#تخت کے کھیل
Explore tagged Tumblr posts
westeroswisdom · 13 days ago
Text
Tumblr media
A strictly metaphorical post. 🙂
45 notes · View notes
westeroswisdom · 11 months ago
Text
Pedro Pascal showed up at the Golden Globe awards with his arm in a sling which chromatically didn't clash his outfit.
To me, that illustration makes him look just slightly like Littlefinger.
Only Pedro Pascal Could Make an Arm Sling Look This Good at the 2024 Golden Globes
Pedro Pascal hit the red carpet of the Golden Globes where he was nominated for Best Actor in a Television Drama. He may have lost out to Kieran Culkin for Succession (who playfully shouted “Suck it, Pedro” in his speech), but he won big in the menswear department. After a strong, left-field track record that involves mesh Acne button-downs, Maison Margiela pajama robes and the shortest Valentino short shorts, he opted for a full Bottega Veneta look, with an embroidered turtleneck as the star of the show. In a simple pair of black trousers and chunky ankle boots, Pascal completed the look with yet another pair of statement glasses—this time, some half-rimmed black and clear frames. They've become somewhat of a calling card at this point, with their own fancam community to boot. And while we're talking the importance of accessories, Pascal had something no one else had at the Golden Globes 2024: an arm sling. When asked on the carpet what happened, he simply said “I fell,” before adding: “Be careful, it can happen to anybody”.
Tumblr media
A winner in our hearts!! 🧡🧡🧡
I absolutely love the ouchy nails!! Simply iconic! 💅
On Instagram @ xcasshewsx
9K notes · View notes
risingpakistan · 5 years ago
Text
سندھ، پنجاب، بلوچستان کے نوجوان یکجا تھے
شیخ رشید دردمند مائوں، بہنوں، بزرگوں، بھائیوں کی نظروں میں ہمیشہ کے لیے گر گئے۔ سینکڑوں خاندانوں کی آہ و فغاں ہم وطنوں کی جانیں آگ کی نذر ہو گئیں۔ انہوں نے ذمہ داری قبول کر کے استعفیٰ دے کر تاریخ میں امر ہونے کا موقع گنوا دیا۔ یہ کرسی انسانوں کو اتنا سفاک اور شقی القلب کیسے بنا دیتی ہے۔ عمران خان اپنے ہی اقوال زریں فراموش کر کے بیٹھے ہیں۔ اپنے وزیر ریلوے کو برطرف کرنے کی جرأت نہیں کر رہے ہیں۔ پاکستان کے عوامی المیوں میں ایک اور گہرے اندوہ کا اضافہ ہو گیا ہے۔ کوئی احتجاج کے لیے باہر نہیں نکلا۔ کسی نے اپنی سیاسی سرگرمی روک کر سوگوار خاندانوں کا دُکھ نہیں بانٹا۔ سوشل میڈیا کے بقراط گھر بیٹھے حادثے کے اسباب تلاش کر کے موبائل فونوں کی اسکرینیں سیاہ کر کے اس المناک واقعے کی حساسیت زائل کرتے رہے۔ آفریں ہے جنوبی پنجاب کے ان نوجوانوں پر جو یہ آگ بجھانے نکلے۔ جنہوں نے زخمیوں کو موت کے منہ میں جانے سے بچایا۔
انسانیت کی اعلیٰ اقدار سیاسی تماشوں کی چوکھٹ پر واری جا رہی ہیں۔ حکمراں لاشوں پر تخت نشینی کے خمار میں ہیں۔ اختلافات، تعصبات سر اٹھا رہے ہیں۔ اکیسویں صدی کی اطلاعاتی ٹیکنالوجی میں بھی پندرہویں، سولہویں صدیاں گھس کر پانی پت کی جنگیں دوبارہ کروا رہی ہیں۔ میرے آس پاس میرے ہم عصر درخت سوکھ کر گر رہے ہیں۔ بہت سے کاٹے جا رہے ہیں۔ اکیلے پن کا احساس بڑھ رہا ہے۔ لیکن کہیں کہیں جب نوجوانوں کے چمکتے چہرے، دمکتی پیشانیاں دیکھتا ہوں۔ بچوں کو اسکول جاتے۔ جوانوں کو جامعات کی طرف لپکتے تو میری شاخیں پھر سے ہری ہو جاتی ہیں۔ آئی بی اے کے ساتھ ہی ذہن میں ڈاکٹر عبدالوہاب کا مشفق چہرہ، مہرباں آنکھیں ابھرنے لگتی ہیں۔ ڈاکٹر عشرت حسین یاد آتے ہیں۔ جن کے دَور میں کتنے جدید بلاکوں کا اضافہ ہوا۔ 
ہال پاکستان بھر کے نوجوانوں سے معمور ہے۔ سندھ، بلوچستان، پنجاب کے طلبا و طالبات اپنے روایتی پہناوئوں اور زیورات سے توجہ مبذول کروا رہے ہیں۔ یہ میرا اور آپ کا مستقبل ہیں۔ شاہ لطیف یونیورسٹی خیرپور کی دو بہنوں نے اپنے ثقافتی رنگ برنگ لباس اور معصوم گفتگو سے سامعین اور ناظرین کے دل موہ لیے ہیں۔ آج اتوار ہے۔ میں تو برسوں سے آپ کو یاد دلا رہا ہوں کہ آج کا دن اپنے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں کے ساتھ گزارنا ہے۔ ان کے ذہنوں میں تڑپتے سوالات کے جواب دینا ہیں۔ یہاں اس ہال میں بھی یہ بات ہو رہی تھی کہ نوجوانوں کے پاس سوالات کی ایک طویل فہرست ہے۔ والدین ٹال دیتے ہیں۔ اساتذہ سوالات کی روح سمجھتے ہیں لیکن جواب دیتے وقت نوکری، ترقی، گریڈ حائل ہو جاتے ہیں۔ 
سندھ کی ایک بیٹی بے خوفی کا مظاہرہ کر کے پو��ھ رہی ہے کہ ہمیں نصاب میں ایسی فرسودہ کتابیں پڑھائی جا رہی ہیں جو حقیقت سے بہت دور ہیں۔ جن میں بتائے گئے ہیروز انسانیت کی اعلیٰ اقدار پر پورے نہیں اترتے۔ ایسے مطالعے کے بعد ہم معاشرے کو آگے کیسے لے جا سکتے ہیں۔ مظہر عباس اور ڈاکٹر توصیف احمد خان سوال کو لائق تحسین قرار دے رہے ہیں۔ پنجاب کی ایک طالبہ کا سوال ہے کہ کھیل میں بھی سیاست کیوں گھس آتی ہے۔ کرکٹ اگر بھارت کا کوئی کھلاڑی اچھی کھیل رہا ہے تو اس کی تعریف غداری کیوں کہلاتی ہے۔ میڈیا کے مقتولین کا ذکر آتا ہے کہ اختلاف کی جرأت پر صحافی مار کیوں دیے جاتے ہیں۔ ان کے قاتل پکڑے کیوں نہیں جاتے۔ ہم ابلاغ کے طالب علم اب میڈیا میں آئیں کہ نہیں۔
یہ انٹرنیشنل اسٹوڈنٹس کنونشن ہے۔ میں پہلی بار شرکت کر رہا ہوں۔ اغراض و مقاصد سے بے خبر ہوں لیکن میں خود ہی لورا لائی کے دورے کے بعد لکھ چکا ہوں کہ بلوچستان، سندھ، پنجاب، کے پی، آزاد جموں و کشمیر، گلگت بلتستان کے نوجوانوں کو آپس میں ملنے دیں۔ یہ ایک دوسرے سے مل بیٹھیں گے۔ ایک دوسرے کے درد سے آگاہ ہوں گے۔ تب ہی ہم ایک قوم بن سکیں گے۔ آج میں یہی منظر دیکھ رہا ہوں۔ اس لیے خوش ہوں کہ جس تنظیم نے بھی یہ اہتمام کیا ہے، وہ لائق تعریف ہے۔ لیکن مجھے ایک قلق ہوتا ہے کہ ایسی کوششوں کو مستحکم کرنے کے لیے بعد میں اقدامات نہیں کیے جاتے۔ آج کی اصطلاح میں فالو اپ نہیں ہوتا ہے۔ ایسے کنونشن لاہور اور اسلام آباد میں ہو چکے ہیں۔ ان کے بعد کیا شریک طلبا و طالبات آپس میں رابطہ رکھتے ہیں۔ اب تو رابطے کی ٹیکنالوجی بہت تیز رفتار اور وسعت پذیر ہو چکی ہے۔ کیا ان کے گروپس سوشل میڈیا پر ہیں۔ کیا پرنٹ میں وہ آپس میں مربوط ہیں۔
پاکستانی نیشنلزم، پاکستانیت آج کا تقاضا ہے۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم اب تک پاکستان نہیں بن پائے۔ یہ نوجوان جو ابھی زیر تعلیم ہیں۔ میٹھا پانی ہیں۔ ہمارا معاشرہ کھارے پانی کا سمندر ہے۔ یہ میٹھا پانی سمندر میں مل کر ضائع ہو رہا ہے۔ اسے بچانا ہماری ذمہ داری ہے۔ ہم بزرگ بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ نوجوان ہم سے بہت آگے ہیں۔ مجھے تو ڈائس پر آکر اپنی تقریر پڑھنے کی عادت ہے مگر جدید طریقہ بیٹھ کر بحث کرنے کا ہے۔ ہمارے ساتھ حمنہ بیٹھی ہیں۔ وہ سوشل میڈیا کی گہرائیاں اور توانائیاں بہت اچھے طریقے سے بتا رہی ہیں۔ میں کچھ نئی باتیں سیکھ رہا ہوں۔ 18 ویں ترمیم نے صوبوں کو بااختیار کیا ہے۔ لیکن تربیت نہیں دی۔ اس لیے صوبائی خود مختاری کی بجائے صوبائی تعصبات سر اٹھا رہے ہیں۔ ایسے کنونشن ان تعصبات کو دور کر سکتے ہیں۔ یونیورسٹیوں کو آگے آنا چاہئے۔ وہ بین الصوبائی مقابلے، ثقافتی شو کریں، طلبا و طالبات کو زیادہ تفصیل سے باتیں کرنے دیں۔
نہیں ہے ناامید اقبالؔ اپنی کشت ویراں سے
محمود شام
بشکریہ روزنامہ ��نگ
1 note · View note
blog-brilliant · 2 years ago
Text
گیم آف تھرونز، تخت کے کھیل ... (راؤ کامران علی، ایم ڈی)
گیم آف تھرونز، تخت کے کھیل … (راؤ کامران علی، ایم ڈی)
تحریر: راؤ کامران علی، ایم ڈی گیم آف تھرونز مشہور ڈرامہ ��یریز ہے جس کا ایک کردار رمزے بولٹن ہے۔ رمزے نے خونخوار کتوں کو ایسی ٹریننگ دی کی وہ زندہ انسانوں کا گوشت اسکے اشارے پر نوچ ڈالتے۔ رمزے ظلم اور بربریت کی زندہ مثال تھا جس نے اپنی بیوی پر بے انتہا ظلم ڈھائے اور دیگر پر سفاکی کی انتہا کردی۔ آخرکار اسکی بیوی سانسہ سٹارک نے فتح حاصل کرکے اسے انھی کتوں کے آگے ڈال دیا۔ رمزے کہتا ہے کہ یہ میرے کتے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
breakpoints · 3 years ago
Text
گہرا، طاقتور، ضعف: مارٹن 'پیار' ہاؤس آف ڈریگن | ایکسپریس ٹریبیون
گہرا، طاقتور، ضعف: مارٹن ‘پیار’ ہاؤس آف ڈریگن | ایکسپریس ٹریبیون
معروف مصنف جارج آر آر مارٹن اپنے مقبول ناول اے سانگ آف آئس اینڈ فائر کے آنے والے پریکوئل کی تعریف کر رہے ہیں۔ مارٹن نے شیئر کیا کہ اس نے کسی نہ کسی طرح کا کٹ دیکھا ہے۔ تخت کے کھیل اسپن آف سیریز ہاؤس آف ڈریگن اور “اس سے پیار کیا”، جیسا کہ اس نے کہا کہ “Targaryens بہت اچھے ہاتھوں میں ہیں”۔ 73 سالہ مصنف نے لکھا برف اور آگ کا گانا کتابوں کی سیریز جس پر HBO فنتاسی ڈرامہ مبنی تھا، اور اب اس نے آنے والی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
informationtv · 4 years ago
Text
مکّھی کو کیوں پیدا کیا گیا؟
مکّھی کو کیوں پیدا کیا گیا؟
خراسان کا بادشاہ شکار کھیل کرواپس آنے کے بعد تخت پر بیٹھا تھا۔ تھکاوٹ کی وجہ سے اس کی آنکھیں بوجھل ہو رہی تھیں۔ بادشاہ کے پاس ایک غلام ہاتھ باندھے مودب انداز میں کھڑا تھا۔بادشاہ کو سخت نیند آرہی تھی، مگر جب بھی اس کی آنکھیں بند ہوتیں تو ایک مکھی آ کر اس کی ناک پر بیٹھ جاتی تھی اور نیند اور بے خیالی کی وجہ سے بادشاہ غصے سے مکھی کو مارنے کی کوشش کرتا۔ لیکن اس کا ہاتھ اپنے ہی چہرے پر پڑتا تھا اور وہ…
View On WordPress
0 notes
westeroswisdom · 2 months ago
Text
« I mean, it would have to be the exact same cast and the exact same crew otherwise I wouldn’t go back and that would just be Season 9, and I don’t think we’re going to do a Season 9, but, I mean, I loved playing Sansa, and I do wonder often what would she be doing now. Where would she be five years later, what would she be doing? Would she still be queen in the North? Would she be a good ruler? Would there be some other kind of terrible war that’s happened? I’d love to see it. »
— Sophie Turner (Sansa Stark) on ever returning to the Game of Thrones universe. At Variety.
Queen Sansa's rule would be influenced by the rate of recovery The North was making from the various conflicts since the death of Jon Arryn as well as the severity of the winter which Westeros was experiencing.
Westeros as a whole was not in great shape by the end of the series. They managed to avoid complete annihilation by the Night King but at great cost.
It takes a while to rebuild and to restore resources. But Sansa has talents as a manager as well as political skills she developed through her various associations. So with help from a stretch of peace and a mild winter, she might be doing reasonably well.
26 notes · View notes
westeroswisdom · 1 year ago
Text
Fan art of Ned Stark by @artfruitz
We're still waiting for news as to who will portray Cregan Stark in House of the Dragon.
If I navigated the Stark genealogical charts correctly, Ned is the great-great-great-great-grandson of Cregan. Add one additional great- for Ned's offspring and also for Jon Snow whose mother is Ned's sister.
I drew Ned Stark!
Tumblr media
38 notes · View notes
urdunewspost · 4 years ago
Text
'گیم آف تھرون' کے ستارے کٹ ہارنگٹن ، روز لیسلی نے حمل کا اعلان کیا
‘گیم آف تھرون’ کے ستارے کٹ ہارنگٹن ، روز لیسلی نے حمل کا اعلان کیا
Tumblr media
‘گیم آف تھرون’ کے ستارے کٹ ہارنگٹن ، روز لیسلی نے حمل کا اعلان کیا
اداکار کٹ ہارنگٹن اور روز لیسلی اپنے پہلے بچے سے حاملہ ہیں اور جلد ہی والدین بننے کے لئے تیار ہیں۔
اس خبر کا اعلان لیسلی نے تازہ ترین ایڈیشن میں کیا یوکے میگزین جس میں اس نے اپنے بڑھتے ہوئے بچے کو ٹکرانا شروع کیا۔
تخت کے کھیل اسٹارلیٹ نے خوشی کے اس چھوٹے سے بنڈل کے بارے میں زیادہ انکشاف نہیں کیا ، لیکن انہوں نے اس پر بات کی…
View On WordPress
0 notes
westeroswisdom · 1 year ago
Text
Putin may be using the same playbook as Littlefinger but he's more blatantly open about it.
Putin is also showing signs of behaving like the Mad King – Aerys II Targaryen. His continuing war against Ukraine exhibits a decreasing amount of rationality.
There's also a bit of Stannis in Putin; especially Stannis's final days when he decided to attack the Boltons despite his forces having been devastated. Putin has a messianic vision of himself as the new Peter the Great. That will go about as well as Stannis thinking that he was the Prince Who Was Promised.
Hmm, this description seems to remind me of somebody...
For Russian President Vladimir Putin, the Israel-Hamas war is like every other crisis around the world: an opportunity to further Russia's aims in its invasion of Ukraine, says former oil tycoon and Russian opposition activist Mikhail Khodorkovsky. "They are not supporting anyone," Khodorkovsky said of the Kremlin. "They are for chaos. Putin today needs chaos to get what he wants out of increasingly muddy, murky waters. And what they want is not to lose in Ukraine." "Putin is creating chaos wherever he can to distract people, to distract resources, to distract politicians, and to be able to finish his dirty work [in Ukraine]," he said in an interview with Current Time, the Russian-language network led by RFE/RL in cooperation with VOA.
Okay, I think I recall the person.
Tumblr media Tumblr media
Up to February of 2022 Putin was successful because few countries called his bluff. He thinks he can still play his old games even though he's done more than anybody since Hitler to weaken Russia.
Putin is no longer playing chess or poker. He's resorted to Hungry Hungry Hippos.
6 notes · View notes
humlog786-blog · 5 years ago
Text
انقلاب پسند - افسانہ - سعادت حسن منٹو
Tumblr media
میری اور سلیم کی دوستی کو ��انچ سال کا عرصہ گُزر چکا ہے۔ اس زمانے میں ہم نے ایک ہی سکول سے دسویں جماعت کا امتحان پاس کیا، ایک ہی کالج میں داخل ہُوئے اور ایک ہی ساتھ ایف۔ اے۔ کے امتحان میں شامل ہو کر فیل ہوئے۔ پھر پرانا کالج چھوڑ کر ایک نئے کالج میں داخل ہُوئے۔ اس سال میں تو پاس ہو گیا۔ مگر سلیم سُوئے قسمت سے پھر فیل ہو گیا۔ سلیم کی دوبارہ ناکامیابی سے لوگ یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ وہ آوارہ مزاج اور نالائق ہے۔ یہ بالکل افترا ہے۔ سلیم کا بغلی دوست ہونے کی حیثیت سے میں یہ وثوق سے کہہ سکتا ہوں۔ کہ سلیم کا دماغ بہت روشن ہے۔ اگر وہ کالج کی پڑھائی کی طرف ذرا بھی توجہ دیتا۔ تو کوئی وجہ نہ تھی۔ کہ وہ صوبہ بھر میں اول نہ رہتا۔ اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس نے پڑھائی کی طرف کیوں توجہ نہ دی؟ جہاں تک میرا ذہن کام دیتا ہے مجھے اُس کی تمام تر وجہ، وہ خیالات معلوم ہوتے ہیں جو ایک عرصے سے اُس کے دل و دماغ پر آہستہ آہستہ چھا رہے تھے؟ دسویں جماعت اور کالج میں داخل ہوتے وقت سلیم کا دماغ ان تمام اُلجھنوں سے آزاد تھا۔ جنھوں نے اسے ان دنوں پاگل خانے کی چاردیواری میں قید کر رکھا ہے۔ ایام کالج میں وہ دیگر طلبہ کی طرح کھیل کود میں حصہ لیا کرتا تھا۔ سب لڑکوں میں ہر دلعزیز تھا۔ مگر یکایک اس کے والد کی ناگہانی موت نے اس کے متبسّم چہرے پر غم کی نقاب اوڑھا دی۔ اب کھیل کود کی جگہ غور و فکر نے لے لی۔ وہ کیا خیالات تھے، جو سلیم کے مضطرب دماغ میں پیدا ہُوئے؟۔ یہ مجھے معلوم نہیں۔ سلیم کی نفسیات کا مطالعہ کرنا بہت اہم کام ہے۔ اس کے علاوہ وہ خود اپنی دلی آواز سے نا آشنا تھا۔ اس نے کئی مرتبہ گفتگو کرتے وقت یا یونہی سیر کرتے ہُوئے اچانک میرا بازو پکڑ کر کہا ہے۔ ’’عباس جی چاہتا ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔ ‘‘ ’’ہاں۔ ہاں۔ کیا جی چاہتا ہے۔ میں نے اس کی طرف تمام توجہ مبذول کرکے پوچھا ہے۔ مگر میرے اس استفسار پر اس کے چہرے کی غیر معمولی تبدیلی اور گلے میں سانس کے تصادم نے صاف طور پر ظاہر کیا کہ وہ اپنے دلی مدّعا کو خود نہ پہچانتے ہُوئے الفاظ میں صاف طور پر ظاہر نہیں کر سکتا۔ وہ شخص جو اپنے احساسات کو کسی شکل میں پیش کر کے دوسرے ذہن پر منتقل کر سکتا ہے۔ وہ دراصل اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنے کی قدرت کا مالک ہے۔ اور وہ شخص جو محسوس کرتا ہے۔ مگر اپنے احساس کو خود آپ اچھی طرح نہیں سمجھتا۔ اور پھر اس اضطراب کو بیان کرنے کی قدرت نہیں رکھتا اس شخص کے مترادف ہے۔ جو اپنے حلق میں ٹھنسی ہُوئی چیز کو باہر نکالنے کی کوشش کر رہا ہو۔ مگر وہ گلے سے نیچے اُترتی چلی جا رہی ہو۔ یہ ایک ذہنی عذاب ہے۔ جس کی تفصیل لفظوں میں نہیں آ سکتی۔ سلیم شروع ہی سے اپنی آواز سے نا آشنا ��ہا ہے۔ اور ہوتا بھی کیونکر جب اس کے سینے میں خیالات کا ایک ہجوم چھایا رہتا تھا۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوا ہے کہ وہ بیٹھا بیٹھا اُٹھ کھڑا ہوا ہے۔ اور کمرے میں چکر لگا کر لمبے لمبے سانس بھرنے شروع کر دیے۔ غالباً وہ اپنے اندرونی انتشار سے تنگ آ کر ان خیالات کو جو اس کے سینے میں بھاپ کے مانند چکر لگا رہے ہوتے۔ سانسوں کے ذریعے باہر نکالنے کا کوشاں ہوا کرتا تھا۔ اضطراب کے انہی نکلیف دہ لمحات میں اس نے اکثر اوقات مجھ سے مخاطب ہو کر کہا ’’عباس! یہ خاکی کشتی کسی روز تُند موجوں کی تاب نہ لا کر چٹانوں سے ٹکرا کر پاش پاش ہو جائے گی۔ مجھے اندیشہ ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔‘‘ وہ اپنے اندیشے کو پوری طرح بیان نہیں کر سکتا تھا۔ سلیم کسی متوقع حادثے کا منتظر ضرور تھا۔ مگر اسے یہ معلوم نہ تھا کہ وہ حادثہ کس شکل میں پردہ ظہور پر نمودار ہو گا۔ اس کی نگاہیں ایک عرصے سے دُھندلے خیالات کی صورت میں ایک موہوم سایہ دیکھ رہی تھیں۔ جو اس کی طرف بڑھتا چلا آ رہا تھا۔ مگر وہ یہ نہیں بتا سکتا تھا کہ اس تاریک شکل کے پردے میں کیا نہاں ہے۔ میں نے سلیم کی نفسیات سمجھنے کی بہت کوشش کی ہے۔ مگر مجھے اس کی مُنقلب عادات کے ہوتے ہوئے کبھی معلوم نہیں ہو سکا کہ وہ کن گہرائیوں میں غوطہ زن ہے۔ اور وہ اس دنیا میں رہ کر اپنے مستقبل کے لیے کیا کرنا چاہتا ہے۔ جب کہ اپنے والد کے انتقال کے بعد وہ ہر قسم کے سرمائے سے محروم کر دیا گیا تھا۔ میں ایک عرصے سے سلیم کو مُنقلب ہوتے دیکھ رہا تھا۔ اس کی عادات دن بدن بدل رہی تھیں۔ کل کا کھلنڈر الڑکا، میرا ہم جماعت ایک مُفکر میں تبدیل ہو رہا تھا۔ یہ تبدیلی میرے لیے سخت باعث حیرت تھی۔ کچھ عرصے سے سلیم کی طبیعت پر ایک غیر معمولی سکون چھا گیا تھا۔ جب دیکھو اپنے گھر میں خاموش بیٹھا ہوا ہے۔ اور اپنے بھاری سر کو گھٹنوں میں تھامے کچھ سوچ رہا ہے۔ وہ کیا سوچ رہا ہوتا۔ یہ میری طرح خود اسے بھی معلوم نہ تھا۔ ان لمحات میں میں نے اسے اکثر اوقات اپنی گرم آنکھوں پر دوات کا آہنی ڈھکنا یا گلاس کا بیرونی حصّہ پھیرتے دیکھا ہے۔ شاید وہ اس عمل سے اپنی آنکھوں کی حرارت کم کرنا چاہتا تھا۔ سلیم نے کالج چھوڑتے ہی غیر ملکی مصنفّوں کی بھاری بھرکم تصانیف کا مطالعہ شروع کر دیا تھا۔ شروع شروع میں مجھے اس کی میز پر ایک کتاب نظر آئی۔ پھر آہستہ آہستہ اس الماری میں جس میں وہ شطرنج۔ تاش اور اسی قسم کی دیگر کھیلیں رکھا کرتا تھا۔ کتابیں ہی کتابیں نظر آنے لگیں۔ اس کے علاوہ وہ کئی کئی دنوں تک گھر سے کہیں باہر چلا جایا کرتا تھا۔ جہاں تک میرا خیال ہے سلیم کی طبیعت کا غیر معمولی سکون ان کتابوں کے انتھک مطالعہ کا نتیجہ تھا۔ جو اس نے بڑے قرینے سے الماری میں سجا رکھی تھیں۔ سلیم کا عزیز ترین دوست ہونے کی حیثیت میں مَیں اس کی طبیعت کے غیر معمولی سکون سے سخت پریشان تھا۔ مجھے اندیشہ تھا۔ کہ یہ سکون کسی وحشت خیز طوفان کا پیش خیمہ ہے۔ اس کے علاوہ مجھے سلیم کی صحت کا بھی خیال تھا۔ وہ پہلے ہی بہت کمزور جثّے کا واقع ہوا تھا۔ اس پر اس نے خوامخواہ اپنے آپ کو خدا معلوم کن کن الجھنوں میں پھنسا لیا تھا۔ سلیم کی عمر ب��شکل بیس سال کی ہو گی۔ مگر اس کی آنکھوں کے نیچے شب بیداری کی وجہ سے سیاہ حلقے پڑ گئے تھے۔ پیشانی جو اس سے قبل بالکل ہموار تھی اب اس پر کئی شکن پڑے رہتے تھے۔ جو اس کی ذہنی پریشانی کو ظاہر کرتے تھے۔ چہرہ جو کچھ عرصہ پہلے بہت شگفتہ ہوا کرتا تھا۔ اب اس پر ناک اور لب کے درمیان گہری لکیریں پڑ گئی تھیں۔ جنہوں نے سلیم کو قبل ازوقت معّمر بنا دیا تھا۔ اس غیر معمولی تبدیلی کو میں نے اپنی آنکھوں کے سامنے وقوع پذیر ہوتے دیکھاہے۔ جو مجھے ایک شعبدے سے کم معلوم نہیں ہوتی۔ یہ کیا تعجب کی بات ہے۔ کہ میری عمر کا لڑکا میری نظروں کے سامنے بوڑھا ہو جائے۔ سلیم پاگل خانے میں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں۔ مگر اس کے یہ معنی نہیں ہو سکتے کہ وہ سڑی اور دیوانہ ہے۔ اسے غالباً اس بنا پر پاگل خانے بھیجا گیا ہے کہ وہ بازاروں میں بلند بانگ تقریریں کرتا ہے۔ راہ گذروں کو پکڑ پکڑ کر انہیں زندگی کے مشکل مسائل بتا کر جواب طلب کرتا ہے۔ اور امرا کے حریر پوش بچوں کا لباس اتار کر ننگے بچوں کو پہنا دیتا ہے۔ ممکن ہے۔ یہ حرکات ڈاکٹروں کے نزدیک دیوانگی کی علامتیں ہوں۔ مگر میں یقین کے ساتھ کَہ سکتا ہوں کہ سلیم پاگل نہیں ہے۔ بلکہ وہ لوگ جنھوں نے اسے امن عامہ میں خلل ڈالنے والا تصور کرتے ہوئے آہنی سلاخوں کے پنجرے میں قید کر دیا ہے۔ کسی دیوانے حیوان سے کم نہیں ہیں! اگر وہ اپنی غیر مربوط تقریر کے ذریعے لوگوں تک اپنا پیغام پہنچانا چاہتا ہے۔ تو کیا ان کا فرض نہیں کہ وہ اس کے ہر لفظ کو غور سے سنیں؟ اگر وہ راہ گذروں کے ساتھ فلسفہ ءِ حیات پر تبادلہ ءِ خیالات کرنا چاہتا ہے۔ تو کیا اس کے یہ معنی لیے جائیں گے کہ اس کا وجود مجلسی دائرہ کے لیے نقصان دہ ہے؟۔ کیا زندگی کے حقیقی معنی سے باخبر ہونا ہر انسان کا فرض نہیں ہے؟ اگر وہ متمول اشخاص کے بچوں کا لباس اُتار کر غربا کے برہنہ بچوں کا تن ڈھانپنا چاہتا ہے تو کیا یہ عمل اُن افراد کو اُن کے فرائض سے آگاہ نہیں کرتا جو فلک بوس عمارتوں میں دوسرے لوگوں کے بل بوتے پر آرام کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ کیا ننگوں کی ستر پوشی کرنا ایسا فعل ہے کہ اسے دیوانگی پر محمول کیا جائے؟ سلیم ہر گز پاگل نہیں ہے۔ مگر مجھے یہ تسلیم ہے کہ اس کے افکار نے اسے بے خود ضروربنا رکھا ہے۔ دراصل وہ دُنیا کو کچھ پیغام دینا چاہتا ہے۔ مگر دے نہیں سکتا ایک کم سن بچے کی طرح وہ تُتلا تُتلا کر اپنے قلبی احساسات بیان کرنا چاہتا ہے۔ مگر الفاظ اسکی زبان پر آتے ہی بکھر جاتے ہیں۔ وہ اس سے قبل ذہنی اذیت میں مبتلا ہے۔ مگر اب اسے اور اذیت میں ڈال دیا گیا ہے۔ وہ پہلے ہی سے اپنے افکار کی الجھنوں میں گرفتار ہے۔ اور اب اسے زندان نما کوٹھڑی میں قید کر دیا گیا ہے۔ کیا یہ ظلم نہیں ہے؟ میں نے آج تک سلیم کی کوئی بھی ایسی حرکت نہیں دیکھی۔ جس سے میں یہ نتیجہ نکال سکوں۔ کہ وہ دیوانہ ہے۔ ہاں البتہ کچھ عرصے سے میں اس کے ذہنی انقلابات کا مشاہدہ ضرور کرتا رہا ہوں۔ شروع شروع میں جب میں نے اس کے کمرے کے تمام فرنیچر کو اپنی اپنی جگہ سے ہٹا ہُوا پایا تو میں نے اس تبدیلی کی طرف خاص توجہ نہ دی دراصل میں نے اس وقت جو خیال کیا۔ کہ شاید سلیم نے فرنیچر کی موجودہ جگہ کو زیادہ موزوں خیال کیا ہے۔ اور حقیقت تو یہ ہے کہ میری نظروں کو جو کرسیوں اور میزوں کو کئی سالوں سے ایک جگہ دیکھنے کی عادی تھیں۔ وہ غیر متوقع تبدیلی بہت بھلی معلوم ہوئی۔ اس واقعے کے چند روز بعد جب میں کالج سے فارغ ہو کر سلیم کے کمرے میں داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ فلمی ممثلوں کی دو تصاویر جو ایک عرصے سے کمرے کی دیواروں پر آویزاں تھیں اور جنھیں میں اور سلیم نے بہت مشکل کے بعد فراہم کیا تھا۔ باہر ٹوکری میں پھٹی پڑی ہیں اور ان کی جگہ انہی چوکھٹوں میں مختلف مصنفّوں کی تصویریں لٹک رہی ہیں۔ چونکہ میں خود ان تصاویر کا اتنا مشتاق نہ تھا۔ اس لیے مجھے سلیم کا یہ انخلاب بہت پسند آیا۔ چنانچہ ہم اس روز دیر تک ان تصویروں کے متعلق گفتگو بھی کرتے رہے۔ جہاں تک مجھے یاد ہے اس واقعہ کے بعد سلیم کے کمرے میں ایک ماہ تک کوئی خاص قابل ذکر تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔ مگر اس عرصے کے بعد میں نے ایک روز اچانک کمرے میں بڑا سا تخت پڑا پایا۔ جس پر سلیم نے کپڑا بچھا کر کتابیں چُن رکھیں تھیں اور آپ قریب ہی زمین پر ایک تکیہ کا سہارا لیے کچھ لکھنے میں مصروف تھا۔ میں یہ دیکھ کر سخت متعجّب ہوا۔ اور کمرے میں داخل ہوتے ہی سلیم سے یہ سوال کیا۔ کیوں میاں! اس تخت کے کیا معنی؟ سلیم جیسا کہ اس کی عادت تھی مسکرایا اور کہنے لگا۔ ’’کرسیوں پر روزانہ بیٹھتے بیٹھتے طبیعت اُکتا گئی ہے۔ اب یہ فرش والا سلسلہ ہی رہے گا۔ بات معقول تھی۔ میں چپ رہا۔ واقعی روزانہ ایک ہی چیز کا استعمال کرتے کرتے طبیعت ضرور اچاٹ ہو جایا کرتی ہے۔ مگر جب پندرہ بیس روز کے بعد میں نے وہ تخت مع تکیے کے غائب پایا۔ تو میرے تعجّب کی کوئی انتہا نہ رہی۔ اور مجھے شُبہ سا ہوا کہ کہیں میرا دوست واقعی خبطی تو نہیں ہو گیا ہے۔ سلیم سخت گرم مزاج واقع ہُوا ہے۔ اس کے علاوہ اس کے وزنی افکار نے اسے معمول سے زیادہ چڑ چڑا بنا رکھا تھا۔ اس لیے میں عموماً اس سے ایسے سوالات نہیں کیا کرتا۔ جو اس کے دماغی توازن کو درہم برہم کر دیں یا جن سے وہ خوامخواہ کھج جائے۔ فرنیچر کی تبدیلی، تصویروں کا انخلاب، تخت کی آمد اور پھر اس کا غائب ہو جانا واقعی کسی حد تک تعجب خیز ضرور ہیں اور واجب تھا کہ میں ان اُمور کی وجہ دریافت کرتا۔ مگر چونکہ مجھے سلیم کو آزردہ خاطر کرنا، اور اس کے کام میں دخل دینا منظور نہ تھا۔ اس لیے میں خاموش رہا۔ تھوڑے عرصے کے بعد سلیم کے کمرے میں ہر دوسرے تیسرے دن کوئی نہ کوئی تبدیلی دیکھنا میرا معمول ہو گیا۔ اگر آج کمرے میں تخت موجود ہے۔ تو ہفتے کے بعد وہاں سے اُٹھا دیا گیا ہے۔ اس کے دو روز بعد وہ میز جو کچھ عرصہ پہلے کمرے کے دائیں طرف پڑی تھی۔ رات رات میں وہاں سے اٹھا کر دوسری طرف رکھ دی گئی ہے۔ انگیٹھی پر رکھی ہُوئی تصاویر کے زاویے بدلے جا رہے ہیں۔ کپڑے لٹکانے کی کھونٹیاں ایک جگہ سے اُکھیڑ کر دوسری جگہ پر جڑ دی گئی ہیں۔ کرسیوں کے رُخ تبدیل کیے گئے ہیں۔ گویا کمرے کی ہر شے ایک قسم کی قواعد کرائی جاتی تھی۔ ایک روز جب میں نے کمرے کے تمام فرنیچر کو مخالف رخ میں پایا تو مجھ سے نہ رہا گیا۔ اور میں نے سلیم سے دریافت کر ہی لیا۔ ’’سلیم میں ایک عرصے سے اس کمرے کو گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا دیکھ رہا ہوں۔ آخر بتاؤ تو سہی یہ تمہارا کوئی نیا فلسفہ ہے۔ ؟‘‘ ’’تم جانتے نہیں ہو، میں انقلاب پسند ہوں‘‘ سلیم نے جواب دیا۔ یہ سن کر میں اور بھی متعجب ہوا۔ اگر سلیم نے یہ الفاظ اپنی حسبِ معمول مسکراہٹ کے ساتھ کہے ہوتے تو میں یقینی طور پر یہ خیال کرتا کہ وہ صرف مذاق کر رہا ہے۔ مگر یہ جواب دیتے وقت اس کا چہرہ اس امر کا شاہد تھا، کہ وہ سنجیدہ ہے۔ اور میرے سوال کا جواب وہ اِنہی الفاظ میں دینا چاہتا ہے لیکن پھر بھی میں تذبذب کی حالت میں تھا۔ چنانچہ میں نے اس سے کہا۔ ’’مذاق کر رہے ہو یار؟‘‘ ’’تمہاری قسم بہت بڑا انقلاب پسند‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ کھل کھلا کر ہنس پڑا۔ مجھے یاد ہے کہ اس کے بعد اس نے ایسی گفتگوشروع کی تھی۔ مگر ہم دونوں کسی اور موضوع پر اظہار خیالات کرنے لگ گئے تھے۔ یہ سلیم کی عادت ہے کہ وہ بہت سی باتوں کو دلچسپ گفتگو کے پردے میں چُھپا لیا کرتا ہے۔ ان دنوں جب کبھی میں سلیم کے جواب پر غور کرتا ہُوں۔ مجھے معلوم ہوتا ہے کہ سلیم درحقیقت انقلاب پسند واقع ہُوا ہے۔ اس کے یہ معنی نہیں کہ وہ کسی سلطنت کا تختہ اُلٹنے کے درپے ہے۔ یا وہ دیگر انقلاب پسندوں کی طرح چوراہوں میں بم پھینک کر دہشت پھیلاناچاہتا ہے۔ بلکہ جہاں تک میرا خیال ہے۔ وہ ہر چیز میں انقلاب دیکھنا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی نظریں اپنے کمرے میں پڑی ہوئی اشیا کو ایک ہی جگہ پر نہ دیکھ سکتی تھیں۔ ممکن ہے میرا یہ قیافہ کس حد تک غلط ہو۔ مگر میں یہ وثوق سے کَہ سکتا ہوں کہ اس کی جستجو کسی ایسے انقلاب کی طرف رجوع کرتی ہے۔ جس کے آثار اس کے کمرے کی روزانہ تبدیلیوں سے ظاہر ہیں۔ بادی النظر میں کمرے کی اشیا کو روز الٹ پلٹ کرتے رہنا دیوانگی کے مترادف ہے۔ لیکن اگر سلیم کی ان بے معنی حرکات کا عمیق مطالعہ کیا جائے تو یہ امر روشن ہو جائیگا کہ ان کے پسِ پردہ ایک ایسی قوت کام کر رہی تھی۔ جس سے وہ خود ناآشنا تھا۔ اسی قوت نے جسے میں ذہنی تعصب کا نام دیتا ہوں۔ سلیم کے دماغ میں تلاطم بپا کر دیا۔ اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ اس طوفان کی تاب نہ لا کر ازخود رفتہ ہو گیا۔ اور پاگل خانے کی چاردیواری میں قید کر دیا گیا۔ پاگل خانے جانے سے کچھ روز پہلے سلیم مجھے اچانک شہر کے ایک ہوٹل میں چائے پیتا ہوا ملا۔ میں اور وہ دونوں ایک چھوٹے سے کمرے میں بیٹھ گئے۔ اس لیے کہ میں اُس سے کچھ گفتگو کرنا چاہتا تھا۔ میں نے اپنے بازار کے چند دکان داروں سے سنا تھا کہ اب سلیم ہوٹلوں میں پاگلوں کی طرح تقریریں کرتا ہے۔ میں یہ چاہتا تھا کہ اس سے فوراً مل کر اُسے اس قسم کی حرکات کرنے سے منع کر دوں۔ اس کے علاوہ یہ اندیشہ تھا کہ شاید وہ کہیں سچ مچ نحبوط القواس ہی نہ ہو گیا ہو۔ چونکہ میں اس سے فوراً ہی بات کرنا چاہتا تھا اس لیے میں نے ہوٹل میں گفتگو کرنا مناسب سمجھا۔ کرسی پر بیٹھتے وقت میں غور سے سلیم کے چہرے کی طرف دیکھ رہا تھا۔ وہ مجھے اس طرح گھورتے دیکھ کر سخت متعجب ہوا۔ وہ کہنے لگا۔۔۔۔۔۔ ’’شاید میں سلیم نہیں ہوں۔ ‘‘ آواز میں کس قدر درد تھا۔ گو یہ جُملہ آپ کی نظروں میں بالکل سادہ معلوم ہو۔ مگر خدا گواہ ہے میری آنکھیں بے اختیار نمناک ہو گئیں۔ ” شاید میں سلیم نہیں ہُوں‘‘ گویا ��ہ ہر وقت اس بات کا متوقع تھا کہ کسی ��وز اس کا بہترین دوست بھی اسے نہ پہچان سکے گا۔ شاید اسے معلوم تھا کہ وہ بہت حد تک تبدیل ہو چکا ہے۔ میں نے ضبط سے کام لیا۔ اور اپنے آنسوؤں کو رومال میں چھپا کر اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ ’’سلیم میں نے سُنا ہے کہ تم نے میرے لاہور جانے کے بعد یہاں بازاروں میں تقریریں کرنی شروع کر دی ہیں۔ جانتے بھی ہو۔ اب تمہیں شہر کا بچہ بچہ پاگل کے نام سے پُکارتا ہے۔ ‘‘ ’’پاگل! شہر کا بچہ بچہ مجھے پاگل کے نام سے پُکارتا ہے۔ پاگل!۔ ہاں عباس، میں پاگل ہُوں۔ پاگل۔ دیوانہ۔ خرد باختہ۔ لوگ مجھے دیوانہ کہتے ہیں۔ معلوم ہے کیوں؟ یہاں تک کہ وہ میری طرف سرتاپا استفہام بن کر دیکھنے لگا۔ مگر میری طرف سے کوئی جواب نہ پا کر وہ دوبارہ گویا ہوا۔ ’’اس لیے کہ میں انہیں غریبوں کے ننگے بچے دِکھلا دِکھلا کر یہ پوچھتا ہُوں۔ کہ اس بڑھتی ہُوئی غربت کا کیا علاج ہو سکتا ہے؟۔ وہ مجھے کوئی جواب نہیں دے سکتے۔ اس لیے وہ مجھے پاگل تصّور کرتے ہیں۔ آہ اگر مجھے صرف یہ معلوم ہو کہ ظلمت کے اس زمانے میں روشنی کی ایک شعاع کیونکر فراہم کی جا سکتی ہے۔ ہزاروں غریب بچوں کا تاریک مستقبل کیونکر منّور بنایا جا سکتا ہے۔ وہ مجھے پاگل کہتے ہیں۔ وہ جن کی نبضِ حیات دوسروں کے خون کی مرہون منّت ہے، وہ جن کا فردوس غربا کے جہنم کی مستعار اینٹوں سے استوار کیا گیا ہے، جن کے سازِ عشرت کے ہر تار کے ساتھ بیواؤں کی آہیں یتیموں کی عریانی، لاوارث بچوں کی صدائے گریہ لپٹی ہوئی ہے۔ کہیں، مگر ایک زمانہ آنے والا ہے جب یہی پروردہ ءِ غربت اپنے دلوں کے مشترکہ لہو میں اُنگلیاں ڈبو ڈبو کر ان لوگوں کی پیشانیوں پر اپنی لعنتیں لکھیں گے۔ وہ وقت نزدیک ہے جب ارضی جنّت کے دروازے ہر شخص کے لیے واہوں گے۔ میں پوچھتا ہُوں کہ اگر میں آرام میں ہوں۔ تو کیا وجہ ہے کہ تم تکلیف کی زندگی بسر کرو؟۔ کیا یہی انسانیّت ہے کہ میں کارخانے کا مالک ہوتے ہُوئے ہر شب ایک نئی رقاصہ کا ناچ دیکھتا ہُوں، ہر روز کلب میں سینکڑوں روپے قمار بازی کی نذر کر دیتا ہوں۔ اور اپنی نکمی سے نکمی خواہش پر بے دریغ روپیہ بہا کر اپنا دل خوش کرتا ہُوں، اور میرے مزدوروں کو ایک وقت کی روٹی نصیب نہیں ہوتی۔ ان کے بچے مٹی کے ایک کھلونے کے لیے ترستے ہیں۔ پھر لُطف یہ ہے کہ میں مُہذب ہوں، میری ہر جگہ عزت کی جاتی ہے، اور وہ لوگ جن کہ پسینہ میرے لیے گوہر تیار کرتا ہے۔ مجلسی دائرے میں حقارت کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں۔ میں خود ان سے نفرت کرتا ہوں۔ تم ہی بتاؤ، کیا یہ دونوں ظالم و مظلوم اپنے فرائض سے نا آشنا نہیں ہیں؟ میں ان دونوں کو ان کے فرائض سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں۔ مگر کس طرح کروں؟۔ یہ مجھے معلوم نہیں۔ ‘‘ سلیم نے اس قدر کہہ کر ہانپتے ہوئے ٹھنڈی چائے کا ایک گھونٹ بھرا اور میری طرف دیکھے بغیر پھر بولنا شروع کر دیا۔ ’’میں پاگل نہیں ہُوں۔ مجھے ایک وکیل سمجھو۔ بغیر کسی اُمید کے، جو اس چیز کی وکالت کر رہا ہے۔ جو بالکل گم ہُو چکی ہے۔ میں ایک دبی ہوئی آواز ہوں۔ انسانیّت ایک منہ ہے۔ اور میں ایک چیخ۔ میں اپنی آواز دوسروں تک پہنچانے کی کوشش کرتا ہ��ں۔ مگر وہ میرے خیالات کے بوجھ تلے دبی ہُوئی ہے۔ میں بہت کچھ کہنا چاہتا ہوں مگر اسی لیے کچھ کہہ نہیں سکتا۔ کہ مجھے بہت کچھ کہنا ہے۔ میں اپنا پیغام کہاں سے شروع کروں۔ یہ مجھے معلوم نہیں۔ میں اپنی آواز کے بکھرے ہوئے ٹکڑے فراہم کرتا ہوں ذہنی اذّیت کے دُھندلے غبار میں سے چند خیالات تمہید کے طور پر پیش کرنے کی سعی کرتا ہوں۔ اپنے احساسات کی عمیق گہرائیوں سے چند احساس سطح پر لاتا ہوں۔ کہ دوسرے اذہان پر منتقل کر سکوں مگر میری آواز کے ٹکڑے پھر منتشر ہو جاتے ہیں۔ خیالات پھر تاریکی میں روپوش ہو جاتے ہیں۔ احساسات پھر غوطہ لگا جاتے ہیں۔ میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ جب میں یہ دیکھتا ہوں۔ کہ میرے خیالات منتشر ہونے کے بعد پھر جمع ہو رہے ہیں۔ تو جہاں کہیں میری قوتِ گویائی کام دیتی ہے میں شہر کے رؤسا سے مخاطب ہو کر یہ کہنے لگ جاتا ہوں۔ مرمریں محلّات کے مکینو! تم اس وسیع کائنات میں صرف سورج کی روشنی دیکھتے ہو۔ مگر یقین جانو۔ اس کے سائے بھی ہوتے ہیں۔ تم مجھے سلیم کے نام سے جانتے ہو، یہ غلطی ہے۔ میں وہ کپکپی ہوں جو ایک کنواری لڑکی کے جسم پر طاری ہوتی ہے۔ جب وہ غربت سے تنگ آکر پہلی دفعہ ایوانِ گناہ کی طرف قدم بڑھانے لگے۔ آؤ ہم سب کانپیں! تم ہنستے ہو۔ مگر نہیں تمہیں مجھے ضرور سُننا ہو گا۔ میں ایک غوطہ خور ہُوں۔ قدرت نے مجھے تاریک سمندر کی گہرائیوں میں دبو دیا۔۔۔۔۔۔ کہ میں کچھ ڈھونڈھ کر لاؤں۔ میں ایک بے بہا موتی لایا ہُوں۔ وہ سچائی ہے۔ اس تلاش میں میں نے غربت دیکھی ہے، گرسنگی برداشت کی ہے۔ لوگوں کی نفرت سے دوچار ہُوا ہُوں۔ جاڑے میں غریبوں کی رگوں میں خون کو منجمد ہوتے دیکھا ہے، نوجوان لڑکیوں کو عشرت کدوں کی زینت بڑھاتے دیکھا ہے اس لیے کہ وہ مجبور تھیں۔ اب میں یہی کچھ تمہارے منہ پر قے کر دینا چاہتا ہوں کہ تمہیں تصویر زندگی کا تاریک پہلو نظر آ جائے۔ انسانیت ایک دل ہے۔ ہر شخص کے پہلو میں ایک ہی قسم کا دل موجود ہے۔ اگر تمہارے بوٹ غریب مزدوروں کے ننگے سینوں پر ٹھوکریں لگاتے ہیں۔ اگر تم اپنے شہوانی جذبات کی بھڑکتی ہُوئی آگ کسی ہمسایہ نادار لڑکی کی عصمت دری سے ٹھنڈی کرتے ہو۔ اگر تمہاری غفلت سے ہزار ہا یتیم بچے گہوارہ ءِ جہالت میں پل کر جیلوں کو آباد کرتے ہیں۔ اگر تمہارا دل کاجل کے مانند سیاہ ہے۔ تو یہ تمہارا قصور نہیں۔ ایوان معاشرت ہی کچھ ایسے ڈھب پر استوار کیا گیا ہے۔ کہ اس کی ہر چھت اپنی ہمسایہ چھت کو دابے ہُوئے ہے۔ ہر اینٹ دوسری اینٹ کو۔ جانتے ہو، موجودہ نظام کے کیا معنی ہیں؟۔ یہ کہ لوگو ں کے سینوں کو جہالت کدہ بنائے۔ انسانی تلذد کی کشتی ہو اور ہوّس کی موجوں میں بہا دے، جوان لڑکیوں کی عصمت چھین کر انہیں ایوان تجارت میں کھلے بندوں حُسن فروشی پر مجبور کر دے غریبوں کا خون چُوس کر اُنہیں جلی ہوئی راکھ کے مانند قبر کی مٹی میں یکساں کردے۔ کیا اسی کو تم تہذیب کا نام دیتے ہو۔ بھیانک قصابی!! تاریک شیطنیت!!!ْ آہ اگر تم صرف وہ دیکھ سکو۔ جس کا میں نے مشاہدہ کیا ہے!۔ ایسے بہت سے لوگ ہیں۔ جو قبر نما جھونپڑوں میں زندگی کے سانس پورے کر رہے ہیں۔ تمہاری نظروں کے سامنے ایسے ا��راد موجود ہیں۔ جو موت کے منہ میں جی رہے ہیں۔ ایسی لڑکیاں ہیں۔ جو بارہ سال کی عمر میں عصمت فروشی شروع کرتی ہیں۔ اور بیس سال کی عمر میں قبر کی سردی سے لپٹ جاتی ہیں۔ مگر تم۔ ہاں تم، جو اپنے لباس کی تراش کے متعلق گھنٹوں غور کرتے رہتے ہو۔ یہ نہیں دیکھتے۔ بلکہ اُلٹا غریبوں سے چھین کر اُمراء کی دولتوں میں اضافہ کرتے ہو۔ مزدور سے لے کر کاہل کے حوالے کر دیتے ہو۔ ڈگری پہنے انسان کا لباس اُتار کر حریر پوش کے سُپرد کر دیتے ہو۔ تم غربا کے غیر مختتم مصائب پر ہنستے ہو۔ مگر تمہیں یہ معلوم نہیں۔ کہ اگر درخت کا نچلا حصہ لاغر مردہ ہو رہا ہے تو کسی روز وہ بالائی حصے کے بوجھ کو برداشت نہ کرتے ہوئے گر پڑے گا۔ ‘‘ یہاں تک بول کر سلیم خاموش ہو گیا اور ٹھنڈی چائے کو آہستہ آہستہ پینے لگا۔ تقریر کے دوران میں میں سحر زدہ آدمی کی طرح چُپ چُپ بیٹھا اس کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ جو بارش کی طرح برس رہے تھے۔ بغور سنتا رہا۔ میں سخت حیران تھا۔ کہ وہ سلیم جو آج سے کچھ عرصہ پہلے بالکل خاموش ہوا کرتا تھا۔ اتنی طویل تقریر کیونکر جاری رکھ سکا ہے۔ اس کے علاوہ خیالات کس قدر حق پر مبنی تھے۔ اور آواز میں کتنا اثر تھا۔ میں ابھی اس کی تقریر کے متعلق کچھ سوچ ہی رہا تھا۔ کہ وہ پھر بولا۔ ’’خاندان کے خاندان شہر کے یہ نہنگ نگل جاتے ہیں۔ عوام کے اخلاق قوانین سے مسخ کیے جاتے ہیں۔ لوگوں کے زخم جُرمانوں سے کریدے جاتے ہیں۔ ٹیکسوں کے ذریعے دامنِ غربت کترا جاتا ہے۔ تباہ شدہ ذہنیت جہالت کی تاریکی سیاہ بنا دیتی ہے۔ ہر طرف حالت نزع کے سانس کی لرزاں آوازیں، عریانی، گناہ اور فریب ہے۔ مگر دعویٰ یہ ہے کہ عوام امن کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ کیا اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ ہماری آنکھوں پر سیاہ پٹی باندھی جا رہی ہے۔ ہمارے کانوں میں پگھلا ہُوا سیسہ اُتارا جا رہا ہے۔ ہمارے جسم مصائب کے کوڑے سے بے حس بنائے جا رہے ہیں۔ تاکہ ہم نہ دیکھ سکیں۔ نہ سُن سکیں اور نہ محسوس کر سکیں!۔ انسان جسے بلندیوں پر پرواز کرنا تھا۔ کیا اس کے بال و پر نوچ کر اسے زمین پر رینگنے کے لیے مجبور نہیں کیا جا رہا؟۔ کیا امرا کی نظر فریب عمارتیں مزدوروں کے گوشت پوست سے تیار نہیں کی جاتیں؟۔ کیا عوام کے مکتوبِ حیات پر جرائم کی مہر ثبت نہیں کی جاتی؟ کیا مجلسی بدن کی رگوں میں بدی کا خون موجزن نہیں ہے۔ کیا جمہور کی زندگی کشمکشِ پیہم، انتھک محنت اور قوتِ برداشت کا مرکب نہیں ہے؟۔ بتاؤ بتاؤ، بتاتے کیوں نہیں؟‘‘ ’’درست ہے‘‘ میرے منہ سے بے اختیار نکل گیا۔ ’’تو پھر اس کا علاج کرنا تمہارا فرض ہے۔ کیا تم کوئی طریقہ نہیں بتا سکتے۔ کہ اس انسانی تذلیل کو کیونکر روکا جا سکتا ہے۔ مگر آہ! تمہیں معلوم نہیں، مجھے خود معلوم نہیں‘‘ تھوڑی دیر کے بعد وہ میرا ہاتھ پکڑ کر راز دارانہ لہجے میں یوں کہنے لگا۔ ’’عباس! عوام سخت تکلیف برداشت کر رہے ہیں۔ بعض اوقات جب کبھی میں کسی سوختہ حال انسان کے سینے سے آہ بلند ہوتے دیکھتا ہوں۔ تو مجھے اندیشہ ہوتا ہے کہ کہیں شہر نہ جل جائے!۔ اچھا اب میں جاتا ہوں، تم لاہور واپس کب جا رہے ہو؟‘‘ ’’یہ کہہ کر وہ اُٹھا۔ اور ٹوپی سنبھال کر باہر چلنے لگا۔ ’’ٹھہرو! میں بھی تمہارے ساتھ چلتا ہوں۔ کہاں جاؤ گے اب؟‘‘ اسے یک لخت کہیں جانے کے لیے تیار دیکھ کر میں نے اسے فوراً ہی کہا۔ ’’مگر میں اکیلا جانا چاہتا ہوں۔ کسی باغ میں جاؤں گا‘‘ میں خاموش ہو گیا۔ اور وہ ہوٹل سے نکل کر بازار کے ہجوم میں گم ہو گیا اس گفتگو کے چوتھے روز مجھے لاہور میں اطلاع ملی کہ سلیم نے میرے جانے کے بعد بازاروں میں دیوانہ وار شور برپا کرنا شروع کر دیا تھا۔ اس لئے اسے پاگل خانے میں داخل کر لیا گیا ہے۔ ۲۴ مارچ ۱۹۳۵ء اشاعت اولیں، علی گڑھ میگزین Read the full article
0 notes
dailyshahbaz · 5 years ago
Photo
Tumblr media
مبارک ہو دھرنا کامیاب ہو گیا دھرنا شروع ہونے سے پہلے دھرنے کے مقاصد اور حصول پر بحث ومباحثہ ہر جگہ نمایاں تھا، کوئی کہتا تھا کہ دھرنا والوںکے پاس ایجنڈا نہیںہے اس لئے حکومت کا فرض ہے کہ دھرنے کو اسلام اباد میں داخل نہ ہونے دے جبکہ فضل رحمٰن کا دعویٰ تھاکہ دو دن کے اندر اندر عمران خان سے استعفیٰ لوں گا اور (نہ دیا تو) ہاتھ مروڑ کے لونگا جبکہ پی پی پی اور پی ایم ایل این نے تو دھرنے کو سپورٹ ہی نہیں کیا البتہ جلسے میں ضرور شرکت کی بلکہ بعض نے جگہ جگہ آزادی مارچ کا استقبال بھی کیا۔ بظاہر فضل الرحمٰن نے شکست پائی اور عمران خان جیت گئے لیکن بادی النظر میں اس دھرنے کا وہ مقصد ہی نہیں تھا جوکہ نظر آتا ہے بلکہ بقول شخصے ’’ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں،کچھ دیتے ہیں یہ بازی گر دھوکہ کھلا۔‘‘ دھرنے کی ابتدا میں فضل الرحمٰن کا ایجنڈا نواز شریف کے ایجنڈ ے کا عکس تھا یعنی ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ والا تھا، سلکٹیڈ کے بجائے توپوں کا رخ سلیکٹرز کی طرف تھا یعنی خلائی مخلوق تیر کمان کی زد میں زیادہ اور عمران کم تھے۔ اس لئے نواز شریف نے بھی دھرنے میں بھرپور شرکت کرنے کاکھل کر اعلان کیا تھا جبکہ شہباز شریف مفاہمت کی سیاست کے پیروکار ہیں لہٰذا وہ نواز شریف کی خط کاکسی اور طرح سے تشریح کر رہے تھے، صاف چھپے ہوئے بھی تھے اور صاف نظر بھی آرہے تھے یعنی کبھی ’’ہی‘‘ اورکبھی ’’شی‘‘ کا عکس نظر آتے تھے۔ بقول شیخ رشید کے وکٹ کے دونوں طرف کھیل رہے تھے۔ عمران نے فضل الرحمٰن کے ساتھ مذاکرات کے لئے جو کمیٹی بنائی تھی اس کی اہمیت اس وقت کم ہوئی بلکہ ختم ہوگئی جب فضل الرحمٰن نے آتے ہی عو امی مزاج سے ہم آہنگ ہوکر توپوں کا رخ جی ’’کسی اور‘‘ طرف موڑ دیا تھا۔ ایسے میں کمیٹی کے بجائے ایک رکن کا آنا اور ساتھ ہی شجاعت حسین کا متحرک ہونا کسی خاص سمت کی طرف واضح اشارہ ہی ہے کہ یہ بیٹری کہاں سے چارج پاکر اپنا کردار ادا کرنے لگی ہے۔ اس کے بعد فضل الرحمٰن کے بیان کی سمت کا بدل جانا بھی ایک اشارہ ہی ہے کہ دھرنے کا انداز بدل کر ’’شہبازانہ‘‘ ہوگیا ہے ۔ یہ ہم سب کو معلوم ہے کہ شہبازی رویہ من وسلویٰ کی پیداوار کا باعث ہی بنتا ہے یہ الگ بات کہ اب تک اس کا یہ سفر اپنے لالا کے ہاتھوں نتیجہ خیز نہیں تھا لیکن فضل الرحمٰن نے حالات کا رخ موڑ کر وہ کر ڈالا جو نہ نواز شریف ک��سکے اور نہ لالا کی ضد کے باعث شہباز شریف اپنی ریشمی طبیعت کے باعث بھی کرسکے۔ لالابھی باہر اور بھتیجی بھی باہر، چلو بھئی بیماری کے باعث، نواز شریف کا باہر ہونا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن بھیتجی کس خوشی میں باہر ہوگئی۔ ڈرامے کا یہ سین بالابالا ڈائریکٹ کیا گیا تھا لہٰذا قوم کو این آر او، این آر اوکا نشہ پلانے والے کے لئے یہ منظر بہت ٹریجک ہی تھا لہٰذا انڈیمنٹی بانڈ کا شوشہ چھوڑنے کے علاوہ اور کوئی راستہ ہی نہیں بچا تھا حالانکہ موصوف کو خود ہی معلوم ہے کہ اسلام آباد کی یہ کھلی دعوت ہے کہ میرے تخت کے لئے راستے پر آنے کے لئے کوئی پھتر ہی نہیں ہے بلکہ اسی کہکشاں پہ آؤ اگر آسکو تو آؤ۔ موصوف خود ہی اسی کہکشاں کی روشنی میں تخت اسلام آباد آئے ہیں۔ ق لیگ اور ایم کیوایم کا نواز شریف کے حق میں اپنے موقف کا اظہار کرنا ،اس طرف کھلا اظہار ہے کہ یہ فیصلہ کہکشاؤں کی دنیاسے وارد ہوا ورنہ یہ معجزہ ظہور کیسے ہوتا ؟ اللہ تیری شان، توبہ توبہ!
0 notes
nighatnaeem · 5 years ago
Text
Tumblr media
مسزز نگہت سیما۔۔.دیر تو لگی۔۔۔۔ مگر اینتئ بڑی بےغیرت کا کھیل تم مجھ سے کھیل جاو گی۔۔۔اس کی امید نا تھی مجھ کو۔۔ تم نے آپنا آپ۔۔۔ مجھے اپنے جانے کے بعد دیکھایا۔۔۔ پتہ نہیں۔۔تم نے کیا سوچا تھا مجھے اسطرح بیچ راستے میں چھوڑ کر۔۔۔ تم نے کون سا تخت فتح کرنا تھا۔۔۔ اگر آج تخت تم کو ملا بھی۔۔۔ کیا ہے اس کی عزت اور تمھاری کیا خوداری ہے اس میں۔۔ صرف ذلیل اور روسوا ہی ہو رہی ہو۔۔ ۔۔۔۔💔😞😓💔نعیم۔
A Broken Soul.💔👰💏👤💔
.
"Scars have the Strange Power to Remind Us that Our Past is Real".
.
A Dirty Romantic Game.💔💏💔
.
👉My Thoughts😔...My Feelings😓💔...My Emotions😠...What I Want To Say😕...It's My Story😣...In My Broken Words😒👤...Its Painful😥...It's Devastating😢...& It's Hurting Me😭.
.
Mrs. Nighat Seema Khan..👇💔👇
.
In Our Love Story 3 Things Have Been Discribed...My Love♈....Your Lust♌... Our Sin♈N💏N♌.
.
میری کہانی مجھ سے تم تک۔۔۔نگہت سیما خان۔💑💔
.
درد ہوں اس لیے تو اٹھتا ہوں۔۔۔ ذخم ہوتا تو کب کا بھر گیا ہوتا۔۔♈ن💑ن♌
.
مسزز۔ نگہت سیما۔۔ تمھارے اور اپنے بارے میں۔ اپنی اس کہانی میں۔۔۔صرف تین باتوں کا ذکر ہے۔۔۔
("میری مہبت")۔💞۔("تمھاری ہوس")۔👄۔اور۔۔("اپنے گناہ")۔💏
.
The Hidden Lies..Unfolding the Forbidden Love.♈💔💑💔♌
.
A Dirty Romantic - ❤💑❤ Painful True Tale of Passion in Love, Feelings, Emotions, Lust Desires & SIN.😓💔...♈N💑N♌
.
A Married Woman Extramarital Sex & Lust Relationship. (External Marriage Sexual Affairs).
.
💏("Multiple Husbands Wife")👥.
.
The Role Player......of the Slutty Hot🔥HouseWife. A Dirty Game Player♕👰♛- Whore, Mistress-👰-("Mrs. Nighat Seema Khan").
.
مستقکل گھر کا پتہ۔۔۔
(مکان #A-198 بلاک N، گلی # 10، نارتھ ناظم آباد، کراچی)
۔
آج کل۔نگہت سیما۔۔۔۔اسلام آباد کے کسی سیکٹر میں۔۔۔ اپنے ایکس (سید اطہر حسین شاہ)۔۔ جو ایک آنکھوں کا ڈاکٹر ہے اور اپنی پریکٹس بھی کسی جگہ اسلام آباد میں کر رہا ہے اور یہ نگہت سیما۔۔ اسی کے ساتھ زندگی بسر کر رہی ہے۔۔۔پتہ نامعلوم۔۔۔
♈N💑N♌😢💔😢Courtesy: Original Images (Selfie) Image Makeover & Mockup Card Desgin By Mrs. Nighat Seema. Collage Compose by Naeem.
.
#Mohabbat #Nafrat #Peyar #Nikkah #Talaaq #SaduStory #Loveme #Lover #Sad #SadPoetry #Urdu #Karachi #Northnazimabad #Islamabad #Wedding #Marriage #Wife #Slut #iHateYou #Tears #Romance #NighatSeema #Passion #Pakistani #Divorce #Seema #Pakistan #UrduSadPoetry #UrduPoetry
0 notes
breakpoints · 3 years ago
Text
سوفی ٹرنر 'پیوریٹی رنگ' روسٹ کے بعد سسرال کے ساتھ مشکل میں
سوفی ٹرنر ‘پیوریٹی رنگ’ روسٹ کے بعد سسرال کے ساتھ مشکل میں
سوفی ٹرنر ‘پیوریٹی رنگ’ روسٹ کے بعد سسرال کے ساتھ مشکل میں سوفی ٹرنر اپنے شوہر جو جوناس کے والدین کے ساتھ بھائیوں کو ان کی پاکیزگی کی انگوٹھیوں پر بھوننے کے بعد گرم پانیوں میں ہے۔ ٹھیک ہے کے مطابق! دی تخت کے کھیل کے دوران ستارے کا مذاق جوناس برادرز فیملی روسٹ اندرونی کا کہنا ہے کہ “اس کے سسرال والوں کے ساتھ اچھا نہیں چل رہا تھا، اسے نرمی سے کہوں”۔ “جو سوچتا ہے کہ سوفی مزاحیہ ہے اور اسے پسند ہے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
westeroswisdom · 2 months ago
Text
« Trump was the worst president in American history, and if he gets in again, he will be worse, judging from the remarks he keeps making about retribution and bloodbaths and the like. »
— George R.R. Martin at Not a Blog.
GRRM created Joffrey Baratheon, Ramsay Bolton, and Walder Frey. So when he calls Trump the "worst" it has added weight. George knows a thing or two about villains.
This reminds me that the post which got the largest number of notes for this blog was this one from 2017 where GRRM compared Trump to Joffrey.
For some fun, go to your favorite image search engine and type in "Joffrey" AND "Trump".
17 notes · View notes
urdunewspost · 4 years ago
Text
ایمیلیا کلارک کا خیال ہے کہ ماضی کے دماغی زخموں نے اسے COVID-19 سے نمٹنے میں مدد فراہم کی
ایمیلیا کلارک کا خیال ہے کہ ماضی کے دماغی زخموں نے اسے COVID-19 سے نمٹنے میں مدد فراہم کی
Tumblr media
ایمیلیا کلارک کا خیال ہے کہ ماضی کے دماغی زخموں نے اسے COVID-19 سے نمٹنے میں مدد فراہم کی
ایمیلیا کلارک نے موت کے قریب دو تجربات کو چھو لیا اور انکشاف کیا کہ یہ سب کس طرح کوویڈ 19 میں پیش آنے والی ذہنی اذیت سے نمٹنے میں مدد کے لئے اکٹھے ہوئے۔
اس کے لئے رئیسہ برونر کے ساتھ اپنے حالیہ انٹرویو کے دوران وقت 100 باتیں، تخت کے کھیلاسٹار نے دن میں دو بار تکلیف دہ اور خوفناک دماغ کی چوٹیں کھولیں اور…
View On WordPress
0 notes