#لارنس پور
Explore tagged Tumblr posts
Text
ضیا ء محی الدین انتقال 13 فروری
ضیا ء محی الدین کا انتقال پر ملال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مشہور پاکستانی اداکار ، صدا کار اور ہدایت کار آج 13 فروری 2023 ء کو انتقال کر گئے ۔ ان کی ولادت سنہ 1931 ء کی تھی۔ طویل عمر پائی۔ فیصل آباد ( لائل پور ) میں پیدا ہوے۔ پنجابی ہوتے ہوئے انگریزوں کی طرح انگریزی اور اہل زبان کی طرح اردو بولتے تھے۔ نماز جنازہ امام بارگاہ یژب کراچی میں ادا کی جائے گی ۔ لارنس آف عریبیا میں بھی کام…
View On WordPress
0 notes
Text
زراعت و آب رسانی
زراعت و آب رسانی
زمین کو ضلع کے تمام رقبے کی 1927 میں اس طرح درجہ بندی کی گئی، 1-مزروعہ 978, 1049 ایکڑ۔ 2-قابل زراعت بنجر 947, 1625 ایکڑ۔ 3-سرکاری جنگلات 958, 0٫201 ایکڑ۔ 4-دوسرے ناقابلِ زراعت علاقے 1, 361, 517 ایکڑ۔ آخری علاقہ زیادہ تر ندی نالوں، دریا اور پہاڑوں پر مشتمل ہے۔ زمین کی مٹی: عام طور پر ضلع کی تمام زمینوں کی اہمیت ان چٹانوں کی خاصیت کی حامل ہے جو اس زمین کے نیچے تہہ در تہہ موجود ہیں۔ اٹک کے…
View On WordPress
#Agriculture and Horticulture#Agriculture and irrigation#attock#campbellpore#Campbellpur#iattock magazine#samana#اٹک#پنڈ فضل خان#ثمانہ زہرا#زراعت#زمین زندگی اور زمانہ#زمیندار#سردار ساجد محمود خان#سروالہ#فتح جنگ#کیمبل پور#لارنس پور#میرا
0 notes
Text
گیلری لالٹس سوکر کے شائقین آرٹ کے لیے ٹوٹنہم اسٹیڈیم میں
گیلری لالٹس سوکر کے شائقین آرٹ کے لیے ٹوٹنہم اسٹیڈیم میں
لندن – 8 سالہ اینی لارنس اتوار کی دوپہر پرجوش نظر آرہی تھیں۔ وہ انگلینڈ پریمیئر لیگ سیزن کا پہلا گیم کھیلنے والی فٹ بال ٹیم ٹوٹنہم ہاٹ پور کو دیکھنے والی تھی – لیکن اس کی جوش و خروش مکمل طور پر آنے والے کھیل کی وجہ سے نہیں تھا۔
لارنس اندر کھڑا تھا۔ او او ایف، فٹ بال کے بارے میں آرٹ کے لیے مختص ایک گیلری جو گزشتہ ماہ کلب کی اسٹیڈیم گفٹ شاپ سے منسلک عمارت میں کھولی گئی۔ ڈسپلے پر موجود کچھ کام اسے ٹوٹنہم کی جیت کی طرح خوش کر رہے تھے۔
او او ایف کے افتتاحی شو ، “بالز” (21 نومبر تک) میں عصری آرٹ کے 17 ٹکڑوں کو ساکر بالز کا استعمال کرتے ہوئے بنایا گیا ہے ، یا ان کی نمائندگی کی گئی ہے۔ ایک کنکریٹ سے بنا ہوا ہے ، اور دوسرا سلیکون میں ہے جو ایسا لگتا ہے کہ یہ نپلوں سے ڈھکا ہوا ہے۔
مارکس ہاروے کی جانب سے ڈیفلیٹڈ گیند کے ایک بڑے کانسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لارنس نے کہا ، “میں اسے اپنے بیڈروم میں چاہوں گا۔” آرٹسٹ نے ایک فون انٹرویو میں کہا کہ یہ کام کسی بھی چیز کو جنم دے سکتا ہے۔ ایک سامراجی طاقت کے طور پر برطانیہ کے زوال سے۔ بچپن کے اختتام تک.
پھر بھی لارنس کے لیے ، اس کی اپیل آسان تھی: “ایسا لگتا ہے کہ آپ صوفے کی طرح اس میں بیٹھ سکتے ہیں۔”
اس کے بعد لارنس اپنے والد کو اوپر لے گیا اور فرانسیسی آرٹسٹ لارینٹ پربوس کے “دنیا کی طویل ترین گیند” نامی ایک ٹکڑے کو دیکھا۔ “یہ ساسیج کی طرح لگتا ہے!” اس نے کہا ، ایک اور ٹکڑے کے سامنے تصویروں کے لیے مسکرانے سے پہلے جس میں مائیکروویو میں گھومنے والی پیپر مچی فٹ بال ہے۔
ہر کوئی ڈسپلے پر ہونے والے کاموں کے بارے میں اتنا پرجوش نہیں تھا۔ نیچے ، 71 سالہ رون ایلی نے ارجنٹائن کے فنکار نکولا کوسٹنٹینو کی نپلوں میں ڈھکی ہوئی گیند کو دیکھا۔ “کچرے کا بوجھ ،” اس نے کہا ، پھر باہر چلا گیا۔
آرٹ اور فٹ بال کی دنیا لازمی طور پر آپس میں نہیں ملتی۔ دونوں کو یکجا کرنے کا سب سے مشہور حالیہ کام ہے۔ کرسٹیانو رونالڈو کا مجسمہ، پرتگالی کھلاڑی ، جس نے 2017 میں اس کی نقاب کشائی کی تھی اس وقت سرخیاں بنیں کیونکہ یہ اس کی طرح کچھ نہیں لگتا تھا۔ دوسرے ٹکڑے ، جیسے اینڈی وارہول۔ پیلے کی ایکریلک ریشم اسکرینیں۔، عظیم کھلاڑیوں کو سادہ خراج تحسین سے کچھ زیادہ ہیں۔
ایڈی فرینکل ، ایک فن نقاد جنہوں نے گیلریسٹ جینی اور جسٹن ہیمنڈ کے ساتھ مل کر او او ایف کی بنیاد رکھی ، نے کہا کہ وہ فٹ بال کے بارے میں یہ فن دکھانا چاہتے ہیں ، جیسا کہ فٹ بال برطانیہ میں جانا جاتا ہے ، دلچسپ ، پیچیدہ اور سوچنے والا ہو سکتا ہے۔ فرینکل نے کہا ، “ہم معاشرے کے بارے میں خیالات کے اظہار کے لیے فٹ بال کا استعمال کر رہے ہیں۔” “اگر آپ نسل پرستی ، تعصب ، ہم جنس پرستی کے بارے میں بات کرنا چاہتے ہیں ، یا اگر آپ کمیونٹی اور عقیدے اور جذبے کے بارے میں بات کرنا چاہتے ہیں تو: یہ سب ، آپ فٹ بال کے ساتھ کر سکتے ہیں۔”
فرینکل نے کہا کہ وہ برطانیہ کی آرٹ کی دنیا میں فٹ بال کے لیے اپنے جذبے کو پرسکون رکھتا تھا ، کیونکہ “آپ واقعی دونوں میں شامل ہونے سے دور نہیں ہو سکتے۔” یہ ایک رات بدل گئی ، 2015 میں ، جب وہ رپورٹ کرنے کے لیے سوتھبی میں تھا۔ ایک یادگار پینٹنگ کی نیلامی جرمن پینٹر Gerhard Richter کی طرف سے یہ فروخت ایک کھیل کے ساتھ ہوئی جس میں ٹوٹنہم ہاٹس پور کی خاصیت ہے ، جس کا کلب فرانکل حمایت کرتا ہے ، اس لیے اس نے اپنے فون پر میچ دیکھنا شروع کیا۔ انہوں نے کہا کہ جلد ہی ، اس کے پیچھے لگ بھگ 15 لوگ جھک رہے تھے تاکہ وہ ایک نظارہ حاصل کرسکیں۔
“میں ابھی گیا ، ‘اوہ ، تو ایسے لوگ ہیں جو آرٹ کی دنیا میں فٹ بال کی پرواہ کرتے ہیں جیسا کہ میں کرتا ہوں ،” فرینکل نے کہا۔
2018 میں اس نے او او ایف کو ایک میگزین کے طور پر لانچ کیا جس نے اس کے جذبات کے چوراہے کی کھوج کی۔ انہوں نے کہا ، “ہم نے سوچا کہ شاید ہم چار مسائل سے نکل جائیں گے۔” دو سالہ میگزین اب شمارہ آٹھ پر ہے۔
فرینکیل نے کہا کہ ایک نمائشی جگہ کا قیام منطقی لگتا ہے ، ا��ہوں نے مزید کہا کہ وہ ابتدائی طور پر اسے ٹوٹنہم ہاٹس پور اسٹیڈیم کے قریب ایک سابق کباب کی دکان میں کھولنا چاہتے تھے ، جو کہ لندن کے روایتی گیلری اضلاع سے تقریبا eight آٹھ میل شمال میں ہے۔ لیکن جب اس نے اور اس کے شراکت داروں نے مدد کے لیے مقامی کونسل سے رابطہ کیا تو انہوں نے کلب سے رابطہ کرنے کا مشورہ دیا ، جس نے 19 ویں صدی کا ٹاؤن ہاؤس پیش کیا جو کلب کے مستقبل کے اسٹیڈیم کے باہر متضاد طور پر بیٹھا ہے اور اس کی گفٹ شاپ سے منسلک ہے۔
او او ایف میں ڈسپلے پر بیشتر کام فروخت کے لیے ہیں ، کچھ ٹکڑوں کی قیمت 120،000 ڈالر تک ہے ، پھر بھی گیلری میں زیادہ تر تجارتی گیلریوں کے مقابلے میں بہت زیادہ فوٹ فال ہے۔ کھیل کے دنوں میں 60،000 سے زیادہ شائقین اسٹیڈیم آتے ہیں ، اور اتوار کے روز ، چند سو تماشائیوں نے ہجوم سے چھلک کر ادھر ادھر دیکھا ، بہت سے لوگ ٹوٹنہم ہاٹ پور کی وردی میں ملبوس تھے۔
فرینکیل نے کہا ، “ہم بنیادی طور پر میوزیم چلا رہے ہیں ، بغیر میوزیم کے بجٹ کے۔”
داخلی دروازے پر ایک گال کا نشان زائرین سے کہتا ہے کہ وہ آرٹ کو لات نہ ماریں ، لیکن ہر ایک نے اس کی تعمیل نہیں کی ، فرینکل نے کہا: حالیہ دورے پر ، ٹوٹنہم ہاٹ پور کے سابق کپتان لیڈلے کنگ نے “دنیا کی سب سے لمبی گیند” دی تھی۔ “ایک ہلکا بوٹ.
پیبروس ، کام کے پیچھے آرٹسٹ ، جب ٹیلی فون انٹرویو میں اس واقعے کے بارے میں بتایا گیا تو ہنس پڑے۔ “شاید وہ بہت سی گیلریوں میں نہیں جاتا ، اس لیے وہ نہیں جانتا تھا ،” انہوں نے کہا۔
فرینکیل نے کہا کہ موجودہ اسکواڈ ، بشمول اس کے مشہور اسٹرائیکر ہیری کین ، ابھی گیلری کا دورہ نہیں کیا تھا۔ کھلاڑی وبائی امراض کے دوران معاشرتی تعامل کو کم سے کم رکھنے کی کوشش کر رہے تھے۔
فرینکیل نے کہا ، “ظاہر ہے کہ ہم ایک تجارتی گیلری ہیں اس لیے کچھ آرٹ بیچنا اچھا ہوگا۔” انہوں نے مزید کہا ، “لیکن اصل کامیابی یہ ہے کہ اگر ہم دروازے سے لوگوں کا بوجھ اٹھا سکیں ، اور انہیں معاصر فن میں مشغول کر سکیں ، جو عام طور پر نہیں کرتے۔”
اتوار کو کئی سو زائرین میں سے بہت سے اس بل کے مطابق ہیں۔ 27 سالہ ہننا برناٹو نے اپنے ساتھی کے ساتھ کہا ، “اگر ہم ایماندار ہیں تو ہم گیلریوں میں نہیں جاتے۔ “لیکن یہ دلچسپ ہے۔ یہ مختلف ہے ، “اس نے کہا۔
سام رابین ، گیلری میں تین گائیڈز میں سے ایک جو کاموں کے ذریعے شائقین سے بات کرتے ہیں ، نے کہا کہ یہ ایک عام رد عمل تھا۔ انہوں نے کہا ، “میں نے یہ جملہ کبھی نہیں سنا ، ‘یہ مختلف ہے’ ، اس سے کہیں زیادہ میں نے یہاں کام کیا ہے۔”
لیکن بہت سے زائرین خاص طور پر بچوں نے نمائش کے دوران آرٹ کے ساتھ گہرا تعلق ظاہر کیا ، انہوں نے مزید کہا کہ یہ ثابت شدہ فٹ بال اور آرٹ الگ الگ دُنیا نہیں ہیں جو انہیں لگتا ہے۔ “وہ دونوں جذباتی تجربات ہیں ،” انہوں نے کہا۔ “وہ دونوں قابل قدر تجربات ہیں۔”
Source link
0 notes
Text
اوور کوٹ -افسانہ-غلام عباس
جنور ی کی ایک شام کو ایک خوش پوش نوجوان ڈیوس روڈ سے گزر کر مال روڈ پر پہنچا اور چیرنگ کراس کا رخ کر کے خراماں خراماں پٹری پر چلنے لگا۔ یہ نوجوان اپنی تراش خراش سے خاصا فیشن ایبل معلوم ہوتا تھا۔ لمبی لمبی قلمیں، چمکتے ہوئے بال، باریک باریک مونچھیں گویا سرمے کی سلائی سے بنائی گئی ہوں۔ بادامی رنگ کا گرم اوور کوٹ پہنے ہوئے جس کے کاج میں شربتی رنگ کے گلاب کا ایک ادھ کھلا پھول اٹکا ہوا، سر پر سبز فلیٹ ہیٹ ایک خاص انداز سے ٹیڑھی رکھی ہوئی، سفید سلک کا گلوبند گلے کے گرد لپٹا ہوا، ایک ہاتھ کوٹ کی جیب میں، دوسرے میں بید کی ایک چھوٹی چھڑی پکڑے ہوئے جسے کبھی کبھی مزے میں آ کے گھمانے لگتا تھا۔ یہ ہفتے کی شام تھی۔ بھر پور جاڑے کا زمانہ ۔ سرد اور تند ہوا کسی تیز دھار کی طرح جسم پر آ کے لگتی تھی مگر اس نوجوان پر اس کا کچھ اثر معلوم نہیں ہوتا تھا۔ اور لوگ خود کو گرم کرنے کے لئے تیز قدم اٹھا رہے تھے مگر اسے اس کی ضرورت نہ تھی جیسے اس کڑکڑاتے جاڑے میں اسے ٹہلنے میں بڑا مزا آ رہا ہو۔ اس کی چال ڈھال سے ایسا بانکپن ٹپکتا تھا کہ تانگے والے دور ہی سے دیکھ کر سرپٹ گھوڑا دوڑاتے ہوئے اس کی طرف لپکتے مگر وہ چھڑی کے اشارے سے نہیں کر دیتا۔ ایک خالی ٹیکسی بھی اسے دیکھ کر رکی مگر اس نے ’’نو تھینک یو‘‘ کہہ کر اسے بھی ٹال دیا۔ جیسے جیسے وہ مال کے زیادہ با رونق حصے کی طرف پہنچتا جاتا تھا، اس کی چونچالی بڑھتی جاتی تھی۔ وہ منہ سے سیٹی بجا کے رقص کی ایک انگریزی دھن نکالنے لگا۔ اس کے ساتھ ہی اس کے پاؤں بھی تھرکتے ہوئے اٹھنے لگے۔ ایک دفعہ جب آس پاس کوئی نہیں تھا تو یکبارگی کچھ ایسا جوش آیا کہ اس نے دوڑ کر جھوٹ موٹ بال دینے کی کوشش کی گویا کرکٹ کا کھیل ہو رہا ہو۔ راستے میں وہ سڑک آئی جو لارنس گارڈن کی طرف جاتی تھی مگر اس وقت شام کے دھندلکے اور سخت کہرے میں اس باغ پر کچھ ایسی اداسی برس رہی تھی کہ اس نے ادھر کا رخ نہ کیا اور سیدھا چیرنگ کراس کی طرف چلتا رہا۔ ملکہ کے بت کے قریب پہنچ کر اس کی حرکات و سکنات میں کسی قدر متانت آ گئی۔ اس نے اپنا رومال نکالا جسے جیب میں رکھنے کی بجائے اس نے کوٹ کی بائیں آستین میں اڑس رکھا تھا اور ہلکے ہلکے چہرے پر پھیرا، تاکہ کچھ گرد جم گئی ہو تو اتر جائے۔ پاس گھاس کے ایک ٹکڑے پر کچھ انگریز بچے بڑی سی گیند سے کھیل رہے تھے۔ وہ رک گیا اور بڑی دلچسپی سے ان کا کھیل دیکھنے لگا۔ بچے کچھ دیر تک تو اس کی پرواہ کئے بغیر کھیل میں مصروف رہے مگر جب وہ برابر تکے ہی چلا گیا تو وہ رفتہ رفتہ شرمانے سے لگے اور پھر اچانک گیند سنبھال کر ہنستے ہوئے ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے ہوئے گھاس کے اس ٹکڑے ہی سے چلے گئے۔ نوجوان کی نظر سیمنٹ کی ایک خالی بنچ پر پڑی اور وہ اس پر آ کے بیٹھ گیا۔ اس وقت شام کے اندھیرے کے ساتھ ساتھ سردی اور بھی بڑھتی جا رہی تھی۔ اس کی یہ شدت نا خوشگوار نہ تھی بلکہ لذت پرستی کی ترغیب دیتی تھی۔ شہر کے عیش پسند طبقے کا تو کہنا ہی کیا وہ تو اس سردی میں زیادہ ہی کھل کھیلتا ہے۔ تنہائی میں بسر کرنے والے بھی اس سردی سے ورغلائے جاتے ہیں اور وہ اپنے اپنے کونوں کھدروں سے نکل کر محفلوں اور مجمعوں میں جانے کی سوچنے لگتے ہیں تاکہ جسموں کا قرب حاصل ہو۔ حصولِ لذت کی یہی جستجو لوگوں کو مال پر کھینچ لائی تھی اور وہ حسبِ توفیق ریستورانوں، کافی ہاؤسوں، رقص گاہوں، سینماؤں اور تفریح کے دوسرے مقاموں پر محظوظ ہو رہے تھے۔۔ مال روڈ پر موٹروں، تانگوں اور بائیسکلوں کا تانتا بندھا ہوا تو تھا ہی پٹری پر چلنے والوں کی بھی کثرت تھی۔ علاوہ ازیں سڑک کی دو رویہ دکانوں میں خرید و فروخت کا بازار بھی گرم تھا۔ جن کم نصیبوں کو نہ تفریحِ طبع کی استطاعت تھی نہ خرید و فروخت کی، وہ دور ہی سے کھڑے کھڑے ان تفریح گاہوں اور دکانوں کی رنگا رنگ روشنیوں سے جی بہلا رہے تھے۔ نوجوان سیمنٹ کی بنچ پر بیٹھا اپنے سامنے سے گزرتے ہوئے زن و مرد کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ اس کی نظر ان کے چہروں سے کہیں زیادہ ان کے لباس پر پڑتی تھی۔ ان میں ہر وضع اور ہر قماش کے لوگ تھے۔ بڑے بڑے تاجر، سرکاری افسر، لیڈر، فنکار، کالجوں کے طلبا اور طالبات، نرسیں، اخباروں کے نمائندے، دفتروں کے بابو ۔زیادہ تر لوگ اوور کوٹ پہنے ہوئے تھے۔ ہر قسم کے اوور کوٹ، قراقلی کے بیش قیمت اوور کوٹ سے لے کر خالی پٹی کے پرانے فوجی اوور کوٹ تک جسے نیلام میں خریدا گیا تھا۔ نوجوان کا اپنا اوور کوٹ تھا تو خاصا پرانا مگر اس کا کپڑا خوب بڑھیا تھا پھر وہ سلا ہوا بھی کسی ماہر درزی کا تھا۔ اس کو دیکھنے سے معلوم ہوتا تھا کہ اس کی بہت دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ کالر خوب جما ہوا تھا۔ باہوں کی کریز بڑی نمایاں، سلو ٹ کہیں نام کو نہیں۔ بٹن سینگ کے بڑے بڑے چمکتے ہوئے۔ نوجوان اس میں بہت مگن معلوم ہوتا تھا۔ ایک لڑکا پان بیڑی سگریٹ کا صندوقچہ گلے میں ڈالے سامنے سے گزرا۔ نوجوان نے آواز دی۔ ’’پان والا!‘‘۔ ’’جناب!‘‘ ’’دس کا چینج ہے؟‘‘ ’’ہے تو نہیں۔ لا دوں گا۔ کیا لیں گے آپ؟‘‘ "نوٹ لے کے بھاگ گیا تو؟" ’’اجی واہ۔ کوئی چور اچکا ہوں جو بھاگ جاؤں گا۔ اعتبار نہ ہو تو میرے ساتھ چلئے۔ لیں گے کیا آپ؟‘‘ ’’نہیں نہیں، ہم خود چینج لائے گا۔ لو یہ اکنی نکل آئی۔ ایک سگریٹ دے دو اور چلے جاؤ۔‘‘ لڑکے کے جانے کے بعد مزے مزے سے سگریٹ کے کش لگانے لگا۔ وہ ویسے ہی بہت خوش نظر آتا تھا۔ سگریٹ کے دھوئیں نے اس پر سرور کی کیفیت طاری کر دی۔ ایک چھوٹی سی سفید رنگ بلی سردی میں ٹھٹھری ہوئی بنچ کے نیچے اس کے قدموں میں آ کر میاؤں میاؤں کرنے لگی۔ اس نے پچکارا تو اچھل کر بنچ پر آ چڑھی۔ اس نے پیار سے اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا اور کہا۔ ’’پور لٹل سو ل‘‘ اس کے بعد وہ بنچ سے اٹھ کھڑا ہوا اور سڑک کو پار کر کے اس طرف چلا جدھر سینما کی رنگ برنگی روشنیاں جھلملا رہی تھیں۔ تماشا شروع ہو چکا تھا۔ برآمدے میں بھیڑ نہ تھی۔ صرف چند لوگ تھے جو آنے والی فلموں کی تصویروں کا جائزہ لے رہے تھے۔ یہ تصویریں چھوٹے بڑے کئی بورڈوں پر چسپاں تھیں۔ ان میں کہانی کے چیدہ چیدہ مناظر دکھائے گئے تھے۔ تین نوجوان اینگلو انڈین لڑکیاں ان تصویروں کو ذوق و شوق سے دیکھ رہی تھیں۔ ایک خاص شانِ استغنا کے ساتھ مگر صنفِ نازک کا پورا پورا احترام ملحوظ رکھتے ہوئے وہ بھی ان کے ساتھ ساتھ مگر مناسب فاصلے سے ان تصویروں کو دیکھتا رہا۔ لڑکیاں آپس میں ہنسی مذاق کی باتیں بھی کرتی جاتی تھیں اور فلم پر رائے زنی بھی۔ اتنے میں ایک لڑکی نے، جو اپنی ساتھ والیوں سے زیادہ حسین بھی تھی اور شوخ بھی، دوسری لڑکی کے کان میں کچھ کہا جسے سن کر اس نے ایک قہقہہ لگایا اور پھر وہ تینوں ہنستی ہوئی باہر نکل گئیں۔ نوجوان نے اس کا کچھ اثر قبول نہ کیا اور تھوڑی دیر کے بعد وہ خود بھی سینما کی عمارت سے باہر نکل آیا۔ اب سات بج چکے تھے اور وہ مال کی پٹری پر پھر پہلے کی طرح مٹر گشت کرتا ہوا چلا جا رہا تھا۔ ایک ریستوران میں آرکسٹرا بج رہا تھا۔ اندر سے کہیں زیادہ باہر لوگوں کا ہجوم تھا۔ ان میں زیادہ تر موٹروں کے ڈرائیور، کوچوان، پھل بیچنے والے، جو اپنا مال بیچ کے خالی ٹوکرے لئے کھڑے تھے۔ کچھ راہ گیر جو چلتے چلتے ٹھہر گئے تھے۔ کچھ مزدوری پیشہ لوگ تھے اور کچھ گداگر۔ یہ اندر والوں سے کہیں زیادہ گانے کے رسیا معلوم ہوتے تھے کیونکہ وہ غل غپاڑہ نہیں مچا رہے تھے بلکہ خاموشی سے نغمہ سن رہے تھے۔ حالانکہ دھن اور ساز اجنبی تھے۔ نوجوان پل بھر کے لئے رکا اور پھر آگے بڑھ گیا۔ تھوڑی دور چل کے اسے انگریزی موسیقی کی ایک بڑی سی دکان نظر آئی اور وہ بلا تکلف اندر چلا گیا۔ ہر طرف شیشے کی الماریوں میں طرح طرح کے انگریزی ساز رکھے ہوئے تھے۔ ایک لمبی میز پر مغربی موسیقی کی دو ورقی کتابیں چنی تھیں۔ یہ نئے چلنتر گانے تھے۔ سرورق خوبصورت رنگدار مگر دھنیں گھٹیا۔ ایک چھچھلتی ہوئی نظر ان پر ڈالی پھر وہاں سے ہٹ آیا اور سازوں کی طرف متوجہ ہو گیا۔ ایک ہسپانوی گٹار پر، جو ایک کھونٹی سے ٹنگی ہوئی تھی، ناقدانہ نظر ڈالی اور اس کے ساتھ قیمت کا جو ٹکٹ لٹک رہا تھا اسے پڑھا۔ اس سے ذرا ہٹ کر ایک بڑا جرمن پیانو رکھا ہوا تھا۔ اس کا کور اٹھا کے انگلیوں سے بعض پردوں کو ٹٹولا اور پھر کور بند کر دیا۔ پیانو کی آواز سن کر دکان کا ایک کارندہ اس کی طرف بڑھا۔ ’’گڈ ایوننگ سر۔ کوئی خدمت؟‘‘ ’’نہیں شکریہ۔ ہاں اس مہینے کی گراموفون ریکارڈوں کی فہرست دے دیجئے۔‘‘ فہرست لے لے کے اوور کوٹ کی جیب میں ڈالی۔ دکان سے باہر نکل آیا اور پھر چلنا شروع کر دیا۔ راستے میں ایک چھوٹا سا بک اسٹال پڑا۔ نوجوان یہاں بھی رکا۔ کئی تازہ رسالوں کے ورق الٹے۔ رسالہ جہاں سے اٹھاتا بڑی احتیاط سے وہیں رکھ دیتا۔ اَور آگے بڑھا تو قالینوں کی ایک دکان نے اس کی توجہ کو جذب کیا۔ مالک دکان نے جو ایک لمبا سا چغہ پہنے اور سر پر کلاہ رکھے تھا۔ گرمجوشی سے اس کی آؤ بھگت کی۔ ’’ذرا یہ ایرانی قالین دیکھنا چاہتا ہوں۔ اتاریئے نہیں۔۔۔۔ یہیں دیکھ لوں گا۔ کیا قیمت ہے اس کی؟ ’’چودہ سو تیس روپے ہے۔‘‘ نوجوان نے اپنی بھنووں کو سکیڑا جس کا مطلب تھا ’’اوہو اتنی‘‘۔ دکاندار نے کہا ’’آپ پسند کر لیجئے۔ ہم جتنی بھی رعایت کر سکتے ہیں کر دیں گے۔‘‘ ’’شکریہ لیکن اس وقت تو میں صرف ایک نظر دیکھنے آیا ہوں۔‘‘ ’’شوق سے دیکھئے۔ آپ ہی کی دکان ہے۔‘‘ وہ تین منٹ کے بعد اس دکان سے بھی نکل آیا۔ اس کے اوور کوٹ کے کاج میں شربتی رنگ کے گلاب کا جو ادھ کھلا پھول اٹکا ہوا تھا۔ وہ اس وقت کاج سے کچھ زیادہ باہر نکل آیا تھا۔ جب وہ اس کو ٹھیک کر رہا تھا تو اس کے ہونٹوں پر ایک خفیف اور پر اسرار مسکراہٹ نمودار ہوئی اور اس نے پھر اپنی مٹر گشت شروع کر دی۔ اب وہ ہائی کورٹ کی عمارتوں کے سامنے سے گزر رہا تھا۔ اتنا کچھ چل لینے کے بعد اس کی فطری چونچالی میں کچھ فرق نہیں آیا ۔ نہ تکان محسوس ہوئی تھی نہ اکتاہٹ۔ یہاں پٹری پر چلنے والوں کی ٹولیاں کچھ چھٹ سی گئی تھیں اور میں ان میں کافی فصل رہنے لگا تھا۔ اس نے اپنی بید کی چھڑی کو ایک انگلی پر گھمانے کی کوشش کی مگر کامیابی نہ ہوئی اور چھڑی زمین پر گر پڑی ’’اوہ سوری‘‘ کہہ کر زمین پر جھکا اور چھڑی کو اٹھا لیا۔ اس اثنا میں ایک نوجوان جوڑا جو اس کے پیچھے پیچھے چلا آ رہا تھا اس کے پاس سے گزر کر آگے نکل آیا۔ لڑکا دراز قامت تھا اور سیاہ کوڈرائے کی پتلون اور زپ والی چمڑے کی جیکٹ پہنے تھا اور لڑکی سفید ساٹن کی گھیر دار شلوار اور سبز رنگ کا کا کوٹ۔ وہ بھاری بھرکم سی تھی۔اس کے بالوں میں ایک لمبا سا سیاہ چٹا گندھا ہوا تھا جو اس کمر سے نیچا تھا۔ لڑکی کے چلنے سے اس چٹلے کا پھندنا اچھلتا کودتا پے درپے اس کے فربہ جسم سے ٹکراتا تھا۔ نوجوان کے لئے جو اب ان کے پیچھے پیچھے آ رہا تھا یہ نظارہ خاصا جاذب نظر تھا۔ وہ جوڑا کچھ دیر تک تو خاموش چلتا رہا۔ اس کے بعد لڑکے نے کچھ کہا جس کے جواب میں لڑکی اچانک چمک کر بولی۔ ہرگز نہیں۔ ہرگز نہیں۔ ہرگز نہیں۔ ’’سنو میرا کہنا مانو‘‘ لڑکے نے نصیحت کے انداز میں کہا ’’ ڈاکٹر میرا دوست ہے۔ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو گی۔‘‘ ’’نہیں، نہیں، نہیں‘‘۔ ’’میں کہتا ہوں تمہیں ذرا تکلیف نہ ہو گی۔‘‘ ’’لڑکی نے کچھ جواب نہ دیا۔‘‘ ’’تمہارے باپ کو کتنا رنج ہو گا۔ ذرا ان کی عزت کا بھی تو خیال کرو۔‘‘ ’’چپ رہو ورنہ میں پاگل ہو جاؤں گی۔‘‘ نوجوان نے شام سے اب تک اپنی مٹر گشت کے دوران میں جتنی انسانی شکلیں دیکھی تھیں ان میں سے کسی نے بھی اس کی توجہ کو اپنی طرف منعطف نہیں کیا تھا۔ فی الحقیقت ان میں کوئی جاذبیت تھی ہی نہیں۔ یا پھر وہ اپنے حال میں ایسا مست تھا کہ کسی دوسرے سے اسے سروکار ہی نہ تھا مگر اس دلچسپ جوڑے نے جس میں کسی افسانے کے کرداروں کی سی ادا تھی، جیسے یکبارگی اس کے دل کو موہ لیا تھا اور اسے حد درجہ مشتاق بنا دیا کہ وہ ان کی اور بھی باتیں سنے اور ہو سکے تو قریب سے ان کی شکلیں بھی دیکھ لے۔ اس وقت وہ تینوں بڑے ڈاکخانے کے چوراہے کے پاس پہنچ گئے تھے۔ لڑکا اور لڑکی پل بھر کو رکے اور پھر سڑک پار کر کے میکلو ڈ روڈ پر چل پڑے۔ نوجوان مال روڈ پر ہی ٹھہرا رہا۔ شاید وہ سمجھتا تھا کہ فی الفور ان کے پیچھے گیا تو ممکن ہے انہیں شبہ ہو جائے کہ ان کا تعاقب کیا جا رہا ہے۔ اس لئے اسے کچھ لمحے رک جانا چاہئے۔ جب وہ لوگ کوئی سو گز آگے نکل گئے تو اس نے لپک کر ان کا پیچھا کرنا چاہا مگر ابھی اس نے آدھی ہی سڑک پار کی ہو گی کہ اینٹوں سے بھری ہوئی ایک لاری پیچھے سے بگولے کی طرح آئی اور اسے روندتی ہوئی میکلوڈ روڈ کی طرف نکل گئی۔ لاری کے ڈرائیور نے نوجوان کی چیخ سن کر پل بھر کے لئے گاڑی کی رفتار کم کی۔ پھر وہ سمجھ گیا کہ کوئی لاری کی لپیٹ میں آگیا اور وہ رات کے اندھیرے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے لاری کو لے بھاگا۔ دو تین راہ گیر جو اس حادثے کو دیکھ رہے تھے شور مچانے لگے کہ نمبر دیکھو نمبر دیکھو مگر لاری ہوا ہو چکی تھی۔ اتنے میں کئی اور لوگ جمع ہو گئے۔ ٹریفک کا ایک انسپکٹر جو موٹر سائیکل پر جا رہا تھا رک گیا۔ نوجوان کی دونوں ٹانگیں بالکل کچلی گئی تھیں۔ بہت سا خون نکل چکا تھا اور وہ سسک رہا تھا۔ فوراً ایک کار کو روکا گیا اور اسے جیسے تیسے اس میں ڈال کر بڑے ہسپتال روانہ کر دیا گیا۔ جس وقت وہ ہسپتال پہنچا تو اس میں ابھی رمق بھر جان باقی تھی۔ اس ہسپتال کے شعبۂ حادثات میں اسسٹنٹ سرجن مسٹر خان اور دو نو عمر نرسیں مس شہناز اور مس گِل ڈیوٹی پر تھیں۔ جس وقت اسے سٹریچر پر ڈال کے آپریشن روم میں لے جایا جا رہا تھا تو ان نرسوں کی نظر اس پر پڑی۔ اس کا بادامی رنگ کا اوور کوٹ ابھی تک اس کے جسم پر تھا اور سفید سلک کا مفلر گلے میں لپٹا ہوا تھا۔ اس کے کپڑوں پر جا بجا خون کے بڑے بڑے دھبے تھے۔ کسی نے از راہِ دردمندی اس کی سبز فلیٹ ہیٹ اٹھا کے اس کے سینہ پر رکھ دی تھی تاکہ کوئی اڑا نہ لے جائے۔ شہناز نے گل سے کہا: ’’کسی بھلے گھر کا معلوم ہوتا ہے بے چارہ‘‘۔ گل دبی آواز میں بولی۔ ’’خوب بن ٹھن کے نکلا تھا بے چارہ ہفتے کی شام منانے۔‘‘ ’’ڈرائیور پکڑا گیا یا نہیں؟‘‘ ’’نہیں بھاگ گیا۔‘‘ ’’کتنے افسوس کی بات ہے۔‘‘ آپریشن روم میں اسسٹنٹ سرجن اور اور نرسیں چہروں پر جراحی کے نقاب چڑھائے جنہوں نے ان کی آنکھوں سے نیچے کے سارے حصے کو چھپا رکھا تھا، اس کی دیکھ بھال میں مصروف تھے۔ اسے سنگ مر مر کی میز پر لٹا دیا گیا۔ اس نے سر میں جو تیز خوشبو دار تیل ڈال رکھا تھا،اس کی کچھ مہک ابھی تک باقی تھی۔ پٹیاں ابھی تک جمی ہوئی تھیں۔ حادثے سے اس کی دونوں ٹانگیں تو ٹوٹ چکی تھیں مگر سرکی مانگ نہیں بگڑنے پائی تھی۔ اب اس کے کپڑے اتارے جا رہے تھے۔ سب سے پہلے سفید سلک گلوبند اس کے گلے سے اتارا گیا۔ اچانک نرس شہناز اور نرس گِل نے بیک وقت ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ اس سے زیادہ وہ کر بھی کیا سکتی تھیں۔ چہرے جو دلی کیفیات کا آئینہ ہوتے ہیں، جراحی کے نقاب تلے چھپے ہوئے تھے اور زبانیں بند۔ نوجوان کے گلوبند کے نیچے نکٹائی اور کالر کیا سرے سے قمیص ہی نہیں تھی۔۔۔۔۔۔۔ اوور کوٹ اتارا گیا تو نیچے سے ایک بوسیدہ اونی سویٹر نکلا جس میں جا بجا بڑے بڑے سوراخ تھے۔ ان سوراخوں سے سوئٹر سے بھی زیادہ بوسیدہ اور میلا کچیلا ایک بنیان نظر آ رہا تھا۔ نوجوان سلک کے گلوبند کو کچھ ��س ڈھب سے گلے پر لپیٹے رکھتا تھا کہ اس کا سارا سینہ چھپا رہتا تھا۔ اس کے جسم پر میل کی تہیں بھی خوب چڑھی ہوئی تھیں۔ ظاہر ہوتا تھا کہ وہ کم سے کم پچھلے دو مہینے سے نہیں نہایا البتہ گردن خوب صاف تھی اور اس پر ہلکا ہلکا پوڈر لگا ہوا تھا۔ سوئٹر اور بنیان کے بعد پتلون کی باری آئی اور شہناز اور گِل کی نظریں پھر بیک وقت اٹھیں۔ پتلون کو پیٹی کے بجائے ایک پرانی دھجی سے جو شاید کبھی نکٹائی رہی ہو گی خوب کس کے باندھا گیا تھا۔ بٹن اور بکسوے غائب تھے۔ دونوں گھٹنوں پر سے کپڑا مسک گیا تھا اور کئی جگہ کھونچیں لگی تھیں مگر چونکہ یہ حصے اوور کوٹ کے نیچے رہتے تھے اس لئے لوگوں کی ان پر نظر نہیں پڑتی تھی۔ اب بوٹ اور جرابوں کی باری آئی اور ایک مرتبہ پھر مس شہناز اور مس گِل کی آنکھیں چار ہوئیں۔ بوٹ تو پرانے ہونے کے باوجود خوب چمک رہے تھے مگر ایک پاؤں کی جراب دوسرے پاؤں کی جراب سے بالکل مختلف تھی۔ پھر دونوں جرابیں پھٹی ہوئی بھی تھیں، اس قدر کہ ان میں سے نوجوان کی میلی میلی ایڑیاں نظر آ رہی تھیں۔ بلا شبہ اس وقت تک وہ دم توڑ چکا تھا۔ اس کا جسم سنگ مر مر کی میز پر بے جان پڑا تھا۔ اس کا چہرہ جو پہلے چھت کی سمت تھا۔ کپڑے اتارنے میں دیوار کی طرف مڑ گیا۔ معلوم ہوتا تھا کہ جسم اور اس کے ساتھ روح کی برہنگی نے اسے خجل کر دیا ہے اور وہ اپنے ہم جنسوں سے آنکھیں چرا رہا ہے۔ اس کے اوور کوٹ کی مختلف جیبوں سے جو چیزیں برآمد ہوئیں وہ یہ تھیں: ایک چھوٹی سی سیاہ کنگھی، ایک رومال، ساڑھے چھ آنے، ایک بجھا ہوا سگریٹ، ایک چھوٹی سی ڈائری جس میں نام اور پتے لکھے تھے۔نئے گراموفون ریکارڈوں کی ایک ماہانہ فہرست اور کچھ اشتہار جو مٹر گشت کے دوران اشتہار بانٹنے والوں نے اس کے ہاتھ میں تھما دئے تھے اور اس نے انہیں اوور کوٹ کی جیب میں ڈال دیا تھا۔ افسوس کہ اس کی بید کی چھڑی جو حادثے کے دوران میں کہیں کھو گئی تھی اس فہرست میں شامل نہ تھی۔ Read the full article
0 notes
Text
جنگ آزادی ہند 1857 تاریخ کے آئینے میں
10 مئی کو برصغیر میں جنگ آزادی 1857ء کا آغاز ہوا، اس دن میرٹھ کی رجمنٹ کے سپاہیوں نے چربی والے کارتوس استعمال کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ کہا جاتا تھا کہ کارتوسوں میں سوراور گائے کی چربی شامل کی جاتی تھی جو مسلمان اور ہندو فوجیوں دونوں کے لئے قابل قبول نہ تھی۔ کارتوسوں کے استعمال سے انکار اور بغاوت کے جرم میں ان سپاہیوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ گرفتاری کی خبر پھیلتے ہی دیگر سپاہیوں میں بھی اشتعال پھیل گیا اور وہ آزادی کا پرچم لے کر دہلی پہنچ گئے جہاں بہادر شاہ ظفر برائے نام شہنشاہ ہند تھا۔ اصل حکم ایسٹ انڈیا کمپنی کا چلتا تھا۔ دہلی پہنچ کر سپاہیوں نے مقامی لوگوں کو ساتھ ملا کر بہادر شاہ ظفرکی شہنشاہیت کا اعلان کر دیا۔
ملتان میں فوج کی پل��ن نمبر 62، 69 نے بھی آزادی کا اعلان کر دیا ۔ جنرل بخت خان بھی اپنے ساتھیوں کے ہمرا ہ دہلی پہنچ گیا ۔ بخت خان ایسٹ انڈیا کمپنی میں صوبیدا ر کے عہدے پر رہ چکا تھا اور اسے اینگلو افغان جنگ اور بنگال آرٹیلری کا بھی چالیس سالہ تجربہ تھا۔ ادھر لکھنئو کے والی واجد علی شاہ کی معزولی کے بعد ان کی بیگم حضرت محل میدان میں نکل آئیں۔ زمیندار طبقہ پہلے ہی لگان سے پریشان تھا اور عام لوگ واجد علی شاہ کی بحالی چاہتے تھے، اس طرح لکھنئو بھی جنگ آزادی میں شامل ہو گیا۔ اودھ اور بریلی کو تو ویسے ہی مرکزی حیثیت حاصل تھی ۔ دہلی ، گوالیار، پشاور ، مردان ، حیدر آباد، سکھر ، شکار پور ، جیک آباد کے علاوہ دیگر شہروں میں لوگ باہر نکل آئے جس پر انگریزوں کو تشویش لاحق ہوئی۔ جھانسی کی رانی ، حضرت محل، جنرل بخت خان، تانتیا ٹوپے، کنور سنگھ، فیروز شاہ، خان بہادر خان، نانا صاحب ، مولوی حمد اللہ سمیت بہت سے ایسے گمشدہ آزادی کے متوالے تھے جنہوں نے خلوص دل سے اس جدوجہد کا ساتھ دیا اورآزادی کی خاطر جان قربان کر دی۔
اس تحریک آزادی میں ہندومسلم، سکھ سب ایک تھے۔ گورنر جنرل کے نام کورٹ آف ڈائرکٹرس کی خفیہ کمیٹی کے خط کے مطابق ’’جنگ اودھ کے عوامی رنگ اختیار کرنے کی وجہ بادشاہ کی معزولی اور لگان ہے۔ لگان نے زمینداروں کی بڑی تعداد کو ان کی زمینوں سے محروم کر دیا ہے‘‘۔ دوسری طرف برطانوی مورخ میکلوڈ ڈانس کے مطابق ’’ اودھ کی جدوجہد کو جنگ آزادی قرار دیا جا سکتا ہے ‘‘۔ مرکزی یا قابل ذکر رہنما شامل نہ ہونے کی وجہ سے یہ تحریک کامیابی حاصل نہ کر سکی۔ چونکہ یہ تحریک منظم نہیں تھی اور پیسے کی کمی کے ساتھ جدید سامان جنگ کی بھی کمی تھی، تلواروں کا مقابلہ بندوقوں سے تھا مختلف والیان ریاست اور صاحب جائیداد لوگوں کی غداری کی وجہ سے جنگ آزادی کو کامیابی نہ مل سکی۔
والیان ریاست سمجھتے تھے کہ مستقبل انگریزوں کا ہے، اس جدوجہد سے کچھ حاصل نہیں ہو گا اس لئے اپنی شان و شوکت اور جان کو دائو پر کیوں لگائیں۔ وہ اس میں شامل ہونے کی بجائے انگریزوں کے وظیفہ خوار بن گئے۔ سر جان لارنس کہتا ہے کہ اگر آزادی کے متوالوں کے ساتھ بڑے رہنما بھی کھڑے ہو جاتے تو ان کی نجات کی کوئی امید نہ تھی۔ چارلس بال کا کہنا تھا کہ ’’اگر بنگال آزادی کے متوالوں کے پاس زمینی رائفل ہوتی تو دہلی اب بھی مغلوں کی ملکیت ہوتا‘‘۔ انگریزوں نے پہلے دہلی کو آزادی پسند متوالوں سے آزاد کرانے کا منصوبہ بنایا، وہ جانتے تھے کہ جب تک بہادر شاہ ظفر دارالحکومت میں موجود ہیں یہ تحریک دبائی نہیں جا سکتی ۔ اس لئے انگریز فوج نے سارا زور پہلے دہلی کو آزاد کرنے میں لگایا۔
لال قلعہ کا محاصرہ کرتے ہی اپنے جاسوسوں اور غداروں کی مدد سے اس پر قبضہ کر لیا۔ جنرل بخت خان وہاں سے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ لکھنو پہنچا تا کہ آزادی کے متوالوں کی مدد کر سک�� لیکن تحریک منظم نہ ہونے کی وجہ سے حضرت محل اور جنرل بخت خان کو شکست ہوئی ۔ جضرت محل کو کھٹمنڈو جلاوطن کردیا گیا جب کہ بخت خان چھپتا چھپاتا سوات پہنچا جہاں دیر میں روپوش رہنے کے بعد انتقال کر گیا۔ دہلی کی جدوجہد میں ایک خاتون کا نام سنہری حروف میں لکھا جائے گا لیکن اس کا نام آج تک کسی کو معلوم نہیں ہو سکا، بس لوگ بہادری سے لڑنے کی وجہ سے اسے ’’سبز پوش‘‘ کے نام سے یاد رکھتے ہیں کیونکہ وہ سبز لباس پہن کر انگریزوں سے لڑتی رہی۔ انگریز مورخین نے اسے ہندوستان کی ’’جون آف آرک ‘‘کا نام دیا۔
انقلا ب فرانس میں اس کا کردار یادگار رہا۔ سبز پوش خاتون کو انگریز فوج نے گرفتاری کے بعد پھانسی کی سزا سنائی گئی لیکن خاتون ہونے کے ناطے سزا کوعمر قید میں بدل دیا گیا ۔ وہ جیل ہی میں چل بسی یا کیا ہوا ، کسی کو کوئی خبر نہیں۔ جھانسی کی رانی کو بھی انگریزوں نے غداروں کے ذریعے گھیر کر شکست دیدی، اس طرح گوالیار میں تحریک کو دبا دیا گیا۔ ٹیپو سلطان کی 1799 ء میں شہادت کے بعد برصغیر پر انگریزوں کی گرفت مضبوط ہو گئی۔ بہادر شاہ ظفر کو رنگون جلا وطن کردیا گیا اور شہنشاہ ہند کا خطاب بھی ختم کر دیا گیا ۔ اس طرح انگریزوں نے مجاہدین آزادی کو اپنے ہتھکنڈوں سے الگ الگ شکست دے کر تحریک کو دبا دیا ۔
طیب رضا عابدی
0 notes
Text
جنگ آزادی ہند 1857 تاریخ کے آئینے میں
10 مئی کو برصغیر میں جنگ آزادی 1857ء کا آغاز ہوا، اس دن میرٹھ کی رجمنٹ کے سپاہیوں نے چربی والے کارتوس استعمال کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ کہا جاتا تھا کہ کارتوسوں میں سوراور گائے کی چربی شامل کی جاتی تھی جو مسلمان اور ہندو فوجیوں دونوں کے لئے قابل قبول نہ تھی۔ کارتوسوں کے استعمال سے انکار اور بغاوت کے جرم میں ان سپاہیوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ گرفتاری کی خبر پھیلتے ہی دیگر سپاہیوں میں بھی اشتعال پھیل گیا اور وہ آزادی کا پرچم لے کر دہلی پہنچ گئے جہاں بہادر شاہ ظفر برائے نام شہنشاہ ہند تھا۔ اصل حکم ایسٹ انڈیا کمپنی کا چلتا تھا۔ دہلی پہنچ کر سپاہیوں نے مقامی لوگوں کو ساتھ ملا کر بہادر شاہ ظفرکی شہنشاہیت کا اعلان کر دیا۔
ملتان میں فوج کی پلٹن نمبر 62، 69 نے بھی آزادی کا اعلان کر دیا ۔ جنرل بخت خان بھی اپنے ساتھیوں کے ہمرا ہ دہلی پہنچ گیا ۔ بخت خان ایسٹ انڈیا کمپنی میں صوبیدا ر کے عہدے پر رہ چکا تھا اور اسے اینگلو افغان جنگ اور بنگال آرٹیلری کا بھی چالیس سالہ تجربہ تھا۔ ادھر لکھنئو کے والی واجد علی شاہ کی معزولی کے بعد ان کی بیگم حضرت محل میدان میں نکل آئیں۔ زمیندار طبقہ پہلے ہی لگان سے پریشان تھا اور عام لوگ واجد علی شاہ کی بحالی چاہتے تھے، اس طرح لکھنئو بھی جنگ آزادی میں شامل ہو گیا۔ اودھ اور بریلی کو تو ویسے ہی مرکزی حیثیت حاصل تھی ۔ دہلی ، گوالیار، پشاور ، مردان ، حیدر آباد، سکھر ، شکار پور ، جیک آباد کے علاوہ دیگر شہروں میں لوگ باہر نکل آئے جس پر انگریزوں کو تشویش لاحق ہوئی۔ جھانسی کی رانی ، حضرت محل، جنرل بخت خان، تانتیا ٹوپے، کنور سنگھ، فیروز شاہ، خان بہادر خان، نانا صاحب ، مولوی حمد اللہ سمیت بہت سے ایسے گمشدہ آزادی کے متوالے تھے جنہوں نے خلوص دل سے اس جدوجہد کا ساتھ دیا اورآزادی کی خاطر جان قربان کر دی۔
اس تحریک آزادی میں ہندومسلم، سکھ سب ایک تھے۔ گورنر جنرل کے نام کورٹ آف ڈائرکٹرس کی خفیہ کمیٹی کے خط کے مطابق ’’جنگ اودھ کے عوامی رنگ اختیار کرنے کی وجہ بادشاہ کی معزولی اور لگان ہے۔ لگان نے زمینداروں کی بڑی تعداد کو ان کی زمینوں سے محروم کر دیا ہے‘‘۔ دوسری طرف برطانوی مورخ میکلوڈ ڈانس کے مطابق ’’ اودھ کی جدوجہد کو جنگ آزادی قرار دیا جا سکتا ہے ‘‘۔ مرکزی یا قابل ذکر رہنما شامل نہ ہونے کی وجہ سے یہ تحریک کامیابی حاصل نہ کر سکی۔ چونکہ یہ تحریک منظم نہیں تھی اور پیسے کی کمی کے ساتھ جدید سامان جنگ کی بھی کمی تھی، تلواروں کا مقابلہ بندوقوں سے تھا مختلف والیان ریاست اور صاحب جائیداد لوگوں کی غداری کی وجہ سے جنگ آزادی کو کامیابی نہ مل سکی۔
والیان ریاست سمجھتے تھے کہ مستقبل انگریزوں کا ہے، اس جدوجہد سے کچھ حاصل نہیں ہو گا اس لئے اپنی شان و شوکت اور جان کو دائو پر کیوں لگائیں۔ وہ اس میں شامل ہونے کی بجائے انگریزوں کے وظیفہ خوار بن گئے۔ سر جان لارنس کہتا ہے کہ اگر آزادی کے متوالوں کے ساتھ بڑے رہنما بھی کھڑے ہو جاتے تو ان کی نجات کی کوئی امید نہ تھی۔ چارلس بال کا کہنا تھا کہ ’’اگر بنگال آزادی کے متوالوں کے پاس زمینی رائفل ہوتی تو دہلی اب بھی مغلوں کی ملکیت ہوتا‘‘۔ انگریزوں نے پہلے دہلی کو آزادی پسند متوالوں سے آزاد کرانے کا منصوبہ بنایا، وہ جانتے تھے کہ جب تک بہادر شاہ ظفر دارالحکومت میں موجود ہیں یہ تحریک دبائی نہیں جا سکتی ۔ اس لئے انگریز فوج نے سارا زور پہلے دہلی کو آزاد کرنے میں لگایا۔
لال قلعہ کا محاصرہ کرتے ہی اپنے جاسوسوں اور غداروں کی مدد سے اس پر قبضہ کر لیا۔ جنرل بخت خان وہاں سے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ لکھنو پہنچا تا کہ آزادی کے متوالوں کی مدد کر سکے لیکن تحریک منظم نہ ہونے کی وجہ سے حضرت محل اور جنرل بخت خان کو شکست ہوئی ۔ جضرت محل کو کھٹمنڈو جلاوطن کردیا گیا جب کہ بخت خان چھپتا چھپاتا سوات پہنچا جہاں دیر میں روپوش رہنے کے بعد انتقال کر گیا۔ دہلی کی جدوجہد میں ایک خاتون کا نام سنہری حروف میں لکھا جائے گا لیکن اس کا نام آج تک کسی کو معلوم نہیں ہو سکا، بس لوگ بہادری سے لڑنے کی وجہ سے اسے ’’سبز پوش‘‘ کے نام سے یاد رکھتے ہیں کیونکہ وہ سبز لباس پہن کر انگریزوں سے لڑتی رہی۔ انگریز مورخین نے اسے ہندوستان کی ’’جون آف آرک ‘‘کا نام دیا۔
انقلا ب فرانس میں اس کا کردار یادگار رہا۔ سبز پوش خاتون کو انگریز فوج نے گرفتاری کے بعد پھانسی کی سزا سنائی گئی لیکن خاتون ہونے کے ناطے سزا کوعمر قید میں بدل دیا گیا ۔ وہ جیل ہی میں چل بسی یا کیا ہوا ، کسی کو کوئی خبر نہیں۔ جھانسی کی رانی کو بھی انگریزوں نے غداروں کے ذریعے گھیر کر شکست دیدی، اس طرح گوالیار میں تحریک کو دبا دیا گیا۔ ٹیپو سلطان کی 1799 ء میں شہادت کے بعد برصغیر پر انگریزوں کی گرفت مضبوط ہو گئی۔ بہادر شاہ ظفر کو رنگون جلا وطن کردیا گیا اور شہنشاہ ہند کا خطاب بھی ختم کر دیا گیا ۔ اس طرح انگریزوں نے مجاہدین آزادی کو اپنے ہتھکنڈوں سے الگ الگ شکست دے کر تحریک کو دبا دیا ۔
طیب رضا عابدی
0 notes
Text
منابع آزمون کارشناسی ارشد روانشناسی بالینی
منابع آزمون کارشناسی ارشد روانشناسی بالینی
منابع کارشناسی ارشد روانشناسی بالینی
منابع کارشناسی ارشد روانشناسی بالینی اگر به درستی انتخاب شوند، اولین قدم صحیح در مسیر حرکت به سوی قبولی در آزمون کارشناسی ارشد روانشناسی بالینی دانشگاه سراسری و آزاد است، لذا دپارتمان های تخصصی سنج�� امیرکبیر جهت سهولت دسترسی داوطلبان آزمون کارشناسی ارشد روانشناسی بالینی، منابع آزمون کارشناسی ارشد روانشناسی بالینی را تدوین و گردآوری نموده است تا داوطلبان بدون مشاوره کارشناسی ارشد روانشناسی بالینی حتی اگر خودشان به صورت مستقل نیز بخواهند منابع آزمون ارشد روانشناسی بالینی را تهیه کنند این امر قابل انجام باشد. به داوطلبان آزمون ارشد روانشناسی بالینی توصیه می شود که از بسته های آموزشی (کتب و جزوات تخصصی) مورد نیاز رشته ارشد روانشناسی بالینی استفاده کنند (به دلایل زیر) ولی اگر باز اصرار دارند که کتب مرجع مربوط به منابع ارشد روانشناسی بالینی را تهیه کنند توصیه می شود در کنار منابع تهیه شده مرجع، کتاب مشاوره و برنامه ریزی کنکور کارشناسی ارشد روانشناسی بالینی (مشاوره آزمون ارشد روانشناسی بالینی ، برنامه ریزی آزمون ارشد روانشناسی بالینی) به روش سنجش امیرکبیر را تهیه کنند که به آنها روش برنامه ریزی آزمون کارشناسی ارشد روانشناسی بالینی را ارایه می دهد که بتوانند از مینیمم زمان، ماکزیمم استفاده را بکنند. لذا دوباره داوطلب عزیز تکرار می شود حتما برای گرفتن جواب ، برنامه ریزی کارشناسی ارشد روانشناسی بالینی را در برنامه خود قرار دهید.
معرفی بسته آموزشی و منابع کارشناسی ارشد روانشناسی بالینی
نمایشگر ویدیو00:0004:16
برای دانلود ویدیو روی دانلود معرفی بسته آموزشی و منابع ارشد روانشناسی بالینی کلیک راست کنید و save as … را انتخاب کنید.
آیا خواندن کتب مرجع برای آزمون کارشناسی ارشد روانشناسی بالینی توصیه می شود؟
مطالعه کتاب های مرجع اگر چه بسیار مفید و ضروری است اما برای آمادگی در آزمون کارشناسی ارشد دارای معایبی است که در ادامه به آنها اشاره میکنیم: ۱) حجم این نوع کتاب ها با توجه به مطالب مفید آنها برای آزمون مناسب نیست؛ چرا که در کتاب های مرجع بیشتر به آموزش مفاهیم، اثبات قضایا و بعضاً آوردن مطالب غیر ضروری تکیه شده و تعداد سؤالات با پاسخ، برای تمرین دانشجویان کم است و بعضاً پاسخ را به عهده خواننده گذاشتهاند. ۲) در این نوع کتابها، روش های تستی و سریع جهت پاسخگویی به سؤالات آزمون کارشناسی ارشد، وجود ندارد. ۳) مطالب بعضی از این کتابها به دلیل ترجمه گزینشی نامفهوم به نظر میرسد و خواننده نمیتواند ارتباط لازم را با کتاب برقرار کند. دلایل فوق و برخی علل دیگر نیاز به مطالعه یک کتاب جامع و خوب را برای ما ضروری میسازد. البته گفتنی است یک کتاب خوب باید کاملاً منطبق بر کتاب های مرجع با حذف نکات منفی آنها باشد و دانشجویان نباید کتاب های مرجع را از ذهن خارج کنند. انتشارات سنجش امیرکبیر جهت قبولی داوطلبان در آزمون کارشناسی ارشد، کتاب های رشته های مختلف را در سطح کشور ارائه کرده که با استقبال زیادی از سوی دانشجویان مواجه شده است. مجموعه این کتاب ها در بسته های آموزشی کارشناسی ارشد برای هر رشته گردآوری و تمام این کتاب ها با در نظر گرفتن منابع آزمون و کتاب های مرجع گوناگون برای هر درس تألیف شده است. که دارای خصوصیات زیر می باشند:
کتاب های تکدرس آزمون کارشناسی ارشد روانشناسی بالینی:
در این نوع کتابها برای هر درس یک کتاب شامل آموزش گام به گام مطالب به زبانی ساده همراه با آوردن مثالها و تستها در ضمن آموزش، ارائه شده است. در کتاب های آموزشی مؤسسه از آوردن مطالب غیر ضروری پرهیز شده و خلاصه آنچه مورد نیاز داوطلب است ارائه شده است و هر کجا که در پاسخگویی تستها روش های تستی وجود داشته به آنها اشاره شده است. پس از آموزش مطالب هر فصل، تست های طبقه بندی شده سال های گذشته مربوط به آن فصل به همراه پاسخ تشریحی و تست های خودسنجی با جواب کلیدی گنجانده شده است تا دانشجو پس از آموزش مطالب، تمام تست های سال های قبل مربوط به آن فصل را مرور کند. کتاب های کارشناسی ارشد سنجش امیرکبیر با توجه به ساختار کاملاً حرفهای و علمی آنها و توجه به نیاز دانشجویان، داوطلبان را از مراجعه به کتاب های دیگر بینیاز میکند. مطمئناً تعداد تست های فراوان، آموزش ساده و روان مطالب، به روز بودن کتابها از مشخصه های بارز کتاب های سنجش امیرکبیر است.
ویژگی های بارز بسته های آموزشی کارشناسی ارشد روانشناسی بالینی سنجش امیرکبیر
جزوات سنجش امیرکبیر توسط نفرات برتر کنکور سال های گذشته گردآوری گردیده و حاوی مطالب مفید و نکات برگزیده ای است که موجب صرفه جویی در وقت داوطلبان می گردد. بسیاری از داوطلبان با مشاهده حجم و تعدد کتب رفرنس اعلام شده، نگران نحوه گزینش مطلب و کمبود زمان برای مطالعه آنها می گردند، از اینرو جزوات سنجش امیرکبیر علاوه بر مطالب گردآوری شده توسط نفرات برتر، دارای مطالب کنکوری بوده و یک منبع جامع، کامل و در عین حال خلاصه محسوب می شود که نیاز شما را به هر کتاب یا هر منبع دیگری مرتفع می کند. مزیت دیگر بستههای آموزشی سنجش امیرکبیر امکان دریافت جزوات ویرایش شده بدون نیاز به پرداخت هزینه مجدد توسط خریدار می باشد. به عبارت دیگر اگر جزوه ای حتی یک روز پس از خرید شما ویرایش گردد، می توانید نسخه جدید آن را بطور رایگان از موسسه دریافت نمایید
منابع کارشناسی ارشد روانشناسی بالینی – منابع زبان عمومی علوم پزشکی
۱- Active Skills for Reading (1, 2, 3, 4, 5). Neil J. Anderson, Thompson publication ۲- Interaction: Reading . Hartman, P, Kirn, McGraw-Hill publication ۳- English for the Students of Medicine.Compilation : Mahmoodreza Atai,Maasume Atai,Leyla Shoja,Maasume Kafshgarsouteh,Mandana Zolghadari – Samt publication ۴-Academic Encounters: Reading, Study Skills and Writing . Bernard Seal. Cambridge University publication ۵- Improving Reading Skills.Compilation : D.r Shokrpour,D.r Mehbudi – Jungle publication ۶- Developing Reading Skills. Markstein, L. and Hirasawa, L. Cambridge university ۷- لغت نامه اصطلاحات پزشکی Reading throught interaction- Mosaic1 ۸- گسترش مهارت A Complete Guide Expanding Reading Skills Intermediate ،رضا دانشوری، انتشارات جنگل. ۹- درسنامه جامع زبان کارشناسی ارشد علوم پزشکی،امیر لزگی، نشر جامعه نگر. ۱۰- مجموعه سوالات کارشناسی ارشد گروههای مختلف علوم پزشکی ۱۱- جزوه زبان علوم پزشکی موسسه سنجش تکمیلی امیرکبیر. ۱۲- جزوه زبان علوم پزشکی سنجش امیرکبیر که برگرفته از تمام منابع فوق می باشد.
منابع کارشناسی ارشد روانشناسی بالینی – منابع آمار
۱- کتاب احتمالات و آمار کاربردی، تالیف دکتر علی دلاور، انتشارات رشد. ۲- کتاب آمار، تالیف عادل آذر و منصور مؤمنی و سعید جعفری، انتشارات سمت. ۳- کتاب آمار استنباطی، تالیف دکتر حیدر علی هومن، انتشارات ساوالان. ۴- کتاب آمار، تالیف الهه ارسلان و شعله مرادفام، انتشارات کانون فرهنگی آموزش. ۵- کتاب آمار در علوم انسانی، تالیف دکتر علی دلاور، انتشارات دانشگاه پیام نور. ۶- جزوه آمار دانشگاه تهران. ۷- جزوه آمار دانشگاه علامه طباطبائی. ۸- جزوه آمار موسسه سنجش تکمیلی امیرکبیر. ۹- جزوه آمار سنجش امیرکبیر که برگرفته از اکثر منابع فوق می باشد.
منابع کارشناسی ارشد روانشناسی بالینی – منابع روش تحقیق
۱- کتاب روش تحقیق در علوم رفتاری، تالیف زهره سرمد و عباس بازرگان و الهه حجازی، انتشارات آگه. ۲- کتاب روشهای تحقیق کمی و کیفی در علوم رفتاری، تالیف جوزف گال، مترجم دکتر نصر و همکاران، انتشارات سمت. ۳- کتاب رگرسیون چند متغیره در پژوهشهای رفتاری کرلینجر و پد هاورز، مترجم دکتر حسن سرایی، انتشارات مرکز نشر دانشگاهی. ۴- کتاب روشهای تحقیق در علوم رفتاری، تالیف دکتر علی دلاور، انتشارات دوران. ۲- کتاب شناخت روش علمی در علوم رفتاری، تالیف دکتر حیدرعلی هومن، انتشارات سمت. ۳- کتاب روشهای تحقیق، تالیف نصرالله فرجی، انتشارات پوران پژوهش. ۴- کتاب روش تحقیق، تالیف مجتبی تیبا، انتشارات کانون فرهنگی آموزش. ۵- کتاب روشهای تحقیق در روانشناسی و علوم تربیتی، ��الیف اسماعیل بیابانگرد، انتشارات دوران. ۶- کتاب روش تحقیق در علوم رفتاری، تالیف حسن پاشا شریفی و نسترن شریفی، انتشارات سخن. ۷- کتاب تحلیل آماری در روانشناسی و علوم تربیتی، تالیف جرج اندرو فرگوسن و یوشیو تاکانه، مترجم دکتر علی دلاور و دکتر سیامک نقشبندی، انتشارات ارسباران. ۸- کتاب روشهای آماری در علوم رفتاری، تالیف دانکن کرامر و دنیس هویت، مترجم حسن پاشا شریفی و جعفر نجفی زند و نسرین شریفی، انتشارات سخن. ۱۰- جزوه روش تحقیق دانشگاه تهران. ۱۱- جزوه روش تحقیق موسسه سنجش تکمیلی امیرکبیر. ۱۲- جزوه روش تحقیق سنجش امیرکبیر که برگرفته از اکثر منابع فوق می باشد.
منابع کارشناسی ارشد روانشناسی بالینی – منابع آسیبشناسی روانی
۱- کتاب خلاصه روانپزشکی کاپلان و سادوک جلد ۱و۲و۳: براساس DSM-5( بالاخص فصول ۱۰ تا ۲۸)، تالیف بنجامین جیمز سادوک، ویرجینیاای. سادوک، انتشارات ساوالان. ۲- کتاب آسیبشناسی روانی (جلد ۱ و ۲)، تالیف آن کرینگ و جرالد دیویسون و جان نیل و شری ل. جانسون، مترجم حمید شمسیپور، انتشارات ارجمند. ۳- کتاب آسیبشناسی روانی (جلد ۱ و ۲)، تالیف حسین آزاد، انتشارات بعثت. ۴- کتاب روانشناسی مرضی تحولی (جلد ۱ و ۲)، تالیف پریرخ دادستان، انتشارات سمت. ۵- کتاب بهداشت روانی و عقب ماندگی ذهنی، تالیف شکوه السادات بنی جمالی، انتشارات نی. ۶- کتاب روانشناسی و آموزش کودکان استثنایی، تالیف مریم سیف نراقی و عزت الله نادری، انتشارات ارسباران. ۷- کتاب نظریههای مشاوره و روان درمانی، تألیف عبداله شفیع آبادی و غلامرضا ناصری، انتشارات مرکز نشر دانشگاهی. ۸- کتاب روانشناسی کودکان و نوجوانان استثنایی، تالیف بهروز میلانیفر، انتشارات قومس. ۹- کتاب کودکان استثنایی مقدمهای بر آموزشهای ویژه، تالیف و جیمز کافمن، مترجم مجتبی جوادیان، علی سالیانی و حسین اخلاقی و دانیل هالاهان، انتشارات بهنشر. ۱۰- کتاب آسیبشناسی روانی (جلد ۱ و ۲)، تالیف ریچارد هالجین و سوزان کراس ویتبورن، مترجم یحیی سید محمدی، انتشارات روان. ۱۱- کتاب آسیب شناسی بر اساس DSM-5، تالیف دکتر مهدی گنجی، انتشارات ساوالان. ۱۲- روانشناسی و آموزش و پرورش و کودکان استثنایی، تالیف عباس شیخمحمدی، انتشارات پوران پژوهش. ۱۳- کتاب روانشناسی و آموزش کودکان استثنایی، تالیف علیرضا کاکاوند، انتشارات روان. ۱۴- کتاب راهنمای کامل تغییرات و نکات ضروریDSM-5 ، تالیف دکتر مهدی گنجی، انتشارات ساوالان. ۱۵- جزوه آسیبشناسی روانی دانشگاه شهیدبهشتی. ۱۶- جزوه آسیبشناسی روانی دانشگاه تهران ۱۷- جزوه آسیبشناسی روانی موسسه سنجش تکمیلی امیرکبیر. ۱۸- جزوه آسیبشناسی روانی سنجش امیرکبیر که برگرفته از اکثر منابع فوق می باشد.
منابع کارشناسی ارشد روانشناسی بالینی – منابع نظریههای شخصیت
۱- کتاب نظریههای شخصیت، تألیف فیست، مترجم یحیی سید محمدی، انتشارات ارسباران. ۲- کتاب نظریه¬های شخصیت، تألیف شولتز و شولتز، مترجم یحیی سید محمدی، انتشارات ارسباران. ۳- کتاب نظریه¬های شخصیت، تألیف علی اکبر سیاسی، انتشارات دانشگاه تهران. ۴- کتاب روان¬شناسی شخصیت، تألیف یوسف کریمی، انتشارات ویرایش. ۵-کتاب روان¬شناسی شخصیت، تألیف حامد برآبادی، انتشارات علوی فرهیخته. ۶- کتاب روان¬شناسی شخصیت، تألیف سعید شاملو، انتشارات رشد. ۷- کتاب روانشناسی شخصیت، تالیف نصیر داستان و همکاران، انتشارات توران. ۸- کتاب روان¬شناسی شخصیت، تالیف آذر نادی، انتشارات پردازش. ۹- کتاب روانشناسی شخصیت، نظریه و تحقیق، تالیف محمدجعفر جوادی و لارنس پرین، مترجم پروین کدیور، انتشارات رسا. ۱۰- کتاب مکتبها و نظریهها در روانشناسی شخصیت، تالیف دکتر سعید شاملو، انتشارات رشد. ۱۱- جزوه نظریههای شخصیت دانشگاه تهران. ۱۲- جزوه نظریههای شخصیت دانشگاه شهیدبهشتی. ۱۳- جزوه نظریههای شخصیت موسسه سنجش تکمیلی امیرکبیر. ۱۴- جزوه نظریههای شخصیت سنجش امیرکبیر که برگرفته از اکثر منابع فوق می باشد.
منابع کارشناسی ارشد روانشناسی بالینی – منابع نظریههای رواندرمانی
۱- کتاب نظریه و کاربست مشاوره و رواندرمانی، تألیف جرالد کوری، مترجم یحیی سید محمدی، انتشارات ارسباران. ۲- کتاب نظریههای مشاوره و روان درمانی، تألیف عبداله شفیع آبادی و غلامرضا ناصری، انتشارات مرکز نشر دانشگاهی. ۳- کتاب مقدمهای بر مشاوره و روان درمانی، تألیف سید احمد احمدی، انتشارات دانشگاه اصفهان. ۴- کتاب نظریههای شخصیت، تالیف گریگوری حبس فیست، ترجمه یحیی سید محمدی، انتشارات روان. ۵- کتاب نظریههای رواندرمانی، تالیف جیمز پروچاسکا و جان نورکراس، مترجم یحیی سید محمدی، انتشارات رشد. ۶- کتاب مفاهیم بنیادی و مباحث تخصصی در مشاوره، تالیف دیوید گلدارد، مترجم سیمین حسینیان، انتشارات کمال تربیت. ۷- کتاب مهارتهای پایه و پیشرفته در مشاوره و رواندرمانی، تالیف سیمین حسینیان و آناهیتا خدابخشی کولایی، انتشارات دانشگاه الزهرا، کمال تربیت. ۸- کتاب راهنمایی و مشاوره، تالیف سلطانعلی شیرافکن، انتشارات پوران پژوهش. ۹- کتاب نظریههای مشاوره و رواندرمانی، تالیف ریچارد شارف، مترجم مهرداد فیروزبخت، انتشارات رسا. ۱۰- کتاب روشها و فنون مشاوره، تألیف حامد برآبادی، انتشارات علوی فرهیخته. ۱۱- کتاب مقدمات راهنمایی و مشاوره: مفاهیم و کاربردها، تالیف دکتر عبدالله شفیعآبادی، انتشارات رشد. ۱۲- کتاب مهارتهای عملی مشاوره (در رویکردی یکپارچه)، تالیف کاترین و دیوید گلدارد، مترجم مه سیما پورشهریاری و رقیه موسوی. ۱۳- کتاب مشاوره و خانواده درمانی با رویکرد اسلامی، تالیف مهدی حسینی بیرجندی، انتشارات امیرکبیر. ۱۴- کتاب نظریههای مشاوره و روان درمانی، تالیف شکوه نوابینژاد، انتشارات سمت. ۱۵- جزوه نظریههای رواندرمانی دانشگاه تهران. ۱۶- جزوه نظریههای روان درمانی موسسه سنجش تکمیلی امیرکبیر. ۱۷- جزوه نظریههای رواندرمانی سنجش امیرکبیر که برگرفته از اکثر منابع فوق میباشد.
منابع کارشناسی ارشد روانشناسی بالینی – منابع ارزیابی روانشناختی (مصاحبه بالینی و آزمونهای روانشناختی)
۱- کتاب راهنمای سنجش روانی (جلد ۱ و ۲)، تالیف گری گریت مارنات، مترجم دکتر حسن پاشا شریف، انتشارات سخن. ۲- کتاب اصول مصاحبه بالینی برمبنای DSM-IV-R، تالیف اکهارت اوتمر و زیگلیند اوتمر، مترجم دکتر مهدی نصر اصفهانی، انتشارات ارجمند. ۳- کتاب اصول مصاحبه بالینی، تالیف سیاوش چگینی، انتشارات ویرایش. ۴- کتاب روان آزمایی، تألیف آناستازی، مترجم محمدنقی براهنی، انتشارات دانشگاه تهران. ۵- کتاب اصول روانسنجی و روان آزمایی، تألیف حسن پاشا شریفی، انتشارات رشد. ۶- کتاب آزمونهای روانی؛ مبانی نظری و علمی، تألیف حمزه گنجی، انتشارات ساوالان. ۷- کتاب آزمونهای روانی؛ اصول نظری و فنون کاربردی، تألیف هادی بهرامی، انتشارات دانشگاه علامه طباطبایی. ۸- کتاب کاربرد آزمونهای روانی در مشاوره، تألیف حامد برآبادی و محمودی تحفی، انتشارات علوی. ۹- جزوه ارزیابی روانشناختی دانشگاه تهران. ۱۰- جزوه ارزیابی روانشناختی (مصاحبه بالینی و آزمونهای روانشناختی)، موسسه سنجش تکمیلی امیرکبیر. ۱۱- جزوه ارزیابی روانشناختی سنجش امیرکبیر که برگرفته از اکثر منابع فوق میباشد.
منابع کارشناسی ارشد روانشناسی بالینی – منابع روانشناسی عمومی و رشد
۱- کتاب زمینه روانشناسی هیلگارد، (جلد ۱ و ۲)، تالیف اتکینسون و همکاران، ترجمه محمد تقی براهنی و همکاران، انتشارات رشد. ۲- کتاب روانشناسی رشد (جلد ۱ و ۲)، تالیف لورابرک، مترجم یحیی سید محمدی، انتشارات ارسباران. ۳- کتاب روانشناسی عمومی، تالیف پریناز بنی سی، انتشارات شهرآب. ۴- کتاب روانشناسی ژنتیک (تحول روانی از تولد تا پیری)، تالیف محمود منصور، انتشارات سمت. ۵- کتاب روانشناسی ژنتیک ۲ (از روان¬تحلیل¬گری تا رفتارشناسی)، تالیف محمود منصور و پریرخ داستان، انتشارات رشد. ۶- کتاب روان شناسی رشد (۲)، تالیف حسین لطفآبادی، انتشارات سمت. ۷- کتاب روان شناسی رشد (نوجوانی، بزرگسالی)، تالیف حسن احدی و فرهاد جمهری، انتشارات پردیس. ۸- کتاب روان شناسی رشد، تالیف سوسن سیف و پروین کدیور و رضا کرمی نوری و حسین لطف آبادی انتشارات سمت. ۹- کتاب پیشگامان روان شناسی رشد، تالیف فربد فدائی، انتشارات اطلاعات. ۱۰- کتاب روانشناسی عمومی هیلگارد، تالیف مریم افشاری، انتشارات کتابخانه فرهنگ. ۱۱- کتاب روانشناسی عمومی، تالیف نیلوفر بهبودیان، انتشارات راه. ۱۲- کتاب رشد شخصیت کودک، تالیف مهشید یاسایی، انتشارات ماد. ۱۳- کتاب نظریههای رشد: مفاهیم و کاربردها، تالیف ویلیام کریستوفر کرین، مترجم علیرضا رجایی و غلامرضا خویی نژاد، انتشارات رشد. ۱۴- کتاب پیشگامان روانشناسی رشد، تالیف ویلیام کریستوفر کرین، انتشارات اطلاعات. ۱۵- کتاب روانشناسی رشد، تالیف دکتر حسن احدی، انتشارات بخشایش. ۱۶- کتاب روانشناسی تربیتی، تالیف پروین کدیور، انتشارات سمت. ۱۷- جزوه روانشناسی دانشگاه علوم پزشکی تهران. ۱۸- جزوه روانشناسی موسسه سنجش تکمیلی امیرکبیر. ۱۹- جزوه روانشناسی سنجش امیرکبیر که برگرفته از اکثر منابع فوق می باشد.
منابع کارشناسی ارشد روانشناسی بالینی – منابع بنیادهای بیولوژیکی و فیزیولوژیکی رفتار
۱- کتاب روانشناسی فیزیولوژیکی، تالیف جیمز کالات، مترجم یحیی سید محمدی، انتشارات روان. ۲- کتاب مقدمات نوروسایکولوژی، تالیف دکتر داود معظمی، انتشارات سمت. ۳- کتاب خلاصه روانپزشکی کاپلان و سادوک: براساس DSM-5، تالیف بنجامین جیمز سادوک، ویرجینیاای. سادوک، انتشارات ساوالان. ۴- کتاب روانشناسی فیزیولوژیک، تالیف محمد کریم خداپناهی، انتشارات سمت. ۵- کتاب انگیزش و هیجان، تالیف محمد کریم خداپناهی، انتشارات سمت. ۶- کتاب انگیزش و هیجان، تالیف جان مارشال ریو، مترجم یحیی سید محمدی، انتشارات ویرایش. ۷- کتاب نوروسایکولوژی و سایکوفیزیولوژی، تالیف محمد کریم خداپناهی، انتشارات سمت. ۸- کتاب روانشناسی فیزیولوژیک، تالیف سعید پور نقاش تهرانی، انتشارات دانشگاه تهران. ۹- جزوه روان شناسی فیزیولوژیکی دکتر پورنقاش تهرانی دانشگاه تهران. ۱۰- جزوه روانشناسی فیزیولوژیک و انگیزش و هیجان، موسسه سنجش تکمیلی امیرکبیر. ۱۱- جزوه بنیادهای بیولوژیکی و فیزیولوژیکی رفتار سنجش امیرکبیر که برگرفته از اکثر منابع فوق می باشد.
منابع کارشناسی ارشد روانشناسی بالینی – منابع روانشناسی بالینی
۱- کتاب روانشناسی بالینی (فصل بهداشت روانی)، تالیف جفری پی کرامر، داگلاس ای برنستاین و ویکی پرز، مترجم مهرداد فیروزبخت، انتشارات جامعهنگر. ۲- کتاب روانشناسی بالینی، تالیف پریرخ دادستان و محمود منصور، انتشارات بعثت. ۳- کتاب روانشناسی بالینی، تالیف سعید شاملو، انتشارات رشد. ۴- کتاب روانشناسی بالینی، تالیف مهرداد فیروزبخت، انتشارات رشد. ۵- جزوه روانشناسی بالینی دانشگاه تهران. ۶- جزوه روانشناسی بالینی موسسه سنجش تکمیلی امیرکبیر. ۷- جزوه روانشناسی بالینی سنجش امیرکبیر که برگرفته از اکثر منابع فوق می باشد.
راه موفقیت در کنکور کارشناسی ارشد روانشناسی بالینی سراسری و آزاد
پخشکننده صوت00:0000:00
برای افزایش یا کاهش صدا از کلیدهای بالا و پایین استفاده کنید.
برای دانلود فایل روی راه موفقیت در کنکور کارشناسی ارشد روانشناسی بالینی کلیک راست کنید و save as … را انتخاب کنید.
ارشد روانشناسی بالینی
منابع کارشناسی ارشد روانشناسی بالینی اگر صحیح انتخاب شوند، مهم ترین قدم صحیح در مسیر حرکت به سوی قبولی در کنکور کارشناسی ارشد روانشناسی بالینی سراسری و آزاد است، به همین منظور دپارتمان های تخصصی سنجش امیرکبیر جهت دسترسی آسان تر داوطلبان کنکور کارشناسی ارشد روانشناسی بالینی ، منابع کنکور کارشناسی ارشد روانشناسی بالینی را گردآوری و تدوین نموده است تا داوطلبان بدون مشاوره آزمون کارشناسی ارشد روانشناسی بالینی حتی اگر خودشان به صورت مستقل نیز بخواهند منابع کنکور ارشد روانشناسی بالینی را تهیه کنند این امر قابل انجام باشد. به داوطلبان کنکور ارشد روانشناسی بالینی توصیه می شود که از بسته های آموزشی (کتب و جزوات تخصصی) مورد نیاز رشته ارشد روانشناسی بالینی استفاده کنند (به دلایل فوق) ولی اگر باز اصرار دارند که کتب مرجع مربوط به منابع ارشد روانشناسی بالینی را تهیه کنند توصیه می شود در کنار منابع تهیه شده مرجع، کتاب مشاوره و برنامه ریزی کنکور ارشد روانشناسی بالینی (مشاوره ارشد روانشناسی بالینی ، برنامه ریزی کنکور ارشد روانشناسی بالینی) به روش سنجش امیرکبیر را تهیه کنند که به آنها روش برنامه ریزی کنکور کارشناسی ارشد روانشناسی بالینی را ارایه می دهد که بتوانند از مینیمم زمان، ماکزیمم استفاده را بکنند. لذا در حسن ختام تکرار می شود حتما برای گرفتن جواب ، برنامه ریزی ارشد روانشناسی بالینی را در برنامه خود قرار دهید.
با سنجش امیرکبیر آزمون کارشناسی ارشد روانشناسی بالینی را قورت دهید.
نگاهی بر آزمون های زبان انگلیسی داخل کشور
داوطلبان آزمون کارشناسی ارشد توجه داشته باشند اگر بعد از فارغ التحصیلی تمایل به ادامه تحصیل در مقطع دکتری در داخل یا خارج از کشور را دارند باید قبل از امتحان جامع برای دانشگاه های داخل و همچنین قبولی پذیرش برای دانشگاه های خارج از کشور باید یکی از مدارک زبان زیر را ارائه دهند لذا داوطلبان آزمون دکتری بعد ازقبولی در آزمون دکتری و قبل از آزمون جامع (معمولا بعد از ۲ سال و بعد از گذراندن واحد های تئوری توسط دانشجو ،آزمون جامع توسط محل دانشگاه تحصیل داوطلب برگزار می شود) ، بایستی در یکی از آزمون های زبان ملی یا بین المللی شرکت کرده و مدرک آن را ارائه دهند.لازم به ذکر است تنها در آزمون MHLE قبل از آزمون دکتری، باید این مدرک ارائه شود.
آزمون MSRT
آزمون زبان وزارت علوم, قبلا با نام MCHE مخفف Ministry of Culture and Higher Education (وزارت فرهنگ و آموزش عالی) شناخته می شد. اما در سال های اخیر, با نام MSRT مخفف Ministry of Science, Research and Technology (وزارت علوم، تحقیقات و فناوری) شناخته می شود. پس آزمون زبان MSRT همان آزمون زبان MCHE سابق است. بیشتر دانشجویان متقاضی استفاده از بورس دکترای خارج از کشور, از آن استقبال می کنند. و مورد تایید اکثر دانشگاه های داخلی می باشد.
آزمون EPT
آزمون تافل دکترای دانشگاه آزاد یا آزمون زبان EPT آزمونی است که توسط دانشگاه آزاد اسلامی برگزار می گردد و تمامی دانشجویان مقطع دکتری دانشگاه آزاد می بایست تا قبل از شرکت در امتحان جامع, نمره این آزمون یا آزمون های مشابه را به دانشگاه ارائه کنند. این آزمون مخفف (English Proficiency Test)است.
آزمون UTEPT (آزمون زبان عمومی دانشگاه تهران)
UTEPT مخفف (University Tehran English Proficiency Test) است. دانشگاه تهران جهت تسهیل روند ادامه تحصیل در دوره های دکتری تخصصی، اقدام به برگزاری آزمون زبان عمومی می نماید. نمره قبولی در آزمون زبان عمومی دانشگاه تهران UTEPT مورد تایید اکثر دانشگاه های تهران و شهرستان می باشد.
آزمون MHLE
آزمون MHLE توسط سراسری و آزاد, درمان و آموزش پزشکی برگزار می شود. این آزمون مخفف Ministry of Health Language Exam می باشد. سطح آزمون MHLE در حد آزمون زبان تافل می باشد. آزمون زبان MHLE ویژه دانشجویان داوطلب شرکت در کلیه دوره های علوم پزشکی دانشگاه های دولتی است اگر داوطلبان گروه علوم پزشکی تنها قصد ادامه تحصیل در دانشگاه های سراسری را داشته باشند بهتر است در آزمون زبان MHLE شرکت کنند. اما اگر شرکت در آزمون دکترای هر دو دانشگاه دولتی و آزاد در برنامه آنها قرار دارد باید به سراغ آزمون زبان MSRT بروند چرا که دانشگاه آزاد مدرک MHLE را نمی پذیرد.
آزمون Tolimo
تولیمو مخفف The Test of Language by the Iranian Measurement Organization می باشد که توسط سازمان سنجش آموزش کشور طراحی و اجرا می شود که در واقع آزمونی استاندارد برای تعیین سطح دانش زبان انگلیسی می باشد. نمره قبولی در آزمون زبان تولیمو مورد تایید اکثر دانشگاه های تهران و شهرستان می باشد.
آزمون TOEFL
تافل مخفف Test of English for Foreign Learners می باشد. آزمون تافل (TOEFL) یک آزمون جامع زبان انگلیسی است که برای ورود به بیش از ۴۴۰۰ کالج و دانشگاه در ایالات متحده و کانادا، و دیگر بخش های جهان، مورد نیاز می باشد. نمره قبولی در آزمون زبان تافل مورد تایید اکثر دانشگاه های تهران و شهرستان می باشد.
آزمون ETPNU (آزمون زبان دکترای دانشگاه پیام نور)
آزمون زبان دکترای دانشگاه پیام نور یا ETPNU مخفف English Test of Payame Noor University است. ETPNU آزمونی است که توسط دانشگاه پیام نور برگزار می گردد و تمامی دانشجویان مقطع دکتری می بایست نمره این آزمون یا آزمون های مشابه را به دانشگاه ارائه کنند.
آزمون IELTS
آزمون آیلتس (International English Language Testing System) جهت سنجش میزان آمادگی داوطلبان برای ادامه تحصیل، فراگیـری مهارت هـای تخصصـی و یـا کار و اقامـت در کشـورهـای انگلیسی زبان طراحی شـده است. اکثر دانشگاه هاى دنیا (بخصوص کشورهاى انگلیسى زبان) ارائه مدرک IELTS را به عنوان یکى از مهم ترین شروط پذیرش دانشجویان مقاطع لیسانس، فوق لیسانس و دکترا قید کرده اند. نمره قبولی در آزمون زبان آیلتس مورد تایید اکثر دانشگاه های تهران و شهرستان می باشد.
Master’s Degree in Clinical Psychology
Sources MA in Clinical Psychology, if properly selected, the first step in the right direction towards the exam MA in Clinical Psychology National University and is free, the department specialized in Measuring Technology for Easy Access exam candidates MA in Clinical Psychology, Exam Resources Masters of Clinical Psychology has been compiled to allow volunteers to obtain a Master’s degree in clinical psychology without a Master’s Degree in Clinical Psychology, even if they want to independently seek out the resources of a major clinical psychology exam. Candidates Chief Test Clinical Psychology is recommended that training packages (books and pamphlets specialized) Required fields senior clinical psychology use (for several reasons), but if they insist that textbooks related to senior sources in clinical psychology provide it is recommended in addition to resources provided by the reference book of advice and planning exams MA in clinical psychology (counseling test clinical psychology, test planning senior clinical psychology) by measuring AUT provide them programming quiz Master Clinical psychology that can provide Make the most of the minimum time. So again, the volunteer will be repeated. Be sure to get the answers to the master’s degree in clinical psychology.
به داوطلبان کنکور کارشناسی ارشد توصیه می شود تمام اخبار و مطالب مرتبط با ثبت نام آزمون کارشناسی ارشد را که در زیر آمده است را به صورت کامل مطالعه کنند و با توجه به شرایط و ضوابط کنکور ارشد برنامه ریزی خود را انجام دهند تا بتوانند قبولی در آزمون ارشد سال جاری را تجربه کنند. در ضمن پیشنهاد می شود قسمت سوالات متداول ارشد و اخبار کارشناسی ارشد و مشاوره ارشد را نیز مورد بازدید قرار دهند.
۱- منابع کنکور کارشناسی ارشد
۲- زمان ثبت نام کنکور کارشناسی ارشد
۳- زمان برگزاری کنکور کارشناسی ارشد
۴- ثبت نام کنکور کارشناسی ارشد
۵- ثبت نام کارشناسی ارشد دانشگاه آزاد
۶- دفترچه ثبت نام کنکور کارشناسی ارشد
۷- شرایط ثبت نام کنکور کارشناسی ارشد
۸- مدارک ثبت نام کنکور کارشناسی ارشد
۹- هزینه ثبت نام کنکور کارشناسی ارشد
۱۰- نتایج کارشناسی ارشد دانشگاه آزاد
۱۱- کارت ورود به جلسه کنکور کارشناسی ارشد
۱۲- تمدید مهلت ثبت نام کنکور کارشناسی ارشد
۱۳- ویرایش ثبت نام کنکور کارشناسی ارشد
۱۴- نتایج کارشناسی ارشد
۱۵- توضیحات کارنامه کارشناسی ارشد
۱۶- شهریه کارشناسی ارشد
۱۷- شهریه کارشناسی ارشد دانشگاه آزاد
۱۸- دفترچه انتخاب رشته کارشناسی ارشد
۱۹- انتخاب رشته کارشناسی ارشد
۲۰- اعلام نتایج انتخاب رشته کارشناسی ارشد
۲۱- دفترچه انتخاب رشته کارشناسی ارشد دانشگاه آزاد
۲۲- انتخاب رشته کارشناسی ارشد دانشگاه آزاد
۲۳- اعلام نتایج انتخاب رشته کارشناسی ارشد دانشگاه آزاد
۲۴- شناسه انتخاب رشته کارشناسی ارشد دانشگاه آزاد
کلمات کلیدی:
منابع آزمون کارشناسی ارشد روانشناسی بالینی, منابع آزمون کارشناسی ارشد روانشناسی بالینی ۹۵, منابع آزمون کارشناسی ارشد روانشناسی بالینی ۹۶, منابع آزمون کارشناسی ارشد روانشناسی بالینی ۹۷, منابع آزمون کارشناسی ارشد روانشناسی بالینی ۹۸, منابع آزمون کارشناسی ارشد روانشناسی بالینی ۹۹, منابع آزمون ارشد روانشناسی بالینی, منابع آزمون ارشد روانشناسی بالینی ۹۵, منابع آزمون ارشد روانشناسی بالینی ۹۶, منابع آزمون ارشد روانشناسی بالینی ۹۷, منابع آزمون ارشد روانشناسی بالینی ۹۸, منابع آزمون ارشد روانشناسی بالینی ۹۹, منابع کارشناسی ارشد روانشناسی بالینی, منابع کارشناسی ارشد روانشناسی بالینی ۹۵, منابع کارشناسی ارشد روانشناسی بالینی ۹۶, منابع کارشناسی ارشد روانشناسی بالینی ۹۷, منابع کارشناسی ارشد روانشناسی بالینی ۹۸, منابع کارشناسی ارشد روانشناسی بالینی ۹۹, منابع ارشد روانشناسی بالینی, منابع ارشد روانشناسی بالینی ۹۵, منابع ارشد روانشناسی بالینی ۹۶, منابع ارشد روانشناسی بالینی ۹۷, منابع ارشد روانشناسی بالینی ۹۸, منابع ارشد روانشناسی بالینی ۹۹, منابع کنکور کارشناسی ارشد روانشناسی بالینی, منابع کنکور ارشد روانشناسی بالینی, آزمون کارشناسی ارشد روانشناسی بالینی,آزمون ارشد روانشناسی بالینی, کنکور کارشناسی ارشد روانشناسی بالینی, کنکور ارشد روانشناسی بالینی, منابع آزمون کارشناسی ارشد روانشناسی بالینی سراسری , ارشد روانشناسی بالینی , کارشناسی ارشد روانشناسی بالینی , سنجش تکمیلی امیرکبیر , منابع آزمون کارشناسی ارشد روانشناسی بالینی تضمینی , بسته آموزشی کارشناسی ارشد روانشناسی بالینی , گرایش های کارشناسی ارشد روانشناسی بالینی , کارشناسی ارشد روانشناسی بالینی سراسری و آزاد , کنکور کارشناسی ارشد روانشناسی بالینی, جزوات کنکور کارشناسی ارشد روانشناسی بالینی, سوالات آزمون کارشناسی ارشد روانشناسی بالینی, دروس امتحانی کارشناسی ارشد روانشناسی بالینی , مشاوره کنکور کارشناسی ارشد روانشناسی بالینی , جدیدترین منابع آزمون کارشناسی ارشد روانشناسی بالینی , آزمون آزمایشی کارشناسی ارشد روانشناسی بالینی , مشاوره آزمون کارشناسی ارشد روانشناسی بالینی , آزمون های آزمایشی کارشناسی ارشد روانشناسی بالینی , مشاوره آزمون کارشناسی ارشد روانشناسی بالینی , گرایش های ارشد روانشناسی بالینی , بهترین گرایش روانشناسی بالینی , رشته های کارشناسی ارشد روانشناسی بالینی , منابع کارشناسی ارش�� روانشناسی بالینی دانشگاه آزاد , منابع ارشد روانشناسی بالینی ۹۶ , منابع ارشد روانشناسی بالینی سراسری و آزاد , منابع کارشناسی ارشد روانشناسی بالینی فراگیر پیام نور , منابع ارشد روانشناسی ۹۶ , منابع ارشد روانشناسی تربیتی , منابع ارشد روانشناسی عمومی ۹۶
Tweet
0Save
برچسب ها:
آزمون آزمایشی کارشناسی ارشد روانشناسی
,
آزمون ارشد روانشناسی بالینی
,
آزمون کارشناسی ارشد روانشناسی بالینی
,
آزمون های آزمایشی کارشناسی ارشد روانشناسی بالینی
,
ارشد روانشناسی بالینی
,
ارشد روانشناسی بالینی بدون کنکور
,
برنامه ریزی آزمون ارشد
,
برنامه ریزی آزمون ارشد روانشناسی بالینی
,
برنامه ریزی آزمون کارشناسی ارشد
,
برنامه ریزی آزمون کارشناسی ارشد روانشناسی
,
برنامه ریزی کارشناسی ارشد
,
برنامه ریزی کارشناسی ارشد روانشناسی بالینی
,
بسته آموزشی کارشناسی ارشد روانشناسی بالینی
,
بهترین گرایش روانشناسی بالینی
,
جدیدترین منابع آزمون کارشناسی ارشد روابط بین الملل
,
جزوات کنکور کارشناسی ارشد روانشناسی بالینی
,
دروس امتحانی کارشناسی ارشد روانشناسی
,
رشته های کارشناسی ارشد روانشناسی بالینی
,
سنجش تکمیلی امیرکبیر
,
سوالات آزمون کارشناسی ارشد روانشناسی
,
کارشناسی ارشد روانشناسی بالینی
,
کارشناسی ارشد روانشناسی بالینی دانشگاه آزاد
,
کارشناسی ارشد روانشناسی بالینی وزارت بهداشت
,
کنکور ارشد روانشناسی بالینی
,
کنکور کارشناسی ارشد روانشناسی بالینی
,
گرایش های ارشد روانشناسی بالینی
,
گرایش های کارشناسی ارشد روانشناسی بالینی
,
مشاوره آزمون ارشد
,
مشاوره آزمون ارشد روانشناسی بالینی
,
مشاوره آزمون کارشناسی ارشد روانشناسی بالینی
,
مشاوره کنکور کارشناسی ارشد روانشناسی
,
مشاوره و برنامه ریزی کنکور کارشناسی ارشد
,
منابع آزمون ارشد روانشناسی بالینی
,
منابع آزمون ارشد روانشناسی بالینی 95
,
منابع آزمون ارشد روانشناسی بالینی 96
,
منابع آزمون ارشد روانشناسی بالینی 97
,
منابع آزمون ارشد روانشناسی بالینی 98
,
منابع آزمون ارشد روانشناسی بالینی 99
,
منابع آزمون ارشد مجموعه روانشناسی
,
منابع آزمون ارشد مجموعه روانشناسی 96
,
منابع آزمون ارشد مجموعه روانشناسی 97
,
منابع آزمون ارشد مجموعه روانشناسی 98
,
منابع آزمون ارشد مجموعه روانشناسی 99
,
منابع آزمون کارشناسی ارشد روانشناسی اسلامی
,
منابع آزمون کارشناسی ارشد روانشناسی بالینی 95
,
منابع آزمون کارشناسی ارشد روانشناسی بالینی 96
,
منابع آزمون کارشناسی ارشد روانشناسی بالینی 97
,
منابع آزمون کارشناسی ارشد روانشناسی بالینی 98
,
منابع آزمون کارشناسی ارشد روانشناسی بالینی 99
,
منابع آزمون کارشناسی ارشد روانشناسی بالینی علوم پزشکی
,
منابع آزمون کارشناسی ارشد روانشناسی تضمینی
,
منابع آزمون کارشناسی ارشد روانشناسی صنعتی و سازمانی
,
منابع آزمون کارشناسی ارشد روانشناسی عمومی
,
منابع آزمون کارشناسی ارشد روانشناسی مثبت گرا
,
منابع آزمون کارشناسی ارشد روانشناسی و آموزش کودکان استثنایی
,
منابع آزمون کارشناسی ارشد سنجش و اندازه گیری
,
منابع آزمون کارشناسی ارشد مجموعه روانشناسی
,
منابع آزمون کارشناسی ارشد مجموعه روانشناسی 96
,
منابع آزمون کارشناسی ارشد مجموعه روانشناسی 97
,
منابع آزمون کارشناسی ارشد مجموعه روانشناسی 98
,
منابع آزمون کارشناسی ارشد مجموعه روانشناسی 99
,
منابع ارشد بالینی 97
,
منابع ارشد روانشناسی 96
,
منابع ارشد روانشناسی 97
,
منابع ارشد روانشناسی بالینی
,
منابع ارشد روانشناسی بالینی 95
,
منابع ارشد روانشناسی بالینی 96
,
منابع ارشد روانشناسی بالینی 97
,
منابع ارشد روانشناسی بالینی 98
,
منابع ارشد روانشناسی بالینی 99
,
منابع ارشد روانشناسی بالینی وزارت بهداشت
,
منابع ارشد روانشناسی تربیتی
,
منابع ارشد روانشناسی عمومی 96
,
منابع ارشد روانشناسی عمومی 97
,
منابع ارشد مجموعه روانشناسی
,
منابع ارشد مجموعه روانشناسی 96
,
منابع ارشد مجموعه روانشناسی 97
,
منابع ارشد مجموعه روانشناسی 98
,
منابع ارشد مجموعه روانشناسی 99
,
منابع کارشناسی ارشد روانشناسی بالینی 95
,
منابع کارشناسی ارشد روانشناسی بالینی 96
,
منابع کارشناسی ارشد روانشناسی بالینی 97
,
منابع کارشناسی ارشد روانشناسی بالینی 98
,
منابع کارشناسی ارشد روانشناسی بالینی 99
,
منابع کارشناسی ارشد روانشناسی بالینی دانشگاه آزاد
,
منابع کارشناسی ارشد مجموعه روانشناسی
,
منابع کارشناسی ارشد مجموعه روانشناسی 96
,
منابع کارشناسی ارشد مجموعه روانشناسی 97
,
منابع کارشناسی ارشد مجموعه روانشناسی 98
,
منابع کارشناسی ارشد مجموعه روانشناسی 99
,
منابع کنکور ارشد روانشناسی بالینی
,
منابع کنکور کارشناسی ارشد روانشناسی بالینی
0 notes
Text
سلمان خان کوقتل کرنیکی کوشش۔۔۔والدکی تصدیق۔۔۔ملزم کانام بھی سامنے آگیا
ممبئی(نیوز ڈیسک)بالی ووڈ اداکار سلمان خان فلم کی شوٹنگ میں مصروف تھے کہ نامعلوم افراد نے اچانک اُن پر حملہ کردیا مگر وہ خوش قسمتی سے بالکل محفوظ رہے، والد نے بھی بیٹے پر ہونے والے حملے کی تصدیق کردی۔بھارتی میڈیا کے مطابق دبنگ خان کالے ہرن کو مارنے کے کیس کی سماعت پر جب پیر کے روز جود پور پہنچے تو انہیں ریاست راجھستان
کے بدنامِ زمانہ بدمعاش لارنس بشونی نامی بدمعاش نے قتل کی دھمکی دی۔لارنس نامی شخص نے سلمان خان کو نچلی ذات کی برادری کے خلاف نازیبا کلمات ادا کرنے پر سنگین نتائج کی بھی دھمکی تھی جس کے پیش نظر کیس کی سماعت کے دوران پولیس کی بھاری نفری کو عدالت کے باہر تعینات کیا گیا تھا۔سلمان خان اور جیکو لین فرنینڈس ممبئی میں اپنی نئی آنے والی فلم ریس 3 کی شوٹنگ میں بدھ کے روز مصروف تھے کہ اچانک سیٹ پر نامعلوم مسلح افراد حملہ آور ہوئے اور اُن کا نشانہ دبنگ خان ہی تھے۔سلمان خان کے محافظوں نے حملے کو ناکام بنایا جس کے بعد فلم ڈائریکٹر رمیش ترانی نے پولیس کمانڈوز کو طلب کیا اور سلمان خان کو باحفاظت گھر منتقل کیا گیا، ریس 3 کی شوٹنگ کو حملے کے بعد کو کچھ روز کے لیے روک دیا گیا ہے۔پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ’سلمان خان پر حملے میں ممکنہ طور پر بشونی ملوث ہوسکتا ہے کیونکہ ملزم نے دبنگ خان کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں جنہیں سنجیدگی سے لے رہے ہیں‘۔دبنگ خان کے والد سلیم خان نے بیٹے پر حملے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’مجھے اس حملے کے محرکات کا علم نہیں مگرجب ��یں سیٹ سے نکل گیا تو سلمان خان پر حملہ کیا گیا تاہم وہ بالکل محفوظ ہے‘۔ساتھی اداکاروں اور سلمان خان کے مداحوں کو جب حملے کا علم ہوا تو انہوں نے اپنے دبنگ خان خیریت طلب کی اور نیک خواہشات کا اظہار بھی کیا۔واضح رہے کہ فلم ٹائیگر زندہ ہے کی تشہیر کے دوران سلمان خان اور شلپا شیٹھی نے نجی پروگرام میں راجھستان برادری کے لیے لفظ ’بھنگی‘ کا استعمال کیا تھا جس پر بھارت میں ہنگامے پھوٹے اور اداکاروں کے خلاف مقدمات درج کیے گیے تھے۔
The post سلمان خان کوقتل کرنیکی کوشش۔۔۔والدکی تصدیق۔۔۔ملزم کانام بھی سامنے آگیا appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain http://ift.tt/2mC3gE6 via Today Urdu News
0 notes
Text
سلمان خان کوقتل کرنیکی کوشش۔۔۔والدکی تصدیق۔۔۔ملزم کانام بھی سامنے آگیا
ممبئی(نیوز ڈیسک)بالی ووڈ اداکار سلمان خان فلم کی شوٹنگ میں مصروف تھے کہ نامعلوم افراد نے اچانک اُن پر حملہ کردیا مگر وہ خوش قسمتی سے بالکل محفوظ رہے، والد نے بھی بیٹے پر ہونے والے حملے کی تصدیق کردی۔بھارتی میڈیا کے مطابق دبنگ خان کالے ہرن کو مارنے کے کیس کی سماعت پر جب پیر کے روز جود پور پہنچے تو انہیں ریاست راجھستان
کے بدنامِ زمانہ بدمعاش لارنس بشونی نامی بدمعاش نے قتل کی دھمکی دی۔لارنس نامی شخص نے سلمان خان کو نچلی ذات کی برادری کے خلاف نازیبا کلمات ادا کرنے پر سنگین نتائج کی بھی دھمکی تھی جس کے پیش نظر کیس کی سماعت کے دوران پولیس کی بھاری نفری کو عدالت کے باہر تعینات کیا گیا تھا۔سلمان خان اور جیکو لین فرنینڈس ممبئی میں اپنی نئی آنے والی فلم ریس 3 کی شوٹنگ میں بدھ کے روز مصروف تھے کہ اچانک سیٹ پر نامعلوم مسلح افراد حملہ آور ہوئے اور اُن کا نشانہ دبنگ خان ہی تھے۔سلمان خان کے محافظوں نے حملے کو ناکام بنایا جس کے بعد فلم ڈائریکٹر رمیش ترانی نے پولیس کمانڈوز کو طلب کیا اور سلمان خان کو باحفاظت گھر منتقل کیا گیا، ریس 3 کی شوٹنگ کو حملے کے بعد کو کچھ روز کے لیے روک دیا گیا ہے۔پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ’سلمان خان پر حملے میں ممکنہ طور پر بشونی ملوث ہوسکتا ہے کیونکہ ملزم نے دبنگ خان کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں جنہیں سنجیدگی سے لے رہے ہیں‘۔دبنگ خان کے والد سلیم خان نے بیٹے پر حملے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’مجھے اس حملے کے محرکات کا علم نہیں مگرجب میں سیٹ سے نکل گیا تو سلمان خان پر حملہ کیا گیا تاہم وہ بالکل محفوظ ہے‘۔ساتھی اداکاروں اور سلمان خان کے مداحوں کو جب حملے کا علم ہوا تو انہوں نے اپنے دبنگ خان خیریت طلب کی اور نیک خواہشات کا اظہار بھی کیا۔واضح رہے کہ فلم ٹائیگر زندہ ہے کی تشہیر کے دوران سلمان خان اور شلپا شیٹھی نے نجی پروگرام میں راجھستان برادری کے لیے لفظ ’بھنگی‘ کا استعمال کیا تھا جس پر بھارت میں ہنگامے پھوٹے اور اداکاروں کے خلاف مقدمات درج کیے گیے تھے۔
The post سلمان خان کوقتل کرنیکی کوشش۔۔۔والدکی تصدیق۔۔۔ملزم کانام بھی سامنے آگیا appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain http://ift.tt/2mC3gE6 via Urdu News Paper
#urdu news paper#indian urdu news papers#inquilab urdu news paper#sahara urdu news paper#kashmir urdu
0 notes
Text
سلمان خان کوقتل کرنیکی کوشش۔۔۔والدکی تصدیق۔۔۔ملزم کانام بھی سامنے آگیا
ممبئی(نیوز ڈیسک)بالی ووڈ اداکار سلمان خان فلم کی شوٹنگ میں مصروف تھے کہ نامعلوم افراد نے اچانک اُن پر حملہ کردیا مگر وہ خوش قسمتی سے بالکل محفوظ رہے، والد نے بھی بیٹے پر ہونے والے حملے کی تصدیق کردی۔بھارتی میڈیا کے مطابق دبنگ خان کالے ہرن کو مارنے کے کیس کی سماعت پر جب پیر کے روز جود پور پہنچے تو انہیں ریاست راجھستان
کے بدنامِ زمانہ بدمعاش لارنس بشونی نامی بدمعاش نے قتل کی دھمکی دی۔لارنس نامی شخص نے سلمان خان کو نچلی ذات کی برادری کے خلاف نازیبا کلمات ادا کرنے پر سنگین نتائج کی بھی دھمکی تھی جس کے پیش نظر کیس کی سماعت کے دوران پولیس کی بھاری نفری کو عدالت کے باہر تعینات کیا گیا تھا۔سلمان خان اور جیکو لین فرنینڈس ممبئی میں اپنی نئی آنے والی فلم ریس 3 کی شوٹنگ میں بدھ کے روز مصروف تھے کہ اچانک سیٹ پر نامعلوم مسلح افراد حملہ آور ہوئے اور اُن کا نشانہ دبنگ خان ہی تھے۔سلمان خان کے محافظوں نے حملے کو ناکام بنایا جس کے بعد فلم ڈائریکٹر رمیش ترانی نے پولیس کمانڈوز کو طلب کیا اور سلمان خان کو باحفاظت گھر منتقل کیا گیا، ریس 3 کی شوٹنگ کو حملے کے بعد کو کچھ روز کے لیے روک دیا گیا ہے۔پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ’سلمان خان پر حملے میں ممکنہ طور پر بشونی ملوث ہوسکتا ہے کیونکہ ملزم نے دبنگ خان کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں جنہیں سنجیدگی سے لے رہے ہیں‘۔دبنگ خان کے والد سلیم خان نے بیٹے پر حملے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’مجھے اس حملے کے محرکات کا علم نہیں مگرجب میں سیٹ سے نکل گیا تو سلمان خان پر حملہ کیا گیا تاہم وہ بالکل محفوظ ہے‘۔ساتھی اداکاروں اور سلمان خان کے مداحوں کو جب حملے کا علم ہوا تو انہوں نے اپنے دبنگ خان خیریت طلب کی اور نیک خواہشات کا اظہار بھی کیا۔واضح رہے کہ فلم ٹائیگر زندہ ہے کی تشہیر کے دوران سلمان خان اور شلپا شیٹھی نے نجی پروگرام میں راجھستان برادری کے لیے لفظ ’بھنگی‘ کا استعمال کیا تھا جس پر بھارت میں ہنگامے پھوٹے اور اداکاروں کے خلاف مقدمات درج کیے گیے تھے۔
The post سلمان خان کوقتل کرنیکی کوشش۔۔۔والدکی تصدیق۔۔۔ملزم کانام بھی سامنے آگیا appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain http://ift.tt/2mC3gE6 via Urdu News
0 notes
Text
سلمان خان کوقتل کرنیکی کوشش۔۔۔والدکی تصدیق۔۔۔ملزم کانام بھی سامنے آگیا
ممبئی(نیوز ڈیسک)بالی ووڈ اداکار سلمان خان فلم کی شوٹنگ میں مصروف تھے کہ نامعلوم افراد نے اچانک اُن پر حملہ کردیا مگر وہ خوش قسمتی سے بالکل محفوظ رہے، والد نے بھی بیٹے پر ہونے والے حملے کی تصدیق کردی۔بھارتی میڈیا کے مطابق دبنگ خان کالے ہرن کو مارنے کے کیس کی سماعت پر جب پیر کے روز جود پور پہنچے تو انہیں ریاست راجھستان
کے بدنامِ زمانہ بدمعاش لارنس بشونی نامی بدمعاش نے قتل کی دھمکی دی۔لارنس نامی شخص نے سلمان خان کو نچلی ذات کی برادری کے خلاف نازیبا کلمات ادا کرنے پر سنگین نتائج کی بھی دھمکی تھی جس کے پیش نظر کیس کی سماعت کے دوران پولیس کی بھاری نفری کو عدالت کے باہر تعینات کیا گیا تھا۔سلمان خان اور جیکو لین فرنینڈس ممبئی میں اپنی نئی آنے والی فلم ریس 3 کی شوٹنگ میں بدھ کے روز مصروف تھے کہ اچانک سیٹ پر نامعلوم مسلح افراد حملہ آور ہوئے اور اُن کا نشانہ دبنگ خان ہی تھے۔سلمان خان کے محافظوں نے حملے کو ناکام بنایا جس کے بعد فلم ڈائریکٹر رمیش ترانی نے پولیس کمانڈوز کو طلب کیا اور سلمان خان کو باحفاظت گھر منتقل کیا گیا، ریس 3 کی شوٹنگ کو حملے کے بعد کو کچھ روز کے لیے روک دیا گیا ہے۔پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ’سلمان خان پر حملے میں ممکنہ طور پر بشونی ملوث ہوسکتا ہے کیونکہ ملزم نے دبنگ خان کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں جنہیں سنجیدگی سے لے رہے ہیں‘۔دبنگ خان کے والد سلیم خان نے بیٹے پر حملے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’مجھے اس حملے کے محرکات کا علم نہیں مگرجب میں سیٹ سے نکل گیا تو سلمان خان پر حملہ کیا گیا تاہم وہ بالکل محفوظ ہے‘۔ساتھی اداکاروں اور سلمان خان کے مداحوں کو جب حملے کا علم ہوا تو انہوں نے اپنے دبنگ خان خیریت طلب کی اور نیک خواہشات کا اظہار بھی کیا۔واضح رہے کہ فلم ٹائیگر زندہ ہے کی تشہیر کے دوران سلمان خان اور شلپا شیٹھی نے نجی پروگرام میں راجھستان برادری کے لیے لفظ ’بھنگی‘ کا استعمال کیا تھا جس پر بھارت میں ہنگامے پھوٹے اور اداکاروں کے خلاف مقدمات درج کیے گیے تھے۔
The post سلمان خان کوقتل کرنیکی کوشش۔۔۔والدکی تصدیق۔۔۔ملزم کانام بھی سامنے آگیا appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain http://ift.tt/2mC3gE6 via Urdu News
#Urdu News#Daily Pakistan#Today Pakistan#Pakistan Newspaper#World Urdu News#Entertainment Urdu News#N
0 notes
Text
سلمان خان کوقتل کرنیکی کوشش۔۔۔والدکی تصدیق۔۔۔ملزم کانام بھی سامنے آگیا
ممبئی(نیوز ڈیسک)بالی ووڈ اداکار سلمان خان فلم کی شوٹنگ میں مصروف تھے کہ نامعلوم افراد نے اچانک اُن پر حملہ کردیا مگر وہ خوش قسمتی سے بالکل محفوظ رہے، والد نے بھی بیٹے پر ہونے والے حملے کی تصدیق کردی۔بھارتی میڈیا کے مطابق دبنگ خان کالے ہرن کو مارنے کے کیس کی سماعت پر جب پیر کے روز جود پور پہنچے تو انہیں ریاست راجھستان
کے بدنامِ زمانہ بدمعاش لارنس بشونی نامی بدمعاش نے قتل کی دھمکی دی۔لارنس نامی شخص نے سلمان خان کو نچلی ذات کی برادری کے خلاف نازیبا کلمات ادا کرنے پر سنگین نتائج کی بھی دھمکی تھی جس کے پیش نظر کیس کی سماعت کے دوران پولیس کی بھاری نفری کو عدالت کے باہر تعینات کیا گیا تھا۔سلمان خان اور جیکو لین فرنینڈس ممبئی میں اپنی نئی آنے والی فلم ریس 3 کی شوٹنگ میں بدھ کے روز مصروف تھے کہ اچانک سیٹ پر نامعلوم مسلح افراد حملہ آور ہوئے اور اُن کا نشانہ دبنگ خان ہی تھے۔سلمان خان کے محافظوں نے حملے کو ناکام بنایا جس کے بعد فلم ڈائریکٹر رمیش ترانی نے پولیس کمانڈوز کو طلب کیا اور سلمان خان کو باحفاظت گھر منتقل کیا گیا، ریس 3 کی شوٹنگ کو حملے کے بعد کو کچھ روز کے لیے روک دیا گیا ہے۔پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ’سلمان خان پر حملے میں ممکنہ طور پر بشونی ملوث ہوسکتا ہے کیونکہ ملزم نے دبنگ خان کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں جنہیں سنجیدگی سے لے رہے ہیں‘۔دبنگ خان کے والد سلیم خان نے بیٹے پر حملے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’مجھے اس حملے کے محرکات کا علم نہیں مگرجب میں سیٹ سے نکل گیا تو سلمان خان پر حملہ کیا گیا تاہم وہ بالکل محفوظ ہے‘۔ساتھی اداکاروں اور سلمان خان کے مداحوں کو جب حملے کا علم ہوا تو انہوں نے اپنے دبنگ خان خیریت طلب کی اور نیک خواہشات کا اظہار بھی کیا۔واضح رہے کہ فلم ٹائیگر زندہ ہے کی تشہیر کے دوران سلمان خان اور شلپا شیٹھی نے نجی پروگرام میں راجھستان برادری کے لیے لفظ ’بھنگی‘ کا استعمال کیا تھا جس پر بھارت میں ہنگامے پھوٹے اور اداکاروں کے خلاف مقدمات درج کیے گیے تھے۔
The post سلمان خان کوقتل کرنیکی کوشش۔۔۔والدکی تصدیق۔۔۔ملزم کانام بھی سامنے آگیا appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain http://ift.tt/2mC3gE6 via Daily Khabrain
0 notes
Text
دبنگ خان کو جان سے مارنے کی دھمکی دینے والا کون ؟ نام بارے پتہ چل گیا
Click to read more
جودھ پور(نیوز دیسک) بھارتی گینگسٹر کی بالی ووڈ اداکار سلمان خان کو جان سے مارنے کی دھمکی ۔انڈین میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارتی پنجاب سے تعلق رکھنے والے لارنس بشنوئی نامی گینگسٹر کو پروڈکشن وارنٹ کے باعث پولیس کی گاڑی میں مقامی عدالت لایا گیا جس دوران بشنوئی –> نے کہا کہ وہ خود سلمان خان کو قتل کرے گا۔پولیس کمشنر اشوک راٹھور نے کہا کہ وہ بشنوئی کی دھمکی سے آگاہ ہیں اور کسی بھی خطرناک صورتحال کے پیش…
View On WordPress
0 notes
Photo
اسلام آباد میں آپریشن کے خلاف پاکستان کے مختلف شہروں میں احتجاج اسلام آباد ۔26نومبر ( یو این این) اسلام آباد میں دھرنے کے خلاف آپریشن کے دوسرے روز ملک کے مختلف علاقوں میں احتجاجی مظاہرے کیے جا رہے ہیں جبکہ مذہبی جماعت لبیک یا رسول اللہ نے پیر کو ملک میں شڑ ڈاؤن ہڑتال کی کال دی ہے۔اسلام آباد میں دھرنا دینے والی مذہبی جماعت لبیک یا رسول اللہ کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں پیر کو ملک میں مکمل شٹر ڈاؤن ہڑتال کی اپیل کی گئی ہے۔ادھر اسلام آباد میں ��توار کی صبح احساس عمارات کی حفاظت کے لیے فوج کو تعینات کیا گیا ہے جبکہ ملک کے دیگر بڑے شہروں کی صورت حال کچھ یوں ہے۔نامہ نگار ریاض سہیل نے بتایا کہ کراچی میں ایم اے جناح روڈ پر نمائش چورنگی کے ساتھ ساتھ ٹاور اور سہراب گوٹھ کے مقام پرصبح سے دھرنے جاری ہیں۔ شہر میں اتوار کو موبائل مارکیٹ اور بولٹن مارکیٹ سمیت کچھ دکانیں کھلی تھیں تاہم شہر میں بیشتر کاروبار بند ہے جبکہ پبلک ٹرانسپورٹ بھی کم ہے۔کراچی میں سنیچر کو شہر میں 30 سے زائد مقامات پر دھرنے دیے گئے تھے، نرسری اور صدر میں تصادم اور جھڑپوں میں 27 افراد زخمی ہوئے تھے جبکہ سنیچر کی شب کمشنر آفس سے جاری اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ انتظامیہ تحریک لبیک یارسول اللہ کو یقین دہانی کرانا چاہتی ہے کہ ان کے اس دھرنے میں حکومت کسی بھی طور پر کوئی دخل اندازی نہیں کرنا چاہتی تاوقتہ دھرنے کے شرکا قانون ہاتھ میں نہ لیں۔دوسری جانب سندھ کے دیگر شہروں حیدرآباد اور میرپورخاص میں بھی احتجاجی دھرنے جاری ہیں۔نامہ نگار محمد کاظم مطابق بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں حالات معمول پر ہیں۔ اسلام آباد میں دھرنے کے خلاف کارروائی کے خلاف بریلوی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والی تنظیموں کے کارکنوں کی جانب سے سول سیکریٹریٹ کے قریب ہاکی چوک پھر دھرنا دیا گیا تھا لیکن اتوار کو شہر میں ابھی تک ان کی جانب سے کوئی احتجاج سامنے نہیں آیا اور کاروباری مراکز بھی کھلے ہیں۔لاہور سے نامہ نگار عمر دراز کے مطابق مظاہرین نے چیئرنگ کراس، شاہدرہ، ٹھوکر نیاز بیگ، بابو صابو انٹر چینج کو بند کر دیا ہے جبکہ مال روڈ پر رینجرز تعینات ہیں۔پشاور سے نامہ نگار رفعت اللہ اورکزئی کے مطابق شہر میں تحریک لبیک یا رسول اللہ کے کارکنوں کی جانب سے اسلام آباد آپریشن کے خلاف احتجاج اور دھرنا دینے کا سلسلہ جاری ہے۔لبیک یا رسول اللہ کے سینکڑوں کارکن رنگ روڈ کو ہر قسم کی ٹریفک کے لیے بند کر کے دھرنا دے رہے ہیں۔ پولیس اہلکاروں کا کہنا ہے کہ سنیچر کی شام سے جمیل چوک کو ہر قسم کی ٹریفک کے لیے بند کردیا گیا ہے جس سے اس اہم شاہراہ پر گاڑیوں کی آمد و رفت معطل ہے۔موٹروے پولیس کے مطابق مذہبی جماعت لبیک یارسول اللہ کے کارکنان کے دھرنے کے باعث اسلام آباد لاہور موٹروے کو دو مقامات سے بند کیا گیا ہے۔اسسٹنٹ پٹرولنگ آفیسر فرمان شاہ نے بی بی سی کو بتایا کہ چکری کے پاس 600 اور پنڈی بھٹیاں کے قریب 400 مظاہرین کا دھرنا جاری ہے جس کی وجہ سے ان دونوں مقامات سے موٹروے کو بند کر دیا گیا ہے۔انھوں نے بتایا کہ لاہور سے آنے والے ٹریفک کو شیخوپورہ سے جبکہ اسلام آباد سے جانے والی ٹریفک کو اسلام آباد کے مرکزی ٹول پلازہ سے موڑا جا رہا ہے یا متبادل راستہ فراہم کیا جا رہا ہے۔کامرہ سے کینٹ کی جانب جانے والے نیشنل ہائی وے کے راستے کو لارنس پور، ٹیکسلا چوک، سواں، گجر خان، گجرانوالہ میں چند دا قلعہ اور اس سے آگے کامونکی، راوی ریان اور مریدکے سٹی سے بلاک ک��ا گیا ہے۔قومی شاہراہ نیشنل ہائی وے کے مرکزی راستے سنیچر سے دو مقامات پکاوہیل اور لوہاراں والا کوٹ سے بند ہیں۔ ان راستوں پر آنے والی ٹریفک کو چونیاں موڑ سے چھانگا مانگا کی جانب موڑا جا رہا ہے۔صوبہ سندھ میں صورت حال قابو میں ہے۔ نیشنل ہائی وے پولیس کے اسسٹنٹ پٹرول آفیسر لعل حسین شاہ نے بتایا کہ کوٹ سبزل کے بعد سندھ میں کراچی تک کہیں سے بھی ہائی وے بند نہیں کی گئی۔
0 notes
Photo
مولانا فضل الرحمان کا سیاسی میلہ – حیدر جاوید سید چند مہمانوں کی متنازعہ تقاریر سے صرفِ نظر کر کے دیکھا جائے تو جے یو آئی (ف) کے زیرِ اہتمام جمیعت علمائے ہند کے صد سالہ جشن کے نام پر مولانا فضل الرحمان نے ایک اچھا سیاسی شو کر لیا۔ تعداد کے حوالے سے بحث فضول ہے۔ یہاں جلسی کو جلسہ بنا کر پیش کرنے والے بھی بہت ہیں۔ اور 20، 25 ہزار کے جلوس کو ملین مارچ کے طور پر پیش کرنے والے بھی ۔ اسی لئے اس حساب سے مولانا کے سیاسی میلے میں 50 لاکھ افراد واقعتاََ تھے۔ 50 ہزار میں دو اور ڈیڑھ لاکھ میں ایک صفر ہی تو بڑھانا ہے۔ مگر اصل سوال یہ ہرگز نہیں کہ کتنے لوگ تھے۔ کون کون آیا، کس نے کیا کہا؟ بنیادی سوال یہ ہے کہ اس اجتماع میں بیت اللہ کے ایک نائب پیش نماز شیخ صالح بن محمد نے جن خیالات کا اظہار کیا کیاسعودی عرب کسی پاکستانی رہنما کو اپنے ملک میں اس طرح کے خیالات کے اظہار کا موقع دے گا؟ فقیرراحموں کہتے ہیں کہ ان جی کرتا ہے کہ وہ مسجد نبوی ﷺ کے باہر ایک اجتماع منعقد کریں اور اس میں نجدی آلِ سعود کی تاریخ بیان کریں کہ کیسے انہوں نے برطانوی سامراج کے ساتھ مل کر حجاز مقدس کے ہاشمی حکمران کے خلاف بغاوت کی اور پھر سعودی عرب کے نام سے بادشاہت کی داغ بیل ڈالی۔ ہمارے دوست علامہ رنگ باز ٹپوری تو اس سے بھی آگے کی بات کرتے ہیں۔ علامہ خالص قسم کے دیندار علامے ہیں۔ خالص دیندار علاموں کے بارے آپ اگر کچھ نہیں جانتے تو مختصراََ سمجھ لیجئے کہ حقیقی اور ملاوٹ سے پاک صدقہ، زکوٰۃ اور خیرات پر عمر بیتانے والے مولویوں کی اعلیٰ قسم ہے یہ۔ علامہ رنگ باز ٹپوری کو ایک تو اس بات کا غصہ ہے کہ مولانا فضل الرحمان نے ان سے چھوٹے چھوٹے بلکہ بہت چھوٹے قسم کے مولویوں کو علامہ کے لاحقوں سے اپنے میلے میں بلایا اور انہیں محض ذاتی دشمنی میں اسی طرح نظر انداز کیا جیسے مولانا سمیع الحق کو۔ ایک مولانا اور ایک علامہ کا یہ جھگڑا چلتارہے گا ہم اس بات پر غور کرتے ہیں کہ خود کو خالص سیکولر جماعت کہنے والی جمعیت علمائے ہند کے پاکستانی ایڈیشن کی ایف برانچ تو سیکولر ازم کی پکی پیٹھی مخالف ہے بلکہ مولانا تو سیکولرازم سے 1979 ءکے سال کے اس دن سے شدید نفرت کرتے ہیں جب ملتان میں بہمن جی کے شراب خانے پر حملہ ہوا اور کچھ آدھے پورے سیکولروں نے شراب خانے کے خلاف مولانا کے "جہاد اکبر" کے ساتھ قریبی چرچ میں زبردستی نماز ظہر ادا کرنے کی ضد کو غلط رنگ دیا۔ یہاں مگر ان سارے پرانے قصوں کو دہرانا مقصود نہیں۔بات تو یہ کرنی ہے کہ سعودی عرب کے دو سرکا��ی ملازموں کو پاکستان میں ایک سیاسی اجتماع سے خطاب کرنے کی اجازت کیوں دی گئی؟ علامہ رنگ باز ٹپوری نے پھر ٹانگ اڑاتے ہوئے فرمایا ہے کہ "فکری طور پر دونوں کا شجرہ کرنل لارنس آف عریبیہ اور برطانیہ سے ملتا ہے۔ اس حساب سے یہ دو چچا زاد بھائیوں کی ملاقات کا بہانہ تھا"۔ رنگ باز ٹپوری کی اس بات کو کم از کم میں عالم اسلام پر کھلا حملہ سمجھتا ہوں۔ اور یہ ویسا ہی حملہ ہے جیسا امریکہ نے شام پر چند دن قبل کیا۔ عدم اتفاق کے باوجود اس کی مذمت سے زیاد مجھے اپنے پرانے دوست مولانا فضل الرحمان اور رنگ باز ٹپوری میں صلح کرانےمیں دلچسپی ہے۔ دونوں دیندار فنکار اگر کسی اتحاد کا حصہ بن جائیں تو "انقلاب" کو جگایا جا سکتاہے جو مسلمانوں کی عدم دلچسپی کی وجہ سے صدیوں سے سو رہا ہے۔ جے یو آئی (ف) کے سیاسی میلے اور دیگر مواقع پر پیش نماز آف بیت اللہ نے کہا اسلام انسانیت کے لئے امن کا دین ہے۔ لاریب اس سے کسی کو بھی انکار نہیں۔ اصل بات جسے وہ نظر انداز کر گئے یہ ہے کہ مسلمان مسلمان کے لئے خیروسلامتی کا باعث بننے کی بجائے آزار بنا ہوا ہے۔ اسلام دہشت گردی سے منع کرتا ہے مگر مسلمانوں کے ایک بلکہ دو طبقوں کو دہشت گردی بہت زیادہ مرغوب ہے۔ علامہ رنگ باز ٹپوری کے غصے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ عالم اسلام میں تکفیریت اور دہشت گردی کے باوا آدموں نے اپنے جرائم کی پردہ پوشی کے لئے اسلام کی آڑ لے رکھی ہے۔ یہاں آپ کو ایک اور بات بتاؤں جن دنوں مولانا فضل الرحمان سرکاری تعاون، لوگوں کے چندے اورسعودی بادشاہت کی سرپرستی سے میلہ سجائے ہوئے تھے تو انہی دنوں راجن پور میں بزرگ صوفی خواجہ محمد عاقل ؒ کے عرس کی تقریبات کے انعقاد پر ڈی پی او نے درجن بھر سے زیادہ لوگوں کے خلاف نامزد پرچہ درج کروا دیا۔ انصاف یہی بنتا تھا۔ آخر جب اس ملک کے اصلی مالکوں کے لاڈلے اور مالکوں کے آقا ایک روح پرور اجتماع منعقد کر رہے تھے تو چند شرپسند وں کوبدعتیں پھیلانے کی ضرورت کیا تھی؟ یہ صوفیا پرست کب سمجھیں گے کہ پاکستان کا سرکاری مذہب اب وہی ہے جو مولانا فضل الرحمان اور سعودی ملوکیت کے اشتراک سے جنم لے چکا۔ اس لئے مستقبل میں شرک و بدعات سے بھرپور پروگراموں سے اجتناب کیا جائے۔ مجھے امید ہے کہ مولانا فضل الرحمان کا اجتماع ان کے فہم اسلام کی نشاطِ ثانیہ اور نائب پیش نماز آف بیت اللہ کے مقاصد کا نیا بیانیہ ثابت ہو گا۔ البتہ علامہ رنگ باز ٹپوری اور فقیر راحموں مجھ سے متفق نہیں۔ ان دونوں کا خیال ہے کہ ملک ایک نئی قسم کی فرقہ واریت اور تشدد کی طرف بڑھتا دکھائی دے رہا ہے۔ اللہ کرے ان دونوں کی بات درست ثابت نہ ہو اور مولانا کے ہم عقیدہ عسکریت پسندوں کی جاری کردہ چشمہ ہائے فیض مزید جاری رہیں۔ فیض کے ان چشموں کو آپریشن ردالفساد سے بند نہیں ��یا جاسکا تو کوئی اور کیسے کرے گا؟ کیا میں امید کروں کے 32 کروڑ کے چندوں میں سے اچھا خاصا مال بچ رہا ہو گا۔ آخر مولوی کب کوئی کام گھاٹے کا کرتا ہے۔
0 notes
Text
بھارتی گینگسٹر کی بالی ووڈ اداکار سلمان خان کو جان سے مارنے کی دھمکی
Click to read more
جودھ پور: بھارتی گینگسٹر کی بالی ووڈ اداکار سلمان خان کو جان سے مارنے کی دھمکی ۔ انڈین میڈیارپورٹس کے مطابق بھارتی پنجاب سے تعلق رکھنے والے لارنس بشنوئی نامی گینگسٹر کو پروڈکشن وارنٹ کے باعث پولیس کی گاڑی میں مقامی عدالت لایا گیا جس دوران بشنوئی نے کہا کہ وہ خود سلمان خان کو قتل کرے گا۔ پولیس کمشنر اشوک راٹھورنے کہا کہ وہ بشنوئی کی دھمکی سے آگاہ ہیں اورکسی بھی خطرناک صورتحال کے پیش نظر سلمان خان…
View On WordPress
0 notes