#گرتا
Explore tagged Tumblr posts
Text
نہ من بیہودہ گردِ کوچہ و بازار می گردَم
مذاقِ عاشقی دارم، پئے دیدار می گردَم
((میں کُوچہ بازار میں یونہی آوارہ نہیں گھومتا بلکہ میں عاشقی کا ذوق رکھنے والا ہوں اور اسیلئے میں محبوب کے دیدار کی خاطر اُسکے گرد گھومتا ہوں۔))
خدایا رحم کُن بر من، پریشاں وار می گردم
خطا کارم گنہگارم، بہ حالِ زار می گردم
((اے خدا مجھ پر رحم کر کہ میں پریشان حال پھرتا ہوں، خطار کار ہوں، گنہگار ہوں اور اپنے اس حالِ زار کی وجہ سے گردش میں ہوں۔))
شرابِ شوق می نوشم، بہ گردِ یار می گردم
سخن مستانہ می گویم، ولے ہشیار می گردم
((میں شرابِ عشق پیتا ہوں اور دوست کے گرد گھومتا رہتا ہوں، میں اگرچہ شرابِ عشق کی وجہ سے مستانہ وار کلام کرتا ہوں لیکن دوست کے گرد طواف ہوش میں رہ کر کرتا ہوں۔))
گہے خندم گہے گریم، گہے اُفتم گہے خیزم
مسیحا در دلم پیدا و من بیمار می گردم
((میں کبھی ہنستا ہوں، کبھی روتا ہوں، کبھی گرتا ہوں اور کبھی اٹھ کھڑا ہوتا ہوں اور کیونکہ میرے دل میں مسیحا پیدا ہو گیا ہے اور میں بیمار اپنے مسیحا کے گرد گھومتا ہوں۔))
جلال الدین محمد رومیؔ
8 notes
·
View notes
Text
ایک بیج بغیر آواز کے باہر نکلتا ہے لیکن ایک درخت زبردست آواز کے ساتھ زمین پر گرتا ہے، تباہی آواز رکھتی ہے اور تخلیق خاموشی، یہ خاموشی کی طاقت ہے، خاموشی سے جئیں۔
A seed comes out without a sound but a tree falls to the ground with a great sound, destruction has sound and creation is silence, this is the power of silence, live in silence.
~ Confucius
24 notes
·
View notes
Text
(Bang-e-Dra-121) Saqi (ساقی)
Nasha Pila Ke Girana To Sub Ko Ata Hai Maza To Jab Hai Ke Girton Ko Thaam Le Saqi
Everyone knows how to throw down people with intoxicants The fun is to convert the intoxicated one to sanity, O cup‐bearer
نشہ پِلا کے گِرانا تو سب کو آتا ہے مزا تو جب ہے کہ گِرتوں کو تھام لے ساقی
نشہ: شراب ۔ گرتوں کو تھام لینا: جو گر رہے ہیں انھیں سنبھالنا، پستیوں سے ��کالنا
مطلب: اس نظم کے اشعار سے اندازہ ہوتا ہے کہ اقبال اپنے عہد کے بعض ایسے رہنماؤں پر طنز کیا ہے جو ذاتی مفاد کے لئے اپنے پیرووَں کو مذہب اور سیاست کے نام پر استعمال کرتے تھے ۔ فرماتے ہیں شراب پلا کر ہر کوئی دوسرے کو بدمست اور مدہوش کر سکتا ہے اور اس بدمستی اور مدہوشی میں پینے والا زمین پر ہی گرتا ہے لیکن ساقی کا کام محض مدہوش کرنا ہی نہیں ہے بلکہ گرتے ہوؤں کو تھامنا بھی ہے ۔ مطلب یہ کہ ذاتی مفاد کے لئے دوسروں کو پستی سے ہمکنار کرنا تو سب کو آتا ہے تاہم حقیقی رہنمائی کا لطف اس عمل میں ہے کہ پستی میں گرنے والے کو سہارا دے ۔
Jo Badah Kash The Purane, Woh Uthte Jate Hain Kaheen Se Aab-e-Baqaye Dawam Le Saqi!
Those who were the old wine‐drinkers are gradually departing Bring the water of immortality from somewhere, O cup‐bearer
جو بادہ کش تھے پُرانے، وہ اُٹھتے جاتے ہیں کہیں سے آبِ بقائے دوام لے ساقی!
معانی:: بادہ کش : شراب پینے والے ۔ اٹھتے جاتے ہیں : اس دنیا سے جا رہے ہیں ۔ آبِ بقائے دوام: ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی کا پانی، آبِ حیات ۔ مطلب: جو پرانے شراب پینے والے تھے وہ تو ایک ایک کر کے دنیا سے اٹھتے جاتے ہیں. اے ساقی! کہیں سے آب حیات حاصل کر کے بزم کے رندوں کو پلاتا کہ وہ ہمیشہ کے لیے زندہ رہیں۔ مراد یہ کہ اسے قوم کے رہنما سچے اور بے باک و جلیل القدر مسلمان تو رفتہ رفتہ ملک عدم کو چلے جا رہے ہیں ان کی خالی جگہ پر کرنے کے لیے افرادِ قوم کو کتاب و سنت کا درس دے ورنہ تیری بزم بے رونق ہو جائے گی۔ تو اور تیری قوم دونوں پستی ذلت کے گڑے میں گر کر بے نشان ہو کر رہ جائیں گے۔
Kati Hai Raat To Hangama Gustari Mein Teri Sehar Qareeb Hai, Allah Ka Name Le Saqi!
Your whole night has passed in tumult and clamor The dawn is close remember God, O cupbearer!
کٹی ہے رات تو ہنگامہ گُستری میں تری سحَر قریب ہے، اللہ کا نام لے ساقی!
معانی:: ہنگامہ گستری میں : فتنہ و فساد پھیلانے میں ۔ سحر: صبح، اچھے دن ۔ مطلب: اے ساقی تو نے ساری عمر تو اسی قسم کے ہنگاموں میں گزاری ہے اب جب کہ تو عمر کے آخری مراحل میں ہے سب ہنگامے چھوڑ کر اللہ اللہ کر لے کہ یہی آخرت میں کام آئے گا ۔ مراد یہ ہے کہ خود ساختہ اور مفاد پرست رہنماؤں ��ا کردار عام لوگوں کے لئے زہر قاتل سے کم نہیں ۔ خدا کرے وہ عبرت حاصل کر سکیں ۔
~ Dr. Allama Iqbal Voice: Zia Mohyeddin
5 notes
·
View notes
Text
پاکستان صحافیوں کے لیے خطرناک ترین ملک: ایک سال میں 11 قتل
پپرس میں واقع صحافیوں کی عالمی تنظیم رپورٹرز ود بارڈرز نے پاکستان کو غزہ کے بعد رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کیلئے خطرناک ترین ملک قرار دے دیا ہے جہاں 11 صحافیوں کو صرف سال 2024 میں قتل کر دیا گیا۔ اسی لیے آزادی صحافت کے انڈیکس میں پاکستان اس وقت گرتا ہوا 152ویں نمبر پر آ چکا ہے۔ آر ایس ایف کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کوئی جنگ نہیں ہو رہی لیکن پھر یہ غزہ کے بعد دنیا بھر میں صحافیوں کے لیے دوسرا خطرناک…
0 notes
Text
بے اصولی اور مفاد پرستانہ سیاست میں جمہوریت؟
عالمی جمہوریت انڈیکس کے مطابق آمرانہ رجیم درجہ بندی میں گر کر پاکستان کا اسکور 3.25 ہو گیا ہے اور 11 درجے تنزلی ہو گئی ہے۔ پاکستان پہلے دنیا کی 165 ریاستوں میں ایک برس قبل 5.23 انڈیکس پر تھا جو اب گر کر 3.25 پر آ گیا ہے جس کے نتیجے میں یہ ہائبرڈ رجیم سے تنزلی کے بعد آمرانہ رجیم کی درجہ بندی میں آ گیا ہے جب کہ عالمی سطح پر ریٹنگ میں گیارہ مقام نیچے چلا گیا ہے۔ ای آئی یو نے حالیہ انتخابات پر کہا ہے کہ یہ بات حیران کن نہیں کہ بنگلہ دیش، پاکستان اور روس میں رجیم چینج یا زیادہ جمہوریت نہیں آئے گی اور پاکستان میں بھی مکمل جمہوریت نہیں آئے گی اور ناقص جمہوریت چلتی رہے گی۔ قیام پاکستان کے بعد ملک کو 1956 میں آئین ملا تھا جس کے نتیجے میں ملک کو 1958 میں جنرل ایوب خان کا جو طویل مارشل لا ملا تھا اس کے خاتمے کے بعد کہنے کو ملک کو 1973 کا متفقہ آئین ملا تھا جو بعد میں مارشل لاؤں کو نہیں روک سکا تھا جس کے بعد 1977ء اور 1999ء میں جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز کے مارشل لا آئے تھے جو جنرل پرویز کی وردی اترنے کے بعد ختم ہو گئے تھے۔
2002ء سے 2024ء تک ملک میں چار بار قومی اسمبلی کے انتخابات ہوئے اور پہلی بار اسمبلیوں نے اپنی اپنی مدت پوری کی اور جنرل پرویز مشرف کے دور میں مسلم لیگ (ق) کے بعد پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) نے پانچ پانچ سال اور پی ٹی آئی حکومت نے پونے چار سال حکومت کی اور عمران خان کی اپنی حماقت کے نتیجے میں سولہ ماہ ملک میں ایک اتحادی حکومت رہی اور ملک میں کوئی مارشل لا نہیں لگا۔ انتخابی نتائج تسلیم نہ کرنے پر ملک میں جنرل یحییٰ نے جو الیکشن کرائے اور جیتنے والی پارٹی عوامی لیگ کو اقتدار منتقل نہیں کیا تھا جس کے نتیجے میں 1971 میں ملک دولخت ہوا تھا جس کے بعد بھٹو صاحب نے 1972 میں حکومت بنائی تھی اور 1973 کا ایسا متفقہ آئین بنوایا تھا جو ملک میں جمہوریت برقرار رکھ سکے اور کسی اور جنرل کو آمریت قائم کرنے کا موقعہ نہ مل سکے مگر ایسا نہیں ہوا۔ ملک میں بے اصولی اور مفاد پرستانہ سیاسی حکومتیں آئیں اور ابتدا ہی میں بھٹو صاحب نے اقتدار میں آ کر اپنی آمریت قائم کی اور اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ جمہوریت کے نام پر وہ سلوک کیا جو کبھی جمہوریت میں نہیں ہوتا جس کے نتیجے میں 1977 میں جنرل ضیا الحق کو مارشل لا لگانا پڑا تھا۔
جنرل ایوب خان سے جنرل پرویز مشرف کی آمرانہ قرار دی جانے والی حکومت میں سیاستدان شامل رہے۔ چوہدری پرویز الٰہی نے جنرل پرویز مشرف کے دور میں وزیر اعلیٰ پنجاب کا عہدہ سنبھالا تھا۔ جنرل ضیاالحق اور جنرل پرویز کو وردی میں صدر منتخب کرانے میں سیاستدانوں کا اہم کردار رہا۔ جمہوریت کے نام پر منتخب ہونے والے وزرائے اعظم نے خود کو بادشاہ سلامت بنا لیا اور جمہوریت کے نام پر ملک میں اپنی ذاتی آمریت مسلط رکھی اور ملک میں حقیقی جمہوریت کسی ایک بھی سیاسی وزیر اعظم نے قائم نہ ہونے دی۔ محمد خان جونیجو نے کچھ کوشش کی تو برطرف کر دیے گئے۔ 1988 سے 2024 تک ملک میں جتنے بھی عام انتخابات ہوئے وہ سب متنازع رہے اور سیاسی رہنما اپنے مفادات کے لیے برسر اقتدار سیاستدانوں کی ٹانگیں کھینچتے رہے اور مقتدر قوتوں کی سرپرستی سے اقتدار میں آئے اور بعد میں وہ بھی اپنے لانے والوں کو آنکھیں دکھانے لگتے تھے۔ ملک کو جو ترقی ملی اس میں بھی جنرلوں کے نام آئے مگر کسی سیاستدان کو تو تمغہ جمہوریت نہیں ملا مگر ایک جج نے اپنے پسندیدہ سیاستدان کو صادق اور امین قرار دینے کا فیصلہ ضرور دیا تھا جو ان کا کام ہی نہیں تھا۔
بھٹو سے عمران خان تک تمام وزرائے اعظم اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے اقتدار میں آئے اور پی ٹی آئی کے وزیر اعظم نے اقتدار میں آ کر جمہوریت کا جنازہ نکال دیا اور فخریہ طور پر اپنی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو ایک پیج پر قرار دیتے تھے۔ انھوں نے اپنے تمام مخالف سیاستدانوں پر مقدمات بنوا کر سب کو جیل میں ڈلوایا جو بعد میں کوئی ثبوت نہ ہونے پر عدالتوں سے بری ہوئے۔ پی ٹی آئی کی نام نہاد جمہوریت پونے چار سال ملک میں بدترین آمریت کی شکل میں قائم رہی اور وزیر اعظم نے اپنی حکومت میں اپنے مخالف سیاستدان حتیٰ کہ اپوزیشن لیڈر سے ملنا گوارا نہ کیا جو کبھی آمریت میں نہ ہوا وہ عمران خان نے اپنی حکومت میں کر دکھایا مگر جب دانشوروں نے انھیں سمجھانا چاہا تو وہ نہ مانے اور اپنے آمرانہ فیصلے کرتے تھے جو ان کی جمہوریت تھی۔ جمہوریت کے نام پر اپنے اقتدار میں آمریت قائم کرنے والے سیاسی وزیر اعظم اگر واقعی حقیقی جمہوریت پر یقین رکھنے والے اور جمہوریت پر عمل کرتے تو ملک کو آج اس بدنامی کا سامنا نہ ہوتا اور آمرانہ رجیم کی درجہ بندی میں پاکستان مسلسل نہ گرتا اور جمہوریت بھی مستحکم ہوتی مگر جمہوریت کے لبادے میں اپنے اپنے اقتدار میں اگر سیاسی رہنما ذاتی آمریت قائم نہ کرتے اور ایک دوسرے سے انتقام نہ لیتے تو جمہوریت حقیقی شکل میں عوام کو میسر آتی۔ ملک میں آمریت کے ذمے دار صرف آمر ہی نہیں نام نہاد جمہوری وزرائے اعظم اور مفاد پرست بے اصول سیاستدان بھی ہیں۔
محمد سعید آرائیں
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
Text
فردا نژاد ۔۔۔ آفتاب اقبال شمیم، جمع و ترتیب: یاور ماجد، اعجاز عبید
فردا نژاد آفتاب اقبال شمیم جمع و ترتیب: یاور ماجد، اعجاز عبید ڈاؤن لوڈ کریں پی ڈی ایف فائلورڈ فائلٹیکسٹ فائلای پب فائلکنڈل فائل مکمل کتاب پڑھیں ….. فردا نژاد آفتاب اقبال شمیم جمع و ترتیب: یاور ماجد، اعجاز عبید آدم زاد کی دعا زمیں کی تنگیوں کو اپنی بخشش سے کشادہ کر کہ سجدہ کر سکوں یہ کیا کہ میرے حوصلوں میں رفعتیں ہیں اور گرتا جا رہا ہوں اپنی فطرت کے نشیبوں میں تری کوتاہیوں میری انا…
View On WordPress
#آفتاب اقبال شمیم#اعجاز عبید#جمع و ترتیب: یاور ماجد#فردا نژاد#فردا نژاد ۔۔۔ آفتاب اقبال شمیم#فردانژاد#یاورماجد
0 notes
Text
نقد و بررسی باربی
باربی، آثار بینظیر کارگردانی گرتا گرویگ، نمادی از هنر و خلاقیت در صنعت سینماست. این فیلم به دست زرنگی گرویگ و همراهی نوآ بامباک، توانسته است دنیای هنر را به شگفتی بیاورد. گرتا گرویگ، با کارگردانی فیلمهای ممتازی چون "لیدی برد" محصول سال 2017 و "زنان کوچک" محصول سال 2019، میان دیگر هنرمندان این صنعت شهرت ویژهای کسب نموده است. این دو اثر سینمایی، با موفقیتهای بیشماری همراه بوده و توانستهاند جوایز اسکار را در دست گیرند. "باربی 2023"، اثری است که تهیهکنندگی آن به وسیله چندین هنرمند با استعداد به عهده گرفته شده است؛ از جمله دیوید هیمن، مارگو رابی، تام اکرلی و رابی برنر که به عنوان تهیهکنندگان اصلی این آثار، خلاقیت و زحمات خود را در این اثر نمایان کردهاند. همچنین، تدوین این اثر هنری به دست نیک هوی انجام شده که توانسته با حساسیت و توانمندی، این داستان را به صورت هنرمندانهای به تصویر بکشد. در ساخت این اثر، چندین استودیو ب��رگ از جمله کمپانیهای Heyday Films، LuckyChap Entertainment، NB/GG Pictures و Mattel Films، با هم همکاری نمودهاند و با تلاش مشترک، این اثر سینمایی را به پرتوی جلوههای بینظیری رسانیدهاند. این تلاشها موجب شده تا "باربی 2023"، به عنوان یک اثر خلاقانه و فراموشنشدنی، در دنیای هنر و سینما شناخته شود
0 notes
Text
معیشت : مفروضے اور ناکامیاں
دو حصوں پر مشتمل مضمون کا یہ پہلا حصہ ہے جو ملک کو درپیش موجودہ معاشی بحران کے بارے میں نہیں ہے۔ یہ وہ مقبول آرا ہیں جس کی ہر سو سرگوشیاں جاری ہیں۔ اور جیسا کہ بالکل واضح ہے موجودہ بحران کے فوری حل کے لئے جو بھی کوشش کی جائے گی وہ ہمیں مزید ایک بحران اور پھر مزید ایک اور بحران کی طرف لے جائے گی۔ ہماری قومی قیادت کا اولین کام یہ ہے کہ وہ ان حقائق کو پہچانیں جنہوں نے ملک کو بار بار پیش آنے والے ان حالات سے دو چار کیا اور خود کو ان مشکلات سے نکالنے کیلئے طویل راستہ اختیار کیا۔ ہمارے پاس بہت سے مواقع اور وسائل موجود ہیں لیکن کسی بھی قیادت کے لئے معاشی ڈھانچے کی ضروری تنظیم نو ایک مشکل اور سخت کام ہے۔ دائمی تجارتی اور مالیاتی خسارے سے دو چار یہ ملک قرضوں کے بہت زیادہ بوجھ، کھانے اور روزگار کے مواقع کی منتظر تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی، سمجھ میں نہ آنے والی مذہبی مداخلت، خود غرضی قلیل مدتی رویے اور بھوکے اور حق رائے دہی سے محروم لوگوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ ہماری مختلف قیادتوں میں آج تک سچائی سے پردہ اٹھانے کے لئے درکار اعتماد، ہمت یا ایمانداری کے ساتھ ساتھ عبوری مشکلات سے نمٹنے کے لئے درکار صبر کی کمی بھی پائی جاتی ہے لیکن بہرحال بحالی کا کٹھن سفر شروع ہونا چاہیے ورنہ بصورت دیگر پاکستان ایک ناکام ریاست کی کھائی میں گرتا رہے گا۔
ان خامیوں میں سے پہلی یہ ہے کہ میں حال ہی میں استعمال ہونے والی اصطلاح کو اجاگر کرنا چاہتا ہوں جو یہ ہے کہ : اگر آئی ایم ایف سے ہونے والا معاہدہ ناکامی سے دو چار ہوا تو پیسہ نہیں آئے گا اور پاکستان برباد ہو جائے گا۔ یہ غلط ہے۔ جو رقم آئی ایم ایف اور دوست ممالک سے آتی ہے، تو اگر اور جب بھی آئی ایم ایف معاہدہ ہو جائے تو وہ آمدنی ہرگز نہیں ہے۔ یہ وہ قرضے ہیں جو قوموں کے مستقبل کو کھا جاتے ہیں۔ یہ منطقی طور پر واضح ہے کہ اگر ہماری برآمدی آمدن ہماری موجودہ درآمدات اور قرض کی سروسز کی موجودہ ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ناکافی ہے تو نئے قرضے صرف ملک کے مستقبل کو قرضوں کے گرداب میں پھنسانے اور ہماری کھپت کو مزید کم کرنے کا سبب بنیں گے۔ جب تک ہماری برآمدات میں اضافہ نہیں ہوتا ہمیں مزید قرضے لینے کے بجائے درآمدات کو روک کر اپنی چادر کے مطابق پائوں پھیلانے چاہئیں۔ ایک اور دیرینہ بیانیہ یہ رہا ہے کہ : متبادلات کی درآمدات ایک حل ہے کیونکہ یہ ہماری غیر ملکی کرنسی کی ضرورت کو کم کرتی ہے اور مقامی سطح پر روزگار کے مواقع پیدا کرتی ہے۔ یہ بھی غلط ہے۔ یہی وہ عقیدہ ہے جو پچھلے 70 سالوں سے ہماری صنعت کاری کی ساخت پر حاوی رہا ہے اور ہمیں کیا دیکھنے کو ملا؟
تیار شدہ اشیا کا ناقص معیار ایک طرف عالمی معیار سے مطابقت نہیں رکھتا اور دوسری طرف غیر ملکی کرنسی کے قرضوں کا بوجھ بڑھتا گیا۔ یہ واضح رہے کہ یہ سوچ ہمارے لئے اچھی ثابت نہ ہو سکی۔ بہرحال ہم جو زیادہ تر اشیا تیار کرتے ہیں ان میں بھی درآمدی مواد موجود ہوتا ہے، چاہے وہ پلانٹ اور مشینری ہو یا خام مال یا رائلٹی کی ادائیگی وغیرہ کا معاملہ ہو۔ بڑھتی ہوئی آبادی اور اس کے نتیجے میں درآمدی متبادل مصنوعات کی طلب کے سبب ان اجزا کی درآمدات نے درآمد نہ کر کے بچائے گئے زرمبادلہ کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ تیسرا عقیدہ : حکومت کو ذمہ دار ٹھہرانا ہے جیسا کہ تاجر برادری کا خیال ہے اپنی درآمدی متبادل ضروریات کے لئے غیر ملکی کرنسی کی کمی کے لئے۔ یہ بھی غلط ہے کاروباری مالکان روایتی طور پر اپنی اہلیت کی پیمائش مقامی صارفین کو اپنی مصنوعات کی کامیابی کے ساتھ فروخت اور اس کے نتیجے میں ہونے والے منافع کے لحاظ سے کرتے ہیں اس طرح ان کے پاس مقامی کرنسی کی استعداد ہوتی ہے جس سے وہ اپنے اخراجات کی ادائیگی کر سکتے ہیں پھر چاہے وہ مقامی ہو یا درآمدی، وہ اپنی درآمدی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے غیر ملکی آمدن پیدا کرنے کو اپنی ذمہ داری تصور نہیں کرتے وہ یہ تصور کرتے ہیں کہ اسے مارکیٹ میں دستیاب ہونا چاہئے یا حکومت کو اس کی دستیابی یقینی بنانی چاہئے۔
لیکن حکومت برآمدکنندہ نہیں ہے اور نہ ہی اسے غیر ملکی آمدنی حاصل ہوتی ہے متحمل مزاج والدین کی طرح یہ درآمدکنندہ کو غیر ملکی کرنسی کی فراہمی کے لئے بیرونی ذرائع سے قرض پر انحصار کرتی ہے اس کا نتیجہ وہی نکلتا ہے جو ہم دیکھتے ہیں کہ غیر ملکی قرضوں کا بوجھ بڑھتا جاتا ہے اب وقت آ گیا ہے کہ حکومت واشگاف الفاظ میں بتائے کہ وہ اس بات کی متحمل نہیں ہو سکتی کہ اسے غیر ملکی کرنسی کی فراہمی کا آخری سہارا تصور کیا جائے کاروباری برادری کو اپنی درآمدی ضروریات کے لئے غیر ملکی کرنسی کمانے یا اس کا بندوبست کرنے کی اپنی ذمہ داری کوپہچاننا چاہئے۔ خاص طور پر یہ چوتھا عقیدہ رائج ہے ہمیں بلاامتیاز براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کی کوشش کرنی چاہئے کیونکہ یہ معیشت کو اضافہ بخشے گی اور غیر ملکی کرنسی کے خسارے کو کم کرے گی خسارے میں چلنے والے سرکاری ادا��وں کی غیر ملکی سرمایہ کاروں کو فروخت بھی فائدہ مند ہے۔ غلط۔ غیر ملکی سرمایہ کار بجا طور پر اپنی آمدن غیر ملکی کرنسی میں واپس بھیجنے کی توقع رکھتے ہیں اور ان کی متوقع وصولی کی شرح (20 فیصد سالانہ) دراصل غیر ملکی قرض دہندگان کو قابل ادائیگی سود کی شرح (5 فیصد سالانہ ) سے کہیں زیادہ ہے اگر بنیادی منصوبہ بڑی حد تک مقامی مارکیٹ میں قابل عمل ہوتا ہے تو اس کی آمدنی پاکستانی روپے میں ہو گی یہ منصوبہ جتنا زیادہ کامیاب ہو گا اتنا ہی زیادہ روپے میں منافع ہو گا اور منافع کی غیر ملکی کرنسی میں واپسی کا حجم بھی اتنا ہی زیادہ ہو گا سرکاری اداروں کو غیر ملکی مالکان کے حوالے کرنے کا نتیجہ بھی یہی نکلے گا۔
یہ غلط پالیسیوں اور غلط مفروضوں کے حوالے سے دو حصوں پر مشتمل مضمون کا دوسرا حصہ ہے جس نے ہماری قومی معیشت کو تباہی سے دوچار کیا ہے اور ہمیں وقتاًفوقتاً ایسے بحرانوں کی طرف لے جانے کے ذمہ دار ہیں جس میں ڈونرز کی مسلسل مداخلت اور اس کے نتیجے میں قرضوں کا بڑھتا ہوا پہاڑ شامل ہے۔ یہاں میں چار مزید بنیادی غلطیوں کو بیان کروں گا جو ہمیں اس مقام تک لے آئی ہیں اور جن غلطیوں کی اصلاح ضروری ہے۔ سب سے پہلے میں اس بات پر روشنی ڈالنا چاہتا ہوں کہ جس جی ڈی پی کو اس حساب میں بطور ڈینومیینیٹر استعمال کیا جاتا ہے تو بلند افراط زر کے ماحول میں قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے اور اس وجہ سے یہ ایک گمراہ کن ڈینومینیٹر ہو سکتا ہے۔ دوسرا غیر ملکی قرضوں کے حوالے سے اس بات کا تعین کیا جاتا ہے کہ آیا قرض لینے والے نے بہت زیادہ قرض لیا ہوا ہے یا نہیں تاکہ اس بات کا اندازہ لگایا جاسکے کہ آیا اس کے پاس قرض کی ادائیگی کرنے کیلئے درکار غیر ملکی آمدنی ہے یا نہیں۔ درحقیقت ہماری درآمدات ہماری برآمدات سے زیادہ ہیں جس کی وجہ سے ہم خسارے میں رہتے ہیں 1960ء کی دہائی سے ہمارے پاس غیر ملکی قرض یا ایف ڈی آئی کے اخراجات پورے کرنے کی کوئی صلاحیت نہیں ہے۔
ایک اور غلطی جو یکے بعد دیگرے حکومتوں نے کی وہ یہ ہے کہ مقامی اخراجات جو کہ روپے میں ہوتے ہیں ان کےعوض غیر ملکی کرنسی میں قرض لیتے ہیں ایسے قرضوں کی فراہمی غیر ملکی قرضوں میں اضافے کا ایک اور ذریعہ ہے یوں پاکستان غیر ملکی قرضوں کے جال میں پھنس گیا ہے۔ چھٹا غلط مفروضہ یہ ہے کہ مہنگائی میں اضافہ غیر ملکی درآمدات کی بین الاقوامی قیمتوں میں اضافے اور روپے کی قدر میں کمی کا نتیجہ ہے جسے ہم کنٹرول نہیں کر سکتے یہ غلط بھی ہے اور خطرناک بھی، اصل میں روپے کی قدر میں گراوٹ اور افراط زر میں اضافے کی وجہ مرکزی بینک یعنی اسٹیٹ بینک آف پاکستان ہے۔ اس کے نتیجے میں مالیاتی خسارے کو چلانے کے حکومتی رجحان کو روکنے میں ناکامی ہوئی جس نے رقم کی فراہمی میں تیزی سے اضافہ کیا۔ اس نے اس براہ راست حکومت کو قرض دے کر اور حکومت کیلئے بینکوں سے بلاروک ٹوک قرضہ لینے کیلئے درکھلے چھوڑ کر اس عادت کو آسان بنایا۔ قرض دے کر بینک اور مرکزی بینک دونوں رقم کی فراہمی میں اضافہ کرتے ہیں چونکہ اسٹیٹ بینک نے حکومت کو بینکوں اور خود اسٹیٹ بینک سے قرض لینے سے نہیں روکا تو اس لئے اسٹیٹ بینک ہی رقم کی فراہمی افراط زر اور روپے کی قدر میں گراوٹ کا ذمہ دار ہے۔
اگر اسٹیٹ بینک نے حکومت کو محدود رکھا ہوتا اور اس کا رخ اپنے قرض لینے کی ضروریات بالخصوص انفرادی بچت کرنے والوں اور غیر بینکوں کی ادارہ جاتی بچت کرنے والے اداروں کی طرف موڑ دیا ہوتا تو اس سے ناصرف حکومت کے اخراجات پر پابندی لگ جاتی بلکہ اضافی سرکاری اخراجات سے پیدا ہونے والی رقم کی فراہمی میں بھی اضافہ نہ ہوتا اور ہم نے جائیداد اور گاڑیوں میں بچت کے ذریعے رقم کی سپلائی میں بیش بہا اضافہ نہ دیکھا ہوتا اور خوراک، جائیداد اور گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافے سے گریز کیا ہوتا تو سرمایہ کم مارجن کے حامل کاروبار سے جائیداد اور پائیدار سرمایہ کاری کی طرف منتقل نہیں کیا جاتا۔ کسی بھی خاندان یا کاروباری بجٹ کا صحت مند نقطہ نظر یہ ہو تا ہے کہ حقیقت پسندانہ طور پر اس کی آمدنی کی پیشں گوئی پہلے کی جائے کسی قسم کا اضافی قرض لینے کا سوچا تک نہ جائے (جو بہرحال کھپت کوسہارا دیتا ہے) اور آمدنی کی پیش گوئی کے اندر رہتے ہوئے سرکاری اخراجات کے حجم کو کم کیا جائے اس سے حکومت کے حجم کو کم کرنے اور پیداواری اقدامات کی بنیاد پر انفرادی اخراجات سے حاصل ہونے والے فائدے کی پیمائش پر مبنی سرگرمیوں کیلئے رقم کو ترجح دینے کی سخت ضرورت کا پتہ چل جاتا ہے۔
ناقابل برداشت سرکاری اخراجات نے حکومت کو درآمدی ڈیوٹی محصولات کو برقرار رکھنے اور بڑھانے کا عادی بنا دیا ہے۔ ہماری حکومت کے اس عادت سے فائدہ اٹھانے سے صنعتوں کیلئے بین الاقوامی سطح پر مسابقتی برآمدکنندگان بننے کے پیمانے اور مصنوعات کے معیار کو بڑھانے کی ضرورت ختم ہو گئی ہے۔ ایک اور بے ضابطگی جس کا نتیجہ برآمد ہوا ہے وہ یہ ہے کہ درآمدکنندگان کیلئے موثر شرح مبادلہ وہ ہے جس کا نتیجہ درآمدی ڈیوٹی کی شرح کو مارکیٹ ایکسچینج ریٹ میں شامل کرنے سے ہوتا ہے پھر بھی برآمدکنندگان اپنی وطن واپسی پر یہ موثر زرمبادلہ حاصل نہ کر کے برآمدات کی غیر مسابقتی قیمتوں کے تعین پر مجبور ہیں۔پھر یہ کہ پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی کو روکنا کوئی ایسا معاملہ نہیں ہے۔ پاکستان کی آبادی 25 سال میں 35 کروڑ تک پہنچنے کی توقع ہے اس خطرناک پیش گوئی نے میری کئی راتوں کی نیندیں حرام کر دیں ہماری معیشت کا حجم کم ہے مستقبل میں آبادی میں ہونے والے اضافے کو تو چھوڑ دیں یہاں تک کہ تمام درست حکمت عملیوں کے ساتھ بھی یہ معیشت ہماری موجودہ آبادی کو کوئی چیز فراہم نہیں کرسکتی۔ میں نے دیگر اہم شعبوں جیسے زراعت، تعلیم ، ہنرمندی وغیرہ کا احاطہ کرنے کی کوشش نہیں کی اور مجھے یقین ہے کہ میرے قارئین کے پاس مزید اچھی اور فائدہ مند تجاویز بھی ہوں گی میرا نکتہ صرف عقائد اور اطراف کی چیزیں حاصل کرنے سے ہے، ٹھیک ہے باقی چیزیں خودبخود ٹھیک ہونا شروع ہو جائیں گی۔
عامر خان
( صاحب مضمون مشرق وسطیٰ ، مشرق بعید، افریقہ اور یورپ کی منڈیوں کے حوالے سے ایک سینئر بین الاقوامی بینکارہیں )
بشکریہ روزنامہ جنگ
1 note
·
View note
Photo
شریف خاندان بے شک اللہ کی پکڑ میں ھے انکا ہر جھوٹ انکے اوپر آکر گرتا ھے عمران خان کی اہلیہ پہ توشہ خانہ کے الزام لگانے والوں بیگم کلثوم نواز نے جو 5 کروڑ کا ہار اور انگوٹھی رکھی عمران خان یہ جانتے تھے پھر بھی آج تک جواب نہیں دیا ...!!#ToshaKhana #مائنڈگیم_ماسٹر_عمران_خان #مریم_گھڑی_چور #مریم_گھڑی_چور_نکلی #مریم_سائیکو_پیتھ_عورت #مریم_سائیکو_پیتھ_عورت #چور_باپ_کی_چور_بیٹی #چوروں_سےحقوق_لینےہونگے #چ��روں_کی_ملکہ_مریم (at Dammam, Saudi Arabia) https://www.instagram.com/p/Cps7vdTIFkd/?igshid=NGJjMDIxMWI=
#toshakhana#مائنڈگیم_ماسٹر_عمران_خان#مریم_گھڑی_چور#مریم_گھڑی_چور_نکلی#مریم_سائیکو_پیتھ_عورت#چور_باپ_کی_چور_بیٹی#چوروں_سےحقوق_لینےہونگے#چوروں_کی_ملکہ_مریم
0 notes
Text
پاکستان دیوالیہ نہیں ہو گا
ہم سب مسلمانوں کو اس بات کا یقین ہے اور یہ ہمارے ایمان کا اہم حصہ ہے کہ دنیا کے تمام معاملات حکم الٰہی کے تابع ہیں۔ ہمیں یہ یقین کیوں نہ ہو کہ اللّٰہ کریم نے خود قرآن کریم کی سورۃ یٰسین کی آخری آیات میں فرمایا ہے کہ جب وہ یعنی اللّٰہ پاک جس کام کا ارادہ فرماتا ہے تو کہہ دیتا ہے کہ ہو جاتو وہ کام ہو جاتا ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ اس کے حکم کے بغیر دنیا میں ایک پتا بھی نہیں ہل سکتا۔ وہ کبھی عام انسان کی خواہش پر فیصلے نہیں کرتا۔ وہ دنیا کا نظام اپنی حکمت اور مرضی سے چلاتا ہے۔ انسان جتنی مرضی کوششیں کر لے لیکن ہونا وہی ہوتا ہے جو اللّٰہ کریم چاہتا ہے۔ اسلئے ہم سب مسلمانوں کو چاہئے کہ بلندبانگ دعوے، بڑھکیں مارنے اور اس اسلامی مملکت کیخلاف ناکام سازشیں کرنے اور پروپیگنڈہ کرنےسے باز رہیں۔ ورنہ انجام ناکامی وبربادی کے سوا کچھ نہیں۔ ذرا سوچئے اور اس پر غور کریں کہ جب اس مملکت اسلامی پاکستان کیلئے جان کی قربانی دینے والوں کو اللّٰہ کریم شہادت کا عظیم رتبہ عطا فرماتا ہے تو پھر اس اسلامی ریاست کے خلاف اور اپنے ذاتی یا سیاسی مفادات کیلئے ناجائز پروپیگنڈا اور سازشیں کرنے والوں کی سزا بھی کتنی بڑی ہو گی لیکن دنیا، پیسہ اور اقتدار کیلئے اندھے لوگ اس دو روزہ زندگی کو ہی سب کچھ سمجھتے ہیں۔
اس وقت بلاشبہ پاکستان نہایت مشکل وقت سے گزر رہا ہے۔ معاشی مشکلات ہیں۔ مہنگائی، بے روزگاری ہے اور پھر دہشت گردی کے عفریت نے منہ کھول لیا ہے۔ کیا کسی پاکستانی کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ ایسے حالات میں سیاسی عدم استحکام پھیلانے کی کوششیں کرے اور ملک کے دیوالیہ ہونے کا پرچار کرے؟ غور تو ہم سب کواس پرکرنا چاہئے کہ ہم اس مملکتِ خداداد کو ان مشکلات سے کیسے نکال سکتے ہیں؟ سیاست، اقتدار، الیکشن وغیرہ توتب کی بات ہیں جب ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام ہو۔ اسی شاخ کو کاٹنا جس پرآپ بیٹھے ہوں کہاں کی عقلمندی ہے۔ ایسی صورت میں اس شاخ کو کاٹنے والا ہی گرتا ہے اور نقصان اسی کا ہوتا ہے۔ ’’ اشرافیہ‘‘ کا اس وقت فرض بنتا ہے اور ان ��ر واجب بھی ہے کہ ملک کو مزید کمزور کرنے اور قو م کو مایوس کرنے اور ڈرانے کے بجائے سب مل بیٹھیں اور ان نکات پر غور کر کے اقدامات کریں کہ ہمارا یہ گھر موجودہ مشکل حالات اور بحرانوں سے نکل کر خوشحالی کی طرف گامزن ہو جائے۔ مثال کے طور پر سب سے پہلے اپنے آپ سے ابتدا کی جائے۔
شریف فیملی جواس وقت برسر اقتدار بھی ہے، ایک معقول رقم قومی خزانے میں جمع کرا دے۔ آصف علی زرداری، عمران خان، چوہدری برادران اور مولانا فضل الرحمان سمیت تمام سیاستدان بھی ایسا ہی کریں اور قوم کو بتا دیں کہ انہوں نے کتنا کتنا پیسہ قومی خزانے میں جمع کرا دیا ہے۔ اسی طرح صنعت کار چھوٹے بڑ ے بھی اپنے اپنے لیول کے مطابق ایمانداری سے پیسے قومی خزانے میں جمع کرا دیں۔ بیوروکریسی، جج صاحبان اور جرنیل صاحبان بھی اپنی تنخواہوں اور مراعات میں معقول کٹوتی کروائیں۔ ہائوسنگ کے شعبہ سے منسلک افراد کے علاوہ ہر شعبۂ زندگی سے تعلق رکھنے والے صاحب استطاعت افراد اس ملک کیلئے قربانی دیں۔ اور ہر پاکستانی اللّٰہ پاک اور اپنے آپ سے عہد کرے کہ وہ اپنا کام مکمل ایمانداری سے کرے گا۔ الیکشن کو ملتوی کیا جائے۔ ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے اور گرانے کی مذموم کوششیں ترک کر دیں۔ باہمی پیارومحبت اور یگانگت کورواج دیں۔ غیر ضروری اخراجات سے اجتناب کا راستہ اختیار کیا جائے۔ مخالفت برائے مخالفت اور انتقام کے ذریعے سیاسی مخالفین کو ذلیل ورسوا کرنے کے اقدامات اور رویے کو ہمیشہ کیلئے دفن کیا جائے۔
ملک میں صنعتیں چلانے اور ایکسپورٹ پر فوری توجہ دی جائے۔ بجلی اور گیس کی بچت کیلئے دکانداروں سمیت ہر پاکستانی سورج کی روشنی سے استفادہ کرے جو اللّٰہ کریم نے نعمت کی صورت میں ہم سب کو عطا فرمائی ہے۔ دکاندار، ہوٹل مالکان، پیٹرول پمپ مالکان، شادی ہال اور گھریلو صارفین دن کے اوقات کارکے سلسلے میں بخوشی تعاون کریں۔ حکومت چھوٹے بڑے کارخانوں اور زراعت کو ترقی دینے کیلئے فوری اقدامات کرے۔ کسانوں کو سہولتیں فراہم کرے۔ جو اشیا ملک کے اندر تیار ہو سکتی ہیں ان کی تیاری کیلئے اقدامات کئے جائیں اور ان اشیا کی امپورٹ پر پابندی لگائی جائے۔ تعیش والی تمام اشیا کی امپورٹ بند کی جائے۔ ملک کے اندر چیزیں تیار کرنے کی حوصلہ افزائی کی جائےاور معیار کی سخت پابندی کی جائے۔ اس طرح کے فوری اقدامات سے یقینی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ نہ ہمیں آئی ایم ایف وغیرہ کی ضرورت رہے گی نہ ہی کسی اور سے قرضے اور امداد کی ضرورت ہو گی۔ جہاں تک پاکستان کے دیوالیہ ہونے کی بات ہے تو یہ باتیں کرنیوالے خود ذہنی دیوالیہ پن کا شکار ہیں۔
پاکستان اللّٰہ کریم کا عطیہ ہے۔ اس ملک کو بنانے کیلئے بڑی قربانیاں دی گئی ہیں۔ آج کی نسل کو کیا معلوم کہ بٹوارے کے وقت کس طرح مسلمان شہید کئے گئے۔ کس طرح بچوں اور بڑوں کا قتل عام ہوا۔ کس طرح خواتین کی عزتیں پامال کی گئیں۔ کتنی جوان لڑکیوں کو ہندوئوں اور سکھوں نے اغوا کر کے ان سے زبردستی شادیاں کیں اور ان کو مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیا گیا۔ کتنے بچے یتیم ، بے شناخت اور لاوارث ہو گئے تھے۔ آج چند لوگ عیاشیاں کرتے اور پاکستان کے ٹھیکیدار بنے ہوئے ہیں۔ یہ ملک اللّٰہ پاک کی طرف سے مسلمانوں کیلئے عطیہ و نعمت ہے۔ کفرانِ نعمت کرنیوالے کبھی سکون میں نہیں رہ سکتے ۔ نہ پاکستان ڈیفالٹ کرے گا نہ کوئی اس ملک کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اس ملک کی حفاظت اللّٰہ تعالیٰ کرے گا۔ یہ مشکل دور بھی ختم ہو جائے گا۔ جیسے کہ پاکستان بننے کے بعد مشکلات تھیں جو اللّٰہ رحیم نے ختم کیں۔ شیطانی پروپیگنڈا کرنے اور ملک میں عدم استحکام پیدا کرنے والوں کو عبرتناک انجام سے دوچار ہونا پڑے گا اور پاکستان قائم رہے گا۔ ان شاءاللّٰہ۔
ایس اے زاہد
بشکریہ روزنامہ جنگ
#Asif Zardari#Economy#Imran Khan#Pakistan#Pakistan Economy#Pakistan Politics#PTI#Shahbaz Sharif#World
0 notes
Text
شاہین کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا
Shaheen Kabi Parwaz say Thak kr nahin girta.
Dr Alama Muhammad Iqbal
#urdupoetry#urdu#poetry#shayari#love#urdushayari#urduquotes#urduadab#pakistan#urdupoetrylovers#instagram#lovequotes#quotes#urduposts#hindishayari#urdulovers#poetrycommunity#follow#shayri#hindipoetry#hindiquotes#lahore#shayar#hindi#sad#urdulines#shayarilover#ishq#poetrylovers#kara
0 notes
Text
مجھ کو بہتر ھے کہ پتھر کی مثالیں مت دو
وہ بھی جب ٹُوٹ کے گرتا ھے بکھر جاتا ھے
3 notes
·
View notes
Photo
قاسم شاہ اب کبھی کسی کو لیکچر نہیں دے گا 😂 جہاں بھی جائے گا گرتا جائے گا 😅😅 توں ساڈے مرشد نال پنگا لیا اسی تینو ننگا کر دیتا چل میرا پتر اگلا لا ہون #qasimalishah (at Karachi, Pakistan) https://www.instagram.com/p/Cng0hAYrd1Z/?igshid=NGJjMDIxMWI=
1 note
·
View note
Text
"' وہ جو اپنے دنوں میں آپ سے ملنے کی آرزو کرتا ہے اور جب آپ دور ہوتے ہیں تو آسمان کی طرف دیکھتا ہے۔ جس کی دنیا آپ کی مسکراہٹ سے جگمگا اٹھتی ہے اور جس کا تباہ شدہ گھر آپ کی آواز اور قریب آنے والے قدموں سے گرم گھر بن جاتا ہے۔ جو جب بھی آپ کی آنکھوں میں دیکھتا ہے گہرائی میں گرتا ہے۔ جو آپ کی ہر خواہش پوری کرنے کے لیے اپنے آپ کو منتشر کرتا ہے۔ "
" he who longs to meet you through his days and looks at the sky when you are away. whose world lights up with your smile and whose ruined house turns into a warm home with your voice and approaching footsteps. who falls deeper every time he looks into your eyes. who dishevells himself to fulfill your every whim. "
~ postcardswithoutanaddress
#nizar qabbani#mahmoud darwish#ghassan kanafani#ghada as saman#quotes#love quotes#aestethic#book quotes#aestheitcs#love#dead poets aesthetic#vintage aesthetic#writers on tumblr#dark academism#arabic proverb#arabic quotes#arabic poetry#my words#my queen#turkish poetry#urdu poetry#faiz ahmed faiz#ahmad faraz#parveen shakir#urdu quote
88 notes
·
View notes
Text
مصری پاؤنڈ گرتا ہے کیونکہ یوکرین جنگ ڈالر کی پرواز کا اشارہ کرتی ہے | روس یوکرین جنگ کی خبریں۔
مصری پاؤنڈ گرتا ہے کیونکہ یوکرین جنگ ڈالر کی پرواز کا اشارہ کرتی ہے | روس یوکرین جنگ کی خبریں۔
کرنسی پر ہفتوں کے دباؤ کے بعد مصر کے پاؤنڈ کی قدر میں تقریباً 14 فیصد کمی ہوئی ہے کیونکہ یوکرین پر روس کے حملے کے بعد غیر ملکی سرمایہ کاروں نے مصری خزانے کی منڈیوں سے اربوں ڈالر نکال لیے تھے۔ پیر کو پاؤنڈ ڈالر کے مقابلے میں 18.17-18.27 تک گر گیا، Refinitiv کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ نومبر 2020 سے ڈالر کے مقابلے میں تقریباً 15.7 پاؤنڈ ٹریڈ کرنے کے بعد۔ اس کا غریب اور متوسط طبقے کے مصریوں…
View On WordPress
0 notes
Photo
۱۸ سپتامبر زادروز #گرتا #گاربو بازیگر و معمار سوئدی گرتا گاربو (به سوئدی: Greta Garbo) با نام کامل گرتا لوویسا گوستافسون (به سوئدی: Greta Lovisa Gustafsson) (زاده ۱۸ سپتامبر ۱۹۰۵ - درگذشته ۱۵ آوریل ۱۹۹۰) ستاره سرشناس سوئدی سینمای هالیوود بود. اولین فیلم خود را در سال ۱۹۲۰ با نام «آقا و خانم استکهلم» بازی کرد. پس از شش سال بازی در فیلمهای سوئدی توسط مسئولان کمپانی مترو گلدوین مایر دیده شد و سرانجام در سال ۱۹۲۶ به آمریکا رفت. اولین فیلم هالیوودی او «سیلاب» نام داشت که درخشان ظاهر شد و با ایفای نقش در فیلم «��غواگر» به کارگردانی فرد نیبلو منتقدین سینما را کاملاً به ظهور یک ستاره بیبدیل امیدوار کرد. «جسم و شیطان» به کارگردانی کلارنس براون اوج شکوفایی گاربو بود. بسیاری این فیلم را از بهترین فیلمهای دوران صامت سینما میدانند. زوج هنری گیلبرت و گاربو از این فیلم شکل گرفت. فیلم «زن الهی» با بازی گرتا و کارگردانی ویکتور شوستروم سوئدی در سال ۱۹۲۸ به دلیل خوشساخت بودن بسیار مورد توجه قرار گرفت. او دههٔ ۳۰ را با فیلم «آنا کریستی» بر اساس نمایشنامهای از یوجین اونیل آغاز کرد. در سال ۱۹۳۱ در کنار کلارک گیبل جوان در فیلم «ظهور و سقوط سوزان لیناکس» به کارگردانی رابرت زی. لنرد قرار گرفت. گرتا از سبک خشن بازی گیبل خوشش نیامد. یک بار دیگر در فیلم اسکار گرفته و زیبای «گراند هتل» در سال ۱۹۳۲ با جوان کرافورد ستاره دیگر آن زمان هالیوود همبازی شد و با اینکه هیچ صحنهای را در کنار هم نبودند ولی از ساخت فیلم راضی نبودند و از اینجا بود که گاربو تنها بازیگری شد که کارگردان و بازیگران روبروی فیلمهایش را خود انتخاب میکرد. دقت در انتخاب فیلمها در آن زمان بسیار کم بود ولی گاربو از معدود بازیگرانی بود که کم فیلم بازی میکرد ولی گزیده. در دههٔ ۳۰ فقط در شاهکارهای این دهه ایفای نقش کرد. سهگانههای تاریخی او بسیار مشهور هستند. در سال ۱۹۳۳ در «ملکه کریستینا» روبن مامولیان در کنار جان گیلبرت و در نقش ملکه کریستینا، در سال ۱۹۳۵ در تراژدی «آناکارنینا» کلارنس براون در کنار فردریک مارچ و در نقش آنا کارنینا و بالاخره در شاهکار عاشقانهٔ جرج کیوکر یعنی «کمیل» در سال ۱۹۳۶ در کنار رابرت تیلور و در نقش مارگریت. تراژدی فیلم کمیل پس از سالها از ساخت فیلم هنوز مثال زدنیست. مرگ مارگریت در آغوش معشوقش آرماند از اشکآورترین لحظههای تاریخ سینماست. هفتمین و آخرین همکاری گرتا با کلارنس براون کارگردان، فیلمِ فتح در سال ۱۹۳۷ است که داستان ماری والفسکا میباشد(ادامه کامنت اول) https://www.instagram.com/p/CFSgCkAHGfz/?igshid=ic38w51yt2kb
0 notes