#3 ججز
Explore tagged Tumblr posts
Text
لاہور، سندھ اور بلوچستان ہائیکورٹ سے 3 ججز کا تبادلہ
لاہور، سندھ اور بلوچستان ہائی کورٹ سے ایک،ایک جج کا تبادلہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں کر دیا گیا۔ صدر مملکت آصف علی زرداری نے تین ججز کے تبادلے کر دئیے،جس کا نوٹی فکیشن وزارت قانون و انصاف کی جانب سے جاری کر دیا گیا۔ نوٹی فکیشن کے مطابق جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر کا لاہور ہائی کورٹ، جسٹس خادم حسین سومرو کاسندھ ہائی کورٹ اور جسٹس محمد آصف کا تبادلہ بلوچستان ہائی کورٹ سےاسلام آباد ہائی کورٹ میں…
0 notes
Text
حکومت کا سروس چیفس کی مدت ملازمت 5 سال اور سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد 34 کرنے کا فیصلہ
(اویس کیانی)حکومت نے سروسز چیف کی مدت ملازمت 3 سے بڑھا کر 5 سال کرنے اور سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد 17 سے بڑھا کر 34 کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کیلئے قومی اسمبلی میں آج بلز پیش کئے جانے کا امکان ہے۔ تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی اجلاس کچھ دیر میں شروع ہوگا جس میں آرمی ایکٹ میں ترمیم کا بل پیش کیا جانے کا امکان ہے ساتھ ہی پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی بل بھی منظوری کیلئے پیش کیا جائےگا۔ ذرائع نے بتایا…
0 notes
Text
چھبیسویں ویں آئینی ترمیم کیسے پاس ہوئی

قارئین آپ کو بتاتا ہوں کہ 26ویں آئینی ترمیم کیسے پاس ہوئی، میری ایک دوست سے بات ہوئی تو اس نے مجھ سے کہا کہ کچھ لوگ مولانا فضل الرحمن اور تحریک انصاف کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں مگر ایسا نہیں ہے۔ مولانا اور تحریک انصاف کے درمیان کچھ چیزیں طے ہوئی تھیں۔ مولانا نے پی ٹی آئی سے کہا تھا کہ سینیٹ میں حکومت کو ہمارے ووٹوں کی ضرورت ہے اور قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کے ووٹوں کی ضرورت ہو گی۔ لہٰذا سینیٹ میں ہم ووٹ نہیں دیں گے اور قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی والے ووٹ نہیں دیں گے تو یہ بل پاس نہیں ہو گا۔ مولانا فضل الرحمن نے تحریک انصاف سے کہا کہ سینیٹ کو میں سنبھالتا ہوں اور قومی اسمبلی کو آپ سنبھالیں اور آپ کا کوئی بھی ممبر نہ ٹوٹے، تحریک انصاف کو یہ باور تھا کہ اس کا سینیٹ میں کوئی بھی بندہ ٹوٹ نہیں سکتا اور قومی اسمبلی میں تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور سب سے کہا کہ وہ کے پی کے چلے جائیں اور اپنے فیملی ممبرز کو بھی سائیڈ پر کر لیں۔ ان کو یہ باقاعدہ ہدایت ملی تھی، مگر مسئلہ یہ ہو اکہ جب پاکستان تحریک انصاف کے لوگوں کیلئے منڈی لگ گئی تو وہ بھیڑ بکریوں کی طرح بک گئے تو وہاں مولانا کیا کرتے؟
اب یہ قصہ الٹ ہو گیا اور تحریک انصاف کے کچھ سینیٹر اور اسکے علاوہ 11 سے 15 قومی اسمبلی کے ممبران بھی بک چکے ہیں تو پھر دونوں نے مل کر جو مولانا کا مسودہ تھا وہ مولانا کا نہیں بلکہ وہ پاکستان تحریک انصاف کا مسودہ تھا۔ تحریک انصاف حکومت کے ساتھ نہیں بیٹھتی اور نہ ہی ان کے ساتھ وہ ڈائیلاگ کی سوچ رکھتی تھی۔ نہ انہوں نے ان کے ساتھ کوئی ڈائیلاگ کیا، وجہ یہ تھی کہ خان صاحب کا حکم تھا کہ حکومت کو ہم نہیں مانتے ہیں کیونکہ یہ فارم 47 کی پیداوار ہے۔ یہ ناجائز حکومت ہے تو ہم ان کے ساتھ نہیں بیٹھتے، مولانا کو اس لئے استعمال کیا کہ وہ یہ ساری چیزیں دیکھیں۔ کیونکہ مولانا کے پاس اگر مسلم لیگ (ن) والے اور پیپلز پارٹی والے آتے تھے، تو فو��اً پی ٹی آئی والے چلے جاتے تھے۔ اصل میں مولانا اور پی ٹی آئی والے آپس میں مشورہ کرتے تھے، مگر جب حالات یہاں پہنچ گئے کہ تحریک انصاف کے سینیٹر اور قومی اسمبلی کے ممبر بک گئے تو انہوں نے پلان ہی تبدیل کر دیا۔

پہلے یہ تھا کہ یہ بل پاس ہی نہیں ہو گا، تو پھر پلاننگ میں یہ بات طے ہوئی کہ اس میں جو خطرناک چیزیں ہیں کوشش کریں کہ ان کو نکالا جائے۔ ایک تو یہ کہ سویلین کا ملٹری کورٹ میں مقدمہ نہیں چلے گا، یہ تحریک انصاف کا مطالبہ تھا اور خان صاحب اور ان کے ورکرز کو بچانے کیلئے تھا۔ دوسرا یہ کہ آئینی عدالت نہیں بنے گی اور آئینی عدالت نہیں بنی، آئینی عدالت اور آئینی بینچ میں فرق ہوتا ہے۔ تیسرا یہ تھا کہ اب قاضی فائز عیسیٰ کو ایکسٹینشن نہ دی جائے۔ یہ 3 چیزیں اہم تھیں انہوں نے ان کو بل سے نکال دیا۔ باقی یہ کہ اگر سپریم کورٹ میں کسی کی اتھارٹی تھی کوئی سپریم کورٹ کا جج بن رہا ہے یا مستقبل میں بنے گا تو تحریک انصاف یا تحریک انصاف کے ورکرز نے کوئی ٹھیکہ نہیں لیا سارے پاکستان کا، پاکستان میں اور بھی لوگ ہیں اور اگر کسی کی اتھارٹی چیلنج ہوئی ہے تو وہ اپنا کردار ادا کرے۔ تحریک انصاف والے کال دیتے ہیں تو وکیل نہیں نکلتے، نہ تاجر برادری، نہ انجینئر، نہ کسان باہر نکلتے ہیں حالانکہ سب لوگ پریشان ہیں۔ صر ف تحریک انصاف کے ورکر اور لیڈر ہیں جو مار کھاتے ہیں۔
پاکستان کی تاریخ دیکھیں تو بہت کم ایسا ہوا ہے کہ سب سے پہلے کوئی بھی بل سینیٹ سے پاس کیا گیا ہو، حالانکہ پہلے بل قومی اسمبلی سے پاس ہوتا ہے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ آپ جب شکوک و شبہات میں ہوتے ہیں تو آپ سوچتے ہیں کہ اگر میں اسٹیپ لے لوں کہ قومی اسمبلی سے پاس کرالوں اور بعد میں سینیٹ میں ناکامی ہو تو بے عزتی بھی ہو گی اور بل بھی پاس نہیں ہو گا۔ ٹیکنیکل اور آئینی بہت سے مسائل پیدا ہوتے ہیں، جہاں تک چیف جسٹس کے تقرر کا طریقہ کار تبدیل کرنے کی بات ہے یہ تحریک انصاف کی پالیسی میں بھی شامل تھا۔ عمران خان جب وزیر اعظم تھے تو وہ بھی اسی طرح کا قانون لانا چاہتے تھے لیکن اس وقت انکے پاس 2 تہائی اکثریت نہیں تھی، مگر خواہش تھی کہ اگر مجھے 2 تہائی اکثریت دے دی گئی تو میں چیف جسٹس کے تقرر کا طریقہ کار تبدیل کر دوں گا۔ وہ طریقہ تھوڑا اس سے مختلف تھا۔ تحریک انصاف چاہتی تھی کہ 3 ججز کا ڈیٹا لے کر قومی اسمبلی اور سینیٹ میں ان پر ڈیبیٹ کی جائے، ان کا ماضی دیکھا جائے، ان کا کردار بحیثیت سپریم کورٹ جج دیکھا جائے کہ سپریم کورٹ میں ان کا کردار کیسا تھا اور کتنے فیصلے ٹھیک اور کتنے غلط تھے۔
ان ساری چیزوں پر ڈیبیٹ ہونا تھی اور اس کے بعد ان 3 ججوں میں سے ایک کا نام قومی اسمبلی سے منظور ہونا تھا اور وزیر اعظم نے اس کو انڈورس کرنا تھا اور صدر نے اس پر دستخط کرنے تھے۔ اب جبکہ چیف جسٹس کا تقرر ہو چکا ہے تو اب میں تھوڑا سا نیوٹرل ہو کر تجزیہ کروں گا۔ 1998 میں نواز شریف نے نیب کا ادارہ بنایا تو نواز شریف اور زرداری دونوں اس میں پھنس گئے۔ ثاقب نثار مسلم لیگ (ن) کے لیگل ایڈوائزر تھے جب چیف جسٹس بنے تو انہوں نے ان کے ساتھ کیا کیا۔ عبدالحمید ڈوگر کو چیف جسٹس پی پی پی نے بنایا تو اس نے ان کے ساتھ کیا کیا، یہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ بہر حال نئے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے ایک بڑا اچھا فیصلہ کیا اور حلف اٹھاتے ہی پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کی تشکیل نو کر دی۔ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کو بطور رکن دوبارہ کمیٹی میں شامل کر دیا اور سپریم کورٹ کے تمام کورٹ روم کو لائیو اسٹریمنگ سروس فراہم کرنے کا فیصلہ بھی کیا۔
خلیل احمد نینی تا ل والا
بشکریہ روزنامہ جنگ
#26th amendments#Maulana Fazlur Rehman#Pakistan Constitution#Pakistan Judiciary#Politics#PPP#PTI#World
0 notes
Text
1 note
·
View note
Text
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سپریم کورٹ

یہ 3 نومبر 2018 کی ایک سرد صبح کا آغاز تھا۔ آسمان کو گہرے بادلوں نے گھیرا ہوا تھا۔ سردی اپنے عروج پر تھی۔ سینٹرل لندن کی سٹرکوں پر معمول کا رش تھا۔میں ایجوئر روڈ پر واقع اپنے ہوٹل سے نکلا اور تیز تیز قدموں کے ساتھ ماربل آرچ کی طرف بڑھ گیا۔ وقت کم تھا اور مجھے لندن اسکول آف اکنامکس پہنچنا تھا۔ آج لندن اسکول آف اکنامکس میں Future of Pakistan Conference کا آخری روز تھا اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے معزز جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اس کانفرنس کے آخری مقرر تھے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سویلین بالادستی اور قانون کی حکمرانی پر انتہائی جاندار لیکچر دیا۔ لگ ر��ا تھا کہ برطانیہ کی یونیورسٹی میں کارنیلیس بول رہا ہے۔ کانفرنس اور اپنی تقریر سے متعلق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ہر سوال کا بہت مدلل جواب دیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ جونہی اسٹیج سے اتر کر باہر نکلنے لگے تو انہیں دروازے پر ہی لندن کے مقامی میڈیا نے گھیر لیا۔ جیو نیوز کے لندن میں نمائندے مرتضیٰ علی شاہ سمیت دیگر صحافیوں نے قاضی فائز عیسیٰ کے سامنے مائیک کیا تو انہوں نے اپنے لبوں پر ہاتھ کا اشارہ کر کے بتانے کی کوشش کی کہ ’’ جج کے لب سلے ہوئے ہوتے ہیں‘‘۔
میڈیا نمائندوں نے جب بار بار اصرار کیا تو قاضی صاحب نے صرف اتنا کہا کہ میں یہاں صرف کانفرنس کیلئے آیا ہوں اور کانفرنس سے متعلق مجھے جو کچھ کہنا تھا اپنی تقریر اور سوال و جواب سیشن کے دوران کہہ دیا۔ اس سے زیادہ میں کوئی بات نہیں کر سکتا اور نہ میرا منصب مجھے اس بات کی اجازت دیتا ہے۔ یہ قاضی فائز عیسیٰ کی اصولوں پر کاربند رہنے کی ایک مثال تھی۔ قاضی صاحب نے صرف وہی گفتگو پبلک کی، جو کہ بطور جج وہ اپنے ادارے کے نوٹس میں دے کر آئے تھے۔کانفرنس سے ہٹ کر انہوں نے ایک لفظ بھی اضافی نہیں بولا، ویسے تو خاکسار ایسے درجنوں واقعا ت کا شاہد ہے، جب جسٹس قاضی فائز عیسی صاحب نے قانون و اصول کی اولین مثال قائم کی۔ جس وقت سپریم کورٹ آف پاکستان کے پی سی او ججز فیصلے کے بعد پوری بلوچستان ہائیکورٹ فارغ ہو گئی تو جسٹس قاضی فائز عیسی کو گھر سے بلا کر پہلے بلوچستان ہائیکورٹ کا جج لگایا گیا اور ساتھ ہی چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ بھی مقرر کر دیا گیا۔

اس وقت کی پوری بلوچستان ہائیکورٹ کی تشکیل نو میں جسٹس قاضی فائز عیسٰی کا کلیدی کردار تھا۔ جس وقت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو ہائیکورٹ کا جج بنایا گیا اس وقت ان کی لاء فرم کی ماہانہ آمدنی سپریم کورٹ کے جج کی آج کی تنخواہ سے بھی کئی گناہ زیادہ تھی۔ عمومی تاثر ہے کہ وکیل بہت کم ٹیکس دیتے ہیں، چونکہ سارا دن خود عدالتوں میں پیش ہوتے رہتے ہیں، اسلئے ایف بی آر کا نوٹس بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ مگر جسٹس قاضی فائز عیسی ٰ جب وکیل تھے تو ان کی لاء فرم نے سب سے زیادہ ٹیکس دے کر ریکارڈ قائم کیا تھا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی لاء فرم میں کام کرنیوالے انکے ایسوسی ایٹس کروڑ پتی بن چکے ہیں، یہ اس لاء فرم کے مالک سے پوچھتے تھے کہ ’’تمہاری بیوی کے پاس یہ فلیٹ کہاں سے آیا‘‘۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خاندانی پس منظر کو بھول بھی جائیں اور اس بات کا تذکرہ نہ بھی کریں کہ پاکستان کے قیام میں ان کے والد قاضیٰ عیسیٰ کا کیا کردار تھا، قائد اعظم محمد علی جناح قاضی عیسیٰ کا کس حد تک احترام کرتے تھے۔
ان تمام حقائق سے قطع نظر جسٹس قاضی فائز عیسی ذاتی طور پر بہت بڑے آدمی ہیں۔ اگر آج ایسا بااصول شخص سپریم کورٹ کا جج ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ اس سے اس ادارے کی ساکھ مزید مضبوط ہوتی ہے، آج سپریم کورٹ آف پاکستان کی بلندو بالا عمارت خود پر فخر کر سکتی ہے کہ اس کے پاس قاضی فائز عیسیٰ ہے۔اس وقت پاکستان میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے قد کاٹھ کا شخص ڈھونڈئے سے بھی نہیں ملے گا۔ مسلم لیگ ن ، پیپلزپارٹی اور ��حریک انصاف تو بہت دور کی با ت ہے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی عدالت میں تو ان کے سگے بیٹے کا کیس بھی لگا دیں تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اس میں بھی انصاف ہو گا نہیں بلکہ انصاف ہوتا ہوا نظر بھی آئے گا۔ بہت اچھی بات ہے کہ جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندو خیل اپنے سینئر قاضی فائز عیسیٰ کی بھرپور تقلید کر رہے ہیں یہ سب انتہائی دیانتدار اور شاندار کیرئیر کے حامل ججز ہیں۔
ضروری ہے کہ تمام مندرجہ بالا ججز ملک کے سب سے بڑے ادارے سپریم کورٹ کی ساکھ بحال کرنے کیلئے بھرپور اقدامات کریں اور اس سلسلے میں جو بھی قیمت ادا کرنی پڑی، اس سے گریز نہ کریں۔ آج ماسٹر کے بجائے آئین کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ پارلیمنٹ تمام اداروں کی ماں ہے۔ جس برطانیہ کی ہم آئے روز مثال دیتے ہیں، وہاں کی پارلیمنٹ کے بارے میں مقولہ مشہور ہے کہ وہ’’مرد کو عورت اور عورت کو مرد بنانے کے سوا سب کچھ کر سکتی ہے‘‘ پاکستان میں بھی سب سے سپریم ادارہ پارلیمنٹ ہے، اگر پارلیمنٹ کی سپریمیسی پر سمجھوتہ ہوا تو پھر سپریم کچھ بھی نہیں رہے گا۔
حذیفہ رحمٰن
بشکریہ روزنامہ جنگ
#Chief Justice of Pakistan#Pakistan#Pakistan Judiciary#Qazi Faez Isa#Supreme Court of Pakistan#World
0 notes
Text
چیف جسٹس سمیت 3 ججز کیخلاف ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ ہو سکتا ہے، وزیر داخلہ
http://dlvr.it/Sls3Pf
0 notes
Text

























شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے گزشتہ ساڑھے تین دہائیوں سے انتہا پسندی، تنگ نظری، فرقہ واریت اور دہشت گردی کے خلاف علمی و فکری میدانوں میں بھرپور جدوجہد کی ہے۔ اِنتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف ناقابلِ تردید دلائل و براہین پر مشتمل آپ کا تاریخی فتوی 2010ء سے کتابی شکل میں دستیاب ہے۔ اِنتہا پسندانہ تصورات و نظریات کے خلاف اور اِسلام کی محبت و رحمت، اَمن و رواداری اور عدمِ تشدد کی تعلیمات پر مبنی شیخ الاسلام کی 46 کتب منظر عام پر آچکی ہیں۔
پانچ مختلف طبقات کے لیے تیار کردہ نصاب:
🔰 1۔ ریاستی سکیورٹی اِداروں کے افسروں اور جوانوں کے لیے
یہ نصاب ریاستی سکیورٹی اِداروں کے افسروں اور جوانوں کے لیے ترتیب دیا گیا ہے تاکہ اِنتہا پسندی اور دہشت گردی کے حوالے سے نہ صرف اُن کی علمی و فکری اور نظریاتی و اِعتقادی تربیت کی جائے بلکہ اُنہیں عملی طور پر دہشت گردوں کے خلاف بر سرِ پیکار ہونے کا کامل تیقن بھی دیا جائے۔
🔰 2۔ اساتذہ، وکلاء اور دیگر دانشور طبقات کے لیے
یہ نصاب اَساتذہ کرام، پروفیسرز، ججز صاحبان، وکلائ، میڈیا پرسنز اور دیگر جملہ دانش ور طبقات کے لیے ترتیب دیا گیا ہے تاکہ وہ دہشت گردوں کے فکری سرپرستوں کے غلط دلائل کا ردّ کرتے ہوئے نوجوان نسل اور اَفرادِ قوم کو اَمن پسندی کی تعلیم دے سکیں۔
🔰 3۔ ائمہ و خطباء اور علماء کرام کے لیے
یہ نصاب اَئمہ، خطباء اور علماء کرام کے لیے ترتیب دیا گیا ہے۔ اِس کا مقصد انتہا پسندی و دہشت گردی کے حوالے سے انہیں قرآن و حدیث اور دیگر مستند و معتبر کتب سے مواد فراہم کرنا ہے تاکہ اَئمہ و خطباء اور علماء کرام درس و تدریس اور خطابات و مواعظ کے لیے مصادرِ اِسلامی سے ضروری رہنمائی حاصل کرسکیں۔
🔰 4۔ طلبہ و طالبات اور نوجوانوں کے لیے
یہ نصاب کالجز، یونیورسٹیز اور دیگر تعلیمی اِداروں کے طلبہ و طالبات اور نوجوانوں کے لیے ترتیب دیا گیا ہے تاکہ وہ اِنتہا پسندانہ فکر سے متاثر ہونے کی بجائے اِسلام کے تصورِ اَمن و اِعتدال سے رُوشناس ہو کر معاشرے کے ذِمہ دار اور کارآمد اَفراد بن سکیں۔
🔰 5۔ سول سوسائٹی کے جملہ طبقات کے لیے
یہ نصاب سول سوسائٹی کے تمام طبقات کے لیے مرتب کیا گیا ہے چاہے اُن کا تعلق کسی بھی شعبہ ہاے زندگی سے ہو۔ یہ عوام الناس میں محبتِ اِنسانیت، عدمِ تشدد اور معاشرے میں اِسلام کے تصورِ اَمن و سلامتی کے کلچر کو فروغ دینے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ بقیہ چار نصابات کے برعکس یہ صرف نصاب نہیں ہے بلکہ ایک مکمل درسی کتاب ہے جس میں نصاب کی تمام تفصیلات مع مشتملات شامل کردی گئی ہیں۔
آن لائن پڑھنے کیلئے کلک کریں http://www.minhajbooks.com/english/PlaylistDetail/Islamic-Curriculum-on-Peace-and-Counter-Terrorism/
📧 خریداری کیلئے رابطہ کریں https://wa.me/9203097417163
#Islamophobia#MinhajBooks#IslamicBooks#books#BooksbyDrQadri#TahirulQadri#DrQadri#MinhajulQuran#IslamicLibrary#UrduBooks#pdfbooks
0 notes
Photo

کہانی_سناؤ_مقابلہ بچپن میں کہانی سننا اورسنانا کس کو پسند نہیں ہوتا ہے، ہم اس روایت کو ایک مرتبہ پھر سے نئے انداز میں پیش کررہے ہیں۔ ہم لا رہے ہیں ایک ایسا مقابلہ جس میں بچے یاد کی ہوئی کہانی سنائیں گے اورہم تین بہترین منتخب کردہ کہانیوں کواپنے چینل پردیگربچوں کے لئے پیش کریں گے اورجیتنے والے خوش نصیب بچوں کوادبی محفل "سرائے اُردو" اوریوٹیوب چینل "121 اسلام فار اردو کڈز" کی جانب سے انعام��ت دیے جائیں گے۔ اگرآپ کے بچے کہانی سننا پسند کرتے ہیں تو یقینی طور پر وہ کہانی سنا بھی سکتے ہیں آپ اس کے لئے زیادہ سے زیادہ پانچ منٹ کی وڈیو فیس بک گروپ۔ "سرائے اردو" میں درج ذیل ہیش ٹیگ کے ساتھ پوسٹ کر سکتے ہیں۔ #سرائےاُردو_121_اسلام_فار_اردو_کڈز_کہانی_سنو_سناؤ_مقابلہ آپ نیچے دی گئی کہانیوں میں سے کوئی بھی کہانی دیکھیں،سنیں اور اپنے الفاظ اور طریقہ سے سنا کر وڈیو بھیج دیں۔ مقابلہ کا مقصد بچوں میں اردو ادب کا فروغ ہے۔ مقابلے کا فیصلہ بچے کی اردو اور کہانی سنانے کے طریقے کی بنا پر کیا جائے گا۔ کہانی کے الفاظ میں کمی بیشی ہو سکتی ہے۔ ہو بہو ایسے سنانا ضروری نہیں ہے۔ اس مقابلے میں شرکت کرنے کی آخری تاریخ ٣١ جولائی ٢٠٢٢ ہے۔ اصول و ضوابط: 1۔ بچے کی آواز اور تصویر واضح ہونی چاہئے 2. وڈیو بناتے ہوئے موبائل کو لینڈ سکیپ میں رکھیں ۔ جیسا کہ تصویر میں دکھایا گیا ہے۔ ورنہ وڈیو مقابلہ میں شامل نہیں ہو گی۔ 3۔ ججز کا فیصلہ ختمی ہو گا۔ 4۔ بچے کی عمرکی حد 6 سے 13 سال ہے۔ 5.ہیش ٹیگ کے ساتھ بچے کا پورا نام، عمر اور شہر کا نام لکھیں۔ اور کہانی کا نام بھی لکھیں۔ 6.ایک بچہ ایک ہی وڈیو بھیج سکتا ہے۔ 7.کہانی ہمارے چینل پر موجود ان 13 کہانیوں میں سے ہی کوئی ایک ہو۔ منتخب کہانیوں کی فہرست https://youtube.com/playlist?list=PLIWc_d03ngLvOuT1L7IyGCayezLhRTDA3 https://www.instagram.com/p/CgkRHqRDdcZ/?igshid=NGJjMDIxMWI=
0 notes
Photo

پاکستانجسٹس عمر عطا بندیال نے بطور چیف جسٹس آف پاکستان عہدے کا حلف اُٹھا لیا اسلام آباد(سپاٹ سٹوری) : جسٹس عمر عطا بندیال نے بطور چیف جسٹس آف پاکستان عہدے کا حلف اٹھا لیا ، جسٹس عمر عطا بندیال سپریم کورٹ کے 28 ویں چیف جسٹس پاکستان بن گئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق حلف برداری کی تقریب ایوان صدر اسلا م آباد میں منعقد ہوئی ، صدر مملکت عارف علوی نے جسٹس عمر عطا بندیال سے چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے کا حلف لیا ۔ تقریب میں وزیراعظم عمران خان اور وفاقی وزرا نے بھی شرکت کی ، جبکہ سپریم کورٹ کے موجودہ اورریٹائرڈ ججز بھی موجود ہیں۔ جسٹس عمر عطا بندیال 2 فروری 2022 سے 16 ستمبر 2023 تک چیف جسٹس آف پاکستان رہیں گے ۔ عہدے کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد جسٹس عمر بندیال کی میز پر 51 ہزار 766 مقدمات فیصلے کے منتظر ہوں گے، پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں اور ضلعی عدالتوں میں کم و بیش 21 لاکھ کیسز زیر التوا ہیں۔ نئے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال 17 ستمبر 1958 کو لاہور میں پیدا ہوئے، انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم کوہاٹ، راولپنڈی، پشاور، اور لاہور سے حاصل کی، جبکہ کولمبیا یونیورسٹی سے معیشت میں بیچلرز کی ڈگری حاصل کی۔ بعد ازاں انہوں نے کیمبرج سے لا ٹرائپوس ڈگری حاصل کی اور لندن کے معروف لنکنز ان میں بطور برسٹر خدمات انجام دیں. 1983 میں آپ بطور ایڈوکیٹ لاہور ہائی کورٹ کی فہرست میں شامل ہوئے اور کچھ سالوں بعد بطور ایڈوکیٹ سپریم کورٹ آف پاکستان خدمات انجام دیں۔ لاہور میں اپنی پریکٹس کے دوراب جسٹس بندیال نے عموماً کمرشل بینکنگ، ٹیکس اینڈ پراپرٹی کے معلامات حل کیے، جسٹس 1993 کے بعد جسٹس عہدے پر فائز ہونے تک آپ نے بین الاقوامی تجارتی تنا��عات کو بھی سنبھالا۔ جسٹس عمر بندیال سپریم کورٹ اور لندن اور پیرس کی متعدد بین الاقوامی عدالتوں میں بطور ثالثی بھی پیش ہوچکے ہیں۔ جسٹس عمر بندیال کو 4 دسمبر 2004 کو لاہور ہائی کورٹ کے جج طور پر مقرر کیا گیا تھا ان کا شمار ان ججوں میں ہوتا ہے جنہوں نے نومبر 2007 کے پروویژنل کونسٹی ٹیوشن آرڈر (پی سی او) کے حلف لینے سے انکار کردیا تھا، اس وقت 3 نومبر 2007 کو جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کردی تھی۔ تاہم عدالت کی بحالی کے سلسلے میں وکلا تحریک کے نتیجے میں انہیں جج کے عہدے پر بحال کردیا گیا تھا۔ بعد ازاں جسٹس عمر بندیال نے دو سال کے لیے بطور چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ خدمات انجام دیں جبکہ جون 2014 میں ان کا تقرر سپریم کورٹ میں کردیا گیا۔ (at Islamabad اسلام آباد) https://www.instagram.com/p/CZdtmA8B3t_/?utm_medium=tumblr
0 notes
Text
جسٹس سرفراز ڈوگراسلام آبادہائیکورٹ کے سینئرجج بن گئے
لاہور ہائی کورٹ سےآنےوالےجسٹس سرفراز ڈوگر اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق کےبعد سینئر موسٹ جج ہوں گے۔ تفصیلات کے مطابق سندھ، لاہور اور بلوچستان ہائی کورٹ سے 3 ججز کا اسلام آباد ہائی کورٹ میں تبادلہ کردیا گیا ہے۔بلوچس��ان ہائی کورٹ سے آنے والے جج جسٹس محمد آصف حال ہی میں ایڈیشنل جج بنے تھے جب کہ سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس خادم حسین سومرو 2 سال پہلے ہائی کورٹ کے جج بنے ہیں۔ ذرائع کے…
0 notes
Text
پارلیمانی کمیٹی کے اہم رکن نے نامزد چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی مخالفت کر دی
(24نیوز) ججز کی تقرری کیلئے بنائی گئی خصوصی کمیٹی میں شامل ایک رکن نے چیف جسٹس یحیٰ آفریدی کو بطور چیف جسٹس نامزدگی سے اختلاف کیا۔ تفصیلات کے مطابق 26 ویں آئینی ترمیم کے نفاذ کے بعد نئے چیف جسٹس آف پاکستان کی تقرری کے لیے خصوصی پارلیمانی کمیٹی کا بند کمرہ اجلاس پارلیمنٹ ہاؤس کے کمیٹی روم 5 میں ہوا جس میں 9 ارکان نے شرکت کی جبکہ سنی اتحاد کونسل کے ارکان نے اجلاس کا بائیکاٹ کیا تاہم ان کے 3…
0 notes
Text
پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس، کب کیا ہوا ؟
پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کا مقدمہ نومبر 2013ء میں سابق حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ نون نے درج کیا تھا۔ بطور آرمی چیف 3 نومبر 2007ء کو ملک کا آئین معطل کر کے ایمرجنسی لگانے کے اقدام پر پرویز مشرف کے خلاف یہ مقدمہ درج کیا گیا تھا جس میں اب تک 100 سے زائد سماعتیں ہوئیں جب کہ اس دوران 4 ججز تبدیل ہوئے، عدالت نے متعدد مرتبہ پرویز مشرف کو حاضر ہونے کا حکم دیا اور وقت دیا لیکن وہ عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔ خصوصی عدالت نے مارچ 2014ء میں پرویز مشرف پر فردِ جرم عائد کی تھی جبکہ ستمبر میں پراسیکیوشن کی جانب سے اس کیس میں ثبوت فراہم کیے گئے، تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم امتناع کے بعد خصوصی عدالت پرویز مشرف کے خلاف مزید سماعت نہیں کر سکی۔ جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف 2016ء میں عدالت کے حکم پر ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نام نکالے جانے کے بعد بیرونِ ملک چلے گئے تھے۔
مشرف کے خلاف تحقیقات ایف آئی اے نے کیں ذرائع کے مطابق پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی تحقیقات ایف آئی اے نے کیں، جن کے دوران ایف آئی اے نے وزارتِ دفاع سے بھی رابطہ کیا۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ ایف آئی اے نے پرویز مشرف کے خلاف مقدمے کی تحقیقات کے دوران سابق گورنر پنجاب خالد مقبول، سابق سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ، سابق سیکریٹری کابینہ اور دیگر شخصیات کے بیانات بھی لیے۔ ذرائع نے مزید بتایا ہے کہ ایف آئی اے میں تحقیقات کا آغاز انسدادِ دہشت گردی ونگ کے سربراہ خالد قریشی نے کیا، جبکہ ایک مرحلے پر موجودہ ڈپٹی چیئرمین حسین اصغر بھی ان تحقیقات سے منسلک رہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ
1 note
·
View note
Text
اسلام آباد میں ججزاوربیوروکریٹس کو پلاٹوں کی الاٹمنٹ؛ سپریم کورٹ کا بینچ ٹوٹ گیا - اردو نیوز پیڈیا
اسلام آباد میں ججزاوربیوروکریٹس کو پلاٹوں کی الاٹمنٹ؛ سپریم کورٹ کا بینچ ٹوٹ گیا – اردو نیوز پیڈیا
اردو نیوز پیڈیا آن لائین اسلام آباد: جسٹس سجاد علی شاہ نے اسلام آباد میں ججز اور بیوروکریٹس کو پلاٹوں کی الاٹمنٹ سے متعلق کیس کی سماعت سے معذرت کرلی جس کے بعد سپریم کورٹ کا فاضل بینچ تحلیل ہوگیا۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے اسلام آباد میں ججز اور بیوروکریٹس کو پلاٹوں کی الاٹمنٹ سے…

View On WordPress
0 notes
Text
صدر عارف علوی کے قومی احتساب ترمیمی آرڈیننس پر دستخط
صدر عارف علوی کے قومی احتساب ترمیمی آرڈیننس پر دستخط
صدر مملکت عارف علوی نے قومی احتساب ترمیمی آرڈیننس پر دستخط کر دیئے۔ آرڈیننس کو نیب ترمیمی آرڈیننس 2021ء کا نام دیا گیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے دوسراقومی احتساب ترمیمی آرڈیننس 2021ء جاری کردیا، صدرمملکت جتنی چاہیں گے ملک میں احتساب عدالتیں قائم کریں گے۔ ترمیمی آرڈیننس کے مطابق احتساب عدالتوں میں ججز کا تقرر 3 سال کیلئے ہو گا، صدرمملکت متعلقہ چیف جسٹس ہائیکورٹ کی…

View On WordPress
0 notes
Text
نرسمہا بار سے CJI بننے کے لیے تیسرا مقرر ہوگا۔ انڈیا نیوز
نرسمہا بار سے CJI بننے کے لیے تیسرا مقرر ہوگا۔ انڈیا نیوز


پی ایس نرسمہا (فائل فوٹو)
نئی دہلی: صدر نے سپریم کورٹ کے ججوں کے طور پر سینئر ایڈووکیٹ پی ایس نرسمہا سمیت نو کے تقرر کے وارنٹ جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے ، اس بیچ میں بار کی طرف سے تنہا براہ راست تقرر اس زمرے میں تیسرا چیف جسٹس بن جائے گا۔ انڈیا جسٹس ایس ایم سیکری بار سے براہ راست تقرری کے بعد عدلیہ کے سربراہ تھے۔ سپریم کورٹ کے موجودہ جج یو یو للت موجودہ چیف جسٹس این وی رامانا کی جگہ لیں گے ، جو اگلے سال 26 اگست کو ریٹائر ہو رہے ہیں۔ TOI کے 26 اگست کے ایڈیشن میں شائع ہونے والی ہماری رپورٹ میں ، ہم نے غلطی سے کہا کہ نرسمہا ایس سی جج کے طور پر مقرر کردہ بار میں سے پہلا شخص ہوگا جو CJI بن جائے گا۔ نرسمہا بار سے نویں نمبر پر ہیں جنہیں براہ راست ایس سی جج مقرر کیا گیا ہے۔ پہلے لوگ ہیں: سیکری ، ایس سی رائے ، کلدیپ سنگھ ، این سنتوش ہیگڈے ، آر ایف نریمن ، للت ، ایل این راؤ اور اندو ملہوترا۔ جسٹس سیکری کو 3 فروری 1964 کو سپریم کورٹ کا جج مقرر کیا گیا اور 22 جنوری 1971 کو چیف جسٹس بن گئے۔ ان کی مدت 27 ماہ تھی اور 25 اپریل 1973 کو ریٹائر ہوئے۔ لاہور میں پیدا ہوئے اور پہلی نسل کے وکیل ، سیکری نے کیمبرج یونیورسٹی سے ڈگری حاصل کرنے کے بعد 1930 میں لاہور ہائی کورٹ میں پریکٹس قائم کی تھی۔ تقسیم کے بعد وہ پنجاب کے ایڈووکیٹ جنرل بن گئے ، اس عہدے پر وہ 13 سال تک بطور جج تعینات رہے۔ اس سے قبل انہوں نے پنجاب ہائیکورٹ میں جج شپ سے انکار کر دیا تھا۔ ایس سی رائے دوسرے تھے جنہیں بار سے براہ راست ایس سی جج مقرر کیا گیا۔ مغربی بنگال کے معروف وزیراعلیٰ بی سی رائے کے بھتیجے ، وہ بنیادی طور پر کلکتہ ہائی کورٹ میں پریکٹس کرتے تھے اور 1957 میں ہائی کورٹ میں جج شپ سے انکار کر دیا تھا تاکہ وزیراعلیٰ کے ساتھ ان کے تعلقات کی وجہ سے اقربا پروری کے الزامات سے بچ سکیں۔ تاہم ، جب سی جے آئی سیکری نے انہیں ایس سی کی جج شپ کی پیشکش کی ، رائے نے اسے قبول کر لیا اور 19 جولائی 1971 کو سپریم کورٹ کے جج کی حیثیت سے حلف لیا۔ لیکن سپریم کورٹ کے جج بننے کے چار مہینوں کے اندر ، انہیں کئی دل کے دورے پڑے اور 12 نومبر 1971 کو ان کا انتقال ہوگیا۔ کلدیپ سنگھ میں بار سے اگلی براہ راست تقرری پر حکام کو صفر کرنے میں مزید 17 سال لگے ، ج��ہوں نے 14 دسمبر 1988 کو سپریم کورٹ کے جج کی حیثیت سے حلف لیا۔ اسی دن جسٹس اے ایم احمدی نے حلف لیا لیکن آگے جسٹس سنگھ اور CJI بن گئے۔ جسٹس سنگھ نمبر دو کے طور پر ریٹائر ہوئے اور جسٹس احمدی کے ساتھ ان کی مسلسل کشمکش رہی۔ جسٹس سنگھ نے محسوس کیا تھا کہ اس وقت کے چیف جسٹس آر ایس پاٹھک نے انہیں چیف جسٹس کا عہدہ چھین لیا تھا ، جنہوں نے جسٹس سنگھ سے پہلے جسٹس احمدی کا حلف مقرر کیا تھا۔ جسٹس دیپک مشرا اور جسٹس جے چیلمیشور کے درمیان کئی دہائیوں کے بعد اسی طرح کے ایک مسئلے پر جسٹس مسرا نے 10 اکتوبر 2011 کو جسٹس چیلمیشور سے پہلے حلف اٹھایا اور چیف جسٹس بننے کے لیے جب کہ دوسرے نمبر پر ریٹائر ہوئے۔ بار سے اگلی براہ راست ملاقات ایک دہائی سے زیادہ کے وقفے کے بعد ہوئی۔ این سنتوش ہیگڈے ہندوستان کے سالیسٹر جنرل تھے جب انہوں نے اس وقت کے چیف جسٹس اے ایس آنند کی دعوت قبول کی اور 8 جنوری 1999 کو سپریم کورٹ کے جج بن گئے۔ ان کی مدت ملازمت تین سال اور چھ ماہ تھی۔ 64 سالوں میں ایس سی جج کے طور پر مقرر کردہ بار میں سے چار کے خلاف ، اگلے سات سالوں میں بار سے پانچ (بشمول نرسمہا جن کی تقرری کے وارنٹ ابھی جاری نہیں ہیں) کو مقرر کیا گیا: جسٹس آر ایف نریمن (7 جولائی 2014 سے 12 اگست ، 2021) موجودہ ایس سی ججز – جسٹس للت (13 اگست ، 2014) اور جسٹس ایل این راؤ (13 مئی ، 2016) اور بار سے پہلی خاتون جو براہ راست ایس سی جج مقرر کی گئی – اندو ملہوترا (27 اپریل 2018 سے 13 مارچ 2021) نرسمہا بار سے بینچ میں تبدیل ہونے والے تازہ ترین ہیں اور توقع ہے کہ 2027 میں جسٹس بی وی ناگراتھنا کی ریٹائرمنٹ کے بعد سی جے آئی کی حیثیت سے ایک سال سے زیادہ کا عرصہ ہوگا ، جو ممکنہ طور پر پہلی خاتون چیف جسٹس ہوں گی۔ ایک ماہ.
فیس بکٹویٹرلنکڈین۔ای میل۔
. Source link
0 notes
Text
تحقیقاتی کمیشن کا مطالبہ
12 اکتوبر 1999ء کو جب آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے دو تہائی اکثریت رکھنے والی جمہوری حکومت پر شب خون مارا تو جسٹس سعید الزماں صدیقی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس تھے۔ جنرل پرویز مشرف کے اس غیر آئینی اقدام کے خلاف جب سپریم کورٹ میں دائر مقدمے میں اُن کے خلاف فیصلہ آنے کے اشارے ملے تو جنرل پرویز مشرف کے مشیر خاص ’’جادوگر‘‘ شریف الدین پیرزادہ نے جنرل پرویز مشرف کو مشورہ دیا کہ چیف جسٹس سعید الزماں صدیقی اور دیگر ججز سے پی سی او کے تحت حلف لیا جائے تاکہ غیر آئینی اقدام کو آئینی تحفظ دیا جا سکے۔ اس مقصد کیلئے جسٹس سعید الزماں صدیقی پر دبائو ڈال کر انہیں جی ایچ کیو طلب کیا گیا۔ اس ملاقات میں وزیر قانون عزیز منشی اور شریف الدین پیرزادہ بھی موجود تھے۔
پرویز مشرف نے سعید الزماں صدیقی پر دو ٹوک الفاظ میں واضح کیا کہ آپ فوری طور پر پی سی او کے تحت حلف اٹھا کر مجھے آئین میں ترمیم کی اجازت دیں لیکن جسٹس سعید الزماں صدیقی نے ایسا کرنے سے صاف انکار کر دیا جس پر جنرل پرویز مشرف طیش میں آگئے اور کہا کہ ’’میں پاکستان کا چیف ایگزیکٹو اور پاک فوج کا سربراہ ہوں اور انکار سننے کا عادی نہیں۔‘‘ پرویز مشرف کے یہ الفاظ سن کر بظاہر نحیف نظر آنے والے سعید الزماں صدیقی یہ کہتے ہوئے اپنی نشست سے کھڑے ہو گئے کہ ’’میں بھی پاکستان کا چیف جسٹس ہوں اور آئین کے منافی کوئی قدم نہیں اٹھائوں گا۔‘‘ یہ کہہ کر جسٹس سعید الزماں صدیقی جب کمرے سے رخصت ہونے لگے تو وہاں موجود شریف الدین پیرزادہ نے سعید الزماں صدیقی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’اوے سعید! اگر تم نے پی سی او کے تحت حلف نہیں اٹھایا تو تمہاری چھٹی ہو جائے گی لیکن اگر تم ہمارا ساتھ دو گے تو طویل عرصے تک چیف جسٹس کے عہدے پر فائز رہ سکتے ہو۔‘‘
اُسی شام 4 سینئر جنرلز آئی ایس آئی اور ایم آئی کے سربراہ، وفاقی وزیر داخلہ اور جنرل محمود چیف جسٹس ہائوس اسلام آباد پہنچے۔ آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل احسان کے ہاتھ میں سپریم کورٹ کے ججز کی فائلیں تھیں جن پر ریڈ، یلیو اور گرین فلیگ چسپاں تھے۔ ریڈ فلیگ فائلیں اُن ججز کی تھیں جو کرپشن اور بدعنوانی میں ملوث تھے، یلیو فلیگ فائلوں کے حامل ججز کے خلاف مختلف الزامات کی تحقیقات جاری تھیں جبکہ گرین فلیگ کی چند فائلیں اُن ججز کی تھیں جن کا کردار بے داغ تھا۔ اس موقع پر فوجی جنرلز نے جسٹس سعید الزماں صدیقی کو بتایا کہ ریڈ اور یلیو ٹیگ فائلوں کے حامل تمام ججز پی سی او تحت حلف اٹھانے کو تیار ہیں لہٰذا آپ بھی اپنے فیصلے پر نظرثانی کریں مگر جسٹس سعید الزماں صدیقی کسی دبائو میں نہ آئے اور جنرلز سے کہا کہ وہ یہاں سے تشریف لے جا سکتے ہیں۔
بعد ازاں سعید الزماں صدیقی کو فیملی سمیت نظر بند کر دیا گیا اور اُسی رات اس وقت کے سیکرٹری قانون ثاقب نثار نے ججز انکلیو جا کر اُن تمام ججز سے فرداً فرداً کنفرمیشن حاصل کی جنہوں نے اگلے روز پی سی او کے تحت حلف اٹھانا تھا۔ اگلی صبح جسٹس ارشاد حسن خان نے چیف جسٹس اور دیگر جج صاحبان نے نہ صرف پی سی او کے تحت اپنے عہدے کا حلف اٹھایا بلکہ جنرل پرویز مشرف کے غیر آئینی اقدامات کو جائز قرار دے کر اُنہیں 3 سال کیلئے ملک کے چیف ایگزیکٹو کی حیثیت سے کام کرنے اور آئین میں ترمیم کے اختیارات بھی دے دیئے جبکہ دوسری طرف گرین فلیگ فائلوں کے حامل جج صاحبان جسٹس سعید الزماں صدیقی، جسٹس کمال منصور عالم، جسٹس وجیہہ الدین، جسٹس ممنون قاضی اور جسٹس خلیل الرحمن خان نے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کر دیا اور تاریخ میں امر ہو گئے۔
جسٹس سعید الزماں صدیقی سے میرے بڑے دیرینہ تعلقات تھے جنہیں میں ’’سعید بھائی‘‘ کہہ کر مخاطب کرتا تھا۔ مذکورہ بالا واقعہ سعید الزماں صدیقی نے مجھے اپنی زندگی میں بڑے دکھی لہجے میں سنایا تھا جس کے گواہ اُن کے صاحبزادے افنان الزماں صدیقی ایڈووکیٹ بھی ہیں۔ اسی طرح جسٹس افتخار محمد چوہدری جب چیف جسٹس کے عہدے پر فائز ہوئے تو انہوں نے جنرل پرویز مشرف کو اپنے مکمل تعاون و حمایت کا یقین دلایا اور کہا کہ ’’جیسا آپ کہیں گے، ویسا ہی ہو گا۔‘‘ اس بات کا اعتراف جنرل پرویز مشرف نے خود اپنے کئی ٹی وی انٹرویوز میں کیا تھا لیکن جب اسٹیل مل کی نجکاری کا فیصلہ سامنے آیا تو جنرل پرویز مشرف، جسٹس افتخار محمد چوہدری سے ناراض ہو گئے اور 9 مارچ 2007ء کو اُنہیں جی ایچ کیو طلب کیا۔
اس ملاقات میں بھی آئی ایس آئی کے سربراہ اور دیگر سینئر جنرلز موجود تھے۔ دوران ملاقات افتخار چوہدری کو بتایا گیا کہ خفیہ اداروں کے پاس اُن کے خلاف بہت سے مواد موجود ہیں، اس لئے بہتر ہے کہ آپ اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائیں مگر جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے سے صاف انکار کر دیا جس پر جنرل پرویز مشرف طیش میں آگئے اور افتخار چوہدری کے خلاف کچھ نازیبا الفاظ کہتے ہوئے کمرے سے نکل گئے۔ بعد میں انہوں نے جنرل اشفاق پرویز کیانی کو ہدایت کی ک�� آپ افتخار چوہدری سے نمٹیں۔ اس طرح جسٹس افتخار محمد چوہدری کئی گھنٹے تک جی ایچ کیو میں محصور رہے اور اس دوران جسٹس عبدالحمید ڈوگر سے چیف جسٹس کا حلف اٹھوا لیا گیا۔ افتخار چوہدری جب جی ایچ کیو سے باہر آئے تو اُن کی گاڑی سے چیف جسٹس کا جھنڈا اتارا جا چکا تھا جس سے انہوں نے اندازہ لگالیا کہ وہ اب چیف جسٹس نہیں رہے۔
مذکورہ بالا واقعات بیان کرنے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ عدلیہ ہر دور میں اداروں کے دبائو کا شکار رہی ہے مگر کچھ ججز ایسے بھی ہیں جنہوں نے ان قوتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور آج اس صف میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے قابل احترام جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی بھی شامل ہو گئے ہیں جنہوں نے گزشتہ دنوں فوج کے ایک ادارے پر سنگین الزامات لگاتے ہوئے انکشاف کیا کہ ’’یہ ادارہ عدالتی معاملات میں پوری طرح جوڑ توڑ کرنے میں مصروف عمل ہے حتیٰ کہ عدالتی بنچ بھی اِسی ادارے کی مرضی سے لگتے ہیں اور اس ادارے نے چیف جسٹس تک اپروچ حاصل کر کے کہا تھا کہ ’’الیکشن تک نواز شریف اور اُن کی بیٹی کو باہر نہیں آنے دیا جائے اور نہ ہی جسٹس شوکت صدیقی کو بنچ میں شامل کیا جائے۔‘‘ جسٹس شوکت صدیقی نے اس بات کا بھی انکشاف کیا کہ ’’مجھے معلوم ہے کہ نیب عدالت کی روزانہ کی پروسیڈنگ کہاں جاتی ہیں اور سپریم کورٹ تک کون کس کا پیغام لے کر جاتا ہے۔‘‘
جسٹس شوکت صدیقی کے ادارے پر لگائے گئے مذکورہ الزامات نے کسی ذی شعور شخص کو حیرانی سے دوچار نہیں کیا کیونکہ پانامہ لیکس پر جے آئی ٹی کی تشکیل کے بعد سے اِس طرح کے اشارے مل رہے تھے کہ کچھ ادارے عدالتی معاملات میں مداخلت کر رہے ہیں تاہم الیکشن سے کچھ روز قبل جسٹس شوکت صدیقی کے انکشافات نے پاکستان کی انتخابی و سیاسی صورتحال میں ہیجان انگیزی پیدا کر دی ہے۔ گوکہ اس سے قبل بھی اداروں پر الزامات لگتے رہے ہیں مگر یہ پہلی بار ہوا ہے کہ ہائیکورٹ کے کسی حاضر سروس سینئر جج نے اداروں پر کھل کر الزامات لگائے ہیں۔ ان الزامات میں فرق صرف اتنا ہے کہ ماضی میں اس طرح کی مداخلت ڈکٹیٹر کے دور میں کی جاتی تھی مگر اب یہ جمہوری دور میں بھی ہو رہا ہے جس نے ہر ذی شعور شخص کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ کیا ہمارے ادارے عدلیہ میں بھی سرایت کر گئے ہیں جو اُن پر اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ جسٹس شوکت صدیقی کے بقول عدلیہ کی آزادی سلب ہو چکی ہے اور عدلیہ اب بندوق والوں کے کنٹرول میں ہے جو اپنی مرضی کے فیصلے کروا رہے ہیں تاہم آئی ایس پی آر نے جسٹس صدیقی کے اِن الزامات کی تردید کرتے ہوئے چیف جسٹس سے تحقیقات کروانے کا مطالبہ کیا ہے۔
کچھ لوگوں کا یہ کہنا کہ جسٹس شوکت صدیقی کا پبلک میں آکر الزامات لگانا غلط تھا اور انہیں یہ شکایت چیف جسٹس سے کرنا چاہئے تھی لیکن میرے خیال میں یہ منطق دینے والوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ جسٹس صدیقی کے الزامات میں چیف جسٹس پر بھی انگلی اٹھائی گئی ہے مگر چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ ’’کسی مائی کے لال کی یہ جرات نہیں کہ وہ عدلیہ پر دبائو ڈال سکے۔‘‘ اداروں پر الزامات ایک حساس معاملہ ہے اور بات اب سپریم جوڈیشل کونسل سے بھی آگے نکل چکی ہے لیکن اگر اس معامل�� کو دبانے کی کوشش کی گئی تو اس کے خطرناک نتائج نکل سکتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جسٹس شوکت صدیقی کے الزامات کی تحقیقات کیلئے اچھی ساکھ کے حامل ریٹائرڈ ججوں پر مشتمل عدالتی کمیشن کا اعلان کیا جائے جو مختصر مدت میں رپورٹ منظر عام پر لائے تاکہ دودھ کا ددھ اور پانی کا پانی سامنے آسکے۔
جسٹس شوکت صدیقی کا شمار پاکستان کے معتبر ججز میں ہوتا ہے جن کی ایمانداری و حب الوطنی پر شک نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی اتنے اہم منصب پر فائز کوئی حاضر سروس سینئر جج بغیر ثبوت اتنے بڑے الزامات لگا سکتا ہے تاہم خوش آئند بات یہ ہے کہ جسٹس شوکت صدیقی نے یہ الزامات پاکستان کی مسلح افواج اور پوری عدلیہ پر نہیں بلکہ فوج کے ایک مخصوص شعبے اور مخصوص ججز پر لگائے گئے ہیں، اس لئے پاک فوج اور معزز عدلیہ کو مورد الزام ٹھہرانا مناسب نہیں۔ آرمی چیف سے درخواست ہے کہ وہ جسٹس شوکت صدیقی کے الزامات کی تحقیقات کروائیں اور الیکشن میں فوج کو مکمل طور پر غیر جانبدار رہنے کی واضح ہدایت کی جائے کیونکہ فوج کی سب سے بڑی طاقت عوام کی حمایت ہے اور فوج کو اِس سرمائے کی ہر قیمت پر حفاظت کرنا چاہئے۔
مرزا اشتیاق بیگ
1 note
·
View note