#بسترا
Explore tagged Tumblr posts
Text
نیند نہ ویکھے بسترا، تے بھک نہ ویکھے ماس
موت نہ ویکھے عمر نوں، تے عشق نہ ویکھے ذات
@p-a-p-e-r-t-o-w-n-s
12 notes
·
View notes
Photo
عرب امارات میں 10 ہزار پاکستانیوں کو نوکریوں سے فارغ کردیاگیا 35ہزار مزید پاکستانیوں نے بھی بوریا بسترا باندھنا شروع کر دیا دبئی(مانیٹرنگ ڈیسک)کرونا وائرس جہاں انسانوں کا شکار کیا وہیں لوگوں کے روزگار بھی نہ بخشے ، دنیا میں بڑی تعداد بیروزگار ہو چکی ہے ۔ تفصیلات کے مطابق کرونا وائرس کے باعث متحدہ عرب امارات میں 10 ہزار پاکستانیوں کو نوکریوں سے فارغ کردیا گیا۔نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق پاکستانی قونصل جنرل احمد امجد علی کے مطابق 35 ہزار پاکستانی متحدہ عرب امارات سے
#35ہزار#امارات#باندھنا#بسترا#بھی#بوریا#پاکستانیوں#دیا#سے#شروع#عرب#فارغ#کر#کردیاگیا#کو#مزید#میں#نوکریوں#نے#ہزار
0 notes
Text
نہ کرنا غور میرے خط پہ، بس مجھ کو سزا دینا
مرے جرمِ محبت پر مری گردن اڑا دینا
مرا ہر نقش چاہو ذہن سے اپنے مٹا دینا
تمھارے پاس جتنے خط ہیں میرے سب جلا دینا
اگر بولے زیادہ تو گلا ہلکا دبا دینا
مرے نامہرباں کو بھی نہ آیا فیصلہ دینا
مجھے ہے برملا دعویٰ فنا فی العشق ہونے کا
بڑا کافر ہوں میں منصور، سولی پر چڑھا دینا
نہ کرنا دفن مجھ کو، میں بڑا مجرم ہوں، ڈرتا ہوں
جلا دینا مجھے اور راکھ اڑا دینا، بہا دینا
شبِ وصل آپ کے آگے جو منہ کھولیں تو گھونگٹ سے
نکال اک لِٹ، ہمیں زہریلی ناگن سے ڈسا دینا
جوانی کا سخن کچھ ضعف میں اب یاد آتا ہے
گئے رات اٹھ کے الٹے پاؤں سے خامہ گھما دینا
نہ ہو معلوم کیا لکھنا ہے خط میں کیا نہیں لکھنا
رہیں لکھنے نہ لکھنے میں انہیں خط ہم نے کیا دینا
لگے ہو حور پیچھے شیخ! بھاگم بھاگ، کیا کہنے
اسی چکّر میں جوتے، ایڑیاں، ماتھا گِھسا دینا
لگا ہے باعثِ دردِ دل اپنا ہاتھ سینے سے
نہ چُھوٹا نزع میں، کچھ دیر میں کوئی چُھڑا دینا
ملا ہے دیر میں دل تفتہ کو حکمِ سزائے موت
سنو! جلّاد کو گھر سے ذرا جلدی بلا دینا
تمھارا وعظ سننے آئے ہیں اے شیخ! بادہ نوش
ہمارے منہ سے آئی بُو تو مسجد سے اٹھا دینا
ہمیں تاریکیوں میں کھوجتے رہنے کی عادت ہے
خوشی سے شمع خلوت میں جلی رکھنا، بجھا دینا
طبیعت ہو اگر مائل کرم پر، شرم مت کرنا
زباں سے کچھ نہ کہنا، حال اشاروں سے بتا دینا
خدا خوبانِ بد خُو سے بچائے ورنہ توبہ ہے
بھلے چنگے کو اک دو پل میں دیوانہ بنا دینا
جنابِ خضرؑ کو، الیاسؑ کو، عیسیٰؑ کو دیکھا ہے
خدایا! توبہ توبہ مت کسی کو بھی بقا دینا
بنا ڈالیں گے مٹی کو خدا، لوگوں کے کیا کہنے
نکلتے روح کے مٹی کو مٹی میں ملا دینا
سمائے گی نہ میری فکر طول و عرض میں تیرے
الہٰی! وسعتِ کون و مکاں تھوڑی بڑھا دینا
فرشتہ آسماں سے کیا اہم پیغام لایا ہے
ابھی مصروف ہوں میں، بالکونی میں بٹھا دینا
سوالِ بوسہ پر اس کا جواب آتا ”منہ دیکھو“
یہ اک طُرفہ تماشا ہے، زباں لمبی چلا دینا
جوابِ ”لن ترانی“ پر خدا کے سخت حیراں ہوں
بجائے پردہ، خود کو جیسے پردے سے ہٹا دینا
بہت اب کر لیا، چلتا ہوں، میں نے انتظار اس کا
وہ آئے، عہد نامہ اس کے ہاتھوں میں تھما دینا
جفا کے بعد پچھتانے کا مطلب یہ نہیں ہوتا
اچانک راہ چلتے مل گئے تو سر جھکا دینا
کسی احسان کی تیرے ضرورت ہی نہیں ہم کو
اگر کرنا تو یہ کرنا کہ پہلے ہی جتا دینا
وہاں تو دل کسی مجبور کا گر ہاتھ لگ جائے
تو اس بد خُو کی خُو ہے، دانت رکھنا اور چبا دینا
کوئی گر دیکھ لے خونِ کفِ قاتل کا داغ، اس پر
یکایک بات الٹ کر کہہ اسے رنگِ حنا دینا
پریشاں کیوں نہ ہوں میں اُس کی اِس زلفِ پریشاں پر
قریب آنے لگوں میں جب بھی، شانے پر اَڑا دینا
خیال آتا ہے اس کے کان کی مُرکی کے ہلنے کا
جو کافی ہو گیا اک عمر کا ہم کو نچا دینا
اگر دشتِ جنوں سے قیس دیوانہ کبھی لوٹے
شب آرامی کی خاطر اس کو میرا بسترا دینا
جہانِ قابلِ رحم اور ہم بے رحم، پتھر دل
غمِ تنہائی تنہاؔ، کوئی غم صبر آزما دینا
محمد جنید حسان تنہاؔ
4 notes
·
View notes
Photo
موت نہ ویکھے عمر نوں ، تے عشق نہ ویکھے ذات ﭘﭽﮭﻠﮯ ﻣﮩﯿﻨﮯ ﻣﺮ ﮔﯿﺎ ﺳﺎﮈﮮ ﭘِﻨﮉ ﺩﺍ ﭼﺎﭼﺎ ﺩﺍﺭﺍ ﺳﯿﺪﮬﺎ ﺳﺎﺩﮬﺎ ﺑﮭﻮﻻ ﺑﮭﺎﻻ ﺑﻨﺪﮦ ﻧﯿﮏ ﻭ ﮐﺎﺭﺍ نیند نہ ویکھے بسترا ، تے بھک نہ ویکھے ماس موت نہ ویکھے عمر نوں ، تے عشق نہ ویکھے ذات
0 notes
Text
ادب میں ریٹائرمنٹ . . . ایک سوال
ایک دن ’’سیپ‘‘کے مدیر، نسیم درانی سے کوئی نیا افسانہ سنانے کی درخواست کی توجواب ملا کہ ’’جان بھائی ! میں تو کب کا ریٹائر ہوچکا ہوں۔‘‘ اس فقرے میں پریشانی یاپشیمانی کی بجائے، اطمینان کا پہلو صاف محسوس ہورہا تھا، جیسے کسی نے بھرا ہو امیلہ چھوڑا ہو اور جس کی خوشگوار یادیں زندگی کا سرمایہ ہوں۔ بات آئی گئی ہوگئی، لیکن اپنے پیچھے سوالات کی کہکشاں چھوڑ گئی، جس سے سوچ کے بند دروازوں پر دستک ہونے لگی۔ کئی مبہم اور غیر مبہم اشارے دامن تدبیر پر خراشیں ڈالنے لگے، گویا نسیم درانی کا ننھا اور معصوم سا، مگر مبنی بہ صداقت فقرہ، قیامت برپا کرگیا۔ نتیجتاً ’’ادب میں ریٹائرمنٹ …..ایک سوال‘‘ مسلسل میرا منہ چڑانے لگا۔ چارو نا چار میں نے اس پر غور و فکر شروع کیا۔ دائیں ، بائیں، آگے پیچھے، اوپر نیچے یعنی تمام پہلوئوں سے اس عنوان پر ہاتھ ڈالنے کی مقدور بھر کوشش کی، لیکن یہ دریائی مچھلی کی طرح پھسل پھسل جاتا ۔
میں نے کئی بار اپنے حواس مجتمع کرکے یہ عمل دہرایا۔ ہر بار نامرادی نے دھول پیڑا مار کر مجھے چاروں شانے چت کردیتی۔ آخر کار میں نے اس بھاری پتھر کو چوم کر چھوڑنے کا مصمم ارادہ کرلیا تو ’’ناامیدی گناہ ہے‘‘ کا تصور آنکھوں کے سامنے چمکنے لگا، چنانچہ جب میں اس امیدی اور ناامیدی کے سیماب پادوراہے پر کھڑا نیم سکتے کا شکار ہونے ہی والا تھا کہ اچانک طلسمانی آوازوں کا پراسرار سلسلہ شروع ہوگیا۔ پہلے میں پریشان، پھر حیران ہوا، آخر بمشکل خود کو سنبھالا اور ان پر اسرار مکالماتی آوازوں پر توجہ دی، جو کچھ یوں تھیں۔
پہلی آواز….یہ ایک بیکار سا سوال ہے، اس پر لکھ کر اپنا قیمتی وقت برباد نہ کر۔
دوسری آواز….کوئی سوال بیکار نہیں ہوتا۔ ہر عنوان دعوتِ غور و فکر دیتا ہے، سوال تو ایک نعمت ہے۔
تیسری آواز….سوال یہ نہیں کہ عنوان اہم ہے یا غیر اہم ہے، اصل سوال یہ ہے کہ کیا ہر عنوان پر لکھنا عین فرض ہے۔
چوتھی آواز….یہ کسی اجنبی زبان میں آرہی ہے، اس میں شور و ہنگامہ زیادہ ہے، کوشش کے باوجود پلّے کچھ نہیں پڑ رہا۔ جوں جوں سماعتی توجہ زیادہ دے رہا ہوں، تو توں شور و ہنگامے کی بے ترتیبی میں لگا تار اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ پہلی تینوں آوازیں بھی اس میں مدغم ہوتی ہوئی محسوس ہورہی ہیں۔ اب ہر طرف شور ہی شور ہے۔ ہنگامہ ہی ہنگامہ ہے۔ تنگ آکر میںنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں۔
معاملہ خواہ کچھ بھی ہو۔ اتنی بات مکمل طورپر واضح ہے کہ اس واقعے نے مجھے لکھنے کی تحریک دی۔ تذبذب کی بجائے، یقین سے نوازا۔ یوں اس سیمابی اور سیلانی موضوع پر کچھ لکھنے کے قابل ہوا۔ سو ’’ادب میں ریٹائرمنٹ….ایک سوال‘‘ کی طرف مراجعت کرتے ہوئے پہلی بات یہ کرنی ہے کہ ادب سے منسلک ہونا، سرکاری ملازمت والا معاملہ نہیں کہ مدتِ متعینہ کے بعد ریٹائرمنٹ بہر صورت لازمی ہے یا کسی حادثے کی پاداش میں قبل از مدت متعینہ، کسی لمحے بھی ملازمت سے سبکدوشی کے احکامات جاری ہوسکتے ہیں یا دوران ملازمت خصوصی خدمات کے اعتراف میں اعزاز و انعام سے نوازنے کے ساتھ ساتھ، ملازمت میں توسیع کی خوش خبری بھی مل سکتی ہے، کسی ثانیے میں منفی یا مثبت حالات پیش آسکتے ہیں، مگر اہلِ قلم کے حالات اس کے برعکس ہیں۔
یہ ادب کی محسوساتی دنیا ہے۔ یہ خود احتسابی کا خود رد عمل ہے۔ یہاں کسی کا حکم اس لیے نہیں چلتا کہ ادب کی بارگاہ میں داخل ہوتے وقت ملازمت کی طرز پر کسی عہد نامے پر دستخط نہیں کیے جاتے اور نہ ہی کسی کی ادبی حکمرانی کو بہ صمیمِ قلب، تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود ادب میں ریٹائرمنٹ ہوتی رہتی ہے۔ اس کے عبرت ناک آثار نظر آتے رہتے ہیں، مگر یہ آثار، جس لکھاری کے تناظر میں دکھائی دیتے ہیں، وہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ مثلاً جب کوئی قلم کار، کسی کے خیالات کی جگالی شروع کردیتا ہے تو اس میں منصبِ قلم کاری سے سبکدوشی کی لہر موجود ہوتی ہے۔ اس طرح جب کسی لکھاری کی تحریروں سے تخلیقی سرگرمی غائب ہوجاتی ہے تو یہ عمل ریٹائرمنٹ کی طرف پیش قدمی کے مساوی ہوتا ہے۔ جب کوئی قلم کار عہدِ ضعیفی میں پہنچ کر ایک صنف ادب کو کلی یا جزوی طورپر الوداع کہہ دیتا ہے تو یہ بھی دفتر ادب سے باالاقساط رخصتی کا بھرپور اعلان ہوتا ہے۔
جب کوئی تخلیق کار مزید مطالعے اور مشاہدے کی ضرورت محسوس نہ کرے تو یہ بھی ادب میں ریٹائرمنٹ کے داغِ بیل کے مترادف ہوتا ہے۔ جب کوئی لکھاری ’’ہم چہ مادیگرے نیست‘‘ کی تصویر بن جاتا ہے تو حرفِ بغاوت پر اتر آتا ہے، جو ریٹائرمنٹ کا غیر مکتوبی اشارہ ہوتا ہے۔ جب کوئی فن کار عصری علوم سے نظریں چراتا ہے تو کار گاہ ادب سے ’’بوری بسترا‘‘ سمیٹنے کی ابتدا کرتا ہے، جو ریٹائرمنٹ ہی کی ایک صورت ہے۔ علاوہ ازیں اور بھی بہت سے گوشوں کی نشان دہی کی جاسکتی ہے، جو ریٹائرمنٹ کا اشاریہ مرتب کرنے کے قریب قریب لگتے ہیں، لیکن کوئی قلم کار بھی اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ماننے کے لیے تیار نہیں ہوا، بلکہ دیگر وجوہات کی اوٹ میں بیٹھ کر خود کو طفل تسلیاں دیتا رہتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس فکری کساد بازاری کے دوران بھی بعض مرتبہ کوئی کام کی نگارش سامنے آجاتی ہے، جس سے نگارش نگار کی شہرت کو چار چاند لگ جاتے ہیں، جو دریافت نو کا حیرت انگیز رویہ ہے، لیکن ایسا بہت کم کم دیکھنے میں آتا ہے۔ یہ آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں، پھر بھی اس رویے کو مجموعی لحاظ سے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، لیکن اس کو فارمولا بھی نہیں بنایا جاسکتا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ مجموعی طورپر واضح تغیر و تبدل دکھائی نہیں دیتا۔
اب لمحۂ فکریہ یہ بھی ہےکہ محولا بالا قسم کے لکھاری یا لکھاریوں کو کیسے باور کرایا جائے کہ کون سا فارمولا برتا جائے کہ ادبی فضا کو زہریلا کیے بغیر ادبیات کی بے چین روح کو آسودئہ ارتقا کیا جاسکے۔ میری ذاتی رائے میں ہر لکھنے والے کو اپنے بارے میں خود سوچنا چاہیے کہ وہ اس کا تخلیق کردہ ادب کی مقام و مرتبے کا حامل ہے، وہ ٹھہرائو کا شکار ہے، آمادئہ تنزل ہے یا روبہ کمال ۔
ایسا کرنا مشکل ضرور ہے، مگر ناممکن نہیں، بشرطیکہ ہم اپنی اپنی انائوں کے بت پاش پاش کردیں۔ سچی باتوں کو خلوص دل سے قبول کرنے کی خوڈالیں، باہمی ربط کو ضبط کی کیاری میں پروان چڑھائیں، تاکہ خبط کے طوفانِ بدتمیزی سے ادب کے چہرے پر کالک ملنے بیٹھ جائیں۔ عمل اور رد عمل دونوں کو ایک دوسرے کا لازم و ملزوم جانتے ہوئے، تحمل کو بابرکات شجر کو ثمر بار کریں۔ دوسری بات یہ ہے ہر کونے سے کمزور نگارشات کی اعلانیہ اور خفیہ انداز میں بار بار نشان دہی کی جائے اور اس عمل کو اس قدر تسلسل کے ساتھ دہرایا جائے کہ صاحبان نگارشات کے پہلو بہ پہلو دوسرے قلم کار بھی احساس ذمے داری کی دول�� سے مالا مال ہو سکیں۔ اس طرح ادب میں ریٹائرمنٹ کا سوال دوبارہ سر نہ اٹھا سکے۔
The post ادب میں ریٹائرمنٹ . . . ایک سوال appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2MTmvUK via Roznama Urdu
#jang online newspaper#roznama urdu#naija newspapers#khabrain news epaper#all pakistani newspapers in
0 notes
Text
ادب میں ریٹائرمنٹ . . . ایک سوال
ایک دن ’’سیپ‘‘کے مدیر، نسیم درانی سے کوئی نیا افسانہ سنانے کی درخواست کی توجواب ملا کہ ’’جان بھائی ! میں تو کب کا ریٹائر ہوچکا ہوں۔‘‘ اس فقرے میں پریشانی یاپشیمانی کی بجائے، اطمینان کا پہلو صاف محسوس ہورہا تھا، جیسے کسی نے بھرا ہو امیلہ چھوڑا ہو اور جس کی خوشگوار یادیں زندگی کا سرمایہ ہوں۔ بات آئی گئی ہوگئی، لیکن اپنے پیچھے سوالات کی کہکشاں چھوڑ گئی، جس سے سوچ کے بند دروازوں پر دستک ہونے لگی۔ کئی مبہم اور غیر مبہم اشارے دامن تدبیر پر خراشیں ڈالنے لگے، گویا نسیم درانی کا ننھا اور معصوم سا، مگر مبنی بہ صداقت فقرہ، قیامت برپا کرگیا۔ نتیجتاً ’’ادب میں ریٹائرمنٹ …..ایک سوال‘‘ مسلسل میرا منہ چڑانے لگا۔ چارو نا چار میں نے اس پر غور و فکر شروع کیا۔ دائیں ، بائیں، آگے پیچھے، اوپر نیچے یعنی تمام پہلوئوں سے اس عنوان پر ہاتھ ڈالنے کی مقدور بھر کوشش کی، لیکن یہ دریائی مچھلی کی طرح پھسل پھسل جاتا ۔
میں نے کئی بار اپنے حواس مجتمع کرکے یہ عمل دہرایا۔ ہر بار نامرادی نے دھول پیڑا مار کر مجھے چاروں شانے چت کردیتی۔ آخر کار میں نے اس بھاری پتھر کو چوم کر چھوڑنے کا مصمم ارادہ کرلیا تو ’’ناامیدی گناہ ہے‘‘ کا تصور آنکھوں کے سامنے چمکنے لگا، چنانچہ جب میں اس امیدی اور ناامیدی کے سیماب پادوراہے پر کھڑا نیم سکتے کا شکار ہونے ہی والا تھا کہ اچانک طلسمانی آوازوں کا پراسرار سلسلہ شروع ہوگیا۔ پہلے میں پریشان، پھر حیران ہوا، آخر بمشکل خود کو سنبھالا اور ان پر اسرار مکالماتی آوازوں پر توجہ دی، جو کچھ یوں تھیں۔
پہلی آواز….یہ ایک بیکار سا سوال ہے، اس پر لکھ کر اپنا قیمتی وقت برباد نہ کر۔
دوسری آواز….کوئی سوال بیکار نہیں ہوتا۔ ہر عنوان دعوتِ غور و فکر دیتا ہے، سوال تو ایک نعمت ہے۔
تیسری آواز….سوال یہ نہیں کہ عنوان اہم ہے یا غیر اہم ہے، اصل سوال یہ ہے کہ کیا ہر عنوان پر لکھنا عین فرض ہے۔
چوتھی آواز….یہ کسی اجنبی زبان میں آرہی ہے، اس میں شور و ہنگامہ زیادہ ہے، کوشش کے باوجود پلّے کچھ نہیں پڑ رہا۔ جوں جوں سماعتی توجہ زیادہ دے رہا ہوں، تو توں شور و ہنگامے کی بے ترتیبی میں لگا تار اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ پہلی تینوں آوازیں بھی اس میں مدغم ہوتی ہوئی محسوس ہورہی ہیں۔ اب ہر طرف شور ہی شور ہے۔ ہنگامہ ہی ہنگامہ ہے۔ تنگ آکر میںنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں۔
معاملہ خواہ کچھ بھی ہو۔ اتنی بات مکمل طورپر واضح ہے کہ اس واقعے نے مجھے لکھنے کی تحریک دی۔ تذبذب کی بجائے، یقین سے نوازا۔ یوں اس سیمابی اور سیلانی موضوع پر کچھ لکھنے کے قابل ہوا۔ سو ’’ادب میں ریٹائرمنٹ….ایک سوال‘‘ کی طرف مراجعت کرتے ہوئے پہلی بات یہ کرنی ہے کہ ادب سے منسلک ہونا، سرکاری ملازمت والا معاملہ نہیں کہ مدتِ متعینہ کے بعد ریٹائرمنٹ بہر صورت لازمی ہے یا کسی حادثے کی پاداش میں قبل از مدت متعینہ، کسی لمحے بھی ملازمت سے سبکدوشی کے احکامات جاری ہوسکتے ہیں یا دوران ملازمت خصوصی خدمات کے اعتراف میں اعزاز و انعام سے نوازنے کے ساتھ ساتھ، ملازمت میں توسیع کی خوش خبری بھی مل سکتی ہے، کسی ثانیے میں منفی یا مثبت حالات پیش آسکتے ہیں، مگر اہلِ قلم کے حالات اس کے برعکس ہیں۔
یہ ادب کی محسوساتی دنیا ہے۔ یہ خود احتسابی کا خود رد عمل ہے۔ یہاں کسی کا حکم اس لیے نہیں چلتا کہ ادب کی بارگاہ میں داخل ہوتے وقت ملازمت کی طرز پر کسی عہد نامے پر دستخط نہیں کیے جاتے اور نہ ہی کسی کی ادبی حکمرانی کو بہ صمیمِ قلب، تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود ادب میں ریٹائرمنٹ ہوتی رہتی ہے۔ اس کے عبرت ناک آثار نظر آتے رہتے ہیں، مگر یہ آثار، جس لکھاری کے تناظر میں دکھائی دیتے ہیں، وہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ مثلاً جب کوئی قلم کار، کسی کے خیالات کی جگالی شروع کردیتا ہے تو اس میں منصبِ قلم کاری سے سبکدوشی کی لہر موجود ہوتی ہے۔ اس طرح جب کسی لکھاری کی تحریروں سے تخلیقی سرگرمی غائب ہوجاتی ہے تو یہ عمل ریٹائرمنٹ کی طرف پیش قدمی کے مساوی ہوتا ہے۔ جب کوئی قلم کار عہدِ ضعیفی میں پہنچ کر ایک صنف ادب کو کلی یا جزوی طورپر الوداع کہہ دیتا ہے تو یہ بھی دفتر ادب سے باالاقساط رخصتی کا بھرپور اعلان ہوتا ہے۔
جب کوئی تخلیق کار مزید مطالعے اور مشاہدے کی ضرورت محسوس نہ کرے تو یہ بھی ادب میں ریٹائرمنٹ کے داغِ بیل کے مترادف ہوتا ہے۔ جب کوئی لکھاری ’’ہم چہ مادیگرے نیست‘‘ کی تصویر بن جاتا ہے تو حرفِ بغاوت پر اتر آتا ہے، جو ریٹائرمنٹ کا غیر مکتوبی اشارہ ہوتا ہے۔ جب کوئی فن کار عصری علوم سے نظریں چراتا ہے تو کار گاہ ادب سے ’’بوری بسترا‘‘ سمیٹنے کی ابتدا کرتا ہے، جو ریٹائرمنٹ ہی کی ایک صورت ہے۔ علاوہ ازیں اور بھی بہت سے گوشوں کی نشان دہی کی جاسکتی ہے، جو ریٹائرمنٹ کا اشاریہ مرتب کرنے کے قریب قریب لگتے ہیں، لیکن کوئی قلم کار بھی اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ماننے کے لیے تیار نہیں ہوا، بلکہ دیگر وجوہات کی اوٹ میں بیٹھ کر خود کو طفل تسلیاں دیتا رہتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس فکری کساد بازاری کے دوران بھی بعض مرتبہ کوئی کام کی نگارش سامنے آجاتی ہے، جس سے نگارش نگار کی شہرت کو چار چاند لگ جاتے ہیں، جو دریافت نو کا حیرت انگیز رویہ ہے، لیکن ایسا بہت کم کم دیکھنے میں آتا ہے۔ یہ آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں، پھر بھی اس رویے کو مجموعی لحاظ سے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، لیکن اس کو فارمولا بھی نہیں بنایا جاسکتا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ مجموعی طورپر واضح تغیر و تبدل دکھائی نہیں دیتا۔
اب لمحۂ فکریہ یہ بھی ہےکہ محولا بالا قسم کے لکھاری یا لکھاریوں کو کیسے باور کرایا جائے کہ کون سا فارمولا برتا جائے کہ ادبی فضا کو زہریلا کیے بغیر ادبیات کی بے چین روح کو آسودئہ ارتقا کیا جاسکے۔ میری ذاتی رائے میں ہر لکھنے والے کو اپنے بارے میں خود سوچنا چاہیے کہ وہ اس کا تخلیق کردہ ادب کی مقام و مرتبے کا حامل ہے، وہ ٹھہرائو کا شکار ہے، آمادئہ تنزل ہے یا روبہ کمال ۔
ایسا کرنا مشکل ضرور ہے، مگر ناممکن نہیں، بشرطیکہ ہم اپنی اپنی انائوں کے بت پاش پاش کردیں۔ سچی باتوں کو خلوص دل سے قبول کرنے کی خوڈالیں، باہمی ربط کو ضبط کی کیاری میں پروان چڑھائیں، تاکہ خبط کے طوفانِ بدتمیزی سے ادب کے چہرے پر کالک ملنے بیٹھ جائیں۔ عمل اور رد عمل دونوں کو ایک دوسرے کا لازم و ملزوم جانتے ہوئے، تحمل کو بابرکات شجر کو ثمر بار کریں۔ دوسری بات یہ ہے ہر کونے سے کمزور نگارشات کی اعلانیہ اور خفیہ انداز میں بار بار نشان دہی کی جائے اور اس عمل کو اس قدر تسلسل کے ساتھ دہرایا جائے کہ صاحبان نگارشات کے پہلو بہ پہلو دوسرے قلم کار بھی احساس ذمے داری کی دولت سے مالا مال ہو سکیں۔ اس طرح ادب میں ریٹائرمنٹ کا سوال دوبارہ سر نہ اٹھا سکے۔
The post ادب میں ریٹائرمنٹ . . . ایک سوال appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2MTmvUK via Urdu News
#Urdu News#Daily Pakistan#Today Pakistan#Pakistan Newspaper#World Urdu News#Entertainment Urdu News#N
0 notes
Text
ادب میں ریٹائرمنٹ . . . ایک سوال
ایک دن ’’سیپ‘‘کے مدیر، نسیم درانی سے کوئی نیا افسانہ سنانے کی درخواست کی توجواب ملا کہ ’’جان بھائی ! میں تو کب کا ریٹائر ہوچکا ہوں۔‘‘ اس فقرے میں پریشانی یاپشیمانی کی بجائے، اطمینان کا پہلو صاف محسوس ہورہا تھا، جیسے کسی نے بھرا ہو امیلہ چھوڑا ہو اور جس کی خوشگوار یادیں زندگی کا سرمایہ ہوں۔ بات آئی گئی ہوگئی، لیکن اپنے پیچھے سوالات کی کہکشاں چھوڑ گئی، جس سے سوچ کے بند دروازوں پر دستک ہونے لگی۔ کئی مبہم اور غیر مبہم اشارے دامن تدبیر پر خراشیں ڈالنے لگے، گویا نسیم درانی کا ننھا اور معصوم سا، مگر مبنی بہ صداقت فقرہ، قیامت برپا کرگیا۔ نتیجتاً ’’ادب میں ریٹائرمنٹ …..ایک سوال‘‘ مسلسل میرا منہ چڑانے لگا۔ چارو نا چار میں نے اس پر غور و فکر شروع کیا۔ دائیں ، بائیں، آگے پیچھے، اوپر نیچے یعنی تمام پہلوئوں سے اس عنوان پر ہاتھ ڈالنے کی مقدور بھر کوشش کی، لیکن یہ دریائی مچھلی کی طرح پھسل پھسل جاتا ۔
میں نے کئی بار اپنے حواس مجتمع کرکے یہ عمل دہرایا۔ ہر بار نامرادی نے دھول پیڑا مار کر مجھے چاروں شانے چت کردیتی۔ آخر کار میں نے اس بھاری پتھر کو چوم کر چھوڑنے کا مصمم ارادہ کرلیا تو ’’ناامیدی گناہ ہے‘‘ کا تصور آنکھوں کے سامنے چمکنے لگا، چنانچہ جب میں اس امیدی اور ناامیدی کے سیماب پادوراہے پر کھڑا نیم سکتے کا شکار ہونے ہی والا تھا کہ اچانک طلسمانی آوازوں کا پراسرار سلسلہ شروع ہوگیا۔ پہلے میں پریشان، پھر حیران ہوا، آخر بمشکل خود کو سنبھالا اور ان پر اسرار مکالماتی آوازوں پر توجہ دی، جو کچھ یوں تھیں۔
پہلی آواز….یہ ایک بیکار سا سوال ہے، اس پر لکھ کر اپنا قیمتی وقت برباد نہ کر۔
دوسری آواز….کوئی سوال بیکار نہیں ہوتا۔ ہر عنوان دعوتِ غور و فکر دیتا ہے، سوال تو ایک نعمت ہے۔
تیسری آواز….سوال یہ نہیں کہ عنوان اہم ہے یا غیر اہم ہے، اصل سوال یہ ہے کہ کیا ہر عنوان پر لکھنا عین فرض ہے۔
چوتھی آواز….یہ کسی اجنبی زبان میں آرہی ہے، اس میں شور و ہنگامہ زیادہ ہے، کوشش کے باوجود پلّے کچھ نہیں پڑ رہا۔ جوں جوں سماعتی توجہ زیادہ دے رہا ہوں، تو توں شور و ہنگامے کی بے ترتیبی میں لگا تار اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ پہلی تینوں آوازیں بھی اس میں مدغم ہوتی ہوئی محسوس ہورہی ہیں۔ اب ہر طرف شور ہی شور ہے۔ ہنگامہ ہی ہنگامہ ہے۔ تنگ آکر میںنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں۔
معاملہ خواہ کچھ بھی ہو۔ اتنی بات مکمل طورپر واضح ہے کہ اس واقعے نے مجھے لکھنے کی تحریک دی۔ تذبذب کی بجائے، یقین سے نوازا۔ یوں اس سیمابی اور سیلانی موضوع پر کچھ لکھنے کے قابل ہوا۔ سو ’’ادب میں ریٹائرمنٹ….ایک سوال‘‘ کی طرف مراجعت کرتے ہوئے پہلی بات یہ کرنی ہے کہ ادب سے منسلک ہونا، سرکاری ملازمت والا معاملہ نہیں کہ مدتِ متعینہ کے بعد ریٹائرمنٹ بہر صورت لازمی ہے یا کسی حادثے کی پاداش میں قبل از مدت متعینہ، کسی لمحے بھی ملازمت سے سبکدوشی کے احکامات جاری ہوسکتے ہیں یا دوران ملازمت خصوصی خدمات کے اعتراف میں اعزاز و انعام سے نوازنے کے ساتھ ساتھ، ملازمت میں توسیع کی خوش خبری بھی مل سکتی ہے، کسی ثانیے میں منفی یا مثبت حالات پیش آسکتے ہیں، مگر اہلِ قلم کے حالات اس کے برعکس ہیں۔
یہ ادب کی محسوساتی دنیا ہے۔ یہ خود احتسابی کا خود رد عمل ہے۔ یہاں کسی کا حکم اس لیے نہیں چلتا کہ ادب کی بارگاہ میں داخل ہوتے وقت ملازمت کی طرز پر کسی عہد نامے پر دستخط نہیں کیے جاتے اور نہ ہی کسی کی ادبی حکمرانی کو بہ صمیمِ قلب، تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود ادب میں ریٹائرمنٹ ہوتی رہتی ہے۔ اس کے عبرت ناک آثار نظر آتے رہتے ہیں، مگر یہ آثار، جس لکھاری کے تناظر میں دکھائی دیتے ہیں، وہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ مثلاً جب کوئی قلم کار، کسی کے خیالات کی جگالی شروع کردیتا ہے تو اس میں منصبِ قلم کاری سے سبکدوشی کی لہر موجود ہوتی ہے۔ اس طرح جب کسی لکھاری کی تحریروں سے تخلیقی سرگرمی غائب ہوجاتی ہے تو یہ عمل ریٹائرمنٹ کی طرف پیش قدمی کے مساوی ہوتا ہے۔ جب کوئی قلم کار عہدِ ضعیفی میں پہنچ کر ایک صنف ادب کو کلی یا جزوی طورپر الوداع کہہ دیتا ہے تو یہ بھی دفتر ادب سے باالاقساط رخصتی کا بھرپور اعلان ہوتا ہے۔
جب کوئی تخلیق کار مزید مطالعے اور مشاہدے کی ضرورت محسوس نہ کرے تو یہ بھی ادب میں ریٹائرمنٹ کے داغِ بیل کے مترادف ہوتا ہے۔ جب کوئی لکھاری ’’ہم چہ مادیگرے نیست‘‘ کی تصویر بن جاتا ہے تو حرفِ بغاوت پر اتر آتا ہے، جو ریٹائرمنٹ کا غیر مکتوبی اشارہ ہوتا ہے۔ جب کوئی فن کار عصری علوم سے نظریں چراتا ہے تو کار گاہ ادب سے ’’بوری بسترا‘‘ سمیٹنے کی ابتدا کرتا ہے، جو ریٹائرمنٹ ہی کی ایک صورت ہے۔ علاوہ ازیں اور بھی بہت سے گوشوں کی نشان دہی کی جاسکتی ہے، جو ریٹائرمنٹ کا اشاریہ مرتب کرنے کے قریب قریب لگتے ہیں، لیکن کوئی قلم کار بھی اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ماننے کے لیے تیار نہیں ہوا، بلکہ دیگر وجوہات کی اوٹ میں بیٹھ کر خود کو طفل تسلیاں دیتا رہتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس فکری کساد بازاری کے دوران بھی بعض مرتبہ کوئی کام کی نگارش سامنے آجاتی ہے، جس سے نگارش نگار کی شہرت کو چار چاند لگ جاتے ہیں، جو دریافت نو کا حیرت انگیز رویہ ہے، لیکن ایسا بہت کم کم دیکھنے میں آتا ہے۔ یہ آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں، پھر بھی اس رویے کو مجموعی لحاظ سے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، لیکن اس کو فارمولا بھی نہیں بنایا جاسکتا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ مجموعی طورپر واضح تغیر و تبدل دکھائی نہیں دیتا۔
اب لمحۂ فکریہ یہ بھی ہےکہ محولا بالا قسم کے لکھاری یا لکھاریوں کو کیسے باور کرایا جائے کہ کون سا فارمولا برتا جائے کہ ادبی فضا کو زہریلا کیے بغیر ادبیات کی بے چین روح کو آسودئہ ارتقا کیا جاسکے۔ میری ذاتی رائے میں ہر لکھنے والے کو اپنے بارے میں خود سوچنا چاہیے کہ وہ اس کا تخلیق کردہ ادب کی مقام و مرتبے کا حامل ہے، وہ ٹھہرائو کا شکار ہے، آمادئہ تنزل ہے یا روبہ کمال ۔
ایسا کرنا مشکل ضرور ہے، مگر ناممکن نہیں، بشرطیکہ ہم اپنی اپنی انائوں کے بت پاش پاش کردیں۔ سچی باتوں کو خلوص دل سے قبول کرنے کی خوڈالیں، باہمی ربط کو ضبط کی کیاری میں پروان چڑھائیں، تاکہ خبط کے طوفانِ بدتمیزی سے ادب کے چہرے پر کالک ملنے بیٹھ جائیں۔ عمل اور رد عمل دونوں کو ایک دوسرے کا لازم و ملزوم جانتے ہوئے، تحمل کو بابرکات شجر کو ثمر بار کریں۔ دوسری بات یہ ہے ہر کونے سے کمزور نگارشات کی اعلانیہ اور خفیہ انداز میں بار بار نشان دہی کی جائے اور اس عمل کو اس قدر تسلسل کے ساتھ دہرایا جائے کہ صاحبان نگارشات کے پہلو بہ پہلو دوسرے قلم کار بھی احساس ذمے داری کی دولت سے مالا مال ہو سکیں۔ اس طرح ادب میں ریٹائرمنٹ کا سوال دوبارہ سر نہ اٹھا سکے۔
The post ادب میں ریٹائرمنٹ . . . ایک سوال appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2MTmvUK via Daily Khabrain
0 notes
Text
ادب میں ریٹائرمنٹ . . . ایک سوال
ایک دن ’’سیپ‘‘کے مدیر، نسیم درانی سے کوئی نیا افسانہ سنانے کی درخواست کی توجواب ملا کہ ’’جان بھائی ! میں تو کب کا ریٹائر ہوچکا ہوں۔‘‘ اس فقرے میں پریشانی یاپشیمانی کی بجائے، اطمینان کا پہلو صاف محسوس ہورہا تھا، جیسے کسی نے بھرا ہو امیلہ چھوڑا ہو اور جس کی خوشگوار یادیں زندگی کا سرمایہ ہوں۔ بات آئی گئی ہوگئی، لیکن اپنے پیچھے سوالات کی کہکشاں چھوڑ گئی، جس سے سوچ کے بند دروازوں پر دستک ہونے لگی۔ کئی مبہم اور غیر مبہم اشارے دامن تدبیر پر خراشیں ڈالنے لگے، گویا نسیم درانی کا ننھا اور معصوم سا، مگر مبنی بہ صداقت فقرہ، قیامت برپا کرگیا۔ نتیجتاً ’’ادب میں ریٹائرمنٹ …..ایک سوال‘‘ مسلسل میرا منہ چڑانے لگا۔ چارو نا چار میں نے اس پر غور و فکر شروع کیا۔ دائیں ، بائیں، آگے پیچھے، اوپر نیچے یعنی تمام پہلوئوں سے اس عنوان پر ہاتھ ڈالنے کی مقدور بھر کوشش کی، لیکن یہ دریائی مچھلی کی طرح پھسل پھسل جاتا ۔
میں نے کئی بار اپنے حواس مجتمع کرکے یہ عمل دہرایا۔ ہر بار نامرادی نے دھول پیڑا مار کر مجھے چاروں شانے چت کردیتی۔ آخر کار میں نے اس بھاری پتھر کو چوم کر چھوڑنے کا مصمم ارادہ کرلیا تو ’’ناامیدی گناہ ہے‘‘ کا تصور آنکھوں کے سامنے چمکنے لگا، چنانچہ جب میں اس امیدی اور ناامیدی کے سیماب پادوراہے پر کھڑا نیم سکتے کا شکار ہونے ہی والا تھا کہ اچانک طلسمانی آوازوں کا پراسرار سلسلہ شروع ہوگیا۔ پہلے میں پریشان، پھر حیران ہوا، آخر بمشکل خود کو سنبھالا اور ان پر اسرار مکالماتی آوازوں پر توجہ دی، جو کچھ یوں تھیں۔
پہلی آواز….یہ ایک بیکار سا سوال ہے، اس پر لکھ کر اپنا قیمتی وقت برباد نہ کر۔
دوسری آواز….کوئی سوال بیکار نہیں ہوتا۔ ہر عنوان دعوتِ غور و فکر دیتا ہے، سوال تو ایک نعمت ہے۔
تیسری آواز….سوال یہ نہیں کہ عنوان اہم ہے یا غیر اہم ہے، اصل سوال یہ ہے کہ کیا ہر عنوان پر لکھنا عین فرض ہے۔
چوتھی آواز….یہ کسی اجنبی زبان میں آرہی ہے، اس میں شور و ہنگامہ زیادہ ہے، کوشش کے باوجود پلّے کچھ نہیں پڑ رہا۔ جوں جوں سماعتی توجہ زیادہ دے رہا ہوں، تو توں شور و ہنگامے کی بے ترتیبی میں لگا تار اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ پہلی تینوں آوازیں بھی اس میں مدغم ہوتی ہوئی محسوس ہورہی ہیں۔ اب ہر طرف شور ہی شور ہے۔ ہنگامہ ہی ہنگامہ ہے۔ تنگ آکر میںنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں۔
معاملہ خواہ کچھ بھی ہو۔ اتنی بات مکمل طورپر واضح ہے کہ اس واقعے نے مجھے لکھنے کی تحریک دی۔ تذبذب کی بجائے، یقین سے نوازا۔ یوں اس سیمابی اور سیلانی موضوع پر کچھ لکھنے کے قابل ہوا۔ سو ’’ادب میں ریٹائرمنٹ….ایک سوال‘‘ کی طرف مراجعت کرتے ہوئے پہلی بات یہ کرنی ہے کہ ادب سے منسلک ہونا، سرکاری ملازمت والا معاملہ نہیں کہ مدتِ متعینہ کے بعد ریٹائرمنٹ بہر صورت لازمی ہے یا کسی حادثے کی پاداش میں قبل از مدت متعینہ، کسی لمحے بھی ملازمت سے سبکدوشی کے احکامات جاری ہوسکتے ہیں یا دوران ملازمت خصوصی خدمات کے اعتراف میں اعزاز و انعام سے نوازنے کے ساتھ ساتھ، ملازمت میں توسیع کی خوش خبری بھی مل سکتی ہے، کسی ثانیے میں منفی یا مثبت حالات پیش آسکتے ہیں، مگر اہلِ قلم کے حالات اس کے برعکس ہیں۔
یہ ادب کی محسوساتی دنیا ہے۔ یہ خود احتسابی کا خود رد عمل ہے۔ یہاں کسی کا حکم اس لیے نہیں چلتا کہ ادب کی بارگاہ میں داخل ہوتے وقت ملازمت کی طرز پر کسی عہد نامے پر دستخط نہیں کیے جاتے اور نہ ہی کسی کی ادبی حکمرانی کو بہ صمیمِ قلب، تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود ادب میں ریٹائرمنٹ ہوتی رہتی ہے۔ اس کے عبرت ناک آثار نظر آتے رہتے ہیں، مگر یہ آثار، جس لکھاری کے تناظر میں دکھائی دیتے ہیں، وہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ مثلاً جب کوئی قلم کار، کسی کے خیالات کی جگالی شروع کردیتا ہے تو اس میں منصبِ قلم کاری سے سبکدوشی کی لہر موجود ہوتی ہے۔ اس طرح جب کسی لکھاری کی تحریروں سے تخلیقی سرگرمی غائب ہوجاتی ہے تو یہ عمل ریٹائرمنٹ کی طرف پیش قدمی کے مساوی ہوتا ہے۔ جب کوئی قلم کار عہدِ ضعیفی میں پہنچ کر ایک صنف ادب کو کلی یا جزوی طورپر الوداع کہہ دیتا ہے تو یہ بھی دفتر ادب سے باالاقساط رخصتی کا بھرپور اعلان ہوتا ہے۔
جب کوئی تخلیق کار مزید مطالعے اور مشاہدے کی ضرورت محسوس نہ کرے تو یہ بھی ادب میں ریٹائرمنٹ کے داغِ بیل کے مترادف ہوتا ہے۔ جب کوئی لکھاری ’’ہم چہ مادیگرے نیست‘‘ کی تصویر بن جاتا ہے تو حرفِ بغاوت پر اتر آتا ہے، جو ریٹائرمنٹ کا غیر مکتوبی اشارہ ہوتا ہے۔ جب کوئی فن کار عصری علوم سے نظریں چراتا ہے تو کار گاہ ادب سے ’’بوری بسترا‘‘ سمیٹنے کی ابتدا کرتا ہے، جو ریٹائرمنٹ ہی کی ایک صورت ہے۔ علاوہ ازیں اور بھی بہت سے گوشوں کی نشان دہی کی جاسکتی ہے، جو ریٹائرمنٹ کا اشاریہ مرتب کرنے کے قریب قریب لگتے ہیں، لیکن کوئی قلم کار بھی اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ماننے کے لیے تیار نہیں ہوا، بلکہ دیگر وجوہات کی اوٹ میں بیٹھ کر خود کو طفل تسلیاں دیتا رہتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس فکری کساد بازاری کے دوران بھی بعض مرتبہ کوئی کام کی نگارش سامنے آجاتی ہے، جس سے نگارش نگار کی شہرت کو چار چاند لگ جاتے ہیں، جو دریافت نو کا حیرت انگیز رویہ ہے، لیکن ایسا بہت کم کم دیکھنے میں آتا ہے۔ یہ آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں، پھر بھی اس رویے کو مجموعی لحاظ سے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، لیکن اس کو فارمولا بھی نہیں بنایا جاسکتا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ مجموعی طورپر واضح تغیر و تبدل دکھائی نہیں دیتا۔
اب لمحۂ فکریہ یہ بھی ہےکہ محولا بالا قسم کے لکھاری یا لکھاریوں کو کیسے باور کرایا جائے کہ کون سا فارمولا برتا جائے کہ ادبی فضا کو زہریلا کیے بغیر ادبیات کی بے چین روح کو آسودئہ ارتقا کیا جاسکے۔ میری ذاتی رائے میں ہر لکھنے والے کو اپنے بارے میں خود سوچنا چاہیے کہ وہ اس کا تخلیق کردہ ادب کی مقام و مرتبے کا حامل ہے، وہ ٹھہرائو کا شکار ہے، آمادئہ تنزل ہے یا روبہ کمال ۔
ایسا کرنا مشکل ضرور ہے، مگر ناممکن نہیں، بشرطیکہ ہم اپنی اپنی انائوں کے بت پاش پاش کردیں۔ سچی باتوں کو خلوص دل سے قبول کرنے کی خوڈالیں، باہمی ربط کو ضبط کی کیاری میں پروان چڑھائیں، تاکہ خبط کے طوفانِ بدتمیزی سے ادب کے چہرے پر کالک ملنے بیٹھ جائیں۔ عمل اور رد عمل دونوں کو ایک دوسرے کا لازم و ملزوم جانتے ہوئے، تحمل کو بابرکات شجر کو ثمر بار کریں۔ دوسری بات یہ ہے ہر کونے سے کمزور نگارشات کی اعلانیہ اور خفیہ انداز میں بار بار نشان دہی کی جائے اور اس عمل کو اس قدر تسلسل کے ساتھ دہرایا جائے کہ صاحبان نگارشات کے پہلو بہ پہلو دوسرے قلم کار بھی احساس ذمے داری کی دولت سے مالا مال ہو سکیں۔ اس طرح ادب میں ریٹائرمنٹ کا سوال دوبارہ سر نہ اٹھا سکے۔
The post ادب میں ریٹائرمنٹ . . . ایک سوال appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2MTmvUK via Today Urdu News
0 notes
Text
ادب میں ریٹائرمنٹ . . . ایک سوال
ایک دن ’’سیپ‘‘کے مدیر، نسیم درانی سے کوئی نیا افسانہ سنانے کی درخواست کی توجواب ملا کہ ’’جان بھائی ! میں تو کب کا ریٹائر ہوچکا ہوں۔‘‘ اس فقرے میں پریشانی یاپشیمانی کی بجائے، اطمینان کا پہلو صاف محسوس ہورہا تھا، جیسے کسی نے بھرا ہو امیلہ چھوڑا ہو اور جس کی خوشگوار یادیں زندگی کا سرمایہ ہوں۔ بات آئی گئی ہوگئی، لیکن اپنے پیچھے سوالات کی کہکشاں چھوڑ گئی، جس سے سوچ کے بند دروازوں پر دستک ہونے لگی۔ کئی مبہم اور غیر مبہم اشارے دامن تدبیر پر خراشیں ڈالنے لگے، گویا نسیم درانی کا ننھا اور معصوم سا، مگر مبنی بہ صداقت فقرہ، قیامت برپا کرگیا۔ نتیجتاً ’’ادب میں ریٹائرمنٹ …..ایک سوال‘‘ مسلسل میرا منہ چڑانے لگا۔ چارو نا چار میں نے اس پر غور و فکر شروع کیا۔ دائیں ، بائیں، آگے پیچھے، اوپر نیچے یعنی تمام پہلوئوں سے اس عنوان پر ہاتھ ڈالنے کی مقدور بھر کوشش کی، لیکن یہ دریائی مچھلی کی طرح پھسل پھسل جاتا ۔
میں نے کئی بار اپنے حواس مجتمع کرکے یہ عمل دہرایا۔ ہر بار نامرادی نے دھول پیڑا مار کر مجھے چاروں شانے چت کردیتی۔ آخر کار میں نے اس بھاری پتھر کو چوم کر چھوڑنے کا مصمم ارادہ کرلیا تو ’’ناامیدی گناہ ہے‘‘ کا تصور آنکھوں کے سامنے چمکنے لگا، چنانچہ جب میں اس امیدی اور ناامیدی کے سیماب پادوراہے پر کھڑا نیم سکتے کا شکار ہونے ہی والا تھا کہ اچانک طلسمانی آوازوں کا پراسرار سلسلہ شروع ہوگیا۔ پہلے میں پریشان، پھر حیران ہوا، آخر بمشکل خود کو سنبھالا اور ان پر اسرار مکالماتی آوازوں پر توجہ دی، جو کچھ یوں تھیں۔
پہلی آواز….یہ ایک بیکار سا سوال ہے، اس پر لکھ کر اپنا قیمتی وقت برباد نہ کر۔
دوسری آواز….کوئی سوال بیکار نہیں ہوتا۔ ہر عنوان دعوتِ غور و فکر دیتا ہے، سوال تو ایک نعمت ہے۔
تیسری آواز….سوال یہ نہیں کہ عنوان اہم ہے یا غیر اہم ہے، اصل سوال یہ ہے کہ کیا ہر عنوان پر لکھنا عین فرض ہے۔
چوتھی آواز….یہ کسی اجنبی زبان میں آرہی ہے، اس میں شور و ہنگامہ زیادہ ہے، کوشش کے باوجود پلّے کچھ نہیں پڑ رہا۔ جوں جوں سماعتی توجہ زیادہ دے رہا ہوں، تو توں شور و ہنگامے کی بے ترتیبی میں لگا تار اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ پہلی تینوں آوازیں بھی اس میں مدغم ہوتی ہوئی محسوس ہورہی ہیں۔ اب ہر طرف شور ہی شور ہے۔ ہنگامہ ہی ہنگامہ ہے۔ تنگ آکر میںنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں۔
معاملہ خواہ کچھ بھی ہو۔ اتنی بات مکمل طورپر واضح ہے کہ اس واقعے نے مجھے لکھنے کی تحریک دی۔ تذبذب کی بجائے، یقین سے نوازا۔ یوں اس سیمابی اور سیلانی موضوع پر کچھ لکھنے کے قابل ہوا۔ سو ’’ادب میں ریٹائرمنٹ….ایک سوال‘‘ کی طرف مراجعت کرتے ہوئے پہلی بات یہ کرنی ہے کہ ادب سے منسلک ہونا، سرکاری ملازمت والا معاملہ نہیں کہ مدتِ متعینہ کے بعد ریٹائرمنٹ بہر صورت لازمی ہے یا کسی حادثے کی پاداش میں قبل از مدت متعینہ، کسی لمحے بھی ملازمت سے سبکدوشی کے احکامات جاری ہوسکتے ہیں یا دوران ملازمت خصوصی خدمات کے اعتراف میں اعزاز و انعام سے نوازنے کے ساتھ ساتھ، ملازمت میں توسیع کی خوش خبری بھی مل سکتی ہے، کسی ثانیے میں منفی یا مثبت حالات پیش آسکتے ہیں، مگر اہلِ قلم کے حالات اس کے برعکس ہیں۔
یہ ادب کی محسوساتی دنیا ہے۔ یہ خود احتسابی کا خود رد عمل ہے۔ یہاں کسی کا حکم اس لیے نہیں چلتا کہ ادب کی بارگاہ میں داخل ہوتے وقت ملازمت کی طرز پر کسی عہد نامے پر دستخط نہیں کیے جاتے اور نہ ہی کسی کی ادبی حکمرانی کو بہ صمیمِ قلب، تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود ادب میں ریٹائرمنٹ ہوتی رہتی ہے۔ اس کے عبرت ناک آثار نظر آتے رہتے ہیں، مگر یہ آثار، جس لکھاری کے تناظر میں دکھائی دیتے ہیں، وہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ مثلاً جب کوئی قلم کار، کسی کے خیالات کی جگالی شروع کردیتا ہے تو اس میں منصبِ قلم کاری سے سبکدوشی کی لہر موجود ہوتی ہے۔ اس طرح جب کسی لکھاری کی تحریروں سے تخلیقی سرگرمی غائب ہوجاتی ہے تو یہ عمل ریٹائرمنٹ کی طرف پیش قدمی کے مساوی ہوتا ہے۔ جب کوئی قلم کار عہدِ ضعیفی میں پہنچ کر ایک صنف ادب کو کلی یا جزوی طورپر الوداع کہہ دیتا ہے تو یہ بھی دفتر ادب سے باالاقساط رخصتی کا بھرپور اعلان ہوتا ہے۔
جب کوئی تخلیق کار مزید مطالعے اور مشاہدے کی ضرورت محسوس نہ کرے تو یہ بھی ادب میں ریٹائرمنٹ کے داغِ بیل کے مترادف ہوتا ہے۔ جب کوئی لکھاری ’’ہم چہ مادیگرے نیست‘‘ کی تصویر بن جاتا ہے تو حرفِ بغاوت پر اتر آتا ہے، جو ریٹائرمنٹ کا غیر مکتوبی اشارہ ہوتا ہے۔ جب کوئی فن کار عصری علوم سے نظریں چراتا ہے تو کار گاہ ادب سے ’’بوری بسترا‘‘ سمیٹنے کی ابتدا کرتا ہے، جو ریٹائرمنٹ ہی کی ایک صورت ہے۔ علاوہ ازیں اور بھی بہت سے گوشوں کی نشان دہی کی جاسکتی ہے، جو ریٹائرمنٹ کا اشاریہ مرتب کرنے کے قریب قریب لگتے ہیں، لیکن کوئی قلم کار بھی اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ماننے کے لیے تیار نہیں ہوا، بلکہ دیگر وجوہات کی اوٹ میں بیٹھ کر خود کو طفل تسلیاں دیتا رہتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس فکری کساد بازاری کے دوران بھی بعض مرتبہ کوئی کام کی نگارش سامنے آجاتی ہے، جس سے نگارش نگار کی شہرت کو چار چاند لگ جاتے ہیں، جو دریافت نو کا حیرت انگیز رویہ ہے، لیکن ایسا بہت کم کم دیکھنے میں آتا ہے۔ یہ آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں، پھر بھی اس رویے کو مجموعی لحاظ سے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، لیکن اس کو فارمولا بھی نہیں بنایا جاسکتا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ مجموعی طورپر واضح تغیر و تبدل دکھائی نہیں دیتا۔
اب لمحۂ فکریہ یہ بھی ہےکہ محولا بالا قسم کے لکھاری یا لکھاریوں کو کیسے باور کرایا جائے کہ کون سا فارمولا برتا جائے کہ ادبی فضا کو زہریلا کیے بغیر ادبیات کی بے چین روح کو آسودئہ ارتقا کیا جاسکے۔ میری ذاتی رائے میں ہر لکھنے والے کو اپنے بارے میں خود سوچنا چاہیے کہ وہ اس کا تخلیق کردہ ادب کی مقام و مرتبے کا حامل ہے، وہ ٹھہرائو کا شکار ہے، آمادئہ تنزل ہے یا روبہ کمال ۔
ایسا کرنا مشکل ضرور ہے، مگر ناممکن نہیں، بشرطیکہ ہم اپنی اپنی انائوں کے بت پاش پاش کردیں۔ سچی باتوں کو خلوص دل سے قبول کرنے کی خوڈالیں، باہمی ربط کو ضبط کی کیاری میں پروان چڑھائیں، تاکہ خبط کے طوفانِ بدتمیزی سے ادب کے چہرے پر کالک ملنے بیٹھ جائیں۔ عمل اور رد عمل دونوں کو ایک دوسرے کا لازم و ملزوم جانتے ہوئے، تحمل کو بابرکات شجر کو ثمر بار کریں۔ دوسری بات یہ ہے ہر کونے سے کمزور نگارشات کی اعلانیہ اور خفیہ انداز میں بار بار نشان دہی کی جائے اور اس عمل کو اس قدر تسلسل کے ساتھ دہرایا جائے کہ صاحبان نگارشات کے پہلو بہ پہلو دوسرے قلم کار بھی احساس ذمے داری کی دولت سے مالا مال ہو سکیں۔ اس طرح ادب میں ریٹائرمنٹ کا سوال دوبارہ سر نہ اٹھا سکے۔
The post ادب میں ریٹائرمنٹ . . . ایک سوال appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2MTmvUK via Urdu News Paper
#urdu news paper#indian urdu news papers#inquilab urdu news paper#sahara urdu news paper#kashmir urdu
0 notes
Photo
شہباز شریف سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس میں پھانسی کا پھندہ قریب دیکھ کر ذہنی توازن کھو بیٹھا ہے:عاجز دھامراہ کراچی: پاکستان پیپلز پارٹی سندھ کے سیکریٹری اطلاعات سینیٹر عاجز دھامراہ اور ضلع شرقی کے سیکریٹری اطلاعات وقاص شوکت نے اپنے مشترکہ بیان میں کہاہے کہ نااہل وزیراعظم کا بھائی شہباز شریف سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس میں پھانسی کا پھندہ قریب دیکھ کر ذہنی توازن کھو بیٹھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف کے بعد اب شہباز شریف کی بوریاں بسترا گول کرنے کی باری ہے ۔ انہوں نے کہا کہ قوم کی بدقسمتی ہے کہ این ایل جی کمیشن خور ملک کا وزیراعظم اور نااہل اور کرپٹ شریف فیملی کا ملازم ہے۔انہوں نے کہا کہ ن لیگ کے وزیراعظم پیپلز پارٹی پر الزام لگانے سے پہلے رینٹل منصوبوں پر انکوائری کا اعلان کرے۔ انہوں نے کہا کہ ن لیگ حکومت نے ملک کو گروی رکھ کر اب اس ملک کے عوام کوروٹی کپڑا اور مکان سے محروم کرنے کی سازش کررہی ہے ۔انہوں نے کہا کہ ن لیگ حکومت نے جھوٹی ترقی کا دعوی کر کے عوام کی آنکھوں میں دھول جھوکنے کی کوشش کی اور ملک کو کنگال کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ ن لیگ حکومت نے اپنے دور اقتدار میں صرف اور صرف کرپشن وٹھیکوں کامال کمایاں اور جائیدادیں بنائیں ہیں اوراپنے ساتھ ساتھ رشتہ داروں ، عزیز واقارب کو بھی خوب نوازا اور پاکستانی عوام کا پیسہ لوٹ کر بیرونی ملک آف شور کمپنیاں بنائیں۔ نوٹ: براہِ مہربانی اِس خبر کو اپنے دوستوں کے ساتھ ضرور شئیر کریں اور کمنٹ کے ذریعے اپنی قیمتی رائے کا اِظہار بھی کریں
#2017#26 sep#3 oct#30 aug#92 news#92 news hd#92 news hd plus#92newshdplus#92newslive#addressing#aftab iqbal#another leader join the pti#ary#best news#best pakistan news#breaking news#channel#channel 92#conf#express news#express news live#game end of pmln#hameed ud din sialvi#hd newspakistan news#ilzam#ilzam lagaya#important leaders giving the resign#important leaders giving the resign minstery#important personality leave the party#imran khan
0 notes
Photo
تحریک انصاف کا پنجاب سے بوریا بسترا گول پنجاب کا نیا وزیراعلیٰ فائنل ، اسپیکر اور سینئر وزیر کس پارٹی سے ہونگے ؟ حیرت انگیز دعویٰ سامنے آگیا اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)تبدیلی کا آغاز اگلے ہفتے سے شروع ہو سکتا ہے، اپوزیشن کے تعاون سے پنجاب کی وزارت اعلیٰ پرویز الٰہی کی جیب میں موجود ہے جب کہ پی ٹی آئی کا کہنا ہےکہ باتیں ہوا ہوجائیں گی، پنجاب اور مرکز میں 5سال پورے کر کے دوبارہ آئیں گے۔جیونیوز کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ چند دنوں سے اس بحث نے شدت پکڑلی ہے کہ جلد حکومت تبدیل ہونے والی ہے
#اسپیکر#اگیا#انصاف#انگیز#اور#بسترا#بوریا#پارٹی#پنجاب#تحریک#حیرت#دعوی#سامنے#سینئر#سے#فائنل#کا#کس#گول#نیا#ہونگے#وزیر#وزیراعلی
0 notes
Text
Poetry Mediazoon: JOHN ELIA SAHIB – تھا تو اک شہر خاکساروں کا
حال خوش تذکرہ نگاروں کا
تھا تو اک شہر خاکساروں کا
پہلے رہتے تھے کوچۂ دل میں
اب پتہ کیا ہے دل فگاروں کا
کوئے جاناں کی ناکہ بندی ہے
بسترا اب کہاں ہے یاروں کا
چلتا جاتا ہے سانس کا لشکر
کون پُرساں ہے یادگاروں کا
اپنے اندر گھسٹ رہا ہوں میں
مجھ سے کیا ذکر رہ گزاروں کا
ان سے جو شہر میں ہیں بے دعویٰ
عیش مت پوچھ دعویداروں کا
کیسا یہ معرکہ ہے برپا جو
نہ پیادوں کا نہ سواروں کا
بات…
View On WordPress
#all poetries#ALL POETS#assad ullah mirza ghalib poetry#best poetry#dukhi shairi#fun#funny poetry#ghalib poetry#great poetry#iqbal poetry#john elia poetry#jokes#jokes poetry#latest poetry#love poetry#meer taqi meer poetry#pakistani media#poetry#poetry album#poetry of all poets#sad poetry#saraiki poetry#shairi
0 notes
Text
شمالی کوریائی کمپنیاں چار ماہ کے چین سے اپنا بوریہ بسترا سمیٹ لیں :چینی وزارت تجارت کا حکم
بیجنگ: چین نے شمالی کوریا کی ہٹ دھرمی اور اقوام متحدہ کی جانب سے اس کے خلاف عائد کی گئی پابندیوں کا احترام کرتے ہوئے اپنے دیرینہ حلیف شمالی کوریا کی کمپنیوں کی شراکت میں کام کرنے والی چینی کمپنیوں کو پارٹنر شپ توڑ لینے کا حکم دیا ہے۔چینی وزارت تجارت کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ...
0 notes
Text
Poetry Mediazoon: Meer Taqi Sahib – جب جنوں سے ہمیں توسل تھا
Poetry Mediazoon: Meer Taqi Sahib – جب جنوں سے ہمیں توسل تھا
جب جنوں سے ہمیں توسل تھا
اپنی زنجیر پا ہی کا غل تھا
بسترا تھا چمن میں جوں بلبل
نالہ سرمایۂ توکل تھا
یک نگہ کو وفا نہ کی گویا
موسم گل صفیر بلبل تھا
ان نے پہچان کر ہمیں مارا
منھ نہ کرنا ادھر تجاہل تھا
شہر میں جو نظر پڑا اس کا
کشتۂ ناز یا تغافل تھا
اب تو دل کو نہ تاب ہے نہ قرار
یاد ایام جب تحمل تھا
جا پھنسا دام زلف میں آخر
دل نہایت ہی بے تامل تھا
یوں گئی قد کے خم ہوئے جیسے
عمر اک رہرو سر پل…
View On WordPress
#all poetries#ALL POETS#assad ullah mirza ghalib poetry#best poetry#dukhi shairi#fun#funny poetry#ghalib poetry#great poetry#iqbal poetry#john elia poetry#jokes#jokes poetry#latest poetry#love poetry#meer taqi meer poetry#PAKISTANI MEDIAa#poetry#poetry album#poetry of all poets#sad poetry#saraiki poetry#shairi
0 notes