#حاضری
Explore tagged Tumblr posts
Text
مبینہ غیرقانونی بھرتیوں کا کیس پرویز الہٰی کی حاضری معافی کی درخواست دائر
(ویب ڈیسک) پنجاب اسمبلی میں مبینہ غیر قانونی بھرتیوں کے کیس میں سابق وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الہٰی نے حاضری معافی کی درخواست دائر کر دی۔ اینٹی کرپشن عدالت میں غیرقانونی بھرتیوں کے کیس میں پرویز الٰہی سمیت دیگر کیخلاف سماعت ہوئی، سابق وزیراعلیٰ پنجاب نے ایک روزہ حاضری معافی کی درخواست دائر کردی۔ درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ پرویز الٰہی کی طبیعت ناساز ہے جس کے باعث ڈاکٹرز نے آرام…
0 notes
Text
3 PARIYON KI HAZRI KA AMAL
SURAH MUZAMMIL SE
HAR KAM PALAK JHAPAKNE MEIN
3 پریوں کی حاضری کا عمل
سورہ مزمل سے
ہر کام پلک جھپکنے میں
Full video link 🔗 ��
https://lnkd.in/dMRRTM8V
CHANNEL KO SUBSCRIBE KAREN
BELL ICON KO DABAE
ALL SELECT KAR DE
TAKI HAMARA HAR AMAL AAPKO SABSE PAHLE MIL JAAYE
VIDEO KO LIKE KAREN
VIDEO KO AAGE JYADA SE JYADA HAR JAGAH SHARE KAREN
1 note
·
View note
Text
بہ تسلیمات ڈسٹرکٹ انفارمیشن آفس ، محکمہ تعلقات عامہ ، حکومت پنجاب ، شیخوپوره
ہینڈ آؤٹ نمبر: 10627
24 جنوری :- وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف ، چیف سیکرٹری پنجاب اور کمشنر لاہور کی خصوصی ہدایت پر ڈپٹی کمشنر شیخوپوره شاہد عمران مارتھ کی زیر نگرانی ایڈیشنل ڈپٹی کمشنرز ، اسسٹنٹ کمشنرز سمیت میونسپل اداروں کے افسران ستھرا پنجاب مہم کے تحت ضلع بھر میں جاری صفائی ستھرائی اور زیرو ویسٹ کے عمل کا جائزہ لینے کیلئے فیلڈ میں مکمل متحرک ۔ ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر جنرل نعمان علی اور اسسٹنٹ کمشنرز نے صبح سویرے میونسپل کمیٹیز اور ایل ڈبلیو ایم سی کے عملہ کی حاضری ، کارکردگی ، صفائی ستھرائی کا جائزہ لیا ، ضلعی افسران نے اس موقع پر متعلقہ افسران کو شہروں ، قصبوں اور دیہاتوں میں روزانہ کی بنیاد پر صفائی ستھرائی کے لیے بہترین اقدامات کرنے کی ہدایات جاری کیں ۔ ڈپٹی کمشنر شاہد عمران مارتھ نے ستھرا پنجاب مہم کے تحت صفائی ستھرائی کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوۓ کہا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کی ہدایت پر ضلع بھر میں صفائی ستھرائی کے خصوصی اقدامات پر عملدرآمد کو ہر صورت یقینی بنایا جائے گا ، ضلع کے تمام شہر ، قصبے اور دیہات صاف نظر آنے چاہیے ، صفائی ستھرائی کے عمل میں کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی ۔ ڈپٹی کمشنر شاہد عمران مارتھ نے کہا کہ ایل ڈبلیو ایم سی کا عملہ روزانہ کی بنیاد پر کوڑے کے ڈھیروں کو ڈمپنگ سائٹس تک پہنچائے اور تمام اسسٹنٹ کمشنرز صفائی چیکنگ کے لیے روزانہ فیلڈ میں نکلیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
0 notes
Text
غیرملکی قرض، مال مفت دل بے رحم
موجودہ حکومت سے ہرگز یہ توقع نہ تھی کہ IMF سے قرضہ منظورہوتے ہی وہ بے دریغ اپنے اخراجات بڑھا ��ے گی۔ وہ صبح وشام عوام سے ہمدردی اور انھیں ریلیف بہم پہنچانے کے دعوے توبہت کرتی رہتی ہے لیکن عملاً اس نے انھیں کوئی ایسا بڑا ریلیف نہیں پہنچایا ہے جیسا اس نے اپنے وزرا اور ارکان پارلیمنٹ کو صرف ایک جھٹکے میں پہنچا دیا ہے۔ ہمارے وزیر خزانہ ہر بار عوام کو یہ تسلیاں دیتے دکھائی دیتے ہیں کہ آپ اگلے چند ماہ میں حکومتی اخراجات کم ہوتے دیکھیں گے۔ اُن کے مطابق حکومت جسے اپنے غریب عوام کا بہت خیال ہے وہ بہت جلد سرکاری اخراجات کم کرے گی، مگر ہم نے پچھلے چند ماہ میں اخراجات کم ہوتے تو کیا بلکہ بے دریغ بڑھتے ہوئے ہی دیکھے ہیں۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے نام نہاد مسیحا عوام سے تو ہر وقت قربانی دینے کی درخواستیں کرتے ہیں لیکن خود وہ کسی بھی قسم کی قربانی دینے کو تیار نہیں ہیں۔ یہ سارے کے سارے خود ساختہ عوامی غم خوار اللہ کے فضل سے کسی غریب طبقہ سے تعلق نہیں رکھتے ہیں۔
اِن میں بہت سے بڑے بڑے جاگیردار اور سرمایہ دار لوگ ہیں۔ پشت درپشت اِن کی جاگیریں ان کی اولادوں میں بٹتی رہی ہیں۔ اُن کی زمینوں کا ہی تعین کیا جائے تو تقریباً آدھا پاکستان انھی لوگوں کی ملکیت ہے۔ اِنکے گھروں میں وہ فاقے نہیں ہو رہے جن سے ہمارے بیشتر عوام دوچار ہیں۔ ملک میں جب بھی کوئی بحران آتا ہے تو یہ سب لوگ ترک وطن کر کے دیار غیر میں جا بستے ہیں۔ جن لوگوں سے یہ ووٹ لے کر پارلیمنٹ کے منتخب ارکان بنتے ہیں انھیں ہی برے وقت میں تنہا چھوڑ جاتے ہیں۔ وطن عزیز کے معرض وجود میں آنے کے دن سے لے کر آج تک اس ملک میں جب جب کوئی بحران آیا ہے قربانیاں صرف غریب عوام نے ہی دی ہیں۔مالی مشکلات پیدا کرنے کے اصل ذمے دار یہی لوگ ہیں جب کہ قربانیاں عوام سے مانگی جاتی ہیں۔ ٹیکسوں کی بھرمار اور اشیائے خورونوش کی گرانی عوام کو برداشت کرنا پڑتی ہے۔ IMF کی کڑی شرطوں کا سارا بوجھ عوام پر ڈالا جاتا ہے اور عالمی مالی ادارے جب کوئی قرضہ منظور کر دیتے ہیں تو شاہانہ خرچ اِنہی خیر خواہوں کے شروع ہو جاتے ہیں۔
ہماری سمجھ میں نہیں آ��ہا کہ ارکان پارلیمنٹ اور حکومتی اہل کاروں کی تنخواہوں میں یکمشت اتنا بڑا اضافہ کرنے کی بھلا ایسی کیا بڑی ضرورت آن پڑی تھی کہ پچاس فیصد نہیں سو فیصد نہیں چار سو سے لے کر نو سو فیصدی تک ایک ہی چھلانگ میں بڑھا دی گئی ہیں۔ جب کہ ان بھاری تنخواہوں کے علاوہ دیگر مراعات اور بھی دی جارہی ہیں۔ ان کے گھر کے اخراجات بھی حکومت کے خزانوں سے پورے کیے جاتے ہیں۔ بجلی، گیس اور ٹیلیفون تک کے بلوں کی ادائیگی عوام کے پیسوں سے کی جاتی ہے۔ پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں حاضری لگانے کے الاؤنس بھی اس کے علاوہ ملتے ہیں۔ پارلیمنٹ کی کیفے ٹیریا میں انھیں لنچ اور ڈنر بھی بہت ہی ارزاں داموں میں ملا کرتے ہیں۔ اِنکے سفری اخراجات بھی عوام کے ٹیکسوں سے پورے کیے جاتے ہیں، پھر کیا وجہ ہے کہ انھیں اتنی بڑی بڑی تنخواہوں سے نوازا گیا ہے۔ IMF نے ابھی صرف ایک ملین ڈالر ہی دیے ہیں اور ہمارے مسیحاؤں نے فوراً ہی اس میں سے اپنا حصہ سمیٹ لیا ہے، مگر جب یہ قرض ادا کرنے کی بات ہو گی تو عوام سے وصول کیا جائے گا۔
حکومت نے تو یہ کام کر کے اپنے ساتھیوں کی دلجوئی کر دی ہے مگر ہمیں یہ توقع نہ تھی کہ اپوزیشن کے ارکان اس کی اس حرکت پر خاموش رہیںگے۔ پاکستان تحریک انصاف جو ہر حکومتی کام پر زبردست تنقید کرتی دکھائی دیتی ہے اس معاملے میں مکمل خاموشی طاری کیے ہوئے ہے۔ اس بہتی گنگا میں اس نے بھی اشنان کرنے میں بڑی راحت محسوس کی ہے اور مال غنیمت سمجھ کر جو آتا ہے ہنسی خوشی قبول کر لیا ہے۔ یہاں اسے اپنے غریب عوام کا ذرہ بھر بھی خیال نہیں آیا۔ کوئی منحنی سی آواز بھی پارلیمنٹ میں بلند نہیں کی۔ غریب عوام کو ابھی تک اس حکومت سے کوئی بڑا ریلیف نہیں ملا ہے۔ مہنگائی کی کمی کے جو دعوے کیے جارہے ہیں تو زمینی حقائق کے بالکل برخلاف ہیں، کسی شئے کی قیمت کم نہیں ہوئی ہے۔ جس آٹے کی قیمت کم کیے جانے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے وہ ایک بار پھر پرانی قیمتوں کو پہنچ چکا ہے۔ عوام کی سب بڑی مشکل بجلی اورگیس کے بلز ہیں۔اس مد میں انھیں ابھی تک کوئی ریلیف نہیں ملا ہے۔
سردیوں میں صرف تین ماہ کے لیے جو رعایتی سیل حکومت نے لگائی ہے۔ وہ بھی حیران کن ہے کہ جتنی زیادہ بجلی خرچ کرو گے اتنا زیادہ ریلیف ملے گا۔ یعنی گزشتہ برس اِن تین سال میں عوام نے جتنی بجلی خرچ کی ہے اس سے زیادہ اگر وہ اس سال اِن تین مہینوں میں خرچ کریں گے تو حکومت اس اضافی بجلی پر کچھ ریلیف فراہم کریگی۔ سبحان اللہ سردیوں میں عام عوام ویسے ہی کم بجلی خرچ کرتے ہیں انھیں زیادہ بجلی خرچ کرنے پر اکسایا جا رہا ہے۔ یہ ریلیف بھی انھی امیروں کو ملے گا جو سردیوں میں الیکٹرک ہیٹر چلاتے ہیں۔ غریب عوام کو کچھ نہیں ملے گا۔ اس نام نہاد ریلیف کی تشہیراخبارات میں بڑے بڑے اشتہاروں کے ذریعے کی جارہی ہے جنھیں دیکھ کر عوام قطعاً خوش نہیں ہو رہے بلکہ نالاں اور سیخ پا ہو رہے ہیں ۔ خدارا عقل ک�� ناخن لیں اورصحیح معنوں میں عوام کو ریلیف بہم پہنچانے کی کوشش کریں۔ غیرملکی قرضوں سے انھیں نجات دیں اور کچھ دنوں کے لیے سکھ کا سانس لینے دیں۔ ابھی معیشت پوری طرح بحال بھی نہیں ہوئی ہے اور قرض کو مال مفت سمجھ کر اپنے ہی لوگوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ اسے اس بے رحمی سے خرچ کیا جارہا ہے جیسے پھر کبھی موقع نہیں ملے گا۔ کسی بھی رکن پارلیمنٹ کا سویا ہوا ضمیراس شاہانہ اخراجات پر نہیں جاگا۔
IMF جو حکومتی ہر اقدام پر کڑی نظر رکھتی ہے وہ بھی نجانے کیوں اس غیر ضروری فراخدلی پر خاموش ہے۔ وہ دراصل چاہتی بھی یہی ہے کہ یہ ملک اور اس کے عوام اسی طرح قرض لینے کے لیے ہمیشہ اس کے محتاج بنے رہیں اور وہ چند ملین قرض دینے کے بہانے ان پر پابندیاں لگاتی رہے۔ وہ ہرگز نہیں چاہتی کہ ہم اس کے چنگل سے آزاد ہو کر خود مختار اور خود کفیل ہو پائیں۔ اس کی ہشت پالی گرفت ہمیں کبھی بھی اپنے شکنجہ سے نکلنے نہیں دے گی۔ یہ سی پیک اور معدنیات کے بڑے بڑے ذخائر سب فریب نظر ہیں۔ ہم کبھی بھی اِن سے فیضیاب نہیں ہو پائیںگے۔ ہمیں برباد کرنے کے لیے تو اُن کے پاس بہت سے آپشن ہیں۔ کبھی سیاسی افراتفری اور کبھی منتخب حکومت کی اچانک تبدیلی۔ کبھی ایران کے ساتھ تجارتی معاہدوں پر پابندیاں تو کبھی سی پیک رول بیک کرنے کی کوششیں۔ اسی طرح اور ممالک نے بھی ایسے ہی کئی MOU سائن کیے ہیں لیکن وہ بھی صرف کاغذوں پر موجود ہیں ،عملاً کوئی قدم بھی ابھی نہیں بڑھایا ہے۔ حالات جب اتنے شکستہ اور برے ہوں تو ہمیں اپنا ہاتھ بھی ہولہ رکھنا چاہیے۔ پڑوسی ملک بھارت کے زرمبادلہ کے ذخائر ہم سے کہیں زیادہ ہیں لیکن وہاں کے پارلیمنٹرین کی تنخواہیں اور مراعات ہم سے بہت ہی کم ہیں۔ یہی سوچ کر ہمارے حکمرانوں کو احساس کرنا چاہیے کہ ہم کیونکر اتنے شاہانہ خرچ کے مرتکب ہو رہے ہیں۔
ڈاکٹر منصور نورانی
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
Text
پاکستان کے تعلیمی نظام کا المیہ ۔ سرکاری اسکولوں کی بدحالی ۔ پرائیوٹ اسکولوں کی مہنگائی
پاکستان میں تعلیم ایک بنیادی حق ہونے کے باوجود، سرکاری اور پرائیویٹ اسکولوں میں موجود مختلف مسائل اس کے فروغ کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ سرکاری اسکولوں کی حالت بہت ہی تشویش ناک ہے، جبکہ پرائیویٹ اسکولوں میں مہنگائی کی شرح نے متوسط طبقے کو تعلیم سے محروم کر دیا ہے۔ دونوں کی موجودہ صورتحال اور ان کے اثرات پر ایک نظر ڈالنا ضروری ہے تاکہ ہم پاکستان کے تعلیمی نظام کی اصلاح کی طرف قدم بڑھا سکیں۔
سرکاری اسکولوں کا بدحال نظام ۔

پاکستان میں سرکاری اسکولوں کا نظام اکثر نظرانداز کیا جاتا ہے اور ان کی حالت دن بدن خراب ہوتی جا رہی ہے۔ ان اسکولوں میں تعلیمی سہولتوں کی کمی، ناقص انفراسٹرکچر، اور اساتذہ کی ��یر حاضری ایک معمول بن چکا ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ "گھوسٹ اساتذہ" کا ہے، جنہیں تنخواہ تو پوری ملتی ہے مگر وہ اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں کوتاہی برتتے ہیں۔ ایسے اساتذہ کے ہوتے ہوئے، بچوں کو معیاری تعلیم دینے کا تصور بھی ممکن نہیں رہتا۔ ان اساتذہ کی غیر حاضری اور لاپرواہی کے سبب تعلیمی معیار نہ صرف متاثر ہوتا ہے بلکہ بچوں کی تعلیم کا پورا نظام ہی داؤ پر لگ جاتا ہے۔
سرکاری اسکولوں میں انفراسٹرکچر کا فقدان بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ کلاس رومز کی حالت انتہائی خراب ہے، فرنیچر ٹوٹا پھوٹا ہے، اور تدریسی مواد کی کمی کا سامنا ہے۔ اس کے علاوہ، اسکولوں میں بنیادی سہولتیں جیسے پانی، ٹوائلٹس، اور صحت کی سہولتیں بھی اکثر غائب ہوتی ہیں۔ ایسے ماحول میں بچوں کا تعلیم حاصل کرنا اور کامیاب ہونا ایک چیلنج بن جاتا ہے۔
پرائیویٹ اسکولوں کی مہنگائی ۔

دوسری طرف، پاکستان کے پرائیویٹ اسکولوں میں تعلیم کا معیار تو بہتر ہو سکتا ہے، لیکن ان اسکولوں کی فیسیں اتنی زیادہ ہیں کہ وہ متوسط طبقے کے لئے قابل برداشت نہیں رہیں۔ ماہانہ فیسوں کی قیمتیں اتنی بڑھ چکی ہیں کہ ایک خاندان کے لئے اپنے بچوں کو اچھے اسکول میں پڑھانا تقریباً ناممکن ہوگیا ہے۔ اس کے علاوہ، کتابوں کی قیمتیں بھی بے تحاشہ بڑھ گئی ہیں۔ والدین کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ مخصوص دکانوں سے ہی کتابیں اور یونیفارم خریدیں، جس سے ان پر مزید مالی بوجھ پڑتا ہے۔
پرائیویٹ اسکولوں کا ایک اور مسئلہ ان اسکولوں میں ہونے والے مختلف فنکشنز اور تقریبات ہیں۔ ہر ماہ کسی نہ کسی دن کو "چلڈرن ڈے"، "مدرز ڈے"، "فادرز ڈے" یا کسی اور تہوار کے طور پر منایا جاتا ہے، اور ان تقریبات کے لیے والدین سے ہزاروں روپے کی رقم وصول کی جاتی ہے۔ ان فنکشنز کا مقصد بچوں کی تفریح ہے، مگر اس کے بدلے والدین پر مزید مالی بوجھ ڈالا جاتا ہے، جو کہ پہلے ہی مہنگائی کے ہاتھوں پریشان ہیں۔
سرکاری اور پرائیویٹ اسکولوں کی
اصلاح کی ضرورت ۔
پاکستان کے تعلیمی نظام کی اصلاح کے لئے دونوں سرکاری اور پرائیویٹ اسکولوں میں بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ س��کاری اسکولوں میں اساتذہ کی حاضری کو یقینی بنانے کے لیے سخت نگرانی اور چیک اینڈ بیلنس کا نظام ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ، اسکولوں میں بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کے لیے حکومت کو زیادہ فنڈز مختص کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بچے بہتر ماحول میں تعلیم حاصل کر سکیں۔
دوسری جانب، پرائیویٹ اسکولوں کی فیسوں میں کمی لانے کے لیے حکومت کو مناسب پالیسیز وضع کرنی چاہئیں تاکہ وہ صرف مالی منفعت کی بجائے تعلیمی معیار پر بھی توجہ دیں۔ اسکولوں کی فیسیں اس حد تک بڑھائی جائیں کہ وہ متوسط طبقے کے لوگوں کے لئے قابل برداشت ہوں اور بچوں کو معیاری تعلیم مل سکے۔ اسکولوں کی جانب سے غیر ضروری تقریبات اور فنکشنز پر خرچ کی جانے والی رقم کو کم کرنا بھی ضروری ہے۔
نتیجہ
پاکستان میں تعلیمی نظام کا بحران دونوں سرکاری اور پرائیویٹ اسکولوں کی ناکامی کی وجہ سے ہے۔ جہاں ایک طرف سرکاری اسکولوں کی حالت زار ہے، وہاں دوسری طرف پرائیویٹ اسکولوں کی مہنگائی نے بچوں کی تعلیم کو صرف امیروں تک محدود کر دیا ہے۔ ان مسائل کا حل صرف اس وقت ممکن ہے جب حکومت اور نجی ادارے مل کر تعلیمی اصلاحات کی طرف قدم بڑھائیں۔ اگر ہم نے اپنے تعلیمی نظام کو بہتر نہ کیا تو پاکستان کا مستقبل خطرے میں پڑ جائے گا۔
تحریر : فاطمہ نسیم
تاریخ : 16 دسمبر 2024
0 notes
Text
توشہ خانہ کیس ٹومیں عمران خان کی اہلیہ بشری بی بی کےوارنٹ جاری
عدالت نےتوشہ خانہ کیس ٹومیں عمران خان کی اہلیہ کےوارنٹ جاری کردیے۔ راولپنڈی کےسینٹرل جج شاہ رخ ارجمند نےاڈیالہ جیل میں بانی پی ٹی آئی عمران خان اوران کی اہلیہ بشریٰ بی بی کےخلاف توشہ خانہ ٹو کیس کی سماعت کی۔ عدالت نےمسلسل غیرحاضری پر بشریٰ بی بی کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیےاوران کی آج حاضری سےاستثنیٰ کی درخواست بھی خارج کردی۔ پی ٹی آئی اسلام آباد احتجاج : پارٹی قیادت کے خلاف مزید 10…
0 notes
Text
فیک اینرولمنٹ پر سکولوں کی فنڈنگ روکنے کا فیصلہ
(جنید ریاض)حکومت نے فیک اینرولمنٹ کی بنیاد پر سکولوں کی فنڈنگ روکنے کا فیصلہ کیا ہے۔ 13 ہزار پیف پارٹنر سکولوں میں پہلی بار مستقل بنیادوں پر مانیٹرنگ کی جائے گی، جس کے تحت سکولوں کو حاضری رجسٹر کی بنیاد پر فنڈز جاری ہوں گے۔ اینرولمنٹ کا ریکارڈ اب ڈیجیٹل طریقے سے آن لائن ایپ پر رکھا جائے گا۔ طلباء کے داخلہ فارم کی جانچ پڑتال کی جائے گی اور بچوں کی حاضری کم ہونے پر اخراج کے رجسٹر کا بھی جائزہ…
0 notes
Photo
کیا رشتہ داروں کے انتظار کی وجہ سے تدفین میں تاخیر جائز ہے ؟ سوال ۳۴۱: دور دراز کے مقامات سے بعض رشتہ داروں کے آنے کی وجہ سے میت کے دفن میں تاخیر کرنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟ جواب :حکم شریعت یہ ہے کہ میت کی تجہیز و تکفین اور تدفین میں جلدی کی جائے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ((أَسْرِعُوا بِالْجِنَازَۃِ فَإِنْ تَکُ صَال��حَۃً فَخَیْرٌ تُقَدِّمُونَہَا الیہ وَإِنْ تکُ سِوَی ذَلِکَ فَشَرٌّ تَضَعُونَہُ عَنْ رِقَابِکُمْ)) (صحیح البخاری، باب السرعۃ فی الجنازۃ، ح:۱۳۱۵، وصحیح مسلم، الجنائز، باب السرعۃ فی الجنازۃ، ح: ۹۴۴۔) ’’جنازہ میں جلدی کرو۔ میت اگر نیک ہے تو تم اسے خیر کی طرف لے جا رہے ہو اور میت اگر اس کے سوا کچھ اور ہے تو تم شر کو اپنی گردنوں سے اتار رہے ہو۔‘‘ بعض اہل خانہ کی حاضری کی وجہ سے میت کی تدفین میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے، البتہ چند گھنٹے انتظار کیا جا سکت�� ہے ورنہ افضل یہی ہے کہ اس کی تدفین جلد عمل میں لائی جائے۔ اہل خانہ اگر تاخیر سے پہنچیں تو ان کے لیے جائز ہے کہ وہ اس کی قبر پر نماز جنازہ پڑھ لیں جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں جھاڑو دینے والے اس مرد یا عورت کی قبر پر نماز جنازہ پڑھی تھی، جسے دفن کر دیا گیا تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے بارے میں اطلاع نہیں دی گئی تھی تو آپ نے فرمایا: ((دُلُّوْنِی عَلٰی قَبْرِہِ)) (صحیح البخاری، الجنائز، باب الصلاۃ علی القبر بعد ما یدفن، ح: ۱۳۳۷، وصحیح مسلم، الجنائز، باب الصلاۃ علی القبر، ح: ۹۵۶ واللفظ لہ۔) ’’مجھے اس کی قبر بتاؤ۔‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ کو بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ اس کی قبرپر جاکر ادافرمائی۔ فتاوی ارکان اسلام ( ج ۱ ص ۳۳۱، ۳۳۲ ) #FAI00269 ID: FAI00269 #Salafi #Fatwa #Urdu
0 notes
Text
🔰 تحفظ ناموس رسالت وفاقی شرعی عدالت پاکستان میں ”گستاخِ رسول کی سزا“ کے موضوع پر دیے گئے دلائل پر مشتمل معرکہ آراء تصنیف۔
🛒 کتاب آرڈر کرنے کیلئے کلک کریں👇 🚚 ہوم ڈیلیوری https://www.minhaj.biz/item/tahaffuz-e-namus-e-risalat-bd-0019
اس کتاب میں درج ذیل اَہم موضوعات شامل ہیں:
🔹 تعظیم و تکریم رسول ﷺ ایمان کا اَساسی رویہ ہے 🔹 قرآن مجید میں ادب و تعظیم رسول ﷺ کا بیان 🔹 بارگاہِ رسالت مآب ﷺ میں حاضری اور کلام کے آداب 🔹 اذیّتِ رسول در حقیقت ایمان ضائع ہونے کا سبب ہے 🔹 گستاخ رسول کی سزا اور اَہلِ مغرب کے اعتراضات کا جواب
مصنف : شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری 🔖 قیمت : 620 روپے 📖 صفحات : 432 🧾 زبان : اردو 📕 اعلیٰ پیپر اینڈ پرنٹنگ
💬 وٹس ایپ لنک / نمبر 👇 https://wa.me/923224384066
#NamooseRisalat#books#TahirulQadri#MinhajBooks#IslamicBooks#islamicbookstore#DrQadri#BooksbyDrQadri#MinhajulQuran#IslamicLibrary#UrduBooks
0 notes
Text
بشریٰ بی بی کی آئندہ عدم حاضری پر ضمانت خارج ہونے کا نوٹس جاری
(ارشاد قریشی) توشہ خانہ 2 کیس میں ��اکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی پر آج بھی فرد جرم عائد نہ ہوسکی۔ سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف توشہ خانہ 2کیس کی سماعت آج اڈیالہ جیل راولپنڈی میں سپیشل جج سینٹرل شاہ رخ ارجمند نے کی،عدالت نے بشریٰ بی بی کو آئندہ سماعت پر پیش ہونے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی سماعت 21 نومبرتک ملتوی…
0 notes
Link
Attendance of MNA Jamshed Dasti and Iqbal Afridi suspended from the current session
0 notes
Text
با تسلیمات ڈسٹرکٹ انفارمیشن آفس قصور
محکمہ تعلقات عامہ حکومت پنجاب
٭٭٭٭٭
ڈپٹی کمشنرکیپٹن (ر) اورنگزیب حید رخان کے زیر صدارت ضلع کا صفائی ستھرائی کا نظام آؤٹ سورس کرنے بارے جائزہ اجلاس
قصور(15نومبر 2024ء)ڈپٹی کمشنر قصور کیپٹن ریٹائرڈ اورنگزیب حیدر خان کے زیر صدارت ضلع کا صفائی ستھرائی کا نظام لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی (LWMC)کے حوالے کرنے بارے اقدامات کا جائزہ اجلاس گزشتہ روز ڈی سی کمیٹی رومیں منعقد ہوا۔ جس میں ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر جنرل عمر اویس، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر فنانس اینڈ پلاننگ مرتضیٰ ملک، اسسٹنٹ کمشنرز قصور عطیہ عنایت مدنی، چونیاں طلحہ انور، پتوکی ڈاکٹر مکرم سلطان، کوٹ رادھاکشن ڈاکٹر محمد انس سعید، ڈپٹی ڈائریکٹر لوکل گورنمنٹ عبدالوحید، چیف آفیسر ضلع کونسل، تمام چیف آفیسر میونسپل کمیٹیز،جنرل منیجر ایل ڈبلیو ایم سی سمیت دیگر متعلقہ افسران نے شرکت کی۔اجلاس کو آؤٹ سورسنگ ماڈل پر تفصیلی بریفنگ دی گئی اور بتایا گیا کہ پنجاب حکومت کی ہدایات کی روشنی میں ضلع قصور میں بہترین میونسپل سروسز کی فراہمی کو یقینی بنانے کیلئے صفائی ستھرائی کا نظام آؤٹ سورس کیا جا رہا ہے جس کا معاہدہ LWMCکیساتھ ہو چکا ہے اور نجی کمپنی باقاعدہ طور پر ضلع بھر میں یکم دسمبر سے کام شروع کریگی۔واضح رہے تحصیل کوٹ رادھاکشن میں پہلے ہی صفائی ستھرائی کا نظام آؤٹ سورس ہو چکا ہے اور اب اسکا دائرہ کار وسیع کر کے ضلع بھر میں پھیلایا جا رہا ہے۔ اس موقع پر ڈپٹی کمشنر کا کہنا تھا کہ حکومت پنجاب نے شہریوں کو بہترین میونسپل سروسز فراہم کرنے کے لیے صفائی ستھرائی کے نظام کو بہتر بنانے کی حکمت عملی بنائی ہے تا کہ شہروں کیساتھ ساتھ دیہاتوں کی صفائی ستھرائی کے نظام کو بھی بہتر کیا جا سکے۔ ستھرا پنجاب میں دیہی یونین کونسلوں کو زیرو ویسٹ کرنے کا ٹاسک مقرر کیا گیا ہے۔ڈپٹی کمشنر نے اسسٹنٹ کمشنرز کو ہدایت کی کہ متعلقہ تحصیلوں کی ڈمپنگ سائیڈ،کلیکشن پوائنٹس،مین پاور، مشینری سمیت دیگر سورس کی نجی کمپنی کو منتقلی بارے مکمل لسٹ بھجوائی جائے۔ نجی کمپنی کے ذمہ داران کو ہدایت کی کہ تمام تحصیلوں میں جلد از جلد اپنے فوکل پرسن مقرر کریں۔ ڈپٹی کمشنر کا کہنا تھا کہ نجی کمپنی کے کام کی مکمل مانیٹرنگ کی جائیگی اور حکومتی گائیڈ لائن پر عملدرآمدکو سوفیصد یقینی بنایا جائیگا۔اس کے علاوہ ڈپٹی کمشنر نے تمام اسسٹنٹ کمشنرز کو ہدایت کی کہ ضلع میں جاری کتوں کی تلفی مہم کو مزید تیز کیا جائے۔تمام پارکس کی صفائی ستھرائی،خوبصورتی کو یقینی بنایا جائے۔
٭٭٭٭٭
ضلعی انتظامیہ قصور کا سموگ کی روک تھام کیلئے بھرپور ایکشن‘غیر قانونی پائیرولیسس پلانٹ ڈیمولش کر دیا
قصور(15نومبر 2024ء)ضلعی انتظامیہ قصور کا سموگ کی روک تھام کیلئے بھرپور ایکشن‘غیر قانونی پائیرولیسس پلانٹ ڈیمولش کر دیا۔ تفصیلات کے مطابق ڈپٹی کمشنرقصور کے احکامات کی روشنی میں اسسٹنٹ کمشنر تحصیل پتوکی ڈاکٹر مکرم سلطان نے اسسٹنٹ ڈائریکٹر ماحولیات ہماریاض، ایلیٹ فورس اور پولیس کے ہمراہ خانکے موڑ پھولنگر تحصیل پتوکی میں کاروائی کرتے ہوئے ٹائروں سے تیل اور وائر وغیرہ نکالنے والا غیر قانونی پائیرو لیسس پلانٹ کرین سے ڈیمولش کروادیا جو کہ ماحولیاتی آلودگی کا باعث بن رہا تھا۔آپریشن سے دو دن قبل ذمہ داران کو پلانٹ کو منہدم کرنے کا نوٹس بھی دیا گیا تھا۔
٭٭٭٭٭
اسسٹنٹ کمشنر پتوکی ڈاکٹر مکرم سلطان کا ٹی ایچ کیو ہسپتال کا دورہ‘
ڈاکٹر و پیرا میڈیکل سٹاف کی حاضری اور مریضوں کو دی جانیوالی طبی سہولیات کا جائزہ لیا
قصور(15نومبر 2024ء)اسسٹنٹ کمشنر تحصیل پتوکی ڈاکٹر مکرم سلطان کا ٹی ایچ کیو ہسپتال کا دورہ‘ڈاکٹر و پیرا میڈیکل سٹاف کی حاضری اور مریضوں کو دی جانیوالی طبی سہولیات کا جائزہ لیا۔ ڈپٹی کمشنر کی ہدایت پر اسسٹنٹ کمشنر تحصیل پتوکی ڈاکٹر مکرم سلطان نے ٹی ایچ کیو ہسپتال کا دورہ کیا اور وہاں پر ڈاکٹرز، پیرا میڈیکل سٹاف اور عملے کی حاضری، میڈیسن کی دستیابی و ریکارڈ، مریضوں کو دی جانیوالی طبی سہولیات اور ہسپتال میں صفائی ستھرائی کا جائزہ لیا۔ اسسٹنٹ کمشنر نے ہسپتال میں آنیوالے مریضوں اور انکے لواحقین سے بھی طبی سہولیات بارے دریافت کیا۔ اس موقع پر انہوں نے ہدایت کی کہ مریضوں کو زیادہ سے زیادہ طبی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے اور اس سلسلے میں کسی بھی قسم کی سستی نہ برتی جائے۔
٭٭٭٭٭
0 notes
Text
قومی اسمبلی کا ایک دن قوم کو کتنے میں پڑتا ہے؟
نئی قومی اسمبلی وجود میں آ چکی ہے۔ اس کے پہلے اجلاس کا ماحول دیکھا تو کرامزن کے ناول کا وہ چرواہا یاد آ گیا جو آتش فشاں پر بیٹھ کر بانسری بجا رہا تھا۔ میں نے سوشل میڈیا پر سوال اٹھایا کہ قومی اسمبلی کے ماحول سے لطف اندوز ہونے والوں کو کیا یہ معلوم ہے کہ قومی اسمبلی کا ایک دن قوم کو قریب آٹھ سو لاکھ میں پڑتا ہے؟ کچھ نے حیرت کا اظہار کیا، بعض نے اپنے تئیں تصحیح فرمانے کی کوشش کی کہ شاید یہ رقم آٹھ لاکھ ہے جو غلطی سے آٹھ سو لاکھ لکھ دی گئی ہے۔ قومی اسمبلی ایک سال میں قریب 135 دن اجلاس منعقد کرتی ہے۔ 2017 کے اسمبلی بجٹ کے مطابق پارلیمان کے ایک دن کے اجلاس کا اوسط خرچ ڈھائی کروڑ روپے سے زیادہ تھا۔ اس دوران کئی بار تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کیے گئے۔ پوچھنے والا تو کوئی تھا نہیں کہ پارلیمان خود ہی فیصلہ ساز تھی اور اپنی مراعات کے فیصلے خود ہی کرتی تھی۔ ساتھ ہی مہنگائی بھی بڑھ رہی تھی اور اوسط اخراجات برھتے ہی جا رہے تھے۔ چند سال تک میں اس مشق سے جڑا رہا اور مراعات و معاوضے میں اضافے اور مہنگائی کی شرح کے حساب سے تخمینہ لگاتا رہا کہ با�� اب کہاں تک پہنچی ہے۔
قریب 2020 میں تنگ آ کر اور تھک کر جب میں نے یہ سلسلہ منقطع کر دیا کیونکہ متعلقہ وزارتوں سے تازہ ترین معلومات اکٹھے کرتے رہنا ایک بلاوجہ کی مشقت تھی اور اس سے بہتر تھا کہ جنگل میں جا کر کسی چرواہے سے بانسری سن لی جائے۔ جس وقت یہ سلسلہ منقطع کیا اس وقت تک محتاط ترین اندازے کے مطابق یہ اخراجات دگنے ہو چکے تھے۔ اس کے بعد مہنگائی کا وہ طوفان آیا کہ الامان۔ اخراجات، مہنگائی اور افراط زر کی شرح کے مطابق اگر جمع تقسیم کی جائے اور انتہائی محتاط جمع تقسیم کی جائے تو اس وقت قومی اسمبلی کا ایک دن کا اجلاس قوم کو قریب آٹھ سو لاکھ میں پڑتا ہے۔ نہ جھکنے والے ، نہ بکنے والے ، عوام کے خیر خواہ ، کردار کے غازیوں اور بے داغ ماضیوں میں سے کوئی ایوان میں سوال کر دے کہ اسمبلی کے آخری مالی سال کے بجٹ کے مطابق تازہ ترین اعدادو شمار کیا ہیں اور مہنگائی کی اس لہر میں قومی اسمبلی کے ایک دن کا اجلاس اوسطا قوم کو کتنے میں پڑتا ہے تو جواب سن کر شاید بہت ساروں کو دن میں وہ تارے بھی نظر آ جائیں جو آج تک ماہرین فلکیات بھی نہیں دیکھ سکے۔
سوال البتہ اخراجات کا نہیں ہے۔ پارلیمان چلانی ہے تو اخراجات تو اٹھیں گے۔احساس کیا جائے تو اخراجات کم ضرور ہو سکتے ہیں لیکن پھر بھی ہوں گے تو سہی۔ اس لیے سوال اخراجات کا نہیں بلکہ کارکردگی کا ہے۔ چارجڈ ماحول میں ایک آدھ اجلاس تلخی اور اودھم کی نذر ہو جائے تو یہ ایک فطری سی بات ہے۔ لیکن اگر یہ مشق مسلسل جاری رہنے لگے تو پھر یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔ عالم یہ ہے کہ قومی اسمبلی کے رولز آف بزنس کی دفعہ 5 کے مطابق صرف ایک چوتھائی اراکین بھی موجود ہوں تو کورم پورا تصور کیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود ہم اکثر یہ خبر پڑھتے ہیں کہ کورم ٹوٹ گیا اور اجلاس ملتوی ہو گیا۔ گزشتہ سے پیوستہ سابقہ اسمبلی کے 74 فیصد اجلاس کا عالم یہ تھا کہ ان میں حاضری ایک چوتھائی سے بھی کم تھی۔ اس اسمبلی میں پارلیمانی لیڈروں میں سب سے کم حاضریاں عمران خان کی تھیں تو اس کا جواز یہ پیش کیا جاتا تھا کہ وہ اس اسمبلی کو دھاندلی کی پیداوار سمجھتے ہیں لیکن اب جس اسمبلی نے انہیں وزیر اعظم بنایا تو اس میں ان کی دلچسپی کا عالم یہ تھا کہ پہلے 34 اجلاسوں میں وہ صرف چھ اجلاسوں میں موجود تھے۔
اسمبلی کے رولز آف بزنس کے تحت ارکان کو باقاعدہ چھٹی کی درخواست دینا ہوتی ہے لیکن ریکارڈ گواہ ہے کہ اس تردد میں اراکین اسمبلی تو کیا، خود سپیکر اور ڈپٹی سپیکر بھی نہیں پڑتے۔ ہر محکمے کی چھٹیوں کا کوئی ضابطہ اور تادیب ہے لیکن اراکین پارلیمان سے کوئی سوال نہیں ہو سکتا کہ عالی جاہ آپ کو لوگوں نے منتخب کیا ہے تو اب ایوان میں آ کر اپنی ذمہ داری تو ادا کیجیے۔ یہ خود ہی قانون ساز ہیں اس لیے انہوں نے یہ عظیم الشان قانون بنا رکھا ہے کہ جو رکن اسمبلی مسلسل 40 اجلاسوں میں نہیں آئے گا اس کی رکنیت ختم ہو جائے گی۔ غور فرمائیے مسلسل چالیس اجلاس کی شرط کیسی سفاک ہنر کاری ہے۔ غریب قوم کا یہ حق تو ہے کہ وہ اپنی پارلیمان سے سنجیدگی کی توقع رکھے۔ بنیادی تنخواہ، اس کے علاوہ اعزازیہ، سمپچوری الاؤنس ، آفس مینٹیننس الاؤنس الگ سے ، ٹیلی فون الاؤنس ، اسکے ساتھ ایک عدد ایڈ ہاک ریلیف الائونس، لاکھوں روپے کے سفری واؤچرز، حلقہ انتخاب کے نزدیک ترین ایئر پورٹ سے اسلام آباد کے لیے بزنس کلاس کے 25 ریٹرن ٹکٹ، اس کے علاوہ الگ سے کنوینس الاؤنس، ڈیلی الاؤنس کے ہزاروں الگ سے، اور پھر پارلیمانی لاجز کے باوجود ہاؤسنگ الاؤنس۔
یہی نہیں بلکہ موجودہ اور سابق تمام ارکان قومی اسمبلی اور ان کے اہل خانہ تاحیات 22 ویں گریڈ کے افسر کے برابر میڈیکل سہولت کے حقدار ہیں۔ تمام موجودہ اور سابق اراکین قومی اسمبلی کی اہلیہ اور شوہر تاحیات بلیو پاسپورٹ رکھنے کے بھی مجاز ہیں۔ سپیکر صاحبان نے جاتے جاتے خود کے لیے جو مراعات منظور کیں وہ داستان ہوش ربا اس سب سے الگ ہے۔ مسئلہ پارلیمان کے اخراجات ہی کا نہیں، مسئلہ کارکردگی کا بھی ہے۔ کارکردگی اگر اطمینان بخش ہو تو یہ اخراجات بھی گوارا کیے جا سکتے ہیں۔ لیکن ہماری پارلیمان کی کارکردگی ہمارے سامنے ہے۔ حتیٰ کہ یہاں اب جو طرز گفتگو اختیار کیا جاتا ہے وہ بھی لمحہ فکریہ ہے۔ وہ زمانے بیت گئے جب نا مناسب گفتگو کو غیر پارلیمانی کہا جاتا تھا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ گالم گلوچ اور غیر معیاری خطابات فرمائے جاتے ہیں اور خواتین پر جوتے اچھالے جاتے ہیں۔ پارلیمان کو کسی کارپوریٹ میٹنگ جیسا تو یقینا نہیں بنایا جا سکتا اور اس میں عوامی رنگ بہر حال غالب ہی رہتا ہے لیکن رویے اگر ایک معیار سے گر جائیں تو پھر یہ تکلیف دہ صورت حال بن جاتی ہے۔ پارلیمان اسی بحران سے دوچار ہو چکی ہے۔
سوال اٹھایا جائے تو اراکین پارلیمان جواب آں غزل سناتے ہیں کہ فلاں اور فلاں کے اخراجات بھی تو ہیں۔ معاملہ یہ ہے کہ یہ فلاں اور فلاں کے اخراجات کو بھی ایک حد میں پارلیمان نے ہی رکھنا ہے۔ پارلیمان اگر اپنے اخلاقی وجود کا تحفظ کرے تو پھر وہ اس ذمہ داری کو بھی نبھا سکتی ہے لیکن وہ اگر یہاں بے نیازی کرے تو پھر وہ فلاں اور فلاں کے اخراجات پر سوال نہیں اٹھا سکتی۔ ہمیں اس وقت معاشی مسائل کا حل چاہیے۔ صرف عوام کی رگوں سے بجلی گیس کے بلوں کے نام پر لہو نچوڑ لینا کوئی حکمت نہیں۔ کب تک اور کتنا نچوڑیں گے؟ اصل چیز معاشی بحالی ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ پارلیمان کا ماحول بہتر ہو اور یہاں سنگین موضوعات پوری معنویت سے زیر بحث آئیں۔
آصف محمود
بشکریہ روزنامہ 92 نیوز
0 notes
Text
شراب برآمدگی کیس:علی امین گنڈاپور کوگرفتار کرکےپیش کرنےکا حکم
شراب برآمدگی کیس میں علی امین گنڈاپور کے وارنٹ گرفتاری برقرار،عدالت نے 2نومبر تک گرفتارکرکے پیش کرنے کاحکم دیدیا۔ علی امین گنڈا پور کے وارنٹ گرفتاری برقرار وزیر اعلیٰ کے پی کے علی امین گنڈا پور کے وارنٹ گرفتاری برقرار رکھتے ہوئے سینئیر سول جج مبشر حسن چشتی نے حاضری سے استثنی کی درخواست مسترد کر دی جبکہ عدالت نے شراب برآمدگی کیس میں ایس ایس پی آپریشنز کو وارنٹ گرفتاری پر تعمیل کرانے کا حکم…
0 notes