#مسلمانوں
Explore tagged Tumblr posts
Text
بھارت میں مودی سرکار کی مسلمانوں کی متعصبانہ پالیسیاں برقرار،رواں سال 15 مساجد کو مسمار کرنے کا حکم
ہماچل پردیش ( ڈیلی پاکستان آن لائن ) بھارت میں مودی سرکار کی مسلمانوں کے خلاف متعصبانہ پالیسیاں برقرار ہیں۔بھارتی ریاست ہماچل پردیش میں ہندو انتہا پسندوں کی مسلمانوں کو مذہبی حقوق سے محروم کرنے کی کوششیں جاری ہیں، رواں سال حکومت نے 15 مساجد کو غیرقانونی قرار دے کر مسمار کرنے کا حکم دیا۔شملہ میں حال ہی میں 5 مساجد کو عدالتی حکم پر مسمار کیا گیا جس سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے، 2023 سے ہماچل…
0 notes
Text
آنکھ بھر آئے تو منظر نہیں دیکھے جاتے ۔۔۔(فلسطینی مسلمانوں کی حالت زار پر )
آنکھ بھر آئے تو منظر نہیں دیکھے جاتے ہم سے مقتل میں کٹے سر نہیں دیکھے جاتے ڈھلتے جاتے ہیں جو ویرانی میں لمحہ لمحہ ٹوٹتے پھوٹتے یہ گھر نہیں دیکھے جاتے جن فضاؤں میں اڑا کرتے تھے پنچھی ان میں تیرتے پھرتے ہیں جو پر نہیں دیکھے جاتے سامنا ہونا ضروری تھا تقاضا تھا یہی عکس آئینے میں ڈھل کر نہیں دیکھے جاتے کچھ تصور میں بھی فاروق رہا کرتے ہیں راستے سارے گزر کر نہیں دیکھے جاتے کلام : ڈاکٹر…
0 notes
Text
“یہ دنیا ہے! یہاں لوگ قرآن ہاتھ میں لے کر ماتھے اور سینے سے چاہے لگاتے ہوں۔ حضورﷺ کا نام سننے پر انگلیاں ہونٹوں سے لگا کر چاہے چومتے ہوں، مگر کرتے وہی ہیں جو ان کی اپنی مرضی اور خواہش ہوتی ہے۔ کس نے نہیں سنی ہوگی یہ حدیث، کس نے نہیں پڑھا ہوگا قرآن۔ یہ مسلمانوں کا ملک ہے! یہاں لوگ قرآن پر کٹ مرتے ہیں، مگر قرآن کے مطابق جیتا کوئی نہیں۔”
من و سلویٰ - عمیرہ احمد
20 notes
·
View notes
Text
﷽ ﺍﻟﺴَّـــــــﻼَﻡُ ﻋَﻠَﻴــْــﻜُﻢ ﻭَﺭَﺣْﻤَﺔُ ﺍﻟﻠﻪِ ﻭَﺑَﺮَﻛـَـﺎﺗُﻪ
صبـــح بــخیـــر
*تمام اہلِ اسلام کو نیا اسلامی سال ھجری 1446 مبارک ھو
اے اللّٰہ : اس نئے سال کو تمام مسلمانوں کے لئے امن و امان خوشحالی کا سال بنا دے۔اپنی رحمتوں برکتوں وسعتوں کا نزول فرما اے اللّٰہ سب کو راحت و سکون عطا فرما۔سب کے دُکھ درد تکلیف پریشانیوں کو دور فرما۔ہم سب کے گناہوں کو معاف فرما۔سب کو کشادہ بابرکت رزق عطا فرما۔بیماروں کو شفا کاملہ عطا فرما ۔سارے عالم میں امن و امان جان و مال کی سلامتی عطا فرما۔۔
آمیـــن ثم آمیــــن یا رب العالمیــن
دعا گو و خیراندیش
چودھری انور حسین
2 notes
·
View notes
Text
اسرائیل دنیا کو اپنے خلاف کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے
ہم اس مقام پر پہنچ گئے ہیں جہاں کسی کو کچھ پتہ نہیں کہ آگے کیا ہو گا۔ اسرائیل کو لگتا ہے کہ اس کے پاس مغرب کی طرف سے چار ہزار سے زائد بچوں سمیت ہزاروں فلسطینی شہریوں کو مارنے کے لیے مطلوبہ مینڈیٹ ہے۔ گنجان پناہ گزین کیمپوں پر گرائے گئے ایک ٹن وزنی مہیب بم اور ایمبولینسوں، سکولوں اور ہسپتالوں پر فضائی حملے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اسے حماس کی طرح عام شہریوں کی اموات کی کوئی پروا نہیں ہے۔ اسرائیل مہذب دنیا کی نظروں میں خود کو بدنام کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتا نظر آتا ہے۔ غزہ کے قتلِ عام سے پہلے بن یامین نتن یاہو کے فاشسٹوں اور بنیاد پرستوں کے ٹولے کے ذریعے اسرائیل کے عدالتی اداروں کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس نے امریکی لابی گروپ اے آئی پی اے سی کے پے رول پر موجود سیاست دانوں کی جانب سے اسرائیل کے جمہوری ملک ہونے اور اخلاقی طور پر برتر اور ترقی یافتہ ملک ہونے کے برسوں سے کیے جانے والے دعووں کی قلعی کھول کر رکھ دی۔ پچھلی دہائیوں میں، واحد بین الاقوامی آواز جو اہمیت رکھتی تھی وہ واشنگٹن کی تھی، جس میں یورپی اتحادی ہمنوا کی حیثیت سے ساتھ ساتھ تھے۔ لیکن 2020 کی کثیرالجہتی دہائی میں ایشیا، لاطینی امریکہ اور افریقہ میں ابھرتی ہوئی طاقتیں اسرائیل کی مذمت کرنے اور سفارتی تعلقات کو گھٹانے کے لیے قطار میں کھڑی ہیں۔
انصاف کے حامی بڑے حلقے غصے سے بھڑک اٹھے ہیں، یہاں تک کہ مغربی دنیا میں بھی۔ مسلمانوں، عربوں اور ترقی پسند رحجان رکھنے والے یہودیوں کے انتخابی لحاظ سے اہم طبقوں کے ساتھ ساتھ، یونیورسٹیاں نوجوانوں کی سیاست زدہ نسل سے فلسطین کی حامی سرگرمیوں کے لیے اہم مراکز بن گئی ہیں۔ جب دنیا بھر میں لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکل رہے ہیں، برطانیہ کی وزیر داخلہ بریورمین جیسے دائیں بازو کے کارکن فلسطینیوں کے حامی مظاہروں کو مجرمانہ بنانے کے لیے شہری آزادیوں پر غصے سے کریک ڈاؤن کر رہے ہیں، جسے وہ ’نف��ت مارچ‘ کے طور پر بیان کرتی ہیں۔ وہ دور لد چکا جب اسرائیل کی حامی لابیوں نے بیانیے کو قابو میں کر رکھا تھا۔ سوشل میڈیا کی خوفناک تصاویر مظالم کو ریئل ٹائم میں سب کو دکھا رہی ہیں، جبکہ دونوں فریق بیک وقت ہمیں غلط معلومات اور پروپیگنڈے کے ذریعے بہکانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس ماحول میں مذہب پر مبنی کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اسلاموفوبیا پر مبنی حملوں میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا۔ جو بائیڈن اور ڈونلڈ ٹرمپ جیسے عمر رسیدہ امریکی سیاست دان ایک مٹتے ہوئے اسرائیل نواز اتفاقِ رائے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ خاص طور پر مشی گن جیسی اہم ’سوئنگ‘ ریاستوں میں بڑی مسلم، عرب اور افریقی نژاد امریکی کمیونٹیز بائیڈن کی اسرائیل کی پالیسی کے خلاف ہو رہی ہیں۔
اوباما نے اپنے جانشینوں کو خبردار کیا ہے، ’اگر آپ مسئلے کو حل کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو پوری سچائی کو اپنانا ہو گا۔ اور پھر آپ کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ کسی کے ہاتھ صاف نہیں ہیں، بلکہ ہم سب اس میں شریک ہیں۔‘ انہوں نے مزید کہا، ’اسرائیلی فوجی حکمت عملی جو انسانی جانوں کی اہیمت کو نظر انداز کرتی ہے بالآخر الٹا نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ اس موجودہ تباہی کے بعد بائیڈن کے پاس مشرق وسطیٰ میں امن کی بحالی کو فوری طور پر بحال کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہو گا۔ امریکہ کی ڈیموکریٹک پارٹی اپنے فلسطین کے حامی ترقی پسند ونگ کی طرف خاصا رجحان رکھتی ہے، جسے ایسے لوگوں کی وسیع بنیاد پر حمایت حاصل ہے جو آج غزہ کے قتل عام کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ ان ترقی پسندوں کو ایک دن قانون سازی کی مطلوبہ طاقت حاصل کرنے کے بعد اسرائیل کی فوجی امداد کے لیے کانگریس کے بلوں کو ویٹو کرنے میں کچھ پریشانی ہو گی۔ اسی قسم کا تناؤ یورپ بھر میں بھی چل رہا ہے۔ آئرلینڈ اور سپین واضح طور پر فلسطینیوں کے حامی ہیں، جب کہ ارسلا فان ڈیر لیین اور رشی سونک جیسی شخصیات اسرائیل کی حمایت میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے بےچین ہیں۔
فرانس اور جرمنی جیسی بڑی عرب اور مسلم آباد�� والے ملک اپنی سیاسی بیان بازی کو اعتدال پر لانے پر مجبور ہیں۔ اسرائیل نے بین الاقوامی بائیکاٹ کی تحریکوں کے خلاف بھرپور طریقے سے جنگ لڑی ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ دشمنوں سے گھرے ہوئے اسرائیل کے لیے عالمی اقتصادی تنہائی کتنی تباہ کن ثابت ہو گی۔ غزہ کے باسیوں کی تسلی کے لیے اس طرح کے رجحانات بہت دور کی بات ہیں، لیکن ان سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ آنے والے برسوں میں فلسطین تنازع اسرائیل کی بڑھتی ہوئی بین الاقوامی تنہائی کے تناظر میں سامنے آئے گا۔ بین الاقوامی بار ایسوسی ایشن سمیت عالمی اداروں کے تمام حصوں نے بھرپور طریقے سے جنگ بندی کی وکالت کی ہے، اور اسرائیل کو انسانی حقوق کی عالمی ذمہ داریوں سے استثنیٰ نہ دینے پر زور دیا ہے۔ سات اکتوبر کو حماس کا حملہ اسرائیل کے لیے ایک بہت بڑا نفسیاتی دھچکہ تھا، جس نے بالآخر اسے یہ یہ تسلیم کرنے پر مجبور کر دیا ہے کہ جب تک وہ امن کی کوششوں کو مسترد کرتا رہے گا، اس کے وجود کو خطرات کا سامنا رہے گا۔ اس جیسے چھوٹے سے ملک میں بڑی تعداد میں لوگوں کو جنوبی اور شمالی اسرائیل کے بڑے علاقوں اور دیگر غیر محفوظ علاقوں سے باہر منتقل کر دیا گیا ہے، کچھ کو شاید مستقل طور پر، لیکن آبادی کے بڑے مراکز اب بھی حزب اللہ اور اسلامی جہاد کے راکٹوں کی آسانی سے پہنچ میں ہیں۔
نتن یاہو جیسے امن کو مسترد کرنے والوں کی ایک دوسرے سے ملتی جلتی کارروائیاں ہیں جنہوں نے امن کی میز پر فریقین کی واپسی کو ناگزیر بنا دیا ہے۔ فلسطینی اور اسرائیلی دونوں معاشروں میں اوسلو معاہدے کے برسوں سے سرگرم امن کیمپوں کو دوبارہ پروان چڑھانے کی ضرورت ہے جو انصاف، امن اور مفاہمت کے لیے مہم چلا سکیں۔ اسرائیل کی انتقامی پیاس نے انتہا پسند کیمپ کو طاقت بخشی ہے، جس کا دعویٰ ہے کہ غزہ کی فوجی مہم فلسطین کو عربوں سے پاک کرنے کے لیے بہترین دھواں دھار موقع پیش کرتی ہے۔ اسرائیل کی قومی سلامتی کونسل کے سابق سربراہ گیورا آئلینڈ نے اسرائیل پر زور دیا کہ وہ ’ایسے حالات پیدا کرے جہاں غزہ میں زندگی غیر پائیدار ہو جائے۔ ایسی جگہ جہاں کوئی انسان موجود نہ ہو‘ تاکہ غزہ کی پوری آبادی یا تو مصر چلی جائے، یا پھر مصر منتقل ہو جائے۔ ‘نتن یاہو مصر پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ غزہ کے لوگوں کے صحرائے سینا کی طرف ’عارضی‘ انخلا کو قبول کرے، جبکہ دوسری طرف وہ محصور آبادی کو بھوک سے مرنے اور کچلنے کے لیے سرگرم عمل ہے۔ فلسطینی صرف اتنا چاہتے ہیں کہ دنیا ان کی حالتِ زار کو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھے۔
فلسطین کی حمایت اور حماس کی حمایت ایک برابر نہیں ہیں۔ بلاروک ٹوک مغربی پشت پناہی نے اسرائیل کو یہ باور کروایا ہے کہ اسے کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا، جو نہ صرف مقبوضہ علاقوں میں انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے بلکہ اقوام متحدہ کی ان گنت قراردادوں اور عالمی نظام کے بنیادی اصولوں کو بھی زک پہنچا رہا ہے۔ اسرائیل کے ہاتھوں ایک م��تصر دورانیے میں غزہ میں اقوام متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی کے 72 عملے کی اموات ایک ریکارڈ ہے، جب کہ الٹا اسرائیل نے اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل پر ’خون کی توہین‘ اور ’دہشت گردی کی کارروائیوں کو جواز فراہم کرنے‘ کا الزام لگایا ہے۔ اسرائیلی سمجھتے تھے کہ وقت ان کے ساتھ ہے۔ ایسا لگتا تھا کہ عرب ریاستیں دلچسپی کھو رہی ہیں، فلسطینی اپنے علاقوں کے ہر سال بڑھتے ہوئے نقصان پر خاموشی اختیار کرنے پر مجبور تھے، اور یہ سوچ تھی کہ جب 1947 اور 1967 کی نسلیں ختم ہو جائیں تو کیا ان کے ساتھ ہی قوم پرستانہ جذبات بھی فنا نہیں ہو جائیں گے؟ اس کے بجائے، نئی فلسطینی نسل اور ان کے عالمی حامی پہلے سے زیادہ پرجوش، پرعزم اور سیاسی طور پر مصروف ہیں۔ اور معقول طور پر، کیونکہ تمام تر مشکلات اور خونریزی کے باوجود ناقابل تسخیر عالمی رجحانات اس بات کی علامت ہیں کہ وقت، انصاف اور آخرِ کار تاریخ ان کے ساتھ ہے۔
اس طرح سوال یہ بنتا ہے کہ کتنی جلد کوتاہ اندیش اسرائیلی امن کے لیے ضروری سمجھوتوں کی وکالت شروع کر دیتے ہیں، کیوں کہ اسرائیل کو لاحق دفاعی خطرات بڑھ رہے ہیں اور ان کی ریاست کی جغرافیائی سیاسی طاقت ختم ہو رہی ہے۔
بارعہ علم الدین
نوٹ: کالم نگار بارعہ عالم الدین مشرق وسطیٰ اور برطانیہ میں ایوارڈ یافتہ صحافی اور براڈکاسٹر ہیں۔ وہ میڈیا سروسز سنڈیکیٹ کی مدیر ہیں۔
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
3 notes
·
View notes
Text
آئیں اسرائیل سے بدلہ لیں
اسلامی ممالک کی حکومتوں اور حکمرانوں نے دہشت گرد اور ظالم سرائیل کے حوالے سے دنیا بھر کے مسلمانوں کو بڑا مایوس کیا۔ تاہم اس کے باوجود ہم مسلمان اپنے مظلوم فلسطینی بھائیوں، بہنوں اور بچوں کے اوپر ڈھائے جانے والے مظالم اور اسرائیل کی طرف سے اُن کی نسل کشی کا بدلہ لے سکتے ہیں بلکہ ان شاء اللہ ضرور لیں گے۔ بے بس محسوس کرنے کی بجائے سب یہودی اور اسرائیلی مصنوعات اور اُن کی فرنچائیزز کا بائیکاٹ کریں۔ جس جس شے پر اسرائیل کا نام لکھا ہے، کھانے پینے اور استعمال کی جن جن اشیاء کا تعلق اس ظالم صہیونی ریاست اور یہودی کمپنیوں سے ہے، اُن کو خریدنا بند کر دیں۔ یہ بائیکاٹ دنیا بھر میں شروع ہو چکا ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ اس بائیکاٹ کو مستقل کیا جائے۔ یہ بائیکاٹ چند دنوں، ہفتوں یا مہینوں کا نہیں ہونا چاہیے۔ بہت اچھا ہوتا کہ اسلامی دنیا کے حکمران کم از کم اپنے اپنے ممالک میں اس بائیکاٹ کا ریاستی سطح پر اعلان کرتے لیکن اتنا بھی مسلم امہ کے حکمران نہ کر سکے۔ بہرحال مسلمان (بلکہ بڑی تعداد میں غیر مسلم بھی) دنیا بھر میں اس بائیکاٹ میں شامل ہو رہے ہیں۔
پاکستان کی بات کی جائے تو یہاں بھی سوشل میڈیا پر بائیکاٹ کے حق میں مہم چلائی جا رہی ہے۔ اسرائیلی مصنوعات، اشیاء، مشروبات اور فرنچائیزز سے خریداری میں کافی کمی آ چکی ہے۔ ان اشیاء کو بیچنے کیلئے متعلقہ کمپنیاں رعایتی آفرز دے رہی ہیں، قیمتیں گرائی جا رہی ہیں لیکن بائیکاٹ کی کمپین جاری ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام کے ساتھ ساتھ کاروباری طبقہ اورتاجر تنظیمیں بھی اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں۔ اس بائیکاٹ کے متعلق یہ سوال بھی اُٹھایا جا رہا ہے کہ ایسے تو ان پاکستانیوں کا، جو اسرائیلی مصنوعات فروخت کر رہے ہیں یا اُنہوں نے اسرائیلی فرنچائیزز کو یہاں خریدا ہوا ہے، کاروبار تباہ ہو رہا ہے۔ اس متعلق محترم مفتی تقی عثمانی نے اپنے ایک حالیہ بیان میں بہت اہم بات کی۔ تقی صاحب کا کہنا تھا کہ بہت سارے لوگ سوال کر رہے ہیں کہ کچھ مسلمانوں نے یہودی اور امریکی مصنوعات کی خریدوفروخت کیلئے ان سے فرنچائیزز خرید رکھی ہیں جس کی وجہ سے آمدنی کا پانچ فیصد ان کمپنی مالکان کو جاتا ہے جو کہ یہودی و امریکی ہیں یا پھر کسی اور طریقہ سے اسرائیل کےحامی ہیں تو اگر کاروبار بند ہوتا ہے تو مسلمانوں کا کاروبار بھی بند ہوتا ہے۔
مفتی تقی صاحب کا کہنا تھا کہ یہ فتوے کا سوال نہیں بلکہ اس مسئلہ کا تعلق غیرت ایمانی سے ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ کیا ایک مسلمان کی غیرت یہ برداشت کرتی ہے کہ اس کی آمدنی کا ایک فیصد حصہ بھی مسلم امہ کے دشمنوں کو جائے اور خاص طور پر اس وقت جب امت مسلمہ حالت جنگ میں ہو اور ہزاروں مسلمانوں کو شہید کیا جا رہا ہو۔ مفتی صاحب نے کہا کہ یہ بات مسلمان کی ایمانی غیرت کے خلاف ہےکہ اس کی آمدنی سے کسی بھی طرح امت مسلمہ کے دشمنوں کو فائدہ پہنچے۔ اُنہوں نے ایک مثال سے اس مسئلہ کو مزید واضح کیا کہ کیا آپ ایسے آدمی کو اپنی آمدنی کا ایک فیصد بھی دینا گوارا کریں گے جو آپ کے والد کو قتل کرنے کی سازش کر رہا ہو۔ مفتی صاحب نے زور دیا کہ غیرت ایمانی کا تقاضہ ہے کہ ان مصنوعات اور فرنچائیزز کا مکمل بائیکاٹ کر کے اپنا کاروبار شروع کیا جائے۔ اسرائیلی و یہودی مصنوعات اور فرنچائیزز کے منافع سے خریدا گیا اسلحہ مظلوم فلسطینیوں کو شہید کرنے کے لیے استعمال ہو رہا ہے، چھوٹے چھوے بچوں، جن کی تعداد ہزاروں میں ہے، کو بھی بے دردی سے مارا جا رہا ہے جس پر دنیا بھر کے لوگوں کا دل دکھا ہوا ہے۔
ایک عام مسلمان اسرائیل سے لڑ نہیں سکتا لیکن اُس کا کاروبار اور اُس کی معیشت کو بائیکاٹ کے ذریعے زبردست ٹھیس پہنچا کر بدلہ ضرور لے سکتا ہے۔ بائیکاٹ کا یہ سارا عمل پر امن ہونا چاہیے۔ میری تمام پاکستانیوں اور یہ کالم پڑھنے والوں سے درخواست ہے کہ اسرائیل سے بدلہ لینے میں بائیکاٹ کی اس مہم کو آگے بڑھائیں، اس میں اپنا اپنا حصہ ڈالیں لیکن ہر حال میں پرامن رہیں اور کسی طور پر بھی پرتشدد نہ ہوں۔
ا��صار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ
#Boycott Israel#Boycott Israel Products#Gaza#Gaza war#Israel#Middle East#Palestine#Palestine Conflict#Wars#World
2 notes
·
View notes
Text
Where is Muslim world? Where are Arabs? Where is humanity? Where are human rights.? Isreal butchering us. You all will be answerable in the hereafter!
ایک بچے کا دنیا بھر کے مسلمانوں اور ��ربوں سے سوال۔۔۔کہاں ہیں عرب، کہاں ہیں دنیا بھر کے مسلمان؟؟؟
یہ سوال ہے، پکار ہے یا فریاد۔۔۔کیا مسلمان حکمرانوں میں کوئی غیرت باقی ہے؟ مسلمان تو ایک جسم کی مانند ہیں ایک حصے کو درد ہو پورے جسم کو تکلیف ہو۔۔۔کیا ہم ایسے ہی مسلمان ہیں؟
#islam#quran#islamic#muslim#islamicquotes#pakistan#islamic group#muslim community#muslim countries#istanbul#urdu#pakistani#from the river to the sea palestine will be free#palestine free#zionist
5 notes
·
View notes
Text
السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ
تمام برادران اسلام کو عیدالاضحٰی کی دلی مبارکباد! عیدالاضحٰی نہ صرف حضرت ابراہیم و اسمٰعیل علیھما السلام کی عظیم قربانی کی یادگار ہے۔ بلکہ مسلمانوں کو جذبۂ قربانی اپنے اندر پیدا کرنے کا سبق دینے والی بھی ہے۔
پُر خلوص حقير کی جانب سے دِل کی گہرائیوں سے عید الاضحیٰ مبارک ہو !
4 notes
·
View notes
Text
نیا اک رشتہ پیدا کیوں کریں ہم بچھڑنا ہے تو جھگڑا کیوں کریں ہم
نیا اک رشتہ پیدا کیوں کریں ہم بچھڑنا ہے تو جھگڑا کیوں کریں ہم
خموشی سے ادا ہو رسم دوری کوئی ہنگامہ برپا کیوں کریں ہم
یہ کافی ہے کہ ہم دشمن نہیں ہیں وفاداری کا دعویٰ کیوں کریں ہم
وفا اخلاص قربانی محبت اب ان لفظوں کا پیچھا کیوں کریں ہم
سنا دیں عصمت مریم کا قصہ پر اب اس باب کو وا کیوں کریں ہم
زلیخائے عزیزاں بات یہ ہے بھلا گھاٹے کا سودا کیوں کریں ہم
ہماری ہی تمنا کیوں کرو تم تمہاری ہی تمنا کیوں کریں ہم
کیا تھا عہد جب لمحوں میں ہم نے تو ساری عمر ایفا کیوں کریں ہم
اٹھا کر کیوں نہ پھینکیں ساری چیزیں فقط کمروں میں ٹہلا کیوں کریں ہم
جو اک نسل فرومایہ کو پہنچے وہ سرمایہ اکٹھا کیوں کریں ہم
نہیں دنیا کو جب پروا ہماری تو پھر دنیا کی پروا کیوں کریں ہم
برہنہ ہیں سر بازار تو کیا بھلا اندھوں سے پردہ کیوں کریں ہم
ہیں باشندے اسی بستی کے ہم بھی سو خود پر بھی بھروسا کیوں کریں ہم
چبا لیں کیوں نہ خود ہی اپنا ڈھانچہ تمہیں راتب مہیا کیوں کریں ہم
پڑی ہیں دو انسانوں کی لاشیں زمیں کا بوجھ ہلکا کیوں کریں ہم
یہ بستی ہے مسلمانوں کی بستی یہاں کار مسیحا کیوں کریں ہم
جون ایلیا
3 notes
·
View notes
Photo
سعودی عریبیہ میں ویسٹرن ماڈرنزم کے چکر کے اندر اس ملک کی روایات اور اخلاقیات کو مغربی طرز پر بدل کر کیسے اسلامی تعلیمات کا مذاق بنا دیا گیا ہے اس بات سے تو ہم سبھی لوگ واقف ہیں کیونکہ ہر روز اس مقدس سرزمین پر ہمیں کوئی نہ کوئی ایسی خبر سننے کو ملتی ہے جس پر یقین کرنا مشکل ہوتا ہے کہ ہمیں کب مغرب کی طرح اس ملک کی عوام کو بھی سرعام بے حیائی اور اسلامی تعلیمات کے خلاف جا کر ہر اس چیز کو پرموٹ کیا جائے گا جو کہ دین اسلام کے اندر سختی سے منع ہے سعودی عرب نے وی این 2030 کے مطابق آئل پر اپنی ڈیپینڈنسی کو محدود کر کے اس کے بجائے اس کو ویسٹرن ٹووریزم پر شفٹ کرنے پر زور دے رہا ہے کہ دنیا بھر سے مغرب کے کلچر کے لوگ یہاں پر آکر اپنائیت محسوس کریں انہیں یہاں پر وہ سب دستیاب ہو جو کہ ان کے اپنے ملک کے اندر دستیاب ہیں ان فیکٹ اس سے بھی بڑھ کر اور اسی لیے سعودی انٹرٹینمنٹ اتھارٹی مسلسل ویسٹرن سنگرز کو بلا بلا کر میوزیکل کنسرٹ کروا رہی ہے نائٹ کلبز بیچز اور ایسے ایڈوانس شہر کھولے جا رہے ہیں جو کہ شرعی قانون سے مکمل طور پر ازاد ہوں گے سعودی عربیہ میں ریاف شہر کے اندر حال ہی کے اندر ایک اونلی فین پون سٹار اور میوزیشن ایک ہی اسرائیلہ نے کنسرٹ پرفارم کیا اور اس کنسرٹ کے اندر جو کچھ ہوا وہ سن کر اپ کو اپنے کانوں پر یقین نہیں ائے گا لیکن اس سے پہلے اپ کو بتاتا چلوں کہ اونلی فینز ایک ایسی فحش قسم کی ویب سائٹ ہے جہاں پر دنیا کی جسم فروش عورتیں اپنے برانہ ویڈیوز یا پکچرز کو اپلوڈ کر کے پیسہ کماتی ہیں یہی کام یہ عورت بھی کرتی ہے اپنے میوزک کے ساتھ ساتھ یہ عورت اپنے فیض قسم کے ڈانس کے لیے دنیا بھر کے اندر مشہور ہے جسے خاص طور پر سعودی عریبیہ کے اندر اس لباس کے اندر میوزیکل کنسرٹ کے لیے بلایا گیا لاحول ولا قوہ تھا یہ سب ترقی کے نام پر ہو رہا ہے اپنی پرفارمنس کے دوران اس نے انتہائی شیطانی قسم کا کفریہ گانا گایا اور یہاں پر موجود تمام مسلمانوں کو یہ الفاظ دہرانے کے لیے گئے جو کہ کچھ اس طرح کے ہیں خدا مجھے بتاؤ اگر تم مجھے سن رہے ہو نبیوں کے ذریعے تبلیغ کا یا ہمیں سیدھا راستہ دکھانے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ اب ہمیں کوئی شخص نہیں روک سکتا دیوی کے سامنے سجدہ کرو یعنی مجھے سجدہ کرو میں تمہاری فیمیل خدا ہوں یہ الفاظ اس نے تین مرتبہ دہرائے اور یہی لیرکس دو مرتبہیہاں کھلے عام اس مقدس سرزمین پر گانے کی صورت شیطانیت اور کفر کی تبلیغ ہو رہی ہے اور یہ لوگ اس پر ناچ رہے ہیں اسے سن سن کر اور اسے بول بول کر انجوائے کر رہے ہیں لعنت ہے ان لوگوں پر اس عورت نے انتہائی ولگر قسم کا ٹائٹ ریسٹ پہنا ہوا تھا جو کہ پرفارمنس کے دوران اچانک سے پھٹ گیا اس کا جسم دکھنے لگا تو سعودی جوانوں نے شور م جس کے بعد سعودی پولیس نے یہ کونسلٹ ٹائم سے پہلے رکوا دیا یہ ہمارے نبی کی تبلیغ ان کی دین کے لیے تکلیفیں اٹھانے جنگوں کی سختیاں برداشت کرنے اپنی اس قوم کو اس ف**** جہالت بت پرستی سے نکالنے کا صلہ ہے جن لوگوں کو مسلم دنیا کے سامنے رول ماڈل ہونا چاہیے تھا اسلام پوری دنیا کے اندر اس ملک کے اندر نافذ ہونا چاہیے تھا اج ان کی یہ
For More Updates Visit Our Site Click Here To Visit
Tough one by Ekaterina Tambovtseva
#painting#Ekaterina Tambovtseva#art#Illustration#digital art#random facts#fun facts#factsnfunnypics#interesting facts#facts#wise words#today i learned#amazing facts#urdu facts
32K notes
·
View notes
Text
جنگی جرائم اور بین الاقوامی عدالت انصاف
انسانی تاریخ کا ہر دور جنگ، تباہی اور ظلم کی داستانوں سے بھرا ہوا ہے، لیکن کچھ جرائم ایسے ہیں جو نہ صرف میدان جنگ میں بلکہ امن کے دور میں بھی انسانیت کے نام پر داغ بن جاتے ہیں۔ ان ہی جرائم کو روکنے اور ان کے مجرموں کو سزا دلانے کے لیے جنگی جرائم کے عالمی قوانین ترتیب دیے گئے ہیں۔ جنگی جرائم میں نسل کشی، شہری آبادیوں کو نشانہ بنانا، خواتین اور بچوں پر مظالم اور دیگر غیر انسانی اقدامات شامل ہیں جنھیں عالمی معاہدوں اور اصولوں کے تحت ناقابل معافی قرار دیا گیا ہے۔ آج کا دور ایسا ہے کہ جنگ اور ظلم کو نہ صرف ریکارڈ کیا جا سکتا ہے بلکہ ان جرائم کو منظر عام پر لا کر عالمی عدالتوں میں انصاف کا مطالبہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں بین الاقوامی عدالت انصاف (International Court of Justice - ICJ) کا کردار انتہائی اہم ہے۔ ICJ اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت 1945 میں قائم کی گئی تھی، جس کا مقصد دنیا میں امن و انصاف کو فروغ دینا اور بین الاقوامی تنازعات کو حل کرنا ہے۔ ICJ کے فیصلے عالمی سطح پر ایک نظیر کا درجہ رکھتے ہیں اور دنیا کی توجہ اس وقت اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو کے خلاف جاری مقدمے پر مرکوز ہے۔
نیتن یاہو پر الزام ہے کہ انھوں نے فلسطینی شہریوں پر مظالم کی کھلی اجازت دی، جن میں غزہ کے بے گناہ مرد، خواتین اور بچے شدید متاثر ہوئے۔ اسرائیلی فضائی حملے، بچوں کا قتل، اور گھروں کا مسمار کیا جانا ایسے جرائم ہیں جو انسانیت کے لیے ناقابل قبول ہیں۔ بین الاقوامی قوانین کے تحت ایسے اقدامات جنگی جرائم کے زمرے میں آتے ہیں، اور نیتن یاہو کو ICJ میں اس سلسلے میں جواب دہ ٹھہرایا گیا ہے۔ اس کیس میں فلسطینی حکومت اور انسانی حقوق کی تنظیمیں ICJ سے اپیل کر رہی ہیں کہ اسرائیل کے خلاف فوری کارروائی عمل میں لائی جائے تاکہ فلسطینیوں کو انصاف فراہم کیا جا سکے۔ ICJ کا طریقہ کار اس طرح ہے کہ کسی بھی ملک یا عالمی تنظیم کو اس عدالت میں مقدمہ دائر کرنے کا حق ہے۔ عدالت درخواستوں کا جائزہ لیتی ہے اور شواہد کی بنیاد پر فیصلہ صادر کرتی ہے۔ تاہم، اکثر طاقتور ممالک ICJ کے فیصلوں سے بچنے کے لیے سیاسی چالوں کا سہارا لیتے ہیں۔ اس بات کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ کئی اہم کیسز جیسے بوسنیا کے مسلمانوں، روانڈا کی نسل کشی اور کشمیر کے مظالم کے معاملات ICJ میں زیر غور آئے، لیکن ان میں فیصلہ آنے تک ایک طویل عدالتی عمل سے گزرنا پڑا۔
اسرائیل اور نیتن یاہو کے خلاف ICJ میں دائر حالیہ کیس میں دنیا کی نظریں اس بات پر ہیں کہ آیا عدالت ان کے خلاف کوئی موثر کارروائی کرے گی۔ موجودہ کیس میں، فلسطینی قیادت نے اسرائیل پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ منظم طریقے سے فلسطینی شہریوں کو نشانہ بنا رہا ہے، ان کی زمینوں کو قبضے میں لے رہا ہے، اور غزہ جیسے علاقوں میں جنگی جرائم کر رہا ہے۔ ICJ کی جانب سے اگر اسرائیل کے خلاف فیصلہ آتا ہے تو یہ عالمی قوانین کی پاسداری کے حوالے سے ایک اہم قدم ہو گا اور جنگی جرائم کی روک تھام میں سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے۔ بین الاقوامی عدالتِ انصاف نے ماضی میں کئی اہم فیصلے دیے ہیں جو انصاف اور امن کی خاطر مثالی حیثیت رکھتے ہیں۔ 1993 میں بوسنیا کے مسلمانوں کے قتل عام پر عدالت نے سرب سربراہوں کو مجرم ٹھہرایا، جس کے نتیجے میں سربیا کو بین الاقوامی سطح پر جواب دہ ہونا پڑا۔ اسی طرح، میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف کارروائیوں پر ICJ نے یہ فیصلہ دیا کہ میانمار کی حکومت نے جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے اور روہنگیا مسلمانوں کو نشانہ بنا کر ان کے انسانی حقوق کی پامالی کی گئی ہے۔ ان فیصلوں نے یہ ثابت کیا کہ ICJ دنیا کے مظلوموں کے حق میں آواز بلند کرنے کا ادارہ ہے۔
اس وقت نیتن یاہو کے خلاف ICJ میں چلنے والا کیس نہ صرف فلسطینیوں کے لیے بلکہ پوری دنیا کے لیے انصا�� اور امن کی جانب امید کی ایک کرن ہے۔ اگر عدالت اس کیس میں اسرائیل کے خلاف فیصلہ دیتی ہے تو یہ فلسطینیوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کے مترادف ہو گا اور اس سے یہ پیغام جائے گا کہ کوئی بھی حکومت، چاہے وہ کتنی ہی طاقتور کیوں نہ ہو، انسانی حقوق کی پامالی کے بعد محفوظ نہیں رہ سکتی۔ اس کے علاوہ، ICJ کا یہ فیصلہ مستقبل میں دیگر ممالک کے لیے ایک نظیر بن سکتا ہے، اور جنگی جرائم کے خلاف عالمی سطح پر ایک مضبوط پیغام دے سکتا ہے۔ اسرائیل کے معاملے میں دنیا کی بڑی طاقتیں بھی دو حصوں میں تقسیم نظر آتی ہیں۔ ایک طرف وہ ممالک ہیں جو اسرائیل کے دفاع میں کھڑے ہیں، جب کہ دوسری جانب انسانی حقوق کے حامی ممالک ہیں جو فلسطینیوں کے حق میں آواز بلند کر رہے ہیں۔ ICJ کا فیصلہ اس تنازعے کو مزید اجاگر کرے گا اور عالمی سطح پر انسانیت کے حق میں انصاف کی جیت کا پیغام ہو گا۔
اس کیس میں جو الزامات ہیں، ان میں خاص طور پر غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فوج کی کارروائیاں شامل ہیں، جہاں عام شہریوں، بچوں اور خواتین کو نشانہ بنایا گیا۔ عالمی میڈیا اور انسانی حقوق کی تنظیمیں ان مظالم کو جنگی جرائم قرار دے چکی ہیں، اور یہ کیس ICJ کے سامنے اس بات کا امتحان ہے کہ آیا وہ اسرائیل کے خلاف مضبوط قدم اٹھا سکے گا یا نہیں۔ فلسطینی عوام نے اپنی امیدیں ICJ سے باندھ رکھی ہیں اور دنیا کے انصاف پسند افراد بھی اس بات کے منتظر ہیں کہ عدالت کا فیصلہ ان کی توقعات پر پورا اترے گا یا نہیں۔ اگرچہ ICJ کا ہر فیصلہ فوری نتائج نہیں دیتا، مگر یہ عالمی سطح پر قانون اور انصاف کے حق میں ایک آواز ہوتی ہے۔ نیتن یاہو کے خلاف کیس کا فیصلہ اگر فلسطینیوں کے حق میں آتا ہے تو یہ ایک تاریخی اقدام ہو گا، جو دنیا کو یہ بتائے گا کہ ظلم و بربریت کی ایک حد ہے اور مظلوموں کے لیے انصاف کے دروازے کبھی بند نہیں ہوتے۔ عدالت کا فیصلہ نہ صرف فلسطین بلکہ پوری دنیا کے لیے ایک نئی امید کا پیغام بنے گا، اور ICJ کا یہ کردار عالمی امن کے لیے ایک سنگ میل ثابت ہو گا۔
زاہدہ حنا
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
Text
بشریٰ بی بی کو سعودی عرب سے متعلق بیان دینا مہنگا پڑگیابڑی مشکل میں پھنس گئیں
(رانا اقبال زاہد)سعودی عرب سے متعلق متنازع بیان پر گوجرانوالہ اور بہاولنگر میں بھی بانی پی ٹی آئی کی اہلیہ بشری بی بی کے خلاف مقدمہ در�� کر لیا گیا۔ پولیس کے مطابق مقدمہ تھانہ سول لائن میں شہری کاشف ہدایت کی مدعیت میں درج کیا گیا ،مقدمہ ملک میں مذہبی انتشار پھیلانے،مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنے اور پیکا ایکٹ کی دفعات کے تحت درج کیا گیا ہے ۔ مقدمہ متن میں کہا گیا ہے کہ بشریٰ بی بی نے پاکستان اور…
0 notes
Text
09.11.2024Comlhroff
NT1
کمشنر لاہور زید بن مقصود کا شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کے یوم پیدائش پر پیغام
اقبال کی فکر متحرک و جدید معاشرے کی تشکیل کرتی ہے۔کمشنر لاہور زید بن مقصود
علامہ اقبال کا فلسفہ عملی جدجہد کا ہے۔نظرے سے قوم کے کردار سازی کی ہے۔کمشنر لاہور
قوم آج شاعر مشرق علامہ اقبال کا یوم پیدائش بھر پور عقیدت اور احترام سے منارہی ہے،کمشنر لاہور
علامہ اقبال نے برصغیر کے مسلمانوں کیلئے علیحدہ وطن کا تصور دے کر منزل کا تعین کیا۔کمشنر لاہور
اقبال کے پیغام حریت نے غلامی کی زنجیروں میں جکڑی قوم کو جدوجہد آزادی پر آمادہ کیا۔کمشنر لاہور
ہمیں اقبال کے خودی، یقین کے پیغام کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے کی ضرورت ہے۔کمشنر لاہور
علامہ اقبال کے افکار پرعمل پیرا ہونے سے ہی پاکستان عظیم فلاحی ریاست بنے گا۔کمشنر لاہور
0 notes
Text
تمام اہل اسلام کو عیدالاضحی مبارک ہو
ﷲپَاڪَﷻ سے دعا ہے کہ یہ عید آپ اور آپ کے اہل واعیال کے لیے خوشیوں اور ایمان میں اضافے کا باعث بنے
اللّٰہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کی قربانیوں کو قبول فرمائے آمِیۡــنَ ثُــمَّ آمِیۡـنَ يَا رَبِّ الۡعٰلَمِــیۡن.
خوش رہیں ،خوشیاں بانٹیں ،دُعاوں میں یاد رکھیں
چودھری انور حسین
اللہ کرے کہ تم کو مبارک ہو روز عید
ہر راحت و نشاط کا ساماں لیئے ہوئے
2 notes
·
View notes
Text
کشمیری آج یوم شہدا جموں منا رہے ہیں
مظفرآباد: لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کے دونوں اطراف کشمیری آض یوم شہدا جموں منا رہے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق 6 نومبر 1947 کو ڈوگرہ فوج نے جموں کٹھوا، ادہم پور اور ریاسی کے اصلاح میں منظم انداز سے کشمیری مسلمانوں کی نسل کشی کی۔ کثیر تعداد میں کشمیری مسلمان پولیس اسٹیشنوں میں پاکستان کی جانب نقل مکانی کرنے کے لیے جمع ہوئے تھے، قتل عام سے قبل ڈوگرہ فوج کے مسلمان سپاہیوں کو برطرف جبکہ جموں کینٹ کے…
0 notes
Text
*📮Diwali aur Hum Musalmaan*
Diwali ka Hindu tehwar Devi Durga ke zariye Mahisha ke khatme aur 14 saalah jila-watni ke baad Sita aur Ram ki Ayodhya (Bharat mein ek ahem ziarat gah) wapsi ki yadgar hai.
*Sawāl:* Lekin un Musalmanon ka kya jo Hindu dost rakhte hain? Kya woh unhein is tehwar par mubarakbad de sakte hain ya unke sath manana jaiz hai?
*Jawāb:* Nahi, bilkul bhi nahi. Islam mein Allah ka koi shareek nahi hai. Islam mein sab se bara gunah shirk hai aur Diwali shirk ka jashan manati hai.
دیوالی کا ہندو تہوار دیوی درگا کے ذریعہ مہیشا کے خاتمے اور 14 سالہ جلاوطنی کے بعد سیتا اور رام کی ایودھیا (بھارت میں ایک اہم زیارت گاہ) واپسی کی یادگار ہے۔
لیکن ان مسلمانوں کا کیا جو ہندو دوست رکھتے ہیں؟ کیا وہ انہیں اس تہوار پر مبارکباد دے سکتے ہیں یا ان کے ساتھ منانا جائز ہے؟
نہیں، بالکل بھی نہیں۔ اسلام میں اللہ کا کوئی شریک نہیں ہے۔ اسلام میں سب سے بڑا گناہ شرک ہے اور دیوالی شرک کا جشن مناتی ہے۔
The Hindu festival of Diwali marks the destruction of Mahisha by the goddess Durga, and the return of Sita and Rama after 14 years of exile to Ayodhya (an important pilgrimage site in India).
But what about Muslims who have Hindu friends? can they wish them or celebrate it with them?
No, it is most definitely not. Allah has no partners. In Islam, the biggest sin is SHIRK, and Diwali is a celebration of SHIRK.
📚Reference:
al-Maa’idah 5:2
Aal ‘Imraan 3:85
al-Maa’idah 5:51
al-Mumtahanah 60:1
________
*Follow us on WhatsApp channel:*
https://whatsapp.com/channel/0029Va5g6m960eBl9eWSBr0y
#diwali#muslims#islamic advice#islamic#quran#welcome to islam#holy quran#quran kareem#islamicreminders#hindu festival
0 notes