#مونگ پھلی
Explore tagged Tumblr posts
Text
مونگ پھلی صحت کیلئے مفید قرار
ماہرین صحت کاکہنا ہے کہ مہنگی گریوں کے مقابلے میں سستی مونگ پھلی صحت کے لیے بہت مفید ثابت ہوسکتی ہے۔ بیشتر افراد کا ماننا ہے ہ مونگ پھلی بادام، اخروٹ یا کاجو جتنی مفید نہیں ہوتی۔مگرمونگ پھلی پروٹین، چکنائی اور فائبر سے بھرپور ہوتی ہے اور سب سے اچھی بات یہ ہے کہ چکنائی کی یہ قسم صحت کے لیے مفید خیال کی جاتی ہے جس سے کولیسٹرول لیول کم ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مونگ پھلی میگنیشم، فولیٹ،وٹامن ای،…
0 notes
Text
آج کی پوسٹ ان دیہاڑی داروں کے نام جو ہفتے میں ایک دفعہ اپنی بیٹی کا پسندیدہ انڈے والا بند کباب لاتے ہیں اور ساتھ اعلان بھی کرتے ہیں کہ انکا پسندیدہ کھانا تو بس روٹی اور چٹنی ہے👇
💕آج کی پوسٹ ان عظیم مردوں کے نام
جو رات کو اپنے چھالے بھرے ہاتھوں سے , اپنی ماں , بہن , بیوی , بیٹی کے لۓ گرما گرم مونگ پھلی لاتے ہیں اور ساتھ بیٹھ کر قہقہے لگا کر کہتے ہیں , تم لوگ کھاٶ میں تو راستے میں کھاتا آیا ہوں
💕آج کی پوسٹ ان عظیم جوانوں کے نام
جو شادی کے چند دن بعد پردیس کی فلاٸٹ پکڑتے ہیں اور پیچھے رہ جانے والوں کا ATM بن جاتے ہیں ۔ ۔ جنہیں اپنی بیوی کی جوانی اور اپنے بچوں کا بچپن دیکھنے کا موقع ہی نہیں ملتا
💕آج کی پوسٹ ان سب مزدوروں , سپرواٸزروں اور فیلڈ افسروں کے نام
جو دن بھر کی تھکان کے ٹوٹے بدن کے باوجود , اپنے بیوی بچوں کے مسکراتے چہرے دیکھنے کے لۓ رات کو واٸس ایپ (voice app)کال کرنا نہیں بھولتے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
💕آج کی پوسٹ ان سب دکانداروں اور سیلزمینوں کے نام "
جو سارا سارا دن اپنے وجود کے ساتھ لیڈیز سوٹ لگا کر کہتے ہیں : باجی دیکھیں کیسا نفیس پرنٹ اور رنگ ہے
💕" آج کی پوسٹ ان سب عظیم مردوں کے نام "
جو ملک کے کسی ایک کونے سے ڈراٸیو شروع کرتے ہیں اور پورے پاکستان میں اشیاء تجارت دے کر آتے ہوۓ اپنی بیٹی کے لۓ کسی اجنبی علاقے کی سوغات لانا نہیں بھولتے
💕آج کی پوسٹ ان معزز افسران کے نام
💕جو ویسے تو ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتے , مگر اپنے بچوں کے رزق کے لۓ سینٸیر اور سیٹھ کی گالیاں کھا کر بھی مسکرا دیتے ہیں ۔
" آج کی پوسٹ ان عظیم کسانوں کے نام "
جو دسمبر کی برستی بارش میں سر پر تھیلا لۓ پگڈنڈی پھر کر کسی کھیت سے پانی نکالتے ہیں اور کسی میں ڈالتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔
آج کی پوسٹ میرے والد صاحب کے نام
جنہوں نے مجھے زندگی دی اور زندگی بنا کر بھی دی
آج کی پوسٹ ہر نیک نفس , ایماندار اور محبت کرنے والے باپ , بھاٸی , شوہر اور بیٹے کے نام
جو اپنے لۓ نہیں اپنے گھر والوں کے لۓ کماتے ہیں
جنکا کوٸی عالمی دن نہیں ہوتا ۔ ۔
مگر ہر دن ان کے لۓ عالمی دن ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔
کیونکہ جن کے لۓ وہ محنت کرتے ہیں انکی چہروں پر مسکراہٹ ان لوگوں کی وجہ سے ہوتی ہے۔۔🇵🇰🇵🇰🇵🇰🇵🇰🌹🥀🌷🌺
11 notes
·
View notes
Text
خاموش مجاہد جنرل اختر عبدالرحمٰن شہید
اسلام میں مرتبہء شہادت کی جو فضیلت ہے، وہ کسی اور عمل کی نہیں ہے۔ قرآن میں شہداء کو’ مردہ‘ کہنے کی بھی ممانعت ہے کہ وہ زندہ ہیں، مگر ہمیں ان کی زندگی کا شعور نہیں ہے۔ اسی لئے ہر سچا مسلمان راہ خدا میں شہادت کی موت کی تمنا کرتا ہے۔ بقول اقبال، جب بندہ ء مومن موت کے پردے میں رخِ دوست دیکھ لیتا ہے تو پھر اس کیلئے موت آسان اور زندگی دشوار ہو جاتی ہے۔ امت مسلمہ کی تاریخ اس طرح کی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ حالیہ تاریخ میں اسکی ایک عظیم مثال 1979ء میں سوویت یونین کے افغانستان پر قبضہ کے بعد پاکستان کی بے خوف جنگی حکمت عملی تھی، جس میں سوویت یونین کی فوجی ہیبت سے خوف کا شائبہ تک نہیں تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا، جب سوویت یونین کے حوالے سے ضرب المثل بن چکی تھی ک�� سوویت یونین جب ایک بار کسی ملک میں داخل ہو جاتا ہے تو پھر نکلتا نہیں۔ امریکی دفاعی ماہر بروس رائیڈل کے بقول افغانستان میں روسی فوجوں کے داخل ہونے کے بعد جنرل ضیاالحق نے آئی ایس آئی چیف جنرل اختر عبدالرحمن سے اس پر مشورہ طلب کیا۔ چند روز بعد جنرل اختر عبدالرحمن نے جو پلان پیش کیا اسے دیکھ کر ایک بار توجنرل ضیاالحق بھی سوچ میں پڑ گئے کہ بالواسطہ طور پر یہ سوویت یونین کو چیلنج کرنے کے مترادف تھا اور اس کے نتیجہ میں پاکستان کی سلامتی کو خطرات لاحق ہو سکتے تھے۔
تاہم جنرل اختر عبدالرحمن کی راے یہ تھی کہ اگر سوویت یونین کی پیشقد می کو افغانستان کے اندر نہ روکا گیا تو افغانستان پر فوجی قبضہ مستحکم کرنے کے بعد اس کا اگلا ہدف بلوچستان ہو گا، جہاں پاکستان، روس اور بھارت کے گھیرے میں آ جائے گا۔ بہرحال کچھ ردوکد کے بعد جنرل ضیاء الحق نے جنرل اختر عبدالرحمن کے جنگی منصوبہ کی منظوری دیدی، تاہم یہ جنرل ضیاء الحق اور جنرل اختر عبدالرحمن دونوں جانتے تھے کہ اس کے بعد ان کی زندگیاں مستقل طور پر خطرے میں رہیں گی اور وہ راہ ِشہادت کے راہی ہوں گے۔ جنرل اختر عبدالرحمن میں تو خوف نام کی کوئی چیز ہی نہ تھی۔ وہ اپنے والدین کے اکلوتے بیٹے تھے، اس کے باوجود انہوں نے فوج جوائن کی، جس میں زندگی کا چراغ ہر لحظہ آندھیوں کی زد میں رہتا ہے۔ وہ پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کے خلاف تینوں جنگوں ( 1948ء ، 1965ء ، 1970ء) میں شریک ہو چکے تھے۔
موت کو انھوں نے کبھی خوف زدہ کرنے و الی شے سمجھا ہی نہیں تھا۔ 1947ء میں وہ ابھی لیفٹیننٹ کرنل تھے، جب پہلی بار انھوں نے موت کو قریب سے دیکھا۔وہ نقل مکانی کرنے والے قافلوں کی نگرانی پر مامور تھے، ایک مقام پر ہندو فوجیوں کے گھیرے میں آ گئے۔ ایک ہندو جوان نے ان پر بندوق تان لی۔ وہ فائرکرنے ہی والا تھا کہ اسی لمحےایک مسلمان ریکروٹ نے اس ہندو جوان کو اپنی گولی کا نشانہ بنا ڈالا۔ اختر عبدالرحمن کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ موت ان کو چھو کے گزر گئی تھی۔ اس طرح 1948ء میں پانڈو ٹیکری کے محاذ پر بھارتی فوج سے لڑتے لڑتے ان کا اپنی یونٹ سے رابطہ منقطع ہو گیا۔ یہاں تک کہ یونٹ میں ان کی شہادت کا باقاعدہ اعلان کر دیا گیا۔ اس پس منظر ہی میں فوج میں ان کو ’زندہ شہید‘ کہا جاتا تھا۔، 1965ء اور 1970ء کی جنگ میں بھی جنرل اختر عبدالرحمن نے میدان جنگ میں اس طرح داد شجاعت دی تھی کہ بھارتی جنرل بھی اس کا اعتراف کرنے پر مجبور ہو گئے۔
1979ء میں کوئی بھی یہ یقین کرنے کو تیار نہیں تھا کہ سوویت فوج کے خلاف جنرل اختر عبدالرحمن کی فوجی حکمت عملی کامیاب ہو گی اور سوویت فوج جس طرح دریاے آمو پار کر کے افغانستان میں داخل ہوئی ہے، چند سال بعد اسی طرح بے نیل مرام دریاے آمو پار کر کے واپس جا رہی ہو گی۔ امریکا کی بے یقینی کا تو یہ عالم تھا کہ اس نے اس سال اپنے بجٹ میں اس مد میں کوئی رقم نہ رکھی، اور ایک سال بعد بھی جب کچھ امداد کی پیشکش کی تو جنرل ضیاء الحق اس کو مونگ پھلی قرار دینے پر مجبور ہو گئے۔ حقیقتاً ، ابتدائی طور پر صرف سعودی عرب ہی عملی طور پر پاکستان کی مدد کر رہا تھا۔ تاہم بعد میں جب سوویت یونین کے خلاف افغان مزاحمت زور پکڑنے لگی اور امریکہ اور یورپ کو جنرل اختر عبدالرحمن کی حکمت عملی قابل عمل نظر آئی، تب جا کے انھوں نے اپنے حصے کا کردار ادا کرنا شروع کیا۔ کچھ عرصہ بعد جنرل اختر عبدالرحمن نے امریکا کو سوویت فوج کے خلاف سٹنگر میزائل کی فراہمی پر بھی راضی کر لیا، جس نے جنگ کا پانسہ واضح طور پر افغان مجاہدین کے حق میں پلٹ دیا۔
1987ء میں جب جنرل اختر عبدالرحمن کو ترقی دے کر چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف بنا دیا گیا، تو آئی ایس آئی چیف کی حیثیت سے افغانستان میں سوویت فوج کے خلاف ان کا خفیہ مشن کامیابی کی منزل پر پہنچ چکا تھا اور سوویت فوجوں کی واپسی طے پا چکی تھی۔ اس کے ساتھ ہی جنرل اختر عبدالرحمن کیلئے اندرونی اور بیرونی خطرات پہلے سے بڑھ چکے تھے۔ وہ افغانستان میں مستحکم عبوری حکومت کے قیام سے قبل جلدبازی میں معاہدہ جنیوا کرنے کے حق میں نہ تھے۔ یہ چیز صرف سوویت یونین کو نہیں، امریکا کو بھی سخت ناگوار گزر رہی تھی۔ اپریل 1988ء میں اوجڑی کیمپ کی پراسرار تباہی اور پھر اس کی ذمہ داری کا سارا ملبہ جنرل اختر عبدالرحمن پر ڈالنے کی سازش سے یہ سمجھنا مشکل نہ تھا کہ سوویت یونین کی افغانستان سے واپسی کے بعد اس خطہ میں جو نیا منظر نامہ طلوع ہو رہا ہے، اس میں جنرل ضیاء الحق کے ساتھ ساتھ جنرل اخترعبدالرحمن کی زندگی بھی سخت خطرے میں ہے۔ دونوں جنرلز کو الرٹ ملنا شروع ہو چکے تھے۔ پھر وہی ہوا، جس کے اشارے مل رہے تھے۔
جنرل اختر عبدالرحمن کا جنرل ضیاالحق کے ساتھ امریکی ٹینکوں کی نمائش دیکھنے کیلئے بہاولپور جانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ تاہم سازشیوں نے اس طرح کا تانا بانا تیار کیا کہ آخری وقت پر جنرل اختر عبدالرحمن بھی جنرل ضیاء الحق کے ساتھ طیارے میں سوار ہو گئے اور 17 اگست 1988ء کو جنرل ضیاء الحق کے ساتھ ہی جام شہادت نوش کیا اور اس قافلہ شہداءمیں شامل ہو گئے، جن کیلئے رب تعالیٰ نے جنت واجب کر رکھی ہے۔
عبیداللّٰہ اصغر
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
Top 20 Best Funny Jokes in Urdu | Most Funny Urdu Latifay
Asslam o Alaikum Dosto Aj K Is Bog Mein Hum Ap K Sath Top 20 Best Funny Urdu Jokes Share Karen Gay Jo K Ap Ko Zaroor Pasand Ay gay Or Ap Ka Mod Bohat Acha Ho Jay ga Yeh Most Funny Urdu Latifay Bohat Ki Kamal K Hain In Ko Pr Ker Ap Ko Bohat Hansi Ay Gi Or AP Ko Yeh Urdu Jokes Bohat Pasand Ay Gay SO Is Liye In Urdu Jokes Ko Lazmi Parein Or APne Dosto K Sath Bhi Share Karein Or Apni Qeemti Ray Ka Izhar Comment Main Zaroor Karein TO Chaliye AJ K Top 20 Best Funny Jokes in Urdu | Most Funny Urdu Latifay Ko Shuru Kerte Hain
AA DIL MAIN TUJHE RAKH LOUN NAAT LYRICS
ALAM E ISLAM KO EID-E-MEELAD-UN-NABI NAAT LYRICS
Top 5 Short Stories in Urdu For everyone | Life Changing Stories Most Watch
Top 50+ Dosti Shayari in Urdu Hindi | Friendship Shayari
آج تنہا ہوں تو کسی نے آواز تک نہیں
دی کل دیگ ونڈی سی پاجی پاجی ہورئی سی
آم کھاتے ہوئے جس چیز کو سائیڈ
پر رکھنا پڑتا ہے اسے تمیز کہتے ہیں
بادام پر ہتھوڑی مارنے
سے بادام بھاگ کر پیٹی کے
زمانہ جاتا ہے بھاڑ میں تو جائے
نہیں چھوڑی جاتی ہم سے چائے
ﻋﺠﯿﺐ ﺳﯽ ﺣﺎﻟﺖ ﮨﮯ
ﺗﯿﺮﮮ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ۔۔ ﻣﺠﮭﮯ
چیونگم چبانے والے کا معدہ ضرور یہ سوچتا ہوگا
کہ یہ کیا کھایا جارہا ہے جو نیچے نہیں آرہا ہے
کسی کو کھونے کا غم کیا ہوتا ہے یہ کل رات پتہ لگا
جب مونگ پھلی کا ایک ثابت دانہ چھلکوں میں گم ہو گیا
کل غصے میں بادام کا
پورا پیکٹ کھا لیا😊
بادام زیادہ کھا بیٹھی ہوں کوئی
بتائے گا فالتو عقل کا کیا کروں
بلال یہ تم آنکھیں بند کر کے املی کیوں کھاتے ہو؟
ناصر میں نے اپنی امی سے وعدہ کیا تھا کہ
میں املی کی طرف دیکھوں گا بھی نہیں
اتنی خوشی ڈھیر مونگ پھلی کھانے کی نہیں ہوتی
جتنی آخر میں چھلکوں میں سے مونگ پھلی ملنے کی ہوتی ہے
ناراض کیوں ہوتے ہو چلے جاتے ہیں تیری محفل
سے ویسے بھی بریانی جہاں آلو والی ہو
وہاں ہم رکا نہیں کرتے
ہر اداس شخص کا مسئلہ عشق نہیں ہوتا
کسی کا مالٹا بھی کھٹا نکل آتا ہے
کیلا کھانے سے ہڈیاں مضبوط ہوتی ہیں اور کیلے
کے چھلکے پر پاوں رکھنے سے ٹوٹ بھی جاتی ہیں
کوئی چیز اتنی تکلیف نہیں دیتی
جتنا بے دھیانی میں گرم چائے کا
جہاں دال نہ گلے
وہاں ساگ پکا لو
Omeed Hai Dosto Aj K Yeh Urdu Jokes or Urdu Latifay Ap Ko Zarror Pasand Ay Hon Gay Or Ap Ne In Se Kafi Lutaf Uthaya Ho Ga Agr AJ K Yeh Urdu Jokes Ap Ko Achay Lage Hain TO in Ko Apne Dosto K Sath Bhi Share Karein Or Mazeed Post K Liye Hamari Website RoshniQuotes.com Ko Zaroor Visit Karein. THANKS FOR WATCHING
TAGS
funny jokes in urdu,funny jokes,lateefay funny in urdu,latifay in urdu funny,funny jokes in urdu video,jokes in urdu,urdu funny jokes,latifay in urdu,funny latifay in urdu,funny urdu jokes,best funny jokes,funny animal jokes,funny poetry in urdu,best jokes in urdu,lateefay in urdu,best funny poetry in urdu,pathan jokes in urdu,funny latifay,funny poetry in urdu for friends,sardar funny jokes,comedy jokes in urdu,jokes,urdu jokes,funny lateefay
#langblr#linguistics#student life#study motivation#100 days of productivity#notes#school system#school#sketch#lesson plan#urdu jokes#funny jokes#urdu latifay#most funny jokes in urdu#most funny latifay in urdu
0 notes
Photo
مونگ پھلی کھانے کے بعد یہ غلطی تو نہیں کرتے؟ #Health #Peanut #Aajkalpk اس موسم میں مونگ پھلی کھانے کا شوق تو اکثر افراد کو ہوتا ہے مگر کیا اس گری کو کھانے کے بعد پانی پینا واقعی صحت کے لیے نقصان دہ ہے؟
0 notes
Photo
غریب جائے توجائے کہاں؟ سردی کی شدت نے ریڑھی پر مونگ پھلی بیچنے والے کی جان لے لی نارنگ منڈی(این این آئی)نارنگ منڈی شہرمیں ایک اورشخص ٹھٹھرتی سردی کے باعث جاں بحق ہوگیا۔بتایاجاتاہے کہ مقامی صدربازار میں مچھلی کاکاروبارکرنے والے 60سالہ ملک لیاقت علی اچانک سردی کے باعث حالت غیر
0 notes
Text
ایسی ہوتی ہے دسمبر کی شاعری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیسے بتاؤں میں تمہیں
میرے لیے تُم کون ہو ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم سردیوں کی دھوپ ہو
تم چائے ہو تم سُوپ ہو
😀😀😀😀
میرے لیے گیزر ہو تم
کوئلہ ہو ، ہیٹر ہو تم
😀😀😀😀
تم لکڑیوں کا ٹال ہو
تم نرم گرم سی شال ہو
😀😀😀😀😀
کیسے بتاؤں میں تمہیں
میرے لئے تم کون ہو
😀😀😀😀
لیدر کی اک جیکٹ ہو تم
پِستے کا اک پیکٹ ہو تم
😀😀😀😀
تم برینڈ بھی، لنڈا بھی تم
اُبلا ہوا انڈا بھی تم 😂
انڈے کی زردی ہو تم😂
زردی کی وردی ہو تم
😀😀😀😀😀
گاجر کا حلوہ تم ہی تو ہو
میووں کا جلوہ تم ہی تو ہو
😀😀😀😀😀😀
کیسے بتاؤں میں تمہیں
کہ تم میرے لیے کون ھو۔
😀😀😀😀😀
کاجُو بھی تم، چلغوزے تم😂
مفلر، سویٹر، موزےبھی تم
😀😀😀😀😀😀
جرسی جرابیں ہائینک ہو تم
لوشن، کریموں کی مہک ہو تم
😀😀😀😀😀
اک گرم سا کن ٹوپ ہو
پاجامہ ہو، تم کوٹ ہو
😀😀😀😀😀
کمبل رضائی تم تو ہو
قہوہ،ملائی تم تو ہو😂
😀😀😀😀😀
تم ریوڑی ، تم مونگ پھلی
سردی میں لگتی ہو بھلی
😀😀😀😀😀😀
خاموش سی ، چُپ چاپ سی
تم منہ سے نکلی بھاپ سی
😂😀😂😀😂
تم چائے کا تھرماس ہو
میرے لیے تم خاص ہو۔۔
#urdu shayari#urdu poetry#urdu#urdu shairi#urdupoetry#urdu quote#urdu poem#urduadab#poetry#urdu adab#urdu ghazal#urdu literature#urdu ashaar#urduepaper#urdu sad poetry#urduposts#urdu sher#اردو شاعری#اردو ادب#اردو شعر#اردو#اردو غزل#مزاح#funny poetry
12 notes
·
View notes
Text
تم سردیوں کی دھوپ ہو
تم چائے ہو یا سُوپ ہو
میرے لیے گیزر ہو تم
کوئلہ ہو تم، ہیٹر ہو تم
تم لکڑیوں کا ٹال ہو
تم نرم گرم سی شال ہو
کیسے بتاؤں میں تمہیں
لیدر کی اک جیکٹ تمہی
پِستے کا اک پیکٹ تمہی
تم برینڈ بھی، لنڈا بھی تم
اُبلا ہوا انڈا بھی تم
انڈے کی زردی ہو تمہی
زردی کی وردی ہو تمہی
گاجر کا حلوہ تم ہی ہو
میووں کا جلوہ تم ہی ہو
کیسے بتاؤں میں تمہیں
میرے لیے
کاجُو بھی تم، چلغوزے تم
مفلر، سویٹر، موزے تم
جرسی ، جرابیں ہائی نیک
لوشن، کریموں کی مہک
اک گرم سا کن ٹوپ ہو
پاجامہ ہو، تم کوٹ ہو
کمبل رضائی ہو تمہی
قہوہ،ملائی ہو تمہی،
تم ریوڑھی تم مونگ پھلی
سردی میں لگتی ہو بھلی
خاموش سے، چُپ چاپ بھی
تم منہ سے نکلی بھاپ بھی
تم چائے کا تھرماس ہو
میرے لیے تم خاص ہو
کیسے بتاؤں میں تمہیں
میرے لیے تم کون ہو!!
4 notes
·
View notes
Text
جمی کارٹر : مونگ پھلی کی پیکنگ سے کرسی صدارت تک عزم وہمت کی حیرت انگیز داستان
یکم اکتوبر 1924ء کو جنم لینے والے سابق امریکی صدر جمی کارٹر 96 برس کے ہو گئے ہیں، وہ امریکہ کے عمر رسیدہ ترین سابق صدر ہیں۔ سابق امریکی صدور کے کلب میں جارج بش جونئیر (74 برس، 87 دن) ، بل کلٹن ( 74 برس ،43 دن ) اور باراک اوباما ( 59 برس 58 دن ) شامل ہیں۔ صدرٹرمپ (74 برس 109 دن) اس کلب میں شامل ہوں گے یا نہیں اس کا فیصلہ اسی سال نومبر میں ہو جائے گا، قرین قیاس ہے کہ شائد اس مرتبہ وہ سابق صدور کے کلب میں شامل ہونے سے بچ جائیں۔ آج ہم 96 بہاریں دیکھنے والے اس سپر پاور کے سابق صدر جمی کارٹر کے بارے میں کچھ جاننے کی کوشش کریں گے، مونگ پھلی کے ایک عام تاجر کی حیثیت سے عملی زندگی کا آغاز کرنے والے اس ورسٹائل صدر نے ذریعہ معاش کے لئے متعدد پیشے اختیار کئے، خود ہاتھ سے کام کیا، مونگ پھلی پیک کر کے بیچتے رہے، لوہے کے کام میں والد کا ہاتھ بٹاتے رہے، باپ کی موت نے اندرسے توڑ دیا لیکن خود کو منظم کرتے ہوئے کئی پیشے اختیار کرنے کے بعد بالآخر کرسی صدارت پر فائز ہو گئے، وہ عزم ہمت کی زندہ مثال ہیں جس کا ظہار انہوں نے اپنی خود نوشت '' اے فل لائف‘‘ (A Full Life) میں بھی کیا ہے۔
کتاب کو پڑھنے سے ہم سابق صدر کی زندگی سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں، صرف اپنی محنت اور معاشرے میں مساوات قائم کرنے کی خواہش پر عمل کرتے ہوئے جمی کارٹر امریکہ کے اعلیٰ ترین منصب کو پانے میں کامیاب ہو گئے۔ ان کے نقش قدم پر چل کر آپ امریکہ کے صدر تو نہیں بن سکتے لیکن ایک محنتی اور محب وطن انسان ضرور بن سکتے ہیں۔ یہ بات بلا شک و شبہ کہی جا سکتی ہے کہ کرہ ارض کی طاقتور ترین شخصیت امریکی صدر ہی ہوتا ہے، جو اقوام متحدہ کے فیصلوں کو بدلنے اور دنیا میں من مانی کرنے کی طاقت رکھتا ہے، جمی کارٹر ان میں سے ایک تھے۔ طاقتور ترین صدر ہونے کے ناطے سمجھنا درست ہے کہ اس ملک کا صدر امیر ترین، اعلیٰ تعلیم یافتہ ، تربیت یافتہ اور صاحب اخلاق ہو گا، دنیا کی تاریخ کو بدلنے کی صاحیت رکھنے والا آدمی لیڈر شپ میں درجہ کمال پر ہو گا۔ لیکن جمی کارٹر سونے کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہونے والے صدور میں سے نہیں تھے، امریکی پیمانے کے مطابق انہیں غریب کہا جا سکتا ہے، انہوں نے جارجیا میں آنکھ کھولی، ان کے والد مونگ پھلی کے عام سے تاجر تھے، نسلی پرستی کے خلاف سیاہ فاموں کی تحریک کا مرکز یہی ریاستیں تھیں۔
سماجی اونچ نیچ نے ان کے مزاج پر ہی نہیں ، بطور ان کے فیصلوں کو بھی متاثر کیا۔ جمی کارٹر نے ریاست سائوتھ جارجیا کے ایک انتہائی چھوٹے سے گائوں ''جارجیا پلینز ‘‘ میں آنکھ کھولی، آبادی 500 سے زیادہ نہ ہو گی۔ ہسپتال میں کارٹر کی پیدائش کے بعد ان کے والدین اپنی زرعی زمین پر منتقل ہو گئے تھے ۔ یہاں تین اور بہن بھائیوں نے پیدا ہونا تھا ۔ آرچری نامی اس علاقے کی آبادی 200 سے زیادہ نہ ہو گی۔ تعلیمی ترقی کے لئے جان لڑانے کے حوالے سے والد کی پوری ریاست میں کافی شناخت تھی۔ تعلیمی ترقی سے متعلق بورڈ کے ممبر بھی تھے۔ کارٹر نے صرف 5 برس کی عمر میں باپ جیمز ارل کارٹر کا ہاتھ بٹانا سیکھا۔ لوہار کے کام میں بھی والد کا ہاتھ بٹاتے ۔ جمی کارٹر کا بچپن اسی طرح گزر گیا۔ کھلونے خود بنا لیا کرتے تھے، والد پر کبھی بوجھ نہیں بنے۔ جمی کارٹر کی زندگی دوسرے کسانوں سے مختلف نہ تھی، وہی کھیتوں میں کام کرنا، مونگ پھلی کے پیکٹ بنانا اور ضرورت پڑنے پر خود ریلوے سٹیشن یا قریبی مارکیٹ میں جا کر فروخت کرنا۔ والد نے محنت سے کبھی جی نہیں چرایا۔ ڈیئری کی مصنوعات بنانے میں بھی ان کا ثانی نہ تھا۔ وہ گھر کا بنا ہوا کیچپ بھی فروخت کرتے ۔
جمی کارٹر کی والدہ (Lillian G. Carter) نرس تھیں، ڈاکٹر نہ ہوتا تب بھی علاج میں کوئی کسر نہ چھوڑتیں۔ گھر میں ہوتیں تو 20 گھنٹے کام کرنا معمول تھا۔ معاشی دبائو کے دور میں انہوں نے کبھی کسی مریض کو مایوس نہیں لوٹایا، کسی کسان کے پاس علاج کے بدلے انڈے ہوتے تو بھی انکار زبان پر نہ لاتیں۔ مرغی ، چوزے بھی قبول کر لیتیں، معاوضے کے طور پر کھیت میں کام کرنے کی پیش کش بھی مان جاتیں۔ ان کے بچپن پر نسل پرستی کی چھاپ رہی، الگ الگ سکول اور گرجا گھر دیکھ کر ان کا دل بہت کڑھتا، کالے گوروں کے سکولوں تو کیا گرجا گھروں میں بھی قدم نہیں رکھ سکتے تھے۔ حتیٰ کہ افریقی امریکن ووٹ کے حق سے بھی محروم تھے۔ آرچری میں 200 میں سے دو ہی خاندان گورے تھے، اسی لئے جمی کے تمام دوست سیاہ فام تھے۔ ج��ک اور رابرٹ کلارک پکے دوستوں میں شامل تھے، کبھی کبھی کام کاج میں دیر ہو جاتی تو جمی وہیں سو جاتا۔ اسی کو لے کر کارٹر کے گھر میں کھینچا تانی معمول کی بات تھی۔ والد سیاہ فاموں کو احترام ضرور دیتے تھے لیکن برابر نہیں مانتے تھے۔
والدہ سیاہ فاموں کو احترام بھی دیتی تھیں اور برابر کے حقوق کی بھی قائل تھیں۔ ایک روز افریقی امریکی بشپ کے بیٹے ایلون جانسن (Alvin Johnson) کی آمد کا سنتے ہی والد دوسرے دروازے سے کھسک گئے۔ سیاہ فاموں کا گوروں والے دروازے سے داخل ہونا معیوب سمجھا جاتا تھا۔ 14 برس کی عمر میں پیش آنے والے ایک واقعے نے جمی کارٹر کو ہلا کر دکھ دیا، کسی آفس میں داخل ہوتے وقت سیاہ فام یکدم پیچھے ہٹ گیا، اور انہیں راستہ دے دیا۔ سکول کی تعلیم اسی نسل پرستی کے سائے میں حاصل کی۔ 1952ء میں، انہوں نے لیفٹیننٹ کی حیثیت سے بحریہ میں شمولیت اختیار کر لی۔ بچپن میں لوہے سے کھلونے بنانے کا شغل بہت کام آیا۔ 3.3 ارب ڈالر کی آبدوز جمی کی مدد کے بغیر بن ہی نہیں سکتی تھی۔ اسی لئے جمی کے نام سے منسوب ہوئی اور ''یو ایس ایس جمی کارٹر ‘‘ کہلائی۔ پتے کے سرطان میں مبتلا باپ کی 1953ء میں وفات کے بعد جمی بحریہ سے الگ ہو گئے۔ 1962ء میں ''ووٹرز فراڈ‘‘ کے ایشو پر انتخابات میں حصہ لینے والے جمی کارٹر جارجیا سے رکن سینیٹ منتخب ہو گئے۔ 1971ء میں اسی ریاست کے گورنر اور 1976ء میں صدر امریکہ بن گئے۔ 1978ء کا مصر اور اسرائیل کے مابین ہونے والا '' کیمپ ڈیوڈ معادہ ‘‘جمی کارٹر کے بغیر ہو ہی نہیں سکتا تھا، اور 2002ء میں جمی کارٹر کو امن کا نوبل انعام مل گیا۔
محمد ندیم بھٹی
بشکریہ دنیا نیوز
1 note
·
View note
Text
موسلا دھار بارش ، جنوری کا موسم
ایک چھتری میں اور تم
نیلا امبر ، لمبی سڑک، فروری کی دھوپ
میں اور تم
گھنا جنگل، گہری خا موشی ،
جگنووں کی لمبی قطار مارچ کی شام
میں اور تم
اپریل کی روشن صبحی، ں
ہوا، بادل ،خوشبو ، گلاب میں اور تم
مئ کے پہاڑی علاقے ، تنگ راستے، ہم رنگ کپڑے
خوش کن پنچھی، اوس بھری صبحیں ، میں اور تم
جون کی گرم دوپہریں ، معتدل شامیں
لیموں پانی ، آئسکریم قلفہ میں اور تم
آتا جولائ گرم ہوائیں دلکش فضائیں
جامن کے پیڑ نہر کنارے میں اور تم
اگست کا ساون ، نصرت کی غزلیں ،
گرم پکوڑے، املی کی چٹنی میں اور تم
ستمبر کا بد لتا موسم ، سردی کا انتظار
صحن میں لگی دو کرسیاں باتیں بے شمار میں اور تم
اکتوبر کے گھٹتے دن، سہانی را تیں
کھلا میدان ، تنہا چاند ، روشن ستارے ،
ہم قدم میں اور تم
نو مبر کے روشن دن، ٹھنڈی راتیں،
کچی پگڈنڈیاں، ویران رستے میں اور تم
دسمبر کی پہلی برف باری، پہاڑی مونگ پھلی، من پسند گفتگو، دھند بھری صبحیں میں اور تم
اک آ شیا نہ، محرم رشتہ، چند خواہشیں
فقط یہی خواب میں اور تم !
🌹🌹
7 notes
·
View notes
Text
کراچی کی سردی : مشتاق احمد یوسفی
کراچی میں سردی اتنی ہی پڑتی ہے جتنی مری میں گرمی۔ اس سے ساکنان کوہ مری کی دل آزاری نہیں، بلکہ عروس البلاد کراچی کی دلداری مقصود ہے۔ کبھی کبھار شہرخوباں کا درجہ حرارت جسم کے نارمل درجہ حرارت یعنی 98.4 سے دو تین ڈگری نیچے پھسل جائے تو خوبان شہر لحاف اوڑھ کر ائرکنڈیشنر تیز کر دیتے ہیں…اس حسن تضاد کو کراچی کے محکمہ موسمیات کی اصطلاح میں ’’کولڈ ویو‘‘ (سردی کی لہر) کہتے ہیں۔ … لوگ جب اخبار میں لاہور اور پنڈی کی سردی کی شدید خبریں پڑھتے ہیں تو ان سے بچاؤ کے لیے بالو کی بھنی مونگ پھلی اور گزک کے پھنکے مارتے ہیں۔ ان کے بچے بھی انہیں پر پڑے ہیں۔ باد شمال اور گوشمالی سے بچنے کے لیے اونی کنٹوپ پہن کر آئسکریم کھاتے اور بڑوں کے سامنے بتیسی بجاتے ہیں۔
کراچی میں پنڈی سے تین لحاف کم سردی پڑتی ہے۔ نووارد حیران ہوتا ہے کہ اگر یہ جاڑا ہے تو اللہ جانے گرمی کیسی ہوتی ہو گی۔ بیس سال سرد و گرم جھیلنے کے بعد ہمیں اب معلوم ہوا کہ کراچی کے جاڑے اور گرمی میں تو اتنا واضح فرق ہے کہ بچہ بھی بتا سکتا ہے۔ 90 ڈگری ٹمپریچر اگر مئی میں ہو تو یہ موسم گرما کی علامت ہے۔ اگر دسمبر میں ہو تو ظاہر ہے کہ جاڑا پڑ رہا ہے۔ البتہ جولائی میں 90 ڈگری ٹمپریچر ہو اور شام کو گرج چمک کے ساتھ بیوی برس پڑے تو برسات کا موسم کہلاتا ہے۔ تین چار سال بعد دو تین دن کے لیے سردی کا موسم آجائے تو اہل کراچی اس کا الزام ’’کوئٹہ ونڈ‘‘ پر دھرتے ہیں اور کوئٹہ کی سردی کی شدت کو کسی سیم تن ستر نما سوئٹر سے ناپتے ہیں۔
مشتاق احمد یوسفی
4 notes
·
View notes
Text
وہ گناہ جو گناہ سمجھ کے نہیں کئےجاتے
وہ گناہ جو گناہ سمجھ کے نہیں کئےجاتے
وہ گناہ جو گناہ سمجھ کے نہیں کئےجاتے جیسے ریڑھی سے انگور، مونگ پھلی، چنے وغیرہ خریدنے سے پہلے ریٹ پوچھتے ہوئے بغیر اجازت کھانا شروع کر دینا… جیسے گذرتی ہوئی ٹرالی سے دوڑ کر گنا کھینچ لینا، جیسے موٹر سائیکل پہ ایسا ہارن لگوانا کہ جو سنے راستہ دینے پہ مجبور ہوجائے جیسے نہاتے ہوئے زیادہ پانی بس ڈالتے چلے جانا، جیسے وضو کے وقت مسواک کی سنت اداکرتے ہوئے ٹونٹی پہ قبضہ جمائے رکھنا جب دوسرے لوگ وضو کے…
View On WordPress
0 notes
Photo
مونگ پھلی کھانے کے بعد پانی پینے سے انسانی جسم پر کیا اثرات پڑتے ہیں؟ #Peanuts #Health #Water #aajkalpk اس موسم میں مونگ پھلی کھانے کا شوق تو اکثر افراد کو ہوتا ہے مگر کیا اس گری کو کھانے کے بعد پانی پینا واقعی صحت کے لیے نقصان دہ ہے؟ آپ نے اکثر لوگوں سے سنا ہوگا کہ مونگ پھلی کھانے کے بعد پانی پینے سے گریز کرنا چاہئے۔ کیونکہ اس کے نتیجے کھانسی اور گلے میں خراش ہوسکتی ہے۔ اگرچہ یہ سائنسی طور پر ثابت شدہ نہیں مگر کیا واقعی ایسا ہوتا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس حوالے سے کئی خیالات گردش کررہے ہیں جن میں سے طبی سائنس نے کسی کو بھی فی الحال ثابت نہیں کیا۔ کیا مونگ پھلی آپ کو موٹا کرتی ہے؟ ایک خیال یہ ہے کہ چونکہ مونگ پھلی جیسی گریاں قدرتی طور پر خشک ہوتی ہیں تو ان کے کھانے سے پیاس محسوس ہوتی ہے اور اس میں موجود تیل کی موجودگی پانی سے دور رہنے کو بہتر ثابت کرتی ہے۔ اس خیال کے مطابق زیادہ تیل والی غذائیں یا گریاں کھانے کے بعد غذائی نالی میں چربی کا اجتماع ہوسکتا ہے جو کہ گلے میں خراش اور کھانسی کا باعث بنتا ہے، ویسے یہ اب تک ثابت نہیں ہوسکا ہے۔ ایک اور خیال یہ ہے کہ مونگ پھلی کھانے سے جسم میں حرارت پیدا ہوتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسے سردیوں میں زیادہ کھایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پانی پینا اس حرارت کو کم کرتا ہے، مگر حرارت اور ٹھنڈک کا یہ عمل بیک وقت ہونا نزلہ زکام، کھانسی اور نظام تنفس کی متعدد بیماریوں کا باعث بنتا ہے۔ مزید پڑھیں: 6 عادتیں اپنائیے، موٹاپے کو دور بھگائیے ویسے کچھ ماہرین تو کسی بھی کھانے کے بعد پانی پینے کو اچھا عمل نہیں سمجھتے ک��ونکہ اس سے بدہضمی یا تیزابیت کا امکان بڑھتا ہے، اس لیے کم از کم دس سے پندرہ منٹ تک انتظار کرنا بہتر ہوتا ہے۔ روزانہ کچھ مقدار میں یہ گری کھانا ذیابیطس سے بچائے اسی طرح ایک خیال یہ بھی ہے کہ مونگ پھلی کھانے کے بعد پانی پینا معدے کے مسائل کا باعث بنتا ہے خصوصاً بچوں میں، اکثر اوقات یہ مونگ پھلی سے الرجی کا نتیجہ ہوتا ہے اور اس پر پانی پینا حالات بدتر بنادیتا ہے۔ ویسے اگر مونگ پھلی کے بعد پانی پینا نقصان دہ ثابت نہیں بھی ہوا تو بھی احتیاطی تدبیر اختیار کرنا کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچاتا۔
0 notes
Text
آخر امریکہ چاہتا کیا ہے؟
امریکہ کے منصب صدارت پر متمکن 80 سالہ صدر جو بائیڈن نے گزشتہ دنوں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے متعلق ایک متنازعہ بیان دے کر ملک میں ایک نئی بحث کا آغاز کر دیا۔ جو احباب پاک امریکہ تعلقات کی تاریخ سے واقف ہیں ان کے لیے اس بیان میں کوئی نئی بات نہیں۔ 1950 کی دہائی میں سرد جنگ کے دوران پاکستان نے روس کے بجائے امریکہ کا انتخاب کیا۔ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم قائد ملت لیاقت علی خان نے روس کے بجائے امریکہ کا دورہ کر کے واضح طور پر امریکی اتحادی ہونے کا اعلان کیا۔ لیکن پاک امریکہ تعلقات کی تاریخ دھوپ چھاؤں کی مانند ہی رہی۔ کبھی پاکستان امریکی توقعات پر پورا نہ اترا تو کبھی امریکہ نے پاکستان کی امیدوں کے برعکس اقدامات کئے۔ تاہم پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں امریکہ واحد ملک ہے جو کسی نہ کسی حوالے سے پاکستان کے سیاسی اور دفاعی معاملات میں شریک کار رہا۔ 1954 سے لیکر اب تک مختلف مواقع پر امریکہ نے پاکستان کو امداد فراہم کی۔
ایک زمانہ وہ تھا کہ جب گندم بھی امریکہ سے آتی تھی اور گندم اٹھانے والے اونٹوں کے گلے میں’’تھینک یو امریکا ‘‘کا ٹیگ لگا ہوتا تھا۔ امریکہ کی پاکستان سے محبت کا یہ عالم تھا کہ امریکہ نے اس گندم کے پیسے ڈالر کے بجائے روپوں میں وصول کرنے کی سہولت دی اور ساتھ ہی یہ بھی پیش کش کر دی کہ وہ یہ رقم امریکہ کو ادا کرنے کے بجائے پاکستان میں ہی ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کریں۔ 1954 میں دونوں ممالک کے درمیان پہلا دفاعی معاہدہ ہوا۔ 1954 سے 1964 تک امریکہ کی جانب سے پاکستان کو 70 کروڑ ڈالر فراہم کیے گئے۔ 1980 کی دہائی پاک امریکا تعلقات کے نئے دور کے آغاز کی دہائی کہلائی جا سکتی ہے۔ 1979 میں روس نے افغانستان پر حملہ کیا تو پاکستان نے اس جنگ کو اپنی جنگ سمجھ لیا۔ ابتدا میں صدر جمی کارٹر نے پاکستان کو 40 کروڑ ڈالر کی پیشکش کی جسے پاکستان نے ’’مونگ پھلی‘‘ کہہ کر مسترد کر دیا۔ 1981 میں صدر ریگن نے پاکستان کو ڈیڑھ ارب ڈالر کی امداد کی پیشکش کی جسے قبول کر لیا گیا۔ 1980 سے 1990 کے درمیان امریکہ نے پاکستان کو 2 اعشاریہ 19 ارب ڈالر کی فوجی معاونت فراہم کی جبکہ معاشی ترقی کے لیے 3 اعشاریہ 1 ارب ڈالر بھی فراہم کیے۔
اس دور میں مسلح افواج کو جدید ہتھیاروں سے لیس کیا گیا۔ امریکہ نے پاکستان کو 40 ایف 16 طیاروں سمیت جدید ہتھیاروں کی ایک بڑی کھیپ بھی مہیا کی۔ اس وقت کے صدر پاکستان، جنرل محمد ضیاء الحق نے امریکی عزائم کو بھانپتے ہوئے پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر تیزی سے عملدرآمد شروع کیا۔ مختلف حکومتوں کی تبدیلیوں کے باوجود پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر کسی حکمران جماعت نے سمجھوتا نہ کیا۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام ذوالفقار علی بھٹو کا منصوبہ تھا جسے بعد میں آنے والے تمام حکمرانوں نے تیز رفتاری کے ساتھ جاری رکھا۔ یہاں تک کہ جب بھارت نے ایٹمی دھماکے کئے تو خطے ��یں طاقت کا توازن برقرار رکھنے کے لیے اس وقت کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے 28 مئی 1998 کو ایٹمی دھماکے کر کے پاکستان کے ایٹمی قوت ہونے کا اعلان کیا۔ اس وقت کے امریکی صدر کلنٹن نے دھماکے رکوانے کے لئے میاں نوازشریف کو متعدد فون کئے۔ ان پر دباؤ ڈالا۔
مبینہ طور پر رقم دینے کی بھی پیشکش کی۔ تاہم انہوں نے پاکستانی عوام کی امنگوں کے مطابق ایٹمی دھماکے کر دئیے۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام ہمیشہ امریکہ کی آنکھوں میں کھٹکتا رہتا ہے۔ ہر امریکی حکمران اس حوالے سے مختلف نوعیت کے بیانات دے کر اپنے خبث باطن کا اظہار کرتا رہتا ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن کا حالیہ بیان بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ پاکستان کی سیاسی قیادت نے بجا طور پر امریکی صدر کے بیان کو مسترد کیا ہے اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے محفوظ ہونے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے بجا طور پر یہ کہا گیا کہ اگر ایٹمی پروگرام کے غیر محفوظ ہونے کی بات کرنی ہے تو اس کا سب سے پہلا نشانہ تو بھارت ہونا چاہیے جس کے میزائل پاکستان میں آکر گرے جب کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے اقوام متحدہ کے کمیشن نے اس کے انتظامات کو عالمی معیار کے عین مطابق قرار دیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ امریکی صدر کا بیان ان کے اس ذہنی دباؤ کی عکاسی کرتا ہے جس سے وہ دوچار ہیں۔
ڈیموکریٹک کانگریشنل کمپین کمیٹی کے استقبالیے میں امریکہ کے صدر جو بائیڈن کا خطاب وائٹ ہاؤس کی ویب سائٹ پر شائع ہوا۔ جس میں بائیڈن کے حوالے سے لکھا گیا کہ’’ میرے نزدیک شاید دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں سے ایک، پاکستان ہے۔ اس کے پاس موجود جوہری ہتھیار غیر منظم ہیں۔‘ ''امریکی صدر کے یہ الفاظ بدلتے ہوئے عالمی سیاسی منظرنامے کوذہن میں رکھ کر ادا کیے گئے۔ روس یوکرائن جنگ کے دوران روس کی مسلسل بالادستی اور چین کی عالمی سفارتکاری نے امریکی صدر کو شدید ذہنی دباؤ کا شکار کر دیا ہے۔ عالمی منظر نامے پر امریکہ کے کئی پرانے اتحادی اسے چھوڑ رہے ہیں۔ کئی نئے بلاک امریکی طاقت کو چیلنج کرنے جا رہے ہیں۔ روس یوکرین تنازعات کے دوران اقوام متحدہ میں پاکستان سمیت متعدد ممالک کے غیر جانبدار رویے نے بھی امریکی صدر کو جھنجھلا کر رکھ دیا ہے۔ اس امر میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام محفوظ ہاتھوں میں ہے۔
پاکستان کی مسلح افواج دنیا کی بہترین پروفیشنل افواج میں شمار ہوتی ہیں۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی، توازن اور سمجھ داری کے ساتھ چلائی جا رہی ہے۔ بعض اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے دفتر خارجہ پر کی گئی تنقید بلا جواز معلوم ہوتی ہے کیونکہ پاکستانی وزارت خارجہ نے ذمہ دارانہ کردار ادا کیا ہے۔ اس بیان کا خوش آئند پہلو یہ ہے کہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں نے یک زبان ہو کر ایٹمی پروگرام کے تحفظ کے عزم کا اظہار کیا اور امریکی صدر کے بیان کو نہ صرف غیر ضروری قرار دیا بلکہ اس کی مذمت بھی کی۔ سابق وزیراعظم عمران خان نے اپنے بیان میں صدر بائیڈن سے کئی سوالات پوچھے جبکہ صف اول کے دیگر سیاسی رہنماؤں کی جانب سے مثبت اور ذمہ دارانہ بیانات انکے ذمہ دار فرد ہونے کی گواہی دے رہے ہیں۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہو گئی ہے کہ آنے والے دنوں میں نئی عالمی صف بندی کی جائے گی جس کیلئے نئے کردار کے تعین کیلئے پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہو گا تاکہ ایسی پالیسی ترتیب دی جا سکے جو بدلتے ہوئے عالمی تقاضوں کے مطابق پاکستانی مفادات کا تحفظ کر سکے۔
پیر فاروق بہاو الحق شاہ
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
جمی کارٹرپیدائش اکتوبر 1
جمی کارٹرپیدائش اکتوبر 1
جیمز ارل “جمی” کارٹر (پیدائش: یکم اکتوبر، 1924ء) 1977ء سے 1981ء تک امریکا کے 39 ویں صدر رہے۔ وہ ڈیموکریٹک پارٹی کے رکن تھے۔ ان کا تعلق ��یاست ہائے متحدہ امریکا کے جنوبی علاقوں سے تھا جہاں وہ ریاست جارجیا میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ سینیٹر اور بعد ازاں ��ارجیا کے گورنر ر رہے۔ اس حیثیت سے انھوں نے نسلی امتیازات کو ختم کرنے کے لیے بھرپور کوششیں کیں۔ وہ اپنے مونگ پھلی کے کاروبار کے باعث بھی مشہور تھے۔ انہوں…
View On WordPress
0 notes
Photo
وہ گناہ جو گناہ سمجھ کے نہیں کئےجاتے ۔"" "" "" "" "" "" "" "" "" "" "" "" "" "" "" "" ▪جیسے ریڑھی سے انگور، مونگ پھلی، چنے وغیرہ خریدنے سے پہلے ریٹ پوچھتے ہوئے بغیر اجازت کھانا شروع کر دینا۔ ▪جیسے گذرتی ہوئی ٹرالی سے دوڑ کر گنا کھینچ لینا۔ ▪جیسے موٹر سائیکل پہ ایسا زوردار ہارن لگوانا کہ جو سنے راستہ دینے پہ مجبور ہو جائے۔ ▪جیسے نہاتے ہوئے زیادہ پانی بس ڈالتے چلے جانا۔ ▪جیسے وضو کے وقت مسواک کی سنت ادا کرتے ہوئے ٹونٹی پہ قبضہ جمائے رکھنا جب دوسرے لوگ وضو کے لئے خالی جگہ کا انتظار کر رہے ہوں۔ ▪جیسے نمازیوں کے سروں پر سے گذرتے ہوئے پہلی صف میں پہنچنا۔ ▪جیسے صبح کے وقت دوکان پہ بلند آواز سے تلاوت لگا دینا۔ ▪جیسے مسجد میں پہنچ کر باتیں کرتے رہنا۔ ▪جیسے وضو کرنے کے لئے اپنے شوز اتار کر بغیر اجازت کسی اور کی چپل پہن لینا۔ ▪جیسے رمضان میں ہر تراویح پڑھنے والے سے فنڈز مانگنا تاکہ مٹھائی بانٹی جا سکے۔ ▪جیسے شادی کے موقع پہ دلہن کی بہن کے ہاتھوں دولہا کو دودھ پیش کرنا۔ ▪جیسے کوڑا کرکٹ گلی میں پھینکنا۔ ▪جیسے سفر کرتے ہوئے اس انداز سے تھوکنا یا ناک صاف کرنا کہ چھینٹے ساتھ گذرنے والے پہ بھی پڑیں۔ ▪جیسے محفل میں بیٹھ کر دیگر حاضرین کو نظر انداز کرتے ہوئے فون میں مصروف ہو جانا۔ 👈 ذرا سوچیں تو سہی کہ ہم گناہ کو گناہ ہی نہیں سمجھتے۔ اللّٰہ ہمیں سمجھ عطا فرمائے۔ آمین https://www.instagram.com/p/Cdou_3Bt2sw/?igshid=NGJjMDIxMWI=
0 notes