#ریاستی رٹ
Explore tagged Tumblr posts
Text
کیا واقعی بلوچستان میں ریاستی رٹ ختم ہوچکی ہے؟
بلوچستان میں قومی پرست عسکریت پسند تنظیموں کی جانب سے دہشت گردی میں خوفناک حد تک اضافے کے بعد اب یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں ریاست کی رٹ واقعی ختم ہو چکی ہے۔ اس سوال میں شدت تب آئی جب جنرل مشرف کے حکم پر ایک فوجی دستے کے ہاتھوں شہید ہونے والے بلوچ قومی پرست نواب اکبر بگٹی کی 18ویں برسی پر بلوچستان کے 11 اضلاع میں ایک ہی دن دہشت گردی کے درجنوں بھر سے ذیادہ واقعات…
0 notes
Text
قومی سلامتی کمیٹی اجلاس، ریاستی رٹ کو ہر حال میں قائم کرنے کا فیصلہ
قومی سلامتی کمیٹی اجلاس، ریاستی رٹ کو ہر حال میں قائم کرنے کا فیصلہ
اسلام آباد: و��یراعظم عمران خان کی زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں ٹی ایل پی احتجاج سے متعلق صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔ اجلاس میں وفاقی وزرا، اعلیٰ عسکری حکام اور انٹیلی جنس سربراہان شریک ہوئے اور کالعدم تنظیم کی سرگرمیوں سے پیدا ہونے والی صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔اجلاس کے بعد وزیر داخلہ شیخ رشید نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مذکرات کے دروازے بند نہیں کئے ، تاہم ریاست کی رٹ کو…
View On WordPress
0 notes
Text
وہ جو اس معاہدہ سے خوش نہیں
حکومت اور مظاہرین کے درمیان معاہدہ کی صورت میں امن بحال ہوا اور پاکستان کے طول و عرض میں لوگوں نے سکھ کا سانس لیا لیکن لبرلز اور سیکولرز میں موجود ایک طبقہ اس صورتحال سے خوش نہیں۔ تحریکِ انصاف کی حکومت میں شامل کچھ افراد جن میں چند وزراء بھی شامل ہیں، بھی اس معاہدہ پر اپنے اپنے انداز میں نکتہ چینی کر رہے ہیں۔ میڈیا میں موجود اسی طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد بہت غصہ میں دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ وہی طبقہ ہے جو جنرل پرویز مشرف پر لال مسجد پر آپریشن کے لیے دبائو بڑھاتا رہا اور رٹ آف دی گورنمنٹ کے نام پر ’’مارو مارو‘‘ کے نعرے لگاتا رہا۔ مشرف نے اس طبقہ کے دبائو میں بیوقوفی کی مگر جب آپریشن کر دیا گیا تو پھر اسی طبقہ نے عوامی پریشر کو دیکھتے ہوئے ’’مار دیا، مار دیا‘‘ کے نعرے لگانا شروع کر دئیے اور یوں لال مسجد آپریشن ایک طرف پاکستان میں دہشت گردی اور شدت پسندی کی بہت بڑی وجہ بن کر سامنے آیا تو دوسری طرف اس کارروائی نے جنرل مشرف کی ڈکٹیٹر شپ کو بہت کمزور کر دیا۔
سپریم کورٹ کی طرف سے آسیہ مسیح کی سزائے موت کے فیصلہ کو ختم کرنے کے نتیجہ میں پاکستان بھر میں غم و غصہ کا ایک ردعمل سامنے آیا اور دیکھتے ہی د��کھتے پورے پاکستان کو مظاہرین نے جام کر دیا۔ اس دوران پُرتشدد واقعات بھی ہوئے، لوگوں کی املاک کو نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ کچھ افراد کی جانیں جانے کی بھی خبریں ملیں اور مظاہرین کے رہنمائوں نے کچھ قابل اعتراض باتیں بھی کیں جن کا میڈیا نے تو بلیک آئوٹ کیا لیکن وزیراعظم صاحب نے سب کچھ عوام کے سامنے کھول کر رک�� دیا جس پر کافی تنقید ہوئی۔ وزیراعظم عمران خان نے اس موقع پر قوم سے خطاب کیا اور ایک ایسی جوشیلی تقریر کی جو حکمت سے عاری تھی۔ اس میں مظاہرین سے سختی کے نمٹنے کے اشارے تھے۔
ایک مخصوص سیکولر اور لبرل طبقہ نے عمران خان کی تقریر کو خوب سراہا اور مظاہرین سے سختی سے نمٹنے کی حمایت کی لیکن حکومت اور ریاستی اداروں میں ایسے افراد بھی تھے جن کو اس بات کی خوب سمجھ تھی کہ ناموسِ رسالتؐ کے لیے جمع مظاہرین کے خلاف فورس کے استعمال اور آپریشن سے حالات مزید خراب ہو جائیں گے اور ایک ایسی آگ پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے جسے بجھانا کوئی آسان کام نہیں ہو گا۔ اللہ تعالیٰ کا شکر کہ فریقین کے درمیان ایک معاہدہ طے پا گیا اور یوں پاکستان میں امن کی بحالی ممکن ہوئی۔ لیکن اب حکومت کے اندر اور حکومت سے باہر موجود لبرلز اور سیکولرز کا ایک مخصوص طبقہ حکومت پر خوب طعنہ زنی میں مصروف ہے۔
یہ طبقہ اعتراض کر رہا ہے کہ مظاہرین سے معاہدہ کیوں کیا گیا۔ میں ذاتی طور پر کسی بھی پُرتشدد مظاہرے کے حق میں نہیں، وہ چاہے کل ہو رہے تھے (جن کا تحریک انصاف حصہ تھی) یا آج ہو رہے ہیں۔ ہمارا دین بھی دوسروں کے جان و مال کی حفاظت کو بہت اہمیت دیتا ہے۔ میری سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ خصوصاً دینی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے رہنمائوں اور اُن کے پیروکاروں سے درخواست ہے کہ اختلاف اور احتجاج کرتے وقت اسلامی اصولوں کو مدنظر رکھا جائے بلکہ حکومت و ریاست اور سیاسی و دینی جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ افراد کی اسلامی اصولوں کے مطابق تربیت اور کردار سازی کریں تاکہ ہم اچھے مسلمان اور اچھے انسان پیدا کر سکیں۔
اس قسم کے تشدد کو کسی مذہبی جماعت سے جوڑنا بھی انصاف نہیں ہو گا۔ جب بے نظیر بھٹو کو شہید کیا گیا تو پورے ملک میں جلائو، گھیرائو ہوا، کھربوں روپے کی پراپرٹیز کا نقصان ہوا گویا ہمیں اصولوں کی بنیاد پر غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح کہنا چاہئے۔ تحریکِ لبیک کے رہنمائوں کی طرف سے وزیر اعظم، آرمی چیف اور سپریم کورٹ کے تین ججوں کو جو دھمکیاں دی گئیں، اُن کی کسی صورت بھی حمایت نہیں کی جا سکتی لیکن ہمارے لبرل اور سیکولر بھائیوں کو کون سمجھائے کہ اگر تحریکِ لبیک کے رہنمائوں کا ایسا کہنا غلط ہے تو پھر پشتون تحریک موومنٹ کے اسٹیج سے فوج اور ریاست کے خلاف لگنے والے نعرے بھی تو غلط ہیں۔ لیکن پی ٹی ایم کا تو یہ طبقہ پاکستان میں سب سے بڑا حمایتی ہے۔
اسی طرح بلوچ علیحدگی پسندوں کی ریاست، فوج اور ��داروں کے خلاف ہر بات کو یہ طبقہ نظر انداز (Ignore) کر دیتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف سپریم کورٹ کے پھانسی کے فیصلہ کو یہی طبقہ نہ صرف رد کرتا ہے بلکہ اسے جوڈیشل قتل گردانتا ہے لیکن آسیہ مسیح کے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلہ پر اعتراض کرنے اور اسے رد کرنے والوں کو یہ طبقہ ہدفِ تنقید بناتا ہے۔ سوشل میڈیا پر یہ طبقہ #IStandWithSupremeCourtاور #ReleaseAsia کی کمپین چلا رہا ہے لیکن جب پاکستان کی عدالتوں (پہلے ایڈیشنل سیشن جج اور پھر لاہور ہائی کورٹ) نے آسیہ بی بی کو سزائے موت کی سزا سنائی تو اُس وقت اس طبقہ کی مہم آسیہ مسیح کے حق اور عدلیہ کے خلاف تھی۔ بہرحال اب معاہدہ ہو گیا ہے، میری فریقین سے درخواست ہو گی کہ اس معاہدہ پر دونوں ایمانداری کے ساتھ عمل کریں اور کسی طبقہ کی طرف سے، کسی بھی قسم کے دبائو اور پروپیگنڈہ کا شکار نہ ہوں۔ جہاں تک آسیہ مسیح کا نام ECL میں ڈالنے اور سپریم کورٹ کے فیصلہ کے خلاف ری ویو پٹیشن دائر کرنے کے معاملات ہیں تو ان پر تو حکومت پیچھے ہٹنے کا رسک نہیں لے سکتی اور نہ اُسے ایسا کرنا چاہئے کیونکہ یہ معاملہ بہت نازک ہے۔ جہاں تک اُن افراد کے خلاف کارروائی کا معاملہ ہے جنہوں نے توڑ پھوڑ کی تو اُنہیں حکومت کو ضرور پکڑنا چاہئے، اگر معاہدہ میں اس کے برعکس کوئی اتفاق نہیں ہوا۔ اصولاً لوگوں کی جان و مال کو نقصان پہنچانے والوں کو ایسے معاہدوں کے ذریعے رعایت نہیں دینی چاہیے لیکن جیسا کہ میں اوپر ذکر کر چکا کہ اس مسئلے کا اصل حل افراد اور معاشرہ کی اسلامی اصولوں کے مطابق تربیت اور کردار سازی ہے، جس پر کسی کی کوئی توجہ نہیں۔
انصار عباسی
2 notes
·
View notes
Text
ریاستی رٹ کے تحفظ پر حکومت، سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ ایک
ریاستی رٹ کے تحفظ پر حکومت، سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ ایک
اسلام آباد: حکومت اور سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ ریاست کی رٹ کے تحفظ کے لیے پرعزم ہیں اور سیاسی مقاصد کے لیے کسی بھی گروپ کی جانب سے تشدد کے استعمال کے سامنے نہیں جھکیں گے، یہ بات سینئر سیکیورٹی اور سرکاری حکام نے جمعہ کو دیر گئے ایک میڈیا بریفنگ میں بتائی۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب میں ابھرتی ہوئی صورتحال جہاں کالعدم تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) نے مرکزی سڑکوں کو بند کر رکھا ہے، کسی بھی سیاسی اختلافات سے…
View On WordPress
0 notes
Text
اسقاط حمل فراہم کرنے والے سپریم کورٹ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ٹیکساس کے محدود قانون کو چیلنج کرے۔
اسقاط حمل فراہم کرنے والے سپریم کورٹ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ٹیکساس کے محدود قانون کو چیلنج کرے۔
ایک مظاہرین نے امریکی سپریم کورٹ کے باہر اسقاط حمل کا جھنڈا اٹھا رکھا ہے کیونکہ ججز ریپبلکن کے حمایت یافتہ لوزیانا قانون کی قانونی حیثیت پر اسقاط حمل کے ایک بڑے کیس کی سماعت کرتے ہیں جو کہ اسقاط حمل کے ڈاکٹروں پر پابندیاں عائد کرتا ہے۔
ٹام برینر | رائٹرز
اسقاط حمل فراہم کرنے والوں اور وکالت کرنے والوں کا ایک گروپ۔ سپریم کورٹ نے پوچھا جمعرات کو ٹیکساس میں اسقاط حمل کے انتہائی محدود قانون کے چیلنج کا فوری جائزہ لینے کے لیے ، جو چھ ہفتوں کے بعد زیادہ تر اسقاط حمل پر پابندی عائد کرتا ہے۔
وہ قانون ، جو پرا��یویٹ شہریوں کو اسقاط حمل میں کسی کی مدد کرنے یا پالنے والے کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کی بھی اجازت دیتا ہے ، یکم ستمبر سے نافذ ہوا۔.
ایک ___ میں 5-4 فیصلہ اس دن ، قدامت پسند جھکاؤ والی سپریم کورٹ۔ قانون کو روکنے کی ہنگامی درخواست مسترد کر دی۔، قانون کی آئینی حیثیت کے بارے میں کوئی فیصلہ نہ کرتے ہوئے طریقہ کار کے سوالات پر توجہ مرکوز کرنا۔
ٹیکساس میں مریض اب ہیں۔ مبینہ طور پر دوسری ریاستوں میں فرار طریقہ کار کے لیے – اگرچہ وکلاء نوٹ کرتے ہیں کہ بہت سی خواتین کے پاس نئی پابندیوں سے بچنے کے ذرائع نہیں ہیں۔
ٹیکساس کے قانون کو عارضی طور پر روکنے کے لیے دوبارہ کوشش کرنے کے بجائے ، جمعرات کی پٹیشن نے سپریم کورٹ سے کہا کہ وہ ان کے کیس پر نظرثانی کی درخواست دے۔ یہ طریقہ کار ، جسے سرٹیفکیشن کی رٹ کہا جاتا ہے ، عام طور پر نچلی عدالت میں فیصلے کے بعد دائر کیا جاتا ہے۔
لیکن اسقاط حمل کے حقوق کے حامیوں نے اپنی تازہ کوشش میں ہائی کورٹ سے اپیل کورٹ میں حتمی فیصلے کا انتظار کرنے کے بجائے اس کیس کو جلدی اٹھانے کو کہا ، جہاں وہ کہتے ہیں کہ “تحریر دیوار پر ہے” حالانکہ معاملہ زیر التوا ہے۔
“دریں اثنا ، ٹیکساس بحران میں ہیں ،” انہوں نے درخواست میں لکھا۔ “عام لوگوں کی طرف سے لامحدود قانونی چارہ جوئی کے خطرے کا سامنا ہے اور اگر وہ پابندی کی خلاف ورزی کرتے ہیں تو تباہ کن ذمہ داری کے امکان کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، اسقاط حمل فراہم کرنے والے مجبور ہو گئے ہیں۔”
درخواست میں کہا گیا ہے کہ قانون بہت سی حاملہ خواتین کو سینکڑوں میل کا سفر پڑوسی ریاستوں میں کرنے پر مجبور کرتا ہے ، جہاں فراہم کرنے والے مریضوں میں اضافے اور ہفتوں کے بیک لاگ سے دوچار ہیں۔ پٹیشن میں کہا گیا ہے کہ اگر بہت سے دوسرے افراد کے پاس پیسے ، وقت یا اپنی ذمہ داریوں کو روکنے کی ��لاحیت نہیں ہے ، یا اگر وہ اپنے شراکت داروں یا خاندانوں سے انتقامی کارروائی کا خوف رکھتے ہیں تو وہ یہ ٹریک نہیں کر سکتے۔
پٹیشن کے مطابق ، “ان تمام افراد کو طبی امداد کے بغیر اسقاط حمل پر آمادہ کرنے کے طریقے تلاش کرنا ہوں گے ، کیونکہ اب رپورٹس سے پتہ چلتا ہے کہ زیادہ ٹیکسیان کر رہے ہیں۔”
وکلاء نے تسلیم کیا کہ سپریم کورٹ شیڈو ڈاکٹ فیصلہ انہیں ریاستی عدالت میں قانون کے خلاف مقدمہ دائر کرنے سے منع نہیں کیا۔ لیکن انہوں نے استدلال کیا کہ مٹھی بھر مقدمات جو وہاں زیر التوا ہیں “ریاستی عدالت کے نظام سے گزرنے میں مہینے لگ سکتے ہیں ، سال نہیں تو ریاستی سطح پر راحت فراہم کرنے سے پہلے۔”
درخواست میں کہا گیا ہے کہ “عدالت کو فوری طور پر پیش کیے گئے سوال کو حل کرنے کے لیے کام کرنا چاہیے ، بریفنگ اور دلیل کے فائدے کے ساتھ جو کہ ناممکن تھا جب درخواست گزاروں نے اپنی ہنگامی درخواست دائر کی۔”
. Source link
0 notes
Text
وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ مغرب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بے عزتی پر پابندی لگائے
وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ مغرب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بے عزتی پر پابندی لگائے
وزیر اعظم عمران خان نے ہفتہ کے روز مغربی حکومتوں سے مطالبہ کیا کہ ہولوکاسٹ کے بارے میں کسی بھی منفی تبصرے کو کالعدم قرار دینے کے لئے انہی معیارات کو استعمال کرنے کے لئے کالعدم قرار دیں جو حضور نبی اکرم (ص) کو گالی گلوچ کرکے جان بوجھ کر مسلمانوں کے خلاف نفرت کا پیغام پھیلاتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ حکومت نے تحریک لبیک پاکستان کے خلاف کارروائی کے بعد جب اس کے ممبران نے ریاستی رٹ کو چیلنج…
View On WordPress
0 notes
Text
ٹی ٹی پی کی خفیہ فنڈنگ کیخلاف پشاور ہائیکورٹ میں درخواست دائر
ٹی ٹی پی کی خفیہ فنڈنگ کیخلاف پشاور ہائیکورٹ میں درخواست دائر
کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کے ریاستی اداروں کی تحویل سے فرار اور ماضی میں سیاسی جماعت کی طرف سے تحریک طالبان پاکستان کی خفیہ فنڈنگ کیخلاف پشاور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کر دی گئی ہے۔ معروف صحافی شاہد اورکزئی کی طرف سے دائر درخواست میں احسان اللہ احسان، سابق وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان اور وفاقی حکومت کو فریق بنایا گیا ہے۔ پشاور ہائیکورٹ میں دائر کی گئی رٹ…
View On WordPress
0 notes
Photo
ریاست پاکستان کی پشتون اولاد – عبدالروف یوسفزئی ہندوستان کی تقسیم اور پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد سے چھوٹے صوبوں کے لوگوں کو روز اول سے ہی پنجابی اور ملٹری بیوروکریسی نے دبایا ہوا ہے۔ سفید چمڑی والے آقا سے تو چھٹکارا مل گیا مگربراؤن اشرافیہ نے کبھی بھی چھوٹی اقوام کو آگے نہیں آنے دیا۔ مذہب کے نام پر بننے والی ریاست میں ہمیشہ سے اقلیت اور کمزوروں کا استحصال بھی اسی نام پرہورہا ہے۔ مملکت خداداد میں مذہب صرف سیاسی اور ذاتی مفادات کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ اگرچہ اس ہوم میڈ تھیوری کو شیخ مجیب نے توڑا بھی ہے لیکن پالیسی میکرز ہمیشہ ’’پاکستان تا قیامت رہے گا‘‘کی رٹ لگائے ہوئے ہیں۔ گزشتہ چالیس سال سے پشتون ریجن میں جنگی اقتصاد کا کھیل خطرناک حد تک کھیلا گیا جوکہ اب بھی کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے۔ تقسیم کے ایک سال بعد چارسدہ میں خدائی خدمت گاروں کے پرامن جلوس پراس وقت کے سلیکٹیڈ وزیر اعلی قیوم خان کے حکم پر سینکڑوں پشتونوں کو قتل کیا گیا۔ باچا خان انگریز سرکار کے دور میں 14 جبکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں تقریبا17 سال جیلوں میں رہے، ہری پور جیل میں تو باقاعدہ باچاخان کا ایک کمرہ ہوا کرتا تھا اور ریاستی جبر کی یہ نشانی بعد میں مردان یونیورسٹی کے طالب علم مشال خان قتل پیروی کے لئے کمرہ عدالت میں تبدیل کیا گیا۔ ریاستی جبر کا سلسلہ رکا نہیں ہے آج بھی جوان نسل کے پشتون ممبرز قومی اسمبلی محسن داوڑ اور علی وزیر سمیت کئی انسانی حقوق کی بات کرنے والے باچاخان کے کمرے کی پڑوس میں ہیں۔ سرخ پوشوں نے جب بھی آئین کی بالادستی کے لئے آئین توڑنے والے جرنیلوں کے خلاف آواز اٹھائی تووہ غدار ٹہرے اور جب جنگ کے خلاف بولے توپشتون قیادت پرغیر مسلم ہونے کے فتوے لیکن وقت نے پرامن فلسفے کے پیروکاروں کو درست ثابت کردیا۔ دہشت گردوں کے خلاف حالیہ جنگ خصوصی طور پر پشتون علاقوں میں لڑی گئی، ہزاروں تو تاریک راہوں میں مارے گئے اور لاکھوں کی تعداد میں لوگ سالہا سال شدید گرمیوں اور کپکپاتی سردیوں میں آئی ڈی پیز کیمپوں میں دن گزار رہے تھے۔ ملٹری آپریشنز کے بعد فوج نے اعلان کیا کہ ہم نے دہشت گردوں کی ریڑھ کی ہڈی توڑ دی مگر پھر بھی پیرالائزڈ دہشت گرد کبھی کبھی نمودار ہوجاتے ہیں۔ جنگ زدہ علاقوں کا کنٹرول جب پاکستانی فوج نے سنبھالنا شروع کیا تو مقامی سطح پر سپاہیوں کی غیر قانونی طور لوگوں کو تنگ کرنے کا سلسلہ ختم ہونے والا نہیں تھا تو پشتون تخفظ موومنٹ کی شکل میں مزاخمتی تحریک نے جنم لیا جس نے خوف کے ماحول کو کافی حد تک ختم کردیا حتی کہ شکایتیں اعلیٰ فوجی حکام کو جوانوں نے میٹنگز میں بھی بتائیں اور بہت حد تک سپاہیوں کی رویہ میں نرمی بھی لائی گئی۔ حالیہ دنوں میں چند واقعات ایسے پیش آئے جنہیں ہضم کرنے کے لئے ماضی کو بھولنا پڑے گا جو ممکن نہیں ہے۔ خیسور میں جس طرح فوجی جوانوں نے چادر اور چاردیواری کی دھجیاں کئی مرتبہ اڑائیں مقامی لوگ جب واقعہ کو سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا کے سامنے لے آئے اور بعد میں انٹرنیشنل میڈیا نے بھی خبر کو خوب اچھالا اور بالاخرمقامی فوجی کمانڈر نے گھر کا دورہ کرکے پشتو زبان میں ولولہ انگیز تقریر بھی کی تو معاملہ کچھ رفع دفع ہوگیا۔ خڑقمر کا بدترین واقعے میں تو احتجاج کرنے والوں پر گولیاں چلائی گئیں جس میں درجن بھر کے قریب جوان جاں بحق ہوئے مگر کمال ہے کہ اتنے بڑے حادثے کے متعلق کسی نے انکوائری تک کی بات نہیں کی۔ ریاستی اداروں نے مل کر مرنے والوں کو جیل میں بند کیا۔ کفر کا معاشرہ تو قائم رہ سکتا ہے۔ مگر ظلم کا نہیں (حضرت علی) مومند ضلع میں جب ایک اور واقعہ نے ہمارے سر شرم سے جھکا دیئے ایک قوم کے محافظ کو خاتون نے اس وقت ڈھیر کر دیا جب وہ گھر کے اندر گھسنے کی کوشش کر رہا تھا جس کا ذکر بعد میں اپنے لوگوں نے ان الفاظ کے ساتھ کیا تھا کہ وہ اپنے انجام کو پہنچ چکا ہے۔ اور اب وزیرستان کا تازہ ترین واقعہ جس میں مبینہ طور پر ایک باوردی جوان کو مقامی لوگوں نے ماردیا۔ فائرنگ کے اس واقعہ میں دو بھائی بھی مر گئے۔ فوجی شعبہ تعلقات عامہ نے کہا کہ دہشتگردوں کے ساتھ لڑائی میں جوان مرگیا۔ مگر مقامی لوگوں نے مرنے والے دونوں بھائیوں کی لاشیں رکھ کر احتجاج شروع کیا۔ گاؤں والوں کے موقف کو کسی بھی پاکستانی اخبار نے شائع تک نہیں کیا۔ مرنے والوں نے کہا کہ دہشت گرد احتجاج نہیں جلدی سے تدفین کرتے ہیں۔ لوگوں نے الزام لگایا کہ شام کے بعد نامعلوم افراد مقامی گھروں میں پتھر پھینکتے ہیں اور گاؤں والوں کو پکڑ کر مارتے بھی ہیں۔ وزیرستان میں اب چونکہ فوج عملا ہر چیز کو کنٹرول کرتی ہے تو وزیر اعلی خیبر پختوںخوا جو صوبے کا چیف ایگزیکٹیو ہے اور کورکمانڈر پشاور کی ذمہ داری بنتی ہے کہ متعلقہ علاقوں کے آفیسرز کو سزا دیں تاکہ ایک مثال قائم ہو سکے۔1971 ء کی خانہ جنگی کی شروعات کے دنوں اور حالیہ دور میں بھی اس طرح کے اور بھی بہت سے واقعات رونماہوئے جنہیںکولیٹرل ڈیمج کے نام پر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے دفن کردیا گیا ہے۔ پاکستانی فوج ایک مغزز اور معتبر ادارہ ہے جس کے لئے ہر پاکستانی خون پسینے کی کمائی سے ٹیکس ادا کرتا ہے اس طرح کے واقعات کو دوسرا رنگ دینے سے ایک خاص وقت میں تو مسائل کو کارپٹ کے نیچھے دبایا جا سکتا ہے مگر تاریخ کے اوراق میں اس جیسے سیاہ داغ تا ابد ہمارا پیچھا کریں گے۔ چند ماہ سے پاک فوج پشتون نوجوان کو سینے سے لگانے کی کوشش میں بھی لگی ہوئی ہے مختلف پروگرامز میں ان کو مدعو کیا جاتاہے ان کو سنا جاتا ہے آئی ایس پی آر چند ہفتوں بعد یگانگت کی ایک تصویر بھی میڈیا کو جاری کرتا ہے۔ مگرایک بے ہودہ واقعہ جب رونما ہوتا ہے تو تمام مثبت کوششوں پرصرف ایک بندہ پانی پھیرلیتا ہے اور جوانوں کی احساس بیگانگی میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ اس میں بھی کوئی دو آرا نہیں ہیں کہ یہ عمل انفرادی ہوتا ہے جب تک ادارہ قانون شکن فرد کا دفاع نہیں کرتا۔ قانون توڑنے والوں کا کورٹ مارشل اور بعد میں کارروائی، نام اور فوٹو کے ساتھ اخبارات میں شائع ہونی چاہیے۔ مسئلہ میں تناؤ اور بگاڑتب آتا ہے جب ادارے کے دوست غیر قانونی عمل کا دفاع کرنے لگتے ہیں۔ جھوٹ بولنے سے معاشرے اور اداروں میں احتساب اور قانون کی حکمرانی کا عمل ٹہرجاتا ہے جہاں سے زوال شروع ہوجاتا ہے۔ پاکستانی فوج کوئی دوسری مخلوق نہیں بلکہ ایک ادارہ ہے، اس کے آفیسرز بھی ہماری طرح کے انسان ہیں ان سے بھی غلطیاں سرزد ہوتی ہیں۔ اگر کامیابیوں پر فوجی آفیسرز کو انعامات سے نوازا جاتا ہے جن کی ویڈیوز ٹی وی چینلز پر جب کہ خبر سمیت تصاویر اخبارات کی زینت بنتی ہیں تو ادارے میں جزا کے ساتھ سزا کا بھی اوپن عمل ضروری ہے۔ اخبارات میں روزانہ تین تین کالمز کی خبر سے امیج تو عوام کی آنکھوں میں بہتر بنایا جاسکتاہے مگر ضمیر کو مطمئن کرنے کے لئے اصول اور انصاف پرمبنی فیصلے کرنے ہوں گے۔ تنقید اور احتساب سے کوئی بندہ اور ادارہ مبرا نہیں ہونا چائیے جب یہ جرنیل ریٹائرڈ ہوتے ہیں توجنرل شاہد عزیز کی طرح محب الوطنی کی"سچی کہانیوں" کی کتاب لکھتے ہیں جس کو بعد میں کوئی ذی شعور فرد سنجیدہ نہیں لیتا۔ اگر حالات جوں کے توں رہے تو پھر کوئی بھی کپتان یا میجر موٹروے کے آفسر اور صحافی کو سرراہ سپاہیوں کی مدد سے گھونسے اور لاتے مارنا اپنا حق سمجھے گا۔ سرجنرل قمر باجوہ! بہت دیر ہوگئی فوج میں بے رحم احتساب اور سوال کی ضروت ہے مزید دیرتباہ کن ثابت ہوسکتی ہے۔
0 notes
Text
شہباز شریف کا شکوہ اور جواب شکوہ
شہباز شریف کا شکوہ ہے کہ ان کے بھائی اور بعد میں ان کی بھتیجی کی ضد نے پاکستان مسلم لیگ ن کے لیے بطور سیاسی جماعت زمین تنگ کر دی ہے۔ ایک حد تک یہ شکوہ درست ہے۔ میاں محمد نواز شریف کی سیاست اتنے پیچ و خم سے گزری ہے کہ نہ ان کے اعتراض سمجھ میں آتے ہیں اور نہ ہی اعتراف۔ شہباز شریف کیمپ کا یہ کہنا جائز ہے کہ ان کی قیادت کی سیاست کی جڑوں میں کسی انقلاب کا خون نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ معاملات کو طے کر کے قافلے کو آگے بڑھانے والے لائحہ عمل نے اسے سینچا ہے۔ یہ اعتراض بھی حقیقت پر مبنی ہے کہ نواز شریف پاناما کیس میں خود سے چل کر اس جکڑ کا شکار ہوئے جس نے ان کو طاقت، سیاست اور ملک سے جلاوطن کرنے کا ماحول بنایا۔ اس بات میں بھی وزن ہے کہ مریم نواز ہر وقت تلوار اٹھا کر جو سیاسی خونریزی کرتی ہیں اس کے نتائج شہباز شریف کو بھی بھگتنے پڑے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کا کچھ غصہ مریم اور نواز شریف پر نکلا مگر زیادہ متاثر شہباز شریف ہوئے۔
نواز شریف کی اولاد کے بر عکس ان کے کاروبار پاکستان میں ہیں جہاں پر ریاستی اداروں کا زور زیادہ چلتا ہے، لہذا شہباز شریف کی بازو مریم نواز کی سیاست کی وجہ سے زیادہ مروڑی گئی۔ اس اعتراض کا جواب دینا بھی مشکل ہے کہ نواز شریف موجودہ پالیسی کو کب تک چلا پائیں گے۔ وہ کون سی منزل ہے جو اپنے جنگجوانہ رویے سے قریب آتی نظر آ رہی ہے۔ تین سال سے مسلسل جھگڑے نے اسٹیبلشمنٹ کی آنے والی قیادت کو بھی جماعت کے بارے میں شکوک میں مبتلا کر دیا ہے۔ جو مسائل اب کھڑے کیے گئے ہیں وہ موجودہ قیادت کے جانے سے حل نہیں ہوں گے۔ آنے والے پچھلے چار سال کی تاریخ سے ہونے والی ذہن سازی کے ماتحت رہیں گے۔ وقت گزرتا جائے گا، لڑائی جاری رہے گی۔ نہ کوئی نتیجہ نکلے گا، نہ فائدہ ہو گا۔ خدا بھی نہ ملے گا، صنم بھی ناراض ہو گا۔ ایسے میں لائحہ عمل کو تبدیل کرنا ناگزیر ہے۔
مگر ہر شکوے کا جواب بھی ہوتا ہے۔ اس کو سنیئے تو محسوس ہو گا کہ شہباز شریف اسٹیبلشمنٹ سے دوستی کرنے کے بارے میں اس سے کہیں زیادہ ذہنی دھند کا شکار ہیں جو نواز شریف کی مزاحمتی پالیسی پر چھائی ہوئی ہے۔ یہ فرق ضرور ہے کہ مزاحمت و اعتراض کرنے والے اپنے ضمیر کو مطمئن کر سکتے ہیں کیوں کہ وہ آئین، قانون اور تاریخ کے فیصلوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ایسی تسلی شہباز شریف کے یہاں نہیں پائی جاتی۔ جواب شکوہ کا پہلا نکتہ یہ ہے کہ مفاہمت کا اگلا قدم کیا ہو گا اور یہ کیسے حاصل کی جائے گی؟ جنرل قمر باجوہ اور جنرل فیض حمید جاتی عمرا تو نہیں جائیں گے۔ نہ پارلیمانی کمیٹی کے سامنے بیٹھ کر نیا سیاسی معاہدہ طے کریں گے۔ وہ میز کہاں پر سجے گی جس پر بیٹھ کر شہباز شریف اپنے مفاہمتی فارمولے کو اسٹیبلشمنٹ کے بڑوں کے سامنے رکھیں گے؟ پھر یہ ٹیبل کتنی وسیع ہو گی؟
اس پر عمران خان کی جماعت کی کرسی دونوں جنرل صاحبان کے درمیان میں رکھی ہوگی، دائیں ہو گی، بائیں ہو گی، اونچی ہو گی یا وہ سب کے ساتھ بیٹھیں گے؟ اور اگر وہ سب کے ساتھ بیٹھیں گے تو کیا ضمانت ہے کہ وہ میز کو الٹانے سے پہلے اس پر پڑی چیزوں سے شریف خاندان، بھٹو خاندان اور فضل الرحمان پر تاک تاک کر نشانے نہیں لگائیں گے؟ اس کی وضاحت کوئی نہیں کرتا کہ وہ کون سا عمل ہے، جس کے ذریعے سیاسی کھیل کے نئے قوائد وضع ہوں گے؟ اور پھر ایجنڈا آئٹم کیا ہوں گے؟ کیا شہباز شریف فوج اور انٹیلی جنس کے سربراہان کو بتائیں گے کہ خارجہ اور دفاعی امور کا کتنا حصہ راولپنڈی اور آبپارہ میں طے ہونا ہے اور کتنا وزیراعظم ہاؤس میں؟ معیشت میں سے فوج کو مستقل بنیادوں پر کتنے پیسے مختص ہونے ہیں اور کتنے عوام کے لیے رکھنے ہیں؟ مہینے میں کتنے سیاست دان فوجی سربراہ سے مل سکتے ہیں اور کیا کور کمانڈر کو سیاست دانوں سے ملنے کی اجازت ہو گی؟
جج صاحبان کو فیصلوں کی آزادی ہے یا نہیں؟ ذرائع ابلاغ اور اس کے مالکان کتنی ہدایات لے سکتے ہیں اور کہاں سے؟ کیا صرف آئی ایس پی آر کی سننی ہے یا وزارت اطلاعات کی بھی؟ کون سے صحافی ڈنڈے سے سدھارے جائیں اور کون سے وٹس ایپ پیغامات کے ذریعے؟ سیاست دانوں کے خلاف موجودہ مقدمات کس نے اور کیسے واپس لینے ہیں؟ کیا یہ مفاہمت کے نکات ہوں گے؟ کیا سب کچھ لوگوں کی آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہو گا؟ یا کسی پردے کے پیچھے خاموش نشست ہو گی؟ یہ مفاہمت ہوگی کیسے؟ یہ بتائے بغیر اس کی رٹ لگا کر خواہ مخواہ کی سیاسی کنفیوژن پیدا کی جا رہی ہے۔ شہباز شریف یا تو مفاہمت کے خدوخال بیان کر دیں اور اس کے ��ریقہ کار پر روشنی ڈالیں اور یا پھر اس کے بارے میں بات کرنا چھوڑ دیں۔ دوسرا نکتہ شہباز شریف کی اپنی سیاست سے متعلق ہے۔ ان پر بننے والے مقدمات کا تعلق نواز شریف کی پالیسی سے نہیں۔ ان کی اپنی حکومت کے منصوبے اور ان کے خاندان کے کاروبار سے ہے۔
اس پر کوئی یقین نہیں کرتا کہ شہباز شریف نواز شریف کے مبینہ سخت بیانات کی وجہ سے زیر عتاب ہیں۔ ان کا بڑا بھائی اگر مسلسل چپ کا روزہ بھی رکھ لیتا تب بھی شہباز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف مقدمات بننے ہی تھے۔ مسئلہ پنجاب کی سیاست سے ہے۔ خوش قسمتی یا بدقسمتی سے شہباز شریف اس جماعت کے پلیٹ فارم پر کھڑے ہیں جو پنجاب میں ایک بڑا ووٹ بینک رکھتی ہے۔ اگر وہ بلوچستان یا خیبر پختونخوا میں کسی جماعت کے نمائندے ہوتے تو جو من میں آتے کرتے، کوئی کچھ نہ پوچھتا۔ بغیر پرمٹ کی گاڑیاں لاتے، نقلی سیگریٹ بیچتے یا شہد کا کاروبار کرتے، سب کچھ جائز تصور ہوتا۔ مگر چونکہ پنجاب میں سیاسی جڑیں رکھتے ہیں لہذا ان کے غم کم نہیں ہو سکتے۔ عمران خان کا احتساب اور اسٹیبلشمنٹ کا ڈنڈا ن لیگ کی پنجاب میں سیاست کو بظاہر لگام ڈالنے کے لیے ہے، جس کے بغیر پاکستان میں سیاسی تجربہ گاہ نہیں چل سکتی۔
اور پھر آخر میں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ شہباز شریف مفاہمت کی بات اپنی ذاتی سیاست اور کاروبار کے زاویے سے کرتے ہیں۔ وہ بےشک اپنے پالیسی کے عمومی فائدے گنواتے رہیں لیکن یہ واضح ہے کہ وہ ہاتھ ملا کر اپنے لیے سہولت مہیا کروانا چاہتے ہیں۔ یہ کوئی قابل اعتراض فعل نہیں ہے۔ کسی کو بھی بغیر جرم کے معاشی و سیاسی و ذہنی و کاروباری تکلیف میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔ اس سے بچاؤ کا حق سب کا ہے مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ شہباز شریف نے مفاہمت بھی کی اور جیل بھی کاٹی۔ فی الحال نہ ادھر کے ہیں نہ ادھر کے۔ یہاں سے وہ کدھر جائیں گے؟ اس کے بعد وہ کیا ایسا کریں گے جو انہوں نے پہلے نہیں کیا؟ اور جس کے باوجود ان کے ساتھ وہ سب کچھ ہوا جو مزاحمت اور اعتراض کرنے والوں کے ساتھ ہو رہا ہے۔ مفاہمت، جواب شکوہ کی روشنی میں ایک مضحکہ خیز اصطلاح ہے۔ ایک بے سروپا کہانی ہے بیچارگی کی اور بس۔
سید طلعت حسین
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
0 notes
Text
حکومت کے ساتھ بات چیت مذاکرات نہیں تھے، منظور پشتین
حکومت کے ساتھ بات چیت مذاکرات نہیں تھے، منظور پشتین
اسلام آباد —
پاکستان کی پارلیمان اور پشتون تحفظ موومنٹ کے درمیان پہلی مرتبہ باضابطہ رابطہ ہونے پر منظور پشتین کا کہنا ہے کہ حکومت کے ساتھ ہونے والی بات چیت مذاکرات نہیں تھے۔ ہم پارلیمان میں پشتون تحفظ موومنٹ کے مطالبات سمجھانے کے لیے گئے تھے، کون کون سے مسائل پر کس کے ساتھ اور کس نے مذاکرات کرنے ہیں وہ میں اکیلا نہیں بلکہ سب دوستوں کی مشاورت سے ہو گا۔
پاکستانی پارلیمان اور پشتون تحفظ موومنٹ کے درمیان پہلا باضابطہ رابطہ گزشتہ روز اسلام آباد میں ہوا، جس میں پشتون تحفظ موومنت کے 9 رکنی وفد نے شرکت کی اور قبائلی علاقوں سمیت پشتونوں کو درپیش مسائل سے انہیں آگاہ کیا۔
اس ملاقات کے بارے میں منظور پشتین نے فیس بک پر ایک پیغام جاری کیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ یہ مذاکرات نہیں تھے، صرف پی ٹی ایم کے مطالبات سمجھانے کے لئے بات کرنے گئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ اس ملاقات میں ہم نے واضح کہہ دیا کہ مذاکرات جب ہم نے جس سے کرنے ہوں، پہلے ہم اپنے پشتون ساتھیوں سے مشاورت کے بعد فیصلہ کریں گے۔ ہم اپنے ساتھیوں سے مشاورت کریں گے کہ کون سے مسائل پر ہم نے کس کے ساتھ مذاکرات کرنے ہیں۔
اس سلسلے میں پی ٹی ایم کے رہنما اور بات چیت میں موجود شفیق ترین کہتے ہیں کہ ابھی کوئی باضابطہ مذاکرات شروع نہیں ہوئے۔
شفیق ترین کا کہنا تھا کہ ہم مذاکرات سے کسی صورت نہیں بھاگ رہے۔ ہم بات چیت کے ذریعے مسائل کو حل کرنا چاہتے ہیں لیکن ہمارے جو مطالبات ہیں ہم چاہتے ہیں کہ ان کو بھی سنا جائے اور ان کو حل کیا جائے۔
انہوں نے بتایا کہ اس ملاقات میں پاکستان کی افغان پالیسی کے حوالے سے بھی بات ہوئی اور پی ٹی ایم نے اپنا موقف پارلیمانی کمیٹی کے سامنے رکھا ہے۔
یہ بات چیت ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب سابق قبائلی علاقوں کے خیبرپختونخواہ میں ضم ہونے کے بعد پہلی مرتبہ انتخابات کا شیڈول جاری ہوا ہے۔ حکومت اور ریاستی اداروں نے بالواسطہ طور پر پی ٹی ایم کو انتخابی عمل میں شامل ہونے کی دعوت دی ہے۔ لیکن پشتون تحفظ موومنٹ کا کہنا ہے کہ ان کی تحریک کا ایجنڈا غیر سیاسی ہے اور اس کا مقصد صرف آئین میں دیے گئے حقوق حاصل کرنا ہے۔
پاکستان کے مختلف حلقوں نے پی ٹی ایم اور حکومت کے درمیان رابطے کو خوش آئند قرار دیا ہے۔ سینیٹ کی پارلیمانی کمیٹی برائے قومی ہم آہنگی کے کنونیئر بیرسٹر سیف الرحمن کہتے ہیں کہ ہمارا مقصد یہ ہے کہ تمام مسائل کو بات چیت سے حل کیا جائے۔
بیرسٹر سیف الرحمن کا کہنا تھا کہ ہم نے پی ٹی ایم کے تمام مطالبات کو سنا ہے اور اس کے بعد ہم ان مطالبات کو تحریری صورت میں سینیٹ میں پیش کریں گے۔ جس کے بعد پاکستان کے ریاستی اداروں اور حکومت تک سفارشات پہنچائی جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی ایم کے مطالبات قابل عمل ہیں اور ان پر بات کی جانی چاہیے۔
پشتون تحفظ موومنٹ نے چند روز قبل میران شاہ میں ایک کامیاب جلسہ کیا تھا جسے قبائلی علاقوں کی تاریخ کا ایک بڑا جلسہ قراردیا جا رہا ہے۔
جلسے میں پی ٹی ایم کے رہنماؤں کے علاوہ پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر نے بھی خطاب کیا تھا۔ پاکستان کے ریاستی اداروں بالخصوص پاکستان کی فوج نے پشتون تحفظ موومنٹ کی سرگرمیوں پر کئی مرتبہ تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ تاہم فوج کے ترجمان کا کہنا تھا کہ یہ پرامن تحریک ہے لیکن ریاست کی رٹ کو چیلنج کیا گیا اور حدود سے تجاوز کیا گیا تو ریاست حرکت میں آئے گی۔
Urdu Khabrain
from Urdu Khabrain http://bit.ly/2GrT0Zp via Urdu News
0 notes
Text
حکومت کے ساتھ بات چیت مذاکرات نہیں تھے، منظور پشتین
حکومت کے ساتھ بات چیت مذاکرات نہیں تھے، منظور پشتین
اسلام آباد —
پاکستان کی پارلیمان اور پشتون تحفظ موومنٹ کے درمیان پہلی مرتبہ باضابطہ رابطہ ہونے پر منظور پشتین کا کہنا ہے کہ حکومت کے ساتھ ہونے والی بات چیت مذاکرات نہیں تھے۔ ہم پارلیمان میں پشتون تحفظ موومنٹ کے مطالبات سمجھانے کے لیے گئے تھے، کون کون سے مسائل پر کس کے ساتھ اور کس نے مذاکرات کرنے ہیں وہ میں اکیلا نہیں بلکہ سب دوستوں کی مشاورت سے ہو گا۔
پاکستانی پارلیمان اور پشتون تحفظ موومنٹ کے درمیان پہلا باضابطہ رابطہ گزشتہ روز اسلام آباد میں ہوا، جس میں پشتون تحفظ موومنت کے 9 رکنی وفد نے شرکت کی اور قبائلی علاقوں سمیت پشتونوں کو درپیش مسائل سے انہیں آگاہ کیا۔
اس ملاقات کے بارے میں منظور پشتین نے فیس بک پر ایک پیغام جاری کیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ یہ مذاکرات نہیں تھے، صرف پی ٹی ایم کے مطالبات سمجھانے کے لئے بات کرنے گئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ اس ملاقات میں ہم نے واضح کہہ دیا کہ مذاکرات جب ہم نے جس سے کرنے ہوں، پہلے ہم اپنے پشتون ساتھیوں سے مشاورت کے بعد فیصلہ کریں گے۔ ہم اپنے ساتھیوں سے مشاورت کریں گے کہ کون سے مسائل پر ہم نے کس کے ساتھ مذاکرات کرنے ہیں۔
اس سلسلے میں پی ٹی ایم کے رہنما اور بات چیت میں موجود شفیق ترین کہتے ہیں کہ ابھی کوئی باضابطہ مذاکرات شروع نہیں ہوئے۔
شفیق ترین کا کہنا تھا کہ ہم مذاکرات سے کسی صورت نہیں بھاگ رہے۔ ہم بات چیت کے ذریعے مسائل کو حل کرنا چاہتے ہیں لیکن ہمارے جو مطالبات ہیں ہم چاہتے ہیں کہ ان کو بھی سنا جائے اور ان کو حل کیا جائے۔
انہوں نے بتایا کہ اس ملاقات میں پاکستان کی افغان پالیسی کے حوالے سے بھی بات ہوئی اور پی ٹی ایم نے اپنا موقف پارلیمانی کمیٹی کے سامنے رکھا ہے۔
یہ بات چیت ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب سابق قبائلی علاقوں کے خیبرپختونخواہ میں ضم ہونے کے بعد پہلی مرتبہ انتخابات کا شیڈول جاری ہوا ہے۔ حکومت اور ریاستی اداروں نے بالواسطہ طور پر پی ٹی ایم کو انتخابی عمل میں شامل ہونے کی دعوت دی ہے۔ لیکن پشتون تحفظ موومنٹ کا کہنا ہے کہ ان کی تحریک کا ایجنڈا غیر سیاسی ہے اور اس کا مقصد صرف آئین میں دیے گئے حقوق حاصل کرنا ہے۔
پاکستان کے مختلف حلقوں نے پی ٹی ایم اور حکومت کے درمیان رابطے کو خوش آئند قرار دیا ہے۔ سینیٹ کی پارلیمانی کمیٹی برائے قومی ہم آہنگی کے کنونیئر بیرسٹر سیف الرحمن کہتے ہیں کہ ہمارا مقصد یہ ہے کہ تمام مسائل کو بات چیت سے حل کیا جائے۔
بیرسٹر سیف الرحمن کا کہنا تھا کہ ہم نے پی ٹی ایم کے تمام مطالبات کو سنا ہے اور اس کے بعد ہم ان مطالبات کو تحریری صورت میں سینیٹ میں پیش کریں گے۔ جس کے بعد پاکستان کے ریاستی اداروں اور حکومت تک سفارشات پہنچائی جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی ایم کے مطالبات قابل عمل ہیں اور ان پر بات کی جانی چاہیے۔
پشتون تحفظ موومنٹ نے چند روز قبل میران شاہ میں ایک کامیاب جلسہ کیا تھا جسے قبائلی علاقوں کی تاریخ کا ایک بڑا جلسہ قراردیا جا رہا ہے۔
جلسے میں پی ٹی ایم کے رہنماؤں کے علاوہ پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر نے بھی خطاب کیا تھا۔ پاکستان کے ریاستی اداروں بالخصوص پاکستان کی فوج نے پشتون تحفظ موومنٹ کی سرگرمیوں پر کئی مرتبہ تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ تاہم فوج کے ترجمان کا کہنا تھا کہ یہ پرامن تحریک ہے لیکن ریاست کی رٹ کو چیلنج کیا گیا اور حدود سے تجاوز کیا گیا تو ریاست حرکت میں آئے گی۔
Urdu Khabrain
from Urdu Khabrain http://bit.ly/2GrT0Zp via Urdu News
#Urdu News#Daily Pakistan#Today Pakistan#Pakistan Newspaper#World Urdu News#Entertainment Urdu News#N
0 notes
Text
قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد شیخ رشید کا کہنا ہے کہ ریاستی رٹ پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔
قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد شیخ رشید کا کہنا ہے کہ ریاستی رٹ پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔
اس فائل فوٹو میں وزیراعظم عمران خان اس سے قبل ہونے والے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کر رہے ہیں۔ – PMO/فائل اسلام آباد: وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے جمعہ کو کہا کہ ریاستی رٹ کو ہر قیمت پر یقینی بنانا ہو گا کیونکہ کالعدم تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے احتجاج کے دوران لوگوں کی جان و مال کے تحفظ کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ وزیر داخلہ نے یہ ریمارکس وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت…
View On WordPress
0 notes
Text
جی ایس ٹی کونسل کا 20 ماہ بعد اجلاس یہاں آپ کو کیا دیکھنا چاہئے۔
جی ایس ٹی کونسل کا 20 ماہ بعد اجلاس یہاں آپ کو کیا دیکھنا چاہئے۔
جی ایس ٹی کونسل کے پاس ہوگا۔ ایک زمین پر 20 ماہ میں پہلی بار ملاقات آخری ایسی۔ a کوویڈ 19 کی وجہ سے لاک ڈاؤن نافذ ہونے سے پہلے 18 دسمبر 2019 کو میٹنگ ہوئی۔
ایندھن کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ، سب کی نظریں اس پر لگی ہوئی ہیں کہ آیا حکومت ڈیزل ، پٹرولیم اور پٹرولیم مصنوعات کو بالواسطہ ٹیکس کے دائرے میں لاتی ہے یا نہیں۔ تاہم ، لائیں۔آئی این جی ایک ٹیکس کے تحت ایندھن کے لیے مرکزی اور ریاستی دونوں حکومتوں کو ان مصنوعات پر ٹیکس لگانے میں بڑے پیمانے پر ایڈجسٹمنٹ کی ضرورت ہوگی۔ مرکز اور اپوزیشن کی حکمرانی والی ریاستیں گزشتہ سال پورے عرصے میں ریاستوں کو معاوضے کے حوالے سے تلخ کشمکش میں مبتلا تھیں کیونکہ ٹیکسوں کے ضائع ہونے سے آمدنی میں کمی ہوئی تھی۔
جی ایس ٹی کو قریب ترین ریکارڈ پٹرول اور ڈیزل کا واحد حل سمجھا جاتا ہے۔ قیمتیں ملک میں. جی ایس ٹی ٹیکس پر ٹیکس کے بڑھتے ہوئے اثر کو ختم کرے گا (ریاستی ویٹ نہ صرف پیداواری لاگت پر عائد کیا جاتا ہے بلکہ اس طرح کی پیداوار پر مرکز کی طرف سے وصول کی جانے والی ایکسائز ڈیوٹی پر بھی)۔
جون میں کیرالہ ہائی کورٹ نے ایک رٹ پٹیشن کی بنیاد پر کونسل سے کہا تھا کہ وہ پیٹرول اور ڈیزل کو جی ایس ٹی کے دائرے میں لانے کا فیصلہ کرے۔
جبکہ ایندھن کی مصنوعات کو جی ایس ٹی کے تحت لانے کا فیصلہ۔ فوری طور پر ، یہ ناممکن لگتا ہے ، لیکن یہ وسیع پیمانے پر توقع کی جاتی ہے کہ کونسل کل کے اجلاس میں اس پر بحث شروع کرے گی۔ اسے ایک ٹیکس کے تحت لانا یکسانیت فراہم کرے گا ، لیکن اس کے نتیجے میں ریاستوں کے لیے محصولات اور مرکز کے لیے ٹیکس میں کمی ہوگی۔
جب 1 جولائی ، 2017 کو جی ایس ٹی متعارف کرایا گیا ، ایک درجن سے زائد مرکزی اور ریاستی محصولات کو ملا کر ، پانچ اشیاء – خام تیل ، قدرتی گیس ، پٹرول ، ڈیزل ، اور ایوی ایشن ٹربائن ایندھن (اے ٹی ایف) کو اس کے دائرے سے باہر رکھا گیا تھا۔ اس شعبے پر مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی
اس کا مطلب یہ تھا کہ مرکزی حکومت ان پر ایکسائز ڈیوٹی لگاتی رہی جبکہ ریاستی حکومتوں نے ویلیو ایڈڈ ٹیکس (VAT) وصول کیا۔ یہ ٹیکس ، خاص طور پر ایکسائز ڈیوٹی کے ساتھ ، وقتا فوقتا بڑھایا گیا ہے۔
پٹرولیم مصنوعات پر عائد ٹیکس مرکز اور ریاستوں دونوں کی آمدنی کا ایک بڑا حصہ بناتے ہیں۔ ریاستوں نے مالی سال 21 میں پٹرولیم مصنوعات پر ٹیکس اور محصولات سے 2.17 لاکھ کروڑ روپے جمع کیے جبکہ مرکز نے 4.18 لاکھ کروڑ روپے جمع کیے۔
ڈیلوائٹ انڈیا کے سینئر ڈائریکٹر ایم ایس مانی نے کہا ، “کچھ مصنوعات پر الٹی ڈیوٹی ڈھانچے سے پیدا ہونے والے چیلنجوں پر قابو پانا ضروری ہے ، اس کے علاوہ کوویڈ مریضوں کے علاج کے لیے درکار فارما مصنوعات کے لیے راحت میں اضافہ کرنا ہے۔”
کونسل سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ زوماٹو اور سوگی جیسی فوڈ ڈیلیوری کمپنیوں کو ریسٹورنٹ سروسز کے طور پر شامل کرے گی۔ اس سے ریستورانوں کے بجائے ایسی کمپنیوں پر تعمیل کا بوجھ بدل جائے گا ، اس طرح ٹیکس کی چوری بند ہو جائے گی۔
کوویڈ ضروریات پر ڈیوٹی ریلیف میں توسیع کا بھی امکان ہے۔ کونسل جون 2022 سے آگے معاوضہ سیس جاری رکھنے کے طریقوں پر بھی غور کرے گی۔
. Source link
0 notes
Text
حکومت کے ساتھ بات چیت مذاکرات نہیں تھے، منظور پشتین
حکومت کے ساتھ بات چیت مذاکرات نہیں تھے، منظور پشتین
اسلام آباد —
پاکستان کی پارلیمان اور پشتون تحفظ موومنٹ کے درمیان پہلی مرتبہ باضابطہ رابطہ ہونے پر منظور پشتین کا کہنا ہے کہ حکومت کے ساتھ ہونے والی بات چیت مذاکرات نہیں تھے۔ ہم پارلیمان میں پشتون تحفظ موومنٹ کے مطالبات سمجھانے کے لیے گئے تھے، کون کون سے مسائل پر کس کے ساتھ اور کس نے مذاکرات کرنے ہیں وہ میں اکیلا نہیں بلکہ سب دوستوں کی مشاورت سے ہو گا۔
پاکستانی پارلیمان اور پشتون تحفظ موومنٹ کے درمیان پہلا باضابطہ رابطہ گزشتہ روز اسلام آباد میں ہوا، جس میں پشتون تحفظ موومنت کے 9 رکنی وفد نے شرکت کی اور قبائلی علاقوں سمیت پشتونوں کو درپیش مسائل سے انہیں آگاہ کیا۔
اس ملاقات کے بارے میں منظور پشتین نے فیس بک پر ایک پیغام جاری کیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ یہ مذاکرات نہیں تھے، صرف پی ٹی ایم کے مطالبات سمجھانے کے لئے بات کرنے گئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ اس ملاقات میں ہم نے واضح کہہ دیا کہ مذاکرات جب ہم نے جس سے کرنے ہوں، پہلے ہم اپنے پشتون ساتھیوں سے مشاورت کے بعد فیصلہ کریں گے۔ ہم اپنے ساتھیوں سے مشاورت کریں گے کہ کون سے مسائل پر ہم نے کس کے ساتھ مذاکرات کرنے ہیں۔
اس سلسلے میں پی ٹی ایم کے رہنما اور بات چیت میں موجود شفیق ترین کہتے ہیں کہ ابھی کوئی باضابطہ مذاکرات شروع نہیں ہوئے۔
شفیق ترین کا کہنا تھا کہ ہم مذاکرات سے کسی صورت نہیں بھاگ رہے۔ ہم بات چیت کے ذریعے مسائل کو حل کرنا چاہتے ہیں لیکن ہمارے جو مطالبات ہیں ہم چاہتے ہیں کہ ان کو بھی سنا جائے اور ان کو حل کیا جائے۔
انہوں نے بتایا کہ اس ملاقات میں پاکستان کی افغان پالیسی کے حوالے سے بھی بات ہوئی اور پی ٹی ایم نے اپنا موقف پارلیمانی کمیٹی کے سامنے رکھا ہے۔
یہ بات چیت ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب سابق قبائلی علاقوں کے خیبرپختونخواہ میں ضم ہونے کے بعد پہلی مرتبہ انتخابات کا شیڈول جاری ہوا ہے۔ حکومت اور ریاستی اداروں نے بالواسطہ طور پر پی ٹی ایم کو انتخابی عمل میں شامل ہونے کی دعوت دی ہے۔ لیکن پشتون تحفظ موومنٹ کا کہنا ہے کہ ان کی تحریک کا ایجنڈا غیر سیاسی ہے اور اس کا مقصد صرف آئین میں دیے گئے حقوق حاصل کرنا ہے۔
پاکستان کے مختلف حلقوں نے پی ٹی ایم اور حکومت کے درمیان رابطے کو خوش آئند قرار دیا ہے۔ سینیٹ کی پارلیمانی کمیٹی برائے قومی ہم آہنگی کے کنونیئر بیرسٹر سیف الرحمن کہتے ہیں کہ ہمارا مقصد یہ ہے کہ تمام مسائل کو بات چیت سے حل کیا جائے۔
بیرسٹر سیف الرحمن کا کہنا تھا کہ ہم نے پی ٹی ایم کے تمام مطالبات کو سنا ہے اور اس کے بعد ہم ان مطالبات کو تحریری صورت میں سینیٹ میں پیش کریں گے۔ جس کے بعد پاکستان کے ریاستی اداروں اور حکومت تک سفارشات پہنچائی جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی ایم کے مطالبات قابل عمل ہیں اور ان پر بات کی جانی چاہیے۔
پشتون تحفظ موومنٹ نے چند روز قبل میران شاہ میں ایک کامیاب جلسہ کیا تھا جسے قبائلی علاقوں کی تاریخ کا ایک بڑا جلسہ قراردیا جا رہا ہے۔
جلسے میں پی ٹی ایم کے رہنماؤں کے علاوہ پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر نے بھی خطاب کیا تھا۔ پاکستان کے ریاستی اداروں بالخصوص پاکستان کی فوج نے پشتون تحفظ موومنٹ کی سرگرمیوں پر کئی مرتبہ تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ تاہم فوج کے ترجمان کا کہنا تھا کہ یہ پرامن تحریک ہے لیکن ریاست کی رٹ کو چیلنج کیا گیا اور حدود سے تجاوز کیا گیا تو ریاست حرکت میں آئے گی۔
Urdu Khabrain
from Urdu Khabrain http://bit.ly/2GrT0Zp via
#jang news today#jang akhbar today#pakistan urdu newspapers online#pakistan papers#daily jang pk#dail
0 notes
Text
حکومت کے ساتھ بات چیت مذاکرات نہیں تھے، منظور پشتین
حکومت کے ساتھ بات چیت مذاکرات نہیں تھے، منظور پشتین
اسلام آباد —
پاکستان کی پارلیمان اور پشتون تحفظ موومنٹ کے درمیان پہلی مرتبہ باضابطہ رابطہ ہونے پر منظور پشتین کا کہنا ہے کہ حکومت کے ساتھ ہونے والی بات چیت مذاکرات نہیں تھے۔ ہم پارلیمان میں پشتون تحفظ موومنٹ کے مطالبات سمجھانے کے لیے گئے تھے، کون کون سے مسائل پر کس کے ساتھ اور کس نے مذاکرات کرنے ہیں وہ میں اکیلا نہیں بلکہ سب دوستوں کی مشاورت سے ہو گا۔
پاکستانی پارلیمان اور پشتون تحفظ موومنٹ کے درمیان پہلا باضابطہ رابطہ گزشتہ روز اسلام آباد میں ہوا، جس میں پشتون تحفظ موومنت کے 9 رکنی وفد نے شرکت کی اور قبائلی علاقوں سمیت پشتونوں کو درپیش مسائل سے انہیں آگاہ کیا۔
اس ملاقات کے بارے میں منظور پشتین نے فیس بک پر ایک پیغام جاری کیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ یہ مذاکرات نہیں تھے، صرف پی ٹی ایم کے مطالبات سمجھانے کے لئے بات کرنے گئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ اس ملاقات میں ہم نے واضح کہہ دیا کہ مذاکرات جب ہم نے جس سے کرنے ہوں، پہلے ہم اپنے پشتون ساتھیوں سے مشاورت کے بعد فیصلہ کریں گے۔ ہم اپنے ساتھیوں سے مشاورت کریں گے کہ کون سے مسائل پر ہم نے کس کے ساتھ مذاکرات کرنے ہیں۔
اس سلسلے میں پی ٹی ایم کے رہنما اور بات چیت میں موجود شفیق ترین کہتے ہیں کہ ابھی کوئی باضابطہ مذاکرات شروع نہیں ہوئے۔
شفیق ترین کا کہنا تھا کہ ہم مذاکرات سے کسی صورت نہیں بھاگ رہے۔ ہم بات چیت کے ذریعے مسائل کو حل کرنا چاہتے ہیں لیکن ہمارے جو مطالبات ہیں ہم چاہتے ہیں کہ ان کو بھی سنا جائے اور ان کو حل کیا جائے۔
انہوں نے بتایا کہ اس ملاقات میں پاکستان کی افغان پالیسی کے حوالے سے بھی بات ہوئی اور پی ٹی ایم نے اپنا موقف پارلیمانی کمیٹی کے سامنے رکھا ہے۔
یہ بات چیت ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب سابق قبائلی علاقوں کے خیبرپختونخواہ میں ضم ہونے کے بعد پہلی مرتبہ انتخابات کا شیڈول جاری ہوا ہے۔ حکومت اور ریاستی اداروں نے بالواسطہ طور پر پی ٹی ایم کو انتخابی عمل میں شامل ہونے کی ��عوت دی ہے۔ لیکن پشتون تحفظ موومنٹ کا کہنا ہے کہ ان کی تحریک کا ایجنڈا غیر سیاسی ہے اور اس کا مقصد صرف آئین میں دیے گئے حقوق حاصل کرنا ہے۔
پاکستان کے مختلف حلقوں نے پی ٹی ایم اور حکومت کے درمیان رابطے کو خوش آئند قرار دیا ہے۔ سینیٹ کی پارلیمانی کمیٹی برائے قومی ہم آہنگی کے کنونیئر بیرسٹر سیف الرحمن کہتے ہیں کہ ہمارا مقصد یہ ہے کہ تمام مسائل کو بات چیت سے حل کیا جائے۔
بیرسٹر سیف الرحمن کا کہنا تھا کہ ہم نے پی ٹی ایم کے تمام مطالبات کو سنا ہے اور اس کے بعد ہم ان مطالبات کو تحریری صورت میں سینیٹ میں پیش کریں گے۔ جس کے بعد پاکستان کے ریاستی اداروں اور حکومت تک سفارشات پہنچائی جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی ایم کے مطالبات قابل عمل ہیں اور ان پر بات کی جانی چاہیے۔
پشتون تحفظ موومنٹ نے چند روز قبل میران شاہ میں ایک کامیاب جلسہ کیا تھا جسے قبائلی علاقوں کی تاریخ کا ایک بڑا جلسہ قراردیا جا رہا ہے۔
جلسے میں پی ٹی ایم کے رہنماؤں کے علاوہ پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر نے بھی خطاب کیا تھا۔ پاکستان کے ریاستی اداروں بالخصوص پاکستان کی فوج نے پشتون تحفظ موومنٹ کی سرگرمیوں پر کئی مرتبہ تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ تاہم فوج کے ترجمان کا کہنا تھا کہ یہ پرامن تحریک ہے لیکن ریاست کی رٹ کو چیلنج کیا گیا اور حدود سے تجاوز کیا گیا تو ریاست حرکت میں آئے گی۔
Urdu Khabrain
from Urdu Khabrain http://bit.ly/2GrT0Zp via Today Pakistan
0 notes
Photo
بلوچستان: 14 اگست کے موقع پر پرچم وغیرہ فروخت کرنے والے نشانے پر، حالیہ تشدد کی وجوہات کیا ہیں؟ محمد کاظم بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کوئٹہ14 اگست 2020، 19:26 PKTاپ ڈیٹ کی گئی 2 گھنٹے قبل،AFPبلوچستان کے مختلف علاقوں میں گذشتہ چار پانچ روز کے دوران بم حملوں کے واقعات پیش آئے ہیں۔ ان حملوں میں پاکستان کے یومِ آزادی کی مناسبت سے پرچم وغیرہ فروخت کرنے والے سٹالز اور دکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ، اس سے متصل ضلع مستونگ، کراچی سے متصل ضلع لسبیلہ کے صنعتی علاقے حب اور تربت وغیرہ میں ایسے حملے کیے گئے۔ان واقعات میں ایک بچی ہلاک اور 20 کے قریب لوگ زخمی ہوئے جبکہ ان واقعات کی ذمہ داری کالعدم عسکریت پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی کی جانب سے قبول کی گئی ہے۔ان حملوں کے پیچھے کیا سوچ اور عوامل کارفرما ہوسکتے ہیں؟ سکیورٹی امور کے ماہر اور طویل عرصے تک بلوچستان میں پولیس کے انسپیکٹر جنرل رہنے والے ڈاکٹر شعیب سڈل کا کہنا ہے کچھ ماہ سے بلوچستان میں بدامنی بڑھنے کے پیچھے اندرونی اور بیرونی دونوں عوامل کارفرما ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جہاں تک 14 اگست سے منسلک سرگرمیوں پر حملوں کی بات ہے تو اس کا مقصد خوف و ہراس پیدا کرنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جو عناصر یہ حملے کر رہے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ لوگ 14 اگست کی مناسبت سے تقریبات میں شرکت نہ کریں اور اپنے گھروں پر جھنڈے ن�� لگائیں۔بلوچستان میں ماضی میں بھی شورشیں ہوتی رہی ہیں لیکن 70 کی دہائی میں ہونے والی بغاوت کے بعد یہ سلسلہ سنہ 2000 سے شروع ہوا۔دیگر حملوں کے ساتھ ساتھ 14 اگست کی تقریبات اور ان کی تیاریوں سے متعلق سرگرمیوں کو نشانہ بنایا جاتا رہا۔2008 سے قبل تک یہ اتنے بڑھ گئے تھے کہ بلوچستان میں لوگوں کی 14 اگست کی مناسبت سے تقریبات میں شرکت میں کمی آئی تھی لیکن بعد میں ان تقریبات کو منانے اور ان میں لوگوں کی زیادہ سے زیادہ شرکت کو یقینی بنانے کے لیے حکومت، بالخصوص سکیورٹی اداروں کی جانب سے خصوصی اقدامات کیے جاتے رہے۔ان تقریبات میں لوگوں کی شرکت کو بڑھانے کے لیے ملک بھر سے معروف گلوکاروں کو بھی مدعو کیا جاتا رہا۔ سکیورٹی کے بڑے پیمانے پر انتظامات کے ساتھ یہ تقریبات بلوچستان بھر میں اب ماضی کے مقابلے بہت زیادہ اہتمام کے ساتھ منعقد کی جا رہی ہیں۔رواں سال اگرچہ شہری علاقوں میں بم دھماکوں کے واقعات کم پیش آئے لیکن سکیورٹی فورسز پر کئی علاقوں میں حملوں کے متعدد واقعات پیش آتے رہے ہیں۔،Government of Balochistan کیچ، واشک، بولان اور ہرنائی میں جانی نقصان کے حوالے سے بعض بڑے واقعات بھی پیش آئے جن کی ذمہ داریاں مختلف عسکریت پسند تنظیمیں قبول کرتی رہی ہیں۔سنہ 2000ء سے قبل بلوچستان قدرے پرامن تھا اور یہاں عام جرائم کی شرح دوسرے صوبوں کے مقابلے میں انتہائی کم تھی، لیکن 2000 کے بعد بم دھماکوں، سرکاری تنصیبات اور سکیورٹی فورسز پر حملوں، اور ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ شروع ہوا۔اُس دور کی حکومت کی جانب سے بلوچستان میں گوادر کی بندرگاہ سمیت بعض دیگر میگا پراجیکٹس اور معدنیات کے منصوبوں پر اعلانات کے ساتھ ساتھ ان پر کام کا آغاز بھی کیا گیا۔اس حکومت نے ابتدا میں شورش کا ذمہ دار سخت گیر مؤقف کے حامل چند سرداروں کو ٹھہراتے ہوئے کہا کہ ’چونکہ یہ ترقی مخالف ہیں اس لیے وہ بدامنی پھیلا کر ترقی کے عمل کو روکنا چاہتے ہیں کیونکہ ترقی آنے سے ان کی اجارہ داری ختم ہوجائے گی۔‘تاہم بلوچستان کے قوم پرست حلقوں کی جانب سے ان الزامات کو مسترد کیا جاتا رہا اور وہ اُس دور کی حکومت اور اس کی پالیسیوں کو حالات کی خرابی کا ذمہ دار ٹھہراتے رہے۔ ان کا یہ مؤقف ہے کہ حکومت، بلوچستان کے وسائل کو یہاں کے لوگوں کی مرضی کے خلاف استعمال کرنا چاہتی ہے جس کی وجہ سے بے چینی ہے۔بلوچستان میں بدامنی کے جو واقعات رونما ہوتے رہے ان کی ذمہ داری مختلف کالعدم عسکریت پسند تنظیمیں قبول کرتی رہیں جن کا کہنا ہے کہ ان کی ان کارروائیوں کا مقصد بلوچستان کو علیحدہ کرنا ہے۔شورش میں اضافے کے بعد حکومت کی جانب سے بیرونی مداخلت کا الزام بھی عائد کیا گیا اور یہ کہا جانے لگا کہ ان عناصر کو بیرونی بالخصوص انڈیا کی حمایت حاصل ہے جو مبینہ طور پر افغان انٹیلیجنس ادارے این ڈی ایس کو استعمال کر کے پاکستان کو غیر مستحکم کرنا چاہتا ہے۔ افغان حکام کی جانب سے ایسے الزامات کو مسترد کیا جاتا رہا ہے۔علیحدگی پسند تنظیمیں اور سخت گیر مؤقف کی حامل قوم پرست جماعتیں بھی ان الزامات کو مسترد کرتی رہی ہیں اور ان کا یہ کہنا ہے کہ ’یہ تحریک بلوچستان کے لوگوں کی اپنی تحریک ہے۔‘بلوچستان میں امن و امان کے مسائل کی بڑی وجوہات کیا؟سابق انسپیکٹر جنرل پولیس بلوچستان ڈاکٹر شعیب سڈل کے مطابق بلوچستان ایک وسیع و عریض صوبہ ہے اور اس کا بڑا حصہ بی (B) ای��یا پر مشتمل ہے۔،AFPواضح رہے کہ بلوچستان انتظامی لحاظ سے دو حصوں اے ایریا اور بی ایریا میں تقسیم ہے۔اے ایریا زیادہ تر شہری علاقوں پر مشتمل ہے جہاں آبادی کا بڑا حصہ آباد ہے۔ ان علاقوں کا انتظامی کنٹرول پولیس کے پاس ہے اور یہ علاقہ رقبے کے لحاظ سے اندازاً بلوچستان کے مجموعی رقبے کا 10 فیصد علاقہ بنتا ہے۔بلوچستان کا بی ای��یا دیہی علاقوں پر مشتمل ہے جو کہ رقبے کے لحاظ سے 90 فیصد علاقہ بنتا ہے۔ ان علاقوں میں اے ایریا کے مقابلے میں آبادی کم اور منتشر ہے، اور یہ علاقے لیویز فورس (قبائلی پولیس) کے کنٹرول میں ہیں۔ ڈاکٹر شعیب سڈل کہتے ہیں کہ جب تک اتنا بڑا بی ایریا رکھا جائے گا تو اس وقت تک ریاست کی رٹ کمزور رہے گی۔شعیب سڈل کہتے ہیں کہ انڈیا کے ساتھ پاکستان کے تعلقات روز بروز خراب ہو رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’وہاں سے یہاں کے حالات کو خراب کرنے کے لیے فنڈنگ ہوتی ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں جو جنگجو گروہ تقسیم اور منتشر ہوئے تھے ان کو نئے سرے سے اکٹھا کیا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے مناسب انسدادِ دراندازی مہم کی ضرورت ہے جو پولیس کی قیادت میں ہونی چاہیے۔ لیکن ان کے بقول جب پولیس ایک بڑے علاقے میں سرے سے ہے ہی نہیں تو وہاں ایسی کوئی مہم کیسے چلے گی۔ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں بہتری کے لیے طویل المدتی اور قلیل مدتی مؤثر منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ڈاکٹر شعیب سڈل کا کہنا ہے کہ کچھ وقت سے بد امنی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے، اس تناظر میں یہ دیکھنا چاہیے کہ کہاں کوئی ایسا خلا پیدا ہوا جس کی وجہ سے ان میں اضافہ ہوا اور اس خلا کو پر کرنے کے لیے کیا اقدامات کرنے چاہییں۔اگرچہ ڈاکٹر شعیب سڈل بی ایریا کو ریاستی رٹ کی کمزوری قرار دیتے ہیں لیکن بلوچستان کے اے ایریا کے مقابلے میں بی ایریا میں عام جرائم کی شرح کم ہے، جبکہ پولیس کے مقابلے میں لیویز فورس کی نفری اور وسائل بھی انتہائی کم ہیں۔سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں جب بلوچستان میں جام محمد یوسف کی حکومت تھی تو لیویز فورس کو ختم کر کے پولیس میں ضم کیا گیا، مگر 2008 میں نواب اسلم رئیسانی کی قیادت میں بننے والی مخلوط حکومت نے لیویز فورس کو دوبارہ بحال کر دیا۔لیکن وزیر اعلیٰ جام کمال خان کی قیادت میں موجودہ حکومت نے ایک مرتبہ پھر پولیس کے علاقوں میں اضافہ کرتے ہوئے کوئٹہ، گوادر اور لسبیلہ کے اضلاع کو مکمل اے ایریا قرار دیا۔تاہم 2008 میں بحالی کے بعد نہ صرف لیویز فورس کے وسائل میں اضافہ کیا گیا بلکہ اسے جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے اقدامات کیے گئے۔جدید بنانے کے لیے دیگر اقدامات کے ساتھ ساتھ لیویز فورس کی ایک بڑی نفری کو فوج نے بھی تربیت دی جس کے باعث ماضی کے مقابلے میں لیویز فورس کئی گنا زیادہ تربیت یافتہ ہے۔ کیا حالات صرف سکیورٹی کے ناقص انتظامات کی وجہ سے خراب ہیں؟ سیاسی مبصرین کے مطابق اگرچہ مسلح تنظیموں کی وجہ سے سکیورٹی کے مسائل ہیں لیکن بلوچستان میں بے چینی کی وجوہات سیاسی بھی ہیں، اس لیے بلوچستان کے سیاسی حلقوں کی جانب سے بلوچستان کے سیاسی مسائل کو سیاسی اور بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا جارہا ہے۔ڈاکٹر شعیب سڈل بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ انسدادِ دراندازی کے ساتھ ساتھ سیاسی اقدامات کی بھی ضرورت ہے۔ان کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں جو تنظیمیں اور گروہ مسائل کا باعث بن رہے ہیں، ان میں نوجوان طبقہ شامل ہو رہا ہے۔ ،PAcific Pressانھوں نے کہا کہ ان سے معاملات اسی طرح طے ہوسکتے ہیں کہ ان کے جو جائز حقوق ہیں وہ ان کو دینے ہوں گے۔ان کا کہنا تھا کہ فورس کے استعمال سے مذاکرات کی راہ ہموار تو کی جاسکتی ہے لیکن مسائل کو حل صرف مذاکرات کے ذریعے ہی کیا جاسکتا ہے۔مذاکرات کا نکتہ نیشنل ایکشن پلان میں بھی شامل بلوچستان میں چند سال قبل تک سرکاری حکام جن لوگوں کو حالات کی خرابی کا ذمہ دار سمجھتے تھے ان کے لیے وہ ناراض بلوچ کی اصطلاح استعمال کرتے تھے۔پشاور میں آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد نواز شریف کے سابق دور میں حالات کی بہتری کے لیے جو نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا، اس میں بلوچستان میں حالات کی بہتری کے لیے ’ناراض بلوچوں‘ سے مذاکرات کا نکتہ بھی شامل تھا۔پاکستان انسٹیٹیوٹ آف پیس سٹڈیز کے ڈائریکٹر عامر رانا کا کہنا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان میں مذاکرات کا جو نکتہ ہے اس پر بھی عمل کی ضرورت ہے۔ اگرچہ سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان سے پہلے کی حکومت میں بیرون ملک مقیم بعض بلوچ رہنماﺅں سے رابطے ہوئے لیکن تاحال مذاکرات کے حوالے سے کوئی بڑی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ عامر رانا کا کہنا ہے کہ کچھ عرصے سے بلوچستان میں بد امنی کی کارروائیاں بڑھی ہیں اور اس میں بہت سارے ایسے رجحانات سامنے آرہے ہیں جو 'باہر' کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔انھوں نے بتایا کہ ’جو مذہبی عسکریت پسند ہیں، ان کا ایک خاص طریقہ ہوتا ہے۔ وہ کس کو ہدف بناتے ہیں، اس کا صاف پتہ چل جاتا ہے‘، تاہم ان کا کہنا تھا کہ اب کچھ عرصے سے آئی ای ڈی حملوں کا جو رجحان سامنے آیا ہے وہ مختلف ہے۔ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں جو کارروائیاں بڑھی ہیں، وہ قوم پرست عسکریت پسند تنظیموں کی جانب سے بڑھی ہیں جس سے نمٹنے کے لیے کوششیں کی جارہی ہیں لیکن اس کو سنجیدگی کے ساتھ سیاسی حوالے سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔عامر رانا نے بتایا کہ پرامن بلوچستان کے پروگرام کو مؤثر اور کامیاب بنانے کے لیے حکومت کے حامی سرداروں اور قبائلی شخصیات کے اثر و رسوخ سے آزاد کرنے کی ضرورت ہے۔ان کے بقول حکومت کے حامی سرداروں اور قبائلی شخصیات نے ’جعلی سرینڈر کروائے جس کے باعث سیاسی حوالے سے جو پیش رفت ہونی تھی وہ رک گئی‘۔عامر رانا کہتے ہیں کہ سیاسی حل کی طرف جانا ہی ہوگا کیونکہ اگر اس کا سیاسی حل نہیں نکالا گیا تو یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ قوم پرست عسکریت پسندی کا جو مسئلہ ہے وہ آپریشنل کارروائیوں سے کچھ وقت کے لیے تھم جائے گا لیکن کچھ وقت کے بعد پھر اس میں شدت آئے گی اور اس طرح یہ مسئلہ جاری رہے گا۔ خبرکا ذریعہ : بی بی سی اردو
0 notes