#لوٹ مار
Explore tagged Tumblr posts
dr-jan-baloch · 1 month ago
Text
صبح نئی پر خبر وہی مقبوضہ بلوچستان کے ضلع ڈیرہ بگٹی میں قابض پنجابی ریاست کے دہشتگرد فورسز کا گھروں میں لوٹ مار اور چھاپے، تین افراد جواھو ولد بری بگٹی،جونا ولد نوکاف بگٹی ,سکندر ولد عجب خان بگٹی جبری لاپتہ۔ سالوں سے جبری گمشدگی کا چلنے والا یہ غیر انسانی سلسلہ آخر کب بند ہوگا ؟
‎#EndEnforcedDisappearances
#ReleaseAllBalochMissingPersons
#StopBalochGenocide
#OccupiedBalochistan
#BalochistanIsNotPakistan
#pakistanaterroristcountry
0 notes
googlynewstv · 2 months ago
Text
فلسطینیوں کو بھیجی جانیوالی عالمی امداد میں لوٹ مار
اسرائیل میں آبادافراد نے نسل کشی کے شکار غزہ کےباسیوں کو بھیجی جانےوالی عالمی امداد لوٹنا شروع کردی۔ اقوام متحدہ کی ریلیف ایجنسی انروا کےمطابق غذائی سامان سے بھرے اقوام متحدہ کے 109 ٹرک لوٹ لیےگئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق لوٹی گئی امدادکے 97 ٹرکوں کا پتہ ہی چلایا نہ جاسکا ان ٹرکوں کے ڈرائیوروں کو بندوق کی نوک پر ٹرک خالی کرنےکا حکم دیا گیا تھا، امدادی گاڑیوں کو دستی بموں کا بھی نشانہ بنایاگیا۔ بیروت…
0 notes
topurdunews · 2 months ago
Text
گھروں میں گھس کر عورتوں کے سر کو نشانہ بنانے والا ملزم گرفتار
نئی دہلی (ویب ڈیسک) راتوں کو گھروں میں گھس کر خواتین کے سروں نشانہ بنا کر ان سے لوٹ مار کرنے والا ملزم پولیس کے ہتھے چڑھ گیا۔ بھارتی میڈیا کے مطابق ریاست اتر پردیش کے علاقے گورکھپور میں پولیس نے اجے نشاد نامی ملزم کو گھروں میں سوئی ہوئی خواتین کو نشانہ بنانے اور ان پر حملہ کرنے کے الزام میں گرفتار کرلیا۔رپورٹ کے مطابق چار ماہ کے دوران پانچ واقعات رپورٹ ہوئے، جس کے نتیجے میں ایک موت اور چار زخمی…
0 notes
emergingkarachi · 2 months ago
Text
کراچی میں نئی بسوں کی آمد؟
Tumblr media
بہت دیر کی مہرباں آتے آتے ۔ میں نے اپنی صحافت کا آغاز ہی بلدیاتی رپورٹنگ سے کیا تھا۔ اُس زمانے میں شام کے اخبارات شہری مسائل پر زیادہ توجہ دیتے تھے چاہے وہ پانی کا مسئلہ ہو، ٹرانسپورٹ کے مسائل ہوں یا شہر کا ’’ماسٹر پلان‘‘۔ کرائمز کی خبریں اس وقت بھی سُرخیاں بنتی تھیں مگر اُن کی نوعیت ذرا مختلف ہوتی تھی۔ مجھے میرے پہلے ایڈیٹر نے ’’ٹرانسپورٹ‘‘ کی خبریں لانے کی ذمہ داری سونپی، ساتھ میں کرائمز اور کورٹ رپورٹنگ۔ اب چونکہ خود بھی بسوں اور منی بسوں میں سفر کرتے تھے تو مسائل سے بھی آگاہ تھے۔ یہ غالباً 1984ء کی بات ہے۔ جاپان کی ایک ٹیم شہر میں ان مسائل کا جائزہ لینے آئی اور اُس نے ایک مفصل رپورٹ حکومت سندھ کو دی جس میں شہر میں سرکلر ریلوے کی بہتری کیساتھ کوئی پانچ ہزار بڑے سائز کی بسیں بشمول ڈبل ڈیکر لانے کا مشورہ دیا اور پرانی بسوں اور منی بسوں کو بند کرنے کا کیونکہ ان کی فٹنس نہ ہونے کی وجہ سے شدید آلودگی پھیل رہی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب غالباً ٹرام یا تو ختم ہو گئی تھی یا اُسے بند کرنے کی تیاری ہو رہی تھی۔ اُس وقت کراچی ٹرانسپورٹ اتحاد کے سربراہ چوہدری اسماعیل ہوتے تھے جن کے ماتحت کئی پرائیویٹ بسیں ��لتی تھیں اور اُن کی گہری نظر تھی۔ اِن مسائل پر وہ اکثر کہتے تھے ’’ شہر جس تیزی سے پھیل رہا ہے ہم نے اس لحاظ سے ٹرانسپورٹ کا مسئلہ حل نہ کیا تو بات ہاتھوں سے نکل جائے گی‘‘۔
کوئی چالیس سال بعد مجھے یہ نوید سُنائی جا رہی ہے کہ اب انشا ءالله کئی سو نئی بسیں اور ڈبل ڈیکر بسیں بھی آرہی ہیں۔ مگر مجھے خدشہ ہے کے اِن ٹوٹی ہوئی سڑکوں پر یہ بسیں کیسے چلیں گی مگر خیر اب یہ بسیں آ رہی ہیں لہٰذا ان کا ’’خیر مقدم‘‘ کرنا چاہئے۔ میں نے حیدر آباد اور کراچی میں ڈبل ڈیکر بسوں میں سفر کیا ہے پھر نجانے یہ کیوں بند کر دی گئیں۔ ایک مضبوط کراچی ٹرانسپورٹ کارپوریشن کے تحت بڑی بڑی بسیں چلا کرتی تھیں جن کے شہر کے مختلف علاقوں میں ٹرمینل ہوتے تھے۔ اس کے اندر جس طرح لوٹ مار کی گئی اُس کی کئی خبریں میں نے ہیڈ لائن میں دی ہیں اور اچانک یہ بند ہو گئیں کیوں اور کیسے؟ پھر وہ بسیں کہاں گئیں ٹرمینلز کی زمینوں کا کیا بنا۔ ایسا ہی کچھ حال سرکلر ریلوے کا ہوا ورنہ تو یہ ایک بہترین سروس تھی، اب کوئی دو دہائیوں سے اس کی بحالی کی فائلوں پر ہی نجانے کتنے کروڑ خرچ ہو گئے۔ اس سارے نظام کو بہتر اور مربوط کیا جاتا تو نہ آج کراچی کی سڑکوں پر آئے دن ٹریفک جام ہوتا نہ ہی شہر دنیا میں آلودگی کے حوالے سے پہلے پانچ شہروں میں ہوتا۔
Tumblr media
قیام پاکستان کے بعد بننے والا ’’کراچی ماسٹر پلان‘‘ اُٹھا لیں اور دیکھیں شہر کو کیسے بنانا تھا اور کیسا بنا دیا۔ ماسٹر پلان بار بار نہیں بنتے مگر یہاں تو کیونکہ صرف لوٹ مار کرنا تھی تو نئے پلان تیار کئے گئے۔ میں نے دنیا کے کسی شہر میں اتنے بے ڈھنگے فلائی اوور اور انڈر پاس نہیں دیکھے جتنے اس معاشی حب میں ہیں۔ عروس البلاد کراچی کی ایک دکھ بھری کہانی ہے اور یہ شہر ہر لحاظ سے اتنا تقسیم کر دیا گیا ہے کہ اسکی دوبارہ بحالی ایک کٹھن مرحلہ ہے۔ تاہم خوشی ہے کہ وزیر اطلاعات نے رنگ برنگی اے سی بسیں لانے کا وعدہ کیا ہے جن کا کرایہ بھی مناسب اور بکنگ آن لائن۔ یہ سب کراچی ماس ٹرانسزٹ کا حصہ تھا جو کوئی 30 سال پہلے بنایا گیا تھا۔ اُمید ہے یہ کام تیزی سے ہو گا کیونکہ جو حال پچھلے پانچ سال سے کراچی یونیورسٹی روڈ کا ہے اور وہ بھی ایم اے جناح روڈ تک، اللہ کی پناہ۔ شہر کی صرف دو سڑکیں ایم اے جناح روڈ اور شاہراہ فیصل، چلتی رہیں تو شہر چلتا رہتا ہے۔ حیرت اس بات کی ہے کہ چند سال پہلے ہی جیل روڈ سے لے کر صفورہ گوٹھ تک جہاں جامعہ کراچی بھی واقع ہے ایک شاندار سڑک کوئی ایک سال میں مکمل کی گئی، بہترین اسٹریٹ لائٹس لگائی گئیں جس پر ایک ڈیڑھ ارب روپے لاگت آئی اور پھر... یوں ہوا کہ اس سڑک کو توڑ دیا گیا۔ اب اس کا حساب کون دے گا۔ 
اگر ایک بہتر سڑک بن ہی گئی تھی تو چند سال تو چلنے دیتے۔ ہمیں تو بڑے پروجیکٹ بنانے اور چلانے بھی نہیں آتے صرف ’’تختیاں‘‘ لگوا لو باقی خیر ہے۔ دوسرا بسوں کا جال ہو یا پلوں کی تعمیر یہ کام دہائیوں کو سامنے رکھتے ہوئے کئے جاتے ہیں اس شہر کا کھیل ہی نرالا ہے یہاں پلان تین سال کا ہوتا ہے مکمل 13 سال میں ہوتا ہے۔ میں نے کئی بار شرجیل میمن صاحب کو بھی اور خود وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ صاحب کو بھی کہا کہ سڑکوں کا کوئی بڑا پروجیکٹ ہو، کوئی فلائی اوور یا انڈر پاس تو سب سے پہلے سائیڈ کی سڑکوں کو اور متبادل راستوں کو بہتر کیا جاتا ہے اور سڑکوں کی تعمیر یا مرمت سے پہلے متعلقہ اداروں سے پوچھا جاتا ہے کہ کوئی لائن و غیرہ تو نہیں ڈالنی؟ یہاں 80 فیصد واقعات میں واٹر بورڈ، سوئی گیس اور کے الیکٹرک والے انتظار کرتے ہیں کہ کب سڑک بنے اور کب ہم توڑ پھوڑ شروع کریں۔ اب دیکھتے ہیں ان نئی بسو ں کا مستقبل کیا ہوتا ہے کیونکہ 70 فیصد سڑکوں کا جو حال ہے ان بسوں میں جلد فٹنس کے مسائل پیدا ہونگے۔ مگر محکمہ ٹرانسپورٹ ذرا اس کی وضاحت تو کرے کہ چند سال پہلے جو نئی سی این جی بسیں آئی تھیں وہ کہاں ہیں کیوں نہیں چل رہیں اور ان پر لاگت کتنی آئی تھی۔ 
اگر یہ اچھا منصوبہ تھا تو جاری کیوں نہ رکھا گیا اور ناقص تھا تو ذمہ داروں کو سزا کیوں نہ ملی۔’’خدارا‘‘، اس شہر کو سنجیدگی سے لیں۔ ریڈ لائن، اورنج لائن، گرین لائن اور بلیو لائن شروع کرنی ہے تو اس کام میں غیر معمولی تاخیر نہیں ہونی چاہئے مگر اس سب کیلئے ٹریک بنانے ہیں تو پہلے سائیڈ ٹریک بہتر کریں ورنہ ایک عذاب ہو گا، یہاں کے شہریوں کیلئے بدترین ٹریفک جام کی صورت میں۔ سرکلر ریلولے بحال نہیں ہو سکتی اس پر پیسہ ضائع نہ کریں۔ اس کی وجہ سرکار بہتر جانتی ہے۔ جب بھی میں یا کوئی شہر کے مسائل کے حل کے اصل مسئلے پر آتا ہے تو اُسے سیاسی رنگ دے دیا جاتا ہے۔ کنٹونمنٹ بورڈ اور ڈیفنس والے بھی خوش نہیں ہوتے ایک ’’میٹرو پولیٹن سٹی‘‘، ایک میئر کے انڈر ہوتی ہے۔ اُس کی اپنی لوکل پولیس اور اتھارٹی ہوتی ہے۔ کیا وقت تھا جب ہم زمانہ طالب علمی میں نارتھ ناظم آباد کے حسی�� ڈسلوا ٹائون کی پہاڑیوں پر جایا کرتے تھے، ہاکس بے ہو یا سی ویو پانی اتنا آلودہ نہ تھا، بو نہیں مٹی کی خوشبو آتی تھی۔ جرم و سیاست کا ایسا ملاپ نہ تھا۔ اس شہر نے ہم کو عبدالستار ایدھی بھی دیئے ہیں اور ادیب رضوی بھی۔ اس شہر نے سب کے پیٹ بھرے ہیں اور کچھ نہیں تو اس کو پانی، سڑکیں اور اچھی بسیں ہی دے دو۔ دُعا ہے نئی بسیں آئیں تو پھر غائب نہ ہو جائیں، نا معلوم افراد کے ہاتھوں۔
مظہر عباس
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
urdu-poetry-lover · 4 months ago
Text
یہ مزاج ِیار کو کیا ہوا انھیں مجھ سے پیار ہے آج کل
میری جستجو میری گفتگو میرا انتظار ہے آج کل
تیرے خطوط نکالنا کبھی دیکھنا کبھی چومنا
یہی مشغلہ یہی سلسلہ یہی کاروبار ہے آج کل
نہ اکیلا گھر سے نکل میاں ذرا دیکھ بھال کے چل میاں
بڑی ابتری، بڑی رہزنی، بڑی لوٹ مار ہے آج کل
اِسے قتل کر اُسے قتل کر تجھے سات خون معاف ہیں
تیری سلطنت، تیرا دبدبہ، تیرا اقتدار ہے آج کل
ارے کیف کل تو تُو رند تھا میرے یار تجھ کو کیا ہوا
بڑا مذہبی، بڑا پارسا، بڑا دین دار ہے آج کل
کیف بھوپالی
0 notes
emergingpakistan · 5 months ago
Text
کون جال میں پھنسا ؟ حماس یا اسرائیل ؟
Tumblr media
سات اکتوبر سے پہلے تک اسرائیلی فوج اس عسکری ڈاکٹرائن کے تحت مشقیں کرتی رہی کہ اس پر بیک وقت چہار جانب سے عرب ممالک کی افواج چڑھ دوڑی ہیں اور اب اپنی بقا کے لیے کیا فوجی حکمتِ عملی اپنانی ہے ؟ انیس سو اڑتالیس انچاس میں ایسا ہی ہوا جب نوزائیدہ اسرائیلی ریاست نے عرب ممالک کی مشترکہ فوج کی پیش قدمی کامیابی سے روک دی۔ جون انیس سو سڑسٹھ میں بھی اسرائیل نے پہل کر کے صرف پانچ دن میں مصر ، شام اور اردن کی اجتماعی عددی برتری چت کر دی۔ اکتوبر انیس سو تہتر میں اسرائیل کو سرپرائز ملا جب مصر اور شام نے اچانک دو طرفہ حملہ کر دیا۔ مگر ایک ہفتے کے اندر اسرائیل سنبھل گیا اور اس نے بھرپور امریکی مدد سے عرب پیش قدمی کو بیچ میں ہی روک دیا۔ انیس سو بیاسی میں اسرائیل نے بیروت سے پی ایل او کو لبنانی فلانجسٹوں کی مدد سے کامیابی سے کھدیڑ دیا اور لبنان کی جنوبی پٹی کو اگلے اٹھارہ برس تک بطور بفر زون استعمال کرتا رہا۔ اسرائیل نے اس دوران اپنی طفیلی ساؤتھ لبنان آرمی بھی تشکیل دے دی۔ مگر مئی دو ہزار میں اسرائیل ایران و شام کی حمایت یافتہ حزب اللہ ملیشیا کے بڑھتے ہوئے دباؤ کی تاب نہ لا سکا۔ اسے عجلت میں جنوبی لبنان کی پٹی چھوڑنا پڑی۔ ساؤتھ لبنان آرمی کا وجود بھی اسرائیلی پسپائی کے ساتھ تحلیل ہو گیا۔اٹھارہ برس کے قبضے کی قیمت ایک ہزار اسرائیلی فوجیوں کی موت کی صورت میں چکانی پڑی۔
جولائی دو ہزار چھ میں جب حزب اللہ نے ایک شبخون میں چار اسرائیلی فوجی ہلاک اور دو اغوا کر لیے تو اسرائیل نے حزب اللہ کو مزہ چکھانے کے لیے جنوبی لبنان میں بھرپور فضائی و بری کارروائی شروع کی مگر الٹا لینے کے دینے پڑ گئے جب حزب اللہ کے راکٹ اور میزائل شمالی اسرائیل کے سرحدی قصبوں کے اوپر سے گزرتے ہوئے تل ابیب اور حیفہ پر گرنے لگے۔ اسرائیل سوائے اس کے کچھ نہ کر سکا کہ حزب اللہ کو برابر کا فریق سمجھ کر جنگ بندی پر راضی ہو کر اس کمبل سے عارضی طور پر جان چھڑا لے۔ حزب اللہ وقت کے ساتھ ساتھ اور طاقت پکڑتی گئی اور آج یہ حال ہے کہ سات اکتوبر کے بعد سے شمالی اسرائیل مسلسل حزب اللہ کے راکٹوں کی زد میں ہے۔ تقریباً دو لاکھ اسرائیلی شہری گھر بار چھوڑ کے نقل مکانی کر چکے ہیں اور غزہ میں الجھنے کے سبب اسرائیل حزب اللہ سے ایک اور بھرپور جنگ شروع کرنے کا خطرہ مول لیتے ہوئے ہچکچا رہا ہے۔ اس کی جوابی کارروائیاں محض فضائی حملوں اور حزب اللہ کمانڈروں کو انفرادی طور پر ہدف بنانے تک محدود ہیں۔ اسرائیل کے ملٹری ڈاکٹرائن میں فلسطینی کبھی بھی ایسی عسکری قوت کے طور پر نہیں دیکھے گئے جن سے اسرائیل کو بقائی خطرہ محسوس ہو۔ بلکہ اسرائیلی نصاب میں فلسطینیوں کو ایک پسماندہ نیم انسان کی شکل میں ہی پیش کیا گیا جو محض دہشت گرد ہیں اور کوئی بھرپور جنگ لڑنے کے اہل نہیں۔
Tumblr media
چنانچہ اسرائیلی فوج کو شہری علاقوں میں ایک بھرپور مزاحمتی شورش سے نمٹنے کی کوئی تربیت نہیں دی گئی۔ اسے فلسطینیوں کو دبانے کے لیے ہمیشہ ایک پولیس فورس کی طرح استعمال کیا گیا۔ اسرائیل کی باقاعدہ بری فوج محض سوا لاکھ سپاہیوں پر مشتمل ہے۔ جب کہ باقی فوجی طاقت ہر بالغ اور اہل شہری کے لیے تین برس کی لازمی فوجی خدمات کے قانون کے تابع ہے۔ ان میں سے زیادہ تر بس تین برس کی لازمی مدت پوری کر کے اپنے شعبوں اور اداروں میں لوٹ جاتے ہیں اور بہت کم مستقل فوجی ملازمت اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ اس پس منظر کے ساتھ اسرائیلی اسٹیبلشمنٹ کبھی تصور ہی نہیں کر سکتی تھی کہ حماس یا اسلامی جہاد جیسی تنظیمیں محض اکادکا گھریلو ساختہ راکٹ چلانے کے سوا اسرائیل کو کوئی بڑا نقصان پہنچا سکتی ہیں یا کبھی اتنی طاقت ور ہو سکتی ہے کہ اسرائیل کے اندر گھس کے کوئی بھرپور پروفیشنل فوجی مشن انجام دے سکیں۔ اسرائیل کو ماضی میں الفتح ، پاپولر فرنٹ یا دیگر مسلح فلسطینی تنظیموں کے اتحاد پی ایل او کا تجربہ تھا۔ اسے اچھے سے معلوم تھا کہ فلسطینی گوریلے یا فدائین زیادہ سے زیادہ سرحدی علاقہ عبور کر کے مختصر و محدود چھاپہ مار کارروائی کر کے فرار ہو جاتے ہیں۔ یا پھر کہیں کوئی بم دھماکا کر دیتے ہیں یا پھر کوئی اسرائیلی مسافر طیارہ ہائی جیک کرنے کی کو��ش کرتے ہیں تاکہ عارضی طور پر بین الاقوامی توجہ حاصل کر سکیں۔
اسرائیل نے وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ایسی چھٹ پٹ مسلح کارروائیوں سے نمٹنے کا تجربہ حاصل کر لیا۔ جب پی ایل او نے اسرائیل کے وجود کو سیاسی و سفارتی طور پر تسلیم کر کے اسرائیل اور امریکا کی من مانی شرائط پر ہتھیار رکھ کے جو بھی ملا اسے قسمت کا لکھا سمجھ کے قبول کر لیا تو اسرائیلی عسکری قیادت کے دل سے یہ آخری کھٹکا بھی نکل گیا کہ فلسطینی اب کبھی اس قابل بھی ہو سکتے ہیں کہ ایک سنگین عسکری چیلنج بن سکیں۔ اسرائیل نے ناقابلِ تسخیر ہونے کے تاثر کو اپنے مغربی اتحادیوں اور عرب دنیا کی نظروں میں اس قدر مستحکم کر دیا کہ خود فلسطینیوں کے سابق اتحادی ممالک بھی اس مسلسل پروپیگنڈے کے قائل ہوتے چلے گئے کہ فلسطینی کسی کے لیے بھی کوئی سنگین خطرہ نہیں بن سکتے۔چنانچہ فلسطینیوں کو عرب حکومتوں نے پہلے کی طرح احترام اور برابری کا درجہ دینے کے بجائے ان پر ترس کھانا شروع کر دیا۔ جب عربوں نے دیکھا کہ خود پی ایل او کی قیادت میں فلسطینی اتھارٹی بھی عملاً اسرائیل کو ایک ناقابلِ شکست طاقت سمجھ کے انتظامی طور پر اس کی بی ٹیم بننے پر تیار ہے تو پھر عرب ممالک نے مسلسل گھاٹے کے فلسطینی نظریاتی سودے کو نظرانداز کرتے ہوئے براہِ راست یا بلاواسطہ طور پر اسرائیل سے اپنے سفارتی ، اقتصادی و اسٹرٹیجک معاملات سیدھے کرنے شروع کر دیے۔
پہل مصر نے کی، پھر اردن نے مصالحت کی اور اس کے بعد خلیجی ریاستوں نے امریکا سے قربت برقرار رکھنے کی خاطر اسرائیل سے دو ریاستی حل کی شرط منوائے بغیر ہاتھ ملا لیا۔ مگر سات اکتوبر کو حماس اور اسلامک جہاد کے مسلح کیڈر نے جنوبی اسرائیل میں گھس کے کئی گھنٹوں تک جو کارروائی کی۔ اس کے سبب اسرائیل کا روایتی فوجی نظریہ ملیامیٹ ہو گیا کہ فلسطینی نہ اپنا دفاع ٹھیک سے کرنے کے قابل ہیں اور نہ ہی کوئی جارحانہ اقدام۔ حماس کے آپریشن کے بعد اگلے بہتر گھنٹے تک پوری اسرائیلی سول و عسکری اسٹیبلشمنٹ سکتے کی حالت میں رہی۔ وہ یہی سمجھنے کی کوشش کرتے رہے کہ ان کے ساتھ دراصل کیا ہاتھ ہو گیا۔ غزہ میں قدم قدم پر جاسوسی کے جال اور غزہ کو تین طرف سے خاردار تاروں سے الگ تھلگ کرنے اور وہاں کسی بھی غیر معمولی نقل و حرکت کا فوری پتہ چلانے کے لیے سرحد کے ساتھ ساتھ جدید آلات سے لیس نگرانی کے ٹاورز کی موجودگی میں یہ کیسے ہو گیا ؟ اب سوال یہ ہے کہ کیا حماس نے اسرائیل کے ممکنہ ردِ عمل کا غلط اندازہ لگایا یا پھر حماس نے سات اکتوبر کو اسرائیل کو غزہ میں پھنسانے کے لیے جو کانٹا ڈالا اسرائیل اسے حماس کی توقعات کے مطابق نگل گیا؟ اور دنیا اب اسرائیل کو مظلوم سمجھنے کے بجائے اس کا اصل چہرہ دیکھ پا رہی ہے ؟  
وسعت اللہ خان 
بشکریہ ایکسپ��یس نیوز
0 notes
iammatiurrahman · 9 months ago
Text
سعودی عرب میں ڈرائیونگ لائسنس کے حصول کا طریقہ کار۔۔۔
ڈرائیونگ لائسنس کا حصول سعودی عرب میں انتہائی آسان ہے۔ ڈرائیونگ لائسنس کو مشکل بنانے میں زیادہ سے زیادہ قصور لائسنس بنوانے والے دلالون کا ہے۔ میرے خیال میں تو سب سے زیادہ لوٹ مار کا بازار یہاں بہت گرم ہے۔الحمدللہ سعودی عرب میں اقامہ ملنے کے بعد اپنا ڈرائیونگ لائسنس آسانی سے حاصل کرلیا۔ اور اس سے پہلے بھی اپ اپنے ملک کے ڈرائیونگ لائسنس پر اپنی گاڑی چلا سکتے ہیں خاص طور وہ لوگ جو یہاں ویزٹ ویزہ پر…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
risingpakistan · 11 months ago
Text
پاکستانی دوسری بار کیوں ہجرت کر رہے ہیں ؟
Tumblr media
اس برس کے پہلے دو ماہ میں پی آئی اے کے تین فضائی میزبان کینیڈا پہنچ کے غائب ہو گئے۔ ان میں سے دو پچھلے ہفتے ہی ’سلپ‘ ہوئے ہیں جبکہ گذشتہ برس پی آئی اے کے سات فضائی میزبان پاکستان سے ٹورنٹو کی پرواز پر گئے مگر واپس نہیں لوٹے۔ یہ سلسلہ 2018 کے بعد سے بالخصوص بڑھ گیا ہے۔ پی آئی اے کے اندرونی ذرائع کہتے ہیں کہ جب سے اس ادارے کی نج کاری کا فیصلہ ہوا ہے ہر کوئی مسلسل بے یقینی کے سبب اپنے معاشی مستقبل سے پریشان ہے۔ اگر بس میں ہو تو آدھے ملازم ملک چھوڑ دیں۔ تین ماہ پہلے گیلپ پاکستان کے ایک سروے میں یہ رجہان سامنے آیا کہ 94 فیصد پاکستانی ملک سے جانا چاہتے ہیں۔ 56 فیصد معاشی تنگی کے سبب، 24 فیصد امن و امان اور جان و مال کے خوف سے اور 14 فیصد مستقبل سے مایوس ہو کے ملک چھوڑنا چاہتے ہیں۔ اگر گیلپ سروے کے نتائج کی صحت پر آپ میں سے بہت سوں کو یقین نہ آئے تو آپ خود اپنے اردگرد متوسط اور نیم متوسط خاندانوں کو کرید کر دیکھ لیں۔ ان میں سے کتنے ہر حال میں یہاں رہنا چاہتے یا پھر چاہتے ہیں کہ کم ازکم ان کے بچے کہیں اور اپنا مستقبل ڈھونڈیں ؟
کیا ستم ظریفی ہے کہ 76 برس پہلے جس پیڑھی نے ایک محفوظ اور آسودہ زندگی کی آس میں گھر بار چھوڑا یا نہیں بھی چھوڑا۔ آج اسی پیڑھی کی تیسری اور چوتھی نسل بھی ایک محفوظ اور آسودہ زندگی کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ جو لوگ ماحولیاتی تبدیلیوں، اقتصادی و روزگاری بحران یا امن و امان کی ابتری کے باوجود بیرونِ ملک نہیں جا سکتے وہ اندرونِ ملک بڑے شہروں کی جانب نقل مکانی کر رہے ہیں یا کم ازکم اس بارے میں سوچتے ضرور ہیں۔ سٹیٹ بینک کے اپنے آنکڑوں کے مطابق 2018 تک ترقی کی شرحِ نمو ڈیڑھ فیصد سالانہ تک رہے گی جبکہ آبادی بڑھنے کی رفتار لگ بھگ دو فیصد سالانہ ہے۔ گویا معاشی ترقی کی شرح آبادی بڑھنے کی شرح یعنی دو فیصد کے برابر بھی ہو جائے تب بھی معیشت کی بڑھوتری کی شرح صفر رہے گی۔ اس تناظر میں مجھ جیسوں کو ایسی خبریں سن سن کے کوئی حیرت نہیں کہ اوورسیز ایمپلائمنٹ بیورو کے مطابق پچھلے پانچ برس میں لگ بھگ 28 لاکھ پاکستانی قانونی ذرائع سے بیرونِ ملک چلے گئے۔
Tumblr media
اس تعداد میں وہ لوگ شامل نہیں جو اوورسیز ایمپلائمنٹ بیورو میں رجسٹر ہوئے بغیر ملازمتی یا تعلیمی مقصد کے لیے براہِ راست بیرون ملک چلے گئے اور وہ لاکھوں بھی شامل نہیں جو جان جوکھوں میں ڈال کر غیر قانونی راستوں سے جا رہے ہیں۔ اگر ان سب کو بھی ملا لیا جائے تو پچھلے پانچ برس میں چالیس سے پچاس لاکھ کے درمیان پاکستانیوں نے ملک چھوڑا۔ نقل مکانی کرنے والے صرف متوسط، نیم متوسط یا غریب طبقات ہی نہیں۔ فیصلہ ساز اشرافیہ کو بھی اس ملک کے روشن مستقبل پر یقین نہیں ہے۔ چند برس پہلے عدالتِ عظمی نے ایک کیس کی سماعت کے دوران ہدایت کی کہ ان بیوروکریٹس کی فہرست مرتب کی جائے جن کی دوہری شہریت ہے۔ اس کے بعد کوئی خبر نہ آئی کہ اس ہدایت پر کتنا عمل ہوا۔ البتہ اسلام آباد میں یہ تاثر ہر طبقے میں پایا جاتا ہے کہ بہت کم سیاستدان، حساس و نیم حساس و غیر حساس اداروں کے افسر، جرنیل، جج اور سہولت کار ہیں جن کی دوہری شہریت نہ ہو یا بیرونِ ملک رہائش کا بندوبست، سرمایہ کاری یا بینک اکاؤنٹ نہ ہو یا کم ازکم ان کے اہلِ خانہ بیرونِ ملک مقیم نہ ہوں۔
کئی ’ریٹائرینِ کرام‘ کی تو پنشنیں بھی ڈالرز میں ادا ہوتی ہیں حالانکہ ان کے پاس اللہ کا دیا بہت کچھ ہے اور بہتوں کے پاس تو جتنا اللہ نے دیا اس سے بھی کئی گنا زیادہ ہے۔ اور کروڑوں سے وہ بھی چھن رہا ہے جو اوپر والے نے انھیں دیا ہو گا۔ اور پھر یہی بندوبستی اشرافیہ عوام کو سادگی، اسلامی و مشرقی اقدار، نظریہِ پاکستان، ایمان، اتحاد، یقینِ محکم، قربانی اور اچھے دن آنے والے ہیں کا منجن بھی بیچتی ہے اور ان کا مستقبل بھی بار بار بیچتی ہے۔ میرے ہمسائے ماسٹر برکت علی کے بقول ’انگریز میں کم ازکم اتنی غیرت ضرور تھی کہ ایک بار لوٹ مار کر کے واپس جو گیا تو پھر اپنی شکل نہیں دکھائی‘ ۔ ایسے میں اگر محکوم اپنی زمین چھوڑنے کا سوچ رہے ہیں تو انھیں کیوں الزام دیں۔ ویسے بھی ان کے پاؤں تلے زمین کھسک ہی رہی ہے۔ کچھ عرصے پہلے تک جو کروڑوں نارسا ہاتھ کسی امیدِ موہوم کے آسرے پر ووٹ دیتے تھے، اب ان کے پاؤں ووٹ دے رہے ہیں۔
سفر درپیش ہے اک بے مسافت مسافت ہو تو کوئی فاصلہ نہیں ( جون ایلیا )
صرف گذشتہ برس آٹھ لاکھ ساٹھ ہزار پاکستانیوں نے بیرونِ ملک نقل مکانی کی۔ یہ تعداد 2015 کے بعد سے سب سے زیادہ ہے۔ ان میں آٹھ ہزار آٹھ سو انجینیرز، مالیاتی شعبوں سے وابستہ سات ہزار چار سو افراد ، ساڑھے تین ہزار ڈاکٹر اور لگ بھگ ڈیڑھ ہزار اساتذہ، تین لاکھ پندرہ ہزار دیگر ہنرمند، چھیاسی ہزار نیم ہنرمند اور چار لاکھ سے کچھ کم غیر ہنرمند مزدور شامل ہیں۔
 وسعت اللہ خان
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
urduchronicle · 11 months ago
Text
کراچی میں دو کروڑ روپے مالیت کے موبائل فونز سے بھری وین لوٹ لی گئی
کراچی کے علاقے فیروز آباد میں موبائل فونز سے بھری وین چھین لی گئی ، لوٹے گئے موبائل فونز کی  مالیت دو کروڑ روپے بتائی جاتی ہے۔  کوریئر کمپنی کی ڈیلیوری وین صدر کے علاقے سے موبائل فون کی لاٹ لے کر نکلی تھی،ملزمان نے فیروز آباد میں سائیڈ مار کر ڈیلیوری وین کو روکا اور گاڑی کو ڈرائیور سمیت ساتھ لے گئے،واردات کرنے والے مسلح ملزمان رکشے اور لوڈنگ گاڑی میں سوار تھے جو 45 منٹ بعد ڈرائیور کو اتار کر…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
shiningpakistan · 1 year ago
Text
بجلی کی قیمت اور رعایا کی زبوں حالی
Tumblr media
حال ہی میں صرف ایک ہفتے میں بجلی کی قیمتوں میں دو دفعہ اضافہ کیا گیا ہے۔ یعنی عوام نہیں رعایا پر مسلسل بجلی گرائی جا رہی ہے۔ بجلی کی مہنگائی سمیت ہر طرح کی مہنگائی سے رعایا اتنی شاک زدہ ہے کہ وہ احتجاج کے بھی قابل نہیں۔ بس ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم والی صورتحال ہے۔ ویسے بھی جنھوں نے احتجاج کیا ان کا عبرت ناک حشر سامنے ہے۔ اب تو رعایا احتجاج کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت جاتے جاتے پٹرول ڈیزل وغیرہ کی قیمتوں میں زبردست اضافہ کر گئی۔ باقی ان اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کی کسر نگران حکومت نے ایک بڑا اضافہ کر کے کر دی۔ لیکن نگران حکومت کا اس معاملے میں کوئی ��صور نہیں۔ اصل ذمے داری تو اتحادی حکومت پر عائد ہوتی ہے جس کے اصل اسٹیک ہولڈرز تو مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی تھے۔ جنھوں نے آئی ایم ایف سے ایسا تباہ کن معاہدہ کیا کہ عوام کے ہاتھ ہی کٹوا بیٹھے۔ گزشتہ ماہ میں پٹرول کی قیمت میں 40 روپے اضافہ ہوا اور حال ہی میں 8 روپے لیٹر پٹرول کی قیمت میں کمی کر دی گئی۔ یہ تو حاتم طائی کی قبر پر لات مارنے والی بات ہوئی۔ اور تو اور جس دن یہ کمی ہوئی اسی روز مایع گیس کی قیمت 21 روپے بڑھا دی گئی یعنی پٹرول کی قیمت میں کمی کی نسبت 3 گنا اضافہ ۔ اسے کہتے ہیں رعایہ کے ساتھ ہاتھ کی صفائی۔
سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار صاحب کی آئی ایم ایف کو دی جانے والی دھمکیاں بھی کام نہ آسکیں۔ الٹا آئی ایم ایف نے ہماری مشکیں ایسی کسیں کہ سب توبہ توبہ کر بیٹھے۔ رعایہ کو اچھی طرح یاد ہے کہ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار صاحب ہم سب کو تسلی دیتے رہے کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں کہ اگر آئی ایم ایف سے ڈیل نہ بھی ہوئی تو پلان B تیار ہے۔ جب کہ سابق وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے آئی ایم ایف ڈیل کے بعد یہ سنسنی خیز انکشاف کیا کہ میری تو آئی ایم ایف سے ڈیل نہ ہونے پر راتوں کی نیند ہی اڑ گئی تھی۔ یہ سوچ کر کہ اگر یہ ڈیل نہ ہوئی تو ہماری تمام امدادیں بند اور پٹرول ادویات سمیت دیگر اشیاء پاکستان میں ناپید ہو جائیں گی۔ عوام سٹرکوں پر آجائیں گے۔ نتیجہ خوفناک خانہ جنگی کی شکل میں نکلے گا۔ اگر سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار صاحب گزشتہ سال کے آخر اور اس سال کے شروع تک آئی ایم ایف سے ڈیل کر لیتے تو معاشی حالات اتنے تباہ کن نہ ہوتے۔ ڈیل میں دیری نے پاکستانی معشیت کو تباہ کن موڑ پر لا کھڑا کیا۔
Tumblr media
سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی جگہ اسحاق ڈار کو لانے والے کیا اس کے ذمے دار نہیں جب کہ سابق وزیراعظم شہباز شریف مفتاح اسماعیل کی تبدیلی کے لیے راضی نہیں تھے بجلی کے نرخوں میں اضافے کے باعث مہنگائی بے قابو ہوتے ہوئے اس کی شرح 31.44 فیصد پر پہنچ گئی ہے جب کہ مہنگائی کی شرح سالانہ بنیادوں پر 38.4 فیصد ہو گئی ہے۔ بجلی کی قیمتوں میں ماہانہ سہ ماہی اور سالانہ بنیادوں پر متعدد بار اضافے کے باوجود پاور سیکٹر کے گردشی قرضے بھی بڑھ کر 2300 ارب سے بھی زیادہ ہو گئے ہیں۔ دہائیوں سے عوام کی رگوں سے مسلسل خون نچوڑا جا رہا ہے۔ معاہدے کے مطابق ابھی یہ لوٹ مار کم از کم مزید 4 سال جاری رہنی ہے۔ 1990 کی دہائی میں آئی پی پیز سے یہ عوام دشمن معاہدے کیے گئے۔ اب آپ خود ہی سوچ لیں کہ اس وقت کن کن پارٹیوں کی حکومتیں تھیں۔ ان معاہدوں سے عوام کی قیمت پر مبینہ طور پر اربوں کی کمیشن حاصل کی گئیں۔ سیاستدانوں اور اعلیٰ بیو رو کریسی نے ان معاہدوں سے خوب ہاتھ رنگے۔ ان عوام دشمن معاہدوں نے پاکستانی عوام کو غریب کر دیا ہے۔ ورلڈ بینک کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں غربت بھارت اور بنگلہ دیش سے بھی بہت زیادہ ہو گئی ہے۔
بھارت میں پچھلے سات سالوں میں غربت کی شرح کم ہو کر 25 سے 15 فیصد رہ گئی ہے۔ یعنی 10 فیصد کم ہو گئی ہے جب کہ بنگلہ دیش میں کچھ سال قبل کے مقابلے میں 19 فیصد رہ گئی ہے۔ اور اس کے برعکس پاکستان میں غربت کی شرح 40 فیصد پر پہنچ گئی ہے۔ ہے نہ کمال کی بات۔ ایک رپورٹ میں ورلڈ بینک کے حالیہ انکشاف کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں پاکستان میں مڈل کلاس طبقے کی تعداد سکڑ کر آدھی رہ گئی ہے اور اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ عالمی مالیاتی اداروں کے مطابق مستقبل میں پاکستان کی GDP مزید گرنے سے مڈل کلاس طبقہ مزید سکڑ کر رہ جائے گا جس کا اندازہ اسی سے لگایا جا سکتا ہے کہ ملکی تاریخ میں پہلی بار پاکستان کو ملنے والا حج کوٹہ بھی پورا استعمال نہیں کیا جا سکا اور سعودی حکومت کو واپس کرنا پڑا۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ یہ بھی بتاتی ہے کہ ملک کے معاشی حالات بیروزگاری اور مہنگائی سے تنگ آکر گزشتہ دو برسوں میں 18 لاکھ سے زائد افراد پاکستان چھوڑ گئے ہیں۔ خراب معاشی حالات کی سنگینی کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اب بھکاری بھی جو عمرے کے ویزے پر سعودی عرب اور عراق جا کر بھکاری کا پیشہ اختیار کر رہے ہیں گزشتہ دنوں ان ممالک سے ڈی پورٹ ہونے والے 90 فیصد بھکاریوں کا تعلق پاکستان سے ہے اس سے بڑی ملک کی بدنامی اور کیا ہو سکتی ہے ذرا غور فرمائیں!!! ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف جیسے ادارے بھی اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ حکومت امیروں پر ٹیکس لگا کر غریبوں پر خرچ کرے تاکہ غریبوں کا تحفظ ہو سکے جیسا کہ امریکا یورپ وغیرہ میں ہوتا ہے اگر ایسا نہ کیا گیا اور پاکستان میں مڈل کلاس کے سکڑنے کا رحجان جاری رہا تو وہ وقت زیادہ دور نہیں جب پاکستان میں مڈل کلاس طبقہ بھی مکمل طور پر ختم ہو کر غربت کے گڑھے میں جا گرے گا۔
زمرد نقوی  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
azharniaz · 1 year ago
Text
لوٹ مچ گئی ہے کیا؟عطا محمد تبسم
آپ نے اس اندھے کا لطیفہ تو سنا ہوگا، جو ایک دعوت میں شریک ہوا۔اس نے اپنے ہمراہی سے یہ کہہ رکھا تھا کہ جب دستر خوان لگ جائے تو مجھے، ایک کہنی مار کر اشارہ کردینا، جب کھانا شروع ہو تو مجھے ایک اور کہنی کا ٹہوکہ دینا تو میں سمجھ جاؤں اور کھانا شروع کردوں گا۔ اب محفل میں دستر خوان لگ گیا۔ اور اس کے ساتھی نے ، اسے کہنی کا ٹہوکہ دے کر اشارہ بھی دے دیا۔ اس اثنا میں کھانا لگ گیا۔ لیکن ابھی کھانا شروع…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
dr-jan-baloch · 1 month ago
Text
صبح نئی پر خبر وہی مقبوضہ بلوچستان کے ضلع ڈیرہ بگٹی میں قابض پنجابی ریاست کے دہشتگرد فورسز کا گھروں میں لوٹ مار اور چھاپے، تین افراد جواھو ولد بری بگٹی،جونا ولد نوکاف بگٹی ,سکندر ولد عجب خان بگٹی جبری لاپتہ۔ سالوں سے جبری گمشدگی کا چلنے والا یہ غیر انسانی سلسلہ آخر کب بند ہوگا ؟
‎#EndEnforcedDisappearances
#ReleaseAllBalochMissingPersons
#StopBalochGenocide
#OccupiedBalochistan
#BalochistanIsNotPakistan
#pakistanaterroristcountry
0 notes
googlynewstv · 5 months ago
Text
بنگلہ دیشی مظاہرین نے 9مئی کے پاکستانی ہنگاموں کی تاریخ کیسے دہرائی؟
بنگلہ دیش کی طاقتور ترین وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کے 16 سالہ دور اقتدار کے خاتمے کے بعد وزیر اعظم ہاؤس میں احتجاجی مظاہرین کی لوٹ مار نے پاکستان میں 9 مئی کو ہونے والی شرپسندانہ کارروائیوں کی یاد تازہ کر دی۔5 اگست کو بنگلہ دیش میں ملک کے بانی شیخ مجیب کے مجسمے پر برستے ہتھوڑے، وزیر اعظم ہاؤس میں انقلاب کے نعرے بلند کرتا ہجوم، ہائی سکیورٹی زون میں سکون سے پرتعیش اشیا کو بے فکری سے لوٹتے ہوئے…
0 notes
topurdunews · 3 months ago
Text
بجلی سستی کرنے کا پلان آگیا اتنی سستی کہ سولر مہنگا لگے  
بجلی اتنی سستی کہ سولر پلیٹس لگوانے والے لاکھوں روپے اپنے گھروں کی چھتوں پر لگا کر اس کی صفائی دیکھ بھال اور موبائل پر آج کتنے یونٹ بنے کتنے نہیں کہ گرداب میں پھنسے رہیں گے جبکہ حکومت سے براہ راست بجلی خریدنے والوں کو اب وہ سہولیات ملیں گی جن کا تصور بھی اس سے پہلے بجلی صارفین نہیں کررہے تھے، اس میں چین کا کیا کردار ہے? اور آئی پی پیز کی لوٹ مار کو کیسے ختم کیا جائے گا اس سب پر آج بات کی جائے گی…
0 notes
imtiyazkhan008 · 2 years ago
Text
سنگین جرائم میں اضافہ سماج کیلئے لمحہ فکریہ
انسان ضرورتوں کے نہیں خواہشات کے تابع!دنیا کے لگ بھگ تمام ممالک آج کل کسی نہ کسی بحران میں الجھے ہوئے ہیں ۔ پہلے دنیا کو صرف قتل و غارت گری اور لوٹ مار کا سامنا تھا مگر وقت کے ساتھ ساتھ چاقو زنی ،جنسی ہراسانی ، دھوکہ دہی، فراڈ ،رشوت خوری، قومی اثاثوں میں خرد برد اور دیگر جرائم میں اضافہ ہوا۔ وادی کشمیر میں بھی گزشتہ برسوں کے دوران ایسے جرائم دیکھنے کو ملے جن کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھابلکہ…
View On WordPress
0 notes
mingleup · 2 years ago
Text
کراچی کی مویشی منڈی، عیدالاضحی اور لوٹ مار ڈکیتیوں میں اضافہ۔
غیر مقامی اور مقامی سب کی موجیں۔
گلی گلی، ہر چوراہے پر ناجائز منڈیاں قائم۔
پولیس اور حکومت بھتے وصول کرنے میں مصروف۔
قانون کی عمل داری ناپید۔
مکمل تفصیلات جانیئے ویلاگ میں۔
https://youtu.be/sy_pYYEFuRI
0 notes