#اوٹ
Explore tagged Tumblr posts
Text
پاکستان سے سیریز میں ہم مکمل طور پر آؤٹ کلاس ہوئے ہیںکپتان جوش انگلس
پرتھ(ڈیلی پاکستان آن لائن)آسٹریلوی ٹیم کے کپتان جوش انگلس نے ون ڈے سیریز میں شکست پر کہاہے کہ پاکستان سے سیریز میں ہم مکمل طور پر آؤٹ کلاس ہوئے ہیں،ہمارے بیٹرز دوسرے اور تیسرے میچ میں رنز نہیں کر سکے۔ جوش انگلس کاکہناتھا کہ سیریز میں ٹیم کی پرفارمنس مایوس کن رہی ہے،ان کاکہناتھا کہ آسٹریلوی ٹیم کی کپتانی کرنا اچھا لگا مگر سیریز ہارنے پر مایوسی ہوئی۔ Source link
0 notes
Text
دوسرا ٹیسٹ پاکستان کی ٹیم انگلینڈ کیخلاف پہلی اننگز میں 366 رنز بنا کر آؤٹ
ملتان(ڈیلی پاکستان آن لائن) پاکستان کی پوری ٹیم انگلینڈ کے خلاف دوسرے ٹیسٹ کی پہلی اننگ میں 366رنز بنا کر آؤٹ ہو گئی جس میں ڈیبو کرنے والے کامران غلام کا اہم کردار رہاجنہوں نے پہلی سینچری سکور کی ۔ تفصیلات کے مطابق پاکستان نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا جس پر عبداللہ شفیق اور صائم ایوب نے میدان میں اتر کر کھیل کا آغاز کیا لیکن اوپننگ پر آنے والے عبداللہ شفیق صرف 7 رنز بنا کر پولین لوٹ…
0 notes
Text
"ابتدائے محبت کا قصہ "
عہدِ بعید میں، زمین و آسمان کی آفرینش کے بعد ،جب ابھی بشر کا عدم سے وجود میں آنا باقی تھا، اس وقت زمین پر اچھائی اور برائی کی قوتیں مل جل کر رہتیں تھیں. یہ تمام اچھائیاں اور برائیاں عالم عالم کی سیر کرتے گھومتے پھرتے یکسانیت سے بے حد اکتا چکیں تھیں.
ایک دن انہوں نے سوچا کہ اکتاہٹ اور بوریت کے پیچیدہ مسئلے کو حل کرنا چاہیے،
تمام تخلیقی قوتوں نے حل نکالتے ہوئے ایک کھیل تجویز کیا جس کا نام آنکھ مچولی رکھا گیا.
تمام قوتوں کو یہ حل بڑا پسند آیا اور ہر کوئی خوشی سے چیخنے لگا کہ "پہلے میں" "پہلے میں" "پہلے میں" اس کھیل کی شروعات کروں گا..
پاگل پن نے کہا "ایسا کرتے ہیں میں اپنی آنکھیں بند کرکے سو تک گنتی گِنوں گا، اس دوران تم سب فوراً روپوش جانا، پھر میں ایک ایک کر کے سب کو تلاش کروں گا"
جیسے ہی سب نے اتفاق کیا، پاگل پن نے اپنی کہنیاں درخت پر ٹکائیں اور آنکھیں بند کرکے گننے لگا، ایک، دو، تین، اس کے ساتھ ہی تمام اچھائیاں اور برائیاں اِدھر اُدھر چھپنے لگیں،
سب سے پہلے نرماہٹ نے چھلانگ لگائی اور چاند کے پیچھے خود کو چھپا لیا،
دھوکا دہی قریبی کوڑے کے ڈھیر میں چھپ گئی،
جوش و ولولے نے بادلوں میں پناہ لے لی،
آرزو زیرِ زمین چلی گئی،
جھوٹ نے بلند آواز میں میں کہا، "میرے لیے چھپنے کی کوئی جگہ باقی نہیں بچی اس لیے میں پہاڑ پر پتھروں کے نیچے چھپ رہا ہوں" ، اور یہ کہتے ہوئے وہ گہری جھیل کی تہہ میں جاکر چھپ گیا،
پاگل پن اپنی ہی دُھن میں مگن گنتا رہا، اناسی، اسی، اکیاسی،
تمام برائیاں اور اچھائیاں ایک ایک کرکے محفوظ جگہ پر چھپ گئیں، ماسوائے محبت کے، محبت ہمیشہ سے فیصلہ ساز قوت نہیں رہی ، لہذا اس سے فیصلہ نہیں ہو پا رہا تھا کہ کہاں غائب ہونا ہے، اپنی اپنی اوٹ سے سب محبت کو حیران و پریشان ہوتے ہوئے دیکھ رہے تھے اور یہ کسی کے لئے بھی حیرت کی بات نہیں تھی ۔
حتیٰ کہ اب تو ہم بھی جان گئے ہیں کہ محبت کے لیے چھپنا یا اسے چھپانا کتنا جان جوکھم کا کام ہے. اسی اثنا میں پاگل پن کا جوش و خروش عروج پر تھا، وہ زور زور سے گن رہا تھا، پچانوے، چھیانوے، ستانوے، اور جیسے ہی اس نے گنتی ��وری کی اور کہا "پورے سو" محبت کو جب کچھ نہ سوجھا تو اس نے قریبی گلابوں کے جھنڈ میں چھلانگ لگائی اور خود کو پھولوں سے ڈھانپ لیا،
محبت کے چھپتے ہی پاگل پن نے آنکھیں کھولیں اور چلاتے ہوئے کہا "میں سب کی طرف آرہا ہوں" "میں سب کی طرف آرہا ہوں" اور انہیں تلاش کرنا شروع کردیا،
سب سے پہلے اس نے سستی کاہلی کو ڈھونڈ لیا، کیوں کہ سستی کاہلی نے چھپنے کی کوشش ہی نہیں کی تھی اور وہ اپنی جگہ پر ہی مل گئی،
اس کے بعد اس نے چاند میں پوشیدہ نرماہٹ کو بھی ڈھونڈ لیا،
صاف شفاف جھیل کی تہہ میں جیسے ہی جھوٹ کا دم گُھٹنے لگا تو وہ خود ہی افشاء ہوگیا، پاگل پن کو اس نے اشارہ کیا کہ آرزو بھی تہہ خاک ہے،
اسطرح پاگل پن نے ایک کے بعد ایک کو ڈھونڈ لیا سوائے محبت کے،
وہ محبت کی تلاش میں مارا مارا پھرتا رہا حتیٰ کہ ناامید اور مایوس ہونے کے قریب پہنچ گیا،
پاگل پن کی والہانہ تلاش سے حسد کو آگ لگ گئی، اور وہ چھپتے چھپاتے پاگل پن کے نزدیک جانے لگا، جیسے ہی حسد پاگل پن کے قریب ہوا اس نے پاگل پن کے کان میں سرگوشی کی " وہ دیکھو وہاں، گلابوں کے جُھنڈ میں محبت پھولوں سے لپٹی چھپی ہوئی ہے"
پاگل پن نے غصے سے زمین پر پڑی ایک نوکدار لکڑی کی چھڑی اٹھائی اور گلابوں پر دیوانہ وار چھڑیاں برسانے لگا، وہ لکڑی کی نوک گلابوں کے سینے میں اتارتا رہا حتیٰ کہ اسے کسی کے زخمی دل کی آہ پکار سنائی دینے لگی ، اس نے چھڑی پھینک کر دیکھا تو گلابوں کے جھنڈ سے نمودار ہوتی محبت نے اپنی آنکھوں پر لہو سے تربتر انگلیاں رکھی ہوئی تھیں اور وہ تکلیف سے کراہ رہی تھی، پاگل پن نے شیفتگی سے بڑھ کر محبت کے چہرے سے انگلیاں ہٹائیں تو دیکھا کہ اسکی آنکھوں سے لہو پھوٹ رہا تھا، پاگل پن یہ دیکھ کر اپنے کیے پر پچھتانے لگا اور ندامت بھرے لہجے میں کہنے لگا، یا خدا! یہ مجھ سے کیا سرزد ہوگیا، اے محبت! میرے پاگل پن سے تمھاری بینائی جاتی رہی، میں بے حد شرمندہ ہوں مجھے بتاؤ میری کیا سزا ہے؟ میں اپنی غلطی کا ازالہ کس صورت میں کروں؟
محبت نے کراہتے ہوئے کہا " تم دوبارہ میرے چہرے پر نظر ڈالنے سے تو رہے، مگر ایک طریقہ بچا ہے تم میرے راہنما بن جاؤ اور مجھے رستہ دکھاتے رہو"
اور یوں اس دن کے واقعے کے بعد یہ ہوا کہ، محبت اندھی ہوگئی، اور پاگل پن کا ہاتھ تھام کر چلنے لگی ، اب ہم جب محبت کا اظہار کرنا چاہیں تو اپنے محبوب کو یہ یقین دلانا پڑتا ہے کہ "میں تمھیں پاگل پن کی حد تک محبت کرتا ہوں "
8 notes
·
View notes
Text
“پھانس”
تم ایک نظم لکھو گے اور
اسے میری سماعت نہیں ملے گی
تمہاری صدا پلٹ کر
تمہی کو سنائے دے گی
دیر تلک بے ٹھکانہ گونجتی رہے گی
تُم بانٹنا چاہو گے
کسی راہ چلتے مجذوب کا دکھ
مگر وہ اپنی متاعِ ہست
تقسیم نہیں کرے گا
کسی ٹوٹے ہوئے گھونسلے کو
گھنے شجر کی شاخوں کی اوٹ میں
محفوظ کرتے ہوئے
اگر خیال آئے کہ
ہجرت کے دُکھ کے سوا
وہاں کون بسیرا کر پائے گا
تو اس خیال کو جھٹکنا نہیں
بس مڑ کے رہگزر کو دیکھ لینا
تمہیں معلوم ہو جائے گا
جانے والوں کا دکھ
گلی میں کھیلتے معصوم بچے
تمہیں ہنسی کی بھیک نہیں دیں گے
مژگاں پہ اٹکا ستارہ اشک بن کر بہہ جائے گا
کھِلتے پھولوں کی پھیلتی خوشبو
تم سے ذرا دور ٹھہری رہے گی
تمہاری جیبوں میں کھنکھناتےسکے اور ان میں
دنیا خرید لینے کا زعم
ان دیکھا نم بن جائے گا
جس کی یخ بستگی کو کہیں پناہ نہیں ملے گی
میری ہنسی کو ہنستے ہنستے
میری زندگی کو کو بسر کرتے ہوئے
کہیں کوئی شاداب چہرہ
تمہیں سیاہ دکھے گا
اپنی بصارت پہ ذرا سا بھی شک مت کرنا
اور جان لینا
کسی کے مقدر میں سیاہی بھر دینے کے بعد
دل کی سیاہی چہرے پہ جھلکنے لگتی ہے
مستعار لی ہوئی خوشی
اور نوچی ہوئی ہنسی کی عمر
مختصر ہوتی ہے
چُرائی ہوئی سانس تھکنے لگے
تو پھانس بن جاتی ہے
- مومنہ وحید
5 notes
·
View notes
Text
جو ہم پہ گزرے تھے رنج سارے جو خود پہ گزرے تو لوگ سمجھے
جب اپنی اپنی محبتوں کے عذاب جھیلے تو لوگ سمجھے
وہ جن درختوں کی چھاؤں میں سے مسافروں کو اٹھا دیا تھا
انہیں درختوں پہ اگلے موسم جو پھل نہ اترے تو لوگ سمجھے
اس ایک کچی سی عمر والی کے فلسفہ کو کوئی نہ سمجھا
جب اس کے کمرے سے لاش نکلی خطوط نکلے تو لوگ سمجھے
وہ خواب تھے ہی چنبیلیوں سے سو سب نے حاکم کی کر لی بیعت
پھر اک چنبیلی کی اوٹ میں سے جو سانپ نکلے تو لوگ سمجھے
وہ گاؤں کا اک ضعیف دہقاں سڑک کے بننے پہ کیوں خفا تھا
جب ان کے بچے جو شہر جاکر کبھی نہ لوٹے تو لوگ سمجھے
احمد سلمان
4 notes
·
View notes
Text
قفس میں قید پنچھیوں کی طرح
ہم ان دیواروں کو تکتے رہتے ہیں
کہ جن دیواروں کی اوٹ نے ہماری جوانی چاٹ لی
اور ہم ان قید خانوں کی آخری نشانیاں ہیں جن کے قصے آباؤاجداد سناتے تھے
کہ جن قید خانوں میں عمر کے صفحے پلٹتے پلٹتے انگلیاں تھک جاتی ہیں
سانسیں مر جاتی ہیں
بال جھڑ جاتے ہیں
مگر کتاب زیست میں آزادی کا باب نہیں آتا
اور ہم عرب کے دور کی اس تہذیب کی بیٹیوں جیسے ہیں
کہ جن کی آہ پکار سننے والے بہرے تھے
اور جن کی چیخیں سینوں سے نکلنے سے پہلے ہی زمیں درگور ہوجاتی تھیں
ہم آخری آخری نشانیاں ہیں ان وقتوں کی جہاں وقت کی ساعتیں
اختتام ہوتے ہوتے عمر گزار دیتی ہیں
ہمارے اندر قید ہے درد کی وہ دنیا
کے جسے ہم خود جھانک کر دیکھتے ہیں تو ڈر جاتے
اور مرتے مرتے مر جاتے ہیں
ہم اس پروانے کی صورت ہیں
جو شمع پہ مرتے مرتے مر جاتا ہے
اور جسے آخری لمحات میں بھے وصل میسر نہیں ہوتا
کہ شمع جسے مرنے دیتی ہے اپنی روشنی کے تلے
مگر اس کے دل میں روشنی نہیں کرتی
ہم ساز کے اس تار کے جیسے ہیں
کہ جسے کوئی بے رحم موسیقار کھینچ کھینچ کے چھوڑ دیتا ہے
اور پھر اک پل میں توڑ دیتا ہے
ہم ان آخری آخری لوگوں میں ہیں
جنہیں محبت بھیک میں بھی نہیں ملی
کوئی رنگ نہیں چڑھا کوئی ریت نہیں ملی
کوئی ساتھ نہیں ملا
کوئی پریت نہیں ملی
کوئی پریت نہیں ملی
ازقلم توصیف انیس
3 notes
·
View notes
Text
جو ہم پہ گزرے تھے رنج سارے، جو خود پہ گزرے تو لوگ سمجھے
جب اپنی اپنی محبتوں کے عذاب جھیلے تو لوگ سمجھے
وہ جن درختوں کی چھاؤں میں سے مسافروں کو اٹھا دیا تھا
انہیں درختوں پہ اگلے موسم جو پھل نہ اترے تو لوگ سمجھے
اس ایک کچی سی عمر والی کے فلسفے کو کوئی نہ سمجھا
جب اس کے کمرے سے لاش نکلی، خطوط نکلے تو لوگ سمجھے
وہ خواب تھے ہی چنبیلیوں سے، سو سب نے حاکم کی کر لی بیعت
پھر اک چنبیلی کی اوٹ میں سے ، جو سانپ نکلے تو لوگ سمجھے
وہ گاؤں کا اک ضعیف دہقاں، سڑک کے بننے پہ کیوں خفا تھا
جب ان کے بچے جو شہر جاکر کبھی نہ لوٹے تو لوگ سمجھے
احمد سلمان
6 notes
·
View notes
Text
جو ہم پہ گزرے تھے رنج سارے، جو خود پہ گزرے تو لوگ سمجھے
جب اپنی اپنی محبتوں کے عذاب جھیلے تو لوگ سمجھے
وہ جن درختوں کی چھاؤں میں سے مسافروں کو اٹھا دیا تھا
انہیں درختوں پہ اگلے موسم جو پھل نہ اترے تو لوگ سمجھے
اس ایک کچی سی عمر والی کے فلسفے کو کوئی نہ سمجھا
جب اس کے کمرے سے لاش نکلی، خطوط نکلے تو لوگ سمجھے
وہ خواب تھے ہی چنبیلیوں سے، سو سب نے حاکم کی کر لی بیعت
پھر اک چنبیلی کی اوٹ میں سے ، جو سانپ نکلے تو لوگ سمجھے
وہ گاؤں کا اک ضعیف دہقاں، سڑک کے بننے پہ کیوں خفا تھا
جب ان کے بچے جو شہر جاکر کبھی نہ لوٹے تو لوگ سمجھے
احمد سلمان
6 notes
·
View notes
Photo
نماز میں سترکا بیان سوال ۲۶۵: سترے کے بارے میں کیا حکم ہے اور اس کی مقدار کتنی ہے؟ جواب :نماز میں سترہ سنت موکدہ ہے، البتہ امام کے سترہ پر اکتفا کی وجہ سے مقتدی کے لیے سترہ اختیار کرنا مسنون نہیں ہے۔ اس کی مقدار کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا: ((مِثْلَ مُؤْخِرَۃِ الرَّحْلِ)) (صحیح مسلم، الصلاۃ، باب سترۃ المصلی… ح:۵۹۹۔) ’’کجاوے کے پچھلے حصے کی طرح ہو۔‘‘ لیکن یہ اس کی زیادہ سے زیادہ مقدار ہے جب کہ اس سے کم تر مقدار بھی جائز ہے کیونکہ دوسری حدیث میں آیا ہے: ((اِذَا صَلَّی اَحَدُکُمْ فَلْیَسْتَتِرْ لِصَلَاتِہِ وَلَوْ بِسَہْمٍ)) (مسند احمد، ح: ۳/۴۰۴ وصحیح ابن خزیمۃ، سترۃ المصلی، ح: ۸۱۱۔) ’’جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو سترہ اختیار کرے، خواہ وہ تیر کے بقدر ہو۔‘‘ ایک اور حدیث میں ہے جسے امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے سندحسن کے ساتھ روایت کیا ہے: ((أن منْ لَمْ یَجِدْ فَلْیَخُطَّ خَطًّا)) (سنن ابی داود، الصلاۃ، باب الخط اذا لم یجد عصا، ح: ۶۸۹ وسنن ابن ماجہ، اقامۃ الصلوات، باب ما یستر المصلی، ح: ۹۴۳ واللفظ لہ وصحیح ابن خزیمۃ، سترۃ المصلی: ۲/ ۱۲، ۸۱۱۔) ’’اگر اسے کوئی چیز نہ ملے تو کم أزکم لکیر ہی کھینچ لے۔‘‘ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ’’بلوغ المرام‘‘ میں لکھا ہے کہ جس کسی نے اس حدیث کو مضطرب قرار دیا ہے، اس کی بات درست نہیں ہے کیونکہ اس حدیث میں کوئی ایسی علت نہیں جس کی وجہ سے اسے رد کر دیا جائے، لہٰذا ہم یہ کہتے ہیں کہ سترہ کی کم سے کم مقدار لکیر اور زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ وہ کجاوے کے پچھلے حصے کے برابر ہو۔ سوال ۲۶۶: جب کوئی شخص مسجد حرام میں نماز ادا کر رہا ہو، نماز فرض ہو یا نفل اور نماز ادا کرنے والا مقتدی ہو یا منفرد، اس کے آگے سے گزرنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟ جواب :مسجد حرام یا کسی بھی دوسری مسجد میں مقتدی کے آگے سے گزرنے میں کوئی حرج نہیں (کیونکہ امام ان کے لیے سترہ ہے) اس لئے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اس حال میں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ میں لوگوں کو کسی دیوار کی اوٹ کے بغیر نماز پڑھا رہے تھے تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما گدھے پر سوار صف کے آگے سے گزر گئے اور کسی نے انہیں منع نہ کیا۔[1] نمازی اگر امام یا منفرد ہو تو اس کے آگے سے گزرنا جائز نہیں، نہ مسجد حرام میں اور نہ کسی دوسری جگہ، کیونکہ دلائل کے عموم کا یہی تقاضا ہے اور ایسی کوئی دلیل نہیں جس سے یہ معلوم ہو کہ مکہ یا مسجد حرام میں نمازی کے آگے سے گزرنے میں کوئی نقصان نہیں یا اس سے گزرنے والا گناہ گار نہیں ہوتا۔ فتاوی ارکان اسلام ( ج ۱ ص ۲۹۰، ۲۹۱ ) #FAI00207 ID: FAI00207 #Salafi #Fatwa #Urdu
0 notes
Text
راولپنڈی ٹیسٹ کا چوتھا روز،پاکستان نے 23رنز بنا لئے
راولپنڈی ٹیسٹ میں پاکستان نے چوتھے روز کھیل کے اختتام پر اپنی دوسری اننگ میں ایک وکٹ کے نقصان پر23 رنز بنا لیئے۔ پاکستان کو بنگلہ دیش کی پہلی اننگ کا سکور برابر کرنے کیلیئے مزید 94رنز درکار ہیں،عبداللہ شفیق 12رنز جبکہ کپتان شان مسعود 09رنز کیساتھ کریز پر موجود،اوپنر صائم ایوپ صرف ایک رنز بنا کر اوٹ ہو گئے،واحد وکٹ بنگلہ دیشی باولر شرف السلام نے حاصل کی۔ چائے کے وقفے کے بعد بنگلہ دیش کی ٹیم اپنی…
0 notes
Text
آسٹریلیا کی پاکستان کیخلاف بیٹنگ جاری79 پر 3کھلاڑی آؤٹ
ایڈیلیڈ (ڈیلی پاکستان آن لائن) تین ایک روزہ میچوں کی سیریز کے دوسرے میچ میں آسٹریلیا کی پاکستان کے خلاف بیٹنگ جاری ہے اور کینگروز نے 3وکٹوں کے نقصا ن پر 79 رنز بنا لیے ہیں۔ ایڈیلیڈ میں کھیلے جا رہے میں پاکستان ��ے کپتان محمد رضوان نے ٹاس جیت کر فیلڈنگ کا فیصلہ کیا۔آسٹریلیا کی جانب سے اننگز کا آغاز جیک فریسر مک گرج اور میتھیو شارٹ نے کیا لیکن دونوں کھلاڑیوں کو شاہین شاہ آفریدی نے آغاز میں ہی…
0 notes
Text
آؤ کہ مرگ سوز محبت منائیں ہم
آؤ کہ حسن ماہ سے دل کو جلائیں ہم
خوش ہوں فراق قامت و رخسار یار سے
سرو و گل و سمن سے نظر کو ستائیں ہم
ویرانی حیات کو ویران تر کریں
لے ناصح آج تیرا کہا مان جائیں ہم
پھر اوٹ لے کے دامن ابر بہار کی
دل کو منائیں ہم کبھی آنسو بہائیں ہم
سلجھائیں بے دلی سے یہ الجھے ہوئے سوال
واں جائیں یا نہ جائیں نہ جائیں کہ جائیں ہم
پھر دل کو پاس ضبط کی تلقین کر چکیں
اور امتحان ضبط سے پھر جی چرائیں ہم
آؤ کہ آج ختم ہوئی داستان عشق
اب ختم عاشقی کے فسانے سنائیں ہم
1 note
·
View note
Text
جو ہم پہ گزرے تھے رنج سارے
، جو خود پہ گزرے تو لوگ سمجھے
جب اپنی اپنی محبتوں کے
عذاب جھیلے تو لوگ سمجھے
وہ جن درختوں کی چھاؤں میں سے
مسافروں کو اٹھا دیا تھا
انہیں درختوں پہ اگلے موسم
جو پھل نہ اترے تو لوگ سمجھے
اس ایک کچی سی عمر والی کے
فلسفے کو کوئی نہ سمجھا
جب اس کے کمرے سے لاش نکلی
، خطوط نکلے تو لوگ سمجھے
وہ خواب تھے ہی چنبیلیوں سے،
سو سب نے حاکم کی کر لی بیعت
پھر اک چنبیلی کی اوٹ میں سے
جو سانپ نکلے تو لوگ سمجھے
وہ گاؤں کا اک ضعیف دہقاں
سڑک کے بننے پہ کیوں خفا تھا
جب ان کے بچے جو شہر جاکر
کبھی نہ لوٹے تو لوگ سمجھے
2 notes
·
View notes
Text
جو ہم پہ گزرے تھے رنج سارے جو خود پہ گزرے تو لوگ سمجھے
جب اپنی اپنی محبتوں کے عذاب جھیلے تو لوگ سمجھے
وہ جن درختوں کی چھاؤں میں سے مسافروں کو اٹھا دیا تھا
انہیں درختوں پہ اگلے موسم جو پھل نہ اترے تو لوگ سمجھے
اس ایک کچی سی عمر والی کے فلسفے کو کوئی نہ سمجھا
جب اس کے کمرے سے لاش نکلی خطوط نکلے تو لوگ سمجھے
وہ خواب تھے ہی چنبیلیوں سے سو سب نے حاکم کی کر لی بیعت
پھر اک چنبیلی کی اوٹ میں سے جو سانپ نکلے تو لوگ سمجھے
وہ گاؤں کا اک ضعیف دہقاں سڑک کے بننے پہ کیوں خفا تھا
جب ان کے بچے جو شہر جاکر کبھی نہ لوٹے تو لوگ سمجھے
-احمد سلمان
18 notes
·
View notes
Text
تمہیں جب کبھی ملیں فرصتیں، مرے دل سے بوجھ اتار دو
میں بہت دنوں سےاداس ہوں ، مجھے کوئی شام ادھار دو
مجھے اپنے روپ کی دھوپ دو ، کہ چمک سکیں مرے خال وخد
مجھے اپنے رنگ میں رنگ دو ، مرے سارے رنگ اتار دو
کسی اور کو مرے حال سے ، نہ غرض ہے نہ کوئی واسطہ
میں بکھر گیا ہوں سمیٹ لو ، میں بگڑ گیا ہوں سنوار دو
مری وحشتوں کو بڑھا دیا ہے ، جدائیوں کے عذاب نے
مرے دل پہ ہاتھ رکھو ذرا ، مری دھڑکنوں کو قرار دو
تمہیں صبح کیسی لگی کہو ، مری خواہشوں کے دیار کی
جو بھلی لگی تو یہیں رہو ، اسے چاہتوں سے نکھار دو
وہاں گھر میں کون ہے منتظر ، کہ ہو فکر دیر ، سویر کی
بڑی مختصر سی یہ رات ہے ، اسی چاندنی میں گزار دو
کوئی بات کرنی ہے چاند سے ، کسی شاخسار کی اوٹ میں
مجھے راستے میں یہیں کہیں ، کسی کنج گل میں اتار دو
اعتبار ساجد
2 notes
·
View notes
Text
بینک میں دن دہاڑے لاکھوں کی اوٹ سے بچی افراتفری اعلی افسران موقع پر پہنچے، بدمعاش سی سی ٹی وی کیمرے میں قید، پولیس جانچ میں مصروف
0 notes