Tumgik
#کیا واقعی
googlynewstv · 18 hours
Text
کیا واقعی بلوچستان میں ریاستی رٹ ختم ہوچکی ہے؟
بلوچستان میں قومی پرست عسکریت پسند تنظیموں کی جانب سے دہشت گردی میں خوفناک حد تک اضافے کے بعد اب یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں ریاست کی رٹ واقعی ختم ہو چکی ہے۔ اس سوال میں شدت تب آئی جب جنرل مشرف کے حکم پر ایک فوجی دستے کے ہاتھوں شہید ہونے والے بلوچ قومی پرست نواب اکبر بگٹی کی 18ویں برسی پر بلوچستان کے 11 اضلاع میں ایک ہی دن دہشت گردی کے درجنوں بھر سے ذیادہ واقعات…
0 notes
forgottengenius · 8 months
Text
کمپیوٹر نے ملازمتیں ختم کر دیں تو لوگ کیا کریں گے؟
Tumblr media
ہم مستقبل سے صرف پانچ سال دور ہیں۔ تقریباً ایک صدی قبل ماہر معیشت جان مینارڈ کینز نے کہا تھا کہ ہم 2028 تک اپنی ایسی دنیا میں رہ رہے ہوں گے جہاں سہولتیں کثرت سے ہوں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ دنیا ٹیکنالوجی پر چلے گی۔ ہم دن میں تین گھنٹے کام کریں گے اور زیادہ تر کام محض اپنے آپ کو مصروف رکھنے کے لیے ہو گا۔ 1928 میں شائع ہونے والے اپنے ’مضمون ہمارے پوتے پوتیوں کے لیے معاشی امکانات‘ میں کینز نے پیش گوئی کی کہ ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی اپنے ساتھ ایسی صلاحیت لائے گی کہ کام کرنے کے ہفتے میں تبدیلی آئے گی۔ کوئی بھی اس بات سے انکار نہیں کرے گا کہ جس ٹیکنالوجی کی کینز نے پیشگوئی کی تھی وہ آج موجود ہے۔ لیکن کام کرنے کا ہفتہ اتنا زیادہ تبدیل نہیں ہوا۔ وہ مستقبل جس کا پانچ سال میں وعدہ کیا گیا تھا واقعی بہت دور محسوس ہوتا ہے۔ رواں ہفتے ایلون مسک نے جدید دور میں ماہرِ معاشیات کینز کا کردار ادا کیا جب انہوں نے برطانیہ کے مصنوعی ذہانت کے سرکردہ رہنماؤں کے اجلاس کے اختتام پر برطانوی وزیر اعظم رشی سونک سے کہا کہ ہم نہ صرف ملازمت میں کیے جانے والے کام میں کمی کرنے جا رہے ہیں بلکہ اس سے مکمل طور پر چھٹکارا حاصل کریں گے۔
جب وزیر اعظم نے مسک سے پوچھا کہ ان کے خیال میں مصنوعی ذہانت لیبر مارکیٹ کے لیے کیا کرے گی تو انہوں نے ایک ایسی تصویر پیش کی جو خوش کن یا مایوس کن ہو سکتی ہے جس کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ اسے کس طرح دیکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مصنوعی ذہانت ’تاریخ میں سب سے زیادہ خلل ڈالنے والی قوت‘ ہے۔ ’ہمارے پاس پہلی بار کوئی ایسی چیز ہو گی جو ذہین ترین انسان سے زیادہ سمجھدار ہو گی۔‘ اگرچہ ان کا کہنا تھا کہ پیش گوئی کرنا مشکل ہے لیکن انہوں نے کہا کہ ’ایک وقت آئے گا جب کسی نوکری کی ضرورت نہیں رہے گی‘۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ کام کرنے کی واحد وجہ ’ذاتی اطمینان‘ ہو گی، کیوں کہ ’مصنوعی ذہانت سب کچھ کرنے کے قابل ہو گی۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے نہیں معلوم کہ اس سے لوگوں کو آرام ملتا ہے یا بےآرامی۔‘ ’یہ اچھا اور برا دونوں ہے۔ مستقبل میں چیلنجوں میں سے ایک یہ ہو گا کہ اگر آپ کے پاس ایک جن ہے جو آپ کے لیے وہ سب کچھ کر سکتا ہے جو آپ چاہتے ہیں تو اس صورت میں آپ اپنی زندگی میں معنی کیسے تلاش کریں گے؟‘ سونک اپنی جگہ اس صورت حال کے بارے میں یقینی طور پر بےچین لگ رہے تھے۔ 
Tumblr media
ان کا کہنا تھا کہ کام کرنے سے لوگوں کو معنی ملتے ہیں۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ مصنوعی ذہانت کام کی دنیا کو مکمل طور پر ختم کرنے کے بجائے اسے بہتر بنائے گی۔ دنیا ان دو آدمیوں کے درمیان ایک چوراہے پر کھڑی ہے اور یہ جاننا مشکل ہے کہ کس طرف جانا ہے۔ سوال کا ایک حصہ ٹیکنالوجی کے بارے میں ہے۔ اس کا کتنا حصہ انسانوں کے لیے قدرتی ہے اور کیا مشینیں آخر کار ہماری دنیا کے ہر حصے پر قبضہ کرنے کے قابل ہوں گی؟ لیکن ایک بہت گہرا اور زیادہ اہم سوال بالکل تکنیکی نہیں ہے یعنی ہم یہاں کس لیے ہیں اور ہم اپنی زندگیوں کے ساتھ کیا کرنا چاہتے ہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو ہم حال ہی میں اپنے آپ سے پوچھنے کے عادی ہو گئے ہیں۔ وبائی مرض نے کام کے مستقبل کے بارے میں ہر طرح کی سوچ کو جنم دیا اور یہ کہ لوگ کس طرح جینا چاہتے تھے اور کچھ نے اسے گہری اور دیرپا طریقوں سے اپنی زندگیوں کو تبدیل کرنے کے مواقع کے طور پر استعمال کیا۔ لیکن اس سوال کی نئی اور گہری شکل مصنوعی ذہانت کے ساتھ آ رہی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ہمیں طویل عرصے تک اس سوال کا جواب نہ دینا پڑے۔ 
مصنوعی ذہانت کی موجودہ رفتار اور جس جنون کے ساتھ اس پر بات کی جا رہی ہے، اس سے یہ سوچنا آسان ہو سکتا ہے کہ روبوٹ صرف چند لمحوں کے فاصلے پر انتظار کر رہے ہیں۔ وہ ہماری نوکریاں (اور شاید ہماری زندگیاں) لینے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن زیادہ تر ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بات کو قدرے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا اور کم از کم بہت سی صنعتیں طویل عرصے تک محفوظ رہ سکتی ہیں۔ تاہم ہمیں ابھی سے اس کے بارے میں سوچنا شروع کرنا چاہیے کیوں ابھی نوبت یہاں تک نہیں پہنچی۔ ہمارے پاس تیاری کا موقع ہے کہ ہم ان ٹیکنالوجیوں کو کس طرح اپناتے ہیں۔ وہ انداز جو ہم نے پہلے کبھی نہیں اپنایا۔ مصنوعی ذہانت کے بارے میں زیادہ تر بحث خیالی باتوں اور سائنس فکشن کی طرف مائل ہوتی ہے۔ اس پر ہونے والی بحثیں اکثر پالیسی مباحثوں کی بجائے زیادہ تر مستقبل کی ٹرمینیٹر فلموں کے لیے کہانیاں تجویز کرنے والے لوگوں کی طرح لگ سکتی ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ ہم اس تجریدی بحث کو حقیقی ٹھوس سوچ کے ساتھ ملا دیں کہ ہم دنیا کو کس طرح دیکھنا چاہتے ہیں۔ کام، معلومات اور اس کے علاوہ بھی بہت کچھ کیسا دکھائی دینا چاہیے۔
لیکن اس کا جواب دینے کا مطلب مقصد، معنی اور ہم یہاں کیوں ہیں کے بارے میں مزید فلسفیانہ بحث کرنا ہوسکتا ہے۔ یہ وہ سوالات ہیں جن سے انسانی ذہانت ہزاروں سال سے نبرد آزما ہے لیکن مصنوعی ذہانت انہیں ایک نئی اور زیادہ فوری اہمیت دینے والی ہے۔ فی الحال بحثیں گھبراہٹ اور اضطراب کے ساتھ ہو رہی ہیں۔ سونک یقینی طور پر اکیلے نہیں ہیں جو آٹومیشن کے بارے میں مایوس کن نقطہ نظر کے بارے میں پریشان ہیں اور اس سے کتنی ملازمتیں ختم ہو جائیں گی۔ یہ ایک اور وجہ ہے کہ ہمیں اس بات پر تبادلہ خیال کرنا چاہیے کہ وہ خودکار مستقبل کیسا نظر آ سکتا ہے۔ کیوں کہ اسے کم خوفناک بنانے کا موقع موجود ہے۔ یہ یقینی طور پر مشینوں اور مصنوعی ذہانت کے نظام کے بارے میں گھبراہٹ کا سب سے بڑا حصہ جس کے بارے میں بات نہیں کی گئی ہے۔ یہ وہ روبوٹ نہیں ہیں جن سے ہم ڈرتے ہیں۔ یہ انسان ہیں۔ مصنوعی ذہانت کے حوالے سے پریشان کن صورت حال کے بارے میں تمام گھبراہٹ کی بنیاد یہ ہے کہ ملازمتوں کے خودکار ہونے کا کوئی بھی فائدہ ان انسانی کارکنوں کو نہیں جائے گا جو پہلے یہ ملازمت کرتے تھے۔
یہ اضطراب ہر جگہ موجود ہے اور رشی سونک نے ایلون مسک کے ساتھ اپنی گفتگو کے دوران نشاندہی کی کہ جب وہ دنیا میں لوگوں سے ملتے ہیں تو انہیں ذہانت یا کمپیوٹنگ کی حدود کے بڑے سوالات میں دلچسپی نہیں ہوتی بلکہ ملازمتوں میں دلچسپی ہوتی ہے۔ اگر لوگوں کو لگتا ہے کہ وہ آٹومیشن کے عمل کا حصہ ہیں اور وہ اس سے کچھ حاصل کریں گے تو دنیا کم پریشان کن جگہ ہو گی۔ یہ مقصد مختلف طریقوں سے حاصل کیا جاسکتا ہے لیکن یہ سب اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ہے کہ لوگ آٹومیشن کے ذریعہ پیدا ہونے والی پیداواری صلاحیت اور کارکردگی سے فائدہ اٹھا سکیں۔ اس سوال پر دنیا کا ملا جلا ٹریک ریکارڈ ہے۔ تکنیکی تبدیلی نے ہمیشہ لیبر مارکیٹ میں خرابی پیدا کی لیکن اس کے اثرات مختلف ہیں۔ اکثر وہ لوگ جو تاریخ میں مشینوں کی وجہ سے فالتو ہو گئے اور ان نئی ملازمتوں کی طرف چلے گئے جن عام طور پر خطرہ اور مشقت کم ہے۔ اگر ماضی میں لوگوں نے روبوٹس اور کمپیوٹرز والی ہماری دنیا کو دیکھا ہو تو وہ سوچیں گے کہ یہ ان کے پاس موجود خطرناک اور تھکا دینے والی ملازمتوں کے مقابلے میں ایک کامل اور مثالی جگہ ہے۔ ہمیں ان فوائد کو صرف وجہ سے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ اس وقت ہم انہیں معمولی سمجھتے ہیں۔
لیکن ہمارے پاس ہمیشہ وہ یوٹوپیا نہیں رہا جس کا وعدہ ماضی کے ان لوگوں نے ہم سے کیا تھا۔ جب 1928 میں کینز نے وعدہ کیا تھا کہ دنیا میں دن میں چند گھنٹے کام ہو گا تو اس میں امید کم اور پیشگوئی زیادہ تھی۔ مالی بحران کے وقت بھی انہوں نے ’بجلی، پیٹرول، فولاد، ربڑ، کپاس، کیمیائی صنعتوں، خودکار مشینوں اور بڑے پیمانے پر پیداوار کے طریقوں‘ جیسے وسیع پیمانے پر کام کرنے والی ٹیکنالوجیز کی طرف اشارہ کیا جو آج مصنوعی ذہانت کے فوائد کی بات کرنے والوں کی یاد دلاتا ہے۔ اس کا کوئی اچھا جواب نہیں ہے کہ ہمیں فراوانی اور آرام کی وہ دنیا کیوں نہیں ملی جس کا انہوں نے وعدہ کیا۔ اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ کینز نے پیش گوئی کی تھی کہ لوگ فرصت میں زیادہ وقت گزارنے کے لیے اضافی وسائل کا استعمال کریں گے۔ تاہم جو ہوا ہے وہ یہ ہے کہ ہم نے وسائل کو مزید چیزوں پر صرف کیا ہے۔ بڑے حصے کے طور پر ٹیکنالوجی کی معاشی ترقی صرف فون جیسی زیادہ ٹیکنالوجی خریدنے میں استعمال کی گئی۔ لیکن ایک اور وجہ بھی ہے کہ ہم نے اپنی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لیے ٹیکنالوجی کے فوائد کو استعمال کرنے کے بارے میں کبھی سنجیدہ بحث نہیں کی۔ کسی نے بھی دنیا سے یہ نہیں پوچھا کہ ہمیں ٹیکنالوجی کی کارکردگی کے ساتھ کیا کرنا چاہیے اور یہی وجہ ہے کہ ہم آج اس صورت کا سامنا کر رہے ہیں۔
اگرچہ انہوں نے فراوانی والی دنیا اور وقت کی فراوانی کی پیشگوئی کہ کینز نے رشی سونک سے مکمل طور پر اختلاف نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ ’خوف کے بغیر تفریح اور فراوانی کے دور کا انتظار‘ ناممکن ہے۔ اور یہ کہ ’ہمیں بہت طویل عرصے تک تربیت دی گئی ہے کہ ہم مشقت کریں اور لطف اندوز نہ ہوں۔‘ لوگوں کو فکر ہے کہ کام کے ذریعے دنیا سے جڑے بغیر ان کے پاس کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہوگا۔ کوئی خاص صلاحیت نہیں ہو گی۔ کوئی دلچسپی نہیں ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ آپ کو یہ جاننے کے لیے کہ زندگی گزارنا مشکل ہو سکتا ہے، صرف امیر لوگوں کو دیکھنا پڑے گا۔ لیکن لوگ اپنے آپ کو مطمئن رکھنے کے لیے دن میں تین گھنٹے کام کر سکتے ہیں۔ زیادہ تر کام اس لیے کیا جائے گا کہ ہمیں کچھ ن�� کچھ کرنا ہے۔ ہم تنخواہ کی بجائے بنیادی طور پر کسی مقصد کے تحت کام کر رہے ہوں گے۔ لوگ اس مقصد کو کیسے تلاش کرتے ہیں؟ لوگ کا کیا مقصد ہے؟ ہم اپنا ’ایکی گائے‘ (جاپانی زبان کا لفظ جس مطلب مقصد حیات ہے) کیسے تلاش کرتے ہیں؟ مقصد زندگی کو گزارنے کے قابل بناتا ہے۔ سو سال پہلے جب کینز نے ہم سے پوچھا تو ہمارے پاس اچھا جواب نہیں تھا۔ اور نہ ہی ہزاروں سال پہلے اسی جیسے سوال کا جواب تھا جب افلاطون نے پوچھا۔ لیکن لیکن اب جدید ترین ٹیکنالوجی کی مدد سے ہمیں اس قدیم سوال کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
اینڈریو گرفن  
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
38 notes · View notes
0rdinarythoughts · 1 year
Text
ان دو لوگوں کا جدا رہنا واقعی کٹھن ہے جنہوں نے ایک دوسرے کو گلے لگا کر چاہتوں کا لمس محسوس کیا ہو۔
It is really difficult for these two people to be separated who have felt the touch of love by embracing each other.
19 notes · View notes
hassanriyazzsblog · 3 months
Text
🌹🌹 𝗣𝗔𝗧𝗜𝗘𝗡𝗖𝗘 𝗔𝗡𝗗 𝗔𝗩𝗢𝗜𝗗𝗔𝗡𝗖𝗘:
♦️ *_"A journey towards excellence"_* ♦️
✨ *Set your standard in the realm of*
*love !*
*(اپنا مقام پیدا کر...)*
؏ *تم جو نہ اٹھے تو کروٹ نہ لے گی سحر.....*
🔹 *100 PRINCIPLES FOR PURPOSEFUL*
*LIVING* 🔹
8️⃣7️⃣ *of* 1️⃣0️⃣0️⃣
*(اردو اور انگریزی)*
💠 𝗣𝗔𝗧𝗜𝗘𝗡𝗖𝗘 𝗔𝗡𝗗 𝗔𝗩𝗢𝗜𝗗𝗔𝗡𝗖𝗘:
● 𝗣𝗮𝘁𝗶𝗲𝗻𝗰𝗲 𝗶𝘀 𝗼𝗻𝗲 𝗼𝗳 𝘁𝗵𝗲 𝘁𝗲𝗮𝗰𝗵𝗶𝗻𝗴𝘀 𝗼𝗳 𝗜𝘀𝗹𝗮𝗺.
🔹 𝗧𝗵𝗲 𝗤𝘂𝗿𝗮𝗻 𝗿𝗲𝗽𝗲𝗮𝘁𝗲𝗱𝗹𝘆 𝗲𝗺𝗽𝗵𝗮𝘀𝗶𝘇𝗲𝘀 𝗽𝗮𝘁𝗶𝗲𝗻𝗰𝗲, 𝗮𝗻𝗱 𝗶𝘁 𝗳𝘂𝗿𝘁𝗵𝗲𝗿 𝘀𝗮𝘆𝘀, "𝗔𝗻𝗱 𝗳𝗼𝗿 𝘁𝗵𝗲 𝘀𝗮𝗸𝗲 𝗼𝗳 𝘆𝗼𝘂𝗿 𝗟𝗼𝗿𝗱, 𝗯𝗲 𝗽𝗮𝘁𝗶𝗲𝗻𝘁."
(𝗤𝘂𝗿❜𝗮𝗻𝟳𝟰:𝟳)
🔹 𝗜𝘁 𝗮𝗹𝘀𝗼 𝘀𝗮𝘆𝘀, "𝗘𝗻𝗱𝘂𝗿𝗲 𝘄𝗶𝘁𝗵 𝗽𝗮𝘁𝗶𝗲𝗻𝗰𝗲; 𝘁𝗿𝘂𝗹𝘆, 𝘆𝗼𝘂𝗿 𝗽𝗮𝘁𝗶𝗲𝗻𝗰𝗲 𝗶𝘀 𝗽𝗼𝘀𝘀𝗶𝗯𝗹𝗲 𝗼𝗻𝗹𝘆 𝘄𝗶𝘁𝗵 𝘁𝗵𝗲 𝗵𝗲𝗹𝗽 𝗼𝗳 𝗚𝗼𝗱."
(𝗤𝘂𝗿❜𝗮𝗻 𝟭𝟲:𝟭𝟮𝟳)
● 𝗪𝗵𝗲𝗻 𝗮 𝗺𝗮𝗻 𝗶𝘀 𝗽𝗮𝘁𝗶𝗲𝗻𝘁 𝗵𝗶𝘀 𝗽𝗮𝘁𝗶𝗲𝗻𝗰𝗲 𝗶𝘀 𝗰𝗼𝗻𝗰𝗲𝗿𝗻𝗶𝗻𝗴 𝗼𝘁𝗵𝗲𝗿 𝗵𝘂𝗺𝗮𝗻 𝗯𝗲𝗶𝗻𝗴𝘀, 𝗯𝘂𝘁 𝗶𝗻 𝗿𝗲𝗮𝗹𝗶𝘁𝘆, 𝗶𝘁 𝗶𝘀 𝘀𝘆𝗻𝗼𝗻𝘆𝗺𝗼𝘂𝘀 𝘄𝗶𝘁𝗵 𝗰𝗼𝗻𝗳𝗼𝗿𝗺𝗶𝗻𝗴 𝘁𝗼 𝗚𝗼𝗱’𝘀 𝗰𝗿𝗲𝗮𝘁𝗶𝗼𝗻 𝗽𝗹𝗮𝗻.
● 𝗚𝗼𝗱 𝗵𝗮𝘀 𝗰𝗿𝗲𝗮𝘁𝗲𝗱 𝘁𝗵𝗲 𝘀𝘆𝘀𝘁𝗲𝗺 𝗼𝗳 𝘁𝗵𝗲 𝘄𝗼𝗿𝗹𝗱 𝗶𝗻 𝘀𝘂𝗰𝗵 𝗮 𝘄𝗮𝘆 𝘁𝗵𝗮𝘁 𝗲𝘃𝗲𝗿𝘆𝗼𝗻𝗲 𝗵𝗮𝘀 𝗯𝗲𝗲𝗻 𝗴𝗿𝗮𝗻𝘁𝗲𝗱 𝗳𝗿𝗲𝗲𝗱𝗼𝗺.
● 𝗘𝘃𝗲𝗿𝘆𝗼𝗻𝗲 𝗵𝗮𝘀 𝗮𝗻 𝗼𝗽𝗲𝗻 𝗲𝗻𝘃𝗶𝗿𝗼𝗻𝗺𝗲𝗻𝘁 𝗼𝗳 𝗰𝗼𝗺𝗽𝗲𝘁𝗶𝘁𝗶𝗼𝗻.
● 𝗖𝗼𝗻𝘀𝗲𝗾𝘂𝗲𝗻𝘁𝗹𝘆, 𝗰𝗼𝗺𝗽𝗹𝗮𝗶𝗻𝘁𝘀 𝗮𝗿𝗲 𝗺𝗮𝗱𝗲 𝗮𝗴𝗮𝗶𝗻𝘀𝘁 𝗲𝗮𝗰𝗵 𝗼𝘁𝗵𝗲𝗿; 𝗼𝗻𝗲 𝗽𝗲𝗿𝘀𝗼𝗻 𝗲𝘅𝗽𝗲𝗿𝗶𝗲𝗻𝗰𝗲𝘀 𝗹𝗼𝘀𝘀 𝗳𝗿𝗼𝗺 𝘁𝗵𝗲 𝗼𝘁𝗵𝗲𝗿.
● 𝗧𝗼 𝗲𝗻𝗱𝘂𝗿𝗲 𝗮𝗻 𝘂𝗻𝗽𝗹𝗲𝗮𝘀𝗮𝗻𝘁 𝗲𝘅𝗽𝗲𝗿𝗶𝗲𝗻𝗰𝗲 𝗶𝗻 𝘀𝘂𝗰𝗵 𝗮 𝘀𝗶𝘁𝘂𝗮𝘁𝗶𝗼𝗻 𝗶𝘀 𝘁𝗼 𝗯𝗲 𝗰𝗼𝗻𝘁𝗲𝗻𝘁 𝘄𝗶𝘁𝗵 𝗚𝗼𝗱’𝘀 𝗰𝗿𝗲𝗮𝘁𝗶𝗼𝗻 𝗽𝗹𝗮𝗻.
● 𝗕𝗲𝗰𝗮𝘂𝘀𝗲 𝗼𝗳 𝘁𝗵𝗲 𝗶𝗺𝗽𝗼𝗿𝘁𝗮𝗻𝗰𝗲 𝗼𝗳 𝗽𝗮𝘁𝗶𝗲𝗻𝗰𝗲, 𝗚𝗼𝗱 𝗵𝗮𝘀 𝗱𝗲𝘀𝗰𝗿𝗶𝗯𝗲𝗱 𝗶𝘁 𝘁𝗵𝘂𝘀:
🔹 "𝗔𝗻𝗱 𝗳𝗼𝗿 𝘁𝗵𝗲 𝘀𝗮𝗸𝗲 𝗼𝗳 𝘆𝗼𝘂𝗿 𝗟𝗼𝗿𝗱, 𝗯𝗲 𝗽𝗮𝘁𝗶𝗲𝗻𝘁."(𝟳𝟰:𝟳)
🔹 𝗧𝗵𝗲 𝗤𝘂𝗿𝗮𝗻 𝗱𝗲𝗰𝗹𝗮𝗿𝗲𝘀 𝘁𝗵𝗮𝘁 𝘁𝗵𝗲 𝗽𝗮𝘁𝗶𝗲𝗻𝘁 𝗼𝗻𝗲 𝘄𝗶𝗹𝗹 𝗯𝗲
𝗿𝗲𝘄𝗮𝗿𝗱𝗲𝗱 𝗯𝗲𝘆𝗼𝗻𝗱 𝗺𝗲𝗮𝘀𝘂𝗿𝗲. (𝟯𝟵:𝟭𝟬)
🌹🌹 _*And Our ( Apni ) Journey*_
*_Continues_ ...* *________________________________________*
*؏* *منزل سے آگے بڑھ کر منزل تلاش کر*
*مل جائے تجھکو دریا تو سمندر تلاش کر*
💠 صبر اور درگزر:
● صبر اسلام کی تعلیمات میں سے ایک ہے۔
🔹 قرآن بار بار صبر کی تاکید کرتا ہے، اور مزید کہتا ہے، ’’اور اپنے رب کے لیے صبر کرو۔‘‘ (قرآن 74:7)
🔹 یہ بھی کہتا ہے، ''صبر کے ساتھ برداشت کرو۔ واقعی تمہارا صبر خدا کی مدد سے ہی ممکن ہے۔‘‘ (قرآن 16:127)
● جب ایک آدمی صبر کرتا ہے تو اس کا صبر دوسرے انسانوں کے بارے میں ہوتا ہے، لیکن حقیقت میں، یہ خدا کے تخلیقی منصوبے کے مطابق ہونے کا مترادف ہے۔
● اللہ تعالیٰ نے دنیا کا نظام اس طرح بنایا ہے کہ ہر ایک کو آزادی دی گئی ہے۔
● ہر ایک کے پاس مقابلے کا کھلا ماحول ہے۔
● نتیجتاً ایک دوسرے کے خلاف شکایتیں کی جاتی ہیں۔ ایک شخص دوسرے سے نقصان کا تجربہ کرتا ہے۔
● ایسی صورت حال میں کسی ناخوشگوار تجربے کو برداشت کرنا خدا کے تخلیقی منصوبے پر قناعت کرنا ہے۔
● صبر کی اہمیت کی وجہ سے خدا نے اسے اس طرح بیان کیا ہے:
🔹 ’’اور اپنے رب کے لیے صبر کرو۔‘‘ (74:7)
🔹 قرآن اعلان کرتا ہے کہ صبر کرنے والے کو حد سے زیادہ انعام دیا جائے گا۔ (39:10)
〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️
*بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم*
💠 نظامِ زندگی میں صبر واستقامت کی اہمیت:
● زندگی میں بیشتر ایسے واقعات پیش آتے ہیں، جن میں انسان جذبات سے مغلوب ہوجاتا ہے اور غیظ و غضب سے رگیں پھڑکنے لگتی ہیں۔
● دل چاہتا ہے کہ فوری طورپر انتقامی کارروائی کی جائے، جیسا بھی ہوسکے سامنے والے کو اپنی برتری اور طاقت کا ایسا کرشمہ دکھایا جائے کہ دشمن طاقتیں ہمیشہ کے لیے زیر ہوجائیں۔
● ممکن ہے اس سے ذہنی و قلبی سکون ملے اور مختلف خطرات سے نجات بھی؛
● مگر اسلام نے جذبات میں آکر کسی فیصلہ کی اجازت نہیں دی ہے۔
● تمام ایسے مواقع پر جہاں انسان عام طورپر بے قابو ہوجاتا ہے، شریعت نے اپنے آپ کو قابو میں رکھنے ، عقل وہوش سے کام کرنے اور واقعات سے الگ ہوکر واقعات کے بارے میں سوچنے اور غور وفکر کرنے کی دعوت دی ہے، جس کو قرآن کی اصطلاح میں ”صبر“ کہاجاتا ہے۔
● قرآن میں ” صبر“ مختلف معانی میں استعمال کیا گیا ہے۔
● اس کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ برائی کرنے والوں کی برائی اور بدخواہ لوگوں کے قصور کو معاف کیا جائے۔
● یعنی حاسدین اور دشمنوں کے تکلیف دہ کاموں پر غصہ اور اشتعال کے بجائے تحمل، بردباری اور برداشت سے کام لیا جائے۔
🔹 ارشادِ باری ہے: اور بھلائی اور برائی برابر نہیں، اگر کوئی برائی کرے تو اس کا جواب اچھائی سے دو،پھر تو تیرے اور جس کے درمیان دشمنی ہے وہ ایساہوجائے گا گویا دوست ہے ناتے والا اور یہ بات ملتی ہے انھیں کو جنھیں صبر ہے اور یہ بات ملتی ہے اس کو جس کی بڑی قیمت ہے۔(سورہ فصلت: ۳۴)
● حضرت عبداللہ بن عباسرضی اللہ عنہ سے اس آیت کی تفسیر میں منقول ہے کہ خدا نے اس آیت میں ایمان والوں کو غیظ و غضب میں صبر کا اور نادانی وجہالت کے وقت حلم و بردباری کا اور برائی کے مقابلہ میں عفو و درگزر کا حکم دیا ہے، جب وہ ایسا کریں گے تو خدا ان کو شیطان کے اثر سے محفوظ رکھے گا۔ (تفسیر کبیر: ۱۳/۶۴۰)
● معلوم ہوا کہ غصہ اور اشتعال شیطانی اثر ہے، شیطان انسان کو مختلف تدابیر کے ذریعہ ابھارنا چاہتا ہے؛
● تاکہ وہ جذبات میں آکر کوئی ایسا کام کر بیٹھے جو اس کے لیے دور رس نقصانات کا باعث بنے؛
● اسی لیے قرآن نے ہمیشہ عفو و درگزر کی تعلیم دی ہے اور یہ پیغام دیا ہے کہ معاف کرنے والوں کے لیے آخرت میں بڑا اجر ہے۔
● بدخواہ اور حاسدین دنیا میں جتنا چاہیں تمسخر اور مذاق اڑالیں، ایک دن ضرور ان کو اپنے کیے ہوئے پر افسوس کا اظہار کرنا ہوگا، دنیا میں اگر کسی مصلحت کے سبب نجات مل بھی گئی تو قیامت جو عدل و انصاف کا دن ہے، وہاں پر ہر ایک کو اچھے اور بُرے عمل کا بدلہ مل کر رہے گا۔
🔹 خدا نے اپنا یہ فیصلہ ان الفاظ میں سنایا ہے : ” ایمان والوں سے کہہ دیجیے کہ ان کو جو اللہ کے جزا و سزا کے واقعات پر یقین نہیں رکھتے معاف کردیا کریں؛ تاکہ لوگوں کو ان کے کاموں کا بدلہ ملے، جس نے اچھا کیا اس نے اپنے بھلے کے لیے کیا اور جس نے براکیا اس نے اپنا برا کیا، پھر تم اپنے پروردگار کے پاس لوٹائے جاوٴگے“۔ (سورہ جاثیہ: ۲۴)
● اس آیت کے شانِ نزول میں لکھا ہے کہ کسی منافق یا کافر نے کسی مسلمان سے کوئی بدتمیزی کی بات کہی تھی، اس سے بعض مسلمانوں کو طیش آیا، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی اور مسلمانوں کو عفو و درگزر کی نصیحت کی گئی۔ (تفسیر کبیر ۱۴/ ۱۷۳)
● اس مفہوم پر مشتمل متعدد آیات قرآن میں نازل کی گئی ہیں۔
● جن میں مختلف پیرایہ سے جذباتیت کے بدلے حقیقت پسندی، غصہ اور اشتعال کے بجائے صبر و تحمل اور انتقامی کارروائی چھوڑ کر بردباری اور قوتِ برداشت کی صفت اختیار کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔
● اور بتایا گیا ہے کہ صبر کا راستہ جنت کا راستہ ہے۔
● اور کسی ناخوشگوار واقعہ پر کسی بھائی کے خلاف نفرت اور انتقام کی آگ بھڑک اٹھنا شیطانی راستہ ہے۔
🔹 اور شیطان انسان کا ازلی دشمن ہے؛ اس لیے اس سے جہاں تک ہوسکے پرہیز کرنا چاہیے۔ (سورہ فاطر: ۶)
🔹 رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص اپنا غصہ اتارنے اور بدلہ لینے پر قادر ہو اور اس کے باوجود وہ اپنے غصہ کو دبائے اور قابو میں رکھے تو اللہ تعالیٰ اس کو قیامت کے دن مخلوق کے سامنے بلائیں گے اور اختیار دیں گے کہ وہ جنت کی آہو چشم حوروں میں سے جس کو چاہے لے لے۔ (ترمذی)
🔹 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ مجھے کوئی وصیت فرمائیے۔ جس پر میں عمر بھر کاربند رہوں، آپ نے فرمایا : غصہ کبھی مت کرنا، راوی کہتے ہیں اس شخص نے اپنی کوتاہ فہمی کی وجہ سے باربار یہی سوال لوٹایا، مجھے وصیت کیجیے، آپ نے ہر مرتبہ یہی جواب دیا، غصہ کبھی مت کرنا۔ (صحیح بخاری)
● غصہ ایمان و عمل کے لیے انتہائی مہلک ہے۔
● خلافِ مزاج کسی واقعہ پر جب انسان بے قابو ہوجاتا ہے تو تمام شرعی رکاوٹیں اس کے لیے بے اعتبار ہوجاتی ہیں۔
● اور وہ غصہ کی حالت میں جو چاہتا ہے کرڈالتا ہے؛
● اس لیے آپ نے حدیثِ مذکور میں غیظ و غضب سے دور رہنے کی تاکید کی ہے۔
● جذبات کو قابومیں رکھنے اور صبر و تحمل کی فضیلت اور ثواب کی کثرت اس بنیاد پر بھی ہے کہ اس میں ایک شخص کو امتحان کی مختلف راہ سے گزرنا پڑتا ہے۔
● کہیں ملتے ہوئے فائدوں سے محرومی کو گوارا کرنا پڑتا ہے،
● کبھی خارجی مجبوری کے بغیر خود سے اپنے آپ کو کسی چیز کا پابند کرلینا پڑتا ہے۔
● کہیں اپنی بے عزتی کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔
● کہیں زیادہ کو چھوڑ کر کم پر قانع ہونا پڑتا ہے،
● کہیں قدرت رکھتے ہوئے اپنے ہاتھ پاوٴں کو روک لینا پڑتا ہے۔
● کہیں اپنی مقبولیت کو دفن کرنے پر راضی ہونا پڑتا ہے،
● کہیں شہرت اور استقبال کے راستے کو چھوڑ کر گمنامی کے طریقے کو اختیار کرنا پڑتا ہے،
● کہیں الفاظ کا ذخیرہ ہوتے ہوئے اپنی زبان کو بند کرلینا پڑتا ہے،
● کہیں جانتے بوجھتے دوسرے کا بوجھ اپنے سر پر لے لینا پڑتا ہے،
● ان تمام مواقع پر نفس کو کچل کر خلافِ نفس کام کرنے پر اپنے آپ کو مجبور کرنا پڑتا ہے،
● یہی وہ راز ہے جس سے انسان کا سفر ہمیشہ بلندی کی طرف جاری رہت�� ہے،
● وہ کبھی ٹھوکر نہیں کھاتا
● اور نہ کبھی سخت مایوسی کا شکار ہونا پڑتا ہے؛
● لیکن جذبات اور غیظ وغضب سے ہمیشہ انسان کو نقصان پہنچتا ہے،
● اس میں فائدے کا کوئی پہلو نہیں۔
● یہی وجہ ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری قوتوں کے باوجود کبھی انتقامی جذبات سے کام نہیں لیا۔
● قریش نے آپ کو گالیاں دیں، مارنے کی دھمکی دی، راستوں میں کانٹے بچھائے، جسمِ اطہر پر نجاستیں ڈالیں، گلے میں پھندا ڈال کر کھینچا، آپ کی شان میں ہزار گستاخیاں کیں؛ مگر کوئی ایسی مثال نہیں کہ غیظ و غضب سے بے قابو ہو کر آپ نے کوئی کارروائی کی ہو،
● کسی شخص کی کامیابی اور بلندی کا راز یہ ہے کہ انتہائی جذباتی مواقع پر انتہائی عقل و دانش سے فیصلہ کرے۔
● انفرادی زندگی میں تحمل اور صبر و ضبط کی ضرورت تو ہے ہی؛
● لیکن اس کی اہمیت اجتماعی جگہوں میں مزید بڑھ جاتی ہے،
● جہاں مختلف اذہان اور طبیعت کے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے، ظاہر ہے کہ کسی فیصلہ یا میمورنڈم پر غور کرتے ہوئے تمام ذہنوں کی رعایت نہیں کی جاسکتی۔
● اس میں بعض کی موافقت ہوگی تو بعض کی مخالفت بھی،
● ساتھ رہتے ہوئے ��ہت سی ناموافق باتیں بھی پیش آتی ہیں،
● کبھی مزاجوں کا اختلاف دل شکنی کا باعث ہوتا ہے
● تو کبھی کسی کی تنقید سے خفت اٹھانی پڑتی ہے؛
● بلکہ قدم قدم پر ہزار امتحانی راہوں سے گزرنا پڑتا ہے،
● اگر تحمل اور صبر و ضبط سے کام نہ لیا جائے تو ایک دن بھی اجتماعی جگہوں میں شریک رہنا مشکل ہوگا۔
● اس طرح سماجی تنظیموں اور اداروں کا نقصان تو ہوگا ہی؛
● مگر خود اس کی زندگی تباہ اور ناکارہ ہوجائے گی،
● ہزار صلاحیتوں کے باوجود اس کا علم و ہنر بے فیض اور ناکام ہوگا؛
● اس لیے اپنی شخصیت کو نکھارنے، مسائل سے نجات پانے اور خوش گوار زندگی گزارنے کے لیے ضرورت ہے کہ جذبات کو قابو میں رکھا جائے۔
● رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب نبوت کا اعلان کیا تو مکہ کا سارا ماحول آپ کے لیے اجنبی بن گیا، وہی لوگ جن کے بیچ آپ کا بچپن اور آپ کی جوانی گزری، جو آپ کی امانت و صداقت کے بڑے مداح اور عاشق تھے، آپ کے مخالف اور جانی دشمن ہوگئے، آپ کے رشتہ دار اور اہل خاندان جن سے آپ کو بڑی امیدیں وابستہ تھیں، ان کا بھی آپ کو کوئی سہارا نہیں ملا، وہ بھی انجانے اور ناآشنا ثابت ہوئے،
● تنِ تنہا توحید کا پیغام لیے گھر سے باہر نکلے؛
● مگر کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ حالات کا رخ بدل گیا، ناموافق ہوائیں اب موافق ہوگئیں، دشمنوں کے دل پسیج گئے
● اور پھر وہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسے دیوانے بنے کہ تاریخِ انسانیت میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
🔹 خدا نے اپنا یہ دستور اور قانون ان الفاظ میں سنایا ہے : ” ہم نے ان میں سے بعض کو قائد اور امام بنایا جو ہماری باتوں سے لوگوں کو واقف کراتے تھے، یہ ان کے صبر کا بدلہ ہے۔“ (السجدہ:۲۴)
● موٴمن کی زندگی کا وہ کون سا لمحہ ہے جس میں اس کو کسی نہ کسی طرح جسمانی اور روحانی اذیت و پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑتا ہو،
● تاریخ شاہد ہے کہ جس نے بھی ان تکلیف دہ مواقع میں صبر و تحمل سے کام لیا،
● اس کے لیے بعد میں راستے ہموار ہوگئے،
● کامیابی کی منزل قریب ہوگئی
● اور پھر بعد میں دشمنوں کے دل بھی بدل گئے۔
🍂 *اللہ سبحانہ وتعالی ہم سب کو نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائیں* ۔۔۔
*آمین ثمہ آمین*
🌹🌹 *اور اپنا سفر جاری ہے....*
2 notes · View notes
aiklahori · 1 year
Text
مجھے نہیں پتہ، یہ تحریر سچی ہے یا فسانہ؛ بس شرط ہے کہ آنکھیں نم نہ ہونے پائیں۔ آپ دوستوں کے ذوق کی نظر:
۔۔۔
میں ان دنوں جوہر شادی ہال کے اندر کو یوٹرن مارتی ہوئی سڑک کے اُس طرف اک فلیٹ میِں رہتا تھا. اس پوش کالونی کے ساتھ ساتھ جاتی سڑک کے کنارے کنارے ہوٹل، جوس کارنر، فروٹ کارنر بھی چلتے چلے جاتے ہیں۔
اس چوک کے دائیں طرف اک نکڑ تھی جس پر اک ریڑھی کھڑی ہوتی تھی، رمضان کے دن تھے، شام کو فروٹ خریدنے نکل کھڑا ہوتا تھا. مجھے وہ دور سے ہی اس ریڑھی پہ رکھے تروتازہ پھلوں کی طرف جیسے کسی ندیدہ قوت نے گریبان سے پکڑ کر کھینچا ہو. میں آس پاس کی تمام ریڑھیوں کو نظر انداز کرتا ہوا اس آخری اور نکڑ پہ ذرہ ہٹ کے لگی ریڑھی کو جا پہنچا. اک نگاہ پھلوں پہ ڈالی اور ماتھے پہ شکن نے آ لیا کہ یہ فروٹ والا چاچا کدھر ہے؟ ادھر اُدھر دیکھا کوئی نہیِں تھا. رمضان کی اس نقاہت و سستی کی کیفیت میں ہر کسی کو جلدی ہوتی ہے، اس شش و پنج میں اک گیارہ بارہ سال کا بچہ گزرا، مجھے دیکھ کر کہنے لگا، فروٹ لینا؟ میں نے سر اوپر نیچے مارا، ہاں، وہ چہکا، تو لے لو، چاچا ریڑھی پہ نہیں آتا، یہ دیکھو بورڈ لکھا ہوا ہے. میں نے گھوم کے آگے آکر دیکھا، تو واقعی اک چھوٹا سا بورڈ ریڑھی کی چھت سے لٹک رہا تھا، اس پہ اک موٹے مارکر سے لکھا ہوا تھا:
''گھر میں کوئی نہیں، میری اسی سال کی ماں فالج زدہ ہے، مجھے ہر آدھے گھنٹے میں تین مرتبہ خوراک اور اتنے ہی مرتبہ اسے حاجت کرانی پڑتی ہے، اگر آپ کو جلدی نہیں ہے تو اپنی مرضی سے فروٹ تول کر اس ریگزین گتے کے نیچے پیسے رکھ دیجیے، اور اگر آپ کے پاس پیسے نہیں ہیں، میری طرف سے اٹھا لینا اجازت ہے. وللہ خیرالرازقین!"
بچہ جا چکا تھا، اور میں بھونچکا کھڑا ریڑھی اور اس نوٹ کو تک رہا تھا. ادھر اُدھر دیکھا، پیسے نکالے، دو کلو سیب تولے، درجن کیلے الگ کیے، شاپر میں ڈالے، پرائس لسٹ سے قیمت دیکھی، پیسے نکال کر ریڑھی کے پھٹے کے گتے والے کونے کو اٹھایا، وہاں سو پچاس دس کی نقدی پڑی تھی، اسی میں رکھ کر اسے ڈھک دیا، ادھر اُدھر دیکھا کہ شاید کوئی متوجہ ہو، اور شاپر اٹھا کر واپس فلیٹ پر آگیا. واپس پہنچتے ہی اتاولے بچے کی طرح بھائی سے سارا ماجرا کہہ مارا، بھائی کہنے لگے وہ ریڑھی واپس لینے تو آتا ہوگا، میں نے کہا ہاں آتا تو ہوگا، افطار کے بعد ہم نے کک لگائی اور بھائی کے ساتھ وہیں جا پہنچے. دیکھا اک باریش بندہ، آدھی داڑھی سفید ہے، ہلکے کریم کلر کرتے شلوار میں ریڑھی کو دھکا لگا کر بس جانے ہی والا ہے، کہ ہم اس کے سر پر تھے. اس نے سر اٹھا کر دیکھا، مسکرا کر بولا صاحب ''پھل ختم ہوگیا ہے، باقی پیسے بچے ہیں، وہ چاہیں تو لے لو. یہ اس کی ظرافت تھی یا شرافت، پھر بڑے التفات سے لگا مسکرانے اور اس کے دیکھنے کا انداز کچھ ایسا تھا کہ جیسے ابھی ہم کہیں گے، ہاں! اک کلو پیسے دے دو اور وہ جھٹ سے نکال کر پکڑا دے گا.
بھائی مجھے دیکھیں میں بھائی کو اور کبھی ہم دونوں مل کر اس درویش کو. نام پوچھا تو کہنے لگا، خادم حسین نام ہے، اس نوٹ کی طرف اشارہ کیا تو، وہ مسکرانے لگا. لگتا ہے آپ میرے ساتھ گپ شپ کے موڈ میں ہیں، پھر وہ ہنسا، پوچھا چائے پیئں گے؟ لیکن میرے پاس وقت کم ہے، اور پھر ہم سامنے ڈھابے پہ بیٹھے تھے.
چائے آئی، کہنے لگا تین سال سے اماں بستر پہ ہے، کچھ نفسیاتی سی بھی ہوگئی ہے، اور اب تو مفلوج بھی ہوگئی ہے، میرا آگے پیچھے کوئی نہیں، بال بچہ بھی نہیں ہے، بیوی مر گئی ہے، کُل بچا کے اماں اور اماں کے پاس میں ہوں. میں نے اک دن اماں سے کہا، اماں تیری تیمار داری کا تو بڑا جی کرتا ہے. میں نے کان کی لو پکڑ کر قسم لی، پر ہاتھ جیب دسترس میں بھی کچھ نہ ہے کہ تری شایان ترے طعام اور رہن سہن کا بندوبست بھی کروں، ہے کہ نہیں؟ تو مجھے کمرے سے بھی ہلنے نہیں دیتی، کہتی ہے تو جاتا ہے تو جی گھبراتا ہے، تو ہی کہہ کیا کروں؟ اب کیا غیب سے اترے گا بھاجی روٹی؟ نہ میں بنی اسرائیل کا جنا ہوں نہ تو کچھ موسیٰ کی ماں ہے، کیا کروں؟ چل بتا، میں نے پاؤں دابتے ہوئے نرمی اور اس لجاجت سے کہا جیسے ایسا کہنے سے واقعی وہ ان پڑھ ضعیف کچھ جاودانی سی بکھیر دے گی. ہانپتی کانپتی ہوئی اٹھی، میں نے جھٹ سے تکیہ اونچا کر کے اس کی ٹیک لگوائی، اور وہ ریشے دار گردن سے چچرتی آواز میں دونوں ہاتھوں کا پیالا بنا کر، اس نے خدا جانے کائنات کے رب سے کیا بات کری، ہاتھ گرا کر کہنے لگی، تو ریڑھی وہی چھوڑ آیا کر، تیرا رزق تجھے اسی کمرے میں بیٹھ کر ملے گا، میں نے کہا کیا بات کرتی ہے اماں؟ وہاں چھوڑ آؤں تو اچکا سو چوری کے دور دورے ہیں، کون لحاظ کرے گا؟ بنا مالک کے کون آئے گا؟ کہنے لگی تو فجر کو چھوڑ کر آیا بس، زیادہ بک بک نیئں کر، شام کو خالی لے آیا کر، تیرا روپیہ جو گیا تو اللہ سے پائی پائی میں خالدہ ثریا وصول دوں گی.
ڈھائی سال ہوگئے ہیں بھائی، صبح ریڑھی لگا جاتا ہوں. شام کو لے جاتا ہوں، لوگ پیسے رکھ جاتے پھل لے جاتے، دھیلا اوپر نیچے نہیں ہوتا، بلکہ کچھ تو زیادہ رکھ جاتے، اکثر تخمینہ نفع لاگت سے تین چار سو اوپر ہی جا نکلتا، کبھی کوئی اماں کے لیے پھول رکھ جاتا ہے، کوئی پڑھی لکھی بچی پرسوں پلاؤ بنا کر رکھ گئی، نوٹ لکھ گئی "اماں کے لیے". اک ڈاکٹر کا گزر ہوا، وہ اپنا کارڈ چھوڑ گیا. پشت پہ لکھ گیا. "انکل اماں کی طبیعت نہ سنبھلے تو مجھے فون کرنا، میں گھر سے پک کر لوں گا" کسی حاجی صاحب کا گزر ہوا تو عجوہ کجھور کا پیکٹ چھوڑ گیا، کوئی جوڑا شاپنگ کرکے گزرا تو فروٹ لیتے ہوئے اماں کے لیے سوٹ رکھ گیا، روزانہ ایسا کچھ نہ کچھ میرے رزق کے ساتھ موجود ہوتا ہے، نہ اماں ہلنے دیتی ہے نہ اللہ رکنے دیتا ہے. اماں تو کہتی تیرا پھل جو ہے نا، اللہ خود نیچے اتر آتا ہے، وہ بیچ باچ جاتا ہے، بھائی اک تو رازق، اوپر سے ریٹلر بھی، اللہ اللہ!
اس نے کان لو کی چٍٹی پکڑی، چائے ختم ہوئی تو کہنے لگا اجازت اب، اماں خفا ہوگی، بھنیچ کے گلو گیر ہوئے. میں تو کچھ اندر سے تربتر ہونے لگا. بمشکل ضبط کیا، ڈھیروں دعائیں دیتا ہوا ریڑھی کھینچ کر چلتا بنا. میرا بہت جی تھا کہ میں اس چہیتے ''خادم'' کی ماں کو جا ملوں اور کچھ دعا کرواؤں، پر میری ہمت نیئں پڑی جیسے زبان لقوہ مار گئی ہو۔۔
---
ذریعہ : فیسبک
8 notes · View notes
the-royal-inkpot · 1 year
Text
اہل بیعت اور اہل بیت
ابراھیم سے لے کر محمد تک ایک ہی شجرہ ہے۔سب انبیاء اسی نسب سے نازل ہوتے رہے۔
اہل بیت کا سلسلہ محمد پر آ کر ختم ہوا۔
پھر اہل بیعت کا سلسلہ چل پڑا یعنی خلافت۔یہ روحانی اولاد تھی نا کہ جسمانی اولاد۔
آج بھی یہ تنازعہ موجود ہے۔
جسمانی علاج خود کو نبی اور اسلام کا وارث سمجھتی ہے،چھاتیاں پیٹتی ہے اور ماتم کرتی ہے جبکہ روحانی اولاد نبوت و خلافت کے خواص کو شجرہ میں منتقل کرنا مکروہ و ممنوع سمجھتی ہے۔
کیا یہ طاقت کی بھوک ہے یا واقعی نبوت کی شاخ کو سنبھالنے کا جوش ہے۔اس کا جواب آپ دیں گے۔
برس ہا برس سے وراثت بیٹوں میں منتقل ہوتی رہی۔حتی کہ نبوت نے بھی ایک وراثت کا لبادہ اوڑھا اور بیٹوں میں منتقل ہوتی رہی۔نبی کے بعد اس کا بیٹا نبی اور پھر اس کے بعد اس کا بیٹا بھی نبی اور پھر نبی در نبی در نبی۔
رسول اللہ کی آمد کے بعد جب آپ کے ہاں بیٹوں کی پیدائش ہوئی تو غیر معمولی طور پر آپ کے بیٹے فوت ہوتے گئے۔کچھ مورخین کا کہنا ہے کہ جن افراد نے نبی کی موت کے بعد خلافت سنبھالی وہی لوگ رسول اللہ کے بیٹوں کو زہر دینے میں بلاواسطہ شامل تھے۔بلاواسطہ یوں کہ جب خلافت علی ابن طالب کے بجائے ابوبکر کو منتقل ہوئی تو وہی لوگ گروہ بندی کرنے میں سب سے آگے تھے جنہوں نے رسول اللہ کے بیٹوں کو زہر دے کر بچپن میں ہی مار دیا تھا۔انہی لوگوں نے پس پردہ یہ راگ الاپا کہ وراثت میں نبوت کو منتقل کرنا مکروہ ہے کیونکہ رسول اللہ اپنی ذات کو کبھی ترجیح نہیں دیتے تھے اس لیے علی خلیفہ نا بنے۔
2 notes · View notes
emergingpakistan · 1 year
Text
کیا معیشت دم توڑ چکی ہے؟
Tumblr media
کمال فنکاری بلکہ اوج ثریا سے منسلک لازوال عیاری سے اصل معاملات چھپائے جا رہے ہیں۔ جذباتیت‘ شدید نعرے بازی اور کھوکھلے وعدوں سے ایک سموک سکرین قائم کی گئی ہے جس میں ملک کی ریڑھ کی ہڈی‘ یعنی معیشت کے فوت ہونے کے المیہ کو خود فریبی کا کفن پہنا کر چھپایا جا رہا ہے۔ ذمہ داری سے گزارش کر رہا ہوں کہ پاکستان کی معیشت دم توڑ چکی ہے۔ دھوکہ بازی کے ماہر بھرپور طریقے سے غلط اعداد فراہم کر رہے ہیں۔ قوم کو اصل حقیقت سے مکمل دور کر دیا گیا ہے۔ مگر انفارمیشن کے اس جدید دور میں لوگوں کو مسلسل فریب دینا ناممکن ہو چکا ہے۔ طالب علم کو کوئی غرض نہیں کہ سیاسی حالات کیا ہیں۔  کون پابند سلاسل ہے اور کون سا پنچھی آزاد ہوا میں لوٹن کتوبر کی طرح قلابازیاں کھا رہا ہے۔ اہم ترین نکتہ صرف ایک ہے کہ پاکستان کے معاشی حالات کیا ہیں؟ کیا وہ بہتری کی جانب رواں دواں ہیں یا ذلت کی پاتال میں گم ہو چکے ہیں۔ عوام کی بات کرنا بھی عبث ہے۔ اس لیے کہ اس بدقسمت خطے میں ڈھائی ہزار برس سے عام آدمی کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔
عام آدمی چندرگپت موریا اور اشوکا کے زمانے سے دربدر ہے۔ اور اگر ہمارے خطے میں جوہری تبدیلی نہ آئی یا نہ لائی گئی۔ تو یقین فرمائیے کہ کم از کم پاکستان میں حسب روایت اور تاریخ کے غالیچے پر براجمان طبقہ تباہی کا صور اسرافیل پھونک رہا ہے۔ معیشت کو ٹھیک سمت میں اگر موجودہ وزیراعظم اور وزیر خزانہ نہیں لے کر جائے گا تو پھر کون یہ اہم ترین کام کرے گا۔ غور کیجیے۔ اگر کوئی ایسی بیرونی اور اندرونی منصوبہ بندی ہے کہ پاکستان کو سابقہ سوویت یونین کی طرز پر آرے سے کاٹنا ہے ۔ تو پھر تو درست ہے ۔ مگر وہ کون لوگ اور ادارے ہیں جو جانتے بوجھتے ہوئے بھی ملکی معیشت کو دفنانے کی بھرپور کوشش میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ ہمیں تو بتایا گیا ہے کہ ریاستی اداروں کی عقابی نظرسے کوئی امر پوشیدہ نہیں ہے۔ تو پھر ملکی معیشت کا جنازہ کس طرح نکال دیا گیا۔ ڈاکٹر اشفاق حسین جیسے جید معیشت دان‘ گال پیٹ پیٹ کر ملک کی معاشی زبوں حالی کا ذکر عرصے سے کر رہے ہیں۔ کیوں ان جیسے دانا لوگوں کی باتوں کو اہمیت نہیں دی گئی۔ گمان تو یہ ہے کہ واقعی ایک پلان ہے‘ جس میں مرکزیت صرف ایک سیاسی جماعت کو ختم کرنا ہے۔ اس اثناء میں‘ اگر معیشت ختم ہو گئی تو اسے زیادہ سے زیادہ Collateral damage کے طور پر برداشت کرنا ہے۔
Tumblr media
صاحبان! اگر واقعی یہ سب کچھ آدھا جھوٹ اور آدھا سچ ہے۔ تب بھی مشکل صورتحال پیدا ہو چکی ہے۔ بین الاقوامی اقتصادی اداروں کے سامنے ہم گھٹنوں کے بل نہیں بلکہ سربسجود ہونے کے باوجود ’’ایک دھیلہ یا ایک پائی‘‘ کا قرضہ حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ یہ سچ بھرپور طریقے سے چھپایا جا رہا ہے۔ وزیرخزانہ کے نعروں کے باوجود ورلڈ بینک پاکستان کی کسی قسم کی کوئی مدد کرنے کو تیار نہیں ہے۔ اس پر کمال یہ ہے کہ وزیراعظم ‘ وزیراعلیٰ ‘ گورنر صاحبان ‘ وزراء اور ریاستی اداروں کے سربراہان ہر طرح کی مالی مراعات لے رہے ہیں۔ جن کا ترقی یافتہ ممالک میں بھی تصور نہیں کیا جا سکتا۔ سرکاری ہوائی جہاز‘ سرکاری ہیلی کاپٹر‘ حکومتی قیمتی ترین گاڑیاں‘ رکشے کی طرح استعمال کی جا رہی ہیں۔ چلیئے‘ اس ادنیٰ اداکاری کا کوئی مثبت نتیجہ نکل آئے۔ تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مگر ایک سال سے تو کسی قسم کا کوئی ٹھنڈی ہوا کا جھونکا نہیں آیا۔ کسی قسم کی ایسی بات نہیں کر رہا‘ جس کا ثبوت نہ ہو۔ 
ایکسپریس ٹربیون میں برادرم شہباز رانا کی ملکی معیشت کے متعلق رپورٹ رونگٹے کھڑے کر دینے والی ہے۔ یہ چھبیس مئی کو شائع ہوئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ‘ پاکستان کی معیشت سکڑ کر صرف اور صرف 341 بلین ڈالر تک آ چکی ہے۔ یہ ناقابل یقین کمی‘ ملکی معیشت کا نو فیصد ہے۔ یعنی گزشتہ ایک برس میں اقتصادی طور پر ملک خوفناک طور پر غرق کیا گیا ہے۔ یہ 34 بلین ڈالر کا جھٹکا ہے۔ اس کی وضاحت کون کرے گا۔ اس کا کسی کو بھی علم نہیں۔ انفرادی آمدنی‘ پچھلے اقتصادی برس سے گیارہ فیصد کم ہو کر 1568 ڈالر پر آ چکی ہے۔ یعنی یہ گیارہ فیصد یا 198 ڈالر کی کمی ہے۔ یہ اعداد و شمار کسی غیر سرکاری ادارے کے نہیں‘ بلکہ چند دن قبل نیشنل اکاؤنٹس کمپنی (NAC) میں سرکاری سطح پر پیش کئے گئے تھے۔ اور ان پر سرکار کی مہر ثابت ہو چکی ہے۔ معیشت کا سکڑنا اور انفرادی آمدنی میں مسلسل گراؤٹ کسی بھی حکومت کی ناکامی کا اعلانیہ نہیں تو اور کیا ہے۔ تف ہے کہ ملک کے ذمہ دار افراد میں سے کسی نے اس نوحہ پر گفتگو کرنی پسند کی ہو۔ ہاں۔ صبح سے رات گئے تک‘ سیاسی اداکار‘ سیاسی مخالفین کے لتے لیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اب تو سیاسی مخالفین کو غدار اور غیر محب وطن ہونے کے سرٹیفکیٹ بھی تواتر سے بانٹے جا رہے ہیں۔ ماضی میں یہ کھیل کئی بار کھیلا جا چکا ہے۔
ہم نے ملک تڑوا لیا۔ لیکن کوئی سبق نہیں سیکھا۔ یہ کھیل آج بھی جاری ہے۔ معیشت کے ساتھ ساتھ ملک کی سالمیت سے بھی کھیلا جا رہا ہے۔ عمران خان تو خیر‘ سیاست کی پیچیدگیوں سے نابلد انسان ہے۔ مگر موجودہ تجربہ کار قائدین کیوں ناکام ہو گئے ہیں۔ خاکم بدہن‘ کہیں ملک توڑنے کا نسخہ‘ دوبارہ زیر استعمال تو نہیں ہے۔ وثوق سے کچھ کہنا ناممکن ہے۔ معیشت پر برادرم شہباز رانا کی رپورٹ میں تو یہاں تک درج ہے کہ بیورو آف سٹیسٹسکس (BOS) کو جعلی اعداد و شمار دینے پر مجبور کیا گیا ہے۔ یہ دباؤ حکومت وقت کے سرخیل کی طرف سے آیا ہے۔ بیورو نے ملکی معیشت کو منفی 0.5 فیصد پر رکھا تھا۔ مگر اس رپورٹ کے بقول وزارت خزانہ اور دیگرطاقتور فریقین نے یہ عدد جعل سازی سے تبدیل کروا کر مثبت 0.3 فیصد کروایا ہے۔ دل تھام کر سنیے۔ ملک میں آبادی بڑھنے کی شرح دو فیصد ہے۔ اگر 0.3 فیصد ملکی ترقی کو تسلیم کر بھی لیا جائے۔ تب بھی ملکی معیشت 1.7 فیصد منفی ڈھلان پر ہے۔ یہ معاملات کسی بھی ملک کی بربادی کے لیے ضرورت سے زیادہ ہیں۔ ہمارے دشمن شادیانے بجا رہے ہیں۔ اندازہ فرمائیے کہ اس رپورٹ کے مطابق‘ موجودہ حکومت نے 2022ء کے سیلاب میں دس لاکھ جانوروں کے نقصان کا ڈھنڈورا پیٹا تھا۔ Livestock سیکٹر کی بات کر رہا ہوں۔ مگر BOS کے مطابق حکومت کے یہ اعداد بھی مکمل طور پر غلط ہیں۔
سرکاری ادارے کے مطابق جانوروں کا نقصان صرف دو لاکھ ہے۔ سوچیئے۔ عالمی برادری اور ادارے‘ ہمارے اوپر کس طرح قہقہے لگا رہے ہونگے۔ اس تجزیہ کے مطابق زراعت کے شعبہ میں نمو 1.6 فیصد رکھی گئی ہے۔ یہ عدد بھی کسی بنیاد کے بغیر ہوا میں معلق ہے۔ وجہ یہ کہ کپاس کی فصل اکتالیس فیصد کم ہوئی ہے۔ کپاس کو روئی بنانے کے عمل میں 23 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ چاول کی فصل میں اکیس فیصد کمی موجود ہے۔ یہ سب کچھ برادرم شہباز رانا کی شائع شدہ رپورٹ میں درج ہے۔ مگر ذرا میڈیا ‘ میڈیا رپورٹنگ پر نظر ڈالیے ۔ تو سوائے سیاست یا گالم گلوچ کے کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ وہاں کوئی بھی ’’مہاشے‘‘ ذکر نہیں کرتا کہ معیشت بھی مقدس ہے۔ اگر یہ بیٹھ گئی تو سب کچھ عملی طور پر ہوا میں اڑ جائے گا۔ مگر کسی بھی طرف سے کوئی سنجیدہ بات سننے کو نہیں آتی۔ وزیر خزانہ کے یہ جملے‘ ’’کہ ہر چیز ٹھیک ہو جائے گی‘‘۔ بس فکر کی کوئی بات نہیں۔ ان پر شائد میرے جیسے لا علم اشخاص تو یقین کر لیں۔ مگر سنجیدہ بین الاقوامی اقتصادی ادارے اور ماہرین صرف ان جملوں پر ہنس ہی سکتے ہیں۔ 
معیشت ڈوب گئی تو پچیس کروڑ انسان‘ کتنے بڑے عذاب میں غرقاب ہو جائیںگے۔ اس پر بھی کوئی بات نہیں کرتا۔ موجودہ حکومت کی سیاست‘ سیاسی بیانات اور کارروائیاں ایک طرف۔ مگر عملی طور پر ہماری معیشت دم توڑ چکی ہے۔ صرف سرکاری طور پر تسلیم نہیں کیا جا رہا۔ سوال ہو سکتا ہے کہ ملک چل کیسے رہا ہے۔ اس کا جواب صرف یہ ہے‘ کہ ہماری بلیک اکانومی حد درجہ مضبوط اور فعال ہے۔ یہ واحد وجہ ہے کہ ہم خانہ جنگی میں نہیں جا رہے۔ مگر شائد تھوڑے عرصے کے بعد‘ یہ آخری عذاب بھی بھگتنا پڑے۔ مگر حضور‘ تھوڑا سا سچ بول ہی دیجئے۔ مردہ معیشت کی تدفین کب کرنی ہے!
راؤ منظر حیات 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
2 notes · View notes
faheemkhan882 · 1 year
Text
Tumblr media
چاند پر جانے کی وڈیو جعلی تھی
ایک اخباری کے مطابق :جو کہ امریکہ اور یورپ کے 12 دسمبر کے اخبارات میں چھپی ہے۔ خبر کا لنک بھی دے رہا ہوں۔
http://www.express.co.uk/news/science/626119/MOON-LANDINGS-FAKE-Shock-video-Stanley-Kubrick-admit-historic-event-HOAX-NASA
خبر کا خلاصہ کچھ یوں ہے
ہالی ووڈ کے معروف فلم ڈائریکٹر سٹینلے کبرک نے ایک ویڈیو میں تسلیم کیا ہے کہ امریکا کی جانب سے چاند پر مشن بھیجنے کا دعویٰ جعلی اور جھوٹ پر مبنی تھا اور میں ہی وہ شخص ہوں جس نے اس جھوٹ کو فلم بند کیا تھا ۔اس رپورٹ کے مطابق حال ہی میں ایک خفیہ ویڈیو ریلیز کی گئی ہے جس میں ہالی ووڈ کے آنجہانی ہدایتکار سٹینلے کبرک نے تسلیم کیا ہے کہ 1969ء میں چاند پر کوئی مشن نہیں گیا تھا بلکہ انہوں نے اس کی فلم بندی کی تھی۔ ہالی ووڈ کے ہدایتکار کی اس خفیہ ویڈیو کو 15 سال قبل فلم بند کیا گیا تھا۔ ان کی ویڈیو بنانے والے رپورٹر نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اس ویڈیو کو ان کی وفات کے 15 سال بعد افشاء کرے گا۔ اس کے چند ہی دن بعد سٹینلے کبرک کا انتقال ہو گیا تھا۔ اس خفیہ ویڈیو میں انہوں نے تسلیم کیا کہ چاند کی تسخیر پر اٹھائے جانے والے تمام سوالات درست ہیں یہ سب کچھ امریکی خلائی ادارے ناسا اور امریکی حکومت کی ایماء پر کیا گیا تھا۔اس وقت کے امریکی صدر جان ایف کینیڈی کو اس تمام معاملے کا علم تھا۔سٹینلے کبرک کا کہنا تھا کہ وہ امریکی عوام سے معذرت خواہ ہیں کیونکہ انہوں نے ان سے دھوکہ دہی کی ہے۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ میں نے امریکی حکومت اور ناسا کے کہنے پر مصنوعی چاند پر فلم بندی کی تھی میں اس فراڈ پر امریکی عوام کے سامنے شرمسار ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو یہ تھا اس وڈیو بنانے والا اصل کریکٹر جو اعتراف کرگیا کہ یہ سب کچھ جعلی تھا۔ اس سے پہلے میں اپنے دلچسپ معلومات پیج کے دوستوں کو اس کے بارے میں بتا چکا ہوں کہ اس وڈیو بنانے کی وجوہات اصل میں کیا تھیں۔ اور کچھ اس پر اٹھائے جانے والے اعتراضات بھی بتا چکا ہوں۔ یہ پوسٹ میں دوبارہ آپ کی دلچسپی اور علم میں اضافے کے لئے پیش کررہا ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چاند پر انسانی قدم کے ڈرامے کی وجوہات اور اعتراضات
چند دن پہلے میں نے "چاند پر قدم کا ڈرامہ" نامی آرٹیکل اس دلچسپ معلومات پیج پر پوسٹ کیا تھا ۔ جس پر کچھ دوستوں نے اعتراضات کئے تھے کہ "یہ سب بکواس ہے چاند پر قدم ایک حقیقت ہے"۔یا۔"خود تو کچھ کر نہیں سکتے اور دوسروں پر اعتراضات کرتے ہیں"۔ وغیرہ وغیرہ ۔اور بہت سارے دوست تو میری بات سے متفق بھی تھے۔ تو ان معترضین سے عرض یہ ہے کہ چاند پر قدم کا ڈرامہ کہنے والے پاکستان نہیں بلکہ خود امریکی اور یورپ کے ماہرین ہیں۔کیونکہ ہمارے پاس تو اتنی ٹیکنالوجی اور وسائل نہیں کہ ہم حقیقتِ حال جان سکیں۔ جن کے پاس تمام وسائل ہیں ان لوگوں نے ہی اس نظریے پر اعتراضات اٹھائے ہیں کہ یہ ایک باقاعدہ ڈرامہ تھا جو امریکہ اور روس کی سرد جنگ کے درمیان امریکہ نے روس پر برتری حاصل کرنے کے لئے گڑھا تھا۔ آئیے ان اعتراضات پر ایک نظر ڈالتے ہیں ۔ذہن میں رہے یہ اعتراضات کوئی پاکستانی نہیں کررہا بلکہ امریکی کررہے ہیں۔جن کو میں اپنے دلچسپ معلومات پیج کو دوستوں سے شئیر کررہا ہوں۔
1969 میں امریکی خلانورد نیل آرمسٹرانگ نے گرد سے اٹی ہوئی جس سرزمین پر قدم رکھا تھا، کیا وہ چاند کی سطح تھی یا یہ ہالی وڈ کے کسی سٹوڈیو میں تخلیق کیا گیا ایک تصور تھا؟ بہت سے لوگوں کی نظر میں یہ حقیقت آج بھی افسانہ ہے۔کیونکہ کچھ ہی سالوں میں خود امریکہ میں اس بات پر شک و شبہ ظاہر کیا جانے لگا کہ کیا واقعی انسان چاند پر اترا تھا؟
15 فروری 2001 کو Fox TV Network سے نشر ہونے والے ایک ایسے ہی پروگرام کا نام تھا
Conspiracy Theory: Did We Land on the Moon?
اس پروگرام میں بھی ماہرین نے بہت سے اعتراضات اٹھائے ہیں۔ اسی طرح یوٹیوب پر بھی یہ دو ڈاکیومینٹری دیکھنے والوں کے ذہن میں اس بارے ابہام پیدا کرنے کے لئے کافی موثر ہیں۔
Did man really go to the moon
Did We Ever Land On The Moon
پہلے اس ڈرامے کی وجوہات پر ایک نگاہ ڈالتے ہیں۔کہ آخر کیا وجہ تھی کہ امریکہ نے اتنا بڑا(تقریباکامیاب) ڈرامہ بنایا۔
سرد جنگ کے دوران امریکہ کو شدید خطرہ تھا کہ نہ صرف اس کے علاقے روسی ایٹمی ہتھیاروں کی زد میں ہیں بلکہ سرد جنگ کی وجہ سے شروع ہونے والی خلائی دوڑ میں بھی انہیں مات ہونے والی ہے۔ کیونکہ روس کی سپیس ٹیکنالوجی امریکہ سے بہت بہتر تھی۔ جنگ ویتنام میں ناکامی کی وجہ سے امریکیوں کا مورال بہت نچلی سطح تک آ چکا تھا۔
پہلا مصنوعی سیارہ خلا میں بھیجنے کے معاملے میں روس کو سبقت حاصل ہو چکی تھی جب اس نے 4 اکتوبر 1957 کو Sputnik 1 کو کامیابی کے ساتھ زمین کے مدار میں بھیجا۔ روس 1959 میں بغیر انسان والے خلائی جہاز چاند تک پہنچا چکا تھا۔ 12 اپریل 1961 کو روسی خلا نورد یوری گگارین نے 108 منٹ خلا میں زمیں کے گرد چکر کاٹ کر خلا میں جانے والے پہلے انسان کا اعزاز حاصل کیا۔ 23 دن بعد امریکی خلا نورد Alan Shepard خلا میں گیا مگر وہ مدار تک نہیں پہنچ سکا۔ ان حالات میں قوم کا مورال بڑھانے کے لیئے صدر کینڈی نے 25 مئی 1961 میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ ہم اس دہائی میں چاند پر اتر کہ بخیریت واپس آئیں گے۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ دہائی کے اختتام پر بھی اسے پورا کرنا امریکہ کے لئے ممکن نہ تھا اس لیئے عزت بچانے اور برتری جتانے کے لیئے جھوٹ کا سہارا لینا پڑا۔ امریکہ کے ایک راکٹ ساز ادارے میں کام کرنے والے شخصBill Kaysing کے مطابق اس وقت انسان بردار خلائی جہاز کے چاند سے بہ سلامت واپسی کے امکانات صرف 0.017% تھے۔ اس نے اپولو مشن کے اختتام کے صرف دو سال بعد یعنی 1974 میں ایک کتاب شائع کی جسکا نام تھا
We Never Went to the Moon:
America's Thirty Billion Dollar Swindle
3 اپریل 1966 کو روسی خلائ جہاز Luna 10 نے چاند کے مدار میں مصنوعی سیارہ چھوڑ کر امریکیوں پر مزید برتری ثابت کر دی۔ اب امریکہ کے لئے ناگزیر ہوگیا تھا کہ کچھ بڑا کیا جائے تاکہ ہمارا مورال بلند ہو۔
21 دسمبر 1968 میں NASA نے Apollo 8 کے ذریعے تین خلا نورد چاند کے مدار میں بھیجے جو چاند کی سطح پر نہیں اترے۔ غالباً یہNASA کا پہلا جھوٹ تھا اور جب کسی نے اس پر شک نہیں کیا تو امریکہ نے پوری دنیا کو بے وقوف بناتے ہوئے انسان کے چاند پر اترنے کا یہ ڈرامہ رچایا اورہالی وڈ کے ایک اسٹوڈیو میں جعلی فلمیں بنا کر دنیا کو دکھا دیں۔ اپولو 11 جو 16جولائی 1969 کو روانہ ہوا تھا درحقیقت آٹھ دن زمین کے مدار میں گردش کر کے واپس آ گیا۔
1994 میں Andrew Chaikin کی چھپنے والی ایک کتاب A Man on the Moon میں بتایا گیا ہے کہ ایسا ایک ڈرامہ رچانے کی بازگشت دسمبر 1968 میں بھی سنی گئی تھی۔
اب ان اعتراضات کی جانب آتے ہیں جو سائنسدانوں نے اٹھائے ہیں۔
1- ناقدین ناسا کے سائنسدانوں کے عظیم شاہکار اپالو گیارہ کو ہالی وڈ کے ڈائریکٹروں کی شاندار تخلیق سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس سفر اور چاند پر انسانی قدم کو متنازعہ ماننے والوں کی نظر میں ناسا کی جانب سے جاری کی گئی تصاویر میں کئی نقائص ہیں، جن سے ایسا لگتا ہے کہ جیسے چالیس سال قبل انسان سچ مچ چاند پر نہیں پہنچا تھا۔
2۔اس سفر کی حقیقت سے انکار کرنے والوں کا خیال ہے کہ تصاویر میں خلانوردوں کے سائے مختلف سائز کے ہیں اور چاند کی سطح پر اندھیرا دکھایا گیا ہے۔
3۔ ان افراد کا یہ بھی کہنا ہے کہ چاند کی سطح پر لی گئی ان تصاویر میں آسمان تو نمایاں ہے مگر وہاں کوئی ایک بھی ستارہ دکھائی نہیں دے رہا حالانکہ ہوا کی غیر موجودگی اور آلودگی سے پاک اس فضا میں آسمان پر ستاروں کی تعداد زیادہ بھی دکھائی دینی چاہئے تھی اور انہیں چمکنا بھی زیادہ چاہئے تھا۔
4۔ ان لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ ناسا کی ویڈیو میں خلانورد جب امریکی پرچم چاند کی سطح پر گاڑ دیتے ہیں تو وہ لہراتا ہے جب کہ چاند پر ہوا کی غیر موجودگی میں ایسا ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔
5۔چاند کی تسخیر کو نہ ماننے والے ایک نکتہ یہ بھی اٹھاتے ہیں کہ اس ویڈیو میں ایک خلانورد جب زمین پر گرتا ہے تو اسے دوتین مرتبہ اٹھنے کی کوشش کرنا پڑتی ہے۔ چاند پر کم کشش ثقل کی وجہ سے ایسا ہونا خود ایک تعجب کی بات ہے۔
6۔زمین کے بہت نزدیک خلائی مداروں میں جانے کے لیئے انسان سے پہلے جانوروں کو بھیجا گیا تھا اور پوری تسلی ہونے کے بعد انسان مدار میں گئے لیکن حیرت کی بات ہے کہ چاند جیسی دور دراز جگہ تک پہنچنے کے لئے پہلے جانوروں کو نہیں بھیجا گیا اور انسانوں نے براہ راست یہ خطرہ مول لیا۔
7۔ کچھ لوگ یہ اعتراض بھی کرتے ہیں کہ اگر انسان چاند پر پہنچ چکا تھا تو اب تک تو وہاں مستقل قیام گاہ بن چکی ہوتی مگر معاملہ برعکس ہے اور چاند پر جانے کا سلسلہ عرصہ دراز سے کسی معقول وجہ کے بغیر بند پڑا ہے۔ اگر 1969 میں انسان چاند پر اتر سکتا ہے تو اب ٹیکنالوجی کی اتنی ترقی کے بعد اسے مریخ پر ہونا چاہیے تھا مگر ایسا نہیں ہے۔ ناسا کے مطابق دسمبر 1972 میں اپولو 17 چاند پر جانے والا آخری انسان بردار خلائی جہاز تھا۔ یعنی 1972 سے یہ سلسلہ بالکل بند ہے ۔
8۔ چاند پر انسان کی پہلی چہل قدمی کی فلم کا سگنل دنیا تک ترسیل کے بعد
slow scan television -SSTV
فارمیٹ پر اینالوگ Analog ٹیپ پر ریکارڈ کیا گیا تھا۔ ان ٹیپ پر ٹیلی میٹری کا ڈاٹا بھی ریکارڈ تھا۔ عام گھریلو TV اس فارمیٹ پر کام نہیں کرتے اسلیئے 1969 میں اس سگنل کو نہایت بھونڈے طریقے سے عام TV پر دیکھے جانے کے قابل بنایا گیا تھا۔ اب ٹیکنالوجی اتنی ترقی کر چکی ہے کہ ایسے سگنل کو صاف ستھری اور عام TV پر دیکھنے کے قابل تصویروں میں بدل دے۔ جب ناسا سےSSTV کے اصلی ٹیپ مانگے گئے تو پتہ چلا کہ وہ ٹیپ دوبارہ استعمال میں لانے کے لئے مٹائے جا چکے ہیں یعنی اس ٹیپ پر ہم نے کوئی اور وڈیو ریکارڈ کردی ہے۔ اورناسا آج تک اصلی ٹیپ پیش نہیں کر سکا ہے۔
9۔ اسی طرح چاند پر جانے اور وہاں استعمال ہونے والی مشینوں کے بلیو پرنٹ اور تفصیلی ڈرائنگز بھی غائب ہیں۔
ان لوگوں کا اصرار رہا ہے کہ ان تمام نکات کی موجودگی میں چاند کو مسخر ماننا ناممکن ہے اور یہ تمام تصاویر اور ویڈیوز ہالی وڈ کے کسی بڑے اسٹوڈیو کا شاخسانہ ہیں۔تو یہ کچھ اعتراضات تھے جن کے تسلی بخش جوابات دیتے ہوئے ناسا ہمیشہ سے کتراتا رہا ہے۔ جو اس نے جوابات دیئے بھی ہیں وہ بھی نامکمل اور غیرشعوری ہیں۔
#fakemoonlanding
#معلومات #عالمی_معلومات #دنیا_بھر_کی_معلومات #جہان_کی_تازہ_معلومات #دنیا_کی_تحریریں #عالمی_خبریں #دنیا_کی_تاریخ #جغرافیائی_معلومات #دنیا_بھر_کے_سفر_کی_کہانیاں #عالمی_تجارت #عالمی_سیاست #تاریخ #اردو #اردو_معلومات #اردوادب
#Infotainment #information #History #WorldHistory #GlobalIssues #SocialTopics #WorldPolitics #Geopolitics #InternationalRelations #CulturalHeritage #WorldCulture #GlobalLeadership #CurrentAffairs #WorldEconomy #Urdu
بہرحال ہر انسان کے سوچنے کا انداز مختلف ہوتا ہےمیرے موقف سے ہر ایک کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
2 notes · View notes
shiningpakistan · 25 days
Text
’عدلیہ وکٹری کے نشان والے ہجوم کے نرغے میں‘
Tumblr media
سنا ہے کوئی زمانہ تھا جب کوئی سینیئر قانون دان جج کی کرسی پر بیٹھتے ہی دنیا تیاگ دیتا تھا۔ اپنا سماجی حقہ پانی خود ہی بند کر لیتا۔ شادی، بیاہ، سالگرہ، برسی، جنازے اور سیمیناروں میں جانا حرام کر لیتا۔ سوائے گھر والوں، قریبی عزیزوں یا دو چار پرانے دوستوں کے کسی دور پرے کے رشتہ دار یا واقف کار سے ملنا گناہ سمجھتا۔ سنا ہے مائی لارڈ کی کسی بھی وکیل سے صرف کمرہِ عدالت میں ہی ملاقات ممکن تھی۔ ججز چیمبرز میں پیش کار، رجسٹرار یا نائب قاصد کے سوا تیسرا شخص داخل نہیں ہو سکتا تھا۔ جسے بھی کچھ کہنا سننا یا درخواست دینا مقصود ہو اس کے لیے عدالتی سیکرٹیریٹ کا نظام آج کی طرح کل بھی تھا۔ جج کا رابطہ اسی نظام کے توسط سے سرکار اور عوام سے رہتا تھا۔ جج کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ خود نہیں بولتا اس کے فیصلے بولتے ہیں۔ آج جب ہم اس طرح کے قصے سنتے ہیں تو یہ کوئی افسانہ یا سوشل ناول کا کوئی باب معلوم ہوتے ہیں۔ ہمارے باپ دادا نے ایسے جج ضرور دیکھے ہوں گے۔ ہم نے تو نہیں دیکھے۔
ہم نے تو عزت مآب کو ہر طرح کی تقریبات، کانفرنسوں، صحت افزا مقامات اور سب سے زیادہ ٹی وی چینلز کی پٹیوں میں دیکھا ہے۔ بھلا ہو میڈیائی کیمرے کے سحر کا کہ عدالتی کارروائی لائیو براڈ کاسٹ ہونے لگی۔ وکلا کو آستین چڑھاتے منھ سے تھوک نکالتے مائی لارڈ سے بدتمیزی کی سوشل میڈیا ویڈیوز دیکھی ہیں۔ لیک ہونے والی خفیہ ٹیپس سنی ہیں۔ خفیہ فلمیں افشا ہوتی دیکھی ہیں۔ توہینِ عدالت کو ایک پامال روایت بنتے دیکھا ہے۔ پلاٹوں اور بے نامی کاروبار سے لگنے والی چھوت کی بیماری دیکھی ہے، بے باک اور اصول پسند ججوں کا گھیراؤ اور کردار کشی کی مہم دیکھی ہے۔ اپنی اپنی پسند کے فیصلوں پر موکلوں کی جانب سے قصیدہ خوانی اور ناپسندیدہ فیصلوں پر جج کی ذات پر رکیک اور گھٹیا حملے دیکھے ہیں۔ نامعلوم سایوں کو ججوں، ان کے اہلِ خانہ اور جاننے والوں کو ہراساں کرتے سنا ہے اور ان کی نجی زندگی میں براہ راست مداخلت کی داستانیں خود ان ججوں کی زبانی سنی ہیں۔
Tumblr media
عدالتوں کے اکثر فیصلے یقیناً آج بھی منصفانہ اور معیاری ہوتے ہیں۔ مگر اس مطالبے کا کیا کیا جائے کہ میرا مقدمہ فلاں کے بجائے فلاں جج سنے۔ ان سرگوشیوں سے کیسے کان بند کریں کہ بس اس جج کو ریٹائر ہونے دو۔ اس کے بعد آنے والا معاملات سیدھے کر دے گا۔ کئی وکلا اور پیش کاروں کو پسندیدہ فیصلوں کے لیے دلالی کا دعوی کرتے سنا ہے۔ عمارت ایک دن میں نہیں گرتی۔ نہ ہی ایک ضرب سے گرتی ہے۔ مگر ہر ضرب اسے کمزور ضرور کرتی چلی جاتی ہے۔ بھلا کون سی ایسی سیاسی جماعت ہے جس نے برسراقتدار آ کر ججوں کو طرح طرح کی ترغیبات اور بعد از ریٹائرمنٹ پیش کشوں سے رجھانے کی کوشش نہ کی ہو۔ عدلیہ کے احترام کی تسبیح پڑھتے پڑھتے ہجوم اکھٹا کر کے انصاف کے ایوان پر چڑھ دوڑنے اور عدلیہ کو ’ساڈے تے پرائے‘ میں تقسیم کرنے کی کوشش نہ کی ہو۔ کون سی سرکار ہے جس نے عدلیہ کے ناپسندیدہ فیصلوں پر بھی بلا چون و چرا مکمل عمل کیا ہو۔ بلکہ ناپسندیدہ فیصلوں کو مسخ کرنے کے لیے آئین کو موم کی ناک بنا کر استعمال نہ کیا ہو۔
آخر ایسا کیا ہوا کہ اس زمین پر انصاف کی مقدس نشست پر بیٹھنے والی جس ہستی کو عام آدمی واقعی خدا کا نائب سمجھتا تھا۔ اب وہی آدمی شاید ہی کسی جج کو رول ماڈل سمجھتا ہو۔ سوچیے ایسے کروڑوں انسانوں کی تنہائی کا کیا عالم ہو گا جنھیں زمین پر انصاف کی آخری امید جج میں نظر آتی تھی اور اب اس کی پتھرائی ہوئی آنکھ صرف آسمان کی جانب ہی مرکوز ہے۔ عمارت ایک ضرب سے منہدم نہیں ہوتی۔ خود ججوں نے انصاف کے مندر کے ساتھ کیا کیا؟ پہلی کاری ضرب اندر سے جسٹس منیر کے نظریہِ ضرورت نے لگائی۔ اس نظریے نے آئینی حرام کو بیک قلم حلال قرار دے دیا۔ یہ نظریہ آج ستر برس بعد بھی شکل بدل بدل کے آئین کو بھوت کی طرح ڈراتا رہتا ہے۔ بھٹو کی پھانسی کا فیصلہ عدلیہ کے حلق میں آج بھی کانٹے کی طرح چبھ رہا ہے۔ نہ اُگلتے بنے نہ نگلتے بنے۔ کسی آمر کے کرسی پر متمکن ہوتے ہوئے کسی عدالت نے مارشل لا کو بالائے آئین شب خون قرار نہیں دیا گیا۔ یحییٰ خان اور پرویز مشرف کو بھی معزولی کے بعد غاصب ڈکلیئر کیا گیا۔ بلکہ ہر طالع آزما کو آئین سے کھلواڑ کا انعام عبوری آئینی حکم نامے کے تحت حلف اٹھا کے دیا گیا۔ 
غیر منظورِ نظر سیاسی حکومتوں کا باہم مل کے ہانکا کیا گیا اور منظورِ نظر کے سات گناہ بھی درگذر ہو گئے۔ اب یہ کوئی خبر نہیں کہ عدلیہ نے اپنی پنشنوں اور تنخواہوں میں ازخود کتنا اضافہ کر لیا۔ کتنے جج باقی ہیں جنھیں حاصل سرکاری مراعات و وسائل کا اہلِ خانہ استعمال نہیں کرتے۔ بہت عرصے سے یہ ��بر بھی تو نہیں آئی کہ کسی جج نے یہ ��راعات لینے سے صاف انکار کر دیا۔ زیریں سے اعلیٰ عدالتوں میں روزانہ کچھ نہ کچھ ہو رہا ہے مگر مقدمات کا انبار ہے کہ سال بہ سال بڑھتا ہی جا رہا ہے اور اس انبار کے سبب جنتا کے عدم اعتماد کا بوجھ بھی پہاڑ ہوتا جا رہا ہے۔ جب سب نے ریاستی استحکام کے نام پر عدم استحکام کے ہتھوڑوں سے اپنے ہی اداروں کو ضرب در ضرب کمزور کرنا شروع کر دیا تو پھر ہجوم بھی دلیر ہوتا چلا گیا۔ پارلیمنٹ بانجھ ہوئی تو فیصلے سڑک پر ہونے لگے۔ حتیٰ کہ غضب ناک ہجوم کے دباؤ کی تپش اعلیٰ عدالتوں کے کمروں میں محسوس ہو رہی ہے۔ 
اب تک ججوں کے فیصلوں پر جج ہی نظرثانی کرتے آئے ہیں۔ مگر یہ چلن بھی دیکھنا پڑ گیا ہے کہ اب ہجوم کے سرخیل ابھی اور اسی وقت فیصلے پر نظرِ ثانی کی دھمکی آمیز درخواست کرتے ہیں اور لجلجاتے کمرہِ عدالت میں اندر کے شور سے زیادہ باہر کھڑے ہجوم کے نعرے سنائی دیتے ہیں۔ مگر عدالت بھی خلا میں تو سماعت نہیں کرتی۔ عدالت کے پیچھے جب ریاست اور سماج کھڑا ہوتا ہے تو اس کے فیصلوں کا معیار ہی کچھ اور ہوتا ہے اور جب ریاست اور سماج بھی عدلیہ کو بے توقیری کی جانب دھکیلنے پر سڑک سے ہاتھ ملانے پر تل جائیں تو پھر عدالت اور جرگے میں تمیز کہاں رہتی ہے۔ ہم نے مسلسل ساڑھے سات دہائیوں تک زوال کو عروج تک پہنچانے کے لیے خوب محنت کی اور اب اس محنت کا ثمر ادارہ جاتی انہدام کی شکل میں اپنے سامنے دیکھ کر خود ہی وکٹری کا نشان بھی بنا رہے ہیں۔
خدا بچائے کس طرف مرا وطن چلا ہے یہ ابھی تو کچھ نہیں ہوا ابھی تو ابتدا ہے یہ ( حمایت علی شاعر )
وسعت اللہ خان
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
iman-inspire786 · 2 months
Video
youtube
کیا واقعی 3 وقت قرآن پڑھنا منع ہ|क्या वास्तव में तीन समय कुरान पढ़ना मना...
0 notes
asliahlesunnet · 2 months
Photo
Tumblr media
جلسہ استراحت کے متعلق کیا حکم ہے؟ سوال ۲۵۱: جلسۂ استراحت کے بارے میں کیا حکم ہے؟ جواب :جلسۂ استراحت کے بارے میں علماء کے حسب ذیل تین اقوال ہیں: (۱) مطلقاً مستحب ہے۔ (۲) مطلقاً مستحب نہیں ہے۔ (۳)جس کے لیے سیدھا کھڑا ہونا مشکل ہو، وہ بیٹھ جائے اور جس کے لیے مشکل نہ ہو، وہ نہ بیٹھے۔ المغنی: ۱/۵۲۹ مطبوعہ دارالمنار میں، اس آخری قول کے بارے میں لکھا ہے کہ اس سے تمام احادیث میں تطبیق ہو جاتی ہے اور یہ ایک معتدل قول ہے اور اس کے بعد اگلے صفحہ میں حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی یہ روایت بیان کی ہے کہ فرض نماز میں یہ سنت ہے کہ جب آدمی پہلی دو رکعتوں سے اٹھے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو زمین پر نہ لگائے الایہ کہ بہت بوڑھا ہو جسے ہاتھوں کے سہارے کے بغیر کھڑا ہونے کی استطاعت نہ ہو، اس حدیث کو( اثرم) نے روایت کیا ہے۔[1]پھر انہوں نے لکھا ہے کہ حدیث حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ جس میں یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنے سر کو دوسرے سجدے سے اٹھایا تو سیدھے بیٹھ گئے اور پھر زمین پر ہاتھوں کو رکھا۔[2] تو یہ اس وقت پر محمول ہوگا، جب ضعف اور کبر سنی کی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سیدھا کھڑا ہونے میں مشقت محسوس ہوتی تھی کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ((اِنِّیْ قَدْ بَدَّنْت فلا تسبقونی بالرکوع ولا بالسجودُ)) (سنن ابن ماجہ، اقامۃ الصلوات، باب النہی ان یسبق الامام، ح: ۹۶۳ الارواء، ح: ۵۰۹۔) ’’رکوع وسجود میں مجھ سے جلدی نہ کرو… بے شک میں بڑی عمر کا ہوگیا ہوں۔‘‘ میرا میلان بھی اسی قول کی طرف ہے کیونکہ حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اس وقت حاضر ہوئے جب آپ غزوۂ تبوک کی تیاری فرما رہے تھے، اور اس وقت واقعی نبی صلی اللہ علیہ وسلم بڑی عمر کو پہونچ چکے تھے اور ضعف شروع ہوگیا تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے: ((لَمَّا بَدَّنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وَثَقُلَ کَانَ أَکْثَرُ صَلَا تِہِ جَالِسًا)) (صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، باب جواز النافلۃ قائما وقاعدا، ح: ۷۳۲ (۱۱۷)۔ ’’جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر بڑی اور وزن زیادہ ہوگیا تو آپ زیادہ تر بیٹھ کر نماز ادا فرماتے تھے۔‘‘ عبداللہ بن شقیق نے ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا تھا: کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر نماز ادا فرما لیا کرتے تھے؟ تو انہوں نے جواب دیا: ((نَعَمْ بَعْدَ مَا حَطَمَہُ النَّاسُ)) (صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، باب جواز النافلۃ قائما وقاعدا، ح: ۷۳۲ (۱۱۵)۔) ’’ہاں لوگوں کے آپ پر بھیڑ کرنے کے بعد (یعنی بڑی عمر ہونے کے بعد آپ بیٹھ کر نماز پڑھ لیا کرتے تھے۔‘‘) اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے: ((مَا رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم صَلَّی فِیْ سُبْحَتِہِ قَاعِدًا حَتَّی کَانَ قَبْلَ وَفَاتِہِ بِعَامٍ فَکَانَ یُصَلِّی فِی سُبْحَتِہِ قَاعِدًا)) (صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، باب جواز النافلۃ قائما وقاعدا… ح: ۷۳۳۔) ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نفل نماز بیٹھ کر پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا لیکن وفات سے ایک سال پہلے میں نے آپ کو نفل نماز بیٹھ کر پڑھتے دیکھا۔‘‘ ایک روایت میں الفاظ یہ ہیں: وفات سے ایک سال یا دو سال پہلے دیکھا۔ یہ تمام روایات صحیح مسلم میں ہیں اور اس مؤقف کی تائید اس بات سے ہوتی ہے کہ زمین پر سہارا لینے کا ذکر حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے اور کسی چیز کا سہارا بوقت ضرورت ہی لیا جاتا ہے۔ اس کی تائید حضرت عبداللہ بن بحینہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے بھی ہوتی ہے جو بخاری اور دیگر کتب میں موجود ہے کہ ((اَنَّ النَّبِیَّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم صَلَّی بِہِمُ الظُّہْرَ فَقَامَ فِی الرَّکْعَتَیْنِ وِ لَمْ یَجْلِسْ)) (صحیح البخاری، الاذان، باب من لم یر التشہد الاول واجبا… الخ، ح:۸۲۹ وصحیح مسلم، المساجد، باب السہو فی الصلاۃ… الخ‘ ح: ۵۷۰۔) ’’بے شک نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز پڑھائی تو آپ پہلی دو رکعتوں میں کھڑے ہوگئے اور بیٹھے نہیں۔‘‘ (وَلَمْ یَجْلِسْ) ’’اور بیٹھے نہیں‘‘ کے الفاظ عام ہیں۔ جلسۂ استراحت کو انہوں نے مستثنیٰ نہیں کیا اور یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ جس بیٹھنے کی نفی کی گئی ہے، اس سے تشہد میں بیٹھنا مراد ہے، مطلق بیٹھنا مراد نہیں ہے۔[1] واللّٰہ اعلم فتاوی ارکان اسلام ( ج ۱ ص ۲۸۰، ۲۸۱، ۲۸۲ ) #FAI00194 ID: FAI00194 #Salafi #Fatwa #Urdu
0 notes
googlynewstv · 15 days
Text
کیا واقعی نئے عبوری سیٹ اپ کے لیے تیاریوں کا آغاز ہو گیا ہے؟
معروف لکھاری اور تجزیہ کار کنور محمد دلشاد نے کہا ہے کہ معیشت کو سنبھالنے اور ملکی کو صحیح ڈگر پر ڈالنے کے لیے فیصلہ ساز ایک عبوری انتظامی سیٹ اپ پر کام کر رہے ہیں جس کا سربراہ بنگلہ دیش ماڈل کی طرز پر ایک چیف ایڈوائزر ہو گا۔ ان کا کہنا ہے کہ اگلے عبوری سیٹ اپ میں نگران وزیراعظم اور وزیراعلیٰ جیسے عہدوں کے نام تبدیل کر دے جائیں گے اور قابل اور دیانت دار افراد کو عوام کی خدمت کا موقع دیا جائے گا۔…
0 notes
music-beateeeee · 5 months
Text
امداد خودرو کیا
امداد خودرو کیا معمولاً توسط نمایندگی ها و مراکز خدمات پس از فروش کیا ارائه می شود. این خدمات شامل کمک رسانی در واقعی وضعیت وضعیت های اضطراری مانند خرابی خودرو، تعمیرات فنی، تعویض لاستیک، ارسال سوخت یا کمک در مواقع قفل شدن کلید در داخل خودرو و … می شود.
برای استفاده از خدمات امداد خودرو کیا، می‌توانید با شماره تماس نمایندگی‌ها یا مراکز خدمات پس از فروش کیا تماس بگیرید و درخواست کمک امدادی خود را اعلام کنید. همچنین، برخی از شرکت‌های بیمه نیز خدمات امداد خودرو را در بیمه‌نامه خود ارائه می‌دهند که می‌توانید از آن‌ها نیز استفاده کنید.
اگر سوال یا درخواست دیگری دارید که بی‌کمکی کنم، خوشحال می‌شوم کمک کنم.
0 notes
0rdinarythoughts · 2 years
Text
تم سوچو!!اگر واقعی کوئی ایسا آدمی ہم سے بچھڑ جائے ، جس کے ساتھ زندگی گزارنے کو جی چاہتا تھا ، تو اُس کے فراق کی دیوانگی ہمیں کیا کچھ کرنے پر مجبور نہیں کر سکتی ؟؟
You think!!
If a person really leaves us, with whom we wanted to spend our life, can't the madness of his separation force us to do anything??
Amrita Preetam
15 notes · View notes
nuktaguidance · 5 months
Link
حفظ بھول جانا واقعی بہت بڑا گناہ ہے؟ حفظ قرآن بھولنے کے ڈر سے حفظ نہ کرنا سید عبدالوہاب شیرازی کچھ دن پہلے سوشل میڈیا کے کسی پلیٹ فارم پر ایک پوسٹ نظر سے گزری جس میں کہا گیا تھا کہ اگر آپ کا بچہ ذہین اور قابل ہے تو اسے حفظ قرآن شروع کروائیں اور اگر وہ ذہین اور قابل نہیں ہے تو اسے ہرگز ہرگز حفظ قرآن شروع نہ کروائیں ورنہ سخت گناہ گار ہوں گے، میرے خیال میں یہ سوچ باالکل غلط ہے بلکہ اسے شیطانی حیلہ بازی کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔۔ حفظ قرآن کو بھولنے پر بطور وعید ۔۔۔۔ https://www.nuktaguidance.com/%da%a9%db%8c%d8%a7-%d8%ad%d9%81%d8%b8-%d8%a8%da%be%d9%88%d9%84-%d8%ac%d8%a7%d9%86%d8%a7-%d9%88%d8%a7%d9%82%d8%b9%db%8c-%d8%a8%db%81%d8%aa-%d8%a8%da%91%d8%a7-%da%af%d9%86%d8%a7%db%81-%db%81%db%92
0 notes
apnabannu · 6 months
Text
کیا دیسی انڈہ واقعی فارم کے انڈے سے زیادہ غذائیت کا حامل ہوتا ہے؟
http://dlvr.it/T52sTS
0 notes