#صحافیوں
Explore tagged Tumblr posts
Text
مولانا فضل الرحمن کا پیکاقانون کیخلاف صحافیوں کی حمایت کا اعلان
جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے پیکا قانون کے خلاف صحافیوں کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ اسلام آباد میں مولانا فضل الرحمان نے صحافیوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سیاست دانوں کو ملک کے نظام سے بے دخل کیا جا رہا ہے،پارلیمنٹ کے کردارکو ختم کیا جارہا ہے،جمہوریت اپنامقدمہ ہاررہی ہے،سیاسی جماعتوں کو غیر مؤثر کیا جائے گا تو پھرمعاملات کہاں تک جائیں گے۔ مولانا فضل الرحمن کاکہنا تھا…
0 notes
Text
صحافیوں کیخلاف کریک ڈاؤن پنجاب پولیس کا بیان بھی جاری اصل حقیقت سامنے آگئی
(ویب ڈیسک)سوشل میڈیا پر آن لائن دعویٰ زیر گردش ہے جس میں کہا گیا کہ پنجاب پولیس کی جانب سے صحافیوں اور رپورٹز کے خلاف کریک ڈاؤن کا فیصلہ کیا گیا ہے، جو پریس کلب یا میڈیا اداروں کے ساتھ رجسٹرڈ نہیں ہیں۔ تفصیلات کے مطابق مذکورہ دعویٰ 24 اکتوبر کو فیس بک پر ایک صارف نے کیا، اس نے پوسٹ میں صوبہ پنجاب کے انسپکٹر جنرل پولیس ڈاکٹر عثمان انور کی تصویر کے نیچے تحریر لکھی تھی کہ” پنجاب پولیس زندہ باد،…
0 notes
Text
’مغربی میڈیا غزہ میں اپنے صحافی ساتھیوں کو بھی کم تر سمجھ رہا ہے‘

عالمی میڈیا جیسے بی بی سی، سی این این، اسکائے نیوز اور یہاں تک کہ ترقی پسند اخبارات جیسے کہ برطانیہ کے گارجیئن کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ان کی ساکھ خراب ہوتی جارہی ہے۔ گزشتہ ماہ حماس کے اسرائیل پر حملے کے نتیجے میں تقریباً 400 فوجیوں سمیت 1200 اسرائیلی ہلاک ہوئے تھے۔ اس کے بعد اسرائیل کی جانب سے آنے والے غیر متناسب ردعمل کے حوالے سے ان صحافتی اداروں کی ادارتی پالیسی بہت ناقص پائی گئی۔ حماس کے عسکریت پسند اسرائیل سے 250 کے قریب افراد کو یرغمالی بنا کر اپنے ساتھ غزہ لے گئے کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ انہیں اسرائیلی جیلوں میں قید 8 ہزار فلسطینیوں میں سے کچھ کی رہائی کے لیے ان یرغمالیوں کی ضرورت ہے۔ اسرائیلی جیلوں میں قید ان فلسطینیوں جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں، ان میں ایک ہزار سے زائد قیدیوں پر کبھی کوئی الزام عائد نہیں کیا گیا۔ انہیں صرف ’انتظامی احکامات‘ کی بنیاد پر حراست میں لیا گیا بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ انہیں یرغمال بنا کر رکھا گیا ہے۔ غزہ شہر اور غزہ کی پٹی کے دیگر شمالی حصوں پر اسرائیل کی مشتعل اور اندھی کارپٹ بمباری میں 14 ہزار فلسطینی مارے گئے ہیں جن میں سے 60 فیصد سے زیادہ خواتین اور بچے تھے جبکہ امریکی قیادت میں مغربی طاقتوں نے اسرائیل کی جانب سے کیے گئے قتل عام، یہاں تک کہ نس�� کشی کی یہ کہہ کر حمایت کی ہے کہ وہ اپنے دفاع کے حق کا استعمال کررہا ہے۔
افسوسناک طور پر ان صحافتی اداروں میں سے بہت سی تنظیموں نے اپنی حکومتوں کے اس نظریے کی عکاسی کی جس سے یہ تاثر دیا گیا کہ مشرق وسطیٰ کے تنازع کی ابتدا 7 اکتوبر 2023ء سے ہوئی نہ کہ 1948ء میں نکبہ سے کہ جب فلسطینیوں کو ان کی آبائی سرزمین سے بڑے پیمانے پر بے دخل کیا گیا۔ چونکہ ان کی اپنی حکومتیں قابض اسرائیل کے نقطہ نظر کی تائید کر رہی تھیں، اس لیے میڈیا اداروں نے بھی اسرائیلی پروپیگنڈے کو آگے بڑھایا۔ مثال کے طور پر غزہ میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد کو لے لیجیے، ان اعداد و شمار کو ہمیشہ ’حماس کے زیرِ کنٹرول‘ محکمہ صحت سے منسوب کیا جاتا ہے تاکہ اس حوالے سے شکوک پیدا ہوں۔ جبکہ ایمنسٹی انٹرنیشنل سے لے کر ہیومن رائٹس واچ اور غزہ میں کام کرنے والی چھوٹی تنظیموں تک سب ہی نے کہا کہ حماس کے اعداد و شمار ہمیشہ درست ہوتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جن اعداد و شمار میں تبدیلی تو اسرائیل کی جانب سے کی گئی جس نے حماس کے ہاتھوں مارے جانے والے اسرائیلیوں کی ابتدائی تعداد کو 1400 سے کم کر کے 1200 کر دیا۔ تاہم میڈیا کی جانب سے ابتدائی اور نظر ثانی شدہ اعداد وشمار کو کسی سے منسوب کیے بغیر چلائے گئے اور صرف اس دن کا حوالہ دیا گیا جس دن یہ تبدیلی کی گئی۔

یہ تبدیلی اس لیے کی گئی کیونکہ اسرائیلیوں کا کہنا تھا کہ حماس نے جن کیبوتز پر حملہ کیا تھا ان میں سے کچھ جلی ہوئی لاشیں ملی تھیں جن کے بارے میں گمان تھا کہ یہ اسرائیلیوں کی تھیں لیکن بعد میں فرانزک ٹیسٹ اور تجزیوں سے یہ واضح ہوگیا کہ یہ لاشیں حماس کے جنگجوؤں کی ہیں۔ اس اعتراف کے باوجود عالمی میڈیا نے معتبر ویب سائٹس پر خبریں شائع کرنے کے لیے بہت کم کام کیا، حتیٰ کہ اسرائیلی ریڈیو پر ایک عینی شاہد کی گواہی کو بھی نظرانداز کیا گیا کہ اسرائیلی ٹینکوں نے ان گھروں کو بھی نشانہ بنایا جہاں حماس نے اسرائیلیوں کو یرغمال بنا رکھا تھا یوں دھماکوں اور اس کے نتیجے میں بھڑک اٹھنے والی آگ میں کئی لوگ ہلاک ہو گئے۔ اسرائیلی اپاچی (گن شپ) ہیلی کاپٹر پائلٹس کے بیانات کے حوالے سے بھی یہی رویہ برتا گیا۔ ان بیانات میں ایک ریزرو لیفٹیننٹ کرنل نے کہا تھا کہ وہ ’ہنیبل ڈائیریکٹوز‘ کی پیروی کررہ�� تھے جس کے تحت انہوں نے ہر اس گاڑی پر گولی چلائی جس پر انہیں یرغمالیوں کو لے جانے کا شبہ تھا۔ اس بارے میں مزید جاننے کے لیے آپ کو صرف ان میں سے کچھ مثالوں کو گوگل کرنا ہو گا لیکن یقین کیجیے کہ مغرب کے مین اسٹریم ذرائع ابلاغ میں اس کا ذکر بہت کم ہوا ہو گا۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ حماس کے عسکریت پسندوں نے اسرائیلی فوجیوں، عام شہریوں، بزرگ خواتین اور بچوں پر حملہ نہیں کیا، انہیں مارا نہیں یا یرغمال نہیں بنایا، حماس نے ایسا کیا ہے۔
آپ غزہ میں صحافیوں اور ان کے خاندانوں کو اسرائیل کی جانب سے نشانہ بنانے کی کوریج کو بھی دیکھیں۔ نیویارک ٹائمز کے صحافی ڈیکلن والش نے ایک ٹویٹ میں ہمارے غزہ کے ساتھیوں کو صحافت کے ’ٹائٹن‘ کہا ہے۔ انہوں نے اپنی جانوں کو درپیش خطرے کو نظر انداز کیا اور غزہ میں جاری نسل کشی کی خبریں پہنچائیں۔ آپ نے الجزیرہ کے نامہ نگار کے خاندان کی ہلاکت کے بارے میں سنا یا پڑھا ہی ہو گا۔ لیکن میری طرح آپ کو بھی سوشل میڈیا کے ذریعے اسرائیلی فضائیہ کی جانب سے کم از کم 60 صحافیوں اور ان کے خاندانوں میں سے کچھ کی ٹارگٹ کلنگ کا بھی علم ہو گا۔ یعنی کہ کچھ مغربی میڈیا ہاؤسز نے غزہ میں مارے جانے والے اپنے ہم پیشہ ساتھیوں کو بھی کم تر درجے کے انسان کے طور پر دیکھا۔ بہادر صحافیوں کی بے لوث رپورٹنگ کی وجہ سے اسرائیل کی جانب سے غزہ میں شہری آبادی کو بے دریغ نشانہ بنانے اور خون میں لت پت بچوں کی تصاویر دنیا کے سامنے پہنچ رہی ہیں، نسل کشی کرنے والے انتہائی دائیں بازو کے نیتن یاہو کو حاصل مغربی ممالک کی اندھی حمایت بھی اب آہستہ آہستہ کم ہورہی ہے۔
اسپین اور بیلجیئم کے وزرائےاعظم نے واضح طور پر کہا ہے کہ اب بہت ہو چکا۔ اسپین کے پیڈرو سانچیز نے ویلنسیا میں پیدا ہونے والی فلسطینی نژاد سیرت عابد ریگو کو اپنی کابینہ میں شامل کیا۔ سیرت عابد ریگو نے 7 اکتوبر کے حملے کے بعد کہا تھا کہ فلسطینیوں کو قبضے کے خلاف اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ پیڈرو سانچیز نے اسرائیل کے ردعمل کو ضرورت سے زیادہ قرار دیا ہے اور فلسطین کو تسلیم کرنے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے دو ریاستی حل پر زور دیا ہے۔ امریکا اور برطانیہ میں رائے عامہ کے جائزوں سے پتا چلتا ہے کہ جن جماعتوں اور امیدواروں نے اسرائیل کو غزہ میں بڑے پیمانے پر قتل عام کرنے کی کھلی چھوٹ دی ہے وہ اپنے ووٹرز کو گنوا رہے ہیں۔ گزشتہ صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابلے میں جو بائیڈن کی فتح کا فرق معمولی ہی تھا۔ اسے دیکھتے ہوئے اگر وہ اپنے ’جنگ بندی کے حامی‘ ووٹرز کے خدشات کو دور نہیں کرتے اور اگلے سال اس وقت تک ان ووٹرز کی حمایت واپس حاصل نہیں لیتے تو وہ شدید پریشانی میں پڑ جائیں گے۔
اسرائیل اور اس کے مغربی حامی چاہے وہ حکومت کے اندر ہوں یا باہر، میڈیا پر بہت زیادہ دباؤ ڈالتے ہیں۔ ایسے میں ایک معروضی ادارتی پالیسی چلانے کے بہت ہی ثابت قدم ایڈیٹرز کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس انتہائی مسابقتی دور میں میڈیا کی ساکھ بچانے کے لیے غیرجانبداری انتہائی ضروری ہے۔ سوشل میڈیا اب روایتی میڈیا کی جگہ لے رہا ہے اور اگرچہ ہم میں سے ہر ایک نے اکثر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر موجود منفی مواد کے بارے میں شکایت کی ہے لیکن دنیا بھر میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو ان پلیٹ فارمز کے شکر گزار ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شاید غزہ میں جاری نسل کشی کی پوری ہولناکی ان کے بغیر ابھر کر سامنے نہیں آسکتی تھی۔ بڑے صحافتی اداروں کی جانب سے اپنے فرائض سے غفلت برتی گئی سوائے چند مواقع کے جہاں باضمیر صحافیوں نے پابندیوں کو توڑ کر حقائق کی رپورٹنگ کی۔ اس کے باوجود یہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز تھے جنہوں نے اس رجحان کو بدلنے میں مدد کی۔ اگر ہم خوش قسمت ہوئے تو ہم روایتی میڈیا کو بھی خود کو بچانے کے لیے اسی راہ پر چلتے ہوئے دیکھیں گے۔
عباس ناصر یہ مضمون 26 نومبر 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
بشکریہ ڈان نیوز
2 notes
·
View notes
Text
عمران احمد خان نیازی
پلان کیا تھا؟ تجزیہ: 14 مئی سے پہلے عمران خان سمیت تمام تحریک انصاف لیڈرشپ اور ورکرز، اور ڈیجٹل میڈیا کے بڑے صحافیوں کو جیلوں میں بند کرنا تھا اور تیس سے نوے دن تک باہر نہیں آنے دینا تھا. سافٹ ایمرجنسی لگاکر فوج شہروں میں اتاری جائے، طاقت سے احتجاج روکیں اور مکمل کنٹرول کریں.لیکن وہ ہوا جو یہ طاقتور سوچ نہ سکے، صرف ورکرز نہی بلکہ عوام کی بڑی تعداد اور خصوصاً نوجوان لڑکے اورخواتین تمام خطروں کے…
View On WordPress
6 notes
·
View notes
Text
پریس ریلیز
فروری 27
*وزیر اطلاعات پنجاب عظمی بخاری کی پی ایف یو جے کے نومنتخب عہدیداروں کو مبارکباد*
*عظمیٰ بخاری کی صدر افضل بٹ اور سیکرٹری جنرل ارشد انصاری کو مبارکباد*
لاہور () وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے پی ایف یو جے کے نومنتخب عہدیداروں کو مبارکباد دی۔ انہوں نے صدر افضل بٹ اور سیکرٹری جنرل ارشد انصاری کو ان کی کامیابی پر خصوصی مبارکباد پیش کی۔عظمیٰ بخاری نے اپنے بیان میں کہا کہ پی ایف یو جے نے آزادی صحافت اور صحافیوں کے حقوق کے تحفظ کی جدوجہد میں ہمیشہ مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب حکومت آزادی صحافت اور صحافیوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے اپنے عزم پر قائم ہے اور اس حوالے سے عملی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کی قیادت میں صحافی برادری کے لیے تاریخی اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔ پہلی مرتبہ پنجاب کے پریس کلبوں کو تاریخی گرانٹ جاری کی گئی ہے، جو صحافیوں کی فلاح و بہبود کے لیے اہم قدم ہے۔عظمیٰ بخاری نے کہا کہ مریم نواز کا ویژن ہے کہ ہر صحافی کے پاس اپنا گھر ہو، اور اسی ویژن کے تحت صحافیوں کو پلاٹس کی فراہمی کے عمل کو تیزی سے آگے بڑھایا جا رہا ہے۔وزیر اطلاعات نے امید ظاہر کی کہ پی ایف یو جے کی نئی قیادت اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے نبھائے گی اور صحافی برادری کے مسائل کے حل کے لیے بھرپور کردار ادا کرے گی۔
0 notes
Text
متنازع پیکا قانون کا مقصد جمہوریت کا گلا گھونٹنا ہے

صحافیوں نے سڑکوں پر احتجاج کیا، انسانی حقوق کی تنظیموں نے ممکنہ خطرناک نتائج کے حوالے سے خبردار کیا اور ڈیجیٹل رائٹس کے ماہرین نے بھی مخالفت میں آوازیں بلند کیں لیکن تمام کوششیں بے کار ثابت ہوئیں۔ اور اب صدر کے دستخط کے بعد پیکا ترامیم آئین کا حصہ بن چکی ہیں جو ہمارے ملک کی جمہوریت کو شدید نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ جتنی عجلت میں یہ معاملہ نمٹایا گیا وہ انتہائی حیران کُن تھا۔ سول سوسائٹی نے مشاورت کرنے کی درخواست کی، عجلت کے بجائے بغور نظرثانی کرنے کی بات کی لیکن ان کی شنوائی نہ ہوئی۔ اب اس سخت گیر قانون پر دستخط کی سیاہی خشک ہوچکی ہے اور اب یہ حتمی قانون لوگوں کو اظہار رائے کرنے سے خوفزدہ کررہا ہے۔ نئے قانون میں سیکشن 26 اے متعارف کروای�� گیا ہے جس میں نام نہاد فیک نیوز (جس کی تعریف کی وضاحت ن��یں کی گئی) پھیلانے والوں کو 3 سال سزا اور 20 لاکھ روپے جرمانے کی سزائیں ہو سکتی ہیں۔ لیکن جعلی خبر کی تعریف کیا ہے؟ کون فیصلہ کرے گا کہ کون سی معلومات لوگوں میں ’خوف، اضطراب یا بےامنی‘ کا باعث بنیں گی؟

تاریخ گواہی دیتی ہے کہ جب قوانین کی درست وضاحت نہ کی جائے تو ان کا منصفانہ انداز میں اطلاق نہیں ہوتا۔ پاکستان پیپلز پارٹی جو آزادی صحافت کی علم بردار تھی، ایسی ترامیم کی حمایت کر کے اب وہ اس نظریے کے حامی بن چکی ہے جس کے تحت جمہوریت کو محفوظ بنانے کا بہترین راستہ اس کا گلا گھونٹ دینا ہے۔ وزیر اطلاعات عطا اللہ تاڑر نے جس طرح ’ورکنگ صحافیوں‘ اور ’اپنے فون نکالنے‘ والے شہریوں کے درمیان فرق کو بیان کیا، اس نے اس دور کی یاد تازہ کردی کہ جب گھڑسوار خبروں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچاتے تھے. وہ دور کہ جب خبروں کے تبادلے سست اور زیرِ کنٹرول ہوتے تھے۔ حکومت کا یہ دعویٰ کہ ان ترامیم کا مقصد شہریوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے، مخلص نہیں لگتا۔ درحقیقت نئی نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی اور سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی کے قیام نے ان کے اصل ارادے کو آشکار کیا ہے۔
حکومت پاکستان کے ڈیجیٹل ماحول پر ایسا کنٹرول حاصل کرنا چاہتی ہے کہ جس کی ماضی میں ہمیں کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس قانون کا مقصد مخالف آوازوں کو دبانا نہیں بلکہ ان کا مکمل خاتمہ ہے۔ ایسی ترامیم منظور ہی نہیں ہونی چاہیے تھیں۔ حکومت کے پاس معنی خیر مذاکرات کا راستہ تھا منصفانہ اور شفاف طریقہ کار کے ذریعے میڈیا کے ضوابط کو مضبوط کرنے اور بنیادی حقوق کو پامال کیے بغیر غلط معلومات کا مقابلہ کرنے کی راہ موجود تھی۔ مگر انہوں نے مذاکرات کے بجائے جبر کا راستہ چنا۔ پاکستانی صحافی، ڈیجیٹل کارکنان اور عام شہریوں کو ایسے مذموم قانون کے خلاف طویل جنگ لڑنے کی تیاری کرنی چاہیے جو انہیں خاموش کروانے کے لیے بنایا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا عدالت عوامی حقوق و آزادی کے دفاع کرتے ہوئے قانون کا مقابلہ کریں گی؟ اس سوال کا جواب شاید ملک میں آزادی اظہار کے مستقبل کا تعین کرسکتا ہے۔
بشکریہ ڈان نیوز
0 notes
Text
Regional Urdu Text Bulletin, Chatrapati Sambhajinagar Date: 03 November-2024 Time: 09:00-09:10 am آکاشوانی چھترپتی سمبھاجی نگر علاقائی خبریں تاریخ: ۳/نومبر ۴۲۰۲ء وقت: ۰۱:۹-۰۰:۹ ***** ***** *****
::::: سرخیاں:::::: پیش ہے خاص خبروں کی سرخیاں: ٭ آج منایا جارہا ہے جوش و خروش کے ساتھ دیوالی کے بھاؤ بیج کا تہوار؛ اور کل مختلف قسم کی خریداری کے ساتھ کیا گیا پاڑوے کا اہتمام۔ ٭ مرکزی خفیہ ایجنسی کے الرٹ کے بعد ریاست کے نائب وزیرِ اعلیٰ اور بی جے پی رہنماء دیویندر پھڑنویس کی سیکوریٹی میں کیا گیا اضافہ۔ ٭ احمدنگر ضلع میں 23 کروڑ روپئے مالیت کے سونے کے بسکٹ ضبط۔ اور۔۔۔٭ ممبئی کرکٹ ٹسٹ میں نیوزی لینڈ کو بھارت کے خلاف دوسری اننگ میں 143 رنو ں کی برتری۔ ***** ***** ***** اب خبریں تفصیل سے: بھائی‘ بہن کے رشتے کو اور مضبوطی دینے والا اور محبت میں اضافہ کرنے والا دیوالی کا دیوالی کے موقع پر ہر جگہ شائقین ِ موسیقی اور مختلف ثقافتی پروگرام سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اس طرح کی تقریبات کو آج کل کافی پذیرائی مل رہی ہے۔ ناندیڑ میں آج صبح مشہور گلوکار بھیم راؤ پانچالے کے غزل کا پروگرام کا انعقاد کیا گیا ہے۔یہ پروگرام سرکاری ریسٹ ہاؤس میں صبح گیارہ بجے شروع ہوگا۔ اسی طرح کل پونے میں سنت مکتا بائی کی زندگی کا احاطہ کرنے والا برہمچت کلا مکتائی نامی پروگرام پیش کیا گیا۔ اس پروگرام میں مہاراشٹر کے سنتوں کے کام کی معلومات اور اہمیت کو بیان کیا گیا۔ ***** ***** ***** اہلیہ نگر ضلع کے مثالی گاؤں ہیورے بازار کے مکینوں نے کل روشنی کا تہوار دیوالی منائی۔ ہر خاندان کی جانب سے ایک چراغ یعنی کُل 850 دئیے جلاکر پانی میں چھوڑے گئے۔ یہاں ہر برس اسی طرح روشنی کا یہ تہوار منایا جاتا ہے۔ ***** ***** ***** واشم ضلع کے کارنجہ میں ضلع پریشد اسکول کے استاد گوپال کھاڑے نے اپنے مکان پر لگائی گئی آسمانی قندیل کے ذریعے رائے دہی کے فیصد میں اضافے کا پیغام دیا ہے۔ کھاڑے خاندان کی جانب سے رائے دہی کی خاطر ووٹروں کو بیدار کرنے کیلئے دیوالی کی اس آسمانی قندیل کے ذریعے کوشش کی گئی۔ ***** ***** ***** مرکزی انٹیلی جنس ادارے کی جانب سے خبردار کیے جانے کے بعد ریاست کے نائب وزیرِ اعلیٰ اور بی جے پی رہنماء دیویندر پھڑنویس کی سیکوریٹی میں اضافہ کیا گیا ہے۔ فی الحال انھیں ”Z“ درجہ کی سیکوریٹی دی جارہی ہے۔ پھڑنویس کی جان کو خطرہ ہونے اور ایک سازش رچے جانے کی اطلاع مرکزی خفیہ ایجنسی نے ریاستی خفیہ ادارے کو دی۔ جس کے بعد ریاستی پولس چوکس ہوگئی اور نائب وزیرِ اعلیٰ کی حفاظت بڑھا دی گئی۔ فورس وَن کے 12 سپاہی پھڑنویس کی حفاظت کیلئے تعینات کیے گے ہیں۔ ممبئی‘ ناگپور میں ان کی رہائش گاہوں پر اور ان کی تقریبات میں سیکوریٹی فراہم کرنے کیلئے پولس کو ہدایات دی گئی ہیں۔ ***** ***** ***** نئی ممبئی میونسپل کارپوریشن کے سابق ڈپٹی میئر اور کانگریس کے ضلع صدر اَنل کوشک کل بھارتیہ جنتا پارٹی میں شامل ہوگئے۔ دیویندر پھڑنویس کی موجودگی میں کوشک کے پارٹی میں شامل ہونے سے نئی ممبئی میں اسمبلی انتخابات سے قبل کانگریس پارٹی کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ ***** ***** ***** بی جے پی کے باغی رکنِ اسمبلی گوپال شیٹی نے واضح کیا ہے کہ وہ انتخابات میں بوریولی اسمبلی حلقے سے دستبردار نہیں ہوں گے۔ شیٹی نے کل نائب وزیرِ اعلیٰ دیویندر پھڑنویس سے ان کی سرکاری ر��ائش گاہ پر ملاقات کی۔ صحافیوں سے بات کرتے ہوئے انھو ں نے بتایا کہ ان کی یہ ملاقات دیوالی کی مبارکباد دینے کیلئے تھی۔ شیٹی نے وضاحت کی کہ انھوں نے پارٹی نہیں چھوڑی ہے اور نہ وہ آئندہ پارٹی چھوڑیں گے۔ انھو ں نے بتایا کہ ان کا ہر قدم پارٹی کے فائدے کیلئے ہے اور وہ پارٹی میں رہ کر پارٹی کو نقصان پہنچانے والوں کے خلاف ہے۔ اسی دوران پھڑنویس نے کہا ہے کہ شیٹی نے اب تک پارٹی نظم و ضبط کی پاسداری کی ہے اور اُمید ظاہر کی کہ وہ بوریولی حلقے سے دستبردار ہوجائیں گے۔ ***** ***** ***** ناگپور سے پانچ مرتبہ اسمبلی انتخابات میں حصہ لے چکے انیس احمد کل دوبارہ کانگریس میں شامل ہوگئے۔ چند دن قبل وہ ونچیت بہوجن آگھاڑی میں شمولت اختیار کرچکے تھے اور وسطی ناگپور اسمبلی حلقے سے آگھاڑی کے امیدوار کے طور پر میدان میں اُترنے والے تھے، تاہم پرچہ داخل کرنے میں دیری کے سبب اُن کی درخواست داخل نہ ہوسکی۔ کل ممبئی میں کانگریس پارٹی کے دفتر میں مہاراشٹر کیلئے پارٹی کے مبصر رمیش چینّی تھلا کی موجودگی میں دوبارہ پارٹی سے جُڑ گئے۔ ***** ***** *****
0 notes
Text
مذاکرات ختم ہوتے ہی ترمیمی بل پیش ہو گا: یوسف رضا گیلانی
(24نیوز)چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ آئینی ترمیم پر مذاکرات چل رہے ہیں۔ اسلام آباد میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ جیسے ہی مذاکرات ختم ہوں گے ترمیمی بل پیش کر دیا جائے گا۔ یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ سینیٹ اجلاس آج چلایا جائے گا، مولانا فضل الرحمٰن کی خصوصی کمیٹی سے بات چیت چل رہی ہے۔ دوسری جانب چیئرمین تحریکِ انصاف بیرسٹر گوہر علی خان نے دعویٰ کیا…
0 notes
Text
ہم فوج کے ساتھ مذاکرات کیلئے تیار ہیں، عمران خان
30 جولائی ، 2024 فوج اپنا نمائندہ مقرر کرے ہم مذاکرات کریں گے، بانی پی ٹی آئی – فوٹو: فائل بانی پی ٹی آئی عمران خان نے کہا ہے کہ ہم فوج کے ساتھ مذاکرات کےلیے تیار ہی��۔ فوج اپنا نمائندہ مقرر کرے ہم مذاکرات کریں گے۔ اڈیالہ جیل میں سماعت کے موقع پر کمرہ عدالت میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بانی پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ ہم نے فوج پر الزامات نہیں بلکہ صرف تنقید کی ہے۔ صحافی نے سوال کیا کہ آپ فوج…
0 notes
Text
ذمہ دارانہ صحافت کو اصل خطرہ کس سے؟

چلیں مان لیتے ہیں کہ پنجاب حکومت کا میڈیا کے متعلق بنایا گیا قانون کالا ہے اور اسی بنیاد پر صحافتی تنظیموں نے اسے مسترد کر دیا۔ لیکن کیا یہ حقیقت نہیں کہ میڈیا اور سوشل میڈیا کے ہاتھوں کسی کی عزت محفوظ نہیں، جھوٹ بہتان تراشی اور فیک نیوز ہمارے میڈیا بالخصوص سوشل میڈیا کا معمول بن چکا۔ ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر جھوٹے الزامات لگانا، کسی کی پگڑی اچھالنا، دوسروں پر غداری اور گستاخی تک کے سنگین الزامات لگانا، دوسروں کی زندگیوں تک کو خطرہ میں ڈالنا کیا یہ ہم نہیں کرتے رہے۔ ایسا کرنے والوں کے خلاف کیا کارروائی ہوئی؟ ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر فتنہ انگیزی کرنے والے کتنوں کو سزائیں دی گئیں؟ کس طرح ٹی وی چینلز نے دوسرے ٹی وی چینلز اور صحافیوں کے خلاف جھوٹ کی بنیاد پر مہمات چلائیں، صحافیوں نے صحافیوں پر غداری کے فتوے لگائے، گستاخی تک کے الزامات لگائے لیکن کسی کے خلاف کوئی ایکشن نہ ہوا۔ ایسا کیوں ہے کہ برطانیہ میں انہی الزامات پر ہمارے ہی ٹی وی چینلز اور صحافیوں پر جرمانے عائد کیے گئے جس پر نہ کسی نے آزادی رائے کی بات کی اور نہ ہی آزادی صحافت کیلئے خطرہ محسوس کیا۔
جہاں تک سوشل میڈیا کا تعلق ہے تو اُس نے تو تمام حدیں پار کر دیں۔ کسی کو گالی دینا ہی اس کی آزادی ہے؟ کسی پر سنگین سے سنگین الزام لگایا جائے تو اس پر بھی کوئی پوچھ گچھ نہیں؟جو دل میں آئے کہہ دو چاہے کسی کے بھی متعلق ہو۔ جھوٹی اطلاعات یعنی فیک نیوز بنا بنا کر پھیلائی جاتی ہیں، ٹرولنگ اور بہتان تراشی کی بنیاد پر ٹرینڈز چلانا کھیل بن چکا ہے۔ گستاخانہ مواد بھی سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلایا جاتا ہے، ملک دشمنی کی بھی حدیں پار کی جاتی ہیں لیکن جب کسی کے خلاف حکومت ایکشن لیتی ہے تو شور مچ جاتا ہے کہ آزادی رائے پر حملہ ہو گیا۔ صحافتی تنظیموں سے میرا سوال ہے کہ جو کچھ میڈیا اور سوشل میڈیا کے متعلق میں نے اوپر لکھا کیا ایسا ہی نہیں ہو رہا یا ہوتا رہا؟ اگر یہ سچ ہے تو پھر صحافتی تنظیموں نے جو کچھ میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے غلط ہو رہا ہے اور جس کا شکار میڈیا کے افراد خود بھی ہیں، اسے روکنے کیلئے کیا اقدامات کیے؟

جب ہم ذمہ دارانہ صحافت کو پروموٹ کرنے کیلئے خود اپنی ذمہ داری محسوس نہیں کریں گے، جب ہم سوشل میڈیا یا میڈیا کو استعمال کر کے بہتان تراشی اور فتنہ انگیزی کرنے والوں کے احتساب کی بجائے اگر خود قانون کی گرفت میں آتے ہیں تو ہم اسے آزادی رائے اور آزادی صحافت کا مقدمہ بنا کر پیش کریں گے تو پھر جو کچھ غلط ہو رہا ہے وہ درست کیسے ہو گا۔ جب ہم اپنی ذمہ داری محسوس نہیں کریں گے تو پھر حکومتوں کو موقع ملے گا کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق میڈیا اور سوشل میڈیا کے متعلق قوانین بنا دیں۔ اور پھر جب کوئی بھی حکومت میڈیا سے متعلق کوئی قانون بناتی ہے یا بنانے پر غور کرتی ہے تو اُسے آزادی صحافت اور آزادی رائے پر حملہ سمجھا جاتا ہے۔ سیاستدانوں کا تو یہ وطیرہ رہا ہے کہ جو حکومت میں ہو ں تووہ میڈیا کے متعلق قانون میں تبدیلی چاہتے ہیں جبکہ وہی جب اپوزیشن میں ہوں تو میڈیا کے ساتھ یکجہتی کیلئے کھڑے ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حکومت میڈیا پر قدغنیں لگانا چاہ رہی ہے۔
وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے چند سال پہلے تحریک انصاف کی حکومت کے دور میں بنائے جانے والے میڈیا سے متعلق قانون کے حوالے سے جو کہا تھا اُس کی وڈیو ٹی وی چینلز پر چلائی گئی۔ کل جو وہ کہہ رہی تھیں آج وہ اُس کا الٹ کر رہی ہیں جبکہ تحریک انصاف اب اپوزیشن میں ہونے کی بنیاد پر میڈیا تنظیموں کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان کر رہی ہے۔ سیاست کے اس کھیل پر اعتراض اپنی جگہ لیکن میری صحافتی تنظیموں سے درخواست ہے کہ وہ میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلائے جانے والے جھوٹ، فیک نیوز، فتنہ انگیزی وغیرہ کے خلاف نہ صرف اپنی آواز اُٹھائیں بلکہ موجودہ قوانین میں اگر کوئی کمی کسر ہے تو اُسے دور کرنے کا مطالبہ کریں تاکہ ذمہ دارانہ صحافت کو ��و خطرہ فیک نیوز اور فتنہ پھیلانے والوں کی طرف سے ہے اُس کے آگے بند باندھا جا سکے۔
انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
جلاوطن ہونے والے بی بی سی کے صحافیوں کی تعداد میں اضافہ: ’میں ڈر ڈر کر رہتا ہوں، اگر مجھے کچھ ہو گیا تو میری بیٹی کا کیا ہو گا‘
http://dlvr.it/T6P8gh
0 notes
Text
پاکستان صحافیوں کے لیے خطرناک ترین ملک: ایک سال میں 11 قتل
پپرس میں واقع صحافیوں کی عالمی تنظیم رپورٹرز ود بارڈرز نے پاکستان کو غزہ کے بعد رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کیلئے خطرناک ترین ملک قرار دے دیا ہے جہاں 11 صحافیوں کو صرف سال 2024 میں قتل کر دیا گیا۔ اسی لیے آزادی صحافت کے انڈیکس میں پاکستان اس وقت گرتا ہوا 152ویں نمبر پر آ چکا ہے۔ آر ایس ایف کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کوئی جنگ نہیں ہو رہی لیکن پھر یہ غزہ کے بعد دنیا بھر میں صحافیوں کے لیے دوسرا خطرناک…
0 notes
Text
حق اورسچ کی آواز اُٹھانے والے صحافیوں پر ظلم و تشدد بند ہونا چاہیے: مریم نواز
(24نیوز) وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے کہا ہے کہ حق اور سچ کی آواز اٹھانے والےصحافیوں پر ظلم و تشدد بند ہونا چاہیے۔ صحافیوں کے خلاف جرائم کے خاتمے کے عالمی دن پر پیغام میں وزیر اعلیٰ مریم نواز کاکہنا تھا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر ، فلسطین سمیت ہر ملک میں صحافیوں پر تشدد قابل مذمت ہے ، احساس ذمہ داری کے ساتھ آزادی صحافت جمہوریت کی اساس ہے۔ انہوں نے کہا کہ مضبوط جمہوری معاشرے کیلئے آزاد صحافت کا ہونا…
0 notes
Link
0 notes
Text
نئی حکومت کیساتھ کام کرنا ترجیح، چیلنجز سے نکلنے میں مدد کرنا چاہتے ہیں، امریکی سفیر
پاکستان میں امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم نے کہا ہے کہ نئی حکومت کیساتھ کام کرنا ترجیح ہے جب کہ چیلنجز سے نکلنے میں مدد کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان میں امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم نے کہا ہے کہ آنیوالی پاکستانی حکومت کے پاس آئی ایم ایف پروگرام کو لاگو کرنے کی اہلیت ہے تاہم اگلے چند ماہ میں تشکیل دی گئی معاشی پالیسیاں پاکستان میں معاشی استحکام کے حوالے سے اہم ہیں۔ کراچی میں قونصلیٹ جنرل میں صحافیوں کے چنیدہ گروپ…

View On WordPress
0 notes
Text
پریس ریلیز
فروری 16
*وزیر اطلاعات پنجاب عظمٰی بخاری کی پنجاب یونین آف جرنلسٹ کے نومنتخب عہدیداروں کو مبارکباد*
*وزیراعلی پنجاب مریم نواز صحافیوں کی دل سے عزت کرتی ہیں: عظمیٰ بخاری*
*میرے دروازے صحافی برادری کے لیے ہر وقت کھلے ہیں: عظمیٰ بخاری*
لاہور () وزیر اطلاعات پنجاب عظمٰی بخاری کی پنجاب یونین آف جرنلسٹ کے نومنتخب عہدیداروں کو مبارکباد پیش کی اور نیک تمناؤں کا اظہار کیا۔ وزیر اطلاعات نے پی یو جے کے نومنتخب صدر نعیم حنیف، سیکرٹری قمر بھٹی اور نومنتخب ایگزیکٹو کونسل کےلیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ اس موقع پر وزیر اطلاعات پنجاب عظمٰی بخاری نے کہا کہ میڈیا کسی بھی ریاست کا اہم ترین ستون ہوتا ہے۔وزیراعلٰی پنجاب مریم نواز صحافیوں کی دل سے عزت کرتی ہیں اور مریم نواز کی حکومت میں پہلی مرتبہ پنجاب کے پریس کلبوں کے لئے تاریخی گرانٹ جاری ہوئی ہے۔پنجاب ��کومت صحافیوں کے تمام مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کررہی ہے۔مریم نواز کی حکومت میں لاہور کے صحافیوں کے بھی ایک دہائی پرانے مسائل حل ہوئے ہیں۔ انکا مزید کہنا تھا کہ میرے دروازے صحافی برادری کے لیے ہر وقت کھلے ہیں۔پنجاب حکومت صحافی برادری کی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ ہماری حکومت ہر سطح پر میڈیا ورکرز کی فلاح کے لیے عملی اقدامات کر رہی ہے۔ حکومت پنجاب صحافیوں کے مسائل کے حل کے لیے ہمیشہ ان کے ساتھ کھڑی ہے اور آئندہ بھی ہر ممکن تعاون جاری رکھے گی۔
0 notes