#دہشتگردی کے چیلنجز
Explore tagged Tumblr posts
Text
پاکستان اور ایران کادہشتگردی کے چیلنجز سے مل کر نمٹنے پر اتفاق
پاکستان اور ایران نےسرحدی امورسمیت دہشت گردی کےچیلنجز سےمل کر نمٹنے پر اتفاق کیاہے۔ ایرانی وزیرخارجہ عباس عراقچی کےساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کرتےہوئے وزیر خارجہ اور نائب وزیراعظم اسحاق ڈارنےکہا کہ ایرانی وزیرخارجہ کو پاکستان میں خوش آمدید کہتے ہیں۔ غزہ میں اسرائیل کی جانب سےعالمی قوانین کی سنگین خلاف ورزیاں کی جا رہی ہیں۔مشرق وسطیٰ میں اسرائیلی جارحیت کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ اسحاق ڈار نےکہا کہ…
0 notes
Text
معیشت، دہشتگردی، سرحدی تناؤ، نئی حکومت کو کیا چیلنجز درپیش ہوں گے؟
پاکستان میں جمعرات کو نئی حکومت کے انتخاب کے لیے قومی انتخابات ہوں گے، ملک کو کئی ایک بحرانوں کا سامنا ہے۔ یہاں کچھ ایسے چیلنجز بیان کئے جا رہے ہیں جو حکومت سنبھالنے والی حکومت کو درپیش ہوں گے: اقتصادی بحالی کا مشکل راستہ پاکستان نے گزشتہ موسم گرما میں انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) سے 3 بلین ڈالر کے بیل آؤٹ کے ذریعے ڈیفالٹ کو ٹال دیا لیکن قرض پروگرام کی مدت مارچ میں ختم ہو رہی ہے، جس کے بعد…
View On WordPress
0 notes
Text
بنوں کی صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں پاکستان کی مدد کو تیار ہیں، امریکا
بنوں کی صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں پاکستان کی مدد کو تیار ہیں، امریکا
دہشتگردی کے خلاف پاکستان کو مدد اور تعاون فراہم کرتے رہیں گے، ترجمان امریکی محکمہ خارجہ:فوٹو:فائل واشنگٹن: امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا ہے کہ بنوں میں انسداد دہشتگردی سینٹر پردہشتگردوں کے حملے کی صورتحال پر نظررکھے ہوئے ہیں۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے میڈیا بریفنگ میں کہا کہ پاکستان امریکا کا پارٹنر ہے اوراسے افغانستان کے اندر اور پاک افغان سرحد پر دہشتگرد گروپوں سمیت متعدد چیلنجز…
View On WordPress
0 notes
Text
انسداد دہشتگردی، پاک روس معاونت کو وسعت دینے پر اتفاق
انسداد دہشتگردی، پاک روس معاونت کو وسعت دینے پر اتفاق
پاکستان اور روس نے عالمی دہشتگردی کیخلاف ایک دوسرے کی کوششوں کو تسلیم کیا ہے اور انٹرنیٹ پر دہشتگردی کے پروپیگنڈے کے پھیلاو کا مقابلہ کرنے اور دہشتگردی کی مالی معاونت کے انسداد پر بات چیت جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا۔ بین الاقوامی دہشت گردی اور سلامتی کو درپیش چیلنجز سے ��مٹنے کے لیے روس پاکستان مشترکہ ورکنگ گروپ کا 9 واں اجلاس ہوا جس کی مشترکہ صدارت روسی فیڈریشن خارجہ امور کے نائب وزیر اولیگ وی…
View On WordPress
0 notes
Text
انسداد دہشتگردی، پاک روس معاونت کو وسعت دینے پر اتفاق - اردو نیوز پیڈیا
انسداد دہشتگردی، پاک روس معاونت کو وسعت دینے پر اتفاق – اردو نیوز پیڈیا
اردو نیوز پیڈیا آن لائین اسلام آباد: پاکستان اور روس نے عالمی دہشتگردی کیخلاف ایک دوسرے کی کوششوں کو تسلیم کیا ہے اور انٹرنیٹ پر دہشتگردی کے پروپیگنڈے کے پھیلاو کا مقابلہ کرنے اور دہشتگردی کی مالی معاونت کے انسداد پر بات چیت جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا۔ بین الاقوامی دہشت گردی اور سلامتی کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے روس پاکستان مشترکہ ورکنگ گروپ کا 9 واں اجلاس ہوا جس کی مشترکہ صدارت روسی…
View On WordPress
0 notes
Text
ایک روز میں 10 لاکھ افراد کی ویکسی نیشن کا ہدف عبور کرلیا، اسد عمر
ایک روز میں 10 لاکھ افراد کی ویکسی نیشن کا ہدف عبور کرلیا، اسد عمر @Asad_Umar #coronavirus #Vaccine #Aajkalpk
اسلام آباد: نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر (این سی او سی) کے سربراہ اسد عمر نے بتایا ہے کہ ملک میں ایک روزمیں 10 لاکھ افراد کی ویکسی نیشن کا ہدف حاصل کرلیا ہے۔ اسلامی ممالک کو دہشتگردی اور اسلامو فوبیا کے حوالہ سے بڑے چیلنجز کا سامنا ہے، صدر مملکت ملک میں اب تک 3 کروڑ 19 لاکھ 29 ہزار 581 ویکسین کی خوراکیں لگائی جا چکی ہیں۔ انہوں نے بتایاکہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں 50 فیصد سے زائد شہریوں…
View On WordPress
0 notes
Text
نئی حکومت کے لیے منتظر کانٹوں کا تاج
انتخابات سے قبل تک کا مرحلہ جن بھی تنازعات میں گھرا رہا، اس کے باوجود ہمارا ملک مسلسل دوسری جمہوری حکومت کی منتقلی حاصل کرنے جا رہا ہے۔ مسائل موجود ہوں گے مگر پھر بھی ووٹ معنی رکھتے ہیں۔ لوگ ان انتخابات میں اپنا فیصلہ دیں گے جنہیں ملکی سیاست کی راہ متعین کرنے کے حوالے سے نہایت اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ نتائج ابھی بھی ناقابلِ پیشگوئی ہیں۔ اگر رائے شماری کے سرویز پر یقین کیا جائے تو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) مقابلے میں آگے نظر آتی ہے مگر یہ آخری وقت میں بھی تبدیل ہو سکتا ہے اور مسلم لیگ (ن) پی ٹی آئی کے قریب بھی آسکتی ہے۔ نتیجہ چاہے جو بھی ہو، ایک بات تو تقریباً یقینی ہے، کوئی بھی جماعت اگلی حکومت بنانے کے لیے یقینی اکثریت حاصل نہیں کر پائے گی۔
اسلام آباد کی جنگ کا فیصلہ صرف انتخابات میں نہیں ہو گا، چنانچہ چھوٹی سیاسی جماعتوں کی بھی سنی جائے گی۔ چنانچہ سب سے زیادہ امکان ہے کہ اچھے یا برے کے لیے ایک بار پھر اتحادی حکومت کا دور ہو گا۔ مگر ایک سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ آیا یہ انتخابات وہ سیاسی استحکام لائیں گے جو کہ وقت کی ضرورت ہے؟ ملک میں شدید سیاسی قطبیت اور مختلف ریاستی اداروں کے درمیان طاقت کے بڑھتے ہوئے عدم توازن کو دیکھتے ہوئے نئی منتخب حکومت کے لیے چیلنجز نہایت شدید ہوں گے۔ گرتی ہوئی معیشت اور کئی بیرونی مسائل نے معاملات کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔
'وزیرِ اعظم' عمران خان کے لیے کون سے چیلنجز منتظر ہیں؟
سب سے اہم بات یہ ہے کہ انتخابات کو قابلِ اعتبار نظر آنا چاہیے اور نتائج کو تمام سیاسی جماعتوں اور ریاستی اداروں کو تسلیم کرنا چاہیے۔ انتخابات سے قبل سیاسی انجینیئرنگ کے بے تحاشہ الزامات نے پہلے ہی بد دلی پیدا کر دی ہے۔ مگر نتائج سے کھیلنے کی کوئی بھی کوشش پورے جمہوری سیاسی نظام پر سوالات کھڑے کر کے مزید سیاسی عدم استحکام پیدا کر سکتی ہے۔ جس حکومت کا جواز ہی مشتبہ ہو، اس کے لیے داخلی و خارجہ چیلنجز سے نمٹنا نہایت مشکل ہو گا۔ جمہوری نظام کی ساکھ بحال کرنے اور منتخب اداروں کو مضبوط کرنے کے لیے بڑی سیاسی قوتوں کے درمیان وسیع تر اتفاقِ رائے کی ضرورت ہو گی۔ اقتدار کی ایک قابلِ اعتبار جمہوری منتقلی قومی مفاہمت کے ایک نئے موقع کے لیے راہ ہموار کر سکتی ہے۔ اب ملک میں سیاسی عدم استحکام کی سب سے بڑی وجہ یعنی ریاستی اداروں کے درمیان تنازعات ختم کرنے کے لیے یقینی طور پر ایک نئے سماجی معاہدے کی ضرورت ہے۔
یہ بات یقینی ہے کہ جمہوری نظام طاقت کے موجودہ عدم توازن کے ہوتے ہوئے باقی نہیں رہ سکتا۔ مگر منتخب اداروں کی بالادستی کا تعلق قانون کی حکمرانی سے بھی ہے۔ امید ہے کہ نو منتخب قانون ساز اور حکومتیں ماضی کی ان غلطیوں سے سیکھیں گے جن کی وجہ سے غیر منتخب اداروں کو مزید جگہ ملی ہے۔ انتقامی سیاست کو انتخابات کے بعد ختم ہونا چاہیے اور اہم قومی معاملات پر وسیع تر اتفاقِ رائے پیدا ہونا چاہیے۔ یہ یقینی ہے کہ سول ملٹری تنازعہ حل کرنے کی ضرورت ہے مگر تمام مسائل کو اسی دوئی کی عینک سے دیکھنا بھی غلط ہے۔ اب یہ بات واضح ہے کہ معیشت نئی حکومت کے لیے سب سے پریشان کن مسئلہ ہو گا۔ بدقسمتی سے انتخابی مہم کے دوران اس سب سے اہم مسئلے پر بیان بازی کے علاوہ زیادہ اہمیت نہیں دی گئی ہے۔ یہ تشویش ناک ہے کہ ملک میں زرِ مبادلہ کے ذخائر گرتے جا رہے ہیں اور رواں کھاتوں کا خسارہ بڑھتا جا رہا ہے، اور یہ لگتا ہے کہ نئی انتظامیہ کے پاس آئی ایم ایف کا بیل آؤٹ حاصل کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہو گا۔
اس کا مطلب اپنی کمر کسنا ہے۔ سابقہ حکومت ان اہم اصلاحات کے نفاذ میں ناکام رہی جن کی پائیدار معاشی ترقی کے لیے ضرورت تھی۔ یہ سچ ہے کہ معاشی شرح نمو نسبتاً بلند رہی، مگر داخلی اور خارجی قرضوں کے بڑھتے ہوئے ��وجھ نے معاشی مسائل کو دوہرا کر دیا ہے۔ گردشی قرضے میں بھی اضافہ ہوا ہے جس سے توانائی کے بحران میں شدت پیدا ہوئی ہے۔ نئی انتظامیہ کو اس سنگین مالیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے چند سخت اصلاحات بھی نافذ کرنی ہوں گی۔ مگر اس کے لیے اسے اپوزیشن جماعتوں اور دیگر ریاستی اداروں کی مدد بھی درکار ہو گی۔ ایک نئے قومی معاشی چارٹر کی ضرورت ہے تاکہ بدتر ہوتے ہوئے معاشی بحران پر قابو پایا جا سکے جو ہماری قومی سلامتی کے لیے بھی خطرہ بنا ہوا ہے۔
دہشت گردی اور مذہبی انتہاپسندی ایک اور سنگین مسئلہ ہے جس پر پارلیمانی اتفاقِ رائے کی ضرورت ہے۔ سچ ہے کہ قبائلی علاقوں میں فوج کے کامیاب آپریشن کی وجہ سے عسکریت پسند تشدد کی سطح میں کمی آئی ہے مگر حالیہ حملوں سے معلوم ہوتا ہے کہ دہشتگردی کا خطرہ ابھی بھی ختم ہونے سے کوسوں دور ہے۔ عسکریت پسند گروہ دولتِ اسلامیہ کی بڑھتی ہوئی سرگرمی سنگین تشویش کا سبب ہونی چاہیئں۔ سیاسی موقع پرستی نے بھی بنیاد پرست عناصر کو مزید مضبوط کیا ہے اور یہ ہم نئے اور زیادہ انتہا پسند گروہوں کے ابھرنے کی صورت میں دیکھ رہے ہیں جنہیں انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی گئی ہے۔ اسی طرح کالعدم تنظیمیں بھی نئے بینروں کے تحت کام کر رہی ہیں جنہیں بظاہر قانون اور نیشنل ایکشن پلان کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جواز فراہم کر دیا گیا ہے۔
چند عسکریت پسند گروہوں کو مرکزی دھارے میں لانے پر بین الاقوامی سطح پر تنقید بھی ہوئی ہے۔ ایک کالعدم گروہ سے تعلق رکھنے والے کم از کم امیدوار اقوامِ متحدہ کی ٹیرر لسٹ پر ہیں۔ یہ مسئلہ پاکستان کے ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں آنے سے مزید سنگین ہو چکا ہے۔ تشویش یہ ہے کہ اگر ایکشن نہ لیا گیا تو پاکستان کو بلیک لسٹ میں ڈالے جانے کا بھی خطرہ ہے۔ اس طرح کی صورتحال پاکستان کی بین الاقوامی تنہائی بڑھا سکتی ہے جس سے ہمارے معاشی مسائل میں اضافہ ہو جائے گا۔ کیا ہم اس کے متحمل ہو سکتے ہیں؟ زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ کچھ سیاسی جماعتوں میں ان انتہاپسند گروہوں کے لیے نرم گوشہ پایا جاتا ہے اور وہ ہمارے کچھ قریب ترین اتحادی ممالک سمیت بین الاقوامی برادری کے خدشات کو نظرانداز کر رہے ہیں۔ یہ وقت ہے کہ ہمارے قانون ساز معاملے کی گہرائی کو پہچانیں۔
خارجی چیلنجز بھی تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے طے پانے والی ایک واضح پالیسی کے طلبگار ہیں۔ تیزی سے بڑھتی ہوئی خطے کی سیاست نے پاکستان کے خارجہ پالیسی مسائل میں جہاں اضافہ کیا ہے، تو وہیں نئے مواقع بھی پیدا کیے ہیں۔ امریکا کے ساتھ بڑھتی ہوئی دوریاں، افغانستان میں جاری جنگ، ہندوستان کے ساتھ تناؤ، اور چین کے ساتھ تعلقات نئی حکومت کے سامنے موجود بڑے خارجہ پالیسی مسائل ہوں گے۔ 11 ستمبر کے بعد ہمارا جو اتحاد قائم ہوا تھا اب وہ اپنی مدت پوری کر چکا ہے۔ ہمیں اپنے مفادات پر واضح مؤقف رکھنا ہو گا مگر امریکا کے ساتھ مکمل قطع تعلق بھی کوئی آپشن نہیں ہے۔ شاید نئی حکومت کے لیے سب سے بڑا خارجہ پالیسی کا چیلنج نئی دہل�� کے ساتھ تعلقات معمول پر لانا اور بیجنگ کے ساتھ کاروبار کا انتظام و انصرام ہو گا۔ پاکستان اس وقت خارجہ پالیسی کے پیچیدہ مسائل میں گھرا ہوا ہے اور ایک بار جب نئی حکومت آئے گی، تو خارجہ تعلقات کو سنبھالنا اس کے سب سے بڑے چیلنجز میں سے ہو گا۔ اس لیے قومی اتفاقِ رائے کی ضرورت ہو گی۔
زاہد حسین
یہ مضمون ڈان اخبار میں 25 جولائی 2018 کو شائع ہوا۔
1 note
·
View note
Text
آج نیوز کا 16 سال کا سفر، سالگرہ مبارک - Pakistan
آج نیوز کا 16 سال کا سفر، سالگرہ مبارک – Pakistan
آج نیوز کو جنم دن مبارک – 23 مارچ 2005 کو صحافت کے افق پرابھرنے والا یہ ستارہ آج خبروں کی دنیا کا مستند نام بن چکا ہے۔ 16برس کے اس سفر میں بے باک صحافت کو درپیش تمام چیلنجز کا سامنا کیا۔ 12 مئی 2007 کا دن ہو یا دہشتگردی کے خلاف جنگ ،بارود کی فضا اور گولیوں گھن گرج بھی، حق کا راستہ نہ روک سکیں۔ زلزلہ ہو یا سیلاب قومی ، بین القوامی مستند اور تیز ترین خبر بہترین تجزیئے سیاست، معیشت، کھیل، اور جدید…
View On WordPress
0 notes
Photo
’’بھارت کسی غلطی میں نہ رہے ،پاکستان ہر وقت مکمل الرٹ ہے‘‘ اسلام آباد (این این آئی)پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک نے بھارت کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ مودی کسی غلط فہمی میں نہ رہے، پاکستان مکمل الرٹ ہے،بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی پورے خطے کا ایس ایچ او بننا چاہتا ہے،بھارتی ایجنسی را اور افغان ایجنسی این ڈی ایس کا پاکستان کے خلاف گٹھ جوڑ ہے،بھارت افغانستان کے ذریعے بلوچستان میں مداخلت اور دہشتگردی کر رہا ہے،بڑھتے ہوئے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے قوم کو ہم آہنگی و اتحاد کی ضرورت ہے۔ ہفتہ کو یہاںپریس کانفرنس کرتے ہوئے رحمن ملک نے
0 notes
Text
رجب طیب اردوان نے مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ میں اُٹھا دیا
ترک صدر رجب طیب اردوان نے مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی جبری پابندیوں اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا معاملہ اقوام متحدہ میں اٹھا دیا۔ نیویارک میں جاری اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ترک صدر رجب طیب اردوان نے کہا کہ یو این کی منظور شدہ قرار دادوں کے باوجود 72 سال سے مسئلہ کشمیر حل نہیں ہو سکا، گزشتہ 50 دنوں سے 80 لاکھ کشمیری محصور ہیں وہ باہر نہیں آسکتے کیوں کہ مقبوضہ وادی میں کرفیو نافذ ہے ۔ رجب طیب اردوان نے کہا کہ جنوبی ایشیا میں امن کے لیے پاکستان اور بھارت کو مسئلہ کشمیر کا حل اعتماد اور برابری کی بنیاد پر ہونے والے مذاکرات سے کرنا چاہیے۔
ترک صدر نے فلسطینی سرزمین پر اسرائیل کے ناجائز قبضے کے ثبوت نقشے کی صورت میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ اپنے قیام سے لے کر اب تک اسرائیل مسلسل فلسطینی زمین پر قبضہ کر رہا ہے، اسرائیلی زمین بڑھتی جارہی ہے اور فلسطین کا رقبہ کم ہوتا جارہا ہے، کیا کوئی اسرائیل کے بارڈرز ہیں؟ اسرائیلی سرحدوں کی تعین کیوں نہیں کیا جارہا؟ رجب طیب اردوان نے ایلان کرد کی تصویر اٹھاتے ہوئے کہا کہ عالمی برادری بھوک، خوراک کی کمی، موسمیاتی تبدیلی اور دہشتگردی سمیت دیگر چیلنجز کے حل کی قابلیت کھوتی جارہی ہے۔
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
Photo
https://is.gd/fhXP6A
مقبوضہ کشمیر کی صورتحال انتہائی ابتر، مسئلے پر مذاکرات ہونے چاہئیں: جرمن وزیرخارجہ
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے جرمن ہم منصب ہائیکو ماس نے اسلام آباد میں ملاقات کی جس کے بعد دونوں نے مشترکہ پریس کانفرنس کی۔
شاہ محمود قریشی نےکہا کہ پاکستان کا مؤقف رہا ہے کہ افغان مسئلے کا حل جنگ نہیں مذاکرات ہیں اور افغانستان میں امن کے لیے مذاکرات میں پاکستان کا اہم کردار ہے، افغان امن مذاکرات میں پیش رفت پرمطمئن ہیں، خطے میں چیلنجز سے نمٹنے کے لیے پاکستان اقدامات کررہا ہے۔
وزیر خارجہ کا کہنا تھا جرمن ہم منصب کو پلوامہ واقعہ کی صورتحال سے آگاہ کیا، جرمن وزیر خارجہ سے مختلف امور پر بات چیت ہوئی، دہشتگردی کے خلاف جنگ علاقائی اور عالمی مسئلہ ہے
0 notes
Photo
20ارب ڈالر ز امداد ہے یا سرمایہ کاری؟ سعودی عرب نے پاکستانیوں کو بڑی خوشخبری سنا دی اسلام آباد (آن لائن) سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے کہا ہے کہ پاکستان کے ساتھ ہونے والے حالیہ ایم او یوز محض آغاز ہیں یہ امداد نہیں سرمایہ کاری ہے ،ہمیں یقین ہے کہ پاکستان میں سرمایہ کاری کے بے شمار مواقع موجود ہیں،پاکستان کے ساتھ سیکیورٹی میں تعاون کر رہے ہیں، دونوں ممالک کے عسکری، ثقافتی اور سماجی تعلقات بہت مضبوط ہیں۔ہم پاکستان، افغانستان اور امریکہ کے ساتھ رابطے میں ہیں تاکہ طالبان اور افغان حکومت میں کوئی معاہد ہو سکے ، چاہتے ہیں پاکستان اور بھارت کے درمیان امن قائم ہو بہترین تعلقات قائم ہوں جبکہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ 10 مشترکہ ورکنگ کروپس قائم کیے گئے ہیں،ر جوائنٹ ورکنگ گروپ کو ہر تین ماہ بعد ملنے کا شیڈول دیا گیا ہے،سعودی عرب پاکستان میں بیس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہاہے ،سعودی عرب کے ساتھ سات ایم او یوز پر دستخط کیے گئے ہیں ، پاکستان نے دوست ملک سے ویزا فیس میں کمی کی درخواست کی تھی جسے سعودی عرب کی جانب سے مان لیا گیا ہے ، تمام معاہدوں کوعملی جامہ پہناناچاہتے ہیں، وزیراعظم نے سعودی عرب سے حاجیوں کیلئے امیگریشن سہولت کی درخواست کی تھی ۔اسلام آباد میں پاکستان اور سعودی وزیرخارجہ کی مشترکہ پریس کانفرنس میں سعودی وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم نے پاکستان کے ساتھ تعلقات کو تمام شعبوں میں آگے لیکر جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہم نے سرمایہ کاری تجارت اور سیاسی مکالمے کو فروغ دینے پر اتفاق کیا ہے۔انہوں نے کہا پاکستانیوں نے سعودی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے اور مستقبل میں مزید مواقع بھی دیے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ مستقبل میں دونوں ملکوں کے عوامی تعلقات کو مزید فروغ ملے گا۔انہوں نے کہا کہ حالیہ ایم او یوز امداد نہیں سرمایہ کاری ہے ہم پاکستان کی ترقی میں موثر کردار ادا کرنا چاہتے ہیں اور ہمیں یقین کے کہ پاکستان میں سرمایا کاری کے بے شمار مواقع موجود ہیں۔عادل الجبیر کا کہنا تھا کہ پاکستان کے ساتھ سیکیورٹی میں تعاون کر رہے ہیں۔ دونوں ممالک کے عسکری، ثقافتی اور سماجی تعلقات بہت مضبوط ہیں۔ایک سوا�� کے جواب میں عادل الجبیر نے کہا کہ ہم پاکستان، افغانستان اور امریکہ کے ساتھ رابطے میں ہیں تاکہ طالبان اور افغان حکومت میں کوئی معاہد ہو سکے اورمعاہدے سے افغانستان اور پاکستان میں امن ہوگا۔ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں امن سے نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے میں امن آئے گا۔پاک بھارت تعلقات پر بات کرتے ہوئے سعودی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں دونوں ہمسایہ ممالک میں کشیدگی کم ہو اور تمام مسائل کو پر امن طریقے سے حل کیا جائے۔عادل الجبیر کا کہنا تھا کہ وزرائے خارجہ کی سطح پر ایسی الزام تراشی نہیں ہونی چاہیے، ہم سب کو دہشتگردوں کے معاملے میں سخت موقف اپنانا ہوگا، ہم دہشت گردی کی تمام اقسام کی مذمت کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ حیران کن ہے کہ ایران خود دہشتگردی برآمد کرتا ہے، ایران یمن، شام اور دیگر ممالک میں دہشتگردی میں ملوث ہے، ایران دہشتگردی پھیلانے کا موجب اور القاعدہ کو پناہ دینے والا ہے۔سعودی وزیر خارجہ نے کہا کہ سعودی عرب، ایران کی دہشتگردی کا نشانہ ہے، ایران کی حکومت پر داخلی سطح پر دبا ہے، ایران کے وزیر خارجہ جو خود دہشتگردی کے پھیلائو کا بڑا ذریعہ ہیں ان کا الزام لگانا حیران کن ہے۔ایران کے پاکستان پر دہشتگردی میں ملوث ہونے کے الزام پر تعجب ہوا۔انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان اور سعودی عرب میں دو طرفہ سطح پر انسداد دہشتگردی، افواج کے مابین تعاون بڑھایا جا رہا ہیاور پاکستان کی اقتصادی ترقی میں سعودی عرب اپنا بھرپور کردار ادا کرے گا۔۔پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہاہے کہ سعودی عرب کے ساتھ 10 مشترکہ ورکنگ کروپس قائم کیے گئے ہیں اور جوائنٹ ورکنگ گروپ کو ہر تین ماہ بعد ملنے کا شیڈول دیا گیا ہے ۔جبکہ وزارتی سطح پر ملاقات کا ہر چھ ماہ بعد کا شیڈول بنایا گیا ہے اور لیڈرشپ کے درمیان سال میں ایک بار ملاقات کا شیڈول طے کیا گیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ سعودی عرب پاکستان میں بیس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہاہے اور سعودی عرب کے ساتھ سات ایم او یوز پر دستخط کیے گئے ہیں ۔ شاہ محمود کا کہناتھا کہ پاکستان نے دوست ملک سے ویزا فیس میں کمی کی درخواست کی تھی جسے سعودی عرب کی جانب سے مان لیا گیا ہے ۔تمام معاہدوں کوعملی جامہ پہناناچاہتے ہیں۔ شاہ محمود قریشی کا کہناتھا کہ وزیراعظم نے سعودی عرب سے حاجیوں کیلئے امیگریشن سہولت کی درخواست کی تھی۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان اور سعودی عرب کو ایک جیسے چیلنجز درپیش ہیں جب کہ پاکستان میں سرمایہ کاری کے وسیع مواقع ہیں اور دونوں ملکوں کی قیادت منصوبوں اور معاہدوں پر عملدرآمد کے لیے پر عزم ہے۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ان کی ایرانی وزیر خارجہ سے بات ہوئی ہے۔ہم ایران میں دہشتگردی کے واقعے کی مذمت کرتے ہیں اور ہم نے اس سے ثبوت بھی مانگے ہیں۔وزیر خارجہ نے واضح کیا کہ پاکستان اپنی سرزمین کو کسی صورت میں کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دے گا کیونکہ دہشتگردی کبھی بھی ہماری پالیسی نہیں رہی۔انہوں نے مزید کہا کہ ہم ایران کے ساتھ پہلے بھی تعاون کرتے رہے ہیں اور ہم اپنے ہمسائے کے ساتھ مستقبل میں بھی تعاون جاری رکھیں گے۔ The post 20ارب ڈالر ز امداد ہے یا سرمایہ کاری؟ سعودی عرب نے پاکستانیوں کو بڑی خوشخبری سنا دی appeared first on Zeropoint. Get More News
0 notes
Text
قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس، سکیورٹی صورتحال پر تبادلہ خیال
New Post has been published on https://khouj.com/pakistan/136782/
قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس، سکیورٹی صورتحال پر تبادلہ خیال
وزیراعظم عمران خان کے زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں تینوں مسلح افواج کے سربراہان شریک ہوئے۔
ذرائع کے مطابق قومی سلامتی کے اجلاس میں وزیر داخلہ، وزیر دفاع اور انٹیلی جنس اداروں کے سربراہان نے بھی شرکت کی۔ اجلاس میں پاک افغان سرحد پر سکیورٹی صورتحال سے متعلق بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔
تفصیلات کے مطابق وزیراعظم عمران خان کے زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ختم ہو گیا ہے۔ اجلاس میں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی، تینوں مسلح افواج کے سربراہان، وزیر دفاع سمیت وفاقی وزرا اور حساس اداروں کے سربراہان بھی شریک ہوئے۔ ذرائع کے مطابق قومی سلامتی اجلاس نے خطے کی بدلتی صورتحال اور عالمی حالات کا جائزہ لیا۔ اجلاس میں بھارتی الیکشن کے بعد کی صورتحال پر بھی غور کیا گیا۔اجلاس میں ایران امریکا کشیدگی کے حوالے سے امور کا جائزہ لیا گیا، ملک کی سلامتی اور دہشتگردی کے خلاف اقدامات پر بھی بات چیت کی گئی جبکہ ملکی معیشت اور دیگر درپیش چیلنجز پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔
0 notes
Text
اسلامی ممالک کو دہشتگردی اور اسلامو فوبیا کے حوالہ سے بڑے چیلنجز کا سامنا ہے، صدر مملکت
اسلامی ممالک کو دہشتگردی اور اسلامو فوبیا کے حوالہ سے بڑے چیلنجز کا سامنا ہے، صدر مملکت @ArifAlvi #Pakistan #government #Aajkalpk
اسلام آباد: صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا ہے کہ اسلامی ممالک کو دہشتگردی اور اسلامو فوبیا کے حوالہ سے بڑے چیلنجز کا سامنا ہے جن پر قریبی تعاون کے ذریعے قابو پایا جا سکتا ہے۔ اسلامو فوبیا کے بارے میں دنیا کے تصورات تبدیل کرنے کیلئے مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ مشترکہ عقیدے اور ثقافت کی وجہ سے پاکستانی عوام کا عرب ممالک کے عوام کے ساتھ قدرتی لگاؤ ہے۔ پاکستان مشرق وسطیٰ کے ممالک…
View On WordPress
0 notes
Text
نیو یارک :-
پاکستان کا اقتصادی استحکام خطے کے امن کا ضامن ہے
ممبر آزاد جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی و سجادہ نشین درگاہ بساہاں شریف پیر علی رضا بخاری نے کہا کہ “پیغام پاکستان”کے فروغ سے پیغام امن کو عام کرنا ہوگا امت مسلمہ صوفیا کی تعلیمات کو اپنا کر زوال سے نکل سکتی ہے ،پاکستان کا اقتصادی استحکام خطے کے امن کا ضامن ہے بھارت مقبوضہ کشمیر کو فوجی چھاؤنی بنانے کے بجائے کشمیریوں کو حق خودارادیت دینے کا وعدہ پورا کرے۔ وہ پیر کے روز طییہ اسلامک سینٹر میں منعقد صوفی امن کانفرنس سے بطور مہمان خصوصی خطاب کررہے تھے کانفرنس کا انعقاد صوفی امن فورم انٹر نیشنل اور بزم نقشبندیہ سیفیہ استانہ پیران بساہاں شریف کی طرف سے کیا گیا امن کانفرنس سے علامہ محمد یونس ، پرویز اشرف چوھدری ، حلیفہ محمد عاشق رضا ، چوھدری سہیل رضا ، ظفیر احمد سیفی ،حاجی محمد صادق قادری و دیگر نے بھی خطاب کیا۔ پیر علی رضا نے کہا کہ صوفیائے کرام کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر ہم ملک میں مذہبی ہم آہنگی بھائی چارہ اور مساوات کو فروغ دے سکتے ہیں۔حکمرانوں اور قوموں کی اصلاح علماء کرتے ہیں اور علماء کی اصلاح صوفی کرتے ہیں۔ صوفی ازم سے دلوں کے بجھے چراغوں کو روشن کیا جاسکتا ہےصوفی ازم سے انسان دوستی، محبت ، امن ، رواداری اور برداشت کا درس ملتا ہے۔ صوفیاء کی تعلیمات پر عمل سے انتہا پسندی اور دہشتگردی کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔صوفی شریعت اور طریقت کا پہرہ دار ہو تا ہے۔ صوفیاء کے آستانے رشد و ہدایت کے مراکز ہیں۔انہوں نے کہا کہ صوفیاء نے امن کا درس دیا۔ صوفیاء کے ماننے والے ایک پلیٹ فارم پر متحد ہو جائیں۔انہوں نے کہا کہ تصوف ہمیں تعلیم دیتا ہے کہ ہم سبھی خدا کی تخلیق اور ایک آدم کی اولاد ہیں اور اگر ہم خدا سے محبت کرتے ہیں تو ہر حال میں اس کی تمام مخلوق سے بھی پیار کرتے ہیں انہوں نے صوفیوں کی خدمات کو سراہتے ہوئے کہا کہ ایسے وقت میں جب پوری دنیا دہشت گردی کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ڈوبی ہوئی ہے صوفی حضرات اور علماو¿ و مشائخ ہی امید کی کرن ہیں- انہوں نے کہا کہ پاکستان کے استحکام کے لئے قوم اور قومی سلامتی کے اداروں نے مل کر قربانیاں دی ہیں ہمارا ملک تمام چیلنجز سے کامیابی سے عہدہ برآ ہو گا۔
“پیغام پاکستان”کے فروغ سے پیغام امن کو عام کرنا ہوگا : پیر علی رضا بخاری نیو یارک :- پاکستان کا اقتصادی استحکام خطے کے امن کا ضامن ہے ممبر آزاد جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی و سجادہ نشین درگاہ بساہاں شریف پیر علی رضا بخاری نے کہا کہ “پیغام پاکستان”کے فروغ سے پیغام امن کو عام کرنا ہوگا امت مسلمہ صوفیا کی تعلیمات کو اپنا کر زوال سے نکل سکتی ہے ،پاکستان کا اقتصادی استحکام خطے کے امن کا ضامن ہے بھارت مقبوضہ کشمیر کو فوجی چھاؤنی بنانے کے بجائے کشمیریوں کو حق خودارادیت دینے کا وعدہ پورا کرے۔ وہ پیر کے روز طییہ اسلامک سینٹر میں منعقد صوفی امن کانفرنس سے بطور مہمان خصوصی خطاب کررہے تھے کانفرنس کا انعقاد صوفی امن فورم انٹر نیشنل اور بزم نقشبندیہ سیفیہ استانہ پیران بساہاں شریف کی طرف سے کیا گیا امن کانفرنس سے علامہ محمد یونس ، پرویز اشرف چوھدری ، حلیفہ محمد عاشق رضا ، چوھدری سہیل رضا ، ظفیر احمد سیفی ،حاجی محمد صادق قادری و دیگر نے بھی خطاب کیا۔ پیر علی رضا نے کہا کہ صوفیائے کرام کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر ہم ملک میں مذہبی ہم آہنگی بھائی چارہ اور مساوات کو فروغ دے سکتے ہیں۔حکمرانوں اور قوموں کی اصلاح علماء کرتے ہیں اور علماء کی اصلاح صوفی کرتے ہیں۔ صوفی ازم سے دلوں کے بجھے چراغوں کو روشن کیا جاسکتا ہےصوفی ازم سے انسان دوستی، محبت ، امن ، رواداری اور برداشت کا درس ملتا ہے۔ صوفیاء کی تعلیمات پر عمل سے انتہا پسندی اور دہشتگردی کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔صوفی شریعت اور طریقت کا پہرہ دار ہو ��ا ہے۔ صوفیاء کے آستانے رشد و ہدایت کے مراکز ہیں۔انہوں نے کہا کہ صوفیاء نے امن کا درس دیا۔ صوفیاء کے ماننے والے ایک پلیٹ فارم پر متحد ہو جائیں۔انہوں نے کہا کہ تصوف ہمیں تعلیم دیتا ہے کہ ہم سبھی خدا کی تخلیق اور ایک آدم کی اولاد ہیں اور اگر ہم خدا سے محبت کرتے ہیں تو ہر حال میں اس کی تمام مخلوق سے بھی پیار کرتے ہیں انہوں نے صوفیوں کی خدمات کو سراہتے ہوئے کہا کہ ایسے وقت میں جب پوری دنیا دہشت گردی کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ڈوبی ہوئی ہے صوفی حضرات اور علماو¿ و مشائخ ہی امید کی کرن ہیں- انہوں نے کہا کہ پاکستان کے استحکام کے لئے قوم اور قومی سلامتی کے اداروں نے مل کر قربانیاں دی ہیں ہمارا ملک تمام چیلنجز سے کامیابی سے عہدہ برآ ہو گا۔
0 notes
Photo
عمران فاروق قتل کیس: پس پردہ کیا کیا ہوا اور اس کہانی کا ایک کردار تمغہ شجاعت کا حقدار کیسے ٹھہرا؟ اعزاز سیدصحافی12 منٹ قبل،’الطاف حسین کا اس قتل میں براہ راست تعلق نہیں بلکہ وہ سازش میں ملوث ہیں، میں اُن کا نام براہ راست قتل میں ملوث ملزم کے طور پر نہیں ڈال سکتا۔‘ایف آئی اے میں تعینات پولیس افسر نے وزیراعظم ہاؤس میں اُس وقت کے وزیر اعظم کے خصوصی معاون بیرسٹر ظفراللہ، ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد چوہدری عبدالرؤف اور آئی ایس آئی کے اسلام آباد میں تعینات سیکٹر کمانڈر کے سامنے جب یہ بات کی تو دسمبر کے سرد موسم میں کمرے میں ہیٹر لگا کر کی گئی مصنوعی حدت اور بھی شد ت اختیار کر گئی۔اُس وقت کے وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان آئی ایس آئی کے افسران سے ملاقاتوں کے بعد اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ عمران فاروق قتل کیس میں متحدہ کے بانی سربراہ الطاف حسین کا ہاتھ ہے۔سارے متفقہ طورپر چاہتے تھے کہ عمران فاروق قتل کیس کی ایف آئی آر میں الطاف حسین کو براہ راست نامزد کیا جائے تاکہ وہ ایسی گرفت میں آئیں کہ نکل نہ سکیں۔اسی مقصد کے لیے قانونی حوالوں سے مشاورتوں کا سلسلہ جاری تھا۔ وزیر اعظم ہاؤس میں اس حوالے سے ایک حتمی مشاورتی اجلاس ہوا جس میں اِس پولیس افسر نے الطاف حسین کا نام ایف آئی آر میں براہ راست لکھنے کی بجائے بالواسطہ لکھنے کا کہہ کر نیا مسئلہ کھڑا کر دیا تھا۔یہ پولیس افسر کوئی اور نہیں بلکہ اس وقت ایف آئی اے میں تعینات ڈائریکٹر مظہرالحق کاکا خیل تھے۔ اس اجلاس میں موجود ایک سینیئر سرکاری افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اُس اہم اجلاس کی تفصیلات بتائی ہیں۔اس بارے میں جب مظہر الحق کاکا خیل سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے اس واقعے کی تفصیل میں جائے بغیر کہا کہ ’آپ اس معاملے پر بہت گہرائی میں چلے گئے ہیں۔ سرکاری طور پر ایسے اجلاس ہوتے رہتے ہیں لیکن سرکاری افسر کے طور پر ان پر تبصرہ کرنا میرے قانونی دائرہ کار میں شامل نہیں۔‘،،تصویر کا کیپشنکراچی میں عمران فاروق کی نماز جنازہ جس میں ایم کیو ایم کے ہزاروں کارکنوں نے شرکت کی تھی (فائل فوٹو)عمران فاروق قتل کیس کی گتھی آخر کیسے سلجھی اور ملزمان کیسے گرفتار ہوئے اس کی تفصیلات ہم آگے چل کر بیان کریں گے، مگر یہاں بتانا ضروری ہے کہ اس کیس کو کامیابی کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچانے پر حکومت پاکستان آج (یعنی 14 اگست کو) مظہر الحق کاکا خیل کو تمغہ شجاعت دے گی۔کاکا خیل ماضی میں شدت پسندوں کے حملوں کا سب سے زیادہ شکار ہونے والے صوبہ خیبر پختونخوا میں سوات جیسے مشکل علاقے میں پولیس فورس کی کمانڈ کرتے رہے ہیں اور خود بھی ایک بم حملے میں زخمی ہوئے تھے۔وہ فیلڈ میں پولیس کو درپیش قانونی پیچیدگیوں اور مشکلات سے آگہی کے ساتھ ساتھ سابق وزیراعلی حیدر خان ہوتی کے سٹاف افسر ک�� حیثیت سے سرکاری نزاکتوں کا تجربہ بھی رکھتا تھے۔ کاکا خیل کو ��یف آئی اے کے شعبہ انسداد دہشتگردی کے نئے سربراہ کے طور پر تعینات کیے جانے کا امکان تھا۔ اس وقت ایک اور سینیئر پولیس افسر انعام غنی اس شعبے کے سربراہ تعینات تھے، جو اب معمول کی ٹرانسفر پر جا رہے تھے۔ وزیرِ داخلہ چوہدری نثارعلی خان کی طرف سے اس اہم عہدے پر کاکا خیل کی تعیناتی کے لیے حتمی فیصلہ کرنا ابھی باقی تھا، مگر کاکا خیل کی طرف سے ایف آئی آر میں براہ راست الطاف حسین کی نامزدگی سے انکار نے ان کی ایف آئی اے میں اس اہم پوسٹ پر تعیناتی کو بھی مشکوک بنا دیا تھا۔کاکا خیل کا خیال تھا کہ اس کیس میں جان ہے وہ اس کیس کو اِسی حالت میں منطقی انجام تک پہنچا دیں گے اور یہ کہ کیس میں کسی طرح کی غلط بیانی کیس خراب کرے گی۔مندرجہ بالا واقعے کے دوسرے روز کاکا خیل کی وزیرِ داخلہ چوہدری نثار سے ملاقات ہوئی۔ چوہدری نثار علی خان کے سامنے افسران کی پیشی اس لیے بھی مشکل ہوتی تھی کہ وہ (چوہدری نثار) اپنی ناک پر مکھی تک نہ بیٹھنے دیتے تھے، بال کی کھال اتارتے اور اگر کوئی افسر لکیر سے ہٹے تو اسے سختی سے ڈانٹ دیتے۔وزیر داخلہ کے سٹاف افسر وقار چوہان نے چوہدری نثار کے سامنے کاکا خیل سے پوچھا کہ آپ الطاف حسین کا نام براہ راست ایف آئی آر میں درج کیوں نہیں کر رہے؟ اس پر کاکا خیل بولے ’جناب ایسا کرنا جھوٹ ہو گا۔ آج میں جھوٹ پر مبنی ایف آئی آر کاٹوں گا تو کل اسے عدالت میں ثابت نہیں کر سکوں گا، کیس خارج ہو جائے گا اور میں اگلی حکومت میں آپ کو بُرا بھلا کہنے پر مجبور ہو جاؤں گا، اس لیے جو سچ ہے وہی لکھا جائے تاکہ ہر دور میں اس پر قائم بھی رہا جا سکے۔‘کمرے میں موجود چوہدری نثار نے پولیس افسر کی بات سنی اور فوری اتفاق کیا اور ساتھ ہی وقار چوہان کو حکم دیا کہ مجھے یہ افسر پسند ہے اور میں انعام غنی کے بعد اسی کو انسداد دہشتگردی ونگ کا سربراہ تعینات کر رہا ہوں، کیونکہ اس میں اتنی جرات ہے کہ وہ چوہدری نثار سے بھی اختلاف کر سکے۔اس بات کے بعد یہ ملاقات ختم ہو گئی۔ اگلے روز پانچ دسمبر کو پنجاب میں لوکل گورنمنٹ انتخابات کی کوریج کے سلسلے میں میں ٹیکسلا میں تھا کہ مجھے ایف آئی اے انسداد دہشتگردی ونگ کے نمبر سے موبائل فون پر بتایا گیا کہ عمران فاروق قتل کیس میں الطاف حسین، محمد انور، افتخار احمد، خالد شمیم، معظم علی، محسن سید اور کاشف کامران کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔،Mohsin Ali Family،تصویر کا کیپشنمحسن علیاگلے چند لمحوں میں یہ خبر پاکستان اور برطانیہ کی شہ سرخیوں کا حصہ بن چکی تھی۔ یوں تو متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما عمران فاروق کا قتل ستمبر 2010 میں لندن میں ہوا تھا مگر اس کیس پر پاکستان میں سنجیدگی سے کارروائی کا آغاز سنہ 2015 کے آغاز میں اُس وقت شروع ہوا تھا کہ جب اس وقت کے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کو برطانوی حکومت کی طرف سے اس قتل کیس میں معاونت کی درخواست کے بارے میں آگاہ کیا گیا۔ اس سے قبل پیپلز پارٹی کی حکومت کے دورمیں اس کیس پر کوئی پیشرفت نہ ہو سکی تھی۔ اس کی ایک بڑی وجہ پیپلزپارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کے درمیان ایک سیاسی اتحاد تھا جو یوں تو ��یپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری اور ایم کیو ایم کے بانی سربراہ الطاف حسین کے درمیان تھا، لیکن عملی طور پر اس اتحاد کی نگرانی اس وقت کے وزیر داخلہ سینیٹر ��حمان ملک کر رہے تھے۔سینیئر تجزیہ کار مظہر عباس کا کہنا ہے کہ ’وزارت داخلہ اور گورنر سندھ کی سطح پر ایک اتفاق تھا کہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان اتحاد قائم رہے کیونکہ اس وقت تک گورنرسندھ ڈاکٹر عشرت العباد لندن اور رحمان ملک کے درمیان ایک اہم رابطہ تھے۔ میرے خیال میں اس وقت پاکستان میں کیس نہ چل پانے کی دو بڑی وجوہات تھیں ایک رحمان ملک اور دوسری ہماری اسٹیبلیشمنٹ جسے برطانوی پولیس پر اعتماد نہیں تھا کہ وہ سنجیدگی سے یہ کیس برطانوی عدالتوں میں چلائے گی۔‘ مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں ابتدا میں تو وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان کی اس وقت کے آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام سے اچھی شناسائی تھی مگر دھرنوں کے باعث حکومت اور آئی ایس آئی چیف میں دوریاں ظہیر الاسلام کی آئی ایس آئی سے فراغت کا باعث بنی اور رضوان اختر آئی ایس ائی کے نئے سربراہ بن گئے۔چوہدری نثار علی خان کی رضوان اختر سے ڈی جی رینجرز کراچی کے دنوں سے اچھی شناسائی تھی۔ وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان اور آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر پنجاب ہاؤس میں اکثر گھنٹوں بیٹھتے اور ملکی سیاسی و داخلی امور سمیت اہم موضوعات پر تبادلہ خیال کرتے۔برطانوی حکومت کی طرف سے اس قتل کیس کی بازگشت اور دو مبینہ قاتلوں محسن علی سید اور کاشف کامران کی پاکستان موجودگی کے بارے میں وزیر داخلہ کو سن گن پہلے ہی تھی۔ ایک روز چوہدری نثار اور آئی ایس آئی کے سربراہ کے درمیان یہ معاملہ بھی زیر بحث آ گیا۔اس وقت وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے سٹاف کے طور پر خدمات سرانجام دینے والے ایک سینیئر سرکاری افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر بتایا کہ ’چوہدری نثار اور جنرل رضوان کے درمیان ہونے والی ملاقاتیں عام طور پر ون آن ون ہی ہوتی تھیں تاہم یہ بات درست ہے کہ پنجاب ہاؤس میں اس کیس پر وزیر داخلہ کو آئی ایس آئی کی طرف سے بریفنگز دی جاتی رہی ہیں۔‘لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر اس کیس کے بارے میں دو حوالوں سے خوب آشنائی رکھتے تھے۔ اول یہ کہ وہ خود مارچ 2012 سے ستمبر 2014 تک کراچی میں ڈی جی رینجرز سندھ کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے چکے تھے اور اسی دورانیے میں انھوں نے ایم کیو ایم پر بڑا کام بھی کیا تھا اور وہ عمران فاروق قتل کیس کے کچھ بنیادی امور سے واقف تھے۔دوئم یہ کہ عمران فاروق کو جن دو افراد یعنی محسن علی سید اور کاشف خان کامران نے مبینہ طور پر قتل کیا تھا وہ پاکستان آمد کے بعد سے آئی ایس آئی کی حراست میں تھے اور رضوان اختر کو اس بات کا علم تھا۔،AFP،تصویر کا کیپشنعمران فاروق کو جن دو افراد یعنی محسن علی سید اور کاشف خان کامران نے مبینہ طور پر قتل کیا تھا وہ پاکستان آمد کے بعد سے آئی ایس آئی کی حراست میں تھے اور رضوان اختر کو اس بات کا علم تھا (فائل فوٹو)وزیرِ داخلہ چوہدری نثار معاملے کو قانون کے مطابق آگے لے جانا چاہتے تھے۔ اول تو وہ ملزمان کو برطانیہ کے حوالے کرنا چاہتے تھے دوسرا یہ کہ اگر برطانیہ ان ملزمان کی حراست نہ لے تو وہ ازخود پاکستان میں ان کے خلاف کیس کرنے پر بھی آمادہ تھے۔ظاہر ہے اس سارے معاملے میں بھی انھیں آئی ایس آئی کی معاونت درکار تھی۔لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر وزیر داخلہ سے متفق تھے۔ مگر اس سارے معاملے میں دو چیلنجز بڑے اہم تھے اول یہ کہ اب تک عمران فاروق کے مبینہ قاتلوں محسن علی سید اورکاشف کامران جبکہ کراچی میں ان کی معاونت کرنے والے ساتھی خالد شمیم کی آئی ایس آئی کے پاس موجودگی کی کوئی قانونی حیثیت نہیں تھی۔دوسرا یہ کہ دو ملزمان میں سے ایک یعنی کاشف کامران حراست کے دوران مبینہ طور پر مارا گیا تھا۔ اس حوالے سے متضاد اطلاعات ہیں تاہم آج تک کاشف کامران کی ہلاکت کی باضابطہ سرکاری سطح پر تصدیق نہیں ہوئی ہے اور اسی لیے کاشف کا نام عمران فاروق قتل کیس کے سزا پانے والے مجرموں کی فہرست میں شامل ہے، تاہم سزا پانے والے دیگر مجرم اپنے خاندان کے افراد کو کاشف کامران کی دوران حراست مبینہ ہلاکت کی خبر ضرور دیتے ہیں۔یہ ملزم جس سول افسر کی نگرانی میں تھے ان کے بارے میں اطلاع ہے کہ مبینہ طور پر وہ بھی آج کل برطانیہ میں سیاسی پناہ حاصل کر کے خاموشی کی زندگی گذار رہے ہیں، تاہم حکام نے اس کی بھی باقاعدہ تردید یا تصدیق نہیں کی ہے۔دراصل دس ستمبر 2010 کو جب دونوں ملزمان محسن علی سید اور کاشف کامران نے عمران فاروق کا لندن میں مبینہ طور پر قتل کیا تو اگلے چھ گھنٹوں کے دوران دونوں برطانیہ سے سیدھے پاکستان آنے کی بجائے سری لنکا جانے کے لیے کولمبو جانے والی پرواز پر محوِ سفر تھے۔،،تصویر کا کیپشنمعظم علی خانکولمبو میں دونوں لڑکوں نے ایک ہفتہ گزارا۔ اس دوران برطانوی پولیس نے موقع پر ملنے والی چھری سے ان کے فنگر پرنٹس لے کر محسن علی کی شناخت کر لی گئی۔ موقع پر چونکہ دو قاتل دیکھے گئے تھے اور یہی دو افراد اکٹھے پاکستان آئے اور اکٹھے واپس جا رہے تھے لہذا پتا چل گیا کہ دوسرا شخص کاشف کامران ہے۔ سارے معاملے کی اطلاع پاکستان کو بھی کر دی گئی تھی۔ ایک ہفتہ بعد جونہی آئی ایس آئی کو ملزمان کے کولمبو سے کراچی آنے کا پتہ چلا تو 18 ستمبر 2010 کو کراچی ایئر پورٹ پر ملزمان کا مسافر طیارہ لینڈ ہونے کے بعد ایک ٹیم طیارے کے اندر گئی اور دونوں کو گرفتار کر کے ایئرپورٹ سے ہی نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا۔شاید انھیں ڈر تھا کہ کراچی میں دونوں ملزمان کو ایم کیوایم کی طرف سے ہلاک کر کے کیس کے اصل سراغ ہی ختم نہ کر دیا جائے۔ محسن علی سید اور کاشف کامران کی گرفتاری کے بعد پانچ جنوری 2011 کو ایک بینک کی اے ٹی ایم استعمال کرتے ہوئے خالد شمیم نامی شخص کو بھی حراست میں لیا گیا تھا۔ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے ملازم خالد شمیم پر الزام تھا کہ انھوں نے عمران فاروق کے قتل کے لیے محسن علی سید اور کاشف کامران کو ٹارگٹ دینے اور ٹارگٹ تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔خالد شمیم ہی وہ شخص تھا جس نے عمران فاروق کے قتل کے بعد کراچی کے ایک نمبر سے دونوں مبینہ قاتلوں سے فون پر بات کی تھی۔ خالد شمیم کی حراست بھی آئی ایس آئی عمل میں لائی مگر اس کی بھی کوئی قانونی حیثیت سرے سے موجود نہیں تھی کیونکہ اس عمل میں بھی پولیس اور ایف آئی اے کو نظر انداز کیا گیا تھا۔مگر اب چوہدری نثار کی مداخلت پر معاملات کو قانونی شکل دی جا رہی تھی۔ قتل کے تین کرداروں میں سے ایک تو مبینہ طور پر ہلاک ہو گیا تھا جبکہ باقی دو بدستور آئی ایس آئی کے پاس تھے، اس مسئلے کے حل کے لیے وزیرِ داخلہ اور ڈی جی آئی ایس آئی میں طے پایا کہ محسن علی سید اور خالد شمیم کو منظر عام پر لایا جائے اور انھیں ایف آئی اے کے سپرد کر دیا جائے تاکہ اس دوران ان کی برطانیہ حوالگی کا عمل باقاعدہ طور پر شروع ہو۔اسی دوران ایک اور شخص یعنی معظم علی کو بھی اس معاملے میں شامل کیا گیا کیونکہ معظم علی کی کمپنی دونوں مبینہ قاتلوں کے برطانیہ جانے میں استعمال کی گئی تھی ۔ اسی لیے معظم کو بھی 11 اپریل 2015 کو کراچی سے حراست میں لے لیا گیا۔ غیرقانونی حراست کو قانونی شکل اس طرح ملی کہ چند روز بعد ایک سرکاری پریس ریلیز جاری کر کے بتایا گیا کہ دونوں ملزمان پاک افغان سرحد سے گرفتار کر لیے گئے ہیں۔ اسی دوران 26 جون 2015 کو ایف آئی اے شعبہ انسداد دہشتگردی ونگ کے سربراہ انعام غنی نے انکوائری درج کر کے تحقیقات کا آغاز کر دیا، جس کی تصدیق اس کیس کے عدالتی دستاویزات سے بھی ہوتی ہے۔اس دوران انعام غنی نے وزارت داخلہ کی منظوری سے برطانوی پولیس کے دو افسران کے ہمراہ ملزمان سے ایک اہم ملاقات کی۔ ملزمان جن میں سب سے اہم محسن سید تھا کو عمران فاروق کی لاش، موقع سے برآمد اینٹ اور چھری دکھائی گئی۔انعام غنی نے محسن سے انگریزی میں پوچھا بتاؤ اس کام پر کوئی شرمندگی تو نہیں؟ جس پر محسن نے انگریزی میں برطانوی پولیس اہلکاروں کے سامنے کہا کہ ’نہیں مجھے کسی قسم کی کوئی شرمندگی نہیں میں نے یہ سب عقیدت میں کیا ہے اور اگر مجھے دوبارہ موقع ملا تو دوبارہ بھی ایسا ہی کروں گا۔ یہ سب کچھ حیران کُن تھا۔‘،POLICE DEPT.،تصویر کا کیپشنمظہرالحق کاکا خیل آج کل موٹروے پولیس میں تعینات ہیںابتدائی طور پر محسن سید، خالد شمیم اور معظم علی کو تحفظ پاکستان ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا، اِس امید پر کہ برطانوی حکومت ان تینوں ملزمان کو حراست میں لینے کے لیے پاکستان سے درخواست کرئے گی۔اس غرض سے برطانوی سکاٹ لینڈ یارڈ پولیس کے افسران نے اسلام آباد کے کم و بیش تین سے زائد دورے بھی کیے۔ برطانوی حکام ایف آئی اے حکام اور ملزمان سے ملاقاتیں کرتےاور واپس چلے جاتےاور واپسی پر جا کر پاکستان سے صرف محسن علی سید کی حوالگی کا مطالبہ کرتے۔ان کا کہنا یہ تھا کہ باقی دوملزمان یعنی خالد شمیم اور معظم علی ’غیر متعلقہ‘ ہیں اور ان کا برطانوی کیس میں کوئی اتنا کردار نہیں لیکن اُدھر وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان اس بات پر ڈٹے رہے کہ اگر برطانیہ نے ملزمان کو لینا ہے تو وہ تینوں ملزمان کو لے۔اس معاملے میں ایک چیلنج یہ بھی تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان ملزمان کی حوالگی کا باقاعدہ کوئی معاہدہ نہیں تھا۔ وزیرداخلہ نے اس بارے میں معاہدہ کرنے کی کوشش بھی کی مگر برطانیہ کی طرف سے پاکستان میں سزائے موت پر اعتراض کیا گیا اور کہا گیا کہ پاکستان سزائے موت کو ختم کرے۔ اس لیے یہ معاملہ بھی آگے نہ بڑھ سکا اور ایک وقت آیا کہ ملزمان کی برطانیہ حوالگی سے متعلق تمام امیدیں دم توڑ گئیں۔دوسری طرف تینوں ملزمان بدستور تحفظ پاکستان ایکٹ کے تحت زیر حراست تھے اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جب تحفظ پاکستان ایکٹ کی مدت بھی پوری ہونے لگی اور برطانیہ سے ان ملزمان کی حوالگی کے حوالے سے کوئی اطلاع بھی نہ آئی۔ چونکہ ایف آئی اے نے تیاری مکمل کر لی تھی لہذا پانچ دسمبر 2015 کو عمران فاروق قتل کیس کی ایف آئی آر کے اندراج کے بعد تینوں ملزمان کو ایف آئی اے کے حوالے کر دیا گیا۔ یوں ایک نئے سلسلے کا آغاز ہو گیا۔تینوں ملزمان کے لیے امید پیدا ہوگئی کہ اب وہ عدالت کے سامنے انصاف کے لیے پیش ہوں گے۔ اس دوران مجسٹریٹ کے سامنے ملزمان کے اعترافی بیانات ریکارڈ ہوئے۔ ایف آئی اے نے عدالت میں پہلے عبوری اور پھر حتمی چالان پیش کیا اور سب سے اہم بات یہ کہ برطانیہ نے باہمی تعاون کے تحت پاکستان کو کچھ ثبوت بھی فراہم کیے اور ایف آئی اے کے ساتھ ایک مبینہ تحریری معاہدہ بھی کر لیا گیا کہ اگر پاکستانی عدالت میں برطانوی حکام کو بلایا گیا تو وہ ضرور حاضر ہوں گے۔برطانوی حکام نے معاہدے کی پاسداری کی اور وہ انسداد دہشتگردی اسلام آباد کی عدالت میں پیش بھی ہوئے۔ برطانیہ کے ساتھ پاکستانی عدالت میں پیش ہونے کا معاہدہ طے کرنے کے بعد ایف آئی اے شعبہ انسداد دہشتگردی ونگ کے سربراہ مظہرالحق کاکا خیل کا تبادلہ بھی ہو گیا۔ جس کے بعد اس شعبے کا نیا سربراہ مقرر کر دیا گیا تاہم کیس عدالت میں معمول کے مطابق آہستہ آہستہ چلتا رہا اور 18 جون کو اس کیس کا فیصلہ آ گیا اورالطاف حسین سمیت تمام افراد ��و سزا سنا دی گئی۔حیران ُکن بات یہ ہے کہ سزا پانے والوں میں کاشف کامران کا نام بھی شامل ہے کیونکہ ایف آئی اے کی طرف سے اس شخص کی مبینہ ہلاکت کے بارے میں کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا لیکن کراچی میں کاشف کامران کے اہلخانہ کو خاموشی سے ان کے بیٹے کی ہلاکت کی اطلاع دے دی گئی ہے، جس پر وہ ابھی تک یقین کرنے کو تیار نہیں۔دوسری طرف اس کیس کو آگے لے جانے والے اصل کردار چوہدری نثار علی خان اس کیس سمیت نجانے کتنے رازوں کو اپنے دل میں سموئے راولپنڈی میں خاموشی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ شاید ایسے کرداروں کے لیے کسی ایوارڈ کی ضرورت بھی نہیں ہوتی! خبرکا ذریعہ : بی بی سی اردو
0 notes