Tumgik
#منافقت
apnibaattv · 2 years
Text
زمبابوے برطانوی منافقت کے ہاتھوں ڈاکٹروں اور اساتذہ کو کھو رہا ہے۔ صحت
یونائیٹڈ کنگڈم جو ایک کے نیچے جھک رہا ہے۔ کمی کو گہرا کرنا نرسوں اور اساتذہ کی یورپی یونین سے باہر نکلنے کے بعد، دیگر ممالک کے علاوہ، اپنی سابق کالونی زمبابوے میں پبلک سیکٹر کے اہم کارکنوں: نرسوں، ڈاکٹروں اور اساتذہ کے لیے چھاپے مار رہی ہے۔ یہ ظلم ہے۔ یہ نہ رکنے والا معلوم ہوتا ہے۔ اس کے باوجود یہ ایک شیطانی چکر بھی پکڑتا ہے جس میں غیر ملکی امداد کا مقصد زمبابوے جیسے ممالک کو ان کی تعلیم اور صحت…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
0rdinarythoughts · 4 months
Text
Tumblr media
‫حاصل کر لیجیے گنوا دیجیے یا ضائع کردیجیۓ ,مگر‚ استمعال مت کیجئے یہ بہت بڑی منافقت ہے‬
‏‫Get it, lose it or waste it, but don't use it, it's a big hypocrisy.‬
20 notes · View notes
kafi-farigh-yusra · 1 year
Text
" ‏ہمارا خُلوص شہرِ منافقت کِی گَلِیوں میں
شِکستہ پا ہِی سَہِی، مگر سَر اُٹھا کے گُزرے گا
🍁
Tumblr media
"Hamara khuloos shehr-e-munafiqat ki galiyo'n se
Shikasta-paa hi sahi, magar sarr uthaa k guzray ga"
39 notes · View notes
urdu-poetry-lover · 3 months
Text
میں سچ کہوں پس دیوار جھوٹ بولتے ہیں
مرے خلاف مرے یار جھوٹ بولتے ہیں
ملی ہے جب سے انہیں بولنے کی آزادی
تمام شہر کے اخبار جھوٹ بولتے ہیں
میں مر چکا ہوں مجھے کیوں یقیں نہیں آتا
تو کیا یہ میرے عزا دار جھوٹ بولتے ہیں
یہ شہر عشق بہت جلد اجڑنے والا ہے
دکان دار و خریدار جھوٹ بولتے ہیں
بتا رہی ہے یہ تقریب منبر و محراب
کہ متقی و ریاکار جھوٹ بولتے ہیں
قدم قدم پہ نئی داستاں سناتے لوگ
قدم قدم پہ کئی بار جھوٹ بولتے ہیں
میں سوچتا ہوں کہ دم لیں تو میں انہیں ٹوکوں
مگر یہ لوگ لگاتار جھوٹ بولتے ہیں
ہمارے شہر میں عامیؔ منافقت ہے بہت
مکین کیا در و دیوار جھوٹ بولتے ہیں
عمران عامی
5 notes · View notes
taskeenedil · 4 months
Text
فطرت آسان تھی مگر انسان نے بناوٹ اور منافقت کے ساتھ رہنے کو ترجیع دی اسی لیے آج انسان جی کر نہیں تھک کر مر تا ہے
2 notes · View notes
syedaquratu · 1 year
Text
شکایت مجھے اپنے والدین سے ہے
جنہوں نے بچپن سے ہی
بناوٹی مزاج نہیں سکھایا
وہی سادگی وہی مخلصی ہے
مجھے کبھی بھی لوگوں کو استعمال
کرنا نہیں آیا میں باہر سے جیسا ہوں
اندر سے بھی ویسا ہوں
میری تربیت میں منافقت کی شدید کمی ہے
منافق اور مطلبی ہوتا تو
شاید آج میرا دل اتنا تکلیف میں نہ ہوتا
2 notes · View notes
emergingpakistan · 1 year
Text
جیسی قوم ویسے حکمران
Tumblr media
آپ مانیں یا نہ مانیں جیسی قوم ہوتی ہے اسے ویسے ہی حکمران ملتے ہیں۔ جب ہم مظلوم تھے تو ہمیں محمد علی جناح ؒکی صورت میں ایک قائد ملا جس نے برطانوی سرکار کی طرف سے متحدہ ہندوستان کا وزیر اعظم بننے کی پیشکش ٹھکرا کر ہمیں پاکستان بنا کر دیا۔ ہمیں پاکستان تو مل گیا لیکن ہم نے پاکستان کی قدر نہ کی اور آزادی کے فوراً بعد آپس میں لڑنا شروع کر دیا لہٰذا قدرت نے ہم سے ہمارا قائد اعظم ؒقیام پاکستان کے ایک سال بعد واپس لے لیا۔ آج کے پاکستان میں قائدین کی بہتات ہے اور قیادت کا فقدان ہے عمران خان اپنے آپ کو پاکستان کی سب سے بڑی جماعت کا لیڈر قرار دیتے ہیں لیکن ان کی سیاست میں دور دور تک قائداعظمؒ کی تعلیمات کی جھلک نظر نہیں آتی۔ وہ عوام کی مدد سے نہیں بلکہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدد سے وزیر اعظم بنے اور اپنی حکومت میں اپنے ارکان اسمبلی کو آئی ایس آئی کے ذریعے کنٹرول کرتے تھے۔ بطور وزیر اعظم توشہ خانہ سے گھڑیاں اور ہار سستے داموں خرید کر جعلی رسیدیں توشہ خانہ میں جمع کراتے رہے۔ انکی سیاست کا محور سیاسی مخالفین پر مقدمے بنا کر انہیں جیل میں ڈالنا تھا وہ ریاست مدینہ کا نام لیتے رہے لیکن اتنی اخلاقی جرات نہ دکھا سکے کہ اپنی بیٹی کی ولدیت کو تسلیم کر لیں جو لندن میں انکے دو بیٹوں کے ساتھ انکی سابق اہلیہ کے ساتھ مقیم ہے۔ 
تحریک عدم اعتماد کے ذریعے حکومت سے نکلے تو انکے ساتھ بھی وہی سلوک ہوا جو انہوں نے اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ کیا تھا۔ 9 مئی کو انہیں اسلام آباد ہائیکورٹ سے گرفتار کیا گیا تو ان کے کارکنوں نے ملک بھر میں جلائو گھیرائو کیا۔ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کور کمانڈر لاہور کی رہائش گاہ جلائی گئی۔ سب سے پہلے میں نے ہی 9 مئی کی شب جیو نیوز پر کیپٹل ٹاک میں بتایا کہ کور کمانڈر لاہور کی رہائش گاہ دراصل قائد اعظم ؒکا گھر تھا جو قیام پاکستان سے قبل برطانوی فوج نے اپنے قبضے میں لے لیا اور قیام پاکستان کے بعد بھی قائد اعظم ؒکو واپس نہ کیا گیا۔ اس گھر کے متعلق فوجی حکام کےساتھ قائد اعظم ؒکی خط وکتابت ’’جناح پیپرز‘‘ میں محفوظ ہے جو ڈاکٹر زورار حسین زیدی نے بڑی محنت سے مرتب کئے۔ کور کمانڈر لاہور کے گھر پر حملہ اور اسے جلا دینا ایک قابل مذمت واقعہ تھا اور اس میں ملوث افراد کے خلاف سخت قانونی کارروائی ہونی چاہئے لیکن موجودہ حکمرانوں کی منافقت دیکھئے کہ وہ صرف عمران خان کی مذمت کیلئے یہ بیانیہ بنا رہے ہیں کہ تحریک انصاف والوں نے جناح ہائوس جلا دیا۔ کیا کوئی صاحب اختیار یہ بتانے کی زحمت کرے گا کہ جناح ہائوس کو قومی میوزیم بنانے کی بجائے کور کمانڈر کی رہائش گاہ میں کیوں تبدیل کیا گیا؟ 
Tumblr media
قائد اعظمؒ ؒنے یہ گھر قاضی محمد عیسیٰ (قاضی فائز عیسیٰ کے والد) کے ذریعے موہن لال بھاسن سے خرید ا تھا 1944ء میں برطانوی فوج نے اس بنگلے کو ڈیفنس آف انڈیا رولز کے ذریعے اپنے قبضہ میں لے کر سات سو روپے ماہانہ کرایہ دینا شروع کر دیا۔ کرایہ داری کا معاہدہ 28 اپریل 1947ء کو ختم ہونا تھا لہٰذا 3 جنوری 1947ء کو قائد اعظم ؒ کو برطانوی فوج نے بتایا کہ ہم کرایہ داری معاہدہ کے بعد بھی آپ کو آپ کا گھر واپس نہ کر سکیں گے جس پر قائداعظم ؒنے قانونی کارروائی شروع کر دی۔ یکم اگست 1947ء کو قائد اعظم ؒ کو خط لکھا گیا کہ آپ کا گھر واپس کر دیا جائے گا۔ 31 جنوری 1948ء کو اس گھر کی توسیع شدہ لیز ختم ہو گئی لیکن قائد اعظم ؒکو اس گھر کا قبضہ نہ دیا گیا۔ قائد اعظم ؒکی وفات کے بعد اس گھر کو پاکستانی فوج کے دسویں ڈویژن کے جی او سی کی رہائش گاہ قرار دیکر محترمہ فاطمہ جناح کو پانچ سو روپیہ ماہوار کرایہ ادا کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ بعدازاں 1959ء میں جنرل ایوب خان کے حکم پر جناح ٹرسٹ میں ساڑھے تین لاکھ روپے جمع کروا کر اسے کور کمانڈر لاہور کی رہائش گاہ قرار دے دیا گیا۔ کچھ سال کے بعد محترمہ فاطمہ جناح نے جنرل ایوب خان کے خلاف صدارتی الیکشن میں حصہ لیا تو جنرل صاحب نے فاطمہ جناح کو انڈین ایجنٹ قرار دیدیا۔ جس جنرل ایوب خان نے قائد اعظم ؒکے گھر پر قبضہ کیا اس کا پوتا عمر ایوب خان آج تحریک انصاف میں شامل ہے۔
پی ڈی ایم اور اس کے اتحادیوں کی حکومت نے 9 مئی کو جناح ہائوس لاہور سمیت ملک کے مختلف شہروں میں پاک فوج کے شہداء کی یادگاروں اور فیصل آباد میں آئی ایس آئی کے دفتر پر حملہ کرنے والوں کے خلاف پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالتیں بنا کر کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ افسوس کہ ’’جناح ہائوس لاہور‘‘ پر حملے کی مذمت کرنے والی حکومت قائد اعظم ؒمحمد علی جناح کی تعلیمات کو نظر انداز کر رہی ہے۔ قائد اعظم ؒنے تمام عمر قانون کی بالادستی، شخصی آزادیوں اور صحافت کی آزادی کیلئے جدوجہد کی لیکن پی ڈی ایم اور اس کے اتحادیوں کی حکومت نے قائداعظم ؒکی تعلیمات کےساتھ ساتھ آئین پاکستان کے ساتھ بھی وہی سلوک شروع کر رکھا ہے جو تحریک انصاف نے 9 مئی کو جناح ہائوس لاہور کے ساتھ کیا۔ کیا وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ کو معلوم ہے کہ 1919ء میں محمد علی جناح نے متحدہ ہندوستان کی قانون ساز اسمبلی میں رولٹ ایکٹ کے خلاف تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ مناسب عدالتی انکوائری کے بغیر کسی انسان کی آزادی ایک لمحہ کےلئے بھی نہیں چھینی جا سکتی۔ رولٹ ایکٹ کا مقصد پولیس کو نقص امن کے خدشات پر گرفتاریوں کے لامحدود اختیارات دینا تھا۔ 
ایک انگریز رکن اسمبلی آئرن سائڈ نے قائداعظم محمد علی جناح کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ رولٹ ایکٹ کا مقصد صرف چند شرپسندوں کو قابو کرنا ہے۔ قائد اعظم ؒنے اس دلیل کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہم تخریب کاروں اور بدمعاشوں کے خلاف کارروائی کی مذمت نہیں کر رہے لیکن کسی مہذب ملک میں عدالتی ٹرائل کے بغیر شہریوں کی آزادی سلب نہیں کی جاتی۔ قائد اعظم ؒکی مخالفت کے باوجود رولٹ ایکٹ منظور ہو گیا تو انہوں نے اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا کہ ’’یہ قانون ساز اسمبلی ایک جابرانہ حکومت کی آلہ کار بن گئی ہے اس لئے میں اس اسمبلی سے جا رہا ہوں۔‘‘ وہ قائد اعظم ؒجو ٹرائل کے بغیر گرفتاریوں کے خلاف اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہو گئے اسی قائد کے پاکستان میں جنرل ایوب خان نے 1960ء میں رولٹ ایکٹ کو ایم پی او کا نام دیکر دوبارہ نافذ کر دیا۔ افسوس کہ اس جابرانہ قانون کو عمران خان کی حکومت نے بھی استعمال کیا اور آج شہباز شریف کی حکومت بھی اسے استعمال کر کے سیاسی مخالفین کو گرفتار کر رہی ہے ایم پی او کےتحت گرفتاریاں توہین قائد اعظم ؒکے مترادف ہیں۔ حکمرانوں نے توہین پارلیمینٹ کا قانون تو منظور کر لیا لیکن توہین قائداعظم ؒکے مرتکب افراد کے خلاف کارروائی کون کرے گا؟ ہم قائد اعظم ؒکا نام تو لیتے ہیں لیکن انکی تعلیمات سے سینکڑوں میل دور ہیں۔ خود بھی جھوٹ بولتے ہیں اور ہمارے لیڈر بھی جھوٹے ہیں، جیسی قوم ویسے حکمران۔
حامد میر
بشکریہ روزنامہ جنگ
2 notes · View notes
my-urdu-soul · 2 years
Text
نظر اٹھی تھی کبھی ایک اجنبی کی طرف
میں دھیان دے نہ سکا پھر کبھی کسی کی طرف
دھکیل دیتی ہے فوراً ہی تیرگی بھی مجھے
وہ شخص جب بھی بلاتا ہے روشنی کی طرف
میں اُس سے مل کے یہ چاہوں کہ وقت رُک جائے
مگر وہ دیکھے گھڑی بعد پھر گھڑی کی طرف
وہ اپنے آپ کو تفریق کر گیا مجھ سے
بقایا چھوڑ گیا مجھ کو بے بسی کی طرف
کبھی تو بَین سنائیں گے راستے اُس کو
کبھی تو آئے گا وہ بھی مِری گلی کی طرف
منافقت ہے مِرے دوست ! دنیا داری نہیں
تُو بات بات پہ ہوتا ہے ہر کسی کی طرف
تجھے بھی میری طرح لوٹنا نہیں خالی؟
تو سر جھکا کے چلا آ مِرے نبیؑ کی طرف
یہ بات صرف حلالی ہی مان سکتے ہیں
علیؑ ہے حق کی طرف اور حق علیؑ کی طرف
پھر آؤ زین چلیں ڈھوک مستقیم، وہاں
ہے ایک شخص جو لاتا ہے زندگی کی طرف
- زین شکیل
2 notes · View notes
risingpakistan · 9 months
Text
الیکشن ہو رہے ہیں یا منہ پہ مارے جا رہے ہیں؟
Tumblr media
سپریم کورٹ کو الیکشن کی تاریخ مقرر کرنے کے لیے پہلے تو متعلقہ اداروں کے سر آپس میں ٹکرانے پڑے۔ جب عدالتِ عظمیٰ کے بے حد اصرار پر آٹھ فروری کی تاریخ کا اعلان ہو گیا تب بھی آنا کانی ہیرا پھیری کی کوشش جاری رہی اور معزز عدالت کو ایک بار پھر آٹھ تاریخ کو کھونٹے سے باندھنے کے لیے مداخلت کرنا پڑی چنانچہ مرتا کیا نہ کرتا۔ بالکل نوے نکور ناتجربہ کار دو کروڑ پینتیس لاکھ فرسٹ ٹائمر ووٹروں سے خائف اسٹیبلشمنٹ الیکشن کروانے پر آمادہ تو ہے مگر اب تک کی حرکتیں بتا رہی ہیں کہ گویا یہ الیکشن منعقد نہیں ہو رہے قوم کے منہ پہ مارے جا رہے ہیں ’لے مر ٹھونس لے۔‘ کسی ستم ظریف نے سوشل میڈیا پر پوسٹ لگائی ’آج مورخہ چوبیس دسمبر کاغذاتِ نامزدگی چھیننے کا آخری دن ہے۔‘ اسٹیبلشمنٹ کی ذہنی کیفیت کو پڑھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ آٹھ فروری کو (خدانخواستہ ) الیکشن ہوا تو اتنا شفاف ہو گا کہ سب اس میں اپنا سا منہ دیکھتے رہ جائیں گے۔ ہمیں اور آپ کو گذشتہ الیکشنز کی قدر و قیمت بھی تب ہی معلوم ہو گی جب آٹھ فروری کے بعد بھی زنجیربکف پالیسیوں کا تسلسل جاری رکھنے اور وعدوں کے تازہ خربوزے پھوڑنے کے کام کے لیے ایک اور منتخب ’نگراں حکومت‘ حجلہِ عروسی میں داخل ہو گی۔
شیر، مگرمچھ، بھیڑیے اور باز پر مشتمل چار رکنی کمیٹی کی نگرانی میں تیندوے، بکری، طوطے، گرگٹ، ہرن، مینڈک، بارہ سینگے، سانپ، کوّے، اور لگڑبگے پر مشتمل مخلوط سرکار جنگل کا نظام چلائے گی۔ یعنی ایک اور ہزمیجسٹیز لائل گورنمنٹ اور ہز میجسٹیز لائل اپوزیشن۔ شکار آدھا آدھا۔ نظام کی گرفت اس قدر سخت ہے کہ ہمارے مہربان ژوب کے انوار الحق کاکڑ جو ہم صحافیوں سے ایک برس پہلے تک اس بات پر خفا ہو جاتے تھے کہ یار تم لوگ کوئٹہ آ کے ملے بغیر کیسے چلے جاتے ہو۔ آج انہی کے صوبے کے کچھ مہمان ان کے سرکاری گھر سے محض دو کلومیٹر پرے پڑے ہیں۔ مگر کاکڑ صاحب شاید ان سے کبھی بھی نظریں ملا کے گلہ نہ کر سکیں گے کہ تم میرے صوبے سے آئے ہو۔ میرے لوگ ہو۔ اس موسم میں یہاں کیوں پڑے ہو۔ اتنا بڑا وزیرِ اعظم ہاؤس اور وہاں کے تمام روپہلے آتش دان حاضر ہیں۔ چل کے آرام کرو، بھلے دھرنا دو اور پھر بتاؤ کہ میں تمہاری کیا خدمت کروں۔ 
Tumblr media
کاکڑ صاحب کا مطالعہ خاصا وسیع ہے اور منطق کا سویٹر بننے کے لیے بھی ہمیشہ اچھی کوالٹی کا اون استعمال کرتے ہیں لہٰذا یہ گمان بھی ممکن نہیں کہ انھوں نے یہ بلوچی کہاوت سنی ہی نہ ہو کہ ’ایک پیالہ پانی کی قیمت سو برس کی وفاداری ہے‘۔ جو آدمی گھر آئے مہمانوں کو ایک کٹورہ پانی بھی نہ بجھوا سکے۔ اس کی بے چارگی کا عالم اللہ اللہ۔ سوری سوری سوری۔۔۔ شاید میں کچھ غلط کہہ گیا۔ اسلام آباد نے ان مہمانوں کو کٹورہ بھر پانی نہیں بھجوایا بلکہ ان پر ٹھنڈے پانی سے بھرا پورا ٹینکر برسا کے والہانہ سواگت کیا۔ تاکہ کل کوئی یہ طعنہ نہ دے سکے کہ گھر آئے مہمان کو پانی تک نہ پوچھا۔ کچھ حاسدوں کا کہنا ہے کہ اگر یہ مہمان کوئی مسلح بلوچ سرمچار یا طالبان ہوتے اور ہتھیار ڈالنے پر آمادہ ہوتے یا پھر 2014 کے دھرنے کی طرز پر پارلیمنٹ کے جنگلوں پر اپنے کپڑے سکھا رہے ہوتے اور وزیرِ اعظم ہاؤس کے گیٹ پھلانگنے کی کوشش کر رہے ہوتے اور مسلسل الٹی میٹم دے رہے ہوتے اور کچھ نادیدہ سائے ان کے آگے پیچھے متحرک ہوتے تو شاید وزیرِ اعظم ان کا خیرمقدم ذاتی طور پر کرتے۔
مگر وفاق سے آخری امید رکھنے والے یہ مسلسل بے آرام بچے اور بوڑھے ایک دن جب اتمامِ حجت کے بعد خالی ہاتھ گھر لوٹیں گے تو ہو سکتا ہے کوئی وطن دشمن انھیں ایسی حرکتوں سے اکسانے کی کوشش کرے۔
کبھی لوٹ آئیں تو پوچھنا نہیں، دیکھنا انھیں غور سے جنہیں راستے میں خبر ہوئی کہ یہ راستہ کوئی اور ہے (سلیم کوثر) اور جنہیں آٹھ فروری کے بعد بلوچستان میں بھی حکمرانی کی اداکاری کرنی ہے وہ کیا ہوئے؟ کوئی وفاق پرست بلاول یا مریم جو کوئٹہ جا کر بلوچ بچے بچیوں کے سر پر ہاتھ رکھ کے اور گلے لگا کے فوٹو سیشن کرتے ہیں اب تک اسلام آباد پریس کلب کے اطراف میں بھی نہیں پھٹکے۔ منافقت اور دنیا دکھاوے میں بھی اس قدر احتیاط پسندی؟ ممکنہ خیرات چھن جانے کا اتنا خوف؟ استغفراللہ۔۔۔
برہنہ ہیں سرِ بازار تو کیا بھلا اندھوں سے پردہ کیوں کریں ہم
چبا لیں کیوں نہ خود ہی اپنا ڈھانچہ تمہیں راتب مہیا کیوں کریں ہم ( جون ایلیا )
وسعت اللہ خان
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
curioushats · 10 months
Text
منافقت
منافقت پر احادیث اور قرآنی آیات والے پوسٹرز ڈاؤن لوڈ کریں۔ ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے، تصویر کو دیر تک دبائیں اور”تصویر ڈاؤن لوڈ کریں” کو منتخب کریں۔
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
hassanriyazzsblog · 1 year
Text
🌹🌹𝗙𝗨𝗟𝗙𝗜𝗟𝗟𝗜𝗡𝗚 𝗧𝗛𝗘 𝗖𝗢𝗡𝗧𝗥𝗔𝗖𝗧.
♦️ *_"A journey towards excellence"_* ♦️
✨ *Set your standard in the realm of love !*
*(اپنا مقام پیدا کر...)*
؏ *تم جو نہ اٹھے تو کروٹ نہ لے گی سحر.....*
🔹 *100 PRINCIPLES FOR PURPOSEFUL*
*LIVING* 🔹
4️⃣0️⃣ *of* 1️⃣0️⃣0️⃣
*(اردو اور انگریزی)*
🍁𝗙𝗨𝗟𝗙𝗜𝗟𝗟𝗜𝗡𝗚 𝗧𝗛𝗘 𝗖𝗢𝗡𝗧𝗥𝗔𝗖𝗧:
*The Quran enjoins the believers to fulfil a covenant one has made.*
(Quran 2:40)
*We will be questioned before God about the covenant.*
*This shows that the covenant is not just a matter between two people. God is also involved in this matter as a third party.*
*The importance of fulfilling a covenant (agreement) is so great that man either should not make a covenant with anyone or if he makes one, he must fulfil it.*
*Not making a covenant is not a crime. But not fulfilling it is a serious crime.*
*Breaking even one covenant is such a great crime that it is tantamount to breaking all human covenants.*
Why is every breach of contract or covenant a breach of all human covenants?
*This is because the whole system of social justice is based on respecting covenants.*
*If respect for covenants is lost, the atmosphere of justice in society will come to an end.*
🌹🌹 _*And Our ( Apni ) Journey*_
*_Continues_ ...* *________________________________________*
*؏* *منزل سے آگے بڑھ کر منزل تلاش کر*
*مل جائے تجھکو دریا تو سمندر تلاش کر*
🍁 *عہد (معاہدے) کو پورا کرنا :*
*قرآن مجید میں اللہ سبحانہ وتعالی مومنوں کو اپنے عہد کو پورا کرنے کا حکم دیتا ہے۔*
*"اے یعقوب کی اولاد! میرے وہ احسان یاد کرو جو میں نے تم پر کئے تھے اور اس اقرار کو پورا کرو جو تم نے مجھ سے کیا تھا۔ میں اس اقرار کو پورا کروں گا جو میں نے تم سے کیا تھا اور مجھی سے ڈرتے رہو" -*
(قرآن 2:40)
*ہم سے عہد (معاہدے) کے بارے میں خدا کے سامنے سوال کیا جائے گا۔*
*اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عہد صرف دو لوگوں کے درمیان معاملہ نہیں ہے۔ خدا بھی اس معاملے میں تیسرے فریق کے طور پر شامل ہوتا ہے۔*
*عہد (معاہدہ) کو پورا کرنے کی اہمیت اس قدر ہے کہ انسان یا تو کسی سے عہد ہی نہ کرے اور اگر کرے تو ہر قیمت پر اس کو پورا کرے.*
*عہد نہ کرنا جرم نہیں۔ لیکن اسے پورا نہ کرنا سنگین جرم ہے۔*
*ایک عہد کو توڑنا اتنا بڑا جرم ہے کہ یہ تمام انسانی عہدوں کو توڑنے کے مترادف ہے۔*
ہر معاہدہ یا عہد کی خلاف ورزی تمام انسانی عہدوں کی خلاف ورزی کیوں ہے؟
*اس کی وجہ یہ ہے کہ سماجی انصاف کا پورا نظام عہدوں کے احترام پر مبنی ہے۔*
*اگر عہدوں کا احترام ختم ہو جائے تو معاشرے میں انصاف کی فضا ختم ہو جائے گی۔*
〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️
🌹🌹 *وعدہ پورا کرنا، مومن کی شان ہے !* 🌹🌹
*ارشادِ الٰہی ہے: "اور وعدہ کو پورا کرو، بے شک وعدہ کے بارے میں بازپُرس ہوگی"۔* ( بنی اسرائیل۱۷:۳۴)
انسان *اللہ ربّ العزت سے عہد کرتا ہے* اور آپس میں ایک دوسرے سے بھی قول و قرار کرتا ہے،یعنی ایفاے عہد کا تعلق *حقوق اللہ* اور *حقوق العباد* دونوں سے ہے۔
*’’ جس کی باز پرس خدا فرمائے اس کی اہمیت کتنی بڑی ہوگی"۔*
🔸 *وعدہ خلافی ، جھوٹ اور منافقت:*
*رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "منافق کی تین نشانیاں ہیں : جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے، اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے"۔* (بخاری)
*حقیقت یہ ہے کہ جس کا قلب نفاق کا مسکن بن جائے اس کا انجام بڑا تباہ کن ہوگا۔*
*نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ’’اس کا دین د��ن نہیں جسے عہد کا پاس و لحاظ نہ ہو‘‘* (احمد)۔
*نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تین شخص ایسے ہیں جن کا میں قیامت کے دن خصم بنوں گا[یعنی ان کے خلاف مقدمہ کھڑا کروں گا] ۔ان میں ایک وہ ہے جس نے میرا واسطہ دے کر کوئی معاہدہ کیا اور پھر اسے توڑدیا۔*
*حقیقت یہ کہ ایفاے عہد کے باب میں بھی نبی کریم ﷺ کا اسوۂ مبارکہ مثالی رہا ہے ۔ آپؐ پوری زندگی سچا ئی، ایفاے عہد اور امانت داری کا مظاہرہ بلاکسی امتیاز سب کے ساتھ کرتے رہے ۔*
بلا شبہہ *سیرتِ نبوی ﷺ* سے یہ قیمتی سبق ملتا ہے کہ *قول وقرار کی پابندی اور وفاے عہد مومن کی شان ہوتی ہے،* جس سے وہ کسی قیمت پر دستبردار ہونا گوارا نہیں کرتا ۔
🔸 *وعدہ خلافی اور معاشرتی مسائل :*
*قرآن و حدیث کی نظر میں عہد کا پاس ولحاظ رکھنے اور وعدہ پورا کرنے کی بڑی اہمیت ہے اور یہ کہ عہد شکنی یا وعدہ خلافی ایک سنگین جرم یا بڑے گناہ کا کام ہے۔*
*وعدہ خلافی خود برائی ہے اور بہت سی برائیوں کو جنم دیتی ہے جن میں غلط بیانی،کذب ، حقیقی صورتِ حال پر پردہ پوشی، منافقانہ رویہ وغیرہ شامل ہیں۔*
*آپؐ کا یہ ارشاد گرامی حکمت سے معمور ہے کہ "اپنے بھائی سے ایسا وعدہ نہ کرو جسے تم پورا نہ کرسکو"* ( جامع ترمذی)۔
🔸 *ایفاے عہد کی برکات :*
*ایفاے وعدہ بہت سے فیوض و برکات کا وسیلہ بنتا ہے ۔ اول یہ کہ یہ دونوں اصحابِ معاملہ کے لیے نفع بخش ثابت ہوتا ہے ۔ سب سے بڑی بات یہ کہ وعدہ پورا کرنے والے کو سکون و اطمینان نصیب ہوتا ہے اور اس سے صاحبِ معاملہ کو بھی سہولت و راحت ملتی ہے۔ دوسرے یہ کہ وعدہ پورا کرنے والا وقت کے ضیاع سے خود محفوظ رہتا ہے اور دوسروں کو بھی اس سے محفوظ رکھتا ہے۔ اس میں کیا شبہہ ہے کہ جو کام وقت پر انجام پاجاتا ہے وہ دونوں فریقِ معاملہ کے لیے وجہِ مسرت ہوتا ہے۔ تیسرے اس وصف کی ایک برکت یہ بھی ہے کہ اس کی وجہ سے اعتماد قائم ہوتا ہے،یعنی وعدے کا پکّا قابلِ اعتبار سمجھا جاتا ہے اور لوگ اس سے معاملہ کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتے۔ بلاخوف و خطر اس سے معاملات طے کرتے یا لین دین کرتے ہیں۔*
*’’ اس طرح آدمی کو اطمینان ہوکہ اس کے ساتھ وعدہ خلافی نہ ہوگی ، جو عہد وپیمان ہوا ہے وہ لازماً پورا ہوگا، تو وہ بے خوف وخطر معاملہ کرسکتا اور آگے بڑھ سکتا ہے۔اس سے پورے معاشرے میں امن و سکون کاماحول ہوگا اور ترقی کی راہیں کھلیں گی‘‘ ۔*
🔸 *وعدہ اور احساسِ جواب دہی:*
*رہا یہ مسئلہ کہ اللہ کے بند وں میں یہ صفت کیسے پرورش پاتی ہے؟ قر آن کریم سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ خوبی تقویٰ کے اثر سے پیدا ہوتی ہے۔ وہ لوگ جو عہد کو پورا کرتے ہیں اور معاہدے کا پاس و لحاظ رکھتے ہیں، انھیں متقین سے تعبیر کیا گیا ہے اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ انھیں اللہ کی محبت نصیب ہوتی ہے (التوبۃ۹ :۴،۷)۔ بلا شبہہ اللہ ربّ العزت کی نگاہ میں محبوبیت کا مقام پالینا بہت بڑا شرف و فضل ہے جو اللہ کے رحم و کرم سے عہد یا وعدہ کی حرمت و تقدس کا پاس و لحاظ رکھنے والوں کو عطا ہوتا ہے ۔ بلا شبہہ وہی شخص وعدہ پورا کرنے کا خوگر ہوتا ہے جو اللہ سے ڈرتا ہے اور روزِ جزا اس کے حضور حاضری و بازپُرس کا احساس تازہ رکھتا ہے۔ ایسے شخص کا دل وعدہ کی خلاف ورزی کے خیال سے ہی کانپ اٹھتا ہے ، چاہے کچھ بھی ہوجائے وہ وعدہ پورا کرکے رہتا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وعدہ پورا کرنے میں بڑی سخت آزمایشوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ وقت کی قربانی ہے، اپنے ذاتی تقاضوں کو تیاگ دینا ہے ،دوسرے کی ضرورت کو مقدم رکھنا ہے اور اپنے نقصانات کو گوارا کرنا ہے۔ اس کٹھن آزمایش سے وہی مومن کامیابی کے ساتھ نکل سکتا ہے، جس کا دل تقویٰ کا مَسکن بن جائے اور جس پر اللہ ربّ العزت کے سامنے حاضری اور جواب دہی کا احساس غالب رہے۔*
*مختصر یہ کہ وعدہ پورا کرنا اہلِ ایمان کا امتیازی وصف ہے۔ اس سے ان کی شناخت بنتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وعدہ خلافی مومن کی شان کے خلاف ہے۔ عہد یا وعد ہ کسی سے کیا جائے ، اس کا پورا کرنا بلا شبہ قرآن و حدیث کی رُو سے لازمی ہے۔ اس کی خلاف ورزی ایک بد ترین خصلت ہے اور عند اللہ انتہائی ناپسندیدہ عمل ہے ۔ یہ برائی دنیا میں موجبِ وبال ہے اور آخرت میں وجہِ خسران اور باعثِ ذلت و رسوائی ہوگی۔*
*اللہ ربّ العزت ہم سب کو ا یفاے وعدہ کی صفت سے متصف فرمائے اور ہمیں ان تمام باتوں و کاموں سے دور ر ہنے کی توفیق عنایت کرے، جو اس کی ناپسندیدگی و ناراضی کا باعث بنتے ہیں۔*
*آمین ثمّ آمین!*
🌹🌹 *اور اپنا سفر جاری ہے....*
0 notes
Text
نام نہاد مسلمان( ایک نظم)
اُن اخو توں کا کیا جنکو تار تار کیا ہے اُن حرمتوں کا کیا جنکو پامال کیا ہے لے کر کے نام رسول اللہ ہر غلط کام انجام دیا ہے قرآن و حدیث کا لیکر کے نام فقہ کو عام کیا ہے دیں کو بنا کر اماموں کا غلام ،خواہش نفس اسلام کیا ہے بنا کر کے سفارشی اللہ کا، ہر مردے کو شریک اللہ کیا ہے ۔ بتا کر کے وظیفوں کے فضائل مسلمانوں کو گمراہ کیا ہے۔ لیکر کے ہاتھ میں تسبیح، منافقت کو ایمان کیا ہے كه دو زمانے سے…
View On WordPress
0 notes
0rdinarythoughts · 1 year
Text
Tumblr media
انسان ہونے کی منافقت؛ تنہائی اور صحبت کی خواہش کے درمیان مستقل کشمکش، اس قدر شدت سے محبت کرنے کی خواہش اور بیک وقت اس سب سے لاتعلقی، سب کچھ چاہنا اور کچھ نہ چاہنا."
The hypocrisy of being human; The constant conflict between loneliness and the desire for companionship, the desire to love so intensely and at the same time the detachment from it all, wanting everything and wanting nothing."
41 notes · View notes
minhajbooks · 1 year
Text
Tumblr media
🔰 منافقت اور اس کی علامات
منافقت ایسے طرز عمل کو کہتے ہیں جو قول و فعل کے تضاد سے عبارت ہو، جس میں انسان کا ظاہر باطن سے مختلف بلکہ برعکس ہو۔ ہر دور کے مفاد پرست اَفراد حق کی تحریک کو کامیابی سے ہم کنار ہوتا دیکھ کر ظاہراً اس تحریک کے ساتھ وابستہ ہو جاتے ہیں اور در پردہ اپنے باطل نظریات پر کار بند رہتے ہیں اور اس طرح حق و باطل کے ہر دو طبقات سے وابستگی کا اظہار کر کے اپنے مزعومہ مفادات کا تحفظ اور ناپاک عزائم کی تکمیل کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ مختصر کتاب شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے دروسِ قرآن کا مرتبہ مجموعہ ہے جس میں ’’منافقت کی حقیقت اور اس کی علامات‘‘ پر گفتگو کی گئی ہے۔ موضوع کی اَہمیت کے پیش نظر اسے کتابی شکل میں پیش کیا جا رہا ہے تاکہ ہم اپنے قول و فعل کے تضاد اور ظاہر و باطن کے تخالف کا جائزہ لے کر اپنی اپنی زندگیوں میں کار فرما منافقت کے مختلف کرداروں کا محاسبہ کریں اور صدقِ دل سے تائب ہو کر صحیح معنوں میں مومنانہ زندگی کی طرف رجوع کریں۔
مصنف : شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری زبان : اردو صفحات : 64 قیمت : 65 روپے
🌐 پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں https://www.minhajbooks.com/urdu/book/48/Hypocrisy-and-its-Signs
💬 خریداری کیلئے رابطہ کریں https://wa.me/9203097417163
0 notes
urdu-poetry-lover · 8 months
Text
ممکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرز منافقت
دنیا! ترے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں
امجد اسلام امجد
6 notes · View notes
emergingpakistan · 11 months
Text
’کیا فلسطینیوں کو اکیلا چھوڑ دیا گیا ہے؟‘
Tumblr media
دنیا نے غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت اور وہاں جنم لینے والے انسانی المیے پر کیا ردعمل ظاہر کیا ہے؟ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اس جنگ کو روکنے کی اپنی ذمہ داری میں واضح طور پر ناکام رہی ہے۔ یہ ایک ایسے عالمی ادارے کی ناکامی ہے جس کی بنیادی ذمہ داری ہی بین الاقوامی امن اور سلامتی کو برقرار رکھنا ہے۔ جنگ بندی یا انسانی بنیادوں پر جنگ میں توقف کا مطالبہ کرنے والی قراردادوں کی عدم منظوری نے اقوام متحدہ کے اراکین میں اس تقسیم کو بے نقاب کر دیا ہے جس کے سبب یہ ادارہ مفلوج ہوکر رہ گیا ہے۔ جنگ بندی کی کوششوں میں سب سے بڑی رکاوٹ امریکا تھا۔ عالمی رائے عامہ کو نظر انداز کرتے ہوئے امریکا کی غیر مشروط حمایت سے اسرائیل کو اپنی وحشیانہ فوجی مہم جاری رکھنے کے لیے کھلی چھوٹ مل گئی۔ سلامتی کونسل کی جانب سے کوئی ٹھوس قدم نہ اٹھائے جانے کی وجہ سے جنرل اسمبلی کا ہنگامی اجلاس ہوا، جس نے بھاری اکثریت سے جنگ بندی کا مطالبہ کرنے والی قرارداد کی منظوری دی۔ صرف امریکا اور مٹھی بھر ممالک نے ہی قرارداد کی مخالفت میں ووٹ دیا۔ اگرچہ یہ قرارداد اخلاقی اور سیاسی وزن رکھتی ہے اور اس کا مقصد اسرائیل اور اس کے حامیوں پر سفارتی دباؤ بڑھانا ہے، لیکن یہ کسی کو پابند نہیں کرتی۔ یہی وجہ ہے کہ یہ قرارداد غزہ پر اسرائیلی جارحیت کو روکنے کے لیے عملی طور پر کچھ نہیں کرسکتی۔
یہ پیش رفت امریکا کی بڑھتی ہوئی سفارتی تنہائی کو ظاہر کرتی ہیں کیونکہ اس کے متعدد مغربی اتحادی فوری جنگ بندی کی حمایت کے لیے بین الاقوامی برادری کے ساتھ کھڑے ہیں۔ جہاں بعض یورپی ممالک نے انسانی بحران اور فلسطینیوں کی جانوں کے ضیاع پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اپنا مؤقف تبدیل کیا ہے وہیں امریکا نے اسرائیل سے بمباری بند کرنے یا غزہ کا محاصرہ ختم کرنے کا مطالبہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیلی اقدامات کے تباہ کن نتائج کا امریکا پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ اقوام متحدہ کے حکام نے بارہا اعلان کیا کہ غزہ میں پھنسے 20 لاکھ سے زائد فلسطینیوں پر اسرائیلی تشدد دراصل اجتماعی سزا ہے اور بین الاقوامی انسانی قوانین کی بھی خلاف ورزی ہے۔ امریکا اور اس کے مغربی شراکت داروں نے اسرائیل پر حملے کے لیے حماس کو ہی مورد الزام ٹھہرایا لیکن پوری آبادی پر اسرائیل کی کارپٹ بمباری کو اسرائیل کے لیے ’اپنے دفاع کے حق‘ کے طورپر تسلیم کیا گیا۔
Tumblr media
انہوں نے ہزاروں فلسطینیوں کی اموات پر کسی ہمدردی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ ان لوگوں کو حماس کے لیے انسانی ڈھال کے طور پر پیش کیا گیا۔ یہ فلسطینیوں کو انسان نہ سمجھنے کی ایک مثال ہے۔ امریکی صدر جوبائیڈن نے تو فلسطینی ہلاکتوں کے اعداد و شمار پر بھی سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ انہیں فلسطینیوں کی جانب سے دیے جانے والے اعداد و شمار پر کوئی بھروسہ نہیں ہے۔ جب امریکا نے شہریوں کی ہلاکتوں پر تشویش کا اظہار کرنا شروع کیا تو یہ مذمت بہت ناکافی تھی اور تب تک بہت دیر بھی ہو چکی تھی خاص طور پر ان حالات میں جب اس نے جنگ بندی کی مخالفت جاری رکھی۔ اس پیش رفت نے امریکا کی زیر قیادت مغربی ممالک کی منافقت کو آشکار کیا ہے۔ مغربی رہنماؤں نے یوکرین کی جنگ میں روسی فوجی کارروائیوں اور یوکرین میں شہریوں کو نشانہ بنانے کی مذمت کی تھی لیکن انہوں نے غزہ پر اس اصول کو لاگو نہیں کیا۔ یوروپی یونین کمیشن کی صدر اُرسلا وان ڈیر لیین نے ایک مرتبہ روس کی جانب سے ’شہری انفراسٹرکچر پر حملوں‘ کو ’دہشتگردانہ کارروائی‘ قرار دیا تھا جس کا مقصد لوگوں کو پانی اور بجلی سے محروم کرنا تھا۔ لیکن نہ تو انہوں نے اور نہ ہی کسی اور مغربی رہنما نے اسرائیل کی طرف سے غزہ کو بجلی، پانی، خوراک اور ایندھن کی سپلائی بند کرنے کو دہشت گردی قرار نہیں دیا۔ 
کسی مغربی حکومت نے اسرائیل کی جانب سے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے وائٹ فاسفورس کے استعمال کی بھی مذمت نہیں کی۔ جبالیہ پناہ گزین کیمپ پر اسرائیل کے حملوں کی بھی مغرب کی جانب سے کوئی مذمت نہیں کی۔ اس حملے میں سیکڑوں لوگ مارے گئے اور اسرائیل نے شہریوں کی ہلاکتوں کو ’جنگ کا المیہ‘ قرار دیتے ہوئےاس حملے کی ذمہ داری بھی قبول کی۔ مغربی ممالک انسانی حقوق کے علمبردار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور اس پر دوسرے ممالک کو مسلسل لیکچر دیتے ہیں لیکن انہوں نے اسرائیلی مظالم اور نسل کشی کے اقدامات پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ مغرب کے دوہرے معیار کا یہ مظاہرہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔ انسانی حقوق کے حوالے سے مغربی فکر ہمیشہ سے جانبدارانہ رہی ہے۔ اس کی تنقید عام طور پر اپنے مخالفین پر ہوتی ہے جبکہ دوست ممالک کو تنقید سے بچایا جاتا ہے۔ جرمنی اور فرانس نے فلسطینیوں کے لیے اظہارِ ہمدردی کو جرم قرار دینے کی کوشش کرتے ہوئے فلسطین کی حمایت میں ریلیوں پر پابندی عائد کر دی ہے۔ اس سے ان کے جمہوری طرز عمل کا مذاق بنا اور اظہار رائے کی آزادی کے حوالے سے ان کی سنجیدگی کی حقیقت بھی سامنے آگئی۔ امریکا میں یونیورسٹیوں کو عطیات دینے والوں نے دھمکی دی کہ وہ ان یونیورسٹیوں کی فنڈنگ ​​بند کر دیں گے جہاں طلبہ نے فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے ریلیاں نکالی تھیں۔
دی گارڈیئن کے مطابق میگزین کے ایڈیٹرز سے لے کر ہولی ووڈ کے ایجنٹوں تک کئی ممتاز امریکی شخصیات کو فلسطینیوں کی حمایت کرنے پر برطرفی یا سرزنش کا سامنا کرنا پڑا۔ یورپ میں فلسطینیوں کے حامی کارکنوں کو یہود مخالف ہونے کے بہانے پکڑا گیا۔ برطانیہ کی ہوم سیکریٹری سویلا بریورمین نے فلسطین کی حمایت میں ہونے والے مارچ کو ’نفرت مارچ‘ قرار دیا، انہوں نے ان مظاہروں پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا اور فلسطینی پرچم لہرانے کو جرم قرار دینے پر زور دیا۔ یہ سب کچھ ان نام نہاد جمہوریتوں میں ہوا جو گلوبل ساؤتھ کے ممالک پر تہذیبی برتری کا دعویٰ کرتے ہیں۔ مغربی میڈیا کا کردار بھی ان کی حکومتوں کی طرح یک طرفہ رہا ہے اور وہ فلسطینی عوام کے مصائب کو نظر انداز کررہا ہے۔ بڑے میڈیا نیٹ ورکس نے اسرائیلی پروپیگنڈے کو ہی فروغ دیا اور اس جنگ کو اسرائیل کے اپنے ’دفاع کے حق‘ کے طور پر پیش کیا۔ ٹی وی اینکر بھی اسی رجحان پر کاربند رہے۔ وہ جن افراد کا انٹرویو کرتے ان سے یہی پوچھتے کہ کیا وہ حماس کی مذمت کرتے ہیں۔ اس دوران وہ اسرائیل کے قتل عام کو نظر انداز کرتے ہوئے دکھائی دیے۔
مغربی چینلز کی طرف سے پھیلائی جانے والی غلط معلومات کی سب سے واضح مثال حماس کے ہاتھوں اسرائیلی بچوں کے سر قلم کرنے والی بے بنیاد خبر تھی۔ جب غزہ میں ہلاکتوں کو نظر اندازکرنا مشکل ہو گیا اور میڈیا نیٹ ورکس کے تعصب پر تنقید ہونے لگی تب ہی بی بی سی جیسے نیٹ ورکس اپنے طرز عمل میں کچھ تبدیلی لے کر آئے۔ دریں اثنا، مغربی سوشل میڈیا کمپنیوں نے فلسطینی مواد کو سنسر کرنا شروع کر دیا جس کی تصدیق ایمنسٹی سمیت انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں نے بھی کی ہے۔ مسلم ممالک کے ردعمل کو دیکھا جائے تو یہ نہ ہی زمینی صورتحال کے مطابق تھا اور نہ ہی اپنے لوگوں کی توقعات کے مطابق۔ جنرل اسمبلی کی قرارداد کے حوالے سے اقوام متحدہ میں سفارتی سرگرمیوں کے علاوہ یہ ممالک اسرائیل کی مذمت کرنے سے آگے نہیں بڑھ سکے۔ کئی جنوبی امریکی ممالک نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات منقطع کیے لیکن اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات رکھنے والے عرب ممالک میں سے صرف اردن اور بحرین نے ہی ایسا کیا۔
کیا اس سب کا مطلب یہ ہے کہ فلسطینیوں کو اکیلا چھوڑ دیا گیا ہے؟ اس کا جواب ہاں بھی ہے اور نہیں بھی۔ ہاں اس لیے کیونکہ عالمی برادری غزہ میں قتل عام کو روکنے میں ناکام رہی ہے۔ نہیں اس وجہ سے کیونکہ پوری دنیا میں، مغرب سے لے کر مشرق تک، لوگ بڑی تعداد میں فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے اور جنگ بندی کا مطالبہ کرنے کے لیے باہر نکلے ہیں۔ احتجاجی ریلیوں میں غزہ میں جاری انسانی المیے پر عوامی غم و غصے کا اظہار ان ممالک کی حکومتوں کی طرف سے اختیار کیے گئے متعصبانہ مؤقف کے بالکل برعکس تھا۔ امریکا میں رائے عامہ بھی بائیڈن انتظامیہ کے مؤقف سے بالکل مختلف تھی۔ ڈیٹا فار پروگریس کے ایک پول کے مطابق 66 فیصد امریکی ووٹروں نے جنگ بندی کی حمایت کی ہے۔ 1948ء کے بعد فلسطینی عوام پر آنے والی سب سے بڑی تباہی کے نتائج خطے اور دنیا کے لیے بہت دور رس ہوں گے۔
ملیحہ لودھی   یہ مضمون 6 نومبر 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
بشکریہ ڈان نیوز
0 notes