای ارتباطی است.
تسمه کش اتوماتیک دارای یک سیستم کنترل بسیار قدرتمند است که به کاربران اجازه می دهد تا به آسانی فشار نصب تسمه های تاییدی را با استفاده از یک نرم افزار راه اندازی شده روی سخت افزار نفوذی کنترل کنند. سیستم کنترل می تواند کنترل کند که تنش نصب بر روی تسمه های تاییدی چطوری باشد. این سیستم به کاربران اجازه می دهد که به نحوی پارامتر های مورد نیاز برای کنترل و تنظیم تنش نصب شوند را انجام دهند.
تسمه کش اتوماتیک به عنوان یک تکنولوژی قدرتمند، بسیاری از مزایای مختلفی برای افراد مختلف دارد. از جمله این مزایا می توان به این نکات اشاره کرد: این توزیع تنش برای کارهای صنعتی که برخی از آنها با سرعت بالا به هنگام هستند، می تواند به طور ارزون و یکپارچه بررسی و کنترل شود. این تکنولوژی همچنین امکان کاهش زمان لازم برای به روزرسانی فشار نصب تسمه ها را فراهم می کند و تقویت کیفیت فعالیت های کنسرو صنعتی را فراهم می کند. همچنین تسمه کش اتوماتیک به آسانی کاهش مصرف انرژی و هزینه های نظیر نصب و راه اندازی فشار نصب تسمه ها را فراهم می کند.
برای خرید تسمه کش اتوماتیک می‌توانید به لینک زیر مراجعه کنید.
0 notes
mosaferkhane · 4 years ago
Photo
Tumblr media
☁️⛰☁️ بدون شک یکی از زیباترین پدیده‌های طبیعت، تشکیل دریاچه ابر هستش که تو این روزا بیشتر از هر زمان دیگه‌ای اتفاق میفته. این پدیده زیبا رو بیشتر در ارتفاعات و مخصوصا در گیلان، مازندران و گلستان میتونیم ببینیم. تصویر بالا متعلق به ارتفاعات گیلان هستش ☁️ ‌ برای تجربه اقامت در اقامتگاه‌های این مناطق "گیلان"، "مازندران" یا "گلستان" رو در سایت مسافرخانه جستجو کنید (لینک سایت در بایو پیج) 🗝 ‌ 🌐 mosaferkhane . com 📷 @art.rezaei ‌ ‌ ‌ ‌ ‌ #سایت_مسافرخانه #دریاچه_ابر #دریاابر #اقیانوس_ابر #گیلان #مازندران #گلستان #اولسبلنگاه #اولسبلنگا #سوئه_چاله #سوعه_چاله #تعطیلات #اولسبلانگاه #اولسبلانگا #ماسال #سفر #اولاسبلانکا #تالش #مریان #فیلبند #جاهای_دیدنی #جاذبه_گردشگری #جاذبه_توریستی #طبیعت #طبیعت_شمال #طبیعت_زیبا #گیلانگردی #بومگردی #بوم_گردی #اجاره_ویلا (at Iran) https://www.instagram.com/p/CF3_Va7g5Ay/?igshid=14nfpylufw5p3
0 notes
amir1428 · 4 years ago
Photo
Tumblr media
#روستای _مریان💖💖#تالش ،#گیلان #ییلاق_مریان💖💖 خنک برای روزهای گرم تابستان- ‫روستای مریان — چشم‌اندازهای دشت و رودخانه در مریان تالش برای مایی که به چشم‌اندازهای خشک و بی‌روح شهری عادت کرده‌ایم بسیار هیجان‌انگیز و رؤیایی است. در روستای مریان می‌توانید ساعت‌ها در حالی که به نوای نی چوپان گوش می‌کید در دل طبیعت پیاده روی کنید https://www.instagram.com/p/CLm-pgJHsAQ/?igshid=1tcq6kiihfwue
0 notes
archaeologyhub · 4 years ago
Link
ولی جهانی در گفت‌وگو با خبرنگار تسنیم در رشت، با بیان اینکه اداره کل میراث‌فرهنگی، صنایع‌دستی و گردشگری گیلان در رابطه با ایجاد موزه‌های جدید در استان و ساماندهی آنان اقدامات گسترده‌ای را آغاز کرده و در حال برنامه‌ریزی است اظهار داشت: پس از انجام مقدمات لازم موزه فعلی رشت به موزه باستان‌شناسی گیلان تبدیل می‌شود. معاون میراث‌فرهنگی اداره کل میراث‌فرهنگی، صنایع‌دستی و گردشگری گیلان با بیان اینکه دو موزه در استان به عنوان موزه مردم‌شناسی و عشایر گیلان معرفی شده است گفت: موزه سرهنگ عضدی سیاهکل و کافه موزه مریان از جمله این موزه‌ها به شمار می‌روند از طرفی موزه ماسال حدود 70 درصد پیشرفت فیزیکی دارد.
0 notes
rebranddaniel · 6 years ago
Text
جب ایک غیر شادی شدہ خاتون 30 سال کی عمر کو پہنچتی ہے تو اس کے جذبات و خیالات کیا ہوتے ہیں؟
جب ایک غیر شادی ش��ہ مصری خ��تون تیس برس کی ہوتی ہے۔گھڑی کی سوئیاں رات کے 12 بجنے کا اعلان کرتی ہیں۔ میں اپنی زندگی کی تیسری دہائی ختم کر کے چوتھے عشرے میں داخل ہو رہی ہوں۔ میری زندگی میں سنجیدگی، بلوغت اور گرم جوشی کا ایک نیا دورشروع ہو رہا ہے۔ میرے ارد گرد سب مجھے کئی روز سے یقین دلا
رہے ہیں کہ اس سالگرہ پر کوئی بہت اہم مابعدالطبعیاتی واقعہ رونما ہونے جا رہا ہے ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جیسے ہی گھڑی نے6جولائی کے نئے دن کا آغاز کیا تو میں
نے کوئی خاص تبدیلی محسوس نہیں کی۔ وہی پرانی امیدیں اور خوف میرے ساتھ تھے۔میں رباب فتحی ہوں ، ایک تیس سالہ غیر شادی شدہ مصری صحافی۔ جب سے میں اپنی عمر کے تیسویں سال میں داخل ہوئی ۔ مجھے بار بار اپنی آزادزندگی کے بارے میں اس سوال کا سامنا کرنا پڑتا:’آپ کی ابھی تک شادی کیوں نہیں ہو پائی؟‘ یا پھر اسی حوالے سے اشاروں میں سوال کیا جاتا:’کوئی تازہ خبر؟ ‘
یا پھر مجھے دعا دی جاتی کہ خدا کرے تمہاری جلد شادی ہو جائے، اس کے ساتھ مجھے دلچسپ کہانیاں بھی سنائی جاتیں ، ’شادی زندگی کا حصہ ہے، مجھے ایک مرد کی سخت ضرورت ہے جس کے ساتھ میں اپنی زندگی کا ہر پل بانٹ سکوں۔ ان کہانیوں سے مجھے یہ لگنے لگتا کہ مجھے واقعی اپنی زندگی کو نئے سرے سے شروع کرنا چاہئیے۔ ‘مصری میں ایک کنواری خاتون ہونے کے ناتے پہلے پہل مرا جواب خاصا عامیانہہوتا تھا، جیسا کہ مری دادی مجھ سے کہا کرتی تھیں ’’میرے لئے شادی کرو اورخوش رہو بیٹیا‘۔
میں اپنی دادی کو جواب دیا کرتی تھیں:’دادی جان! آپ میرے بارے میں مطمئن رہیں کیونکہ میں اپنی زندگی سے بہت خوش ہوں۔ ‘اور میرا واقعی یہی مطلب ہوا کرتاتھا۔میں خود کو ان چند خوش قسمت افراد میں شامل کرتی ہوں جنہیں زندگی نے عظیم ماں باپ کی دولت سے مالا مال کیا۔میرے ماں باپ یہ جانتے تھے کہ بچوں کی کس طرح تربیت کرنی ہے۔ میرے والدین نے میرے تمام فیصلوں کو اہمیت دی ہے ،انہوں نے مجھے کبھی بھی شادی کے لئے نہیں اکسایا۔
اس کے برعکس مجھے سکھایا کہ بہترین تعلیم، خود انحصاری، اور لگن کامیاب زندگی کا صحیح نسخہ ہے۔میرے والد کا قول ہے:’آپ تب تک آزاد ہیں جب تک کوئی آپ کو نقصان نہ پہنچائے۔‘ ان کی یہی کوشش رہی کہ ان کی تربیت میری عملی زندگی میں شامل ہو۔ مری والدہ بھی والد سے مختلف نہیں تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ عمر کے تیسویں سال میں غیر شادی شدہ ہونا میرے لئے کسی طرح سے بھی مسئلہ نہیں رہا حالانکہ اس حوالے سے مصری روایات خاصی تکلی�� دہ ہیں۔مصر میں کسی بھی غیرملکی یا اجنبی سے پہلا سوالاس کی عمر کے حوالے سے کیا جاتا ہے۔
مصری سمجھتے ہیں کہ تعلیم اور ہنر سیکھنے کی ایک عمر ہوتی ہے۔ وہ ہر اس کام سے ہاتھ کھینچ لیتے ہیں جو ان کی عمر کی مناسبت سے نہ رکھتاہو۔ بعض اوقات وہ خود کو کھلکھلا کر ہنسنے اور مسکرانے سے بھی روک لیتے ہیں کیونکہ یہ انکی عمر کی مناسبت سے درست نہیں۔ایسے ماحول میں مجھے تیس برس کا ہو نا ایک چیلنج لگا۔ میں نے اپنے ارد گرد کے لوگوں سے عمر ، جذبات اور سفید بالوں کے حوالے سے ہمیشہ منفی رائے ہی سنی۔ آپ جب بھی باہر کہیں کھانا کھانے کے لئے انہیں کہیں گے توجواب گا کہ ان کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں، وہ کیسے باہر جا سکتے ہیں؟
والدین کے لئے اپنے بچوں کے ساتھ اچھی اور بھرپور زندگی کا توازن قائم رکھنا بہت مشکل ہے۔ اپنی زندگی کے بہترین وقت کو ضائع کر کے اس کی شکایت کرنے اور اس وقت کو یاد کرکے شکایت کرنے کا کوئی جواز نہیں ۔میرا کہنا ہے کہ وہ زندگی بھرپور انداز میں جی سکتے ہیں۔مجھے لگتا ہے کہ میرے حلقہ احباب میں سب لوگ جیسے مردہ بیٹری سیل ہیں۔
ان سے جب بھی کہا جاتا ہے کہ آؤ کچھنیا سیکھتے ہیں جیسا تو ان کی جانب سے یہ سننے کو ملتاہے،’ کیا بچگانہ بات کر رہی ہو۔‘ میرا خیال ہے کہ کہ جب تک آپ اور آپ کے پیارے تندرست ہیں تب تک آپ کو یہ حق نہیں کہ آپ گزرے وقت کی شکایت کرتے پھریں۔مصری معاشرے میں کسی تخلیقی کام کے بغیر کنوارے پن کے ساتھ بڑھاپے کی طرف سفر خاصہ کٹھن ہے ۔
مثال کے طور قاہرہ کے گھٹن زدہ ماحول میں دوڑ لگانا یا سائیکل چلانایا پھرکوئی ادبی محفل ڈھونڈنایا کھانا پکاناسیکھنا خاصا دشوار ہے۔ اگر آپ خودسے کچھ کرنا چاہیں بھی تو ارد گرد کے ماحول کی وجہ سے یہ بھی آسان نہیں۔میں جانتی ہوں کہ گزرتی زندگی کے ساتھ ہماری معصومیت ختم ہوتی جاتی ہے اور ایک طرح کی دانائی ہمیں آ لیتی ہے۔ زندگی وہ راستہ ہے جہاں درد دل کے ساتھ نئے تجربات ہاتھ آتے ہیں۔
اگر آپ ناممکنات کو حقیقت میں بدلنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تو یہ زندگی ایک بوجھ بن جاتی ہے۔مصر میں مرداور عورتیں 30 کی عمر کو پہنچتے ہیں تو ان کے دوست بھی کم ہوجاتے ہیں اور ان کی سماجی سر گرمیاں بھی کم ہو جاتی ہیں۔لیکن زندگی اتنی بھی سنگین نہیں ہے۔ پمہں ایسے لوگ بھی ملتے ہیں جواپنے ٹھوس اورمضبوط خیالات سے ہماری زندگیاں بدل دیتے ہیں۔تین سال پہلے مجھے مریان ملی ۔
اس نے مجھے اپنے بک کلب میں شامل کر لیا جو سات حیرت انگیز خواتین پر مشتمل تھا۔ ہم اکٹھے کتاب پڑھتے اور پھراس پر بحث کے لئے ایک مخصوص جگہ پر ملتے۔ اس گروپ تھراپی سے ہمیں زندگی کا معنی ملنے لگا ۔میں سمجھتی ہوں کہ یہ ضروری نہیں کہ آپ نے زندگی کہ کتنے سال گزارے بلکہ یہ ضروری ہے کہ آپ نے کتنا عرصہ زندگی کو بھرپور اور بہترین طریقے سے جیا ۔
م��ری دادی نے ایک بار کہا تھا:’جوایک ہی جگہ پر زندہ رہتے ہیں وہ صرف وقت گزارتے ہیں مگر وہ جو سفر کرتے ہیں وہ بہت کچھ دیکھتے ہیں‘۔ہاں! میں 30 کی ہو گئی ہوں، میں مصر میں رہتی ہوں، میں خود کو خوش قسمت تصور کرتی ہوں کیونکہ یہاں ایسا بہت کچھ ہے جس سے میں لطف اندوز ہوتی ہوں۔میں اس قابل ہوں کہ اپنے خواب محسوس کر سکوں، کھوج جاری رکھ سکوں۔
میں خود کو ہر روز یہ یاد دلاتی ہوں مجھے زندگی سے کچھ بڑھ کر عطا کیا گیاہے جیسا کہ گبریل گارشیا مارکیز کہتا ہے:’ میں کم سوتا ہوں، میں زیادہ خواب دیکھ سکتا ہوں کیونکہ میں جانتا ہوں ہر منٹ میں جب مری آنکھ بند ہوتی ہے تب میری زندگی کے 60 روشن سکینڈ ضائع ہو جاتے ہیں۔ میں تب بولتا ہوں جب دوسرے خاموش ہو جاتے ہیں۔ میں تب جاگتا ہوں جب دوسرے سو رہے ہوں، کیونکہ مستقبل ہر بوڑھے یا جوان کو نصیب نہیں ہوتا ۔
(function(d, s, id) { var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = 'https://connect.facebook.net/en_GB/sdk.js#xfbml=1&version=v3.2&appId=779689922180506&autoLogAppEvents=1'; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); }(document, 'script', 'facebook-jssdk'));
The post جب ایک غیر شادی شدہ خاتون 30 سال کی عمر کو پہنچتی ہے تو اس کے جذبات و خیالات کیا ہوتے ہیں؟ appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain http://bit.ly/2CIt2ha via Urdu News Paper
0 notes
thebestmealintown · 6 years ago
Text
جب ایک غیر شادی شدہ خاتون 30 سال کی عمر کو پہنچتی ہے تو اس کے جذبات و خیالات کیا ہوتے ہیں؟
جب ایک غیر شادی شدہ مصری خاتون تیس برس کی ہوتی ہے۔گھڑی کی سوئیاں رات کے 12 بجنے کا اعلان کرتی ہیں۔ میں اپنی زندگی کی تیسری دہائی ختم کر کے چوتھے عشرے میں داخل ہو رہی ہوں۔ میری زندگی میں سنجیدگی، بلوغت اور گرم جوشی کا ایک نیا دورشروع ہو رہا ہے۔ میرے ارد گرد سب مجھے کئی روز سے یقین دلا
رہے ہیں کہ اس سالگرہ پر کوئی بہت اہم مابعدالطبعیاتی واقعہ رونما ہونے جا رہا ہے ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جیسے ہی گھڑی نے6جولائی کے نئے دن کا آغاز کیا تو میں
نے کوئی خاص تبدیلی محسوس نہیں کی۔ وہی پرانی امیدیں اور خوف میرے ساتھ تھے۔میں رباب فتحی ہوں ، ایک تیس سالہ غیر شادی شدہ مصری صحافی۔ جب سے میں اپنی عمر کے تیسویں سال میں داخل ہوئی ۔ مجھے بار بار اپنی آزادزندگی کے بارے میں اس سوال کا سامنا کرنا پڑتا:’آپ کی ابھی تک شادی کیوں نہیں ہو پائی؟‘ یا پھر اسی حوالے سے اشاروں میں سوال کیا جاتا:’کوئی تازہ خبر؟ ‘
یا پھر مجھے دعا دی جاتی کہ خدا کرے تمہاری جلد شادی ہو جائے، اس کے ساتھ مجھے دلچسپ کہانیاں بھی سنائی جاتیں ، ’شادی زندگی کا حصہ ہے، مجھے ایک مرد کی سخت ضرورت ہے جس کے ساتھ میں اپنی زندگی کا ہر پل بانٹ سکوں۔ ان کہانیوں سے مجھے یہ لگنے لگتا کہ مجھے واقعی اپنی زندگی کو نئے سرے سے شروع کرنا چاہئیے۔ ‘مصری میں ایک کنواری خاتون ہونے کے ناتے پہلے پہل مرا جواب خاصا عامیانہہوتا تھا، جیسا کہ مری دادی مجھ سے کہا کرتی تھیں ’’میرے لئے شادی کرو اورخوش رہو بیٹیا‘۔
میں اپنی دادی کو جواب دیا کرتی تھیں:’دادی جان! آپ میرے بارے میں مطمئن رہیں کیونکہ میں اپنی زندگی سے بہت خوش ہوں۔ ‘اور میرا واقعی یہی مطلب ہوا کرتاتھا۔میں خود کو ان چند خوش قسمت افراد میں شامل کرتی ہوں جنہیں زندگی نے عظیم ماں باپ کی دولت سے مالا مال کیا��میرے ماں باپ یہ جانتے تھے کہ بچوں کی کس طرح تربیت کرنی ہے۔ میرے والدین نے میرے تمام فیصلوں کو اہمیت دی ہے ،انہوں نے مجھے کبھی بھی شادی کے لئے نہیں اکسایا۔
اس کے برعکس مجھے سکھایا کہ بہترین تعلیم، خود انحصاری، اور لگن کامیاب زندگی کا صحیح نسخہ ہے۔میرے والد کا قول ہے:’آپ تب تک آزاد ہیں جب تک کوئی آپ کو نقصان نہ پہنچائے۔‘ ان کی یہی کوشش رہی کہ ان کی تربیت میری عملی زندگی میں شامل ہو۔ مری والدہ بھی والد سے مختلف نہیں تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ عمر کے تیسویں سال میں غیر شادی شدہ ہونا میرے لئے کسی طرح سے بھی مسئلہ نہیں رہا حالانکہ اس حوالے سے مصری روایات خاصی تکلیف دہ ہیں۔مصر میں کسی بھی غیرملکی یا اجنبی سے پہلا سوالاس کی عمر کے حوالے سے کیا جاتا ہے۔
مصری سمجھتے ہیں کہ تعلیم اور ہنر سیکھنے کی ایک عمر ہوتی ہے۔ وہ ہر اس کام سے ہاتھ کھینچ لیتے ہیں جو ان کی عمر کی مناسبت سے نہ رکھتاہو۔ بعض اوقات وہ خود کو کھلکھلا کر ہنسنے اور مسکرانے سے بھی روک لیتے ہیں کیونکہ یہ انکی عمر کی مناسبت سے درست نہیں۔ایسے ماحول میں مجھے تیس برس کا ہو نا ایک چیلنج لگا۔ میں نے اپنے ارد گرد کے لوگوں سے عمر ، جذبات اور سفید بالوں کے حوالے سے ہمیشہ منفی رائے ہی سنی۔ آپ جب بھی باہر کہیں کھانا کھانے کے لئے انہیں کہیں گے توجواب گا کہ ان کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں، وہ کیسے باہر جا سکتے ہیں؟
والدین کے لئے اپنے بچوں کے ساتھ اچھی اور بھرپور زندگی کا توازن قائم رکھنا بہت مشکل ہے۔ اپنی زندگی کے بہترین وقت کو ضائع کر کے اس کی شکایت کرنے اور اس وقت کو یاد کرکے شکایت کرنے کا کوئی جواز نہیں ۔میرا کہنا ہے کہ وہ زندگی بھرپور انداز میں جی سکتے ہیں۔مجھے لگتا ہے کہ میرے حلقہ احباب میں سب لوگ جیسے مردہ بیٹری سیل ہیں۔
ان سے جب بھی کہا جاتا ہے کہ آؤ کچھنیا سیکھتے ہیں جیسا تو ان کی جانب سے یہ سننے کو ملتاہے،’ کیا بچگانہ بات کر رہی ہو۔‘ میرا خیال ہے کہ کہ جب تک آپ اور آپ کے پیارے تندرست ہیں تب تک آپ کو یہ حق نہیں کہ آپ گزرے وقت کی شکایت کرتے پھریں۔مصری معاشرے میں کسی تخلیقی کام کے بغیر کنوارے پن کے ساتھ بڑھاپے کی طرف سفر خاصہ کٹھن ہے ۔
مثال کے طور قاہرہ کے گھٹن زدہ ماحول میں دوڑ لگانا یا سائیکل چلانایا پھرکوئی ادبی محفل ڈھونڈنایا کھانا پکاناسیکھنا خاصا دشوار ہے۔ اگر آپ خودسے کچھ کرنا چاہیں بھی تو ارد گرد کے ماحول کی وجہ سے یہ بھی آسان نہیں۔میں جانتی ہوں کہ گزرتی زندگی کے ساتھ ہماری معصومیت ختم ہوتی جاتی ہے اور ایک طرح کی دانائی ہمیں آ لیتی ہے۔ زندگی وہ راستہ ہے جہاں درد دل کے ساتھ نئے تجربات ہاتھ آتے ہیں۔
اگر آپ ناممکنات کو حقیقت میں بدلنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تو یہ زندگی ایک بوجھ بن جاتی ہے۔مصر میں مرداور عورتیں 30 کی عمر کو پہنچتے ہیں تو ان کے دوست بھی کم ہوجاتے ہیں اور ان کی سماجی سر گرمیاں بھی کم ہو جاتی ہیں۔لیکن زندگی اتنی بھی سنگین نہیں ہے۔ پمہں ایسے لوگ بھی ملتے ہیں جواپنے ٹھوس اورمضبوط خیالات سے ہماری زندگیاں بدل دیتے ہیں۔تین سال پہلے مجھے مریان ملی ۔
اس نے مجھے اپنے بک کلب میں شامل کر لیا جو سات حیرت انگیز خواتین پر مشتمل تھا۔ ہم اکٹھے کتاب پڑھتے اور پھراس پر بحث کے لئے ایک مخصوص جگہ پر ملتے۔ اس گروپ تھراپی سے ہمیں زندگی کا معنی ملنے لگا ۔میں سمجھتی ہوں کہ یہ ضروری نہیں کہ آپ نے زندگی کہ کتنے سال گزارے بلکہ یہ ضروری ہے کہ آپ نے کتنا عرصہ زندگی کو بھرپور اور بہترین طریقے سے جیا ۔
میری دادی نے ایک بار کہا تھا:’جوایک ہی جگہ پر زندہ رہتے ہیں وہ صرف وقت گزارتے ہیں مگر وہ جو سفر کرتے ہیں وہ بہت کچھ دیکھتے ہیں‘۔ہاں! میں 30 کی ہو گئی ہوں، میں مصر میں رہتی ہوں، میں خود کو خوش قسمت تصور کرتی ہوں کیونکہ یہاں ایسا بہت کچھ ہے جس سے میں لطف اندوز ہوتی ہوں۔میں اس قابل ہوں کہ اپنے خواب محسوس کر سکوں، کھوج جاری رکھ سکوں۔
میں خود کو ہر روز یہ یاد دلاتی ہوں مجھے زندگی سے کچھ بڑھ کر عطا کیا گیاہے جیسا کہ گبریل گارشیا مارکیز کہتا ہے:’ میں کم سوتا ہوں، میں زیادہ خواب دیکھ سکتا ہوں کیونکہ میں جانتا ہوں ہر منٹ میں جب مری آنکھ بند ہوتی ہے تب میری زندگی کے 60 روشن سکینڈ ضائع ہو جاتے ہیں۔ میں تب بولتا ہوں جب دوسرے خاموش ہو جاتے ہیں۔ میں تب جاگتا ہوں جب دوسرے سو رہے ہوں، کیونکہ مستقبل ہر بوڑھے یا جوان کو نصیب نہیں ہوتا ۔
(function(d, s, id) { var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = 'https://connect.facebook.net/en_GB/sdk.js#xfbml=1&version=v3.2&appId=779689922180506&autoLogAppEvents=1'; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); }(document, 'script', 'facebook-jssdk'));
The post جب ایک غیر شادی شدہ خاتون 30 سال کی عمر کو پہنچتی ہے تو اس کے جذبات و خیالات کیا ہوتے ہیں؟ appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain http://bit.ly/2CIt2ha via India Pakistan News
0 notes
cleopatrarps · 6 years ago
Text
جب ایک غیر شادی شدہ خاتون 30 سال کی عمر کو پہنچتی ہے تو اس کے جذبات و خیالات کیا ہوتے ہیں؟
جب ایک غیر شادی شدہ مصری خاتون تیس برس کی ہوتی ہے۔گھڑی کی سوئیاں رات کے 12 بجنے کا اعلان کرتی ہیں۔ میں اپنی زندگی کی تیسری دہائی ختم کر کے چوتھے عشرے میں داخل ہو رہی ہوں۔ میری زندگی میں سنجیدگی، بلوغت اور گرم جوشی کا ایک نیا دورشروع ہو رہا ہے۔ میرے ارد گرد سب مجھے کئی روز سے یقین دلا
رہے ہیں کہ اس سالگرہ پر کوئی بہت اہم مابعدالطبعیاتی واقعہ رونما ہونے جا رہا ہے ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جیسے ہی گھڑی نے6جولائی کے نئے دن کا آغاز کیا تو میں
نے کوئی خاص تبدیلی محسوس نہیں کی۔ وہی پرانی امیدیں اور خوف میرے ساتھ تھے۔میں رباب فتحی ہوں ، ایک تیس سالہ غیر شادی شدہ مصری صحافی۔ جب سے میں اپنی عمر کے تیسویں سال میں داخل ہوئی ۔ مجھے بار بار اپنی آزادزندگی کے بارے میں اس سوال کا سامنا کرنا پڑتا:’آپ کی ابھی تک شادی کیوں نہیں ہو پائی؟‘ یا پھر اسی حوالے سے اشاروں میں سوال کیا جاتا:’کوئی تازہ خبر؟ ‘
یا پھر مجھے دعا دی جاتی کہ خدا کرے تمہاری جلد شادی ہو جائے، اس کے ساتھ مجھے دلچسپ کہانیاں بھی سنائی جاتیں ، ’شادی زندگی کا حصہ ہے، مجھے ایک مرد کی سخت ضرورت ہے جس کے ساتھ میں اپنی زندگی کا ہر پل بانٹ سکوں۔ ان کہانیوں سے مجھے یہ لگنے لگتا کہ مجھے واقعی اپنی زندگی کو نئے سرے سے شروع کرنا چاہئیے۔ ‘مصری میں ایک کنواری خاتون ہونے کے ناتے پہلے پہل مرا جواب خاصا عامیانہہوتا تھا، جیسا کہ مری دادی مجھ سے کہا کرتی تھیں ’’میرے لئے شادی کرو اورخوش رہو بیٹیا‘۔
میں اپنی دادی کو جواب دیا کرتی تھیں:’دادی جان! آپ میرے بارے میں مطمئن رہیں کیونکہ میں اپنی زندگی سے بہت خوش ہوں۔ ‘اور میرا واقعی یہی مطلب ہوا کرتاتھا۔میں خود کو ان چند خوش قسمت افراد میں شامل کرتی ہوں جنہیں زندگی نے عظیم ماں باپ کی دولت سے مالا مال کیا۔میرے ماں باپ یہ جانتے تھے کہ بچوں کی کس طرح تربیت کرنی ہے۔ میرے والدین نے میرے تمام فیصلوں کو اہمیت دی ہے ،انہوں نے مجھے کبھی بھی شادی کے لئے نہیں اکسایا۔
اس کے برعکس مجھے سکھایا کہ بہترین تعلیم، خود انحصاری، اور لگن کامیاب زندگی کا صحیح نسخہ ہے۔میرے والد کا قول ہے:’آپ تب تک آزاد ہیں جب تک کوئی آپ کو نقصان نہ پہنچائے۔‘ ان کی یہی کوشش رہی کہ ان کی تربیت میری عملی زندگی میں شامل ہو۔ مری والدہ بھی والد سے مختلف نہیں تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ عمر کے تیسویں سال میں غیر شادی شدہ ہونا میرے لئے کسی طرح سے بھی مسئلہ نہیں رہا حالانکہ اس حوالے سے مصری روایات خاصی تکلیف دہ ہیں۔مصر میں کسی بھی غیرملکی یا اجنبی سے پہلا سوالاس کی عمر کے حوالے سے کیا جاتا ہے۔
مصری سمجھتے ہیں کہ تعلیم اور ہنر سیکھنے کی ایک عمر ہوتی ہے۔ وہ ہر اس کام سے ہاتھ کھینچ لیتے ہیں جو ان کی عمر کی مناسبت سے نہ رکھتاہو۔ بعض اوقات وہ خود کو کھلکھلا کر ہنسنے اور مسکرانے سے بھی روک لیتے ہیں کیونکہ یہ انکی عمر کی مناسبت سے درست نہیں۔ایسے ماحول میں مجھے تیس برس کا ہو نا ایک چیلنج لگا۔ میں نے اپنے ارد گرد کے لوگوں سے عمر ، جذبات اور سفید بالوں کے حوالے سے ہمیشہ منفی رائے ہی سنی۔ آپ جب بھی باہر کہیں کھانا کھانے کے لئے انہیں کہیں گے توجواب گا کہ ان کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں، وہ کیسے باہر جا سکتے ہیں؟
والدین کے لئے اپنے بچوں کے ساتھ اچھی اور بھرپور زندگی کا توازن قائم رکھنا بہت مشکل ہے۔ اپنی زندگی کے بہترین وقت کو ضائع کر کے اس کی شکایت کرنے اور اس وقت کو یاد کرکے شکایت کرنے کا کوئی جواز نہیں ۔میرا کہنا ہے کہ وہ زندگی بھرپور انداز میں جی سکتے ہیں۔مجھے لگتا ہے کہ میرے حلقہ احباب میں سب لوگ جیسے مردہ بیٹری سیل ہیں۔
ان سے جب بھی کہا جاتا ہے کہ آؤ کچھنیا سیکھتے ہیں جیسا تو ان کی جانب سے یہ سننے کو ملتاہے،’ کیا بچگانہ بات کر رہی ہو۔‘ میرا خیال ہے کہ کہ جب تک آپ اور آپ کے پیارے تندرست ہیں تب تک آپ کو یہ حق نہیں کہ آپ گزرے وقت کی شکایت کرتے پھریں۔مصری معاشرے میں کسی تخلیقی کام کے بغیر کنوارے پن کے ساتھ بڑھاپے کی طرف سفر خاصہ کٹھن ہے ۔
مثال کے طور قاہرہ کے گھٹن زدہ ماحول میں دوڑ لگانا یا سائیکل چلانایا پھرکوئی ادبی محفل ڈھونڈنایا کھانا پکاناسیکھنا خاصا دشوار ہے۔ اگر آپ خودسے کچھ کرنا چاہیں بھی تو ارد گرد کے ماحول کی وجہ سے یہ بھی آسان نہیں۔میں جانتی ہوں کہ گزرتی زندگی کے ساتھ ہماری معصومیت ختم ہوتی جاتی ہے اور ایک طرح کی دانائی ہمیں آ لیتی ہے۔ زندگی وہ راستہ ہے جہاں درد دل کے ساتھ نئے تجربات ہاتھ آتے ہیں۔
اگر آپ ناممکنات کو حقیقت میں بدلنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تو یہ زندگی ایک بوجھ بن جاتی ہے۔مصر میں مرداور عورتیں 30 کی عمر کو پہنچتے ہیں تو ان کے دوست بھی کم ہوجاتے ہیں اور ان کی سماجی سر گرمیاں بھی کم ہو جاتی ہیں۔لیکن زندگی اتنی بھی سنگین نہیں ہے۔ پمہں ایسے لوگ بھی ملتے ہیں جواپنے ٹھوس اورمضبوط خیالات سے ہماری زندگیاں بدل دیتے ہیں۔تین سال پہلے مجھے مریان ملی ۔
اس نے مجھے اپنے بک کلب میں شامل کر لیا جو سات حیرت انگیز خواتین پر مشتمل تھا۔ ہم اکٹھے کتاب پڑھتے اور پھراس پر بحث کے لئے ایک مخصوص جگہ پر ملتے۔ اس گروپ تھراپی سے ہمیں زندگی کا معنی ملنے لگا ۔میں سمجھتی ہوں کہ یہ ضروری نہیں کہ آپ نے زندگی کہ کتنے سال گزارے بلکہ یہ ضروری ہے کہ آپ نے کتنا عرصہ زندگی کو بھرپور اور بہترین طریقے سے جیا ۔
میری دادی نے ایک بار کہا تھا:’جوایک ہی جگہ پر زندہ رہتے ہیں وہ صرف وقت گزارتے ہیں مگر وہ جو سفر کرتے ہیں وہ بہت کچھ دیکھتے ہیں‘۔ہاں! میں 30 کی ہو گئی ہوں، میں مصر میں رہتی ہوں، میں خود کو خوش قسمت تصور کرتی ہوں کیونکہ یہاں ایسا بہت کچھ ہے جس سے میں لطف اندوز ہوتی ہوں۔میں اس قابل ہوں کہ اپنے خواب محسوس کر سکوں، کھوج جاری رکھ سکوں۔
میں خود کو ہر روز یہ یاد دلاتی ہوں مجھے زندگی سے کچھ بڑھ کر عطا کیا گیاہے جیسا کہ گبریل گارشیا مارکیز کہتا ہے:’ میں کم سوتا ہوں، میں زیادہ خواب دیکھ سکتا ہوں کیونکہ میں جانتا ہوں ہر منٹ میں جب مری آنکھ بند ہوتی ہے تب میری زندگی کے 60 روشن سکینڈ ضائع ہو جاتے ہیں۔ میں تب بولتا ہوں جب دوسرے خاموش ہو جاتے ہیں۔ میں تب جاگتا ہوں جب دوسرے سو رہے ہوں، کیونکہ مستقبل ہر بوڑھے یا جوان کو نصیب نہیں ہوتا ۔
(function(d, s, id) { var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = 'https://connect.facebook.net/en_GB/sdk.js#xfbml=1&version=v3.2&appId=779689922180506&autoLogAppEvents=1'; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); }(document, 'script', 'facebook-jssdk'));
The post جب ایک غیر شادی شدہ خاتون 30 سال کی عمر کو پہنچتی ہے تو اس کے جذبات و خیالات کیا ہوتے ہیں؟ appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain http://bit.ly/2CIt2ha via Today Urdu News
0 notes
katarinadreams92 · 6 years ago
Text
جب ایک غیر شادی شدہ خاتون 30 سال کی عمر کو پہنچتی ہے تو اس کے جذبات و خیالات کیا ہوتے ہیں؟
جب ایک غیر شادی شدہ مصری خاتون تیس برس کی ہوتی ہے۔گھڑی کی سوئیاں رات کے 12 بجنے کا اعلان کرتی ہیں۔ میں اپنی زندگی کی تیسری دہائی ختم کر کے چوتھے عشرے میں داخل ہو رہی ہوں۔ میری زندگی میں سنجیدگی، بلوغت اور گرم جوشی کا ایک نیا دورشروع ہو رہا ہے۔ میرے ارد گرد سب مجھے کئی روز سے یقین دلا
رہے ہیں کہ اس سالگرہ پر کوئی بہت اہم مابعدالطبعیاتی واقعہ رونما ہونے جا رہا ہے ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جیسے ہی گھڑی نے6جولائی کے نئے دن کا آغاز کیا تو میں
نے کوئی خاص تبدیلی محسوس نہیں کی۔ وہی پرانی امیدیں اور خوف میرے ساتھ تھے۔میں رباب فتحی ہوں ، ایک تیس سالہ غیر شادی شدہ مصری صحافی۔ جب سے میں اپنی عمر کے تیسویں سال میں داخل ہوئی ۔ مجھے بار بار اپنی آزادزندگی کے بارے میں اس سوال کا سامنا کرنا پڑتا:’آپ کی ابھی تک شادی کیوں نہیں ہو پائی؟‘ یا پھر اسی حوالے سے اشاروں میں سوال کیا جاتا:’کوئی تازہ خبر؟ ‘
یا پھر مجھے دعا دی جاتی کہ خدا کرے تمہاری جلد شادی ہو جائے، اس کے ساتھ مجھے دلچسپ کہانیاں بھی سنائی جاتیں ، ’شادی زندگی کا حصہ ہے، مجھے ایک مرد کی سخت ضرورت ہے جس کے ساتھ میں اپنی زندگی کا ہر پل بانٹ سکوں۔ ان کہانیوں سے مجھے یہ لگنے لگتا کہ مجھے واقعی اپنی زندگی کو نئے سرے سے شروع کرنا چاہئیے۔ ‘مصری میں ایک کنواری خاتون ہونے کے ناتے پہلے پہل مرا جواب خاصا عامیانہہوتا تھا، جیسا کہ مری دادی مجھ سے کہا کرتی تھیں ’’میرے لئے شادی کرو اورخوش رہو بیٹیا‘۔
میں اپنی دادی کو جواب دیا کرتی تھیں:’دادی جان! آپ میرے بارے میں مطمئن رہیں کیونکہ میں اپنی زندگی سے بہت خوش ہوں۔ ‘اور میرا واقعی یہی مطلب ہوا کرتاتھا۔میں خود کو ان چند خوش قسمت افراد میں شامل کرتی ہوں جنہیں زندگی نے عظیم ماں باپ کی دولت سے مالا مال کیا۔میرے ماں باپ یہ جانتے تھے کہ بچوں کی کس طرح تربیت کرنی ہے۔ میرے والدین نے میرے تمام فیصلوں کو اہمیت دی ہے ،انہوں نے مجھے کبھی بھی شادی کے لئے نہیں اکسایا۔
اس کے برعکس مجھے سکھایا کہ بہترین تعلیم، خود انحصاری، اور لگن کامیاب زندگی کا صحیح نسخہ ہے۔میرے والد کا قول ہے:’آپ تب تک آزاد ہیں جب تک کوئی آپ کو نقصان نہ پہنچائے۔‘ ان کی یہی کوشش رہی کہ ان کی تربیت میری عملی زندگی میں شامل ہو۔ مری والدہ بھی والد سے مختلف نہیں تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ عمر کے تیسویں سال میں غیر شادی شدہ ہونا میرے لئے کسی طرح سے بھی مسئلہ نہیں رہا حالانکہ اس حوالے سے مصری روایات خاصی تکلیف دہ ہیں۔مصر میں کسی بھی غیرملکی یا اجنبی سے پہلا سوالاس کی عمر کے حوالے سے کیا جاتا ہے۔
مصری سمجھتے ہیں کہ تعلیم اور ہنر سیکھنے کی ایک عمر ہوتی ہے۔ وہ ہر اس کام سے ہاتھ کھینچ لیتے ہیں جو ان کی عمر کی مناسبت سے نہ رکھتاہو۔ بعض اوقات وہ خود کو کھلکھلا کر ہنسنے اور مسکرانے سے بھی روک لیتے ہیں کیونکہ یہ انکی عمر کی مناسبت سے درست نہیں۔ایسے ماحول میں مجھے تیس برس کا ہو نا ایک چیلنج لگا۔ میں نے اپنے ارد گرد کے لوگوں سے عمر ، جذبات اور سفید بالوں کے حوالے سے ہمیشہ منفی رائے ہی سنی۔ آپ جب بھی باہر کہیں کھانا کھانے کے لئے انہیں کہیں گے توجواب گا کہ ان کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں، وہ کیسے باہر جا سکتے ہیں؟
والدین کے لئے اپنے بچوں کے ساتھ اچھی اور بھرپور زندگی کا توازن قائم رکھنا بہت مشکل ہے۔ اپنی زندگی کے بہترین وقت کو ضائع کر کے اس کی شکایت کرنے اور اس وقت کو یاد کرکے شکایت کرنے کا کوئی جواز نہیں ۔میرا کہنا ہے کہ وہ زندگی بھرپور انداز میں جی سکتے ہیں۔مجھے لگتا ہے کہ میرے حلقہ احباب میں سب لوگ جیسے مردہ بیٹری سیل ہیں۔
ان سے جب بھی کہا جاتا ہے کہ آؤ کچھنیا سیکھتے ہیں جیسا تو ان کی جانب سے یہ سننے کو ملتاہے،’ کیا بچگانہ بات کر رہی ہو۔‘ میرا خیال ہے کہ کہ جب تک آپ اور آپ کے پیارے تندرست ہیں تب تک آپ کو یہ حق نہیں کہ آپ گزرے وقت کی شکایت کرتے پھریں۔مصری معاشرے میں کسی تخلیقی کام کے بغیر کنوارے پن کے ساتھ بڑھاپے کی طرف سفر خاصہ کٹھن ہے ۔
مثال کے طور قاہرہ کے گھٹن زدہ ماحول میں دوڑ لگانا یا سائیکل چلانایا پھرکوئی ادبی محفل ڈھونڈنایا کھانا پکاناسیکھنا خاصا دشوار ہے۔ اگر آپ خودسے کچھ کرنا چاہیں بھی تو ارد گرد کے ماحول کی وجہ سے یہ بھی آسان نہیں۔میں جانتی ہوں کہ گزرتی زندگی کے ساتھ ہماری معصومیت ختم ہوتی جاتی ہے اور ایک طرح کی دانائی ہمیں آ لیتی ہے۔ زندگی وہ راستہ ہے جہاں درد دل کے ساتھ نئے تجربات ہاتھ آتے ہیں۔
اگر آپ ناممکنات کو حقیقت میں بدلنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تو یہ زندگی ایک بوجھ بن جاتی ہے۔مصر میں مرداور عورتیں 30 کی عمر کو پہنچتے ہیں تو ان کے دوست بھی کم ہوجاتے ہیں اور ان کی سماجی سر گرمیاں بھی کم ہو جاتی ہیں۔لیکن زندگی اتنی بھی سنگین نہیں ہے۔ پمہں ایسے لوگ بھی ملتے ہیں جواپنے ٹھوس اورمضبوط خیالات سے ہماری زندگیاں بدل دیتے ہیں۔تین سال پہلے مجھے مریان ملی ۔
اس نے مجھے اپنے بک کلب میں شامل کر لیا جو سات حیرت انگیز خواتین پر مشتمل تھا۔ ہم اکٹھے کتاب پڑھتے اور پھراس پر بحث کے لئے ایک مخصوص جگہ پر ملتے۔ اس گروپ تھراپی سے ہمیں زندگی کا معنی ملنے لگا ۔میں سمجھتی ہوں کہ یہ ضروری نہیں کہ آپ نے زندگی کہ کتنے سال گزارے بلکہ یہ ضروری ہے کہ آپ نے کتنا عرصہ زندگی کو بھرپور اور بہترین طریقے سے جیا ۔
میری دادی نے ایک بار کہا تھا:’جوایک ہی جگہ پر زندہ رہتے ہیں وہ صرف ��قت گزارتے ہیں مگر وہ جو سفر کرتے ہیں وہ بہت کچھ دیکھتے ہیں‘۔ہاں! میں 30 کی ہو گئی ہوں، میں مصر میں رہتی ہوں، میں خود کو خوش قسمت تصور کرتی ہوں کیونکہ یہاں ایسا بہت کچھ ہے جس سے میں لطف اندوز ہوتی ہوں۔میں اس قابل ہوں کہ اپنے خواب محسوس کر سکوں، کھوج جاری رکھ سکوں۔
میں خود کو ہر روز یہ یاد دلاتی ہوں مجھے زندگی سے کچھ بڑھ کر عطا کیا گیاہے جیسا کہ گبریل گارشیا مارکیز کہتا ہے:’ میں کم سوتا ہوں، میں زیادہ خواب دیکھ سکتا ہوں کیونکہ میں جانتا ہوں ہر منٹ میں جب مری آنکھ بند ہوتی ہے تب میری زندگی کے 60 روشن سکینڈ ضائع ہو جاتے ہیں۔ میں تب بولتا ہوں جب دوسرے خاموش ہو جاتے ہیں۔ میں تب جاگتا ہوں جب دوسرے سو رہے ہوں، کیونکہ مستقبل ہر بوڑھے یا جوان کو نصیب نہیں ہوتا ۔
(function(d, s, id) { var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = 'https://connect.facebook.net/en_GB/sdk.js#xfbml=1&version=v3.2&appId=779689922180506&autoLogAppEvents=1'; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); }(document, 'script', 'facebook-jssdk'));
The post جب ایک غیر شادی شدہ خاتون 30 سال کی عمر کو پہنچتی ہے تو اس کے جذبات و خیالات کیا ہوتے ہیں؟ appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain http://bit.ly/2CIt2ha via Hindi Khabrain
0 notes
indy-guardiadossonhos · 6 years ago
Text
جب ایک غیر شادی شدہ خاتون 30 سال کی عمر کو پہنچتی ہے تو اس کے جذبات و خیالات کیا ہوتے ہیں؟
جب ایک غیر شادی شدہ مصری خاتون تیس برس کی ہوتی ہے۔گھڑی کی سوئیاں رات کے 12 بجنے کا اعلان کرتی ہیں۔ میں اپنی زندگی کی تیسری دہائی ختم کر کے چوتھے عشرے میں داخل ہو رہی ہوں۔ میری زندگی میں سنجیدگی، بلوغت اور گرم جوشی کا ایک نیا دورشروع ہو رہا ہے۔ میرے ارد گرد سب مجھے کئی روز سے یقین دلا
رہے ہیں کہ اس سالگرہ پر کوئی بہت اہم مابعدالطبعیاتی واقعہ رونما ہونے جا رہا ہے ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جیسے ہی گھڑی نے6جولائی کے نئے دن کا آغاز کیا تو میں
نے کوئی خاص تبدیلی محسوس نہیں کی۔ وہی پرانی امیدیں اور خوف میرے ساتھ تھے۔میں رباب فتحی ہوں ، ایک تیس سالہ غیر شادی شدہ مصری صحافی۔ جب سے میں اپنی عمر کے تیسویں سال میں داخل ہوئی ۔ مجھے بار بار اپنی آزادزندگی کے بارے میں اس سوال کا سامنا کرنا پڑتا:’آپ کی ابھی تک شادی کیوں نہیں ہو پائی؟‘ یا پھر اسی حوالے سے اشاروں میں سوال کیا جاتا:’کوئی تازہ خبر؟ ‘
یا پھر مجھے دعا دی جاتی کہ خدا کرے تمہاری جلد شادی ہو جائے، اس کے ساتھ مجھے دلچسپ کہانیاں بھی سنائی جاتیں ، ’شادی زندگی کا حصہ ہے، مجھے ایک مرد کی سخت ضرورت ہے جس کے ساتھ میں اپنی زندگی کا ہر پل بانٹ سکوں۔ ان کہانیوں سے مجھے یہ لگنے لگتا کہ مجھے واقعی اپنی زندگی کو نئے سرے سے شروع کرنا چاہئیے۔ ‘مصری میں ایک کنواری خاتون ہونے کے ناتے پہلے پہل مرا جواب خاصا عامیانہہوتا تھا، جیسا کہ مری دادی مجھ سے کہا کرتی تھیں ’’میرے لئے شادی کرو اورخوش رہو بیٹیا‘۔
میں اپنی دادی کو جواب دیا کرتی تھیں:’دادی جان! آپ میرے بارے میں مطمئن رہیں کیونکہ میں اپنی زندگی سے بہت خوش ہوں۔ ‘اور میرا واقعی یہی مطلب ہوا کرتاتھا۔میں خود کو ان چند خوش قسمت افراد میں شامل کرتی ہوں جنہیں زندگی نے عظیم ماں باپ کی دولت سے مالا مال کیا۔میرے ماں باپ یہ جانتے تھے کہ بچوں کی کس طرح تربیت کرنی ہے۔ میرے والدین نے میرے تمام فیصلوں کو اہمیت دی ہے ،انہوں نے مجھے کبھی بھی شادی کے لئے نہیں اکسایا۔
اس کے برعکس مجھے سکھایا کہ بہترین تعلیم، خود انحصاری، اور لگن کامیاب زندگی کا صحیح نسخہ ہے۔میرے والد کا قول ہے:’آپ تب تک آزاد ہیں جب تک کوئی آپ کو نقصان نہ پہنچائے۔‘ ان کی یہی کوشش رہی کہ ان کی تربیت میری عملی زندگی میں شامل ہو۔ مری والدہ بھی والد سے مختلف نہیں تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ عمر کے تیسویں سال میں غیر شادی شدہ ہونا میرے لئے کسی طرح سے بھی مسئلہ نہیں رہا حالانکہ اس حوالے سے مصری روایات خاصی تکلیف دہ ہیں۔مصر میں کسی بھی غیرملکی یا اجنبی سے پہلا سوالاس کی عمر کے حوالے سے کیا جاتا ہے۔
مصری سمجھتے ہیں کہ تعلیم اور ہنر سیکھنے کی ایک عمر ہوتی ہے۔ وہ ہر اس کام سے ہاتھ کھینچ لیتے ہیں جو ان کی عمر کی مناسبت سے نہ رکھتاہو۔ بعض اوقات وہ خود کو کھلکھلا کر ہنسنے اور مسکرانے سے بھی روک لیتے ہیں کیونکہ یہ انکی عمر کی مناسبت سے درست نہیں۔ایسے ماحول میں مجھے تیس برس کا ہو نا ایک چیلنج لگا۔ میں نے اپنے ارد گرد کے لوگوں سے عمر ، جذبات اور سفید بالوں کے حوالے سے ہمیشہ منفی رائے ہی سنی۔ آپ جب بھی باہر کہیں کھانا کھانے کے لئے انہیں کہیں گے توجواب گا کہ ان کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں، وہ کیسے باہر جا سکتے ہیں؟
والدین کے لئے اپنے بچوں کے ساتھ اچھی اور بھرپور زندگی کا توازن قائم رکھنا بہت مشکل ہے۔ اپنی زندگی کے بہترین وقت کو ضائع کر کے اس کی شکایت کرنے اور اس وقت کو یاد کرکے شکایت کرنے کا کوئی جواز نہیں ۔میرا کہنا ہے کہ وہ زندگی بھرپور انداز میں جی سکتے ہیں۔مجھے لگتا ہے کہ میرے حلقہ احباب میں سب لوگ جیسے مردہ بیٹری سیل ہیں۔
ان سے جب بھی کہا جاتا ہے کہ آؤ کچھنیا سیکھتے ہیں جیسا تو ان کی جانب سے یہ سننے کو ملتاہے،’ کیا بچگانہ بات کر رہی ہو۔‘ میرا خیال ہے کہ کہ جب تک آپ اور آپ کے پیارے تندرست ہیں تب تک آپ کو یہ حق نہیں کہ آپ گزرے وقت کی شکایت کرتے پھریں۔مصری معاشرے میں کسی تخلیقی کام کے بغیر کنوارے پن کے ساتھ بڑھاپے کی طرف سفر خاصہ کٹھن ہے ۔
مثال کے طور قاہرہ کے گھٹن زدہ ماحول میں دوڑ لگانا یا سائیکل چلانایا پھرکوئی ادبی محفل ڈھونڈنایا کھانا پکاناسیکھنا خاصا دشوار ہے۔ اگر آپ خودسے کچھ کرنا چاہیں بھی تو ارد گرد کے ماحول کی وجہ سے یہ بھی آسان نہیں۔میں جانتی ہوں کہ گزرتی زندگی کے ساتھ ہماری معصومیت ختم ہوتی جاتی ہے اور ایک طرح کی دانائی ہمیں آ لیتی ہے۔ زندگی وہ راستہ ہے جہاں درد دل کے ساتھ نئے تجربات ہاتھ آتے ہیں۔
اگر آپ ناممکنات کو حقیقت میں بدلنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تو یہ زندگی ایک بوجھ بن جاتی ہے۔مصر میں مرداور عورتیں 30 کی عمر کو پہنچتے ہیں تو ان کے دوست بھی کم ہوجاتے ہیں اور ان کی سماجی سر گرمیاں بھی کم ہو جاتی ہیں۔لیکن زندگی اتنی بھی سنگین نہیں ہے۔ پمہں ایسے لوگ بھی ملتے ہیں جواپنے ٹھوس اورمضبوط خیالات سے ہماری زندگیاں بدل دیتے ہیں۔تین سال پہلے مجھے مریان ملی ۔
اس نے مجھے اپنے بک کلب میں شامل کر لیا جو سات حیرت انگیز خواتین پر مشتمل تھا۔ ہم اکٹھے کتاب پڑھتے اور پھراس پر بحث کے لئے ایک مخصوص جگہ پر ملتے۔ اس گروپ تھراپی سے ہمیں زندگی کا معنی ملنے لگا ۔میں سمجھتی ہوں کہ یہ ضروری نہیں کہ آپ نے زندگی کہ کتنے سال گزارے بلکہ یہ ضروری ہے کہ آپ نے کتنا عرصہ زندگی کو بھرپور اور بہترین طریقے سے جیا ۔
میری دادی نے ایک بار کہا تھا:’جوایک ہی جگہ پر زندہ رہتے ہیں وہ صرف وقت گزارتے ہیں مگر وہ جو سفر کرتے ہیں وہ بہت کچھ دیکھتے ہیں‘۔ہاں! میں 30 کی ہو گئی ہوں، میں مصر میں رہتی ہوں، میں خود کو خوش قسمت تصور کرتی ہوں کیونکہ یہاں ایسا بہت کچھ ہے جس سے میں لطف اندوز ہوتی ہوں۔میں اس قابل ہوں کہ اپنے خواب محسوس کر سکوں، کھوج جاری رکھ سکوں۔
میں خود کو ہر روز یہ یاد دلاتی ہوں مجھے زندگی سے کچھ بڑھ کر عطا کیا گیاہے جیسا کہ گبریل گارشیا مارکیز کہتا ہے:’ میں کم سوتا ہوں، میں زیادہ خواب دیکھ سکتا ہوں کیونکہ میں جانتا ہوں ہر منٹ میں جب مری آنکھ بند ہوتی ہے تب میری زندگی کے 60 روشن سکینڈ ضائع ہو جاتے ہیں۔ میں تب بولتا ہوں جب دوسرے خاموش ہو جاتے ہیں۔ میں تب جاگتا ہوں جب دوسرے سو رہے ہوں، کیونکہ مستقبل ہر بوڑھے یا جوان کو نصیب نہیں ہوتا ۔
(function(d, s, id) { var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = 'https://connect.facebook.net/en_GB/sdk.js#xfbml=1&version=v3.2&appId=779689922180506&autoLogAppEvents=1'; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); }(document, 'script', 'facebook-jssdk'));
The post جب ایک غیر شادی شدہ خاتون 30 سال کی عمر کو پہنچتی ہے تو اس کے جذبات و خیالات کیا ہوتے ہیں؟ appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain http://bit.ly/2CIt2ha via Urdu News
0 notes
aj-thecalraisen · 6 years ago
Text
جب ایک غیر شادی شدہ خاتون 30 سال کی عمر کو پہنچتی ہے تو اس کے جذبات و خیالات کیا ہوتے ہیں؟
جب ایک غیر شادی شدہ مصری خاتون تیس برس کی ہوتی ہے۔گھڑی کی سوئیاں رات کے 12 بجنے کا اعلان کرتی ہیں۔ میں اپنی زندگی کی تیسری دہائی ختم کر کے چوتھے عشرے میں داخل ہو رہی ہوں۔ میری زندگی میں سنجیدگی، بلوغت اور گرم جوشی کا ایک نیا دورشروع ہو رہا ہے۔ میرے ارد گرد سب مجھے کئی روز سے یقین دلا
رہے ہیں کہ اس سالگرہ پر کوئی بہت اہم مابعدالطبعیاتی واقعہ رونما ہونے جا رہا ہے ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جیسے ہی گھڑی نے6جولائی کے نئے دن کا آغاز کیا تو میں
نے کوئی خاص تبدیلی محسوس نہیں کی۔ وہی پرانی امیدیں اور خوف میرے ساتھ تھے۔میں رباب فتحی ہوں ، ایک تیس سالہ غیر شادی شدہ مصری صحافی۔ جب سے میں اپنی عمر کے تیسویں سال میں داخل ہوئی ۔ مجھے بار بار اپنی آزادزندگی کے بارے میں اس سوال کا سامنا کرنا پڑتا:’آپ کی ابھی تک شادی کیوں نہیں ہو پائی؟‘ یا پھر اسی حوالے سے اشاروں میں سوال کیا جاتا:’کوئی تازہ خبر؟ ‘
یا پھر مجھے دعا دی جاتی کہ خدا کرے تمہاری جلد شادی ہو جائے، اس کے ساتھ مجھے دلچسپ کہانیاں بھی سنائی جاتیں ، ’شادی زندگی کا حصہ ہے، مجھے ایک مرد کی سخت ضرورت ہے جس کے ساتھ میں اپنی زندگی کا ہر پل بانٹ سکوں۔ ان کہانیوں سے مجھے یہ لگنے لگتا کہ مجھے واقعی اپنی زندگی کو نئے سرے سے شروع کرنا چاہئیے۔ ‘مصری میں ایک کنواری خاتون ہونے کے ناتے پہلے پہل مرا جواب خاصا عامیانہہوتا تھا، جیسا کہ مری دادی مجھ سے کہا کرتی تھیں ’’میرے لئے شادی کرو اورخوش رہو بیٹیا‘۔
میں اپنی دادی کو جواب دیا کرتی تھیں:’دادی جان! آپ میرے بارے میں مطمئن رہیں کیونکہ میں اپنی زندگی سے بہت خوش ہوں۔ ‘اور میرا واقعی یہی مطلب ہوا کرتاتھا۔میں خود کو ان چند خوش قسمت افراد میں شامل کرتی ہوں جنہیں زندگی نے عظیم ماں باپ کی دولت سے مالا مال کیا۔میرے ماں باپ یہ جانتے تھے کہ بچوں کی کس طرح تربیت کرنی ہے۔ میرے والدین نے میرے تمام فیصلوں کو اہمیت دی ہے ،انہوں نے مجھے کبھی بھی شادی کے لئے نہیں اکسایا۔
اس کے برعکس مجھے سکھایا کہ بہترین تعلیم، خود انحصاری، اور لگن کامیاب زندگی کا صحیح نسخہ ہے۔میرے والد کا قول ہے:’آپ تب تک آزاد ہیں جب تک کوئی آپ کو نقصان نہ پہنچائے۔‘ ان کی یہی کوشش رہی کہ ان کی تربیت میری عملی زندگی میں شامل ہو۔ مری والدہ بھی والد سے مختلف نہیں تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ عمر کے تیسویں سال میں غیر شادی شدہ ہونا میرے لئے کسی طرح سے بھی مسئلہ نہیں رہا حالانکہ اس حوالے سے مصری روایات خاصی تکلیف دہ ہیں۔مصر میں کسی بھی غیرملکی یا اجنبی سے پہلا سوالاس کی عمر کے حوالے سے کیا جاتا ہے۔
مصری سمجھتے ہیں کہ تعلیم اور ہنر سیکھنے کی ایک عمر ہوتی ہے۔ وہ ہر اس کام سے ہاتھ کھینچ لیتے ہیں جو ان کی عمر کی مناسبت سے نہ رکھتاہو۔ بعض اوقات وہ خود کو کھلکھلا کر ہنسنے اور مسکرانے سے بھی روک لیتے ہیں کیونکہ یہ انکی عمر کی مناسبت سے درست نہیں۔ایسے ماحول میں مجھے تیس برس کا ہو نا ایک چیلنج لگا۔ میں نے اپنے ارد گرد کے لوگوں سے عمر ، جذبات اور سفید بالوں کے حوالے سے ہمیشہ منفی رائے ہی سنی۔ آپ جب بھی باہر کہیں کھانا کھانے کے لئے انہیں کہیں گے توجواب گا کہ ان کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں، وہ کیسے باہر جا سکتے ہیں؟
والدین کے لئے اپنے بچوں کے ساتھ اچھی اور بھرپور زندگی کا توازن قائم رکھنا بہت مشکل ہے۔ اپنی زندگی کے بہترین وقت کو ضائع کر کے اس کی شکایت کرنے اور اس وقت کو یاد کرکے شکایت کرنے کا کوئی جواز نہیں ۔میرا کہنا ہے کہ وہ زندگی بھرپور انداز میں جی سکتے ہیں۔مجھے لگتا ہے کہ میرے حلقہ احباب میں سب لوگ جیسے مردہ بیٹری سیل ہیں۔
ان سے جب بھی کہا جاتا ہے کہ آؤ کچھنیا سیکھتے ہیں جیسا تو ان کی جانب سے یہ سننے کو ملتاہے،’ کیا بچگانہ بات کر رہی ہو۔‘ میرا خیال ہے کہ کہ جب تک آپ اور آپ کے پیارے تندرست ہیں تب تک آپ کو یہ حق نہیں کہ آپ گزرے وقت کی شکایت کرتے پھریں۔مصری معاشرے میں کسی تخلیقی کام کے بغیر کنوارے پن کے ساتھ بڑھاپے کی طرف سفر خاصہ کٹھن ہے ۔
مثال کے طور قاہرہ کے گھٹن زدہ ماحول میں دوڑ لگانا یا سائیکل چلانایا پھرکوئی ادبی محفل ڈھونڈنایا کھانا پکاناسیکھنا خاصا دشوار ہے۔ اگر آپ خودسے کچھ کرنا چاہیں بھی تو ارد گرد کے ماحول کی وجہ سے یہ بھی آسان نہیں۔میں جانتی ہوں کہ گزرتی زندگی کے ساتھ ہماری معصومیت ختم ہوتی جاتی ہے اور ایک طرح کی دانائی ہمیں آ لیتی ہے۔ زندگی وہ راستہ ہے جہاں درد دل کے ساتھ نئے تجربات ہاتھ آتے ہیں۔
اگر آپ ناممکنات کو حقیقت میں بدلنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تو یہ زندگی ایک بوجھ بن جاتی ہے۔مصر میں مرداور عورتیں 30 کی عمر کو پہنچتے ہیں تو ان کے دوست بھی کم ہوجاتے ہیں اور ان کی سماجی سر گرمیاں بھی کم ہو جاتی ہیں۔لیکن زندگی اتنی بھی سنگین نہیں ہے۔ پمہں ایسے لوگ بھی ملتے ہیں جواپنے ٹھوس اورمضبوط خیالات سے ہماری زندگیاں بدل دیتے ہیں۔تین سال پہلے مجھے مریان ملی ۔
اس نے مجھے اپنے بک کلب میں شامل کر لیا جو سات حیرت انگیز خواتین پر مشتمل تھا۔ ہم اکٹھے کتاب پڑھتے اور پھراس پر بحث کے لئے ایک مخصوص جگہ پر ملتے۔ اس گروپ تھراپی سے ہمیں زندگی کا معنی ملنے لگا ۔میں سمجھتی ہوں کہ یہ ضروری نہیں کہ آپ نے زندگی کہ کتنے سال گزارے بلکہ یہ ضروری ہے کہ آپ نے کتنا عرصہ زندگی کو بھرپور اور بہترین طریقے سے جیا ۔
میری دادی نے ایک بار کہا تھا:’جوایک ہی جگہ پر زندہ رہتے ہیں وہ صرف وقت گزارتے ہیں مگر وہ جو سفر کرتے ہیں وہ بہت کچھ دیکھتے ہیں‘۔ہاں! میں 30 کی ہو گئی ہوں، میں مصر میں رہتی ہوں، میں خود کو خوش قسمت تصور کرتی ہوں کیونکہ یہاں ایسا بہت کچھ ہے جس سے میں لطف اندوز ہوتی ہوں۔میں اس قابل ہوں کہ اپنے خواب محسوس کر سکوں، کھوج جاری رکھ سکوں۔
میں خود کو ہر روز یہ یاد دلاتی ہوں مجھے زندگی سے کچھ بڑھ کر عطا کیا گیاہے جیسا کہ گبریل گارشیا مارکیز کہتا ہے:’ میں کم سوتا ہوں، میں زیادہ خواب دیکھ سکتا ہوں کیونکہ میں جانتا ہوں ہر منٹ میں جب مری آنکھ بند ہوتی ہے تب میری زندگی کے 60 روشن سکینڈ ضائع ہو جاتے ہیں۔ میں تب بولتا ہوں جب دوسرے خاموش ہو جاتے ہیں۔ میں تب جاگتا ہوں جب دوسرے سو رہے ہوں، کیونکہ مستقبل ہر بوڑھے یا جوان کو نصیب نہیں ہوتا ۔
(function(d, s, id) { var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = 'https://connect.facebook.net/en_GB/sdk.js#xfbml=1&version=v3.2&appId=779689922180506&autoLogAppEvents=1'; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); }(document, 'script', 'facebook-jssdk'));
The post جب ایک غیر شادی شدہ خاتون 30 سال کی عمر کو پہنچتی ہے تو اس کے جذبات و خیالات کیا ہوتے ہیں؟ appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain http://bit.ly/2CIt2ha via Urdu News
0 notes
summermkelley · 6 years ago
Text
جب ایک غیر شادی شدہ خاتون 30 سال کی عمر کو پہنچتی ہے تو اس کے جذبات و خیالات کیا ہوتے ہیں؟
جب ایک غیر شادی شدہ مصری خاتون تیس برس کی ہوتی ہے۔گھڑی کی سوئیاں رات کے 12 بجنے کا اعلان کرتی ہیں۔ میں اپنی زندگی کی تیسری دہائی ختم کر کے چوتھے عشرے میں داخل ہو رہی ہوں۔ میری زندگی میں سنجیدگی، بلوغت اور گرم جوشی کا ایک نیا دورشروع ہو رہا ہے۔ میرے ارد گرد سب مجھے کئی روز سے یقین دلا
رہے ہیں کہ اس سالگرہ پر کوئی بہت اہم مابعدالطبعیاتی واقعہ رونما ہونے جا رہا ہے ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جیسے ہی گھڑی نے6جولائی کے نئے دن کا آغاز کیا تو میں
نے کوئی خاص تبدیلی محسوس نہیں کی۔ وہی پرانی امیدیں اور خوف میرے ساتھ تھے۔میں رباب فتحی ہوں ، ایک تیس سالہ غیر شادی شدہ مصری صحافی۔ جب سے میں اپنی عمر کے تیسویں سال میں داخل ہوئی ۔ مجھے بار بار اپنی آزادزندگی کے بارے میں اس سوال کا سامنا کرنا پڑتا:’آپ کی ابھی تک شادی کیوں نہیں ہو پائی؟‘ یا پھر اسی حوالے سے اشاروں میں سوال کیا جاتا:’کوئی تازہ خبر؟ ‘
یا پھر مجھے دعا دی جاتی کہ خدا کرے تمہاری جلد شادی ہو جائے، اس کے ساتھ مجھے دلچسپ کہانیاں بھی سنائی جاتیں ، ’شادی زندگی کا حصہ ہے، مجھے ایک مرد کی سخت ضرورت ہے جس کے ساتھ میں اپنی زندگی کا ہر پل بانٹ سکوں۔ ان کہانیوں سے مجھے یہ لگنے لگتا کہ مجھے واقعی اپنی زندگی کو نئے سرے سے شروع کرنا چاہئیے۔ ‘مصری میں ایک کنواری خاتون ہونے کے ناتے پہلے پہل مرا جواب خاصا عامیانہہوتا تھا، جیسا کہ مری دادی مجھ سے کہا کرتی تھیں ’’میرے لئے شادی کرو اورخوش رہو بیٹیا‘۔
میں اپنی دادی کو جواب دیا کرتی تھیں:’دادی جان! آپ میرے بارے میں مطمئن رہیں کیونکہ میں اپنی زندگی سے بہت خوش ہوں۔ ‘اور میرا واقعی یہی مطلب ہوا کرتاتھا۔میں خود کو ان چند خوش قسمت افراد میں شامل کرتی ہوں جنہیں زندگی نے عظیم ماں باپ کی دولت سے مالا مال کیا۔میرے ماں باپ یہ جانتے تھے کہ بچوں کی کس طرح تربیت کرنی ہے۔ میرے والدین نے میرے تمام فیصلوں کو اہمیت دی ہے ،انہوں نے مجھے کبھی بھی شادی کے لئے نہیں اکسایا۔
اس کے برعکس مجھے سکھایا کہ بہترین تعلیم، خود انحصاری، اور لگن کامیاب زندگی کا صحیح نسخہ ہے۔میرے والد کا قول ہے:’آپ تب تک آزاد ہیں جب تک کوئی آپ کو نقصان نہ پہنچائے۔‘ ان کی یہی کوشش رہی کہ ان کی تربیت میری عملی زندگی میں شامل ہو۔ مری والدہ بھی والد سے مختلف نہیں تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ عمر کے تیسویں سال میں غیر شادی شدہ ہونا میرے لئے کسی طرح سے بھی مسئلہ نہیں رہا حالانکہ اس حوالے سے مصری روایات خاصی تکلیف دہ ہیں۔مصر میں کسی بھی غیرملکی یا اجنبی سے پہلا سوالاس کی عمر کے حوالے سے کیا جاتا ہے۔
مصری سمجھتے ہیں کہ تعلیم اور ہنر سیکھنے کی ایک عمر ہوتی ہے۔ وہ ہر اس کام سے ہاتھ کھینچ لیتے ہیں جو ان کی عمر کی مناسبت سے نہ رکھتاہو۔ بعض اوقات وہ خود کو کھلکھلا کر ہنسنے اور مسکرانے سے بھی روک لیتے ہیں کیونکہ یہ انکی عمر کی مناسبت سے درست نہیں۔ایسے ماحول میں مجھے تیس برس کا ہو نا ایک چیلنج لگا۔ میں نے اپنے ارد گرد کے لوگوں سے عمر ، جذبات اور سفید بالوں کے حوالے سے ہمیشہ منفی رائے ہی سنی۔ آپ جب بھی باہر کہیں کھانا کھانے کے لئے انہیں کہیں گے توجواب گا کہ ان کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں، وہ کیسے باہر جا سکتے ہیں؟
والدین کے لئے اپنے بچوں کے ساتھ اچھی اور بھرپور زندگی کا توازن قائم رکھنا بہت مشکل ہے۔ اپنی زندگی کے بہترین وقت کو ضائع کر کے اس کی شکایت کرنے اور اس وقت کو یاد کرکے شکایت کرنے کا کوئی جواز نہیں ۔میرا کہنا ہے کہ وہ زندگی بھرپور انداز میں جی سکتے ہیں۔مجھے لگتا ہے کہ میرے حلقہ احباب میں سب لوگ جیسے مردہ بیٹری سیل ہیں۔
ان سے جب بھی کہا جاتا ہے کہ آؤ کچھنیا سیکھتے ہیں جیسا تو ان کی جانب سے یہ سننے کو ملتاہے،’ کیا بچگانہ بات کر رہی ہو۔‘ میرا خیال ہے کہ کہ جب تک آپ اور آپ کے پیارے تندرست ہیں تب تک آپ کو یہ حق نہیں کہ آپ گزرے وقت کی شکایت کرتے پھریں۔مصری معاشرے میں کسی تخلیقی کام کے بغیر کنوارے پن کے ساتھ بڑھاپے کی طرف سفر خاصہ کٹھن ہے ۔
مثال کے طور قاہرہ کے گھٹن زدہ ماحول میں دوڑ لگانا یا سائیکل چلانایا پھرکوئی ادبی محفل ڈھونڈنایا کھانا پکاناسیکھنا خاصا دشوار ہے۔ اگر آپ خودسے کچھ کرنا چاہیں بھی تو ارد گرد کے ماحول کی وجہ سے یہ بھی آسان نہیں۔میں جانتی ہوں کہ گزرتی زندگی کے ساتھ ہماری معصومیت ختم ہوتی جاتی ہے اور ایک طرح کی دانائی ہمیں آ لیتی ہے۔ زندگی وہ راستہ ہے جہاں درد دل کے ساتھ نئے تجربات ہاتھ آتے ہیں۔
اگر آپ ناممکنات کو حقیقت میں بدلنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تو یہ زندگی ایک بوجھ بن جاتی ہے۔مصر میں مرداور عورتیں 30 کی عمر کو پہنچتے ہیں تو ان کے دوست بھی کم ہوجاتے ہیں اور ان کی سماجی سر گرمیاں بھی کم ہو جاتی ہیں۔لیکن زندگی اتنی بھی سنگین نہیں ہے۔ پمہں ایسے لوگ بھی ملتے ہیں جواپنے ٹھوس اورمضبوط خیالات سے ہماری زندگیاں بدل دیتے ہیں۔تین سال پہلے مجھے مریان ملی ۔
اس نے مجھے اپنے بک کلب میں شامل کر لیا جو سات حیرت انگیز خواتین پر مشتمل تھا۔ ہم اکٹھے کتاب پڑھتے اور پھراس پر بحث کے لئے ایک مخصوص جگہ پر ملتے۔ اس گروپ تھراپی سے ہمیں زندگی کا معنی ملنے لگا ۔میں سمجھتی ہوں کہ یہ ضروری نہیں کہ آپ نے زندگی کہ کتنے سال گزارے بلکہ یہ ضروری ہے کہ آپ نے کتنا عرصہ زندگی کو بھرپور اور بہترین طریقے سے جیا ۔
میری دادی نے ایک بار کہا تھا:’جوایک ہی جگہ پر زندہ رہتے ہیں وہ صرف وقت گزارتے ہیں مگر وہ جو سفر کرتے ہیں وہ بہت کچھ دیکھتے ہیں‘۔ہاں! میں 30 کی ہو گئی ہوں، میں مصر میں رہتی ہوں، میں خود کو خوش قسمت تصور کرتی ہوں کیونکہ یہاں ایسا بہت کچھ ہے جس سے میں لطف اندوز ہوتی ہوں۔میں اس قابل ہوں کہ اپنے خواب محسوس کر سکوں، کھوج جاری رکھ سکوں۔
میں خود کو ہر روز یہ یاد دلاتی ہوں مجھے زندگی سے کچھ بڑھ کر عطا کیا گیاہے جیسا کہ گبریل گارشیا مارکیز کہتا ہے:’ میں کم سوتا ہوں، میں زیادہ خواب دیکھ سکتا ہوں کیونکہ میں جانتا ہوں ہر منٹ میں جب مری آنکھ بند ہوتی ہے تب میری زندگی کے 60 روشن سکینڈ ضائع ہو جاتے ہیں۔ میں تب بولتا ہوں جب دوسرے خاموش ہو جاتے ہیں۔ میں تب جاگتا ہوں جب دوسرے سو رہے ہوں، کیونکہ مستقبل ہر بوڑھے یا جوان کو نصیب نہیں ہوتا ۔
(function(d, s, id) { var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = 'https://connect.facebook.net/en_GB/sdk.js#xfbml=1&version=v3.2&appId=779689922180506&autoLogAppEvents=1'; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); }(document, 'script', 'facebook-jssdk'));
The post جب ایک غیر شادی شدہ خاتون 30 سال کی عمر کو پہنچتی ہے تو اس کے جذبات و خیالات کیا ہوتے ہیں؟ appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain http://bit.ly/2CIt2ha via Roznama Urdu
0 notes
mosaferkhane · 4 years ago
Photo
Tumblr media
☁️🌅☁️ در مسیر سفر، تماشای چنین چشم‌اندازی رو براتون آرزو میکنیم 💜 ‌ تماشای دریاچه ابر رو میتونین در اولسبلنگاه و سوئه چاله تو ماسال، فیلبند مازندران، جنگل ابر شاهرود، رامسر، ارتفاعات تالش مثل مریان و ... تجربه کنید ☁️☁️ ‌ برای تجربه اقامت در این مناطق کافیه کلمات بالارو در سایت #مسافرخانه جستجو کنید (لینک سایت در بایو پیج) 🗝 ‌ 🌐 website: mosaferkhane . com 🆔 instagram: @mosaferkhanecom 💬 whatsapp: 09338854741‌ ☎️ telephone: 01344663132 ‌ در صورت رزرو اقامتگاه در سایت مسافرخانه رعایت پروتکل‌های بهداشتی الزامیست 💜 ‌ ‌‌ ‌ ‌‌ #دریاچه_ابر #دریا_ابر #اقیانوس_ابر #اولسبلنگاه #اولسبلنکا #اولسبلنگا #اولاسبلانگا #اولاسبلانکا #سوئه_چاله #سوعه_چاله #سوئچاله #سوچاله #اجاره_ویلا #اجاره_کلبه #ماسال #فیلبند #سرزمین_ابرها #تالش #مریان #ییلاق_مریان #رامسر #جنگل_ابر_شاهرود #masal #olasbelangah #sochale #filband #talesh #meryan #ramsar (at Iran) https://www.instagram.com/p/CFT0ayIAQAy/?igshid=1seqy42runm6u
0 notes
amir1428 · 4 years ago
Photo
Tumblr media
#گیلان_تالش کاخ ییلاقی سردار امجد، روستای مریان کاخ سردار امجد یا همان آق اولر یکی دیگر از بناهای موجود در منطقه ییلاقی مریان می باشد روستای ییلاقی مریان از توابع بخش مرکزی تالش و در 35 کیلومتری این شهر و در ارتفاع 1080 متری از سطح دریا قرار دارد در این روستا بزرگترین گورستان عصر آهن با دخمه های سه طبقه سنگ چین با تمام لوازم زندگی کشف شده است که نشانگر تمدن این روستا در اعصار گذشته می باشد.آق اولر (واژه ایست ترکی بمعنی خانه های سفید ) https://www.instagram.com/p/CHD8sflnb7r/?igshid=19s57nunlmpim
0 notes
alltimeoverthinking · 6 years ago
Text
جب ایک غیر شادی شدہ خاتون 30 سال کی عمر کو پہنچتی ہے تو اس کے جذبات و خیالات کیا ہوتے ہیں؟
جب ایک غیر شادی شدہ مصری خاتون تیس برس کی ہوتی ہے۔گھڑی کی سوئیاں رات کے 12 بجنے کا اعلان کرتی ہیں۔ میں اپنی زندگی کی تیسری دہائی ختم کر کے چوتھے عشرے میں داخل ہو رہی ہوں۔ میری زندگی میں سنجیدگی، بلوغت اور گرم جوشی کا ایک نیا دورشروع ہو رہا ہے۔ میرے ارد گرد سب مجھے کئی روز سے یقین دلا
رہے ہیں کہ اس سالگرہ پر کوئی بہت اہم مابعدالطبعیاتی واقعہ رونما ہونے جا رہا ہے ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جیسے ہی گھڑی نے6جولائی کے نئے دن کا آغاز کیا تو میں
نے کوئی خاص تبدیلی محسوس نہیں کی۔ وہی پرانی امیدیں اور خوف میرے ساتھ تھے۔میں رباب فتحی ہوں ، ایک تیس سالہ غیر شادی شدہ مصری صحافی۔ جب سے میں اپنی عمر کے تیسویں سال میں داخل ہوئی ۔ مجھے بار بار اپنی آزادزندگی کے بارے میں اس سوال کا سامنا کرنا پڑتا:’آپ کی ابھی تک شادی کیوں نہیں ہو پائی؟‘ یا پھر اسی حوالے سے اشاروں میں سوال کیا جاتا:’کوئی تازہ خبر؟ ‘
یا پھر مجھے دعا دی جاتی کہ خدا کرے تمہاری جلد شادی ہو جائے، اس کے ساتھ مجھے دلچسپ کہانیاں بھی سنائی جاتیں ، ’شادی زندگی کا حصہ ہے، مجھے ایک مرد کی سخت ضرورت ہے جس کے ساتھ میں اپنی زندگی کا ہر پل بانٹ سکوں۔ ان کہانیوں سے مجھے یہ لگنے لگتا کہ مجھے واقعی اپنی زندگی کو نئے سرے سے شروع کرنا چاہئیے۔ ‘مصری میں ایک کنواری خاتون ہونے کے ناتے پہلے پہل مرا جواب خاصا عامیانہہوتا تھا، جیسا کہ مری دادی مجھ سے کہا کرتی تھیں ’’میرے لئے شادی کرو اورخوش رہو بیٹیا‘۔
میں اپنی دادی کو جواب دیا کرتی تھیں:’دادی جان! آپ میرے بارے میں مطمئن رہیں کیونکہ میں اپنی زندگی سے بہت خوش ہوں۔ ‘اور میرا واقعی یہی مطلب ہوا کرتاتھا۔میں خود کو ان چند خوش قسمت افراد میں شامل کرتی ہوں جنہیں زندگی نے عظیم ماں باپ کی دولت سے مالا مال کیا۔میرے ماں باپ یہ جانتے تھے کہ بچوں کی کس طرح تربیت کرنی ہ��۔ میرے والدین نے میرے تمام فیصلوں کو اہمیت دی ہے ،انہوں نے مجھے کبھی بھی شادی کے لئے نہیں اکسایا۔
اس کے برعکس مجھے سکھایا کہ بہترین تعلیم، خود انحصاری، اور لگن کامیاب زندگی کا صحیح نسخہ ہے۔میرے والد کا قول ہے:’آپ تب تک آزاد ہیں جب تک کوئی آپ کو نقصان نہ پہنچائے۔‘ ان کی یہی کوشش رہی کہ ان کی تربیت میری عملی زندگی میں شامل ہو۔ مری والدہ بھی والد سے مختلف نہیں تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ عمر کے تیسویں سال میں غیر شادی شدہ ہونا میرے لئے کسی طرح سے بھی مسئلہ نہیں رہا حالانکہ اس حوالے سے مصری روایات خاصی تکلیف دہ ہیں۔مصر میں کسی بھی غیرملکی یا اجنبی سے پہلا سوالاس کی عمر کے حوالے سے کیا جاتا ہے۔
مصری سمجھتے ہیں کہ تعلیم اور ہنر سیکھنے کی ایک عمر ہوتی ہے۔ وہ ہر اس کام سے ہاتھ کھینچ لیتے ہیں جو ان کی عمر کی مناسبت سے نہ رکھتاہو۔ بعض اوقات وہ خود کو کھلکھلا کر ہنسنے اور مسکرانے سے بھی روک لیتے ہیں کیونکہ یہ انکی عمر کی مناسبت سے درست نہیں۔ایسے ماحول میں مجھے تیس برس کا ہو نا ایک چیلنج لگا۔ میں نے اپنے ارد گرد کے لوگوں سے عمر ، جذبات اور سفید بالوں کے حوالے سے ہمیشہ منفی رائے ہی سنی۔ آپ جب بھی باہر کہیں کھانا کھانے کے لئے انہیں کہیں گے توجواب گا کہ ان کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں، وہ کیسے باہر جا سکتے ہیں؟
والدین کے لئے اپنے بچوں کے ساتھ اچھی اور بھرپور زندگی کا توازن قائم رکھنا بہت مشکل ہے۔ اپنی زندگی کے بہترین وقت کو ضائع کر کے اس کی شکایت کرنے اور اس وقت کو یاد کرکے شکایت کرنے کا کوئی جواز نہیں ۔میرا کہنا ہے کہ وہ زندگی بھرپور انداز میں جی سکتے ہیں۔مجھے لگتا ہے کہ میرے حلقہ احباب میں سب لوگ جیسے مردہ بیٹری سیل ہیں۔
ان سے جب بھی کہا جاتا ہے کہ آؤ کچھنیا سیکھتے ہیں جیسا تو ان کی جانب سے یہ سننے کو ملتاہے،’ کیا بچگانہ بات کر رہی ہو۔‘ میرا خیال ہے کہ کہ جب تک آپ اور آپ کے پیارے تندرست ہیں تب تک آپ کو یہ حق نہیں کہ آپ گزرے وقت کی شکایت کرتے پھریں۔مصری معاشرے میں کسی تخلیقی کام کے بغیر کنوارے پن کے ساتھ بڑھاپے کی طرف سفر خاصہ کٹھن ہے ۔
مثال کے طور قاہرہ کے گھٹن زدہ ماحول میں دوڑ لگانا یا سائیکل چلانایا پھرکوئی ادبی محفل ڈھونڈنایا کھانا پکاناسیکھنا خاصا دشوار ہے۔ اگر آپ خودسے کچھ کرنا چاہیں بھی تو ارد گرد کے ماحول کی وجہ سے یہ بھی آسان نہیں۔میں جانتی ہوں کہ گزرتی زندگی کے ساتھ ہماری معصومیت ختم ہوتی جاتی ہے اور ایک طرح کی دانائی ہمیں آ لیتی ہے۔ زندگی وہ راستہ ہے جہاں درد دل کے ساتھ نئے تجربات ہاتھ آتے ہیں۔
اگر آپ ناممکنات کو حقیقت میں بدلنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تو یہ زندگی ایک بوجھ بن جاتی ہے۔مصر میں مرداور عورتیں 30 کی عمر کو پہنچتے ہیں تو ان کے دوست بھی کم ہوجاتے ہیں اور ان کی سماجی سر گرمیاں بھی کم ہو جاتی ہیں۔لیکن زندگی اتنی بھی سنگین نہیں ہے۔ پمہں ایسے لوگ بھی ملتے ہیں جواپنے ٹھوس اورمضبوط خیالات سے ہماری زندگیاں بدل دیتے ہیں۔تین سال پہلے مجھے مریان ملی ۔
اس نے مجھے اپنے بک کلب میں شامل کر لیا جو سات حیرت انگیز خواتین پر مشتمل تھا۔ ہم اکٹھے کتاب پڑھتے اور پھراس پر بحث کے لئے ایک مخصوص جگہ پر ملتے۔ اس گروپ تھراپی سے ہمیں زندگی کا معنی ملنے لگا ۔میں سمجھتی ہوں کہ یہ ضروری نہیں کہ آپ نے زندگی کہ کتنے سال گزارے بلکہ یہ ضروری ہے کہ آپ نے کتنا عرصہ زندگی کو بھرپور اور بہترین طریقے سے جیا ۔
میری دادی نے ایک بار کہا تھا:’جوایک ہی جگہ پر زندہ رہتے ہیں وہ صرف وقت گزارتے ہیں مگر وہ جو سفر کرتے ہیں وہ بہت کچھ دیکھتے ہیں‘۔ہاں! میں 30 کی ہو گئی ہوں، میں مصر میں رہتی ہوں، میں خود کو خوش قسمت تصور کرتی ہوں کیونکہ یہاں ایسا بہت کچھ ہے جس سے میں لطف اندوز ہوتی ہوں۔میں اس قابل ہوں کہ اپنے خواب محسوس کر سکوں، کھوج جاری رکھ سکوں۔
میں خود کو ہر روز یہ یاد دلاتی ہوں مجھے زندگی سے کچھ بڑھ کر عطا کیا گیاہے جیسا کہ گبریل گارشیا مارکیز کہتا ہے:’ میں کم سوتا ہوں، میں زیادہ خواب دیکھ سکتا ہوں کیونکہ میں جانتا ہوں ہر منٹ میں جب مری آنکھ بند ہوتی ہے تب میری زندگی کے 60 روشن سکینڈ ضائع ہو جاتے ہیں۔ میں تب بولتا ہوں جب دوسرے خاموش ہو جاتے ہیں۔ میں تب جاگتا ہوں جب دوسرے سو رہے ہوں، کیونکہ مستقبل ہر بوڑھے یا جوان کو نصیب نہیں ہوتا ۔
(function(d, s, id) { var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = 'https://connect.facebook.net/en_GB/sdk.js#xfbml=1&version=v3.2&appId=779689922180506&autoLogAppEvents=1'; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); }(document, 'script', 'facebook-jssdk'));
The post جب ایک غیر شادی شدہ خاتون 30 سال کی عمر کو پہنچتی ہے تو اس کے جذبات و خیالات کیا ہوتے ہیں؟ appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain http://bit.ly/2CIt2ha via Daily Khabrain
0 notes
newestbalance · 6 years ago
Text
جب ایک غیر شادی شدہ خاتون 30 سال کی عمر کو پہنچتی ہے تو اس کے جذبات و خیالات کیا ہوتے ہیں؟
جب ایک غیر شادی شدہ مصری خاتون تیس برس کی ہوتی ہے۔گھڑی کی سوئیاں رات کے 12 بجنے کا اعلان کرتی ہیں۔ میں اپنی زندگی کی تیسری دہائی ختم کر کے چوتھے عشرے میں داخل ہو رہی ہوں۔ میری زندگی میں سنجیدگی، بلوغت اور گرم جوشی کا ایک نیا دورشروع ہو رہا ہے۔ میرے ارد گرد سب مجھے کئی روز سے یقین دلا
رہے ہیں کہ اس سالگرہ پر کوئی بہت اہم مابعدالطبعیاتی واقعہ رونما ہونے جا رہا ہے ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جیسے ہی گھڑی نے6جولائی کے نئے دن کا آغاز کیا تو میں
نے کوئی خاص تبدیلی محسوس نہیں کی۔ وہی پرانی امیدیں اور خوف میرے ساتھ تھے۔میں رباب فتحی ہوں ، ایک تیس سالہ غیر شادی شدہ مصری صحافی۔ جب سے میں اپنی عمر کے تیسویں سال میں داخل ہوئی ۔ مجھے بار بار اپنی آزادزندگی کے بارے میں اس سوال کا سامنا کرنا پڑتا:’آپ کی ابھی تک شادی کیوں نہیں ہو پائی؟‘ یا پھر اسی حوالے سے اشاروں میں سوال کیا جاتا:’کوئی تازہ خبر؟ ‘
یا پھر مجھے دعا دی جاتی کہ خدا کرے تمہاری جلد شادی ہو جائے، اس کے ساتھ مجھے دلچسپ کہانیاں بھی سنائی جاتیں ، ’شادی زندگی کا حصہ ہے، مجھے ایک مرد کی سخت ضرورت ہے جس کے ساتھ میں اپنی زندگی کا ہر پل بانٹ سکوں۔ ان کہانیوں سے مجھے یہ لگنے لگتا کہ مجھے واقعی اپنی زندگی کو نئے سرے سے شروع کرنا چاہئیے۔ ‘مصری میں ایک کنواری خاتون ہونے کے ناتے پہلے پہل مرا جواب خاصا عامیانہہوتا تھا، جیسا کہ مری دادی مجھ سے کہا کرتی تھیں ’’میرے لئے شادی کرو اورخوش رہو بیٹیا‘۔
میں اپنی دادی کو جواب دیا کرتی تھیں:’دادی جان! آپ میرے بارے میں مطمئن رہیں کیونکہ میں اپنی زندگی سے بہت خوش ہوں۔ ‘اور میرا واقعی یہی مطلب ہوا کرتاتھا۔میں خود کو ان چند خوش قسمت افراد میں شامل کرتی ہوں جنہیں زندگی نے عظیم ماں باپ کی دولت سے مالا مال کیا۔میرے ماں باپ یہ جانتے تھے کہ بچوں کی کس طرح تربیت کرنی ہے۔ میرے والدین نے میرے تمام فیصلوں کو اہمیت دی ہے ،انہوں نے مجھے کبھی بھی شادی کے لئے نہیں اکسایا۔
اس کے برعکس مجھے سکھایا کہ بہترین تعلیم، خود انحصاری، اور لگن کامیاب زندگی کا صحیح نسخہ ہے۔میرے والد کا قول ہے:’آپ تب تک آزاد ہیں جب تک کوئی آپ کو نقصان نہ پہنچائے۔‘ ان کی یہی کوشش رہی کہ ان کی تربیت میری عملی زندگی میں شامل ہو۔ مری والدہ بھی والد سے مختلف نہیں تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ عمر کے تیسویں سال میں غیر شادی شدہ ہونا میرے لئے کسی طرح سے بھی مسئلہ نہیں رہا حالانکہ اس حوالے سے مصری روایات خاصی تکلیف دہ ہیں۔مصر میں کسی بھی غیرملکی یا اجنبی سے پہلا سوالاس کی عمر کے حوالے سے کیا جاتا ہے۔
مصری سمجھتے ہیں کہ تعلیم اور ہنر سیکھنے کی ایک عمر ہوتی ہے۔ وہ ہر اس کام سے ہاتھ کھینچ لیتے ہیں جو ان کی عمر کی مناسبت سے نہ رکھتاہو۔ بعض اوقات وہ خود کو کھلکھلا کر ہنسنے اور مسکرانے سے بھی روک لیتے ہیں کیونکہ یہ انکی عمر کی مناسبت سے درست نہیں۔ایسے ماحول میں مجھے تیس برس کا ہو نا ایک چیلنج لگا۔ میں نے اپنے ارد گرد کے لوگوں سے عمر ، جذبات اور سفید بالوں کے حوالے سے ہمیشہ منفی رائے ہی سنی۔ آپ جب بھی باہر کہیں کھانا کھانے کے لئے انہیں کہیں گے توجواب گا کہ ان کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں، وہ کیسے باہر جا سکتے ہیں؟
والدین کے لئے اپنے بچوں کے ساتھ اچھی اور بھرپور زندگی کا توازن قائم رکھنا بہت مشکل ہے۔ اپنی زندگی کے بہترین وقت کو ضائع کر کے اس کی شکایت کرنے اور اس وقت کو یاد کرکے شکایت کرنے کا کوئی جواز نہیں ۔میرا کہنا ہے کہ وہ زندگی بھرپور انداز میں جی سکتے ہیں۔مجھے لگتا ہے کہ میرے حلقہ احباب میں سب لوگ جیسے مردہ بیٹری سیل ہیں۔
ان سے جب بھی کہا جاتا ہے کہ آؤ کچھنیا سیکھتے ہ��ں جیسا تو ان کی جانب سے یہ سننے کو ملتاہے،’ کیا بچگانہ بات کر رہی ہو۔‘ میرا خیال ہے کہ کہ جب تک آپ اور آپ کے پیارے تندرست ہیں تب تک آپ کو یہ حق نہیں کہ آپ گزرے وقت کی شکایت کرتے پھریں۔مصری معاشرے میں کسی تخلیقی کام کے بغیر کنوارے پن کے ساتھ بڑھاپے کی طرف سفر خاصہ کٹھن ہے ۔
مثال کے طور قاہرہ کے گھٹن زدہ ماحول میں دوڑ لگانا یا سائیکل چلانایا پھرکوئی ادبی محفل ڈھونڈنایا کھانا پکاناسیکھنا خاصا دشوار ہے۔ اگر آپ خودسے کچھ کرنا چاہیں بھی تو ارد گرد کے ماحول کی وجہ سے یہ بھی آسان نہیں۔میں جانتی ہوں کہ گزرتی زندگی کے ساتھ ہماری معصومیت ختم ہوتی جاتی ہے اور ایک طرح کی دانائی ہمیں آ لیتی ہے۔ زندگی وہ راستہ ہے جہاں درد دل کے ساتھ نئے تجربات ہاتھ آتے ہیں۔
اگر آپ ناممکنات کو حقیقت میں بدلنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تو یہ زندگی ایک بوجھ بن جاتی ہے۔مصر میں مرداور عورتیں 30 کی عمر کو پہنچتے ہیں تو ان کے دوست بھی کم ہوجاتے ہیں اور ان کی سماجی سر گرمیاں بھی کم ہو جاتی ہیں۔لیکن زندگی اتنی بھی سنگین نہیں ہے۔ پمہں ایسے لوگ بھی ملتے ہیں جواپنے ٹھوس اورمضبوط خیالات سے ہماری زندگیاں بدل دیتے ہیں۔تین سال پہلے مجھے مریان ملی ۔
اس نے مجھے اپنے بک کلب میں شامل کر لیا جو سات حیرت انگیز خواتین پر مشتمل تھا۔ ہم اکٹھے کتاب پڑھتے اور پھراس پر بحث کے لئے ایک مخصوص جگہ پر ملتے۔ اس گروپ تھراپی سے ہمیں زندگی کا معنی ملنے لگا ۔میں سمجھتی ہوں کہ یہ ضروری نہیں کہ آپ نے زندگی کہ کتنے سال گزارے بلکہ یہ ضروری ہے کہ آپ نے کتنا عرصہ زندگی کو بھرپور اور بہترین طریقے سے جیا ۔
میری دادی نے ایک بار کہا تھا:’جوایک ہی جگہ پر زندہ رہتے ہیں وہ صرف وقت گزارتے ہیں مگر وہ جو سفر کرتے ہیں وہ بہت کچھ دیکھتے ہیں‘۔ہاں! میں 30 کی ہو گئی ہوں، میں مصر میں رہتی ہوں، میں خود کو خوش قسمت تصور کرتی ہوں کیونکہ یہاں ایسا بہت کچھ ہے جس سے میں لطف اندوز ہوتی ہوں۔میں اس قابل ہوں کہ اپنے خواب محسوس کر سکوں، کھوج جاری رکھ سکوں۔
میں خود کو ہر روز یہ یاد دلاتی ہوں مجھے زندگی سے کچھ بڑھ کر عطا کیا گیاہے جیسا کہ گبریل گارشیا مارکیز کہتا ہے:’ میں کم سوتا ہوں، میں زیادہ خواب دیکھ سکتا ہوں کیونکہ میں جانتا ہوں ہر منٹ میں جب مری آنکھ بند ہوتی ہے تب میری زندگی کے 60 روشن سکینڈ ضائع ہو جاتے ہیں۔ میں تب بولتا ہوں جب دوسرے خاموش ہو جاتے ہیں۔ میں تب جاگتا ہوں جب دوسرے سو رہے ہوں، کیونکہ مستقبل ہر بوڑھے یا جوان کو نصیب نہیں ہوتا ۔
(function(d, s, id) { var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = 'https://connect.facebook.net/en_GB/sdk.js#xfbml=1&version=v3.2&appId=779689922180506&autoLogAppEvents=1'; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); }(document, 'script', 'facebook-jssdk'));
The post جب ایک غیر شادی شدہ خاتون 30 سال کی عمر کو پہنچتی ہے تو اس کے جذبات و خیالات کیا ہوتے ہیں؟ appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain http://bit.ly/2CIt2ha via Urdu News
0 notes
jebandepourtoipetite · 6 years ago
Text
جب ایک غیر شادی شدہ خاتون 30 سال کی عمر کو پہنچتی ہے تو اس کے جذبات و خیالات کیا ہوتے ہیں؟
جب ایک غیر شادی شدہ مصری خاتون تیس برس کی ہوتی ہے۔گھڑی کی سوئیاں رات کے 12 بجنے کا اعلان کرتی ہیں۔ میں اپنی زندگی کی تیسری دہائی ختم کر کے چوتھے عشرے میں داخل ہو رہی ہوں۔ میری زندگی میں سنجیدگی، بلوغت اور گرم جوشی کا ایک نیا دورشروع ہو رہا ہے۔ میرے ارد گرد سب مجھے کئی روز سے یقین دلا
رہے ہیں کہ اس سالگرہ پر کوئی بہت اہم مابعدالطبعیاتی واقعہ رونما ہونے جا رہا ہے ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جیسے ہی گھڑی نے6جولائی کے نئے دن کا آغاز کیا تو میں
نے کوئی خاص تبدیلی محسوس نہیں کی۔ وہی پرانی امیدیں اور خوف میرے ساتھ تھے۔میں رباب فتحی ہوں ، ایک تیس سالہ غیر شادی شدہ مصری صحافی۔ جب سے میں اپنی عمر کے تیسویں سال میں داخل ہوئی ۔ مجھے بار بار اپنی آزادزندگی کے بارے میں اس سوال کا سامنا کرنا پڑتا:’آپ کی ابھی تک شادی کیوں نہیں ہو پائی؟‘ یا پھر اسی حوالے سے اشاروں میں سوال کیا جاتا:’کوئی تازہ خبر؟ ‘
یا پھر مجھے دعا دی جاتی کہ خدا کرے تمہاری جلد شادی ہو جائے، اس کے ساتھ مجھے دلچسپ کہانیاں بھی سنائی جاتیں ، ’شادی زندگی کا حصہ ہے، مجھے ایک مرد کی سخت ضرورت ہے جس کے ساتھ میں اپنی زندگی کا ہر پل بانٹ سکوں۔ ان کہانیوں سے مجھے یہ لگنے لگتا کہ مجھے واقعی اپنی زندگی کو نئے سرے سے شروع کرنا چاہئیے۔ ‘مصری میں ایک کنواری خاتون ہونے کے ناتے پہلے پہل مرا جواب خاصا عامیانہہوتا تھا، جیسا کہ مری دادی مجھ سے کہا کرتی تھیں ’’میرے لئے شادی کرو اورخوش رہو بیٹیا‘۔
میں اپنی دادی کو جواب دیا کرتی تھیں:’دادی جان! آپ میرے بارے میں مطمئن رہیں کیونکہ میں اپنی زندگی سے بہت خوش ہوں۔ ‘اور میرا واقعی یہی مطلب ہوا کرتاتھا۔میں خود کو ان چند خوش قسمت افراد میں شامل کرتی ہوں جنہیں زندگی نے عظیم ماں باپ کی دولت سے مالا مال کیا۔میرے ماں باپ یہ جانتے تھے کہ بچوں کی کس طرح تربیت کرنی ہے۔ میرے والدین نے میرے تمام فیصلوں کو اہمیت دی ہے ،انہوں نے مجھے کبھی بھی شادی کے لئے نہیں اکسایا۔
اس کے برعکس مجھے سکھایا کہ بہترین تعلیم، خود انحصاری، اور لگن کامیاب زندگی کا صحیح نسخہ ہے۔میرے والد کا قول ہے:’آپ تب تک آزاد ہیں جب تک کوئی آپ کو نقصان نہ پہنچائے۔‘ ان کی یہی کوشش رہی کہ ان کی تربیت میری عملی زندگی میں شامل ہو۔ مری والدہ بھی والد سے مختلف نہیں تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ عمر کے تیسویں سال میں غیر شادی شدہ ہونا میرے لئے کسی طرح سے بھی مسئلہ نہیں رہا حالانکہ اس حوالے سے مصری روایات خاصی تکلیف دہ ہیں۔مصر میں کسی بھی غیرملکی یا اجنبی سے پہلا سوالاس کی عمر کے حوالے سے کیا جاتا ہے۔
مصری سمجھتے ہیں کہ تعلیم اور ہنر سیکھنے کی ایک عمر ہوتی ہے۔ وہ ہر اس کام سے ہاتھ کھینچ لیتے ہیں جو ان کی عمر کی مناسبت سے نہ رکھتاہو۔ بعض اوقات وہ خود کو کھلکھلا کر ہنسنے اور مسکرانے سے بھی روک لیتے ہیں کیونکہ یہ انکی عمر کی مناسبت سے درست نہیں۔ایسے ماحول میں مجھے تیس برس کا ہو نا ایک چیلنج لگا۔ میں نے اپنے ارد گرد کے لوگوں سے عمر ، جذبات اور سفید بالوں کے حوالے سے ہمیشہ منفی رائے ہی سنی۔ آپ جب بھی باہر کہیں کھانا کھانے کے لئے انہیں کہیں گے توجواب گا کہ ان کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں، وہ کیسے باہر جا سکتے ہیں؟
والدین کے لئے اپنے بچوں کے ساتھ اچھی اور بھرپور زندگی کا توازن قائم رکھنا بہت مشکل ہے۔ اپنی زندگی کے بہترین وقت کو ضائع کر کے اس کی شکایت کرنے اور اس وقت کو یاد کرکے شکایت کرنے کا کوئی جواز نہیں ۔میرا کہنا ہے کہ وہ زندگی بھرپور انداز میں جی سکتے ہیں۔مجھے لگتا ہے کہ میرے حلقہ احباب میں سب لوگ جیسے مردہ بیٹری سیل ہیں۔
ان سے جب بھی کہا جاتا ہے کہ آؤ کچھنیا سیکھتے ہیں جیسا تو ان کی جانب سے یہ سننے کو ملتاہے،’ کیا بچگانہ بات کر رہی ہو۔‘ میرا خیال ہے کہ کہ جب تک آپ اور آپ کے پیارے تندرست ہیں تب تک آپ کو یہ حق نہیں کہ آپ گزرے وقت کی شکایت کرتے پھریں۔مصری معاشرے میں کسی تخلیقی کام کے بغیر کنوارے پن کے ساتھ بڑھاپے کی طرف سفر خاصہ کٹھن ہے ۔
مثال کے طور قاہرہ کے گھٹن زدہ ماحول میں دوڑ لگانا یا سائیکل چلانایا پھرکوئی ادبی محفل ڈھونڈنایا کھانا پکاناسیکھنا خاصا دشوار ہے۔ اگر آپ خودسے کچھ کرنا چاہیں بھی تو ارد گرد کے ماحول کی وجہ سے یہ بھی آسان نہیں۔میں جانتی ہوں کہ گزرتی زندگی کے ساتھ ہماری معصومیت ختم ہوتی جاتی ہے اور ایک طرح کی دانائی ہمیں آ لیتی ہے۔ زندگی وہ راستہ ہے جہاں درد دل کے ساتھ نئے تجربات ہاتھ آتے ہیں۔
اگر آپ ناممکنات کو حقیقت میں بدلنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تو یہ زندگی ایک بوجھ بن جاتی ہے۔مصر میں مرداور عورتیں 30 کی عمر کو پہنچتے ہیں تو ان کے دوست بھی کم ہوجاتے ہیں اور ان کی سماجی سر گرمیاں بھی کم ہو جاتی ہیں۔لیکن زندگی اتنی بھی سنگین نہیں ہے۔ پمہں ایسے لوگ بھی ملتے ہیں جواپنے ٹھوس اورمضبوط خیالات سے ہماری زندگیاں بدل دیتے ہیں۔تین سال پہلے مجھے مریان ملی ۔
اس نے مجھے اپنے بک کلب میں شامل کر لیا جو سات حیرت انگیز خواتین پر مشتمل تھا۔ ہم اکٹھے کتاب پڑھتے اور پھراس پر بحث کے لئے ایک مخصوص جگہ پر ملتے۔ اس گروپ تھراپی سے ہمیں زندگی کا معنی ملنے لگا ۔میں سمجھتی ہوں کہ یہ ضروری نہیں کہ آپ نے زندگی کہ کتنے سال گزارے بلکہ یہ ضروری ہے کہ آپ نے کتنا عرصہ زندگی کو بھرپور اور بہترین طریقے سے جیا ۔
میری دادی نے ایک بار کہا تھا:’جوایک ہی جگہ پر زندہ رہتے ہیں وہ صرف وقت گزارتے ہیں مگر وہ جو سفر کرتے ہیں وہ بہت کچھ دیکھتے ہیں‘۔ہاں! میں 30 کی ہو گئی ہوں، میں مصر میں رہتی ہوں، میں خود کو خوش قسمت تصور کرتی ہوں کیونکہ یہاں ایسا بہت کچھ ہے جس سے میں لطف اندوز ہوتی ہوں۔میں اس قابل ہوں کہ اپنے خواب محسوس کر سکوں، کھوج جاری رکھ سکوں۔
میں خود کو ہر روز یہ یاد دلاتی ہوں مجھے زندگی سے کچھ بڑھ کر عطا کیا گیاہے جیسا کہ گبریل گارشیا مارکیز کہتا ہے:’ میں کم سوتا ہوں، میں زیادہ خواب دیکھ سکتا ہوں کیونکہ میں جانتا ہوں ہر منٹ میں جب مری آنکھ بند ہوتی ہے تب میری زندگی کے 60 روشن سکینڈ ضائع ہو جاتے ہیں۔ میں تب بولتا ہوں جب دوسرے خاموش ہو جاتے ہیں۔ میں تب جاگتا ہوں جب دوسرے سو رہے ہوں، کیونکہ مستقبل ہر بوڑھے یا جوان کو نصیب نہیں ہوتا ۔
(function(d, s, id) { var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = 'https://connect.facebook.net/en_GB/sdk.js#xfbml=1&version=v3.2&appId=779689922180506&autoLogAppEvents=1'; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); }(document, 'script', 'facebook-jssdk'));
The post جب ایک غیر شادی شدہ خاتون 30 سال کی عمر کو پہنچتی ہے تو اس کے جذبات و خیالات کیا ہوتے ہیں؟ appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain http://bit.ly/2CIt2ha via
0 notes