Tumgik
#کیا کتابی سے نکاح ہو جاتا ہے ؟
masailworld · 2 years
Text
عیسائی عورت سے نکاح کرنا کیسا؟
عیسائی عورت سے نکاح کرنا کیسا؟
عیسائی عورت سے نکاح کرنا کیسا؟ مفتی محمد صدام حسین برکاتی فیضی۔ مفتی صاحب کیا کوئی مسلمان مرد کسی عیسائی عورت سے نکاح کرسکتا ہے ؟ المستفتی: کلیم U.K. الجواب بعون الملک الوھاب عیسائی عورت سے نکاح نہ کرنا چاہئے کہ اس زمانہ کے عیسائیوں کے اہل کتاب ہونے میں علمائے کرام رحمۃ اللّٰہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا اختلاف ہے بہت سے مشائخین عظام رحمۃ اللّٰہ تعالیٰ علیھم کا میلان اس جانب ہے کہ یہ اہل کتاب نہیں…
View On WordPress
0 notes
humlog786-blog · 5 years
Text
جھکی جھکی آنکھیں - ممتاز مفتی
Tumblr media
عذرا ان عورتوں میں سے ہے جن سے وصال میں بھی تکمیل حصول کی آرزو میں بے ساختہ آہ نکل جاتی ہے۔ جو دلخراش حقائق سے دور کسی رنگین دنیا میں رہتی ہیں ۔ یوں تو ہر عورت کی دنیا حقائق سے بے نیاز ہے مگر عذرا میں یہ خصوصیات نمایاں ہے۔ عذرا کو بار بار دیکھ کر بھی نہیں کہہ سکتا کہ وہ کس لحاظ سے حسین ہے۔ کتابی چہرہ، حساس ناک، مسکین سے ہونٹ، حیران موٹی موٹی آنکھیں اور گداز جسم۔ اس کی حیران خوابیدہ آنکھیں جو اس کی قوت تکلم کا بیشتر حصہ سلب کر چکی ہیں ، نہ جانے کون سی دنیا میں رہتی ہیں ۔ بہرصورت وہ اس مختصر مکان میں جہاں وہ اس کا خاوند اور ساس رہتے ہیں ، رہتی ہوئی محسوس نہیں ہوتی۔ اس کی کمر کا وہ ہلکا خم جس کی وجہ سے اس کی گردن ذرا بائیں طرف مڑی رہتی ہے، بہت بھلا معلوم ہوتا ہے۔ بلکہ کسی وقت مجھے شبہ ہوتا ہے کہ یہی خم اس کی جاذبیت کا راز ہے۔ جب کبھی عذرا کچھ بن رہی ہو یا پڑھ رہی ہو اور جھکی جھکی آنکھوں سے باتیں کرے تو تمہارے دل میں ایک لطیف احساس پیدا ہو گا کہ بے شک زندگی بسر کرنے کے قابل ہے اور مل بیٹھنے میں ضرور راحت ہے۔ لیکن اگر وہ آنکھیں اٹھ کر تمہاری طرف نظر بھر کر دیکھ لے تو میں نہیں کہہ سکتا کہ تم کیا محسوس کرو گے۔ اس وقت تو مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عذرا مجھ سے کوسوں دور ہے۔ یقین نہیں پڑتا کہ وہ زندگی کی حقیقت ہے یا محض خواب۔ اس وقت چراغ مدھم پڑ جاتے ہیں اور دنیا گھوم جاتی ہے۔ کوئی دس بارہ مہینے ہوئے ہوں گے۔ جب وہ یہیں سکول میں دسویں جماعت میں پڑھا کرتی تھی۔ مگر ان دنوں اس کے انداز میں یہ بات نہ تھی۔ حیرانیاں تو اس کی نگاہ میں جھپٹنے ہی سے تھیں ۔ شاید اس لئے کہ بچپن سے ہی وہ سوتیلی ماں کے پاس رہتی تھی مگر شادی کے بعد اس کی نگاہیں اور بھی حیران ہو گئیں اور اب وہ ترنم سے بھیگ چکی ہیں ۔ اس کی گردن کا جھکاؤ کچھ اور جھک گیا ہے اور اس کی پلکیں کسی خوابوں کی بستی کو ڈھانپے رکھتی ہیں ۔ ان دنوں جب سکول سے لوٹا کرتی تو اس کے انداز میں ’’بیگانہ روئی‘‘ پیدا کرنے کی کوشش عیاں ہوتی مگر کبھی کبھار کوئی دبی ہوئی مسرت چھلک پڑتی، چلتے چلتے ٹھمک جاتی یا آنکھ میں ہلکا سا تبسم لہرا جاتا، جس سے صاف ظاہر ہوتا کہ اسے زندگی سے دلچسپیاں محسوس ہو رہی ہیں ۔ وہ اپنے انداز میں ایسی بیگانہ روئی پیدا کرنے کی کوشش کرتی تھی جو والدین کے نقطہ نظر سے ہر شریف بچی میں ہونی چاہئے۔ خدا جانے والدین اپنے بچوں میں بیداری دیکھنے کے متحمل کیوں نہیں ہو سکتے۔ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بچے تبھی کلیوں کی طرح سوئے سوئے ہی رہیں اور یونہی سوئے سوئے ہی مرجھا جائیں ۔ اس لئے وہ ان میں بیداری پیدا نہ کرنے کا قطعی فیصلہ کر لیتے ہیں اور جو پیدا ہو جاتی ہے اسے نہ دیکھنے کا۔ عذرا کے والد موخرالذکر قسم کے آدمی تھے۔ گھر میں کھانے پینے کے لئے کافی تھا اور جمع کرنا ان کی سرشت میں نہ تھا۔ بیویوں کے معاملے میں وہ اپنے آپ کو بہت بدنصیب سمجھتے تھے۔ انہیں گلہ تھا کہ ان کی بیویوں کی شادی کے فوراً بعد ہی عام ہو جانے کی قبیح عادت ہے۔ ان کی خواہش تھی کہ ایسی بیوی ملے جو گوناگوں ہو اور ان کا ایمان تھا کہ وہ کبھی نہ کبھی اسے ضرور ڈھونڈ نکالیں گے۔ اس لئے وہ اس کی تلاش میں سرگرداں رہتے تھے۔ ان کے خیال میں بیوی کا یوں عام ہو جانا اسکی بد مذاقی کی دلیل ہے اور وہ اپنے خیال کو اکثر ظاہر کیا کرتے تھے۔ انجینئر صاحب کی بیوی کو دیکھئے۔ ۔ اس کی آنکھوں میں بیسویں نگاہیں ہیں ۔ ایک سے ایک نئی۔ کبھی وہ اداسی میں تو کبھی سرخی میں ڈوبی رہتی ہیں ۔ کبھی ہم تمہیں جانتے ہی نہیں اور کبھی اب کہئے مزاج کیسے ہیں ۔ کی سی نگاہیں اور پھر ان کا تو رنگ بھی ادلتا بدلتا ہے۔ کبھی گلابی گلابی، گہری گہری، گدری گدری، میلی میلی یہ جو پڑوس میں مسز ملک ہے نہ دیکھنے کے انداز سے دیکھنے میں اسے کس قدر ملکہ ہے، اس کے بھرے ہوئے جسم میں کس قدر خم و پیچ مضطرب رہتے ہیں ۔ ایک وہ عذرا کی ماں تھی کہ بیٹھ جاتی تو گھنٹوں اٹھنا محال ہو جاتا۔ بس دن بھر آلو ہی چھیلتی رہتی تھی اور پھر وہ زمرد تھی کہ ایک مرتبہ ساڑھی کے لئے بگڑ بیٹھی تو ہفتوں سوج کر بیٹھ رہی اور کچھ کہہ دیا تو ایک عرصہ تک چہرے کی زردی کے سوا گھر میں کچھ نظر نہ آیا۔ عذرا کی ماں کے بعد انہوں نے زہرہ سے شادی کی تھی مگر وہ بھی چند سالوں کے بعد لقمہ اجل ہو گئی۔ خیر اس بات سے ان کی زندگی میں کوئی خاص فرق پیدا نہ ہوا۔ چونکہ شادی کے چند ماہ بعد ہی انہیں یہ معلوم ہو چکا تھا کہ زہرہ میں وہ بات نہیں ۔ اب گھر میں ان کی بوڑھی ملازمہ حشمت اور عذرا کے سوا اور کوئی نہ تھا۔ خود تو وہ عام طور پر باہر بیٹھک میں بیٹھے رہتے یا کبھی اندر آتے تو عذرا کو کوئی نصیحت کرنے کے لئے کہتے۔ ’’عذرا دوپٹہ سنبھال لو۔ بیٹیوں کو یوں ننگے سر بیٹھنا زیب نہیں دیتا۔ ‘‘ ’’حشمت وہ کھڑکی کیوں کھلی ہے؟ بند کرو اسے۔ دیکھو تو عذرا بیٹھی ہے اور گلی میں لوگ آتے جاتے ہیں ۔ ‘‘ ’’عذرا تم یہ مسز ملک ولک کے ہاں نہ جایا کرو، لڑکیاں اپنے گھر بیٹھی اچھی لگتی ہیں ۔ ‘‘ ان نصیحتوں کے باوجود انہوں نے کبھی آنکھ بھر کر اس کی طرف نہ دیکھا تھا۔ بیٹی جوان ہو جائے تو جانے کیوں اسے دیکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ انہیں کبھی عذرا کی شادی کا خیال بھی نہ آیا تھا۔ نہ ہی انہوں نے اسے کبھی بیٹی کہہ کر بلایا تھا۔ کیونکہ گو وہ چالیس برس کے تھے لیکن ابھی جوان ہی معلوم ہوتے تھے۔ ان کے دوست اور احباب انہیں زینت محفل سمجھتے تھے۔ باہر دیوان خانے میں جمگھٹا رہتا تھا اور قہقہوں سے در و دیوار گونجتے۔ ایک روز صبح سویرے جب عذرا سکول جانے کی تیاری کر رہی تھی اور اپنا محبوب نیلا سوٹ پہنے بال بنا رہی تھی تو معمول کے خلاف اس کے والد اندر آ کر خشمگیں انداز میں کہنے لگے۔ ’’عذرا آج سے تم سکول نہ جایا کرو۔ بس زیادہ پڑھنے کی ضرورت نہیں ۔ ‘‘ ’’مگر ابا جان۔ ‘‘ عذرا نے اپنے آپ کو جھنجھوڑ کر پوچھا۔ اس کا چہرہ حیرانی اور خوف سے بدنما ہو رہا تھا۔ ’’مگر وگر کچھ نہیں ۔ ‘‘ انہوں نے بات کاٹ کر کہا۔ ’’امتحان دینے کی ضرورت نہیں ۔ ‘‘ ایک ساعت کے لئے عذرا کی آنکھیں اٹھیں ۔ شعلے کی طرح چمکیں مگر والد جا چکے تھے۔ حشمت نے ان آنکھوں کو دیکھا اور ایسے محسوس کیا جیسے کائنات کا ذرہ ذرہ تھر تھر کانپ رہا تھا، پھر وہ جھک گئیں ۔ دو موٹے موٹے آنسو رخساروں سے ڈھلک کر لباس میں جذب ہو گئے۔ پھر وہ نگاہیں حیران ہوتی گئیں ۔ اپنے ماحول سے سمٹ کر اپنے آپ میں جذب ہوتی گئیں ۔ اس دن سے عذرا کو ٹھمکتے ہوئے کسی نے نہ دیکھا اور اسے بیگانہ روئی پیدا کرنے کی شاید ضرورت ہی نہ رہی۔ شام کو وہ کوٹھے پر چلی جاتی اور گھنٹوں کھیتوں کی طرف نگاہیں جمائے ہوئے کھوئی ہوئی سی رہتی۔ حتیٰ کہ پندرہ دنوں کے اندر اندر اس کے والد نے نذر سے نکاح پڑھوا کر اسے رخصت کر دیا۔ غالباً اس لئے کہ عذرا کی بیداری کا زمانہ اس قدر مختصر تھا کہ آیا وہ چلا گیا۔ وہ اس قدر گہرا اثر چھوڑ گیا، جس طرح کسی ویران وادی میں کسی آوارہ طائر کی لرزتی ہوئی تان۔ چند ایک ساعت کے لئے ان خاموش مہیب چٹانوں میں ابھر ابھر کر خاموشیوں کے مسکن کو اور بھی خاموش اور بھیانک تر چھوڑ جاتی ہے۔ اس جھٹ پٹ پر خلق خدا کے ماتھے پر شکن پیدا ہونے ہی تھے۔ چہ میگوئیاں ہوئیں ، دبی دبی آوازیں اٹھیں ، مگر آواز کسنے کی نوبت نہ پہنچی۔ ایک تو محلے والیوں کو عذرا سے کوئی گلہ نہ تھا اور عذرا کوئی اس قدر حسین یا شوخ یا طرح دار نہیں سمجھی جاتی تھی کہ محلہ والیاں اس سے کینہ دوزی کرتیں ۔ دوسرے انہیں عذرا کے والد سے بھی کوئی رنجش نہ تھی کہ انہیں نشتر کرتیں ، بلکہ وہ تو ان کی نکتہ رس نگاہوں سے واقف ہونے کے علاوہ ان کی نگاہوں کی قدردان تھیں ۔ چند ایک مثلاً انجینئر کی بیوی اور مسز ملک جنہیں آواز کسنے میں ملکہ تھا۔ ان کا تو یہ گلہ تھا کہ ڈھول نہ چھم چھم۔ نہ تاک نہ جھانک، نہ تو تو، میں میں ۔ یہ بھی کیا شادی ہوئی۔ کئی ایک کو تو مدت سے عذرا کی شادی کی تقریب سعید کا انتظار تھا کہ شادی ہو اور مہمان بن کر جائیں ۔ حنا مالیدہ ہاتھ ہوں ۔ جھلملاتی ہوئی ساڑھیاں ہوں ۔ کاجل، جھمکے، بندیاں چمکیں ۔ پلیٹوں سے چوڑیاں بجیں ، پان بنائے جائیں اور اس افراتفری میں اچانک کوئی آ نکلے تو گھونگھٹ نکالنا تو کیا دوپٹہ سنبھالنا بھی مشکل ہو جائے۔ کوئی گستاخ لٹ جھٹک کر منہ پر آگرے اور ناک میں دم کر دے یا پتلی پتلی گوری گوری انگلیاں دوپٹے کو سنبھالنے کی ناکام جستجو میں عریاں رہ جائیں ۔ باریک تہوں سے نظریں چھن چھن کر پڑیں ۔ سفید سفید باہیں گھونگھٹ سے نکل کر کچھ دیں ، کچھ لیں ۔ یعنی ایسی شادی ہو کہ نام رہ جائے بلکہ چرچا ہو۔ آخر خلق خدا خلق خدا ہی ہے اور بات بات ہے جو نکل ہی جاتی ہے۔ کسی نے کہا کسی سے آنکھ لڑ گئی ہو گی۔ کوئی کہنے لگی۔ ’’لو اب ہنس ہنس کر باتیں کرنے لگی تھی۔ ‘‘ کوئی کہنے لگی۔ ’’سنا ہے اس کے ابا نے خط پکڑ لیا۔ ‘‘ کوئی بولی۔ ’’ایلو بی بی وہ تو اس کے ابا نے اپنی آنکھ سے دیکھ لیا۔ دفتر سے آ رہے تھے۔ باغ میں وہ اسے پہلو میں لئے بیٹھا تھا۔ توبہ کیسا زمانہ آیا ہے۔ ‘‘ غرضیکہ کئی باتیں نکلیں بلکہ کون سی باتیں تھیں جو رہ گئیں ۔ مگر دبی دبی ہوئی اور پھر بات آئی گئی ہو گئی۔ اس بے چاری کا یہی قصور تھا کہ ��کول جاتے ہوئے تانگے میں یوں آنکھیں جھکائے ہوئے بیٹھی رہتی کہ مرمریں بت کا شبہ ہوتا اگر کسی شوخ چشم کے دل میں اس بت کو دیکھ کر ایک مصور پیدا ہو جائے اور اسے اس بات میں محو کر دے تو عذرا کا اس میں کیا قصور، ہاں سکول کی ویران سڑک پر ہوا کھانے کو کس کا جی نہیں چاہتا۔ پوری تفصیلات سے مجھے واقفیت نہیں ، ہاں سلیم کا اونچا لمبا قد اور فراخ شانے اور اس کا انداز بے نیازی.... اس امر کا شاہد ہے کہ اسے تانک جھانک سے کوئی دلچسپی نہیں ، نہ وہ خود ساختہ مصیبت مول لینے کا عادی ہے غرضیکہ وہ ان نوجوانوں میں سے نہیں جو کسی کے تصور میں اوندھے پڑے رہنے، آہیں بھرنے اور شعر پڑھنے کی دلچسپ کیفیت میں مبتلا رہنے کے مشتاق ہیں ۔ چند دن تو صبح چھ بجے وہ روز اس سڑک پر اپنے سائیکل پر سوار گھومتا رہا، پھر ایک روز جب چھٹی کے وقت عذرا سکول کے پھاٹک کے قریب کھڑی اپنے تانگے کی راہ دیکھ رہی تھی تو سلیم نے آ کر اس کا بازو پکڑ کر گھسیٹ کر ایک طرف لے گیا اور اسے شانوں سے پکڑ کر پوچھنے لگا۔ ’’تم کون ہو؟ تمہارا نام کیا ہے؟ تم بولتی کیوں نہیں ....؟ اچھا۔ ‘‘ اس نے ذرا سے جھنجھوڑ کر کہا۔ ’’تم چاہے کوئی بھی ہو تم میری ہو اور تمہیں اب مجھ سے کوئی بھی نہیں چھین سکتا۔ ‘‘ اور پیشتر اس کے کہ عذرا سمجھتی کہ یہ کیا ہو رہا ہے یا اسے کیا کرنا چاہئے۔ سلیم جا چکا تھا۔ پھر اسے یاد نہیں کہ اس روز تانگے والے نے دیر سے آنے کے لئے کیا عذر پیش کیا تھا یا کس راستے سے وہ آئے تھے یا راستے میں پھاٹک پر کتنی دیر انتظار کرنا پڑا تھا یا رکنا پڑا بھی تھا یا نہیں اس روز اس کی آنکھیں تبسم سے آشنا ہوئی تھیں اور اس کی چال نے ٹھمکنا سیکھا تھا۔ اسے اس واقعے کی حقیقت پر اعتبار نہ آیا تھا۔ مگر اس کے بلوریں شانوں پر دو تین نیلے نیلے داغ دلچسپ گرفت کے شاہد تھے اور اس کے شانوں پر لذیذ سا درد ہو رہا تھا۔ اس روز اپنے طوطے سولی سے کہہ رہی تھی۔ ’’سولی چاہے تم کوئی بھی ہو، تم میرے ہو۔ تمہیں مجھ سے کوئی بھی نہیں چھین سکتا کوئی بھی نہیں ۔ ‘‘ وہ نہایت سنجیدگی سے کہہ رہی تھی۔ پھر اس مصنوعی سنجیدگی نے شاید اسے گدگدایا۔ وہ ہنس پڑی۔ ’’کیوں سولی ہے نا۔ ‘‘ اس کے بعد ان کی دو چار سرسری ملاقاتیں ہوئی ہوں گی اور دو چار خطوط آئے گئے ہوں گے اور بس۔ سلیم ہمیشہ کے لئے اس کے لئے چند ایک دھندلے دھندلے نقوش، چند ایک دل کی پر کیف دھڑکنیں اور ہاتھوں اور شانوں اور کمر پر چند ایک لطیف دباؤ اور سینے کی چند مبہم تھرتھراہٹوں کے سوا اور کچھ نہ رہا تھا۔ جس قدر یہ نقوش مدھم تھے، اس کے دل میں ان کے متعلق حسیات اسی قدر گہری تھیں ۔ گاڑی میں عذرا اپنی ساس کے ہمراہ درمیانے درجے کے ڈبے میں بیٹھی تھی۔ وہ جا رہی تھی مگر اسے یقین نہیں آتا تھا کہ وہ نذر کے ساتھ جا رہی ہے اس کا دل کہہ رہا تھا۔ ’’یہ کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘ وہ سمجھتی تھی کہ خواب دیکھ رہی تھی جیسے قدرت اسے چھیڑنے کے لئے مذاق کر رہی ہو کہ وہ ابھی جاگ پڑے گی اور سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ خواب نہیں تو اور ہو ہی کیا سکتا تھا۔ ایسی بات کیسے ممکن ہو سکتی تھی۔ باہر کھیتوں میں گرمی سے جھلسا ہوا پھیکا سبزہ لہرا رہا تھا اور سبز ہونے کے باوجود آنکھوں میں چبھتا تھا۔ ان کھیتوں کے وسیع پھیلاؤ میں یہاں وہاں بجلی کے بہت دیو نما کھمبے گرد سے اٹے ہوئے کسانوں میں یوں معلوم ہوتے تھے جیسے ٹھگنوں میں کوئی گلیور کھڑا ہو، سورج چمک چمک کر تھک چکا تھا اور اس کی کرنیں زرد پڑ گئی تھیں ۔ دور کہیں کہیں افق پر کوئی میلا سا ٹیلا ان جھلسے ہوئے میدانوں کے تسلسل میں دھندلے خواب کی طرح آتا اور گزر جاتا۔ عذرا اپنی خوابوں کی دنیا میں کھوئی ہوئی تھی۔ اسے ایسے معلوم ہوتا جیسے اس ٹیلے پر سلیم اسے بلا رہا تھا جیسے دور سڑک پر جو لاری جا رہی تھی، اس میں سلیم بیٹھا ہے۔ پھر اس کے شانے پر کوئی نامعلوم گرفت محسوس کرتی اور وہ سنتی تم میری ہو۔ اب تمہیں مجھ سے کوئی بھی چھین نہیں سکتا اور وہ ٹھٹھک کر بیدار ہو جاتی اور دیکھتی کہ نذر کی ماں اور سولی اس کی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھ رہے ہیں مگر دونوں کی نگاہوں میں ایک دنیائے اختلاف تھی۔ ماں کی آنکھوں میں تجسس اور تشویش کو اس کی مسکراہٹیں چھپا نہ سکتی تھیں ۔ اس کے برعکس سولی کی آنکھیں پرنم معلوم ہوتی تھیں ۔ غالباً وہ دونوں عذرا کے دل کی کیفیت سے واقف تھے مگر دونوں کی نگاہوں میں کوئی بھی مناسبت نہ تھی۔ وہ سوچ رہی تھی، سولی بے زبان ہو کر بھی سمجھتا ہے۔ اس وقت غالباً پہلی مرتبہ اس کے دل میں سولی کو آزاد کرنے کی خواہش ہوئی۔ نہ جانے کتنی بہاریں اس نے اس پنجرے میں گزاری ہیں ۔ کیا اس کے دل میں بھی اڑنے کی آرزو باقی ہے؟ کیا اس کے دل میں بھی کسی زمانے کی یاد اٹھتی ہے؟ پھر اس نے سنا کہ ماں کچھ کہہ رہی تھی۔ گاڑی سٹیشن پر کھڑی تھی ماں پوچھ رہی تھی۔ ’’عذرا بیٹی! نذر پوچھتا ہے کچھ پیو گی؟ عذرا نے کنکھیوں سے دیکھا۔ کھڑکی میں کوئی کھڑا تھا اسے کنکھیوں سے بھی ادھر دیکھنے کی ہمت نہ پڑتی تھی۔ پھر اس نے ایسے محسوس کیا جیسے کسی نے اس کے شانوں سے پکڑ کر اس کا منہ دوسری طرف پھیر دیا ہو۔ اس نے سنا جیسے میلوں دور کوئی کہہ رہا ہو۔ ’’نہیں اماں تم کہو تو، دیکھو کس قدر گرمی ہے۔ ‘‘ اس بھدی آواز میں کس قدر اداسی تھی۔ ہاں اگر سلیم اس سے پوچھتا اگر وہ سلیم کے گھر جا رہی ہوتی۔ مگر سلیم، سلیم جانے کہاں ہو گا، اسے حالات کا پتہ بھی تھا یا نہیں ۔ شاید اپنی بے چاری عذرا کو بھول ہی چکا ہو، شاید ان رنگین باتوں سے صرف مذاق مقصود ہو یا وقت کٹی۔ مگر اس کے دل کی گہرائیوں میں کوئی کہہ رہا تھا۔ نہیں ۔ نہیں ۔ یہ الزام ہے۔ سلیم ایسا نہیں ۔ پھر دو اداسی بھری متبسم آنکھیں اس کے سامنے معلق ہو جاتیں ۔ نہیں ۔ وہ آنکھیں مذاق نہیں کر سکتیں ۔ حقیقت سے لبریز ہیں ۔ اس کے دل میں یقین سا ہو جاتا، وہ آئے گا۔ وہ ضرور آئے گا۔ وہ دنیا کا کونہ کونہ چھان مارے گا۔ شاید وہ اسی گاڑی میں موجود ہو۔ کہیں وہ بیمار نہ ہو۔ وہ ایک جھرجھری سی محسوس کرتی۔ نہیں ۔ وہ بیمار نہیں ۔ بس نہیں عذرا اپنا سر کھڑکی کی چوکھٹ پر ٹیک دیتی اور اسے ایسے محسوس ہوتا کہ وہ چوکھٹ نہیں ، سلیم کے شانے ہیں ۔ وہ سمٹ کر ان شانوں پر جھک جاتی۔ چاہے کچھ بھی ہو، اب مجھ کو تم سے کوئی بھی نہیں چھین سکتا.... کوئی بھی نہیں ۔ ساس نے اسے کمرے میں ایک فراخ پلنگ پر بٹھا دیا۔ کمرے میں دھندلی روشنی تھی۔ تمام مکان سنسان محسوس ہوتا تھا۔ دو چار عورتیں عذرا کو دیکھنے آئیں مگر چند منٹ ٹھہریں اور چلی گئیں ۔ اسے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے کسی ویران کھنڈر میں بھوت چل پھر رہے ہوں ۔ اس رات لیمپ روشن نہیں معلوم ہوتے تھے اور اندھیرا ہی اندھیرا تھا، اس کی جھکی جھکی آنکھوں کے سامنے سلیم کھڑا تھا، وہ محسوس کر رہی تھی جیسے سلیم کے انتظار میں بیٹھی ہو۔ دور ہوا درختوں میں ٹہنیوں سے لپٹ لپٹ کر رو رہی تھی سامنے کھڑکی کے شیشے سے ایک اداس کالا درخت نظر آ رہا تھا۔ کھڑکی کے باہر اندھیرا جھوم جھوم کر منڈلا رہا تھا لیمپ کے شعلے میں سلیم کھڑا تھا۔ اس کے چہرے پر پریشانی کی جھریاں تھیں ۔ عذرا کی آنکھ کھل گئی اس نے اضطراب سے چاروں طرف دیکھا وہ نہیں جانتی تھی کہ وہ کہاں ہے۔ سلیم کی آواز ابھی تک اس کے کانوں میں گونج رہی تھی۔ کیسا بیدار حسین خواب تھا۔ اس نے کروٹ بدل لی اور آنکھیں بند کر لیں وہ اس خواب سے بیدار ہونا نہیں چاہتی تھی۔ مگر بند ہونے کے علاوہ اس کی آنکھ میں نیند کا نشان بھی نہ تھا۔ یکلخت باہر سڑک پر کسی تانگے والے کی ’’پہاڑی‘‘ کی تان اس کے کان میں پڑی۔ تانگے کے پہیوں کی گڑگڑاہٹ عذرا کے لئے پہاڑی کی تان سے کہیں زیادہ دلکش تھی۔ اس کے سامنے سکول والی سڑک لہرا گئی۔ جب وہ آزاد تھی۔ جب وہ تانگے پر آیا جایا کرتی تھی۔ جب پہلی مرتبہ اس نے سلیم کی حیران اور مخمور آنکھ دیکھی تھی۔ سلیم کی پہلی ٹکٹکی۔ اس کے بند بند میں درد ہو رہا تھا۔ سولی کی چیخ سن کر وہ اٹھ بیٹھی۔ بے چارہ سولی بھی اس چار دیواری میں قید محسوس کر رہا تھا۔ کمرے کی دوسری طرف کپڑے کی کرسی میں نذر سویا ہوا تھا۔ جیسے وہ عذرا کی طرف دیکھتا ہوا سو گیا ہو۔ چہرے پر ایک تبسم سا تھا۔ جیسے کوئی خواب میں اسے گدگدا رہا ہو۔ باہر فضا میں دھیمی رو پہلی روشنی پھیل رہی تھی۔ ساتھ والے کمرے سے کھڑکھڑاہٹ سی سنائی دی۔ عذرا سمٹ کر چارپائی کے کونے پر بیٹھی۔ ’’عذرا.... نذر۔ ‘‘ نذر کی ماں بلا رہی تھی۔ نذر لپک کر اٹھ بیٹھا۔ اس کے چہرے پر اضطراب چھا گیا۔ اس نے آنکھیں ملیں اور چاروں طرف دیکھا۔ اس کی نگاہیں عذرا پر آ رکیں ۔ پھر اس کے منہ پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ جیسے کوئی کسی لطیف خواب کو حقیقت کے لباس میں دیکھ کر کھل جائے۔ ’’آیا اماں !‘‘ کہتا ہوا وہ کمرے سے باہر چلا گیا۔ اگلے روز دن بھر عورتیں آتی جاتی رہیں ۔ ہر کسی کو عذرا کو دیکھنے کا شوق تھا۔ ادھیڑ عمر کی عورتیں جن کے لئے جوانی کے چند دن دھندلے نقوش اور بیگانہ سے احساس تھے۔ عذرا کو اس انداز سے دیکھتیں جیسے کوئی اپنی گزری ہوئی دلچسپیوں کو خواب میں دیکھ کر مسکرا دیتا ہے۔ مگر کوئی دبی دبی ہوئی آہ اس مسکراہٹ کو اداس بنا دیتی۔ وہ شوق سے آتیں مگر کھوئے ہوئے انداز سے لوٹتیں ۔ جس طرح کوئی اپنی گذشتہ زندگی کے کسی رنگین واقعے کو یاد کر کے اپنی کھوئی ہوئی جوانیوں پر کسک سی محسوس کرتا ہے اور اپنے گرد ایک اداسی اور مٹی ہوئی دنیا پاتا ہے۔ دو ایک جوانی سے سرشار لڑکیاں بھی آئیں ۔ لچکتی ہوئی، ٹھمکتی ہوئی، مسکراتی ہوئی۔ ’’ہم جانتے ہیں ۔ ‘‘ کی سی مسکراہٹیں ۔ ’’بس یہ ظاہر داری رہنے دو۔ ‘‘ ابھی تو اس نگری کی دہلیز پر بیٹھی ہو۔ ‘‘ کی سی نگاہیں اچھالتی ہوئی۔ بنتی سنورتی، ٹہلتی ہوئی مگر عذرا اپنی نگری میں گم صم تھی۔ لیکن جب کوئی نووارد اس کا منہ دیکھنے کے لئے اس کا گھونگھٹ اٹھاتی تو وہ چونک پڑتی۔ پھر اسے یاد آتا کہ وہ کہاں ہے اور کون ہے اور اس کا چہرہ شرم سے تمتما اٹھتا۔ وہاں صرف سولی ہی ایسا متنفس تھا جو اس کے دل کی کیفیت سے واقف تھا۔ سولی اپنے پنجرے میں یوں مضطرب تھا جیسے اسے از سر نو قید کیا گیا ہو۔ وہ چاروں طرف دیکھ دیکھ کر پر پھڑپھڑاتا اور ان دیواروں کی اجنبیت محسوس کر کے بار بار چیختا۔ شام کے وقت نذر نے سولی کا پنجرہ عذرا کے پلنگ کے قریب رکھ دیا۔ سولی نے عذرا کو دیکھ کر چیخنا بند کر دیا اپنی گردن موڑ کر اپنے بازوؤں پر رکھ دی اور عذرا کی طرف ٹکٹکی باندھ کر بیٹھ گیا۔ عذرا نے سولی کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھ میں چمک آ گئی۔ صرف سولی ہی اس کا راز دار تھا، جس سے وہ سلیم کی باتیں کر سکتی تھی۔ نذر عذرا کے پاس آ بیٹھا۔ اس کی آنکھوں میں محبت کی جھلک تھی۔ ’’تم نے کل سے کچھ نہیں کھایا، عذرا کچھ تو کھاؤ، اماں نے تمہاری اتنی منتیں کی ہیں ۔ ‘‘ اس نے دھیمی منت بھری آواز میں کہا۔ ’’یہ تمہارا اپنا گھر ہے عذرا تم اس کا مالکہ ہو۔ ‘‘ اس کا حلق جذبات کی بھیڑ سے رک رہا تھا۔ اس نے اپنے بھدے سے ہاتھوں میں عذرا کا ہاتھ پکڑ لیا۔ ’’عذرا تم چپ کیوں ہو؟‘‘ اس سے زیادہ وہ کچھ نہ کہہ سکا۔ اس کی زبان کہنے والی زبان نہ تھی مگر اس کا ہاتھ خاموش اور مدھم زبان سے اپنا مفہوم ادا کر رہا تھا۔ اس وقت وہ بھدا گرم ہاتھ قوت گویائی سے زیادہ متکلم تھا۔ عذرا نے وہ پیغام کانوں سے نہیں بلکہ جسم کے بند بند میں سنا اور اس کی تمام قوت شل ہو گئی۔ وہ اپنا ہاتھ چھڑانا چاہتی تھی مگر وہ اپنے جسم پر قادر نہ تھی۔ کوئی نامعلوم طاقت اس کی مرضی کے خلاف اس کے جسم کو تھپک تھپک کر سلا رہی تھی۔ صرف دماغ کا کوئی نحیف حصہ جسم کی اس غداری اور اپنی بے بسی پر پیچ و خم کھا رہا تھا۔ جس طرح ڈراؤنا خواب دیکھ کر کوئی چیخ چلا کر بھاگ اٹھنا چاہتا ہے، مگر جاگ نہیں سکتا۔ اسی طرح عذرا بت بنی بیٹھی تھی۔ اس میں اپنا ہاتھ چھڑانے کی قدرت نہ تھی۔ اس نے ایک مخموع دھندلکے میں نذر کا ہاتھ دیکھا۔ سلیم کا ہاتھ بھی اسی طرح بڑا اور گرم تھا۔ ہاں سلیم کا ہاتھ متحرک تھا۔ بلا کا شوخ.... اس کے دل میں خواہ مخواہ آرزو پیدا ہو گئی کہ وہ بھدا ہاتھ متحرک ہو جائے۔ اس کی اپنی تمام قوت شوخی زندگی اس گھڑی کے لئے اس بڑے بھدے ہاتھ اور ان مضبوط بانہوں میں منتقل ہو جائے۔ اس کا جسم اس بھدے ہاتھ کے لئے منتظر تھا۔ بے تاب تھا اور وہ اپنی اس خواہش پر شرم محسوس کر رہی تھی اور پریشان تھی۔ مگر وہ احساس شرم اور پریشانی کسی نقار خانے میں طوطی تھا۔ اس نے آنکھیں بند کر لیں ۔ سلیم کا ہاتھ اس کے جسم سے مس ہو رہا تھا۔ اس کی بند آنکھوں کے سامنے سلیم آ کھڑا ہوا۔ تم ہو سلیم....! مجھے تم سے کوئی جدا نہیں کر سکتا۔ اس کے شانے جھک گئے۔ سر جھک گیا اور سلیم کے شانوں پر ٹک گیا۔ سلیم کی دو مضبوط بانہیں اس کے گرد آ پڑیں ۔ وہ سلیم کے پاس تھی۔ نذر کسی دفتر میں کلرک تھا۔ اس کے والد نذر کے لئے ایک معمولی سا مکان اور چند واجب الادا رقمیں چھوڑ کر مرے تھے۔ وہ عذرا کے والد کے بہت گہرے دوست تھے۔ نذر نے کچھ عرصہ پہلے کہیں اتفاقاً عذرا کو دیکھ لیا تھا اور عذرا کی نیچی نگاہوں اور اس کی لٹکی ہوئی لٹ نے اسے کئی دن پریشان رکھا تھا مگر وہ جانتا تھا کہ عذرا کو اپنے خوابوں میں جگہ دینا اپنا شیرازہ ہستی پریشان کرنا ہے۔ مرحوم دوست کے قلاش بیٹے کو کون خاطر میں لاتا ہے۔ جب اس نے اپنی ماں سے سنا کہ عذرا کے والد رضا مند ہیں بلکہ جلد نکاح کرنے پر رضامند ہیں تو اسے یقین نہ آتا تھا۔ اب بھی وہ کبھی کبھی سمجھتا کہ وہ خواب دیکھ رہا ہے اور وہ ابھی جاگ اٹھے گا اور اسے احساس ہو گا کہ ایک غریب کلرک کو ایسی مدہوش کن خوابیں ان لامتناہی فائلوں کے سامنے کس قدر مہنگی پڑتی ہیں ۔ مگر شاید یہ بھی فطرت کی ستم ظریفی تھی کہ عذرا اب صریحاً اس کی تھی۔ نذر کے لئے عذرا کی آمد مسرت کی ایسی لہر تھی جو ہر غیر متوقع خوشی میں ہم رکاب ہوتی ہے۔ اس کی خواہشات میں جو صرف ضروریات زندگی تک محدود تھیں ، ساڑھیاں جھلملانے لگیں ۔ پھول مہک اٹھے اور طلائی چوڑیوں کی جھنکار نغمہ زن ہو گئیں ۔ عذرا کے لئے حسین نازک چیک ہو، عذرا کے لئے قد آدم آئینہ ہو، عذرا کے لئے شربتی ریشم ہو۔ عذرا کے لئے.... عذرا اس کی خواہشات میں بھنور بن کر آئی تھی۔ اس نے ایک چھوٹا سا پرانا ٹائپ رائٹر خرید لیا تاکہ فرصت کے وقت ٹائپ کر کے اپنی آمدنی بڑھائے۔ یہ سب کچھ اس کے دل کی گہرائیوں میں ہوا اور کسی کو معلوم نہ ہوا کہ ان گہرائیوں میں کیا ہو رہا ہے اور اس کی خاموشی حسرت بھری تشویش ہے۔ عذرا کو پہلی مرتبہ ساڑھی میں دیکھ کر نذر کی آنکھ میں ایک مخمور چمک آ گئی۔ بوڑھی ماں نے جھکی ہوئی آنکھوں سے بیٹے کے تبسم کو محسوس کیا۔ اسے ایسا محسوس ہوا جیسے غسل خانے میں یا کسی اور جگہ کوئی ضروری کام بلا رہا ہو۔ اس کی آنکھوں نے چاروں طرف دیکھا۔ پھر وہ نذر کی جرابوں میں آن ٹھہریں ۔ ’’بیٹا یہ جرابیں مجھے دے دو۔ ‘‘ اس نے کہا۔ ’’دیکھو کیسی میلی ہو رہی ہیں ۔ لاؤ نہیں دھو دوں ۔ ‘‘ نذر نے چونک کر اپنی نگاہوں کو عذرا کی نیلی ساڑھی سے چھڑاتے ہوئے کہا۔ ’’نہیں اماں یہ تو اچھی بھلی ہیں ۔ پرسوں ہی تو پہنی تھیں ۔ ‘‘، ’’نہیں بیٹا۔ نہیں !‘‘ ماں نے اصرار سے کہا۔ ’’کیا حرج ہے؟‘‘ جرابیں لے کر ماں چلی گئی۔ کچھ دور تک نذر اس کو جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔ پھر عذرا کی طرف مڑ کر اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’عذرا یہ نیلی ساڑھی تمہیں بہت زیب دیتی ہے میری طرف دیکھو عذرا!‘‘ نذر نے اپنے ہاتھ سے عذرا کا منہ اپنی طرف پھیر دیا، عذرا نے آنکھیں جھکا لیں ۔ ہاں اس کے دل کا کوئی حصہ کہہ رہا تھا ان کو بھی نیلی پوشاک بہت پسند تھی۔ اس روز پارک میں کس شوق سے دیکھتے رہے تھے کس قدر پیار بھری نگاہیں تھیں ۔ کس قدر پیاری آواز تھی عذرا تمہیں نیلا لباس کس قدر زیب دیتا ہے اور کس پیار اور منت سے انہوں نے مجھ سے وعدہ لیا تھا۔ عذرا وعدہ کرو کہ تم ہمیشہ نیلا لباس پہنا کرو گی میرے لئے۔ میری خوشی کے لئے اور وعدہ لے کر کس قدر خوشی کا اظہار کیا تھا۔ کس دیوانگی سے جھومے تھے۔ اس نے اپنے ہاتھ پر دباؤ محسوس کیا۔ سولی کی چیخ نے اسے بیدار کر دیا۔ اس نے اپنا ہاتھ آہستہ سے چھڑا لیا اور اٹھ کر سولی کے پنجرے کے قریب جا بیٹھی۔ وہ سولی سے باتیں کرنا چاہتی تھی۔ پوچھنا چاہتی تھی۔ ’’تم میرے ہو نا سولی؟‘‘ وہ محسوس کر رہی تھی کہ صرف سولی ہی ایسی ہستی ہے جس سے بات کرنے کے لئے بولنے کی ضرورت نہیں ۔ انہیں نیلا رنگ پسند تھا نا سولی؟وہ مجھے نیلی کہا کرتے تھے، تم جانتے ہو نا! اس میں ان کے ہاتھوں کی بو ہے۔ ان کے پیار کی سلوٹیں ہیں ۔ ان پھولوں کا رس ہے جو وہ میرے لئے توڑ کر لایا کرتے تھے۔ کیوں سولی تم جانتے ہو نا....؟ مگر تم نہیں جانتے۔ تم نے انہیں کبھی نہیں دیکھا۔ تم صرف سمجھتے ہو اور سولی ان کے نچلے ہاتھ، بڑے بڑے پیارے پیارے بے تکلف ہاتھ اور چھیڑ دینے والی شوخ بانہیں .... اس کے کندھوں کے گذشتہ دباؤ تازہ ہو رہے تھے۔ وہ اٹھ بیٹھی اور اندر جا کر چارپائی پر لیٹ گئی۔ اس کی نیم وا آنکھوں نے اس مختصر کمرے کو اپنے دامن سے جھٹک دیا۔ یوں ہی دن گزر گئے۔ راتیں گزر گئیں ۔ مہینے گزر گئے۔ یوں تو رہنے کو عذرا اس مکان میں رہتی تھی مگر اس کی نیم وا آنکھوں کو دو چار دیواری قید نہ کر سکی۔ یا شاید اس چاردیواری کی وجہ سے ہی وہ آنکھیں دو بین ہو گئیں ۔ وہ اپنے دل کی دنیا ان نیچی نگاہوں کی جھکی ہوئی مژگاں پر اٹھائے پھرتی اور شاید جھکی ہوئی ہونے کی وجہ سے ہی ان نگاہوں نے نذر کی دنیا بدل ڈالی۔ گو نذر ان کھوئی کھوئی نگاہوں کو دیکھ کر جیتا تھا۔ کبھی کبھی ان نگاہوں کی وسعتوں کو محسوس کر کے اسے ڈر محسوس ہوتا تھا مگر شاید وہ ہلکا ڈر ان نگاہوں کو نذر کے لئے اور بھی جاذب بنا رہا تھا۔ عذرا جب کبھی اپنی دل کی دنیا سے چونک پڑتی اور دیکھتی کہ نذر اس کی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھ رہا ہے تو وہ آنکھوں کو جھکا لیتی۔ وہ ایک تبسم نذر کے لئے پیام حیات بن جاتا۔ وہ اس حیا سے لبریز تبسم کے لئے اپنی زندگی، اپنا آپ.... سبھی کچھ دینے کے لئے تیار تھا۔ پھر اس کی نظر نیلی ساڑھی پر پڑ جاتی اور وہ محسوس کرتا کہ وہ دن بدن پہننے کے ناقابل ہو رہی ہے۔ اس میں وہ چمک نہ رہی تھی۔ وہ سوچتا، دیکھو کتنی جگہوں سے پھٹ رہی ہے۔ بوسیدہ ہو چکی ہے۔ چمک نہیں ، پھر بھی عذرا اسے میرے لئے پہنے پھرتی ہے۔ اس لئے کہ میں اسے نیلی ساڑھی میں دیکھ کر خوش ہوتا ہوں ۔ صرف میری خوشی کے لئے۔ حالانکہ اس کے پاس سرخ ساڑھی بھی تو ہے۔ بلکہ سرخ ساڑھی تو اور بھی قیمتی ہے۔ کتنی پیاری ہے وہ عورت جس کو خاوند کی خوشی زیبائش سے بھی زیادہ عزیز ہوتی ہے.... ہندوستانی عورتیں .... دیویاں ہوتی ہیں ۔ مگر یہ ساڑھی تو بس اب پہننے کے قابل نہیں ۔ گوندا رام کہہ رہا تھا۔ ایسی ساڑھی چالیس روپے کی ملے گی۔ چالیس روپے۔ ساڑھی بھی کس قدر مہنگی پڑتی ہیں ۔ اس کے منہ سے بے ساختہ آہ نکل جاتی اور پھر وہ کمر جھکا کر اپنے ٹائپ رائٹر کے سامنے جا بیٹھتا۔ اس کے صبح و شام چالیس روپے کی آرزو میں بسر ہو رہے تھے۔ وہ سوچتا تھا، جب چالیس روپے لے کر وہ ساڑھی لائے گا۔ عذرا دیکھے گی۔ خوشی بھری، تعجب بھری، محبت بھری نگاہ۔ اس لمحہ کی نگاہ حاصل کرنے کے لئے وہ عمر بھر محنت کرنے کے لئے تیار تھا۔ عذرا اس کے پاس بیٹھی رہتی۔ مگر اس نے کبھی آنکھ اٹھا کر بھی نذر کو نہ دیکھا تھا بلکہ وہ نذر کے وجود یا موجودگی کے احساس سے قطعی بے گانہ تھی۔ وہ اس کے چہرے کی بناوٹ سے بھی اچھی طرح واقف نہ تھی۔ صرف اس کی پیشانی اور دانت دیکھتی۔ باقی خدوخال کو اپنی نگاہوں میں اٹکنے نہ دیتی۔ شاید اس لئے کہ نذر کی پیشانی اور دانتوں میں کچھ سلیم کی سی جھلک تھی۔ وہ دونوں اکثر ایک دوسرے کے پاس بیٹھے رہتے مگر پاس بیٹھنے کے باوجود وہ ایک دوسرے سے کوسوں دور تھے۔ دن بھر وہ سولی سے باتیں کرتی رہتی اور پھر سلیم کے پاس پہنچنے کے لئے اسے صرف آنکھیں جھکانے کی ضرو��ت تھی۔ ایک روز دوپہر کے وقت عذرا اماں کے پاس بیٹھی کچھ بن رہی تھی۔ کوئی اجنبی عورت آ کر ان سے ادھر ادھر کی باتیں کرتی رہی۔ پھر ماں جب نماز پڑھنے کے لئے گئی تو اس عورت نے عذرا کا ہاتھ پکڑ کر اس میں لپٹا ہوا کاغذ کا گولا رکھ دیا اور اس کی مٹھی بند کر دی۔ اس نے دبی ہوئی آواز سے کہا۔ ’’یہ انہوں نے دیا ہے۔ وہ یہاں آئے ہوئے ہیں ۔ ‘‘ پہلے تو عذرا حیرانی سے اس کے منہ کی طرف دیکھتی رہی، پھر اس نے اپنی مٹھی کھول کر دیکھا۔ اس کے ہاتھ میں ایک مڑا تڑا لفافہ تھا۔ اس نے لفافے کو غور سے دیکھا۔ اس کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کون آئے ہوئے تھے اور وہ بڑھیا کون تھی۔ اس کی طبیعت میں تشویش اور ڈر پیدا ہو گیا مگر وہ عورت جاچکی تھی۔ غالباً وہ اپنے خیالی سلیم سے اس قدر مانوس ہو چکی تھی اور اپنی دنیائے تصور میں اس قدر کھو چکی تھی کہ اسے کسی جیتے جاگتے سلیم کا انتظار نہ رہا تھا۔ خیال تک بھی نہ رہا تھا۔ شاید اگر سلیم بذات خود اس وقت اس کے سامنے آ موجود ہوتا تو اسے بیگانہ محسوس ہوتا۔ بہرصورت اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ لفافہ کس کا تھا۔ اس کے دل میں لفافے کو کھولنے کی ہمت نہ پڑی تھی اور وہ سخت پریشانی محسوس کر رہی تھی۔ اس نے اس کاغذ کے گولے کو پھر سے اپنی مٹھی میں دبا لیا۔ اٹھ بیٹھی۔ اندر چلی گئی۔ پھر باورچی خانے میں گئی۔ صحن میں آئی۔ اسے معلوم نہ تھا کہ وہ کہاں جا رہی ہے یا کس لئے یہاں وہاں گھوم رہی ہے۔ جس طرح طوفان آنے سے پہلے کسی ویران ساحل پر کسی نامعلوم آنے والے کو ڈر محسوس کرتے ہوئے پرندے کالی اداس چٹانوں پر دیوانہ وار منڈلاتے ہیں ۔ وہ چاہتی تھی کہ مٹھی میں اس کاغذ کے گولے کو بھینچ بھینچ کر ناپید کر دے اور اپنی دنیا کو محفوظ کر لے۔ کمرہ گھوم رہا تھا۔ اس نے اپنے آپ کو اپنے ٹرنک کے اوپر بیٹھے ہوئے پایا۔ ٹرنک کھلا تھا۔ وہ لپٹا ہوا لفافہ اس کی گود میں تھا۔ اس نے کھوئے انداز میں اسے پھاڑ کر کھولا۔ اس کی آنکھوں تلے الفاظ ناچ رہے تھے۔ دل دھڑک رہا تھا۔ نگاہیں تیزی سے لفظوں پر سے پھسل رہی تھیں جیسے وہ مضمون کے سحر سے بچنا چاہتی ہو۔ اس نے صرف یہی سمجھا کہ وہ آئے ہوئے ہیں اور اس کو ساتھ لے جانے پر مصر ہیں ۔ اس کے انداز سے ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ زبان حال سے کہہ رہی ہو۔ بس مجھے اسی کا ڈر تھا اور یہی ہو کر رہا۔ وہ بھاگی پھر رہی تھی مگر خط کا مضمون اس کا پیچھا کر رہا تھا اور بوند بوند اس کے دل کی گہرائیوں میں ٹپک رہا تھا۔ اس پر غلبہ پا رہا تھا۔ آخر وہ پلنگ پر لیٹ گئی اور ایک ایک سطر اس کے سامنے ناچ گئی۔ جانا.... چلے جانا.... اس کا دل کانپ اٹھا.... دماغ میں خلاء سا پھیل گیا۔ ماحول میں کوئی مفہوم نہ رہا.... اس وقت کائنات اس کے لئے ایک بے معنی پھیلاؤ تھی۔ رات کو وہ چیخ مار کر اٹھ بیٹھی۔ اس رات سلیم کی بجائے کئی اور خوفناک شکلیں اس کے خوابوں میں گھس آئی تھیں ۔ بھدے بھدے ہاتھوں اور سفید سفید دانتوں والی ڈراؤنی شکلیں ۔ نذر کرسی پر بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے دونوں ہاتھوں سے عذرا کو تھام لیا۔ ’’کیا ہے عذرا؟‘‘ اس کا چہرہ فکر اور خوف سے بھیانک ہو رہا تھا۔ ’’آج تمہیں کیا ہے؟ تم بیمار تو نہیں ؟‘‘ عذرا کو محسوس ہو رہا تھا جیسے میلوں دور کوئی کچھ کہہ رہا ہو۔ اس نے چاروں طرف دیکھا۔ اس کی یادداشت صاف ہو رہی تھی۔ ’’ہاں وہ عورت.... دوپہر.... وہ خط.... ان کا خط.... سلیم کا.... وہ یہاں آئے ہوئے ہیں ۔ وہ مجھے لے جانا چاہتے ہیں ۔ ‘‘ اس نے جھرجھری سی لی۔ نذر کسی سے خدا جانے کیا کیا کہہ رہا تھا۔ عذرا نے آنکھیں بند کر لیں اور اس کا سر کسی کے شانوں پر جا ٹکا۔ آج پہلے دن عذرا کا سر سلیم کے شانوں پر نہ تھا۔ جانے تکئے پر تھا یا پتھر پر.... مگر نذر کے شانوں پر عذرا کا سر تھا اور عذرا کے بالوں کے دھیمی دھیمی خوشبو نذر کو فکرمند اور پریشان کر رہی تھی۔ عذرا کا دل کئی ایک خواہشات میں جھول رہا تھا۔ چھوٹی چھوٹی خواہشات ایک دوسرے سے جھگڑ رہی تھیں ۔ ایک حصہ سولی کی شکل میں کہہ رہا تھا۔ تم ان کی ہو عذرا.... اور اب ان سے تم کو کوئی بھی نہیں چھین سکتا۔ فراخ پیشانی اور سفید سفید دانت کہہ رہے تھے۔ عذرا تم بیمار تو نہیں .... تمہیں کیا ہے عذرا.... دو بھدے ہاتھ کہہ رہے تھے۔ تم آنکھیں جھکا لو۔ عذرا تمہاری دنیا تو پاس ہے۔ سامنے سلیم کھڑا تھا۔ وہ قہقہہ مارکر ہنس رہا تھا۔ ڈراؤنی ہنسی، پیاری ہنسی.... شام کو وہ سولی سے کہہ رہی تھی۔ ’’سولی تم اکیلے رہ سکو گے؟ اگر میں چلی جاؤں تو مجھے یاد کرو گے؟ مجھے برا تو نہیں کہو گے سولی؟ کیا میں ان کے ساتھ چلی جاؤں ۔ وہ آج رات کو دو بجے شیشم کے درخت کے نیچے آئیں گے۔ وہ درخت جو میرے کمرے کی کھڑکی کے باہر دکھائی دیتا ہے۔ کیوں سولی میں ان کے ساتھ چلی جاؤں ؟ دنیا کیا کہے گی؟ ابا جان کیا کہیں گے؟ سولی.... تم تو جانتے ہو.... تم تو سمجھتے ہو نا؟‘‘ شام کو اس نے نیلی ساڑھی لپیٹ کر ایک پارسل بنا لیا اور اسے میز پر رکھ دیا۔ اس کا دل ہلکا درد محسوس کر رہا تھا۔ پھر وہ جلد ہی اپنے کمرے میں جا لیٹی۔ اس روز وہ سوچنا نہیں چاہتی تھی۔ وہ سوچنے سے ڈر رہی تھی۔ اس نے ایک پرانا رسالہ اٹھا لیا۔ پڑھنے کی کوشش کی مگر الفاظ اس کی آنکھوں تلے ناچ رہے تھے۔ صفحات کبھی سفید ہو جاتے اور کبھی الفاظ ایک دوسرے سے ٹکرا کر گھوم جاتے۔ اس نے باہر پاؤں کی چاپ سنی۔ اس روز اس کی قوت سامعہ بہت تیز ہو رہی تھی۔ اس نے نذر کی ماں کے کمرے میں جاتے ہوئے سنا۔ اس کے پاؤں کی آہٹ بتا رہی تھی کہ نذر کی طبیعت ٹھیک نہیں ۔ عذرا کھڑکی کے سامنے بیٹھی تھی۔ کھڑکی باہر سڑک پر کھلتی تھی۔ اس کی نظر بار بار کھڑکی سے باہر درخت پر جا جمتی۔ اس وقت کھڑکی بند تھی مگر شیشے میں سے صاف نظر آ رہا تھا۔ باہر سڑک پر کبھی کبھی کوئی راہ گیر گزرتا تو اس کے پاؤں کی چاپ صاف سنائی دیتی۔ شیشم کا درخت متانت سے کھڑا تھا۔ عذرا یوں محسوس کر رہی تھی جیسے وہ درخت اس کے راز سے واقف ہو۔ صحن والی کھڑکی میں سولی کا پنجرہ تھا۔ سولی دو روز سے خاموش بیٹھا تھا۔ اس نے باتیں کرنی چھوڑ دی تھیں ۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے سولی دنیا سے بے زار رہ چکا ہو۔ پھر عذرا کی نگاہ میز پر پڑی۔ نیلی ساڑھی والے پارسل کو دیکھ کر عذرا لپک اٹھی۔ اس نے پارسل اٹھایا۔ وہ سوچ رہی تھی کہ اسے کہاں رکھا جائے۔ دروازے کے قریب جا کر اس نے سنا، ماں بیٹا باتیں کر رہے تھے۔ ’’تم نے تو اپنا آپ تباہ کر لیا۔ صبح شام کام، دن رات کام، ہر وقت کی ٹک ٹک.... ایک ساڑھی کے لئے اپنا آپ حلال کر رکھا ہے۔ ‘‘ ’’نہیں اماں ! یہ نہ کہو۔ ‘‘ نذر بار بار کھانس رہا تھا۔ ’’جب سے وہ آئی ہے۔ ہم نے اس کو دیا ہی کیا ہے۔ مگر اماں وہ ایسی اچھی ہے کہ کبھی گلہ تک نہیں کیا۔ میں اسے دے ہی کیا سکتا ہوں ۔ تنخواہ میں بمشکل گزارہ ہوتا ہے۔ ‘‘ مگر بیٹا اس کے پاس اور بھی تو ساڑھیاں ہیں ۔ وہ کیوں نہیں پہن لیتی۔ پھر وہ نیلی ساڑھی کے لئے اس قدر بے تاب ہے۔ میں تو نہیں سمجھتی.... ہمارے زمانے میں ....‘‘ ’’اماں تم بھولتی ہو۔ اس نے تو مجھے نہیں کہا.... مگر یہ تو معمولی بخار ہے۔ تم فکر نہ کرو۔ ‘‘ نذر آیا اور آتے ہی لیٹ گیا۔ اسے تیز بخار تھا۔ عذرا کھڑکی کے سامنے چپ چاپ بیٹھی ہوئی تھی۔ اس کی خاموشی کسی گہری دلی کشمکش کی چغلی کھا رہی تھی۔ اس کے بھنچے ہوئے ہونٹ کسی چھپے ہوئے ہنگامے کا حال کہہ رہے تھے۔ ’‘’تم سو جاؤ عذرا!‘‘ نذر نے دھیمی آواز میں کہا۔ ’’تم کیوں میرے لئے بے آرام ہو۔ میری فکر نہ کرو۔ میں بالکل ٹھیک ہوں ۔ ‘‘ وہ بخار کی شدت میں کچھ کہہ رہا تھا جو اس نے کبھی نہ کہہ سکا تھا۔ اس لئے ہاتھ میں عذرا کا ہاتھ پکڑ لیا۔ ’’تم نہ ہوتیں عذرا تو میری زندگی میں یہ بات نہ ہوتی۔ تم میری زندگی ہو.... میں کتنا خوش نصیب ہوں ۔ تمہیں دیکھ کر مجھے کوئی دکھ نہیں رہتا۔ ‘‘ اس نے اضطراب سے دو ایک کروٹیں بدلیں ۔ پھر وہ عذرا کے پاؤں کے قریب ہو گیا۔ اس قرب پر وہ خوشی محسوس کر رہا تھا جیسے کوئی بچہ بڑے پیار سے کھلونے سے کھیلتا ہے۔ عذرا بت بنی بیٹھی تھی۔ شاید وہ اس کی باتیں نہیں سن رہی تھی۔ یا نہ سننے کی کوشش کر رہی تھی۔ پھر یکلخت اس نے اپنے پاؤں پر دو گرم ہونٹوں کو مس کرتے ہوئے محسوس کیا۔ وہ چونک اٹھی، کانپ اٹھی۔ اس کی نگاہیں جھک کر نذر پر جم گئیں ۔ آج پہلی مرتبہ اس نے نذر کو نگاہ بھر کر دیکھا تھا اور پہلی مرتبہ اسے احساس ہوا کہ وہ نذر کے پاس ہے۔ رات بخار سے بے چین وہ بار بار بڑبڑا اٹھتا۔ ’’چالیس روپے۔ نیلی چالیس روپے۔ ‘‘ وہ اکثر عذرا عذرا چیخ کر اٹھ بیٹھتا۔ تم میرے پاس ہو نا عذرا....؟ ہاں .... تم میرے پاس ہو۔ ‘‘پھر وہ آرام سے لیٹ جاتا۔ ’’تم آرام کرو عذرا۔ تم اب سو جاؤ.... تم بیمار ہو جاؤ گی۔ میری فکر نہ کرو۔ میں اب اچھا ہوں ۔ ‘‘ اس وقت عذرا کی آنکھیں کھڑکی سے ہٹ جاتیں اور وہ کسی الجھاؤ میں پڑ جاتی۔ اس کا سر گھوم رہا تھا۔ اس کا حلق خشک تھا۔ وہ سوچ بچار کے ناقابل تھا۔ باہر چاند کی چاندنی میں شیشم کا درخت اپنی شاخیں پھیلائے کھڑا تھا اور کوئی دھندلی سی شکل اس کے نیچے کھڑی نظر آ رہی تھی۔ عذرا بڑبڑا رہی تھی، وہ آئے ہیں ۔ ہاں ....! عذرا کا جی چاہتا تھا کہ سلیم سے جا ملے۔ کوئی اس کا دامن پکڑ لیتا عذرا اٹھ بیٹھی، اسے پتہ نہ تھا کہ وہ کیا کر رہی ہے۔ یا کیا کرنا چاہتی ہے۔ باہر ہوا زور سے چل رہی تھی اور درختوں کی ٹہنیاں لپٹ لپٹ کر رو رہی تھیں ۔ عذرا نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے اپنی نیلی ساڑھی اٹھا لی۔ نذر بڑبڑا رہا تھا۔ ’’نیلی چالیس روپے۔ ‘‘ عذرا ڈر گئی۔ اس کا سر انگارے کی طرح گرم محسوس ہو رہا تھا۔ سولی نے چیخ ماری.... دردناک چیخ۔ عذرا نے اسے دیکھا۔ غریب اپنے پنجرے میں یوں پھڑپھڑا رہا تھا جیسے وہ عذرا سے کچھ کہنے کے لئے مضطرب ہو۔ میز پر پنسل پڑی تھی۔ دفعتاً عذرا نے وہ پنسل پکڑ لی۔ وہ پارسل لکھ رہی تھی۔ ’’میں نہیں آسکتی۔ ‘‘ اس نے پنسل اپنے آپ سے چھین کر پھینک دی۔ اس ڈر کے مارے کہ وہ لکھا ہوا کاٹ نہ دے۔ اس نے کھڑکی کھولی اور باہر دیکھے بغیر وہ پارسل سڑک پر پھینک کر جھٹ دروازہ بند کر لیا جیسے وہ کھڑکی کے کھلے رہنے سے ڈر رہی ہو۔ وہ دھندلی سی شکل آگے بڑھی۔ عذرا پیچھے ہٹ گئی۔ اس نے اپنی آنکھیں بھینچ کر بند کر لیں اور اپنے کانوں میں انگلیاں دے دیں ۔ اس کے کانوں میں ایک شور محشر سنائی دے رہا تھا۔ کچھ دیر کے بعد اس نے دیکھا، کوئی پارسل ہاتھ میں پکڑے جا رہا تھا۔ وہ چیخ کر اسے بلا لینا چاہتی تھی۔ اس نے اپنے دل میں شکست کی آواز سنی اور دھم سے کرسی پر گر گئی۔ ’’یہ میں نے کیا کر دیا۔ یہ میں نے کیا کر دیا۔ ‘‘ اس کے دل سے دیوانہ وار آوازیں آ رہی تھیں ۔ اس کی آنکھ سے آنسو گر رہے تھے۔ بے اختیار اس کے منہ سے چیخ ہچکی کی شکل میں نکل گئی۔ نذر اٹھ بیٹھا.... ’’کیوں عذرا.... کیوں .... میں .... تم روتی ہو؟ کیوں رو رہی ہو؟ عذرا میں یہاں ہوں ۔ میں تمہیں چھوڑ کر نہیں جاؤں گا۔ میں تمہارا ہوں ۔ عذرا تم فکر نہ کرو۔ سو جاؤ۔ ‘‘ نذر نے عذرا کا سر اپنے شانوں پر رکھ لیا۔ عذرا کی ہچکیاں رکتی نہ تھیں ۔ ’’میں نے کیا کر دیا۔ میں نے کیا کر دیا۔ ‘‘ ’’سلیم تم نہ جاؤ۔ سلیم.... سلیم۔ ‘‘ اس نے اپنا سر جھکا لیا۔ آنکھیں بند کر لیں ۔ سلیم سامنے کھڑا تھا۔ پھر اس کا سر سلیم کے شانوں پر جھک گیا۔ ’’سلیم مجھے تم سے کوئی جدا نہیں کر سکتا....‘‘ پھر اس نے سنا جیسے میلوں دور کوئی کہہ رہا تھا۔ ’’عذرا میری وفا کی دیوی۔ ‘‘ ٭٭٭ Read the full article
0 notes
dragnews · 7 years
Text
کیسے سولہ سال کی لڑکیوں کو پاکستان میں را کی ایجینٹ بنا کر نوجوان کے ساتھ غلط کام کرواکر ملکی راز لئے جاتے ہیں بڑا انکشاف
سید احمد ارشاد ترمذی جنکا تعلق آئی ایس آئی سے تھا وہ اپنی ایک تحریر میں لکھتے ہیں کہ“شہر اقتدار میں دنیا کے متعدد سفارتخانوں نے اپنے عملے کے بچوں کی ابتدائی تعلیم و تربیت کی غرض سے ایمبیسی اسکول کھول رکھے ہیں، خاص طور پر ان ممالک نے جن کے عملے کی تعداد زیادہ ہے اور طالب علم بھی کافی تعداد میں ہیں، یہ سلسلہ دنیا کے تقریبا سبھی ممالک میں موجود ہے اور بظاہر کسی حوالے سے بھی سفارتی آداب اور قواعد کے خلاف نہیں۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان اسکولوں میں محض درس و تدریس کا کام ہی نہیں ہوتا بلکہ ان اسکولوں کے عملے کے کئی ارکان کو تعلیمی سرگرمیوں کی آڑ میں جاسوسی کے کام پر بھی مامور کیا جاتا ہے۔ خفیہ ایجنٹ اسی طرح کے دوسرے اداروں مثلا ائیر لائنز کے دفاتر ، ہوٹلوں، لینگویج سینٹرز ، ایوان ہائے ثقافت و دوستی اور مراکز اطلاعات میں بھی تعینات کئے جاتے ہیں۔ ۔جاری ہے ۔
رانگ نمبر نے کتنے گھر اُجاڈ دیے
ہمیں اپنی معمول کی چیکنگ کے دوران اسلام آباد میں قائم انڈین ایمبیسی اسکول کی ایک مس وینا کی سرگرمیاں کچھ مشکوک نظر آئیں۔ مسلسل نگرانی کے بعد ہمیں پتہ چلا کہ اسکول کی تدریسی سرگرمیوں میں تو وہ کم حصہ لیتی ہے مگر اکثر اوقات شکار کی تلاش میں اسلام آباد کے چند گھروں میں دکھائی دیتی ہے ۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہوا کہ مس وینا کا بھارتی سفارتخانے کے ڈیفنس اتاشی اور ”را” کے فرسٹ سیکریٹری سے مستقل رابطہ ہے۔ یہ دونوں پاکستان کے دفاعی اور ایٹمی راز معلوم کرنے کے درپے تھے، اور بھارتی ماتا ہری ان کی ہدایات پر کام کرتی تھی۔ مس وینا کی عمر 25یا 26 سال کے لگ بھگ تھی، مگر دیکھنے میں وہ 18-19 سال کی بے ضرر اور معصوم سی لڑکی لگتی تھی ۔ ستواں ناک، کتابی چہرہ، کھلتا ہوا رنگ، انتہائی متناسب جسم ، چال ڈھال میں ایک خاص قسم کا بانکپن، اور گفتگو کا مخصوص انداز، اس کے خطرناک ہتھیار تھے۔ اس کی خاموش نظریں بھی گہرائیوں تک سرایت کرتی محسوس ہوتی تھیں۔ اس کے چہرے پر ہمہ وقت ایک ہلکی سی مسکراہٹ تو رہتی لیکن اس کی نظروں میں ایک ایسی اداسی بھی دکھائی دیتی تھی جیسے صدیوں پرانا ایک محل اپنی لٹی ہوئی تابناکیوں ، خوشیوں اور روشنیوں کے لوٹ آنے کے کربناک انتظار میں ہو، جیسے وقت کے بے رحم ہاتھ لمحہ بہ لمحہ اے ریزہ ریزہ کر رہے ہوں یا جیسے اک تھکن سے چور چور مسافر جو اپنی منزل کا نام بھی بھول چکا ہو مگر پھر بھی ایک لامتناہی سفر پر ہو۔ مس وینا کا بدن اور روح بھی ایک دوسرے سے جدا جدا ، گم سم کسی انجانی منزل کی تلاش میں رہتے۔ ۔جاری ہے ۔
قصور: حق مہر کا تنازعہ، بیٹی کا نکاح بھتیجے سے کردیا، دُولہا خالی ہاتھ واپس
مزید معلومات کے لئے ہم نے ایک پاکستانی ہندو لڑکے کو انڈین ایمبیسی اسکول میں داخلہ دلوایا۔ اس کی ماں نے ہماری ہدایات پر یہ ظاہر کیا کہ وہ اپنے بچے کی تعلیمی سرگرمیوں کے بارے میں بے حد متفکر ہے اور وہ ان سرگرمیوں کے بارے میں آگاہ رہنا چاہتی ہے۔ وہ ہر دوسرے تیسرے روز اسکول جانے لگی اور یوں آہستہ آہستہ مس وینا کے ساتھ دوستی استوار کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ جلد ہی ان کی دوستی اسکول کی حدود سے نکل کر گھر اور مارکیٹ تک آگئی۔ وہ متواتر ایک دوسرے کو ملتیں ، شاپنگ اکٹھے کرتیں، سینما جاتیں اور اسلام آباد کے تفریحی مقامات پر اکٹھے گھومنا پھرنا بھی ان کا معمول بن گیا۔ وینا اسی محترمہ کو شکارکرکے اسے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنا چاہ رہی تھی اور یہ نہیں جانتی تھی کہ یہ معصوم شکار خود اس کا شکاری ہے۔ کچھ ہی عرصے بعد ہمارے اس شک کی تصدیق ہوگئی کہ مس وینا کا اسکول کی تدریسی سرگرمیوں میں کوئی کردار نہیں۔ وہ بھارتی جاسوس ہے اور ہمہ وقت اپنے آقاؤں کے حکم کی بجا آوری میں ”مشن” کے لئے تیار رہتی ہے ۔ اب ہماری نظریں اس کی آمد و رفت اور روزمرہ کی مصروفیات پر مذکور ہوگئیں اور ہم اس انتظار میں تھے کہ وینا کے پھینکے ہوئے کانٹے میں کونسی ”پاکستانی مچھلی ” پھنستی ہے۔ ایک روز بھارتی ایمبیسی کی جانب سے اسلام آباد کے ایک بڑے ہوٹل میں کمرہ بک کروایا گیا۔ یوں تو یہ ایک معمول کی بات تھی مگر سفارتخانے کے مہمانوں کی شناخت اور ان کے بارے میں جاننا ۔جاری ہے ۔
حمائمہ ملک اور مہیب مرزا نے ملکی تاریخ کا فحش ترین گانا بنا ڈالا، دونوں کی ویڈیو نے سوشل میڈیا پر ہنگامہ برپا کر دیا، پاکستانی غضبناک ہو گئے
ہمارے فرائض میں شامل تھا۔ ہوٹل سے ہمارے آدمی نے اطلاع دی کہ مس وینا بھارتی ڈیفنس اتاشی کی گاڑی میں سفارتخانے کے عملے کے ایک رکن مسٹر کھنہ کے ساتھ جو ”را” کی ٹیم کا ممبر بھی تھا، ہوٹل پہنچی ہے اور کھنہ ، وینا کو ہوٹل کے کمرے میں چھوڑ کر لابی میں بیٹھا شاید کسی مہمان کا منتظر ہے۔ ہم نے ائیرپورٹ سے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ اس وقت کوئی جہاز نہیں آرہا اور نہ ہی بھارتی سفارتخانے کی کوئی کار ائیرپورٹ گئی ہے، اس سے ظاہر ہوا کہ ”مہمان” کوئی یہیں کا ہے ۔ ہم نے سیٹی بجادی اور ہماری ٹیم نے ضروری سازوسامان کے ساتھ اپنی پوزیشن سنبھال لی۔ چند لمحوں کے بعد پرویز نامی ایک پاکستانی نوجوان ، جس کے چہرے سے سراسیمگی اور خوف ٹپک رہا تھا ہوٹل کی لابی میں داخل ہوا۔ مسٹر کھنہ نے آگے بڑھ کر بڑی گرم جوشی سے اس کا استقبال کیا اور کہا’ ” آئیے پرویز صاحب ہم تو آپ کے دیر سے منتظر ہیں” اور اسے اس کمرے میں لے گیا، جہاں وینا آنے والے لمحوں کے تانے بانے بن رہی تھی۔ وقت ضائع کئے بغیر ہمارے ساتھیوں نے پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق کپڑے تبدیل کئے اور مختلف روپ دھارکر اپنے اپنے ڈیوٹی کے مقام پر پہنچ گئے۔ توقع کے عین مطابق کمرے سے روم سروس کو انٹرکام پر چائے اور سینڈویچز کا آرڈر دیا گیا۔ ہمارا تربیت یافتہ ”ویٹر” فوری طور پر چائے کی ٹرالی لے کر روانہ ہوگیا، جس میں ایک چھوٹا سا ٹرانسمیٹر نصب تھا۔ ۔جاری ہے ۔
ثانیہ مرزا کا دورہ پاکستان ، لاہور میں سیر سپاٹے
واپسی پر ”ویٹر” نے بتایا کہ وینا اپنے مہمان پر اپنا سب کچھ نچھاور کرنے کے لئے بے چین ہے مگر اس کا مہمان سہما ہوا اور شرمیلا سا ہے، جبکہ مسٹر کھنہ دلالوں کا روایتی کردار ادا کر رہا ہے اور اسکی کوشش ہے کہ مس وینا اپنے مہمان کے تمام حواس پر قبضہ کرلے۔ بہر حال ہم ٹرالی میں لگے ٹرانسمیٹر کی مدد سے ان لوگوں کی گفتگو سن رہے تھے اور اسے ریکارڈ بھی کر رہے تھے۔ کچھ ہی دیر بعد کھنہ کمرے سے باہر آگیا اور اپنی کار میں بیٹھ کر واپس ایمبیسی چلاگیا ۔ اس کے چہرے کی بشاشت بتارہی تھی کہ شکار پنجے میں آچکا ہے اور چند ہی لمحوں میں وینا اس کا جھٹکا کر کے اس کے کباب بنالے گی۔ برحال مس وینا اور پرویز کی گفتگو رسمی تعارف تک ہی محدود رہی۔ پرویز کے انداز سے ظاہر ہورہا تھا کہ وہ کھل کر اپنے جذبات کا اظہار نہیں کر رہا اور گھبرایا ہوا ہے۔ مگر وینا اس مہم کو سرکرنے کے لئے اس پر تابڑ توڑ اور خطرناک حملے کر رہی تھی۔ وینا کے لئے اپنے اعلیٰ افسران پر اپنی کارکردگی ثابت کرنے کا شاید یہ بہترین موقع تھا اور وہ کسی صورت بھی یہ موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتی تھی ۔ کچھ ہی دیر بعد ٹرانسمیٹر سے تیز سانسوں کی آواز آنے لگی اور بالآخر یہ تلاطم تھم گیا ۔ پرویز شاید ذبح ہوچکا تھا۔ پرویز تقریبا آدھ گھنٹہ کمرے میں رہا اور وینا کو اپنا ایڈریس لکھوا کر اور وصل کا ایک اور وعدہ لے کر نیچے آگیا، مگر اس کی حرکات و سکنات سے صاف ظاہر ہورہا تھا کہ اس کی گھبراہٹ جوں کی توں ہے ۔ ہوٹل سے نکلتے ہی ہم نے اس کا پیچھا کیا اور اسے اپنی گاڑی میں بٹھاکر اپنے ریسٹ ہاؤس لے گئے۔ ۔جاری ہے ۔
ایک لمحے میں اس کے سارے حسین خواب منتشر ہوگئے۔ تفتیش شروع ہوئی تو وہ اپنی شناخت کرانے سے ہچکچارہا تھا۔ نتیجتاً ہم نے وینا کے ساتھ اس کی گفتگو کی ریکارڈنگ اسے سنائی تو اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں ۔ اس نے بچوں کی طرح رونا شروع کردیا اور معافی مانگنے لگا۔ اس نے بتایا کہ ”میں پاکستان اٹامک انرجی کمیشن میں انجینئر ہوں او رکھنہ کے ساتھ میری ملاقات لاہور سے اسلام آباد آتے ہوئے ایک بس میں ہوئی تھی۔ ہم بہت جلد دوست بن گئے اور کھنہ نے مجھے ایک خوبصورت ہندو لڑکی سے ملوانے کی پیشکش کی جسے میں ٹھکرانہ سکا۔” ہمارے لئے اس میں حیرت کی کوئی بات نہ تھی کہ بھارتی خفیہ اداروں نے چانکیا کی تعلیمات کے مطابق رنڈیوں سے جاسوسی کا کام لینے کو ب��ی اپنے کلچر کا حصہ بنا رکھا تھا۔ اس کھیل کو آگے بڑھانے کے لئے ہمارے پاس اور بہت سے راستے تھے۔ پہلے ہم نے سوچا کہ پرویز سے ڈبل ایجنٹ کا کام لیا جائے مگر بعد ازاں اس کی ملازمت کی حساس نوعیت کو دیکھتے ہوئے ہم نے اپنا ارادہ منسوخ کر دیا تاہم اس واقعہ کی ایک رپورٹ اس کے متعلقہ محکمے کو بھجوادی گئی اور پرویز کو ملازمت سے فارغ کردیا گیا۔ بہر حال پرویز سے ملاقات کے بعد مس وینا ابھی ہوٹل کے کمرے میں موجود تھی۔ یا تو وہ کھنہ کا انتظار کرتی یا پھر ایمبیسی فون کرتی کہ ہوٹل میں میری ڈیوٹی پوری ہوگئی ہے اور مجھے آکر یہاں سے لے جایا جائے ۔ ۔جاری ہے ۔
اب ہمارے پاس ہوٹل کا محاذ ہی تھا اور وقت بہت کم۔ وینا تک رسائی حاصل کرنا خطرے سے خالی نہ تھا۔ وہ ہمارے کسی بھی اہلکار کی کمرے میں موجودگی کی صورت میں الارم بجاسکتی تھی اور ہمارے لئے ایک پیچیدہ سفارتی تنازعہ پیدا ہو سکتا تھا۔ دوسری جانب یہ ایک ایسی صورتحال تھی جس سے فائدہ نہ اٹھانا ہماری ”خفیہ روایات ” کے خلاف تھا۔ کسی بھی رسک کی صورت میں کامیابی کی توقع ففٹی ففٹی تھی۔ تاہم مس وینا کی شخصیت اور کردار کو سامنے رکھ کر ہمیں اس بات کا یقین تھاکہ اگر اس صورت حال میں مہارت اور چابکدستی سے کام لیا جائے تو اس بھارتی ماتا ہری کو شیشے میں اتارنا مشکل نہ ہوگا۔ ہمارے لئے یہ ملین ڈالر چانس تھا جسے آزمایا جاسکتا تھا۔ ہم نے لمحوں میں حتمی فیصلہ کیا اور کچھ ہی دیر بعد ہمارے روم سروس والے اسی ویٹر نے کمرے کے دروازے پر دستک دی ۔ بظاہر وہ چائے کی ٹرالی واپس لینے گیا تھا ۔پلان کے مطابق اس نے کمرے کا دروازہ کھلا رکھا، وینا سے رسمی سلام دعا کی اور اس اثناء میں ہمارا کیس افسر بھی کمرے میں پہنچ گیا۔ یہ حکمت عملی اس لئے اختیار کی گئی تھی تاکہ وینا اپنے سفارتخانے فون نہ کرسکے ۔ اگر کھنہ خود آتا تو اس صورت حال کے لئے بھی ہمارا ایک آدمی تیار تھا۔ منصوبے کے مطابق کیس آفیسر ہوٹل کے سیکورٹی ایگزیکٹو کے روپ میں کمرے میں داخل ہوا۔ اپنا تعارف کروایا اور ہوٹل کی سروس کے بارے میں معمول کی گفتگو کرنے لگا۔ وینا کو ذرا برابر شک نہ گزرا۔ اس کے لئے سب معمول کی بات تھی۔ وہ انتہائی مطمئن اور خوشگوار موڈ میں تھی۔ ہمارے افسر نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے بھارتی ساڑھیوں ، فلموں کے بارے میں گفتگو شروع کردی۔ وینا نے اس گفتگو میں دلچسپی لینی شروع کردی اور ہمارے آفیسر کو بیٹھنے کے لئے کہا۔ ”ویٹر” ٹرالی لے کر چلا گیا اور گفتگو کا موضوع ذاتی معلومات تک آگیا۔ ہمارا وار کاگر ثابت ہوا۔ وینا جلد ہی ہمارے کیس آفیسر کو تم تم کہنے کی حد تک آگئی ۔ وہ باتوں میں اس قدر محو ہوگئی۔جاری ہے ۔
کہ اسے سفارتخانے فون کرنا بھی یاد نہ رہا۔ ادھر کھنہ اور اس کے افسران بالا یقینی طورپر اس بات پر جام مسرت پی رہے ہوں گے کہ بالآخر انہوں نے پاکستان اٹامک انرجی کمیشن سے ایک بڑی مچھلی کو اپنے جال میں پھنسالیا تھا۔ آہستہ آہستہ ہمارے آفیسر کا لہجہ تبدیل ہوگیا اور اس کی گفتگو معنی خیز ہوتی گئی ۔ جب وینا کو احساس ہوا کہ ہوٹل کے اس آفیسر کو وینا کی اس کمرے میں آمد اور اس کے مقاصد سے پوری طرح آگاہی ہے تو وینا کی صورت ایک ایسے مجبور، بے کس اور بھوکے بچے کی سی ہوگئی جسے بیکری سے ڈبل روٹی چوری کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑلیا گیا ہو۔ اس کی آنکھیں بھر آئیں اور اس کی آواز کسی گہرے کنویں سے آتی ہوئی محسوس ہونے لگی۔ وینا نے اپنی داستان حیات سنانا شروع کردی۔ ”میں اپنے والدین کی اکلوتی اولاد ہوں۔ میرے والدین نے میری پرورش اپنی انتہائی غربت اور کسمپرسی کے باوجود بڑے ناز و نعم سے کی ۔ میں نے دوہی سال پہلے گریجویشن کی ہے ۔ جہیز کی لعنت سے تو آپ اچھی طرح آگاہ ہیں۔ میرے خیال میں پاکستان میں بھی یہ لعنت ابھی تک موجود ہے جس کی وجہ سے ہزاروں لڑکیاں اپنی بالوں میں چاندی کے تاروں کا اضافہ کئے ماں باپ کی دہلیز پر بیٹھی ہیں، بھارت میں بھی بہت سی لڑکیاں معاشرے کی اس دلدل میں پھنسے ہوئی ہیں۔ میرا خیال تھا کہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد ٹیچر بنوں گی مگر کوشش کے باوجود مجھے نوکری نہ مل سکی۔ پھر ایک روز میری ایک دوست کے خاوند نے مجھے اپنے ایک دوست سے یہ کہہ کر متعارف کروایا کہ یہ ایک اعلیٰ سرکاری افسر ہیں اور تمہارے لئے ملازمت کا بندوبست کرسکتے ہیں ، بعد میں مجھے علم ہوا کہ ان کا تعلق بھارتی انٹیلی جنس سے ہے ، انہوں نے میرا سرسری سا انٹرویو لیا اور مجھے بتایا کہ میں تمہارے لئے نوکری کا انتظام کرسکتا ہوں ، مگر یہ نوکری بھارت میں نہیں پاکستان میں بھارتی ایمبیسی اسکول میں ہوگی۔ یہ الفاط میرے لئے انتہائی خوش کن تھے۔ میرے لئے کسی دوسرے ملک میں جانے کا تصور ہی انتہائی دلکش تھا۔انہوں نے مجھ سے کہا کہ نوکری کا بندوبست تو ہوگیا ہے مگر پاکستان چونکہ ہمارا دشمن ملک ہے اس لئے تجھے چند ماہ کے لئے سیکورٹی ٹریننگ پر جانا پڑے گا۔ ۔جاری ہے ۔
میں اس کے لئے بھی تیار ہوگئی۔ دراصل مجھے خوشی اس بات کی تھی کہ مجھے بیرون ملک ملازمت مل رہی تھی اور اس کے ساتھ ہی ساتھ مجھے ایک ایسی سرزمین دیکھنے کا موقع بھی مل رہا تھا جس کے بارے میں میں نے بہت کچھ سن رکھا تھا۔ چند روز بعد ایک شخص ہمارے گھر آیا۔ اس نے مجھے تقرری کا خط دیا اور کہا کہ اگلے روز تجھے سیکورٹی ٹریننگ اسکول لے جانے کے لئے میں خود آؤں گا۔ وہ حسب وعدہ اگلے روز پھر آیا میں اپنے والد سے رخصت ہوکر اس کے ساتھ گاڑی میں سوار ہوگئی۔ ایک طویل سفر کے بعد ہم اپنی منزل پر پہنچے ۔ یہ ایک پراسرار عمارت تھی اور دیکھنے میں سکول یا تربیت گاہ ہرگز دکھائی نہیں دیتی تھی۔ میرے علاوہ وہاں چار اور لڑکیاں بھی موجود تھیں۔ جب کورس شروع ہوا تو معلوم ہوا کہ اس میں کسی ٹیچر کی نہیں بلکہ جنگ کی تربیت دی جارہی ہے۔ چند ہی دنوں میں پتہ چل گیا کہ اصل میں ہم ٹیچر نہیں بلکہ جاسوس بناکر بھیجی جارہی ہیں۔ہمارے تربیتی سلیبس میں جسمانی ورزش ، ہتھیاروں کے استعمال کا طریقہ اور ایسے لیکچر شامل تھے جن کا مقصد پاکستان کے خلاف شدیدی نفرت پیدا کرنا تھا۔ علاوہ ازیں اپنے ”شکار” کو ذہنی طورپر اپنا تابع بنانا اور خفیہ راز معلوم کرنا بھی ہماری تربیت کا اہم حصہ تھا۔ ہمیں بلیو فلمیں دکھاکر بھی بتایا جاتا کہ کسی بھی مضبوط سے مضبوط اعصاب کے مرد کو کس طرح اپنا اسیر بنایا جاسکتا ہے ۔ ہمیں جنسی اختلاط کے مختلف طریقے بھی بتائے جاتے تاکہ ہماری کارکردگی میں کوئی کسر نہ رہ جائے۔ درحقیقت ہمیں باعزت طور سے جسم فروشی کی تربیت دی گئی اور ہمیں بتایا گیا کہ ایک کامیاب جاسوس بننے کے لئے اپنی جسمانی خوبصورتی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا ہی اصل ہنر ہے۔ ہم میں سے کسی کو بھی اس تربیت سے اتفاق نہیں تھا مگر اب ہمارے پاس واپسی کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ ہم پوری طرح اپنے محسنوں کے جال میں پھنس چکی تھیں ۔ میں جانتی ہوں کہ پاکستان میں جو کچھ بھی کر رہی ہوں اخلاقیات کے مروجہ ضوابط کے خلاف ہے اور کوئی بھی باضمیر انسان اس دلدل میں کودنے کی جرات نہیں کرسکتا مگرمیں یہ بھی جانتی ہوں کہ اب میرا اپنا وجود ، میرے والدین ، میرا گھر، میرا ضمیر، میری خواہشیں، میرے مستقبل کے سہانے خواب ، سب کچھ داؤ پر لگ چکا ہے ۔ اب اگر میں چاہوں بھی تو ان کے چنگل سے نکل نہین سکتی ۔جاری ہے ۔
فہد مصطفی نئی فلم ’’لوڈ ویڈنگ‘‘میں کاسٹ
اور جب تک میرے جسم میں ذراسی بھی کشش باقی رہے گی یہ لوگ مجھے استعمال کرتے رہیں گے”۔ وینا ویسے بات کر رہی تھی جیسے دور ویرانوں میں بھٹک رہی ہو اور اسے کوئی راستہ نہ سوجھ رہا ہو۔ اپنی کہانی سناتے سناتے اس نے کہا : ”حد تو یہ ہے کہ اس تربیت کے دوران ہمارے انسٹرکٹر بھی ہمارے جسموں کو اپنی مکروہ خواہشات کی تکمیل کے لئے روندتے رہے اور ہماری تربیت مکمل ہونے تک ہماری عصمت کی چادریں بار بار تار تار ہوتی رہیں۔ تربیت کا یہ حصہ رات کے کھانے کے بعد شروع ہوتا تھا۔ ہمیں باری باری مختلف مردوں کے ساتھ جنسی اختلاط پر مجبورکیا جاتا۔ ہمیں عملی طورپر مرد کی حیوانی جبلت پوری کرنے کا سلیقہ سکھایا جاتا۔ شروع میں تو ہر عمل ہمارے لئے ایک مستقل عذاب کی مانند تھا اور ہم نے اس پر کئی بار احتجاج بھی کیا،۔جاری ہے ۔
لیکن ان کا کہنا تھا کہ تمہارے لئے یہ تربیت انتہائی ضروری ہے اور تمہیں ملک و قوم کے عظیم تر مفاد کے لئے سب کچھ قربان کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہنا چاہئے۔ وینا کی کہانی سن کر بہت دکھ ہوا۔ ہم نے بڑی مہارت سے وینا کی ٹوٹی پھوٹی شخصیت کو بحال کیا اور اسے وہ تمام عزت اور غیرت مہیا کی جو وہ کھوچکی تھی۔وینا نے جب ہمارے حسن سلوک کا اپنے ہندو قاؤں کے کردار سے موازنہ کیا تو اس کے لئے یہ فیصلہ کرنا مشکل نہ رہا کہ اسے اپنے نام نہاد وطن پرست دوستوں کے بجائے اپنے دشمنوں کا ساتھ دینا چاہیے۔ نفسیاتی طور پر ہم نے اس بھارتی ماتا ہری کے کچلے ہوئے ضمیر میں زندگی کی نئی روح پھونک دی ۔ ہم نے اسے پیسے دیئے ۔ بھارت میں اس کے والدین کی دیکھ بھال کا ذمہ بھی لیا، اسے عزت نفس دی اور جسمانی اور روحانی پاکیزگی کے سبق دیئے ۔ چنانچہ وینا دل و جان سے پاکستان کی ہوگئی۔ ڈبل ایجنٹ کی حیثیت سے وینا نے ہمارے لئے قابل قدر خدمات انجام دیں۔ اس نے ہمارے بعض منصوبوں کی تکمیل میں ہمارا بھرپور ہاتھ بٹایا اور انتھک محنت کی۔ وینا کی وجہ سے ہمیں ہر وقت بھارتی سفارتخانے میں ہونے والے واقعات، حالات، ان کےخفیہ ایجنٹوں، ان کے طریقہ کار اور اہداف کی خبر رہنے لگی۔ ۔جاری ہے ۔
شوبز: انوشکا ویرات کی دہلی میں شادی کے بعد خصوصی تقریب، بھارتی وزیرِ اعظم سمیت نامور شخصیات کی شرکت
ان اطلاعات کی بناء پر ہم نے ان کے بہت سے ایسے منصوبوں کو خاک میں ملادیا جن کی تفصیل یہاں بیان نہیں کی جاسکتی۔وینا کو جب پاکستان سے وطن واپسی کے احکامات موصول ہوئے تو وہ بے حد افسردہ اور غمگین تھی۔ وہ ہمیشہ کے لئے پاکستان مین رہنے، یہاں شادی کرنے اور اسلام قبول کرنے کو تیار تھی، مگر ہم اس کے لئے کوئی مناسب ”شوہر” تلاش نہ کرسکے۔ وہ دل پر بھاری پتھر رکھے پاکستان سے روانہ ہوگئی۔ بہر حال پاکستان سے جانے سے پہلے وہ ایک مکمل انسان ہی نہیں بلکہ عزت و وقار کے زیور سے راستہ اور مالی طور پر اتنی خوشحال ہوچکی تھی کہ ہمیں یقین ہے اس نے بھارت پہنچتے ہی اپنے آپ کو ”را” سے جدا کرلیا ہوگا اور اب کہیں با عزت زندگی بسر کر رہی ہوگی۔
The post کیسے سولہ سال کی لڑکیوں کو پاکستان میں را کی ایجینٹ بنا کر نوجوان کے ساتھ غلط کام کرواکر ملکی راز لئے جاتے ہیں بڑا انکشاف appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain http://ift.tt/2qmsSsD via Today Pakistan
0 notes
alltimeoverthinking · 7 years
Text
کیسے سولہ سال کی لڑکیوں کو پاکستان میں را کی ایجینٹ بنا کر نوجوان کے ساتھ غلط کام کرواکر ملکی راز لئے جاتے ہیں بڑا انکشاف
سید احمد ارشاد ترمذی جنکا تعلق آئی ایس آئی سے تھا وہ اپنی ایک تحریر میں لکھتے ہیں کہ“شہر اقتدار میں دنیا کے متعدد سفارتخانوں نے اپنے عملے کے بچوں کی ابتدائی تعلیم و تربیت کی غرض سے ایمبیسی اسکول کھول رکھے ہیں، خاص طور پر ان ممالک نے جن کے عملے کی تعداد زیادہ ہے اور طالب علم بھی کافی تعداد میں ہیں، یہ سلسلہ دنیا کے تقریبا سبھی ممالک میں موجود ہے اور بظاہر کسی حوالے سے بھی سفارتی آداب اور قواعد کے خلاف نہیں۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان اسکولوں میں محض درس و تدریس کا کام ہی نہیں ہوتا بلکہ ان اسکولوں کے عملے کے کئی ارکان کو تعلیمی سرگرمیوں کی آڑ میں جاسوسی کے کام پر بھی مامور کیا جاتا ہے۔ خفیہ ایجنٹ اسی طرح کے دوسرے اداروں مثلا ائیر لائنز کے دفاتر ، ہوٹلوں، لینگویج سینٹرز ، ایوان ہائے ثقافت و دوستی اور مراکز اطلاعات میں بھی تعینات کئے جاتے ہیں۔ ۔جاری ہے ۔
رانگ نمبر نے کتنے گھر اُجاڈ دیے
ہمیں اپنی معمول کی چیکنگ کے دوران اسلام آباد میں قائم انڈین ایمبیسی اسکول کی ایک مس وینا کی سرگرمیاں کچھ مشکوک نظر آئیں۔ مسلسل نگرانی کے بعد ہمیں پتہ چلا کہ اسکول کی تدریسی سرگرمیوں میں تو وہ کم حصہ لیتی ہے مگر اکثر اوقات شکار کی تلاش میں اسلام آباد کے چند گھروں میں دکھائی دیتی ہے ۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہوا کہ مس وینا کا بھارتی سفارتخانے کے ڈیفنس اتاشی اور ”را” کے فرسٹ سیکریٹری سے مستقل رابطہ ہے۔ یہ دونوں پاکستان کے دفاعی اور ایٹمی راز معلوم کرنے کے درپے تھے، اور بھارتی ماتا ہری ان کی ہدایات پر کام کرتی تھی۔ مس وینا کی عمر 25یا 26 سال کے لگ بھگ تھی، مگر دیکھنے میں وہ 18-19 سال کی بے ضرر اور معصوم سی لڑکی لگتی تھی ۔ ستواں ناک، کتابی چہرہ، کھلتا ہوا رنگ، انتہائی متناسب جسم ، چال ڈھال میں ایک خاص قسم کا بانکپن، اور گفتگو کا مخصوص انداز، اس کے خطرناک ہتھیار تھے۔ اس کی خاموش نظریں بھی گہرائیوں تک سرایت کرتی محسوس ہوتی تھیں۔ اس کے چہرے پر ہمہ وقت ایک ہلکی سی مسکراہٹ تو رہتی لیکن اس کی نظروں میں ایک ایسی اداسی بھی دکھائی دیتی تھی جیسے صدیوں پرانا ایک محل اپنی لٹی ہوئی تابناکیوں ، خوشیوں اور روشنیوں کے لوٹ آنے کے کربناک انتظار میں ہو، جیسے وقت کے بے رحم ہاتھ لمحہ بہ لمحہ اے ریزہ ریزہ کر رہے ہوں یا جیسے اک تھکن سے چور چور مسافر جو اپنی منزل کا نام بھی بھول چکا ہو مگر پھر بھی ایک لامتناہی سفر پر ہو۔ مس وینا کا بدن اور روح بھی ایک دوسرے سے جدا جدا ، گم سم کسی انجانی منزل کی تلاش میں رہتے۔ ۔جاری ہے ۔
قصور: حق مہر کا تنازعہ، بیٹی کا نکاح بھتیجے سے کردیا، دُولہا خالی ہاتھ واپس
مزید معلومات کے لئے ہم نے ایک پاکستانی ہندو لڑکے کو انڈین ایمبیسی اسکول میں داخلہ دلوایا۔ اس کی ماں نے ہماری ہدایات پر یہ ظاہر کیا کہ وہ اپنے بچے کی تعلیمی سرگرمیوں کے بارے میں بے حد متفکر ہے اور وہ ان سرگرمیوں کے بارے میں آگاہ رہنا چاہتی ہے۔ وہ ہر دوسرے تیسرے روز اسکول جانے لگی اور یوں آہستہ آہستہ مس وینا کے ساتھ دوستی استوار کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ جلد ہی ان کی دوستی اسکول کی حدود سے نکل کر گھر اور مارکیٹ تک آگئی۔ وہ متواتر ایک دوسرے کو ملتیں ، شاپنگ اکٹھے کرتیں، سینما جاتیں اور اسلام آباد کے تفریحی مقامات پر اکٹھے گھومنا پھرنا بھی ان کا معمول بن گیا۔ وینا اسی محترمہ کو شکارکرکے اسے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنا چاہ رہی تھی اور یہ نہیں جانتی تھی کہ یہ معصوم شکار خود اس کا شکاری ہے۔ کچھ ہی عرصے بعد ہمارے اس شک کی تصدیق ہوگئی کہ مس وینا کا اسکول کی تدریسی سرگرمیوں میں کوئی کردار نہیں۔ وہ بھارتی جاسوس ہے اور ہمہ وقت اپنے آقاؤں کے حکم کی بجا آوری میں ”مشن” کے لئے تیار رہتی ہے ۔ اب ہماری نظریں اس کی آمد و رفت اور روزمرہ کی مصروفیات پر مذکور ہوگئیں اور ہم اس انتظار میں تھے کہ وینا کے پھینکے ہوئے کانٹے میں کونسی ”پاکستانی مچھلی ” پھنستی ہے۔ ایک روز بھارتی ایمبیسی کی جانب سے اسلام آباد کے ایک بڑے ہوٹل میں کمرہ بک کروایا گیا۔ یوں تو یہ ایک معمول کی بات تھی مگر سفارتخانے کے مہمانوں کی شناخت اور ان کے بارے میں جاننا ۔جاری ہے ۔
حمائمہ ملک اور مہیب مرزا نے ملکی تاریخ کا فحش ترین گانا بنا ڈالا، دونوں کی ویڈیو نے سوشل میڈیا پر ہنگامہ برپا کر دیا، پاکستانی غضبناک ہو گئے
ہمارے فرائض میں شامل تھا۔ ہوٹل سے ہمارے آدمی نے اطلاع دی کہ مس وینا بھارتی ڈیفنس اتاشی کی گاڑی میں سفارتخانے کے عملے کے ایک رکن مسٹر کھنہ کے ساتھ جو ”را” کی ٹیم کا ممبر بھی تھا، ہوٹل پہنچی ہے اور کھنہ ، وینا کو ہوٹل کے کمرے میں چھوڑ کر لابی میں بیٹھا شاید کسی مہمان کا منتظر ہے۔ ہم نے ائیرپورٹ سے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ اس وقت کوئی جہاز نہیں آرہا اور نہ ہی بھارتی سفارتخانے کی کوئی کار ائیرپورٹ گئی ہے، اس سے ظاہر ہوا کہ ”مہمان” کوئی یہیں کا ہے ۔ ہم نے سیٹی بجادی اور ہماری ٹیم نے ضروری سازوسامان کے ساتھ اپنی پوزیشن سنبھال لی۔ چند لمحوں کے بعد پرویز نامی ایک پاکستانی نوجوان ، جس کے چہرے سے سراسیمگی اور خوف ٹپک رہا تھا ہوٹل کی لابی میں داخل ہوا۔ مسٹر کھنہ نے آگے بڑھ کر بڑی گرم جوشی سے اس کا استقبال کیا اور کہا’ ” آئیے پرویز صاحب ہم تو آپ کے دیر سے منتظر ہیں” اور اسے اس کمرے میں لے گیا، جہاں وینا آنے والے لمحوں کے تانے بانے بن رہی تھی۔ وقت ضائع کئے بغیر ہمارے ساتھیوں نے پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق کپڑے تبدیل کئے اور مختلف روپ دھارکر اپنے اپنے ڈیوٹی کے مقام پر پہنچ گئے۔ توقع کے عین مطابق کمرے سے روم سروس کو انٹرکام پر چائے اور سینڈویچز کا آرڈر دیا گیا۔ ہمارا تربیت یافتہ ”ویٹر” فوری طور پر چائے کی ٹرالی لے کر روانہ ہوگیا، جس میں ایک چھوٹا سا ٹرانسمیٹر نصب تھا۔ ۔جاری ہے ۔
ثانیہ مرزا کا دورہ پاکستان ، لاہور میں سیر سپاٹے
واپسی پر ”ویٹر” نے بتایا کہ وینا اپنے مہمان پر اپنا سب کچھ نچھاور کرنے کے لئے بے چین ہے مگر اس کا مہمان سہما ہوا اور شرمیلا سا ہے، جبکہ مسٹر کھنہ دلالوں کا روایتی کردار ادا کر رہا ہے اور اسکی کوشش ہے کہ مس وینا اپنے مہمان کے تمام حواس پر قبضہ کرلے۔ بہر حال ہم ٹرالی میں لگے ٹرانسمیٹر کی مدد سے ان لوگوں کی گفتگو سن رہے تھے اور اسے ریکارڈ بھی کر رہے تھے۔ کچھ ہی دیر بعد کھنہ کمرے سے باہر آگیا اور اپنی کار میں بیٹھ کر واپس ایمبیسی چلاگیا ۔ اس کے چہرے کی بشاشت بتارہی تھی کہ شکار پنجے میں آچکا ہے اور چند ہی لمحوں میں وینا اس کا جھٹکا کر کے اس کے کباب بنالے گی۔ برحال مس وینا اور پرویز کی گفتگو رسمی تعارف تک ہی محدود رہی۔ پرویز کے انداز سے ظاہر ہورہا تھا کہ وہ کھل کر اپنے جذبات کا اظہار نہیں کر رہا اور گھبرایا ہوا ہے۔ مگر وینا اس مہم کو سرکرنے کے لئے اس پر تابڑ توڑ اور خطرناک حملے کر رہی تھی۔ وینا کے لئے اپنے اعلیٰ افسران پر اپنی کارکردگی ثابت کرنے کا شاید یہ بہترین موقع تھا اور وہ کسی صورت بھی یہ موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتی تھی ۔ کچھ ہی دیر بعد ٹرانسمیٹر سے تیز سانسوں کی آواز آنے لگی اور بالآخر یہ تلاطم تھم گیا ۔ پرویز شاید ذبح ہوچکا تھا۔ پرویز تقریبا آدھ گھنٹہ کمرے میں رہا اور وینا کو اپنا ایڈریس لکھوا کر اور وصل کا ایک اور وعدہ لے کر نیچے آگیا، مگر اس کی حرکات و سکنات سے صاف ظاہر ہورہا تھا کہ اس کی گھبراہٹ جوں کی توں ہے ۔ ہوٹل سے نکلتے ہی ہم نے اس کا پیچھا کیا اور اسے اپنی گاڑی میں بٹھاکر اپنے ریسٹ ہاؤس لے گئے۔ ۔جاری ہے ۔
ایک لمحے میں اس کے سارے حسین خواب منتشر ہوگئے۔ تفتیش شروع ہوئی تو وہ اپنی شناخت کرانے سے ہچکچارہا تھا۔ نتیجتاً ہم نے وینا کے ساتھ اس کی گفتگو کی ریکارڈنگ اسے سنائی تو اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں ۔ اس نے بچوں کی طرح رونا شروع کردیا اور معافی مانگنے لگا۔ اس نے بتایا کہ ”میں پاکستان اٹامک انرجی کمیشن میں انجینئر ہوں او رکھنہ کے ساتھ میری ملاقات لاہور سے اسلام آباد آتے ہوئے ایک بس میں ہوئی تھی۔ ہم بہت جلد دوست بن گئے اور کھنہ نے مجھے ایک خوبصورت ہندو لڑکی سے ملوانے کی پیشکش کی جسے میں ٹھکرانہ سکا۔” ہمارے لئے اس میں حیرت کی کوئی بات نہ تھی کہ بھارتی خفیہ اداروں نے چانکیا کی تعلیمات کے مطابق رنڈیوں سے جاسوسی کا کام لینے کو بھی اپنے کلچر کا حصہ بنا رکھا تھا۔ اس کھیل کو آگے بڑھانے کے لئے ہمارے پاس اور بہت سے راستے تھے۔ پہلے ہم نے سوچا کہ پرویز سے ڈبل ایجنٹ کا کام لیا جائے مگر بعد ازاں اس کی ملازمت کی حساس نوعیت کو دیکھتے ہوئے ہم نے اپنا ارادہ منسوخ کر دیا تاہم اس واقعہ کی ایک رپورٹ اس کے متعلقہ محکمے کو بھجوادی گئی اور پرویز کو ملازمت سے فارغ کردیا گیا۔ بہر حال پرویز سے ملاقات کے بعد مس وینا ابھی ہوٹل کے کمرے میں موجود تھی۔ یا تو وہ کھنہ کا انتظار کرتی یا پھر ایمبیسی فون کرتی کہ ہوٹل میں میری ڈیوٹی پوری ہوگئی ہے اور مجھے آکر یہاں سے لے جایا جائے ۔ ۔جاری ہے ۔
اب ہمارے پاس ہوٹل کا محاذ ہی تھا اور وقت بہت کم۔ وینا تک رسائی حاصل کرنا خطرے سے خالی نہ تھا۔ وہ ہمارے کسی بھی اہلکار کی کمرے میں موجودگی کی صورت میں الارم بجاسکتی تھی اور ہمارے لئے ایک پیچیدہ سفارتی تنازعہ پیدا ہو سکتا تھا۔ دوسری جانب یہ ایک ایسی صورتحال تھی جس سے فائدہ نہ اٹھانا ہماری ”خفیہ روایات ” کے خلاف تھا۔ کسی بھی رسک کی صورت میں کامیابی کی توقع ففٹی ففٹی تھی۔ تاہم مس وینا کی شخصیت اور کردار کو سامنے رکھ کر ہمیں اس بات کا یقین تھاکہ اگر اس صورت حال میں مہارت اور چابکدستی سے کام لیا جائے تو اس بھارتی ماتا ہری کو شیشے میں اتارنا مشکل نہ ہوگا۔ ہمارے لئے یہ ملین ڈالر چانس تھا جسے آزمایا جاسکتا تھا۔ ہم نے لمحوں میں حتمی فیصلہ کیا اور کچھ ہی دیر بعد ہمارے روم سروس والے اسی ویٹر نے کمرے کے دروازے پر دستک دی ۔ بظاہر وہ چائے کی ٹرالی واپس لینے گیا تھا ۔پلان کے مطابق اس نے کمرے کا دروازہ کھلا رکھا، وینا سے رسمی سلام دعا کی اور اس اثناء میں ہمارا کیس افسر بھی کمرے میں پہنچ گیا۔ یہ حکمت عملی اس لئے اختیار کی گئی تھی تاکہ وینا اپنے سفارتخانے فون نہ کرسکے ۔ اگر کھنہ خود آتا تو اس صورت حال کے لئے بھی ہمارا ایک آدمی تیار تھا۔ منصوبے کے مطابق کیس آفیسر ہوٹل کے سیکورٹی ایگزیکٹو کے روپ میں کمرے میں داخل ہوا۔ اپنا تعارف کروایا اور ہوٹل کی سروس کے بارے میں معمول کی گفتگو کرنے لگا۔ وینا کو ذرا برابر شک نہ گزرا۔ اس کے لئے سب معمول کی بات تھی۔ وہ انتہائی مطمئن اور خوشگوار موڈ میں تھی۔ ہمارے افسر نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے بھارتی ساڑھیوں ، فلموں کے بارے میں گفتگو شروع کردی۔ وینا نے اس گفتگو میں دلچسپی لینی شروع کردی اور ہمارے آفیسر کو بیٹھنے کے لئے کہا۔ ”ویٹر” ٹرالی لے کر چلا گیا اور گفتگو کا موضوع ذاتی معلومات تک آگیا۔ ہمارا وار کاگر ثابت ہوا۔ وینا جلد ہی ہمارے کیس آفیسر کو تم تم کہنے کی حد تک آگئی ۔ وہ باتوں میں اس قدر محو ہوگئی۔جاری ہے ۔
کہ اسے سفارتخانے فون کرنا بھی یاد نہ رہا۔ ادھر کھنہ اور اس کے افسران بالا یقینی طورپر اس بات پر جام مسرت پی رہے ہوں گے کہ بالآخر انہوں نے پاکستان اٹامک انرجی کمیشن سے ایک بڑی مچھلی کو اپنے جال میں پھنسالیا تھا۔ آہستہ آہستہ ہمارے آفیسر کا لہجہ تبدیل ہوگیا اور اس کی گفتگو معنی خیز ہوتی گئی ۔ جب وینا کو احساس ہوا کہ ہوٹل کے اس آفیسر کو وینا کی اس کمرے میں آمد اور اس کے مقاصد سے پوری طرح آگاہی ہے تو وینا کی صورت ایک ایسے مجبور، بے کس اور بھوکے بچے کی سی ہوگئی جسے بیکری سے ڈبل روٹی چوری کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑلیا گیا ہو۔ اس کی آنکھیں بھر آئیں اور اس کی آواز کسی گہرے کنویں سے آتی ہوئی محسوس ہونے لگی۔ وینا نے اپنی داستان حیات سنانا شروع کردی۔ ”میں اپنے والدین کی اکلوتی اولاد ہوں۔ میرے والدین نے میری پرورش اپنی انتہائی غربت اور کسمپرسی کے باوجود بڑے ناز و نعم سے کی ۔ میں نے دوہی سال پہلے گریجویشن کی ہے ۔ جہیز کی لعنت سے تو آپ اچھی طرح آگاہ ہیں۔ میرے خیال میں پاکستان میں بھی یہ لعنت ابھی تک موجود ہے جس کی وجہ سے ہزاروں لڑکیاں اپنی بالوں میں چاندی کے تاروں کا اضافہ کئے ماں باپ کی دہلیز پر بیٹھی ہیں، بھارت میں بھی بہت سی لڑکیاں معاشرے کی اس دلدل میں پھنسے ہوئی ہیں۔ میرا خیال تھا کہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد ٹیچر بنوں گی مگر کوشش کے باوجود مجھے نوکری نہ مل سکی۔ پھر ایک روز میری ایک دوست کے خاوند نے مجھے اپنے ایک دوست سے یہ کہہ کر متعارف کروایا کہ یہ ایک اعلیٰ سرکاری افسر ہیں اور تمہارے لئے ملازمت کا بندوبست کرسکتے ہیں ، بعد میں مجھے علم ہوا کہ ان کا تعلق بھارتی انٹیلی جنس سے ہے ، انہوں نے میرا سرسری سا انٹرویو لیا اور مجھے بتایا کہ میں تمہارے لئے نوکری کا انتظام کرسکتا ہوں ، مگر یہ نوکری بھارت میں نہیں پاکستان میں بھارتی ایمبیسی اسکول میں ہوگی۔ یہ الفاط میرے لئے انتہائی خوش کن تھے۔ میرے لئے کسی دوسرے ملک میں جانے کا تصور ہی انتہائی دلکش تھا۔انہوں نے مجھ سے کہا کہ نوکری کا بندوبست تو ہوگیا ہے مگر پاکستان چونکہ ہمارا دشمن ملک ہے اس لئے تجھے چند ماہ کے لئے سیکورٹی ٹریننگ پر جانا پڑے گا۔ ۔جاری ہے ۔
میں اس کے لئے بھی تیار ہوگئی۔ دراصل مجھے خوشی اس بات کی تھی کہ مجھے بیرون ملک ملازمت مل رہی تھی اور اس کے ساتھ ہی ساتھ مجھے ایک ایسی سرزمین دیکھنے کا موقع بھی مل رہا تھا جس کے بارے میں میں نے بہت کچھ سن رکھا تھا۔ چند روز بعد ایک شخص ہمارے گھر آیا۔ اس نے مجھے تقرری کا خط دیا اور کہا کہ اگلے روز تجھے سیکورٹی ٹریننگ اسکول لے جانے کے لئے میں خود آؤں گا۔ وہ حسب وعدہ اگلے روز پھر آیا میں اپنے والد سے رخصت ہوکر اس کے ساتھ گاڑی میں سوار ہوگئی۔ ایک طویل سفر کے بعد ہم اپنی منزل پر پہنچے ۔ یہ ایک پراسرار عمارت تھی اور دیکھنے میں سکول یا تربیت گاہ ہرگز دکھائی نہیں دیتی تھی۔ میرے علاوہ وہاں چار اور لڑکیاں بھی موجود تھیں۔ جب کورس شروع ہوا تو معلوم ہوا کہ اس میں کسی ٹیچر کی نہیں بلکہ جنگ کی تربیت دی جارہی ہے۔ چند ہی دنوں میں پتہ چل گیا کہ اصل میں ہم ٹیچر نہیں بلکہ جاسوس بناکر بھیجی جارہی ہیں۔ہمارے تربیتی سلیبس میں جسمانی ورزش ، ہتھیاروں کے استعمال کا طریقہ اور ایسے لیکچر شامل تھے جن کا مقصد پاکستان کے خلاف شدیدی نفرت پیدا کرنا تھا۔ علاوہ ازیں اپنے ”شکار” کو ذہنی طورپر اپنا تابع بنانا اور خفیہ راز معلوم کرنا بھی ہماری تربیت کا اہم حصہ تھا۔ ہمیں بلیو فلمیں دکھاکر بھی بتایا جاتا کہ کسی بھی مضبوط سے مضبوط اعصاب کے مرد کو کس طرح اپنا اسیر بنایا جاسکتا ہے ۔ ہمیں جنسی اختلاط کے مختلف طریقے بھی بتائے جاتے تاکہ ہماری کارکردگی میں کوئی کسر نہ رہ جائے۔ درحقیقت ہمیں باعزت طور سے جسم فروشی کی تربیت دی گئی اور ہمیں بتایا گیا کہ ایک کامیاب جاسوس بننے کے لئے اپنی جسمانی خوبصورتی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا ہی اصل ہنر ہے۔ ہم میں سے کسی کو بھی اس تربیت سے اتفاق نہیں تھا مگر اب ہمارے پاس واپسی کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ ہم پوری طرح اپنے محسنوں کے جال میں پھنس چکی تھیں ۔ میں جانتی ہوں کہ پاکستان میں جو کچھ بھی کر رہی ہوں اخلاقیات کے مروجہ ضوابط کے خلاف ہے اور کوئی بھی باضمیر انسان اس دلدل میں کودنے کی جرات نہیں کرسکتا مگرمیں یہ بھی جانتی ہوں کہ اب میرا اپنا وجود ، میرے والدین ، میرا گھر، میرا ضمیر، میری خواہشیں، میرے مستقبل کے سہانے خواب ، سب کچھ داؤ پر لگ چکا ہے ۔ اب اگر میں چاہوں بھی تو ان کے چنگل سے نکل نہین سکتی ۔جاری ہے ۔
فہد مصطفی نئی فلم ’’لوڈ ویڈنگ‘‘میں کاسٹ
اور جب تک میرے جسم میں ذراسی بھی کشش باقی رہے گی یہ لوگ مجھے استعمال کرتے رہیں گے”۔ وینا ویسے بات کر رہی تھی جیسے دور ویرانوں میں بھٹک رہی ہو اور اسے کوئی راستہ نہ سوجھ رہا ہو۔ اپنی کہانی سناتے سناتے اس نے کہا : ”حد تو یہ ہے کہ اس تربیت کے دوران ہمارے انسٹرکٹر بھی ہمارے جسموں کو اپنی مکروہ خواہشات کی تکمیل کے لئے روندتے رہے اور ہماری تربیت مکمل ہونے تک ہماری عصمت کی چادریں بار بار تار تار ہوتی رہیں۔ تربیت کا یہ حصہ رات کے کھانے کے بعد شروع ہوتا تھا۔ ہمیں باری باری مختلف مردوں کے ساتھ جنسی اختلاط پر مجبورکیا جاتا۔ ہمیں عملی طورپر مرد کی حیوانی جبلت پوری کرنے کا سلیقہ سکھایا جاتا۔ شروع میں تو ہر عمل ہمارے لئے ایک مستقل عذاب کی مانند تھا اور ہم نے اس پر کئی بار احتجاج بھی کیا،۔جاری ہے ۔
لیکن ان کا کہنا تھا کہ تمہارے لئے یہ تربیت انتہائی ضروری ہے اور تمہیں ملک و قوم کے عظیم تر مفاد کے لئے سب کچھ قربان کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہنا چاہئے۔ وینا کی کہانی سن کر بہت دکھ ہوا۔ ہم نے بڑی مہارت سے وینا کی ٹوٹی پھوٹی شخصیت کو بحال کیا اور اسے وہ تمام عزت اور غیرت مہیا کی جو وہ کھوچکی تھی۔وینا نے جب ہمارے حسن سلوک کا اپنے ہندو قاؤں کے کردار سے موازنہ کیا تو اس کے لئے یہ فیصلہ کرنا مشکل نہ رہا کہ اسے اپنے نام نہاد وطن پرست دوستوں کے بجائے اپنے دشمنوں کا ساتھ دینا چاہیے۔ نفسیاتی طور پر ہم نے اس بھارتی ماتا ہری کے کچلے ہوئے ضمیر میں زندگی کی نئی روح پھونک دی ۔ ہم نے اسے پیسے دیئے ۔ بھارت میں اس کے والدین کی دیکھ بھال کا ذمہ بھی لیا، اسے عزت نفس دی اور جسمانی اور روحانی پاکیزگی کے سبق دیئے ۔ چنانچہ وینا دل و جان سے پاکستان کی ہوگئی۔ ڈبل ایجنٹ کی حیثیت سے وینا نے ہمارے لئے قابل قدر خدمات انجام دیں۔ اس نے ہمارے بعض منصوبوں کی تکمیل میں ہمارا بھرپور ہاتھ بٹایا اور انتھک محنت کی۔ وینا کی وجہ سے ہمیں ہر وقت بھارتی سفارتخانے میں ہونے والے واقعات، حالات، ان کےخفیہ ایجنٹوں، ان کے طریقہ کار اور اہداف کی خبر رہنے لگی۔ ۔جاری ہے ۔
شوبز: انوشکا ویرات کی دہلی میں شادی کے بعد خصوصی تقریب، بھارتی وزیرِ اعظم سمیت نامور شخصیات کی شرکت
ان اطلاعات کی بناء پر ہم نے ان کے بہت سے ایسے منصوبوں کو خاک میں ملادیا جن کی تفصیل یہاں بیان نہیں کی جاسکتی۔وینا کو جب پاکستان سے وطن واپسی کے احکامات موصول ہوئے تو وہ بے حد افسردہ اور غمگین تھی۔ وہ ہمیشہ کے لئے پاکستان مین رہنے، یہاں شادی کرنے اور اسلام قبول کرنے کو تیار تھی، مگر ہم اس کے لئے کوئی مناسب ”شوہر” تلاش نہ کرسکے۔ وہ دل پر بھاری پتھر رکھے پاکستان سے روانہ ہوگئی۔ بہر حال پاکستان سے جانے سے پہلے وہ ایک مکمل انسان ہی نہیں بلکہ عزت و وقار کے زیور سے راستہ اور مالی طور پر اتنی خوشحال ہوچکی تھی کہ ہمیں یقین ہے اس نے بھارت پہنچتے ہی اپنے آپ کو ”را” سے جدا کرلیا ہوگا اور اب کہیں با عزت زندگی بسر کر رہی ہوگی۔
The post کیسے سولہ سال کی لڑکیوں کو پاکستان میں را کی ایجینٹ بنا کر نوجوان کے ساتھ غلط کام کرواکر ملکی راز لئے جاتے ہیں بڑا انکشاف appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain http://ift.tt/2qmsSsD via Daily Khabrain
0 notes
rebranddaniel · 7 years
Text
کیسے سولہ سال کی لڑکیوں کو پاکستان میں را کی ایجینٹ بنا کر نوجوان کے ساتھ غلط کام کرواکر ملکی راز لئے جاتے ہیں بڑا انکشاف
سید احمد ارشاد ترمذی جنکا تعلق آئی ایس آئی سے تھا وہ اپنی ایک تحریر میں لکھتے ہیں کہ“شہر اقتدار میں دنیا کے متعدد سفارتخانوں نے اپنے عملے کے بچوں کی ابتدائی تعلیم و تربیت کی غرض سے ایمبیسی اسکول کھول رکھے ہیں، خاص طور پر ان ممالک نے جن کے عملے کی تعداد زیادہ ہے اور طالب علم بھی کافی تعداد میں ہیں، یہ سلسلہ دنیا کے تقریبا سبھی ممالک میں موجود ہے اور بظاہر کسی حوالے سے بھی سفارتی آداب اور قواعد کے خلاف نہیں۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان اسکولوں میں محض درس و تدریس کا کام ہی نہیں ہوتا بلکہ ان اسکولوں کے عملے کے کئی ارکان کو تعلیمی سرگرمیوں کی آڑ میں جاسوسی کے کام پر بھی مامور کیا جاتا ہے۔ خفیہ ایجنٹ اسی طرح کے دوسرے اداروں مثلا ائیر لائنز کے دفاتر ، ہوٹلوں، لینگویج سینٹرز ، ایوان ہائے ثقافت و دوستی اور مراکز اطلاعات میں بھی تعینات کئے جاتے ہیں۔ ۔جاری ہے ۔
رانگ نمبر نے کتنے گھر اُجاڈ دیے
ہمیں اپنی معمول کی چیکنگ کے دوران اسلام آباد میں قائم انڈین ایمبیسی اسکول کی ایک مس وینا کی سرگرمیاں کچھ مشکوک نظر آئیں۔ مسلسل نگرانی کے بعد ہمیں پتہ چلا کہ اسکول کی تدریسی سرگرمیوں میں تو وہ کم حصہ لیتی ہے مگر اکثر اوقات شکار کی تلاش میں اسلام آباد کے چند گھروں میں دکھائی دیتی ہے ۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہوا کہ مس وینا کا بھارتی سفارتخانے کے ڈیفنس اتاشی اور ”را” کے فرسٹ سیکریٹری سے مستقل رابطہ ہے۔ یہ دونوں پاکستان کے دفاعی اور ایٹمی راز معلوم کرنے کے درپے تھے، اور بھارتی ماتا ہری ان کی ہدایات پر کام کرتی تھی۔ مس وینا کی عمر 25یا 26 سال کے لگ بھگ تھی، مگر دیکھنے میں وہ 18-19 سال کی بے ضرر اور معصوم سی لڑکی لگتی تھی ۔ ستواں ناک، کتابی چہرہ، کھلتا ہوا رنگ، انتہائی متناسب جسم ، چال ڈھال میں ایک خاص قسم کا بانکپن، اور گفتگو کا مخصوص انداز، اس کے خطرناک ہتھیار تھے۔ اس کی خاموش نظریں بھی گہرائیوں تک سرایت کرتی محسوس ہوتی تھیں۔ اس کے چہرے پر ہمہ وقت ایک ہلکی سی مسکراہٹ تو رہتی لیکن اس کی نظروں میں ایک ایسی اداسی بھی دکھائی دیتی تھی جیسے صدیوں پرانا ایک محل اپنی لٹی ہوئی تابناکیوں ، خوشیوں اور روشنیوں کے لوٹ آنے کے کربناک انتظار میں ہو، جیسے وقت کے بے رحم ہاتھ لمحہ بہ لمحہ اے ریزہ ریزہ کر رہے ہوں یا جیسے اک تھکن سے چور چور مسافر جو اپنی منزل کا نام بھی بھول چکا ہو مگر پھر بھی ایک لامتناہی سفر پر ہو۔ مس وینا کا بدن اور روح بھی ایک دوسرے سے جدا جدا ، گم سم کسی انجانی منزل کی تلاش میں رہتے۔ ۔جاری ہے ۔
قصور: حق مہر کا تنازعہ، بیٹی کا نکاح بھتیجے سے کردیا، دُولہا خالی ہاتھ واپس
مزید معلومات کے لئے ہم نے ایک پاکستانی ہندو لڑکے کو انڈین ایمبیسی اسکول میں داخلہ دلوایا۔ اس کی ماں نے ہماری ہدایات پر یہ ظاہر کیا کہ وہ اپنے بچے کی تعلیمی سرگرمیوں کے بارے میں بے حد متفکر ہے اور وہ ان سرگرمیوں کے بارے میں آگاہ رہنا چاہتی ہے۔ وہ ہر دوسرے تیسرے روز اسکول جانے لگی اور یوں آہستہ آہستہ مس وینا کے ساتھ دوستی استوار کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ جلد ہی ان کی دوستی اسکول کی حدود سے نکل کر گھر اور مارکیٹ تک آگئی۔ وہ متواتر ایک دوسرے کو ملتیں ، شاپنگ اکٹھے کرتیں، سینما جاتیں اور اسلام آباد کے تفریحی مقامات پر اکٹھے گھومنا پھرنا بھی ان کا معمول بن گیا۔ وینا اسی محترمہ کو شکارکرکے اسے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنا چاہ رہی تھی اور یہ نہیں جانتی تھی کہ یہ معصوم شکار خود اس کا شکاری ہے۔ کچھ ہی عرصے بعد ہمارے اس شک کی تصدیق ہوگئی کہ مس وینا کا اسکول کی تدریسی سرگرمیوں میں کوئی کردار نہیں۔ وہ بھارتی جاسوس ہے اور ہمہ وقت اپنے آقاؤں کے حکم کی بجا آوری میں ”مشن” کے لئے تیار رہتی ہے ۔ اب ہماری نظریں اس کی آمد و رفت اور روزمرہ کی مصروفیات پر مذکور ہوگئیں اور ہم اس انتظار میں تھے کہ وینا کے پھینکے ہوئے کانٹے میں کونسی ”پاکستانی مچھلی ” پھنستی ہے۔ ایک روز بھارتی ایمبیسی کی جانب سے اسلام آباد کے ایک بڑے ہوٹل میں کمرہ بک کروایا گیا۔ یوں تو یہ ایک معمول کی بات تھی مگر سفارتخانے کے مہمانوں کی شناخت اور ان کے بارے میں جاننا ۔جاری ہے ۔
حمائمہ ملک اور مہیب مرزا نے ملکی تاریخ کا فحش ترین گانا بنا ڈالا، دونوں کی ویڈیو نے سوشل میڈیا پر ہنگامہ برپا کر دیا، پاکستانی غضبناک ہو گئے
ہمارے فرائض میں شامل تھا۔ ہوٹل سے ہمارے آدمی نے اطلاع دی کہ مس وینا بھارتی ڈیفنس اتاشی کی گاڑی میں سفارتخانے کے عملے کے ایک رکن مسٹر کھنہ کے ساتھ جو ”را” کی ٹیم کا ممبر بھی تھا، ہوٹل پہنچی ہے اور کھنہ ، وینا کو ہوٹل کے کمرے میں چھوڑ کر لابی میں بیٹھا شاید کسی مہمان کا منتظر ہے۔ ہم نے ائیرپورٹ سے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ اس وقت کوئی جہاز نہیں آرہا اور نہ ہی بھارتی سفارتخانے کی کوئی کار ائیرپورٹ گئی ہے، اس سے ظاہر ہوا کہ ”مہمان” کوئی یہیں کا ہے ۔ ہم نے سیٹی بجادی اور ہماری ٹیم نے ضروری سازوسامان کے ساتھ اپنی پوزیشن سنبھال لی۔ چند لمحوں کے بعد پرویز نامی ایک پاکستانی نوجوان ، جس کے چہرے سے سراسیمگی اور خوف ٹپک رہا تھا ہوٹل کی لابی میں داخل ہوا۔ مسٹر کھنہ نے آگے بڑھ کر بڑی گرم جوشی سے اس کا استقبال کیا اور کہا’ ” آئیے پرویز صاحب ہم تو آپ کے دیر سے منتظر ہیں” اور اسے اس کمرے میں لے گیا، جہاں وینا آنے والے لمحوں کے تانے بانے بن رہی تھی۔ وقت ضائع کئے بغیر ہمارے ساتھیوں نے پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق کپڑے تبدیل کئے اور مختلف روپ دھارکر اپنے اپنے ڈیوٹی کے مقام پر پہنچ گئے۔ توقع کے عین مطابق کمرے سے روم سروس کو انٹرکام پر چائے اور سینڈویچز کا آرڈر دیا گیا۔ ہمارا تربیت یافتہ ”ویٹر” فوری طور پر چائے کی ٹرالی لے کر روانہ ہوگیا، جس میں ایک چھوٹا سا ٹرانسمیٹر نصب تھا۔ ۔جاری ہے ۔
ثانیہ مرزا کا دورہ پاکستان ، لاہور میں سیر سپاٹے
واپسی پر ”ویٹر” نے بتایا کہ وینا اپنے مہمان پر اپنا سب کچھ نچھاور کرنے کے لئے بے چین ہے مگر اس کا مہمان سہما ہوا اور شرمیلا سا ہے، جبکہ مسٹر کھنہ دلالوں کا روایتی کردار ادا کر رہا ہے اور اسکی کوشش ہے کہ مس وینا اپنے مہمان کے تمام حواس پر قبضہ کرلے۔ بہر حال ہم ٹرالی میں لگے ٹرانسمیٹر کی مدد سے ان لوگوں کی گفتگو سن رہے تھے اور اسے ریکارڈ بھی کر رہے تھے۔ کچھ ہی دیر بعد کھنہ کمرے سے باہر آگیا اور اپنی کار میں بیٹھ کر واپس ایمبیسی چلاگیا ۔ اس کے چہرے کی بشاشت بتارہی تھی کہ شکار پنجے میں آچکا ہے اور چند ہی لمحوں میں وینا اس کا جھٹکا کر کے اس کے کباب بنالے گی۔ برحال مس وینا اور پرویز کی گفتگو رسمی تعارف تک ہی محدود رہی۔ پرویز کے انداز سے ظاہر ہورہا تھا کہ وہ کھل کر اپنے جذبات کا اظہار نہیں کر رہا اور گھبرایا ہوا ہے۔ مگر وینا اس مہم کو سرکرنے کے لئے اس پر تابڑ توڑ اور خطرناک حملے کر رہی تھی۔ وینا کے لئے اپنے اعلیٰ افسران پر اپنی کارکردگی ثابت کرنے کا شاید یہ بہترین موقع تھا اور وہ کسی صورت بھی یہ موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتی تھی ۔ کچھ ہی دیر بعد ٹرانسمیٹر سے تیز سانسوں کی آواز آنے لگی اور بالآخر یہ تلاطم تھم گیا ۔ پرویز شاید ذبح ہوچکا تھا۔ پرویز تقریبا آدھ گھنٹہ کمرے میں رہا اور وینا کو اپنا ایڈریس لکھوا کر اور وصل کا ایک اور وعدہ لے کر نیچے آگیا، مگر اس کی حرکات و سکنات سے صاف ظاہر ہورہا تھا کہ اس کی گھبراہٹ جوں کی توں ہے ۔ ہوٹل سے نکلتے ہی ہم نے اس کا پیچھا کیا اور اسے اپنی گاڑی میں بٹھاکر اپنے ریسٹ ہاؤس لے گئے۔ ۔جاری ہے ۔
ایک لمحے میں اس کے سارے حسین خواب منتشر ہوگئے۔ تفتیش شروع ہوئی تو وہ اپنی شناخت کرانے سے ہچکچارہا تھا۔ نتیجتاً ہم نے وینا کے ساتھ اس کی گفتگو کی ریکارڈنگ اسے سنائی تو اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں ۔ اس نے بچوں کی طرح رونا شروع کردیا اور معافی مانگنے لگا۔ اس نے بتایا کہ ”میں پاکستان اٹامک انرجی کمیشن میں انجینئر ہوں او رکھنہ کے ساتھ میری ملاقات لاہور سے اسلام آباد آتے ہوئے ایک بس میں ہوئی تھی۔ ہم بہت جلد دوست بن گئے اور کھنہ نے مجھے ایک خوبصورت ہندو لڑکی سے ملوانے کی پیشکش کی جسے میں ٹھکرانہ سکا۔” ہمارے لئے اس میں حیرت کی کوئی بات نہ تھی کہ بھارتی خفیہ اداروں نے چانکیا کی تعلیمات کے مطابق رنڈیوں سے جاسوسی کا کام لینے کو بھی اپنے کلچر کا حصہ بنا رکھا تھا۔ اس کھیل کو آگے بڑھانے کے لئے ہمارے پاس اور بہت سے راستے تھے۔ پہلے ہم نے سوچا کہ پرویز سے ڈبل ایجنٹ کا کام لیا جائے مگر بعد ازاں اس کی ملازمت کی حساس نوعیت کو دیکھتے ہوئے ہم نے اپنا ارادہ منسوخ کر دیا تاہم اس واقعہ کی ایک رپورٹ اس کے متعلقہ محکمے کو بھجوادی گئی اور پرویز کو ملازمت سے فارغ کردیا گیا۔ بہر حال پرویز سے ملاقات کے بعد مس وینا ابھی ہوٹل کے کمرے میں موجود تھی۔ یا تو وہ کھنہ کا انتظار کرتی یا پھر ایمبیسی فون کرتی کہ ہوٹل می�� میری ڈیوٹی پوری ہوگئی ہے اور مجھے آکر یہاں سے لے جایا جائے ۔ ۔جاری ہے ۔
اب ہمارے پاس ہوٹل کا محاذ ہی تھا اور وقت بہت کم۔ وینا تک رسائی حاصل کرنا خطرے سے خالی نہ تھا۔ وہ ہمارے کسی بھی اہلکار کی کمرے میں موجودگی کی صورت میں الارم بجاسکتی تھی اور ہمارے لئے ایک پیچیدہ سفارتی تنازعہ پیدا ہو سکتا تھا۔ دوسری جانب یہ ایک ایسی صورتحال تھی جس سے فائدہ نہ اٹھانا ہماری ”خفیہ روایات ” کے خلاف تھا۔ کسی بھی رسک کی صورت میں کامیابی کی توقع ففٹی ففٹی تھی۔ تاہم مس وینا کی شخصیت اور کردار کو سامنے رکھ کر ہمیں اس بات کا یقین تھاکہ اگر اس صورت حال میں مہارت اور چابکدستی سے کام لیا جائے تو اس بھارتی ماتا ہری کو شیشے میں اتارنا مشکل نہ ہوگا۔ ہمارے لئے یہ ملین ڈالر چانس تھا جسے آزمایا جاسکتا تھا۔ ہم نے لمحوں میں حتمی فیصلہ کیا اور کچھ ہی دیر بعد ہمارے روم سروس والے اسی ویٹر نے کمرے کے دروازے پر دستک دی ۔ بظاہر وہ چائے کی ٹرالی واپس لینے گیا تھا ۔پلان کے مطابق اس نے کمرے کا دروازہ کھلا رکھا، وینا سے رسمی سلام دعا کی اور اس اثناء میں ہمارا کیس افسر بھی کمرے میں پہنچ گیا۔ یہ حکمت عملی اس لئے اختیار کی گئی تھی تاکہ وینا اپنے سفارتخانے فون نہ کرسکے ۔ اگر کھنہ خود آتا تو اس صورت حال کے لئے بھی ہمارا ایک آدمی تیار تھا۔ منصوبے کے مطابق کیس آفیسر ہوٹل کے سیکورٹی ایگزیکٹو کے روپ میں کمرے میں داخل ہوا۔ اپنا تعارف کروایا اور ہوٹل کی سروس کے بارے میں معمول کی گفتگو کرنے لگا۔ وینا کو ذرا برابر شک نہ گزرا۔ اس کے لئے سب معمول کی بات تھی۔ وہ انتہائی مطمئن اور خوشگوار موڈ میں تھی۔ ہمارے افسر نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے بھارتی ساڑھیوں ، فلموں کے بارے میں گفتگو شروع کردی۔ وینا نے اس گفتگو میں دلچسپی لینی شروع کردی اور ہمارے آفیسر کو بیٹھنے کے لئے کہا۔ ”ویٹر” ٹرالی لے کر چلا گیا اور گفتگو کا موضوع ذاتی معلومات تک آگیا۔ ہمارا وار کاگر ثابت ہوا۔ وینا جلد ہی ہمارے کیس آفیسر کو تم تم کہنے کی حد تک آگئی ۔ وہ باتوں میں اس قدر محو ہوگئی۔جاری ہے ۔
کہ اسے سفارتخانے فون کرنا بھی یاد نہ رہا۔ ادھر کھنہ اور اس کے افسران بالا یقینی طورپر اس بات پر جام مسرت پی رہے ہوں گے کہ بالآخر انہوں نے پاکستان اٹامک انرجی کمیشن سے ایک بڑی مچھلی کو اپنے جال میں پھنسالیا تھا۔ آہستہ آہستہ ہمارے آفیسر کا لہجہ تبدیل ہوگیا اور اس کی گفتگو معنی خیز ہوتی گئی ۔ جب وینا کو احساس ہوا کہ ہوٹل کے اس آفیسر کو وینا کی اس کمرے میں آمد اور اس کے مقاصد سے پوری طرح آگاہی ہے تو وینا کی صورت ایک ایسے مجبور، بے کس اور بھوکے بچے کی سی ہوگئی جسے بیکری سے ڈبل روٹی چوری کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑلیا گیا ہو۔ اس کی آنکھیں بھر آئیں اور اس کی آواز کسی گہرے کنویں سے آتی ہوئی محسوس ہونے لگی۔ وینا نے اپنی داستان حیات سنانا شروع کردی۔ ”میں اپنے والدین کی اکلوتی اولاد ہوں۔ میرے والدین نے میری پرورش اپنی انتہائی غربت اور کسمپرسی کے باوجود بڑے ناز و نعم سے کی ۔ میں نے دوہی سال پہلے گریجویشن کی ہے ۔ جہیز کی لعنت سے تو آپ اچھی طرح آگاہ ہیں۔ میرے خیال میں پاکستان میں بھی یہ لعنت ابھی تک موجود ہے جس کی وجہ سے ہزاروں لڑکیاں اپنی بالوں میں چاندی کے تاروں کا اضافہ کئے ماں باپ کی دہلیز پر بیٹھی ہیں، بھارت میں بھی بہت سی لڑکیاں معاشرے کی اس دلدل میں پھنسے ہوئی ہیں۔ میرا خیال تھا کہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد ٹیچر بنوں گی مگر کوشش کے باوجود مجھے نوکری نہ مل سکی۔ پھر ایک روز میری ایک دوست کے خاوند نے مجھے اپنے ایک دوست سے یہ کہہ کر متعارف کروایا کہ یہ ایک اعلیٰ سرکاری افسر ہیں اور تمہارے لئے ملازمت کا بندوبست کرسکتے ہیں ، بعد میں مجھے علم ہوا کہ ان کا تعلق بھارتی انٹیلی جنس سے ہے ، انہوں نے میرا سرسری سا انٹرویو لیا اور مجھے بتایا کہ میں تمہارے لئے نوکری کا انتظام کرسکتا ہوں ، مگر یہ نوکری بھارت میں نہیں پاکستان میں بھارتی ایمبیسی اسکول میں ہوگی۔ یہ الفاط میرے لئے انتہائی خوش کن تھے۔ میرے لئے کسی دوسرے ملک میں جانے کا تصور ہی انتہائی دلکش تھا۔انہوں نے مجھ سے کہا کہ نوکری کا بندوبست تو ہوگیا ہے مگر پاکستان چونکہ ہمارا دشمن ملک ہے اس لئے تجھے چند ماہ کے لئے سیکورٹی ٹریننگ پر جانا پڑے گا۔ ۔جاری ہے ۔
میں اس کے لئے بھی تیار ہوگئی۔ دراصل مجھے خوشی اس بات کی تھی کہ مجھے بیرون ملک ملازمت مل رہی تھی اور اس کے ساتھ ہی ساتھ مجھے ایک ایسی سرزمین دیکھنے کا موقع بھی مل رہا تھا جس کے بارے میں میں نے بہت کچھ سن رکھا تھا۔ چند روز بعد ایک شخص ہمارے گھر آیا۔ اس نے مجھے تقرری کا خط دیا اور کہا کہ اگلے روز تجھے سیکورٹی ٹریننگ اسکول لے جانے کے لئے میں خود آؤں گا۔ وہ حسب وعدہ اگلے روز پھر آیا میں اپنے والد سے رخصت ہوکر اس کے ساتھ گاڑی میں سوار ہوگئی۔ ایک طویل سفر کے بعد ہم اپنی منزل پر پہنچے ۔ یہ ایک پراسرار عمارت تھی اور دیکھنے میں سکول یا تربیت گاہ ہرگز دکھائی نہیں دیتی تھی۔ میرے علاوہ وہاں چار اور لڑکیاں بھی موجود تھیں۔ جب کورس شروع ہوا تو معلوم ہوا کہ اس میں کسی ٹیچر کی نہیں بلکہ جنگ کی تربیت دی جارہی ہے۔ چند ہی دنوں میں پتہ چل گیا کہ اصل میں ہم ٹیچر نہیں بلکہ جاسوس بناکر بھیجی جارہی ہیں۔ہمارے تربیتی سلیبس میں جسمانی ورزش ، ہتھیاروں کے استعمال کا طریقہ اور ایسے لیکچر شامل تھے جن کا مقصد پاکستان کے خلاف شدیدی نفرت پیدا کرنا تھا۔ علاوہ ازیں اپنے ”شکار” کو ذہنی طورپر اپنا تابع بنانا اور خفیہ راز معلوم کرنا بھی ہماری تربیت کا اہم حصہ تھا۔ ہمیں بلیو فلمیں دکھاکر بھی بتایا جاتا کہ کسی بھی مضبوط سے مضبوط اعصاب کے مرد کو کس طرح اپنا اسیر بنایا جاسکتا ہے ۔ ہمیں جنسی اختلاط کے مختلف طریقے بھی بتائے جاتے تاکہ ہماری کارکردگی میں کوئی کسر نہ رہ جائے۔ درحقیقت ہمیں باعزت طور سے جسم فروشی کی تربیت دی گئی اور ہمیں بتایا گیا کہ ایک کامیاب جاسوس بننے کے لئے اپنی جسمانی خوبصورتی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا ہی اصل ہنر ہے۔ ہم میں سے کسی کو بھی اس تربیت سے اتفاق نہیں تھا مگر اب ہمارے پاس واپسی کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ ہم پوری طرح اپنے محسنوں کے جال میں پھنس چکی تھیں ۔ میں جانتی ہوں کہ پاکستان میں جو کچھ بھی کر رہی ہوں اخلاقیات کے مروجہ ضوابط کے خلاف ہے اور کوئی بھی باضمیر انسان اس دلدل میں کودنے کی جرات نہیں کرسکتا مگرمیں یہ بھی جانتی ہوں کہ اب میرا اپنا وجود ، میرے والدین ، میرا گھر، میرا ضمیر، میری خواہشیں، میرے مستقبل کے سہانے خواب ، سب کچھ داؤ پر لگ چکا ہے ۔ اب اگر میں چاہوں بھی تو ان کے چنگل سے نکل نہین سکتی ۔جاری ہے ۔
فہد مصطفی نئی فلم ’’لوڈ ویڈنگ‘‘میں کاسٹ
اور جب تک میرے جسم میں ذراسی بھی کشش باقی رہے گی یہ لوگ مجھے استعمال کرتے رہیں گے”۔ وینا ویسے بات کر رہی تھی جیسے دور ویرانوں میں بھٹک رہی ہو اور اسے کوئی راستہ نہ سوجھ رہا ہو۔ اپنی کہانی سناتے سناتے اس نے کہا : ”حد تو یہ ہے کہ اس تربیت کے دوران ہمارے انسٹرکٹر بھی ہمارے جسموں کو اپنی مکروہ خواہشات کی تکمیل کے لئے روندتے رہے اور ہماری تربیت مکمل ہونے تک ہماری عصمت کی چادریں بار بار تار تار ہوتی رہیں۔ تربیت کا یہ حصہ رات کے کھانے کے بعد شروع ہوتا تھا۔ ہمیں باری باری مختلف مردوں کے ساتھ جنسی اختلاط پر مجبورکیا جاتا۔ ہمیں عملی طورپر مرد کی حیوانی جبلت پوری کرنے کا سلیقہ سکھایا جاتا۔ شروع میں تو ہر عمل ہمارے لئے ایک مستقل عذاب کی مانند تھا اور ہم نے اس پر کئی بار احتجاج بھی کیا،۔جاری ہے ۔
لیکن ان کا کہنا تھا کہ تمہارے لئے یہ تربیت انتہائی ضروری ہے اور تمہیں ملک و قوم کے عظیم تر مفاد کے لئے سب کچھ قربان کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہنا چاہئے۔ وینا کی کہانی سن کر بہت دکھ ہوا۔ ہم نے بڑی مہارت سے وینا کی ٹوٹی پھوٹی شخصیت کو بحال کیا اور اسے وہ تمام عزت اور غیرت مہیا کی جو وہ کھوچکی تھی۔وینا نے جب ہمارے حسن سلوک کا اپنے ہندو قاؤں کے کردار سے موازنہ کیا تو اس کے لئے یہ فیصلہ کرنا مشکل نہ رہا کہ اسے اپنے نام نہاد وطن پرست دوستوں کے بجائے اپنے دشمنوں کا ساتھ دینا چاہیے۔ نفسیاتی طور پر ہم نے اس بھارتی ماتا ہری کے کچلے ہوئے ضمیر میں زندگی کی نئی روح پھونک دی ۔ ہم نے اسے پیسے دیئے ۔ بھارت میں اس کے والدین کی دیکھ بھال کا ذمہ بھی لیا، اسے عزت نفس دی اور جسمانی اور روحانی پاکیزگی کے سبق دیئے ۔ چنانچہ وینا دل و جان سے پاکستان کی ہوگئی۔ ڈبل ایجنٹ کی حیثیت سے وینا نے ہمارے لئے قابل قدر خدمات انجام دیں۔ اس نے ہمارے بعض منصوبوں کی تکمیل میں ہمارا بھرپور ہاتھ بٹایا اور انتھک محنت کی۔ وینا کی وجہ سے ہمیں ہر وقت بھارتی سفارتخانے میں ہونے والے واقعات، حالات، ان کےخفیہ ایجنٹوں، ان کے طریقہ کار اور اہداف کی خبر رہنے لگی۔ ۔جاری ہے ۔
شوبز: انوشکا ویرات کی دہلی میں شادی کے بعد خصوصی تقریب، بھارتی وزیرِ اعظم سمیت نامور شخصیات کی شرکت
ان اطلاعات کی بناء پر ہم نے ان کے بہت سے ایسے منصوبوں کو خاک میں ملادیا جن کی تفصیل یہاں بیان نہیں کی جاسکتی۔وینا کو جب پاکستان سے وطن واپسی کے احکامات موصول ہوئے تو وہ بے حد افسردہ اور غمگین تھی۔ وہ ہمیشہ کے لئے پاکستان مین رہنے، یہاں شادی کرنے اور اسلام قبول کرنے کو تیار تھی، مگر ہم اس کے لئے کوئی مناسب ”شوہر” تلاش نہ کرسکے۔ وہ دل پر بھاری پتھر رکھے پاکستان سے روانہ ہوگئی۔ بہر حال پاکستان سے جانے سے پہلے وہ ایک مکمل انسان ہی نہیں بلکہ عزت و وقار کے زیور سے راستہ اور مالی طور پر اتنی خوشحال ہوچکی تھی کہ ہمیں یقین ہے اس نے بھارت پہنچتے ہی اپنے آپ کو ”را” سے جدا کرلیا ہوگا اور اب کہیں با عزت زندگی بسر کر رہی ہوگی۔
The post کیسے سولہ سال کی لڑکیوں کو پاکستان میں را کی ایجینٹ بنا کر نوجوان کے ساتھ غلط کام کرواکر ملکی راز لئے جاتے ہیں بڑا انکشاف appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain http://ift.tt/2qmsSsD via Urdu News Paper
0 notes
cleopatrarps · 7 years
Text
کیسے سولہ سال کی لڑکیوں کو پاکستان میں را کی ایجینٹ بنا کر نوجوان کے ساتھ غلط کام کرواکر ملکی راز لئے جاتے ہیں بڑا انکشاف
سید احمد ارشاد ترمذی جنکا تعلق آئی ایس آئی سے تھا وہ اپنی ایک تحریر میں لکھتے ہیں کہ“شہر اقتدار میں دنیا کے متعدد سفارتخانوں نے اپنے عملے کے بچوں کی ابتدائی تعلیم و تربیت کی غرض سے ایمبیسی اسکول کھول رکھے ہیں، خاص طور پر ان ممالک نے جن کے عملے کی تعداد زیادہ ہے اور طالب علم بھی کافی تعداد میں ہیں، یہ سلسلہ دنیا کے تقریبا سبھی ممالک میں موجود ہے اور بظاہر کسی حوالے سے بھی سفارتی آداب اور قواعد کے خلاف نہیں۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان اسکولوں میں محض درس و تدریس کا کام ہی نہیں ہوتا بلکہ ان اسکولوں کے عملے کے کئی ارکان کو تعلیمی سرگرمیوں کی آڑ میں جاسوسی کے کام پر بھی مامور کیا جاتا ہے۔ خفیہ ایجنٹ اسی طرح کے دوسرے اداروں مثلا ائیر لائنز کے دفاتر ، ہوٹلوں، لینگویج سینٹرز ، ایوان ہائے ثقافت و دوستی اور مراکز اطلاعات میں بھی تعینات کئے جاتے ہیں۔ ۔جاری ہے ۔
رانگ نمبر نے کتنے گھر اُجاڈ دیے
ہمیں اپنی معمول کی چیکنگ کے دوران اسلام آباد میں قائم انڈین ایمبیسی اسکول کی ایک مس وینا کی سرگرمیاں کچھ مشکوک نظر آئیں۔ مسلسل نگرانی کے بعد ہمیں پتہ چلا کہ اسکول کی تدریسی سرگرمیوں میں تو وہ کم حصہ لیتی ہے مگر اکثر اوقات شکار کی تلاش میں اسلام آباد کے چند گھروں میں دکھائی دیتی ہے ۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہوا کہ مس وینا کا بھارتی سفارتخانے کے ڈیفنس اتاشی اور ”را” کے فرسٹ سیکریٹری سے مستقل رابطہ ہے۔ یہ دونوں پاکستان کے دفاعی اور ایٹمی راز معلوم کرنے کے درپے تھے، اور بھارتی ماتا ہری ان کی ہدایات پر کام کرتی تھی۔ مس وینا کی عمر 25یا 26 سال کے لگ بھگ تھی، مگر دیکھنے میں وہ 18-19 سال کی بے ضرر اور معصوم سی لڑکی لگتی تھی ۔ ستواں ناک، کتابی چہرہ، کھلتا ہوا رنگ، انتہائی متناسب جسم ، چال ڈھال میں ایک خاص قسم کا بانکپن، اور گفتگو کا مخصوص انداز، اس کے خطرناک ہتھیار تھے۔ اس کی خاموش نظریں بھی گہرائیوں تک سرایت کرتی محسوس ہوتی تھیں۔ اس کے چہرے پر ہمہ وقت ایک ہلکی سی مسکراہٹ تو رہتی لیکن اس کی نظروں میں ایک ایسی اداسی بھی دکھائی دیتی تھی جیسے صدیوں پرانا ایک محل اپنی لٹی ہوئی تابناکیوں ، خوشیوں اور روشنیوں کے لوٹ آنے کے کربناک انتظار میں ہو، جیسے وقت کے بے رحم ہاتھ لمحہ بہ لمحہ اے ریزہ ریزہ کر رہے ہوں یا جیسے اک تھکن سے چور چور مسافر جو اپنی منزل کا نام بھی بھول چکا ہو مگر پھر بھی ایک لامتناہی سفر پر ہو۔ مس وینا کا بدن اور روح بھی ایک دوسرے سے جدا جدا ، گم سم کسی انجانی منزل کی تلاش میں رہتے۔ ۔جاری ہے ۔
قصور: حق مہر کا تنازعہ، بیٹی کا نکاح بھتیجے سے کردیا، دُولہا خالی ہاتھ واپس
مزید معلومات کے لئے ہم نے ایک پاکستانی ہندو لڑکے کو انڈین ایمبیسی اسکول میں داخلہ دلوایا۔ اس کی ماں نے ہماری ہدایات پر یہ ظاہر کیا کہ وہ اپنے بچے کی تعلیمی سرگرمیوں کے بارے میں بے حد متفکر ہے اور وہ ان سرگرمیوں کے بارے میں آگاہ رہنا چاہتی ہے۔ وہ ہر دوسرے تیسرے روز اسکول جانے لگی اور یوں آہستہ آہستہ مس وینا کے ساتھ دوستی استوار کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ جلد ہی ان کی دوستی اسکول کی حدود سے نکل کر گھر اور مارکیٹ تک آگئی۔ وہ متواتر ایک دوسرے کو ملتیں ، شاپنگ اکٹھے کرتیں، سینما جاتیں اور اسلام آباد کے تفریحی مقامات پر اکٹھے گھومنا پھرنا بھی ان کا معمول بن گیا۔ وینا اسی محترمہ کو شکارکرکے اسے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنا چاہ رہی تھی اور یہ نہیں جانتی تھی کہ یہ معصوم شکار خود اس کا شکاری ہے۔ کچھ ہی عرصے بعد ہمارے اس شک کی تصدیق ہوگئی کہ مس وینا کا اسکول کی تدریسی سرگرمیوں میں کوئی کردار نہیں۔ وہ بھارتی جاسوس ہے اور ہمہ وقت اپنے آقاؤں کے حکم کی بجا آوری میں ”مشن” کے لئے تیار رہتی ہے ۔ اب ہماری نظریں اس کی آمد و رفت اور روزمرہ کی مصروفیات پر مذکور ہوگئیں اور ہم اس انتظار میں تھے کہ وینا کے پھینکے ہوئے کانٹے میں کونسی ”پاکستانی مچھلی ” پھنستی ہے۔ ایک روز بھارتی ایمبیسی کی جانب سے اسلام آباد کے ایک بڑے ہوٹل میں کمرہ بک کروایا گیا۔ یوں تو یہ ایک معمول کی بات تھی مگر سفارتخانے کے مہمانوں کی شناخت اور ان کے بارے میں جاننا ۔جاری ہے ۔
حمائمہ ملک اور مہیب مرزا نے ملکی تاریخ کا فحش ترین گانا بنا ڈالا، دونوں کی ویڈیو نے سوشل میڈیا پر ہنگامہ برپا کر دیا، پاکستانی غضبناک ہو گئے
ہمارے فرائض میں شامل تھا۔ ہوٹل سے ہمارے آدمی نے اطلاع دی کہ مس وینا بھارتی ڈیفنس اتاشی کی گاڑی میں سفارتخانے کے عملے کے ایک رکن مسٹر کھنہ کے ساتھ جو ”را” کی ٹیم کا ممبر بھی تھا، ہوٹل پہنچی ہے اور کھنہ ، وینا کو ہوٹل کے کمرے میں چھوڑ کر لابی میں بیٹھا شاید کسی مہمان کا منتظر ہے۔ ہم نے ائیرپورٹ سے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ اس وقت کوئی جہاز نہیں آرہا اور نہ ہی بھارتی سفارتخانے کی کوئی کار ائیرپورٹ گئی ہے، اس سے ظاہر ہوا کہ ”مہمان” کوئی یہیں کا ہے ۔ ہم نے سیٹی بجادی اور ہماری ٹیم نے ضروری سازوسامان کے ساتھ اپنی پوزیشن سنبھال لی۔ چند لمحوں کے بعد پرویز نامی ایک پاکستانی نوجوان ، جس کے چہرے سے سراسیمگی اور خوف ٹپک رہا تھا ہوٹل کی لابی میں داخل ہوا۔ مسٹر کھنہ نے آگے بڑھ کر بڑی گرم جوشی سے اس کا استقبال کیا اور کہا’ ” آئیے پرویز صاحب ہم تو آپ کے دیر سے منتظر ہیں” اور اسے اس کمرے میں لے گیا، جہاں وینا آنے والے لمحوں کے تانے بانے بن رہی تھی۔ وقت ضائع کئے بغیر ہمارے ساتھیوں نے پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق کپڑے تبدیل کئے اور مختلف روپ دھارکر اپنے اپنے ڈیوٹی کے مقام پر پہنچ گئے۔ توقع کے عین مطابق کمرے سے روم سروس کو انٹرکام پر چائے اور سینڈویچز کا آرڈر دیا گیا۔ ہمارا تربیت یافتہ ”ویٹر” فوری طور پر چائے کی ٹرالی لے کر روانہ ہوگیا، جس میں ایک چھوٹا سا ٹرانسمیٹر نصب تھا۔ ۔جاری ہے ۔
ثانیہ مرزا کا دورہ پاکستان ، لاہور میں سیر سپاٹے
واپسی پر ”ویٹر” نے بتایا کہ وینا اپنے مہمان پر اپنا سب کچھ نچھاور کرنے کے لئے بے چین ہے مگر اس کا مہمان سہما ہوا اور شرمیلا سا ہے، جبکہ مسٹر کھنہ دلالوں کا روایتی کردار ادا کر رہا ہے اور اسکی کوشش ہے کہ مس وینا اپنے مہمان کے تمام حواس پر قبضہ کرلے۔ بہر حال ہم ٹرالی میں لگے ٹرانسمیٹر کی مدد سے ان لوگوں کی گفتگو سن رہے تھے اور اسے ریکارڈ بھی کر رہے تھے۔ کچھ ہی دیر بعد کھنہ کمرے سے باہر آگیا اور اپنی کار میں بیٹھ کر واپس ایمبیسی چلاگیا ۔ اس کے چہرے کی بشاشت بتارہی تھی کہ شکار پنجے میں آچکا ہے اور چند ہی لمحوں میں وینا اس کا جھٹکا کر کے اس کے کباب بنالے گی۔ برحال مس وینا اور پرویز کی گفتگو رسمی تعارف تک ہی محدود رہی۔ پرویز کے انداز سے ظاہر ہورہا تھا کہ وہ کھل کر اپنے جذبات کا اظہار نہیں کر رہا اور گھبرایا ہوا ہے۔ مگر وینا اس مہم کو سرکرنے کے لئے اس پر تابڑ توڑ اور خطرناک حملے کر رہی تھی۔ وینا کے لئے اپنے اعلیٰ افسران پر اپنی کارکردگی ثابت کرنے کا شاید یہ بہترین موقع تھا اور وہ کسی صورت بھی یہ موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتی تھی ۔ کچھ ہی دیر بعد ٹرانسمیٹر سے تیز سانسوں کی آواز آنے لگی اور بالآخر یہ تلاطم تھم گیا ۔ پرویز شاید ذبح ہوچکا تھا۔ پرویز تقریبا آدھ گھنٹہ کمرے میں رہا اور وینا کو اپنا ایڈریس لکھوا کر اور وصل کا ایک اور وعدہ لے کر نیچے آگیا، مگر اس کی حرکات و سکنات سے صاف ظاہر ہورہا تھا کہ اس کی گھبراہٹ جوں کی توں ہے ۔ ہوٹل سے نکلتے ہی ہم نے اس کا پیچھا کیا اور اسے اپنی گاڑی میں بٹھاکر اپنے ریسٹ ہاؤس لے گئے۔ ۔جاری ہے ۔
ایک لمحے میں اس کے سارے حسین خواب منتشر ہوگئے۔ تفتیش شروع ہوئی تو وہ اپنی شناخت کرانے سے ہچکچارہا تھا۔ نتیجتاً ہم نے وینا کے ساتھ اس کی گفتگو کی ریکارڈنگ اسے سنائی تو اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں ۔ اس نے بچوں کی طرح رونا شروع کردیا اور معافی مانگنے لگا۔ اس نے بتایا کہ ”میں پاکستان اٹامک انرجی کمیشن میں انجینئر ہوں او رکھنہ کے ساتھ میری ملاقات لاہور سے اسلام آباد آتے ہوئے ایک بس میں ہوئی تھی۔ ہم بہت جلد دوست بن گئے اور کھنہ نے مجھے ایک خوبصورت ہندو لڑکی سے ملوانے کی پیشکش کی جسے میں ٹھکرانہ سکا۔” ہمارے لئے اس میں حیرت کی کوئی بات نہ تھی کہ بھارتی خفیہ اداروں نے چانکیا کی تعلیمات کے مطابق رنڈیوں سے جاسوسی کا کام لینے کو بھی اپنے کلچر کا حصہ بنا رکھا تھا۔ اس کھیل کو آگے بڑھانے کے لئے ہمارے پاس اور بہت سے راستے تھے۔ پہلے ہم نے سوچا کہ پرویز سے ڈبل ایجنٹ کا کام لیا جائے مگر بعد ازاں اس کی ملازمت کی حساس نوعیت کو دیکھتے ہوئے ہم نے اپنا ارادہ منسوخ کر دیا تاہم اس واقعہ کی ایک رپورٹ اس کے متعلقہ محکمے کو بھجوادی گئی اور پرویز کو ملازمت سے فارغ کردیا گیا۔ بہر حال پرویز سے ملاقات کے بعد مس وینا ابھی ہوٹل کے کمرے میں موجود تھی۔ یا تو وہ کھنہ کا انتظار کرتی یا پھر ایمبیسی فون کرتی کہ ہوٹل میں میری ڈیوٹی پوری ہوگئی ہے اور مجھے آکر یہاں سے لے جایا جائے ۔ ۔جاری ہے ۔
اب ہمارے پاس ہوٹل کا محاذ ہی تھا اور وقت بہت کم۔ وینا تک رسائی حاصل کرنا خطرے سے خالی نہ تھا۔ وہ ہمارے کسی بھی اہلکار کی کمرے میں موجودگی کی صورت میں الارم بجاسکتی تھی اور ہمارے لئے ایک پیچیدہ سفارتی تنازعہ پیدا ہو سکتا تھا۔ دوسری جانب یہ ایک ایسی صورتحال تھی جس سے فائدہ نہ اٹھانا ہماری ”خفیہ روایات ” کے خلاف تھا۔ کسی بھی رسک کی صورت میں کامیابی کی توقع ففٹی ففٹی تھی۔ تاہم مس وینا کی شخصیت اور کردار کو سامنے رکھ کر ہمیں اس بات کا یقین تھاکہ اگر اس صورت حال میں مہارت اور چابکدستی سے کام لیا جائے تو اس بھارتی ماتا ہری کو شیشے میں اتارنا مشکل نہ ہوگا۔ ہمارے لئے یہ ملین ڈالر چانس تھا جسے آزمایا جاسکتا تھا۔ ہم نے لمحوں میں حتمی فیصلہ کیا اور کچھ ہی دیر بعد ہمارے روم سروس والے اسی ویٹر نے کمرے کے دروازے پر دستک دی ۔ بظاہر وہ چائے کی ٹرالی واپس لینے گیا تھا ۔پلان کے مطابق اس نے کمرے کا دروازہ کھلا رکھا، وینا سے رسمی سلام دعا کی اور اس اثناء میں ہمارا کیس افسر بھی کمرے میں پہنچ گیا۔ یہ حکمت عملی اس لئے اختیار کی گئی تھی تاکہ وینا اپنے سفارتخانے فون نہ کرسکے ۔ اگر کھنہ خود آتا تو اس صورت حال کے لئے بھی ہمارا ایک آدمی تیار تھا۔ منصوبے کے مطابق کیس آفیسر ہوٹل کے سیکورٹی ایگزیکٹو کے روپ میں کمرے میں داخل ہوا۔ اپنا تعارف کروایا اور ہوٹل کی سروس کے بارے میں معمول کی گفتگو کرنے لگا۔ وینا کو ذرا برابر شک نہ گزرا۔ اس کے لئے سب معمول کی بات تھی۔ وہ انتہائی مطمئن اور خوشگوار موڈ میں تھی۔ ہمارے افسر نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے بھارتی ساڑھیوں ، فلموں کے بارے میں گفتگو شروع کردی۔ وینا نے اس گفتگو میں دلچسپی لینی شروع کردی اور ہمارے آفیسر کو بیٹھنے کے لئے کہا۔ ”ویٹر” ٹرالی لے کر چلا گیا اور گفتگو کا موضوع ذاتی معلومات تک آگیا۔ ہمارا وار کاگر ثابت ہوا۔ وینا جلد ہی ہمارے کیس آفیسر کو تم تم کہنے کی حد تک آگئی ۔ وہ باتوں میں اس قدر محو ہوگئی۔جاری ہے ۔
کہ اسے سفارتخانے فون کرنا بھی یاد نہ رہا۔ ادھر کھنہ اور اس کے افسران بالا یقینی طورپر اس بات پر جام مسرت پی رہے ہوں گے کہ بالآخر انہوں نے پاکستان اٹامک انرجی کمیشن سے ایک بڑی مچھلی کو اپنے جال میں پھنسالیا تھا۔ آہستہ آہستہ ہمارے آفیسر کا لہجہ تبدیل ہوگیا اور اس کی گفتگو معنی خیز ہوتی گئی ۔ جب وینا کو احساس ہوا کہ ہوٹل کے اس آفیسر کو وینا کی اس کمرے میں آمد اور اس کے مقاصد سے پوری طرح آگاہی ہے تو وینا کی صورت ایک ایسے مجبور، بے کس اور بھوکے بچے کی سی ہوگئی جسے بیکری سے ڈبل روٹی چوری کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑلیا گیا ہو۔ اس کی آنکھیں بھر آئیں اور اس کی آواز کسی گہرے کنویں سے آتی ہوئی محسوس ہونے لگی۔ وینا نے اپنی داستان حیات سنانا شروع کردی۔ ”میں اپنے والدین کی اکلوتی اولاد ہوں۔ میرے والدین نے میری پرورش اپنی انتہائی غربت اور کسمپرسی کے باوجود بڑے ناز و نعم سے کی ۔ میں نے دوہی سال پہلے گریجویشن کی ہے ۔ جہیز کی لعنت سے تو آپ اچھی طرح آگاہ ہیں۔ میرے خیال میں پاکستان میں بھی یہ لعنت ابھی تک موجود ہے جس کی وجہ سے ہزاروں لڑکیاں اپنی بالوں میں چاندی کے تاروں کا اضافہ کئے ماں باپ کی دہلیز پر بیٹھی ہیں، بھارت میں بھی بہت سی لڑکیاں معاشرے کی اس دلدل میں پھنسے ہوئی ہیں۔ میرا خیال تھا کہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد ٹیچر بنوں گی مگر کوشش کے باوجود مجھے نوکری نہ مل سکی۔ پھر ایک روز میری ایک دوست کے خاوند نے مجھے اپنے ایک دوست سے یہ کہہ کر متعارف کروایا کہ یہ ایک اعلیٰ سرکاری افسر ہیں اور تمہارے لئے ملازمت کا بندوبست کرسکتے ہیں ، بعد میں مجھے علم ہوا کہ ان کا تعلق بھارتی انٹیلی جنس سے ہے ، انہوں نے میرا سرسری سا انٹرویو لیا اور مجھے بتایا کہ میں تمہارے لئے نوکری کا انتظام کرسکتا ہوں ، مگر یہ نوکری بھارت میں نہیں پاکستان میں بھارتی ایمبیسی اسکول میں ہوگی۔ یہ الفاط میرے لئے انتہائی خوش کن تھے۔ میرے لئے کسی دوسرے ملک میں جانے کا تصور ہی انتہائی دلکش تھا۔انہوں نے مجھ سے کہا کہ نوکری کا بندوبست تو ہوگیا ہے مگر پاکستان چونکہ ہمارا دشمن ملک ہے اس لئے تجھے چند ماہ کے لئے سیکورٹی ٹریننگ پر جانا پڑے گا۔ ۔جاری ہے ۔
میں اس کے لئے بھی تیار ہوگئی۔ دراصل مجھے خوشی اس بات کی تھی کہ مجھے بیرون ملک ملازمت مل رہی تھی اور اس کے ساتھ ہی ساتھ مجھے ایک ایسی سرزمین دیکھنے کا موقع بھی مل رہا تھا جس کے بارے میں میں نے بہت کچھ سن رکھا تھا۔ چند روز بعد ایک شخص ہمارے گھر آیا۔ اس نے مجھے تقرری کا خط دیا اور کہا کہ اگلے روز تجھے سیکورٹی ٹریننگ اسکول لے جانے کے لئے میں خود آؤں گا۔ وہ حسب وعدہ اگلے روز پھر آیا میں اپنے والد سے رخصت ہوکر اس کے ساتھ گاڑی میں سوار ہوگئی۔ ایک طویل سفر کے بعد ہم اپنی منزل پر پہنچے ۔ یہ ایک پراسرار عمارت تھی اور دیکھنے میں سکول یا تربیت گاہ ہرگز دکھائی نہیں دیتی تھی۔ میرے علاوہ وہاں چار اور لڑکیاں بھی موجود تھیں۔ جب کورس شروع ہوا تو معلوم ہوا کہ اس میں کسی ٹیچر کی نہیں بلکہ جنگ کی تربیت دی جارہی ہے۔ چند ہی دنوں میں پتہ چل گیا کہ اصل میں ہم ٹیچر نہیں بلکہ جاسوس بناکر بھیجی جارہی ہیں۔ہمارے تربیتی سلیبس میں جسمانی ورزش ، ہتھیاروں کے استعمال کا طریقہ اور ایسے لیکچر شامل تھے جن کا مقصد پاکستان کے خلاف شدیدی نفرت پیدا کرنا تھا۔ علاوہ ازیں اپنے ”شکار” کو ذہنی طورپر اپنا تابع بنانا اور خفیہ راز معلوم کرنا بھی ہماری تربیت کا اہم حصہ تھا۔ ہمیں بلیو فلمیں دکھاکر بھی بتایا جاتا کہ کسی بھی مضبوط سے مضبوط اعصاب کے مرد کو کس طرح اپنا اسیر بنایا جاسکتا ہے ۔ ہمیں جنسی اختلاط کے مختلف طریقے بھی بتائے جاتے تاکہ ہماری کارکردگی میں کوئی کسر نہ رہ جائے۔ درحقیقت ہمیں باعزت طور سے جسم فروشی کی تربیت دی گئی اور ہمیں بتایا گیا کہ ایک کامیاب جاسوس بننے کے لئے اپنی جسمانی خوبصورتی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا ہی اصل ہنر ہے۔ ہم میں سے کسی کو بھی اس تربیت سے اتفاق نہیں تھا مگر اب ہمارے پاس واپسی کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ ہم پوری طرح اپنے محسنوں کے جال میں پھنس چکی تھیں ۔ میں جانتی ہوں کہ پاکستان میں جو کچھ بھی کر رہی ہوں اخلاقیات کے مروجہ ضوابط کے خلاف ہے اور کوئی بھی باضمیر انسان اس دلدل میں کودنے کی جرات نہیں کرسکتا مگرمیں یہ بھی جانتی ہوں کہ اب میرا اپنا وجود ، میرے والدین ، میرا گھر، میرا ضمیر، میری خواہشیں، میرے مستقبل کے سہانے خواب ، سب کچھ داؤ پر لگ چکا ہے ۔ اب اگر میں چاہوں بھی تو ان کے چنگل سے نکل نہین سکتی ۔جاری ہے ۔
فہد مصطفی نئی فلم ’’لوڈ ویڈنگ‘‘میں کاسٹ
اور جب تک میرے جسم میں ذراسی بھی کشش باقی رہے گی یہ لوگ مجھے استعمال کرتے رہیں گے”۔ وینا ویسے بات کر رہی تھی جیسے دور ویرانوں میں بھٹک رہی ہو اور اسے کوئی راستہ نہ سوجھ رہا ہو۔ اپنی کہانی سناتے سناتے اس نے کہا : ”حد تو یہ ہے کہ اس تربیت کے دوران ہمارے انسٹرکٹر بھی ہمارے جسموں کو اپنی مکروہ خواہشات کی تکمیل کے لئے روندتے رہے اور ہماری تربیت مکمل ہونے تک ہماری عصمت کی چادریں بار بار تار تار ہوتی رہیں۔ تربیت کا یہ حصہ رات کے کھانے کے بعد شروع ہوتا تھا۔ ہمیں باری باری مختلف مردوں کے ساتھ جنسی اختلاط پر مجبورکیا جاتا۔ ہمیں عملی طورپر مرد کی حیوانی جبلت پوری کرنے کا سلیقہ سکھایا جاتا۔ شروع میں تو ہر عمل ہمارے لئے ایک مستقل عذاب کی مانند تھا اور ہم نے اس پر کئی بار احتجاج بھی کیا،۔جاری ہے ۔
لیکن ان کا کہنا تھا کہ تمہارے لئے یہ تربیت انتہائی ضروری ہے اور تمہیں ملک و قوم کے عظیم تر مفاد کے لئے سب کچھ قربان کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہنا چاہئے۔ وینا کی کہانی سن کر بہت دکھ ہوا۔ ہم نے بڑی مہارت سے وینا کی ٹوٹی پھوٹی شخصیت کو بحال کیا اور اسے وہ تمام عزت اور غیرت مہیا کی جو وہ کھوچکی تھی۔وینا نے جب ہمارے حسن سلوک کا اپنے ہندو قاؤں کے کردار سے موازنہ کیا تو اس کے لئے یہ فیصلہ کرنا مشکل نہ رہا کہ اسے اپنے نام نہاد وطن پرست دوستوں کے بجائے اپنے دشمنوں کا ساتھ دینا چاہیے۔ نفسیاتی طور پر ہم نے اس بھارتی ماتا ہری کے کچلے ہوئے ضمیر میں زندگی کی نئی روح پھونک دی ۔ ہم نے اسے پیسے دیئے ۔ بھارت میں اس کے والدین کی دیکھ بھال کا ذمہ بھی لیا، اسے عزت نفس دی اور جسمانی اور روحانی پاکیزگی کے سبق دیئے ۔ چنانچہ وینا دل و جان سے پاکستان کی ہوگئی۔ ڈبل ایجنٹ کی حیثیت سے وینا نے ہمارے لئے قابل قدر خدمات انجام دیں۔ اس نے ہمارے بعض منصوبوں کی تکمیل میں ہمارا بھرپور ہاتھ بٹایا اور انتھک محنت کی۔ وینا کی وجہ سے ہمیں ہر وقت بھارتی سفارتخانے میں ہونے والے واقعات، حالات، ان کےخفیہ ایجنٹوں، ان کے طریقہ کار اور اہداف کی خبر رہنے لگی۔ ۔جاری ہے ۔
شوبز: انوشکا ویرات کی دہلی میں شادی کے بعد خصوصی تقریب، بھارتی وزیرِ اعظم سمیت نامور شخصیات کی شرکت
ان اطلاعات کی بناء پر ہم نے ان کے بہت سے ایسے منصوبوں کو خاک میں ملادیا جن کی تفصیل یہاں بیان نہیں کی جاسکتی۔وینا کو جب پاکستان سے وطن واپسی کے احکامات موصول ہوئے تو وہ بے حد افسردہ اور غمگین تھی۔ وہ ہمیشہ کے لئے پاکستان مین رہنے، یہاں شادی کرنے اور اسلام قبول کرنے کو تیار تھی، مگر ہم اس کے لئے کوئی مناسب ”شوہر” تلاش نہ کرسکے۔ وہ دل پر بھاری پتھر رکھے پاکستان سے روانہ ہوگئی۔ بہر حال پاکستان سے جانے سے پہلے وہ ایک مکمل انسان ہی نہیں بلکہ عزت و وقار کے زیور سے راستہ اور مالی طور پر اتنی خوشحال ہوچکی تھی کہ ہمیں یقین ہے اس نے بھارت پہنچتے ہی اپنے آپ کو ”را” سے جدا کرلیا ہوگا اور اب کہیں با عزت زندگی بسر کر رہی ہوگی۔
The post کیسے سولہ سال کی لڑکیوں کو پاکستان میں را کی ایجینٹ بنا کر نوجوان کے ساتھ غلط کام کرواکر ملکی راز لئے جاتے ہیں بڑا انکشاف appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain http://ift.tt/2qmsSsD via Today Urdu News
0 notes
thebestmealintown · 7 years
Text
کیسے سولہ سال کی لڑکیوں کو پاکستان میں را کی ایجینٹ بنا کر نوجوان کے ساتھ غلط کام کرواکر ملکی راز لئے جاتے ہیں بڑا انکشاف
سید احمد ارشاد ترمذی جنکا تعلق آئی ایس آئی سے تھا وہ اپنی ایک تحریر میں لکھتے ہیں کہ“شہر اقتدار میں دنیا کے متعدد سفارتخانوں نے اپنے عملے کے بچوں کی ابتدائی تعلیم و تربیت کی غرض سے ایمبیسی اسکول کھول رکھے ہیں، خاص طور پر ان ممالک نے جن کے عملے کی تعداد زیادہ ہے اور طالب علم بھی کافی تعداد میں ہیں، یہ سلسلہ دنیا کے تقریبا سبھی ممالک میں موجود ہے اور بظاہر کسی حوالے سے بھی سفارتی آداب اور قواعد کے خلاف نہیں۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان اسکولوں میں محض درس و تدریس کا کام ہی نہیں ہوتا بلکہ ان اسکولوں کے عملے کے کئی ارکان کو تعلیمی سرگرمیوں کی آڑ میں جاسوسی کے کام پر بھی مامور کیا جاتا ہے۔ خفیہ ایجنٹ اسی طرح کے دوسرے اداروں مثلا ائیر لائنز کے دفاتر ، ہوٹلوں، لینگویج سینٹرز ، ایوان ہائے ثقافت و دوستی اور مراکز اطلاعات میں بھی تعینات کئے جاتے ہیں۔ ۔جاری ہے ۔
رانگ نمبر نے کتنے گھر اُجاڈ دیے
ہمیں اپنی معمول کی چیکنگ کے دوران اسلام آباد میں قائم انڈین ایمبیسی اسکول کی ایک مس وینا کی سرگرمیاں کچھ مشکوک نظر آئیں۔ مسلسل نگرانی کے بعد ہمیں پتہ چلا کہ اسکول کی تدریسی سرگرمیوں میں تو وہ کم حصہ لیتی ہے مگر اکثر اوقات شکار کی تلاش میں اسلام آباد کے چند گھروں میں دکھائی دیتی ہے ۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہوا کہ مس وینا کا بھارتی سفارتخانے کے ڈیفنس اتاشی اور ”را” کے فرسٹ سیکریٹری سے مستقل رابطہ ہے۔ یہ دونوں پاکستان کے دفاعی اور ایٹمی راز معلوم کرنے کے درپے تھے، اور بھارتی ماتا ہری ان کی ہدایات پر کام کرتی تھی۔ مس وینا کی عمر 25یا 26 سال کے لگ بھگ تھی، مگر دیکھنے میں وہ 18-19 سال کی بے ضرر اور معصوم سی لڑکی لگتی تھی ۔ ستواں ناک، کتابی چہرہ، کھلتا ہوا رنگ، انتہائی متناسب جسم ، چال ڈھال میں ایک خاص قسم کا بانکپن، اور گفتگو کا مخصوص انداز، اس کے خطرناک ہتھیار تھے۔ اس کی خاموش نظریں بھی گہرائیوں تک سرایت کرتی محسوس ہوتی تھیں۔ اس کے چہرے پر ہمہ وقت ایک ہلکی سی مسکراہٹ تو رہتی لیکن اس کی نظروں میں ایک ایسی اداسی بھی دکھائی دیتی تھی جیسے صدیوں پرانا ایک محل اپنی لٹی ہوئی تابناکیوں ، خوشیوں اور روشنیوں کے لوٹ آنے کے کربناک انتظار میں ہو، جیسے وقت کے بے رحم ہاتھ لمحہ بہ لمحہ اے ریزہ ریزہ کر رہے ہوں یا جیسے اک تھکن سے چور چور مسافر جو اپنی منزل کا نام بھی بھول چکا ہو مگر پھر بھی ایک لامتناہی سفر پر ہو۔ مس وینا کا بدن اور روح بھی ایک دوسرے سے جدا جدا ، گم سم کسی انجانی منزل کی تلاش میں رہتے۔ ۔جاری ہے ۔
قصور: حق مہر کا تنازعہ، بیٹی کا نکاح بھتیجے سے کردیا، دُولہا خالی ہاتھ واپس
مزید معلومات کے لئے ہم نے ایک پاکستانی ہندو لڑکے کو انڈین ایمبیسی اسکول میں داخلہ دلوایا۔ اس کی ماں نے ہماری ہدایات پر یہ ظاہر کیا کہ وہ اپنے بچے کی تعلیمی سرگرمیوں کے بارے میں بے حد متفکر ہے اور وہ ان سرگرمیوں کے بارے میں آگاہ رہنا چاہتی ہے۔ وہ ہر دوسرے تیسرے روز اسکول جانے لگی اور یوں آہستہ آہستہ مس وینا کے ساتھ دوستی استوار کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ جلد ہی ان کی دوستی اسکول کی حدود سے نکل کر گھر اور مارکیٹ تک آگئی۔ وہ متواتر ایک دوسرے کو ملتیں ، شاپنگ اکٹھے کرتیں، سینما جاتیں اور اسلام آباد کے تفریحی مقامات پر اکٹھے گھومنا پھرنا بھی ان کا معمول بن گیا۔ وینا اسی محترمہ کو شکارکرکے اسے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنا چاہ رہی تھی اور یہ نہیں جانتی تھی کہ یہ معصوم شکار خود اس کا شکاری ہے۔ کچھ ہی عرصے بعد ہمارے اس شک کی تصدیق ہوگئی کہ مس وینا کا اسکول کی تدریسی سرگرمیوں میں کوئی کردار نہیں۔ وہ بھارتی جاسوس ہے اور ہمہ وقت اپنے آقاؤں کے حکم کی بجا آوری میں ”مشن” کے لئے تیار رہتی ہے ۔ اب ہماری نظریں اس کی آمد و رفت اور روزمرہ کی مصروفیات پر مذکور ہوگئیں اور ہم اس انتظار میں تھے کہ وینا کے پھینکے ہوئے کانٹے میں کونسی ”پاکستانی مچھلی ” پھنستی ہے۔ ایک روز بھارتی ایمبیسی کی جانب سے اسلام آباد کے ایک بڑے ہوٹل میں کمرہ بک کروایا گیا۔ یوں تو یہ ایک معمول کی بات تھی مگر سفارتخانے کے مہمانوں کی شناخت اور ان کے بارے میں جاننا ۔جاری ہے ۔
حمائمہ ملک اور مہیب مرزا نے ملکی تاریخ کا فحش ترین گانا بنا ڈالا، دونوں کی ویڈیو نے سوشل میڈیا پر ہنگامہ برپا کر دیا، پاکستانی غضبناک ہو گئے
ہمارے فرائض میں شامل تھا۔ ہوٹل سے ہمارے آدمی نے اطلاع دی کہ مس وینا بھارتی ڈیفنس اتاشی کی گاڑی میں سفارتخانے کے عملے کے ایک رکن مسٹر کھنہ کے ساتھ جو ”را” کی ٹیم کا ممبر بھی تھا، ہوٹل پہنچی ہے اور کھنہ ، وینا کو ہوٹل کے کمرے میں چھوڑ کر لابی میں بیٹھا شاید کسی مہمان کا منتظر ہے۔ ہم نے ائیرپورٹ سے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ اس وقت کوئی جہاز نہیں آرہا اور نہ ہی بھارتی سفارتخانے کی کوئی کار ائیرپورٹ گئی ہے، اس سے ظاہر ہوا کہ ”مہمان” کوئی یہیں کا ہے ۔ ہم نے سیٹی بجادی اور ہماری ٹیم نے ضروری سازوسامان کے ساتھ اپنی پوزیشن سنبھال لی۔ چند لمحوں کے بعد پرویز نامی ایک پاکستانی نوجوان ، جس کے چہرے سے سراسیمگی اور خوف ٹپک رہا تھا ہوٹل کی لابی میں داخل ہوا۔ مسٹر کھنہ نے آگے بڑھ کر بڑی گرم جوشی سے اس کا استقبال کیا اور کہا’ ” آئیے پرویز صاحب ہم تو آپ کے دیر سے منتظر ہیں” اور اسے اس کمرے میں لے گیا، جہاں وینا آنے والے لمحوں کے تانے بانے بن رہی تھی۔ وقت ضائع کئے بغیر ہمارے ساتھیوں نے پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق کپڑے تبدیل کئے اور مختلف روپ دھارکر اپنے اپنے ڈیوٹی کے مقام پر پہنچ گئے۔ توقع کے عین مطابق کمرے سے روم سروس کو انٹرکام پر چائے اور سینڈویچز کا آرڈر دیا گیا۔ ہمارا تربیت یافتہ ”ویٹر” فوری طور پر چائے کی ٹرالی لے کر روانہ ہوگیا، جس میں ایک چھوٹا سا ٹرانسمیٹر نصب تھا۔ ۔جاری ہے ۔
ثانیہ مرزا کا دورہ پاکستان ، لاہور میں سیر سپاٹے
واپسی پر ”ویٹر” نے بتایا کہ وینا اپنے مہمان پر اپنا سب کچھ نچھاور کرنے کے لئے بے چین ہے مگر اس کا مہمان سہما ہوا اور شرمیلا سا ہے، جبکہ مسٹر کھنہ دلالوں کا روایتی کردار ادا کر رہا ہے اور اسکی کوشش ہے کہ مس وینا اپنے مہمان کے تمام حواس پر قبضہ کرلے۔ بہر حال ہم ٹرالی میں لگے ٹرانسمیٹر کی مدد سے ان لوگوں کی گفتگو سن رہے تھے اور اسے ریکارڈ بھی کر رہے تھے۔ کچھ ہی دیر بعد کھنہ کمرے سے باہر آگیا اور اپنی کار میں بیٹھ کر واپس ایمبیسی چلاگیا ۔ اس کے چہرے کی بشاشت بتارہی تھی کہ شکار پنجے میں آچکا ہے اور چند ہی لمحوں میں وینا اس کا جھٹکا کر کے اس کے کباب بنالے گی۔ برحال مس وینا اور پرویز کی گفتگو رسمی تعارف تک ہی محدود رہی۔ پرویز کے انداز سے ظاہر ہورہا تھا کہ وہ کھل کر اپنے جذبات کا اظہار نہیں کر رہا اور گھبرایا ہوا ہے۔ مگر وینا اس مہم کو سرکرنے کے لئے اس پر تابڑ توڑ اور خطرناک حملے کر رہی تھی۔ وینا کے لئے اپنے اعلیٰ افسران پر اپنی کارکردگی ثابت کرنے کا شاید یہ بہترین موقع تھا اور وہ کسی صورت بھی یہ موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتی تھی ۔ کچھ ہی دیر بعد ٹرانسمیٹر سے تیز سانسوں کی آواز آنے لگی اور بالآخر یہ تلاطم تھم گیا ۔ پرویز شاید ذبح ہوچکا تھا۔ پرویز تقریبا آدھ گھنٹہ کمرے میں رہا اور وینا کو اپنا ایڈریس لکھوا کر اور وصل کا ایک اور وعدہ لے کر نیچے آگیا، مگر اس کی حرکات و سکنات سے صاف ظاہر ہورہا تھا کہ اس کی گھبراہٹ جوں کی توں ہے ۔ ہوٹل سے نکلتے ہی ہم نے اس کا پیچھا کیا اور اسے اپنی گاڑی میں بٹھاکر اپنے ریسٹ ہاؤس لے گئے۔ ۔جاری ہے ۔
ایک لمحے میں اس کے سارے حسین خواب منتشر ہوگئے۔ تفتیش شروع ہوئی تو وہ اپنی شناخت کرانے سے ہچکچارہا تھا۔ نتیجتاً ہم نے وینا کے ساتھ اس کی گفتگو کی ریکارڈنگ اسے سنائی تو اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں ۔ اس نے بچوں کی طرح رونا شروع کردیا اور معافی مانگنے لگا۔ اس نے بتایا کہ ”میں پاکستان اٹامک انرجی کمیشن میں انجینئر ہوں او رکھنہ کے ساتھ میری ملاقات لاہور سے اسلام آباد آتے ہوئے ایک بس میں ہوئی تھی۔ ہم بہت جلد دوست بن گئے اور کھنہ نے مجھے ایک خوبصورت ہندو لڑکی سے ملوانے کی پیشکش کی جسے میں ٹھکرانہ سکا۔” ہمارے لئے اس میں حیرت کی کوئی بات نہ تھی کہ بھارتی خفیہ اداروں نے چانکیا کی تعلیمات کے مطابق رنڈیوں سے جاسوسی کا کام لینے کو بھی اپنے کلچر کا حصہ بنا رکھا تھا۔ اس کھیل کو آگے بڑھانے کے لئے ہمارے پاس اور بہت سے راستے تھے۔ پہلے ہم نے سوچا کہ پرویز سے ڈبل ایجنٹ کا کام لیا جائے مگر بعد ازاں اس کی ملازمت کی حساس نوعیت کو دیکھتے ہوئے ہم نے اپنا ارادہ منسوخ کر دیا تاہم اس واقعہ کی ایک رپورٹ اس کے متعلقہ محکمے کو بھجوادی گئی اور پرویز کو ملازمت سے فارغ کردیا گیا۔ بہر حال پرویز سے ملاقات کے بعد مس وینا ابھی ہوٹل کے کمرے میں موجود تھی۔ یا تو وہ کھنہ کا انتظار کرتی یا پھر ایمبیسی فون کرتی کہ ہوٹل میں میری ڈیوٹی پوری ہوگئی ہے اور مجھے آکر یہاں سے لے جایا جائے ۔ ۔جاری ہے ۔
اب ہمارے پاس ہوٹل کا محاذ ہی تھا اور وقت بہت کم۔ وینا تک رسائی حاصل کرنا خطرے سے خالی نہ تھا۔ وہ ہمارے کسی بھی اہلکار کی کمرے میں موجودگی کی صورت میں الارم بجاسکتی تھی اور ہمارے لئے ایک پیچیدہ سفارتی تنازعہ پیدا ہو سکتا تھا۔ دوسری جانب یہ ایک ایسی صورتحال تھی جس سے فائدہ نہ اٹھانا ہماری ”خفیہ روایات ” کے خلاف تھا۔ کسی بھی رسک کی صورت میں کامیابی کی توقع ففٹی ففٹی تھی۔ تاہم مس وینا ��ی شخصیت اور کردار کو سامنے رکھ کر ہمیں اس بات کا یقین تھاکہ اگر اس صورت حال میں مہارت اور چابکدستی سے کام لیا جائے تو اس بھارتی ماتا ہری کو شیشے میں اتارنا مشکل نہ ہوگا۔ ہمارے لئے یہ ملین ڈالر چانس تھا جسے آزمایا جاسکتا تھا۔ ہم نے لمحوں میں حتمی فیصلہ کیا اور کچھ ہی دیر بعد ہمارے روم سروس والے اسی ویٹر نے کمرے کے دروازے پر دستک دی ۔ بظاہر وہ چائے کی ٹرالی واپس لینے گیا تھا ۔پلان کے مطابق اس نے کمرے کا دروازہ کھلا رکھا، وینا سے رسمی سلام دعا کی اور اس اثناء میں ہمارا کیس افسر بھی کمرے میں پہنچ گیا۔ یہ حکمت عملی اس لئے اختیار کی گئی تھی تاکہ وینا اپنے سفارتخانے فون نہ کرسکے ۔ اگر کھنہ خود آتا تو اس صورت حال کے لئے بھی ہمارا ایک آدمی تیار تھا۔ منصوبے کے مطابق کیس آفیسر ہوٹل کے سیکورٹی ایگزیکٹو کے روپ میں کمرے میں داخل ہوا۔ اپنا تعارف کروایا اور ہوٹل کی سروس کے بارے میں معمول کی گفتگو کرنے لگا۔ وینا کو ذرا برابر شک نہ گزرا۔ اس کے لئے سب معمول کی بات تھی۔ وہ انتہائی مطمئن اور خوشگوار موڈ میں تھی۔ ہمارے افسر نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے بھارتی ساڑھیوں ، فلموں کے بارے میں گفتگو شروع کردی۔ وینا نے اس گفتگو میں دلچسپی لینی شروع کردی اور ہمارے آفیسر کو بیٹھنے کے لئے کہا۔ ”ویٹر” ٹرالی لے کر چلا گیا اور گفتگو کا موضوع ذاتی معلومات تک آگیا۔ ہمارا وار کاگر ثابت ہوا۔ وینا جلد ہی ہمارے کیس آفیسر کو تم تم کہنے کی حد تک آگئی ۔ وہ باتوں میں اس قدر محو ہوگئی۔جاری ہے ۔
کہ اسے سفارتخانے فون کرنا بھی یاد نہ رہا۔ ادھر کھنہ اور اس کے افسران بالا یقینی طورپر اس بات پر جام مسرت پی رہے ہوں گے کہ بالآخر انہوں نے پاکستان اٹامک انرجی کمیشن سے ایک بڑی مچھلی کو اپنے جال میں پھنسالیا تھا۔ آہستہ آہستہ ہمارے آفیسر کا لہجہ تبدیل ہوگیا اور اس کی گفتگو معنی خیز ہوتی گئی ۔ جب وینا کو احساس ہوا کہ ہوٹل کے اس آفیسر کو وینا کی اس کمرے میں آمد اور اس کے مقاصد سے پوری طرح آگاہی ہے تو وینا کی صورت ایک ایسے مجبور، بے کس اور بھوکے بچے کی سی ہوگئی جسے بیکری سے ڈبل روٹی چوری کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑلیا گیا ہو۔ اس کی آنکھیں بھر آئیں اور اس کی آواز کسی گہرے کنویں سے آتی ہوئی محسوس ہونے لگی۔ وینا نے اپنی داستان حیات سنانا شروع کردی۔ ”میں اپنے والدین کی اکلوتی اولاد ہوں۔ میرے والدین نے میری پرورش اپنی انتہائی غربت اور کسمپرسی کے باوجود بڑے ناز و نعم سے کی ۔ میں نے دوہی سال پہلے گریجویشن کی ہے ۔ جہیز کی لعنت سے تو آپ اچھی طرح آگاہ ہیں۔ میرے خیال میں پاکستان میں بھی یہ لعنت ابھی تک موجود ہے جس کی وجہ سے ہزاروں لڑکیاں اپنی بالوں میں چاندی کے تاروں کا اضافہ کئے ماں باپ کی دہلیز پر بیٹھی ہیں، بھارت میں بھی بہت سی لڑکیاں معاشرے کی اس دلدل میں پھنسے ہوئی ہیں۔ میرا خیال تھا کہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد ٹیچر بنوں گی مگر کوشش کے باوجود مجھے نوکری نہ مل سکی۔ پھر ایک روز میری ایک دوست کے خاوند نے مجھے اپنے ایک دوست سے یہ کہہ کر متعارف کروایا کہ یہ ایک اعلیٰ سرکاری افسر ہیں اور تمہارے لئے ملازمت کا بندوبست کرسکتے ہیں ، بعد میں مجھے علم ہوا کہ ان کا تعلق بھارتی انٹیلی جنس سے ہے ، انہوں نے میرا سرسری سا انٹرویو لیا اور مجھے بتایا کہ میں تمہارے لئے نوکری کا انتظام کرسکتا ہوں ، مگر یہ نوکری بھارت میں نہیں پاکستان میں بھارتی ایمبیسی اسکول میں ہوگی۔ یہ الفاط میرے لئے انتہائی خوش کن تھے۔ میرے لئے کسی دوسرے ملک میں جانے کا تصور ہی انتہائی دلکش تھا۔انہوں نے مجھ سے کہا کہ نوکری کا بندوبست تو ہوگیا ہے مگر پاکستان چونکہ ہمارا دشمن ملک ہے اس لئے تجھے چند ماہ کے لئے سیکورٹی ٹریننگ پر جانا پڑے گا۔ ۔جاری ہے ۔
میں اس کے لئے بھی تیار ہوگئی۔ دراصل مجھے خوشی اس بات کی تھی کہ مجھے بیرون ملک ملازمت مل رہی تھی اور اس کے ساتھ ہی ساتھ مجھے ایک ایسی سرزمین دیکھنے کا موقع بھی مل رہا تھا جس کے بارے میں میں نے بہت کچھ سن رکھا تھا۔ چند روز بعد ایک شخص ہمارے گھر آیا۔ اس نے مجھے تقرری کا خط دیا اور کہا کہ اگلے روز تجھے سیکورٹی ٹریننگ اسکول لے جانے کے لئے میں خود آؤں گا۔ وہ حسب وعدہ اگلے روز پھر آیا میں اپنے والد سے رخصت ہوکر اس کے ساتھ گاڑی میں سوار ہوگئی۔ ایک طویل سفر کے بعد ہم اپنی منزل پر پہنچے ۔ یہ ایک پراسرار عمارت تھی اور دیکھنے میں سکول یا تربیت گاہ ہرگز دکھائی نہیں دیتی تھی۔ میرے علاوہ وہاں چار اور لڑکیاں بھی موجود تھیں۔ جب کورس شروع ہوا تو معلوم ہوا کہ اس میں کسی ٹیچر کی نہیں بلکہ جنگ کی تربیت دی جارہی ہے۔ چند ہی دنوں میں پتہ چل گیا کہ اصل میں ہم ٹیچر نہیں بلکہ جاسوس بناکر بھیجی جارہی ہیں۔ہمارے تربیتی سلیبس میں جسمانی ورزش ، ہتھیاروں کے استعمال کا طریقہ اور ایسے لیکچر شامل تھے جن کا مقصد پاکستان کے خلاف شدیدی نفرت پیدا کرنا تھا۔ علاوہ ازیں اپنے ”شکار” کو ذہنی طورپر اپنا تابع بنانا اور خفیہ راز معلوم کرنا بھی ہماری تربیت کا اہم حصہ تھا۔ ہمیں بلیو فلمیں دکھاکر بھی بتایا جاتا کہ کسی بھی مضبوط سے مضبوط اعصاب کے مرد کو کس طرح اپنا اسیر بنایا جاسکتا ہے ۔ ہمیں جنسی اختلاط کے مختلف طریقے بھی بتائے جاتے تاکہ ہماری کارکردگی میں کوئی کسر نہ رہ جائے۔ درحقیقت ہمیں باعزت طور سے جسم فروشی کی تربیت دی گئی اور ہمیں بتایا گیا کہ ایک کامیاب جاسوس بننے کے لئے اپنی جسمانی خوبصورتی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا ہی اصل ہنر ہے۔ ہم میں سے کسی کو بھی اس تربیت سے اتفاق نہیں تھا مگر اب ہمارے پاس واپسی کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ ہم پوری طرح اپنے محسنوں کے جال میں پھنس چکی تھیں ۔ میں جانتی ہوں کہ پاکستان میں جو کچھ بھی کر رہی ہوں اخلاقیات کے مروجہ ضوابط کے خلاف ہے اور کوئی بھی باضمیر انسان اس دلدل میں کودنے کی جرات نہیں کرسکتا مگرمیں یہ بھی جانتی ہوں کہ اب میرا اپنا وجود ، میرے والدین ، میرا گھر، میرا ضمیر، میری خواہشیں، میرے مستقبل کے سہانے خواب ، سب کچھ داؤ پر لگ چکا ہے ۔ اب اگر میں چاہوں بھی تو ان کے چنگل سے نکل نہین سکتی ۔جاری ہے ۔
فہد مصطفی نئی فلم ’’لوڈ ویڈنگ‘‘میں کاسٹ
اور جب تک میرے جسم میں ذراسی بھی کشش باقی رہے گی یہ لوگ مجھے استعمال کرتے رہیں گے”۔ وینا ویسے بات کر رہی تھی جیسے دور ویرانوں میں بھٹک رہی ہو اور اسے کوئی راستہ نہ سوجھ رہا ہو۔ اپنی کہانی سناتے سناتے اس نے کہا : ”حد تو یہ ہے کہ اس تربیت کے دوران ہمارے انسٹرکٹر بھی ہمارے جسموں کو اپنی مکروہ خواہشات کی تکمیل کے لئے روندتے رہے اور ہماری تربیت مکمل ہونے تک ہماری عصمت کی چادریں بار بار تار تار ہوتی رہیں۔ تربیت کا یہ حصہ رات کے کھانے کے بعد شروع ہوتا تھا۔ ہمیں باری باری مختلف مردوں کے ساتھ جنسی اختلاط پر مجبورکیا جاتا۔ ہمیں عملی طورپر مرد کی حیوانی جبلت پوری کرنے کا سلیقہ سکھایا جاتا۔ شروع میں تو ہر عمل ہمارے لئے ایک مستقل عذاب کی مانند تھا اور ہم نے اس پر کئی بار احتجاج بھی کیا،۔جاری ہے ۔
لیکن ان کا کہنا تھا کہ تمہارے لئے یہ تربیت انتہائی ضروری ہے اور تمہیں ملک و قوم کے عظیم تر مفاد کے لئے سب کچھ قربان کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہنا چاہئے۔ وینا کی کہانی سن کر بہت دکھ ہوا۔ ہم نے بڑی مہارت سے وینا کی ٹوٹی پھوٹی شخصیت کو بحال کیا اور اسے وہ تمام عزت اور غیرت مہیا کی جو وہ کھوچکی تھی۔وینا نے جب ہمارے حسن سلوک کا اپنے ہندو قاؤں کے کردار سے موازنہ کیا تو اس کے لئے یہ فیصلہ کرنا مشکل نہ رہا کہ اسے اپنے نام نہاد وطن پرست دوستوں کے بجائے اپنے دشمنوں کا ساتھ دینا چاہیے۔ نفسیاتی طور پر ہم نے اس بھارتی ماتا ہری کے کچلے ہوئے ضمیر میں زندگی کی نئی روح پھونک دی ۔ ہم نے اسے پیسے دیئے ۔ بھارت میں اس کے والدین کی دیکھ بھال کا ذمہ بھی لیا، اسے عزت نفس دی اور جسمانی اور روحانی پاکیزگی کے سبق دیئے ۔ چنانچہ وینا دل و جان سے پاکستان کی ہوگئی۔ ڈبل ایجنٹ کی حیثیت سے وینا نے ہمارے لئے قابل قدر خدمات انجام دیں۔ اس نے ہمارے بعض منصوبوں کی تکمیل میں ہمارا بھرپور ہاتھ بٹایا اور انتھک محنت کی۔ وینا کی وجہ سے ہمیں ہر وقت بھارتی سفارتخانے میں ہونے والے واقعات، حالات، ان کےخفیہ ایجنٹوں، ان کے طریقہ کار اور اہداف کی خبر رہنے لگی۔ ۔جاری ہے ۔
شوبز: انوشکا ویرات کی دہلی میں شادی کے بعد خصوصی تقریب، بھارتی وزیرِ اعظم سمیت نامور شخصیات کی شرکت
ان اطلاعات کی بناء پر ہم نے ان کے بہت سے ایسے منصوبوں کو خاک میں ملادیا جن کی تفصیل یہاں بیان نہیں کی جاسکتی۔وینا کو جب پاکستان سے وطن واپسی کے احکامات موصول ہوئے تو وہ بے حد افسردہ اور غمگین تھی۔ وہ ہمیشہ کے لئے پاکستان مین رہنے، یہاں شادی کرنے اور اسلام قبول کرنے کو تیار تھی، مگر ہم اس کے لئے کوئی مناسب ”شوہر” تلاش نہ کرسکے۔ وہ دل پر بھاری پتھر رکھے پاکستان سے روانہ ہوگئی۔ بہر حال پاکستان سے جانے سے پہلے وہ ایک مکمل انسان ہی نہیں بلکہ عزت و وقار کے زیور سے راستہ اور مالی طور پر اتنی خوشحال ہوچکی تھی کہ ہمیں یقین ہے اس نے بھارت پہنچتے ہی اپنے آپ کو ”را” سے جدا کرلیا ہوگا اور اب کہیں با عزت زندگی بسر کر رہی ہوگی۔
The post کیسے سولہ سال کی لڑکیوں کو پاکستان میں را کی ایجینٹ بنا کر نوجوان کے ساتھ غلط کام کرواکر ملکی راز لئے جاتے ہیں بڑا انکشاف appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain http://ift.tt/2qmsSsD via India Pakistan News
0 notes
dani-qrt · 7 years
Text
کیسے سولہ سال کی لڑکیوں کو پاکستان میں را کی ایجینٹ بنا کر نوجوان کے ساتھ غلط کام کرواکر ملکی راز لئے جاتے ہیں بڑا انکشاف
سید احمد ارشاد ترمذی جنکا تعلق آئی ایس آئی سے تھا وہ اپنی ایک تحریر میں لکھتے ہیں کہ“شہر اقتدار میں دنیا کے متعدد سفارتخانوں نے اپنے عملے کے بچوں کی ابتدائی تعلیم و تربیت کی غرض سے ایمبیسی اسکول کھول رکھے ہیں، خاص طور پر ان ممالک نے جن کے عملے کی تعداد زیادہ ہے اور طالب علم بھی کافی تعداد میں ہیں، یہ سلسلہ دنیا کے تقریبا سبھی ممالک میں موجود ہے اور بظاہر کسی حوالے سے بھی سفارتی آداب اور قواعد کے خلاف نہیں۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان اسکولوں میں محض درس و تدریس کا کام ہی نہیں ہوتا بلکہ ان اسکولوں کے عملے کے کئی ارکان کو تعلیمی سرگرمیوں کی آڑ میں جاسوسی کے کام پر بھی مامور کیا جاتا ہے۔ خفیہ ایجنٹ اسی طرح کے دوسرے اداروں مثلا ائیر لائنز کے دفاتر ، ہوٹلوں، لینگویج سینٹرز ، ایوان ہائے ثقافت و دوستی اور مراکز اطلاعات میں بھی تعینات کئے جاتے ہیں۔ ۔جاری ہے ۔
رانگ نمبر نے کتنے گھر اُجاڈ دیے
ہمیں اپنی معمول کی چیکنگ کے دوران اسلام آباد میں قائم انڈین ایمبیسی اسکول کی ایک مس وینا کی سرگرمیاں کچھ مشکوک نظر آئیں۔ مسلسل نگرانی کے بعد ہمیں پتہ چلا کہ اسکول کی تدریسی سرگرمیوں میں تو وہ کم حصہ لیتی ہے مگر اکثر اوقات شکار کی تلاش میں اسلام آباد کے چند گھروں میں دکھائی دیتی ہے ۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہوا کہ مس وینا کا بھارتی سفارتخانے کے ڈیفنس اتاشی اور ”را” کے فرسٹ سیکریٹری سے مستقل رابطہ ہے۔ یہ دونوں پاکستان کے دفاعی اور ایٹمی راز معلوم کرنے کے درپے تھے، اور بھارتی ماتا ہری ان کی ہدایات پر کام کرتی تھی۔ مس وینا کی عمر 25یا 26 سال کے لگ بھگ تھی، مگر دیکھنے میں وہ 18-19 سال کی بے ضرر اور معصوم سی لڑکی لگتی تھی ۔ ستواں ناک، کتابی چہرہ، کھلتا ہوا رنگ، انتہائی متناسب جسم ، چال ڈھال میں ایک خاص قسم کا بانکپن، اور گفتگو کا مخصوص انداز، اس کے خطرناک ہتھیار تھے۔ اس کی خاموش نظریں بھی گہرائیوں تک سرایت کرتی محسوس ہوتی تھیں۔ اس کے چہرے پر ہمہ وقت ایک ہلکی سی مسکراہٹ تو رہتی لیکن اس کی نظروں میں ایک ایسی اداسی بھی دکھائی دیتی تھی جیسے صدیوں پرانا ایک محل اپنی لٹی ہوئی تابناکیوں ، خوشیوں اور روشنیوں کے لوٹ آنے کے کربناک انتظار میں ہو، جیسے وقت کے بے رحم ہاتھ لمحہ بہ لمحہ اے ریزہ ریزہ کر رہے ہوں یا جیسے اک تھکن سے چور چور مسافر جو اپنی منزل کا نام بھی بھول چکا ہو مگر پھر بھی ایک لامتناہی سفر پر ہو۔ مس وینا کا بدن اور روح بھی ایک دوسرے سے جدا جدا ، گم سم کسی انجانی منزل کی تلاش میں رہتے۔ ۔جاری ہے ۔
قصور: حق مہر کا تنازعہ، بیٹی کا نکاح بھتیجے سے کردیا، دُولہا خالی ہاتھ واپس
مزید معلومات کے لئے ہم نے ایک پاکستانی ہندو لڑکے کو انڈین ایمبیسی اسکول میں داخلہ دلوایا۔ اس کی ماں نے ہماری ہدایات پر یہ ظاہر کیا کہ وہ اپنے بچے کی تعلیمی سرگرمیوں کے بارے میں بے حد متفکر ہے اور وہ ان سرگرمیوں کے بارے میں آگاہ رہنا چاہتی ہے۔ وہ ہر دوسرے تیسرے روز اسکول جانے لگی اور یوں آہستہ آہستہ مس وینا کے ساتھ دوستی استوار کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ جلد ہی ان کی دوستی اسکول کی حدود سے نکل کر گھر اور مارکیٹ تک آگئی۔ وہ متواتر ایک دوسرے کو ملتیں ، شاپنگ اکٹھے کرتیں، سینما جاتیں اور اسلام آباد کے تفریحی مقامات پر اکٹھے گھومنا پھرنا بھی ان کا معمول بن گیا۔ وینا اسی محترمہ کو شکارکرکے اسے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنا چاہ رہی تھی اور یہ نہیں جانتی تھی کہ یہ معصوم شکار خود اس کا شکاری ہے۔ کچھ ہی عرصے بعد ہمارے اس شک کی تصدیق ہوگئی کہ مس وینا کا اسکول کی تدریسی سرگرمیوں میں کوئی کردار نہیں۔ وہ بھارتی جاسوس ہے اور ہمہ وقت اپنے آقاؤں کے حکم کی بجا آوری میں ”مشن” کے لئے تیار رہتی ہے ۔ اب ہماری نظریں اس کی آمد و رفت اور روزمرہ کی مصروفیات پر مذکور ہوگئیں اور ہم اس انتظار میں تھے کہ وینا کے پھینکے ہوئے کانٹے میں کونسی ”پاکستانی مچھلی ” پھنستی ہے۔ ایک روز بھارتی ایمبیسی کی جانب سے اسلام آباد کے ایک بڑے ہوٹل میں کمرہ بک کروایا گیا۔ یوں تو یہ ایک معمول کی بات تھی مگر سفارتخانے کے مہمانوں کی شناخت اور ان کے بارے میں جاننا ۔جاری ہے ۔
حمائمہ ملک اور مہیب مرزا نے ملکی تاریخ کا فحش ترین گانا بنا ڈالا، دونوں کی ویڈیو نے سوشل میڈیا پر ہنگامہ برپا کر دیا، پاکستانی غضبناک ہو گئے
ہمارے فرائض میں شامل تھا۔ ہوٹل سے ہمارے آدمی نے اطلاع دی کہ مس وینا بھارتی ڈیفنس اتاشی کی گاڑی میں سفارتخانے کے عملے کے ایک رکن مسٹر کھنہ کے ساتھ جو ”را” کی ٹیم کا ممبر بھی تھا، ہوٹل پہنچی ہے اور کھنہ ، وینا کو ہوٹل کے کمرے میں چھوڑ کر لابی میں بیٹھا شاید کسی مہمان کا منتظر ہے۔ ہم نے ائیرپورٹ سے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ اس وقت کوئی جہاز نہیں آرہا اور نہ ہی بھارتی سفارتخانے کی کوئی کار ائیرپورٹ گئی ہے، اس سے ظاہر ہوا کہ ”مہمان” کوئی یہیں کا ہے ۔ ہم نے سیٹی بجادی اور ہماری ٹیم نے ضروری سازوسامان کے ساتھ اپنی پوزیشن سنبھال لی۔ چند لمحوں کے بعد پرویز نامی ایک پاکستانی نوجوان ، جس کے چہرے سے سراسیمگی اور خوف ٹپک رہا تھا ہوٹل کی لابی میں داخل ہوا۔ مسٹر کھنہ نے آگے بڑھ کر بڑی گرم جوشی سے اس کا استقبال کیا اور کہا’ ” آئیے پرویز صاحب ہم تو آپ کے دیر سے منتظر ہیں” اور اسے اس کمرے میں لے گیا، جہاں وینا آنے والے لمحوں کے تانے بانے بن رہی تھی۔ وقت ضائع کئے بغیر ہمارے ساتھیوں نے پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق کپڑے تبدیل کئے اور مختلف روپ دھارکر اپنے اپنے ڈیوٹی کے مقام پر پہنچ گئے۔ توقع کے عین مطابق کمرے سے روم سروس کو انٹرکام پر چائے اور سینڈویچز کا آرڈر دیا گیا۔ ہمارا تربیت یافتہ ”ویٹر” فوری طور پر چائے کی ٹرالی لے کر روانہ ہوگیا، جس میں ایک چھوٹا سا ٹرانسمیٹر نصب تھا۔ ۔جاری ہے ۔
ثانیہ مرزا کا دورہ پاکستان ، لاہور میں سیر سپاٹے
واپسی پر ”ویٹر” نے بتایا کہ وینا اپنے مہمان پر اپنا سب کچھ نچھاور کرنے کے لئے بے چین ہے مگر اس کا مہمان سہما ہوا اور شرمیلا سا ہے، جبکہ مسٹر کھنہ دلالوں کا روایتی کردار ادا کر رہا ہے اور اسکی کوشش ہے کہ مس وینا اپنے مہمان کے تمام حواس پر قبضہ کرلے۔ بہر حال ہم ٹرالی میں لگے ٹرانسمیٹر کی مدد سے ان لوگوں کی گفتگو سن رہے تھے اور اسے ریکارڈ بھی کر رہے تھے۔ کچھ ہی دیر بعد کھنہ کمرے سے باہر آگیا اور اپنی کار میں بیٹھ کر واپس ایمبیسی چلاگیا ۔ اس کے چہرے کی بشاشت بتارہی تھی کہ شکار پنجے میں آچکا ہے اور چند ہی لمحوں میں وینا اس کا جھٹکا کر کے اس کے کباب بنالے گی۔ برحال مس وینا اور پرویز کی گفتگو رسمی تعارف تک ہی محدود رہی۔ پرویز کے انداز سے ظاہر ہورہا تھا کہ وہ کھل کر اپنے جذبات کا اظہار نہیں کر رہا اور گھبرایا ہوا ہے۔ مگر وینا اس مہم کو سرکرنے کے لئے اس پر تابڑ توڑ اور خطرناک حملے کر رہی تھی۔ وینا کے لئے اپنے اعلیٰ افسران پر اپنی کارکردگی ثابت کرنے کا شاید یہ بہترین موقع تھا اور وہ کسی صورت بھی یہ موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتی تھی ۔ کچھ ہی دیر بعد ٹرانسمیٹر سے تیز سانسوں کی آواز آنے لگی اور بالآخر یہ تلاطم تھم گیا ۔ پرویز شاید ذبح ہوچکا تھا۔ پرویز تقریبا آدھ گھنٹہ کمرے میں رہا اور وینا کو اپنا ایڈریس لکھوا کر اور وصل کا ایک اور وعدہ لے کر نیچے آگیا، مگر اس کی حرکات و سکنات سے صاف ظاہر ہورہا تھا کہ اس کی گھبراہٹ جوں کی توں ہے ۔ ہوٹل سے نکلتے ہی ہم نے اس کا پیچھا کیا اور اسے اپنی گاڑی میں بٹھاکر اپنے ریسٹ ہاؤس لے گئے۔ ۔جاری ہے ۔
ایک لمحے میں اس کے سارے حسین خواب منتشر ہوگئے۔ تفتیش شروع ہوئی تو وہ اپنی شناخت کرانے سے ہچکچارہا تھا۔ نتیجتاً ہم نے وینا کے ساتھ اس کی گفتگو کی ریکارڈنگ اسے سنائی تو اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں ۔ اس نے بچوں کی طرح رونا شروع کردیا اور معافی مانگنے لگا۔ اس نے بتایا کہ ”میں پاکستان اٹامک انرجی کمیشن میں انجینئر ہوں او رکھنہ کے ساتھ میری ملاقات لاہور سے اسلام آباد آتے ہوئے ایک بس میں ہوئی تھی۔ ہم بہت جلد دوست بن گئے اور کھنہ نے مجھے ایک خوبصورت ہندو لڑکی سے ملوانے کی پیشکش کی جسے میں ٹھکرانہ سکا۔” ہمارے لئے اس میں حیرت کی کوئی بات نہ تھی کہ بھارتی خفیہ اداروں نے چانکیا کی تعلیمات کے مطابق رنڈیوں سے جاسوسی کا کام لینے کو بھی اپنے کلچر کا حصہ بنا رکھا تھا۔ اس کھیل کو آگے بڑھانے کے لئے ہمارے پاس اور بہت سے راستے تھے۔ پہلے ہم نے سوچا کہ پرویز سے ڈبل ایجنٹ کا کام لیا جائے مگر بعد ازاں اس کی ملازمت کی حساس نوعیت کو دیکھتے ہوئے ہم نے اپنا ارادہ منسوخ کر دیا تاہم اس واقعہ کی ایک رپورٹ اس کے متعلقہ محکمے کو بھجوادی گئی اور پرویز کو ملازمت سے فارغ کردیا گیا۔ بہر حال پرویز سے ملاقات کے بعد مس وینا ابھی ہوٹل کے کمرے میں موجود تھی۔ یا تو وہ کھنہ کا انتظار کرتی یا پھر ایمبیسی فون کرتی کہ ہوٹل میں میری ڈیوٹی پوری ہوگئی ہے اور مجھے آکر یہاں سے لے جایا جائے ۔ ۔جاری ہے ۔
اب ہمارے پاس ہوٹل کا محاذ ہی تھا اور وقت بہت کم۔ وینا تک رسائی حاصل کرنا خطرے سے خالی نہ تھا۔ وہ ہمارے کسی بھی اہلکار کی کمرے میں موجودگی کی صورت میں الارم بجاسکتی تھی اور ہمارے لئے ایک پیچیدہ سفارتی تنازعہ پیدا ہو سکتا تھا۔ دوسری جانب یہ ایک ایسی صورتحال تھی جس سے فائدہ نہ اٹھانا ہماری ”خفیہ روایات ” کے خلاف تھا۔ کسی بھی رسک کی صورت میں کامیابی کی توقع ففٹی ففٹی تھی۔ تاہم مس وینا کی شخصیت اور کردار کو سامنے رکھ کر ہمیں اس بات کا یقین تھاکہ اگر اس صورت حال میں مہارت اور چابکدستی سے کام لیا جائے تو اس بھارتی ماتا ہری کو شیشے میں اتارنا مشکل نہ ہوگا۔ ہمارے لئے یہ ملین ڈالر چانس تھا جسے آزمایا جاسکتا تھا۔ ہم نے لمحوں میں حتمی فیصلہ کیا اور کچھ ہی دیر بعد ہمارے روم سروس والے اسی ویٹر نے کمرے کے دروازے پر دستک دی ۔ بظاہر وہ چائے کی ٹرالی واپس لینے گیا تھا ۔پلان کے مطابق اس نے کمرے کا دروازہ کھلا رکھا، وینا سے رسمی سلام دعا کی اور اس اثناء میں ہمارا کیس افسر بھی کمرے میں پہنچ گیا۔ یہ حکمت عملی اس لئے اختیار کی گئی تھی تاکہ وینا اپنے سفارتخانے فون نہ کرسکے ۔ اگر کھنہ خود آتا تو اس صورت حال کے لئے بھی ہمارا ایک آدمی تیار تھا۔ منصوبے کے مطابق کیس آفیسر ہوٹل کے سیکورٹی ایگزیکٹو کے روپ میں کمرے میں داخل ہوا۔ اپنا تعارف کروایا اور ہوٹل کی سروس کے بارے میں معمول کی گفتگو کرنے لگا۔ وینا کو ذرا برابر شک نہ گزرا۔ اس کے لئے سب معمول کی بات تھی۔ وہ انتہائی مطمئن اور خوشگوار موڈ میں تھی۔ ہمارے افسر نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے بھارتی ساڑھیوں ، فلموں کے بارے میں گفتگو شروع کردی۔ وینا نے اس گفتگو میں دلچسپی لینی شروع کردی اور ہمارے آفیسر کو بیٹھنے کے لئے کہا۔ ”ویٹر” ٹرالی لے کر چلا گیا اور گفتگو کا موضوع ذاتی معلومات تک آگیا۔ ہمارا وار کاگر ثابت ہوا۔ وینا جلد ہی ہمارے کیس آفیسر کو تم تم کہنے کی حد تک آگئی ۔ وہ باتوں میں اس قدر محو ہوگئی۔جاری ہے ۔
کہ اسے سفارتخانے فون کرنا بھی یاد نہ رہا۔ ادھر کھنہ اور اس کے افسران بالا یقینی طورپر اس بات پر جام مسرت پی رہے ہوں گے کہ بالآخر انہوں نے پاکستان اٹامک انرجی کمیشن سے ایک بڑی مچھلی کو اپنے جال میں پھنسالیا تھا۔ آہستہ آہستہ ہمارے آفیسر کا لہجہ تبدیل ہوگیا اور اس کی گفتگو معنی خیز ہوتی گئی ۔ جب وینا کو احساس ہوا کہ ہوٹل کے اس آفیسر کو وینا کی اس کمرے میں آمد اور اس کے مقاصد سے پوری طرح آگاہی ہے تو وینا کی صورت ایک ایسے مجبور، بے کس اور بھوکے بچے کی سی ہوگئی جسے بیکری سے ڈبل روٹی چوری کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑلیا گیا ہو۔ اس کی آنکھیں بھر آئیں اور اس کی آواز کسی گہرے کنویں سے آتی ہوئی محسوس ہونے لگی۔ وینا نے اپنی داستان حیات سنانا شروع کردی۔ ”میں اپنے والدین کی اکلوتی اولاد ہوں۔ میرے والدین نے میری پرورش اپنی انتہائی غربت اور کسمپرسی کے باوجود بڑے ناز و نعم سے کی ۔ میں نے دوہی سال پہلے گریجویشن کی ہے ۔ جہیز کی لعنت سے تو آپ اچھی طرح آگاہ ہیں۔ میرے خیال میں پاکستان میں بھی یہ لعنت ابھی تک موجود ہے جس کی وجہ سے ہزاروں لڑکیاں اپنی بالوں میں چاندی کے تاروں کا اضافہ کئے ماں باپ کی دہلیز پر بیٹھی ہیں، بھارت میں بھی بہت سی لڑکیاں معاشرے کی اس دلدل میں پھنسے ہوئی ہیں۔ میرا خیال تھا کہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد ٹیچر بنوں گی مگر کوشش کے باوجود مجھے نوکری نہ مل سکی۔ پھر ایک روز میری ایک دوست کے خاوند نے مجھے اپنے ایک دوست سے یہ کہہ کر متعارف کروایا کہ یہ ایک اعلیٰ سرکاری افسر ہیں اور تمہارے لئے ملازمت کا بندوبست کرسکتے ہیں ، بعد میں مجھے علم ہوا کہ ان کا تعلق بھارتی انٹیلی جنس سے ہے ، انہوں نے میرا سرسری سا انٹرویو لیا اور مجھے بتایا کہ میں تمہارے لئے نوکری کا انتظام کرسکتا ہوں ، مگر یہ نوکری بھارت میں نہیں پاکستان میں بھارتی ایمبیسی اسکول میں ہوگی۔ یہ الفاط میرے لئے انتہائی خوش کن تھے۔ میرے لئے کسی دوسرے ملک میں جانے کا تصور ہی انتہائی دلکش تھا۔انہوں نے مجھ سے کہا کہ نوکری کا بندوبست تو ہوگیا ہے مگر پاکستان چونکہ ہمارا دشمن ملک ہے اس لئے تجھے چند ماہ کے لئے سیکورٹی ٹریننگ پر جانا پڑے گا۔ ۔جاری ہے ۔
میں اس کے لئے بھی تیار ہوگئی۔ دراصل مجھے خوشی اس بات کی تھی کہ مجھے بیرون ملک ملازمت مل رہی تھی اور اس کے ساتھ ہی ساتھ مجھے ایک ایسی سرزمین دیکھنے کا موقع بھی مل رہا تھا جس کے بارے میں میں نے بہت کچھ سن رکھا تھا۔ چند روز بعد ایک شخص ہمارے گھر آیا۔ اس نے مجھے تقرری کا خط دیا اور کہا کہ اگلے روز تجھے سیکورٹی ٹریننگ اسکول لے جانے کے لئے میں خود آؤں گا۔ وہ حسب وعدہ اگلے روز پھر آیا میں اپنے والد سے رخصت ہوکر اس کے ساتھ گاڑی میں سوار ہوگئی۔ ایک طویل سفر کے بعد ہم اپنی منزل پر پہنچے ۔ یہ ایک پراسرار عمارت تھی اور دیکھنے میں سکول یا تربیت گاہ ہرگز دکھائی نہیں دیتی تھی۔ میرے علاوہ وہاں چار اور لڑکیاں بھی موجود تھیں۔ جب کورس شروع ہوا تو معلوم ہوا کہ اس میں کسی ٹیچر کی نہیں بلکہ جنگ کی تربیت دی جارہی ہے۔ چند ہی دنوں میں پتہ چل گیا کہ اصل میں ہم ٹیچر نہیں بلکہ جاسوس بناکر بھیجی جارہی ہیں۔ہمارے تربیتی سلیبس میں جسمانی ورزش ، ہتھیاروں کے استعمال کا طریقہ اور ایسے لیکچر شامل تھے جن کا مقصد پاکستان کے خلاف شدیدی نفرت پیدا کرنا تھا۔ علاوہ ازیں اپنے ”شکار” کو ذہنی طورپر اپنا تابع بنانا اور خفیہ راز معلوم کرنا بھی ہماری تربیت کا اہم حصہ تھا۔ ہمیں بلیو فلمیں دکھاکر بھی بتایا جاتا کہ کسی بھی مضبوط سے مضبوط اعصاب کے مرد کو کس طرح اپنا اسیر بنایا جاسکتا ہے ۔ ہمیں جنسی اختلاط کے مختلف طریقے بھی بتائے جاتے تاکہ ہماری کارکردگی میں کوئی کسر نہ رہ جائے۔ درحقیقت ہمیں باعزت طور سے جسم فروشی کی تربیت دی گئی اور ہمیں بتایا گیا کہ ایک کامیاب جاسوس بننے کے لئے اپنی جسمانی خوبصورتی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا ہی اصل ہنر ہے۔ ہم میں سے کسی کو بھی اس تربیت سے اتفاق نہیں تھا مگر اب ہمارے پاس واپسی کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ ہم پوری طرح اپنے محسنوں کے جال میں پھنس چکی تھیں ۔ میں جانتی ہوں کہ پاکستان میں جو کچھ بھی کر رہی ہوں اخلاقیات کے مروجہ ضوابط کے خلاف ہے اور کوئی بھی باضمیر انسان اس دلدل میں کودنے کی جرات نہیں کرسکتا مگرمیں یہ بھی جانتی ہوں کہ اب میرا اپنا وجود ، میرے والدین ، میرا گھر، میرا ضمیر، میری خواہشیں، میرے مستقبل کے سہانے خواب ، سب کچھ داؤ پر لگ چکا ہے ۔ اب اگر میں چاہوں بھی تو ان کے چنگل سے نکل نہین سکتی ۔جاری ہے ۔
فہد مصطفی نئی فلم ’’لوڈ ویڈنگ‘‘میں کاسٹ
اور جب تک میرے جسم میں ذراسی بھی کشش باقی رہے گی یہ لوگ مجھے استعمال کرتے رہیں گے”۔ وینا ویسے بات کر رہی تھی جیسے دور ویرانوں میں بھٹک رہی ہو اور اسے کوئی راستہ نہ سوجھ رہا ہو۔ اپنی کہانی سناتے سناتے اس نے کہا : ”حد تو یہ ہے کہ اس تربیت کے دوران ہمارے انسٹرکٹر بھی ہمارے جسموں کو اپنی مکروہ خواہشات کی تکمیل کے لئے روندتے رہے اور ہماری تربیت مکمل ہونے تک ہماری عصمت کی چادریں بار بار تار تار ہوتی رہیں۔ تربیت کا یہ حصہ رات کے کھانے کے بعد شروع ہوتا تھا۔ ہمیں باری باری مختلف مردوں کے ساتھ جنسی اختلاط پر مجبورکیا جاتا۔ ہمیں عملی طورپر مرد کی حیوانی جبلت پوری کرنے کا سلیقہ سکھایا جاتا۔ شروع میں تو ہر عمل ہمارے لئے ایک مستقل عذاب کی مانند تھا اور ہم نے اس پر کئی بار احتجاج بھی کیا،۔جاری ہے ۔
لیکن ان کا کہنا تھا کہ تمہارے لئے یہ تربیت انتہائی ضروری ہے اور تمہیں ملک و قوم کے عظیم تر مفاد کے لئے سب کچھ قربان کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہنا چاہئے۔ وینا کی کہانی سن کر بہت دکھ ہوا۔ ہم نے بڑی مہارت سے وینا کی ٹوٹی پھوٹی شخصیت کو بحال کیا اور اسے وہ تمام عزت اور غیرت مہیا کی جو وہ کھوچکی تھی۔وینا نے جب ہمارے حسن سلوک کا اپنے ہندو قاؤں کے کردار سے موازنہ کیا تو اس کے لئے یہ فیصلہ کرنا مشکل نہ رہا کہ اسے اپنے نام نہاد وطن پرست دوستوں کے بجائے اپنے دشمنوں کا ساتھ دینا چاہیے۔ نفسیاتی طور پر ہم نے اس بھارتی ماتا ہری کے کچلے ہوئے ضمیر میں زندگی کی نئی روح پھونک دی ۔ ہم نے اسے پیسے دیئے ۔ بھارت میں اس کے والدین کی دیکھ بھال کا ذمہ بھی لیا، اسے عزت نفس دی اور جسمانی اور روحانی پاکیزگی کے سبق دیئے ۔ چنانچہ وینا دل و جان سے پاکستان کی ہوگئی۔ ڈبل ایجنٹ کی حیثیت سے وینا نے ہمارے لئے قابل قدر خدمات انجام دیں۔ اس نے ہمارے بعض منصوبوں کی تکمیل میں ہمارا بھرپور ہاتھ بٹایا اور انتھک محنت کی۔ وینا کی وجہ سے ہمیں ہر وقت بھارتی سفارتخانے میں ہونے والے واقعات، حالات، ان کےخفیہ ایجنٹوں، ان کے طریقہ کار اور اہداف کی خبر رہنے لگی۔ ۔جاری ہے ۔
شوبز: انوشکا ویرات کی دہلی میں شادی کے بعد خصوصی تقریب، بھارتی وزیرِ اعظم سمیت نامور شخصیات کی شرکت
ان اطلاعات کی بناء پر ہم نے ان کے بہت سے ایسے منصوبوں کو خاک میں ملادیا جن کی تفصیل یہاں بیان نہیں کی جاسکتی۔وینا کو جب پاکستان سے وطن واپسی کے احکامات موصول ہوئے تو وہ بے حد افسردہ اور غمگین تھی۔ وہ ہمیشہ کے لئے پاکستان مین رہنے، یہاں شادی کرنے اور اسلام قبول کرنے کو تیار تھی، مگر ہم اس کے لئے کوئی مناسب ”شوہر” تلاش نہ کرسکے۔ وہ دل پر بھاری پتھر رکھے پاکستان سے روانہ ہوگئی۔ بہر حال پاکستان سے جانے سے پہلے وہ ایک مکمل انسان ہی نہیں بلکہ عزت و وقار کے زیور سے راستہ اور مالی طور پر اتنی خوشحال ہوچکی تھی کہ ہمیں یقین ہے اس نے بھارت پہنچتے ہی اپنے آپ کو ”را” سے جدا کرلیا ہوگا اور اب کہیں با عزت زندگی بسر کر رہی ہوگی۔
The post کیسے سولہ سال کی لڑکیوں کو پاکستان میں را کی ایجینٹ بنا کر نوجوان کے ساتھ غلط کام کرواکر ملکی راز لئے جاتے ہیں بڑا انکشاف appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain http://ift.tt/2qmsSsD via Urdu News
0 notes
newestbalance · 7 years
Text
کیسے سولہ سال کی لڑکیوں کو پاکستان میں را کی ایجینٹ بنا کر نوجوان کے ساتھ غلط کام کرواکر ملکی راز لئے جاتے ہیں بڑا انکشاف
سید احمد ارشاد ترمذی جنکا تعلق آئی ایس آئی سے تھا وہ اپنی ایک تحریر میں لکھتے ہیں کہ“شہر اقتدار میں دنیا کے متعدد سفارتخانوں نے اپنے عملے کے بچوں کی ابتدائی تعلیم و تربیت کی غرض سے ایمبیسی اسکول کھول رکھے ہیں، خاص طور پر ان ممالک نے جن کے عملے کی تعداد زیادہ ہے اور طالب علم بھی کافی تعداد میں ہیں، یہ سلسلہ دنیا کے تقریبا سبھی ممالک میں موجود ہے اور بظاہر کسی حوالے سے بھی سفارتی آداب اور قواعد کے خلاف نہیں۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان اسکولوں میں محض درس و تدریس کا کام ہی نہیں ہوتا بلکہ ان اسکولوں کے عملے کے کئی ارکان کو تعلیمی سرگرمیوں کی آڑ میں جاسوسی کے کام پر بھی مامور کیا جاتا ہے۔ خفیہ ایجنٹ اسی طرح کے دوسرے اداروں مثلا ائیر لائنز کے دفاتر ، ہوٹلوں، لینگویج سینٹرز ، ایوان ہائے ثقافت و دوستی اور مراکز اطلاعات میں بھی تعینات کئے جاتے ہیں۔ ۔جاری ہے ۔
رانگ نمبر نے کتنے گھر اُجاڈ دیے
ہمیں اپنی معمول کی چیکنگ کے دوران اسلام آباد میں قائم انڈین ایمبیسی اسکول کی ایک مس وینا کی سرگرمیاں کچھ مشکوک نظر آئیں۔ مسلسل نگرانی کے بعد ہمیں پتہ چلا کہ اسکول کی تدریسی سرگرمیوں میں تو وہ کم حصہ لیتی ہے مگر اکثر اوقات شکار کی تلاش میں اسلام آباد کے چند گھروں میں دکھائی دیتی ہے ۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہوا کہ مس وینا کا بھارتی سفارتخانے کے ڈیفنس اتاشی اور ”را” کے فرسٹ سیکریٹری سے مستقل رابطہ ہے۔ یہ دونوں پاکستان کے دفاعی اور ایٹمی راز معلوم کرنے کے درپے تھے، اور بھارتی ماتا ہری ان کی ہدایات پر کام کرتی تھی۔ مس وینا کی عمر 25یا 26 سال کے لگ بھگ تھی، مگر دیکھنے میں وہ 18-19 سال کی بے ضرر اور معصوم سی لڑکی لگتی تھی ۔ ستواں ناک، کتابی چہرہ، کھلتا ہوا رنگ، انتہائی متناسب جسم ، چال ڈھال میں ایک خاص قسم کا بانکپن، اور گفتگو کا مخصوص انداز، اس کے خطرناک ہتھیار تھے۔ اس کی خاموش نظریں بھی گہرائیوں تک سرایت کرتی محسوس ہوتی تھیں۔ اس کے چہرے پر ہمہ وقت ایک ہلکی سی مسکراہٹ تو رہتی لیکن اس کی نظروں میں ایک ایسی اداسی بھی دکھائی دیتی تھی جیسے صدیوں پرانا ایک محل اپنی لٹی ہوئی تابناکیوں ، خوشیوں اور روشنیوں کے لوٹ آنے کے کربناک انتظار میں ہو، جیسے وقت کے بے رحم ہاتھ لمحہ بہ لمحہ اے ریزہ ریزہ کر رہے ہوں یا جیسے اک تھکن سے چور چور مسافر جو اپنی منزل کا نام بھی بھول چکا ہو مگر پھر بھی ایک لامتناہی سفر پر ہو۔ مس وینا کا بدن اور روح بھی ایک دوسرے سے جدا جدا ، گم سم کسی انجانی منزل کی تلاش میں رہتے۔ ۔جاری ہے ۔
قصور: حق مہر کا تنازعہ، بیٹی کا نکاح بھتیجے سے کردیا، دُولہا خالی ہاتھ واپس
مزید معلومات کے لئے ہم نے ایک پاکستانی ہندو لڑکے کو انڈین ایمبیسی اسکول میں داخلہ دلوایا۔ اس کی ماں نے ہماری ہدایات پر یہ ظاہر کیا کہ وہ اپنے بچے کی تعلیمی سرگرمیوں کے بارے میں بے حد متفکر ہے اور وہ ان سرگرمیوں کے بارے میں آگاہ رہنا چاہتی ہے۔ وہ ہر دوسرے تیسرے روز اسکول جانے لگی اور یوں آہستہ آہستہ مس وینا کے ساتھ دوستی استوار کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ جلد ہی ان کی دوستی اسکول کی حدود سے نکل کر گھر اور مارکیٹ تک آگئی۔ وہ متواتر ایک دوسرے کو ملتیں ، شاپنگ اکٹھے کرتیں، سینما جاتیں اور اسلام آباد کے تفریحی مقامات پر اکٹھے گھومنا پھرنا بھی ان کا معمول بن گیا۔ وینا اسی محترمہ کو شکارکرکے اسے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنا چاہ رہی تھی اور یہ نہیں جانتی تھی کہ یہ معصوم شکار خود اس کا شکاری ہے۔ کچھ ہی عرصے بعد ہمارے اس شک کی تصدیق ہوگئی کہ مس وینا کا اسکول کی تدریسی سرگرمیوں میں کوئی کردار نہیں۔ وہ بھارتی جاسوس ہے اور ہمہ وقت اپنے آقاؤں کے حکم کی بجا آوری میں ”مشن” کے لئے تیار رہتی ہے ۔ اب ہماری نظریں اس کی آمد و رفت اور روزمرہ کی مصروفیات پر مذکور ہوگئیں اور ہم اس انتظار میں تھے کہ وینا کے پھینکے ہوئے کانٹے میں کونسی ”پاکستانی مچھلی ” پھنستی ہے۔ ایک روز بھارتی ایمبیسی کی جانب سے اسلام آباد کے ایک بڑے ہوٹل میں کمرہ بک کروایا گیا۔ یوں تو یہ ایک معمول کی بات تھی مگر سفارتخانے کے مہمانوں کی شناخت اور ان کے بارے میں جاننا ۔جاری ہے ۔
حمائمہ ملک اور مہیب مرزا نے ملکی تاریخ کا فحش ترین گانا بنا ڈالا، دونوں کی ویڈیو نے سوشل میڈیا پر ہنگامہ برپا کر دیا، پاکستانی غضبناک ہو گئے
ہمارے فرائض میں شامل تھا۔ ہوٹل سے ہمارے آدمی نے اطلاع دی کہ مس وینا بھارتی ڈیفنس اتاشی کی گاڑی میں سفارتخانے کے عملے کے ایک رکن مسٹر کھنہ کے ساتھ جو ”را” کی ٹیم کا ممبر بھی تھا، ہوٹل پہنچی ہے اور کھنہ ، وینا کو ہوٹل کے کمرے میں چھوڑ کر لابی میں بیٹھا شاید کسی مہمان کا منتظر ہے۔ ہم نے ائیرپورٹ سے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ اس وقت کوئی جہاز نہیں آرہا اور نہ ہی بھارتی سفارتخانے کی کوئی کار ائیرپورٹ گئی ہے، اس سے ظاہر ہوا کہ ”مہمان” کوئی یہیں کا ہے ۔ ہم نے سیٹی بجادی اور ہماری ٹیم نے ضروری سازوسامان کے ساتھ اپنی پوزیشن سنبھال لی۔ چند لمحوں کے بعد پرویز نامی ایک پاکستانی نوجوان ، جس کے چہرے سے سراسیمگی اور خوف ٹپک رہا تھا ہوٹل کی لابی میں داخل ہوا۔ مسٹر کھنہ نے آگے بڑھ کر بڑی گرم جوشی سے اس کا استقبال کیا اور کہا’ ” آئیے پرویز صاحب ہم تو آپ کے دیر سے منتظر ہیں” اور اسے اس کمرے میں لے گیا، جہاں وینا آنے والے لمحوں کے تانے بانے بن رہی تھی۔ وقت ضائع کئے بغیر ہمارے ساتھیوں نے پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق کپڑے تبدیل کئے اور مختلف روپ دھارکر اپنے اپنے ڈیوٹی کے مقام پر پہنچ گئے۔ توقع کے عین مطابق کمرے سے روم سروس کو انٹرکام پر چائے اور سینڈویچز کا آرڈر دیا گیا۔ ہمارا تربیت یافتہ ”ویٹر” فوری طور پر چائے کی ٹرالی لے کر روانہ ہوگیا، جس میں ایک چھوٹا سا ٹرانسمیٹر نصب تھا۔ ۔جاری ہے ۔
ثانیہ مرزا کا دورہ پاکستان ، لاہور میں سیر سپاٹے
واپسی پر ”ویٹر” نے بتایا کہ وینا اپنے مہمان پر اپنا سب کچھ نچھاور کرنے کے لئے بے چین ہے مگر اس کا مہمان سہما ہوا اور شرمیلا سا ہے، جبکہ مسٹر کھنہ دلالوں کا روایتی کردار ادا کر رہا ہے اور اسکی کوشش ہے کہ مس وینا اپنے مہمان کے تمام حواس پر قبضہ کرلے۔ بہر حال ہم ٹرالی میں لگے ٹرانسمیٹر کی مدد سے ان لوگوں کی گفتگو سن رہے تھے اور اسے ریکارڈ بھی کر رہے تھے۔ کچھ ہی دیر بعد کھنہ کمرے سے باہر آگیا اور اپنی کار میں بیٹھ کر واپس ایمبیسی چلاگیا ۔ اس کے چہرے کی بشاشت بتارہی تھی کہ شکار پنجے میں آچکا ہے اور چند ہی لمحوں میں وینا اس کا جھٹکا کر کے اس کے کباب بنالے گی۔ برحال مس وینا اور پرویز کی گفتگو رسمی تعارف تک ہی محدود رہی۔ پرویز کے انداز سے ظاہر ہورہا تھا کہ وہ کھل کر اپنے جذبات کا اظہار نہیں کر رہا اور گھبرایا ہوا ہے۔ مگر وینا اس مہم کو سرکرنے کے لئے اس پر تابڑ توڑ اور خطرناک حملے کر رہی تھی۔ وینا کے لئے اپنے اعلیٰ افسران پر اپنی کارکردگی ثابت کرنے کا شاید یہ بہترین موقع تھا اور وہ کسی صورت بھی یہ موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتی تھی ۔ کچھ ہی دیر بعد ٹرانسمیٹر سے تیز سانسوں کی آواز آنے لگی اور بالآخر یہ تلاطم تھم گیا ۔ پرویز شاید ذبح ہوچکا تھا۔ پرویز تقریبا آدھ گھنٹہ کمرے میں رہا اور وینا کو اپنا ایڈریس لکھوا کر اور وصل کا ایک اور وعدہ لے کر نیچے آگیا، مگر اس کی حرکات و سکنات سے صاف ظاہر ہورہا تھا کہ اس کی گھبراہٹ جوں کی توں ہے ۔ ہوٹل سے نکلتے ہی ہم نے اس کا پیچھا کیا اور اسے اپنی گاڑی میں بٹھاکر اپنے ریسٹ ہاؤس لے گئے۔ ۔جاری ہے ۔
ایک لمحے میں اس کے سارے حسین خواب منتشر ہوگئے۔ تفتیش شروع ہوئی تو وہ اپنی شناخت کرانے سے ہچکچارہا تھا۔ نتیجتاً ہم نے وینا کے ساتھ اس کی گفتگو کی ریکارڈنگ اسے سنائی تو اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں ۔ اس نے بچوں کی طرح رونا شروع کردیا اور معافی مانگنے لگا۔ اس نے بتایا کہ ”میں پاکستان اٹامک انرجی کمیشن میں انجینئر ہوں او رکھنہ کے ساتھ میری ملاقات لاہور سے اسلام آباد آتے ہوئے ایک بس میں ہوئی تھی۔ ہم بہت جلد دوست بن گئے اور کھنہ نے مجھے ایک خوبصورت ہندو لڑکی سے ملوانے کی پیشکش کی جسے میں ٹھکرانہ سکا۔” ہمارے لئے اس میں حیرت کی کوئی بات نہ تھی کہ بھارتی خفیہ اداروں نے چانکیا کی تعلیمات کے مطابق رنڈیوں سے جاسوسی کا کام لینے کو بھی اپنے کلچر کا حصہ بنا رکھا تھا۔ اس کھیل کو آگے بڑھانے کے لئے ہمارے پاس اور بہت سے راستے تھے۔ پہلے ہم نے سوچا کہ پرویز سے ڈبل ایجنٹ کا کام لیا جائے مگر بعد ازاں اس کی ملازمت کی حساس نوعیت کو دیکھتے ہوئے ہم نے اپنا ارادہ منسوخ کر دیا تاہم اس واقعہ کی ایک رپورٹ اس کے متعلقہ محکمے کو بھجوادی گئی اور پرویز کو ملازمت سے فارغ کردیا گیا۔ بہر حال پرویز سے ملاقات کے بعد مس وینا ابھی ہوٹل کے کمرے میں موجود تھی۔ یا تو وہ کھنہ کا انتظار کرتی یا پھر ایمبیسی فون کرتی کہ ہوٹل میں میری ڈیوٹی پوری ہوگئی ہے اور مجھے آکر یہاں سے لے جایا جائے ۔ ۔جاری ہے ۔
اب ہمارے پاس ہوٹل کا محاذ ہی تھا اور وقت بہت کم۔ وینا تک رسائی حاصل کرنا خطرے سے خالی نہ تھا۔ وہ ہمارے کسی بھی اہلکار کی کمرے میں موجودگی کی صورت میں الارم بجاسکتی تھی اور ہمارے لئے ایک پیچیدہ سفارتی تنازعہ پیدا ہو سکتا تھا۔ دوسری جانب یہ ایک ایسی صورتحال تھی جس سے فائدہ نہ اٹھانا ہماری ”خفیہ روایات ” کے خلاف تھا۔ کسی بھی رسک کی صورت میں کامیابی کی توقع ففٹی ففٹی تھی۔ تاہم مس وینا کی شخصیت اور کردار کو سامنے رکھ کر ہمیں اس بات کا یقین تھاکہ اگر اس صورت حال میں مہارت اور چابکدستی سے کام لیا جائے تو اس بھارتی ماتا ہری کو شیشے میں اتارنا مشکل نہ ہوگا۔ ہمارے لئے یہ ملین ڈالر چانس تھا جسے آزمایا جاسکتا تھا۔ ہم نے لمحوں میں حتمی فیصلہ کیا اور کچھ ہی دیر بعد ہمارے روم سروس والے اسی ویٹر نے کمرے کے دروازے پر دستک دی ۔ بظاہر وہ چائے کی ٹرالی واپس لینے گیا تھا ۔پلان کے مطابق اس نے کمرے کا دروازہ کھلا رکھا، وینا سے رسمی سلام دعا کی اور اس اثناء میں ہمارا کیس ا��سر بھی کمرے میں پہنچ گیا۔ یہ حکمت عملی اس لئے اختیار کی گئی تھی تاکہ وینا اپنے سفارتخانے فون نہ کرسکے ۔ اگر کھنہ خود آتا تو اس صورت حال کے لئے بھی ہمارا ایک آدمی تیار تھا۔ منصوبے کے مطابق کیس آفیسر ہوٹل کے سیکورٹی ایگزیکٹو کے روپ میں کمرے میں داخل ہوا۔ اپنا تعارف کروایا اور ہوٹل کی سروس کے بارے میں معمول کی گفتگو کرنے لگا۔ وینا کو ذرا برابر شک نہ گزرا۔ اس کے لئے سب معمول کی بات تھی۔ وہ انتہائی مطمئن اور خوشگوار موڈ میں تھی۔ ہمارے افسر نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے بھارتی ساڑھیوں ، فلموں کے بارے میں گفتگو شروع کردی۔ وینا نے اس گفتگو میں دلچسپی لینی شروع کردی اور ہمارے آفیسر کو بیٹھنے کے لئے کہا۔ ”ویٹر” ٹرالی لے کر چلا گیا اور گفتگو کا موضوع ذاتی معلومات تک آگیا۔ ہمارا وار کاگر ثابت ہوا۔ وینا جلد ہی ہمارے کیس آفیسر کو تم تم کہنے کی حد تک آگئی ۔ وہ باتوں میں اس قدر محو ہوگئی۔جاری ہے ۔
کہ اسے سفارتخانے فون کرنا بھی یاد نہ رہا۔ ادھر کھنہ اور اس کے افسران بالا یقینی طورپر اس بات پر جام مسرت پی رہے ہوں گے کہ بالآخر انہوں نے پاکستان اٹامک انرجی کمیشن سے ایک بڑی مچھلی کو اپنے جال میں پھنسالیا تھا۔ آہستہ آہستہ ہمارے آفیسر کا لہجہ تبدیل ہوگیا اور اس کی گفتگو معنی خیز ہوتی گئی ۔ جب وینا کو احساس ہوا کہ ہوٹل کے اس آفیسر کو وینا کی اس کمرے میں آمد اور اس کے مقاصد سے پوری طرح آگاہی ہے تو وینا کی صورت ایک ایسے مجبور، بے کس اور بھوکے بچے کی سی ہوگئی جسے بیکری سے ڈبل روٹی چوری کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑلیا گیا ہو۔ اس کی آنکھیں بھر آئیں اور اس کی آواز کسی گہرے کنویں سے آتی ہوئی محسوس ہونے لگی۔ وینا نے اپنی داستان حیات سنانا شروع کردی۔ ”میں اپنے والدین کی اکلوتی اولاد ہوں۔ میرے والدین نے میری پرورش اپنی انتہائی غربت اور کسمپرسی کے باوجود بڑے ناز و نعم سے کی ۔ میں نے دوہی سال پہلے گریجویشن کی ہے ۔ جہیز کی لعنت سے تو آپ اچھی طرح آگاہ ہیں۔ میرے خیال میں پاکستان میں بھی یہ لعنت ابھی تک موجود ہے جس کی وجہ سے ہزاروں لڑکیاں اپنی بالوں میں چاندی کے تاروں کا اضافہ کئے ماں باپ کی دہلیز پر بیٹھی ہیں، بھارت میں بھی بہت سی لڑکیاں معاشرے کی اس دلدل میں پھنسے ہوئی ہیں۔ میرا خیال تھا کہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد ٹیچر بنوں گی مگر کوشش کے باوجود مجھے نوکری نہ مل سکی۔ پھر ایک روز میری ایک دوست کے خاوند نے مجھے اپنے ایک دوست سے یہ کہہ کر متعارف کروایا کہ یہ ایک اعلیٰ سرکاری افسر ہیں اور تمہارے لئے ملازمت کا بندوبست کرسکتے ہیں ، بعد میں مجھے علم ہوا کہ ان کا تعلق بھارتی انٹیلی جنس سے ہے ، انہوں نے میرا سرسری سا انٹرویو لیا اور مجھے بتایا کہ میں تمہارے لئے نوکری کا انتظام کرسکتا ہوں ، مگر یہ نوکری بھارت میں نہیں پاکستان میں بھارتی ایمبیسی اسکول میں ہوگی۔ یہ الفاط میرے لئے انتہائی خوش کن تھے۔ میرے لئے کسی دوسرے ملک میں جانے کا تصور ہی انتہائی دلکش تھا۔انہوں نے مجھ سے کہا کہ نوکری کا بندوبست تو ہوگیا ہے مگر پاکستان چونکہ ہمارا دشمن ملک ہے اس لئے تجھے چند ماہ کے لئے سیکورٹی ٹریننگ پر جانا پڑے گا۔ ۔جاری ہے ۔
میں اس کے لئے بھی تیار ہوگئی۔ دراصل مجھے خوشی اس بات کی تھی کہ مجھے بیرون ملک ملازمت مل رہی تھی اور اس کے ساتھ ہی ساتھ مجھے ایک ایسی سرزمین دیکھنے کا موقع بھی مل رہا تھا جس کے بارے میں میں نے بہت کچھ سن رکھا تھا۔ چند روز بعد ایک شخص ہمارے گھر آیا۔ اس نے مجھے تقرری کا خط دیا اور کہا کہ اگلے روز تجھے سیکورٹی ٹریننگ اسکول لے جانے کے لئے میں خود آؤں گا۔ وہ حسب وعدہ اگلے روز پھر آیا میں اپنے والد سے رخصت ہوکر اس کے ساتھ گاڑی میں سوار ہوگئی۔ ایک طویل سفر کے بعد ہم اپنی منزل پر پہنچے ۔ یہ ایک پراسرار عمارت تھی اور دیکھنے میں سکول یا تربیت گاہ ہرگز دکھائی نہیں دیتی تھی۔ میرے علاوہ وہاں چار اور لڑکیاں بھی موجود تھیں۔ جب کورس شروع ہوا تو معلوم ہوا کہ اس میں کسی ٹیچر کی نہیں بلکہ جنگ کی تربیت دی جارہی ہے۔ چند ہی دنوں میں پتہ چل گیا کہ اصل میں ہم ٹیچر نہیں بلکہ جاسوس بناکر بھیجی جارہی ہیں۔ہمارے تربیتی سلیبس میں جسمانی ورزش ، ہتھیاروں کے استعمال کا طریقہ اور ایسے لیکچر شامل تھے جن کا مقصد پاکستان کے خلاف شدیدی نفرت پیدا کرنا تھا۔ علاوہ ازیں اپنے ”شکار” کو ذہنی طورپر اپنا تابع بنانا اور خفیہ راز معلوم کرنا بھی ہماری تربیت کا اہم حصہ تھا۔ ہمیں بلیو فلمیں دکھاکر بھی بتایا جاتا کہ کسی بھی مضبوط سے مضبوط اعصاب کے مرد کو کس طرح اپنا اسیر بنایا جاسکتا ہے ۔ ہمیں جنسی اختلاط کے مختلف طریقے بھی بتائے جاتے تاکہ ہماری کارکردگی میں کوئی کسر نہ رہ جائے۔ درحقیقت ہمیں باعزت طور سے جسم فروشی کی تربیت دی گئی اور ہمیں بتایا گیا کہ ایک کامیاب جاسوس بننے کے لئے اپنی جسمانی خوبصورتی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا ہی اصل ہنر ہے۔ ہم میں سے کسی کو بھی اس تربیت سے اتفاق نہیں تھا مگر اب ہمارے پاس واپسی کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ ہم پوری طرح اپنے محسنوں کے جال میں پھنس چکی تھیں ۔ میں جانتی ہوں کہ پاکستان میں جو کچھ بھی کر رہی ہوں اخلاقیات کے مروجہ ضوابط کے خلاف ہے اور کوئی بھی باضمیر انسان اس دلدل میں کودنے کی جرات نہیں کرسکتا مگرمیں یہ بھی جانتی ہوں کہ اب میرا اپنا وجود ، میرے والدین ، میرا گھر، میرا ضمیر، میری خواہشیں، میرے مستقبل کے سہانے خواب ، سب کچھ داؤ پر لگ چکا ہے ۔ اب اگر میں چاہوں بھی تو ان کے چنگل سے نکل نہین سکتی ۔جاری ہے ۔
فہد مصطفی نئی فلم ’’لوڈ ویڈنگ‘‘میں کاسٹ
اور جب تک میرے جسم میں ذراسی بھی کشش باقی رہے گی یہ لوگ مجھے استعمال کرتے رہیں گے”۔ وینا ویسے بات کر رہی تھی جیسے دور ویرانوں میں بھٹک رہی ہو اور اسے کوئی راستہ نہ سوجھ رہا ہو۔ اپنی کہانی سناتے سناتے اس نے کہا : ”حد تو یہ ہے کہ اس تربیت کے دوران ہمارے انسٹرکٹر بھی ہمارے جسموں کو اپنی مکروہ خواہشات کی تکمیل کے لئے روندتے رہے اور ہماری تربیت مکمل ہونے تک ہماری عصمت کی چادریں بار بار تار تار ہوتی رہیں۔ تربیت کا یہ حصہ رات کے کھانے کے بعد شروع ہوتا تھا۔ ہمیں باری باری مختلف مردوں کے ساتھ جنسی اختلاط پر مجبورکیا جاتا۔ ہمیں عملی طورپر مرد کی حیوانی جبلت پوری کرنے کا سلیقہ سکھایا جاتا۔ شروع میں تو ہر عمل ہمارے لئے ایک مستقل عذاب کی مانند تھا اور ہم نے اس پر کئی بار احتجاج بھی کیا،۔جاری ہے ۔
لیکن ان کا کہنا تھا کہ تمہارے لئے یہ تربیت انتہائی ضروری ہے اور تمہیں ملک و قوم کے عظیم تر مفاد کے لئے سب کچھ قربان کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہنا چاہئے۔ وینا کی کہانی سن کر بہت دکھ ہوا۔ ہم نے بڑی مہارت سے وینا کی ٹوٹی پھوٹی شخصیت کو بحال کیا اور اسے وہ تمام عزت اور غیرت مہیا کی جو وہ کھوچکی تھی۔وینا نے جب ہمارے حسن سلوک کا اپنے ہندو قاؤں کے کردار سے موازنہ کیا تو اس کے لئے یہ فیصلہ کرنا مشکل نہ رہا کہ اسے اپنے نام نہاد وطن پرست دوستوں کے بجائے اپنے دشمنوں کا ساتھ دینا چاہیے۔ نفسیاتی طور پر ہم نے اس بھارتی ماتا ہری کے کچلے ہوئے ضمیر میں زندگی کی نئی روح پھونک دی ۔ ہم نے اسے پیسے دیئے ۔ بھارت میں اس کے والدین کی دیکھ بھال کا ذمہ بھی لیا، اسے عزت نفس دی اور جسمانی اور روحانی پاکیزگی کے سبق دیئے ۔ چنانچہ وینا دل و جان سے پاکستان کی ہوگئی۔ ڈبل ایجنٹ کی حیثیت سے وینا نے ہمارے لئے قابل قدر خدمات انجام دیں۔ اس نے ہمارے بعض منصوبوں کی تکمیل میں ہمارا بھرپور ہاتھ بٹایا اور انتھک محنت کی۔ وینا کی وجہ سے ہمیں ہر وقت بھارتی سفارتخانے میں ہونے والے واقعات، حالات، ان کےخفیہ ایجنٹوں، ان کے طریقہ کار اور اہداف کی خبر رہنے لگی۔ ۔جاری ہے ۔
شوبز: انوشکا ویرات کی دہلی میں شادی کے بعد خصوصی تقریب، بھارتی وزیرِ اعظم سمیت نامور شخصیات کی شرکت
ان اطلاعات کی بناء پر ہم نے ان کے بہت سے ایسے منصوبوں کو خاک میں ملادیا جن کی تفصیل یہاں بیان نہیں کی جاسکتی۔وینا کو جب پاکستان سے وطن واپسی کے احکامات موصول ہوئے تو وہ بے حد افسردہ اور غمگین تھی۔ وہ ہمیشہ کے لئے پاکستان مین رہنے، یہاں شادی کرنے اور اسلام قبول کرنے کو تیار تھی، مگر ہم اس کے لئے کوئی مناسب ”شوہر” تلاش نہ کرسکے۔ وہ دل پر بھاری پتھر رکھے پاکستان سے روانہ ہوگئی۔ بہر حال پاکستان سے جانے سے پہلے وہ ایک مکمل انسان ہی نہیں بلکہ عزت و وقار کے زیور سے راستہ اور مالی طور پر اتنی خوشحال ہوچکی تھی کہ ہمیں یقین ہے اس نے بھارت پہنچتے ہی اپنے آپ کو ”را” سے جدا کرلیا ہوگا اور اب کہیں با عزت زندگی بسر کر رہی ہوگی۔
The post کیسے سولہ سال کی لڑکیوں کو پاکستان میں را کی ایجینٹ بنا کر نوجوان کے ساتھ غلط کام کرواکر ملکی راز لئے جاتے ہیں بڑا انکشاف appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain http://ift.tt/2qmsSsD via Urdu News
0 notes