#Maulana Hadayatur Rehman
Explore tagged Tumblr posts
Text
ماہی گیر مولانا ہدایت الرحمٰن گوادری
نوجوانوں سے التماس ہے کہ اگر ممکن ہو تو اپنے قیمتی وقت میں سے چند منٹ نکال کر اِس تحریر کو ذرا غور سے ضرور پڑھیے اور خود سے سوال کیجیے کہ آپ کیا چاہتے ہیں؟ کیسا پاکستان چاہتے ہیں؟ کیسا لیڈر آپ کے خوابوں میں حقیقت کا رنگ بھر سکتا ہے؟ آپ جن لیڈروں کے کھوکھلے نعروں کے پیچھے ہلکان ہوئے جاتے ہیں، ایسی نفرتوں کو آگے بڑھاتے ہیں کہ ایک دوسرے کے گریبان پکڑنے سے بھی گریزاں نہیں ہوتے، احتجاج بھی ایسا کرتے ہیں کہ لاشیں گرتیں اور ماؤں کی گودیں اُجڑ جاتی ہیں لیکن مسائل جوں کے توں ہی رہتے ہیں۔ ہم سب کی یہی خواہش ہے کہ ہمارا پیارا پاکستان دنیا بھر میں تہذیب یافتہ اقوام کی صف میں کھڑا ہو۔ نفرتوں سے پاک پاکستان میری بھی خواہش ہے اور آپ کی بھی تو کیوں نہ ماضی سے سبق حاصل کر کے آگے بڑھیں۔ میری عرصہ سے خواہش تھی کہ کوئی ایک تو ایسا ہو جو اپنے لوگوں کے حقوق کے لیے حق سچ کی بات کہے اور میدانِ عمل میں آئے، جو ہم جیسا ہو، ہمارے دکھ درد سمجھنے والا، جسے ایک مثالی رول ماڈل لیڈر کے طور پر پیش کیا جا سکے کہ ایسا ہوتا ہے ایک سلجھا ہوا رہنما جو دلیل سے آپ کی بات حکمرانوں تک پہنچا سکے اور اس کی بات پر لاکھوں لوگ صدقِ دل سے آمین کہیں۔
سو ایک ملا ہے ماہی گیر مولانا ہدایت الرحمٰن گوادری۔ ذرا پڑھیے وہ کیا چاہتا ہے۔ ”ہم سی پیک کی مد میں کوئی موٹروے نہیں مانگ رہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ آپ گوادر، مکران کی سڑکوں پر سنگِ مر مر کی ٹائلیں لگا دیں۔ ہمارے بلاک سونے کے بنا دیں۔ ہمیں محلات، ایک کروڑ نوکریاں دے دیں۔ ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ جو قدرت کی طرف سے ساڑھے سات سو کلو میٹر طویل ساحل ہے جس سے ہزاروں سال سے ہمارے آباؤ اجداد روزگار حاصل کرتے تھے، خوش حالی کی زندگی گزار رہے تھے، بدقسمتی سے چند برسوں سے وفاقی و صوبائی حکومت کی سرپرستی میں ہزاروں کی تعداد میں ٹرالر مافیا سمندری حیات کی نسل کشی کر رہا ہے۔ غیرقانونی ماہی گیری کے لیے ممنوعہ جال استعمال کیے جارہے ہیں جس کی وجہ سے مچھلیاں نایاب ہو گئی ہیں اُن کی نسلیں ختم کر دی گئی ہیں جس کی وجہ سے لاکھوں ماہی گیر متاثر ہو رہے ہیں۔ ہمارا یہی مطالبہ ہے کہ ہم سمندر میں مزدوری کرتے ہیں، حکمران ٹیکس مانگتے ہیں تو ہم ٹیکس دیں گے، پیسے مانگتے ہیں تو ہم دینے کو تیار ہیں۔ حکومت ہمیں پیسے نہ دے، ہم حکومت کو پیسے دے دیتے ہیں لیکن خدارا ہمارا روزگار ہم سے نہ چھینا جائے۔
دوسرا یہ کہ بلوچستان کے 5اضلاع ایران کے بارڈر پر ہیں۔ ایران ہمارا برادر اسلامی ملک ہے۔ ایران سے اشیائے خورونوش آتی ہیں۔ ان اضلاع کو ایران بجلی، گیس اور روزمرہ کی ضروریاتِ زندگی فراہم کرتا ہے۔ ایرانی بارڈر کی بندش کی وجہ سے لاکھوں افراد متاثر ہوئے ہیں۔ اگر سیکورٹی ضروری ہے تو ضرور فراہم کریں۔ ہم اس کے خلاف نہیں ہیں لیکن آزادانہ باعزت روزگار کی فراہمی بھی سرکار اور ریاست کی ذمہ داری ہے۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ اس حوالے سے اقدامات کیے جائیں۔ تیسرا چیک پوسٹوں کا مسئلہ ہے۔ ہم تو سی پیک سے یہ توقع لگائے بیٹھے تھے کہ گوادر پورٹ، سی پیک روڈ سے ہمیں روزگار ملے گا، تعلیم ملے گی، اسپتال ملیں گے، ہماری زندگی اچھی ہو جائے گی۔ ہمیں علاج کے لیے کراچی نہیں جانا پڑے گا۔ ہمیں یہ تمام سہولتیں یہاں ملیں گی لیکن سی پیک سے ہمیں صرف چیک پوسٹیں ملیں۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ یہاں لاکھوں لوگ احتجاج کر رہے ہیں لیکن ایک پتھر بھی نہیں ہلا، پاکستان کے حکمران دیکھ لیں ہماری ریلی ناراض بلوچوں کی ریلی ہے جو حکمرانوں اور نظام کے خلاف ہے۔
ہم ریاستِ پاکستان کے خلاف نہیں۔ ہم آئینِ پاکستان کے دائرے میں رہتے ہوئے مطالبہ کر رہے ہیں، ہم سی پیک اور ترقی کے خلاف بھی نہیں لیکن ہمیں اس سے کیا ملا؟ علاج معالجے کے لیے ایک بھی اسپتال نہیں ملا، ہماری عزتِ نفس کو مجروح کیا جارہا ہے۔ بلوچستان کو تعلیمی اداروں کی ضرورت ہے۔ یہاں تعلیمی اداروں کے لیے ٹیچر مانگنا جرم بن گیا ہے۔ حق کی بات کرتے ہیں تو غداری کے سرٹیفکیٹ سے نوازا جاتا ہے۔ بتایا جائے کہ حب الوطنی کے سرٹیفکیٹس کہاں سے ملیں گے؟ اہلِ بلوچستان اپنا جائز حق مانگ رہے ہیں۔ ریاستِ پاکستان میں اگر حق مانگنا جرم ہے تو ہم یہ جرم کرتے رہیں گے۔ ہم محبِ وطن شہری ہیں، ہمارا احتجاج پُرامن ہے۔ اس پُرامن احتجاج کو دیکھ کر ذرا بتائیے کہ یہ حب الوطنی ہے یا غداری ؟ ہمارا نوجوان غدار نہیں، ہمارے مطالبات میں ایسا کیا ہے جو ہمیں غدار کہا جارہا ہے؟ ایک شہری کے جو حقوق ہیں، ہم وہی مانگ رہے ہیں۔ کیا بارڈر مافیا کو لگام دینا کوئی جرم ہے۔ ہمارے دس ہزار نوجوان منشیات میں ڈوبے ہوئے ہیں، کیا انہیں سیدھا راستہ دکھانا جرم ہے؟
منشیات فروش محبِ وطن، ہمارے ماہی گیر دہشت گرد، کلبھوشن کے دہشت گرد ہونے کے باوجود اس کی رہائی کے لیے تو راستے تلاش کیے جاتے ہیں لیکن غداری کے الزامات ہم محب وطنوں کے لیے ہیں؟ ہم اس رویے کے خلاف ہیں۔ بلوچستان پاکستان کا ایک صوبہ ہے، کوئی کالونی نہیں۔ حق بات نہ کریں، انصاف نہ مانگیں تو ہمیں بتایا جائے کہ ہم کیا کریں؟“۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ ایک ماہی گیر نے مقامی لوگوں کے بنیادی مسائل کے حل کے لیے ایسی پُرامن ”حق دو“ تحریک چلائی جس میں لاکھوں ماہی گیر، مزدور، طلبہ و طالبات، بلوچ خواتین سمیت تمام شہریوں نے گزشتہ ایک ماہ سے دھرنا دیا ہوا ہے، کوئی توڑ پھوڑ ہوئی نہ جلاؤ گھیراؤ، یہ لوگ اقتدار مانگتے ہیں نہ ہی اعلیٰ سیاسی عہدہ تو پھر انہیں ان کا جائز حق کیوں نہیں دیا جارہا؟ ریاست اگر ماں کے جیسی ہے تو پھر ان کو جائز حق کیوں نہیں دیتی؟ آج گوادر ہی نہیں پورا پاکستان اس آواز میں اپنی آواز شامل کر رہا ہے۔
عرفان اطہر قاضی
بشکریہ روزنامہ جنگ
1 note
·
View note
Text
گوادر کا مقدمہ
گوادر خطرہ کی گھنٹیاں بجا رہا ہے، لیکن ہمارے ملک کی سیاسی قیادت کا عمومی رویہ افسوسناک ہے۔ صرف جماعت ا سلامی ملک کی واحد سیاسی جماعت ہے۔ جو گوادر کے حوالے سے بات کر رہی ہے۔ جس کی سیاسی قیادت، امیر العظیم اور سراج الحق، گوادر پہنچی ہے۔ اسی کے ساتھ جماعت اسلامی نے یوم یکجہتی بلوچستان بھی منایا ہے۔ گوادر میں کیا ہو رہا ہے۔ یہ لاہور کراچی اور اسلام آباد میں بیٹھ کر سمجھنا بہت مشکل ہے۔ میں نے جماعت اسلامی کے سیکریٹری جنرل امیر العظیم سے ملاقات کے لیے وقت مانگا تا کہ ان سے گوادر کے حالات جان سکوں۔ وہ حال ہی میں احتجاجی مظاہروں میں شرکت کے لیے گوادر گئے تھے۔ امیر العظیم سے میں نے پوچھا کہ بڑا مسئلہ کیا ہے۔ انھوں نے کہا آپ سمجھ نہیں رہے۔ گوادر اور اردگرد کے علاقے جنھیں ہم مکران ضلع کہتے ہیں کے عوام کا بنیادی روزگار کیا ہے۔ وہاں کے لوگوں کو بنیادی طور پر دو طریقوں سے روزگار ملتا ہے۔ پہلا ماہی گیری ہے۔ سمندر مکران ضلع کے لوگوں اور گوادر کے لوگوں کے روزگار کا بنیادی ذریعہ ہے۔ اگر گوادر کے لوگوں سے ان کا سمندر ہی چھین لیا جائے گا تو وہ کیا کریں گے۔ میں نے کہا کیا مطلب۔
انھوں نے کہا اس وقت گوادر کے ساحلوں پر غیر قانونی ٹریلر کے ذریعے مچھلی اور سمندری حیات کا شکار کیا جا رہا ہے۔ ان غیر قانونی ٹریلر کی وجہ سے ایک طرف تو سمندری حیات ختم ہو رہی ہیں دوسری طرف مقامی لوگوں کی ماہی گیری کی صنعت ختم ہو رہی ہے۔ آپ کو اندازہ نہیں ہے جو لوگ کئی نسلوں سے سمندر سے رزق کما رہے ہیں وہ ایک غیر قانونی مافیا کے ہاتھوں اپنے رزق سے محروم ہو گئے ہیں۔ اس لیے گوادر میں جو ہو رہا ہے اس کو لوگوں کے روزگار کی نظر سے دیکھیں۔ امیر العظیم کی اس بات میں وزن ہے کہ گوادر کی سڑکوں پر ہزاروں لوگوں کے مظاہروں کو بیرونی سازش قرار دینے کی بجائے اس کی بنیاد پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ سوال یہ نہیں ہے کہ گوادر کی سڑکوں پر عورتوں، بچوں اور نوجوانوں کو کون لایا ہے۔ سوال یہ ہے کہ سمندر میں جو مافیا کام کر رہا ہے۔ وہ کون ہے۔ اس کو کس کی سرپرستی حاصل ہے۔ ان کو آج بھی مظاہرین پر الزام تراشی کر کے بچانے کی کوشش کون کر رہا ہے۔
میں نے کہا سمندر سے مچھلی پکڑنا کیسے غیر قانونی ہے۔ امیر العظیم نے کہا یہ بڑے بڑے ٹریلر کھلے پانی سے مچھلی پکڑیں۔ ساحل کے ساتھ تو مقامی لوگ پکڑتے ہیں جن کے پاس چھوٹی کشتیاں ہیں جو بڑے پانی میں نہیں جاتیں۔ ہم گوادر کو روزگار دینے کی بجائے ان سے روزگار چھین رہے ہیں۔ اور پھر یہ چاہتے ہیں کہ وہ خاموش بھی رہیں۔ یہ ایک مضحکہ خیز بات ہے۔ میں نے کہا یہی ایک بات ہے انھوں نے کہا نہیں وہاں کے لوگوں کے روزگار کا دوسرا بڑا ذریعہ ایران سے تجارت ہے۔ یہ سرحدی تجارت ہے۔ جو لوگ مکران نہیں گئے انھیں اندازہ نہیں۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ وہاں روزمرہ استعمال کی بنیادی چیزیں بھی ایران سے آتی ہیں۔ صابن سے لیکر کھانے پینے کی تمام چیزیں ایران سے آتی ہیں۔ یہی تجارت وہاں روزگار کا دوسرا بڑا ذریعہ ہے۔ کیا ارباب پاکستان کو اندازہ نہیں ہے کہ سرحد بند کرنے سے لوگ بھوکے مر رہے ہیں۔ ایک طرف آپ افغان سرحد کے ساتھ تجارت کی اس لیے اجازت دیتے ہیں کہ سرحد کے ساتھ رہنے والے لوگوں کا روزگار ہے۔
دوسری طرف آپ وہی حق مکران کے لوگوں کو دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ کیا اس لیے کہ مکران کے لوگ پر امن ہیں۔ میں نے کہا امیر العظیم صاحب! اس ملک کو کسی نظام سے چلانا ہے۔ جماعت اسلامی اسمگلنگ کی اجازت کی بات کر رہی ہے۔ امیر العظیم نے کہا نہیں ہم کہہ رہے ہیں جو حق افغان سرحد کے ساتھ رہنے والے قبائلی علاقوں کو حاصل ہے وہی حق مکران کے اضلاع کے لوگوں کو ملنا چاہیے۔ اس لیے جماعت اسلامی اس کو بھی کوئی غلط مطالبہ نہیں سمجھتی۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ روزگار کے مواقعے دینا ریاست کا کام ہے۔ روزگار کے مواقعے بند کرنا ریاست کا کام نہیں ہے۔ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایران سے آنے والی اشیا مکران ضلع سے باہر نہیں جا سکتیں۔ قبائلی علاقوں میں بھی یہی قانون ہے۔ لیکن مکران کی حد تک اجازت دینا ہو گی۔ ورنہ وہاں لوگوں میں اضطراب بڑھے گا۔ امیر العظیم کی اس بات میں بھی وزن ہے کہ مکران میں بجلی بھی ایران سے آتی ہے۔ اور وہ صرف دن مین چار گھنٹے آتی ہے۔
آپ گوادر میں کیسے سی پیک بنا سکتے ہیں جب وہاں بجلی اور پینے کا صاف پانی ہی نہیں ہے۔ سڑکیں بنانے پر تو پیسے لگا رہے ہیں۔ لیکن گوادر کے عوام کو بجلی پانی دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ویسے تو گوادر اور پورے مکران ضلع کو نیشنل گرڈ سے جوڑ کر بجلی دی جائے اور اگر پاکستان کی بجلی گوادر کو نہیں دینی تو ایران سے ہی پوری بجلی لیکر دی جائے۔ گوادر کو اندھیروں میں رکھ کر پاکستان میں اجالوں کے خواب نہیں بنا سکتے۔ امیر العظیم کا یہ موقف بھی درست ہے کہ پاکستان کی سیاسی قیادت کو فوری طور پر گوادر جانا چاہیے تا کہ وہاں کے لوگوں کو احساس ہو کہ پاکستان کی سیاسی قیادت ان کے ساتھ کھڑی ہے۔ وہاں جانے سے لوگوں کو روکنا ملکی مفاد میں نہیں ہے بلکہ ریاست کو چاہیے کہ سب کو وہاں جانے دے۔ انھوں نے بتایا کہ وہ بھی بہت مشکل سے گوادر پہنچے تھے۔ فلائٹ پر نہیں گئے۔ پہلے بذریعہ سڑک کوئٹہ گئے پھر وہاں سے گوادر گئے۔ 28 گھنٹے کا راستہ ہے۔ لیکن وہاں سیاسی جدو جہد کو شک کی نگاہ سے دیکھنے سے حالات خراب ہونگے۔
سیاسی جماعتوں کو کام کرنے سے روکنے سے دوسرے عناصر آجاتے ہیں۔ جماعت اسلامی نے انتہائی نامناسب حالات میں وہاں کام کیا ہے۔ ہمارے لوگ بھی مسنگ ہوتے ہیں لیکن یہ افسوسناک ہے۔ انھوں نے بتایا کہ وہاں عام آدمی سڑکوں پر ہے اور ہم توجہ نہیں دے رہے۔ گوادر کے عوام پاکستان کو پکار رہے ہیں۔ اور پاکستان ان کی بات نہیں سن رہا۔ وزیر اعظم عمران خان کو معلوم ہونا چاہیے کہ وہاں بجلی پانی نہیں تو انٹرنیٹ کیسے ہو گا۔ ان کا ٹوئٹ لوگوں تک کیسے پہنچے گا۔ اس لیے انھیں خود وہاں جانا ہو گا۔ جب حالات بہت خراب ہو جائیں گے تو جانے کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہو گا۔ مکران کے لوگوں کی بات آج نہیں سنی گئی تو کل وہ آپ کی بات نہیں سنیں گے۔ آج ہم ان کی بات سنیں گے تو کل وہ ہماری بات سنیں گے۔ ورنہ دیر ہو جائے گی۔ یہ ٹریلر مافیا پاکستان سے اہم نہیں۔ یہ جو بھی لوگ ہیں۔ یہ پاکستان کے دوست نہیں۔ ان کے سرپرست بھی پاکستان کے دوست نہیں ہیں۔ ویسے یہ سوال بھی اہم ہے کہ اگر لینڈ مافیا پاکستان کا دوست ہے تو ٹریلر مافیا بھی پاکستان کا دوست ہی ہوا۔ لیکن گوادر کے لوگ تو پاکستان کے لینڈ مافیا کے ہاتھوں پہلے ہی لٹ چکے ہیں۔ اب ان کے پاس مزید کچھ کھونے کی گنجائش نہیں۔ ہم ان کی زمینیں ان سے اونے پونے پہلے ہی خرید چکے ہیں، اب وہ زمینیں بھی ان کے پاس نہیں ہیں۔
مزمل سہروردی
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes