#آسٹریلین وزیراعظم
Explore tagged Tumblr posts
classyfoxdestiny · 4 years ago
Text
افغانستان کا بحران بھارت تین پروازوں میں 400 کے قریب لوگوں کو واپس لاتا ہے۔
افغانستان کا بحران بھارت تین پروازوں میں 400 کے قریب لوگوں کو واپس لاتا ہے۔
بائیڈن انتظامیہ امریکی کمرشل ایئرلائنز سے مطالبہ کر رہی ہے کہ وہ افغان مہاجرین کو ان کے ملک سے فوجی طیاروں کے ذریعے نکالے جانے کے بعد ان کی نقل و حمل میں مدد کے لیے طیارے اور عملہ فراہم کریں۔
ایک ہفتے قبل طالبان کے قبضے کے بعد افغان دارالحکومت میں سکیورٹی کی بگڑتی صورتحال کے درمیان بھارت نے اتوار کے روز افغان فضائیہ کے ایک فوجی ٹرانسپورٹ طیارے میں 107 ہندوستانیوں سمیت 168 افراد کو کابل سے نکالا۔
یہاں تازہ ترین پیش رفت ہیں:
بھارت تین پروازوں میں 400 کے قریب لوگوں کو واپس لاتا ہے۔
کابل سے نکالے گئے لوگ 22 اگست 2021 کو نئی دہلی ، بھارت کے قریب ہنڈن ایئر فورس بیس پہنچے۔ 168 افراد کو لے کر ایک خصوصی فوجی پرواز ، جس میں 107 ہندوستانی شہری اور 61 دیگر شامل تھے ، نئی دہلی کے قریب ہنڈن ایئر فورس بیس پر اترے ، وزارت خارجہ کے ترجمان کے مطابق | فوٹو کریڈٹ: اے پی
بھارت نے 22 اگست کو تقریبا 400 400 افراد کو واپس لایا جن میں اپنے 329 شہری اور دو افغان قانون ساز شامل ہیں ، تین مختلف پروازوں میں اپنے شہریوں کو کابل سے نکالنے کی کوششوں کے ایک حصے کے طور پر اس کے قبضے کے بعد شہر کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے پس منظر میں طالبان
کل 168 افراد جن میں 107 ہندوستانی اور 23 افغان سکھ اور ہندو شامل تھے ، کو کابل سے انڈین ایئر فورس (IAF) کے C-17 ہیوی لفٹ ملٹری ٹرانسپورٹ طیارے میں دہلی کے قریب ہنڈن ایئر بیس پر روانہ کیا گیا۔
امریکہ اور اسپین افغان مہاجرین کے لیے سپین میں فوجی اڈوں کے استعمال پر متفق ہیں۔
سپین کے وزیر اعظم پیڈرو سانچیز 21 اگست 2021 کو اسپین کے شہر میڈرڈ کے ٹورجون ملٹری ایئر بیس پر ایک نیوز کانفرنس کے دوران بول رہے ہیں۔ فوٹو کریڈٹ: اے پی
امریکی صدر جو بائیڈن اور اسپین کے وزیر اعظم پیڈرو سانچیز نے اتفاق کیا کہ جنوبی سپین میں دو فوجی اڈوں کو ان افغانیوں کو حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے جو امریکی حکومت کے لیے کام کر چکے ہیں۔
ہفتہ کی رات 25 منٹ کی ٹیلی فون بات چیت میں ، مسٹر بائیڈن اور مسٹر سانچیز نے اتفاق کیا کہ سیویل کے قریب مورون ڈی لا فرنٹیرا اور کاڈیز کے قریب روٹا کو افغانستان سے آنے والے مہاجرین کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے جب تک کہ ان کے دوسرے ممالک کے سفر کا انتظام نہ ہو جائے۔ –رائٹرز
افغان واپس آنے والوں کو بھارت میں پولیو کے قطرے پلائے جائیں گے۔
مرکزی وزیر صحت منسوخ مانڈاویہ نے اتوار کو کہا کہ بھارت نے جنگجو پولیو وائرس کے خلاف حفاظتی اقدام کے طور پر افغانستان سے واپس آنے والوں کو پولیو کے خلاف مفت ویکسین دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
وزیر نے ایک تصویر بھی شیئر کی جس میں واپس آنے والوں کو دہلی بین الاقوامی ہوائی اڈے پر جابس لیتے دیکھا جا سکتا ہے۔
افغانستان اور پاکستان دنیا کے واحد دو ممالک ہیں جہاں پولیو ابھی تک وبا کا شکار ہے۔
برطانوی فوج: کابل ایئرپورٹ پر افراتفری میں 7 افغان ہلاک
طالبان جنگجو 22 اگست 2021 کو کابل ، افغانستان کے وزیر اکبر خان محلے میں ایک چوکی پر کھڑے ہیں۔ فوٹو کریڈٹ: اے پی
برطانوی فوج کا کہنا ہے کہ کابل کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کے قریب ہجوم میں سات افغان شہری مارے گئے ہیں جب کہ ملک پر طالبان کے قبضے سے فرار ہونے والوں کی افراتفری کے درمیان۔
وزارت دفاع نے 22 اگست کو ایک بیان میں کہا کہ “زمین پر حالات انتہائی مشکل ہیں لیکن ہم ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں کہ صورتحال کو جتنا محفوظ اور محفوظ طریقے سے سنبھالا جا سکے۔” –اے پی
آئی ایس کی دھمکی کابل ایئر پورٹ پر امریکہ کو خالی کرنے پر مجبور کرتی ہے۔
ایک سینئر امریکی عہدیدار نے 21 اگست کو کہا کہ افغانستان میں امریکیوں کے خلاف اسلامک اسٹیٹ کے ممکنہ خطرات امریکی فوج کو مجبور کر رہے ہیں کہ وہ انخلاء کرنے والوں کو کابل کے ہوائی اڈے پر لانے کے نئے طریقے وضع کرے ، لوگوں کو وہاں سے نکالنے کے لیے پہلے سے ہی افراتفری کی کوششوں میں ایک نئی پیچیدگی پیدا کرے۔ طالبان کے ہاتھ میں آنے کے بعد ملک
عہدیدار نے کہا کہ امریکیوں کے چھوٹے گروہوں اور ممکنہ طور پر دوسرے شہریوں کو مخصوص ہدایات دی جائیں گی کہ وہ کیا کریں ، بشمول ٹرانزٹ پوائنٹس کی نقل و حرکت جہاں انہیں فوج جمع کر سکتی ہے۔ عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر فوجی کارروائیوں پر تبادلہ خیال کیا۔
یہ تبدیلیاں اس وقت سامنے آئیں جب امریکی سفارت خانے نے ہفتے کو ایک نئی سیکیورٹی وارننگ جاری کی جس میں شہریوں کو کہا گیا کہ وہ امریکی حکومت کے نمائندے کی انفرادی ہدایات کے بغیر کابل ائیرپورٹ پر سفر نہ کریں۔ عہدیداروں نے آئی ایس کے خطرے کے بارے میں مزید تفصیلات فراہم کرنے سے انکار کردیا لیکن اسے اہم قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ابھی تک تصدیق شدہ حملے نہیں ہوئے ہیں۔ –اے پی
ٹرمپ نے بائیڈن کو افغانستان کی تذلیل کا نشانہ بنایا
سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 21 اگست کو صدر جو بائیڈن کے افغانستان سے امریکی افواج کی واپسی کے انتظام پر مسلسل حملہ کیا ، جسے انہوں نے امریکی تاریخ کی سب سے بڑی خارجہ پالیسی کی تذلیل قرار دیا۔
مسٹر ٹرمپ نے کلمین ، الاباما کے قریب اپنے حامیوں کے ساتھ بھری ایک ریلی میں کہا ، “بائیڈن کا افغانستان سے نکلنا کسی بھی قوم کے لیڈر کی نااہلی کی انتہائی حیران کن نمائش ہے۔” –رائٹرز
آسٹریلیا نے افغانستان سے راتوں رات 300 سے زائد انخلاء کیے: وزیراعظم
وزیر اعظم سکاٹ موریسن نے 22 اگست کو بتایا کہ آسٹریلیا نے ہفتے کی رات افغانستان ، کابل میں چار پروازیں چلائیں ، 300 سے زائد افراد کو نکالا جن میں آسٹریلین ، افغان ویزا ہولڈرز ، نیوزی لینڈ والے ، امریکی اور برطانوی شہری شامل ہیں۔
مسٹر موریسن نے 22 اگست کو آسٹریلوی براڈکاسٹنگ کارپوریشن (اے بی سی) اندرونی پروگرام کو بتایا ، “ہم ان پروازوں کو چلاتے رہیں گے ، اپنے شراکت داروں اور اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔”پی ٹی آئی
امریکہ اور جرمنی نے انخلاء کی افراتفری کے درمیان کابل ہوائی اڈے پر سفر کے خلاف مشورہ دیا۔
امریکہ اور جرمنی نے 21 اگست کو افغانستان میں اپنے شہریوں سے کہا کہ وہ کابل ائیر پورٹ پر سفر سے گریز کریں ، سیکورٹی خطرات کا حوالہ دیتے ہوئے کیونکہ طالبان اسلام پسندوں کے کنٹرول میں آنے کے تقریبا thousands ایک ہفتے بعد ہزاروں مایوس لوگ بھاگنے کی کوشش کر رہے تھے۔ –پی ٹی آئی
کابل میں روسی ایلچی: طالبان معاہدے کی پیشکش کر رہے ہیں
کابل میں روسی سفیر کا کہنا ہے کہ طالبان نے ان کے سفارت خانے سے کہا ہے کہ وہ اپنے معاہدے کی پیشکش کو شمالی افغانستان میں حکومت کے حامی باقی افراد تک پہنچائیں۔
سفیر دمتری زیرنوف نے 21 اگست کو کہا کہ طالبان کی سیاسی قیادت کے ایک سینئر رکن نے روس سے کہا ہے کہ وہ پنجشیر وادی میں جنگجوؤں کو بتائے کہ طالبان وہاں کے حالات کو حل کرنے کے لیے سیاسی معاہدے پر پہنچنے کی امید رکھتے ہیں۔
سفارت کار کا کہنا ہے کہ طالبان کا دعویٰ ہے کہ وہ خطے میں خون خرابہ نہیں چاہتے۔ –پی ٹی آئی
. Source link
0 notes
shiningpakistan · 5 years ago
Text
آگ میں جلتا آسڑیلیا امداد کا منتظر
کینگروز اور کوالا کا دیس گذشتہ پانچ ماہ سے آگ میں جل رہا ہے ۔ پہلے کیلیفورنیا پھر ایمیزون اور اب آسٹریلیا کے جنگلات آگ کے شعلوں کی لپیٹ میں ہیں۔ اکیسیویں صدی میں موسمیاتی تغیرات اپنے عروج پر ہیں۔ اب بھی انسان بیدار نہ ہوا تو ہماری آنے والی نسلوں کا مقدر ایک تباہ حال کرہ ارض ہو گی جہاں زندگی کامیاب اور موت ارزاں ہو گی۔ آسٹریلیا کا زیادہ تر رقبہ جنگلات پر مشتمل ہے، یہاں ہر برس موسم گرما میں جنگلات میں آگ لگنا معمول کی بات سمجھی جاتی ہے، مگر امسال یہ آگ معمول کی نہ تھی ۔ ستمبر 2019 میں لگنے والی آگ پر تاحال قابو نہیں پایا جا سکا، پانچ ماہ میں ملک کےجنگلا ت کا بڑا حصہ جل کر خاکستر ہو گیا ہے۔ میڈیا پر آنے والی جانوروں کی تصاویر اور ویڈیوز دل دہلا دینے والی ہیں۔
آسڑیلیا کی پہچان انسان دوست جانور کوالا (جسے ٹری بیئر بھی کہتے ہیں) اور کینگروزکی آبادی کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ کوالا کی آدھی نسل معدومیت کے خطرے سے دوچار ہے۔ محتاط اندازے کے مطابق اب تک ایک کروڑ 20 لاکھ ایکڑ رقبہ آگ سے جل کر راکھ ہو چکا ہے۔ یہ رواں صدی کا سب سے بڑا سانحہ ہے ، اس سے قبل 2018 میں کیلیفورنیا کے جنگلات میں لگی آگ سے تقریباً 19 لاکھ ایکٹر جنگلات جل گئے تھے۔ آسڑیلیا میں آگ سے ہونے والا نقصان رواں برس اگست میں ایمیزون جنگلات میں لگنے والی آگ سے چھ گنا زیادہ بتایا جارہا ہے۔ 8 جنوری کو سڈنی یونیورسٹی کے چونکا دینے والے اعداد و شمار کے مطابق نیو ساؤتھ ویلز ریاست میں 80 کروڑ جانوروں کی ہلاکت ہو چکی ہے جبکہ ملک بھر میں ایک تخمینے کے مطابق ایک ارب جانوروں، پروندوں اور حشرات کی ہلاکت کا اندیشہ ہے۔
آسڑیلیا کو مجموعی طور پر اب تک 4 ارب 40 کروڑ امریکی ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔ 25 افراد اس آگ کی نذر ہو چکے ہیں ، 1400 سے زائد گھر مکمل تباہ ہو گئے۔ آگ بجھانے والے ہزاروں کارکن دن رات آگ پر قابو پانے کے لیے اپنی زندگی کو داؤ پر لگائے مصروف عمل ہیں ۔ زمین پر زیادہ تر حصوں میں شدید سردی ہے جبکہ آسٹریلیا میں یہ سخ�� گرمی کا موسم ہے ۔ کئی ریاستوں میں درجہ حرارت 47 سینٹی گریڈ تک ریکار�� کیا گیا ہے۔ خطے میں تیز ہوائیں چلنے کی وجہ سے آگ مسلسل پھیلتی جارہی ہے، جس پر فی الفور قابو پانا انسان کے بس سے باہر نظر آتا ہے ۔ آسٹریلیا کے کئی شہروں میں اس وقت سموک کی وجہ سے سانس لینا دشوار ہو رہا ہے۔ آگ لگنے کی بنیادی وجوہات کچھ بھی ہو سکتی ہیں، مگر اس کے پھیلاؤ اور بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔ 
ماحولیاتی تبدیلیوں کو ترقی یافتہ ممالک نے اس سنجیدگی سے نہیں لیا جو ان سے توقعات وابستہ تھیں۔ اس معاملے میں آسٹریلین وزیراعظم اسکارٹ موریسن بات کرنے سے کترا رہے ہیں ، کیونکہ آسٹریلیا ان بڑے ممالک میں شامل ہے جو گیسی اخراجات میں کمی پر تیار نہیں ہیں کیونکہ اس سے ان نام نہاد ترقی یافتہ ممالک کی معیشت پر حرف آتا ہے۔ اقوام متحدہ کی جاری کردہ رپورٹ “Managing Climate Change in Australis” میں ماہرین نے آسٹریلین حکومت کو پہلے ہی سے متنبہ کیا تھا کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں کمی لانے میں حکومت ناکام رہی ہے، جس کی وجہ سے امسال سخت گرمی کی لہر متوقع ہے، مگر حکومت نے اس رپورٹ پر بھی کان نہیں دھرے ۔ موسمیاتی تبدیلیوں پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانات خاصے مضحکہ خیز رہے ہیں، وہ سرے سے ہی موسمیاتی تبدیلیوں کے انکاری ہیں۔ 
بظاہر تو یہ ممالک عالمی ماحولیاتی معاہدے (پیرس ایگریمنٹ ) میں شامل ہیں مگر اس معاہدے پر عمل پیرا نہیں ہیں ۔ 2019 میں بڑے پیمانے پر جنگلات میں آگ لگنے سے واضح ہے کہ بطور انسان ہم ایک خطرناک عہد میں جی رہے ہیں۔ موسمیاتی تغیرات کی وجہ سے نہ صرف مختلف نوع کے جانوروں اور پرندوں کی زندگیوں کو خطرہ ہے بلکہ نسل ِ انسان بھی خطرے سے دوچار ہے ۔ عہدِ جدید میں انسان اربوں ڈالر محض کائنات کا جائزہ لینے کے لیے صرف کر رہا ہے۔ زمین کے سوا، کہیں زندگی کے آثار مل سکیں ، کوئی ایک جرثومہ حیات مل جائے ۔ اس مقصد کے لیے انسان نے ارب ہا ارب ڈالر خرچ کر دیے ہیں مگر کیا ہم زمین پر زندگی کی حفاظت کے لیے اس قدر سنجیدہ ہیں کہ جو حیات ہمارے سامنے جل رہی ہیں اس کی حفاظت کے لیے تمام وسائل بروئے کار لاتے ہوئے اقدامات کر سکیں؟
فہد محمود
بشکریہ روزنامہ جسارت
0 notes
weaajkal · 6 years ago
Photo
Tumblr media
قائدِ اعظم ٹرافی، نیشنل ون ڈے کپ اور نیشنل ٹی ٹوئنٹی کپ میں 6 ٹیمیں مدِ مقابل ہوں گی #Quid-e-Azam #Trophy #Aajkalpk قائدِ اعظم ٹرافی نئے سسٹم کے تحت پاکستان کا فرسٹ کلاس سیزن 15 ستمبر سے 15 اپریل تک کھیلا جائے گا، جس کا آغاز ون ڈے کپ سے ہو گا لاہور: وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر پاکستان کی ڈومیسٹک کرکٹ کے نظام کو تبدیل کرتے ہوئے آسٹریلین کرکٹ کی طرز کا مجوزہ ڈومیسٹک ماڈل تیار کرلیا،نیا ماڈل پاکستان کرکٹ بورڈ کے پیٹرن ان چیف وزیراعظم عمران خان کی ہدات پر بنایا گیا ہے جو ان کے دستخط کے بعد نافذ العمل ہوگا۔ خیال رہے کہ 2 روز قبل چیئرمین پی سی بی نے چیف آپریٹنگ افسر (سی ای او) سبحان احمد اور ڈائریکٹر کرکٹ آپریشنز ہارون رشید سیمت بورڈ کے دیگر حکام کے ہمراہ وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کی تھی۔ ملاقات کے دوران پی سی بی وفد نے وزیراعظم عمران خان کے حکم پر ڈومیسٹک کرکٹ میں اصلاحات سے متعلق ریجنز اور ڈیپارٹمنٹس کا مسودہ تیار کیا تھا۔اس مسودے کے مطابق ڈومیسٹک کرکٹ میں ٹیموں کی تعداد 8 رکھی گئی تھی تاہم عمران خان نے اس مسودے کو مسترد کردیا تھا۔وزیراعظم نے پی سی بی کو ہدایت کی تھی کہ وہ آسٹریلین کرکٹ کے طرز کا فرسٹ کلاس ماڈل تیار کریں جس میں صرف 6 ٹیمیں شامل ہوں۔ نشے کی حالت میں ڈرائیونگ کرتے ہوئے مشہور کھلاڑی گرفتار تاہم ذرائع کے مطابق پی سی بی نے نئے ڈومیسٹک نظام کا مسودہ تیار کرلیا ہے جو وزیراعظم کی منظوری کے بعد نافذالعمل ہوجائے گا۔اس مسودے کے مطابق اب پاکستان کی ریج��ل و ڈومیسٹک ٹیموں کی تعداد 6 ہوگی۔ان میں سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا کی ایک ایک ٹیمیں، پنجاب کی 2 جبکہ اسلام آباد، آزاد جموں و کشمیر، گلگت بلتستان اور پرانے روالپنڈی ریجن پر مشتمل ایک ٹیم تیار کی جائے گی۔ قائدِ اعظم ٹرافی، نیشنل ون ڈے کپ اور نیشنل ٹی ٹوئنٹی کپ میں یہی 6 ٹیمیں مدِ مقابل ہوں گی۔نئے سسٹم کے تحت پاکستان کا فرسٹ کلاس سیزن 15 ستمبر سے 15 اپریل تک کھیلا جائے گا، جس کا آغاز ون ڈے کپ سے ہو گا۔ون ڈے کپ دو راو¿نڈز پر مشتمل ہوگا جس کا آغاز 15 سمتبر جبکہ اختتام 5 اکتوبر کو ہوگا، جہاں ہر ٹیم 10، 10 میچز کھیلے گی۔ اس کے بعد 20 اکتوبر سے 4 روزہ کرکٹ کا آغاز ہوگا اور یہ بھی 2 راو¿نڈز پر مشتمل ہوگا جس کا پہلا مرحلہ 20 اکتوبر سے 20 دسمبر جبکہ دوسرا مرحلہ 23 دسمبر سے 23 جنوری تک کھیلا جائے گا۔پہلے راو¿نڈ میں 6 ٹیمیں مد مقابل ہوں گی جو 10، 10 میچز کھیلیں گی جبکہ دوسرے راونڈ میں بہترین 4 ٹیمیں پہنچیں گی جو تین تین میچز کھیلیں گی۔ پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کی طرز پر نیشنل ٹی ٹوئنٹی کپ کھیلا جائے گا جس کے لیے ٹیموں کی تعداد بھی 6 ہوگی۔نیشنل ٹی ٹوئنٹی کپ یکم فروری سے 25 فروری تک کھیلا جائے گا۔چیئرمین پی سی بی جلد نئے سسٹم کے نفاذ کےلئے وزیراعظم عمران خان سے منظوری لیں گے۔
0 notes
pakberitatv-blog · 6 years ago
Photo
Tumblr media
https://is.gd/6BUa1B
نیوزی لینڈ: حملہ آور کون تھا؟ اور اس کے اسلحہ پر کیا لکھا تھا؟
نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں دو دہشتگرد حملوں میں 49 افراد ہلاک اور 20 سے زیادہ لوگ شدید زخمی ہوئے ہیں۔
اس واقعے کی پاکستان سمیت دنیا بھر کے ممالک،عالمی شخصیات اور آئی سی سی سمیت مختلف تنظیموں نے شدید مذمت کی،خود نیوزی لینڈ کی وزیراعظم نے حملے کو دہشت گردی قرار دیا ہے۔
آسٹریلیا کے وزیر اعظم سکاٹ موریسن نے نیوزی لینڈ کی مسجد پر حملہ کرنے والے شخص برینٹن ٹارنٹ کو دائیں بازو کا ایک دہشت گرد قرار دیا ہے۔
نیوزی لینڈ کے پولیس کمشنر نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ نیوزی لینڈ اور آسٹریلوی پولیس یا سکیورٹی اداروں کے پاس اس شخص کے بارے میں کوئی تفصیلات یااطلاعات نہیں تھیں۔
حملہ آور جس نے سر پر لگائے گئے کیمرے کی مدد سے النور مسجد میں نمازیوں پر حملے کو فیس بک پر لائیو دیکھایا، اپنے آپ کو اٹھائیس سالہ آسٹریلین برینٹن ٹارنٹ بتایا۔ اس فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ کس طرح النور مسجد کے اندر مرد، عورتوں اور بچوں پر اندھادھند فائرنگ کر رہا ہے۔
Christchurch Mosque
حکام کے مطابق برینٹن ٹیرنٹ مسلمان مخالف اور انتہا پسند مسیحی گروہ کا کارندہ ہے جس نے ناروے کے دہشت گرد اینڈرز بریوک سے متاثر ہو کر دہشت گردی کی ہولناک واردات سرانجام دی۔ بریوک نے 2011 میں ناروے میں فائرنگ کرکے 85 افراد کو ہلاک کیا تھا۔
نیوز ی لینڈ کے حملہ آوروں سے برآمد ہونے والے اسلحہ اور بلٹ پروف جیکٹوں کی تصاویر سامنے آئی ہیں جن میں انہوں نے ماضی میں مسلمانوں اور عیسائی ریاستوں کے درمیان ہونے والی جنگوں کے نام لکھے تھے۔ ان میں سے زیادہ تر جنگیں وہ تھیں جن میں مسلمانوں کو شکست ہوئی۔
“Anton Lundin Pettersson”: اینٹون لنڈن پیٹرسن، یہ اس طالبعلم کا نام ہے، جس نے سوئیڈن میں 2 مہاجر طالبعلموں کو قتل کیا تھا۔
Alexandre Bissonnette: الیگزینڈر بیسونیٹ نے 2017 میں کینیڈا میں ایک مسجد پر حملہ کرکے 6 لوگوں کو قتل کیا تھا۔
Skanderberg: سکندربرگ البانیہ کے اس رہنما کا نام ہے، جس نے خلافت عثمانیہ کے خلاف بغاوت شروع کی تھی۔
Antonio Bragadin: یہ وینس کے اس فوجی افسر کا نام ہے، جس نے ایک معاہدے کی خلاف ورزی کی اور ترک مغویوں کو قتل کیا۔
Charles Martel: یہ اس فرنگی فوجی رہنما کا نام ہے، جس نے معرکہ بلاط الشہداء میں مسلمانوں کو شکست دی تھی، اس معرکے میں اسپین میں قائم خلافت بنو امیہ کو فرنگیوں کی افواج کے ہاتھوں شکست ہوئی۔
ویانا 1683: 1683 میں خلاف عثمانیہ نے دوسری مرتبہ ویانا کا محاصرہ کیا تھا۔
نیوزی لینڈ کے حملہ آوروں نے اپنے اسلحے پر اسی طرح کی مزید عبارتیں اور پیغامات بھی تحریر کیے ہیں۔ اس سے یہ ثابت ہوا ہے کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور دنیا میں مسلمانوں پر لگایا گیا دہشت گردی کا لیبل محض ایک دھوکہ ہے۔
حکومتی اعدادوشمار کے مطابق نیوزی لینڈ کی آبادی کا صرف 1.1 فیصد حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ سنہ2013 میں کی گئی مردم شماری کے مطابق نیوزی لینڈ میں 46000 مسلمان رہائش پزیر تھے، جبکہ 2006 میں یہ تعداد 36000 تھی۔ سات سالوں میں 28 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا اور یہ تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ مغرب ان چاروں دہشتگردوں سے کیا سلوک کرتا ہے؟ جہاں عافیہ صدیقی کو محض ایک مبینہ حملے کے الزام میں 86 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی وہیں 50 بے گناہ افراد کا خوب بہانے والوں کو کیا سزا ملتی ہے۔
0 notes
mypakistan · 11 years ago
Text
بات غلط نہیں
مجھے فرنچ نہیں آتی لیکن اخبار کی تصویر اور اس تصویر کے اوپر چھپے اعداد و شمار سمجھنے کے لیے فرنچ جاننا ضروری نہیں تھا‘ یہ 7 مئی 2012ء کا دن تھا‘ فرانس میں صدارتی الیکشن مکمل ہوئے‘ اخبار میں پولنگ کی تصویریں چھپی تھیں اور ساتھ لکھا تھا 17%۔ میں سمجھ گیا الیکشن میں17 فیصد لوگوں نے ووٹ نہیں دیا‘ میں نے یہ اندازہ کیسے لگایا؟ اس اندازے کی وجہ برادرم عقیل نقوی ہیں‘ عقیل صاحب اسلام آباد کے فرانسیسی سفارت خانے میں کام کرتے ہیں۔
پاکستان کے پچھلے سے پچھلے الیکشن کے دوران فرانس کا ایک نوجوان سفارت کار اسلام آباد میں تعینات ہوا‘ یہ ایمبیسی کے پبلک افیئرز ڈیپارٹمنٹ میں کام کرتا تھا‘ یہ کسی پاکستانی صحافی سے ملنا چاہتا تھا‘ عقیل نقوی نے میری اس سے ملاقات کرا دی‘ گفتگو کے دوران نوجوان سفارت کار نے پوچھا ’’ پاکستان میں الیکشن ہو رہے ہیں‘ ملک میں ٹرن آؤٹ کتنا ہوگا‘‘ میں نے جواب دیا ’’پینتیس سے چالیس فیصد‘‘ اس نے افسوس سے سر ہلایا اور کہا ’’ اگر 60 فیصد لوگ ووٹ نہیں دیں گے تو آپ کے ملک میں جمہوریت کیسے مستحکم ہو گی‘‘ نوجوان سفارت کار نے اس کے بعد انکشاف کیا‘ ہمارے ملک میں الیکشن کے بعد اخبارات میں یہ سرخیاں نہیں لگتیں فرانس کے کتنے ووٹروں نے ووٹ دیے بلکہ ہماری سرخیاں ہوتی ہیں‘ ہمارے کتنے ووٹروں نے ووٹ نہیں دیے اور ہماری حکومت ہر الیکشن کے بعد ووٹ نہ دینے والے شہریوں کا تجزیہ کرتی ہے اور ہم پالیسی بناتے ہیں‘ ہم اگلے الیکشن میں ان ووٹروں کوووٹ کاسٹ کرنے پر کیسے مجبور کریں؟‘‘ نوجوان سفارت کار کی یہ بات میرے ذہن میں بیٹھ گئی چنانچہ میں اخبار اٹھاتے ہی سمجھ گیا الیکشن میں 17 فیصد لوگوں نے ووٹ کاسٹ نہیں کیے ہیں۔
دنیا کے تمام ممالک ووٹ‘ ووٹروں اور الیکشن کے بارے میں حساس ہیں‘ کیوں؟ کیونکہ یہ جانتے ہیں‘ عوام جب تک حکومت سازی کے عمل کا حصہ نہیں بنتے ملک میں اس وقت تک اچھی حکومت نہیں آتی اور ملک میں جب تک اچھی حکومت نہ آئے اس وقت تک عوام کے مسائل حل نہیں ہوتے چنانچہ تمام ممالک زیادہ سے زیادہ عوام کو حکومت سازی کے عمل میں شریک کرتے ہیں‘ سوائے ہمارے۔ ہم الیکشن‘ ووٹر اور ووٹ پر اتنی توجہ کیوں نہیں دیتے؟ اس سوال کا جواب بہت واضح ہے‘ ہمارا آمرانہ ذہن جانتا ہے‘ ہمارے ملک میں جب بھی انتخابی اصلاحات ہوں گی اس دن ہماری آمرانہ سوچ‘ آمرانہ جمہوریت اور آمرانہ لیڈر شپ کا بستر گول ہو جائے گا‘ ملک میں اس کے بعد فوج آ سکے گی اور نہ ہی خاندانی سیاسی جماعتیں ’’باریاں‘‘ لگا سکیں گی اور یہ ریاستی اداروں کو ’’وارہ‘‘ کھاتا ہے اور نہ ہی شمشیر ابن شمشیر ابن شمشیر لیڈروں کو چنانچہ ملک میں الیکشن اصلاحات پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ مجھے پچھلے ماہ بھارت جانے کا اتفاق ہوا‘ بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے۔
بھارت کے 81 کروڑ چالیس لاکھ ووٹر ہر پانچ سال بعد اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے ہیں‘ بھارت کا الیکشن سسٹم خاصا متاثر کن ہے‘ ہم اگر ملک میں فرنچ‘ برٹش‘ امریکن یا آسٹریلین الیکشن سسٹم نافذ نہیں کرسکتے تو نہ کریں مگر ہم اپنے ہمسائے سے بے شمار چیزیں سیکھ سکتے ہیں‘ انڈیا کا الیکشن کمیشن خودمختار بھی ہے اور با اختیار بھی۔ یہ الیکشن کے دوران ہر قسم کا حکم جاری کرسکتا ہے اور سرکاری مشینری اس حکم پر عملدرآمد کی پابند ہوتی ہے‘ بھارت میں الیکشن سے قبل نگران حکومت نہیں بنتی‘ پرانی حکومت چلتی رہتی ہے‘ صدر‘ وزیراعظم اور وزراء اعلیٰ اپنے عہدوں پر فائز رہتے ہیں‘ یہ خود مختار الیکشن کمیشن کی وجہ سے الیکشن پر ایک فیصد اثر انداز نہیں ہو پاتے‘ انڈیا میں 28 ریاستیں (صوبے) ہیں‘ وفاقی اسمبلی (لوک سبھا) کے الیکشن مختلف ریاستوں میں مختلف اوقات میں ہوتے ہیں‘ موجودہ الیکشن کا پہلا مرحلہ 7 اپریل کو شروع ہوا تھا اور آخری مرحلہ کل 12مئی کو مکمل ہوا‘الیکشن کمیشن 16 مئی کو نتائج کا اعلان کرے گا۔
81 کروڑ چالیس لاکھ ووٹروں کے انگوٹھوں اور انگلیوں کے نشان الیکشن کمیشن کے ڈیٹا بینک میں موجود ہیں‘ ووٹر پولنگ اسٹیشن پر جاتا ہے‘ مشین پر اپنی انگلی رکھتا ہے اور اس کا ووٹ کھل جاتا ہے‘ اسکرین پر امیدواروں کے نام اور انتخابی نشان بھی آ جاتے ہیں‘ یہ انگلی سے کسی ایک انتخابی نشان کو ٹچ کر دیتا ہے اور اس کا ووٹ کاسٹ ہو جاتا ہے‘ یہ اس کے بعد ملک کے کسی حصے میں دوبارہ ووٹ نہیں ڈال سکتا‘ مشین دوسری بار اس کا ووٹ قبول نہیں کرتی‘ کسی سیاسی جماعت کو نتائج پر اعتراض ہو تو یہ فیس جمع کرا کر پورا ڈیٹا دیکھ سکتی ہے‘ ملک کا ایک ایک ووٹ اس کے سامنے آ جاتا ہے‘ سیاسی جماعتیں اور امیدوار حلقے میں بینر لگا سکتے ہیں‘ پوسٹر لگا سکتے ہیں اور نہ ہی چاکنگ کر سکتے ہیں۔ میں چار شہروں میں گیا‘ مجھے کسی جگہ کوئی بورڈ‘ جھنڈا‘ بینر اور پوسٹر نظر نہیں آیا‘ پتہ کیا‘ معلوم ہوا‘ جو امیدوار یہ غلطی کرتا ہے وہ الیکشن سے پہلے الیکشن سے فارغ ہو جاتا ہے.
امیدوار حلقوں میں جلسے بھی نہیں کر سکتے‘ جلوس بھی نہیں نکال سکتے اور ریلیاں بھی منعقد نہیں کر سکتے‘ یہ سہولت صرف سیاسی جماعتوں کے قائدین کو حاصل ہے‘ یہ مختلف حلقوں میں جاتے ہیں‘ یہ جلسہ کرتے ہیں‘ یہ خطاب کرتے ہیں اور اس حلقے کا امیدوار اس خطاب اور جلسے میں شریک ہوتا ہے‘ یہ صرف اپنے قائد کی موجودگی میں خطاب کرسکتا ہے‘ الیکشن کے دوران تشہیر کا سارا کام ٹیلی ویژن چینلز کے ذریعے ہوتا ہے‘ ملک کی تمام ریاستوں میں مقامی ٹیلی ویژن چینلز ہیں‘ پارٹیاں ان چینلز پر اشتہارات دیتی ہیں‘ قومی سطح کے چینلز پر بھی اشتہارات دیے جاتے ہیں‘ ان اشتہارات پر کوئی قدغن نہیں چنانچہ تمام سیاسی جماعتیں جی بھر کر اس سہولت کا فائدہ اٹھاتی ہیں‘ امیدوار اگر پریس کانفرنس کرنا چاہیں تو یہ صرف سرکٹ ہاؤس میں کر سکتے ہیں‘ امیدوار اپنا منشور بتانے کے لیے حلقے کے صرف ہزار لوگ اکٹھے کر سکتے ہیں‘ اگر تعداد زیادہ ہو جائے تو ان کے خلاف کارروائی شروع ہو سکتی ہے۔
ہم اگر بھارتی الیکشن کمیشن کا مطالعہ کریں تو ہمیں اس میں تین خوبیاں نظر آتی ہیں‘ ایک‘ الیکشن مختلف ریاستوں میں مختلف اوقات میں ہوتے ہیں‘ اس سے الیکشن کمیشن کو نتائج جمع کرنے میں سہولت ہوتی ہے‘ یہ ایک مرحلہ مکمل کرنے کے بعد دوسرے مرحلے کی طرف بڑھتے ہیں‘ یوں عملہ بھی کم درکار ہوتا ہے اور وسائل بھی کم خرچ ہوتے ہیں‘ دو‘ بائیو میٹرک سسٹم کی وجہ سے دھاندلی کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں‘ کم وقت میں زیادہ ووٹ بھگت جاتے ہیں‘ پولنگ اسٹیشنز پر زور آزمائی اور دھونس کے واقعات بھی نہیں ہوتے‘ پولنگ اسٹیشنز پر ووٹوں کی گنتی نہیں ہوتی‘ ووٹ سینٹرل ڈیٹا میں چلے جاتے ہیں اور کمپیوٹر ان کی کاؤنٹنگ کرتا ہے یوں پولنگ اسٹیشنوں پر ہیرا پھیری کا امکان ختم ہو گیا۔
ملک میں غیر حتمی نتائج کا اعلان نہیں ہوتا‘ الیکشن کمیشن ایک ہی مرتبہ اعلان کرتا ہے اور یہ اعلان حتمی ہوتا ہے‘ اس حتمی اعلان سے قبل ہر قسم کا اعلان غیر قانونی ہوتا ہے۔ تین امید وار پوسٹروں‘ بینروں‘ جلوسوں اور جلسوں سے ووٹروں کو متاثر نہیں کرسکتے‘ یہ صرف اور صرف ’’مین ٹو مین‘‘ ریلیشن سے ووٹ مانگ سکتے ہیں‘ یہ الیکشن سے مہینوں اور بعض اوقات برسوں قبل اپنی انتخابی مہم شروع کرتے ہیں‘یہ ایک ایک شخص کے پاس جاتے ہیں یوں یہ اپنے ووٹروں سے واقف ہو جاتے ہیں اور ووٹر ان کی شخصیت سے پوری طرح آگاہ ہو جاتے ہیں چنانچہ امیدوار اور ووٹر کا بانڈ زیادہ مضبوط ہوجاتا ہے‘بھارت میں لوگ صرف امیدوار کو ووٹ نہیں دیتے‘ یہ پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں اور یوں پارٹی اپنے منشور پر عمل درآمد کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔
ہمیں پاکستان میں سنجیدگی کے ساتھ الیکشن اصلاحات کی ضرورت ہے‘ عمران خان کا مطالبہ غلط نہیں‘ ہمارے انتخابی نظام میں حقیقتاً درجنوں سوراخ ہیں اور عوامی مینڈیٹ ہر بار ان سوراخوں سے باہر گر جاتا ہے‘ حکومت کو چاہیے یہ فوری طور پر اعلیٰ سطحی کمیشن بنائے اور یہ کمیشن الیکشن اصلاحات کرے‘ ہمارے نادرا کے پاس جدید ترین نظام اور سافٹ ویئر موجود ہیں‘ حکومت بڑی آسانی سے الیکشن سسٹم کو کمپیوٹرائزڈ کر سکتی ہے‘ الیکشن کمیشن کو آزاد امیدواروں کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے‘ امیدواروں کا کسی نہ کسی جماعت کے ساتھ وابستہ ہونا ضروری قرار دیا جائے کیونکہ آزاد امیدوار کامیاب ہونے کے بعد گھوڑے بن جاتے ہیں اور یہ گھوڑے حکومت بننے سے قبل حکومت کو کرپٹ کر دیتے ہیں۔
انتخابی مہم کو بھارت کی طرح ٹیلی ویژن چینلز تک محدود کیا جائے تاکہ ملک بورڈوں‘ جلوسوں، جلسوں، ریلیوں، چاکنگ اور بینروں کی پلوشن سے پاک رہے‘ الیکشن کا عمل تیس چالیس حصوں میں تقسیم کیا جائے‘ صوبوں اور وفاق کے الیکشن الگ الگ ہونے چاہئیں‘ ووٹ کاسٹ نہ کرنے والوں کے لیے جرمانہ طے کیا جائے اور حکومت بنانے کے لیے کم از کم پچاس فیصد ووٹوں کی حد مقرر کی جائے‘ 2013 ء کے الیکشن میں کل ووٹروں کی تعداد 8 کروڑ 61 لاکھ تھی۔
مسلم لیگ ن نے ایک کروڑ 48 لاکھ ووٹ حاصل کیے‘ یہ کل ووٹوں کا 32 فیصد بنتا ہے‘ ہم 32فیصد کو ہیوی مینڈیٹ کہتے ہیں جب کہ 68 فیصد لوگ میاں نواز شریف کو مسترد کر چکے ہیں‘ آج افغانستان میں بھی صدر کے لیے پچاس فیصد ووٹ ضروری ہوتے ہیں مگر ہم 32 فیصد ووٹ لینے والوں کو ہیوی مینڈیٹ دے کر حکومت بنانے کا اختیار دے دیتے ہیں‘ کیا یہ غلط نہیں؟ ہمیں الیکشن کمیشن پر فوری طور پر توجہ دینا ہوگی ورنہ دوسری صورت میں ہمارے ہر الیکشن کے بعد دھاندلی کا الزام بھی لگے گا اور ہماری ہر حکومت کو دھرنوں‘ ریلیوں اور جلوسوں کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔
میاں صاحب اگر ٹھنڈے دل سے غور کریں تو انھیں محسوس ہو گا عمران خان غلط نہیں کہہ رہے! یہ بات‘ یہ مطالبہ غلط نہیں۔
جاوید چوہدری
0 notes
risingpakistan · 11 years ago
Text
بات غلط نہیں
مجھے فرنچ نہیں آتی لیکن اخبار کی تصویر اور اس تصویر کے اوپر چھپے اعداد و شمار سمجھنے کے لیے فرنچ جاننا ضروری نہیں تھا‘ یہ 7 مئی 2012ء کا دن تھا‘ فرانس میں صدارتی الیکشن مکمل ہوئے‘ اخبار میں پولنگ کی تصویریں چھپی تھیں اور ساتھ لکھا تھا 17%۔ میں سمجھ گیا الیکشن میں17 فیصد لوگوں نے ووٹ نہیں دیا‘ میں نے یہ اندازہ کیسے لگایا؟ اس اندازے کی وجہ برادرم عقیل نقوی ہیں‘ عقیل صاحب اسلام آباد کے فرانسیسی سفارت خانے میں کام کرتے ہیں۔
پاکستان کے پچھلے سے پچھلے الیکشن کے دوران فرانس کا ایک نوجوان سفارت کار اسلام آباد میں تعینات ہوا‘ یہ ایمبیسی کے پبلک افیئرز ڈیپارٹمنٹ میں کام کرتا تھا‘ یہ کسی پاکستانی صحافی سے ملنا چاہتا تھا‘ عقیل نقوی نے میری اس سے ملاقات کرا دی‘ گفتگو کے دوران نوجوان سفارت کار نے پوچھا ’’ پاکستان میں الیکشن ہو رہے ہیں‘ ملک میں ٹرن آؤٹ کتنا ہوگا‘‘ میں نے جواب دیا ’’پینتیس سے چالیس فیصد‘‘ اس نے افسوس سے سر ہلایا اور کہا ’’ اگر 60 فیصد لوگ ووٹ نہیں دیں گے تو آپ کے ملک میں جمہوریت کیسے مستحکم ہو گی‘‘ نوجوان سفارت کار نے اس کے بعد انکشاف کیا‘ ہمارے ملک میں الیکشن کے بعد اخبارات میں یہ سرخیاں نہیں لگتیں فرانس کے کتنے ووٹروں نے ووٹ دیے بلکہ ہماری سرخیاں ہوتی ہیں‘ ہمارے کتنے ووٹروں نے ووٹ نہیں دیے اور ہماری حکومت ہر الیکشن کے بعد ووٹ نہ دینے والے شہریوں کا تجزیہ کرتی ہے اور ہم پالیسی بناتے ہیں‘ ہم اگلے الیکشن میں ان ووٹروں کوووٹ کاسٹ کرنے پر کیسے مجبور کریں؟‘‘ نوجوان سفارت کار کی یہ بات میرے ذہن میں بیٹھ گئی چنانچہ میں اخبار اٹھاتے ہی سمجھ گیا الیکشن میں 17 فیصد لوگوں نے ووٹ کاسٹ نہیں کیے ہیں۔
دنیا کے تمام ممالک ووٹ‘ ووٹروں اور الیکشن کے بارے میں حساس ہیں‘ کیوں؟ کیونکہ یہ جانتے ہیں‘ عوام جب تک حکومت سازی کے عمل کا حصہ نہیں بنتے ملک میں اس وقت تک اچھی حکومت نہیں آتی اور ملک میں جب تک اچھی حکومت نہ آئے اس وقت تک عوام کے مسائل حل نہیں ہوتے چنانچہ تمام ممالک زیادہ سے زیادہ عوام کو حکومت سازی کے عمل میں شریک کرتے ہیں‘ سوائے ہمارے۔ ہم الیکشن‘ ووٹر اور ووٹ پر اتنی توجہ کیوں نہیں دیتے؟ اس سوال کا جواب بہت واضح ہے‘ ہمارا آمرانہ ذہن جانتا ہے‘ ہمارے ملک میں جب بھی انتخابی اصلاحات ہوں گی اس دن ہماری آمرانہ سوچ‘ آمرانہ جمہوریت اور آمرانہ لیڈر شپ کا بستر گول ہو جائے گا‘ ملک میں اس کے بعد فوج آ سکے گی اور نہ ہی خاندانی سیاسی جماعتیں ’’باریاں‘‘ لگا سکیں گی اور یہ ریاستی اداروں کو ’’وارہ‘‘ کھاتا ہے اور نہ ہی شمشیر ابن شمشیر ابن شمشیر لیڈروں کو چنانچہ ملک میں الیکشن اصلاحات پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ مجھے پچھلے ماہ بھارت جانے کا اتفاق ہوا‘ بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے۔
بھارت کے 81 کروڑ چالیس لاکھ ووٹر ہر پانچ سال بعد اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے ہیں‘ بھارت کا الیکشن سسٹم خاصا متاثر کن ہے‘ ہم اگر ملک میں فرنچ‘ برٹش‘ امریکن یا آسٹریلین الیکشن سسٹم نافذ نہیں کرسکتے تو نہ کریں مگر ہم اپنے ہمسائے سے بے شمار چیزیں سیکھ سکتے ہیں‘ انڈیا کا الیکشن کمیشن خودمختار بھی ہے اور با اختیار بھی۔ یہ الیکشن کے دوران ہر قسم کا حکم جاری کرسکتا ہے اور سرکاری مشینری اس حکم پر عملدرآمد کی پابند ہوتی ہے‘ بھارت میں الیکشن سے قبل نگران حکومت نہیں بنتی‘ پرانی حکومت چلتی رہتی ہے‘ صدر‘ وزیراعظم اور وزراء اعلیٰ اپنے عہدوں پر فائز رہتے ہیں‘ یہ خود مختار الیکشن کمیشن کی وجہ سے الیکشن پر ایک فیصد اثر انداز نہیں ہو پاتے‘ انڈیا میں 28 ریاستیں (صوبے) ہیں‘ وفاقی اسمبلی (لوک سبھا) کے الیکشن مختلف ریاستوں میں مختلف اوقات میں ہوتے ہیں‘ موجودہ الیکشن کا پہلا مرحلہ 7 اپریل کو شروع ہوا تھا اور آخری مرحلہ کل 12مئی کو مکمل ہوا‘الیکشن کمیشن 16 مئی کو نتائج کا اعلان کرے گا۔
81 کروڑ چالیس لاکھ ووٹروں کے انگوٹھوں اور انگلیوں کے نشان الیکشن کمیشن کے ڈیٹا بینک میں موجود ہیں‘ ووٹر پولنگ اسٹیشن پر جاتا ہے‘ مشین پر اپنی انگلی رکھتا ہے اور اس کا ووٹ کھل جاتا ہے‘ اسکرین پر امیدواروں کے نام اور انتخابی نشان بھی آ جاتے ہیں‘ یہ انگلی سے کسی ایک انتخابی نشان کو ٹچ کر دیتا ہے اور اس کا ووٹ کاسٹ ہو جاتا ہے‘ یہ اس کے بعد ملک کے کسی حصے میں دوبارہ ووٹ نہیں ڈال سکتا‘ مشین دوسری بار اس کا ووٹ قبول نہیں کرتی‘ کسی سیاسی جماعت کو نتائج پر اعتراض ہو تو یہ فیس جمع کرا کر پورا ڈیٹا دیکھ سکتی ہے‘ ملک کا ایک ایک ووٹ اس کے سامنے آ جاتا ہے‘ سیاسی جماعتیں اور امیدوار حلقے میں بینر لگا سکتے ہیں‘ پوسٹر لگا سکتے ہیں اور نہ ہی چاکنگ کر سکتے ہیں۔ میں چار شہروں میں گیا‘ مجھے کسی جگہ کوئی بورڈ‘ جھنڈا‘ بینر اور پوسٹر نظر نہیں آیا‘ پتہ کیا‘ معلوم ہوا‘ جو امیدوار یہ غلطی کرتا ہے وہ الیکشن سے پہلے الیکشن سے فارغ ہو جاتا ہے.
امیدوار حلقوں میں جلسے بھی نہیں کر سکتے‘ جلوس بھی نہیں نکال سکتے اور ریلیاں بھی منعقد نہیں کر سکتے‘ یہ سہولت صرف سیاسی جماعتوں کے قائدین کو حاصل ہے‘ یہ مختلف حلقوں میں جاتے ہیں‘ یہ جلسہ کرتے ہیں‘ یہ خطاب کرتے ہیں اور اس حلقے کا امیدوار اس خطاب اور جلسے میں شریک ہوتا ہے‘ یہ صرف اپنے قائد کی موجودگی میں خطاب کرسکتا ہے‘ الیکشن کے دوران تشہیر کا سارا کام ٹیلی ویژن چینلز کے ذریعے ہوتا ہے‘ ملک کی تمام ریاستوں میں مقامی ٹیلی ویژن چینلز ہیں‘ پارٹیاں ان چینلز پر اشتہارات دیتی ہیں‘ قومی سطح کے چینلز پر بھی اشتہارات دیے جاتے ہیں‘ ان اشتہارات پر کوئی قدغن نہیں چنانچہ تمام سیاسی جماعتیں جی بھر کر اس سہولت کا فائدہ اٹھاتی ہیں‘ امیدوار اگر پریس کانفرنس کرنا چاہیں تو یہ صرف سرکٹ ہاؤس میں کر سکتے ہیں‘ امیدوار اپنا منشور بتانے کے لیے حلقے کے صرف ہزار لوگ اکٹھے کر سکتے ہیں‘ اگر تعداد زیادہ ہو جائے تو ان کے خلاف کارروائی شروع ہو سکتی ہے۔
ہم اگر بھارتی الیکشن کمیشن کا مطالعہ کریں تو ہمیں اس میں تین خوبیاں نظر آتی ہیں‘ ایک‘ الیکشن مختلف ریاستوں میں مختلف اوقات میں ہوتے ہیں‘ اس سے الیکشن کمیشن کو نتائج جمع کرنے میں سہولت ہوتی ہے‘ یہ ایک مرحلہ مکمل کرنے کے بعد دوسرے مرحلے کی طرف بڑھتے ہیں‘ یوں عملہ بھی کم درکار ہوتا ہے اور وسائل بھی کم خرچ ہوتے ہیں‘ دو‘ بائیو میٹرک سسٹم کی وجہ سے دھاندلی کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں‘ کم وقت میں زیادہ ووٹ بھگت جاتے ہیں‘ پولنگ اسٹیشنز پر زور آزمائی اور دھونس کے واقعات بھی نہیں ہوتے‘ پولنگ اسٹیشنز پر ووٹوں کی گنتی نہیں ہوتی‘ ووٹ سینٹرل ڈیٹا میں چلے جاتے ہیں اور کمپیوٹر ان کی کاؤنٹنگ کرتا ہے یوں پولنگ اسٹیشنوں پر ہیرا پھیری کا امکان ختم ہو گیا۔
ملک میں غیر حتمی نتائج کا اعلان نہیں ہوتا‘ الیکشن کمیشن ایک ہی مرتبہ اعلان کرتا ہے اور یہ اعلان حتمی ہوتا ہے‘ اس حتمی اعلان سے قبل ہر قسم کا اعلان غیر قانونی ہوتا ہے۔ تین امید وار پوسٹروں‘ بینروں‘ جلوسوں اور جلسوں سے ووٹروں کو متاثر نہیں کرسکتے‘ یہ صرف اور صرف ’’مین ٹو مین‘‘ ریلیشن سے ووٹ مانگ سکتے ہیں‘ یہ الیکشن سے مہینوں اور بعض اوقات برسوں قبل اپنی انتخابی مہم شروع کرتے ہیں‘یہ ایک ایک شخص کے پاس جاتے ہیں یوں یہ اپنے ووٹروں سے واقف ہو جاتے ہیں اور ووٹر ان کی شخصیت سے پوری طرح آگاہ ہو جاتے ہیں چنانچہ امیدوار اور ووٹر کا بانڈ زیادہ مضبوط ہوجاتا ہے‘بھارت میں لوگ صرف امیدوار کو ووٹ نہیں دیتے‘ یہ پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں اور یوں پارٹی اپنے منشور پر عمل درآمد کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔
ہمیں پاکستان میں سنجیدگی کے ساتھ الیکشن اصلاحات کی ضرورت ہے‘ عمران خان کا مطالبہ غلط نہیں‘ ہمارے انتخابی نظام میں حقیقتاً درجنوں سوراخ ہیں اور عوامی مینڈیٹ ہر بار ان سوراخوں سے باہر گر جاتا ہے‘ حکومت کو چاہیے یہ فوری طور پر اعلیٰ سطحی کمیشن بنائے اور یہ کمیشن الیکشن اصلاحات کرے‘ ہمارے نادرا کے پاس جدید ترین نظام اور سافٹ ویئر موجود ہیں‘ حکومت بڑی آسانی سے الیکشن سسٹم کو کمپیوٹرائزڈ کر سکتی ہے‘ الیکشن کمیشن کو آزاد امیدواروں کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے‘ امیدواروں کا کسی نہ کسی جماعت کے ساتھ وابستہ ہونا ضروری قرار دیا جائے کیونکہ آزاد امیدوار کامیاب ہونے کے بعد گھوڑے بن جاتے ہیں اور یہ گھوڑے حکومت بننے سے قبل حکومت کو کرپٹ کر دیتے ہیں۔
انتخابی مہم کو بھارت کی طرح ٹیلی ویژن چینلز تک محدود کیا جائے تاکہ ملک بورڈوں‘ جلوسوں، جلسوں، ریلیوں، چاکنگ اور بینروں کی پلوشن سے پاک رہے‘ الیکشن کا عمل تیس چالیس حصوں میں تقسیم کیا جائے‘ صوبوں اور وفاق کے الیکشن الگ الگ ہونے چاہئیں‘ ووٹ کاسٹ نہ کرنے والوں کے لیے جرمانہ طے کیا جائے اور حکومت بنانے کے لیے کم از کم پچاس فیصد ووٹوں کی حد مقرر کی جائے‘ 2013 ء کے الیکشن میں کل ووٹروں کی تعداد 8 کروڑ 61 لاکھ تھی۔
مسلم لیگ ن نے ایک کروڑ 48 لاکھ ووٹ حاصل کیے‘ یہ کل ووٹوں کا 32 فیصد بنتا ہے‘ ہم 32فیصد کو ہیوی مینڈیٹ کہتے ہیں جب کہ 68 فیصد لوگ میاں نواز شریف کو مسترد کر چکے ہیں‘ آج افغانستان میں بھی صدر کے لیے پچاس فیصد ووٹ ضروری ہوتے ہیں مگر ہم 32 فیصد ووٹ لینے والوں کو ہیوی مینڈیٹ دے کر حکومت بنانے کا اختیار دے دیتے ہیں‘ کیا یہ غلط نہیں؟ ہمیں الیکشن کمیشن پر فوری طور پر توجہ دینا ہوگی ورنہ دوسری صورت میں ہمارے ہر الیکشن کے بعد دھاندلی کا الزام بھی لگے گا اور ہماری ہر حکومت کو دھرنوں‘ ریلیوں اور جلوسوں کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔
میاں صاحب اگر ٹھنڈے دل سے غور کریں تو انھیں محسوس ہو گا عمران خان غلط نہیں کہہ رہے! یہ بات‘ یہ مطالبہ غلط نہیں۔
جاوید چوہدری
0 notes
healthzigzag · 6 years ago
Text
حکومت اپوزیشن کو ڈرا رہی ہے یا پھر خود ڈر رہی ہے؟حمزہ شہباز کو گرفتار نہ کرنے پر آئی جی پنجاب تبدیل ،کیا بیوروکریسی گورنمنٹ کے قابو نہیں آ رہی ؟نیوزی لینڈ کی عیسائی حکومت کے مسلمانوں پر حملے کے بعدردعمل اور پاکستان حکومت کا کوئٹہ ہزارگنجی حملے پر ردعمل مختلف کیوں ہے؟جاوید چودھری کا تجزیہ
حکومت اپوزیشن کو ڈرا رہی ہے یا پھر خود ڈر رہی ہے؟حمزہ شہباز کو گرفتار نہ کرنے پر آئی جی پنجاب تبدیل ،کیا بیوروکریسی گورنمنٹ کے قابو نہیں آ رہی ؟نیوزی لینڈ کی عیسائی حکومت کے مسلمانوں پر حملے کے بعدردعمل اور پاکستان حکومت کا کوئٹہ ہزارگنجی حملے پر ردعمل مختلف کیوں ہے؟جاوید چودھری کا تجزیہ
[ad_1]
پندرہ مارچ کو نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں ایک آسٹریلین دہشت گرد نے دو مساجد پر فائرنگ کی‘ 50مسلمان شہید اور 50زخمی ہو گئے‘ اس واقعے کے بعد نیوزی لینڈ کی حکومت اور معاشرے کے ردعمل نے پوری دنیا کو حیران کر دیا‘ پورے میڈیا پر سرکاری سطح پر اذان سنائی گئی‘ نماز کے دوران شہری قطاریں بنا کر مسلمانوں کے پیچھے کھڑے ہوئے‘ وزیراعظم سکارف لے کر مسلمان عورتوں سے ملتی رہیں‘پارلیمنٹ میں تلاوت…
View On WordPress
0 notes
tnsworldnews-blog · 6 years ago
Text
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو نیوزی لینڈ کی وزیراعظم نے لاجواب کردیا
https://tns.world/urdu/?p=90851
کرائسٹ چرچ مارچ 16 (ٹی این ایس): نیوزی لینڈ میں مساجد پر حملے کو دہشت گردی نہ قرار دینے اور نہ ہی اس کی مذمت کرنے والے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو نیوزی لینڈ کی وزیراعظم نے لاجواب کردیا۔نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں گزشتہ روز دہشت گرد حملے میں 50 افراد شہید ہوئے ،حملہ کرنے والے آسٹریلین ایک دہش...
0 notes
classyfoxdestiny · 4 years ago
Text
کابل ایئرپورٹ پر افراتفری میں 7 افغان ہلاک: اہم پیش رفت
کابل ایئرپورٹ پر افراتفری میں 7 افغان ہلاک: اہم پیش رفت
نئی دہلی: بھارت ایک ہفتہ بعد ہنگامی انخلا کے مشنوں میں کابل سے لوگوں کو واپس لانا جاری رکھے ہوئے ہے۔ طالبان افغانستان کا دعویٰ کیا۔ بھارت نے اتوار کے روز افغان دارالحکومت میں سکیورٹی کی بگڑتی صورتحال کے درمیان فضائیہ کے ایک فوجی ٹرانسپورٹ طیارے میں 107 ہندوستانیوں سمیت 168 افراد کو کابل سے نکالا۔ 87 ہندوستانیوں اور دو نیپالی شہریوں کا ایک اور گروہ جو ایک میں اڑایا گیا تھا۔ بھارتی فضائیہ ہفتہ کو کابل سے تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبے جانے والا طیارہ اتوار کی صبح دہلی پہنچا۔ انہیں ایک خاص میں واپس لایا گیا۔ ایئر انڈیا۔ دوشنبے سے پرواز ، انہوں نے کہا۔ علیحدہ طور پر ، 135 ہندوستانیوں کا ایک گروپ ، جنہیں اس سے قبل امریکہ نے گزشتہ چند دنوں میں کابل سے دوحہ منتقل کیا تھا۔ نیٹو طیارے بھی ہندوستان واپس آئے۔ معلوم ہوا ہے کہ کابل سے دوحہ جانے والے ہندوستانی متعدد غیر ملکی کمپنیوں کے ملازم تھے جو افغانستان میں کام کر رہے تھے۔ کابل ایئرپورٹ پر افراتفری میں 7 افغان ہلاک برطانوی فوج کا کہنا ہے کہ کابل کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کے قریب ہجوم میں سات افغان شہری مارے گئے ہیں جب کہ ملک پر طالبان کے قبضے سے فرار ہونے والوں کی افراتفری کے درمیان۔ کی وزارت دفاع۔ اتوار کو ایک بیان میں کہا گیا کہ “زمین پر حالات انتہائی چیلنجنگ ہیں لیکن ہم ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں کہ صورتحال کو جتنا محفوظ اور محفوظ طریقے سے سنبھالا جا سکے۔” یہ ہوائی اڈہ ان ہزاروں لوگوں کے لیے مرکزی مقام رہا ہے جو طالبان سے فرار ہونے کی کوشش کر رہے ہیں ، جو ایک ہفتہ قبل ان کی بجلی کی پیش قدمی سے ملک پر قبضہ کرنے کے بعد کابل میں داخل ہو گئے تھے۔ آسٹریلیا نے افغانستان سے ��اتوں رات 300 سے زائد انخلا کیا۔ آسٹریلیا نے ہفتے کی رات کابل ، افغانستان کے لیے چار پروازیں چلائیں ، 300 سے زائد افراد کو نکالا جن میں آسٹریلین ، افغان ویزا ہولڈرز ، نیوزی لینڈ والے ، امریکی اور برطانوی شہری شامل ہیں ، وزیراعظم سکاٹ موریسن۔ اتوار کو کہا. یہ خبر اس وقت سامنے آئی جب امریکہ اور جرمنی نے افغانستان میں اپنے شہریوں کو کہا کہ وہ کابل ائیرپورٹ پر سفر سے گریز کریں ، سیکورٹی خطرات کا حوالہ دیتے ہوئے کیونکہ ہزاروں افراد نے طالبان اسلام پسندوں کے کنٹرول میں آنے کے تقریبا almost ایک ہفتے بعد فرار ہونے کی کوشش کی۔ موریسن نے اتوار کے روز آسٹریلوی براڈکاسٹنگ کارپوریشن (اے بی سی) اندرونی پروگرام کو بتایا ، “ہم ان شراکت داروں اور اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر کام کرتے رہیں گے۔
. Source link
0 notes
khouj-blog1 · 6 years ago
Text
نیوزی لینڈ کی وزیراعظم نےٹرمپ کو لاجواب کردیا
New Post has been published on https://khouj.com/international/115896/
نیوزی لینڈ کی وزیراعظم نےٹرمپ کو لاجواب کردیا
نیوزی لینڈ میں مساجد پر حملے کو ‘دہشت گردی’ نہ قرار دینے اور نہ ہی اس کی مذمت کرنے والے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو نیوزی لینڈ کی وزیراعظم نے لاجواب کردیا۔
نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں گزشتہ روز دہشت گرد حملے میں 50 افراد جاں بحق ہوئے جب کہ حملہ کرنے والے آسٹریلین ایک دہشت گرد کو گرفتار بھی کر لیا گیا۔
اس حملے کی پاکستان سمیت دنیا بھر کے رہنماؤں نے مذمت کی لیکن امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ نے تعزیت اور افسوس کے بجائے ایک لنک شیئر کیا جو حملے سے متعلق ایک ویب سائٹ کی خبر کا لنک تھا۔
گارڈین کے مطابق صدر ٹرمپ نے نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کو ٹیلی فون کی اور پوچھا کہ امریکا آپ کی کیا مدد کرسکتا ہے؟
اس پر نیوزی لینڈ کی وزیراعظم نےانہیں مشورہ دیا کہ امریکا تمام مسلم کمیونٹی سے محبت اور ہمدردی کا اظہار کرے۔
نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم سے گفتگو اور واقعے کے دس گھنٹے بعد ٹرمپ نے دوسرا ٹوئٹ کیا اور قتل عام کی مذمت کی ۔
0 notes
jebandepourtoipetite · 7 years ago
Text
آسٹریلوی وزیر اعظم پر استعفے کے لیے دباؤ
میلکم ٹرنبل اب بھی حکومت سازی کے لیے پر امید ہیں آسٹریلیا کے وفاقی انتخاب میں کسی بھی جماعت یا اتحاد کو واضح اکثریت نہ ملنے کی صورت میں حزب اختلاف نے وزیر اعظم میلکم ٹرنبل سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔ حزب اختلاف لیبر پارٹی کے رہنما بل شورٹن نے کہا: ’میرے خیال سے انھیں مستعفی ہو جانا چاہیے۔ انھوں نے عدم استحکام پیدا کیا ہے۔‘
انتخابات کے نتائج میں کانٹے کا مقابلہ دیکھا جا رہا ہے جب کہ منگل کی صبح ووٹوں کی گنتی جاری ہے۔
ادھر آسٹریلوی وزیر اعظم نے کہا ہے کہ وہ بہت ’پرامید‘ ہیں کہ ان کا کنزرویٹو اتحاد اکثریت کی حکومت بنانے میں کامیاب ہوگا۔
آسٹریلیا میں ’معلق پارلیمان‘ کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کیونکہ دونوں اہم جماعتوں میں سے کوئی بھی جماعت حکومت سازی کے لیے مطلوبہ 76 سیٹ حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔
نتائج میں تضاد نظر آ رہے ہیں آسٹریلیا کی الیکشن کمیشن (اے ای سی) کے مطابق ایوان زیریں کی 150 نشستوں میں سے برسراقتدار کنزرویٹو اتحاد کو 67 نشستیں ملی ہیں جب کہ سینٹر لیفٹ لیبر پارٹی نے 71 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی ہے جب کہ چھ نشستیں آزاد امیدواروں اور چھوٹی جماعتوں کے حصے میں آئی ہیں۔
اے ای سی کے مطابق چھ نشستوں کے بارے میں واضح اشارے نہیں ملے ہیں۔
اس کے باوجود ماہرین ان اعداد و شمار کو شک و شبے کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔آسٹریلین براڈکاسٹنگ کارپوریشن کے معتبر تجزیہ نگار اینٹونی گرین کا کہنا ہے کہ اے ای سی کی سائٹ پر بعض نشستوں کا نتیجہ دکھا دیا گیا ہے جب کہ وہاں بہت قریبی معاملہ ہے۔
گرین کے مطابق اتحاد نے 68 نششتوں پر کامیابی حاصل کی ہے جب کہ لیبر کو 67 پر کامیابی ملی ہے۔ پانچ نشستیں دوسروں کے حصے میں آئی ہیں جبکہ دس کے بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے۔
شارٹن نے آسٹریلوی وزیراعظم کا موازنہ برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون سے کیا انتخابی مہم کے دوران حکومت اور لیبر پارٹی کے درمیان معیشت، صحت، امیگریشن اور ہم جنس شادی جیسے موضوعات پر اختلافات تھے۔
برطانیہ کے ریفرینڈم کے نتائج واضح ہونے کے بعد وزیر اعظم ٹرنبل نے ووٹروں کو یقین دہانی کروائی ہے کہ وہ معیشت میں بہتری لا سکتے ہیں۔
اس کے برخلاف شورٹن نے اپنی جماعت کی کامیابی کی صورت میں ایک ہی جنس کے درمیان شادی کو قانونی حیثیت دینے کو اپنی اولین ترجیحات میں شامل کیا ہے۔
The post آسٹریلوی وزیر اعظم پر استعفے کے لیے دباؤ appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain http://ift.tt/2F8KXxm via
0 notes
urdukhabrain-blog · 7 years ago
Text
آسٹریلوی وزیر اعظم پر استعفے کے لیے دباؤ
Urdu News on https://goo.gl/wchnr6
آسٹریلوی وزیر اعظم پر استعفے کے لیے دباؤ
میلکم ٹرنبل اب بھی حکومت سازی کے لیے پر امید ہیں آسٹریلیا کے وفاقی انتخاب میں کسی بھی جماعت یا اتحاد کو واضح اکثریت نہ ملنے کی صورت میں حزب اختلاف نے وزیر اعظم میلکم ٹرنبل سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔ حزب اختلاف لیبر پارٹی کے رہنما بل شورٹن نے کہا: ’میرے خیال سے انھیں مستعفی ہو جانا چاہیے۔ انھوں نے عدم استحکام پیدا کیا ہے۔‘
انتخابات کے نتائج میں کانٹے کا مقابلہ دیکھا جا رہا ہے جب کہ منگل کی صبح ووٹوں کی گنتی جاری ہے۔
ادھر آسٹریلوی وزیر اعظم نے کہا ہے کہ وہ بہت ’پرامید‘ ہیں کہ ان کا کنزرویٹو اتحاد اکثریت کی حکومت بنانے میں کامیاب ہوگا۔
آسٹریلیا میں ’معلق پارلیمان‘ کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کیونکہ دونوں اہم جماعتوں میں سے کوئی بھی جماعت حکومت سازی کے لیے مطلوبہ 76 سیٹ حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔
نتائج میں تضاد نظر آ رہے ہیں آسٹریلیا کی الیکشن کمیشن (اے ای سی) کے مطابق ایوان زیریں کی 150 نشستوں میں سے برسراقتدار کنزرویٹو اتحاد کو 67 نشستیں ملی ہیں جب کہ سینٹر لیفٹ لیبر پارٹی نے 71 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی ہے جب کہ چھ نشستیں آزاد امیدواروں اور چھوٹی جماعتوں کے حصے میں آئی ہیں۔
اے ای سی کے مطابق چھ نشستوں کے بارے میں واضح اشارے نہیں ملے ہیں۔
اس کے باوجود ماہرین ان اعداد و شمار کو شک و شبے کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔آسٹریلین براڈکاسٹنگ کارپوریشن کے معتبر تجزیہ نگار اینٹونی گرین کا کہنا ہے کہ اے ای سی کی سائٹ پر بعض نشستوں کا نتیجہ دکھا دیا گیا ہے جب کہ وہاں بہت قریبی معاملہ ہے۔
گرین کے مطابق اتحاد نے 68 نششتوں پر کامیابی حاصل کی ہے جب کہ لیبر کو 67 پر کامیابی ملی ہے۔ پانچ نشستیں دوسروں کے حصے میں آئی ہیں جبکہ دس کے بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے۔
شارٹن نے آسٹریلوی وزیراعظم کا موازنہ برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون سے کیا انتخابی مہم کے دوران حکومت اور لیبر پارٹی کے درمیان معیشت، صحت، امیگریشن اور ہم جنس شادی جیسے موضوعات پر اختلافات تھے۔
برطانیہ کے ریفرینڈم کے نتائج واضح ہونے کے بعد وزیر اعظم ٹرنبل نے ووٹروں کو یقین دہانی کروائی ہے کہ وہ معیشت میں بہتری لا سکتے ہیں۔
اس کے برخلاف شورٹن نے اپنی جماعت کی کامیابی کی صورت میں ایک ہی جنس کے درمیان شادی کو قانونی حیثیت دینے کو اپنی اولین ترجیحات میں شامل کیا ہے۔
0 notes
healthzigzag · 6 years ago
Text
ڈومیسٹک کرکٹ نظام تبدیل، آسٹریلین طرز کا مجوزہ ڈومیسٹک ماڈل تیار،پاکستان کی ریجنل و ڈومیسٹک ٹیموں کی تعداد 6 ہوگی،تفصیلات جاری
ڈومیسٹک کرکٹ نظام تبدیل، آسٹریلین طرز کا مجوزہ ڈومیسٹک ماڈل تیار،پاکستان کی ریجنل و ڈومیسٹک ٹیموں کی تعداد 6 ہوگی،تفصیلات جاری
[ad_1]
لاہور(آن لائن)وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر پاکستان کی ڈومیسٹک کرکٹ کے نظام کو تبدیل کرتے ہوئے آسٹریلین کرکٹ کی طرز کا مجوزہ ڈومیسٹک ماڈل تیار کرلیا۔نیا ماڈل پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے پیٹرن ان چیف وزیراعظم عمران خان کی ہدات پر بنایا گیا ہے جو ان کے دستخط کے بعد نافذ العمل ہوگا۔خیال رہے کہ 2 روز قبل چیئرمین پی سی بی نے چیف آپریٹنگ افسر (سی ای او) سبحان احمد اور ڈائریکٹر کرکٹ…
View On WordPress
0 notes