#فکرمند
Explore tagged Tumblr posts
emergingpakistan · 3 months ago
Text
انٹرنیٹ ہماری زندگی تباہ کر رہا ہے؟
Tumblr media
جب میری عمر کم تھی تو والدہ اس بات پر فکرمند ہوتی تھیں کہ میں انٹرنیٹ کی لت میں مبتلا ہوں۔ ذہن میں رہے کہ یہ 2000 کی دہائی کے وسط کی بات ہے جب انٹرنیٹ عام طور پر گھر کے ایک خاص کمرے تک محدود ہوتا تھا۔ اگر آپ ایم ایس این میسنجر یا جاپانی اینیمیٹڈ ٹیلی ویژن سیریز ڈریگن بال زیڈ پر اپنی شام ضائع کرنا چاہتے تھے تو آپ کو ساکن مانیٹر کے سامنے بیٹھنا پڑتا تھا اور کوئی بھی آپ کی سرگرمی دیکھ سکتا تھا۔ تیزی سے موجودہ دور میں آئیں۔ سمارٹ فونز کی بدولت میں جب بھی چاہوں ڈریگن بال زیڈ دیکھ سکتا ہوں۔ درحقیقت اگر مجھے اندازہ لگانا پڑے تو میں شاید اس مضمون کو لکھنے سے پہلے اپنے فون کو پانچ سے 10 بار چیک کروں گا۔ اگر میں 2005 میں انٹرنیٹ کا عادی تھا تو مجھے نہیں معلوم کہ اب آپ میرے رویے کو کیا کہیں گے۔ سخت قسم کی لت؟ یا جنون؟ مجھے لگتا ہے کہ اس مرتبہ آپ اسے صرف ’21 ویں صدی کی دنیا میں رہنا‘ کہیں گے کیوں کہ ہمیشہ آن لائن رہنے کی میری لازمی ��رورت وہ ہے، جو زمین پر تقریباً ہر شخص کی ہے۔ خاصی ستم ظریفی یہ ہے کہ اس میں میری والدہ بھی شامل ہیں (یہ درست ہے دوستو انہیں بھی آن لائن رہنا ہو گا) پھر اصل سوال یہ ہے کہ ویب کی ہماری اجتماعی لت کتنا نقصان پہنچا رہی ہے؟ ٹھیک ہے، ایلون مسک کا شکریہ کہ ان کی بدولت ہمیں ایک جواب مل سکتا ہے۔
کار ساز کمپنی ٹیسلا کے ممتاز چیف ایگزیکٹیو افسر اور سوشل میڈیا پلیٹ فار ٹوئٹر پر ہلچل مچانے والے ایلون مسک نے اپنے سٹار لنک سیٹلائٹ سسٹم کے ذریعے ایک نیم الگ تھلگ ایمازون قبیلے کو نیٹ سے جوڑنے میں مدد کی۔ اس نظام کی مدد سے زمین کے دور دراز علاقوں میں بھی تیز رفتار انٹرنیٹ تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ اس ویڈیو گریب میں ایلون مسک کو نیورالنک پریزنٹیشن کے دوران سرجیکل روبوٹ کے ساتھ کھڑا دیکھا جا سکتا ہے (اے ایف پی) ماروبو قبیلے نے گذشتہ نو ماہ انسانی علم کے ہمارے اجتماعی ذخیرے کے عجائبات سے لطف اندوز ہوتے ہوئے گزارے اور نتائج کی پیشگوئی کی جا سکتی ہے۔ اس موضوع پر اخبار نیویارک ٹائمز کے ایک مضمون کے مطابق قبیلے کے ارکان جلد ہی سوشل میڈیا اور فلموں کے عادی ہو گئے اور وہ اپنے دن کا زیادہ تر حصہ ویڈیوز دیکھنے اور پرتشدد ویڈیو گیمز کھیلنے میں گزارتے ہیں۔ خاص طور پر نوجوان اپنے فون میں اس قدر مشغول ہو گئے ہیں کہ انہوں نے قبیلے کے شکار کرنے اور ماہی گیری کے معمولات کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ یہ ایسی سرگرمیاں ہیں جو برادری کی بقا کے لیے اہم ہیں۔
Tumblr media
بے لگام انٹرنیٹ کے استعمال کے خطرات کے بارے میں کیس سٹڈی کے طور پر، نتائج بہت خوفناک ہیں۔ ایک سال سے بھی کم عرصے میں بلیوں کی ویڈیوز اور  فلموں کی کشش قبیلے میں وائرس کی طرح پھیل گئی، جس کے نتیجے میں قبیلے کی عادات اور رویے مکمل طور پر تبدیل ہو کر رہ گئے۔ اس بارے میں ایک دلیل پیش کی جا سکتی ہے کہ شاید وہ اس لیے بہت زیادہ متاثر ہوئے کیوں کہ انہوں نے اس ضمن میں کوئی تیاری نہیں کی تھی لیکن اگر ہم ایمانداری سے بات کریں تو ریڈاِٹ تک رسائی کے بعد کا ان کا معاشرہ ہمارے معاشرے سے کتنا مختلف دکھائی دیتا ہے؟ مجھے غلط مت سمجھیں۔ یقیناً کچھ فوائد حاصل ہوئے ہیں۔ سٹار لنک سسٹم کو ماروبو میں لانے کا بنیادی مقصد اس بات کو یقینی بنانا تھا کہ وہ ہنگامی صورت حال کی صورت میں بیرونی دنیا اور ایک دوسرے کے ساتھ رابطے کے قابل ہوں گے، جو ایک اچھا خیال ہے، چاہے آپ نئی ٹیکنالوجی کے کتنے ہی بے مخالف کیوں نہ ہوں۔ قبیلے کے لوگ زیادہ تر دنوں میں صرف صبح اور شام کو اپنا انٹرنیٹ آن کرتے ہیں (اگرچہ اتوار سب کے لیے مفت ہوتا ہے) جو آن لائن دنیا تک نیم محدود رسائی کے میرے کم عمری کے تجربات کے تھوڑا سا قریب عمل ہے۔
لیکن مجموعی طور پر، ایمازون (مقام کا نام، ویب سائٹ نہیں) کو ایمازون (ویب سائٹ، جگہ نہیں) تک رسائی دینا تھوڑا سا خطرناک ہے۔ یہ آپ کے اس بات پر غور کرنے کے لیے کافی ہے کہ آپ کی جیب میں موجود چھوٹا سا باکس واقعی آپ کے رویے پر کتنا اثر انداز ہوتا ہے۔ سچی کہانی۔ میں نے 2016 تک سمارٹ فون نہیں لیا حالاںکہ میری زندگی میں شامل زیادہ تر لوگوں کے پاس پہلے سے ہی سمارٹ فون تھا۔ بات یہ ہے کہ میں غیرروایتی نہیں تھا۔ میں واقعی 26 سال کی عمر تک فون لینے کے معاہدے کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا، اس لیے اس وقت تک میں نے ایک پرانا نوکیا فون استعمال کیا جس کا کوئی ماہانہ بل نہیں تھا۔ فون کے آدھے بٹن غائب تھے۔ مجھے یاد ہے کہ میں اپنے دوستوں سے بہت مایوس تھا جو رات کے وقت تفریح کے لیے گھر سے نکلنے کے بعد اپنے فون سے چپکے رہتے تھے یا بات چیت کے دوران اپنے نوٹیفیکیشن چیک کرتے رہتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ جیسے ہی مجھے اپنا فون ملا میں کتنی جلدی ان لوگوں میں سے ایک بن گیا۔ ہم فون اور انٹرنیٹ کی ’لت‘ کے بارے میں مذاق کرتے ہیں لیکن شاید ہمیں مذاق کرنا بند کر کے واقعی جائزہ لینا شروع کرنا چاہیے کہ یہ اصل میں کس قدر حقیقی لت کی طرح ہے۔
خاص طور پر نوجوانوں کے لیے، ایک ایسے آلے تک رسائی جو دن میں 24 گھنٹے فوری تسکین فراہم کرسکتا ہے، بہترین خیال نہیں ہوسکتا۔ حتیٰ کہ ماروبو کو بھی کام کے اوقات کے دوران اپنے انٹرنیٹ کو بند رکھنے کی سمجھ تھی۔ سچی بات یہ ہے کہ یہ معجزہ ہی ہو گا کہ اگر ہم کبھی کچھ اور کر پائیں، کام ہی کیوں، جب میں اپنے جالی دار جھولے میں لیٹ کر لوگوں یا گرتے ہوئے لوگوں کی پرمزاح ویڈیوز دیکھ سکتا ہوں؟ لوگوں سے بالمشافہ بات کیوں کی جائے جب وٹس ایپ مجھے زیادہ پرمزاح یا زیادہ ذہانت پر مبنی ردعمل کی منصوبہ بندی کرنے کا وقت دیتا ہے؟ زندگی میں کیا پریشانی ہے جب فون موجود ہو تو؟ مجھے یہ کہتے ہوئے شرم آتی ہے کہ میں نے اس مضمون کو لکھنے سے پہلے 12 بار اپنا فون دیکھا لیکن اچھی بات یہ ہے کہ میں اسے مکمل کرنے میں کامیاب رہا۔ شاید ابھی تک ہمارے لیے امید باقی ہے۔
رائن کوگن
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
1 note · View note
pakistantime · 11 months ago
Text
ہے کسی کو خودکشیوں کا احساس
Tumblr media
ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ دس سالوں میں ملک میں خودکشیوں کی شرح 20 فی صد بڑھ گئی ہے جس کی وجہ سیاسی و معاشی حالات، جنگیں، غربت، ہوش ربا مہنگائی، بے روزگاری، لاقانونیت اور ذہنی امراض ہیں۔ موجودہ حالات کے باعث بچوں میں ذہنی امراض کا بڑھنا تشویش ناک ہو چکا ہے۔ خبر کے مطابق ملک میں موجودہ صورت حال میں میرٹ کا قتل، حکومت اور سرکاری اداروں پر لوگوں کا عدم اعتماد، سوشل میڈیا کا بے دریغ استعمال اور سوشل سسٹم کا کمزور ہونا بھی شامل ہے۔ ہر طرف سے مایوس افراد اپنے حالات کسی سے شیئر نہیں کرتے، سماجی تنہائی بڑھ گئی ہے، والدین اپنے بچوں کو موبائل اور ٹی وی کارٹونوں کا عادی بنا کر تنہائی کا شکار بنا رہے ہیں۔ لوگوں میں چڑچڑاہٹ، غصہ اور ڈپریشن سے بھی مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ملک کی سیاسی پارٹیوں، اقتدار کے خواہش مند سیاستدانوں اور آئین پر عمل اور نوے روز میں ہر حال میں الیکشن کرانے کے حامی اینکر اور صحافیوں کا بھی سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے مگر خود کشیوں کی شرح میں بیس فی صد اضافے کی کسی کو فکر نہیں۔ 
جلد الیکشن کے انعقاد کے دلی مخالف سیاستدانوں میں کسی کو معیشت کی فکر کھائے جا رہی ہے کسی کو ریاست ڈوبنے کی اور کسی کو فکر ہے کہ جنوری کی سخت سردی اور برف باری میں لوگ ووٹ دینے کیسے نکلیں گے۔ ملک میں مہنگائی کی شرح غیر سرکاری طور پر تیس فی صد سے بھی زائد ہو چکی ہے مگر حکومت کے نزدیک مہنگائی کم ہوئی ہے۔ حکومت ڈالر اور سونے کی قیمتوں میں آنے والی کمی کو مہنگائی میں کمی سمجھ رہی ہے اور آئے دن بجلی و گیس کے نرخ بڑھانے میں مصروف ہے اور حکمرانوں کے لیے مہنگائی پر تشویش کا اظہار کر لینا ہی کافی ہے۔ عوام حیران ہیں کہ اتحادی حکومت کے دور میں ڈالر پر ڈار کا کنٹرول نہیں ہوا تھا مگر نگرانوں کے دور میں وردی والوں کی محنت سے ڈالر کی قیمت تو کم ہوئی مگر مہنگائی میں کمی کیوں واقع نہیں ہو رہی۔ پی ٹی آئی حکومت میں جن لوگوں کو مہنگائی بہت زیادہ لگتی تھی جس پر وہ لانگ مارچ اور احتجاج کرتے تھے انھیں ملک میں مہنگائی و بجلی کی قیمتوں کے باعث خودکشیاں کیوں نظر نہیں آ رہیں۔ 
Tumblr media
حال ہی میں فیصل آباد میں بجلی کے بھاری بل میں اپنا حصہ نہ دینے پر بھائی نے بھائی کو مار دیا۔ بجلی کا بھاری بل دیکھ کر متعدد افراد ہارٹ اٹیک کا شکار ہوئے اور بعض نے خودکشی کی مگر یہ سب نگران حکومت کے لیے تشویش ناک نہیں اور ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے تو عوام کو ریلیف دینے کی بات کی ہی نہیں تھی تو خبریں بولتی ہیں کہ جب یہ کہا گیا تھا کہ حکومت نے بجلی قیمتوں میں کمی اور ریلیف دینے کے لیے آئی ایم ایف سے رابطہ کیا ہے مگر حکومت کو کمی کی اجازت نہیں ملی مگر حکومت اتنی بجلی مہنگی کر کے بھی فکرمند نہیں بلکہ کمی کے بجائے اضافے ہی کی منظوری دے دیتی ہے اور یہ اضافہ ہر ماہ ہو رہا ہے۔ میڈیا کے مطابق رواں سال 6 لاکھ سے زائد افراد ملک چھوڑ کر جا چکے اور اکثریت مایوس ہے کہ باہر کیسے جائیں، پی پی دور کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے تو اپنے دور میں کہا تھا کہ باہر جائیں روکا کس نے ہے۔ کسی سیاسی لیڈر کو بھی خودکشیوں کی نہیں اپنے سیاسی مفادات کی فکر ہے۔ 
پیپلز پارٹی والوں کو بھی خود کشیوں پر تشویش ہے نہ مہنگائی کی فکر انھیں بس بلاول بھٹو کو وزیر اعظم بنانے کی فکر ہے۔ پی پی موقعہ سے فائدہ اٹھانے کے لیے حصول اقتدار کے لیے جلد الیکشن اس لیے چاہتی ہے کہ عوام موجودہ صورت حال کا ذمے دار پی ٹی آئی کو نہیں سابقہ اتحادی حکومت کو سمجھتے ہیں اس لیے انھیں ووٹ نہیں دیں گے۔ نگراں حکومت کی طرف سے ڈالر کم ہونے کے باوجود مہنگائی مزید بڑھنے کے کسی صوبے میں اقدامات نہیں کیے جا رہے اور مہنگائی کا ذکر کرکے حکمران عوام پر احسان کر دیتے ہیں کہ انھیں بھی مہنگائی کا احساس ہے مگر کم کرنے کے بجائے مہنگائی بڑھانے میں وہ ضرور مصروف ہیں۔ موجودہ نگرانوں کو آیندہ الیکشن نہیں لڑنا اس لیے وہ مہنگائی کرتے جا رہے ہیں مگر ان کے اقدامات پر عوام تو کچھ نہیں کر سکتے مگر جو خودکشیاں بڑھ رہی ہیں۔ ان کا حساب ملک کی معاشی تباہی کے ذمے دار سابقہ اور موجودہ نگران ہیں جنھیں اس کا جواب عوام کو نہیں تو خدا کو ضرور دینا ہو گا کیونکہ اس کے ذمے دار حضرت عمر فاروق کے مطابق وقت کے حکمران ہی ہیں۔
ٹھنڈے دفاتر، بہترین لباس اور پروٹوکول میں سفر کرنے والے چھوٹے شہروں اور دیہاتوں میں جا کر وہاں کی غربت اور عوام کی بدحالی نہیں دیکھ سکتے تو وہ کراچی، لاہور کی کسی بھی بڑی مسجد میں جا کر غریبوں کی حالت دیکھ لیں جہاں ہر نماز کے بعد حاجت مند اور غریب اپنے چھوٹے بچوں کے ہمراہ اپنی ضرورتیں بیان کرتے نظر آئیں گے، کوئی راشن کا طلب گار ہے تو کوئی دواؤں کے پرچے ہاتھ میں لیے کھڑے نظر آئیں گے۔ افسوس ناک حالت تو یہ ہے کہ ان حاجت مندوں میں خواتین کے علاوہ بڑی عمر کے بزرگ بھی شامل ہوتے ہیں جو شرم کے باعث مان�� نہیں سکتے اور نمازی ان کے خالی ہاتھوں میں کچھ نہ کچھ ضرور دے جاتے ہیں۔ حالیہ خبروں کے مطابق اب مرد ہی نہیں عورتیں بھی غربت سے تنگ آ کر اپنے بچوں سمیت خودکشیوں پر مجبور ہو گئی ہیں۔ غربت، بے روزگاری اور قرضوں سے تنگ زندگی سے مایوس ان لوگوں کو خودکشیوں کے سوا کوئی اور راستہ نظر نہیں آتا اور وہ یہ بھی نہیں سوچتے کہ ان کے مرنے کے بعد ان کے چھوڑے ہوئے بچوں کا کیا ہو گا انھیں کون سنبھالے گا، انھیں راشن کیا بے حس حکمران دیں گے؟ بعض ادارے لوگوں کو جو کھانے کھلا رہے ہیں انھیں بڑھتی ہوئی خودکشیوں کے تدارک پر بھی توجہ دینی ہو گی ورنہ خودکشیاں بڑھتی ہی رہیں گی۔
محمد سعید آرائیں  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
urduchronicle · 1 year ago
Text
ایل پی ری فلنگ کاروبار، لاہور میں 2 ہزار 81 دکانیں، پرمٹ نہ لائسنس، ہر سال دکھاوے کی کارروائیاں
پنجاب کے دارالحکومت لاہور کے علاقے تاج پورہ میں حاجی مجیب کی ایل پی جی ری فلنگ کی دکان پر پولیس اور ضلعی انتظامیہ نے اچانک دھاوا بولا، دکان کو سیل کیا اور اس کے ملازم کو اٹھا لے گئے لیکن مجیب فکرمند یا پولیس ار ضلعی انتظامیہ ایک ایل پی جی ری فلنگ دکان کے مالک کو گرفتار کر رہی ہے پریشان دکھائی نہیں دئیے۔ حاجی مجیب کا کہنا ہے کہ وہ 20 سال سے ایل پی جی ری فلنگ کا کام کر رہے ہیں، پہلے اپنے والد کے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
forgottengenius · 1 year ago
Text
مصنوعی ذہانت کے ’گاڈ فادر‘ کی وارننگ : یہ ٹیکنالوجی ’خوفناک‘ ہے
Tumblr media
’مصنوعی ذہانت کے موجد‘ کے نام سے مشہور جیفری ہنٹن نے اس ٹیکنالوجی سے لاحق خطرات کے بارے میں ایک خوفناک وارننگ دیتے ہوئے گوگل کو خیرباد کہہ دیا ہے۔ جیفری ہنٹن نے ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک گوگل میں کام کیا اور ایسی ٹیکنالوجی تیار کی جس نے چیٹ جی پی ٹی جیسے موجودہ مصنوعی ذہانت کے نظام کے لیے راہ ہموار کی۔ لیکن انہوں نے مصنوعی ذہانت کے خطرات کے متعلق آگاہی پھیلانے کے لیے کمپنی چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے اخبار نیو یارک ٹائمز کو بتایا کہ انہیں اس شعبے میں اپنے کام پر افسوس ہے۔ ان کا کہنا تھا، ’میں اپنے آپ کو تسلی دیتا ہوں: اگر میں ایسا نہ کرتا تو کوئی اور کرتا۔‘ انہوں نے کہا، انہیں خدشہ ہے مستقبل قریب میں اس ٹیکنالوجی کا مطلب یہ ہو گا کہ جعلی تصاویر، ویڈیوز اور متن کے پھیلاؤ کی وجہ سے لوگ ’یہ نہیں جان سکیں گے کہ سچ کیا ہے۔‘ لیکن مستقبل میں مصنوعی ذہانت کے سسٹم بالآخرغیر متوقع، خطرناک رویہ سیکھ سکتے ہیں اور یہ کہ اس طرح کے نظام بالآخر قاتل روبوٹس کو تقویت دیں گے۔ انہوں نے یہ بھی متنبہ کیا کہ یہ ٹیکنالوجی لیبر مارکیٹ میں نقصان دہ انتشار کا سبب بن سکتی ہے۔
Tumblr media
ان کا کہنا تھا، ’کچھ لوگوں کو یقین ہے کہ یہ چیزیں درحقیقت لوگوں سے زیادہ ذہین بن سکتی ہیں۔ لیکن زیادہ تر لوگوں کا خیال ہے کہ اس میں ابھی بہت وقت لگے گا۔ اور میرا بھی خیال تھا کہ اس میں ابھی بہت وقت لگے گا۔ مجھے لگتا تھا کہ یہ 30 سے 50 سال یا اس سے بھی زیادہ وقت لگے گا۔ اب میں ایسا نہیں سوچتا۔‘  انہوں نے متنبہ کیا کہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے قواعد و ضوابط کی ضرورت ہے کہ گوگل اور مائیکروسافٹ جیسی کمپنیاں خطرناک دوڑ میں نہ لگ جائیں۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ ہو سکتا ہے یہ کمپنیاں پہلے ہی خطرناک سسٹم پر خفیہ طور پر کام کر رہی ہوں۔‘ ان کا کہنا تھا، ’مجھے نہیں لگتا کہ انہیں اس کو مزید بڑھانا چاہیے جب تک کہ وہ یہ نہ سمجھ لیں کہ آیا وہ اسے کنٹرول بھی کر سکتے ہیں یا نہیں۔‘ ڈاکٹر جیفری ہنٹن مصنوعی ذہانت کے متعلق خطرے کی گھنٹی بجانے والے پہلے شخص نہیں ہیں۔ حالیہ مہینوں میں دو بڑے واضح خطوں میں ’معاشرے اور انسانیت کے لیے سنگین خطرات‘ کے متعلق متنبہ کیا گیا تھا، جن پر بہت سے ایسے لوگوں کے دستخط تھے جنہوں نے اسے بنانے میں مدد کی۔
بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح ڈاکٹر جیفری ہنٹن نے کہا کہ وہ گذشتہ سال کے دوران اوپن اے آئی کی ’چیٹ جی پی ٹی‘ اور گوگل کی ’بارڈ‘ جیسی ٹیکنالوجیوں کی ترقی سے ٹیکنالوجی کے خطرات کے بارے میں زیادہ فکرمند ��و گئے ہیں۔ ان کا نظریہ اس وقت بدل گیا جب انہیں یقین ہو گیا کہ سسٹم ایسے طریقوں سے برتاؤ کرنے لگے ہیں جو انسانی دماغ میں ممکن نہیں ہیں۔ انھوں نے نیویارک ٹائمز کو بتایا، ’ہو سکتا ہے کہ ان سسٹمز میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ دراصل اس سے بہتر ہو جو دماغ میں ہو رہا ہے۔‘ انہوں نے خوف کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ کمپنیاں اپنے مصنوعی ذہانت کے نظام کو مزید بہتر اور تربیت دیتی ہیں لہٰذا امکان ہے کہ آنے والے برسوں میں یہ مزید درست ثابت ہو گا۔ وہ جیسے جیسے اسے(بہتر) کریں گے، سسٹم زیادہ خطرناک ہو جائیں گے۔ انہوں نے ٹیکنالوجی کے بارے میں کہا، ’دیکھیں کہ یہ پانچ سال پہلے کیسی تھی اور اب کیسی ہے۔ فرق کو سمجھیں اور اسے آگے بتائیں۔ یہ خوفناک ہے۔‘
اینڈریو گرفن، گریم میسی 
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
0 notes
mobilephone2 · 2 years ago
Text
کیا فیس بک ایپ کا وجود ختم ہونے والا ہے؟
Tumblr media
دورِ جدید میں سوشل میڈیا کی وجہ سے ایک دوسرے سے بات چیت کرنے، رابطے قائم کرنے اور اظہارِ خیال کے انداز بالکل تبدیل ہو چکے ہیں۔ بہت سے پلیٹ فارم آئے اور چلے گئے جبکہ کچھ کی اہمیت تمام ادوار میں برقرار رہی۔ ان میں سے ہی ایک سب سے پرانا اور مقبول سوشل میڈیا پلیٹ فارم فیس بک ہے۔ میٹا کمپنی کے تشہیری ذرائع کی جانب سے شائع ہونے والے اعداوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ سال 2022ء کے اوائل میں پاکستان میں فیس بک کے 4 کروڑ 35 لاکھ صارفین تھے۔ ٹوئٹر کا بریکنگ نیوز کا ٹاپ ذریعہ ہونے کے باوجود فیس بک، یوٹیوب کے بعد خبروں کے حصول کا مقبول ترین ذریعہ ہے۔ یہ کسی بھی موضوع پر بروقت مواد مہیا کرنے کی اہمیت پر زور دیتا ہے جس سے صارفین کو آگاہی ملتی ہے، اور مباحث کا آغاز ہوتا ہے۔ فیس بک کی کامیابی کے بعد، دیگر دو سوشل میڈیا ایپلیکیشنز بھی سامنے آئیں جو انتہائی مقبول ہیں۔ پہلا پلیٹ فارم تصاویر اور ویڈیو شیئرنگ ایپلیکیشن انسٹاگرام ہے جو کہ فالوورز کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو شیئر کرنے کے لیے بہترین ہے۔ 
مزید یہ کہ انسٹاگرام اپنے فیچرز میں اضافہ اور اسے اپڈیٹ کرتا رہتا ہے جس کی وجہ سے یہ ایپ صارفین کے لیے زیادہ دلچسپی اور مشغولیت کا باعث بنتی ہے۔ ایسا ہی دوسرا پلیٹ فارم ٹک ٹاک ہے جو نسبتاً نیا ہے اور حالیہ چند برسوں میں تیزی سے مقبول ہوا ہے۔ یہ اب دنیا بھر میں اپنے 50 کروڑ ماہانہ فعال صارفین کے ساتھ دنیا کا مقبول ترین سوشل میڈیا فلیٹ فارم ہے۔ فیس بک کافی عرصے سے مقبول ترین سوشل میڈیا پلیٹ فارم ہے تاہم یہ آہستہ آہستہ اپنا مقام کو کھو رہی ہے۔ اگرچہ سال 2020ء تک اس کے خاتمے کی پیشگوئی کی گئی تھی لیکن آج ہم 2023ء میں موجود ہیں اور فیس بک ایپ اب بھی زندہ ہے۔ لیکن آخر مزید کتنے عرصے تک؟ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ ایک ایسا دن آئے گا جب فیس بک مکمل طور پر ختم ہو جائے گی۔ لیکن فیس بک کے اعداوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایپلیکیشن اس وقت بہترین کام کر رہی ہے۔
Tumblr media
فیس بک سب سے پرانی اور مقبول ترین ایپ ہے لیکن یہ بھی کہا جاتا ہے کہ نوعمروں اور نوجوانوں میں فیس بک ایپلیکیشن تیزی سے اپنی مقبولیت کھو رہی ہے۔ 30 سال سے زائد عمر کے افراد سے اگر موازنہ کیا جائے تو نوعمر افراد فیس بک کم استعمال کرتے ہیں اور اس پر پوسٹ بھی کم کرتے ہیں۔ اس عدم مقبولیت کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں صارف کی عدم دلچسپی سے لے کر رازداری کے حوالے سے خدشات شامل ہیں۔ بہت سے صارفین اس ایپلیکیشن سے بیزار ہو چکے ہیں اور وہ کسی نئی اور دلچسپ چیز کی تلاش میں ہیں۔ دوسری جانب بہت سے صارفین خصوصی طور پر کیمبریج اینالیٹیکا اسکینڈل کے معاملے کے بعد اپنی رازداری کے حوالے سے فکرمند ہیں۔ مزید یہ کہ فیس بک کے نیوز فیڈ ایلگوریتھم کی وجہ سے یہ ایپ سمجھنے اور اسے استعمال کرنے کے لیے انتہائی مشکل بن چکی ہے جس کی وجہ سے صارفین کے لیے اپنی مطلوبہ چیز تلاش کرنا دشوار ہو گیا ہے۔ پھر بہت سے صارفین فیس بک ایپ میں اسپانسرڈ مواد اور اشتہارات کی بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ سے بھی پریشان ہو چکے ہیں۔
پرانے پلیٹ فارم ہونے کے باوجود 2000ء کے بعد پیدا ہونے والے افراد اس کے کل صارفین کا 26 اشاریہ 4 فیصد ہیں۔ تاہم فیس بک کے 36 فیصد صارفین کی عمر 45 سال سے زیادہ ہے۔ اس کے باوجود فیس بک کی خاطر خواہ آرگینک ریچ اسے مالی اعتبار سے بہتر تشہیری پلیٹ فارم میں سے ایک بناتی ہے۔ اس کے تشہیری فیچرز نے کمپنیوں اور تنظیموں کو ان کے مارکیٹنگ مقاصد حاصل کرنے میں مدد فراہم کی ہے جن میں نئے کلائنٹس کو راغب کرنا، سیلز بڑھانا یا ویب سائٹ پر ٹریفک میں اضافہ کرنا جیسی چیزیں شامل ہیں۔ فیس بک کا استعمال 2019ء سے برقرار رہا ہے حالانکہ گزشتہ 5 برسوں میں اس کے استعمال میں اوسطاً 6 منٹ کی کمی دیکھی گئی ہے۔ اس بات کا خیال رہے کہ ان پلیٹ فارمز پر سرگرمیاں میں کوئی خاص فرق نہیں آیا ہے۔ مستقبل میں ان پلیٹ فارمز کے درمیان ناظرین کی توجہ اپنی جانب مبذول کروانے کے لیے مقابلہ بازی میں اضافہ ہو گا۔ نتیجتاً عام صارف اپنے استعمال کے وقت کو ان ایپلیکیشنز پر زیادہ مساوی طور پر تقسیم کرے گا۔ ٹک ٹاک کا مقابلہ کرنے کے لیے فیس بک کی مالک کمپنی میٹا ریلز سمیت مختصر ویڈیوز پر زیادہ توجہ دے رہی ہے۔ ریلز بنانے کا آغاز 2020ء میں انسٹاگرام سے ہوا تھا۔
ریلز کا فیچر انسٹاگرام کے لیے مخصوص ہے  تاہم انسٹاگرام ریلز کی مقبولیت بھی فیس بک صارفین کی دلچسپی برقرار رکھنے کے لیے ناکافی تھی۔ شاید یہ فیچر ان لوگوں کے لیے متاثرکُن نہیں تھا جو اس پلیٹ فارم کو صرف خاندان اور دوستوں سے رابطے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ تاہم ریلز کا فیچر انسٹاگرام کے لیے مخصوص ہے جو فیس بک صارفین کی محدود تعداد کو ہی دستیاب ہے۔ اگرچہ فیس بک اور دیگر ایپس کے پاس مختصر ویڈیوز کے لیے ریلز کے مماثل فیچرز موجود ہیں لیکن ٹک ٹاک مختصر طرز کی ویڈیوز کی دنیا میں غالب ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ٹک ٹاک ایسی ایپلیکیشن ہے جس کی وجہ سے اس طرز کے مواد نے مقبولیت حاصل کی اور فیس بک سمیت دیگر ایپس اس معاملے میں ٹک ٹاک کا مقابلہ نہیں کر سکت��ں۔ جیسے جیسے سماجی رابطے کی سائٹس میں تبدیلی آتی رہتی ہے، یہ ضروری ہوتا جاتا ہے کہ یہ پلیٹ فارمز جدید ٹرینڈز اور ٹیکنالوجی کو اختیار کرتے رہیں۔ یقیناً دورِحاضر کے پلیٹ فارمز جیسے فیس بک، انسٹاگرام اور ٹک ٹاک، ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی دوڑ میں ترقی اور اختراعات کا عمل جاری رکھیں گے۔
ضروری ہے کہ یہ پلیٹ فارمز جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ اپ ٹو ڈیٹ رہیں مزید یہ کہ کلب ہاؤس اور ڈسکورڈ جیسے دیگر پلیٹ فارمز کی مقبولیت میں بھی اضافہ ہورہا ہے اور یہ ہماری بات چیت اور رابطے کے طریقہ کار کو تبدیل کررہے ہیں۔ امکان یہ ہے کہ ان پلیٹ فارمز کی مقبولیت بڑھتی رہے گی اور بہت سے صارفین مستقبل میں اس کی جانب رخ کریں گے۔ یہ بات مدِنظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ ہر پلیٹ فارم کے اپنے منفرد فیچر اور فوائد ہوتے ہیں تو یہ ضروری ہے کہ ایک ایسے پلیٹ فارم کا انتخاب کیا جائے جو آپ کی کاروباری ضروریات کے مطابق بہترین ہو۔ مثال کے طور پر اگر آپ کم عمر افراد تک رسائی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ٹک ٹاک آپ کے لیے بہترین انتخاب ہو گا۔ دوسری جانب اگر آپ بالغ افراد تک رسائی حاصل کرنے کے خواہاں ہیں تو انسٹاگرام آپ کا بہترین انتخاب ہو سکتا ہے۔ مزید یہ کہ اگر آپ کسی ایسے پلیٹ فارم کی تلاش میں ہیں جہاں آپ کو تمام عمر کے افراد ملیں تو اس کے لیے فیس بک بہترین پلیٹ فارم ثابت ہو سکتا ہے۔
جہاں تک رہا یہ سوال کہ کیا واقعی فیس بک ختم ہو رہی ہے؟ تو اس بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ حقیقت میں فیس بک نے سوشل میڈیا کے منظرنامے کو مستقل طور پر تبدیل کر دیا ہے اور چاہے ہم اس بات کا اعتراف کریں یا نہ کریں، اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ یہ ہماری زندگیوں میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فیس بک کو مردہ قرار دینا قبل ازوقت ہو گا۔ تاہم کچھ بھی ہو فیس بک ہے تو ایک سوشل میڈیا پلیٹ فارم ہی اور مائی اسپیس جیسے دیگر پلیٹ فارمز کی طرح اس کا عروج و زوال بھی آئے گا اور ایک ایسا دن بھی ہو گا جب یہ مکمل طور پر ہماری زندگیوں سے غائب ہو جائے گی۔
راج کھیراج   یہ مضمون 6 اپریل 2023ء کو ارورا میگزین میں شائع ہوا۔
0 notes
qamer · 2 years ago
Photo
Tumblr media
(سیدی یونس الگوہر کا خواتین کو پیغام) جتنی بھی خواتین اس مشن سے وابستہ ہو گئی ہیں وہ صرف یہ بات ذہین میں رکھیں کہ اُنہوں نے ربّ تک جانا ہے۔سامنے والا کیا کر رہا ہے ،مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں،میرے دائیں والا کتنا معظم ہے،کتنا روحانی ہے،مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں،دائیں والا،بائیں والا کیا کر رہا ہے مجھے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔اپنے کام سے کام رکھیں اپنی باطنی ترقی کے اُوپر توجہ دیں،اپنے ایمان کی دُرستگی کے اوپر توجہ دیں لوگوں کے معاملات میں دخل اندازی کرنا،اُن کے بارے میں فکرمند ہونا چھوڑ دیں صرف اپنی پرواہ کریں سیدھے سیدھے چلتے رہیں 04.03.2018 #ifollowGoharShahi #GoharShahi #YounusAlGohar #ALRATV https://www.instagram.com/p/CpeyXAUvZ_9/?igshid=NGJjMDIxMWI=
0 notes
762175 · 2 years ago
Text
پرسنل لاء بورڈ لڑکیوں کو فتنہ ٔارتداد سے بچا نے کیلئے فکرمند، ندوۃ العلماء میں بورڈ کی مجلس عاملہ میں متعدد شرکاء نے کرائی توجہ
لکھنؤ، 6؍فروری (ایس او نیوز) آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے اتوار کو اپنی مجلس عاملہ کی میٹنگ میں ’لوجہاد‘ کے مفروضےاوراس کے انتقام کے نام پر بھگوا عناصر کے ذریعہ مسلم لڑکیوں کو گمراہ اور مرتد کرنے کی سازش کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے اس فتنے کے تدارک کی ضرورت سے اتفاق کیا۔ اس کے ساتھ ہی بورڈ  کے اراکین  نے ملک میں یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی کوششوں پر تشویش کااظہار کیا مگر  عوامی احتجاج یاقانونی چارہ…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
cryptoguys657 · 2 years ago
Text
پرسنل لاء بورڈ لڑکیوں کو فتنہ ٔارتداد سے بچا نے کیلئے فکرمند، ندوۃ العلماء میں بورڈ کی مجلس عاملہ میں متعدد شرکاء نے کرائی توجہ
لکھنؤ، 6؍فروری (ایس او نیوز؍ایجنسی) آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے اتوار کو اپنی مجلس عاملہ کی میٹنگ میں ’لوجہاد‘ کے مفروضےاوراس کے انتقام کے نام پر بھگوا عناصر کے ذریعہ مسلم لڑکیوں کو گمراہ اور مرتد کرنے کی سازش کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے اس فتنے کے تدارک کی ضرورت سے اتفاق کیا۔ اس کے ساتھ ہی بورڈ  کے اراکین  نے ملک میں یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی کوششوں پر تشویش کااظہار کیا مگر  عوامی احتجاج…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
gamekai · 2 years ago
Text
گھر میں ہی صرف چند سیکنڈ میں اپنی صحت سے متعلق جانیں، انتہائی آسان ٹیسٹ
انسان کو ہر وقت اپنی صحت کی فکر رہتی ہے جس کے لیے وہ مختلف ڈاکٹروں سے رجوع کرتا ہے لیکن گھر بیٹھے ایک آسان ٹیسٹ سے بھی صحت کے بارے میں جانا جا سکتا ہے۔ زندگی ہر شخص کو پیاری ہوتی ہے اور اچھی زندگی کا دارومدار اچھی صحت پر ہوتا ہے۔ اسی لیے انسان چاہے کسی بھی خطے سے تعلق رکھتا ہو وہ اپنی صحت کے بارے میں فکرمند رہتا ہے اور اس کے لیے وہ مختلف ڈاکٹروں اور لیبارٹریز سے بھی رجوع کرتا رہتا ہے۔ تاہم گھر…
View On WordPress
0 notes
hostbooster · 4 years ago
Text
2021 Right Now کِم کاردشیئن کو اس بارے میں تشویش ہے کہ بچے کیسے کینے ویسٹ سے متعلق خبریں لیں گے
2021 Right Now کِم کاردشیئن کو اس بارے میں تشویش ہے کہ بچے کیسے کینے ویسٹ سے متعلق خبریں لیں گے
کِم کاردشیئن ریئلٹی ٹی وی اسٹار کم کارڈیشین مبینہ طور پر اس بات پر “پریشان” ہیں کہ ان کے چار بچے شوہر اور ریپر کینے ویسٹ سے اس کی طلاق کی خبر کیسے لیں گے۔ جوڑے میں دو بیٹیاں شمالی ، 7 اور شکاگو ، 2 کے ساتھ ساتھ بیٹے سینٹ ، 5 اور زبور ، 1 میں شریک ہیں۔ ایک ذرائع نے بتایا لوگ کہ وہ اس بارے میں فکر مند ہے کہ بچوں کے لئے تقسیم کا کیا مطلب ہوگا۔ ذرائع نے بتایا ، “بچے کم کے لئے بہت اہم ہیں۔” “وہ اس…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
informationtv · 4 years ago
Text
ترکی چین میں ایغور ترکوں کے ساتھ سلوک کرنے پر تشویش رکھتا ہے ، اور بیجنگ کے ساتھ تعاون کرنے کے لئے کھلا ہے
ترکی چین میں ایغور ترکوں کے ساتھ سلوک کرنے پر تشویش رکھتا ہے ، اور بیجنگ کے ساتھ تعاون کرنے کے لئے کھلا ہے
Tumblr media
منگل کے روز حکمراں انصاف اور ترقی پارٹی (اے کے پی) کے ترجمان نے کہا ہے کہ ترکی چین میں ایغور ترکوں کے ساتھ ہونے والی زیادتی پر غور سے غور کر رہا ہے اور وہ اس مسئلے پر بیجنگ کے ساتھ تعاون کرنے کے لئے کھلا ہے۔
سیلیک نے پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس کے بعد کہا ، “دہشت گردوں اور بے گناہ شہریوں کے درمیان واضح فرق ہونا ضروری ہے۔”
سنکیانگ میں بیجنگ کی پالیسی پر ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن…
View On WordPress
0 notes
kanjeebhai · 3 years ago
Photo
Tumblr media
(وانی) کبیر، سُمرن کی سُدھ یوں کرو، جیسے دام کنگال، کہے کبیر وسرے نہیں، پل - پل لیت سنبھال. مطلب:- (سُدھ کا مطلب ہے سنبھال، دیکھ ریکھ، دھیان)، (دام =روپے)، (کنگال = غریب)، (وسرنا=بھُولنا) معنیٰ:- پرمیشور کبیر جی نے کہا ہے کہ پرماتما کے نام کے سُمرن کی سُدھ یعنی سنبھال ایسے کرنی چاہیے جیسے کسی غریب نے کچھ روپے اُدھار لیے. وہ کچھ دن بعد آنے والے کسی امیر کا قرض دینا تھا. غریب آدمی ان رُوپیوں کو دن میں اور رات میں کئی کئی بار سنبھالتا ہے. دیکھتا ہے محفوظ ہیں، پُورے ہیں کہ نہیں، کہیں کوئی چور تو نہیں چُرا لے گیا. اس طرح کی پریشانی اس کو ستاتی رہتی ہے اور غریب آدمی اپنے داموں (روپیوں) کی دیکھ ریکھ کرتا ہے. وہ فکرمند رہتا ہے کہ اگر روپے (دام) چوری ہو گئے تو میرا دِوالا ہی نکل جائے گا. اسی طرح ایک بھگت کو اپنے نام سُمرن کی سنبھال کرنے چاہیے یعنی رہ رہ کر سمرن میں لگن لگانی چاہیے، سمرن کرنا چاہیے، بُھول لگے تو پھر تُرنت سمرن کر دھیان کرنا چاہیے. #KabirIsGod #KabirSahebJi #LordKabir #KabirSahib_Ke_Dohe #SupremeGodKabir #Kabir_is_Supreme_God #GodKabir_RealSavior #GreatestGuru_InTheWorld #SaintRampalJi #Gyan_Ganga #G https://www.instagram.com/p/CSquuuNlLZW/?utm_medium=tumblr
12 notes · View notes
kanjidasblog · 3 years ago
Photo
Tumblr media
(وانی) کبیر، سُمرن کی سُدھ یوں کرو، جیسے دام کنگال، کہے کبیر وسرے نہیں، پل - پل لیت سنبھال. مطلب:- (سُدھ کا مطلب ہے سنبھال، دیکھ ریکھ، دھیان)، (دام =روپے)، (کنگال = غریب)، (وسرنا=بھُولنا) معنیٰ:- پرمیشور کبیر جی نے کہا ہے کہ پرماتما کے نام کے سُمرن کی سُدھ یعنی سنبھال ایسے کرنی چاہیے جیسے کسی غریب نے کچھ روپے اُدھار لیے. وہ کچھ دن بعد آنے والے کسی امیر کا قرض دینا تھا. غریب آدمی ان رُوپیوں کو دن میں اور رات میں کئی کئی بار سنبھالتا ہے. دیکھتا ہے محفوظ ہیں، پُورے ہیں کہ نہیں، کہیں کوئی چور تو نہیں چُرا لے گیا. اس طرح کی پریشانی اس کو ستاتی رہتی ہے اور غریب آدمی اپنے داموں (روپیوں) کی دیکھ ریکھ کرتا ہے. وہ فکرمند رہتا ہے کہ اگر روپے (دام) چوری ہو گئے تو میرا دِوالا ہی نکل جائے گا. اسی طرح ایک بھگت کو اپنے نام سُمرن کی سنبھال کرنے چاہیے یعنی رہ رہ کر سمرن میں لگن لگانی چاہیے، سمرن کرنا چاہیے، بُھول لگے تو پھر تُرنت سمرن کر دھیان کرنا چاہیے. #KabirIsGod #KabirSahebJi #LordKabir #KabirSahib_Ke_Dohe #SupremeGodKabir #Kabir_is_Supreme_God #GodKabir_RealSavior #GreatestGuru_InTheWorld #SaintRampalJi #Gyan_Ganga #G https://www.instagram.com/p/CSsrw99oF8x/?utm_medium=tumblr
1 note · View note
shahbaz-shaikh · 4 years ago
Text
ملال ہے مگر اتنا ملال تھوڑی ہے
یہ آنکھ رونے کی شدت سے لال تھوڑی ہے""
بس اپنے واسطے ہی فکرمند ہیں سب لوگ
یہاں کسی کو کسی کا خیال تھوڑی ہے""
مزا تو جب ھے کہ تم ہار کے بھی ہنستے رہو
ہمیشہ جیت ہی جانا کمال تھوڑی ہے""
لگانی پڑتی ہے ڈبکی ابھرنے سے پہلے
غروب ہونے کا مطلب زوال تھوڑی ہے""
3 notes · View notes
emergingpakistan · 4 years ago
Text
میں کورونا وائرس کی ویکسین لگوانے کے لیے تیار ہوں : طیب اردوان
ترک صدر رجب طیب اردوان نے کہا ہے کہ ویکسین لگوانے کے حوالے سے کسی کو فکرمند نہیں ہونا چاہیے، میں ویکسین لگوانے کے لیے تیار ہوں۔ انہوں نے کہا کہ میں خود ویکسین لگواؤں گا اور باشندوں کو بھی ترغیب دوں گا کہ وہ ویکسین لگوائیں۔ صدر اردوان نے کہا کہ کورونا ویکسین لگوانے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتا، میں کورونا ویکسین لگوانے کے لیے تیار ہوں۔ انہوں نے کہا کہ عوام کو ترغیب دینے کے لیے ضروری ہے ویکسین لگوائی جائے ہماری تمنا ہے عوام کو اس پریشانی سے بچایا جائے، ویکسین لگوانے میں کوئی حرج محسوس نہیں کر رہا ۔ خیال رہے کہ عالمی وبا کورونا وائرس کی ویکسین ترکی نے بھی بنا لی ہے، ترک صدر رجب طیب اردوان نے اعلان کیا ہے کہ ترکی نے مقامی سطح پر کورونا وائرس کی ویکسین تیار کرلی ہے جو اپریل 2021 میں دستیاب ہو جائے گی۔
بشکریہ روزنامہ جنگ
1 note · View note
urdu-poetry-lover · 4 years ago
Text
مستقبل میں محبت کے میز پہ رکھی چیزوں میں ،
میرے پاس، تمہاری تصویریں،
کئی اشعار، کچھ نظمیں، چند محبت بھرے افسانے۔
ایک سفر، کچھ کتابیں،
سنہری صبحیں، فکرمند دوپہریں، تشنہ شامیں، سلگتی ہوئ ایک رات، غرض کہ سب ہو گا
لیکن مجھے دکھ ہے، کہ محبت کی میز پہ ان تمام چیزوں کو مجھے سگریٹ کے بغیر سہنا ہو گا، کیوں۔؟
کیونکہ سگریٹ تمہیں پسند نہیں تھی
1 note · View note