#متعصبانہ
Explore tagged Tumblr posts
Text
بھارت میں مودی سرکار کی مسلمانوں کی متعصبانہ پالیسیاں برقرار،رواں سال 15 مساجد کو مسمار کرنے کا حکم
ہماچل پردیش ( ڈیلی پاکستان آن لائن ) بھارت میں مودی سرکار کی مسلمانوں کے خلاف متعصبانہ پالیسیاں برقرار ہیں۔بھارتی ریاست ہماچل پردیش میں ہندو انتہا پسندوں کی مسلمانوں کو مذہبی حقوق سے محروم کرنے کی کوششیں جاری ہیں، رواں سال حکومت نے 15 مساجد کو غیرقانونی قرار دے کر مسمار کرنے کا حکم دیا۔شملہ میں حال ہی میں 5 مساجد کو عدالتی حکم پر مسمار کیا گیا جس سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے، 2023 سے ہماچل…
0 notes
Text
بے وطنوں کی دنیا
16 دسمبر پھر آ گیا ہے۔ یہ 52 سال قبل مشرقی پاکستان میں آیا تھا۔ وہ پاکستان اور مشرقی پاکستان جس کی بات ایسی ہے کہنے کا یارا نہیں۔ یقیناً آڑے وہی ہیں جنہیں مشیر کاظمی نے کہا تھا۔ کچھ تمہاری نزاکت کی مجبوریاں کچھ ہماری شرافت کی مجبوریاں
تم نے روکے محبت کے خود راستے اس طرح ہم میں ہوتی گئی دوریاں
کھول تو دوں میں راز محبت مگر تیری رسوائیاں بھی گوارا نہیں
اب اس 16 دسمبر میں غزہ کی جھلک شامل ہو رہی ہے۔ اس لیے بات صرف مشرقی پاکستان میں رہ جانے والے محصورین پاکستان کی ہو گی کہ پھر کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے۔ فلسطین میں بھی یہ واردات کی جانے کی تیاری ہے۔ وہ محصورین پاکستان جن کے ساتھ اب نام کی حد تک بھی پاکستان کا نام اور شناخت باقی نہیں رہی۔ بس ایک یاد ہے جو بہت تلخ، تکلیف دہ اور اذیت ناک ہے۔ ان محصورین کا تذکرہ اس لیے کیا جانا چاہیے کہ اس لہو کا اتنا تو حق ہے۔ یہ وہ لہو تھا جو ’پاکستان کے لیے بہا اور پاکستان میں اجنبی ٹھہرا۔‘ ایک طرف وہ خون تھا جو البدر و الشمس کے مشرقی پاکستانی نوجوانوں نے پاکستان کے لیے دیا تھا اور بعد ازاں اس خون کی قربانی دینے والوں کو ابھی کل کی بات ہے مطیع الرحمٰن نظامی سے پروفیسر غلام اعظم تک پھر قربان ہونا پڑا۔ ان ہی قربانی دینے والوں میں وہ محصورین پاکستان ہیں جو 1971 سے لے کر آج تک وہیں بنگلہ دیش کے کیمپوں میں بے بسی اور کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ان کی کئی نسلیں انہی کیمپوں میں جی جی کے مرنے اور مر کے جینے پر مجبور ہیں۔ انہیں بنگلہ دیش قبول اور برداشت کرنے کو تیار ہے نہ پاکستان کی اتھارٹیز اپنے ہاں واپس لانے کو تیار ہیں۔ اپنے ہاں واپس لانے کی بات اس لیے کہی ہے کہ یہ سب اول و آخر پاکستانی تھے مگر پاکستان کی اتھارٹیز نے انہیں اپنے لیے ’بوجھ‘ سمجھ لیا۔ کبھی کبھی لگتا ہے ساری مسلم مملکتیں فلسطینی اتھارٹی کی طرح ہی بے بس اور کمزور ہیں۔ بے حس و حرکت، بے اختیار اور بے معنی۔ 1997 میں محصورین پاکستان کے قائد الحاج نسیم خان کی طرف سے اس وقت کی پاکستان کی منتخب اور دو تہائی اکثریت رکھنے والی عوامی جمہوری حکومت کے سامنے تجویز پیش رکھی تھی۔ محصورین کے نمائندہ فورم ’ایس پی جی آر سی‘ کے علاوہ پاکستان اور بنگلہ دیش کی اتھارٹیز باہم مل بیٹھ کر محصورین کے مستقبل کا فیصلہ کریں مگر اس وقت کی حکومت نے اس تجویز کو ’عزت دو کا مطالبہ‘ مان کر نہ دیا۔
نتیجہ یہ ہے کہ 52 سال بیت گئے مگر یہ محصورین پاکستان آج تک اپنے وطن پاکستان آ سکے، نہ لائے جا سکے اور نہ ہی پاکستان اتھارٹیز (پی اے) کو قبول ہونے کی نوید پا سکے۔ کیا کل کلاں اسی حالت میں فلسطینیوں کو دیکھنے کی سازش بروئے کار ہے؟ محصورین پاکستان کی دوسری اور تیسری نسل انہی بنگلہ دیشی کیمپوں میں پل کر جوان اور بوڑھی ہو گئی۔ مگر ان کی قسمت نہ کھل سکی۔ اب ان کے بڑے جنہوں نے اپنے پیارے پاکستان کے لیے بنگلہ دیش بنانے والوں کی مخالفت مول لی تھی، انہی بنگلہ دیش کی ’حسینہ‘ کے رحم و کرم پر ہیں۔ ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے۔ یہ بنگلہ دیش کے مختلف شہروں اور مقامات پر 70 کیمپوں میں سے 1992 کے رابطہ عالم اسلامی کے تعاون سے کیے گئے ایک سروے کے مطابق اس وقت دو لاکھ 35 ہزار 440 کی تعداد میں موجود تھے۔ اب ان کی آبادی کیا ہے، اس آبادی کا مسقبل کیا ہے، ہماری بلا سے! والی صورت حال ہے۔ اس سلسلے میں بے تعلقی و اجنبیت کی ایک موٹی دیوار حائل ہے۔ جی ہاں مفادات کی دیوار، بےحسی کی دیوار اور احسان فراموشی کی دیوار۔ ہم عالم اسلام کا ایک قلعہ ہیں، اس قلعے کی اونچی فصیلوں کو کون پھلانگ سکتا ہے۔ ماسوائے ایبٹ آباد میں بھی دو مئی کو سرحدیں پھلانگ کر آ جانے والوں کے۔
انہیں محصورین پاکستان کے پڑوس میں میانمار کے بے وطن بنا دیے گئے روہنگیا مسلمان بھی ہیں۔ صدیوں سے میانمار کے باشندے ہونے کے باو��ود ان روہنگیا مسلمانوں کو اندھی طاقت اور مذہب کا متعصبانہ استعمال کرنے والوں نے انہیں نکال باہر کیا۔ ہاں یہ درست ہے کہ ’روہنگیا‘ کو بمباری کر کے اور جدید ترین بحری بیڑوں کو قریب تر منگوا کر نکال باہر نہیں کیا گیا۔ ان پر صرف فوجی بندوقوں سے گولیاں برسا کر یا پھر ان کے گھروں کو آتش گیر مادے سے آگ لگا کر پہلے انہیں بے گھر کیا گیا۔ بعد ازاں انہیں جلاتے اور مارتے ہوئے زندگی سے بیگانہ یا گھروں اور ملکی سرحدوں سے دور کر دیا۔ مشرقی پاکستان اور میانمار کی ان ہی مثالوں نے مجبور کیا ہے کہ فلسطینیوں کو غزہ سے نکال کر مصر یا اردن میں محصور کر دیے جانے کے درد کو ابھی محسوس کر لیا جائے۔ ان کی بے گھری اور بے وطنی کے دکھ کو سمجھ لیا جائے کہ واقفان حال اور کھلی آنکھیں رکھنے والے سارے دیکھ رہے ہیں۔ غزہ کی پٹی پر سات اکتوبر سے ’ایف 35‘ طیاروں کی مدد سے جاری بمباری اور چند ہفتوں سے شروع کر دی گئی ’مرکاوا‘ ٹینکوں سے گولہ باری یہی بتا رہی ہے کہ غزہ کے فلسطینیوں سے غزہ کو پاک کر دینے کا فیصلہ کیا جا چکا ہے۔
حماس کے صفائے کا نام محض اصطلاحاً لیا جا رہا ہے تاکہ راستے میں سلامتی کونسل آ جائے تو اس پر ویٹو کا ہتھیار چلایا جا سکے۔ کوئی مسلمان ملک آنے کا سوچے یا زبانی ردعمل بھی دے تو اس کی قیادت کو اپنے پاس بلا لیا جائے۔ اگر ضروری ہو تو دھمکا دبکا دیا جائے۔ دولت و طاقت کے تمام نشے میسر ہونے کے باوجود سب ’آب غلیظ‘ کی جھاگ کی طرح بیٹھ جاتے ہیں۔ اسی حکمت عملی کے تحت اب تک غزہ کے 80 فیصد سے زائد رہائشی فلسطینیوں کو بے گھر کیا جا چکا ہے۔ جی ہاں! بےگھر، بےدر اور آنے والے دنوں میں بے وطن کر دیے جانے کے خطرے کی زد میں ان فلسطینیوں کے آنے کا سو فیصد امکان بتایا جا رہا ہے۔ زبان و بیان کے فخر اور غرور کے تاج سروں پر سجائے پھرنے والے اور دنیا کے کئی خطوں میں پھیلے سب گونگے لوگ عملاً گونگے شیطان سے زیادہ کچھ نہیں۔ البتہ ایک اندر کے آدمی اور اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ’اونروا‘ کے سربراہ فلپ ارزارمینی نے لنکا ڈھا دی ہے۔ انہوں نے ’لانس اینجلس ٹائمز‘ میں لکھے گئے اپنے تازہ ترین مضمون میں خبردار کیا ہے کہ ’اسرائیل ایسے اقدامات کر رہا ہے کہ فلسطینیوں کو غزہ سے نکال کر مصر کی طرف دھکیل دیا جائے۔‘
اگرچہ اسرائیل اس امر کی تردید کرتا ہے اور غزہ میں جاری اسرائیلی جنگ کے سب سے بڑے مؤید و معاون امریکہ سمیت دیگر وغیرہ وغیرہ فلسطینیوں کے انخلا کے بظاہر حق میں نہیں ہیں۔ لیکن جس طرح منظم انداز میں غزہ پر بمباری کے لیے اسرائیل کو ہر طرح سے اور مسلسل مدد فراہم کی جا رہی ہے تو اس سے صاف لگتا ہے کہ سب کا اصلاً ایک ہی مقصد ہے کہ فلسطین کو فلسطینیوں سے پاک کر کے اسرائیلی قبضے کو آگے بڑھا لیا اور مستحکم کر لیا جائے۔ ’اونروا‘ سربراہ فلپ لازارینی کے اس تحریر کردہ مضمون کے مندرجات اس لیے بھی حقیقت نگاری کے زمرے میں آتے ہیں کہ وہ نہ صرف ’اندر‘ کے آدمی ہیں بلکہ غزہ جنگ کو اپنی آنکھوں کے سامنے ہوتا دیکھ رہے ہیں، وہ غزہ سے فلسطینیوں کی بے گھری کے چشم دید گواہ ہیں۔ سلامتی کونسل سے امریکہ کی جنگ بندی کے خلاف ویٹو کی تازہ گواہی اس پر مستزاد ہے۔ اردن کے وزیر خارجہ ایمن صفدی نے بھی امریکہ کے حالیہ دورے اور سلامتی کونسل میں جنگ بندی قرارداد ویٹو کیے جانے کے بعد دوحہ کانفرنس میں خطاب کے دوران یہی کہا ہے کہ ’اسرائیل فلسطینیوں کو غزہ سے باہر دھکیلنے کی منظم پالیسی پر عمل کر رہا ہے۔‘
اور تو اور اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتوتیو گوتیریش نے بھی اسرائیل اور امریکہ کے طور اطوار کے بعد جو ’حاصل کلام‘ پیش کیا ہے وہ یہی ہے ’اقوام متحدہ ’جیو سٹریٹیجک‘ تقسیم کی وجہ سے مفلوج ہو گئی ہے۔‘ بلاشبہ اقوام متحدہ پہلے بھی تیسری دنیا کے بسنے والوں اور مسلمان اقوام کے لیے بالخصوص ایک فالج زدہ ’باڈی‘ رہی ہے۔ لیکن اقوام متحدہ کو طاقتوروں کے ساتھ مل کر کھیلنے کے لیے بھی جو لبادہ ضروری معلوم ہوتا تھا اب اس سے چھین لیا گیا ہے۔ غزہ میں تو بہت ساری مہذب دنیا اور عالمی اداروں کے چہروں کا خوشگوار سا لگنے والا غازا فلسطینی بچوں کے خون سے دھل کر صاف ہو گیا ہے۔ وگرنہ گوتریش اور ان کے پیش رو سیکریٹری جنرل حضرات کے سامنے ہی 75 برسوں سے فلسطین و کشمیر پر ان کی قراردادیں اسرائیل و انڈیا کی طرف سے سرعام ہی تو روندیں جاری رہی تھیں۔ فلسطینیوں کا حق واپسی، آزاد ریاست کا حق سب اقوام متحدہ کی موجودگی میں اسرائیلی صوابدید اور من مانیوں کی نذر رہا ہے۔
کیا اقوام متحدہ کو نظر نہیں آتا رہا کہ فلسطینیوں کے حقوق کی پامالی اسرائیل کو دیے گئے ہتھیاروں کے علاوہ امریکہ و یورپ کی سرپرستی میں کروائے گئے اوسلو معاہدے ایسے معاہدوں کی صورت بھی نہیں کی جاتی رہی؟ ان سازشی معاہدوں پر بھی عمل نہ کرا سکنا اقوام متحدہ کے پیدائشی فالج زدہ ہونے کی چغلی کھاتا ہے۔ یہی صورت کشمیر کے حوالے سے انڈین کردار کی رہی۔ پانچ اگست 2019 کے انڈین اقدام سے اپنے ہی آئین کے ذریعے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی پاسداری کے لیے موجود اکلوتی کڑی کو بھی ختم کر دیا گیا۔ اب بھارتی سپریم کورٹ نے مودی سرکار اور ’آر ایس ایس‘ کے انداز میں کشمیر کو اٹوٹ انگ قرار دے دیا ہے۔ کیا اقوام متحدہ کا ادارہ اس بارے میں کبھی کوئی حس و حرکت دکھا سکا یا اب دکھا سکے گا؟ یہ مفلوج عالمی ادارہ اگر تھوڑا بھی واپس آنا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کو اپنے لیے چمڑے کے ایک ٹکڑے کی طرح محسوس کر لے، سانس اور اوسان بحال ہو گئے تو افاقہ ہو جائے گا، ورنہ ہمیشہ کی موت کا اعلان کرنے کا جواز رد نہ کیا جا سکے گا۔
کیونکہ اسرائیل اور ��ھارت ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ عالمی طاقتوں کا ایک لاڈلا مشرق وسطیٰ میں ہے اور دوسرا جنوبی ایشیا میں۔ ایک فلسطینیوں کے حق واپسی اور حق خود ارادیت کو کچل رہا ہے اور فلسطینیوں کو بے گھر کر کے مار رہا ہے تو دوسرا کشمیریوں کے ساتھ یہی سلوک پچھلے 75 سال سے کر رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی عمل داری کے دونوں باغی ہیں۔ دونوں سرکشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ بھارتی سپریم کورٹ کے آئین کے آرٹیکل 370 کے خاتمے کے حق میں فیصلے سے کشمیر کی ’ڈیموگرافی‘ تبدیل کر کے قضیہ کشمیر کو ہمیشہ کے لیے دفن کرنے کی کوشش کی گئی۔ مگر اس مقدمے کی عدالت میں سماعت کے دوران کبھی اقوام متحدہ کا نوٹس نہ لینا شرمناک سے کم نہیں کہ بھارتی سپریم کورٹ اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر موجود ایک زیر التوا معاملے پر کیسے فیصلہ دے سکتی ہے۔ ہماری بات چھوڑیں ہم تو اپنے ملک کے اندر چوک چوراہوں پر اپنی عزت بچا کر بھاگ رہے تھے اور پاک وطن کی معیشت کی جلیبی کو سیدھا کرنے میں مگن ہیں۔ اسی بے عملی کا نتیجہ ہے کہ اب محصورین کے پاکستانی ماڈل کو فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل بروئے کار لا رہا ہے۔
فلسطینیوں کو پہلے غزہ سے اور پھر مغربی کنارے سے نکال کر ادھر ادھر دھکیل دو۔ پھر انہیں واپسی سے روکنے کے لیے طاقت استعمال کرتے رہو۔ ان کے کیمپوں پر بمباری کرتے رہو۔ انہیں اسی صحرائے سینا میں گھماتے پھراتے اور مارتے دباتے رہو۔ جس میں کئی صدیاں پہلے خود یہودیوں نے 40 سال اسی صحرا میں بھٹک بھٹک کر گزار دیے تھے۔ کم از کم 40 سال تو ان فلسطینیوں پر بھی یہ خواری مسلط کی جا سکتی ہے۔ پھر کون سا مسئلہ فلسطین، کون سے آزادی پسند فلسطینی، کہاں کی حق واپسی کے لیے سنبھال سنبھال کر رکھی گئی چابیاں اور کون سے سرزمین فلسطین پر آبائی گھر؟ اتنے عرصے میں تو آسانی سے مسجد اقصیٰ کے مینارے بھی یورپ و امریکہ ہی نہیں خلیج و عرب میں ابھر چکے عظمت کے نئے نئے میناروں کے سامنے ایک بھولی بسری تاریخ بن چکے ہوں گے۔ اسرائیل کی یہ سوچ اس تناظر میں کافی کارگر ہوتی نظر آتی ہے کہ ہر طرف سناٹا ہے، خاموشی ہے۔ ہتھیار ڈالنے والوں کا سکہ رائج ہے۔ 16 دسمبر کی طرح ہتھیار ڈالنے والا ماحول شرق سے غرب تک پھیل چکا ہے۔ عرصے سے طاؤس و رباب اول طاؤس و رباب آخر کا ماحول ہے۔ ایسے میں بے وطنوں میں اضافہ کرنا کیونکر ممکن یا مشکل ہو سکتا ہے۔
تو کیوں نہ بے وطنوں کی ایک نئی دنیا بسا دی جائے، غزہ سے باہر، رفح کے اس پار اور صحرائے سینا کے بیچوں بیچ، ایک بے آب و گیاہ دنیا۔ امریکہ اور مغربی وغیرہ وغیرہ کی مدد سے۔ جہاں لوگ پاکستانی محصورین اور روہنگیا محاجرین کو بھول گئے وہیں فلسطینیوں کے لیے کون تڑپے گا؟
منصور جعفر
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
0 notes
Text
🌹🌹 🅟🅐🅢🅢🅘🅞🅝 🅕🅞🅡
🅛🅔🅐🅡🅝🅘🅝🅖
♦️ *_"A journey towards excellence"_* ♦️
✨ *Set your standard in the realm of*
*love !*
*(اپنا مقام پیدا کر...)*
؏ *تم جو نہ اٹھے تو کروٹ نہ لے گی سحر.....*
🔹 *100 PRINCIPLES FOR PURPOSEFUL*
*LIVING* 🔹
0️⃣3️⃣ *of* 1️⃣0️⃣0️⃣
*(اردو اور انگریزی)*
💧 *PASSION FOR LEARNING:*
*The second caliph of Islam, Umar bin al-Khattab, may Allah be pleased with him, used to learn something from everyone he met.*
*In other words, learning was a continuous process for him.*
*How does this happen When a person meets someone with an open mind, they learn from each other.*
*To fruitfully continue this learning process, a person must be free from pride and prejudiced thinking.*
They should refrain from displaying a mentality of just teaching others. His psyche should rather be: I will be ever-ready to take whatever comes my way.
*Whenever someone points out my mistake, I will immediately admit it and correct myself.*
*The learner’s role is as important as that of the teacher in the learning process.*
The right temperament on the part of the learner is required to fully grasp the learning from others.
The world abounds with knowledge and learning which helps in the realization of God.
*The only condition is that man must have the right mindset to internalize learning.*
🌹🌹 *_And the journey_ _Continues_ ...* *________*
💧 *سیکھنے کا شوق :*
*مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ ہر ایک سے کچھ نہ کچھ سیکھتے تھے۔*
دوسرے لفظوں میں، سیکھنا *آپ ؓ* کے لیے ایک مسلسل عمل تھا۔
یہ کب ہوتا ہے، جب کوئی شخص کسی دوسرے شخص سے کھلے ذہن کے ساتھ ملتا ہے، تب وہ دونوں ایک دوسرے سے سیکھتے ہیں.
اس سیکھنے کے عمل کو نتیجہ خیز طور پر جاری رکھنے کے لیے، دونوں کو غرور اور متعصبانہ سوچ سے آزاد ہونا چاہیے۔
*دونوں کو ایک دوسرے کو صرف سکھانے کی ذہنیت کا مظاہرہ کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ ان کی نفسیات یہ ہونی چاہئے: جو کچھ بھی میرے راستے میں آئے( سیکھنے کو ملے ) میں اسے لینے کے لیے ہمیشہ تیار رہوں گا۔*
*جب بھی کوئی میری غلطی کی نشاندہی کرے ، میں فوراً اسے تسلیم کر لوں گا اور اپنی اصلاح کروں گا۔*
*سیکھنے کے عمل میں ، سیکھنے والے کا کردار اتنا ہی اہم ہوتا ہے جتنا کہ استاد کا ہوتا ہے۔*
*دوسروں سے سیکھے گئے کو مکمل طور پر سمجھنے کے لیے سیکھنے والے کے مزاج کا صحیح ہونا بہت ضروری ہے۔*
*دنیا علم اور سیکھ سے بھری ہوئی ہے جو خدا کے وجود کو محسوس کرنے میں بہت مددگار ہے۔*
*بس شرط یہ ہے کہ انسان کے پاس صحیح نیت ہونی چاہیے جس سے وہ سیکھے ہوئے کو اپنے اندر جذب کر سکے ۔*
🌹🌹 *اور سفر جاری ہے....*
0 notes
Text
اسرائیل کیخلاف بیاناتالہان عمر امور خارجہ کمیٹی کی رکنیت سے فارغ
(ویب ڈیسک) امریکا کا ریپبلیکنز اکثریتی ایوان نمائندگان متعصبانہ رنگ دکھانے لگا اور پہلی مسلمان رکن کانگریس الہان عمر کو فارن افیئرز کمیٹی سے نکال دیا گیا۔ غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق الہان عمر کو امریکی ایوان نمائندگان میں 211 کے مقابلے میں 218 ووٹوں سے پارلیمانی کمیٹی کی رکنیت سے ہٹانے کا فیصلہ کیا گیا، وہ خارجہ امور کی سب پارلیمانی کمیٹی برائے افریقہ کے پینل میں شامل تھیں۔ پارلیمانی کمیٹی سے…
View On WordPress
0 notes
Text
امریکا کا ریپبلکنز اکثریتی ایوان نمائندگان متعصبانہ رنگ دکھانے لگا
امریکا کا ریپبلیکنز اکثریتی ایوان نمائندگان متعصبانہ رنگ دکھانے لگا اور پہلی مسلمان رکن کانگریس الہان عمر کو فارن افیئرز کمیٹی سے نکال دیا گیا۔ امریکا کا ریپبلیکنز اکثریتی ایوان نمائندگان متعصبانہ رنگ دکھانے لگا اور پہلی صومالی نژاد مسلمان رکن کانگریس الہان عمر کیخلاف کارروائی کرکے انہیں ووٹنگ کے ذریعے فارن افیئرز کمیٹی سے نکال دیا گیا۔ امریکی میڈیا کے مطابق الہان عمر اسرائیل پر کڑی تنقید کے باعث…
View On WordPress
0 notes
Text
چیف جسٹس بندیال نے پنجاب کے وزیراعلیٰ الیکشن کیس میں ایس سی بی اے کے کردار کو 'متعصبانہ' قرار دیا
چیف جسٹس بندیال نے پنجاب کے وزیراعلیٰ الیکشن کیس میں ایس سی بی اے کے کردار کو ‘متعصبانہ’ قرار دیا
چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کی ویب سائٹ اسلام آباد: چیف جسٹس آف پاکستان… عمر عطا بندیال پیر کو وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب سے متعلق کیس میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن (SCBA) کے کردار کو “متعصبانہ” قرار دیا۔ نئے عدالتی سال کے آغاز کے موقع پر فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے عمر عطا بندیال نے کہا کہ جب انہوں نے عہدہ سنبھالا تو سستے اور فوری انصاف کی فراہمی، مقدمات کا…
View On WordPress
0 notes
Text
یورپی یونین کی پاکستان میں حکومت اور پارلیمنٹ کے درمیان عدم تعاون کی نشاندہی
یورپی یونین کی پاکستان میں حکومت اور پارلیمنٹ کے درمیان عدم تعاون کی نشاندہی
یورپی یونین کی پاکستان میں حکومت اور پارلیمنٹ کے درمیان عدم تعاون کی نشاندہی برسلز، 10اگست ( آئی این ایس انڈیا ) یورپی یونین نے مشاہدہ کیا ہے کہ پاکستان میں 2008 سے 3 عام انتخابات اور سویلین حکومتوں کے درمیان 2 بار اقتدار کی پرامن منتقلی کے باوجود حکومت اور پارلیمنٹ کے درمیان عدم تعاون کے سبب ملکی سیاست انتہائی متعصبانہ ہے۔ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ملٹی اینوئل انڈیکیٹیو پروگرام (ایم…
View On WordPress
6 notes
·
View notes
Text
اسموگ کے نام پر تعلیم دشمنی
یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ ہم اجتماعی طور پر تعلیم دشمن رویہ رکھنے والے لوگ ہیں۔ تعلیم کے نام پر جو کچھ ہمارے بچوں کو پڑھایا جا رہا ہے اسکے اثرات معاشرے پر ظاہر ہو رہے ہیں۔ اختلاف رائے اور مخالفت کا فرق ختم ہو چکا ہے۔علمی مکالمہ ناپید ہو چکا ہے۔ تعلیمی اداروں میں سوال کرنے کا رجحان اس حد تک ناپید ہو چکا ہے کہ یونیورسٹی کی سطح پر اگر کوئی طالب علم سوال کرے تو اسے اساتذہ کے متعصبانہ رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ دینی اداروں میں زیادہ سوال کرنیوالے کو گستاخ اور بے ادب تصور کیا جاتا ہے۔ ایک ایسے تعلیمی ماحول میں جہاں پاکستان اپنے جی ڈی پی کا محض 2.3 فیصد تعلیم پر خرچ کر رہا ہو، جہاں شرح خواندگی کو 66 فیصد ظاہر تو کیا جائے لیکن زمینی حقائق اس سے قطعاً مختلف ہوں، ایک ایسا ملک جو یو این ڈی پی کی رپورٹ کے مطابق تعلیمی معیار کے اعتبار سے دنیا میں 152 نمبر پر ہے، جہاں اسکول چھوڑنے والے بچوں کی تعداد 23 فیصد ہو،جہاں کووڈ کے بعد تقریباً 9 لاکھ 70 ہزار بچے جو اسکول چھوڑ گئے اور واپس ہی نہ آئے، جہاں کا تعلیمی نظام پرائمری معیار کے عالمی اہداف حاصل کرنے میں 50 سال پیچھے ہو، وہاں مختلف حیلے بہانوں سے اسکول بند کرنا تعلیم دشمنی نہیں تو اور کیا ہے؟
ہمارے تعلیمی ادارے کبھی سردیوں کے نام پر بند ہوتے ہیں تو کبھی گرمیوں کے نام پر، کبھی دسمبر کی چھٹیاں ہوتی ہیں تو کبھی اپریل کی تعطیلات، کبھی طلبہ ہڑتال پر ہوتے ہیں تو کبھی اساتذہ سڑکوں پر، مردم شماری ہو یا الیکشن ڈیوٹی، المختصر پاکستان کا کوئی بھی ایسا کام جس کا تعلیم سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں اسے سرانجام دینے کیلئے تعلیمی سرگرمیاں معطل کر کے اساتذہ کرام کو سڑکوں پر لا کھڑا کیا جاتا ہو، وہاں اسموگ کے نام پر تعلیمی ادارے بند کرنا علم دشمنی نہیں تو اور کیا ہے؟ کیا پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں پر اسموگ ہوتی ہے؟ ایسا نہیں ہے۔ دنیا میں پہلی مرتبہ اسموگ کا لفظ 1950ء کی دہائی میں استعمال کیا گیا جب یورپ اور امریکہ کو پہلی بار صنعتی انقلاب کی وجہ سے فضائی آلودگی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ 40 فیصد امریکی ایسے علاقوں میں رہتے ہیں جہاں اسموگ یعنی آلودگی کی مقدار کافی زیادہ ہے۔ چین میں فضائی آلودگی 2013ء میں دنیا میں سب سے زیادہ تھی لیکن ستمبر 2013ء میں اس حوالے سے اپنے واضح پلان کا اعلان کیا اس پلان پر عملدرآمد کے بعد فضائی آلودگی میں واضح کمی آئی۔
دنیا کے تمام ترقی یافتہ صنعتی ممالک اس مسئلے سے دوچار ہیں لیکن آج تک کہیں سے بھی یہ رپورٹ نہیں ہوا کہ کسی بھی ملک نے اپنے تعلیمی ادارے بند کر دیئے ہوں بلکہ ان ممالک نے طویل المیعاد منصوبہ بندی کے ذریعے نہ صرف اس مسئلے پر قابو پایا۔ ہمارے ہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ اسموگ کے اسباب میں 40 فیصد حصہ ان ناقص اور غیر معیاری ڈیزل گاڑیوں کا ہے جن کا زہریلا دھواں اسموگ کا سبب بنتا ہے۔ اسکے بعد وہ فیکٹریاں ہیں جو کوالٹی کنٹرول کے بغیر چل رہی ہیں ان کا دھواں اسموگ کا سبب بن رہا ہے۔ تیسرے نمبر پر اینٹوں کے وہ بھٹے ہیں جو جدید ٹیکنالوجی کے بجائے قدیم ٹیکنالوجی پر کام کر رہے ہیں اور انکی چمنیوں سے نکلنے والا دھواں فضائی آلودگی کا سبب بنتا ہے۔ چوتھے نمبر پر فصلوں کی باقیات کا جلایا جانا اسموگ کا سبب ہے۔ ہمارے ارباب بست و کشاد نے نہ تو گاڑیوں کی مناسب چیکنگ کا بندوبست کیا، نہ فیکٹریوں کے کوالٹی کنٹرول پر زور دیا، نہ فصلوں کی باقیات جلانے پر پابندی عائد کی اور اگر پابندی عائد کی بھی گئی تو اس پر عمل درآمد نہ ہو سکا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اسموگ اس وقت پاکستان کا بہت بڑا مسئلہ ہے۔ یونیورسٹی آف شکاگو کی ایئر کوالٹی لائف انڈیکس کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہوا کی آلودگی کے سبب سالانہ ایک لاکھ 35 ہزار افراد موت کے گھاٹ اتر رہے ہیں۔ جبکہ ان میں سے زیادہ اموات پنجاب میں ہو رہی ہیں۔ اسموگ کی وجہ سے سانس، ڈسٹ الرجی اور دل کے امراض میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ لاہور کی موجودہ فضا میں اگر کوئی صحتمند شخص سانس لیتا ہے تو وہ گویا 300 سگریٹس کے برابر دھواں اپنے پھیپھڑوں میں اتار رہا ہوتا ہے لیکن اس سنگین مسئلے سے نپٹنے کیلئے ہماری افسر شاہی اور حکمرانوں کے پاس کوئی طویل المعیاد منصوبہ موجود نہیں۔ 2017 ء میں فضائی آلودگی سے نپٹنے کیلئے ایک جامع منصوبہ تیار کیا گیا جو پنجاب حکومت کی فائلوں میں ہی دبا رہ گیا۔ اور اب حکمرانوں کا سارا زور تعلیمی اداروں اور کاروبار بند کرنے پر صرف ہو رہا ہے۔فیکٹریاں فضا آلودہ کر رہی ہیں، غیر معیاری بھٹے فضائی آلودگی میں دن بدن اضافہ کر رہے ہیں، فصلوں کی باقیات دھڑا دھڑ جلائی جا رہی ہیں، لیکن افسر شاہی کا سارا نزلہ تاجروں اور اسکولوں پر گر رہا ہے، خدارا ہوش کے ناخن لیں تعلیم دشمن رویہ ترک کریں اور اگر اس مسئلے پر قابو پانا ہے تو یہ اقدامات کریں۔
ذاتی ٹرانسپورٹ کے بجائے پبلک ٹرانسپورٹ کی اہمیت اجاگر کی جائے، غیر معیاری اور دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کی نقل و حمل بند کی جائے، حکومت کو ری سائیکلنگ اور ری یوز کی پالیسی پر عمل کرنا چاہیے، پلاسٹک بیگز پر مکمل پابندی عائد ہونی چاہئے، جنگلات کے کاٹنے اور انہیں جلانے پر پابندی ہونی چاہیے اور درخت کاٹنے والوں کیخلاف فوجداری کارروائی کرنی چاہئے، ایئرکنڈیشنر کے غیر ضروری استعمال کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے، شجرکاری کے رجحان میں اضافہ کرنا چاہیے، اور شجرکاری صرف حکومت کی فائلوں میں نہیں بلکہ گراؤنڈ پر ہونی چاہئے۔ اس کیلئے کثیر الجہتی پالیسی کی ضرورت ہے۔ تعلیمی ادارے اور دکانیں بند کرنے سے اسموگ پر تو شاید کوئی اثر نہ پڑے لیکن تعلیم اور کاروبار دونوں مزید تباہ ہو جائیں گے۔
پیر فاروق بہاو الحق شاہ
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
بھارتی عدلیہ کا متعصبانہ چہرہ بے نقاب،نریندر مودی کا بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور بنچ کے ممبران کو لکھا گیا خط منظر عام پر آ گیا
بھارتی عدلیہ کا متعصبانہ چہرہ بے نقاب،نریندر مودی کا بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور بنچ کے ممبران کو لکھا گیا خط منظر عام پر آ گیا
نئی دہلی (این این آئی) بھارتی وزیر اعظم، نریندر مودی نے خود ہی بھارتی عدلیہ کا متعصبانہ چہرہ بے نقاب کردیا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ رام مندر-بابری مسجد کیس میں عدالت عظمی کے حالیہ فیصلے کا مقصد ہندو انتہا پسندوں کو خوش کرنا تھا۔کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق نر یندر مودی نے بھارتی عدلیہ کا متعصبانہ چہرہ بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رنکن گوگوئی اور اس بنچ کے دیگر ممبروں کو لکھے گئے خط میں کیا ہے جس نے…
View On WordPress
#آ#اور#بنچ#بھارتی#بے#پر#جسٹس#چہرہ#چیف#خط#سپریم#عام#عدلیہ#کا#کو#کورٹ#کے#گیا#لکھا#متعصبانہ#ممبران#منظر#مودی#نقابنریندر
0 notes
Text
بھارتی عدالت کا متعصبانہ فیصلہ، حریت رہنما یاسین ملک جھوٹے کیس میں مجرم قرار
بھارتی عدالت کا متعصبانہ فیصلہ، حریت رہنما یاسین ملک جھوٹے کیس میں مجرم قرار
بھارتی عدالت کا ایک اور متعصبانہ فیصلہ سناتے ہوئے حریت رہنما یاسین ملک کو جھوٹے کیس میں مجرم قرار دے دیا۔ دہلی کی عدالت حریت رہنما کےخلاف سزا کا فیصلہ 25 مئی کو سنائے گی۔ یاسین ملک نے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کو جھوٹ قرار دیتے ہوئے اسے بھارتی حکومت کی انتقامی کارروائی قرار دیا ہے۔ پاکستان بھارت سے یاسین ملک کے خلاف جھوٹا کیس ختم کرنے کا مطالبہ کر چکا ہے۔
View On WordPress
0 notes
Text
بدترین روس-یوکرین میڈیا نسل، موسمیاتی تبدیلی، ٹرمپ، اور مزید کے بارے میں جنگ بناتا ہے۔ #ٹاپسٹوریز
New Post has been published on https://mediaboxup.com/%d8%a8%d8%af%d8%aa%d8%b1%db%8c%d9%86-%d8%b1%d9%88%d8%b3-%db%8c%d9%88%da%a9%d8%b1%db%8c%d9%86-%d9%85%db%8c%da%88%db%8c%d8%a7-%d9%86%d8%b3%d9%84%d8%8c-%d9%85%d9%88%d8%b3%d9%85%db%8c%d8%a7%d8%aa%db%8c/
بدترین روس-یوکرین میڈیا نسل، موسمیاتی تبدیلی، ٹرمپ، اور مزید کے بارے میں جنگ بناتا ہے۔
نئیاب آپ فاکس نیوز کے مضامین سن سکتے ہیں!
دی جنگ یوکرین می�� روس کے صدر ولادیمیر پوٹن کے حملے کے بعد سے لبرل میڈیا میں کچھ متنازعہ تجزیے جنم لے رہے ہیں۔
یوکرین کے باشندوں نے اپنے وطن کے دفاع کے لیے ہتھیار اٹھا لیے ہیں کیونکہ روسی فوجیں دارالحکومت کیف کی جانب پیش قدمی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق اس حملے میں اب تک 1,000 سے زیادہ شہری ہلاک ہو چکے ہیں، جب کہ 10 لاکھ سے زیادہ پناہ گزین پڑوسی ممالک کو بھاگ چکے ہیں۔
جب کہ جنگ نے تمام سیاسی دھاریوں کے لوگوں کو یوکرائنی عوام کی حالت زار پر ترس آنے کے لیے متحد کر دیا ہے، ترقی پسند پنڈتوں نے حالیہ دنوں میں لڑائی کے بارے میں کچھ متعصبانہ تجزیہ کیا ہے۔
روس نے یوکرین پر حملہ کر دیا: لائیو اپ ڈیٹس
نسل پر مبنی تجزیہ
MSNBC کے میزبان جوئے ریڈ نے پیر کو دعویٰ کیا کہ یوکرین میں جنگ آبادی کی وجہ سے بہت زیادہ توجہ حاصل کر رہی ہے۔
“یوکرین کی کوریج نے اپنے براؤنر اور بلیکر ہم منصبوں کے مقابلے میں مغربی میڈیا کے مقابلے میں انسانی یوکرین کے لوگوں کے دکھنے اور محسوس کرنے میں ایک بہت ہی بنیادی تفاوت کا انکشاف کیا ہے، کچھ رپورٹرز جنگ کے بارے میں اپنے تجزیوں میں بہت واضح موازنہ کا استعمال کرتے ہیں،” ریڈ نے “The ReidOut” پر کہا۔ “
MSNBC کی میزبان Joy Reid نے پیر 7 مارچ 2022 کو اپنے شو “The ReidOut” میں یوکرین اور روس کے درمیان جنگ پر گفتگو کی۔ (اسکرین شاٹ/MSNBC) (MSNBC اسکرین شاٹ)
“ہمیں اپنے آپ سے یہ پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے کہ اگر روس کسی ایسے ملک پر اپنی وحشت پھیلاتا ہے جو سفید فام نہیں اور زیادہ تر عیسائی نہیں ہے تو کیا بین الاقوامی ردعمل ویسا ہی ہوگا، کیونکہ روس پہلے ہی یہ کر چکا ہے۔ شام میں،” انہوں نے روس کا حوالہ دیتے ہوئے مزید کہا۔ میں فوجیوں کی تعیناتی بغاوت کو روکنے میں مدد کریں ملک کی خانہ جنگی میں صدر بشار الاسد کے خلاف۔
MSNBC کی جوی ریڈ: دنیا یوکرین پر توجہ دے رہی ہے کیونکہ یہ ایک ‘سفید… عیسائی قوم’ ہے
ووٹر دبانے کے دعوے
میڈیا کے کئی پنڈتوں نے یوکرین کے تنازع کو گھریلو معاملات سے جوڑنے کی کوشش کی۔ چند ایک نے swipes لیا صدر بائیڈنمثال کے طور پر، اپنے اسٹیٹ آف دی یونین خطاب کے دوران یوکرین میں آزادی کی لڑائی اور امریکہ میں ووٹنگ کے حقوق کی کوششوں کے درمیان تعلق قائم کرنے میں ناکامی پر۔
“میٹ دی پریس” کے میزبان چک ٹوڈ اور ان کے مہمان، مصنف اور پرنسٹن یونیورسٹی کے پروفیسر ایڈی ایس گلوڈ جونیئر نے اتفاق کیا کہ بائیڈن ایک موقع کھو دیا یوکرین پر اپنے تبصروں میں خونی اتوار کی برسی کا ذکر کرنا۔ خونی اتوار 7 مارچ 1965 کو پیش آیا، جب شہری حقوق کے غیر مسلح مظاہرین کو ووٹنگ کے حقوق کے لیے سیلما سے منٹگمری تک مارچ کے دوران مقامی قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے پرتشدد مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ ٹوڈ نے کہا کہ وہ بائیڈن کی واضح آواز سے “حیران” تھے، جبکہ گلوڈ نے کہا کہ وہ “حیران” تھے۔
“اگر ایک چیز ہے جس نے مجھے صدر کی اسٹیٹ آف دی یونین کے بارے میں حیران کیا ہے، تو وہ جمہوریت اور آزادی کی لڑائی کو بیرون ملک جمہوریت اور آزادی کی لڑائی سے جوڑنے کی کمی تھی۔ آج کا خونی اتوار،” ٹوڈ نے کہا۔
“میں دنگ رہ گیا،” گلوڈ نے کہا۔ “میرا مطلب ہے، یہ ایک آسان قسم کی بیان بازی تھی: آئیے بیرون ملک جمہوریت کا دفاع کریں اور اندرون ملک جمہوریت کو محفوظ رکھیں۔”
لبرل پنڈت اس وقت خوش نہیں تھے جب صدر بائیڈن گھریلو مسائل کو یوکرین پر روس کے حملے سے جوڑنے میں ناکام رہے۔ (ساؤل لوئب، پول کے ذریعے اے پی)
ایم ایس این بی سی، سی این این، دوسرے یوکرین کے حالات کو گھریلو سیاسی مسائل سے تشبیہ دینے پر مجبور ہیں
MSNBC کی Tiffany Cross نے بھی یہی تعلق قائم کیا، The Cross Connection کے ایک حالیہ ایپی سوڈ میں کہا کہ جب وہ یوکرین میں افراتفری کا مشاہدہ کرتی ہے، تو اسے احساس ہوتا ہے، “جمہوریت ایک نازک چیز ہو سکتی ہے، اور یہ ابھی امریکہ میں قدرے نازک محسوس کر رہی ہے۔” اس کے بعد اس نے ریپبلکن پارٹی پر “ووٹروں کو زبردست دباو” میں ملوث ہونے کا الزام لگایا۔
موسمیاتی خدشات
اتوار کے روز “اس ہفتے” سے پہلے امریکہ کی طرف سے روسی تیل پر پابندی کے امکان کے بارے میں ایک بحث میں ABC کے جارج سٹیفانوپولوس نے فون کیا۔ موسمیاتی تبدیلی ایک “وجودی بحران“سابق وزیر خارجہ جان کیری کے تبصروں کا دفاع کرتے ہوئے کہ جنگ کا “آب و ہوا پر گہرا منفی اثر پڑ سکتا ہے۔” بائیڈن۔ پابندی کا اعلان کر دیا۔ منگل کو روسی تیل کی امریکی برآمدات پر۔
پمپ پر قیمتوں کو کم کرنا
رات گئے میزبان سٹیفن کولبرٹ نے گیس کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے امریکیوں پر پڑنے والے اثرات کو کم کرتے ہوئے ناظرین کو مشتعل کیا۔
“آج امریکہ میں گیس کی اوسط قیمت ہر وقت کی بلند ترین سطح پر $4 فی گیلن سے زیادہ ہے۔ ٹھیک ہے، یہ ڈنک مارتا ہے، لیکن ایک صاف ضمیر ایک یا دو روپے کے قابل ہے۔ یہ اہم ہے۔ یہ ضروری ہے۔ میں $4 ڈالر ادا کرنے کو تیار ہوں۔ ایک گیلن۔ جہنم، میں 15 ڈالر فی گیلن ادا کروں گا کیونکہ میں ٹیسلا چلاتا ہوں،” کولبرٹ کہا.
شیل گیس پمپ لیفائیٹ، کیلیفورنیا، 25 نومبر 2021 میں گیس کی اونچی قیمتیں دکھا رہا ہے۔ (تصویر از سمتھ کلیکشن/گیڈو/گیٹی امیجز) (گیٹی امیجز)
سی بی ایس کے نامہ نگار دفاع کیا منگل کو بائیڈن کا دعویٰ کہ ان کی پالیسیوں نے پمپ پر قیمتوں کو متاثر نہیں کیا۔
“اس نے یہ بھی واضح کیا، ویجیا، کہ ان کی پالیسیاں، ��ائیڈن انتظامیہ کی پالیسیاں، اس ملک میں تیل کی پیداوار کو نقصان نہیں پہنچا رہی ہیں۔ وہ یہ بھی واضح کرنا چاہتے تھے،” “سی بی ایس مارننگز” کے شریک اینکر گیل کنگ نے سی بی ایس کے سینئر وائٹ کو بتایا۔ ہاؤس نامہ نگار ویجیا جیانگ۔
“ٹھیک ہے، کیونکہ یہ وہی ہے جو ریپبلکن بہت زور سے کہہ رہے ہیں۔ حیرت ہے کہ ہم یہاں تیل کی پیداوار کو کیوں نہیں بڑھا سکتے۔ ٹھیک ہے، صدر نے صرف اتنا کہا کہ تیل کمپنیوں کے پاس ابھی ایسا کرنے کا اختیار ہے، لیکن وہ نہیں لے رہے ہیں۔ اور ہم نے اشیاء کے ایک ماہر سے بات کی، ایک حکمت عملی جس نے کہا کہ یہ بالکل درست ہے،” جیانگ نے اتفاق کیا۔
ٹرمپ پر الزام لگانا
میڈیا کی دیگر شخصیات جیسے “دی ویو” ہووپی گولڈ برگ اور سی این این کے جان ہاروڈ نے سابق کو مورد الزام ٹھہرانے کا انتخاب کیا۔ صدر ٹرمپ موجودہ افراتفری کے لیے یا تجویز کریں کہ اگر وہ اب بھی کمانڈر ان چیف ہوتے تو صورتحال اور بھی خطرناک ہوتی۔
“اگر بون ہیڈ صدر ہوتا اور میں وہی کہتا جو میں نے پچھلی بار کہا تھا، تو کوئی مسئلہ نہ ہوتا کیونکہ وہ شخص یوکرین کو روسیوں کے حوالے کر دیتا،” گولڈ برگ دعوی کیا پیر.
“جب آپ سنتے ہیں کہ ریپبلکن سیاست دانوں کو بحران پر بائیڈن پر طنز کرتے ہیں، یاد رکھیں: پچھلے سال عہدہ چھوڑنے والے ریپبلکن صدر نے اپنی مدت کا استعمال روس کا ہاتھ مضبوط کرنے اور یوکرین کو کمزور کرنے کے لیے کیا، ان کی پارٹی نے ان کی حفاظت کی جیسا کہ انہوں نے کیا، وہ اب بھی پارٹی کی قیادت کر رہے ہیں،” ہاروڈ نے ٹرمپ کے بارے میں ٹویٹ کیا۔
الزام تراشی کے کھیل نے فاکس نیوز کے معاون جو کونچا کو خوش کیا، جس نے منگل کو فاکس نیوز پر کہا کہ ٹرمپ بہت سے لبرل پنڈتوں کے ذہنوں میں “کرائے سے پاک زندگی گزار رہے ہیں”۔
فاکس نیوز ایپ حاصل کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
بائیڈن نے منگل کو روس سے تیل اور گیس کی تمام درآمدات پر پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا، یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ اس سے گیس پمپ پر امریکیوں کو نقصان پہنچے گا، لیکن یہ پوٹن کے لیے ایک “طاقتور دھچکا” ہوگا۔
Source link
0 notes
Text
یہ دھوپ تو ہر رخ سے پریشان کرے گی
اٹھارہ جنوری کو بی بی سی کی دستاویزی فلم ’’انڈیا : دی مودی کوئسچن ‘‘ کا پہلا حصہ کیا ریلیز ہوا کہ بھارت میں بھونچال آ گیا۔وزارتِ خارجہ نے اسے نوآبادیاتی متعصبانہ گوری سوچ کا شاہ کار قرار دے کر یکسر مسترد کر دیا۔ وزارتِ اطلاعات و نشریات نے ہنگامی اختیارات سے کام لیتے ہوئے یو ٹیوب اور ٹویٹر سمیت سوشل میڈیا کے تمام پلیٹ فارمز کو بھارت کی جغرافیائی حدود میں یہ دستاویزی فلم دکھانے سے روک دیا اور…
View On WordPress
0 notes
Text
پی ٹی اے نے ٹوئٹر کے ساتھ ہندوستان میں پاکستانی مشنز کے اکاؤنٹس کو بلاک کرنے کا فیصلہ کیا۔
پی ٹی اے نے ٹوئٹر کے ساتھ ہندوستان میں پاکستانی مشنز کے اکاؤنٹس کو بلاک کرنے کا فیصلہ کیا۔
پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (PTA) کا ہیڈ کوارٹر۔ اسلام آباد: پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے بدھ کو بھارت کی جانب سے پاکستانی سفارت خانوں اور دیگر معروف شخصیات کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹس کو بلاک کرنے کا معاملہ اٹھایا۔ ٹیلی کام ریگولیٹر نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ٹویٹر پر زور دیا گیا ہے کہ وہ معلومات کے متعصبانہ دباو پر نظر ثانی کرے اور ہندوستان میں دیکھنے کے لیے سرکاری پاکستانی…
View On WordPress
0 notes
Text
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی یہود دشمنی
اسرائیل کو سب سے زیادہ فخر اس پر ہے کہ مشرقِ وسطی کے آمرانہ طول و عرض میں وہ ایسی مثالی جمہوریت ہے جہاں باقاعدگی سے انتخابات ہوتے ہیں اور عام آدمی سے صدر اور وزیرِ اعظم تک کوئی بھی احتساب سے مبرا نہیں۔ ایک وزیرِ اعظم ( یہود اولمرٹ ) کو بدعنوانی کے جرم میں جیل بھی ہو چکی ہے اور دوسرے وزیرِ اعظم ( نیتن یاہو ) اسی الزام کی چھان بین کے دوران قید اور آزادی کے درمیان جھول رہے ہیں۔ ایک صدر (موشے کستاف ) کو ریپ اور قانون کی راہ میں رکاوٹ بننے کے جرم میں اپنے عہدے سے ہاتھ دھو کر سات برس کے لیے جیل جانا پڑا۔ کیا ایسا کسی عرب ملک میں ممکن ہے ؟ ہرگز نہیں۔ مگر اسرائیل کے اس جمہوری اور احتسابی غازے کے پیچھے موجود چند انتہائی گہری جھریاں نہایت کوشش کے باوجود چھپائے نہیں چھپتیں اور ہر کچھ عرصے بعد انسانی حقوق کی کوئی نہ کوئی مقامی یا بدتمیز بین الاقوامی تنظیم یا ادارہ اس غازے پر چلو بھر پانی پھینک کر بھید کھول دیتا ہے اور اسرائیل کو دوبارہ لیپا پوتی کے لیے بیوٹی پارلر کی جانب دوڑنا پڑتا ہے۔
تازہ ترین چلو بھر پانی بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ پوری بالٹی سرکردہ بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اسرائیل کے سر پے دے ماری ہے۔ جب تک ایمنسٹی عرب دنیا میں انسانی حقوق کی پامالیوں کو جلی حروف میں لکھتی رہی تب تک اسرائیل بغلیں بجانے والوں میں آگے آگے رہا۔ لیکن پچھلے سوموار کو جب ایمنسٹی نے اسرائیل کی نسل پرستانہ پالیسیوں کا بیچ بازار میں تہبند کھول دیا تو اسرائیلی وزیرِ خارجہ یائر لیپڈ کو بذاتِ خود سامنے آ کر کہنا پڑا کہ ایمنسٹی جیسی ذمے دار اور موقر تنظیم بھی دہشت گردوں کے پروپیگنڈے کا شکار ہو کر یہود دشمنی ( اینٹی سیمٹ ازم ) پر اتر آئی ہے۔ یہ رپورٹ نہ صرف حقائق کے برعکس بلکہ انتہائی یکطرفہ اور متعصبانہ ہے۔ بقول وزیرِ خارجہ لیپڈ اسرائیل اگرچہ پوری طرح مثالی ملک ہونے کا دعویدار نہیں مگر بین الاقوامی قوانین کی پاسداری اور جواب دہی کی روایت پر پوری طرح کاربند رہنے کے لیے ضرور کوشاں ہے۔
خیر اسرائیلی وزیرِ خارجہ نے کسرِ نفسی سے کام لیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل پوری طرح سے کوئی مثالی ملک نہیں مگر ایمنٹسی نے اسرائیل کو بہرحال ایک ’’تابندہ مثال ‘‘ قرار دینے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سیکریٹری جنرل ایگنس کیلا مارڈ نے جو رپورٹ جاری کی ہے اس میں کسی بھی ’’چونکہ چنانچہ اگر مگر ‘‘ کو ملحوظ نہیں رکھا گیا۔ اس رپورٹ میں کھلم کھلا کہا گیا ہے کہ اسرائیل نسلی تفریق ( اپارتھائیڈ) کے نظریے پر ��اربند ایسی ریاست ہے جو فلسطینیوں کو بحیثیت انسان پست اور نسلی طور پر کمتر درجے کا گروہ سمجھتی ہے۔ ایسے قوانین پر عمل درآمد کیا جاتا ہے جن سے نسلی تفریق کا نظام ختم ہونے کے بجائے اور مضبوط ہو۔ رپورٹ کے مطابق اسرائیل کے زیرِ انتظام مقبوضہ غربِ اردن، مشرقی یروشلم اور غزہ میں جس طرح امتیازی قوانین کے پردے میں فلسطینیوں کو ان کی املاک اور زرعی اراضی سے محروم کیا جا رہا ہے، ان کے نسل در نسل گھروں کو خصوصی عدالتوں کے ذریعے ناجائز و غیرقانونی قرار دے کر مسمار کیا جا رہا ہے، جدی پشتی زمینوں سے جس طرح بے دخل کر کے یہودی آباد کار بستیاں کھڑی کی جا رہی ہیں، جس انداز سے اور جن الزامات کے تحت عمر کا لحاظ کیے بغیر قید میں رکھا جاتا ہے، تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے حتی کہ بالائے قانون ہلاک کیا جاتا ہے۔
ان کی نقل و حرکت کو جس طرح محدود رکھنے اور روزگار کے مواقعے تنگ تر کرنے کی پالیسیاں نافذ ہیں اور انھیں طرح طرح کے جواز ایجاد کر کے نہ صرف شہریت سے محروم کیا جاتا ہے بلکہ ایک مخصوص علاقے تک محدود رہنے پر مجبور کیا جاتا ہے، لاکھوں جلاوطن فلسطینی مہاجروں کو واپسی کا حق دینے سے جس طرح کھلم کھلا انکار کیا جاتا ہے۔ یہ سارا شخشخا نسلی تفریق (اپارتھائیڈ) کی بین الاقوامی قانونی تعریف پر پورا اترتا ہے۔ ایمنسٹی پہلی تنظیم نہیں جس نے اسرائیل کو نسلی تفریق سے آلودہ سابق گورے جنوبی افریقہ کے مانند اپارتھائیڈ کے نظریے پر کھڑی ریاست قرار دیا ہو۔ گزشتہ برس خود اسرائیل کے اندر متحرک انسانی حقوق کی تنظیم بیت السلیم کی رپورٹ میں تسلیم کیا گیا کہ دریاِ اردن سے روم کے ساحل تک پھیلی اسرائیلی ریاست میں انتظامی پالیسیاں یہودی بالادستی کو یقینی بنانے کے خیال سے نافذ کی گئی ہیں۔ آئینی طور پر بھی اسرائیل ایک یہودی ریاست (جیوش ہوم لینڈ) ہے۔ یہ اپارتھائیڈ نہیں تو کیا ہے ؟
گزشتہ برس ایک اور بین الاقوامی تنظیم ہیومین رائٹس واچ بھی اسرائیل کو نسلی تفریق کے نظام پر باضابطہ کاربند ریاست کا تمغہ پہنا چکی ہے۔ البتہ ایمنسٹی کی رپورٹ نے اسرائیلی اسٹیبلشمنٹ کو سر تا پا تلملا کے رکھ دیا ہے۔ ایمنسٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اپارتھائیڈ پالیسی محض مقبوضہ علاقوں کے فلسطینی شہریوں کو ہی نہیں جکڑتی بلکہ خود اسرائیلی ریاست کے اندر آباد بیس فیصد عرب آبادی بھی اس کے نشانے پر ہے، وہ الگ بات کہ اسرائیلی آئین میں تمام ریاستی شہریوں کو مساوی حقوق عطا کرنے کا وعدہ ہے۔ ایمنسٹی نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ انسانیت کے خلاف جرائم کی بین الاقوامی عدالت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسرائیل سمیت دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی نسلی تفریق کی پالیسیاں اپنائی گئی ہیں ان کی تفصیلی چھان پھٹک کرے اور انسانی حقوق کے بین الاقوامی میثاق سے متصادم ایسی پالیسیاں وضع کرنے اور ان پر عمل درآمد کرنے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لائے۔
ایمنسٹی نے مطالبہ کیا ہے کہ جو ممالک اسرائیل کی اپارتھائیڈ پالیسیوں کا علم رکھنے کے باوجود اسے اسلحہ فروخت کر رہے ہیں، سفارتی پشتیبانی کر رہے ہیں یا اقوامِ متحدہ کے منڈب پر اس کی حمایت میں ڈھال بنے ہوئے ہیں، وہ بھی برابر کے شریکِ جرم ہیں۔ ایمنسٹی نے مطالبہ کیا ہے کہ اسرائیل کو اپارتھائیڈ پالیسیاں ترک کرنے پر مجبور کرنے کے لیے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل جنگی ہتھیاروں کی تجارت پر ٹھوس پابندیاں لگائے۔ ان میں وہ ہتھیار بھی شامل ہیں جو بظاہر امن و امان کو قابو میں رکھنے کے لیے اسرائیلی پولیس اور نیم فوجی اداروں کے استعمال میں ہیں، اور ان کے استعمال سے اب تک ہر عمر کے ہزاروں فلسطینی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے یا پھر زخمی و اپاہج ہوئے ہیں۔ رپورٹ میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ جو اسرائیلی عمل دار ان امتیازی پالیسیوں کی تشکیل اور نفاذ کے ذمے دار ہیں ان کے بیرونِ ملک اثاثوں کو نہ صرف منجمد کیا جائے بلکہ بین الاقوامی سفری پابندیاں بھی عائد کی جائیں۔
توقع تھی کہ آزاد مغربی میڈیا ایمنسٹی کی اس رپورٹ کو سابق رپورٹوں کی طرح نمایاں اور مساوی جگہ دے گا۔ مگر الجزیرہ اور بی بی سی کے علاوہ تمام معروف میڈیا اداروں کو گویا سانپ سونگھ گیا۔ الٹا امریکی نشریاتی ادارے اے بی سی نے ہالی وڈ کی ممتاز اداکارہ اور چینل کی مقبول میزبان ووہپی گولڈ برگ پر دو ہفتے کے لیے اسکرین سے دور رہنے کی پابندی لگا دی کیونکہ انھوں نے اس رپورٹ کے آنے کے بعد جو ذاتی تبصرہ کیا وہ چینل کے خیال میں یہود دشمنی کے دائرے میں آتا ہے۔ کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا ؟
وسعت اللہ خان
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
Text
جنوبی ریاستوں سے مرکز کا متعصبانہ رویہ: سکھیندرریڈی کا الزام
انہوں نے کہاکہ دستور سے متعلق چیف منسٹر کے ریمارکس پر بی جے پی واویلا مچارہی ہے۔انہوں نے یاددہانی کرواتے ہوئے کہاکہ ماضی میں کئی بار آئین کا جائزہ لیا گیا تھا۔ انہوں نے پوچھا کہ دستور سے متعلق کے سی آر نے جو کچھ بھی کہا ہے اس میں کیا غلط بات ہے۔
حیدرآباد۔: ٹی آر ایس کے رکن قانون ساز کونسل جی سکھیندر ریڈی نے الزام لگایا ہے کہ مرکز جنوبی ریاستوں کے ساتھ متعصبانہ رویہ اختیار کر رہا ہے۔ یہاں تک کہ فنڈز میں کٹوتی کی گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ متحدہ آندھراپردیش کی تقسیم کے موقع پر تلنگانہ سے کئے گئے وعدوں کو بھی مرکز نے نظرانداز کردیا ہے۔ سکھیندر ریڈی نے نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ مرکزی وزیر سیاحت کشن ریڈی جن کا تعلق تلنگانہ سے ہے،ریاست کے…
View On WordPress
0 notes
Text
تبلیغی جماعت کے مرکز کوایک دن کے لیے کھولنا مسلمانوں کے ساتھ مذاق۔کلیم الحفیظ
تبلیغی جماعت کے مرکز کوایک دن کے لیے کھولنا مسلمانوں کے ساتھ مذاق۔کلیم الحفیظ
تبلیغی جماعت کے مرکز کوایک دن کے لیے کھولنا مسلمانوں کے ساتھ مذاق۔کلیم الحفیظ دہلی حکومت کے متعصبانہ رویے اور وقف بورڈ کی لاپرواہی سے ہے مرکز بند ۔ دہلی اے آئی ایم آئی ایم (پریس ریلیز19مارچ2022) نئی دہلی۔دہلی میں تمام اسکول کھول دیے گئے ،سنیما گھر کھل گئے ،تمام دھارمک عبادت گاہیں بھی کھلی ہیں،ریلیاں اور روڈ شو بھی ہورہے ہیں،لیکن تبلیغی جماعت کے مرکز پر تالا لگا ہوا ہے۔شب برأت کے موقع پر…
View On WordPress
0 notes