#پی آئی اے کا طیارہ
Explore tagged Tumblr posts
Text
پاکستان کی قومی ایئر لائن پی آئی اے خاتمے کے قریب
حکومت پاکستان نے قرض کے بوجھ تلے دبے قومی ایئرلائن، پی آئی اے، کی نجکاری کے منصوبوں کا اعلان کر دیا ہے۔ ملازمین کو اپنی ملازمتوں اور پنشن کے متعلق تشویش لاحق ہے اور وہ حکومت کے منصوبے کی مخالفت کر رہے ہیں۔ پاکستان کی قومی فضائی کمپنی، پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) مالی لحاظ سے تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے، جس کی وجہ سے حکومت اسے نجی ہاتھوں میں سونپنے اور ایئرپورٹ آپریشنز کی آوٹ سورسنگ کا منصوبہ بنانے پر مجبور ہو گئی ہے۔ پاکستان کے موجودہ اقتصادی مسائل کے درمیان، حکومت کا کہنا ہے کہ وہ خسارے میں چلنے والے اداروں کو سبسڈی نہیں دے سکتی۔ یہ اقدام ایسے وقت سامنے آیا ہے جب پاکستان اپنے مالیاتی خسارے پر قابو پانے کے لیے جون میں عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے تین ارب ڈالرکا قرض حاصل کرنے کا معاہدہ کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ پی آئی اے کے ترجمان عبداللہ حفیظ خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ایئر لائن ان کمپنیوں کی فہرست میں شامل ہے جن کی نجکاری پر غور کیا جارہا ہے اور اس کی نجکاری جلد ہی ہو سکتی ہے۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ قومی ایئرلائن کو اس وقت اربوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔
پی آئی اے کے ملازمین اپنے مستقبل کے حوالے سے پریشان ہیں۔ اس وقت اس ایئرلائن میں تقریباً 11 ہزار ملازمین ہیں۔ پی آئی اے سے گزشتہ سال ریٹائرڈ ہونے والی ایک ملازمہ روبینہ خان نے ڈی ڈبلیو سے با ت کرتے ہوئے کہا کہ انہیں تشویش ہے کہ کہیں ان کی پنشن نہ رک جائے اور دیگر ملازمین، جنہیں ملازمت سے فارغ کیا جاسکتا ہے، ان کے واجبات بھی ادا نہیں کیے جائیں گے۔ ایک دیگر سبکدوش ملازم جاوید اختر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان میں لاکھوں لوگ پہلے ہی بے روزگار ہیں اور پی آئی اے کی نجکاری سے مزید افراد کی ملازمت چھن جائے گی۔ انہوں نے کہا، "فطری طورپر ملازمین اپنے مستقبل کے بارے میں بہت پریشان ہیں اور یہ سوچتے ہیں کہ وہ سخت معاشی حالات کے درمیان ملازمت کے بغیر اپنے کنبے کا پیٹ کیسے پالیں گے۔" ایئر لائن کے انجینیئرنگ ڈپارٹمنٹ کے ایک ملازم نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پی آئی اے کے ایگزیکیوٹیو کو بھاری بھرکم تنخواہیں ملتی تھیں اور انہیں "بڑی مراعات اور دیگر نوازشات سے" بھی نوازا جاتا تھا اور اب دیگر ملازمین کو اس کی قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے۔
پی آئی اے کا عروج و زوال نجی سرمایہ کاروں کے ذریعہ اورینٹ ایئر کے نام سے شروع کی گئی ایئرلائن کو سن 1950 کی دہائی میں حکومتی کنٹرول میں لے لیا گیا اور اس کا نام پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) رکھا گیا۔ دھیرے دھیرے یہ اس علاقے کی بہترین ایئرلائنز میں سے ایک بن گئی لیکن آج یہ سنگین بحران سے دوچار ہے۔ کمپنی کو کئی سالوں سے مالی مسائل کا سامنا ہے اور متعدد ملازمین کے سبکدوش ہوجانے کے باوجود سن 2017 سے اس میں خاط�� خواہ بھرتیاں نہیں کی گئیں۔ اس وقت اس کے 30 میں سے صرف 19 طیارے آپریشنل ہیں۔ حکومتی تیل کمپنی پاکستان اسٹیٹ آئل نے بھی واجبات کی عدم ادائیگی کے سبب قومی ایئر لائن کو تیل کی سپلائی بند کردینے کی دھمکی دی ہے۔ ایئرلائن کو واجبات کی عدم ادائیگی اور اس کے طیاروں کو ضبط کرنے کی دھمکی کے معاملے پر ملیشیا میں قانونی چارہ جوئی بھی سامنا کرنا پڑا۔ سبکدوش ملازمہ روبینہ خان کا خیال ہے کہ ایگزیکٹیوکی غلط پالیسیاں ایئر لائن کی بتدریج تباہی کی ذمہ دار ہیں۔ اس میں مہنگے نرخوں پر ہوائی جہاز کو پٹے پر لینا بھی شامل ہے۔
ایک ٹریڈ یونین لیڈر سہیل مختار اس حوالے سے پی آئی اے کے لیے سری لنکا سے بہت زیادہ قیمت پر دو طیارے حاصل کرنے کی مثال دیتے ہیں۔ سہیل مختار نے ڈی ڈبلیوکو بتایا کہ ایک نجی ایئر لائن نے ایک طیارہ 4500 ڈالر فی گھنٹہ کی شرح سے حاصل کیا لیکن پی آئی اے نے وہی طیارہ 7500 ڈالر فی گھنٹہ کے حساب سے حاصل کیا۔ "ہمیں اس شرح پر دو طیارے ملے جس کی وجہ سے تقریباً 17 سے 18ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑا۔" انہوں نے مزید بتایا کہ پی آئی اے نے انتہائی مہنگے انجن بھی خریدے، جن میں بعد میں خرابیاں بھی پیدا ہو گئیں۔ روبینہ خان کا کہنا تھا کہ کیٹرنگ اور دیکھ بھال کے لیے بیرونی ٹھیکیداروں کی خدمات حاصل کرنے سے بھی کافی نقصان ہوا۔ انہوں نے بتایا کہ، "پی آئی اے کے ذمہ داروں نے اس قومی ایئرلائنز کی مالیات کو نچوڑ کر رکھ دیا۔" انہوں نے مزید کہا کہ ایگزیکیوٹیوز کی بھاری بھرکم تنخواہیں، غیر ذمہ دارانہ رویہ اور دیگر سرکاری محکموں کی جانب سے پی آئی اے کے واجبات کی عدم ادائیگی نے بھی قومی ایئرلائن کی مالی پریشانیوں میں اضافہ کیا۔ لاہور میں مقیم، ایئرلائنز امور کے ماہر قیس اسلم کا کہنا ہے کہ سیاسی روابط رکھنے والے نجی ایئرلائنز کے مالکان، جو اپنی ایئر لائنز شروع کرنا چاہتے تھے، کو پی آئی اے میں ایگزیکیوٹیو بنادیا گیا۔ "جس کے نتیجے میں پی آئی اے کا زوال شروع ہو گیا جب کہ ان کی ذاتی ایئرلائنز منافع بخش بنتی گئیں۔"
پی آئی اے کے ذمہ داروں کا کیا کہنا ہے؟ اسلام آباد میں مقیم ماہر معاشیات شاہد محمود کا کہنا ہے کہ فوجی اور سویلین دونوں ہی حکومتیں، پی آئی اے اور پاکستان اسٹیل ملز جیسے سرکاری اداروں کو من پسند بیوروکریٹس، پارٹی ممبران اور اپنے ذاتی مفادات کے لیے استعمال کرتی رہی ہیں۔ "اس کے نتیجے میں وہ معیشت کا خون کر رہے ہیں۔ اس لیے ان اداروں کی نجکاری کی جانی چاہئے۔" پاکستان کے وزیر برائے نجکاری فواد حسن فواد تاہم اس تاثر کو مسترد کرتے ہیں کہ حکومت کا فیصلہ مبینہ مفاد پرست افراد کے مفادات کو فائدہ پہنچانا ہے۔ فواد حسن نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہاکہ نجکاری کا عمل سختی کے ساتھ قانون کے مطابق کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہر قدم پر مکمل شفافیت برتی جارہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ قانونی ڈھانچے اور اثاثوں کی قیمت کا تعین دنیا کے سرفہرست سرمایہ کاری بینک کررہے ہیں۔ فواد حسن کا کہنا تھا کہ "ویلوویشن ایکسپرٹ حکومت کے کنٹرول میں نہیں ہیں۔ قیمتوں کا تعین کرنے کے بعد ��ولی لگانے کا عمل ہر ایک کے لیے کھلا ہے۔"
انہوں نے مزید کہا کہ "موجودہ معاشی دباو میں حکومت کے لیے اوسطاً دس سے بارہ طیاروں کو آپریشنز پر ہر سال تقریباً 150 ارب روپے کے بھاری خسارے کو پورا کرنا ممکن نہیں ہے۔" تاہم ٹریڈ یونین لیڈر سہیل مختار کا کہنا تھا کہ پی آئی اے کے ملازمین نجکاری کی مزاحمت جاری رکھیں گے اور دیگر افراد کو بھی اپنے ساتھ شامل کرنے کی کوشش کریں گے۔ بائیں بازو سے تعلق رکھنے والی کارکن عالیہ بخشال نے بتایا کہ ان کی پیپلز ورکرز پارٹی پی آئی اے کے ملازمین کے رابطے میں ہے اور وہ پی آئی اے کی نجکاری کے خلاف مزاحمت کے لیے ایک مشترکہ لائحہ عمل پر کام کررہے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا،"حکومت پی آئی اے کے ملازمین کو بھوک اور بھکمری کی طرف دھکیل رہی ہے۔ ہم خاموش نہیں بیٹھ سکتے اور اس اقدام کی پوری طاقت سے مخالفت کریں گے۔"
ایس خان، اسلام آباد
بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو
0 notes
Text
انڈونیشیا کی ایئرلائن کاطیارہ ڈھائی ماہ بعد بھی کراچی ایئرپورٹ پر مرمت کا منتظر
انڈونیشیا کا تیکنیکی خرابی کا شکار طیارہ اڑھائی مہینے سے کراچی کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر مرمت کا منتظر،پی آئی اے ہینگرمیں موجود طیارے کے لیے تاحال انجن نہیں پہنچ سکا۔ ذرائع کے مطابق گرودا انڈونیشیا انٹرنیشنل ایئر لائن کا اے ٹی آر 600-72 طیارہ 26 جولائی کو کراچی پہنچا تھا،رجسٹریشن نمبر پی کے جی اے ڈی کا حامل طیارہ ری فیولنگ کے لئے کراچی اترا تھا، متحدہ عرب امارات جانے کے لئے ٹیک آف سے قبل…
View On WordPress
0 notes
Text
ملائیشیا میں روکا گیا قومی ایئرلائن کا طیارہ وطن واپس روانہ
فائل فوٹو ملائیشیا کی عدالت نے کوالالمپور سے پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن (پی آئی اے) کے طیارے کو وطن واپسی کی اجازت دی۔ طیارہ اسلام آباد کےلئے روانہ ہوگیا۔ ذرائع کے مطابق مقامی عدالت نے جمعہ کو طیارہ روکنے کے حکم کو پی آئی اے کے حق میں ختم کردیا تھا۔ تاہم بھارتی ایوی ایشن اتھارٹی کی جانب سے بھارتی فضائی حدود میں داخلے کی اجازت نہ دینے پر پی آئی اے کا طیارہ ابھی تک پرواز نہیں کرسکا، جس کی وجہ سے…
View On WordPress
0 notes
Text
پی آئی اے کا ایک اورطیارہ مزید امدادی سامان لے کر ترکیہ پہنچ گیا
اسلام آباد : پی آئی اے کا ایک اورطیارہ مزید امدادی سامان لے کر ترکیہ پہنچ گیا ، اب تک پی آئی اے کی 6 شیڈول اور دو چارٹرڈ پروازوں میں سامان پہنچایا جا چکا ہے۔ تفصیلات کے مطابق ترکیہ اور شام کے لیے امداد میں پاکستان پیش پیش ہے، پی آئی اے کا ایک اور طیارہ مزید پانچ ٹن امدادی سامان لے کر ترکیہ پہنچ گیا۔ ترکیےاور شام میں پی آئی اے کی چھ شیڈول اور دو چارٹرڈ پروازوں میں سامان پہنچایا جا چکا ہے۔ ترجمان…
View On WordPress
0 notes
Text
پی آئی اے کا طیارہ مزید 5 ٹن امدادی سامان لیکر ترکیہ پہنچ گیا
فوٹو: اسکرین گریب کراچی: پی آئی اے کا طیارہ زلزلہ متاثرین کیلئے مزید 5 ٹن امدادی سامان لیکر ترکیہ پہنچ گیا۔ ترجمان قومی ایئر لائن کے مطابق زلزلے کے بعد سے پی آئی اے اب تک مجموعی طور پر 72 ٹن امدادی سامان اور 51 ریسکیو ٹیم کے افراد کو لے کر جاچکا ہے، پی آئی اے نے ترکی میں ادانا اور استنبول جبکہ شام کے شہر دمشق کیلئے 6 شیڈول اور 2 خصوصی چارٹرڈ پروازیں آپریٹ کی ہیں۔ ترجمان پی آئی اے کے مطابق…
View On WordPress
0 notes
Text
کوئٹہ سے اسلام آباد آنے والی پرواز میں مسافرآپس میں لڑ پڑے
کوئٹہ سے اسلام آباد آنے والی پرواز میں مسافرآپس میں لڑ پڑے
فوٹو اسکرین گریپ اسلام آباد: کوئٹہ سے اسلام آباد پہنچنے والے پی ائی اے کے طیارے میں مسافر آپس میں لڑ پڑے اور ایک دوسرے پر مکوں کا آزادانہ استعمال کیا، شدید جھگڑے کے دوران دیگر مسافر خود اور بچوں کو بچاتے رہے۔ کوئٹہ سے اسلام آباد آنے والی پی آئی اے کی پرواز نمبر 326 اسلام آباد ائیرپورٹ پہنچی تو دو مسافروں کے مابین دوران پرواز بھی تکرار ہوتی رہی تاہم جب طیارہ لینڈ ہوا تو مسافر آپس میں دوبارہ…
View On WordPress
0 notes
Link
بزنس ریکارڈر کی اطلاعات کے مطابق، کراچی کے علاقے ماڈل کالونی میں ،پی آئی اے کا طیارہ جس میں
سو سے زائد افراد تھے گر کر تباہ ہوگیا ہے
اس کی وجہ تکنیکی خرابی بتائی جارہی ہے ، پی آئی اے کا طیارہ جو کہ کراچی سے لاہور آرہا تھا ، اسے
،کراچی کے ائیر پورٹ جناح ٹرمینل پر لینڈ کرنا تھا
Flight No. A230 جس میں ، سو سے زائد مسافر سوار تھے
تاہم ابھی ، زخمی اور اموات ، کی تعداد کا کوئی علم نہیں
پی آئی اے کا طیارہ ،کراچی کے علاقے ماڈل کالونی میں گر کر تباہ ہونے کی وجہ سے
مبینہ طور پر
کم از کم پانچ گھر
اور کچھ گاڑیاں تباہ ہوگئ ہیں
قانون نافذ کرنے والے اداروں/میڈیکل/طبی عملے/ریسکیو ٹیم نے جناح ٹرمینل ، اور متعلقہ علاقے کا گھیراو کرلیا ہے ، سول ایوی ایشن نے کراچی کے ہوائے اڈے پر ، ایمرجنسی نافذ کردی ہے
0 notes
Text
ملائیشیا میں لیز کے تنازع پر پی آئی اے کا طیارہ پکڑا گیا
ملائیشیا میں لیز کے تنازع پر پی آئی اے کا طیارہ پکڑا گیا
پی آئی اے کا طیارہ۔ کراچی: کوالالمپور کی ایک عدالت نے بدھ کے روز پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن (پی آئی اے) طیارے کو رہا کرنے کا حکم دیا ہے جو اس ماہ کے شروع میں لیز پر ہونے والے تنازعہ پر پکڑا گیا تھا۔ پی آئی اے کے ترجمان کے مطابق ، ایئرلائن نے لیزنگ فرم کے ساتھ عدالت سے باہر طے پانے کیلئے معاہدہ کیا جس کے بعد عدالت نے رہائی کا حکم جاری کیا۔ انہوں نے کہا ، “ایئرلائن ایک کمرشل پرواز کے طور پر طیارے…
View On WordPress
0 notes
Photo
کراچی جہاز حادثہ کے بعد پی آئی اے کا طیارہ ایک بڑے حادثے سے بال بال بچ گیا، پرواز سے قبل لینڈنگ گیئر کا اہم حصہ رن وے پر گرگیا اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) کراچی جہاز حادثہ کے بعد ایک اور بڑا حادثہ پیش آتے آتے رہ گیا۔ ایک نجی ٹی وی چینل کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد سے گلگت پہنچنے والا پی آئی اے کا مسافر طیارہ حادثے سے بال بال بچ گیا، پی آئی اے کا جہاز پی کے 605 کے لینڈنگ گیر کا بولٹ نکل گیا، جس کے بعد سول ایوی ایشن نے جہاز کو پرواز سے روک دیا۔ رپورٹ کے مطابق سول ایوی ایشن کی
#آئی#اہم#ایک#اے#بال#بچ#بڑے#بعد#پر#پرواز#پی#جہاز#حادثہ#حادثے#حصہ#رن#سے#طیارہ#قبل#کا#کراچی#کے#گرگیا#گیئر#گیا#لینڈنگ#وے
0 notes
Text
جعلی ڈگریاں اور کرپشن، تبدیلی کیسے آئے گی؟
کراچی طیارہ حادثہ رپورٹ وفاقی وزیر ہوا بازی نے قومی اسمبلی میں پیش کر دی ہے، ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق پائلٹ اور اے ٹی سی نے مروجہ طریقہ کارکو اختیار نہیں کیا، جو حادثے کا سبب بنا۔ بلاشبہ اس رپورٹ کا پوری قوم کو شدت سے انتظار تھا، یہ ایک مستحسن اقدام ہے کہ حادثے کی رپورٹ ایک ماہ بعد منظر عام پر لائی گئی ہے اور اسے قوم کے سامنے پیش بھی کر دیا گیا ہے۔ اس رپورٹ کی روشنی میں حکومت یقینا قومی ایئر لائن میں پائی جانیوالی خامیوں کی اصلاح کے لیے عملی اقدامات اٹھائے گی تاکہ آیندہ اس طرح کے افسوسناک واقعات رونما نہ ہو سکیں۔ یہ خبر بھی خوش آیند ہے کہ طیارے حادثے کی عبوری رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد پی آئی اے نے فلائٹ ڈیٹا کی مانیٹرنگ کا فیصلہ کر لیا ہے، مانیٹرنگ ایک سینئر ترین پائلٹ کریں گے جوکسی بھی ایوی ایشن سے منسلک نہیں ہوں گے۔
وفاقی وزیرکے مطابق پائلٹس کے جعلی لائسنس پرکارروائی کا آغاز کر دیا گیا ہے، بعض ہوا بازوں کے امتحانات کے دن بھی مشکوک ہیں اور بعض کی ڈگریاں اور اسناد بھی جعلی ہیں۔ وفاقی وزیر نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے دور میں ایک بھی بھرتی پی آئی میں نہیں ہوئی ہے، تاہم یہ بھرتیاں سابقہ ادوار کی ہیں ۔ قومی ایئرلائن ہمارا ملکی اثاثہ ہے، جو دنیا بھر میں پاکستان کی پہچان بنی، لیکن المیہ یہ ہے کہ ملک میں اقربا پروری کا جو چلن سیاسی جماعتوں نے پروان چڑھایا اس سے ہمارے پورے قومی نظام کو دیمک لگ گئی۔ سرکاری ادارے ہوں یا نجی ادارے سب ہی زبوں حالی کا شکار ہوتے چلے گئے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس ملک میں سرے سے کوئی نظام ہی موجود نہیں ، کسی کی کہی یہ بات سچ معلوم ہوتی ہے کہ بس اللہ کے سہارے پر چل رہا ہے یہ ملک۔
دنیا بھر میں فضائی حادثات کی شرح انتہائی کم ہے لیکن ہمارے یہاں کچھ عرصے سے اس کے ایک غیر محفوظ سفر ہونے کا تاثر ابھرنا صورتحال کی سنگینی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ درحقیقت جعلی ڈگریاں، اقربا پروری اور سیاسی سفارش کے کلچر نے ہمارے قومی نظام کو تباہ وبرباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ یادش بخیر ! بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ اسلم رئیسانی نے کہا تھا کہ ’’ڈگری، ڈگری ہوتی ہے، اصلی ہو یا نقلی‘‘ تو سنجیدہ قومی حلقوں میں اس پر بہت لے دے ہوئی تھی۔ آج بھی پاکستانی ڈگریوں کی چھان پھٹک کی جائے تو یہ بات سامنے آئے گی کہ یہ ڈگریاں یا تو جعلی ہیں یا پھر سفارش اور رشوت کی بنیاد پر حاصل کی گئی ہیں، ان میں اقربا پروری ملوث ہے یا یہ نقالی کا نتیجہ ہیں۔ چاہے وہ ڈاکٹر ہوں، انجینئر ہوں ، وکلاء ہوں یا ایم بی اے ، ایم فل، پی ایچ ڈی ہوں۔
ایک بڑی تعداد میں ڈگریاں سفارش ، رشوت، اقربا پروری اور نقل سے حاصل کی گئی ہوتی ہیں۔ ہمارا سب سے بڑا قومی المیہ یہ بھی ہے کہ قوم کی ’’قیادت‘‘ کرنے والے بڑے بڑے سیاستدانوں اور ان کی اولادوں نے قومی وصوبائی اسمبلیوں میں براجمان ہونے کے لیے بغیر پڑھے لکھے ’’ڈگریاں‘‘ حاصل کر لیں۔ سابق آمر جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں قومی و صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں بی اے کی ڈگری ہونا ضروری تھا۔ سیاسی زوال کی انتہا یہ ہے کہ سیاستدانوں نے واقعی ڈگری یافتہ ’’ہونے‘‘ کو اہمیت اور فوقیت دی، گریجویٹ ہونے کو نہیں اور نہ ہی علم حاصل کرنے کے عمل کو مقدم جانا۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ پاکستان علمی سطح سمیت ہر شعبے میں پستی اور زوال کا شکار ہو چکا ہے، اگر ہم اپنی اصلاح چاہتے ہیں تو ہمیں اس بات کی کھوج کرنا ہو گی کہ یہاں جعلی ڈگریوں کا چلن عام کیسے ہوا، اور اس کا خاتمہ کیونکر ممکن ہے۔
ایک نظر ڈالیں تو یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ ملک میں رائج کئی اقسام کے تعلیمی نظام سے قوم میں واضح طبقاتی تقسیم پیدا کر دی گئی ہے۔ پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے لیے جامعات بھی دو طرح کی ہیں۔ ایک سرکاری جہاں صرف اپنے اپنے بندے تعینات کیے جاتے ہیں۔ اگرچہ اشتہار دیا جاتا ہے لیکن پہلے سے مخصوص لوگ منتخب کر لیے جاتے ہیں۔ دوسری جانب ملک بھر میں پرائیویٹ یونیورسٹیوں کا ایک جال بچھا ہوا ہے جہاں کسی بھی اعلیٰ ڈگری کے لیے پانچ چھ لاکھ روپے سے چالیس پچاس لاکھ روپے تک ادا کرنے ہوتے ہیں۔ پرائیویٹ یونیورسٹیوں میں جی پی اے آسمانوں سے باتیں کرتا ہے اور عموماً ایک بھی طالبعلم ��یسا نہیں ہوتا جسے اعلیٰ ڈگری عطا نہ کی جاتی ہو۔ غور طلب بات ہے کہ کیا سارے طالب علم افلاطون یا ارسطو ہوتے ہیں۔ کیا سارے ہی اتنے لائق قابل ہوتے ہیں کہ ڈگری لے کر نکلیں۔ ظاہر ہے کہ یونیورسٹی فیس کے نام پر جو بڑی رقمیں وصول کرتی ہے اْس پر ڈگری دینا بھی لازم ہوتا ہے۔ آپ اس ڈگری کے معیارکا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یونیورسٹیوں کے ریسرچ پیپرز میں گھِسی پٹی اور نقل شدہ چیزیں شامل ہوتی ہیں، کسی ایک یونیورسٹی کے جریدے میں ایک بھی حقیقی ریسرچ آرٹیکل نظر نہیں آتا۔ یہی حال انجینئرنگ، طب ، قانون اور دیگر شعبوں کا ہے۔ روز چھتیں اور عمارتیں پلازے پْل گرتے ہیں۔ ہر روزاسپتالوں اور پرائیویٹ کلینک میں لوگ سیکڑوں کی تعداد میں غیر طبعی موت مرتے ہیں کیونکہ یہاں علاج پر متعین عملے نے دو نمبر طریقے سے ڈگریاں حاصل کی ہوتی ہیں۔ یہ بھی ہماری تاریخ کا سیاہ باب ہے کہ افغانوں کو سیاسی عمل میں داخل کرنے اور ان سے ووٹ کے حصول کے لیے انھیں قومی شناختی کارڈ بنا کر دیے گئے۔
سوشیالوجی اور کرمنالوجی کے طالبعلم اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ جن علاقوں میں ایسی ہجرتیں بغیر کسی ضابطہ اخلاق کے ہوں وہاں پر ایسے اثرات کا پایا جانا فطرت سے بعید ہرگز نہیں۔ دنیا میں ایسے بے شمار خطے ہیں جہاں پر لوگ مائیگریشن کرتے ہیں لیکن وہاں پر قانون کی بالادستی کے باعث ایسے اثرات کم ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر ہمارا قابل اورذہین ترین نوجوان اپنے ملک سے دور بھاگنے کی کوشش کیوں کرتا ہے؟ آج ہماری نوجوان نسل بیرون ملک جانے کے خواب آنکھوں میں کیوں سجاتی ہے۔ مصور پاکستان علامہ اقبال اور قائد اعظم کو اس ملک کے نوجوانوں سے بہت سی توقعات وابستہ تھی، قائداعظم چاہتے تھے کہ نوجوان سیاست میں شامل ہو کر ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کریں لیکن افسوس قیام پاکستان کے بعد ہماری وڈیرہ شاہی اورہماری اشرافیہ نے نوجوان نسل کو اپنے ذاتی مفادات کی خاطر تعلیمی اداروں میں بھی خوب استعمال کیا، نوجوان نسل کو ایسے مشغلے ایسا نصاب اور ایسا کلچر دیا گیا کہ وہ قیام پاکستان کا مقصد ہی بھول گئے۔
آج کا نوجوان اس ملک کے حالات کو دیکھ کر صرف کڑھ سکتا ہے وہ اعلیٰ ڈگریاں لینے کے بعد سڑکوں پر رلتا ہے، حالانکہ اسی ملک میں جعلی ڈگریوں والے اونچی اونچی کرسیوں پر فائز ہیں۔ ایک جانب ملک کی وہ نوجوان نسل جو اپنے ہاتھوں میں ڈگریاں پکڑے تحریک انصاف کی حکومت سے روزگار کے لیے امید اور آس لگائے بیٹھی تھی اب ان میں مایوسی پھیلتی جا رہی ہے۔ موجودہ حکومت کی گورننس کا جائزہ لیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ اتنا اپوزیشن نے حکومت کو نقصان نہیں پہنچایا جتنا وزراء کی جانب سے اختیارکیے جانے والے طرز عمل کے باعث ��کومت کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے۔ نئی نسل کو تحریک انصاف کی قیادت سے یہ توقع تھی کہ وہ برسر اقتدار آکر ملک میں ایسی سیاسی تبدیلی کو یقینی بنائے گی کہ لوٹ کھسوٹ کے بازار بند ہوں گے، اداروں کی بالادستی قائم ہو گی۔
لیکن کچھ بھی نہیں بدلا، اسے پاکستان کی سیاسی بد قسمتی ہی قرار دیا جا سکتا ہے کہ تاحال سیاسی زوال کے ساتھ ساتھ جعلی ڈگریوں، سفارش اور اقربا پروری کی روش قائم ہے۔ ہم یہ بات من وعن تسلیم کرتے ہیں کہ وزیر اعظم عمران خان اب بھی ملک میں حقیقی معنوں میں سیاسی تبدیلی چاہتے ہیں۔ میرٹ کی بالادستی کا عزم رکھتے ہیں اور واقعتاً اداروں کی بالادستی کے خواہاں ہیں لیکن عوام بیانات کی حد تک نہیں حقیقی معنوں میں تبدیلی چاہتے ہیں۔ قومی سچ تو یہ ہے کہ ہم ہر معاملے میں شارٹ کٹس کے راستے پر چل رہے ہیں۔ کھیل ہو یا سیاست کا میدان ہم ہر جگہ کوشش کرتے ہیں کہ رشوت، سفارش اور اقربا پروری کے ذریعے اعلیٰ مقام بنائیں۔ میرٹ والے منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں اور سفارشی اور پرچی مافیا والے میدان مار لیتے ہیں۔
شاید یہی وجہ ہے کہ ہم مرد میدان بننے سے محروم ہیں۔ ہر شعبے میں جو زوال نظر آرہا ہے اس کی وجہ یہی ہے، کرپشن ، رشوت اور سفارش ہمارے معاشرے کے ایسے ناسور بن چکے ہیں، جب تک انھیں جسم سے علیحدہ نہیں کیا جائے گا،اس وقت تک ہماری ترقی ایک خواب رہے گی۔ حرف آخر طیارہ حادثہ کے جو بھی ذمے داران ہیں انھیں قرار واقعی سزا دلوائی جائے تاکہ آیندہ ایسے افسوسناک سانحات جنم نہ لے سکیں۔ بلاشبہ یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ پائلٹس کی بھرتیوں میں اگرقواعد وضوابط کو نظر اندازکیا گیا ہے تو ان کے خلاف بھی فوری اور موثر کارروائی ہونی چاہیے۔
بشکریہ ایکسپریس نیوز
1 note
·
View note
Text
سیالکوٹ سے جدہ جانے والی پرواز میں خرابی، طیارہ 6 گھنٹے کراچی رکا رہا
تیکنیکی خرابی کے سبب کراچی کے جناح انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر اتاری گئی پرواز6گھنٹے تاخیر کے بعد جدہ روانہ ہوئی۔ ذرائع کے مطابق آج پی آئی اے کی سیالکوٹ سے جدہ جانے والی پروازپی کے 745کو اس وقت تیکنیکی بنیادوں پرکراچی ائیرپورٹ کے رن وے پراتاراگیا،جب پروازکے کپتان کو کاک پٹ میں کسی گڑبڑ کا پتہ چلا۔ ذرائع کے مطابق جہاز کے کاک پٹ عملے کو اسموگ آلارم کا الرٹ موصول ہوا،جس پرکپتان اورنائب کپتان نے پروازکو…
View On WordPress
0 notes
Text
کیا پی آئی اے اب بھی فعال رہنے کی مستحق ہے؟
ایک لمحے میں سب کچھ فنا ہو گیا۔ اُمیدوں، منصوبوں اور خوابوں سے سرشار متعدد خوبصورت قیمتی جانوں کے چراغ گُل ہو گئے۔ کس لیے؟ کیا صرف اس لیے کہ ان خوبصورت قیمتی زندگیوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے جو ذمہ داری جس کسی ایک شخص کو سونپی گئی تھی وہ اس نے پوری نہیں کی؟ اس لیے کہ کہیں کوئی شخص اس قدر نااہل، خود غرض اور لاپرواہ تھا کہ اس نے وہ تمام معاملات ٹھیک کرنا گوارہ نہ کیے جو پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن (پی آئی اے) کی پروازوں کو بحفاظت اتارنے اور رن وے سے چند سو میٹر دُور ایک لمحے میں گر کر تباہ ہونے سے بچانے کے لیے ضروری ہیں۔ امیدوں، منصوبوں اور خوابوں سے سرشار ان لوگوں کو اس طرح تو نہیں مرنا چاہیے تھا۔ اس کا کہیں کوئی ذمہ دار تو ضرور ہے۔
کیا یہ سوال پوچھنے کا صحیح وقت ہے؟ بے شک، یہی وقت ہے ببانگِ دہل اعلان کرنے کا کہ اگر کہیں کسی شخص نے اپن�� ذمہ داری کو نبھایا ہوتا تو یہ لوگ لقمہ اجل نہ بنتے۔ قوم صدمے میں ہے۔ مگر ان کا خون بھی کھولنا چاہیے۔ غصے اور تڑپ کے ساتھ اس مجرمانہ غفلت پر خون کھولنا چاہیے جس کے باعث پی آئی اے کا طیارہ حادثے کا شکار بنا۔ ان سارے افراد پر خون کھولنا چاہیے جو قومی ایئرلائن پر سوار مسافروں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے ذمہ دار تمام اداروں کی خرابی کے حصہ دار ہیں، ہمارا ان سب پر خون کھولنا چاہیے جو اس خرابی کو پالتے ہیں، سنگین تر بناتے ہیں اور اس خرابی کی بُو کو باہر نکلنے نہیں دیتے۔ حالانکہ انہیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے کرتوت کسی دن خوبصورت اور قیمتی جانوں کے نقصان کا سبب بن سکتے ہیں یا بن جائیں گے۔
فی الحال تو چہار سوں لال جھنڈیاں لہراتی نظر آ رہی ہیں۔ روشنیاں مدھم ہیں۔ سائرنوں کی آوازیں دھیمی ہو گئی ہیں۔ لوگوں کی چیخ و پکار کی شدت کم پڑ گئی ہے۔ یہ جو ہم لوگ کر رہے ہیں وہ ٹھیک نہیں ہے، یہ روشنیاں، سائرن اور چیخ و پکار کی آوازیں ہمارے کانوں میں سرگوشیاں کر رہی ہیں۔ جب آپ کسی ادارے کی ذمہ داری لیتے ہیں اور پھر اس میں میرٹ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غیر پیشہ ورانہ افراد کو بھرتی کریں گے تو یہی نتیجہ نکلے گا جو ابھی نکل رہا ہے۔ انسانی وسائل کی بات کریں تو وہاں سمجھوتہ، نظام کو چلانے سے متعلق معیارات کی بات کریں تو وہاں سمجھوتہ، حفاظتی اقدامات کا تذکرہ کریں تو وہاں سمجھوتہ، ہمارے گرد سست رفتار لیکن یقینی بگاڑ کا جو عمل جاری ہے وہ دراصل رفتہ رفتہ سر پر ٹوٹنے والا ایک ناگزیر سانحہ ہے۔
سب کچھ تو ٹوٹ کر بکھر رہا ہے۔ معیارات، توقعات اور حتمی نتائج۔ دہائیوں پرانے بگاڑ کے اوپر سڑتے گلتے نظام کا ڈھانچہ کھڑا ہے۔ یہ ایک ایسا بگاڑ ہے جو مجرمانہ غفلت کی آڑ لیتا ہے اور ذمہ داری سے پلو جھاڑنے کی کوشش کرتا ہے۔ فضائی حادثے میں لوگ مارے جاتے ہیں، ان کی زندگی رائیگاں جاتی ہیں، ان کی موت رائیگاں جاتی ہے اور جو زندہ رہ جاتے ہیں ان کو حادثے کے بعد شاید زیادہ نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ اسی لیے مُردوں کے کفن دفن اور غم منانے سے بھی پہلے اس بگاڑ کو متحرک دیکھنے کے لیے تیار رہیے۔ بگاڑ کو حفاظتی گھیرے میں لینے کے لیے نظام کے بازوؤں کو آگے بڑھتا دیکھنے کے لیے تیار رہیں۔
دیکھیے گا کس طرح دوسرے پر انگلی اٹھانے، ٹال مٹول کرنے اور متاثر کو مجرم قرار دینے کا ایک چکاچوند سلسلہ شروع ہو گا اور اس انسانی ساختہ آفت کو تقدیر کا فیصلہ مان لیا جائے گا، یوں دھیرے دھیرے جمعے کے روز پیش آنے والے فضائی حادثے کا صدمہ بھی ٹھنڈا پڑجائے گا۔ یہاں آپ یہ سوال پوچھ سکتے ہیں کہ غم و غصہ کیوں ہو بھلا؟ فضائی حادثے تو پوری دنیا میں پیش آتے ہیں اور اس میں لوگ مرتے بھی ہیں۔ یہ سچ ہے لیکن پورا سچ نہیں۔ دنیا میں حادثات کے بعد جو کچھ ہوتا ہے، وہ سب ہمارے ہاں نہیں ہوتا، اور اصل غصہ اسی بات پر ہے۔ حادثات کے بعد جس طرح ذمہ داروں کا تعین ہوتا ہے، اس طرح ہمارے ہاں نہیں ہوتا، اس بات پر غم و غصہ ہے۔ حادثے کے بعد جس طرح سبق حاصل کیا جاتا ہے اس طرح ہمارے ہاں سبق حاصل نہیں کیا جاتا، اس بات پر غم و غصہ ہے۔
حادثات کے بعد جس طرح نظام میں بہتری لانے کے لیے کوششیں کی جاتی ہیں، اس طرح ہمارے ہاں نہیں لائی جاتیں اس بات پر غم و غصہ ہے۔ اس غم و غصے کو اب زندہ رکھنا اور قوت میں بدلنا ہو گا تاکہ یہ قوم کو مجبور کیا جاسکے کہ وہ یہ سوال پوچھے، یہ وہ سوال ہیں جو بار بار پوچھنے چاہیے تھے اس وقت تک جب تک جواب نہیں مل جاتا ہے: کیا پی آئی اے اب بھی فعال رہنے کی مستحق ہے؟ اب جب یہ زندگیوں، اربوں روپوں اور اپنے وجود کی ساری وجہوں کو آگ میں جھونک رہی ہے تو ایسے میں کیا یہ فعال رہنے کی مستحق ہے؟ آئیے یہ سوال پوچھتے ہیں اور پھر فیصلے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
فیصلے سے ذمہ داری کا دائرہ وسیع ہوجائے گا۔ اس دائرہ میں کون ہو گا؟ حتمی فیصلے میں کس کا نام سرِفہرست ہو گا؟ کون اپنے ضمیر پر حادثے کا بوجھ برداشت کرے گا؟ ایسے فیصلوں کے نتائج بھی برآمد ہوتے ہیں۔ کمزور افراد ان نتائج سے نمٹ نہیں سکتے۔ وہ نتائج سے نمٹنا ہی نہیں چاہتے۔ اسی لیے اپنے گند پر پردہ ڈال دیتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ حادثے کے وقت جب تک وہ جہاز کے بجائے اپنے شاندار دفاتر میں بیٹھے ہیں تب تک ان کی جان کو کوئی خطرہ نہیں ہو سکتا۔ مگر صرف پی آئی اے سے ہی سوال کیوں پوچھا جائے؟ ان سارے اداروں سے کیوں نہیں پوچھا جائے جو قومی ایئر لائن کے تحفظ یا اس میں کوتاہی برتنے میں برابر کے حصہ دار ہیں؟ انہیں کٹھہرے میں کیوں نہ لایا جائے اور ان خوبصورت اور قیمتی جانوں کے نقصان کا حساب مانگا جائے؟
کیوں نہ ان کو بھی احتساب کے دائرے میں لایا جائے ان سوالوں کے جواب مانگے جائیں جن کا وہ جواب نہیں دیا کرتے؟ حسبِ معمول یہ سب کچھ ہو گا۔ البتہ اپنا دل تھامنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ یقین جانیے اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ سوالات تو پوچھے جائیں گے، لیکن زیادہ مشکل سوالات نہیں۔ تحقیقات کا تو حکم دیا جائے گا مگر گہری تحقیقات کا نہیں۔ لوگوں کو سزائیں تو ہوں گی مگر بڑے لوگوں کو نہیں، اور اقدامات تو کیے جائیں گے مگر زیادہ اہم اقدامات نہیں۔ پھر ہم وہی کریں گے جس کے ہم عادی ہیں یعنی آگے چل بڑھ جائیں گے۔ مطلب یہ کہ حادثات کے بعد صورتحال پر اس وقت تک کوئی فرق نہیں پڑتا جب تک کہ دوسرا حادثہ نہ ہو جائے۔
تو چلیے اس وقت تک اسی طرح اپنا غم اور غصہ پیتے جاتے ہیں جب تک غم ایک دائمی درد کی صورت اختیار نہیں کر لیتا اور غصہ ہوا میں اڑ کر فنا نہیں ہو جاتا۔ جنازے، آہ و بکا، تصاویر کھچوانے اور کھوکھلے الفاظ بولنے، شہ سرخیوں اور خصوصی رپورٹیں اور حادثے پر مباحثے میں مصروف چند ٹی وی شوز کے سلسلے کو آرام سے دیکھنے اور اس پر چھائے احساس جرم کی طرح اپنے اوپر ان سب کے اثرات کو غالب آنے دیجیے۔ خرابیوں کی مٹی سے جڑے اس نظام سے توقعات وابستہ کرنا فضول ہے اور یہ بات یہاں کی زندگی کا اب تو ایک فطری حصہ بن چکی ہے۔ درویشانہ دیوانوں کو یہ بات دوسری طرح بتانے مت دیجیے۔ ٹکٹ کے پیسے ادا کریں اور معجزے کی دعا کریں۔
فہد حسین یہ مضمون 23 مئی 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
1 note
·
View note
Text
ایک قوم جس کا نام ........... پاکستانی ہے.،
ہم رشوت کو چائے پانی کہتے ہیں،
مردار گدھوں اور کتوں کا گوشت
کئی ہوٹلوں اور قصابوں سے پکڑا گیا ہے،
سیوریج کے پانی سے سبزیاں اگائی جارہی ہیں،
ڈاکٹرز
اب گردے نکال کر بیچ دیتے ہیں،
ماؤں نے نارمل طریقے سے بچے جننے چھوڑ دیئے ہیں
کیونکہ ڈاکٹرز کے پیٹ نہیں بھرتے،
شہد کے نام پر چینی، شکر اور گُڑ کا شیرہ ملتا ہے،
سنتالیس لوگ طیارہ حادثے میں قتل کردیئے گئے
اور ایم ڈی پی آئی اے فرمارہے ہیں کہ امید تھی کہ
طیارہ ایک انجن سے لینڈ کرلے گا،
بلوچستان
جانور اور انسان ایک ہی گھاٹ سے پانی پیتے ہیں
(میلوں سفر کے بعد اگر کوئی گھاٹ مل جائے)
اور اسی بلوچستان کے ایک بائیس گریڈ کے افسر کے گھر سے
ایک ارب روپے کے قریب کیش برآمد ہوا اور اس افسر کے صرف ڈیفنس کراچی میں اب تک آٹھ بنگلے دریافت ہوچکے ہیں،
عوام
علاج کے لیے سرکاری ہسپتالوں سے دو دو سال بعد کا ٹائم ملتا ہے
اور حکمرانِ وقت دنیا کے بہترین ہسپتالوں اور ڈاکٹروں سے
علاج کروانے ملک سے باہر جاتے هیں ،
پیچھے سے یہی عوام ان کی صحتیابی کی دعائیں کرتے ہیں
اور ان کے علاج پر کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔
اس ملک میں بھتہ نه ملنے پر تین سو انسانوں کو زندہ جلادیا جاتا هے ` لیکن لوگ اب بھی اس پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں
اس ملک کے سب سے بڑے صوبے کا تیسری مرتبہ کا وزیرِ اعلٰی انتخابات سے پہلے بڑے بڑے وعدے کرتا ہے اور انتخابات کے بعد اسے جوشِ خطابت قرار دے دیا جاتا ہے،
اس ملک کے سب سے بڑے صوبے کا ساٹھ فیصد بجٹ
صرف ایک شہر پر لگا دیا جاتا ہے
اور باقی نو کروڑ لوگ اپنے حقوق کے لیے چُوں تک نہیں کرتے،
بلكه وہ اپنے علاقے سے ہزار کلومیٹر دور
صوبائی دارلحکومت میں کسی سڑک کے بننے پر خوشيان منا تے ہیں جبکہ ان کے اپنے شہر کھنڈر کا منظر پیش کررہے ہوتے ہیں،
قائدِاعظم کے مزار کی دیکھ بھال پر موجود عملہ
مزار کے نیچے موجود کمروں کو ''جوڑوں'' کو کرائےپردیتا تها،
بچوں سے جنسی زیادتی کے ہوشربا اور ہولناک سکینڈلز سامنے آتے ہیں، کہا جاتا ہے کہ تین کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں
اور آدھی سے زیادہ آبادی کے ليے پوری خوراک بهى نهيں -
دنیا بھر میں رواج ہے کہ
کوئی مجرم عدالت جاتے یا آتے وقت
احساسِ ندامت سے اپنا چہرہ چھپاتے ہیں
لیکن ہمارے ملک میں بڑے بڑے مجرم حتٰی کے قاتل بھی
عدالتوں کے باہر وکٹری سائن بناتے نظر آتے ہیں۔
اس ملک میں آپ اپنا جائز سے جائز کام بھی
خوار ہوئے اور رشوت دیئے بغیر نہیں کرواسکتے،
لوگ اپنی محافظ پولیس سے دامن بچا کر
دور دور سے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں،
عدالتیں کسی ملک کا وقار ہوتی ہیں اور عوام کا آسرا `
ان کے بارے میں مساجد میں دعائیں کی جاتی ہیں کہ
اللہ ہمیں کورٹ کچہری سے بچائے، ۔
اپنے ملک کا حشر نشر ہو چکا ہے پورا ملک لوٹ کر عوام کا خزانہ بیرون ملک منتقل کردیا گیا ہے لیکن عوام کو اس بات میں زیادہ دل چسپی ہے کہ سعودی عرب کے بادشاہ نے امریکی صدر کو کیا تحفہ دیا۔۔۔۔
مورخ جب اس انوکھی قوم کی تاریخ لکھے گا تو اپنا سر پیٹ کر رہ جائے گا ۔۔۔۔
اس قوم کی تفریح فیس بک اور واٹس پر اپنے مخالفین کو لعن طعن کرنے کی حد تک رہ گئی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔اور بھی بے شمار چیزیں ہیں لیکن پڑھے گا کون؟ سمجھے گا کون ؟ ہم تو بس ایک اندھیر نگری چوپٹ راج کی جیتی جاگتی تصویر بنے ہوئے ہیں۔
افسوس صد افسوس ۔۔۔
منقول عرفی تہ در
03459991010
0 notes
Text
حکومت نے PIA کو چھ ماہ کے لیے 'Pakistan Essential Services Act' میں شامل کر لیا۔
حکومت نے PIA کو چھ ماہ کے لیے ‘Pakistan Essential Services Act’ میں شامل کر لیا۔
پی آئی اے کا طیارہ ہوائی اڈے پر اتر رہا ہے۔ – اے ایف پی حکومت نے ایکٹ کے نفاذ کو مطلع کیا کیونکہ اس کا خیال ہے کہ پی آئی اے “فلائٹ آپریشن کے ہموار کا�� کو برقرار رکھنے کے لئے ضروری ہے”۔ ایکٹ کے نفاذ کی اطلاع پی آئی اے ملازمین کو 22 اپریل کو جاری کردہ ایڈمن آرڈر کے ذریعے دی گئی ہے۔ ایک ملازم کے تین جرائم کی وجہ سے انہیں کم از کم ایک سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ کراچی: وفاقی حکومت نے “پاکستان…
View On WordPress
0 notes
Text
پی آئی اے کے دو طیارے ایرانی فضائی حدود میں درمیانی فضائی حادثے سے بال بال بچ گئے: رپورٹ
پی آئی اے کے دو طیارے ایرانی فضائی حدود میں درمیانی فضائی حادثے سے بال بال بچ گئے: رپورٹ
پاک��تان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) کا ایک طیارہ ہوائی اڈے پر اتر رہا ہے۔ — اے ایف پی/فائل تہران: پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کے دو طیارے اتوار کو درمیانی فضائی تباہی سے اس وقت بال بال بچ گئے جب وہ ایرانی حدود میں خطرناک حد تک ایک دوسرے کے قریب آگئے۔ ایرانی ایئر ٹریفک کنٹرول (اے ٹی سی) کی مبینہ غفلت کی وجہ سے دونوں طیارے ایک ہی روٹ اور اونچائی پر تھے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے…
View On WordPress
0 notes
Photo
وفاقی حکومت کا پی آئی اے طیارہ حادثے کی رپورٹ 22 جون کو پبلک کرنے کا اعلان کراچی (این این آئی) وفاقی حکومت کاطیارہ حادثے کی رپورٹ 22 جون کو پبلک کرنے کا اعلان کردیا ، جس پر عدالت نے کہا حادثے پر حتمی رپورٹ سے پہلے کوئی بات کر نہیں کر سکتے۔تفصیلات کے سندھ ہائی کورٹ میں پی آئی اے طیارہ حادثے کی شفاف تحقیقات سے متعلق درخواست پر سماعت ہوئی ، عدالت نے ڈپٹی اٹارنی جنرل سے استفسار کیا طیارہ حادثے کی رپورٹ کب تک آئے گی، جس میں بتایا گیا کہ
0 notes