#ماہی گیری
Explore tagged Tumblr posts
Text
ماہی گیری کے پائیدار طریقوں کے فروغ کے لیے ڈبلیو ڈبلیو ایف نے 3 لانگ لائن کشتیاں لانچ کر دیں
ڈبیلوڈبیلو ایف(پاکستان ) نے کہا ہے کہ ماہی گیری کے جال گلنٹس سے لانگ لائن گئیرزپرمنتقلی کے سبب سمندری ماحولیاتی نظام پرمثبت اثرپڑرہاہے،اس طریقے سےماہی گیری پرنقصان دہ اثرات کو 85 فیصد تک کم کیا جاسکتا ہے۔ ترجمان ڈبیلو ڈبیلو ایف کے مطابق کورنگی فش ہاربرکراچی میں تین لانگ لائن کشتیوں کی لانچنگ تقریب منعقد ہوئی،جس میں مقررین نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ گلنیٹ سے لانگ لائن گیئر پر منتقل ہونے سے خطرے…
View On WordPress
0 notes
Text
دریائے سندھ کا ڈیلٹا خطرے میں
سندھ کی معیشت، زراعت اور مقامی ماحول کا انحصار سندھ کے دریا، خاص طور پر دریائے سندھ پر ہے۔ یہ دریا سندھ کے میدانی علاقوں کو تازہ پانی فراہم کرتا ہے جس پر نہ صرف زراعت کا دارومدار ہے بلکہ دریائے سندھ کا ڈیلٹا بھی زندہ ہے۔ بدقسمتی سے، حالیہ برسوں میں نئی نہروں اور پانی کی تقسیم کے منصوبوں کے سبب سندھ کے اس قدرتی نظام کو خطرات لاحق ہیں۔ یہ نہریں بالائی علاقوں میں پانی کے بہاؤ کو کم کرتی ہیں، جس سے سندھ کے لئے پانی کی کمی کا بحران پیدا ہوتا ہے۔ اس صورتحال کا اثر نہ صرف سندھ کے کسانوں پر پڑ رہا ہے بلکہ ڈیلٹا کی بقا بھی خطرے میں ہے۔ نئے نہری منصوبے بالائی علاقوں میں آبپاشی اور پانی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے تشکیل دیے جاتے ہیں، لیکن اس کا براہ راست اثر سندھ پر پڑتا ہے۔ جب دریائے سندھ کے پانی کا بہاؤ کم ہوتا ہے، تو یہ نیچے کے علاقوں تک صحیح مقدار میں نہیں پہنچ پاتا، جس کے نتیجے میں زرعی زمین بنجر ہو جاتی ہے۔ زمین کی نمی ختم ہونے لگتی ہے اور کاشتکاری کے مواقع بھی محدود ہو جاتے ہیں۔ اس کمی کا سیدھا اثر مقامی کسانوں اور ان کی معیشت پر پڑتا ہے، جس سے ان کی معاشی حالت خراب ہو جاتی ہے۔
دریائے سندھ کے ڈیلٹا کی صحت کے لئے دریا کا بہاؤ مسلسل اور مناسب مقدار میں ہونا ضروری ہے۔ ڈیلٹا، جو کہ مٹی، پانی اور سمندری حیاتیات کی اہم بقا کا مرکز ہے، اس میں کمی آنے سے سمندری پانی آگے بڑھ جاتا ہے اور زمین میں شامل ہو جاتا ہے۔ اس سے مچھلیوں کی نسل ختم ہونے لگتی ہے، مینگروو کے جنگلات جو ڈیلٹا کی حفاظت کرتے ہیں، کمزور ہونے لگتے ہیں، اور حیاتیاتی تنوع بھی ختم ہو جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ماہی گیر طبقے کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جو کہ اپنی روزی روٹی کے لئے ان وسائل پر انحصار کرتے ہیں۔ سمندری پانی کے زمین میں شامل ہونے سے فصلوں اور زمین کی زرخیزی بھی متاثر ہوتی ہے، جو کہ زرعی معیشت کے لئے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ ڈیلٹا کی تباہی سے نہ صرف ماحولیات پر اثرات مرتب ہوتے ہیں بلکہ سندھ کے لوگوں کی روزمرہ زندگی پر بھی اس کا گہرا اثر پڑتا ہے۔ پانی کی کمی کے باعث کاشتکاروں کی پیداوار میں کمی آتی ہے، جس سے ان کے مالی وسائل محدود ہوتے ہیں اور غربت میں اضافہ ہوتا ہے۔
اسی طرح ماہی گیری کی صنعت پر پڑنے والے اثرات بھی واضح ہیں، کیونکہ ڈیلٹا کے بگاڑ کے سبب مچھلیوں کی تعداد میں کمی ہوتی ہے۔ نتیجتاً، ماہی گیر طبقے کی آمدنی کم ہوتی ہے اور انہیں دیگر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ نئے نہری منصوبوں کی وجہ سے ماحول پر مرتب ہونے والے اثرات بھی سنگین ہیں۔ جب پانی کا بہاؤ تبدیل ہوتا ہے تو مٹی کے کٹاؤ اور زمین کی زرخیزی ختم ہونے لگتی ہے۔ اس سے موسمیاتی تبدیلیوں کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے، جس کے اثرات نہ صرف زراعت پر بلکہ پورے ��طے کی آب و ہوا پر بھی ہوتے ہیں۔ یہ صورتحال سندھ کے لئے ایک بڑے چیلنج کی صورت اختیار کر رہی ہے اور اس کے لئے مناسب اقدامات کی ضرورت ہے۔ پانی کی تقسیم کے معاملے میں بین الاقوامی معاہدے اور صوبائی سطح پر بھی کچھ اصول بنائے گئے ہیں۔ لیکن جب تک ان معاہدوں پر مکمل عمل درآمد نہیں ہوتا، سندھ جیسے زیریں علاقوں کو نقصان پہنچنے کا خدشہ برقرار رہتا ہے۔
حکومت اور متعلقہ اداروں کو چاہیے کہ پانی کی تقسیم میں تمام صوبوں کے مفادات کو مدنظر رکھیں اور کسی بھی نئے نہری منصوبے کی منصوبہ بندی سے پہلے اس کے ماحولیاتی، سماجی اور اقتصادی اثرات کا جائزہ لیا جائے۔ اس باب میں پانی کے وسائل کا موثر اور پائیدار انتظام ہی واحد راستہ ہے جس سے سندھ کے آبپاشی نظام اور ڈیلٹا کو محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔ ہمیں ایک ایسی حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے جو نہ صرف پانی کے قدرتی بہاؤ کو برقرار رکھے بلکہ سندھ جیسے زیریں علاقوں کے مفادات کا بھی خیال رکھے۔ اگر ہم نے اس چیلنج کو نظر انداز کیا تو مستقبل میں نہ صرف سندھ بلکہ پورے ملک کو اس کے اثرات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
محمد خان ابڑو
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
وہ امریکی ریاست جو غیر ملکی ملازمین کو مفت رہائش کیلئے بلا رہی ہے
واشنگٹن (ڈیلی پاکستان آن لائن )ایک امریکی ریاست سامنے آئی ہے جو غیر ملکیوں کو مفت رہائش اور ٹکٹ فراہم کرنے کے لئے منتظر بیٹھی ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ مقام الاسکا میں دریائے کاپر ڈیلٹا کے قریب ایک چھوٹا سا قصبہ ہے جس کا نام ’کورڈورا‘ ہے جو ماہی گیری کی انڈسٹری کے حوالے سے مقبول ہے۔ یہاں غیر ملکی دور دور سے الاسکا کی فش پروسیسنگ فیکٹریوں میں ملازمت کیلئے آتے ہیں اور وہ یہاں اپنے ملک سے زیادہ…
0 notes
Text
انٹرنیٹ ہماری زندگی تباہ کر رہا ہے؟
جب میری عمر کم تھی تو والدہ اس بات پر فکرمند ہوتی تھیں کہ میں انٹرنیٹ کی لت میں مبتلا ہوں۔ ذہن میں رہے کہ یہ 2000 کی دہائی کے وسط کی بات ہے جب انٹرنیٹ عام طور پر گھر کے ایک خاص کمرے تک محدود ہوتا تھا۔ اگر آپ ایم ایس این میسنجر یا جاپانی اینیمیٹڈ ٹیلی ویژن سیریز ڈریگن بال زیڈ پر اپنی شام ضائع کرنا چاہتے تھے تو آپ کو ساکن مانیٹر کے سامنے بیٹھنا پڑتا تھا اور کوئی بھی آپ کی سرگرمی دیکھ سکتا تھا۔ تیزی سے موجودہ دور میں آئیں۔ سمارٹ فونز کی بدولت میں جب بھی چاہوں ڈریگن بال زیڈ دیکھ سکتا ہوں۔ درحقیقت اگر مجھے اندازہ لگانا پڑے تو میں شاید اس مضمون کو لکھنے سے پہلے اپنے فون کو پانچ سے 10 بار چیک کروں گا۔ اگر میں 2005 میں انٹرنیٹ کا عادی تھا تو مجھے نہیں معلوم کہ اب آپ میرے رویے کو کیا کہیں گے۔ سخت قسم کی لت؟ یا جنون؟ مجھے لگتا ہے کہ اس مرتبہ آپ اسے صرف ’21 ویں صدی کی دنیا میں رہنا‘ کہیں گے کیوں کہ ہمیشہ آن لائن رہنے کی میری لازمی ضرورت وہ ہے، جو زمین پر تقریباً ہر شخص کی ہے۔ خاصی ستم ظریفی یہ ہے کہ اس میں میری والدہ بھی شامل ہیں (یہ درست ہے دوستو انہیں بھی آن لائن رہنا ہو گا) پھر اصل سوال یہ ہے کہ ویب کی ہماری اجتماعی لت کتنا نقصان پہنچا رہی ہے؟ ٹھیک ہے، ایلون مسک کا شکریہ کہ ان کی ب��ولت ہمیں ایک جواب مل سکتا ہے۔
کار ساز کمپنی ٹیسلا کے ممتاز چیف ایگزیکٹیو افسر اور سوشل میڈیا پلیٹ فار ٹوئٹر پر ہلچل مچانے والے ایلون مسک نے اپنے سٹار لنک سیٹلائٹ سسٹم کے ذریعے ایک نیم الگ تھلگ ایمازون قبیلے کو نیٹ سے جوڑنے میں مدد کی۔ اس نظام کی مدد سے زمین کے دور دراز علاقوں میں بھی تیز رفتار انٹرنیٹ تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ اس ویڈیو گریب میں ایلون مسک کو نیورالنک پریزنٹیشن کے دوران سرجیکل روبوٹ کے ساتھ کھڑا دیکھا جا سکتا ہے (اے ایف پی) ماروبو قبیلے نے گذشتہ نو ماہ انسانی علم کے ہمارے اجتماعی ذخیرے کے عجائبات سے لطف اندوز ہوتے ہوئے گزارے اور نتائج کی پیشگوئی کی جا سکتی ہے۔ اس موضوع پر اخبار نیویارک ٹائمز کے ایک مضمون کے مطابق قبیلے کے ارکان جلد ہی سوشل میڈیا اور فلموں کے عادی ہو گئے اور وہ اپنے دن کا زیادہ تر حصہ ویڈیوز دیکھنے اور پرتشدد ویڈیو گیمز کھیلنے میں گزارتے ہیں۔ خاص طور پر نوجوان اپنے فون میں اس قدر مشغول ہو گئے ہیں کہ انہوں نے قبیلے کے شکار کرنے اور ماہی گیری کے معمولات کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ یہ ایسی سرگرمیاں ہیں جو برادری کی بقا کے لیے اہم ہیں۔
بے لگام انٹرنیٹ کے استعمال کے خطرات کے بارے میں کیس سٹڈی کے طور پر، نتائج بہت خوفناک ہیں۔ ایک سال سے بھی کم عرصے میں بلیوں کی ویڈیوز اور فلموں کی کشش قبیلے میں وائرس کی طرح پھیل گئی، جس کے نتیجے میں قبیلے کی عادات اور رویے مکمل طور پر تبدیل ہو کر رہ گئے۔ اس بارے میں ایک دلیل پیش کی جا سکتی ہے کہ شاید وہ اس لیے بہت زیادہ متاثر ہوئے کیوں کہ انہوں نے اس ضمن میں کوئی تیاری نہیں کی تھی لیکن اگر ہم ایمانداری سے بات کریں تو ریڈاِٹ تک رسائی کے بعد کا ان کا معاشرہ ہمارے معاشرے سے کتنا مختلف دکھائی دیتا ہے؟ مجھے غلط مت سمجھیں۔ یقیناً کچھ فوائد حاصل ہوئے ہیں۔ سٹار لنک سسٹم کو ماروبو میں لانے کا بنیادی مقصد اس بات کو یقینی بنانا تھا کہ وہ ہنگامی صورت حال کی صورت میں بیرونی دنیا اور ایک دوسرے کے ساتھ رابطے کے قابل ہوں گے، جو ایک اچھا خیال ہے، چاہے آپ نئی ٹیکنالوجی کے کتنے ہی بے مخالف کیوں نہ ہوں۔ قبیلے کے لوگ زیادہ تر دنوں میں صرف صبح اور شام کو اپنا انٹرنیٹ آن کرتے ہیں (اگرچہ اتوار سب کے لیے مفت ہوتا ہے) جو آن لائن دنیا تک نیم محدود رسائی کے میرے کم عمری کے تجربات کے تھوڑا سا قریب عمل ہے۔
لیکن مجموعی طور پر، ایمازون (مقام کا نام، ویب سائٹ نہیں) کو ایمازون (ویب سائٹ، جگہ نہیں) تک رسائی دینا تھوڑا سا خطرناک ہے۔ یہ آپ کے اس بات پر غور کرنے کے لیے کافی ہے کہ آپ کی جیب میں موجود چھوٹا سا باکس واقعی آپ کے رویے پر کتنا اثر انداز ہوتا ہے۔ سچی کہانی۔ میں نے 2016 تک سمارٹ فون نہیں لیا حالاںکہ میری زندگی میں شامل زیادہ تر لوگوں کے پاس پہلے سے ہی سمارٹ فون تھا۔ بات یہ ہے کہ میں غیرروایتی نہیں تھا۔ میں واقعی 26 سال کی عمر تک فون لینے کے معاہدے کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا، اس لیے اس وقت تک میں نے ایک پرانا نوکیا فون استعمال کیا جس کا کوئی ماہانہ بل نہیں تھا۔ فون کے آدھے بٹن غائب تھے۔ مجھے یاد ہے کہ میں اپنے دوستوں سے بہت مایوس تھا جو رات کے وقت تفریح کے لیے گھر سے نکلنے کے بعد اپنے فون سے چپکے رہتے تھے یا بات چیت کے دوران اپنے نوٹیفیکیشن چیک کرتے رہتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ جیسے ہی مجھے اپنا فون ملا میں کتنی جلدی ان لوگوں میں سے ایک بن گیا۔ ہم فون اور انٹرنیٹ کی ’لت‘ کے بارے میں مذاق کرتے ہیں لیکن شاید ہمیں مذاق کرنا بند کر کے واقعی جائزہ لینا شروع کرنا چاہیے کہ یہ اصل میں کس قدر حقیقی لت کی طرح ہے۔
خاص طور پر نوجوانوں کے لیے، ایک ایسے آلے تک رسائی جو دن میں 24 گھنٹے فوری تسکین فراہم کرسکتا ہے، بہترین خیال نہیں ہوسکتا۔ حتیٰ کہ ماروبو کو بھی کام کے اوقات کے دوران اپنے انٹرنیٹ کو بند رکھنے کی سمجھ تھی۔ سچی بات یہ ہے کہ یہ معجزہ ہی ہو گا کہ اگر ہم کبھی کچھ اور کر پائیں، کام ہی کیوں، جب میں اپنے جالی دار جھولے میں لیٹ کر لوگوں یا گرتے ہوئے لوگوں کی پرمزاح ویڈیوز دیکھ سکتا ہوں؟ لوگوں سے بالمشافہ بات کیوں کی جائے جب وٹس ایپ مجھے زیادہ پرمزاح یا زیادہ ذہانت پر مبنی ردعمل کی منصوبہ بندی کرنے کا وقت دیتا ہے؟ زندگی میں کیا پریشانی ہے جب فون موجود ہو تو؟ مجھے یہ کہتے ہوئے شرم آتی ہے کہ میں نے اس مضمون کو لکھنے سے پہلے 12 بار اپنا فون دیکھا لیکن اچھی بات یہ ہے کہ میں اسے مکمل کرنے میں کامیاب رہا۔ شاید ابھی تک ہمارے لیے امید باقی ہے۔
رائن کوگن
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
1 note
·
View note
Text
جنوبی کوریا کے سابق مشیر قومی سلامتی گرفتار
(ویب ڈیسک)جنوبی کوریا کے سابق مشیر برائے قومی سلامتی اور انٹیلی جنس کے سابق سربراہ سوح ہون کو گرفتار کرلیا گیا۔ رپورٹس کے مطابق سوح ہون کوستمبر 2020 میں جنوبی کوریا کے محکمہ ماہی گیری کے اہلکار کے شمالی کوریا کے فوجیوں کے ہاتھوں ہلاکت کے شواہد کے ساتھ گڑ بڑ کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔ رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ سابق نیشنل سکیورٹی چیف پر شواہد میں ہیرا پھیری کے ذریعے سابق حکومت کو فائدہ…
View On WordPress
0 notes
Text
ماہی گیری تنگ لیکن EU- برطانیہ تجارتی معاہدے پر اضافے ابھی بھی غیر یقینی ہیں
ماہی گیری تنگ لیکن EU- برطانیہ تجارتی معاہدے پر اضافے ابھی بھی غیر یقینی ہیں
صنعتکار گیبریلا بیکزینسکا برسلز (رائٹرز) – برطانیہ اور یوروپی یونین نے 2021 سے مچھلیوں کے ذخیرے تک رسائی کے فرق کو کم کردیا ہے ، لیکن سیاسی طور پر حساس معاملہ ابھی بھی ایک نئے تجارتی معاہدے کی راہ پر گامزن ہے ، برسلز ذرائع نے منگل کے روز اپنے بریکسٹ اپ ڈیٹ سے قبل کہا۔ چیف مذاکرات کار۔ فائل فوٹو: برطانیہ کے ہیسٹنگز ، 20 دسمبر ، 2020 میں ساحل سمندر پر برطانیہ میں ماہی گیری کی صنعت کی حمایت کرنے…
View On WordPress
0 notes
Text
ماہی گیر مولانا ہدایت الرحمٰن گوادری
نوجوانوں سے التماس ہے کہ اگر ممکن ہو تو اپنے قیمتی وقت میں سے چند منٹ نکال کر اِس تحریر کو ذرا غور سے ضرور پڑھیے اور خود سے سوال کیجیے کہ آپ کیا چاہتے ہیں؟ کیسا پاکستان چاہتے ہیں؟ کیسا لیڈر آپ کے خوابوں میں حقیقت کا رنگ بھر سکتا ہے؟ آپ جن لیڈروں کے کھوکھلے نعروں کے پیچھے ہلکان ہوئے جاتے ہیں، ایسی نفرتوں کو آگے بڑھاتے ہیں کہ ایک دوسرے کے گریبان پکڑنے سے بھی گریزاں نہیں ہوتے، احتجاج بھی ایسا کرتے ہیں کہ لاشیں گرتیں اور ماؤں کی گودیں اُجڑ جاتی ہیں لیکن مسائل جوں کے توں ہی رہتے ہیں۔ ہم سب کی یہی خواہش ہے کہ ہمارا پیارا پاکستان دنیا بھر میں تہذیب یافتہ اقوام کی صف میں کھڑا ہو۔ نفرتوں سے پاک پاکستان میری بھی خواہش ہے اور آپ کی بھی تو کیوں نہ ماضی سے سبق حاصل کر کے آگے بڑھیں۔ میری عرصہ سے خواہش تھی کہ کوئی ایک تو ایسا ہو جو اپنے لوگوں کے حقوق کے لیے حق سچ کی بات کہے اور میدانِ عمل میں آئے، جو ہم جیسا ہو، ہمارے دکھ درد سمجھنے والا، جسے ایک مثالی رول ماڈل لیڈر کے طور پر پیش کیا جا سکے کہ ایسا ہوتا ہے ایک سلجھا ہوا رہنما جو دلیل سے آپ کی بات حکمرانوں تک پہنچا سکے اور اس کی بات پر لاکھوں لوگ صدقِ دل سے آمین کہیں۔
سو ایک ملا ہے ماہی گیر مولانا ہدایت الرحمٰن گوادری۔ ذرا پڑھیے وہ کیا چاہتا ہے۔ ”ہم سی پیک کی مد میں کوئی موٹروے نہیں مانگ رہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ آپ گوادر، مکران کی سڑکوں پر سنگِ مر مر کی ٹائلیں لگا دیں۔ ہمارے بلاک سونے کے بنا دیں۔ ہمیں محلات، ایک کروڑ نوکریاں دے دیں۔ ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ جو قدرت کی طرف سے ساڑھے سات سو کلو میٹر طویل ساحل ہے جس سے ہزاروں سال سے ہمارے آباؤ اجداد روزگار حاصل کرتے تھے، خوش حالی کی زندگی گزار رہے تھے، بدقسمتی سے چند برسوں سے وفاقی و صوبائی حکومت کی سرپرستی میں ہزاروں کی تعداد میں ٹرالر مافیا سمندری حیات کی نسل کشی کر رہا ہے۔ غیرقانونی ماہی گیری کے لیے ممنوعہ جال استعمال کیے جارہے ہیں جس کی وجہ سے مچھلیاں نایاب ہو گئی ہیں اُن کی نسلیں ختم کر دی گئی ہیں جس کی وجہ سے لاکھوں ماہی گیر متاثر ہو رہے ہیں۔ ہمارا یہی مطالبہ ہے کہ ہم سمندر میں مزدوری کرتے ہیں، حکمران ٹیکس مانگتے ہیں تو ہم ٹیکس دیں گے، پیسے مانگتے ہیں تو ہم دینے کو تیار ہیں۔ حکومت ہمیں پیسے نہ دے، ہم حکومت کو پیسے دے دیتے ہیں لیکن خدارا ہمارا روزگار ہم سے نہ چھینا جائے۔
دوسرا یہ کہ بلوچستان کے 5اضلاع ایران کے بارڈر پر ہیں۔ ایران ہمارا برادر اسلامی ملک ہے۔ ایران سے اشیائے خورونوش آتی ہیں۔ ان اضلاع کو ایران بجلی، گیس اور روزمرہ کی ضروریاتِ زندگی فراہم کرتا ہے۔ ایرانی بارڈر کی بندش کی وجہ سے لاکھوں افراد متاثر ہوئے ہیں۔ اگر سیکورٹی ضروری ہے تو ضرور فراہم کریں۔ ہم اس کے خلاف نہیں ہیں لیکن آزادانہ باعزت روزگار کی فراہمی بھی سرکار اور ریاست کی ذمہ داری ہے۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ اس حوالے سے اقدامات کیے جائیں۔ تیسرا چیک پوسٹوں کا مسئلہ ہے۔ ہم تو سی پیک سے یہ توقع لگائے بیٹھے تھے کہ گوادر پورٹ، سی پیک روڈ سے ہمیں روزگار ملے گا، تعلیم ملے گی، اسپتال ملیں گے، ہماری زندگی اچھی ہو جائے گی۔ ہمیں علاج کے لیے کراچی نہیں جانا پڑے گا۔ ہمیں یہ تمام سہولتیں یہاں ملیں گی لیکن سی پیک سے ہمیں صرف چیک پوسٹیں ملیں۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ یہاں لاکھوں لوگ احتجاج کر رہے ہیں لیکن ایک پتھر بھی نہیں ہلا، پاکستان کے حکمران دیکھ لیں ہماری ریلی ناراض بلوچوں کی ریلی ہے جو حکمرانوں اور نظام کے خلاف ہے۔
ہم ریاستِ پاکستان کے خلاف نہیں۔ ہم آئینِ پاکستان کے دائرے میں رہتے ہوئے مطالبہ کر رہے ہیں، ہم سی پیک اور ترقی کے خلاف بھی نہیں لیکن ہمیں اس سے کیا ملا؟ علاج معالجے کے لیے ایک بھی اسپتال نہیں ملا، ہماری عزتِ نفس کو مجروح کیا جارہا ہے۔ بلوچستان کو تعلیمی اداروں کی ضرورت ہے۔ یہاں تعلیمی اداروں کے لیے ٹیچر مانگنا جرم بن گیا ہے۔ حق کی بات کرتے ہیں تو غداری کے سرٹیفکیٹ سے نوازا جاتا ہے۔ بتایا جائے کہ حب الوطنی کے سرٹیفکیٹس کہاں سے ملیں گے؟ اہلِ بلوچستان اپنا جائز حق مانگ رہے ہیں۔ ریاستِ پاکستان میں اگر حق مانگنا جرم ہے تو ہم یہ جرم کرتے رہیں گے۔ ہم محبِ وطن شہری ہیں، ہمارا احتجاج پُرامن ہے۔ اس پُرامن احتجاج کو دیکھ کر ذرا بتائیے کہ یہ حب الوطنی ہے یا غداری ؟ ہمارا نوجوان غدار نہیں، ہمارے مطالبات میں ایسا کیا ہے جو ہمیں غدار کہا جارہا ہے؟ ایک شہری کے جو حقوق ہیں، ہم وہی مانگ رہے ہیں۔ کیا بارڈر مافیا کو لگام دینا کوئی جرم ہے۔ ہمارے دس ہزار نوجوان منشیات میں ڈوبے ہوئے ہیں، کیا انہیں سیدھا راستہ دکھانا جرم ہے؟
منشیات فروش محبِ وطن، ہمارے ماہی گیر دہشت گرد، کلبھوشن کے دہشت گرد ہونے کے باوجود اس کی رہائی کے لیے تو راستے تلاش کیے جاتے ہیں لیکن غداری کے الزامات ہم محب وطنوں کے لیے ہیں؟ ہم اس رویے کے خلاف ہیں۔ بلوچستان پاکستان کا ایک صوبہ ہے، کوئی کالونی نہیں۔ حق بات نہ کریں، انصاف نہ مانگیں تو ہمیں بتایا جائے کہ ہم کیا کریں؟“۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ ایک ماہی گیر نے مقامی لوگوں کے بنیادی مسائل کے حل کے لیے ایسی پُرامن ”حق دو“ تحریک چلائی جس میں لاکھوں ماہی گیر، مزدور، طلبہ و طالبات، بلوچ خواتین سمیت تمام شہریوں نے گزشتہ ایک ماہ سے دھرنا دیا ہوا ہے، کوئی توڑ پھوڑ ہوئی نہ جلاؤ گھیراؤ، یہ لوگ اقتدار مانگتے ہیں نہ ہی اعلیٰ سیاسی عہدہ تو پھر انہیں ان کا جائز حق کیوں نہیں دیا جارہا؟ ریاست اگر ماں کے جیسی ہے تو پھر ان کو جائز حق کیوں نہیں دیتی؟ آج گوادر ہی نہیں پورا پاکستان اس آواز میں اپنی آواز شامل کر رہا ہے۔
عرفان اطہر قاضی
بشکریہ روزنامہ جنگ
1 note
·
View note
Text
جدید مختصر کہانیوں کا ماسٹر ۔
گا ئے ڈی موپاساں
تحریر ۔ فراز احمد
گائے ڈی موپاساں 5 اگست 1850کوپیداہوا اور 6 جولائی 1893ا کو دنیا سے رخصت ہو گیا، 19 ویں صدی اس فرانسیسی مصنف اور مختصر کہانیوں کے ماسٹر کے بغیر ادھوری ہے،مو پاساں کو جدید مختصر کہانیوں کا باپ کہا جاتا ہے،وہ صرف 42سال زند ہ رہا، مگر ایسے ایسے شاہکار تخلیق کیے جس نے فرانسیسی ادب کو بلندیوں کے آسمان پر پہنچا دیا،بعد میں آنے والے سبھی مصنفین نے اس کی ذہنی صلاحیتوں کا نہ صر ف اعتراف کیا بلکہ غیر ارادی طور پر اس کے نقش قدم پر چلنے کی بھی کوشش کی،موپاساں کو نیچر کے نمائندے کے طور پر بھی یاد کیا جاتا ہے، اس کی کہانیوں میں ، فطرت پسندی ، حقیقت پسندی ، انسانی زندگیاں ، تقدیر، مایوسی ، بے بسی،بھوک ، افلاس ،جنگ، معاشرتی قوتجا بجا بکھری دکھائی دیتی ہے،موپاساں نہ صرف شاعر ، ناول نگاربھی تھا، مگرمختصر کہانیوں نے اسے زندہ جاوید کر دیا ۔
موپاساں کی کہانیوں میں 1870 کی فرانکو پرشین جنگ ، شہریوں پر گزرے واقعات ، حادثات و تجربات صاف دکھائی دیتے ہیں ، موپاساں نے 300 مختصر کہانیاں ، چھ ناول ، تین سفری کتابیں ، اور آیت کا ایک جلد تحریر کیا ۔ ان کی پہلی شاءع شدہ کہانی ، ;34; بولے ڈی سوف گیند آف پسینے جسے شاہکار کا درجہ دیا جاتا ہے ۔
موپاساں جب گیارہ سال کا تھا تو اس کی والدہ جو کہ آزاد سوچ کی حامل تھیں ، نے اپنے شوہر سے قانونی الگ ہو گئیں ، علیحدگی کے بعد ، وہ خود کلاسیکی ادب خصوصا شیکسپیئر کو بہت پسند کرتی تھی ۔ تیرہ سال کی عمر تک موپاساں خوشی سے اپنی والدہ کے ساتھ ، اٹریٹ میں ، ولا ڈیس ورگوئس میں رہائش پذیر رہا ، جہاں ، سمندر اور پرتعیش دیہی علاقے موجود تھے ، ، اسے ماہی گیری اور بیرونی سرگرمیوں کا بہت شوق تھا ۔ تیرہ سال کی عمر میں ،اس کی ماں نے اسے اور اس کے بھائی کو کو روئین کے ایک نجی اسکول میں داخل کرا دیا،موپاساں نے اسی سال کالج سے گریجویشن کیا جس سال فرانکو پرشین جنگ ہوئی ،اس نے جنگ میں ایک رضاکار کی حیثیت حصہ لیا ۔ بعد ازاں 1871 میں ، وہ نارمن��ی چھوڑ کر پیرس چلا گیا جہاں انہوں نے بحریہ کے محکمہ میں کلرک کی حیثیت سے دس سال گزارے ۔
موپاساں کے لکھاری بننے میں گوسٹاو فلو برٹ کا بہت بڑا ہاتھ ہے،جس نے نہ صرف اس کی رہنمائی کی ، اور اسے دنیا کا سب سے بڑا مصنف بنا دیا، گوسٹاو فلوبرٹ نے موپاساں کی صحافت اور ادب میں رہنمائی کرتے ہوئے ادبی سرپرست کی ، موپاساں نے فلوبرٹ کے گھر پر ایمائل زولا اور روسی ناول نگار ایوان تورگینیف کے ساتھ ساتھ حقیقت پسندی اور فطرت پسند اسکولوں کے بہت سارے حامیوں سے بھی ملاقات کی ۔ اور ذہن کی تعمیرکی ۔ 1878 میں موپاساں لی فگارو ، گل بلاس ، لی گالوئس اور لچو ڈی پیرس جیسے متعدد مشہور اخبارات میں معاون ایڈیٹر بن گیا ۔ انہوں نے اپنا فارغ وقت ناول اور مختصر کہانیاں لکھنے میں صرف کیا ۔
1880 میں پہلا ناول بولے ڈی صوف منظر عام پر آیا، جس نے فوری اور زبردست کامیابی حاصل کی ۔ فلاوَبرٹ نے اسے ;;ایک شاہکار جو برداشت کرے گا کے طور پر پیش کیا ۔ فرانسیہ پرشین جنگ کے دوران یہ ماوَساسنٹ کا مختصر افسانوں کا پہلا ٹکڑا تھا ،پھرڈیوکس امیس مدر سیویج ، دی ہیکل اور میڈیموسیل فیفی جیسی مختصر کہانیاں بھی سامنے آئیں ۔ 1880سے 1891 موپاساں کی زندگی کا سب سے زرخیز دور تھا ۔ 1881 میں موپاساں نے لا میسن ٹیلئر کے عنوان سے مختصر کہانیوں کا پہلا جلد شاءع کیا ۔ جو صرف دو سال کے اندر اندر اپنے بارہویں ایڈیشن تک پہنچ گیا ۔ 1883 میں ، اس نے اپنا پہلا ناول اون واء (انگریزی میں ایک عورت کی زندگی کے طور پر ترجمہ کیا جس کی ایک سال میں پچیس ہزار کاپیاں فروخت ہوئیں ، دوسرا ناول بیل امی ، 1885 میں سامنے آیا ، جسے چار مہینوں میں سینتیس بار چھاپا گیا ۔ موپاساں کاسب سے زیادہ پاسند کیا جانے والا مختصر افسانہ ، دی ہار، دی نکلیس ہے جس میں ایک محنت کش طبقے کی لڑکی کہانی بیان کی گئی ہے جو ایک اعلی معاشرتی پارٹی میں شرکت کے کے لیے ایک دولت مند دوست سے ہار لیتے ادھار لیتی ہے اور کھو بیٹھتی ہے ۔ بعد ازاں پوری زندگی ہار کی رقم کی ادائیگی کرتی ہے، پھر آخری میں پتہ چلتا ہے کہ یہ ہار اصلی نہیں ، بلکہ نکلی تھا، اور اس کی محنت بے فائدہ رہی
1890 میں موپاساں سیفلیس نامی بیماری کا زشکار ہو گیا، جو اس کی ذہنی بیماری کا باعث بنی،جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی چلی گئی،ماپاساں کی کہانیوں میں چند ایک جگہ جنونی کیفیت بھی نظر آتی ہیں ،جو شاید ان کی بیماری کی علامت کے طور پر ہوں ،کچھ نقادوں نے بھی ان کی کہانیوں کے موضوعات کو انکی نشوونما پذیر ذہنی بیماری کا نقشہ بتا کر پیش کیا ۔ لیکن ڈی موپاسنٹ کا ہارر افسانہ ان کے کام کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ ہے ، جو سب سے الگ اور منفرد ہے، جس کا موازنہ اسٹیفن کنگ کے مشہور ناول دی شائننگ سے کیا جا سکتا ہے ۔ موپاساں ذہنی کیفیت و جنون میں اپنا گلا کاٹ کر خودکشی کرنے بھی کوشش کی جو اس کے دماغی جنونی کیفیت کو ظاہر کرتی ہے،انہوں نے
اپنی زندگی کے آخری 18 ماہ پیرس کے ایک ذہنی علاج کے ادارے ڈاکٹر ایسریپٹ بلانچ کے مشہور نجی سیاسی پناہ میں گزارے اور وہیں 6جولائی 1893 میں ان کا انتقال ہو گیا ۔
3 notes
·
View notes
Text
جاپان میں امریکی فوجی طیارہ سمندر میں گر کر تباہ، 8 افراد سوار تھے، 3 مل گئے
ایک امریکی فوجی طیارہ جس میں آٹھ افراد سوار تھے بدھ کو مغربی جاپان میں سمندر میں گر کر تباہ ہو گیا، ماہی گیروں نے اطلاع دی ہے کہ تین افراد مل گئے ہیں لیکن ان کی حالت معلوم نہیں ہے۔ کوسٹ گارڈ نے کہا کہ کشتیاں اور ہوائی جہاز اس علاقے میں بھیجے ہیں جہاں ٹلٹ روٹر وی 22 اوسپرے یاکوشیما جزیرے کے قریب گر کر تباہ ہوا تھا۔ ��یک مقامی ماہی گیری کوآپری��و کے نمائندے نے بتایا کہ علاقے میں ماہی گیری کی کشتیوں…
View On WordPress
0 notes
Text
ہزار سال قبل انڈونیشی خواتین بھی ماہی گیری کرتی تھیں
جکارتہ…. برسوں سے یہ بات مشہور ہے کہ انڈونیشیا میں صدیوں سے صرف مرد ہی ماہی گیری کرتے ہیں لیکن انڈونیشیا کے آلور جزیرے میں کھدائی کے دوران ماہی گیری کے جو 5ہک ملے ہیں ان سے یہ پورا نظریہ باطل ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔ سائنسدانوں نے تجزیے کے بعد بتایا کہ یہ ہک 12ہزار سال پرانے ہیں جو ایک خاتون کی باقیات کے ساتھ پڑے تھے۔ مزید تحقیق کی گئی تومعلوم ہوا کہ اس زمانے میں خواتین بھی ماہی گیری کرتی تھیں اور…
View On WordPress
0 notes
Text
پاکستان کی سمندری حدود کہاں تک ؟
بین الاقوامی سمندری حدود کیا ہے؟ اس بارے میں پاکستان بحریہ کے سابق ایڈمرل افتخار راؤ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی ملک کی سمندری حدود کو مختلف زونز میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ اس ملک کے ساحلی پٹی پر ایک بیس لائن ( Baseline) بنائی جاتی ہے۔ اس بیس لائن سے 12 ناٹیکل مائل سمندر کی جانب تک 'ٹیریٹوریل واٹر' ( Territorial Waters) یعنی دفاعی سمندری حد ہوتی ہے۔ یہ بلکل ایسا ہی ہوتا ہے جیسے زمینی سرحد اور یہ پہلی سمندری حد ہوتی ہے۔ دوسری سمندری حد میں ان 12 ناٹیکل مائل کے بعد مزید 12 ناٹیکل مائل کا علاقہ 'کنٹی گیوس زون' ( Contiguous Zone) یعنی متصل علاقے کا پانی کہلاتا ہے جو مجوعی طور پر 24 ناٹیکل مائل بنتا ہے۔ اس میں اس ملک کےکسٹمز اور تجارت کے قوانین لاگو ہوتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ تیسری حد (Special Economic Zone) 'خصوصی اقتصادی زون' کہلاتی ہے اور یہ حد اس ملک کی بیس لائن سے 200 ناٹیکل مائل آگے تک ہوتی ہے۔ اس حد میں صرف وہی ملک کوئی اقتصادی سرگرمیاں کر سکتا ہے جیسا کہ سمندر میں معدنیات کی تلاش کا کام، ماہی گیری وغیرہ۔ اس سے بھی مزید آ گے پھر'ایکسٹینشن آف کانینٹل شیلف' ( Extension of Continental Shelf) کی حدود شروع ہوتی ہے۔ اس میں بھی اقوام متحدہ کے تحت اس ملک کو کچھ سمندری حقوق حاصل ہوتے ہیں۔
پاکسان کے سمندری پانی کی حدود کیا ہے؟ پاکستان کی سمندری حدود کے بارے میں بات کرتے ہوئے پاک بحریہ کے سابق ایڈمرل افتخار راؤ نے بتایا دیگر ممالک کی طرح پاکستان کی سمندری حدود کا تعین بھی اسی طرح کیا گیا ہے۔ ہماری ساحلی پٹی سے متصل بین الاقوامی طور پر ظاہر کی گئی بیس لائن سے 12 ناٹیکل مائل تک 'ٹیریٹوریل واٹر' یعنی دفاعی سمندری حد ہے۔ اسی طرح بتدریج 24 ناٹیکل مائل تک 'کنٹی گیوس زون'، 200 ناٹیکل مائل تک 'خصوصی اقتصادی زون' اور 'ایکٹینشن آف کانینٹل شیلوز' تک پاکستان کی سمندری حدود ہے۔ پاکستان نے 'ایکسٹینشن آف کانینٹل شیلوز' کے لیے اقوام متحدہ کو درخواست دی تھی جو منظور ہو چکی ہے۔
بین الاقوامی مشترکہ پانی یا حدود کیا ہے؟ کہ کسی بھی ملک کے 'ٹیریٹوریل واٹر' یعنی دفاعی سمندری حدود اور 'کنٹی گیوس زون' میں کسی اور ملک کے جنگی جہاز یا آبدوز کو داخلے کی اجازت نہیں ہوتی۔ تاہم غیر ممالک کے تجارتی بحری جہازوں کو اس پانی سے گزرنے کی اجازت دی جا سکتی۔ ایڈمرل راؤ کا کہنا تھا کہ سمندر تو بہت بڑا ہے لہذا خصوصی اقتصادی زون یعنی 200 ناٹیکل میل سے آگے موجود سمندری پانی کو 'کومن ہیرٹیج آف مین کائنڈ' ( Common Heritage of Mankind) یعنی انسانیت کا مشترکہ اثاثہ قرار دیا گیا ہے۔ وہ سمندر تمام ممالک کے لیے مشترکہ ہے اس پانی میں کسی بھی ملک کے کوئی بھی جہاز جا سکتے ہیں۔
انھوں نے مزید بتایا کہ 'خصوصی اقتصادی زون کے سمندری پانی میں کوئی دوسرا ملک کوئی اقتصادی سرگرمی نہیں کر سکتا البتہ اس پانی سے کسی بھی دوسرے ملک کے تجارتی اور جنگی بحری جہاز گزر سکتے ہیں۔ البتہ آبدوز کو زیر سمندر گزرنے کی اجازت نہیں اگر اس کو گزرنا ہے تو اس کو پانی کے سطح پر رہتے ہوئے گزرنا ہو گا۔ انھوں نے بتایا کہ اس کو ’انوسنٹ پیسیج‘ (Innocent Passage) یعنی معصومانہ راہداری کہا جاتا ہے۔ جو کہ اقوام متحدہ کے سمندری قانون کے مطابق ہے۔
امن یا کشیدگی: دشمن کے جنگی جہاز کو روکنے کا طریقہ کار کیا ؟ اس بارے میں سابق ایڈمرل افتخار راؤ کا کہنا تھا کہ اگر ہم انڈین آبدوز کے پاکستانی سمندری حدود میں داخلے کی مبینہ کوشش کے واقعہ پر بات کریں تو یہ آبدوز پاکستان کی دفاعی سمندری حدود میں نہیں تھی۔ لیکن ہماری خصوصی اقتصادی زون کی سمندری حدود کے اندر تھی لہذا جیسا کہ آجکل کشیدگی کے دن ہیں تو ہم اگر اس آبدوز کا سراغ لگانے کے بعد نشانہ بناتے، تو ہم پر کوئی بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی نہ ہوتی۔ کیونکہ ایک آبدوز کا نہ صرف سراغ لگانا بلکہ اس پر نظر رکھنا بھی مشکل ہے۔ اس بارے میں پاکستان بحریہ کے سباق ایڈمرل احمد تسنیم کا کہنا کہ اس پر طریقہ کار ملکی حالات اور حکومت پالیسی پر بنتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس میں جنگی بحری جہاز اور آبدوز میں فرق ہے کیونکہ بحری جنگی جہاز سمندری سطح پر دکھائی دیتا ہے اور اس کو امن کے دنوں میں وارننگ دی جاتی ہے۔ مگر آبدوز کا مقصد جاسوسی کرنا ہے خفیہ معلومات حاصل کرنا ہوتا ہے اس کے لیے طریقہ مختلف ہوتا ہے۔ کبھی اس کا پیچھا کیا جاتا ہے اور کبھی اس کو وارننگ جاری کی جاتی ہے۔ سابق ایڈمرل افتخار راؤ کہنا تھا کہ پاکستان بحریہ نے انڈین آبدوز کا نہ صرف سراغ لگایا بلکہ اس ہر نظر رکھ کر اس کو پانی کی سطح کے قریب آنے پر مجبور کیا اور انڈیا کو یہ پیغام دیا کہ ہم جنگی جنون میں شدت کے خواہش مند نہیں ہیں۔ اور اسی لیے پاکستان بحریہ نے ان کو واپس ان کے پانیوں میں دھکیل دیا۔
انڈین آبدوز کا پاکستان کی سمندری حدود میں کہاں سراغ لگایا گیا اس پر پاکستان بحریہ کی جانب سے تو کوئی سرکاری بیان نہیں دیا گیا لیکن سابق ایڈمرل افتخار راؤ اور ایڈمرل احمد تسنیم متفق ہے کہ انڈین آبدوز کو پاکستان کی خصوصی اقتصادی ��ون کی سمندری حدود میں تقریباً 100 ناٹیکل مائل پر پکڑا گیا ہے۔ واضح رہے کہ انڈین آبدوز کی جانب سے پاکستانی حدود میں داخلے کی مبینہ کوشش کا یہ واقعہ ایک ایسے وقت پیش آیا ہے جب پاکستان اور انڈیا کے مابین سرحدی کشیدگی عروج پر ہے۔
عماد خالق بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
11 notes
·
View notes
Text
آڈیو لیکس یا چور سپاہی کا کھیل
وہ جو کہتے ہیں کہ ’مردے کے بال مونڈھنے سے وزن کم نہیں ہوتا۔‘ یہی حال وزیرِ اعظم ہاؤس کی وڈیو لیکس کا ہے۔ جانے کتنے مہینے کی ریکارڈڈ گفتگو اب انٹرنیٹ کی منڈی میں چار آنے پاؤ دستیاب ہے۔ اس واردات کے اسباب اور کھلاڑیوں کے شجرے تک پہنچنے کی بجائے یہ مجرب حل نکالا گیا ہے کہ ایک کمیٹی اور وہ بھی وزیرِ داخلہ رانا ثنا اللہ کی سربراہی میں چھان بین کرے گی کہ یہ سب کیسے ممکن ہوا؟ حالانکہ سب سے پہلے تو خود رانا ثنااللہ کو اپنے عہدے سے ’علامتی‘ استعفی دینا چاہئے۔ مبینہ عبوری انتظام یہ کیا گیا ہے کہ کابینہ اجلاسوں اور وزیرِ اعظم ہاؤس میں کسی بھی اعلی ترین افسر کو لیپ ٹاپ اور موبائل فون لے جانے کی اجازت نہیں ہو گی۔ نیز حفاظتی عملے کی سہہ ماہی سکریننگ ہو گی۔ اللہ اللہ خیر صلا۔ جب 1972 میں واٹر گیٹ سکینڈل کا بھانڈا پھوٹا تو اس کی قیمت صدر رچرڈ نکسن کو بدنامی اور برطرفی کی شکل میں ادا کرنا پڑی تھی۔ جب یہ راز منکشف ہوا کہ ٹرمپ کی مدِ مقابل صدارتی امیدوار ہی��ری کلنٹن حساس معلومات کے تبادلے کے لیے بطور وزیرِ خارجہ محفوظ سرکاری ای میل اکاؤنٹ کے بجائے نجی ای میل اکاؤنٹ استعمال کرتی رہی ہیں تو پیشہ وارانہ غیر زمہ داری کا یہ انکشاف ان کی انتخابی شکست کا ایک اور سبب بن گیا۔ جب یہ پتہ چلا کہ سابق صدر ٹرمپ کچھ ریاستی حساس دستاویزات ازخود ہی گھر لے گئے تو ایف بی آئی نے ان کے نجی ٹھکانوں پر چھاپے مارنے شروع کر دئیے۔ جب چند برس پہلے یہ بات سامنے آئی کہ امریکہ کی نیشنل سکیورٹی ایجنسی جرمن چانسلر اینجلا مرکل سمیت کئی قریبی امریکی اتحادیوں کی گفتگو ٹیپ کرتی ہے تو یورپ اور امریکہ تعلقات میں سنگین تناؤ پیدا ہو گیا جسے دور کرنے کے لئے امریکہ کو ایڑی چوٹی کا زور لگانا پڑ گیا۔ مگر پاکستان میں ملک ٹوٹنے سے لے کر، کارگل کی جنگ، انتخابی نتائج کے الیکٹرونک نظام کے اچانک بیٹھنے، بیک روم رجیم چینج، چیف آف سٹاف، ججوں اور وزرائے اعظم کی اپنے اور بیرونی مہمانوں سے گفتگو، اسامہ بن لادن کی ہلاکت اور جبراً غائب ہونے والے ہزاروں افراد سمیت ہر المیے اور سکینڈل کا ایک ہی علاج ہے ’دفع کرو، مٹی پاؤ، آگے بڑھو۔‘
ہم ہر بار درخت سے گر کے کپڑے جھاڑتے ہوئے یہ کہتے کہتے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ کچھ نہیں ہوا چیونٹی مر گئی، چیونٹی مر گئی۔ جس طرح کارِ ریاست چلایا جا رہا ہے اس طرح تو کسی پیلے سرکاری سکول کا نظام چلنے پر ہیڈ ماسٹر معطل ہو جاتا ہے۔ اس طرح تو بچے اپنے کھلونے بھی صحن میں نہیں چھوڑتے۔ اس طرح تو فقیر بھی کٹیا کا دروازہ کھلا نہیں چھوڑتا مبادا ہر کتا بلی اندر آ کر برتن میں منہ نہ ڈال دے۔ اس طرح تو اپنے کپڑے گھر کی گیلری کی الگنی پر بھی نہیں سکھائے جاتے۔ اس طرح تو کوئی تھکا ہارا نوجوان گلی میں موٹرسائیکل کو بنا قفل بھی نہیں کھڑا کرتا۔ اس طرح تو کوئی کریانہ فروش دکان کھلی چھوڑ کے اذان کی آواز پر بھی نہیں دوڑتا۔ اگر ریاست چلانے والے ذہنی دیوالیہ پن میں مبتلا ہوں تو پھر ملک دیوالیہ ہو نہ ہو کیا فرق پڑتا ہے۔ جس ملک میں منظور شدہ پارلیمانی بل، خفیہ سفارتی کیبلز اور تحقیقاتی رپورٹوں کی اصل کاپی فائلوں سمیت اغوا ہونے کو بھی ایک عام خبر کی طرح بھلا دیا جائے وہاں ہاتھی کا سوئی کے ناکے سے گذر جانا بھی معمول کی اطلاع ہے۔
اب سب ایک دوسرے کے پیچھے گول گول بھاگ رہے ہیں کہ وزیرِ اعظم ہاؤس کی گفتگو کس نے کیسے لیک کی اور یہ غیر ذمہ دار ہاتھوں میں کس نے پہنچائی۔ چوری کی ایک ’چھوٹی سی واردات‘ جس کا خاتمہ امریکی صدر کے استعفے پر ہوا ان گول گول بھاگنے والے اداکاروں میں وہ بھی شامل ہیں جن کے بارے میں یہ کارستانی دکھانے کا شبہہ ہے اور وہ بھی شامل ہیں جو اس ملک میں آنے اور جانے والی تمام انٹرنیٹ ٹریفک کے ڈیٹا کیبلز پر سیندھ لگا کے بیٹھے ہیں اور انھیں فرداً فرداً ہر ہر عمارت، کمرے، لیپ ٹاپ اور موبائیل پر ’چور چپ‘ نصب کرنے کی اب حاجت ہی نہیں۔ پورے سکینڈل میں رسمی خانہ پری کے طور پر اتنا احتسابی ڈرامہ رچنے کا بھی امکان نہیں جو اس سے 99 فیصد کم اہم ڈان لیکس کے موقع پر رچایا گیا تھا۔ جس واردات میں چور، سپاہی اور تماشائی شامل ہوں وہ واردات نہیں رہتی سستے آرٹ کا نمونہ بن جاتی ہے۔
البتہ ایک فوری فائدہ ضرور ہوا۔ چور سپاہی کے تازہ تھیٹر کے سبب ریٹنگ گزیدہ کیمروں کا رخ ایک بار پھر ساڑھے تین کروڑ سیلاب زدگان کے حقیقی مصائب پر فوکس ہونے کے بجائے اسلام آباد کی علی بابائی غلام گردشوں کی جانب مڑ گیا۔انٹرویو لینے والا بھی پوچھ رہا ہے کہ اس سب کا ذمہ دار کون ہے اور انٹرویو دینے والا بھی پوچھ رہا ہے کہ یہ کس کی کارستانی ہے؟ اور جس گیری کیسپروف کی یہ کارستانی ہے وہ کہیں ٹھنڈے کمرے میں بساط سامنے دھرے ایک مہرے کو دوسرے سے پیٹنے کی مشقِ مسلسل میں ہے۔
ترک کہاوت ہے ’غلام کا غصہ غلام پر ہی نکلتا ہے۔‘
وسعت اللہ خان
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
Text
پاکستانی ماہی گیروں نے کراچی کے ساحل سے 'چینی' شخص کو بچا لیا: رپورٹ
پاکستانی ماہی گیروں نے کراچی کے ساحل سے ‘چینی’ شخص کو بچا لیا: رپورٹ
پاکستانی ماہی گیروں نے ایک چینی شہری کی جان بچائی (بائیں)۔ تصویر: dawn.com کراچی: پاکستانی ماہی گیروں کے ایک گروپ نے بدھ کے روز کراچی کے ساحل کے قریب بحیرہ عرب میں تیرتے ہوئے ایک لاوارث شخص کی جان بچائی جو بظاہر چینی شہری ہے۔ تفصیلات کے مطابق ماہی گیر اپنے ماہی گیری ٹرالر المدینہ میں ماہی گیری کی مہم پر تھے کہ انہوں نے صبح 9:30 بجے شہر کے کریک علاقوں کے قریب ایک نارنجی رنگ کی چمکیلی چیز کو سمندر…
View On WordPress
0 notes
Text
کراچی کے پانیوں میں چھ سال بعد دیوہیکل مانٹا نظر آیا #دلچسپوعجیب
New Post has been published on https://mediaboxup.com/%da%a9%d8%b1%d8%a7%da%86%db%8c-%da%a9%db%92-%d9%be%d8%a7%d9%86%db%8c%d9%88%da%ba-%d9%85%db%8c%da%ba-%da%86%da%be-%d8%b3%d8%a7%d9%84-%d8%a8%d8%b9%d8%af-%d8%af%db%8c%d9%88%db%81%db%8c%da%a9%d9%84-%d9%85/
کراچی کے پانیوں میں چھ سال بعد دیوہیکل مانٹا نظر آیا
جائنٹ مانتا چھ سال بعد کراچی کے سمندری پانیوں میں دیکھا گیا — WWF پاکستان
دیو مانتا کا آخری نظارہ اکتوبر 2016 میں چورنا جزیرے کے شمال میں سمندر کے کنارے کے پانیوں میں ہوا تھا۔
دو دیو ہیکل مانٹوں کو اب کراچی سے 50 ناٹیکل میل جنوب میں سمندری پانیوں میں دیکھا گیا تھا۔
شارک خاندان سے تعلق رکھنے کے باوجود، دیوہیکل مانٹا بے ضرر جانور ہیں جو چھوٹے کیکڑے کھاتے ہیں۔
کراچی: 5 مارچ کو بحیرہ عرب میں کراچی کے جنوب مغرب میں دو دیو ہیکل مانٹا، جو کہ شارک اور سٹنگرے کی رشتہ دار ہیں، کو تیراکی کرتے ہوئے ویڈیو بنایا گیا، یہ بات ورلڈ وائڈ فنڈ فار نیچر (WWF-Pakistan) کی جانب سے اتوار کو جاری کردہ ایک بیان میں کہی۔ .
یہ نسل، جسے حال ہی میں انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر (IUCN) نے “خطرے کے خطرے سے دوچار” قرار دیا ہے اور IUCN ریڈ لسٹ میں شامل کیا ہے، پاکستان میں عام طور پر پایا جاتا تھا، لیکن اب کم ہی نظر آتا ہے۔ دیو مانتا کا آخری نظارہ اکتوبر 2016 میں چورنا جزیرے کے شمال میں سمندر کے کنارے کے پانیوں میں ہوا تھا۔
دو دیو ہیکل مانٹوں کو اب کراچی سے 50 ناٹیکل میل جنوب میں سمندری پانیوں میں دیکھا گیا تھا۔ دو دیوہیکل مانٹا شعاعوں کو ایک ساتھ دیکھنا انتہائی نایاب ہے۔
شارک خاندان سے تعلق رکھنے کے باوجود، دیوہیکل مانٹا بے ضرر جانور ہیں جو چھوٹے کیکڑے کھاتے ہیں۔
پاکستان سے مانٹا شعاعوں کے غائب ہونے کے خوف سے، WWF-Pakistan نے 2016 میں انہیں خطرے سے دوچار انواع قرار دیا، اور صوبائی ماہی گیری کے محکموں نے انہیں مارنے اور فروخت کرنے پر پابندی لگا دی۔
WWF-پاکستان کے سینئر ڈائریکٹر تحفظ حیاتیاتی تنوع رب نواز نے کہا کہ ماہی گیری کی صنعت پر دباؤ کی وجہ سے پاکستان میں مانٹا شعاعوں کی آبادی خطرناک حد تک کم ہو رہی ہے۔
WWF-Pakistan کے ٹیکنیکل ایڈوائزر محمد معظم خان نے چرنا آئی لینڈ کو سمندری تحفظ یافتہ علاقہ (MPA) قرار دینے کی ضرورت پر زور دیا کیونکہ یہ جائنٹ مانٹا اور دیگر میگا فاونا (وہیل شارک، سن فش، وہیل اور ڈولفن) کے آخری ٹھکانے کے طور پر جانا جاتا ہے۔
Source link
0 notes
Text
پاک بحریہ کی جانب سے ماہی گیروں کی حفاظت یقینی بنانے کے لیے نقشوں کی تقسیم
پاک بحریہ کے جوائنٹ میری ٹائم انفارمیشن کوآرڈینیشن سینٹر میں پاکستان نیشنل ہائیڈروگرافک آفس، انسٹی ٹیوٹ آف میری ٹائم افیئرز اور ڈبلیو ڈبلیو ایف (پاکستان) کے تعاون سے ماہی گیروں میں مقامی سطح پر تیار کردہ ماہی گیری کے نقشے تقسیم کیے گئے۔نقشے خصوصی طور پر گوسٹ نیٹس کی شناخت کے لیے بنائے گئے ہیں تاکہ محفوظ ماہی گیری اور آبی حیات کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔ گھوسٹ نیٹس وہ جال ہیں جو سمندر میں غائب…
View On WordPress
0 notes
Text
ماہی گیری کے برآمد کنندگان $1b کا ہدف دیکھ رہے ہیں۔ ایکسپریس ٹریبیون
ماہی گیری کے برآمد کنندگان $1b کا ہدف دیکھ رہے ہیں۔ ایکسپریس ٹریبیون
بیجنگ: چین پاکستان آزاد تجارتی معاہدے کے دوسرے مرحلے کے تحت بیجنگ کو ماہی گیری کی مصنوعات کی برآمدات میں تیزی آئی ہے۔ کراچی کے فش ہاربر پر ایک سی فوڈ کمپنی کے پروسیسنگ پلانٹ میں کارکنان تازہ جھینگے کی درجہ بندی، صفائی اور پیکنگ میں مصروف ہیں۔ بیس دن بعد، تجارتی سامان کچھ چینی آبی منڈی میں اپنی ظاہری شکل بنائے گا۔ مچھلی سے لے کر جھینگے اور لوبسٹر تک، آبی مصنوعات کے لیے چینیوں کی بھوک 2013 سے کافی…
View On WordPress
0 notes