#سنبھالتے
Explore tagged Tumblr posts
Text
جمال آنکھوں سے ایسے جیسے چھلک رہا ہے
یہ ناز کیا ہے کہ دل یہ میرا بہک رہا ہے
کوئ کہ دل کے نہال خانے اٹک رہا ہے
کہیں محبت تو ہے نہیں یہ، سو شک رہا ہے
ہزار چہروں میں اُس کا مُکھڑا پہچان لوں میں
خیالوں میں ہی وہ چاند ایسا چمک رہا ہے
یہ کیسی حالت ہے آجکل اِس دیوانگی کی
کہ جیسے دھڑکن کے ساتھ کوئ دھڑک رہا ہے
یہ ہاتھ پالے کچھ ایسے ہم کو سنبھالتے ہیں
کہ اب یہ اُوپر سے چاہتے ہیں ، یہ شک رہا ہے
لڑی میں آنسو پروۓ کیوں ہیں بتاؤ جاناں
یہ آج ساون کہاں سے برسا ،ٹپک رہا ہے
ضرور کوئ بسا ہے آنکھوں میں اُس کی یارو
نگینہ لاگے جو آجکل یوں دمک رہا ہے
- فرحان ادیب کوٹ ادو
2 notes
·
View notes
Text
برطانوی وزیراعظم کا غزہ میں جنگ بندی کامطالبہ
نومنتخب برطانوی وزیراعظم سر کئیراسٹارمر نے عہدہ سنبھالتے ہی امت مسلمہ کے دل جیت لئے۔غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کردیا۔ نومنتخب برطانوی وزیراعظم کا اسرائیلی وزیراعظم سے ٹیلیفونک رابطہ،غزہ میں جنگ بندی اور دو ریاستی حل کی ضرورت پر زور دیا۔ ٹیلیفونک رابطے میں برطانوی اوراسرائیلی وزیراعظم نے جنگ کی صورتحال پرتبادلہ خیال کیا۔ برطانوی وزیراعظم اسٹارمر نے تمام فریقین کواحتیاط سے کام لینے کا مشورہ…
0 notes
Text
پی ٹی آئی کو لیول پلیئنگ فیلڈ کیسے مل سکتی ہے؟
آئندہ انتخابات کیلئے لیول پلیئنگ فیلڈ کی سب بات کرتے ہیں۔ یہ بھی درست بات ہے کہ موجودہ صورتحال میں اگر لیول پلئینگ فیلڈ کا واقعی کسی سیاسی جماعت کو مسئلہ ہے تو وہ تحریک انصاف ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جو لوگ 9 مئی کے جرم میں شامل تھے اُنہیں تو ضرور سزا دیں اور الیکشن میں بھی حصہ نہ لینے دیں لیکن بحیثیت سیاسی جماعت تحریک انصاف کو الیکشن کیلئے اُسی طرح کھلا میدان دیا جائے جیسا دوسری سیاسی جماعتوں کو حاصل ہے۔ یہ سب اصولی باتیں ہیں اور آئیڈیلی ایسا ہی ہونا چاہیے۔ تاہم اس کے ساتھ ساتھ اُن زمینی حقائق بھی دیکھنا چاہیے اور اُن پر بحث بھی کرنی چاہیے جن کا پاکستان کو سامنا ہے۔ جو حالات نظر آ رہے ہیں اُن کے مطابق اس وقت تک تحریک انصاف ہی پاکستان کی سب سے مقبول سیاسی جماعت ہے اور اگر لیول پلیئنگ فیلڈ تحریک انصاف کو ملتی ہے تو ممکنہ طور پر پی ٹی آئی ہی الیکشن جیتے گی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ تحریک انصاف اور اس کے بانی چیئرمین عمران خان نے اپنی حکومت کے خاتمہ کے بعد فوج سے براہ راست لڑائی مول لی۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ عمران خان کے فوج ��خالف بیانیہ کی وجہ سے تحریک انصاف کے ووٹرز، سپورٹرز بھی فوج مخالف بیانیہ پر ہی چل رہے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ فوج کے خلاف تحریک انصاف کے سوشل میڈیا نے درجنوں مہمات چلائیں اور فوج کے خلاف نفرت کو اُبھارا۔ فوج پر 9 مئی کے حملے کسی سازش کا نتیجہ تھے یا نہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ فوجی علاقوں میں احتجاج کا فیصلہ پارٹی قیادت کا تھا اور فوج پر جو حملے کیے گئے وہ اُس نفرت کا نتیجہ تھے جس کا بیج عمران خان اور اُن کی جماعت ��ور سوشل میڈیا نے فوج کے خلاف بویا۔ یہ بھی درست ہے کہ 9؍ مئی کے سانحہ کے باوجود فوج مخالف بیانیہ کو ختم کرنے اور اس سے فاصلہ اختیار کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش تحریک انصاف کی قیادت نے نہیں کی بلکہ 9؍ مئی کو الٹا اپنے خلاف ہی سازش گردانا۔ آج بھی پاکستان سے باہر بیٹھے ہوے تحریک انصاف کے لوگ اور عمران خان کے دوست فوج اور موجودہ آرمی چیف کے خلاف گھٹیا پروپیگنڈامیں مصروف ہیں جس پر تحریک انصاف کی قیادت نہ کوئی مذمت کرتی ہے نہ ہی کسی کو ایسا کرنے سے منع ہی کر رہی ہے۔
امریکہ میں مقیم پاکستانی گلوکار، عمران خان کے دوست اور تحریک انصاف کے اہم رکن سلیمان احمد کے ٹویٹر اکاونٹ کو ہی دیکھ لیں کہ وہ فوج اور فوجی قیادت کے خلاف کیسے زہر اگل رہے ہیں۔ گویا جس نکتہ پر بحث ہونی چاہیے وہ یہ ہے کہ اس فوج مخالف نفرت کے ساتھ اگر کوئی سیاسی جماعت الیکشن جیت کر اقتدار میں آتی ہے تو اُس کے نتائج پاکستان کیلئے کیسے ہوں گے؟ ایسے حالات میں کیا اس ملک میں سیاسی و معاشی استحکام آ سکتا ہے؟ یقیناً ایسا نہیں ہو سکتا اور تحریک انصاف کے انتخابات جیت کر اقتدار سنبھالتے ہی فوج کے ساتھ ایک ایسے ٹکرائو کی صورت حال پیدا ہو جائے گی جس کے نتائج بہت سنگین ہوں گے۔ اب اگر لیول پلیئنگ فیلڈ کی بات کی جاتی ہے تو اُس صورتحال اور نتائج کے تدارک کے بارے میں بھی سوچا جانا چاہیے، جس کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے۔ اس لیے میری ذاتی رائے میں سب سے اہم کردار عمران خان اور تحریک انصاف کے رہنماوں کا ہی ہو سکتا ہے اور یہ بات میں 9 مئی کے بعد لگاتار کرتا رہا ہوں۔
عمران خان اور تحریک انصاف نے جو فوج مخالف نفرت اپنے ووٹروں، سپوٹروں میں پیدا کی اُسے ختم کرنے کیلئے کوئی مہم چلانا پڑے گی، اپنے سوشل میڈیا اور ملک سے باہر بیٹھے ہمدردوں اور دوستوں کو ایسے فوج مخالف گھٹیا پروپیگنڈا سے روکنا پڑے گا جس کیلئے اب شاید وقت بہت کم رہ گیا ہے۔ لیکن اصل سوال اب بھی یہ ہے کہ کیا عمران خان خود کو اور فوج اور فوجی قیادت کے مخالف بیانیہ کو بدلنے پر تیار ہیں؟ اگر نہیں تو پھر کیا شفاف انتخابات اور لیول پلیئنگ فیلڈ اُن کی جماعت کو مل سکتے ہیں؟ مجھے ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔
انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ
#Imran Khan#Pakistan#Pakistan Army#Pakistan establishment#Pakistan Politics#Pakistan Tehreek-e-Insaf#Politics#PTI#World
0 notes
Text
روایت ہے کہ ایک جنگل میں شیر چیف ایگزیکٹو تھا۔ ادھر ایک ننھی سی چیونٹی محنت مزدوری کیا کرتی تھی۔ صبح سویرے وہ ہنستی گاتی کام پر آتی اور فوراً کام پر لگ جاتی اور ڈھیر سا کام نمٹا دیتی۔ شیر یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ چیونٹی کسی قسم کی نگرانی اور راہنمائی کے بغیر ا��نا زیادہ کام کر رہی ہے اور پیداوار کے ڈھیر لگائے کھڑی ہے حالانکہ اسے بہت واجبی سی تنخواہ ملتی تھی۔ اس نے سوچا کہ اگر چیونٹی کسی قسم کی نگرانی کے بغیر اتنا کام کر رہی ہے تو اس کے سر پر ایک سپروائزر مقرر کر دیا جائے تو پھر وہ کتنا زیادہ کام کرے گی۔ یہ سوچ کر شیر نے ایک کاکروچ کی بطور سپروائزر تعیناتی کر دی جو اپنے وسیع تجربے اور بہترین رپورٹنگ کی وجہ سے مشہور تھا۔ کاکروچ نے چارج سنبھالتے ہی سب سے پہلے تو حاضری کا سسٹم بنایا۔ اس نے ایک مکڑی کو بطور سیکرٹری بھی تعینات کر دیا تاکہ وہ دفتری امور میں اس کی مددگار ہو اور اس کی رپورٹس ٹائپ کرنے کے علاوہ ان کی موزوں طریقے سے فائلنگ کرے اور ٹیلی فون بھی سنبھالے۔ شیر نے کاکروچ کی رپورٹیں دیکھیں تو بہت خوش ہوا۔ اس نے کاکروچ کو کہا کہ میاں یہ سب پڑھنا میرا بہت وقت لیتا ہے، ایسا کرو کہ گراف کی شکل میں ایگزیکٹو سمری بھی بنایا کرو جس میں پیداوار کی شرح اور ٹرینڈ بھی دکھائی دیں اور اسے ایک پریزنٹیشن کی شکل میں بھی ای میل کیا کرو۔ میں یہ پریزنٹیشن جنگل کے بورڈ کی میٹنگ میں بھی پیش کروں گا تاکہ ڈائریکٹروں کو بھی علم ہو کہ جنگل بہت ترقی کر رہا ہے۔ کاکروچ کو یہ سب کچھ کرنے کے لئے ایک کمپیوٹر اور لیزر پرنٹر خریدنا پڑا اور اس نے ایک مکھی کو بطور آئی ٹی ایکسپرٹ نوکری دے دی جو انہیں سنبھالے اور پریزینٹشن بنائے۔ دوسری طرف چیونٹی حاضریاں لگا لگا کر، کاکروچ کو رپورٹیں دے دے کر اور مکھی کو پریزنٹیشن کے لئے مواد فراہم کر کر کے اپنی جان سے بیزار ہونے لگی۔ اس کا زیادہ وقت اب کام کی بجائے میٹنگوں میں صرف ہوتا۔ اس کا دن کا چین اور رات کا آرام لٹ گیا اور وہ اپنے کام سے تنگ آنے لگی۔ دوسری طرف شیر کو جب پریزنٹیشن دیکھ دیکھ کر علم ہوا کہ چیونٹی کے ڈیپارٹمنٹ کی پیداوار بہت متاثر کن ہے تو اس نے سوچا کہ ڈیپارٹمنٹ کو بڑھایا جائے تاکہ جنگل مزید ترقی کرے۔ اس نے ایک جھینگر کو اس ڈپارٹمنٹ کا سربراہ بنا دیا جو مینیجمنٹ کے سامنے بہت اچھی پریزنٹیشن دینے اور اچھا بولنے کے لئے مشہور تھا۔ جھینگر نے آتے ہی سب سے پہلے اپنے دفتر کے لئے ایک نئے قالین اور آرام دہ کرسی کا آرڈر دیا تاکہ اس کے دفتر کی ایگزیکٹو لک بنے۔ جھینگر کو بھی ایک کمپیوٹر اور پرسنل اسسٹنٹ کی ضرورت تھی جو اس کے لئے کام کو ترتیب دے سکے اور اس کے لئے بجٹ کنٹرول کرنے اور پیداوار کو ترقی دینے کی کی حکمت عملی بنانے میں معاون ہو۔ اس نے اپنے پرانے آفس سے ایک لیڈی بگ کا تبادلہ اپنے اس دفتر میں کروا لیا۔ چیونٹی کا ڈپارٹمنٹ اب ایک افسردہ جگہ تھی جہاں کوئی نہیں ہنستا مسکراتا تھا اور معمولی بات پر دوسرے سے جھگڑنے لگتا تھا۔ یہ ماحول دیکھ کر جھینگر نے شیر کو قائل کر لیا کہ ڈپارٹمنٹ کا حال بہتر کرنے کے لئے کسی ماہر سے سٹڈی کروائی جائے۔ چیونٹی کے ڈپارٹمنٹ کے اخراجات اور آمدنی کا گوشوارہ دیکھ کر شیر نے یہ محسوس کیا کہ ڈپارٹمنٹ پیداوار دن بدن گرتی جا رہی ہے اور اخراجات دن بدن بڑھتے جا رہے ہیں اور بحیثیت مجموعی ڈپارٹمنٹ خسا��ے میں جا رہا ہے۔ شیر نے ایک الو کو ڈپارٹمنٹ کی سٹڈی پر مامور کیا جو بزنس ری انجینرنگ کا ایک ماہر مشہور کنسلٹنٹ تھا تاکہ وہ ڈپارٹمنٹ کا آڈٹ کرے، پیداوار کے پہلے سے بہت کم ہونے کی وجوہات کا پتہ چلائے اور صورت حال بہتر کرنے کے لئے مشورے دے۔ الو نے ڈپارٹمنٹ کے اہلکاروں کے انٹرویو کیے، کاکروچ کی رپورٹوں کے ڈھیر کا لفظ لفظ پڑھا، پیداوار کا عمل دیکھا اور تین مہینے میں دس جلدوں پر مشتمل اپنی رپورٹ شیر کو پیش کر دی جس میں کارکنوں کے رویے، کام میں دلچسپی، پیداواری عمل اور عملے کی تنخواہوں کا مبسوط جائزہ لیا اور والیم ٹین میں یہ نتیجہ نکالا کہ ڈپارٹمنٹ اس لئے خسارے میں جا رہا ہے کیونکہ ادھر ضرورت سے بہت زیادہ عملے کو نوکری دی گئی ہے۔ شیر نے ایک ہفتہ لگا کر رپورٹ پڑھی۔ اس کے بعد اس نے چیونٹی کو نوکری سے نکال دیا کیونکہ الو کی رپورٹ کے مطابق وہ اپنے کام میں کوئی خاص دلچسپی نہیں دکھا رہی تھی اور وہ فیلڈ میں کام کرنے کی بجائے دن بھر ڈپارٹمنٹ کے دوسرے اہلکاروں کے دفتروں میں بیٹھی رہتی تھی۔ اس کا رویہ بھی بہت زیادہ منفی اور سرد تھا جو دفتر کے ماحول کو بلاوجہ تلخ کر رہا تھا اور کاکروچ کی بہترین رپورٹنگ اور جھینگر کی بہترین موٹیویشنل سپیچز کے باوجود پہلے سے کم پروڈکشن کر رہی تھی
0 notes
Text
مودی کا امریکی دورہ : چین کے خلاف محاذ؟
انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی یوں تو امریکہ کے کئی بار دورے کر چکے ہیں اور ان کی صدر جو بائیڈن سے کئی بار ملاقاتیں بھی ہوئی ہیں لیکن ان کے موجودہ دورے کو بڑی اہمیت دی جا رہی ہے۔ ایک تو پہلی بار امریکہ نے ان کے اس دورے کو سفارتی طور پر سرکاری دورہ قرار دیا ہے جس میں مودی کا کانگریس کے دونوں ایوانوں سے خطاب، صدر کے ساتھ سرکاری عشائیہ اور معروف کمپنیوں کے سربراہان سے اہم ملاقات شامل تھی۔ دوسرا اس دورے کے پس پشت چین کا عالمی سطح پر بڑھتا اثر رسوخ ہے جس کو زائل کرنے میں امریکہ انڈیا کی شراکت داری کو لازمی تصور کر رہا ہے۔ پھر افغانستان میں دوسال قبل امریکی افواج کو طالبان کے ہاتھوں جس ہزیمت سے گزرنا پڑا ہے اس سے بائیڈن انتظامیہ ابھی تک سنبھل نہیں پائی اور نہ پاکستان چین دوستی کو لاکھ کوشش کے باوجود کم کر سکی ہے۔ چین اور روس کی بڑھتی قربت کے پیش نظر بھی امریکہ کے پاس انڈیا کے قریب آنے کے بغیر اور کوئی دوسرا راستہ بھی نہیں ہے۔ انڈیا کو بخوبی اندازہ ہے کہ ایشیا کے اس خطے کی سٹریٹیجک اہمیت کے مد نظر امریکہ یا یورپی ممالک اس کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ بدلے میں انڈیا کو لداخ اور اروناچل پردیش میں چین کی پیش قدمی کوروکنے میں امریکہ کی حمایت حاصل کرنا وقت کی ضرورت ہے۔
انڈیا امریکہ تعلقات کے ماہرین کہتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے رشتے سابق صدر بل کلنٹن کے زمانے سے کافی گہرے ہو گئے تھے جس کی بدولت دونوں ملکوں کے بیچ جوہری معاہدہ طے پایا تھا۔ جو بائیڈین نے اقتدار سنبھالتے ہی مودی کے ساتھ ملاقات کی اور مراسم بڑھائے۔ بعض ماہرین کے مطابق دونوں کے بیچ تعلقات میں پہلے اتنی گرم جوشی نہیں دیکھی گئی لیکن یوکرین پر روسی حملے کے نتیجے میں بائیڈن کو انڈیا کو قریب لانے میں پہل کرنی پڑی۔ دونوں کے بیچ اتحاد اپنی جگہ، مگر انڈین میڈیا نے مودی کے اس دورے کو جتنی اہمیت دی ہے اور جس طرح انہیں ایک عالمی رہنما کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے بقول مبصرین اس کا براہ راست تعلق اگلے سال انڈیا میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات سے ہے۔ حیدرآباد میں پولیٹیکل سائنس کے استاد رویندر راٹھے کہتے ہیں کہ ’اندرونی سطح پر مودی کی امیج کو کرناٹک کے ریاستی انتخابات میں شکست، بی بی سی کی 2002 کے فسادات پر بننے والی ڈاکومنٹری، کسانوں کے ملک گیر احتجاج اور اب منی پور کی سنگین صورت حال سے کافی دھچکہ لگا ہے، پھر جمہوریت اور آئین کو جس طرح سے پامال کیا جا رہا ہے امریکی دورے کی کوریج سے اس پر پردہ ڈالنے کا کام کیا جا رہا ہے۔‘
ایک سروے کے مطابق بی جے پی کے تقریبا 40 فیصد ووٹر سمجھتے ہیں کہ مودی جیسا لیڈر ہندوؤں کو پہلی بار نصیب ہوا ہے جنہوں نے قوم، قومیت اور عالمی سطح پر انڈیا کو ایک بڑی طاقت کا احساس دلاکر ہندوؤں کو بیدار کیا ہے۔ دوسری جانب کانگریس سمیت دوسری اپوزیشن جماعتیں مودی کو انڈیا کے سیکولرازم، جمہوریت اور آئین کے لیے شدید خطرہ تصور کر رہی ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ اور نیو یارک ٹائمز سمیت امریکی میڈیا اور عوامی نمائندوں نے سوالات اٹھائے ہیں کہ انڈیا میں مودی کے دور میں عیسائیوں سمیت اقلیتوں کے لیے انسانی حقوق کی پامالیوں کے جو نت نئے حالات پیدا کیے جا رہے ہیں اس پر بائیڈن انتظامیہ کو بات کرنی چاہیے خاموشی نہیں۔ امریکی کانگریس کے 70 سے زائد نمائندوں نے بائیڈن پر دباؤ برقرار رکھا کہ وہ اقلیتوں کے ساتھ ہونے والی مبینہ زیادتیوں پر مودی کی سرزنش کریں مگر اس کا کم امکان ہے کہ وہ کھلے طور پر اس کا اظہار کر سکیں گے۔ چین جو معاشی طور پر امریکہ سے سبقت حاصل کر رہا ہے، مودی کو اس کے خلاف اکسانے اور روس کے ساتھ دفاعی ضروریات کا متبادل تلاش کرنے پر بائیڈن انتظامیہ کی ترجیحات رہی ہے۔
روس یوکرین جنگ کے دوران گو کہ انڈیا پر روسی جار حیت کی مذمت کرنے پر دباؤ ڈالا گیا لیکن اس نے نہ صرف روس سے مزید رشتے استوار کیے بلکہ سستے داموں تیل خرید کر بعض یورپی ملکوں کو یہی ایندھن مہنگے داموں فروخت بھی کر دیا۔ اگر ا��ریکی اپنے مفادات کی خاطر مودی کو سرکاری اعزاز سے نواز رہے ہیں حالانکہ ماضی میں امریکہ آنے پر ان پر پابندی عائد تھی۔ اسی طرز پر مودی بھی اپنے مفادات کی خاطر جنرل موٹرز، ٹیسلا اور ٹوئٹر اوردوسری کمپنیوں کے مالکان سے ملاقات کے دوران مینو فیکچرنگ انڈسٹری کو انڈیا منتقل کرنے پر آمادہ کرنے آئے ہیں۔ کیا امریکہ نینو ٹیکنالوجی، طبی سائنس میں تحقیق، سائبر ٹیکنالوجی، ڈرونز اور جیٹ انجن پر انڈیا کے ساتھ شراکت داری پر راضی ہو سکتا ہے؟ انڈیا میں سیاسی اور سفارتی حلقے بڑی بےتابی سے اس کا انتظار کر رہے ہیں۔ دیکھنا ہو گا کہ امریکہ کی ریڈ کارپٹ بچھانے کے پیچھے واقعی سنجیدہ سفارتی تعلقات بڑھانا ہے یا صرف روس اور چین کے خلاف متحدہ محاذ قائم کرنا مقصود ہے۔
مودی کے اس دورے سے قبل امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن کے بیجنگ کے حالیہ دورے سے شکوک پیدا ہوئے ہیں جب انہوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے چین کی تائیوان پالیسی کا دفاع کرتے ہوئے سب کو حیران کر دیا۔ خیال ہے کہ بلنکن کے بیان کا مقصد مودی کا دراصل باور کرانا تھا کہ امریکہ چین کے ساتھ بھی دوستی کر سکتا ہے اگر وہ امریکی امیدوں پر پورا نہیں اترتے۔ رویندر راٹھے کہتے ہیں کہ ’ایک جانب اتر کھنڈ سے لے کر جنوبی سمندروں میں امریکی افواج انڈیا کے ساتھ فوجی مشقیں کرتی آ رہی ہے دوسری جانب چین جا کر اس کی ون چائنا پالیسی کی حمایت کرنا، یا تو امریکی خارجہ پالیسی بائیڈن کی طرح بڑھاپے کا شکار ہے یا پھر چین کے بڑھتے اثر رسوخ سے امریکہ بد حواسی سے گزر رہا ہے۔ مودی کے دورے سے تو اندرون انڈیا ووٹر دل بہلا سکتے ہیں مگر ایسا نہ ہو کہ پس پردہ اس کو افغانستان جیسا اڈہ بنانے کا منصوبہ ہو۔‘ امریکہ میں جہاں ایک طرف بی جے پی کے ہزاروں لوگوں نے مودی کے ساتھ یوگا اور دوسری محفلوں کا انعقاد کیا، وہیں بی جے پی مخالف انڈین، خالصتان کے حامی سکھ اور تحریک آزادیِ کشمیر کے ہزاروں افراد نے احتجاجی مظاہروں کا اہتمام بھی کیا تھا جس کے ویڈیوز سوشل میڈیا پر نظر آئے مگر انڈین میڈیا پر اس کا شائبہ بھی نظر نہیں آیا۔
نعیمہ احمد مہجور
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
1 note
·
View note
Text
اسٹاک ایکسچینج
’’مجھے بھی آج تک وجہ سمجھ نہیں آئی‘‘ اس نے سر کھجاتے ہوئے جواب دیا‘ میں نے دوبارہ پوچھا ’’لیکن کوئی نہ کوئی وجہ تو ضرور ہو گی‘ تم کام یابی کے کسی بھی فارمولے پر پورے نہیں اترتے‘ تعلیم واجبی‘ عقل اوسط درجے کی‘ کاروباری سینس نہ ہونے کے برابر‘ حلیہ اور پرسنیلٹی بھی بے جان اور سونے پر سہاگا تم اپنے کاروبار کو بھی وقت نہیں دیتے‘ ہفتہ ہفتہ دفتر نہیں جاتے لیکن اس کے باوجود تمہیں کبھی نقصان نہیں ہوا۔ سیلاب میں بھی سارے شہر کے گودام پانی میں ڈوب جاتے ہیں مگر تمہارے گودام میں پانی داخل نہیں ہوتا اور اگر داخل ہو جائے ��و یہ تمہارے مال کو چھوئے بغیر چپ چاپ نکل جاتا ہے‘ تم لوہا بیچنا شروع کر دو تو وہ چاندی کے برابر ہو جاتا ہے اور حتیٰ کہ تمہارے نلکے کا پانی بھی منرل واٹر ہے۔ آخر اس کے پیچھے سائنس کیا ہے؟‘‘ میری تقریر سن کر اس نے قہقہہ لگایا اور بولا ’’میں بھی اکثر اپنے آپ سے یہ پوچھتا ہوں لیکن یقین کرو مجھے زندگی میں ایک واقعے کے سوا کوئی نیکی‘ اپنی کوئی صفت نظر نہیں آتی‘ شاید اللہ کے کرم کی یہی وجہ ہو‘‘ وہ رکا اور بولا ’’میں نے نویں کلاس کے بعد اسکول چھوڑ دیا تھا‘ میں شروع میں والد کے ساتھ فروٹ کی ریڑھی لگانے لگا‘ والد کا انتقال ہو گیا تو میں ایک آڑھتی کی دکان پر منشی بھرتی ہو گیا۔
زندگی بے مقصد‘ بے رنگ اور الجھی ہوئی تھی‘ دور دور تک کوئی امید نظر نہیں آتی تھی لیکن پھر ایک عجیب واقعہ پیش آیا‘ میں ایک دن اپنے ایک دوست کی کریانے کی دکان پر بیٹھا ہوا تھا‘ وہاں درمیانی عمر کی ایک خاتون آئی‘ اسے دیکھتے ہی میرا دوست اس کے ساتھ بدتمیزی کرنے لگا‘ وہ اس سے پرانے پیسے مانگ رہا تھا جب کہ وہ مزید سودے کے لیے منتیں کر رہی تھی۔ عورت مجبور دکھائی دے رہی تھی جب کہ میرا دوست اس کے ساتھ غیر ضروری حد تک بدتمیزی کر رہا تھا‘ میں ان کی تکرار سنتا رہا‘ خاتون جب مایوس ہو کر چلی گئی تو میں نے اپنے دوست سے ماجرا پوچھا‘ اس کا جواب تھا‘ یہ بیوہ ہے‘ اس کا خاوند سعودی عرب میں کام کرتا تھا‘ خاندان خوش حال تھا لیکن پھر خاوند روڈ ایکسیڈنٹ میں فوت ہو گیا اور اس کی زمین جائیداد پر اس کے دیوروں نے قبضہ کر لیا۔ اس کے پاس اب چھوٹے سے گھر کے علاوہ کچھ نہیں‘ دو بچیاں ہیں‘ وہ اسکول جاتی ہیں‘ یہ ان پڑھ اور بے ہنر عورت ہے‘ اس کا ذریعہ روزگار کوئی نہیں‘ سعودی عرب سے دو چار ماہ بعد خاوند کی تھوڑی سی پنشن آ جاتی تھی اور یہ اس میں گزارہ کر لیتی تھی مگر اب وہ بھی رک گئی ہے‘ میرے والد صاحب اسے ادھار راشن دے دیتے تھے لیکن یہ بھی اب تھک گئے ہیں لہٰذا میں جب بھی اسے دیکھتا ہوں تو میں اس سے اپنے پیسے مانگ لیتا ہوں‘ یہ ہمارا روز کا تماشا ہے‘ تم چھوڑو‘ یہ بتاؤ تم آج کل کیا کر رہے ہو؟‘‘ وہ رکا اور ہنس کر بولا ’’یہ ایک عام سی کہانی تھی‘ ایسے کردار ہر شہر‘ ہر قصبے میں کروڑوں کی تعداد میں ہیں۔
آپ کسی کریانہ اسٹور پر چلے جائیں‘ آپ کو ایسے بیسیوں لوگ مل جائیں گے مگر پتا نہیں مجھے کیا ہوا؟ میں نے اپنے دوست سے اس کا پتا لیا‘ اس کے خاوند کا نام پوچھا‘ بازار گیا‘ دو ہفتوں کے لیے کھانے پینے کا سامان خریدا‘ بوری بنائی اور جا کر اس کے دروازے پر دستک دے دی‘ وہ اپنی چادر سنبھالتے ہوئے باہر آ گئی‘ پانچ اور سات سال کی دو بچیاں بھی اس کے ساتھ آ کر کھڑی ہو گئیں‘ میں نے سودا ان کی دہلیز پر رکھا اور ادب سے عرض کیا‘ میرے والد ارشد صاحب مرحوم کے دوست تھے۔ انھوں نے آپ کے خاوند سے کچھ رقم ادھار لی تھی‘ وہ مجھے قرض کی ادائیگی کا حکم دے گئے ہیں‘ میرے حالات سردست اچھے نہیں ہیں اور میں یہ رقم یک مشت ادا نہیں کر سکتا‘ میری تنخواہ کم ہے‘ آپ اگر مجھے اجازت دیں تو میں آپ کو پندرہ دن بعد گھر کا سودا دے دیا کروں گا‘ اس سے میرا قرض بھی اتر جائے گا اور آپ کے گھر کا نظام بھی چلتا رہے گا‘ وہ عورت اور اس کی بچیاں حیرت سے میری طرف دیکھنے لگیں‘ میں نے انھیں سلام کیا اور واپس آ گیا‘ میں اس کے بعد انھیں ہر پندرہ دن بعد راشن پہنچانے لگا‘‘ وہ خاموش ہو گیا۔
میں نے اس سے پوچھا’’تم خود غریب تھے‘ تم ان کے راشن کے لیے رقم کہاں سے لاتے تھے؟‘‘ اس نے قہقہہ لگایا اور بولا ’’تم شاید یقین نہیں کرو گے میں نے اپنی جیب سے صرف وہی سودا خریدا تھا‘ پندرہ دن بعد ان کا سودا فری ہو چکا تھا‘‘ وہ خاموش ہو گیا‘ میں نے پوچھا ’’کیسے؟‘‘ وہ بولا ’’میں اگلے دن دکان پر گیا تو میرے مالک نے مجھے مشورہ دیا‘ ہماری دکان کا تھڑا خالی ہوتا ہے۔ تمہارا کام شام کے وقت اسٹارٹ ہوتا ہے اور وہ بھی تم گھنٹے میں ختم کر دیتے ہو اور سارا دن فارغ بیٹھے رہتے ہو‘ میں تمہیں چاول اور دالیں دے دیتا ہوں‘ تم یہ تھڑے پر رکھو اور پانچ پانچ‘ دس دس کلو بیچ دو‘ تمہیں اس سے فائدہ ہو جائے گا‘ غلہ منڈی میں تھوک کا کام ہوتا تھا‘ ہمارے پاس پانچ دس کلو کے بے شمار خریدار آتے تھے لیکن ہم ان سے معذرت کر لیتے تھے‘ مجھے یہ آئیڈیا اچھا لگا‘ میں اپنے مالک سے دالیں‘ چاول اور چینی خریدتا تھا۔ اس کے پانچ پانچ اور دس دس کلو کے پیکٹ بناتا تھا اور کھڑے کھڑے بیچ دیتا تھا‘ آپ یقین کریں دو ہفتوں میں میری آمدنی چار پانچ گنا بڑھ گئی اور میں پندرہ دن بعد جب اس بیوہ کے گھر گیا تو میرے پاس سودا بھی ڈبل تھا اور میری جیب بھی ٹھیک ٹھاک بھاری تھی‘ میں نے ایک ماہ بعد اسے بچیوں کی فیس‘ کپڑوں اور جوتوں کے لیے بھی رقم دینا شروع کر دی‘ اللہ نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور میں دو سال بعد اس دکان کا مالک تھا جس پر میں منشی ہوتا تھا‘ وہ دکان بعدازاں پورے کمپلیکس میں تبدیل ہو گئی اور میں دکان دار سے سیٹھ بن گیا۔
میں منڈیوں میں اجناس سپلائی کرنے لگا اور آج میں تمہارے سامنے ہوں‘ مجھے کبھی نقصان نہیں ہوا‘ کیوں نہیں ہوا؟ شاید اس کی وجہ وہ عورت اور اس کی دو بچیاں تھیں‘ وہ بچیاں بڑی ہوئیں‘ ایک ایم بی بی ایس کر کے ڈاکٹر بن گئی‘ دوسری نے بی اے کے بعد بیوٹی پارلر بنا لیا‘ وہ اب چودہ پندرہ سیلون چلا رہی ہے جب کہ آنٹی ایک یتیم خانہ اور بیوہ گھر چلا رہی ہے‘‘ وہ ایک بار پھر رک گیا‘ میں نے اس سے پوچھا ’’تم نے اس کے بعد کیا کیا؟‘‘ وہ ہنس کر بولا ’’مجھے ��یکی کا چسکا پڑ گیا‘ میں نے اس کے بعد اس جیسے گھرانوں کو راشن دینا اور فیملیز کی مدد کرنا شروع کر دیا۔ میں پہلے اپنی کمائی کا دس فیصد اللہ کی راہ میں خرچ کرتا تھا اور یہ اب آہستہ آہستہ بڑھتے بڑھتے 60 فیصد ہو چکا ہے‘ میرے منافع کا 60 فیصد اللہ کی راہ پر خرچ ہوتا ہے‘ میں اپنی ذات کے لیے صرف 40 فیصد رکھتا ہوں لیکن یہ 40 فیصد بھی بے انتہا ہے۔ میں روز صبح اٹھتا ہوں اور آنٹی کو دعا دیتا ہوں‘ وہ اگر اس دن میری زندگی میں نہ آتی تو میں شاید آج بھی کسی دکان پر منشی ہوتا اور سات آٹھ ہزار روپے تنخواہ لے رہا ہوتا‘ وہ آئی اور اس نے مجھے اس راستے پر ڈال دیا جس پر کام یابی اور خوش حالی کے پُل ہیں‘‘ وہ خاموش ہو گیا۔
مجھے یقین ہے آپ کو یہ کہانی فرضی لگے گی اور آپ یہ سوچ رہے ہوں گے میرے پاس اس قسم کی کہانیاں گھڑنے کے علاوہ کوئی کام نہیں لیکن آپ یقین کریں یہ کہانی سو فیصد سچی ہے اور یہ صرف ایک کہانی نہیں ہے‘ دنیا میں ایسی لاکھوں کروڑوں مثالیں موجود ہیں‘ میں اپنے ملک میں ایسے درجنوں لوگوں کو جانتا ہوں جنھوں نے اللہ سے تجارت کی اور یہ خود بھی ارب پتی ہو گئے اور ان کی وجہ سے ہزاروں لوگوں کے لیے بھی زندگی آسان ہو گئی۔ آپ کو اگر یقین نہ آئے تو آپ بھی زندگی میں ایک بار ایسا کر کے دیکھ لیں‘ آپ اٹھیں اور کسی بیوہ‘ کسی یتیم کا ہاتھ پکڑ لیں‘ آپ کسی طالب علم کی تعلیم کا خرچہ اٹھا لیں اور آپ اس کے بعد اللہ کا کرم دیکھیں‘ آپ کو اگر اس کے بعد خوش حالی‘ مسرت اور کام یابی نصیب نہ ہو تو آپ اپنا نقصان مجھ سے وصول کر لیجیے گا‘ آپ یقین کریں دنیا میں صرف ایک ہی تجارت ہے اور ہر قسم کے نقصان سے محفوظ ہے۔ دنیا میں صرف ایک اسٹاک ایکسچینج ہے جس کا کاروبار کبھی بند نہیں ہوتا‘ جو کبھی مندے کا شکار نہیں ہوتی‘ جو کبھی کریش نہیں ہوتی اور وہ ہے اللہ کی اسٹاک ایکسچینج لہٰذا میرا آپ کو مشورہ ہے آپ ایک بار اس اسٹاک ایکسچینج میں کھاتا کھول کر دیکھیں‘ آپ کو تجارت کا مزہ آ جائے گا۔
جاوید چوہدری
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
Text
کمٹہ: جھوٹ ہی بی جےپی کے گھر کا بھگوان ہے: بی جے پی پرپلٹ وارکرنے اُترگئے بی کے ہری پرساد
کمٹہ :17؍ فروری (ایس اؤ نیوز)بی جے پی لیڈران آنے والے انتخابات کو لے کر جس طرح ہندو۔مسلم کرنے میں مصروف نظر آرہےہیں اور بار بار ٹیپو اور ساورکر کا نام لے کر مسلمانوں اور کانگریس کونشانہ بنانے میں لگے ہیں، پلٹ وار کرنے اب کانگریس لیڈر بی کے ہری پرساد میدان میں مورچہ سنبھالتے نظر آرہے ہیں۔ حزب مخالف لیڈر بی کے ہری پرساد نے بی جے پی نشانہ سادھتے ہوئے کہا کہ جھوٹ ہی بی جےپی کےگھر کا بھگوان ہے۔…
View On WordPress
0 notes
Text
دیہات سے اٹھ کر کابل آنے والے طالبان کی زندگی کیسے بدلی؟
طالبان کے اقتدار سنبھالتے ہی ان کے بہت سے جنگجو دیہات سے نکل کر افغانستان کے بڑے شہروں میں منتقل ہو گئے۔ ان میں سے اکثریت زندگی میں پہلی مرتبہ کسی بڑے شہر اور اس کی ہنگامہ خیز زندگی کا سامنا کر رہی تھی۔ مہمان مصنف سباوون صمیم نے طالبان کے ایسے ہی پانچ ارکان کا مفصل انٹرویو کیا جو دیہی علاقوں کو چھوڑ کر اپنے خاندان سے دور کابل میں رہائش پذیر ہیں۔ انہیں کابل اور یہاں کے لوگ کیسے لگے؟ باقاعدہ…
View On WordPress
0 notes
Text
دیہات سے اٹھ کر کابل آنے والے طالبان کی زندگی کیسے بدلی؟
طالبان کے اقتدار سنبھالتے ہی ان کے بہت سے جنگجو دیہات سے نکل کر افغانستان کے بڑے شہروں میں منتقل ہو گئے۔ ان میں سے اکثریت زندگی میں پہلی مرتبہ کسی بڑے شہر اور اس کی ہنگامہ خیز زندگی کا سامنا کر رہی تھی۔ مہمان مصنف سباوون صمیم نے طالبان کے ایسے ہی پانچ ارکان کا مفصل انٹرویو کیا جو دیہی علاقوں کو چھوڑ کر اپنے خاندان سے دور کابل میں رہائش پذیر ہیں۔ انہیں کابل اور یہاں کے لوگ کیسے لگے؟ باقاعدہ…
View On WordPress
0 notes
Text
فواد چوہدری کے قلمدان سنبھالتے ہی وزارتِ اطلاعات کا بڑا فیصلہ! ملک میں نئے ’ انگریزی چینل ‘ کی بنیاد رکھنے کا اعلان کر دیا گیا
فواد چوہدری کے قلمدان سنبھالتے ہی وزارتِ اطلاعات کا بڑا فیصلہ! ملک میں نئے ’ انگریزی چینل ‘ کی بنیاد رکھنے کا اعلان کر دیا گیا
اسلام آباد (نیوز ڈیسک )وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات چوہدری فواد حسین نے کہا ہے کہ وزارت اطلاعات کے ذیلی اداروں میں اصلاحات لانے کا عمل تیزی سے مکمل کیا جائے گا، پی ٹی وی کو ایچ ڈی، اے پی پی کو ڈیجیٹل نیوز، پی آئی ڈی کے اشتہارات کے عمل کو مزید بہتر اور پیپر لیس بنایا جائے گا، پی ٹی وی انگلش چینل کی جلد بنیاد رکھی جائے گی۔ وفاقی وزیر اطلاعات چوہدری فواد حسین نے مستقبل میں وزارت اطلاعات نشریات اور اس…
View On WordPress
#اطلاعات#اعلان#انگریزی#بڑا#بنیاد#چوہدری#چینل#دیا#رکھنے#سنبھالتے#فواد#فیصلہ#قلمدان#گیا#ملک#میں#نئے#وزارت
0 notes
Text
اعلیٰ تعلیم، مشاورت کا فقدان اور چیئرمین ایچ ای سی کی برطرفی
تحریر: پروفیسر ڈاکٹر چوہدری عبدالرحمان
چیئرمین ایپ سپ
دنیا کی کسی بھی قوم کا مستقبل جاننا ہو تواس کے معیارتعلیم کوجانچ لیں۔ تعلیم کو ترجیح بنانے والی اقوام نے زمانے میں اپنا لوہا منوایا ہے لیکن جہاں جہاں تعلیم کو پس پشت ڈالا گیا وہاں وہاں زوال ان قوموں کامقدر ہوتا چلا گیا اور ہمارے ہاں بقول حکیم الامت کچھ یوں ہوا کہ "وائے ناکامی، متاع کارواں جاتا رہا، کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا"۔ اعلیٰ تعلیم کا شعبہ کسی بھی قوم کے مستقبل اورملک کی معیشت کی مضبوطی کی حقیقی بنیاد ہوتا ہے لیکن جب بھی اس شعبے کو تجربات اورمفادات کی بھینٹ چڑھایا گیا تو نہ صرف یہ شعبہ ڈوبا بلکہ اچھے مستقبل کی امید بھی ڈوبی اوراُس ملک کی معیشت بھی دریابرد ہو گئی۔ وطن عزیز میں بھی ایک عرصے سے اعلیٰ تعلیم کا شعبہ حکومتی و غیرحکومتی رویوں کی وجہ سے آزمائشوں کے نرغے میں ہے۔ 2002 سے 2008 کے چھ سال وہ ہیں جب پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کا فروغ اپنے عروج پر تھا۔ یہ وہ دورتھا جب 2002 میں یونیورسٹی گرانٹ کمیشن سے ہائرایجوکیشن کمیشن کا قیام عمل میں لایا گیا اور ڈاکٹرعطاءالرحمان اس کے پہلے بانی چیئرمین تعینات کئے گئے۔ سابق صدر جنرل (ر) پرویزمشرف کے ملکی سیاست میں کردار سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن یو جی سی سے ایچ ای سی کا قیام ایک ایسا درست فیصلہ تھا جس کے ذریعے ہم اپنی نوجوان نسل کے لوہے کو بہترین تعلیم کے مواقع کے ساتھ چاندی، تحقیق و جستجو کی لگن کے فروغ سے سونا بنا سکتے تھے، اوراب بھی بنا سکتے ہیں، لیکن اس کے لئے شرط صرف ایک تھی کہ ایچ ای سی کو اسی طرح چلایا جاتا جس طرح بانی چئیرمین اور اس وقت کی حکومت نے لگن، انصاف اورمیرٹ کے ساتھ چلایا۔ ڈاکٹرعطاءالرحمان کے دورمیں یونیورسٹیوں کے بجٹ میں گرانقدراضافہ ہوا، بہت سی نجی جامعات قائم ہوئیں اوران میں تعلیم وتحقیق کی ثقافت نے قابل فخر،پرشکوہ اورشاندار اندازمیں جنم لیا۔ سرکاری جامعات ہوں یا نجی سب کے لئے ایک معیار قائم کیا گیا، اعلیٰ تعلیم کے فروغ کےلئے نئے نئے مواقع پیدا کئے گئے۔
وقت گزرا حکومت بدلی یا شائد ”غیرجمہوری“ حکومت بدلی تو پیپلزپارٹی کا دورآیا، صوبوں کو خود مختاری ملی ،18 ویں ترمیم کی منظوری ہوئی اور ہائرایجوکیشن کے معاملات میں وفاق اور صوبوں میں کھینچاتانی شروع ہوگئی۔ صوبوں کے ہائرایجوکیشن کو دیکھنے والے محکمہ جات اور ان کے کلرک مافیا نے یونیورسٹیوں کو سونے کی چڑیا سمجھتے ہوئے دیہاڑیاں لگانے کی روش شروع کر دی۔ نہ صرف نجی اداروں بلکہ سرکاری یونیورسٹیوں کے سربراہان اور افسران کو بھی اپنے لامحدود اختیارات کے ذریعے بلیک میل کرکے لمبا مال بنایا جاتا رہا جس کی اعلی تعلیم کی تاریخ گواہ اوررکی ہوئی ہزاروں فائلیں ثبوت ہیں۔ علت کسی بھی چیزکی ہواسے اچھا نہیں کہا جا سکتا اور اس کی تباہ کاریوں سے بچنا بھی آسان نہیں۔ رشوت خوری کی علت نے بھی ادارے تباہ کئے اور تاحال یہ تباہی جاری ہے۔ ملک بھرکی نجی یونیورسٹیاں اس عذاب کا کچھ زیادہ ہی شکار رہی ہیں حالانکہ اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں نجی یونیورسٹیاں پچاس فیصد سے بھی زائد کی اسٹیک ہولڈرز ہیں۔ اگر یہ نہ ہوتیں تو پچاس فیصد پاکستانی نوجوان ان پڑھ رہ جائے جس کے ملکی معیشت پر کتنے بھیانک اثرات پڑ سکتے ہیں شائد اس کا سوچ کربھی ایک محب وطن پاکستانی کانپ جائے، آپ آج کے پاکستان میں خدمات اور پیداوار کے شعبے کی گراس نیشنل پراڈکٹ میں ان نوجوانوں کا کردار کس طرح نظرانداز کرسکتے ہیں جو ان پرائیویٹ یونیورسٹیوں سے پڑھ کر میدان عمل میں آیا مگر ملک و قوم کی ترقی کی نقیب یہی نجی یونیورسٹیاں بارہ بارہ سال تک اپنے کیسز کی منظوری کے لئے دردرکی ٹھوکریں کھاتی ہیں لیکن انکے کیسز کی فائلیں کبھی ایک دفترتوکبھی دوسرے دفتر، اس دوران اگر فائل کو پہیے نہ لگوائیں اورمیرٹ کی پاسداری کا بھرم لئے یہ امید لگائے بیٹھے رہیں کہ آج نہیں تو کل ان کو منظوری مل جائے گی تو یہ امید کبھی پوری نہیں ہوتی۔
نجی یونیورسٹیوں کے مسائل جب حد سے بڑھ گئے اور دوردور تک ان کا حل نظر نہ آیا تو 2020 کے شروع میں ملک بھر کی نجی جامعات نے ایسوسی ایشن آف پرائیویٹ سیکٹر یونیورسٹیز پاکستان (ایپ سپ) کے پلیٹ فارم سے ایک فورم تشکیل دیا تا کہ اپنے جائز مسائل کے حل کےلئے مشترکہ جدو جہد کی جائے۔ راقم الحروف کے کندھوں پر اس پلیٹ فارم کے ذریعے ہائیرایجوکیشن کمیشن کی منظورشدہ 86 جامعات ( اور ان کے 31 سب کیمپسز) کی ذمہ داری ڈالی گئی۔ ذمہ داری سنبھالتے ہی 'ایپ سپ' نے اپنا چارٹرآف ڈیمانڈ حکومت کے سامنے پیش کیا جس کا اہم ترین نکتہ یہ تھا کہ پچاس فیصد کے سٹیک ہولڈر نجی سیکٹرسے اس کی زندگی اور موت کے فیصلوں میں مشاورت کی جائے، اس شعبے کو بھیڑبکریوں کا ریوڑ نہ سمجھا جائے جس نے اربوں اورکھربوں روپوں کی سرمایہ کاری کررکھی ہے اور قوم کے شاندار مسقبل کے خواب اور تعمیر میں ریاست کا برابر کا شریک کار اور حصے دار بن چکا ہے۔ اس کے علاوہ حکومت سے یہ اپیل کی گئی کہ سالہاسال مختلف محکموں اور دفاترمیں چکر کاٹنے والے کیسز کو ایک چھت فراہم کی جائے یعنی ایک بے معنی، فضول اور بے کار مشق جیسے میکانزم کی بجائے ون ونڈو آپریشن کی سہولت فراہم کی جائے۔ ایسی پالیسیوں کا خاتمہ کیا جائے جس سے تحقیق کا کلچر فروغ پانے کی بجائے زوال پذیر ہورہا ہے۔ مستحق طلباء کے لئے خصوصی گرانٹ نجی یونیورسٹیوں کو بھی دی جائے تا کہ وہ اگر کسی نجی یونیورسٹی میں پڑھنا چاہتے ہیں تو پڑھ سکیں۔ نجی یونیورسٹیوں کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے حکومت انکی سرپرستی کرے، تعلیم کےفروغ کے مقدس مشن میں اپنا ساتھی ، دوست اور مددگار سمجھے نہ کہ مد مقابل۔ منظوریوں کے کیسز سالہا سال سے سرکاری دفاتر میں پھنسے ہوں اور اس تاخیرکی سزا بھی نجی یونیورسٹیوں کو دی جائے یہ کہاں کا انصاف ہے، ایسا نہیں ہونا چاہئیے۔ سرکاری کی طرح نجی یونیورسٹیوں کی خود مختاری کا خیال بھی رکھا جائے،انہیں ملک کی بہتری کے لئے فیصلہ سازی کا اختیار دیا جائے، ایچ ای سی نجی جامعات کو ریسرچ، ٹریول، کانفرنس، ورکشاپس اور گرانٹس میں یکساں اورمساوی مواقع فراہم کرے۔ کئی کئی سال سے حل طلب مسائل نمٹانے کےلئے کمیٹیاں تشکیل دی جائیں جن میں سٹیک ہولڈرز کو بھی شامل کیا جائے۔
حکومتی سطح پہ ایپ سپ کی اپیل پر فوری طور پر بہت اچھا رسپانس موصول ہوا اور پنجاب کے وزیر ہائر ایجوکیشن راجا یاسر ہمایوں نے ہر ایشو پرمعاونت کی یقین دہانی کرائی اورمشاورتی کمیٹیاں بھی بنا دی گئیں.گورنرپنجاب چوہدری محمد سرورکا رویہ بھی مشفقانہ اورہمدردانہ رہا،انہوں نے پرائیویٹ یونیورسٹیوں کے مسائل کو سمجھا اور حکم دیا کہ کوئی بھی فائل ایک ہفتے سے زیادہ نہ روکی جائے مگرایک لمبا سانس لینے کے بعد اور افسوس کے ساتھ کہنے دیجئے کہ ان تمام کے باوجود پرائیویٹ سیکٹراسی کلرک مافیا کے نرغے میں ہے جو مافیا اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبائی خود مختاری کے اوائل میں نیا نیا پنپا تھا۔ مافیا کی جرات اور ہمت دیکھئے کہ وہ نیک جذبات اور مثبت ہدایات ردی کی ٹوکری کی نذر کر دی گئیں یوں ہمیں نئے پاکستان میں بھی ان رویوں، حربوں اورمشکلات کا سامنا ہے جنہیں جدید ریاستیں صدیوں نہیں توعشروں پہلے ضرور متروک قرار دے چکی ہیں، خیرباد کہہ چکی ہیں۔
حالیہ دنوں ہائرایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین کو تبدیل کیا گیا ہے، ان کی تبدیلی کے پیچھے کیاعوامل کارفرما ہیں ان سے درکنارحکومت سے درخواست کی جاتی ہے کہ جو بھی نیا چیئرمین لگایا جائے اسے وطن عزیز کی تعلیمی ضروریات، مستقبل کے تقاضوں کے ساتھ ساتھ اس وقت درپیش تلخ زمینی حقائق کا علم ضرور ہو، جن کا اوپر ذکر کیا گیا۔ ون مین شو کی بجائے مشاورت پریقین رکھنے والا ہو۔ مطلق العنان بننے کی بجائے سب کو ساتھ لے کر چلنے والا ہو۔ ڈاکٹر طارق بنوری صاحب بھی اگر مشاورت سے فیصلے کرتے تو انکی کارکردگی کم ازکم اتنی تسلی بخش ضرور ہوتی کہ اگر حکومت انہیں عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ بھی کرتی تو اس طرح کبھی نہ کرتی جس سے رسوائی اٹھانا پڑتی۔
#superior university#chairman abdul rehman#urdu#blog#new blog#blogger#writer#corruption#politics#education system#higher education#hec
3 notes
·
View notes
Text
ڈاکٹر اجمل ساوند کو مرنا ہی تھا
نیٹ فلیکس کی ڈاکومینٹری ’’ہماری کائنات‘‘ دیکھنے سے معلوم ہوا کہ آسٹریلیا کی گریٹ بیرئیر ریف کے طویل سفید ریتلے ساحل پر سبز دھاری دار کچھوے ہزاروں کی تعداد میں ایک مخصوص موسم میں خونی مچھلیوں اور شکاری پرندوں سے بچتے بچاتے آتے ہیں اور ہزاروں انڈے ریت میں دبا کے پھر نیلگوں سمندر کی گہرائیوں میں اتر جاتے ہیں۔ سورج کی گرمی سے ریت میں دبے انڈوں سے نوزائیدہ بچے نکل کے جیسے ہی سمندر کی طرف دوڑ پڑتے ہیں تو فضا میں منڈلاتے بھوکے پرندے اور ساحل سے ذرا پرے منتظر بڑی مچھلیاں ان پر ایک ساتھ یلغار کر دیتے ہیں۔ ہزاروں نوزائیدہ کچھوؤں میں سے بمشکل چار پانچ ہی سمندر میں اترنے کے بعد زندہ رہتے ہیں اور ان میں سے بھی بہت کم طبعی عمر کو پہنچ پاتے ہیں۔ ہزاروں میں سے چار پانچ بچ جانے والے کئی کئی ہزار کلو میٹر تک سمندر چھاننے اور خطرات سے آنکھ مچولی میں ایک عمر گذارنے کے بعد دوبارہ انڈوں کا ذخیرہ پیٹ میں دبائے اپنی جنم بھومی کی جانب واپسی کا سفر شروع کرتے ہیں تاکہ یہ انڈے اسی ریت میں دبا سکیں جس کی حدت سے انھوں نے کئی سال پہلے جنم لیا تھا۔ یہ سلسلہ لاکھوں برس سے اسی طرح چل رہا ہے اور چلتا رہے گا۔
جب مجھے ڈاکٹر اجمل ساوند کے قتل کی اطلاع ملی تو یہی کہانی یاد آ گئی۔ کتنی مشکل سے قبائلی ریت میں دبے ہزاروں انڈوں میں سے اجمل ساوند جیسے بچے نکلتے ہیں اور انھیں انتقام و جہالت و ذہنی پسماندگی و محرومی کے خمیر سے پیدا ہونے والے پرندے، شارکیں اور وہیل مچھلیاں چٹ کر جاتی ہیں۔ ہزاروں میں سے بمشکل پانچ دس بچے بچیاں آگے بڑھ پاتے ہیں اور ان میں سے بھی آدھے کسی حادثے یا غیر طبعی موت یا انتقام کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ مگر جو بچ جاتے ہیں وہ جبلت کے ہاتھوں مجبور ہو کے دوبارہ اپنی امنگوں کے انڈے لے کر اسی ریت کی طرف دوڑتے ہیں جس ریت سے وہ جنمے تھے۔ کشمور ، جیکب آباد ، شکار پور ، گھوٹکی ، سکھر ، لاڑکانہ یا شمالی سندھ کے دیگر اضلاع یا آس پاس کے اور اضلاع۔ شاید ہی کوئی قبیلہ دعویٰ کر سکے کہ اس کی کسی دوسرے قبیلے سے کبھی دشمنی نہ رہی ہو اور زن، زر، زمین اور انا کے منحوس چکر نے اس کے بچے نہ کھائے ہوں۔ لگ بھگ پندرہ برس قبل مجھے خیرپور کی شاہ عبداللطیف یونیورسٹی میں ’’ غیرت کے کاروبار‘‘ پر بی بی سی اور یونیورسٹی کے مشترکہ سیمینار میں شرکت کا موقع ملا۔ زیادہ تر لڑکے لڑکیاں مقامی یا آس پاس کے اضلاع کے تھے۔
یہ سب بچے مجھے ان نوزائیدہ کچھوؤں جیسے لگے جو آدم خور پرندوں اور جانوروں سے بچ کے علم کے سمندر میں اپنی شناخت ڈھو��ڈنے کے لالچ میں غوطہ زن ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ میزبانوں نے ایک درمیانے درجے کے قبائلی سردار کو بھی اس سیمینار میں بطور مرکزی مہمان مدعو کیا تاکہ کاروکاری ، سنگ چٹی ( تاوان میں لڑکیوں کو دینے کا رواج )، جرگہ، فیصلہ، بدلہ۔ ان سب کی فارسی سمجھ سکیں۔ سردار صاحب کو لڑکوں لڑکیوں نے گھیر لیا اور وہ وہ سوالات داغے کہ جنھیں اٹھانے کی جرات صرف جوان خون ہی کر سکتا تھا۔ سردار صاحب نے تسلیم کیا کہ یہ سب جہالت ہے جس کی آج کے زمانے میں کوئی گنجائش نہیں ہے اور یہ خونی گرداب پوری پوری نسلیں نگل رہا ہے مگر بقول سردار صاحب یہ رواج ، دشمنیاں ، غیرت کا جدی پشتی تصور اگلی نسل میں بھی چلے گا۔ بھلے ایک عام قبائلی لڑکا اور لڑکی کتنا بھی پڑھ لکھ جائے۔ بھلے سردار انگوٹھا چھاپ بھی ہو مگر رہے گا وہ سردار۔ بھلے اس کا بیٹا اور پوتا آکسفورڈ سے بھی پڑھ کے آ جائے۔لیکن جب اپنے گاؤں آئے گا اور گدی پر بیٹھے گا تو روشن خیالی شہر میں ہی چھوڑ کے آنا پڑے گا۔ ورنہ ماحول اسے اور اس کی سرداری کھا جائے گا۔ اگر سب کچھ ٹھیک ہو گیا اور ویسے ہی ٹھیک ہو گیا جیسا آپ چاہتے ہو تو پھر سردار کو کون پوچھے گا۔
ڈاکٹر اجمل ساوند یا اس جیسوں کو ہوش سنبھالتے ہی اندازہ ہو جاتا ہو گا کہ انھیں انیسویں صدی پار کر کے بیسویں اور پھر اکیسویں صدی میں صرف اپنے ہی بل بوتے پر گھپ اندھیروں کو چیرتے ہوئے آگے جانا ہے۔ ڈاکٹر اجمل جب کیڈٹ کالج لاڑکانہ میں داخل ہوا ہو گا، جب مہران انجینئرنگ یونیورسٹی میں اپنا مستقبل کات رہا ہو گا، جب شاہ عنائیت جھوکی اور لطیف ، چومسکی اور ایڈورڈ گبن کو پڑھ رہا ہوگا۔ جب پیرس کی ڈیکارت یونیورسٹی میں مصنوعی ذہانت کے جن کو قابو میں لا کے اسے ڈاکٹریٹ کا لباس پہنا رہا ہو گا۔ اجمل جب مغرب سے حاصل کردہ سائنسی زاویہ نظر اپنے اندر سمو کر اکیسویں صدی سے واپس انیسویں صدی میں چھلانگ لگانے کے لیے ذہنی طور پر تیار ہو رہا ہو گا۔ جب اپنے اردگرد کے چھوٹے چوٹے اذہان کو جگنو بنانے کے خبط میں مبتلا ہو کر واپس اپنی جنم بھومی کی طرف لوٹا ہو گا اور آئی بی اے سکھر میں بیٹھ کر اس دھوکے میں مبتلا ہوا ہو گا کہ اسے بھلا کون مارے گا ؟ اسے کون کسی اور کی دشمنی کی مشین میں ایک اور گنا سمجھ کے کیوں پیلے گا۔ تب اسے یہ تھوڑی معلوم ہو گا کہ جہالت کے ہاتھ میں تھمی بندوق کی ایک گولی اس کے پورے علم اور تمام خوابوں پر بھاری ہے۔
ایک سندرانی نے ایک ساوند کو مار دیا۔ کوئی ساوند پھر کسی سندرانی کو مار دے گا۔ ڈاکٹر اجمل کی خوش نیتی، تپسیا، درویشی، وطن پرستی اور علم شناسی گئی بھاڑ میں۔ وہ علامہ اقبال یا فراز فینن ہی کیوں نہ ہو مگر ہے تو ساوند۔ اور ساوند کوئی بھی ہو دشمن ہے۔ جیسے سندرانی کوئی بھی ہو، ہے تو ٹارگٹ وغیرہ وغیرہ۔ آسمان پر منڈلاتے خونی پرندوں ، ساحل کے آس پاس گشت کرتی شارکوں اور تاک میں بیٹھے مر��ار خور گدھوں کے جھنڈ کے لیے ڈاکٹر اجمل صرف ایک وقت کا رزق تھا اور بس۔ مگر اچھی خبر یہ ہے کہ کچھوؤں کے بچے پیدا ہوتے ہی سمندر کی طرف بھاگنا بند نہیں کر سکتے۔ بھلے ان میں سے دو چار ہی ڈبکی لگا پائیں۔ خیر اور شر کا ڈرامہ یونہی چلے گا۔ بس کردار بدلتے رہیں گے۔
وسعت اللہ خان
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
Text
میری وفات کے بعد...
A MUST READ Article 👍
موسم سرما کی ایک انتہائی ٹھٹھرتی شام تھی جب میری وفات ہوئی۔
اس دن صبح سے بارش ہو رہی تھی۔ بیوی صبح ڈاکٹر کے پاس لے کر گئی۔ ڈاکٹر نے دوائیں تبدیل کیں مگر میں خلافِ معمول خاموش رہا۔
دوپہر تک حالت اور بگڑ گئی۔ ��و بیٹا پاکستان میں تھا وہ ایک تربیتی کورس کے سلسلے میں بیرون ملک تھا۔ چھوٹی بیٹی اور اس کا میاں دونوں یونیسف کے سروے کے لیے کراچی ڈیوٹی پر تھے۔
لاہور والی بیٹی کو میں نے فون نہ کرنے دیا کہ اس کا میاں بے حد مصروف ہے اور بچوں کی وجہ سے خود اس کا آنا بھی مشکل ہے۔
رہے دو لڑکے جو بیرون ملک ہیں انہیں پریشان کرنے کی کوئی تُک نہ تھی.
میں میری بیوی گھر پر تھے اور ایک ملازم جو شام ڈھلے اپنے گھر چلا جاتا تھا۔
عصر ڈھلنے لگی تو مجھے محسوس ہوا کہ نقاہت کے مارے بات کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ میں نے اپنی پرانی ڈائری نکالی، بیوی کو پاس بٹھا کر رقوم کی تفصیل بتانے لگا جو میں نے وصول کرنا تھیں اور جو دوسروں کو ادا کرنا تھیں۔
بیوی نے ہلکا سا احتجاج کیا:
” یہ تو آپ کی پرانی عادت ہے ذرا بھی کچھ ہو تو ڈائری نکال کر بیٹھ جاتے ہیں“
مگر اس کے احت��اج میں پہلے والا یقین نہیں تھا۔ پھر سورج غروب ہوگیا۔ تاریکی اور سردی دونوں بڑھنے لگیں۔ بیوی میرے لیے سُوپ بنانے کچن میں گئی۔ اس کی غیر حاضری میں مَیں نے چند اکھڑی اکھڑی سانسیں لیں اور........... میری زندگی کا سورج غروب ہو گیا۔
مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ میں آہستہ آہستہ اپنے جسم سے باہر نکل رہا ہوں۔ پھر جیسے ہوا میں تیرنے لگا اور چھت کے قریب جا پہنچا۔
بیوی سُوپ لے کر آئی تو میں دیکھ رہا تھا۔ ایک لمحے کے لیے اس پر سکتہ طاری ہوا اور پھر دھاڑیں مار کر رونے لگی۔ میں نے بولنے کی کوشش کی. یہ عجیب بات تھی کہ میں سب کچھ دیکھ رہا تھا مگر بول نہیں سکتا تھا۔
لاہور والی بیٹی رات کے پچھلے پہر پہنچ گئی تھی۔ کراچی سے چھوٹی بیٹی اور میاں صبح کی پہلی فلائیٹ سے پہنچ گئے۔
بیٹے تینوں بیرون ملک تھے وہ جلد سے جلد بھی آتے تو دو دن لگ جانے تھے۔ دوسرے دن عصر کے بعد میری تدفین کر دی گئی۔
شاعر، ادیب، صحافی، سول سرونٹ سب کی نمائندگی اچھی خاصی تھی۔ گاؤں سے بھی تقریباً سبھی لوگ آ گئے تھے۔ ننھیا ل والے گاؤں سے ماموں زاد بھائی بھی موجود تھے۔
لحد میں میرے اوپر جو سلیں رکھی گئی تھیں مٹی ان سے گزر کر اندر
آ گئی تھی۔ بائیں پاؤں کا انگوٹھا جو آرتھرائٹس کا شکار تھا، مٹی کے بوجھ سے درد کر رہا تھا۔
پھر ایک عجیب کیفیت طاری ہو گئی۔
شاید فرشتے آن پہنچے تھے۔ اسی کیفیت میں سوال و جواب کا سیشن ہوا۔
یہ کیفیت ختم ہوئی۔
محسوس ہو رہا تھا کہ چند لمحے ہی گزرے ہیں مگر فرشتوں نے بتایا کہ پانچ برس ہو چکے ہیں تمہیں فوت ہوئے ۔
پھر فرشتوں نے ایک عجیب پیشکش کی:
” ہم تمہیں کچھ عرصہ کے لیے واپس بھیج رہے ہیں۔ تم وہاں دنیا میں کسی کو نظر نہیں آؤ گے. گھوم پھر کر اپنے پیاروں کو دیکھ لو،
پھر اگر تم نے کہا تو تمہیں دوبارہ نارمل زندگی دے دیں گے ورنہ واپس آ جانا “
میں نے یہ پیشکش غنیمت سمجھی اور ہاں کر دی۔
پھر ایک مدہوشی کی حالت چھا گئی۔ آنکھ کھلی تو میں اپنی گلی میں کھڑا تھا۔ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا اپنے گھر کی جانب چلا۔ راستے میں کرنل صاحب کو دیکھا۔ گھر سے باہر کھڑے تھے۔ اتنے زیادہ بوڑھے لگ رہے تھے۔ خواجہ صاحب بیگم کے ساتھ واک کرنے نکل رہے تھے۔
اپنے مکان کے گیٹ پر پہنچ کر میں ٹھٹھک گیا۔ میرے نام کی تختی غائب تھی۔ پورچ میں گاڑی بھی نہیں کھڑی تھی۔ وفات سے چند ہفتے پہلے تازہ ماڈل کی خریدی تھی دھچکا سا لگا۔
گاڑی کہاں ہوسکتی ہے؟
بچوں کے پاس تو اپنی اپنی گاڑیاں تھیں تو پھر میری بیوی جو اب بیوہ تھی، کیا گاڑی کے بغیر تھی؟
دروازہ کھلا تھا۔ میں سب سے پہلے سیڑھیاں چڑھ کر اوپر اپنی لائبریری میں گیا۔ یہ کیا؟
کتابیں تھیں نہ الماریاں
رائٹنگ ٹیبل اس کے ساتھ والی مہنگی کرسی، صوفہ، اعلیٰ مرکزی ملازمت کے دوران جو شیلڈیں اور یادگاریں مجھے ملی تھیں اور الماریوں کے اوپر سجا کر رکھی ہوئی تھیں۔ بے شمار فوٹو البم، کچھ بھی تو وہاں نہ تھا۔
مجھے فارسی کی قیمتی ایران سے چھپی ہوئی کتابیں یاد آئیں، دادا جان کے چھوڑے ہوئے قیمتی قلمی نسخے، گلستان سعدی کا نادر نسخہ جو سونے کے پانی سے لکھا ہوا تھا اور دھوپ میں اور چھاؤں میں الگ الگ رنگ کی لکھائی دکھاتا تھا.
داداجان اور والد صاحب کی ذاتی ڈائریاں سب غائب تھیں۔ کمرہ یوں لگتا تھا، گودام کے طور پر استعمال ہو رہا تھا. سامنے والی پوری دیوار پر جو تصویر پندرہ ہزار روپے سے لگوائی تھی وہ جگہ جگہ سے پھٹ چکی تھی.
میں پژمردہ ہوکر لائبریری سے باہر نکل آیا۔ بالائی منزل کا یہ وسیع و عریض لاؤنج بھائیں بھائیں کر رہا تھا۔ یہ کیا؟
اچانک مجھے یاد آیا کہ میں نے چکوال سے رنگین پایوں والے سُوت سے بُنے ہوئے چار پلنگ منگوا کر اس لاؤنج میں رکھے تھے شاعر برادری کو یہ بہت پسند آئے تھے وہ غائب تھے۔
نیچے گراؤنڈ فلور پر آیا، بیوی اکیلی کچن میں کچھ کر رہی تھی۔ میں نے اسے دیکھا۔ پانچ برسوں میں اتنی تبدیل ہو گئی تھی میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ کیسے پوچھوں کہ گھٹنوں کے درد کا کیا حال ہے؟
ایڑیوں میں بھی درد محسوس ہوتا تھا۔ دوائیں باقاعدگی سے میسر آرہی تھیں یا نہیں؟
میں اس کے لیے باقاعدگی سے پھل لاتا تھا۔ نہ جانے بچے کیا سلوک کر رہے ہیں؟
مگر... میں بول سکتا تھا نہ وہ مجھے دیکھ سکتی تھی۔
اتنے میں فون کی گھنٹی بجی بیوی بہت دیر باتیں کرتی رہی۔ جو اس طویل گفتگو سے میں سمجھا یہ تھا کہ بچے اس مکان کو فروخت کرنا چاہتے تھے۔ ماں نے مخالفت کی کہ وہ کہاں رہے گی۔ بچے بضد تھے کہ ہمارے پاس رہیں گی.
میری بیوی کو میری یہ نصحیت یاد تھی کہ ڈیرہ اپنا ہی اچھا ہوتا ہے مگر وہ بچوں کی ضد کے سامنے ہتھیار ڈال رہی تھی۔
گاڑی کا معلوم ہوا کہ بیچی جاچکی تھی۔ بیوی نے خود ہی بیچنے کے لیے کہا تھا کہ اسے ایک چھوٹی آلٹو ہی کافی ہو گی۔
اتنے میں ملازم لاؤنج میں داخل ہوا۔
یہ نوجوان اب ادھیڑ عمر لگ رہا تھا۔
میں اس کا لباس دیکھ کر ٹھٹھک گیا۔ اس نے میری قیمتی برانڈڈ قمیض جو ہانگ کانگ سے خریدی تھی پہنی ہوئی تھی۔ نیچے وہ پتلون تھی جس کا فیبرک میں نے اٹلی سے خریدی تھی. اچھا... تو میرے بیش بہا ملبوسات ملازموں میں تقسیم ہو چکے تھے.
میں ایک سال لوگوں کی نگاہوں سے غائب رہ کر سب کو دیکھتا رہا۔
ایک ایک بیٹے بیٹی کے گھر جا کر ان کی باتیں سنیں۔ کبھی کبھار ہی ابا مرحوم کا یعنی میرا ذکر آتا وہ بھی سرسری سا۔
ہاں...
زینب، میری نواسی اکثر نانا ابو کا تذکرہ کرتی۔ ایک دن ماں سے کہہ رہی تھی:
” اماں... یہ بانس کی میز کرسی نانا ابو لائے تھےنا جب میں چھوٹی سی تھی اسے پھینکنا نہیں“
ماں نے جواب میں کہا:
” جلدی سے کپڑے بدل کر کھانا کھاؤ پھر مجھے میری سہیلی کے گھر ڈراپ کردینا“
میں شاعروں ادیبوں کے اجتماعات اور نشستوں میں گیا۔ کہیں اپنا ذکر نہ سنا۔ وہ جو بات بات پر مجھے جدید غزل کا ٹرینڈ سیٹر کہا کرتے تھے جیسے بھول ہی تو چکے تھے۔
اب ان کے ملازموں نے میری کتابیں بھی الماری سے ہٹا دی تھیں۔
ایک چکر میں نے قبرستان کا لگایا۔
میری قبر کا برا حال تھا. گھاس اگی تھی۔ کتبہ پرندوں کی بیٹوں سے اٹا تھا۔ ساتھ والی قبروں کی حالت بھی زیادہ بہتر نہ تھی۔
ایک سال کے جائزے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ میری موت سے دنیا کو کوئی فرق نہیں پڑا تھا۔ زرہ بھر بھی نہیں.
بیوی یاد کر لیتی تھی تاہم بچے پوتے نواسے پوتیاں سب مجھے بھول چکے تھے ۔
ادبی حلقوں کے لیے میں اب تاریخ کا حصہ بن چکا تھا۔ جن بڑے بڑے محکموں اور اداروں کا میں سربراہ رہا تھا وہاں ناموں والے پرانے بورڈ ہٹ چکے تھے۔
دنیا رواں دواں تھی۔ کہیں بھی میری ضرورت نہ تھی۔ گھر میں نہ باہر. پھر تہذیبی، معاشرتی اور اقتصادی تبدیلیاں تیزی سے آ رہی تھیں اور آئے جا رہی تھیں.
ہوائی جہازوں کی رفتار چار گنا بڑھ چکی تھی۔ دنیا کا سارا نظام سمٹ کر موبائل فون کے اندر آ چکا تھا۔ میں ان جدید ترین موبائلوں کا استعمال ہی نہ جانتا تھا۔
فرض کیجئے،
میں فرشتوں سے التماس کر کے دوبارہ دنیا میں نارمل زندگی گزارنے آ بھی جاتا تو کہیں بھی ویلکم نہ کہا جاتا. بچے پریشان ہو جاتے ، ان کی زندگیوں کے اپنے منصوبے اور پروگرام تھے جن میں میری گنجائش کہیں نہ تھی.
ہو سکتا تھا کہ بیوی بھی کہہ دے کہ تم نے واپس آ کر میرے مسائل میں اضافہ کر دیا ہے۔ مکان بک چکا،
میں تنہا تو کسی بچے کے پاس رہ لیتی، دو کو اب وہ کہاں سنبھالتے پھریں گے.
دوست تھوڑے بہت باقی بچے تھے۔
وہ بھی اب بیمار اور چل چلاؤ کے مراحل طے کر رہے تھے. میں واپس آتا تو دنیا میں مکمل طور پر اَن فِٹ ہوتا۔ نئے لباس میں پیوند کی طرح۔
جدید بستی میں پرانے مقبرے کی طرح.
میں نے فرشتے سے رابطہ کیا اور اپنی آخری خواہش بتا دی۔ میں واپس قبر میں جانا چاہتا ہوں.
فرشتہ مسکرایا۔ اس کی بات بہت مختصر اور جامع تھی:
”ہر انسان یہی سمجھتا ہے کہ اس کے بعد جو خلا پیدا ہو گا، وہ کبھی بھرا نہیں جا سکے گا مگر وہ یہ نہیں جانتا کہ خلا تو کبھی پیدا ہی نہیں ہوتا “
-------------
ہمارے دماغوں میں بھی یہی سوچ ہے کہ یہ گھر یہ کاروبار یہ نوکری یہ دنیا کی گھر کی بچوں کی ضرورتیں اور سارے کام کاج میری وجہ سے ہی جاری ہیں.
اگر میں نہ رہا تو دنیا کی گردش رک جائے گی. مگر ایسا بلکل نہیں ہے۔منقول
7 notes
·
View notes
Text
میکسم گورکی کے چاہنے والوں ان کی سالگرہ مبارک
’
28 مارچ 1868 کو روس کے یہ عظیم انقلابی شاعر ناؤل نگار افسانہ نگار کی پیدائش کا دن ہے ۔ ان کی تحریروں اور مضامین نے دنیا بھر کے مظلوم طبقات کو جینے کا ڈھنگ سیکھایا ان میں امید اور اک نیا جوش وجذبہ پیدا کیا ۔اگر آپ اسکی ذاتی زندگی کا مشاہدہ کریں تو اس میں بھی ہر مایوس و ناامید انسان کے لیے کامیابیوں کے سو سو درس ہیں ۔ بلکل بچہ تھا کہ باپ مر گیا ۔ماں نے دوسری شادی کر لی ماں بھی کچھ عرصہ بعد مر گئی نانا نے گھر سے بھگا دیا ۔ تعلیم کے لیے وسائل نا ہونے پر اس نے جگہ جگہ چھوٹے موٹے کام کئے ملازمتیں کی ۔بائیس سال کی عمر تک زمانے کے ٹھوکریں کھاتا کھاتا 1890 میں ایک وکیل کے پاس ملازم ہو گیا ۔جہاں اس نے اپنے اندر چھپی صلاحیتوں کو نکھرانا شروع کیا اور اس وکیل کی بھی خصوصی محبت اور اپنائیت سے وہ افسانے لکھنے لگا۔چونکہ اسکا استاد کوئی مدرسہ نہیں زمانہ تھا زندگی کے تلخ تجربات تھے جسے اس نے الفاظ کی شکل میں قلم سے کاغذ پر اتارا۔اور کیا کہنے کہ کیسے کیسے الفاظ کا استعمال کر گیا ۔ اور پھر صرف دس سال کے اندر اندر وہ روس ہی نہیں دنیا بھر میں اپنا اک مقام بنا گیا ۔ جہاں اسکے چاہنے والے اور پڑھنے والوں نے اسے سر آنکھوں پر بٹھایا ۔ اسکی کتابیں اسکی ذاتی زندگی سیر وتفریح آوارگی انقلاب روس اور بہت سے موضوعات پر ہیں لیکن عام دنیا انہیں انکی شہرہ آفاق کتاب " ماں " سے پہنچاتی ہے جسکا کئی ممالک اور زبانوں میں ترجمہ ہوا ۔ اس سے کچھ اقتباسات آپکے ذوق کی نظر ۔
" ماں نے اس سے اور اسکے دوستوں سے پوچھا میں نے سنا ہے تم خدا کو مانتے ہی نہیں ؟؟
پاول ولاسوف نے جواب دیا ماں ہم اس خدا کی بات نہیں کر رہے جو تیرے دل میں ہے جو رحیم و کریم ہے شفیق ہے اور اپنی مخلوق سے محبت کرنے والا ہے ۔ ہم تو اس خدا کی بات کر رہے ہیں جو پادریوں اور ملاؤں نے ہم پر مسلط کر دیا ہے جو ہر وقت ڈنڈا ہاتھ میں لئے بندوں کو ہانکتا رہتا ہے ۔ ماں دیکھنا ایک دن ہم اپنا رحیم و کریم خدا ان پادریوں ملاؤں کے قبضے سے چھڑا لیں گے پھر اسکو اپنے دل میں بسائیں گے اور اسکی حمد گائیں گے ۔ 🌹♥️🌹♥️🌹♥️
ایسے ہی ایک اور اقتباس جو ریاستی جبر کی عکاسی کرتا ہے ۔
کیا کروں ماں مجھے تو تسلی دینی آتی ہی نہیں خیر تمہیں اسکا عادی ہونا پڑے گا
ماں نے سرد آہ بھری اور اپنی آواز کو بھر آنے سے روکتے ہوئے آواز کو سنبھالتے ہوئے تھوڑے وقفے سے بولی
تمہارا کیا خیال ہے
👈🏻 یہ لوگ اذیت بھی دیتے ہیں ؟؟
👈🏻کھال ادھیڑ دیتے ہیں ؟؟
👈🏻 ہڈیاں توڑ دیتے ہیں ؟؟
👈🏻 جب میں اسکے بارے میں سوچتی ہوں اف میرے لال کیسی اذیت ناک چیز ہے ؟؟
👈🏻 پاویل یہ لوگ ��وح کو اذیت دیتے ہیں !
👈🏻 اس سے اور بھی زیادہ تکلیف ہوتی ہے جب یہ انسانوں کی روح پر اپنے گندے ہاتھ ڈالتے ہیں "
میکسم گورکی کے متعلق ٹالسٹائی نے ایک بار کہاں تھا
👈🏻نا جانے مجھے کیوں گورکی اچھا نہیں لگتا ہر وقت ادھر ادھر ایسے دیکھ رہا ہوتا ہے جیسے سب کچھ سب کچھ جا کہ خدا کو با تفصیل بتانا ہو ! 🤔👀🤔👀🤔👀
یہ عظیم انسان 28 جون 1936 کو اس دنیا سے پردہ کر گیا ۔
7 notes
·
View notes
Text
یہ میں نہیں ابن خلدون
سلطان بہرام بن بہرام ایران کا بادشاہ گزرا تھا‘ اس کے دور میں ملک بری طرح تباہ ہو گیا‘ بیروزگاری‘ قحط‘ کساد بازاری‘ لوٹ کھسوٹ اور ��تل وغارتگری عام ہو گئی‘ سرکاری ادارے اور فوج بھی زوال کی تہہ کو چھونے لگی‘ لوگوں نے تنگ آ کرنقل مکانی شروع کر دی تھی۔ ایران میں اس زمانے میں موبذان نام کا ایک عالم دین تھا‘ اس کی بادشاہ تک رسائی تھی‘ بادشاہ ایک دن موبذان کے ساتھ بیٹھا تھا‘ باغ سے اچانک اُلو کی چیخ کی آواز آئی‘ بادشاہ نے موبذان کی ذہانت کا امتحان لینے کا فیصلہ کیا‘ وہ اس کی طرف مڑا اور اس سے پوچھا ’’مولوی صاحب ذرا یہ بتائیں یہ اُلو کیا کہہ رہا ہے‘‘ موبذان سمجھ دار اور محب وطن تھا‘ وہ ملکی حالات سے بھی پریشان تھا‘ اس نے موقع غنیمت جانا‘ جان کی امان پائی اور عرض کیا ’’حضور یہ مادہ اُلو کی خوشی کی چیخ تھی‘‘ بادشاہ نے حیران ہو کر پوچھا ’’کیا مطلب؟‘‘ موبذان بولا ’’حضور آپ کے باغ میں ایک نر اُلو نے مادہ اُلو سے شادی کی درخواست کی‘ مادہ اُلو نے حق مہر میں بیس برباد بستیاں مانگ لیں‘ نر نے جواب میں کہا‘ تم فکر نہ کرو اگر بہرام بادشاہ رہا تو میں تمہیں بیس نہیں ایک ہزار اجڑی ہوئی بستیاں دے دوں گا‘ یہ سن کر مادہ نے خوشی سے چیخ ماری‘‘ غفلت کے شکار بادشاہ کو جھٹکا لگا‘ اس نے دربار میں موجود تمام لوگوں کو باہر نکال دیا اور تخت سے اتر کر موبذان کے ساتھ بیٹھ گیا اور پوچھا ’’کیا واقعی میرے ملک میں یہ حالات ہیں‘‘ موبذان نے جرات سے جواب دیا ’’بادشاہ سلامت حالات اس سے کئی گنا دگرگوں ہیں‘‘ بادشاہ نے وجہ پوچھی تو موبذان نے بتایا ’’بادشاہ سلامت ریاست شاہی اختیار کا نام ہوتی ہے اور شاہی اختیار کے تین عناصر ہوتے ہیں‘ تخت‘ فوج اور بیوروکریسی‘ یہ تین عناصر جتنے مضبوط ہوں ملک اتنے ہی مضبوط ہوتے ہیں اور ان تینوں عناصر کو عوام مضبوط بناتے ہیں‘ عوام زراعت اور کاروبار کے سہارے زندہ رہتے ہیں‘ کاروبار اور زراعت کا زمین کی آبادکاری کے ساتھ تعلق ہوتا ہے اور آباد کاری انصاف کے بغیر ممکن نہیں ہوتی چنانچہ آپ اگر کسی ملک کو تباہ کرنا چاہتے ہیں تو آپ وہاں سے صرف انصاف ختم کر دیں۔
امیر اور کاریگر لوگ اپنی زمینیں جائیدادیں بیچ کر وہاں سے نقل مکانی کر جائینگے‘ نقل مکانی سے کاروبار اور کھیت ویران ہو جائینگے‘ ان کی ویرانی سے عوام کا اعتماد ختم ہو جائے گا‘ یہ اپنا روپیہ پیسہ چھپا لیں گے‘ ملک کو ٹیکس نہیں ملے گا‘ ٹیکس کی کمی سے بیورو کریسی اور فوج کم زور ہو جائے گی‘ آخر میں تخت بھی زمین بوس ہو جائے گا اور یوں شاہی اختیار بھی ختم ہو جائے گا اور ہمارے ملک میں اس وقت یہ ہو رہا ہے‘ آپ کی ناانصافی کی وجہ سے شہر کے شہر اجڑ رہے ہیں اور اُلو ہزار ہزار بستیاں حق مہر میں دے رہے ہیں‘‘ بادشاہ کو پسینہ آ گیا اور اس نے پوچھا ’’ میں نے کیا غلطی کی‘‘ موبذان بولا ’’آپ کی ریاست کاشت کاروں اور بزنس مینوں کے ٹیکسوں پر چل رہی تھی‘ آپ نے حکومت سنبھالتے ہی ملک کے تمام کارآمد لوگوں کو چور‘ ڈاکو اور بے ایمان قرار دے کر ان کے کھیت‘ کارخانے اور کاروبار اپنے ملازموں‘ مصاحبوں اور دوستوں میں تقسیم کر دیے‘ آپ کے دوست بے کار اور نالائق لوگ تھے‘ یہ کاروبار چلا سکے اور نہ کاشت کاری کر سکے۔ آپ نے ان کا ٹیکس بھی معاف کر دیا اور انھیں خزانے سے قرضے بھی دے دیے‘ دوسری طرف حکومت عام بزنس مینوں اور کاشت کاروں سے بدستور ٹیکس وصول کرتی رہی‘ اس کے نتیجے میں کام کرنے والوں کو محسوس ہوا ہم کتنے بے وقوف ہیں‘ ہم کام بھی کر رہے ہیں‘ ٹیکس بھی دے رہے ہیں اور جوتے بھی کھا رہے ہیں جب کہ نالائق اور بے کار لوگوں نے اہل لوگوں کی زمینیں‘ جائیدادیں اور کاروبار بھی لے لیے ہیں اور حکومت انھیں سپورٹ بھی کر رہی ہے لہٰذا انھوں نے کام بند کر دیا‘ یہ بھی ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گئے‘ ٹیکس کولیکشن کم ہو گئی۔ حکومت نے ان پر دبائو ڈالنا شروع کر دیا‘ پکڑ دھکڑ شروع ہو گئی‘ ان لوگوں نے سامان باندھا اور یہ ان ملکوں میں جا بسے جہاں ان کی عزت بھی تھی اور زمین جائیداد بھی محفوظ تھی اور یوں یہ بستیاں اجڑنے لگیں‘ سرکاری ریونیو کم ہونے سے بیوروکریسی اور فوج کی تنخواہیں اور مراعات بھی کم ہو گئیں‘ یہ بھی کم زور ہو گئے اور دوسرے ملک ہمارے علاقوں پر قبضے کرنے لگے‘‘
بادشاہ پریشان ہو گیا اور اس نے موبذان سے پوچھا ’’کیا میں ان حالات کو ٹھیک کر سکتا ہوں‘‘ موبذان نے جواب دیا ’’بادشاہ سلامت بڑی آسانی سے‘ آپ لوگوں کو ضمانت دیں ملک میں ان کی جائیدادیں اور کاروبار قرآن مجید کی طرح محفوظ رہیں گے‘ ان پر حکومت سمیت کوئی طاقت قبضہ نہیں کر سکے گی‘ حالات چند ماہ میں ٹھیک ہو جائیں گے‘‘ بادشاہ اٹھا‘ اس نے اسی وقت زمینوں‘ جائیدادوں اور کاروبار کو تحفظ دے دیا‘ ملک میں قانون بن گیا کسی کی ایک چپہ زمین پر قبضہ نہیں ہو گا‘ لوگ جتنا چاہیں کمائیں یہ ریاست کو ٹیکس دیں‘ ملازموں کو بروقت تنخواہیں دیں اور اپنے کاروباری معاہدوں پر عمل کریں‘ملک کا کوئی شخص‘ کوئی ادارہ ان سے سوال نہیں کرے گا۔ بادشاہ نے لفظ قبضہ تک پر پابندی لگا دی اور یوں دیکھتے ہی دیکھتے حالات بدل گئے‘ لوگوں نے اجڑے کھیت اور برباد ��ستیاں آباد کرنا شروع کر دیں‘ ٹیکس کولیکشن بڑھی‘ ٹیکس سے بیورو کریسی اور فوج کی طاقت میں اضافہ ہوا‘ سرحدیں محفوظ ہوئیں اور سلطان بہرام اپنے دور کا سب سے بڑا بادشاہ بن گیا۔ سلطان بہرام اور موبذان کا یہ واقعہ ابن خلدون نے مقدمہ میں لکھا تھا‘ میں نے اسے عمران خان اور آپ کے لیے آسان الفاظ میں بیان کر دیا‘ ابن خلدون کا کہنا تھا تہذیب اور تمدن کا تعلق بازار اور منڈیوں سے ہوتا ہے‘ ان میں جتنی چہل پہل ہو گی اتنی اس ملک کی آمدنی ہو گی اور جتنی زیادہ آمدنی ہو گی اتنی ہی اس ملک کی بیوروکریسی‘ فوج اور تخت مضبوط ہو گا اور جتنا تخت مضبوط ہو گا اتنا ہی ملک کی تہذیب اور تمدن شاندار ہو گا‘ ابن خلدون کا کہنا تھا اگر کوئی بادشاہ اپنی سلطنت کو مضبوط دیکھنا چاہتا ہے تو وہ صرف دو کام کرے‘ وہ لوگوں کو کمانے کا موقع دے اور وہ لوگوں کو ان کی زمینوں‘ مکانوں‘ دکانوں‘ جائیدادوں اور مال کا تحفظ دے دے دنیا کی کوئی طاقت ملک کو ترقی سے نہیں روک سکے گی۔
ہم آج دنیا کو دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں‘ ایک وہ دنیا جس میں ہرشخص کا روزگار‘ ترقی کے مواقع اور زمین جائیداد بائبل کی طرح محفوظ ہیں اور دوسرے وہ ملک جن میں لوگوں کے مال کے ساتھ عزت اور عزت نفس بھی غیرمحفوظ ہے‘ آپ کو پہلے ملک ترقی یافتہ اور دوسرے تنزلی کے پاتال میں لڑھکتے نظر آئیں گے‘ فرق ’’مال کا تحفظ‘‘ ہے‘ دنیا میں اس وقت دو ہزار چھ سو چار کھرب پتی ہیں‘ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے ان میں سے ایک بھی شخص کسی نیب کی حراست میں ن��یں‘ دنیا میں لوگ روز دیوالیہ ہوتے ہیں لیکن یہ صرف لوگ ہوتے ہیں ادارے نہیں۔ ریاست اداروں‘ فیکٹریوں اور کمپنیوں کو بند نہیں ہونے دیتی‘ دنیا کس قدر بزنس فرینڈلی ہے آپ اس کا اندازہ صرف ایک مثال سے لگا لیجیے‘ آپ کے پاس اگر ایک ملین ڈالر ہیں تو آپ خواہ دنیا کے کسی بھی ملک سے تعلق رکھتے ہوں آپ خاندان سمیت دنیا کے کسی بھی ملک کی شہریت لے سکتے ہیں‘ امریکا‘ کینیڈا اور یورپ سمیت دنیا کے تمام ترقی یافتہ ملک آپ کو پاسپورٹ دے دیں گے‘ کیوں؟
کیوں کہ آپ کمانے کا ہنر جانتے ہیں اور پوری دنیا کو کمانے والے لوگ چاہیے ہوتے ہیں جب کہ پاکستان کے تمام ارب پتی نیب کو مطلوب ہیں اور ان کے خاندان اس وقت ملک سے باہر بیٹھے ہیں‘ ان سب کی جیبوں میں غیر ملکی پاسپورٹ بھی ہیں‘ کیوں؟ کیوں کہ یہ جانتے ہیں اس ملک میں ان کا مال‘ جائیداد اور کاروبار محفوظ نہیں ہے چنانچہ یہ فاختائوں کی طرح اپنے انڈے محفوظ ملکوں میں رکھ رہے ہیں‘ دنیا میں ارب پتی بڑھ رہے ہیں جب کہ یہاں کم ہو رہے ہیں‘ کیوں؟ خوف! آپ خوف کا عالم دیکھیے ہمارے وزراء اور مشیروں کی جیبوں میں بھی غیرملکی پاسپورٹ ہیں اور ان کے خاندان بھی دوسرے ملکوں میں ہیں۔ آپ ججوں‘ جرنیلوں‘ سیکریٹریوں‘ بزنس مینوں‘ جاگیرداروں حتیٰ کہ ایکٹروں تک کے خاندانوں کا ڈیٹا نکال کر دیکھ لیجیے آپ کو ننانوے فیصد بااثر لوگوں کے بچے ملک سے باہر ملیں گے‘ کیوں؟
کیوں کہ یہ ان کو بھی یہاں محفوظ نہیں سمجھتے اور آپ ملک میں پچاس سال سے اوپر لوگوں کے انٹرویوز بھی کر لیں آپ کو ننانوے اعشاریہ ننانوے فیصد میچور لوگ اپنے منہ سے کہتے ملیں گے’’ اس ملک میں کچھ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں‘ انسان بس اتنا کرے جتنی اسے ضرورت ہے‘‘ یہ درویشی‘ درویشی نہیں یہ تباہی ہے۔ آپ یاد رکھیں ہم جب ملک ریاض‘ حسین دائود‘ میاں منشاء‘ طارق سہگل اور صدرالدین ہاشوانی جیسے لوگوں کو عبرت کی نشانی بنا دیں گے‘ حکومت جب اپنے ہاتھوں سے ان کی فیکٹریوں اور کمپنیوں کو تالے لگا دے گی تو پھر ملک نہیں چل سکے گا‘ ہم سلطان بہرام کا ملک بن جائیں گے اور یہ میں نہیں کہہ رہا یہ ابن خلدون نے ہزار سال پہلے کہہ دیا تھا چنانچہ آپ اگر ملک کو کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر آپ لوگوں کو زمین‘ جائیداد‘ مال اور کاروبار کا تحفظ دے دیں‘ آپ یہ فیصلہ کر لیں ملک میں کاروبار کرنے والوں کو وزیر جتنی عزت دی جائے گی۔ کسی شخص کی ایک انچ زمین اور سو روپے پر بھی کوئی شخص‘ کوئی ادارہ قبضہ نہیں کر سکے گا‘ یقین کریں یہ ملک دس سال میں سو سال کے برابر ترقی کر جائے گا ورنہ غیر محفوظ جگہوں پر تو پرندے بھی انڈے نہیں دیتے جب کہ ہم تو پھر بھی انسان ہیں‘ہم دلدل پر اپنے بچے اور اپنے اثاثے کیوں رکھیں گے؟ جس ملک میں جمائما عمران خان کے بچے بھجوانے کے لیے تیار نہیں وہاں حسین دائود اپنے بچے اور پیسے کیوں رکھے گا؟
جاوید چوہدری
بشکریہ ایکسپریس نیوز
1 note
·
View note
Text
تُجھ سے کوئی گِلہ نہیں لیکن
پوچھنا ہے کہ خواب ٹوٹیں تو
کرچیوں کو کہاں سنبھالتے ہیں
دل کو پتھر کے سخت پیکر میں
کیسے یک دم سے ڈھالتے ہیں بتا
عمر بھر کے مُعاہدے کر کے
دو قدم پہ ہی چھوڑ جائے اگر
خود کو کیسے سنبھالتے ہیں بتا
زندگی سے نکلنے والوں کو
دل سے کیسے نکالتے ہیں بتا
15 notes
·
View notes