#سوہنی دھرتی
Explore tagged Tumblr posts
Text
ملّی نغمہ سوہنی دھرتی اللہ رکھے، قدم قدم آباد اور مسرور انور
ملّی نغمہ سوہنی دھرتی اللہ رکھے، قدم قدم آباد اور مسرور انور
جشنِ آزادی کے موقع پر وطنِ عزیز پاکستان کے طول و عرض میں وطن کی سلامتی و استحکام کے لیے اور آزادی کی نعمت کا شکر ادا کرتے ہوئے دعا کی صورت یہ ملّی نغمہ گونج رہا ہے،’’سوہنی دھرتی اللہ رکھے، قدم قدم آباد۔‘‘ پاکستانیوں کے دل کی آواز بننے والا یہ نغمہ ہر سماعت میں محفوظ ہے اور آج آزادی کے جشن اور یادگار دن پر جھوم جھوم کر سنا اور گایا جارہا ہے۔ اس ملّی نغمے کے خالق پاکستان کے نام وَر شاعر مسرور…
View On WordPress
#14 August#14 August 1947#Melinghma#Pakistan#Pakistan Day#Pakistan Melinghma#جشنِ آزادی#سوہنی دھرتی#سوہنی دھرتی اللہ رکھے، قدم قدم آباد#ملّی نغمہ#وطنِ#وطنِ عزیز#وطنِ عزیز پاکستان
0 notes
Text
ملک ریاض جہاں کھڑے ہوں قطار وہیں سے شروع ہوتی ہے
کچھ مڈل کلاسیے اچھل اچھل کر ملک ریاض کو پڑنے والے مبینہ ہرجانے کا جشن منا رہے ہیں، برطانیہ میں ہونے والی ملک ریاض کی سُبکی پہ کچھ ناعاقبت اندیش پھول کے کپا ہوئے جاتے ہیں۔ ذرا سنبھل جاؤ میرے ہم وطنو۔ وہ اتنا دھن والا ہے کہ آپ سمیت آپ کا پورا سسٹم خرید سکتا ہے۔ مڈل کلاسیوں کا تو یہ حال ہے کہ ابا ساری زندگی سرکاری دفتر کی جوتیاں گھستے گھستے اللہ کے پاس جا بسے، پیچھے اپنے نکمے لڑکوں کو بسانے کے لیے جو 120 گز کا پلاٹ چھوڑ گئے تھے، اس پر چھ بھائیوں کے بیچ مقدمے بازی چل رہی ہے، چھ کے چھ کرائے کے مکانوں میں رہتے ہیں جہاں ہر پہلی تاری�� کو مالک مکان کے ہاتھوں عزت کا سیخ کباب بنواتے ہیں۔ کم بختو سے اس پلاٹ پر چار دیواری تک نہ اٹھائی گئی، مگر سلام ہے اس خود اعتمادی پہ جب چھ کے چھ بھائی مل کر ملک ریاض کو اجتماعی لعن طعن کرتے ہیں کہ ’ملک ریاض سارا ملک کھا گیا۔‘
میں سمجھتی تھی کہ پاکستانیوں میں ’پلاٹ‘ خریدنے کا پہلے ضرورت پھر فیشن اور اب لت بنانے کے پیچھے بھی ملک ریاض کا ہاتھ ہے، پھر دھیرے دھیرے اندازہ ہوا کہ جیسے ملک ریاض ایک ہی نگاہ میں بندے کی قیمت کا اندازہ لگا لیتے ہیں ویسے ہی ملک صاحب نے اس قوم کی نبض پہ بھی ہاتھ رکھا۔ ہمارے متوسط طبقے کو پلاٹ کی شکل میں دنیا کی محفوظ ترین سرمایہ کاری نظر آتی ہے، بیرون ملک مقیم پاکستانی چاہے برسوں میں ایک بار وطن آئے مگر اپنی کوٹھی ضرور بناتا ہے۔ جہیز میں بھی دیے گئے پلاٹوں کی بڑی دھوم ہوتی ہے، لڑکے بھی ترکے میں ملنے والے رقبوں پر بہت چوڑے ہوتے ہیں۔ جو زیادہ امیر ہیں وہ شہر سے پرے خالی پلاٹ پر فارم ہاؤس بنا کر نجانے کون سے جذبات کی تسکین کرتے ہیں۔ آپ خود اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں سمجھ آجائے گا کہ یہ ’پلاٹ‘ موئی کس آفت کا نام ہے۔
راولپنڈی لوئی بھیر کے اطراف میں جنگلات تھے، ان جنگلوں میں بھی ملک صاحب نے راستے نکال لیے۔ پہلے ایسا صرف جنید جمشید کے گانے میں ہوتا تھا۔ کراچی کی جو زمین بنجر تھی سندھ حکومت نے ویسے بھی وہاں تیسرا ٹاؤن ٹائپ کا کوئی فلاپ پراجیکٹ ہی بنانا تھا، سو وہاں ملک ریاض نے حسرتوں کا تاج محل کھڑا کر دیا۔ پرانے لہور والے یونہی اپنی تاریخی عمارتوں پر اتراتے تھے، ملک ریاض نے بحریہ ٹاؤن لاہور بنا کر نئی تاریخ رقم کر دی۔ ملک صاحب پہ دھوکہ دہی، قتل، رشوت، جنگلات پہ قبضے، حکومتی اراضی پر قبضے کے درجنوں مقدمات بنے مگر وہ ماشاء اللہ سے ہر بار سرخرو ہوئے، کہیں مصالحت کے نتیجے میں کہیں سپریم کورٹ کو پیسے دے کر۔
ملک صاحب واحد بندہ ہے جو کھل کر بتاتا ہے کہ فائلوں کو پہیے کیسے لگائے جاتے ہیں، ذرا فلمی ہو جائے گا مگر تحریر کے اس نازک موڑ پر یہ ڈائیلاگ مارنا ضروری ہے کہ ’ابھی تک وہ قانون ہی نہیں بنا جو ملک ریاض پر گرفت کر سکے‘ یا پھر ’ملک ریاض جہاں کھڑے ہو جائیں قطار وہیں سے شروع ہوتی ہے۔‘ کیس میڈیا پر اچھلے تو ملک صاحب اپنا اخبار نکال لیتے ہیں، صحافیوں کی زبانیں زیادہ چلنے لگیں تو اپنے آڑی اینکرز کو شو کرا دیتے ہیں۔ کوئی میڈیا گروپ آنکھیں دکھائے تو بحریہ ٹاؤن کے یہ لمبے لمبے اشتہار کروڑوں میں دے دیتے ہیں۔ کیس سپریم کورٹ آئے تو سپریم کورٹ بار کے صدر کو ہی اپنا وکیل کر لیتے ہیں۔ ایک فوجی نے اپنے حلف میں سوہنی دھرتی کی حفاظت کی قسم اٹھائی ہوتی ہے، تو ملک صاحب اسی اٹھائی گئی قسم کی ایکسٹینشن کرتے ہوئے ریٹائرڈ افسران کو اپنے ہاں ملک کے چپے چپے کی حفاظت کے لیے رکھ لیتے ہیں۔
وللہ ایسی دور اندیشی ایسی منصوبہ بندی! سوائے ڈی ایچ اے کوئی مقابل نہیں دور تک۔ محسوس ہوتا ہے کہ پاک بحریہ بھی تذبذب کا شکار ہے کہ بحریہ ٹاؤن میں خواہ مخواہ لگے اپنے نام پہ فخر کرے یا اس سے اظہار لاتعلقی فرما دے۔ ملک ریاض کی محفل میں کون ہے جو غزل سرا نہ ہوا۔ ملک صاحب زرداری کے عزیز دوست ہیں تو شریف خاندان کے بھی پکے ساتھی، چوہدری برادران بھی ملک ریاض کے قریبی سمجھے جاتے ہیں تو تحریک انصاف والے بھی ان کے پیارے ہیں۔ اور تو اور یہ ملک ریاض ہی کا دل گردہ تھا جو حیدرآباد میں الطاف بھائی کے نام سے یونیورسٹی بنانے کا نادر خیال پیش کیا بلکہ فیتہ تک کاٹ دیا۔ کوئی اور ایسا خطروں کا کھلاڑی ہے تو بتائیں۔
ملک ریاض کو بولی لگانی آتی ہے، چیز چاہے نیلامی کے لیے پیش کی گئی ہو یا نہیں، چیز چاہے خریدنے کے قابل بھی ہو یا نہیں، کوئی خود کو بازار میں برائے فروخت لایا یا نہیں، یا پھر کسی نے خود کو انمول سمجھ کر کوئی قیمت ہی نہ لگائی ہو۔ ملک ریاض وہ خریدار ہے جو قیمت خود طے کرتا ہے۔ وہ ایک ہی ملاقات، چھوٹی سی بات یا ڈھکی چھپی مناجات سے سمجھ جاتا ہے کہ کس کو کتنے دام میں خریدا جا سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ملک ریاض کے پاس کامیابی کی کون سی گیدڑ سنگھی ہے؟ اس کا جواب بھی سوال میں چھپا ہے یعنی پہلے ’مال‘ پھر ’کامیابی۔‘ روئٹرز کو دیے ایک انٹرویو میں ملک ریاض کا کہنا تھا کہ ’اگر میں یہ بتا دوں کہ میں نے سب سے بڑی رشوت کتنے پیسوں کی دی تو آپ کو دل کا دورہ پڑ جائے گا۔‘ ملک ریاض ہمارے معاشرے کا آئینہ ہیں۔ وہ سیاست، فوج، میڈیا، بیوروکریسی سے لے کر عدلیہ تک سب کا چہرہ ہمیں بار بار دکھاتے ہیں۔ میرے خیال میں تو ملک ریاض کو اس ملک کی ’کرپشن مٹاؤ مہم‘ کا سربراہ بنا دیا جائے، سارے چور اندر ہوں گے۔ ملک صاحب نے تو ویسے بھی باہر ہی رہنا ہے۔
عفت حسن رضوی
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
3 notes
·
View notes
Text
سوہنی دھرتی اور جیوے، جیوے پاکستان گانے والی شہناز بیگم انتقال کر گئیں
سوہنی دھرتی اور جیوے، جیوے پاکستان گانے والی شہناز بیگم انتقال کر گئیں
ڈھاکہ: سوہنی دھرتی اللہ رکھے اور جیوے، جیوے پاکستان جیسے مقبول گیت گانے والی شہناز بیگم انتقال کرگئیں۔
شہناز بیگم بنگلادیش کے شہر ڈھاکہ میں مقیم تھیں جہاں انہیں دل کا دورہ پڑا اور وہ خالق حقیقی سے جاملیں۔
67 سالہ شہناز بیگم کی نماز جنازہ آج بعد نماز ظہر ادا کی جائے گی۔
شہناز بیگم 2 جنوری 1952 کو مشرقی پاکستان کے شہر ڈھاکہ میں پیدا ہوئیں۔
دوسری جانب ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر محمد فیصل نے شہناز بیگم…
View On WordPress
0 notes
Text
اوور سیز پاکستانیوں کے لیے ’سوہنی دھرتی ریمی ٹینس پروگرام‘ کی منظوری - اردو نیوز پیڈیا
اوور سیز پاکستانیوں کے لیے ’سوہنی دھرتی ریمی ٹینس پروگرام‘ کی منظوری – اردو نیوز پیڈیا
اردو نیوز پیڈیا آن لائین اسلام آباد: کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے سوہنی دھرتی ریمی ٹینس پروگرام کی منظوری دے دی جس کے تحت قانونی اور بینکنگ ذرائع سے ترسیلات زر ارسال کرنے والے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ان کی ترسیلات پر مراعات اور ترغیبات دی جائیں گی۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کا اجلاس وزیر خزانہ شوکت ترین کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ اجلاس میں سوہنی…
View On WordPress
0 notes
Photo
سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد تجھے ❤️🌹❤️ https://www.instagram.com/p/CSkLOdlqeqm/?utm_medium=tumblr
0 notes
Text
ایبٹ آباد: سوہنی دھرتی ڈویلپمنٹ فاؤنڈیشن کے چیئرمین محمد ساجد اعوان کو ویجیلنٹ پاکستان نے بیسٹ سوشل ورکر ایوارڈ سے نواز دیا.
ایبٹ آباد: سوہنی دھرتی ڈویلپمنٹ فاؤنڈیشن کے چیئرمین محمد ساجد اعوان کو ویجیلنٹ پاکستان نے بیسٹ سوشل ورکر ایوارڈ سے نواز دیا.
ایبٹ آباد (محمد طارق چوہدری سے) سوہنی دھرتی ڈویلپمنٹ فاؤنڈیشن کے چیئرمین محمد ساجد اعوان کو ویجیلنٹ پاکستان نے بیسٹ سوشل ورکر ایوارڈ سے نواز دیا. سوہنی دھرتی ڈویلپمنٹ فاؤنڈیشن کی سلور جوبلی تقریبات کے موقع پر ویجیلنٹ پاکستان کے چیف ایگزیکٹو یاسر تاتاری نے محمد ساجد اعوان کی ان کی25 سالہ خدمات کے اعتراف میں انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے انہیں بیسٹ سوشل ورکر کے ایوارڈ سے نوازا، اس حوالے سے ایک…
View On WordPress
0 notes
Text
چینی بچوں نے پاکستانی قومی گانا 'سوہنی دھارتی' پر پرفارم کرتے دیکھیں۔
چینی بچوں نے پاکستانی قومی گانا ‘سوہنی دھارتی’ پر پرفارم کرتے دیکھیں۔
چین میں پاکستانی سفیر معین الحق کا استقبال کرنے کے لئے گیت سوہنی دھرتی کے چینی بچوں کی “رنگین” کارکردگی دیکھ کر دل کا رخ پگھل گیا۔ پاکستان کے ایلچی نے کنگ ڈاؤ ٹی وی اسٹیشن پہنچنے پر “ہارٹ وارمنگ” کی کارکردگی کا ٹکڑا شیئر کرنے ٹویٹر پر لیا۔ حق نے کہا ، “نئے پاکستانی سفیر کے استقبال کے لئے چنگ ڈاؤ ٹی وی میں سوہنی دھارتی گانے پر چینی چینی بچوں کی رنگا رنگ اور دل کی گرمائش کا مظاہرہ۔” انہوں نے مزید…
View On WordPress
0 notes
Text
گلشن گلشن بھڑکایا ہے شبنم نے انگاروں کو
پھول نے پتھر کاٹ دیئے ہیں ریشم نے تلواروں کو
چڑھتا چاند اُبھرتا سورج اُن کو نظر کیا آئے گا
جن کی آنکھیں دیکھ نہ پائیں عظمت کے میناروں کو
زد میں ہوائے دشتِ جنوں کی شہرِ خِرد کا موسِم ہے
سنگ اُٹھائے دیکھ رہا ہوں آئینہ برداروں کو
کل بارش دریا کو چڑھا کر بستی تک لے آئی تھی
ہلکا سا سیلاب کا ریلا توڑ گیا دیواروں کو
چاند کی دھرتی بنجر دھرتی اپنی سوہنی دھرتی ہے
اس دھرتی نے رنگ دئیے ہیں سورج کو سیاروں کو
انساں کو کب راس آتی ہے ایک ذرا سی لغزش بھی
ہم نے سروں سے گرتے دیکھا عظمت کی دستاروں کو
اب کوئی طوفان ہمارا رستہ روک نہ پائے گا
ہم نے سفینے پھونک دئیے ہیں توڑ دیا پتواروں کو
لاکھ گراں گوشی کا ہے موسِم اپنے کان کھُلے رکھنا
کون سُنے گا ٹُوٹنے والے شیشوں کی جھنکاروں کو
فن کے تقاضے پورے کرنا سب کے بس کی بات کہاں
شہرِ ہنر میں بِکتے دیکھا بڑے بڑے فن کاروں کو
لاکھ کوئی کم زور ہو لیکن مت سمجھو کم زور جاں
راہ گزر کی ریت بھی اکثر پی جاتی ہے دھاروں کو
اعجاز رحمانی
0 notes
Text
وطن واپس لوٹنے والے پردیسی
میرے کزن کو اپنی سبزی منڈی کے لیے ایک عدد منشی کی ضرورت تھی۔ جس امیدوار کو انٹرویو کےلیے شرفِ قبولیت بخشا گیا وہ سعودی پلٹ نوجوان تھا۔ یہ نوجوان کمپیوٹر سائنسز میں انٹر ہونے کے ساتھ ملکی اور غیر ملکی تجربہ بھی رکھتا تھا۔ میرے لیے یہ انتہائی حیران کن بات تھی۔ لیکن میری حیرت اس وقت دور ہو گئی جب میڈیا کی رپورٹ سے پتہ چلا کہ تین لاکھ پاکستانی وطن کو لوٹ چکے ہیں۔ ان میں متحدہ عرب امارات سے 154856، سعودی عرب سے 63595، قطر سے 17062، برطانیہ سے 7122، اومان سے 11792 اور ملائیشیا سے 4714 پاکستانی وطن کو لوٹے۔ اس کے علاوہ افغانستان، بھارت، ایران، امریکا، آذربائیجان، کینیڈا اور دیگر ممالک سے بھی ہزاروں کی تعداد میں پاکستانی وطن واپس پہنچے۔
وطن لوٹنے والے ان پاکستانیوں کی اکثریت فنی لحاظ سے وسیع تجربے کی حامل ہے۔ خاص طور پر متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور قطر سے لوٹنے والے پاکستانی بڑے بڑے پراجیکٹس پر کام کرنے کا تجربہ رکھتے ہیں۔ اگر ان پاکستانیوں کو سی پیک جیسے گیم چینجر منصوبے میں شامل کیا جائے تو یہ ان کی صلاحیتوں کا بہترین استعمال ہو گا۔ کیونکہ ہنرمند افرادی قوت کسی بھی منصوبے کی کامیابی کےلیے ضروری ہوتی ہے۔ شاید تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں پاکستانی وطن کو لوٹے ہیں۔ گزشتہ برس تک دیارِ غیر سے وطن واپس لوٹنے والوں کو اہل وطن بے حد عزت و تکریم سے نوازتے تھے، مگر آج کل پردیسی اپنے ہی وطن میں پردیسی ہیں۔
خوش آئند امر یہ ہے کہ اس وقت سی پیک کی سربراہی عاصم سلیم باجوہ جیسے محب وطن پاکستانی کے پاس ہے، جو ٹیوٹا اور نیوٹیک کے تعاون سے زیادہ سے زیادہ ہنرمند پاکستانیوں کو سی پیک میں مواقع دینے کے خواہش مند ہیں۔ جس کے ملکی معیشت پر انتہائی دوررس اثرات مرتب ہوں گے۔ نئے ہنرمندوں کے ساتھ اگر پرانے اور وسیع تجربے کے حامل دیار غیر سے لوٹنے والے پاکستانیوں کو سی پیک میں کام کرنے کا موقع دیا جائے تو یہ نئے اور پرانے دونوں کے لیے فائدہ مند ہو گا اور اس طرح ہماری ہنرمند افرادی قوت ہماری ہی ترقی کے لیے استعمال ہو سکے گی۔ یاد رہے پاکستان چائنا انسٹیٹوٹ (پی سی آئی) کے زیر اہتمام ویبنار میں اظہار خیال کرتے ہوئے گوادر بندرگاہ کے امور کو چلانے والی کمپنی سی او پی ایچ سی کے سربراہ ژانگ باؤژونگ نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ سی پیک پراجیکٹس میں کام کرنے والا کوئی بھی پاکستانی ملازم کورونا وائرس کے بحران کے دوران نہ اپنی ملازمت سے محروم ہوا اور نہ ہی تنخواہوں میں کوئی کٹوتی دیکھنے میں آئی۔
ماضی میں ایک نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے چینی سفیر یاہو جنگ کا یہ بیان بھی ریکارڈ پر ہے کہ چائنا پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت جاری منصوبوں پر 70 ہزار پاکستانیوں کو ملازمتیں مل چکی ہیں اور مستقبل میں 7 لاکھ پاکستانیوں کو ملازمتیں ملیں گی۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سی پیک میں 50 سے 60 ارب ڈالر کی لاگت سے 43 منصوبے شامل ہیں، جن میں سے 8 منصوبے مکمل کر لیے گئے ہیں اور 14 پر کام جاری ہے، جب کہ 20 منصوبے پائپ لائن میں ہیں۔ آخر میں میری وزیراعظم پاکستان عمران خان صاحب سے گزارش ہے کہ آپ ذاتی دلچسپی لے کر سی پیک، بھاشا ڈیم میں دیارِ غیر سے لوٹنے والے ہنرمند پاکستانیوں کو شامل کروائیے، تاکہ ہماری ہنرمند افرادی قوت وطن عزیز کی تعمیر و ترقی کے لیے استعمال ہو سکے۔ بصو��ت دیگر یہ لوگ یا تو کم تنخواہوں پر ہی سہی واپس لوٹ جائیں گے یا پھر نفسیاتی مریض بن جائیں گے۔ اس لیے بہتر ہو گا جلد ازجلد انہیں ملک کے وسیع تر مفاد میں مواقع فراہم کیے جائیں۔ بیرون ملک سے لوٹنے والے ہنرمندوں سے بھی گزارش ہے کہ وہ بھی اپنے ملک کی ایسے ہی خدمت کریں جیسے وہ دوسرے ملکوں کی خدمت کرتے تھے تاکہ سوہنی دھرتی دن دگنی رات چوگنی ترقی کر سکے۔
محمد عمران چوہدری
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
Text
عدنان صدیقی کی گلوکاری نے بھی دل جیت لیے
عدنان صدیقی کی گلوکاری نے بھی دل جیت لیے
عدنان صدیقی کو ایک بہترین اداکار کے طور پر تو سب ہی جانتے ہیں لیکن اب ان کے ایک نئے ٹیلنٹ نے ان کے چاہنے والوں کو خوب محظوظ کیا ہے۔
سوشل میڈیا پر عدنان صدیقی کا ہارمونیم کی دھن بجاتے ہوئے ’سوہنی دھرتی اللہ رکھے‘ نغمہ گانے کے انداز نے سب کے دل موہ لیے ہیں۔
عدنان صدیقی نے یہ نغمہ ایک کامیڈی شو ’مذاق رات‘ کے دوران گنگنایا جسے سراہا جارہا ہے۔
نغمے کی ویڈیو انہوں نے اپنے انسٹاگرام پر شئیر کرتے ہوئے…
View On WordPress
0 notes
Photo
سوہنی دھرتی الله رکھے، قدم قدم آباد تجھے💚 . . . . . . . #PakistanZindabad ✨ #pakindepencewithkashmir #kashmirsolidatoryday #kashmir #pakistan #IndependenceDay2019Pakistan #2019 #pakistaniwriters #pakistanpics #lovepakistan #unity #greenflag #bleedgreen #j. #ayezakhan #graphicwaladesigner #wordcloud2017 #mahummansooralam (at Pakistan) https://www.instagram.com/p/B1HeGxElrnP/?igshid=1m83y6aawfnn2
#pakistanzindabad#pakindepencewithkashmir#kashmirsolidatoryday#kashmir#pakistan#independenceday2019pakistan#2019#pakistaniwriters#pakistanpics#lovepakistan#unity#greenflag#bleedgreen#j#ayezakhan#graphicwaladesigner#wordcloud2017#mahummansooralam
0 notes
Photo
سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد ، قدم قدم آباد تجھے سوہنی دھرتی اللہ رکھے تیرا ہر اک ذرہ ہم کو اپنی جان سے پیارا تیرے دم سے شان ہماری، تجھ سے نام ہمارا جب تک ہے یہ دنیا باقی، ہم دیکھیں آزاد ہم دیکھیں آزاد تجھے سوہنی دھرتی اللہ رکھے دھڑکن دھڑکن پیارا ہے تیرا، قدم قدم پر گیت رے بستی بستی تیرا چرچا، نگر نگر ہے میت تیرے جب تک ہے یہ دنیا باقی ہم دیکھیں آزاد، ہم دیکھیں آزاد تجھے سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد، قدم قدم آباد تجھے تیری پیاری سج دھج پر ہم واری واری جائیں آنے والی نسلیں تیری عظمت کے گن گائیں جب تک ہے یہ دنیا باقی ہم دیکھیں آزاد، ہم دیکھیں آزاد تجھے سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد، قدم قدم آباد تجھے آمین ثم آمین.....
3 notes
·
View notes
Text
پرانی شراب نئی بوتل : ممتاز مفتی
بائی کی آواز سن کر نمی نے آنکھیں کھول دیں ۔ سامنے ہاتھ میں سیٹو تھو سکوب لٹکائے اس کی سہیلی صفو کھڑی تھی۔ ہائیں اس وقت بستر میں ۔ صفو نے پوچھا۔ بسٹ لیزنگ۔ ان بیڈ میں تو تجھے لینے آئی ہوں ۔ کہاں ۔ ؟ پکچر پر۔ کیوں ؟ بری چارمنگ پکچر لگی ہے۔ بری مشکل سے چھٹی ملی ہے۔ مجھے۔ مشکل سے کیوں ؟ بھئی فائنل ایئر ہے۔ چھٹی کیسے دیں ۔ چلو اٹھو۔ اونہوں ۔ موڈ نہیں ۔ آج آخری دن ہے پکچر اتر جائے گی۔ اتر جائے۔ پتہ ہے لی میجر ہے اس میں اونہوں آج لی میجر بھی ان نہیں ۔ کون ان ہے آج۔ صفو مسکرائی۔ آج تو صرف نمی ان ہے۔ ویسے لگتی تو آؤٹ ہو۔ ناکڈاوٹ۔ نانسس نمی نے صفو کا ہاتھ پکڑ کر اسے بستر پر کھینچ لیا۔ بیٹھو باتیں کرتے ہیں ۔ ایوننگ شو دیکھیں گے۔ آنسٹ۔ گھر والے کہاں ہے۔ صفو نے پوچھا۔ وہ شہزادی آئی تہی۔ پتہ نہیں کہا لے گئی ہے۔ کون شہزادی؟ تم نہیں جانتی اسے۔ انہوں ۔ سبھی جانتے ہیں اسے۔ بڑی لاؤڈ وومن ہے۔ اتنی بھڑکیلی ہے کہ دیکھ کر جھر جھری آتی ہے۔ ست رنگا لباس پہنتی ہے جھلمل ٹائپ۔ وہی تو نہیں جو گٹ ٹو گیدر سینک بار پر ملی تھی ہمیں ؟ جب تو میں اور انور وہاں بیف برگر کھا رہے تھے۔ یاد نہیں انور نے اسے دیکھ کر کہا تھا۔ یہ تو نری لپس ہی لپس اور ہپس ہی ہپس ہے۔ ہاں وہی۔ نمی چلائی۔ وہی تو ہے۔ تمہارے گھر کیسے آ پہنچی؟ ڈیڈی ایک روز انگلی لگا کر لے آئے تھے اب خود آنے لگی۔ اچھا تو ڈیڈی نے انگلی لگا رکھی ہے۔ انہوں اب تو وہ ڈیڈی کو انگلی لگائے پھرتی ہے۔ تیرے ڈیڈی بھی سمجھ نہیں آتے۔ صفو مسکرائی۔ خواہ مخواہ بالکل ٹرانسپیرنٹ ہیں ۔ اندر جھانکے بغیر دیکھ لو۔ ان کا ایک نا ایک افئیر تو چلتا ہی رہتا ہے۔ انہوں افئیر نہیں ۔ انہیں صرف اس بات کا شوق ہے کہ کوئی انگلی لگائے پھرے۔ آگے کچھ نہیں ۔ چاہے کوئی لگائے؟ کوئی ہو یک رنگی ہو۔ ست رنگی ہو۔ بد رنگی ہو۔ ڈیڈی بڑے جذبے میں لت پت رہتے ہیں ۔ بس ذرا چھیڑ دو اور کھل گیا۔ تمہاری ممی بھی ساتھ گئی ہیں کیا؟ہاں وہ ہمیشہ ساتھ جاتی ہیں سپر ویزن کے لئے۔ کیا مطلب ؟ صفو نے پوچھا۔ ممی اس ڈر کے مارے ساتھ چل پڑتی ہیں کہ کچھ ہو نہ جائے۔ صفو نے قہقہہ مارا جیسے روک ہی لے گی۔ ہاں اپنی طرف سے تو پورا زور لگاتی ہیں ۔ پور ممی۔ مطلب یہ کہ بات نہیں بنتی۔ بات کیسے بنے؟ ڈیڈی تازہ کے قائل ہیں ۔ ٹنڈ کے نہیں اور ممی کو باسی ہو جانے میں کمال حاصل ہے۔ دراصل ڈیڈی سے عشق ہے۔ اپنا سب کچھ ان کے چرنوں میں ڈال رکھا ہے۔ سب کچھ چرنوں میں ڈال دو تو دوسرا بے نیاز ہو جاتا ہے پھر آہیں بھرو۔ انتظار کرو۔ آئی ہیٹ سچ ساب سٹف۔ یہ بات تو پرانے زمانے میں چلتی تھی۔ اب نہیں چلتی۔ اور جو انور سے بات چل رہی تھی تمہاری وہ۔ آئی لائیکڈ انور۔ آل رائٹ۔ بہت اچھا پینئین تھا۔ بڑا اگری ایبل لکس بھی تو تھے۔ لکس کی کون پرواہ کرتا ہے آج کل دے ڈونٹ میٹر۔ پرانے زمانے میں لوگ پری چہرہ ڈھونڈا کرتے تھے۔ سوہنی پر جان دیتے تھے۔ یوسف کی طرف دیکھ کر انگلیاں چیر لیتے تھے اب وہ باتیں گئیں ۔ عظمہ تو کہتی تھی۔ نمی از سٹرکن ود لو فار انور۔ گڈ لارڈ ناٹ می۔ بھئی مجھ سے یہ نہیں ہوتا کہ اپنے جذبہ کی بھٹی کو دوں دیتی رہوں دیتی رہوں اور جب بھانھڑ مچ جائے تو بیٹھ کر روؤں ۔ آئی ایم ناٹ دی سابنگ اینڈ سائنگ ٹائپ۔ میں ہر حد توڑ سکتی ہوں صفو جا سکتی ہوں لیکن اتنی دور نہیں کہ واپسی نا ممکن ہو جائے۔ لو تو لینڈ آف نوید میں لے جاتی ہے۔ ہیو گڈ ٹائم۔ بٹ لو۔ ۔ نو نو۔ ۔ نیور۔ بھئی اس لحاظ سے میں تو ماڈرن نہیں ۔ صفو نے کہا۔ پھر وہ نمی کے قریب ہو گئی۔ کچھ پتہ ہے وہ آنکھیں مٹکا کر بولی۔ تیرے پڑوس میں ڈاکٹر نجمی کے ہاں کون آیا ہوا ہے؟ لگتا ہے گلیکسو بے بی ہو۔ گہرے بھورے بالوں کا اتنا بڑا تاج گول بکھرا رنگ اور آنکھوں میں لال ڈورے۔ صفو نے یوں سینہ تھام کر کہا جیسے ہل چل بھی ہو۔ ابھی کی بات کر رہی ہو؟ صفو نے پوچھا۔ تو اسے جانتی ہے۔ ؟ہاں وہ ایک مہینے ہو گئے اسے آئے ہوئے۔ ملنے ملانے کے لئے آیا ہے کیا؟ انہوں پوسٹنگ ہوئی ہے یہاں ۔ الاٹ منٹ کی انتظار میں بیٹھا ہے ادھر۔ کوئی ریلیٹو ہے ڈاکٹر نجمی کا؟ کیسا لگتا ہے تمہیں ؟ صفو نے پھر سینہ سنبھالا۔ اچھا خاصا ہے نمی نے بے پروائی سے کہا۔ اب بنو نہیں نمی۔ میں تو نہیں بنتی۔ تہ بنتا ہے پتہ نہیں خود کو کیا سمجھتا ہے۔ ہے نمی۔ صفو نے پھر سینہ سنبھالا۔ پٹ چک شرٹ۔ اورنج سڑا اکیڈ کوٹ اور شاکنگ۔ گرین ٹائی۔ میں تو دیکھ کر بھونچکی رہ گئی اسٹینڈ۔ ہاں چارمنگ تو ہے۔ نمی نے کہا۔ مسلی۔ چارمنگ از نو ورڈ فار اٹ۔ کبھی ملی ہو اس سے ؟روز آ جاتا ہے۔ نمی نے سر چڑ ھا رکھا ہے۔ اور تم نے؟ انہوں ؟ تم سے بھی ملتا ہے کیا؟ ہاں ۔ پھر صفو کا تنفس تیز ہو گیا۔ پھر نمی آنکھیں بند کر کے پڑ گئی۔ سارا جھگڑا اس پھر۔ کا تھا۔ اسی پھر کی وجہ سے نمی اس روز بستر میں پڑی لیز کر رہی تھی۔ لیز تو خیر بہانہ تھا۔ لیز تو اس وقت ہوتا ہے جب امن ہو۔ اندر جھگڑے کی ہنڈیا پک رہی ہو تو امن کیسا۔ اور امن نہ ہو تو لیز کیسا۔ مانا کہ جھگڑا دل کی اتھاہ گہرائیوں میں تھا جہاں کے شور غوغا کی آواز ذہن تک نہیں پہنچتی۔ مشکل یہ ہے کہ ذہن تک آواز نہ پہنچے تو بات او ر الجھ جاتی ہے خود کو تسلیاں دینا بھی ممکن نہیں رہتا۔ بہر حال سارا جھگڑا اس پھر کا تھا۔ نمی کا دل پوچھ رہا تھا۔ پھر۔ اس کی نحیف آواز سن کر ذہن کہہ رہا تھا پھر۔ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا جب سرے سے کوئی بات ہی نہیں تو پھر کیسا؟ نمی ایک ماڈرن لڑکی تھی۔ ماڈرن گھر میں پرورش پائی تھی۔ ماڈرن ماحول میں جوان ہوئی تھی۔ اسے اپنے ماڈرن ازم سے عشق تھا عشق۔ چاہے کچھ ہو جائے ماڈرن ازم ہاتھ سے نہ جائے۔ اس کا دل پھر۔ پھر کر رہا تھا۔ کراہ رہا تھا۔ سسکیاں بھر رہا تھا۔ اس وقت نمی کی زندگی کی ایک واحد پرابلم تھی کہ دل کی آواز نہ سنے، سنائی دے تو ان سنی کر دے۔ اس صرف ایک حل تھا کہ ذہن سے چپٹ جائے اور قریب اور قریب جس طرح جونک خون کی رگ سے چمٹ جاتی ہے۔ نمی میں ذہن اور دل کی کشمکش پہلے کبھی اس شدت سے نہیں ابھری تھی۔ نمی نے زندگی میں چند ایک افیر چلائے تھے۔ سب سے پہلے سعید تھا۔ ان دنوں وہ بی اے میں پڑھتی تھی۔ وہ ایک دبلا پتلا منحنی لڑکا تھا۔ جب بھی کالج میں نمی اس کے سامنے آتی تو اس کی آنکھیں پھٹ جاتیں منہ کھلا کا کھلا رہ جاتا۔ اور وہ گویا پتھر کا بن جاتا۔ پھر حواس گم قیاس گم وہ بٹر بٹر نمی کو دیکھتا رہتا۔ حتی کہ سب کو پتہ چل جاتا کہ وہ دیکھ رہا ہے۔ لڑکے پھبتیاں کستے مذاق اڑاتے لیکن اسے خبر ہی نہ ہوتی۔ پہلے تو نمی کو سعید پر بڑا طیش آتا رہا کہ یہ کیا ڈرامہ لگا کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ پھر اسے اس ترس آنے لگا۔ نم کم پوپ دیکھنے کا سلیقہ بھی نہیں آتا۔ بے شک دیکھے، کون منع کرتا ہے لیکن دیکھنے کا انداز تو سیکھے۔ دوسرا جے اے اویس تھا۔ ادھیڑ عمر۔ ڈیڈی کا ہم کار۔ اسے دیکھنے کا سلیقہ تھا اتنا سلیقہ کہ نظر بھر کر دیکھتا ہی نہ تھا۔ بات ہوئی نا۔ بھلا دیکھنا مقصود ہوتا ہے کیا۔ لورز بھی کتنے احمق ہوتے ہیں ۔ بٹر بٹر دیکھنے لگتے ہیں ۔ جیسے دیکھنا مقصود ہو۔ یا شاید اتنا دیکھتے ہیں کہ بھول جاتے ہیں کہ مقصد کیا تھا۔ دیکھنا خود راستے میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔ چلو مان لیا کہ دیکھنا تعارف کے لئے ضروری ہے لیکن انٹی میسی مقصود ہو تو۔ پھر وہ انور تھا۔ کتنا اچھا کم پینین تھا۔ لیکن اکیلے میں کبوتر کی سی آنکھیں بنا کر بیٹھ جاتا۔ بھئی کوئی بات کرو جو چھیڑے دے کوئی جوک جو گد گدا دے ہنسا دے۔ کوئی منتر پھونکو کہ کلی کھل کر گلاب بن جائے۔ بھلا گھٹنے ٹیکنے سے کیا ہوتا ہے۔ خواہ مخواہ کا اسکینڈل۔ محبت میں یہی تو عیب ہے شور غوغا مچا دیتی ہے۔ نمی کے افیرز تو بہت تھے۔ اب انہیں گنوانے کا فائدہ۔ بس تھے دو ایک تو خاصی دور لے گئے تھے۔ ان تتلیوں نے نمی کا کلی سے پھول بنا دیا تھا۔ ایسا پھول جو بھنوروں کو بیٹھنے نہیں دیتا۔ لیکن اڑاتا بھی نہیں ۔ تیتریوں کی اور باتی تھی۔ وہ بھن بھن کر شور نہیں مچاتی تھی دھول نہیں اڑاتی تھیں ۔ لیکن اس گلیکسو بے بی امجی نے آ کر مشکل پیدا کر دی تھی۔ پہلے دن تو باؤنڈری وال سے ہی��و ہیلو ہو گیا۔ امجی نے اپنا تعارف کرا دیا۔ دوسرے دن وہ بڑی بے تکلفی سے گھر آ گیا۔ اور نمی کے چھوٹے بھائی عمران سے جڑی کھیلنے لگا۔ ممی آ گئیں تو ان سے گپیں ہانکنے لگا۔ ممی کو وہ لفٹ دی وہ لفٹ کہ انہیں کبھی ملی نہ تھی۔ وہ بوکھلا گئیں پھر نمی کے پاس آ بیٹھا۔ بات چیت چھیڑ دی۔ باتیں تو خیر کلچرڈ تھیں ۔ لیکن نگاہیں بالکل ہی کروڈ چونکا دینے والی۔ چبھنے والی۔ بڑی ان یو یوال۔ بھلا پاس بیٹھ کر کبوتر سی آنکھیں بنانے کا مطلب ایڈٹ۔ گلیڈ آئی تو خیر ہوا ہی کرتی ہے۔ وہ تو یوں ہے کہ دور بیٹھ کر روتین ٹاک کرتے کرتے ایک دم گلیڈ آئی کے زور پر جمپ لگایا اور گود میں آ بیٹھے ذرا سی گد گدی اور پھر واپس اپنی سیٹ پر دور جا بیٹھے یہ تو جدید انداز ہے نا۔ اپنی توجہ جتائی۔ گڈ ٹائم کی خواہش کو آنکھوں میں سجایا اور پھر ایز پودر ہو کر ایٹ ایز بیٹھ گئے۔ لیکن مسلسل آڑی ترچھی آنکھیں بنا کر بیٹھے رہنا۔ نان سنس۔ گلیڈ آئی تو گڈ ٹائم کی دعوت ہوتی ہے نا۔ ار آنکھیں بنا کر بیٹھے رہنا تو گویا اس بات کی رٹ لگائے رکھنا ہوا کہ دیکھ میں تیرے بنا کرنا دکھی ہوں ۔ وہ مثبت بات اور خاص نیگیٹو۔ ہاں تو امجی ویسے تو بڑا آدمی کہاں آدمی نما لڑکا۔ اٹھنا بیٹھنا پھرنا بولنا سب کلچرڈ تھے بس اک ذرا آنکھیں بنائے لگی ہوتی تھی۔ سچی بات تو یہ ہے کہ نمی پہلے روز ہی امجی کو دیکھ کر بھونچکی سی رہ گئی۔ اسے یوں لگا جیسے اس کا آئیڈیل کپڑے پہن کر سامنے آ کر کھڑا ہو گیا۔ اب اس اچنبھے کا اظہار خود کیسے کرتی جو دھرتی سے چاہت رکھتی تو محبت کی راہ پر گامزن ہو جاتی۔ اس کا انتظار کرتی۔ آہیں گنتی۔ اولڈ مینشن، غیر مہذب دقیانوسی باتیں ۔ ایک پیاری اسمارٹ سی خوب صورت ماڈلز کی ماڈرن ہو کر دقیانوسی کیوں بنے۔ اس لئے نمی سب کچھ پی گئی ار یوں تن کر بیٹھ گئی، کہ کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ بہر طور امجی اپنا چکر چلا گیا تھا۔ اگر اس میں آنکھیں بنانے کی بوت ہوتی تو یقیناً افیر چل جاتا۔ افیر تو خیر اب بھی چل پڑا تھا۔ لیکن وہ خالصتا تفریحی نہ تھی۔ اگر خالص تفریحی نہ ہو تو افیر کیسا۔ اس کے بعد امجی نے ایک اور قیامت ڈھائی۔ فرسٹ فلور پر نمی کی کھڑکی کے عین سامنے کم بخت اپنی کرسی دروازے میں بچھا کر نمی کی کھڑکی پر نگاہوں کی چاند ماری شروع کر دی۔ اس پر نمی اور بھی چڑ گئی۔ لو بھلا نگاہوں کی چاند ماری کی ضرورت ہی کیا ہے۔ اور کیا۔ بھئی جو ناک کو ہاتھ لگانا ہو تو سیدھا ہاتھ لگاؤ۔ ہاتھ کو سرکے پیچھے سے گھما کر لانے کی کیا ضرورت ہے۔ دو ایک مرتبہ اس نے کھڑکی سے جھانکا اور ان جانے میں جھینپ گئی تو اسے غصہ آیا۔ بھلا جھیپنے کی کیا ضرورت۔ اس کو اتنا نہیں پتہ کہ یوں دیکھنے سے بات بنتی نہیں بگڑتی ہے۔ وہ اطمینان سے ٹیک لگا کر کتاب پڑھنے لگی۔ لیکن چند لمحوں کے بعد کتاب کے صفحے سے دو آنکھیں ابھریں ۔ پھر۔ ۔ پھر۔ ۔ کرنے لگتا اور وہ پھر سے جھینپ جاتی۔ پھر ایک روز امجی اسے فلم پر لے گیا۔ شاید وہ انکار کر دیتی لیکن نمی کا چھوٹا بھائی عمران ضد کرنے لگا۔ ممی ان کی طرف دار ہو گئی۔ آخر کیا حرج ہے۔ فلم دیکھنے میں واقعی کوئی حرج نہ تھا۔ سارا فساد تو نگاہوں کا تھا نا۔ سنیما ہال کے اندھیرے میں نگاہیں تو چلتی ہیں نہیں ۔ رہا قرب کا سوال تو قرب پر تو اسے کوئی اعتراض نہ تھا۔ جب امجی نے اندھیرے میں اس کا ہاتھ پکڑا تو نمی ذرا نہ جھینپی۔ یہ تو یو یووال بات تھی۔ بار بار وہ اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ فلم دیکھنے گئی تھی۔ وہ اس خوشبودار اندھیرے سے واقف تھی۔ اور اندھیرا اگر خوشبودار ہو تو ہاتھ پکڑنا تو ہوتا ہی ہے۔ امجی نے پکڑا تو نمی نے حسب دستور بازو ڈھیلا کر دیا۔ جلدی اس نے محسوس کیا کہ امجی کا دباؤ یو یووال نہیں ہے یو یوال دباؤ تو موقعہ کی مناسبت پر عمل میں آتا ہے نا۔ فلم میں اظہار محبت ہو تو گڈ ٹائم کا اشارہ ہو تو۔ لیکن یہ دباؤ تو مسلسل تھا۔ دباؤ ختم ہو تا تو امجی کی ہتھیلی نمی کے ہاتھ پر چلنے لگتی جیسے ہاتھ بند بند کا جائزہ لے رہی ہو۔ جیسے ہاتھ پر کوئی امریکہ دریافت کرنے میں لگا ہو۔ نمی کی ہتھیلی پر پسینہ آ گیا۔ ۔ ہاتھ کے اس لمس نے پتہ نہیں کیا کر دیا۔ اک ان یو یوال رابطہ قائم ہو گیا۔ دل سے رابطہ۔ دل پھر۔ کرنے لگا۔ یہ کیا مصیبت ہے اس نے ہاتھ چھڑا لیا۔ جب بھی دل پھر پھر کرنے لگتا وہ چھڑا لیتی لیکن کچھ دیر کے بعد انجانے میں اس کا بازو پھر ادھر ہو جاتا۔ ہاتھ کرسی کے بائیں ہتھے پر ٹک جاتا۔ اور پھر وہی دباؤ۔ بے چاری عجیب مشکل میں تھی۔ دباؤ ہوتا تو بھی چاہتا کہ یو یوال ہو جائے۔ نہ ہوتا تو جی چاہتا کہ ہو۔ گھر میں وہ روز ہی ملتے تھے۔ وہ روز آ جاتا تھا۔ نہ آتا تو عمران پکڑنے آتا۔ ممی آواز دے کر بلا لیتی۔ ممی کے لئے تو وہ گھر کا فرد بن چکا تھا۔ ممی پہلے روز ہی سمجھ گئی تھی کہ وہ نمی میں انٹرسٹڈ تھا۔ نرا گڈ ٹائمز نہیں ۔ وہ تو خوش تھی پڑھا لکھا لڑکا اور چھوٹتے ہی افسر، کیرئر بہت بالکل جدید طرز کی۔ اور پھر انڈر یپینڈنٹ۔ چچا کے گھر میں صرف الاٹ منٹ کے انتظار میں بیٹھا ہے پتہ نہیں کس روز مل جائے۔ آخر نمی کی شادی تو ہونی ہی تھی۔ ایم اے کر چکی تھی۔ رشتے تو آئے تھے لیکن وہ سبھی سوشل قسم کے تھے یہ تو جوڑ کا تھا۔ ڈیڈی بھی خوش تھے۔ انہوں نے پہلے روز ہی بھانپ لیا تھا کہ لڑکا سیریس ہے بیماری لگا بیٹھا ہے ان کی ساری ہمدردیاں امجی کے ساتھ تھیں ۔ کیسے نہ ہوتیں ۔ وہ خود سیریس کی بیماری میں مبتلا تھا۔ بہر طور وہ بے نیاز قسم کا آدمی تھا بات بن گئی تو اوکے نہیں تو کے۔ جی او یس تو ہے ہی، بڑ ا افسر ہے پیچھے مربعے ہیں ۔ صرف یہی نا کہ ادھیڑ عمر کا ہے، بال جھڑ چکے ہیں لیکن نمی کو اپنانے کے لئے کتنا بے تاب ہے۔ حکومت کرے گی عیش کرے گی۔ بیاہ ا س لئے تو کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد امجی اور نمی کی بہت سی ملاقاتیں ہوئیں ۔ ہوٹلوں میں پارکوں میں سنیما گھروں میں ، انہوں نے شاپنگ کی، ڈرائیونگ پر گئے۔ پک نک اسپاٹ دیکھے ان ملاقاتوں میں امجی نے طرح طرح کے حربے آزمائے کہ نمی اس سے اظہار محبت کرے۔ نمی اس ضد پر اڑی رہی کہ امجی کے سر سے عشق کا بھوت اتر جائے۔ اور وہ سیدھا بوائے فرینڈ بن جائے۔ جب بھی وہ شاپنگ پر جاتے امجی کوئی نہ کوئی تحفہ نمی کے لئے خرید لیتا۔ ایک دن اس کی ممی نے کہا نمی تو نے اسے کوئی تحفہ نہیں دیا یہ کیا بات ہوئی بھلا۔ نمی نے سوچا کوئی ایسا تحفہ دوں کہ جل کر راکھ ہو جائے۔ مطلب جلانا نہیں تھا۔ بلکہ اشارتاً سمجھا نا تھا کہ مرد بنو آہیں بھرنا چھوڑ دو۔ آنکھیں بنانا بے کار ہے۔ بھکاری نہ بنو۔ چھین کر لینا سیکھو۔ اس نے سوچ سوچ کر ایک چارم خریدا، ایک روپیلا برسٹ جو کلائی پر چوڑی کی طرح پہنا جاتا ہے۔ امجی اس چارم کو دیکھ کر بہت خوش ہوا سمجھا شاید نمی کے دل میں اس کے لئے جذبہ پیدا ہو گیا ہے۔ اسے قطعاً خیال نہ آیا کہ کیپ سیک کے پردے میں نمی اسے چوڑی پہنا رہی تھی۔ بہر حال اس نے بڑی خوشی سے وہ چوڑی پہن لی۔ اسی شام وہ دونوں ڈرائیونگ کے لئے جا رہے تھے دفعتاً ایک ویران جگہ پر امجی نے گاڑی روک لی۔ نمی کا دل خوشی سے اچھلا۔ اس سے پہلے ڈرائیونگ کے دوران کئی بار اسے خیال آتا تھا کہ امجی گاری روک لے گا۔ ویران جگہ گاڑی روکنے کی بات تو فیشن تھی۔ کریز تھا۔ یو یوال تھا۔ اس یو وال سے وہ اچھی طرح واقف تھی۔ لیکن امجی نے کبھی گاڑی نہ روکی تھی۔ اس کی ساری توجہ نمی کے چہرے پر مرکوز رہتی یا وہ نمی کے ہاتھ کو تھامے رکھتا یوں جیسے بلو ر کا بنا ہو۔ اس روز گاڑی رکی تو نمی خوشی سے اچھل پڑی پھر آنکھیں بند کر کے خواب دیکھنے لگی۔ گہرے بھورے بال اس کی طرف لپکے اس کے منہ سے ٹکرائے پھر سارے چہرے کو ڈھانپ لیا۔ برسلیٹ والا بازو اس کی کمر میں حمائل ہو گیا۔ اس نے اطمینان کا سانس لیا آج سب نارمل ہو جائے گا۔ کبوتر سی آنکھیں بنائے اور خالی خولی ہاتھ تھامنے کی بیماری ختم ہو جائے گی۔ اور پھر وہی یو یوال گولڈن یو یووال۔ دیر تک آنکھیں بند کر کے پڑی رہی۔ لیکن کچھ بھی نہ ہو ا اس نے آنکھیں کھول دیں ساتھ والی سیٹ پر امجی بیٹھا دیوانہ وار اس کا ہاتھ چوم رہا تھا۔ ایڈیٹ وہ ملائی کی برف کی کلفی کی طرح جم کر رہ گئی۔ آخر امجی سیدھا ہو کر بولا۔ نمی آج مجھے تم سے ایک ضروری بات کرنا ہے۔ اچھا تو یہ بات کرنے کے لئے گاڑی روکی ہے۔ اسے غصہ آ گیا۔ ان حالات میں بھلا منہ زبانی بات کی کیا ضرورت ہے خواہ مخواہ باتوں کی جلیبیاں تلنا سلی فول۔ نمی امجی بولا کیا تمہارے دل میں میرے لئے کوئی محبت نہیں ۔ محبت۔ محبت۔ محبت وہ چڑ کر بولی۔ ڈونٹ ٹاک لایک ان انکل امجی۔ بھئی ہم ریشنل دور میں رہتے ہیں بی ریزن ایبل۔ ذرا سوچو۔ لو کیا ہے ایک متھ۔ ویسے آئی لایک یو آل رائٹ۔ ٹھیک ہے اس نے جواب دیا۔ لیکن میں اپنے سوال کا ڈائرکٹ جواب مانگتا ہوں ۔ ڈو یو لو می۔ وہاٹ از لو۔ وہ بولی ایک خود فریبی ایک خود پیدا کی ہوئی فرنزی، ہے نا۔ کیا تم لو کے جھوٹے سنہرے چال سے آزاد نہیں ہو سکتے۔ نہیں مجھے تم سے محبت ہے۔ آئی لو یو میڈ۔ اوہ اٹ از اے پٹی، نمی کے منہ سے نکل گیا۔ دیر تک وہ خاموش رہے پھر امجی بولا۔ نمی میں ایک ایسا جیون ساتھی تلاش کرنا چاہتا ہوں جو مجھ سے محبت کرتا ہو۔ وہ ہنسی۔ پھر تم اولڈ سٹی کا رخ کرو۔ یہاں کلچرڈ ماحول میں تمہیں کوئی سوہنی نہ ملے گی۔ یہ ان کی آخری گفتگو تھی۔ اگلے روز نمی کو پتہ چلا کہ امجی شفٹ کر گیا ہے گھر مل گیا ہے یہ جان کر نمی کا دل ڈوب گیا۔ لیکن خود کو سنبھالا۔ اچھا چلا گیا ہے۔ سو واٹ از آل رائیٹ۔ دل کو سمجھانے کے باوجود کئی ایک مہینے بار بار سوتے جاگتے ان جانے میں گہرے بھورے بال اڑتے اس کے چہرے پر ڈھیر ہو جاتے۔ پھر بریسلٹ والا ہاتھ بڑھ کر اسے تھام لیتا۔ بار بار وہ خود کو جھنجھوڑتی۔ چلا گیا ہے تو گیا۔ سو وہاٹ اٹ از آل رائٹ۔ ایک سال بعد نمی کی کے جی اویس سے شادی ہو گئی۔ اور اسے سب کچھ مل گیا۔ سجا سجایا گھر نوکر چاکر۔ ساز و سامان۔ کاریں ۔ سب کچھ۔ اس کا خاوند اویس بڑا کلچرڈ آدمی تھا۔ اور چونکہ ادھیڑ عمر کا تھا اس کی زندگی کا تمام تر مقصد نوجوان بیوی کو خوش رکھنا تھا۔ بلکہ اسپایل کرنا تھا۔ اویس میں بڑی خوبیاں تھیں صرف عمر ڈھلی ہوئی تھی۔ بال گر چکے تھے۔ ٹانٹ نکل آئی تھی۔ بہر حال نمی خوش تھی بہت خوش۔ شادی کے دو سال بعد ایک روز اویس بر سبیل تذکرہ کہنے لگا۔ ڈارلنگ وہ تیری ایک ڈاکٹر سہیلی تھی کیا نام تھا اس کا؟ صفو کی بات کر رہے ہو کہاں ہوتی ہے وہ آج کل؟ پہلے تو پنڈی میں اس کا کلینک تھا اب پتہ نہیں دو سال سے نہیں ملی وہ۔ پنڈی میں کس جگہ کلینک تھا۔ ؟ شاید لال کرتی کے چوک میں ۔ کیوں کوئی کام ہے صفو سے ؟ نہیں تو اویس بولا۔ ویسے ہی پوچھ رہا تھا۔ دس پندرہ روز کے بعد اچانک صفو آ گئی۔ ارے تو صفو۔ نمی خوشی سے چلائی۔ کیسی ہے تو۔ صفو نے پوچھا۔ فرسٹ ریٹ۔ ّآر یو یپی۔ ہیپی از نو ورڈ فار اٹ ن نمی آنکھیں چمکا کر بولی۔ اچھا صفو سوچ میں پڑ گئی۔ بات کیا ہے ؟نمی نے پوچھا کیا اویس ملا تھا تجھے۔ ؟ ہاں ملا تھا۔ صفو نے تھوڑی سی ہچکچاہٹ کے بعد کہا۔ مذاق نہ کرو صفو۔ آئی ایم ڈیڈ سیریس۔ اویس کہتا ہے تمہیں ہیلو سی نیشن ہوتے ہیں ۔ مجھے۔ ہاں ۔ مثلاً۔ کہتا تھا جب اکیلے میں میرے ساتھ ہوتی ہے تو کہتی ہے ڈارلنگ تم بال کیوں نہیں سنبھالتے میرے منہ پر پڑتے ہیں ۔ اور صفو رک گئی۔ نمی چپ ہو گئی۔ اور جانو تم بریسلیٹ تو اتارو دیا کرو۔ نانسنس نمی چیخی۔ ایسی بے معنی باتیں میں کرتی ہوں کیا؟ کیا۔ ۔ ۔ ؟ کہ بال سنبھال لیا کرو میرے منہ پر پڑتے ہیں ۔ اور۔ ۔ ۔ اور۔ ۔ ۔ ۔ اپنا بریسلیٹ تو اتار دیا کرو۔ ۔ مذاق نہ کر۔ نمی چلائی۔ ۔ ۔ تمہیں پتہ نہیں کیا۔ ۔ صفو سنجیدگی سے بولی۔ ۔ میری شادی ہو چکی ہے امجی سے۔ ٭٭٭ Read the full article
0 notes
Photo
” سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد تجھے” ۔قومی نغموں کا ایک عہد ختم ہوگیا ۔ !! " سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد تجھے" ۔قومی نغموں کا ایک عہد ختم ہوگیا ۔ !! انتہاٸی افسوس کے ساتھ لکھنا پڑ رہا ہے کہ جیوے جیوے پاکستان اور سوہنی دھرتی اللہ رکھے جیسے لازوال قومی نغمات گانے والی معروف قومی گلوکار شہناز بیگم ہم میں نہ رہیں ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔ شہناز بیگم جو جنوری 1952 کو محمد فضل الحق کے گھر اور مسجدوں کے شہر ڈھاکا میں پیدا ہوٸی تھیں انہوں نے 1962 میں ریڈیو پاکستان ڈھاکا سے اسکول براڈکاسٹنگ میں گانا شروع کیا جہاں وہ بچوں کے لیے بنگلہ زبان میں پاکستانی قومی نغمات ( دیشی گان ) گاتیں جن میں عبدالاحد ، صفیہ امین اور ساتھیوں کے ساتھ انہوں " آمر پاک دیش " جیسا ترانہ بھی گایا ۔ 1965 کی جنگ کے بعد انہوں نے طالبات کے ہمراہ " جمہور کے نغمات " سیریز میں دیبو بھٹّا چاریا کے ساتھ ایک مقبول جنگی ترانہ " ایشان ہیّا رے ہّیا ہو " بھی گایا ۔لیکن 1968 میں ریڈیو پاکستان ڈھاکا سے قومی نغموں کی ایک سابقہ جہت "قومی نذرل گیتی" اور ایک بنگالی قومی نغمہ " آچھے شے پاک دیش " گا کر انفرادی مقبولیت حاصل کی اور جب ڈھاکا میں حالات خراب ہوٸے تو وہ 1970 میں کراچی آگٸیں جہاں انہوں نے سب سے پہلے اسد محمد خان کا تحریر کردہ قومی نغمہ " جٸیں تو اس دھرتی کی خاطر مریں تو اس کے نام " کراچی ریڈیو پر گایا جو مشرقی پاکستان کی طرف سے مغربی حصّے کے لیے والہانہ محبت کا اظہار تھا۔ یہ نغمہ اگست 1970 کو ریڈیو پاکستان کراچی ٹرانسکرپشن سروس نے مہدی حسن صاحب کے بڑے بھاٸی پنڈت غلام قادر کی موسیقی میں تیار کیا تھا جس میں بنگال کا حُسنِ گلو اپنے حسین ترنم سے کہتا " " یہاں سویرا پھول کھلاٸے ، رس برساٸے شام جیٸیں تو اس دھرتی کے ناطے مریں تو اس کے نام " تو سننے والوں میں وطنِ پاک کے مناظر کا ایک پرکیف احساس جاگتا، بعد میں یہی نغمہ انہوں نے سہیل رعنا صاحب کی ایک نٸی طرز میں بھی گایا اور وہی پھر مقبول ہوا۔ دسمبر 1971 کی جنگ میں شہناز بیگم نے مہدی حسن خاں صاحب کے ساتھ پہلا جنگی ترانہ " تدبیرِ جنگ روحِ بلالیؓ کے ساتھ ہے " گایا جو جوشِ ایمانی سے مزین ایک شاندار قومی نغمہ تھا جس میں بھارت کے لیے واضح پیغام تھا : " پھر رزمِ خیر و شر میں اُدھر سے چھڑی ہے بات پھر قہرِ غزنویؒ کو پکارے ہے سومنات " اس کے علاوہ دورانِ جنگ اور جنگ کے بعد شہنشاہِ غزل مہدی حسن خاں صاحب کے ساتھ انہوں نے سب سے ذیادہ ڈوٸٹ قومی نغمات گانے کااعزاز بھی حاصل کیا جن میں " میری پاک زمیں" بے حد مقبول ہوا ۔ شہناز بیگم نے 1971 ہی کی جنگ میں بھارت کو للکارتے ہوٸے پیروڈی ترانہ " وہ جنتا کہاں سے لاٶں " اقبال علی مرحوم کے ساتھ گایا پھر اُن کی آواز میں قومی نغمات کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوا جو کبھی " موج بڑھے یا آندھی آٸے دیا جلاٸے رکھنا ہے " کی شکل میں گونجا تو کبھی حکیم الامت علامہ محمد اقبالؒ کے الفاظ " ہے یہی میری نماز ہے یہی میرا وضو " کی صورت پاک وطن سے والہانہ عشق کا درس دیتا رہا۔ پاکستان ٹیلی ویژن کراچی مرکز کے لیے انہوں نے مسرور انور صاحب کا تحریر کردہ قومی نغمہ " وطن کی مٹی گواہ رہنا " سب سے پہلے گایا جسے سہیل رعنا نے موسیقی سے سجایا تھا ۔ مگر جنگ کے بعد مشرقی پاکستان کی اس قومی گلوکارہ کو شہرت اس وقت ملی جب 23 مارچ 1972 کو انہوں نے مسرور انور کا تحریر کردہ " سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد تجھے " اور پھر عالی جی کا تحریر کردہ نغمہ " جیوے جیوے پاکستان " گا کر خود کو قومی نغمات کی صف میں ممتاز کروالیا ۔ یہ نغمات آج بھی ہمارے قومی نغمات کی ایسی پہچان ہیں کہ انہیں سنے بغیر کوٸی بھی قومی تہوار پھیکا محسوس ہوتا ہے بلکہ سوہنی دھرتی اللہ رکھے کو 1997 می گولڈن جوبلی کے موقع پر پاکستان ٹیلی ویژن کی طرف سے پہلا انعام ملا جبکہ عالی جی کا عزیز ترین نغمہ "جیوے جیوے پاکستان " جو طاہرہ سید کی آواز میں پہلے پی آٸی اے کا کمرشل تھا عالی جی خواہش پر سہیل رعنا نے اسے نٸے سرے سے مرتب کرکے عشرت انصاری کی پیشکش میں تیار کروایا تو اہلِ ہوس صاحبانِ اقتدار کی وجہ سے دل شکستہ قوم کو ایک بار پھر تقویت ملی ۔ شہناز بیگم نے جنگِ دسمبر کے بعد سلیم گیلانی صاحب کا تحریر کردہ ایک شاندار قومی نغمہ " گلوں کا رنگ چمن کا نکھار تجھ سے ہے " بھی غزل کے انگ میں ریکارڈ کروایا جو ریڈیو پاکستان کا ایک یادگار قومی نغمہ ثابت ہوا ۔پاکستان ٹیلی ویژن کراچی مرکز کے لیے انہوں نے بے شمار قومی نغمات ریکارڈ کرواٸے جنہیں اکثر اسد محمد خان صاحب نے لکھا اور سہیل رعنا نے موسیقی سے مزین کیا تھا ۔ افسوس کہ شہناز بیگم جو میجر رحمت اللہ سے شادی کرکے شہناز رحمت اللہ بن گٸی تھیں وہ ناگزیر وجوہات کی باعث بنگلہ دیش چلی گٸیں جہاں انہوں نے بنگلہ قومی گیت گاٸے مگر وہ رونا لیلیٰ کی طرح نمک حرام نہ تھیں بلکہ جب جب وہ پاکستان آتیں تو بلا خوف و خطر اپنے یادگار قومی نغمات گاتیں ۔ ان کا پاکستان میں آخری پرگرام 2009 میں پاکستان ٹیلی ویژن کے لیجنڈ پروڈیوسر جناب امجد حسین شاہ Amjad Shah نے پیش کیا اور پرسوں ہی امجد بھاٸی کے کمرے میں شہناز بیگم کے حوالے سے ہی بات ہورہی تھی کہ اب اگر وہ آٸیں تو اُن سے " وطن کی مٹی گواہ رہنا " ضرور ریکارڈ کرواٸیے گا ۔ لیکن مشیت خداوندی یہی ہے کہ اب شہناز بیگم کی آواز ہم دوبارہ نہیں سن سکیں گے ۔ ہاں ایک اہم بات ! شہناز بیگم نے عزت 23 مارچ کے موقع پر جیوے پاکستان اور سوہنی دھرتی جیسے قومی نغمات سے ہی حاصل کی تھی اور آج ہی کے دن بنگال کے فرزند مولوی اے کے فضل الحق نے قراردادپاکستان پیش کی تھی تو آج ہی کے دن اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے پاس بلالیا جبکہ سوہنی دھرتی اللہ رکھے وہ قومی نغمہ ہے جس کے عوض شاعر مسرور انور کو 25 روپے کا چیک ملا تھا جو انہوں نے تادم مرگ کیش نہیں کروایا کہ شاید اللہ کے نام پہ حاصل کردہ وطن کے لیے یہی دعا ان کے لیے توشہٕ آخرت بن جاٸے تو اللہ سے دعا ہے کہ اپنے اس عظیم وطن کے لازوال اور محبت و عقیدت سے معمور ترانوں کے عوض شہناز بیگم کی خطاٶں کو معاف کرکے انہیں جنت الفردوس میں جگہ دے ۔ آمین ثم آمین ۔ جیوے جیوے پاکستان.....
0 notes
Text
فنکاربھی ’’یوم پاکستان‘‘ کی خوشیوں میں شریک
New Post has been published on https://khouj.com/entertainment/117658/
فنکاربھی ’’یوم پاکستان‘‘ کی خوشیوں میں شریک
یوم پاکستان کے موقع پر جہاں پوری قوم پاکستان کے رنگ میں رنگی نظر آرہی ہے وہیں شوبز فنکاروں نے بھی اس موقع پر پوری قوم کو مبارکباد کے پیغامات دئیے ہیں۔
ماہرہ خان
Sohni dharti, Allah rakhay .. qadam qadam abaad tujhe. Ameen. Tera har ek zarra humko Apni jaan se pyaraa Tere dum se shaan humari Tujh se naam humaraa 🇵�� #pakistanday #PakistanZindabad
— Mahira Khan (@TheMahiraKhan) March 23, 2019
یوم پاکستان کے موقع پر پاکستان کی صف اول کی اداکارہ ماہرہ خان نے نہایت خوبصورت انداز میں پوری قوم کو مبارکباد دی۔ انہوں نے مشہور نظم ’’سوہنی دھرتی اللہ رکھے‘‘ کے اشعار اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر شیئر کرائےاور پورے پاکستان کو یوم پاکستان کی مبارکباد دی۔ ان اشعار میں پاکستان سے محبت اورپاکستان کے لیے قربانی جذبہ بھرپور انداز میں جھلکتا ہے۔
اشعار کچھ یوں ہیں’’سوہنی دھرتی اللہ رکھے، قدم قدم آباد تجھے
تیرا ہر اک ذرہ ہم کو اپنی جان سے پیارا، تیرے دم سے شان ہماری تجھ سے نام ہمارا‘‘
ماہرہ خان نے پہلی بارانگریزی کے ساتھ اردو میں بھی ٹوئٹ کی۔
شان
#2332019 🇵🇰zindabad pic.twitter.com/DNX26AbcAR
— Shaan Shahid (@mshaanshahid) March 22, 2019
پاکستان شوبز کے صف اول کے اداکار شان نے ویڈیو پیغام کے ذریعے تمام ہم وطنوں کو یوم پاکستان کی مبارکباد دی، انہوں نے دلوں کو گرمانے والا شعرپڑھا
’’رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں ہیں قائل
جو وطن کی خاطر نہ ٹپکے، پھر لہو کیاہے، پاکستان زندہ باد‘‘
علی ظفر
Happy Pakistan Day. My tribute to our unsung heroes. Jaan De Den Ge | Ali Zafar | 23rd March | Patriotic Song https://t.co/S60hFFqiEx
— Ali Zafar (@AliZafarsays) March 23, 2019
نامور پاکستانی گلوکارو اداکار علی ظفر نے یوم پاکستان کے موقع پر ملک سے محبت کے جذبے سے لبریز ملی نغمہ ’’جان دے دیں گے‘‘ریلیز کیاہے۔ اس ملی نغمے کے ذریعے انہوں نے پاکستان کے گمنام ہیروز کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔
فیصل قریشی
PAKISTAN zindabad pic.twitter.com/BaD3itpTkw
— Faysal Quraishi (@faysalquraishi) March 23, 2019
اداکار فیصل قریشی پاکستان کے ہر اہم موقع پر اپنے خیالات کا اظہار کرنا کبھی نہیں بھولتے، یوم پاکستان کے موقع پر بھی انہوں نے23 مارچ کے حوالے سے ایک خوبصورت تصویر شیئر کی اور پاکستان زندہ باد کا پیغام دیا۔
وینا ملک
India is not a nation, nor a country… It is a subcontinent of nationalities. Muhammad Ali Jinnah pic.twitter.com/JfJRA9hpR1
— VEENA MALIK (@iVeenaKhan) March 23, 2019
اداکارہ وینا ملک نے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی ایک خوبصورت تصویر اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر شیئر کی اور بھارت کو پیغام دیا کہ’’بھارت کوئی قوم نہیں ہ�� اور نہ ہی کو ئی ملک ہے، بلکہ یہ برصغیر ہے جہاں مختلف قومیتیں آباد ہیں۔
حمزہ علی عباسی
To those who wanted to isolate PAKISTAN, are U watching? Military presence from China, Turkey, Saudi Arabia, Azerbaijan & the presence of one of the most respected/accomplished global Muslim leaders PM of Malaysia Mahatir Muhammad! Allah ho Akbar. 🇵🇰 #PakistanDay pic.twitter.com/U58S0j6LOR
— Hamza Ali Abbasi (@iamhamzaabbasi) March 23, 2019
پاکستانی اداکارومیزبان حمزہ علی عباسی نے یوم پاکستان کی شاندار پریڈ کی تصویر اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر شیئر کی جس میں صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی، وفاقی وزیردفاع پرویز خٹک، وزیر اعظم پاکستان عمران خان اورملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد ایک ساتھ کھڑے ہیں انہوں نے اس تصویر کے ذریعے پیغام دیاکہ وہ تمام قوتیں جوپاکستان کو تنہا کرنا چاہتی ہیں دیکھ لیں، اس تقریب میں نہ صرف چین کی عسکری قوت موجود ہے بلکہ ترکی، سعودی عرب، آذربائیجان اورمسلم امہ کے قابل تعظیم رہنما مہاتیر محمد موجود ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان کو کوئی تنہا نہیں کرسکتا، اللہ اکبر!۔
0 notes
Photo
’دس روپے سے صدارتی ایوارڈ تک کا سفر آسان نہ تھا‘ کامیابیاں اورناکامیاں زندگی کے ساتھ چلتی رہتی ہیں لیکن کامیابیاں ہمیشہ انہی لوگوں کے قدم چومتی ہیں جواپنی منزل کوپانے کی دھن میں سوار رہتے ہیں۔ وہ ہرطرح کی مصیبتوں اور پریشانیوں کا مقابلہ کرتے ایک دن اپنی منزل تک پہنچ جاتے ہیں۔ یہی نہیں بہت سے لوگ توایک منزل طے ہونے پرنئی راہیں تلاش کرنے کیلئے آگے نکل پڑتے ہیں۔ ایسے ہی لوگوں کی مثالیں دی جاتی ہیں جو زندگی کے مختلف شعبوں میں ’روشن ستارے‘ بن کرچمکتے ہیں اور دوسروں کیلئے مشعل راہ بن جاتے ہیں۔ فن موسیقی کی بات کی جائے توپاکستان کی سرزمین اس شعبے میں ہمیشہ ہی بہت زرخیز رہی ہے، کلاسیکل، غزل، گیت ، ٹھمری، فوک اورپاپ میوزک کی اصناف میں ہمارے ملک کے معروف گلوکاروں نے جوکارنامے انجام دیئے ، وہ سب کے سامنے ہیں۔ ایسے ہی منفرد انداز گائیکی سے اپنی الگ پہچان بنانے والوں میں ایک نام ’میلوڈی کوئین آف ایشیاء‘ شاہدہ منی کا بھی ہے جن کی طویل فنی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے حکومت پاکستان نے انہیں ’صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی‘ (پرائیڈ آف پرفارمنس ) سے نوازا ۔ اس اعلیٰ سول ایوارڈ کے بعد ان کا نام پاکستان کی تاریخ کے ان عظیم فنکاروں کی فہرست میں شامل ہوگیا ہے، جن میں شہنشاہ غزل مہدی حسن، ملکہ ترنم نورجہاں، استاد نصرت فتح علی خاں، اقبال بانو، فریدہ خانم، ریشماں، غلام علی اور استاد سلامت علی خاں سمیت بہت سے معروف فنکاروں کے نام ہیں۔ گلوکارہ شاہدہ منی نے اپنی فنی زندگی میں ملنے والی کامیابیوںکا تذکرہ کرنے کے ساتھ ’ صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی‘ کے موقع پراپنی کیفیت کااظہارکیا ، جوقارئین کی نذرہے۔ شاہدہ منی کا کہنا تھا کہ ’ پرائیڈ آف پرفارمنس‘ ہویا کوئی بھی ایوارڈ اوراعزازیہ آسانی سے نہیں ملتے۔ اس کے پیچھے بہت عرصہ کی محنت ہوتی ہے اورپھرکہیں کوئی فنکاران اعلیٰ سول ایوارڈز تک پہنچ پاتا ہے۔ میں نے اپنا فنی سفر10برس کی عمر سے شروع کیا۔ پہلی پرفارمنس ایک بنچ پر کھڑے ہوکردی، جس پر ماسٹر صادق نے مجھے دس روپے انعام میں دیئے۔ کہنے کوتو یہ دس روپے تھے لیکن اس کی قدروقیمت صرف وہی جانتے ہیں جن کواتنے مہان لوگ انعام دینے کے قابل سمجھتے ہیں۔ اس لئے صدارتی ایوارڈ تک پہنچنے کا سفرآسان نہیں تھا۔’’ یہ ایک چلہ ہے اوریہ چلہ کاٹنا پڑتا ہے‘‘ ۔ ٹیلی ویژن سے میرا سٹارٹ ہوا، ریڈیو پاکستان کیلئے بہت کام کیا اورپھر آرٹس کونسل کے زیراہتمام ہونے والے بہت سے پروگراموں میں پرفارم کیا۔ قومی تہواروں کے موقع پرمنعقد ہونے والے پروگراموں میں بچوں کے ہمراہ پرفارمنسز کا سلسلہ جاری رہا، جہاں ملی نغمے ’’سوہنی دھرتی، جیوے جیوے پاکستان‘‘ گاتی تھی۔ سب لوگ یہ سب دیکھ کرحیران ہوجاتے تھے کہ ایک چھوٹی سی بچی میں اتنی غیرت ہے کہ وہ اپنے فن کے ذریعے ملک کانام روشن کرنے کاعزم رکھتی ہے۔ جب میں نے بچپن میں موسیقی کے شعبے میں کام شروع کیا تویہ پتہ نہ تھا کہ ’صدارتی ایوارڈ‘ بھی ہوتا ہے اور دیگر اعزازات بھی ہوتے ہیں کیونکہ میں عمرکے اس حصے میں تھی جہاں ان سب باتوں کے بارے میں سوچنے کاکبھی خیال نہیں آیا مگرایک بات میرے ذہن میں ہمیشہ سے تھی کہ مجھے موسیقی کے میدان میں وہ کامیاب اننگز کھیلنی ہے جس کولوگ ہمیشہ یادرکھیں۔ میں اپنی پرفارمنس مختلف پروگراموں، میوزک کنسرٹ میں دیتی رہی اورمجھے ایوارڈزملنے لگے جس سے مجھے ان کی اہمیت کا اندازہ ہونے لگا۔ مجھے جیسے ہی کوئی ایوارڈ ملتا تومیں یہ عہد کرلیتی کہ اب مجھے مزید محنت کرنی ہے اور اس سے بھی بڑا ایوارڈیااعزاز حاصل کرنا ہے۔ جب مجھے فلموں میں اداکاری کی آفرہوئی اور اداکاری کا موقع ملا تواس وقت میری عمرخاصی کم تھی۔ یہ ایک الگ سی دنیا تھی جہاں اپنی پہچان بنانا مشکل تھا مگر محنت کا جوجذبہ مجھ میں موجود تھا اس نے کبھی مایوس ہونے نہیں دیا۔ میں نے فلموں میں اداکاری کے دوران ’بولان ایوارڈ‘ سمیت کئی ایوارڈ حاصل کئے۔ اسی طرح ماڈلنگ کے شعبے سے بھی وابستہ رہی۔ ٹی وی کمرشلز کئے اوریہ سلسلہ جاری رہا۔ فنون لطیفہ کے مختلف شعبوںمیں بھرپورکام کیا اورپھرشادی ہونے پرمیں نے کچھ عرصہ کیلئے شوبزکوخیرباد کہہ دیا۔ حالانکہ میرے شوہراورسسرال والوں کی جانب سے کسی قسم کی پابندی نہیں تھی لیکن میں نے اپنی نئی زندگی کو بھرپورانداز سے گزارنے کیلئے اپنی تمام توجہ گھر اوراپنی فیملی پرمرکوزرکھی مگرقسمت کو کچھ اورہی منظورتھا اس لئے اپنی فیملی کی سپورٹ پرمیں نے کچھ برسوں بعد دوبارہ فن موسیقی میں قدم رکھ دیا۔ یہ میرے لئے بہت مشکل تھا لیکن میں نے اس کوچیلنج سمجھ کرلیا اور خوب ریاضت کی۔ ’’ریاضت کا سلسلہ توخیرایسا ہے کہ مرتے دم تک جاری رہے گا‘‘۔ یہاں میں موسیقی کے شعبے میں ایک ایسے موڑکا تذکرہ کرنے جارہی ہوں جس نے مجھے آگے بڑھنے اور ایک منفرد نام ، پہچان بنانے کی لگن دی۔ ایک مرتبہ سرکاری ٹی وی کے ایک پروڈیوسر نے مجھ سے رابطہ کیااورمجھے بتایاکہ ایک ایسا پروگرام ہونے جارہا ہے جس میں اداکاری اورگلوکاری میں مقابلہ ہوگا، کیا آپ اس میں حصہ لینا چاہیں گی ؟ میں نے گلوکاری کے مقابلے میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا اورپروڈیوسرکوبھی اس سے آگاہ کردیا۔ اس مقابلے میں ججزکے فرائض ہمارے ملک کے معرو ف فنکارانجام دے رہے تھے جن میں معروف غزل گائیکہ اقبال بانو مرحومہ، فریدہ خانم اورستارنواز استاد رئیس خاں تھے۔ یہ پروگرام ملکہ ترنم نورجہاں کی زندگی میں ان کوٹریبیوٹ تھا جو میرے لئے استادوں کادرجہ رکھتی تھیں۔ ان عظیم فنکاروں کے سامنے پرفارم کرنے کاموقع ملا۔ اس موقع پرمیرے علاوہ دس پروفیشنل سنگربھی تھیں۔ جو عرصہ دراز سے فن موسیقی سے وابستہ تھیں۔ اس مقابلے کا نتیجہ سامنے آیا تو مجھے سوفیصد نمبر ملے۔ جونہی میرا نام پکاراگیا تومیں پہلے حیران ہوگئی اور پھر خوشی سے میری چیخ نکل گئی۔ اس موقع پرمیں نے گیت ’’سب جگ سوئے ہم جاگیں تاروںسے کریں باتیں‘‘ سنایا۔ یہ گیت میرے نام کے ساتھ ایسا جڑا کہ اب جہاں بھی جاؤں یہ گیت توسنے بغیر چاہنے والے سٹیج سے اترنے کی اجازت نہیں دیتے۔ اپنی کامیابیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پی ٹی وی کی جانب سے مجھے بہترین گلوکارہ کے طور پر ’نیشنل ایوارڈ‘ ملا۔ اس ایوارڈکے بعد میری جدوجہد کا نیاسلسلہ شروع ہوگیا۔ امریکا میں بالی وڈ میوزک ایوارڈزکی تقریب میں پرفارمنس کیلئے مجھے خصوصی طور پر مدعو کیا گیا۔ جہاں میری پرفارمنس کو بہت سراہا گیا ۔ اس موقع پربالی وڈ کے معروف اداکاروں کے ساتھ میوزک کی دنیا کے بڑے نام بھی موجود تھے۔ بالی وڈ ایوارڈز کی رنگارنگ تقریب میں مجھے ’’میلوڈی کوئین آف ایشیا‘‘ کے ایوارڈسے نوازا گیا۔ یہ میرے لئے بہت اعزاز کی بات اس لئے بھی تھی کہ دیارغیر میں میری عمدہ پرفارمنس کی بدولت سے جب مجھے عزت دی جارہی تھی تومیرے نام سے پہلے پاکستان کانام پکاراگیا ۔ یہ وہ لمحات ہیں جب میرا سرفخرسے بلند ہوگیا تھا۔ شاہدہ منی کا کہنا تھا کہ میراحسد کرنے و الے لوگوں کو مشورہ ہے کہ وہ دوسروں کے راستے میں رکاوٹ پیدا کرنے کی بجائے اگرخود محنت کریں تووہ بھی کامیاب ہوسکتے ہیں۔ بلاوجہ کسی سے حسد کرنا درست نہیں۔ کامیابی انہی لوگوں کوملتی ہے جو دیانتداری سے کام کرتے ہیں۔ وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں اورملک کانام روشن کرتے ہیں۔ The post ’دس روپے سے صدارتی ایوارڈ تک کا سفر آسان نہ تھا‘ appeared first on ایکسپریس اردو.
0 notes