Tumgik
#مشرق وسطیٰ
urduchronicle · 8 months
Text
شام کی سرحد کے قریب اردن میں تعینات امریکی افواج پر ڈرون حملہ، 3 امریکی فوجی ہلاک، متعدد زخمی
شام کی سرحد کے قریب شمال مشرقی اردن میں تعینات امریکی افواج پر ڈرون حملے کے دوران تین امریکی فوجی ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے، صدر جو بائیڈن نے اتوار کے روز ایران کے حمایت یافتہ گروپوں کو اس حملے کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ بائیڈن نے ایک بیان میں کہا، “جب کہ ہم ابھی تک اس حملے کے حقائق کو اکٹھا کر رہے ہیں، ہم جانتے ہیں کہ یہ شام اور عراق میں سرگرم ایران کے حمایت یافتہ شدت پسند گروپوں نے کیا تھا۔” یہ…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urduclassic · 1 month
Text
پاکستانیوں کا فلسطین سے رشتہ کیا؟
Tumblr media
جس کے پاس کھونے کیلئے کچھ نہ ہو وہ اپنے طاقتور دشمن پر فتح پانے کیلئے موت کو اپنا ہتھیار بنا لیتا ہے۔ فلسطینیوں کی مزاحمتی تنظیم حماس کو بہت اچھی طرح پتہ تھا کہ اسرائیل پر ایک بڑے حملے کا نتیجہ غزہ کی تباہی کی صورت میں نکل سکتا ہے لیکن حماس نے دنیا کو صرف یہ بتانا تھا کہ اسرائیل ناقابل شکست نہیں اور مسئلہ فلسطین حل کئے بغیر مشرق وسطیٰ میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ اب آپ حماس کو دہشت گرد کہیں یا جنونیوں کا گروہ کہیں لیکن حماس نے دنیا کو بتا دیا ہے کہ کچھ عرب ممالک کے حکمران اسرائیل کے سہولت کار بن کر مشرق وسطیٰ میں امن قائم نہیں کرسکتے امن قائم کرنا ہے تو فلسطینیوں سے بھی بات کرنا پڑیگی۔ اس سوال پر بحث بے معنی ہے کہ اسرائیل اور امریکہ کی طاقتور انٹیلی جنس ایجنسیاں حماس کے اتنے بڑے حملے سے کیسے بے خبر رہیں؟ حماس کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ شیخ احمد یاسین نے تنظیم آزادی فلسطین (پی ایل او) کے سربراہ یاسر عرفات سے مایوسی کے بعد حماس قائم کی تھی۔
شیخ احمد یاسین کو 2004ء میں اسرائیل نے نماز فجر کے وقت میزائل حملے کے ذریعہ شہید کر دیا تھا لہٰذا حماس اور اسرائیل میں کسی بھی قسم کی مفاہمت کا کوئی امکان نہیں تھا۔ اگست 2021ء میں افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد یہ طے تھا کہ فلسطین اور کشمیر میں مزاحمت کی چنگاریاں دوبارہ بھڑکیں گی۔ فلسطین اور کشمیر کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے۔ یہ تعلق مجھے 2006ء میں لبنان کے شہر بیروت کے علاقے صابرہ اورشتیلا میں سمجھ آیا۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں اسرائیلی فوج نے 1982ء میں فلسطینی مہاجرین کا قتل عام کرایا تھا۔ 2006ء کی لبنان اسرائیل جنگ کے دوران میں کئی دن کیلئے بیروت میں موجود رہا۔ ایک دن میں نے اپنے ٹیکسی ڈرائیور کے سامنے مفتی امین الحسینی کا ذکر کیا تو وہ مجھے صابرہ شتیلا کے علاقے میں لے گیا جہاں شہداء کے ایک قبرستان میں مفتی امین الحسینی دفن ہیں۔ مفتی امین الحسینی فلسطینیوں کی تحریک مزاحمت کے بانیوں میں سےتھے۔ مفتی اعظم فلسطین کی حیثیت سے انہوں نے علامہ اقبال ؒ، قائد اعظم ؒ اور مولانا محمد علی جوہر ؒسمیت برصغیر کے کئی مسلمان رہنمائوں کو مسئلہ فلسطین کی اہمیت سے آشنا کیا۔
Tumblr media
2006ء میں امریکی سی آئی اے نے ان کے بارے میں ایک خفیہ رپورٹ کو ڈی کلاسیفائی کیا جو 1951ء میں تیار کی گئی تھی۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ مفتی امین الحسینی نے فروری 1951ء میں پاکستان کے شہر کراچی میں کشمیر پر منعقد ہونے والی ایک کانفرنس میں شرکت کی جس کے بعد وہ آزاد کشمیر کے علاقے اوڑی گئے اور انہوں نے کشمیریوں کی تحریک آزادی کی حمایت کی۔ اسی دورے میں وہ جنوبی وزیرستان کے علاقے وانا گئے اور وہاں کے قبائلی عمائدین سے ملاقات کی۔ ایک قبائلی رہنما نے مفتی امین الحسینی کو ایک سٹین گن کا تحفہ دیا جو اس نے 1948ء میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج سے چھینی تھی۔ مفتی صاحب نے وزیر قبائل سے درخواست کی کہ وہ پاکستان کے خلاف بھارتی سازشوں کا حصہ نہ بنیں۔ امریکی سی آئی اے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان سے مفتی صاحب کابل گئے اور انہوں نے بیت المقدس کے امام کی حیثیت سے افغان حکومت سے اپیل کی کہ وہ ’’پشتونستان‘‘ کی سازش کا حصہ نہ بنیں۔
ان کے مزار پر فاتحہ خوانی کے بعد مجھے ایک بزرگ فلسطینی ملا اور اس نے کہا کہ وہ بہت سوچتا تھا کہ مفتی اعظم فلسطین کو اتنی دور پاکستان جانے کی کیا ضرورت تھی اور کشمیریوں کی اتنی فکر کیوں تھی لیکن آج ایک پاکستانی کو ان کی قبر پر دیکھ کر سمجھ آئی کہ پاکستانیوں کو فلسطینیوں کے لئے اتنی پریشانی کیوں لاحق رہتی ہے۔ ہمارے بزرگوں نے تحریک پاکستان کے ساتھ ساتھ فلسطین اور کشمیر کیلئے تحریکوں میں بھی دل وجان سے حصہ لیا اس لئے عام پاکستانی فلسطین اور کشمیر کے درد کو اپنا درد سمجھتے ہیں۔ علامہ اقبالؒ نے 3 جولائی 1937ء کو اپنے ایک تفصیلی بیان میں کہا تھا کہ عربوں کو چاہئے کہ اپنے قومی مسائل پر غوروفکر کرتے وقت اپنے بادشاہوں کے مشوروں پر اعتماد نہ کریں کیونکہ یہ بادشاہ اپنے ضمیروایمان کی روشنی میں فلسطین کے متعلق کسی صحیح فیصلے پر نہیں پہنچ سکتے۔ قائد اعظم ؒنے 15 ستمبر 1937ء کو مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ لکھنؤمیں مسئلہ فلسطین پر تقریر کرتے ہوئے برطانیہ کو دغا باز قرار دیا۔
اس اجلاس میں ایک قرارداد کے ذریعہ تمام مسلم ممالک سے درخواست کی گئی کہ وہ بیت المقدس کو غیر مسلموں کے قبضے سے بچانے کیلئے مشترکہ حکمت عملی وضع کریں۔ پھر 23 مارچ 1940ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ لاہور میں بھی مسئلہ فلسطین پر ایک قرار داد منظور کی گئی۔ میں ان حقائق کو ان صاحبان کی توجہ کیلئے بیان کر رہا ہوں جو دعویٰ کیا کرتے تھے کہ قیام پاکستان تو دراصل انگریزوں کی سازش تھی اور قائد اعظم ؒنے 23 مارچ کی قرارداد انگریزوں سے تیار کرائی۔ ۔اگر قائداعظم ؒ انگریزوں کے ایجنٹ تھے تو انگریزوں کے دشمن مفتی امین الحسینی سے خط وکتابت کیوں کرتے تھے اور اسرائیل کے قیام کیلئے برطانوی سازشوں کی مخالفت کیوں کرتے رہے ؟ سچ تو یہ ہے کہ برطانوی سازشوں کے نتیجے میں قائم ہونے والی فلسطینی ریاست کو امریکہ کے بعد اگر کسی ملک کی سب سے زیادہ حمایت حاصل ہے تو وہ بھارت ہے۔ آج بھارت میں مسلمانوں کےساتھ وہی سلوک ہو رہا ہے جو اسرائیل نے فلسطینیوں کے ساتھ روا رکھا اور اس ظلم وستم کا ردعمل حماس کے حملے کی صورت میں سامنے آیا۔ علامہ اقبال ؒ نے فلسطینیوں کو بہت پہلے بتا دیا تھا کہ
تری دوا نہ جنیوا میں ہے نہ لندن میں فرنگ کی رگ جاں پنجہ یہود میں ہے
سنا ہے میں نے غلامی سے امتوں کی نجات خودی کی پرورش و لذت نمود میں ہے
فیض احمد فیض نے تو فلسطین کی تحریک آزادی میں اپنے قلم کے ذریعہ حصہ لیا اور 1980ء میں بیروت میں یہ اشعار کہے۔
جس زمیں پر بھی کھلا میرے لہو کا پرچم لہلہاتا ہے وہاں ارض فلسطیں کا علم
تیرے اعدا نے کیا ایک فلسطیں برباد میرے زخموں نے کیے کتنے فلسطیں آباد
ابن انشاء نے ’’دیوار گریہ‘‘ کے عنوان سے اپنی ایک نظم میں عرب بادشاہوں پر طنز کرتے ہوئے کہا تھا
وہ تو فوجوں کے اڈے بنایا کریں آپ رونق حرم کی بڑھایا کریں
ایک دیوار گریہ بنائیں کہیں جس پر مل کے یہ آنسو بہائیں کہیں
اور حبیب جالب بھی کسی سے پیچھے نہ رہے انہوں نے فلسطینی مجاہدین کو کعبے کے پاسبان قرار دیتے ہوئے ان کے مخالفین کے بارے میں کہا۔
ان سامراجیوں کی ہاں میں جو ہاں ملائے وہ بھی ہے اپنا دشمن، بچ کے نہ جانے پائے
حامد میر 
بشکریہ روزنامہ جنگ
3 notes · View notes
emergingpakistan · 4 months
Text
مشرقِ وسطیٰ کے حالات کے پیش نظر اگلے ایرانی صدر کو کن چینلجز کا سامنا ہو گا؟
Tumblr media
جہاں ایران کو معاشی چیلنجز سمیت داخلی مسائل کا سامنا ہے وہیں بیرونی محاذ پر تہران اسرائیل کے خلاف ایک غیراعلانیہ جنگ میں ہے جس میں صہیونی حکومت کی غزہ میں وحشیانہ کارروائیوں نے تنازع میں کلیدی کردار ادا کیا۔ تاہم یہ امکان کم ہے کہ ایران میں طاقت کا خلا پیدا ہو کیونکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ عبوری صدر نے عہدہ سنبھال لیا ہے جبکہ آئندہ 50 روز میں انتخابات متوقع ہیں۔ ابراہیم رئیسی اور ان کا وفد آذربائیجان سے ایران واپس آرہے تھے کہ جب بہ ظاہر خراب موسم کے باعث ان کا ہیلی کاپٹر پہاڑی علاقے میں گر کر تباہ ہو گیا۔ گزشتہ روز صبح ہیلی کاپٹر میں سوار تمام افراد کی موت کی تصدیق ہو گئی تھی۔ ابراہیم رئیسی کا دورِ حکومت مختصر لیکن واقعات سے بھرپور رہا۔ انہوں نے 2021ء میں اقتدار سنبھالا۔ اپنے دورِ اقتدار میں ان کی انتظامیہ کو جس سب سے بڑے داخلی مسئلے کا سامنا کرنا پڑا وہ 2022ء میں نوجوان خاتون مہسا امینی کی مبینہ طور پر ’اخلاقی پولیس‘ کی حراست میں ہلاکت کے بعد ہونے والے ملک گیر مظاہرے تھے۔ ایران میں حکومت مخالف مظاہروں میں شدت آئی، جواباً حکومت نے مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کیا۔
Tumblr media
بین الاقوامی محاذ پر بات کریں تو چین کی بطور ثالث کوششوں کی وجہ سے ابراہیم رئیسی نے سعودی عرب کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات بحال کیے۔ اس عمل میں وزیرخارجہ امیر عبداللہیان نے اہم کردار ادا کیا۔ لیکن شاید مرحوم ایرانی صدر کی خارجہ پالیسی کا سب سے مشکل دور اس وقت آیا جب گزشتہ ماہ کے اوائل میں اسرائیل نے شام کے شہر دمشق میں ایران کے سفارتخانے پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں ایران پاسدارانِ انقلاب کے اہم عسکری رہنما ہلاک ہوئے۔ اس حملے کے جواب میں تہران نے دو ہفتے بعد اسرائیل پر ڈرون اور میزائل حملہ کیا۔ یہ ایک ایسا حملہ تھا جس کی مثال تاریخ میں ہمیں نہیں ملتی۔ پاکستان کے حوالے سے بات کی جائے تو ابراہیم رئیسی کی نگرانی میں دو طرفہ تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے کوششیں کی گئیں۔ جنوری میں دونوں ممالک نے مبینہ طور پر دہشت گردوں کے ٹھکانوں کی موجودگی پر ایک دوسرے کی سرزمین پر میزائل داغے لیکن گزشتہ ماہ مرحوم ایرانی صدر کے دورہِ پاکستان نے اشارہ دیا کہ تہران پاکستان کے ساتھ گہرے تعلقات چاہتا ہے۔ امید ہے کہ اگلے ایرانی صدر بھی اسی سمت میں میں اقدامات لیں گے۔
ایران کے خطے اور جغرافیائی سیاسی اثرورسوخ کی وجہ سے، ایران میں اقتدار کی منتقلی کو دنیا قریب سے دیکھے گی۔ اگرچہ کچھ مغربی مبصرین ایران کے نظام کو سپریم لیڈر کے ماتحت ایک آمرانہ نظام قرار دیتے ہیں لیکن حقیقت اس سے کئی زیادہ پیچیدہ ہے۔ یہ درست ہے کہ ایرانی سپریم لیڈر کو ریاستی پالیسیوں میں ویٹو کا اختیار حاصل ہے مگر ایسا نہیں ہے کہ صدر اور اقتدار کے دیگر مراکز کا کوئی اثرورسوخ نہیں۔ ایران کے نئے صدر کو داخلی محاذ پر اقتصادی پریشانیوں اور سیاسی تفریق کا مقابلہ کرنا ہو گا۔ دوسری جانب مشرق وسطیٰ اس وقت ایک خطرناک اور متزلزل صورت حال سے دوچار ہے جس کی بنیادی وجہ غزہ میں اسرائیل کا وحشیانہ جبر ہے۔ خطے کی حرکیات میں ایران کا متحرک کردار ہے کیونکہ وہ حماس، حزب اللہ اور اسرائیل میں لڑنے والے دیگر مسلح گروہوں کی کھلی حمایت کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب سب نظریں اس جانب ہیں کہ اگلے ایرانی صدر اور اسلامی جموریہ ایران کی اسٹیبلشمنٹ، اسرائیل کی مسلسل اشتعال انگیزی کا جواب کیا دے گی۔
بشکریہ ڈان نیوز
2 notes · View notes
risingpakistan · 11 months
Text
اسرائیل دنیا کو اپنے خلاف کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے
Tumblr media
ہم اس مقام پر پہنچ گئے ہیں جہاں کسی کو کچھ پتہ نہیں کہ آگے کیا ہو گا۔ اسرائیل کو لگتا ہے کہ اس کے پاس مغرب کی طرف سے چار ہزار سے زائد بچوں سمیت ہزاروں فلسطینی شہریوں کو مارنے کے لیے مطلوبہ مینڈیٹ ہے۔ گنجان پناہ گزین کیمپوں پر گرائے گئے ایک ٹن وزنی مہیب بم اور ایمبولینسوں، سکولوں اور ہسپتالوں پر فضائی حملے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اسے حماس کی طرح عام شہریوں کی اموات کی کوئی پروا نہیں ہے۔ اسرائیل مہذب دنیا کی نظروں میں خود کو بدنام کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتا نظر آتا ہے۔ غزہ کے قتلِ عام سے پہلے بن یامین نتن یاہو کے فاشسٹوں اور بنیاد پرستوں کے ٹولے کے ذریعے اسرائیل کے عدالتی اداروں کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس نے امریکی لابی گروپ اے آئی پی اے سی کے پے رول پر موجود سیاست دانوں کی جانب سے اسرائیل کے جمہوری ملک ہونے اور اخلاقی طور پر برتر اور ترقی یافتہ ملک ہونے کے برسوں سے کیے جانے والے دعووں کی قلعی کھول کر رکھ دی۔ پچھلی دہائیوں میں، واحد بین الاقوامی آواز جو اہمیت رکھتی تھی وہ واشنگٹن کی تھی، جس میں یورپی اتحادی ہمنوا کی حیثیت سے ساتھ ساتھ تھے۔ لیکن 2020 کی کثیرالجہتی دہائی میں ایشیا، لاطینی امریکہ اور افریقہ میں ابھرتی ہوئی طاقتیں اسرائیل کی مذمت کرنے اور سفارتی تعلقات کو گھٹانے کے لیے قطار میں کھڑی ہیں۔
انصاف کے حامی بڑے حلقے غصے سے بھڑک اٹھے ہیں، یہاں تک کہ مغربی دنیا میں بھی۔ مسلمانوں، عربوں اور ترقی پسند رحجان رکھنے والے یہودیوں کے انتخابی لحاظ سے اہم طبقوں کے ساتھ ساتھ، یونیورسٹیاں ​​نوجوانوں کی سیاست زدہ نسل سے فلسطین کی حامی سرگرمیوں کے لیے اہم مراکز بن گئی ہیں۔ جب دنیا بھر میں لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکل رہے ہیں، برطانیہ کی وزیر داخلہ بریورمین جیسے دائیں بازو کے کارکن فلسطینیوں کے حامی مظاہروں کو مجرمانہ بنانے کے لیے شہری آزادیوں پر غصے سے کریک ڈاؤن کر رہے ہیں، جسے وہ ’نفرت مارچ‘ کے طور پر بیان کرتی ہیں۔  وہ دور لد چکا جب اسرائیل کی حامی لابیوں نے بیانیے کو قابو میں کر رکھا تھا۔ سوشل میڈیا کی خوفناک تصاویر مظالم کو ریئل ٹائم میں سب کو دکھا رہی ہیں، جبکہ دونوں فریق بیک وقت ہمیں غلط معلومات اور پروپیگنڈے کے ذریعے بہکانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس ماحول میں مذہب پر مبنی کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اسلاموفوبیا پر مبنی حملوں میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا۔ جو بائیڈن اور ڈونلڈ ٹرمپ جیسے عمر رسیدہ امریکی سیاست دان ایک مٹتے ہوئے اسرائیل نواز اتفاقِ رائے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ خاص طور پر مشی گن جیسی اہم ’سوئنگ‘ ریاستوں میں بڑی مسلم، عرب اور افریقی نژاد امریکی کمیونٹیز بائیڈن کی اسرائیل کی پالیسی کے خلاف ہو رہی ہیں۔
Tumblr media
اوباما نے اپنے جانشینوں کو خبردار کیا ہے، ’اگر آپ مسئلے کو حل کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو پوری سچائی کو اپنانا ہو گا۔ اور پھر آپ کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ کسی کے ہاتھ صاف نہیں ہیں، بلکہ ہم سب اس میں شریک ہیں۔‘ انہوں نے مزید کہا، ’اسرائیلی فوجی حکمت عملی جو انسانی جانوں کی اہیمت کو نظر انداز کرتی ہے بالآخر الٹا نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ اس موجودہ تباہی کے بعد بائیڈن کے پاس مشرق وسطیٰ میں امن کی بحالی کو فوری طور پر بحال کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہو گا۔ امریکہ کی ڈیموکریٹک پارٹی اپنے فلسطین کے حامی ترقی پسند ونگ کی طرف خاصا رجحان رکھتی ہے، جسے ایسے لوگوں کی وسیع بنیاد پر حمایت حاصل ہے جو آج غزہ کے قتل عام کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ ان ترقی پسندوں کو ایک دن قانون سازی کی مطلوبہ طاقت حاصل کرنے کے بعد اسرائیل کی فوجی امداد کے لیے کانگریس کے بلوں کو ویٹو کرنے میں کچھ پریشانی ہو گی۔ اسی قسم کا تناؤ یورپ بھر میں بھی چل رہا ہے۔ آئرلینڈ اور سپین واضح طور پر فلسطینیوں کے حامی ہیں، جب کہ ارسلا فان ڈیر لیین اور رشی سونک جیسی شخصیات اسرائیل کی حمایت میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے بےچین ہیں۔
فرانس اور جرمنی جیسی بڑی عرب اور مسلم آبادی والے ملک اپنی سیاسی بیان بازی کو اعتدال پر لانے پر مجبور ہیں۔ اسرائیل نے بین الاقوامی بائیکاٹ کی تحریکوں کے خلاف بھرپور طریقے سے جنگ لڑی ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ دشمنوں سے گھرے ہوئے اسرائیل کے لیے عالمی اقتصادی تنہائی کتنی تباہ کن ثابت ہو گی۔ غزہ کے باسیوں کی تسلی کے لیے اس طرح کے رجحانات بہت دور کی بات ہیں، لیکن ان سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ آنے والے برسوں میں فلسطین تنازع اسرائیل کی بڑھتی ہوئی بین الاقوامی تنہائی کے تناظر میں سامنے آئے گا۔ بین الاقوامی بار ایسوسی ایشن سمیت عالمی اداروں کے تمام حصوں نے بھرپور طریقے سے جنگ بندی کی وکالت کی ہے، اور اسرائیل کو انسانی حقوق کی عالمی ذمہ داریوں سے استثنیٰ نہ دینے پر زور دیا ہے۔ سات اکتوبر کو حماس کا حملہ اسرائیل کے لیے ایک بہت بڑا نفسیاتی دھچکہ تھا، جس نے بالآخر اسے یہ یہ تسلیم کرنے پر مجبور کر دیا ہے کہ جب تک وہ امن کی کوششوں کو مسترد کرتا رہے گا، اس کے وجود کو خطرات کا سامنا رہے گا۔  اس جیسے چھوٹے سے ملک میں بڑی تعداد میں لوگوں کو جنوبی اور شمالی اسرائیل کے بڑے علاقوں اور دیگر غیر محفوظ علاقوں سے باہر منتقل کر دیا گیا ہے، کچھ کو شاید مستقل طور پر، لیکن آبادی کے بڑے مراکز اب بھی حزب اللہ اور اسلامی جہاد کے راکٹوں کی آسانی سے پہنچ میں ہیں۔
نتن یاہو جیسے امن کو مسترد کرنے والوں کی ایک دوسرے سے ملتی جلتی کارروائیاں ہیں جنہوں نے امن کی میز پر فریقین کی واپسی کو ناگزیر بنا دیا ہے۔ فلسطینی اور اسرائیلی دونوں معاشروں میں اوسلو معاہدے کے برسوں سے سرگرم امن کیمپوں کو دوبارہ پروان چڑھانے کی ضرورت ہے جو انصاف، امن اور مفاہمت کے لیے مہم چلا سکیں۔ اسرائیل کی انتقامی پیاس نے انتہا پسند کیمپ کو طاقت بخشی ہے، جس کا دعویٰ ہے کہ غزہ کی فوجی مہم فلسطین کو عربوں سے پاک کرنے کے لیے بہترین دھواں دھار موقع پیش کرتی ہے۔ اسرائیل کی قومی سلامتی کونسل کے سابق سربراہ گیورا آئلینڈ نے اسرائیل پر زور دیا کہ وہ ’ای��ے حالات پیدا کرے جہاں غزہ میں زندگی غیر پائیدار ہو جائے۔ ایسی جگہ جہاں کوئی انسان موجود نہ ہو‘ تاکہ غزہ کی پوری آبادی یا تو مصر چلی جائے، یا پھر مصر منتقل ہو جائے۔ ‘نتن یاہو مصر پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ غزہ کے لوگوں کے صحرائے سینا کی طرف ’عارضی‘ انخلا کو قبول کرے، جبکہ دوسری طرف وہ محصور آبادی کو بھوک سے مرنے اور کچلنے کے لیے سرگرم عمل ہے۔ فلسطینی صرف اتنا چاہتے ہیں کہ دنیا ان کی حالتِ زار کو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھے۔ 
فلسطین کی حمایت اور حماس کی حمایت ایک برابر نہیں ہیں۔ بلاروک ٹوک مغربی پشت پناہی نے اسرائیل کو یہ باور کروایا ہے کہ اسے کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا، جو نہ صرف مقبوضہ علاقوں میں انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے بلکہ اقوام متحدہ کی ان گنت قراردادوں اور عالمی نظام کے بنیادی اصولوں کو بھی زک پہنچا رہا ہے۔ اسرائیل کے ہاتھوں ایک مختصر دورانیے میں غزہ میں اقوام متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی کے 72 عملے کی اموات ایک ریکارڈ ہے، جب کہ الٹا اسرائیل نے اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل پر ’خ��ن کی توہین‘ اور ’دہشت گردی کی کارروائیوں کو جواز فراہم کرنے‘ کا الزام لگایا ہے۔ اسرائیلی سمجھتے تھے کہ وقت ان کے ساتھ ہے۔ ایسا لگتا تھا کہ عرب ریاستیں دلچسپی کھو رہی ہیں، فلسطینی اپنے علاقوں کے ہر سال بڑھتے ہوئے نقصان پر خاموشی اختیار کرنے پر مجبور تھے، اور یہ سوچ تھی کہ جب 1947 اور 1967 کی نسلیں ختم ہو جائیں تو کیا ان کے ساتھ ہی قوم پرستانہ جذبات بھی فنا نہیں ہو جائیں گے؟ اس کے بجائے، نئی فلسطینی نسل اور ان کے عالمی حامی پہلے سے زیادہ پرجوش، پرعزم اور سیاسی طور پر مصروف ہیں۔ اور معقول طور پر، کیونکہ تمام تر مشکلات اور خونریزی کے باوجود ناقابل تسخیر عالمی رجحانات اس بات کی علامت ہیں کہ وقت، انصاف اور آخرِ کار تاریخ ان کے ساتھ ہے۔
اس طرح سوال یہ بنتا ہے کہ کتنی جلد کوتاہ اندیش اسرائیلی امن کے لیے ضروری سمجھوتوں کی وکالت شروع کر دیتے ہیں، کیوں کہ اسرائیل کو لاحق دفاعی خطرات بڑھ رہے ہیں اور ان کی ریاست کی جغرافیائی سیاسی طاقت ختم ہو رہی ہے۔ 
بارعہ علم الدین  
نوٹ: کالم نگار بارعہ عالم الدین مشرق وسطیٰ اور برطانیہ میں ایوارڈ یافتہ صحافی اور براڈکاسٹر ہیں۔ وہ میڈیا سروسز سنڈیکیٹ کی مدیر ہیں۔
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
3 notes · View notes
googlynewstv · 5 days
Text
امریکی صدرنےفلسطین کے2ریاستی حل کی حمایت کردی
امریکی صدرجو بائیڈن نےمسئلہ فلسطین کا حل دو ریاستی حل ہے۔فلسطنیوں کو اپنی ریاست میں رہنے کاحق ملناچاہئے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سےبطورامریکی صدراپنا آخری خطاب کرتےہوئے جو بائیڈن نےکہا کہ کسی بھی ملک کوحق ہے کہ وہ یقینی بنائےکہ اس پردوبارہ حملہ نہ ہو، دنیا7اکتوبر کےہولناک واقعات کو کبھی نظراندازنہیں کرسکتی۔ امریکی صدرجو بائیڈن نےکہا ہےکہ غزہ میں جنگ بندی معاہدےکی فوری ضرورت ہے۔مشرق وسطیٰ میں…
0 notes
apnabannu · 8 months
Text
عراق اور شام کے بعد امریکہ کے یمن میں براہِ راست حملے: مشرق وسطیٰ کے ’خطرناک حالات‘ سے نکلنے کے ممکنہ راستے کیا ہیں؟
http://dlvr.it/T2HlfX
0 notes
pakistantime · 10 months
Text
الجزیرہ کا کامیاب تجربہ
Tumblr media
غزہ کی لڑائی میں ٹی وی چینل الجزیرہ اسرائیل، امریکا اور اس کے اتحادیوں کے لیے نیا چیلنج بن گیا ہے۔ امریکا کے وزیر خارجہ الجزیرہ کی حقائق سے بھرپور رپورٹنگ سے اتنے خوفزدہ ہیں کہ انھوں نے قطر کی حکومت پر زور دیا ہے کہ الجزیرہ خطہ میں انتشار پھیلا رہا ہے۔ اس بناء پر اس کے خلاف کارروائی کی جائے۔ اسرائیل نے غزہ میں الجزیرہ کے بیورو آفس کو تباہ کر دیا ہے۔ غزہ میں الجزیرہ کے بیورو چیف کے گھر پر حملے میں اس کے خاندان کے افراد جاں بحق ہوئے ہیں ۔ الجزیرہ کے قیام کی کہانی خاصی دلچسپ ہے۔ لندن میں بی بی سی کی عالمی سروس کے فیصلہ ساز ادارہ کے افسروں نے مشرق وسطیٰ کو خصوصی کوریج دینے کے لیے یہ فیصلہ کیا کہ سعودی عرب سے بی بی سی کا عربی چینل شروع کیا جائے، یوں اس چینل کے قیام کے لیے بی بی سی میں کام کرنے والے عربی صحافیوں کو منتخب کیا گیا مگر اس وقت سعودی عرب میں ایک شاہانہ نظام تھا۔ جدہ سے شایع ہونے والے اخبارات اور ٹیلی وژن چینل سعودی حکومت کی ہدایات پر عملدرآمد کرنے کے پابند تھے۔ بی بی سی نے اپنی آزادانہ پالیسی کو تبدیل کرنے پر کسی بھی قسم کے سمجھوتے سے انکار کیا، یوں یہ پروجیکٹ ابتدائی مرحلہ میں بند ہو گیا۔
اس زمانہ میں قطر کے امیر کے سعودی عرب سے تعلقات کشیدہ ہو گئے تھے۔ قطر نے ایران سے تعلقات قائم کر لیے تھے اور سرکاری ملکیت میں 1996 میں الجزیرہ کے عرب چینل کا آغاز ہو گیا۔ جب بی بی سی کا عربی چینل کا پروجیکٹ بند ہوا تو 2006 میں حکومت نے الجزیرہ کا انگریزی ایڈیشن شروع کرنے کا فیصلہ کیا، یوں بی بی سی کے پروجیکٹ سے فارغ ہونے والوں کو الجزیرہ کے انگریزی چینل کو منظم کرنے کا موقع ملا اور دوحہ سے اس کی نشریات شروع ہوئیں۔ یوں مشرقِ وسطیٰ کا پہلا آزاد ٹی وی چینل وجود میں آیا۔ الجزیرہ نے یورپ، امریکا اور مشرقِ وسطیٰ کے تمام ممالک بشمول اسرائیل کے دارالحکومت تل ابیب، اسلام آباد نئی دہلی وغیرہ میں اپنے بیورو آفسز قائم کیے۔ الجزیرہ نے افغانستان اور مشرقِ وسطیٰ کے معاملات پر خصوصی توجہ دی۔ پاکستان کے ایبٹ آباد میں مقیم سعودی منحرف اسامہ بن لادن پر امریکی میرین دستوں کے آپریشن، اسامہ کی ہلاکت، کابل شہر پر امریکا اور اتحادیوں کے حملے جیسے اہم موضوعات پر خصوصی توجہ دی گئی۔ القاعدہ کی سرگرمیوں، القاعدہ کے قائدین کی افغانستان اور پاکستان میں گرفتاریوں کے بارے میں سب سے پہلے الجزیرہ کے رپورٹرز نے دنیا کو آگاہ کیا اور افغانستان میں امریکا اور اتحادیوں کی بمباری نے مساجد اور گھروں میں مقیم افراد کو نشانہ بنایا۔
Tumblr media
امریکا اور اتحادی فوج کے تعلقات عامہ کے افسروں نے مرنے والوں کو طالبان دہشت گرد قرار دیا مگر الجزیرہ کی نشریات سے پوری دنیا کو پتہ چلا کہ مرنے والے بے گناہ تھے، یوں امریکی حکومت کو الجزیرہ کی آزادانہ پالیسی پر اعتراضات ہونے لگے۔ الجزیرہ نے اپنے قیام کے بعد سے فلسطینیوں کی جدوجہد کو بہت زیادہ کوریج دی۔ لبنان، اردن، مغربی کنارہ اور غزہ میں حماس اور حزب ﷲ کی کارروائیوں اور اسرائیل میں ان کارروائیوں کے اثرات کے بارے میں الجزیرہ نے معروضی رپورٹنگ کر کے ایسے بہت سے حقائق کو آشکار کیا جن کو مغربی میڈیا Kill کر دیتا تھا، یوں سب سے پہلا اعتراض اسرائیل کو ہوا اور اسرائیل کی حکومت نے تل ابیب میں قائم الجزیرہ کے بیورو کو پہلے ہی بند کر دیا تھا۔ مشرقِ وسطیٰ کے مختلف ممالک میں 2010 میں ایک عوامی جدوجہد شروع ہوئی جس کو Arab Spring کا نام دیا گیا۔ یہ عوامی جدوجہد تیونس سے شروع ہوئی اور مصر اور لیبیا تک پھیل گئی۔ سعودی عرب بھی اس عوامی احتجاج سے محفوظ نہ رہ سکا۔ سعودی عرب میں 2011 میں حکومت مخالف احتجاج ہوئے۔ الجزیرہ نے ان تمام واقعات کو بہت تفصیل سے اپنے ناظرین کے لیے ٹیلی کاسٹ کیا۔ 
جب سعودی عرب کو بھی الجزیرہ کی نشریات پر اعتراض ہو گیا اور سعودی عرب اور قطر کے درمیان دوبارہ مفاہمت کے لیے بات چیت ہوئی تو سعودی حکومت نے قطر کے سامنے جو مطالبات رکھے تھے ان میں سے ایک یہ تھا کہ الجزیرہ پر پابندی عائد کی جائے۔ قطر کی حکومت نے اس مطالبہ کو نہیں مانا البتہ الجزیرہ کی پالیسی میں کچھ تبدیلی کے رجحانات کی عکاسی نظر آنے لگی۔ جب حماس کے جہادیوں نے اسرائیل پر حملہ کیا اور پھر اسرائیل نے غزہ پر اندھا دھند بم باری شروع کر دی تو اسرائیل نے اس بمباری میں خاص طور پر بچوں کو نشانہ بنایا۔ اسرائیلی فوج نے غزہ میں فرائض انجام دینے والے 16 کے قریب صحافیوں کو قتل کیا۔ گزشتہ ہفتے 17 اکتوبر کو اسرائیل کی فوج نے الحئی اسپتال پر براہِ راست حملہ کیا۔ الحئی اسپتال جس کو دار الشفاء بھی کہا جاتا ہے غزہ کا سب سے بڑا اسپتال ہے۔ اسرائیل کے حملے میں 500 کے قریب مریض جاں بحق ہوئے جن میں بڑی تعداد بچوں کی تھی۔ مرنے والوں میں ڈاکٹر اور پیرا میڈیکل عملہ بھی شامل تھا۔
الجزیرہ نے اس اسپتال پر حملے کو تفصیلی طور پر کور کیا اور اس رپورٹنگ میں واضح شواہد سے ثابت کیا گیا کہ اسرائیل کے راکٹ نے الشفاء اسپتال کو تباہ کیا۔ یہ اسرائیل کی غزہ میں سب سے بڑی کارروائی تھی جس سے پوری دنیا میں اس واقعے پر غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ سب سے پہلے اسرائیلی میڈیا نے الزام لگایا تھا کہ یہ راکٹ اسرائیل کا نہیں تھا بلکہ یہ راکٹ حماس کے فدائین نے پھینکا تھا۔ مغربی میڈیا نے اس بیانیہ کو نشر کرنا اور شایع کرنا شروع کیا۔ امریکا کے ��عروف نشریاتی اداروں فوکس اور سی این این وغیرہ نے بھی یہ الزام لگایا کہ اسپتال پر گرنے والا راکٹ اسرائیلی فوج کا نہیں تھا، یہ حماس کا راکٹ تھا۔ امریکا کے صدر جوبائیڈن بھی اسرائیل کے اس پروپیگنڈے کا شکار ہوئے۔ انھوں نے دورہ اسرائیل کے دوران یہ سرٹیفکیٹ جاری کیا کہ الشفاء اسپتال پر حملے میں اسرائیل ملوث نہیں، یوں الجزیرہ کو ایک متعصب چینل قرار دینے کی دوڑ شروع ہو گئی۔ 
اس واقعے کے بارے میں آزادانہ تحقیقات نیو یارک ٹائمز کے سامنے آنے والی تحقیقاتی رپورٹ میں کیا گیا ہے۔ ان کے ماہرین نے تمام شہادتوں کے جائزے کے بعد حملے کے بارے میں وڈیوز کا بغور جائزہ لیا اور ماہرین نے اپنی رپورٹ میں اسرائیل کے اس دعویٰ کو مسترد کر دیا کہ حماس کے راکٹ سے اسپتال میں تباہی ہوئی۔ نیویارک ٹائمز کی رپورٹ میں تحریر کیا گیا ہے کہ جو وڈیوز ٹیلی کاسٹ کی گئی ہے، اس سے ثابت نہیں ہوتا کہ اسپتال پر گرنے والا میزائل حماس یا اسلامی جہادی گروپوں نے پھینکا تھا۔ اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ان وڈیوز کے تجزیے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل کا یہ دعویٰ غلط ہے کہ یہ راکٹ اسرائیل نے نہیں پھینکا۔ برطانیہ کے نشریاتی ادارے، بی بی سی نے جو تحقیقات کی تھیں ان سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے۔ آزادانہ ذرایع سے اس بات کی تصدیق نہیں ہوئی کہ اسرائیل نے الشفاء اسپتال پر حملہ کے بارے میں وڈیوز پیش کی ہیں ان کی تصدیق نہیں ہوتی۔ الجزیرہ مسلسل دباؤ میں ہے۔ مشرقِ وسطیٰ جہاں بیشتر ممالک میں اس وقت بادشاہتیں ہیں، کچھ ممالک میں شخصی آمریتیں اور کچھ میں فوجی حکومتیں ہیں اس ماحول میں الجزیرہ کا ایک کامیاب تجربہ ہے۔ الجزیرہ کے اس آزادانہ کردار کو اگر باقی ممالک بھی اپنا لیں تو اسرائیل اور مغربی پروپیگنڈے کا جواب دیا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر توصیف احمد خان  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
cathare612 · 1 year
Text
0 notes
Text
تارکین وطن ہماری ریڑھ کی ہڈی ہیں!
پاکستان کے تقریباً نوے لاکھ لوگ‘ دنیا کے مختلف ممالک میں رہائش پذیر ہیں۔ اکثریت کے خاندان پاکستان ہی میں ہیں۔ صرف چند فیصد افراد‘ اپنے پورے خاندان کے ساتھ ملک سے باہر منتقل ہو چکے ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں تارکین وطن کی اکثریت ہے۔ اور وہاں‘یہ لوگ دن رات‘ سخت محنت کر کے اپنے گھروالوں کو ڈالر بھیجتے ہیں۔ عرق ریزی اوربچت کی بدولت ‘ ان کے اہل خانہ پاکستان میں آسودہ حال زندگی گزار رہے ہیں۔ یو کے‘ امریکا میں…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
Text
سعودی عرب میں دفاعی نمائش، پاکستانی رائفل کے چرچے
Tumblr media
سعودی عرب میں جاری عالمی دفاعی نمائش میں پاکستان آرڈیننس فیکٹری نے اپنی ڈیزائن کردہ نئی رائفل بی ڈبلیو ٹوئینٹی کو لانچ کیا ہے، جسے دنیا بھر کے اسلحہ ساز نمائندوں نے سراہا۔ سعودی دارالحکومت ریاض میں چھ سے نو مارچ تک جاری رہنے والی اس نمائش میں 40 سے زائد ممالک کی 600 اسلحہ ساز کمپنیاں شرکت کر رہی ہیں۔ ان میں پاکستان سے گوبل انڈسٹریز اینڈ ڈیفنس سلوشن، ہیوی انڈسٹریز ٹیکسلا اور پاکستان آرڈیننس فیکٹریز سمیت 13 کمپنیوں نے اپنے سٹال لگائے۔ نمائش کے مختلف پویلینز میں فضا، زمین، سمندر اور دفاعی نظام سے متعلق مختلف ٹیکنالوجیز اور آلات کی نمائش ہو رہی ہے۔ نمائش میں پاکستانی اسلحہ ساز کمپنیوں کے سٹالز خصوصی توجہ کا مرکز ہیں، جہاں مشرق وسطیٰ، یورپ، امریکہ اور دیگر ممالک کے نمائندوں نے پاکستان کے بنائے گئے دفاعی سازو سامان کی خریداری میں دلچسپی ظاہر کی۔
پاکستان آرڈیننس فیکٹری کے مینیجر سلمان علی خان نے تفصیلات بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’جی تھری رائفل کے مقابلے میں بی ڈبلیو ٹوئینٹی زیادہ اہم ہے۔ اس کی لاگت بھی کم ہے اور انہیں دنیا بھر میں فروخت بھی کیا جاسکتا ہے۔‘ دوسری جانب گلوبل انڈسٹریز اینڈ ڈیفنس سلوشن کے سی ای او اسد کمال کا کہنا تھا کہ ’سعودی عرب کی جانب سے اس عالمی نمائش کا انعقاد خوش آئند ہے، جہاں پاکستانی اسلحہ ساز کمپنیوں کو فروغ ملے گا۔‘ ان کا مزید کہنا تھا: ’سعودی عرب سمیت مشرق وسطیٰ ایک بڑی مارکیٹ ہے، جس میں پاکستانی کمپنیاں پہلے سے ہی معروف ہیں، تاہم اس میں مزید استحکام آئے گا اور دنیا کے دیگر ممالک سے بھی ہمارے رابطے مزید بڑھیں گے۔‘
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
0 notes
urduchronicle · 8 months
Text
سعودی عرب کا نیا کردار، امریکا اور ایران کے درمیان پیغام رسانی
ایرانی ذرائع نے بتایا ہے کہ ریاض اور تہران کی برسوں کی دشمنی کے بعد تعلقات بحال ہونے کے نو ماہ بعد، سعودی عرب نے ایران اور امریکہ کے درمیان ثالث کے طور پر ایک نیا کردار سنبھالا ہے۔ ایک امریکی میڈیا ہاؤس کی رپورٹ کے مطابق ریاض میں اعلیٰ عہدے دار ایران اور امریکا کے درمیان پیغامات پہنچانے اور غزہ پر اسرائیل کی جنگ پر کشیدگی کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ یہ عمل نومبر میں شروع ہوا، جب…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
cryptoking009 · 2 years
Text
رو س ۔ یوکرین جنگ میں ایرانی ڈرون استعمال کئے جانے سعودی کا دعویٰ - Siasat Daily
میونخ : سعودی عرب کے وزیر خارجہ فیصل بن فرحان نے کہا ہے ہمارا ملک ایران کے جن ڈرون طیاروں کی طرف سے ایک طویل عرصے سے متنبہ کرتا چلا آ رہا ہے انہیں روس۔یوکرین جنگ میں استعمال کیا جا رہا ہے۔بن فرحان نے جرمنی میں منعقدہ 59 ویں میونخ سکیورٹی کانفرنس کے دائرہ کار میں مشرق وسطیٰ ممالک کے کردار سے متعلقہ نشست میں شرکت کی اور ایران کے ڈرون طیاروں، جوہری مذاکرات، امریکہ کے ساتھ تعلقات اور شام کی صورتحال…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
emergingpakistan · 8 months
Text
غزہ کے بہادر صحافیوں کی بے لوث رپورٹنگ
Tumblr media
عالمی میڈیا جیسے بی بی سی، سی این این، اسکائے نیوز اور یہاں تک کہ ترقی پسند اخبارات جیسے کہ برطانیہ کے گارجیئن کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ان کی ساکھ خراب ہوتی جا رہی ہے۔ گذشتہ ماہ حماس کے اسرائیل پر حملے کے نتیجے میں تقریباً 400 فوجیوں سمیت 1200 اسرائیلی ہلاک ہوئے تھے۔ اس کے بعد اسرائیل کی جانب سے آنے والے غیر متناسب ردعمل کے حوالے سے ان صحافتی اداروں کی ادارتی پالیسی بہت ناقص پائی گئی۔ حماس کے عسکریت پسند اسرائیل سے 250 کے قریب افراد کو یرغمالی بنا کر اپنے ساتھ غزہ لے گئے کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ انہیں اسرائیلی جیلوں میں قید آٹھ ہزار فلسطینیوں میں سے کچھ کی رہائی کے لیے ان یرغمالیوں کی ضرورت ہے۔ اسرائیلی جیلوں میں قید ان فلسطینیوں جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں، ان میں ایک ہزار سے زائد قیدیوں پر کبھی کوئی الزام عائد نہیں کیا گیا۔ انہیں صرف ’انتظامی احکامات‘ کی بنیاد پر حراست میں لیا گیا بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ انہیں یرغمال بنا کر رکھا گیا ہے۔ غزہ شہر اور غزہ کی پٹی کے دیگر شمالی حصوں پر اسرائیل کی مشتعل اور اندھی کارپٹ بمباری میں 27 ہزار فلسطینی مارے گئے ہیں جن میں سے 60 فیصد سے زیادہ خواتین اور بچے تھے جبکہ امریکی قیادت میں مغربی طاقتوں نے اسرائیل کی جانب سے کیے گئے قتل عام، یہاں تک کہ نسل کشی کی یہ کہہ کر حمایت کی ہے کہ وہ اپنے دفاع کے حق کا استعمال کر رہا ہے۔
افسوسناک طور پر ان صحافتی اداروں میں سے بہت سی تنظیموں نے اپنی حکومتوں کے اس نظریے کی عکاسی کی جس سے یہ تاثر دیا گیا کہ مشرق وسطیٰ کے تنازعہ کی ابتدا سات اکتوبر 2023ء سے ہوئی نہ کہ 1948ء میں نکبہ سے کہ جب فلسطینیوں کو ان کی آبائی سرزمین سے بڑے پیمانے پر بے دخل کیا گیا۔ چونکہ ان کی اپنی حکومتیں قابض اسرائیل کے نقطہ نظر کی تائید کر رہی تھیں، اس لیے میڈیا اداروں نے بھی اسرائیلی پروپیگنڈے کو آگے بڑھایا۔ مثال کے طور پر غزہ میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد کو لے لیجیے، ان اعداد وشمار کو ہمیشہ ’حماس کے زیرِ کنٹرول‘ محکمہ صحت سے منسوب کیا جاتا ہے تاکہ اس حوالے سے شکوک پیدا ہوں۔ جبکہ ایمنسٹی انٹرنیشنل سے لے کر ہیومن رائٹس واچ اور غزہ میں کام کرنے والی چھوٹی تنظیموں تک سب ہی نے کہا کہ حماس کے اعداد وشمار ہمیشہ درست ہوتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جن اعداد وشمار میں تبدیلی تو اسرائیل کی جانب سے کی گئی جس نے حماس کے ہاتھوں مارے جانے والے اسرائیلیوں کی ابتدائی تعداد کو 1400 سے کم کر کے 1200 کر دیا۔ تاہم میڈیا کی جانب سے ابتدائی اور نظر ثانی شدہ اعداد وشمار کو کسی سے منسوب کیے بغیر چلائے گئے اور صرف اس دن کا حوالہ دیا گیا جس دن یہ تبدیلی کی گئی۔
Tumblr media
یہ تبدیلی اس لیے کی گئی کیونکہ اسرائیلیوں کا کہنا تھا کہ حماس نے جن کیبوتز پر حملہ کیا تھا ان میں سے کچھ جلی ہوئی لاشیں ملی تھیں جن کے بارے میں گمان تھا کہ یہ اسرائیلیوں کی تھیں لیکن بعد میں فرانزک ٹیسٹ اور تجزیوں سے یہ واضح ہو گیا کہ یہ لاشیں حماس کے جنگجوؤں کی ہیں۔ اس اعتراف کے باوجود عالمی میڈیا نے معتبر ویب سائٹس پر خبریں شائع کرنے کے لیے بہت کم کام کیا، حتیٰ کہ اسرائیلی ریڈیو پر ایک عینی شاہد کی گواہی کو بھی نظر انداز کیا گیا کہ اسرائیلی ٹینکوں نے ان گھروں کو بھی نشانہ بنایا جہاں حماس نے اسرائیلیوں کو یرغمال بنا رکھا تھا یوں دھماکوں اور اس کے نتیجے میں بھڑک اٹھنے والی آگ میں کئی لوگ ہلاک ہو گئے۔ اسرائیلی اپاچی (گن شپ) ہیلی کاپٹر پائلٹس کے بیانات کے حوالے سے بھی یہی رویہ برتا گیا۔ ان بیانات میں ایک ریزرو لیفٹیننٹ کرنل نے کہا تھا کہ وہ ’ہنیبل ڈائیریکٹوز‘ کی پیروی کر رہے تھے جس کے تحت انہوں نے ہر اس گاڑی پر گولی چلائی جس پر انہیں یرغمالیوں کو لے جانے کا شبہ تھا۔ 
اس بارے میں مزید جاننے کے لیے آپ کو صرف ان میں سے کچھ مثالوں کو گوگل کرنا ہو گا لیکن یقین کیجیے کہ مغرب کے مین اسٹریم ذرائع ابلاغ میں اس کا ذکر بہت کم ہوا ہو گا۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ حماس کے عسکریت پسندوں نے اسرائیلی فوجیوں، عام شہریوں، بزرگ خواتین اور بچوں پر حملہ نہیں کیا، انہیں مارا نہیں یا یرغمال نہیں بنایا، حماس نے ایسا کیا ہے۔ آپ غزہ میں صحافیوں اور ان کے خاندانوں کو اسرائیل کی جانب سے نشانہ بنانے کی کوریج کو بھی دیکھیں۔ نیو یارک ٹائمز کے صحافی ڈیکلن والش نے ایک ٹویٹ میں ہمارے غزہ کے ساتھیوں کو صحافت کے ’ٹائٹن‘ کہا ہے۔ انہوں نے اپنی جانوں کو درپیش خطرے کو نظر انداز کیا اور غزہ میں جاری نسل کشی کی خبریں پہنچائیں۔ آپ نے الجزیرہ کے نامہ نگار کے خاندان کی ہلاکت کے بارے میں سنا یا پڑھا ہی ہو گا۔ لیکن میری طرح آپ کو بھی سوشل میڈیا کے ذریعے اسرائیلی فضائیہ کی جانب سے کم از کم 60 صحافیوں اور ان کے خاندانوں میں سے کچھ کی ٹارگٹ کلنگ کا بھی علم ہو گا۔ یعنی کہ کچھ مغربی میڈیا ہاؤسز نے غزہ میں مارے جانے والے اپنے ہم پیشہ ساتھیوں کو بھی کم تر درجے کے انسان کے طور پر دیکھا۔
بہادر صحافیوں کی بے لوث رپورٹنگ کی وجہ سے اسرائیل کی جانب سے غزہ میں شہری آبادی کو بے دریغ نشانہ بنانے اور خون میں لت پت بچوں کی تصاویر دنیا کے سامنے پہنچ رہی ہیں، نسل کشی کرنے والے انتہائی دائیں بازو کے نیتن یاہو کو حاصل مغربی ممالک کی اندھی حمایت بھی اب آہستہ آہستہ کم ہو رہی ہے۔ سپین اور بیلجیئم کے وزرائے اعظم نے واضح طور پر کہا ہے کہ اب بہت ہو چکا۔ سپین کے پیڈرو سانچیز نے ویلنسیا میں پیدا ہونے والی فلسطینی نژاد سیرت عابد ریگو کو اپنی کابینہ میں شامل کیا۔ سیرت عابد ریگو نے سات اکتوبر کے حملے کے بعد کہا تھا کہ فلسطینیوں کو قبضے کے خلاف اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ پیڈرو سانچیز نے اسرائیل کے ردعمل کو ضرورت سے زیادہ قرار دیا ہے اور فلسطین کو تسلیم کرنے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے دو ریاستی حل پر زور دیا ہے۔ امریکا اور برطانیہ میں رائے عامہ کے جائزوں سے پتا چلتا ہے کہ جن جماعتوں اور امیدواروں نے اسرائیل کو غزہ میں بڑے پیمانے پر قتل عام کرنے کی کھلی چھوٹ دی ہے وہ اپنے ووٹرز کو گنوا رہے ہیں۔ 
گذشتہ صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابلے میں جو بائیڈن کی فتح کا فرق معمولی ہی تھا۔ اسے دیکھتے ہوئے اگر وہ اپنے ’جنگ بندی کے حامی‘ ووٹرز کے خدشات کو دور نہیں کرتے اور اگلے سال اس وقت تک ان ووٹرز کی حمایت واپس حاصل نہیں لیتے تو وہ شدید پریشانی میں پڑ جائیں گے۔ اسرائیل اور اس کے مغربی حامی چاہے وہ حکومت کے اندر ہوں یا باہر، میڈیا پر بہت زیادہ دباؤ ڈالتے ہیں۔ ایسے میں ایک معروضی ادارتی پالیسی چلانے کے بہت ہی ثابت قدم ایڈیٹرز کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس انتہائی مسابقتی دور میں میڈیا کی ساکھ بچانے کے لیے غیر جانبداری انتہائی ضروری ہے۔ سوشل میڈیا اب روایتی میڈیا کی جگہ لے رہا ہے اور اگرچہ ہم میں سے ہر ایک نے اکثر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر موجود منفی مواد کے بارے میں شکایت کی ہے لیکن دنیا بھر میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو ان پلیٹ فارمز کے شکر گزار ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شاید غزہ میں جاری نسل کشی کی پوری ہولناکی ان کے بغیر ابھر کر سامنے نہیں آ سکتی تھی۔ بڑے صحافتی اداروں کی جانب سے اپنے فرائض سے غفلت برتی گئی سوائے چند مواقع کے جہاں باضمیر صحافیوں نے پابندیوں کو توڑ کر حقائق کی رپورٹنگ کی۔ اس کے باوجود یہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز تھے جنہوں نے اس رجحان کو بدلنے میں مدد کی۔ اگر ہم خوش قسمت ہوئے تو ہم روایتی میڈیا کو بھی خود کو بچانے کے لیے اسی راہ پر چلتے ہوئے دیکھیں گے۔
عباس ناصر 
عباس ناصر ڈان اخبار کے سابق ایڈیٹر ہیں۔ ان کا یہ مضمون 26 نومبر 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔ 
بشکریہ ڈان نیوز
0 notes
risingpakistan · 10 months
Text
’مغربی میڈیا غزہ میں اپنے صحافی ساتھیوں کو بھی کم تر سمجھ رہا ہے‘
Tumblr media
عالمی میڈیا جیسے بی بی سی، سی این این، اسکائے نیوز اور یہاں تک کہ ترقی پسند اخبارات جیسے کہ برطانیہ کے گارجیئن کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ان کی ساکھ خراب ہوتی جارہی ہے۔ گزشتہ ماہ حماس کے اسرائیل پر حملے کے نتیجے میں تقریباً 400 فوجیوں سمیت 1200 اسرائیلی ہلاک ہوئے تھے۔ اس کے بعد اسرائیل کی جانب سے آنے والے غیر متناسب ردعمل کے حوالے سے ان صحافتی اداروں کی ادارتی پالیسی بہت ناقص پائی گئی۔ حماس کے عسکریت پسند اسرائیل سے 250 کے قریب افراد کو یرغمالی بنا کر اپنے ساتھ غزہ لے گئے کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ انہیں اسرائیلی جیلوں میں قید 8 ہزار فلسطینیوں میں سے کچھ کی رہائی کے لیے ان یرغمالیوں کی ضرورت ہے۔ اسرائیلی جیلوں میں قید ان فلسطینیوں جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں، ان میں ایک ہزار سے زائد قیدیوں پر کبھی کوئی الزام عائد نہیں کیا گیا۔ انہیں صرف ’انتظامی احکامات‘ کی بنیاد پر حراست میں لیا گیا بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ انہیں یرغمال بنا کر رکھا گیا ہے۔ غزہ شہر اور غزہ کی پٹی کے دیگر شمالی حصوں پر اسرائیل کی مشتعل اور اندھی کارپٹ بمباری میں 14 ہزار فلسطینی مارے گئے ہیں جن میں سے 60 فیصد سے زیادہ خواتین اور بچے تھے جبکہ امریکی قیادت میں مغربی طاقتوں نے اسرائیل کی جانب سے کیے گئے قتل عام، یہاں تک کہ نسل کشی کی یہ کہہ کر حمایت کی ہے کہ وہ اپنے دفاع کے حق کا استعمال کررہا ہے۔
افسوسناک طور پر ان صحافتی اداروں میں سے بہت سی تنظیموں نے اپنی حکومتوں کے اس نظریے کی عکاسی کی جس سے یہ تاثر دیا گیا کہ مشرق وسطیٰ کے تنازع کی ابتدا 7 اکتوبر 2023ء سے ہوئی نہ کہ 1948ء میں نکبہ سے کہ جب فلسطینیوں کو ان کی آبائی سرزمین سے بڑے پیمانے پر بے دخل کیا گیا۔ چونکہ ان کی اپنی حکومتیں قابض اسرائیل کے نقطہ نظر کی تائید کر رہی تھیں، اس لیے میڈیا اداروں نے بھی اسرائیلی پروپیگنڈے کو آگے بڑھایا۔ مثال کے طور پر غزہ میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد کو لے لیجیے، ان اعداد و شمار کو ہمیشہ ’حماس کے زیرِ کنٹرول‘ محکمہ صحت سے منسوب کیا جاتا ہے تاکہ اس حوالے سے شکوک پیدا ہوں۔ جبکہ ایمنسٹی انٹرنیشنل سے لے کر ہیومن رائٹس واچ اور غزہ میں کام کرنے والی چھوٹی تنظیموں تک سب ہی نے کہا کہ حماس کے اعداد و شمار ہمیشہ درست ہوتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جن اعداد و شمار میں تبدیلی تو اسرائیل کی جانب سے کی گئی جس نے حماس کے ہاتھوں مارے جانے والے اسرائیلیوں کی ابتدائی تعداد کو 1400 سے کم کر کے 1200 کر دیا۔ تاہم میڈیا کی جانب سے ابتدائی اور نظر ثانی شدہ اعداد وشمار کو کسی سے منسوب کیے بغیر چلائے گئے اور صرف اس دن کا حوالہ دیا گیا جس دن یہ تبدیلی کی گئی۔
Tumblr media
یہ تبدیلی اس لیے کی گئی کیونکہ اسرائیلیوں کا کہنا تھا کہ حماس نے جن کیبوتز پر حملہ کیا تھا ان میں سے کچھ جلی ہوئی لاشیں ملی تھیں جن کے بارے میں گمان تھا کہ یہ اسرائیلیوں کی تھیں لیکن بعد میں فرانزک ٹیسٹ اور تجزیوں سے یہ واضح ہوگیا کہ یہ لاشیں حماس کے جنگجوؤں کی ہیں۔ اس اعتراف کے باوجود عالمی میڈیا نے معتبر ویب سائٹس پر خبریں شائع کرنے کے لیے بہت کم کام کیا، حتیٰ کہ اسرائیلی ریڈیو پر ایک عینی شاہد کی گواہی کو بھی نظرانداز کیا گیا کہ اسرائیلی ٹینکوں نے ان گھروں کو بھی نشانہ بنایا جہاں حماس نے اسرائیلیوں کو یرغمال بنا رکھا تھا یوں دھماکوں اور اس کے نتیجے میں بھڑک اٹھنے والی آگ میں کئی لوگ ہلاک ہو گئے۔ اسرائیلی اپاچی (گن شپ) ہیلی کاپٹر پائلٹس کے بیانات کے حوالے سے بھی یہی رویہ برتا گیا۔ ان بیانات میں ایک ریزرو لیفٹیننٹ کرنل نے کہا تھا کہ وہ ’ہنیبل ڈائیریکٹوز‘ کی پیروی کررہے تھے جس کے تحت انہوں نے ہر اس گاڑی پر گولی چلائی جس پر انہیں یرغمالیوں کو لے جانے کا شبہ تھا۔ اس بارے میں مزید جاننے کے لیے آپ کو صرف ان میں سے کچھ مثالوں کو گوگل کرنا ہو گا لیکن یقین کیجیے کہ مغرب کے مین اسٹریم ذرائع ابلاغ میں اس کا ذکر بہت کم ہوا ہو گا۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ حماس کے عسکریت پسندوں نے اسرائیلی فوجیوں، عام شہریوں، بزرگ خواتین اور بچوں پر حملہ نہیں کیا، انہیں مارا نہیں یا یرغمال نہیں بنایا، حماس نے ایسا کیا ہے۔
آپ غزہ میں صحافیوں اور ان کے خاندانوں کو اسرائیل کی جانب سے نشانہ بنانے کی کوریج کو بھی دیکھیں۔ نیویارک ٹائمز کے صحافی ڈیکلن والش نے ایک ٹویٹ میں ہمارے غزہ کے ساتھیوں کو صحافت کے ’ٹائٹن‘ کہا ہے۔ انہوں نے اپنی جانوں کو درپیش خطرے کو نظر انداز کیا اور غزہ میں جاری نسل کشی کی خبریں پہنچائیں۔ آپ نے الجزیرہ کے نامہ نگار کے خاندان کی ہلاکت کے بارے میں سنا یا پڑھا ہی ہو گا۔ لیکن میری طرح آپ کو بھی سوشل میڈیا کے ذریعے اسرائیلی فضائیہ کی جانب سے کم از کم 60 صحافیوں اور ان کے خاندانوں میں سے کچھ کی ٹارگٹ کلنگ کا بھی علم ہو گا۔ یعنی کہ کچھ مغربی میڈیا ہاؤسز نے غزہ میں مارے جانے والے اپنے ہم پیشہ ساتھیوں کو بھی کم تر درجے کے انسان کے طور پر دیکھا۔ بہادر صحافیوں کی بے لوث رپورٹنگ کی وجہ سے اسرائیل کی جانب سے غزہ میں شہری آبادی کو بے دریغ نشانہ بنانے اور خون میں لت پت بچوں کی تصاویر دنیا کے سامنے پہنچ رہی ہیں، نسل کشی کرنے والے انتہائی دائیں بازو کے نیتن یاہو کو حاصل مغربی ممالک کی اندھی حمایت بھی اب آہستہ آہستہ کم ہورہی ہے۔
اسپین اور بیلجیئم کے وزرائےاعظم نے واضح طور پر کہا ہے کہ اب بہت ہو چکا۔ اسپین کے پیڈرو سانچیز نے ویلنسیا میں پیدا ہونے والی فلسطینی نژاد سیرت عابد ریگو کو اپنی کابینہ میں شامل کیا۔ سیرت عابد ریگو نے 7 اکتوبر کے حملے کے بعد کہا تھا کہ فلسطینیوں کو قبضے کے خلاف اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ پیڈرو سانچیز نے اسرائیل کے ردعمل کو ضرورت سے زیادہ قرار دیا ہے اور فلسطین کو تسلیم کرنے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے دو ریاستی حل پر زور دیا ہے۔ امریکا اور برطانیہ میں رائے عامہ کے جائزوں سے پتا چلتا ہے کہ جن جماعتوں اور امیدواروں نے اسرائیل کو غزہ میں بڑے پیمانے پر قتل عام کرنے کی کھلی چھوٹ دی ہے وہ اپنے ووٹرز کو گنوا رہے ہیں۔ گزشتہ صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابلے میں جو بائیڈن کی فتح کا فرق معمولی ہی تھا۔ اسے دیکھتے ہوئے اگر وہ اپنے ’جنگ بندی کے حامی‘ ووٹرز کے خدشات کو دور نہیں کرتے اور اگلے سال اس وقت تک ان ووٹرز کی حمایت واپس حاصل نہیں لیتے تو وہ شدید پریشانی میں پڑ جائیں گے۔
اسرائیل اور اس کے مغربی حامی چاہے وہ حکومت کے اندر ہوں یا باہر، میڈیا پر بہت زیادہ دباؤ ڈالتے ہیں۔ ایسے میں ایک معروضی ادارتی پالیسی چلانے کے بہت ہی ثابت قدم ایڈیٹرز کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس انتہائی مسابقتی دور میں میڈیا کی ساکھ بچانے کے لیے غیرجانبداری انتہائی ضروری ہے۔ سوشل میڈیا اب روایتی میڈیا کی جگہ لے رہا ہے اور اگرچہ ہم میں سے ہر ایک نے اکثر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر موجود منفی مواد کے بارے میں شکایت کی ہے لیکن دنیا بھر میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو ان پلیٹ فارمز کے شکر گزار ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شاید غزہ میں جاری نسل کشی کی پوری ہولناکی ان کے بغیر ابھر کر سامنے نہیں آسکتی تھی۔ بڑے صحافتی اداروں کی جانب سے اپنے فرائض سے غفلت برتی گئی سوائے چند مواقع کے جہاں باضمیر صحافیوں نے پابندیوں کو توڑ کر حقائق کی رپورٹنگ کی۔ اس کے باوجود یہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز تھے جنہوں نے اس رجحان کو بدلنے میں مدد کی۔ اگر ہم خوش قسمت ہوئے تو ہم روایتی میڈیا کو بھی خود کو بچانے کے لیے اسی راہ پر چلتے ہوئے دیکھیں گے۔
عباس ناصر   یہ مضمون 26 نومبر 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
بشکریہ ڈان نیوز
2 notes · View notes
googlynewstv · 20 days
Text
 غزہ جنگ میں سکول تباہ،6لاکھ بچے تعلیم سے محروم
غزہ میں ایک سال سے جنگ جاری،سکولوں کا سٹرکچر تباہ ہونے سے 6لاکھ بچے تعلیم سےمحروم ہو گئے۔ تفصیلات کے مطابق مشرق وسطیٰ میں نئے تعلیمی سال کا آغاز ماہ ستمبر میں ہوتا ہے جو اگلے سال جون تک جاری رہتا ہے۔ غزہ کے رہائشی 6 لاکھ سے زائد طالب علم پچھلے ایک سال سے اسکول نہیں جا سکے۔  اسرائیل کے حملوں کے بعد زیادہ تر لوگ اسکولوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوئ۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ اسرائیل کے حملوں میں غزہ…
0 notes
apnabannu · 11 months
Text
اسرائیل غزہ جنگ: مشرق وسطیٰ کے تنازعے میں امریکی سفارت کاری کتنی کامیاب ہو سکتی ہے؟
http://dlvr.it/SyPxy8
0 notes