#پلان
Explore tagged Tumblr posts
Text
لاہور ہائیکورٹ نے سموگ کے خاتمے کیلئے حکومتی پلان کی تعریف کردی
(24نیوز)لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شاہد کریم نے پنجاب حکومت کے ماحولیاتی بہتری اور سموگ کے خاتمے کے پلان کی تعریف کی ہے۔ جسٹس شاہد کریم نے سموگ کے تدارک سے متعلق کیس میں کہا ہے کہ یہ تمام اقدامات قابل تعریف اور قابل تحسین ہیں ،مستقل مزاجی اور جذبے سے یہ کام جاری رہا تو اس کے پنجاب خاص طورپر لاہور پر دور رس مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔ لاہور ہائیکورٹ میں ایڈووکیٹ جنرل نے بیان میں کہا ہے کہ ماحول کی مستقل…
0 notes
Photo

پله پیچ استراکچر مرکز .. نرده تسمه ۲ پیچ خورده تمام دست ساز .. ممنون که با ما همراه هستید .. ❤ #morometal @morometal.ir @moro_official Www.morometal.com از طراحی تا اجرا .. جهت اطلاع از قیمتها و اطلاعات بیشتر با شماره های زیر تماس بگیرید .. میلاد شیری 0935,347,0253 👉 واتساپ و تماس 0912,347,0253 👉 واتساپ و تماس #میلادشیری #miladshiri #توت_سفید #آهن #فرفورژه #ویلایی #پله_دوبلکس #آینه_کنسول #پلان #نرده #طراح #ساختمان #ویلا #اسلیمی #خاص #لوکس_هوم #ارزانسرا #لاکچری #آینه_لاکچری #کلاسیک #سنتی (در Tehran, Iran) https://www.instagram.com/p/CrOuPtBSvLK/?igshid=NGJjMDIxMWI=
#morometal#میلادشیری#miladshiri#توت_سفید#آهن#فرفورژه#ویلایی#پله_دوبلکس#آینه_کنسول#پلان#نرده#طراح#ساختمان#ویلا#اسلیمی#خاص#لوکس_هوم#ا��زانسرا#لاکچری#آینه_لاکچری#کلاسیک#سنتی
0 notes
Text
حکومت کا 5سال میں 24اداروں کی نجکاری کا پلان آگیا
وفاقی حکومت کا5سالہ نجکاری پلان سامنےآگیا جس میں24اداروں کی نجکاری کی جائے گی۔ وفاقی حکومت کی طرف سےسرکاری اداروں کی نجکاری سےمتعلق 5سالہ پلان سامنے آگیا ہےجو2024 تا 2029 تک کے لیے ہے۔ نجکاری کیلئے اداروں کی فہرست تیار وفاقی کابینہ کی منظوری کےبعدوزارت نجکاری کی جانب سے اداروں کی فہرست تیارکی گئی ہے جس کے مطابق3مراحل میں24 اداروں کی نجکاری ہوگی،پہلے مرحلےمیں ایک سال میں10اداروں کی نجکاری،دوسرے…
0 notes
Text
Hello, I am Mohammad Ghasemi Heydaranlou, an Iranian designer and architect. Architecture can be very interesting We must continue in the old way And architecture can be very interesting Architecture is not design, creativity should be used I think Iranian architecture is very beautiful And we have to relive the old secrets of this architecture.
#معماری
#معماری_مدرن
#محمدقاسمیحیدرانلو
#مدرن
#طراحی
#طراحی_داخلی
#پرسپکتیو
#پلان
#architecture #Persian
architecture
#Artificiaintelligence
#Designing
#Perspective
#plan
#abstractart
instagram
#معماری معماری_مدرن محمدقاسمیحیدرانلو مدرن طراحی طراحی_داخلی پرسپکتیو پلان architecture Artificiaintelligence Designing#Instagram
1 note
·
View note
Text
پنجاب میں عام انتخابات کے لیے سکیورٹی پلان تیار، 90 ہزار جوان فوج اور رینجرز سے لیے جائیں گے
پنجاب پولیس نےالیکشن کیلئے سیکیورٹی پلان تیار کرکے سیکیورٹی پلان اور نفری کے حوالے سے باضابطہ الیکشن کمیشن کو آگاہ کردیا۔ پنجاب بھر میں 53ہزارکےقریب پولنگ سٹیشنز کےلئے ڈیوٹی 3کیٹگری میں فراہم کی جائےگی۔حکومت کی منظوری س��90ہزار کے قریب فوج ورینجرزکے جوان ڈیوٹی پرتعینات کئے جائیں گے۔ الیکشن کمیشن کو فراہم کئے گئے سکیورٹی پلان کے مطابق سیکیورٹی ڈیوٹی پولنگ سٹیشنز پر اے کیٹگری ۔۔بی کیٹگری اور سی…

View On WordPress
0 notes
Text

میں امید کرتا ہوں کہ جن سے ہم پیار کرتے ہیں وہ یہ سمجھیں گے کہ ہم نے انہیں کبھی بھی بیک اپ پلان، یا فٹ پاتھ کے طور پر نہیں دیکھا، ہم نے انہیں ہمیشہ تمام حل کے طور پر دیکھا.. وہ ہمیشہ سڑک، سفر اور آمد کا اسٹیشن تھے
I hope those we love realize that we never saw them as a backup plan, or a sidewalk, we always saw them as all the solutions.. they were always the road, the journey, and the arrival station.
17 notes
·
View notes
Text
پاکستان کا مستقبل امریکا یا چین؟

پاکستان اور چین کے درمیان سی پیک منصوبے کو 10 سال مکمل ہو گئے ہیں۔ پاک چین اقتصادی راہداری بلاشبہ دونوں ممالک کی دوستی اور دوطرفہ تعلقات کی بہترین مثال ہے۔ چین نے ایسے وقت میں پاکستان میں سرمایہ کاری کا فیصلہ کیا جب پاکستان دہشت گردی اور شدید بدامنی سے دوچار تھا اور کوئی بھی ملک پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کو تیار نہیں تھا۔ چین کی جانب سے پاکستان میں ابتدائی 46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری 62 ارب ڈالر تک ہو چکی ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے تحت اب تک 27 ارب ڈالر کے منصوبے مکمل ہو چکے ہیں۔ سی پیک منصوبوں سے اب تک براہ راست 2 لاکھ پاکستانیوں کو روزگار کے مواقع ملے اور چین کی مدد اور سرمایہ کاری سے 6 ہزار میگاواٹ بجلی نیشنل گرڈ کا حصہ بنی۔ سی پیک کو پاکستان کے مستقبل کے لیے اہم ترین منصوبہ ہے، لیکن منصوبے کے ابتدائی مرحلے میں انفرا اسٹرکچر اور توانائی کے پروجیکٹس کے بعد سی پیک کے دیگر منصوبے سست روی کا شکار ہیں۔ سی پیک کے دوسرے مرحلے میں ملک کے چاروں صوبوں میں خصوصی اکنامک زونز کا قیام تھا جس کے بعد انڈسٹری اور دیگر پیداواری شعبوں میں چینی سرمایہ کاری میں بتدریج اضافہ کرنا تھا لیکن اب تک خصوصی اکنامک زونز قائم کرنے کے منصوبے مکمل نہیں کیے جا سکے۔
سی پیک منصوبوں میں سست روی کی ایک وجہ عالمی کورونا بحرا ن میں چین کی زیرو کووڈ پالیسی اور دوسری وجہ امریکا اور مغربی ممالک کا سی پیک منصوبوں پر دباؤ بھی ہو سکتا ہے۔ سی پیک منصوبوں کی ترجیحات اور رفتار پر تو تحفظات ہو سکتے ہیں لیکن اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ بدلتے ہوئے عالمی حالات کے پیش نظر پاکستان کے پاس چینی سرمایہ کاری کے علاوہ دوسرا کوئی آپشن موجود نہیں۔ پاکستان کا معاشی مستقبل اور موجودہ معاشی مسائل کا حل اب سی پیک کے منصوبوں اور چینی سرمایہ کاری سے ہی وابستہ ہیں۔ گزشتہ ہفتے وزیر مملکت حنا ربانی کھر اور وزیراعظم شہباز شریف کی گفتگو پر مبنی لیک ہونے والے حساس ڈاکومنٹس سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کو اب چین یا امریکا میں سے کسی ایک کو اسٹرٹیجک پارٹنر چننا ہو گا۔ بدلتے ہوئے عالمی حالات خصوصا مشرقی وسطی میں ہونے والی تبدیلیوں کے بعد اب چین عالمی سیاست کا محور بنتا نظر آرہا ہے۔

پاکستان کو اب امریکا اور مغرب کو خوش رکھنے کی پالیسی ترک کر کے چین کے ساتھ حقیقی اسٹرٹیجک شراکت داری قائم کرنا ہو گی چاہے اس کے لیے پاکستان کو امریکا کے ساتھ تعلقات کی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑے۔ چین کی طرف سے گوادر تا کاشغر 58 ارب ڈالر ریل منصوبے کی پیشکش کے بعد پاکستان کے پاس بہترین موقع ہے کہ وہ اس منصوبے سے نہ صرف پاک چین تعلقات کو اسٹرٹیجک سمت دے سکتا ہے بلکہ اس منصوبے کی بدولت پاکستان چین کو بذریعہ ریل گوادر تک رسائی دیکر اپنے لیے بھی بے پناہ معاشی فوائد حاصل کر سکتا ہے۔ پاکستان نے تاحال سی پیک کے سب سے مہنگے اور 1860 کلومیٹر طویل منصوبے کی پیشکش پر کوئی ردعمل نہیں دیا۔ سوال یہ ہے کیا پاکستان کے فیصلہ ساز امریکا کو ناراض کر کے چین کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کو طویل مدتی اسٹرٹیجک پارٹنر شپ میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کریں گے یا دونوں عالمی طاقتوں کو ��یک وقت خوش رکھنے کی جزوقتی پالیسی پر عمل پیرا رہیں گے؟
یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ پاکستان میں اشرافیہ کے کچھ ایسے عناصر موجود ہیں جن کے مفادات براہ راست امریکا اور مغربی ممالک سے وابستہ ہیں۔ اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے ان افراد کے بچے امریکا اور مغربی ممالک کے تعلیمی اداروں میں پڑھتے ہیں۔ ان افراد کی اکثریت کے پاس امریکا اور مغربی ممالک کی دہری شہریت ہے۔ ان کی عمر بھر کی جمع پونجی اور سرمایہ کاری امریکا اور مغربی ممالک میں ہے۔ امریکا اور مغربی ممالک ہی اشرافیہ کے ان افراد کا ریٹائرمنٹ پلان ہیں۔ یہ لوگ کبھی نہیں چاہیں گے کہ پاکستان امریکا کے ساتھ تعلقات کو قربان کر کے چین کے ساتھ طویل مدتی اسٹرٹیجک شراکت داری قائم کرے ان کوخوف ہے کہیں روس، ایران اور چین کی طرح پاکستان بھی براہ راست امریکی پابندیوں کی زد میں نہ آجائے، کیونکہ اگر ایسا ہوا تو اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے ان افراد کے ریٹائرمنٹ پلان برباد ہو جائیں گے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ بہترین خارجہ پالیسی کا مطلب تمام ممالک کے ساتھ برابری کی بنیاد پر دوستانہ تعلقات اور معاشی ترقی کے نئے امکانات اور مواقع پیدا کرنا ہے۔ لیکن ماضی میں روس اور امریکا کی سرد جنگ کے تجربے کی روشنی میں یہ کہنا مشکل نہیں کہ موجودہ عالمی حالات میں پاکستان کے لیے امریکا اور چین کو بیک وقت ساتھ لے کر چلنا ناممکن نظر آتا ہے۔ جلد یا بدیر پاکستان کو امریکا یا چین میں سے کسی ایک کے ساتھ تعلقات کی قربانی کا فیصلہ کرنا ہو گا تو کیوں نہ پاکستان مشرقی وسطیٰ میں چین کے بڑھتے کردار اور اثرورسوخ کو مدنظر رکھتے ہوئے چین کے ساتھ طویل مدتی شراکت داری قائم کرنے کا فیصلہ کرے یہ فیصلہ پاکستان کے لیے مشکل ضرور ہو گا لیکن عالمی حالات یہی بتا رہے ہیں کہ پاکستان کا مستقبل اب چین کے مستقبل سے وابستہ ہے۔
ڈاکٹر مسرت امین
بشکریہ ایکسپریس نیوز
3 notes
·
View notes
Text
عمران احمد خان نیازی
پلان کیا تھا؟ تجزیہ: 14 مئی سے پہلے عمران خان سمیت تمام تحریک انصاف لیڈرشپ اور ورکرز، اور ڈیجٹل میڈیا کے بڑے صحافیوں کو جیلوں میں بند کرنا تھا اور تیس سے نوے دن تک باہر نہیں آنے دینا تھا. سافٹ ایمرجنسی لگاکر فوج شہروں میں اتاری جائے، طاقت سے احتجاج روکیں اور مکمل کنٹرول کریں.لیکن وہ ہوا جو یہ طاقتور سوچ نہ سکے، صرف ورکرز نہی بلکہ عوام کی بڑی تعداد اور خصوصاً نوجوان لڑکے اورخواتین تمام خطروں کے…
View On WordPress
6 notes
·
View notes
Text
اسلام علیکم
پیارے دوستو
گزشتہ 15 سال سے پراپرٹی بزنس سے وابستہ ہونے کی وجہ سےاسلام آباد اور راولپنڈی کی ساری ہاوسنگ سوسائٹیوں کی معلومات میرے پاس ہیں۔
اسلام اباد کی سب سے سستی سوسائٹی کے بارے ۔اور سب سے مہنگی سوسائٹی کے بارے میں۔اسلام اباد کی ۔سب سے اچھی سوسائٹی اور سب سے بری سوسائٹی کے بارے میں معلومات میرے پاس موجود ہیں۔
میرے پاس اس چیز کی معلومات ہیں کہ کون سی ہاوسنگ سوسائٹی کتنی ڈویلپ ہوچکی ہے اور اس کی مزید ڈویلپمنٹ میں کتنا وقت لگے گا۔اور آنے والے وقت میں کون سی ہاؤسنگ سوسائٹی کی کیا ویلیو ہوگی۔
اور اسلام آباد اور راولپنڈی میں بننے والے میگا پراجیکٹس کی تفصیل ان کی قیمتیں ان کے فلور پلان وڈیزائن وغیرہ کی تفصیلات بھی میرے پاس موجود ہیں۔
اس کے علاوہ اسلام اباد اور راولپنڈی میں رہائشی وکمرشل پراجیکٹس بنانے والے قابل بھروسہ بلڈرز کاڈیٹا بھی میرے پاس موجود ہے۔
دوست احباب کسی بھی ہاوسنگ سوسائٹی یا کمرشل پراجیکٹ میں انوسمنٹ کرنے سے پہلے مجھ سے رائے ضرور لے لیں۔بغیر کسی لالچ کے اچھا مشورہ دوں گا۔
اس کے علاوہ کسی دوست احباب نے اپنی پراپرٹی کی ویلیو جاننی ہو۔کمرشل اور رہاہشی پراجکیٹ کی موجودہ کنڈیشن جاننی ہو تو وہ مجھ سے رابطہ کرسکتا ہے۔
اپ میرے Whattsapp پر کسی بھی وقت مجھے میسج کرسکتے ہیں۔
03005521494
03335850005
0 notes
Text
پریس ریلیز
مارچ 18
*تحریک بائیکاٹ اپنی سیاست کو قومی سلامتی پر ترجیح دے رہی ہے: عظمٰی بخاری*
*پاکستان کے خلاف بین الاقوامی سازشیں جاری ہیں،ایک جماعت سہولت کاری کا کردار اداکررہی ہے: عظمٰی بخاری*
*تحریک فساد کو اوورسیز گروپس نے ہائی جیک کر لیا ،ان کے کچھ رہنما بھارتی لابی کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں: عظمٰی بخاری*
*فتنہ خان وزیر اعظم ہوتے ہوئے بھی قومی سلامتی کے اجلاسوں میں شرکت نہیں کرتا تھا: عظمٰی بخاری*
*تحریک انصاف کا دہشت گرد ونگ ملکی سلامتی کے لیے خطرناک ہے: عظمٰی بخاری*
*افغان مہاجرین کو واپس جانا چاہیے کیونکہ پاکستان مزید بوجھ برداشت نہیں کر سکتا: عظمٰی بخاری*
لاہور() وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے کہا ہے کہ تحریک بائیکاٹ اپنی سیاست کو قومی سلامتی سے زیادہ اہمیت دے رہی ہے۔پاکستان کے خلاف بین الاقوامی سازشیں جاری ہیں اور پاکستان تحریک انصاف سہولت کاری کا کردار اداکررہی ہے۔تحریک فساد کو اوورسیز گروپس نے ہائی جیک کر لیا ہے،ان کے کچھ رہنما بھارتی لابی کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں۔فتنہ خان وزیر اعظم ہوتے ہوئے بھی قومی سلامتی کے اجلاسوں میں شرکت نہیں کرتا تھا اور تحریک انصاف کا دہشت گرد ونگ ملکی سلامتی کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔افغان مہاجرین کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ان کو واپس جانا چاہیے کیونکہ پاکستان مزید بوجھ برداشت نہیں کر سکتا۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے لاہور پریس کلب میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ پریس کلب ہمیشہ سے ان کا دوسرا ��ھر رہا ہے۔ صحافی برادری کے مسائل کا حل میری پہلی ترجیح ہے اور تنخواہوں کے مسائل سمیت دیگر معاملات پر کام جاری ہے۔ انہوں نے رمضان نگران پیکیج کے تحت 30 لاکھ مستحق افراد کو مالی امداد کی فراہمی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ صحافی برادری کو بھی اس میں شامل کیا جائے گا تاکہ وہ بھی اس سہولت سے مستفید ہو سکیں۔عظمیٰ بخاری نے ملکی سیاسی صورتحال اور قومی سلامتی کے امور پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرات کے پیش نظر تمام سیاسی جماعتیں عوام کے جان و مال کے تحفظ کے لیے ایک پلیٹ فارم پر اکٹھی ہیں۔ تاہم، کچھ عناصر اپنی سیاست کو قومی سلامتی سے زیادہ اہمیت دے رہے ہیں، جو ایک افسوسناک رویہ ہے۔انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ میں قومی سلامتی کی کمیٹی کا اجلاس جاری ہے، لیکن ایک مخصوص جماعت نے بائیکاٹ کی سیاست کو اپنا معمول بنا لیا ہے۔ تحریک فساد ماضی میں بھی قومی اتفاق رائے کا حصہ نہیں بنی اور اب بھی وہی رویہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ عظمیٰ بخاری نے افغانستان سے آئے مہاجرین کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہیں واپس جانا چاہیے کیونکہ پاکستان مزید بوجھ برداشت نہیں کر سکتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ جو لوگ ملک میں انتشار پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں، وہ دراصل پاکستان کے دشمنوں کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے قومی ایکشن پلان کے تحت دہشت گردوں کے خلاف سخت کارروائی پر زور دیتے ہوئے کہا کہ جب وہ وزیراعظم تھے تو انہوں نے خود کو سب سے برتر سمجھا اور قومی سلامتی کے اجلاسوں میں شرکت سے گریز کیا۔ آج ملک میں دہشت گردی پھر سر اٹھا رہی ہے، اور ہمیں دوبارہ سخت اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔وزیر اطلاعات پنجاب نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ پاکستان کے خلاف بین الاقوامی سطح پر لابنگ کی جا رہی ہے، اور کچھ مخصوص عناصر اس میں سہولت کار بن رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کو اوورسیز گروپس نے ہائی جیک کر لیا ہے، اور اس کے کچھ رہنما بھارتی لابی کے ساتھ روابط رکھتے ہیں۔عظمیٰ بخاری نے کہا کہ نواز شریف ہر طرح کا مثبت کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں اور پاکستان کے مفاد کو ہمیشہ مقدم رکھتے ہیں۔ انہوں نے 9 مئی کے واقعات اور جعفر ایکسپریس پر ہونے والی سوشل میڈیا مہم کی شدید مذمت کی اور کہا کہ دہشت گردوں کے ساتھ کسی قسم کی رعایت نہیں ہونی چاہیے۔آخر میں انہوں نے کہا کہ پاکستان کی سرحدوں کا تحفظ اولین ترجیح ہے، اور چند فسادی عناصر کے سوا پوری قوم اپنے ملک کی حفاظت کے لیے متحد ہے۔ قومی سلامتی کے معاملات پر صرف وہی لوگ بات کر رہے ہیں جو ملک کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں، جبکہ محب وطن قیادت اور عوام پاکستان کی سلامتی کے لیے ہر قربانی دینے کو تیار ہیں۔
0 notes
Text
عمران کی ’’مقبولیت‘‘ کا راز

پاکستان کی پوری سیاسی تاریخ میں کبھی سرکاری بیانیہ کوعوامی پذیرائی حاصل نہیں ہوئی تو اب کیسے حاصل ہو گی۔ عمران خان کی مقبولیت کو جو عروج آج حاصل ہے اُس کی ایک بہت بڑی وجہ عدم اعتماد کی تحریک سے لے کر آج تک کی مسلم لیگ (ن) اور مقتدرہ کی حکمت عملی ہے جس میں ایک مرکزی کردار سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ہیں اور 2018ء سے 2021ء تک عمران حکومت کا گراف نیچے لانے کے مرکزی کردار سابق ISI چیف جنرل فیض حمید ہیں اور 9 مئی کی جب اصل کہانی کھلے گی تو امکان اسی بات کا ہے کہ کئی راز افشا ہو سکتے ہیں اندرون خانہ بھی اور بیرونی کرداروں کے بارے میں بھی۔ عمران کی مقبولیت کی ابتد�� 30 اکتوبر 2011ء کو مینار پاکستان کے جلسے سے ہوتی ہے مگر اسکے سیاسی تقابل کا جائز ہ لیں تو پتا چلتا ہے کہ جہاں اُس وقت کی مقتدرہ کے تعلقات شریف برادران سے کشیدہ ہو گئے تھے یا ہونا شروع ہوئے تھے مگر اس کی وجوہ خاص طور پر پنجاب اور خیبر پختونخوا میں اور بھی تھیں۔ پہلے کے پی چلتے ہیں یہ سال 2002ء کی بات ہے جنرل پرویز مشرف نے اچانک عام انتخابات کا اعلان کر دیا اُس سے پہلے اپنی مقبولیت جانچنے کیلئے ریفرنڈم کروایا ۔
2002ء کا الیکشن پلان جنرل احتشام ضمیر مرحوم کے حصے میں آیا جس میں عمران خان کیلئے صرف ایک سیٹ کا فیصلہ ہوا۔ ان انتخابات میں نہ شریف میدان میں تھے نہ ہی بینظیر مگر مشرف کو سب سے بڑا چیلنج مذہبی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل سے تھا جسکی بڑی وجہ 9/11 کے بعد امریکہ کی قیادت میں اتحادیوں کا افغانستان پر حملہ تھا۔ ایم ایم اے نے امریکی مخالف بیانیہ بنایا اور مشرف پر امریکی نواز ہونے کا الزام لگایا جس سے انہیں عوامی پذیرائی اس حد تک ملی کہ وہ کے پی میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں آگئے۔ دیگر صوبوں، ماسوائے پنجاب، میں بھی خاصی کامیابی ملی اور ایم ایم اے سب سے مضبوط اپوزیشن کے طور پر سامنے آئی۔ عمران کو اپنے آبائی حلقے میانوالی سے کامیابی حاصل ہوئی جو پاکستان تحریک انصاف کی پہلی انتخابی کامیابی تھی۔ مجھے آج بھی یادہے 2002ء میں اپنی انتخابی مہم ختم کر کے جب وہ کراچی میں ڈاکٹر عارف علوی کے گھر آئے تو مجھ سمیت کئی صحافی وہاں موجود تھے عمران نے مجھ سے پوچھا ’’مظہر تمہاری کیا رائے ہے ہمیں کتنی سیٹیں ملیں گی ہماری مہم تو بہت اچھی رہی ہے‘‘۔

میں نے کہا اس میں کوئی شک نہیں مگر میرا مشاہدہ ہے کہ زیادہ تر لوگ آپ کو دیکھنے آتے ہیں شاید اتنا ووٹ نہ پڑے آپکے امیدواروں کو۔ الیکشن کے بعد عمران کی سیاست میں ایک نیا موڑ آیا اور چونکہ وہ شکست کو کبھی تسلیم نہیں کرتے انہوں نے مہم جاری رکھی تو دوسری طرف ایم ایم اے کی کے پی حکومت ایک طرف جماعت اسلامی اور جے یو آئی میں اختلافات کا شکار ہو گئی تو دوسری طرف ان کی حکومتی کارکردگی پر بھی سوالات اٹھنے لگے جس کا فائدہ خان کو ہوا۔ کرکٹ ملک کا مقبول ترین کھیل ہے اور اس نے بھی ��ان کو خاصا فائدہ پہنچایا۔ ایم ایم اے کا اتحاد ٹوٹ گیا جبکہ ایک ایسا وقت بھی آیا کہ قاضی حسین احمد مرحوم، نواز شریف اور عمران کے درمیان اتحاد تشکیل پا گیا۔ میاں صاحب کے علاوہ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف نے مشرف کے انڈر الیکشن کا بائیکاٹ کیا جو ایک سیاسی تضاد تھا انکی سیاست کا کیونکہ 2002ء کے الیکشن میں دونوں حصہ لے چکے تھے۔
2008ء میں محترمہ بینظیر کی شہادت کے بعد ہونے والے الیکشن میں کے پی میں اے این پی اور پی پی پی کی اتحادی حکومت بنی جبکہ پنجاب میں پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کی۔ اس حوالے سے میدان میں پی ٹی آئی اور خاص طور پر عمران کو اپوزیشن کا رول اور پی ٹی آئی کو تیسری قوت یا تھرڈ آپشن کے طور پر پیش کرنے کا موقع مل گیا اور جب وہ 2013ء کے الیکشن میں گئے تو ان کو پہلی بڑی انتخابی کامیابی ملی تاہم انہیں حکومت کے پی میں بنانے کیلئے جماعت اسلامی سے اتحاد کرنا پڑا۔ کے پی میں عمران نے پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا البتہ 2013ء الیکشن تک اُنکی جماعت میں دوسری جماعتوں سے لوگوں کے آنے کا سلسلہ شروع ہو گیا جس میں اُس وقت کی مقتدرہ کے کچھ افسران کا رول نظر آتا ہے۔ اُس وقت نئی تاریخ رقم ہوئی جب 2018ء میں پی ٹی آئی کو دو تہائی اکثریت ملی جو ایک ریکارڈ تھا اور یہ گراف آج تک برقرار ہے ۔ یہاں دوسری جماعتوں کی خراب کارکردگی، بیانیہ کی کمزوری اور نوجوانوں کا عمران کی جانب رجحان اور سابقہ فاٹا میں آپریشن کی مخالفت اُن کی مقبولیت کی بڑی وجوہات میں سے چند ہیں۔
پنجاب میں پی ٹی آئی کی کامیابی کی بڑی وجہ پی پی پی کا پنجاب میں مکمل صفایا نظر آتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) فرینڈلی اپوزیشن اور عمران کا اینٹی شریف بیانیہ بنا جس نے پی پی پی کے ورکرز اور ووٹرز کو اپنی جانب راغب کیا۔ دوسری وجہ بے نظیر بھٹو کے بعد پارٹی میں مقبول رہنما کی کمی اور تیسری وجہ مسلم لیگ پر خاندان کی اجارہ داری کا مزید مضبوط ہونا۔ تاہم ایک بڑی وجہ نواز شریف کا 2013ء کے بعد پی ٹی آئی کے احتجاج کو طول دلوانا بھی ٹھہرا ورنہ چار حلقے کھولنے کے مطالبے کو بہتر انداز میں حل کیا جا سکتا تھا نتیجہ کے طور پر ماڈل ٹائون یا 126 دن کے دھرنے کی نوبت نہ آتی۔ اس حکمت عملی نے پی ٹی آئی کو فائدہ پہنچایا۔ تاہم اس میں جنرل ظہیر الاسلام اور جنرل پاشا کے رول کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ 2018 ء کے الیکشن میں عمران کو پہلے سے زیادہ نشستیں ملیں تاہم اب بھی وہ حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں تھے جس کیلئے جنرل باجوہ اور جنرل فیض نے کردار ادا کیا اور یہی عمران کی سب سے بڑی سیاسی غلطی تھی اور وہ پھر باجوہ اور فیض کا احسان چکانے میں لگ گئے اور جب اُنکے باجوہ سے اختلاف بڑھے تو وہ کردار جو انہوں نے عمران کی حکومت بنانے میں ادا کیا تھا وہ حکومت گرانے میں ادا کیا اور خان باجوہ اور فیض کے درمیان پھنس کر رہ گئے۔
باجوہ، شریف اور زرداری کی سب سے بڑی غلطی عمران کو ہٹانا اور پھر حکومت کرنا ثابت ہوئی جس کی قیمت وہ آج تک ادا کر رہے ہیں۔ ان تین حضرات نے اور ان کی سیاست نے جو غلطیاں کیں اُس کی قیمت آج 8 فروری کا الیکشن ہے جس نے عمران کو عروج کی نئی منزل پر پہنچا دیا اور یاد رہے یہ الیکشن 9 مئی کے بعد ہوا، خان کی بے شمار سیاسی غلطیوں کے بعد۔ اس وقت بانی پی ٹی آئی دونوں بڑی جماعتوں اور خود مقتدرہ کے لیے ایک ایسی ’’کڑوی گولی‘‘ بن چکا ہے جو نگلی جا رہی ہے نہ اُگلی جا رہی ہے۔ عمران نہ اُس کی جماعت کوئی منظم تحریک چلا پائے 9 مئی اور 26 نومبر اِس کا ثبوت ہے مگر دوسری طرف کوئی بیانیہ ہی نہیں۔ اب خان کے پاس تو پھر ایک ٹرمپ کارڈ ہے دوسری طرف سناٹا ہے کیونکہ سزا دے کر بھی عمران کی مقبولیت بڑھ سکتی ہے کم نہ ہو گی۔
مظہر عباس
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
ٹیکس اہداف کیسے حاصل کئے جائیں گے؟ ایف بی آر نے آئی ایم ایف کو پلان پیش کردیا
(وقاص عظیم)پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات ،ایف بی آر نے ٹیکس اہداف کو حاصل کرنے کا پلان آئی ایم ایف کو پیش کردیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وزارت خزانہ اور آئی ایم ایف مشن کے درمیان ساتھ مقامی قرض پر بات چیت ہوئی،وزارت خزانہ حکام نے آئی ایم ایف مشن کو مقامی قرض پر بریفنگ دی،ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف کی طرف سے مقامی قرض کے حوالے سے اعتراض نہیں اٹھایا گیا۔ دوران بریفنگ بتایا گیا کہ حکومت…
0 notes
Photo

پله پله ... ممنون که با ما همراه هستید .. ❤ #morometal @morometal.ir @moro_official Www.morometal.com از طراحی تا اجرا .. جهت اطلاع از قیمتها و اطلاعات بیشتر با شماره های زیر تماس بگیرید .. میلاد شیری 0901,093,0178 👉 واتساپ و تماس 0912,347,0253 👉 واتساپ و تماس #میلادشیری #miladshiri #توت_سفید #آهن #فرفورژه #ویلایی #پله_دوبلکس #آینه_کنسول #پلان #نرده #طراح #ساختمان #ویلا #اسلیمی #خاص #لوکس_هوم #ارزانسرا #لاکچری #آینه_لاکچری #کلاسیک #سنتی (در تهران) https://www.instagram.com/p/CrIXSK8PqSj/?igshid=NGJjMDIxMWI=
#morometal#میلادشیری#miladshiri#توت_سفید#آهن#فرفورژه#ویلایی#پله_دوبلکس#آینه_کنسول#پلان#نرده#طراح#ساختمان#ویلا#اسلیمی#خاص#لوکس_هوم#ارزانسرا#لاکچری#آینه_لاکچری#کلاسیک#سنتی
1 note
·
View note
Text
ایل ڈی اے میں آن لائن رہائی بلڈنگ پلان کی منظوری کا آغاز
وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف کی ہدایت پر لاہور ڈیولپمنٹ اتھارٹی میں آن لائن رہائشی بلڈنگ پلان کی منظوری کا آغاز کردیاگیا۔ شہری ایل ڈی اے سے گھر بیٹھے آن لائن رہائشی نقشوں کی منظوری کرا سکتے ہیں ۔نقشے کی منظوری کی درخواست، نقشہ اپ لوڈ، پراسسنگ، چالان سب آن لائن ہو گا۔اعتراض کی صورت میں درستگی اور منظور شدہ نقشہ ڈاون لوڈ کیا جا سکے گا۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نےکہاکہ رہائشی بلڈنگ پلان کی منظوری کے…
0 notes
Text
Design with artificial intelligence specially designed for you it is so beautiful
#معماری
#معماری_مدرن
#محمدقاسمیحیدرانلو
#مدرن
#طراحی
#طراحی_داخلی
#پرسپکتیو
#پلان
#architecture
#Artificiaintelligence
#Designing
#Perspective
#plan
#abstractart
instagram
#ga3mi_021ga3mi021ga3mi_021ga3mi021#معماری معماری_مدرن محمدقاسمیحیدرانلو مدرن طراحی طراحی_داخلی پرسپکتیو پلان architecture Artificiaintelligence Designing#Instagram
0 notes
Text
کیا معیشت دم توڑ چکی ہے؟

کمال فنکاری بلکہ اوج ثریا سے منسلک لازوال عیاری سے اصل معاملات چھپائے جا رہے ہیں۔ جذباتیت‘ شدید نعرے بازی اور کھوکھلے وعدوں سے ایک سموک سکرین قائم کی گئی ہے جس میں ملک کی ریڑھ کی ہڈی‘ یعنی معیشت کے فوت ہونے کے المیہ کو خود فریبی کا کفن پہنا کر چھپایا جا رہا ہے۔ ذمہ داری سے گزارش کر رہا ہوں کہ پاکستان کی معیشت دم توڑ چکی ہے۔ دھوکہ بازی کے ماہر بھرپور طریقے سے غلط اعداد فراہم کر رہے ہیں۔ قوم کو اصل حقیقت سے مکمل دور کر دیا گیا ہے۔ مگر انفارمیشن کے اس جدید دور میں لوگوں کو مسلسل فریب دینا ناممکن ہو چکا ہے۔ طالب علم کو کوئی غرض نہیں کہ سیاسی حالات کیا ہیں۔ کون پابند سلاسل ہے اور کون سا پنچھی آزاد ہوا میں لوٹن کتوبر کی طرح قلابازیاں کھا رہا ہے۔ اہم ترین نکتہ صرف ایک ہے کہ پاکستان کے معاشی حالات کیا ہیں؟ کیا وہ بہتری کی جانب رواں دواں ہیں یا ذلت کی پاتال میں گم ہو چکے ہیں۔ عوام کی بات کرنا بھی عبث ہے۔ اس لیے کہ اس بدقسمت خطے میں ڈھائی ہزار برس سے عام آدمی کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔
عام آدمی چندرگپت موریا اور اشوکا کے زمانے سے دربدر ہے۔ اور اگر ہمارے خطے میں جوہری تبدیلی نہ آئی یا نہ لائی گئی۔ تو یقین فرمائیے کہ کم از کم پاکستان میں حسب روایت اور تاریخ کے غالیچے پر براجمان طبقہ تباہی کا صور اسرافیل پھونک رہا ہے۔ معیشت کو ٹھیک سمت میں اگر موجودہ وزیراعظم اور وزیر خزانہ نہیں لے کر جائے گا تو پھر کون یہ اہم ترین کام کرے گا۔ غور کیجیے۔ اگر کوئی ایسی بیرونی اور اندرونی منصوبہ بندی ہے کہ پاکستان کو سابقہ سوویت یونین کی طرز پر آرے سے کاٹنا ہے ۔ تو پھر تو درست ہے ۔ مگر وہ کون لوگ اور ادارے ہیں جو جانتے بوجھتے ہوئے بھی ملکی معیشت کو دفنانے کی بھرپور کوشش میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ ہمیں تو بتایا گیا ہے کہ ریاستی اداروں کی عقابی نظرسے کوئی امر پوشیدہ نہیں ہے۔ تو پھر ملکی معیشت کا جنازہ کس طرح نکال دیا گیا۔ ڈاکٹر اشفاق حسین جیسے جید معیشت دان‘ گال پیٹ پیٹ کر ملک کی معاشی زبوں حالی کا ذکر عرصے سے کر رہے ہیں۔ کیوں ان جیسے دانا لوگوں کی باتوں کو اہمیت نہیں دی گئی۔ گمان تو یہ ہے کہ واقعی ایک پلان ہے‘ جس میں مرکزیت صرف ایک سیاسی جماعت کو ختم کرنا ہے۔ اس اثناء میں‘ اگر معیشت ختم ہو گئی تو اسے زیادہ سے زیادہ Collateral damage کے طور پر برداشت کرنا ہے۔

صاحبان! اگر واقعی یہ سب کچھ آدھا جھوٹ اور آدھا سچ ہے۔ تب بھی مشکل صورتحال پیدا ہو چکی ہے۔ بین الاقوامی اقتصادی اداروں کے سامنے ہم گھٹنوں کے بل نہیں بلکہ سربسجود ہونے کے باوجود ’’ایک دھیلہ یا ایک پائی‘‘ کا قرضہ حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ یہ سچ بھرپور طریقے سے چھپایا جا رہا ہے۔ وزیرخزانہ کے نعروں کے باوجود ورلڈ بینک پاکستان کی کسی قسم کی کوئی مدد کرنے کو تیار نہیں ہے۔ اس پر کمال یہ ہے کہ وزیراعظم ‘ وزیراعلیٰ ‘ گورنر صاحبان ‘ وزراء اور ریاستی اداروں کے سربراہان ہر طرح کی مالی مراعات لے رہے ہیں۔ جن کا ترقی یافتہ ممالک میں بھی تصور نہیں کیا جا سکتا۔ سرکاری ہوائی جہاز‘ سرکاری ہیلی کاپٹر‘ حکومتی قیمتی ترین گاڑیاں‘ رکشے کی طرح استعمال کی جا رہی ہیں۔ چلیئے‘ اس ادنیٰ اداکاری کا کوئی مثبت نتیج�� نکل آئے۔ تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مگر ایک سال سے تو کسی قسم کا کوئی ٹھنڈی ہوا کا جھونکا نہیں آیا۔ کسی قسم کی ایسی بات نہیں کر رہا‘ جس کا ثبوت نہ ہو۔
ایکسپریس ٹربیون میں برادرم شہباز رانا کی ملکی معیشت کے متعلق رپورٹ رونگٹے کھڑے کر دینے والی ہے۔ یہ چھبیس مئی کو شائع ہوئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ‘ پاکستان کی معیشت سکڑ کر صرف اور صرف 341 بلین ڈالر تک آ چکی ہے۔ یہ ناقابل یقین کمی‘ ملکی معیشت کا نو فیصد ہے۔ یعنی گزشتہ ایک برس میں اقتصادی طور پر ملک خوفناک طور پر غرق کیا گیا ہے۔ یہ 34 بلین ڈالر کا جھٹکا ہے۔ اس کی وضاحت کون کرے گا۔ اس کا کسی کو بھی علم نہیں۔ انفرادی آمدنی‘ پچھلے اقتصادی برس سے گیارہ فیصد کم ہو کر 1568 ڈالر پر آ چکی ہے۔ یعنی یہ گیارہ فیصد یا 198 ڈالر کی کمی ہے۔ یہ اعداد و شمار کسی غیر سرکاری ادارے کے نہیں‘ بلکہ چند دن قبل نیشنل اکاؤنٹس کمپنی (NAC) میں ��رکاری سطح پر پیش کئے گئے تھے۔ اور ان پر سرکار کی مہر ثابت ہو چکی ہے۔ معیشت کا سکڑنا اور انفرادی آمدنی میں مسلسل گراؤٹ کسی بھی حکومت کی ناکامی کا اعلانیہ نہیں تو اور کیا ہے۔ تف ہے کہ ملک کے ذمہ دار افراد میں سے کسی نے اس نوحہ پر گفتگو کرنی پسند کی ہو۔ ہاں۔ صبح سے رات گئے تک‘ سیاسی اداکار‘ سیاسی مخالفین کے لتے لیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اب تو سیاسی مخالفین کو غدار اور غیر محب وطن ہونے کے سرٹیفکیٹ بھی تواتر سے بانٹے جا رہے ہیں۔ ماضی میں یہ کھیل کئی بار کھیلا جا چکا ہے۔
ہم نے ملک تڑوا لیا۔ لیکن کوئی سبق نہیں سیکھا۔ یہ کھیل آج بھی جاری ہے۔ معیشت کے ساتھ ساتھ ملک کی سالمیت سے بھی کھیلا جا رہا ہے۔ عمران خان تو خیر‘ سیاست کی پیچیدگیوں سے نابلد انسان ہے۔ مگر موجودہ تجربہ کار قائدین کیوں ناکام ہو گئے ہیں۔ خاکم بدہن‘ کہیں ملک توڑنے کا نسخہ‘ دوبارہ زیر استعمال تو نہیں ہے۔ وثوق سے کچھ کہنا ناممکن ہے۔ معیشت پر برادرم شہباز رانا کی رپورٹ میں تو یہاں تک درج ہے کہ بیورو آف سٹیسٹسکس (BOS) کو جعلی اعداد و شمار دینے پر مجبور کیا گیا ہے۔ یہ دباؤ حکومت وقت کے سرخیل کی طرف سے آیا ہے۔ بیورو نے ملکی معیشت کو منفی 0.5 فیصد پر رکھا تھا۔ مگر اس رپورٹ کے بقول وزارت خزانہ اور دیگرطاقتور فریقین نے یہ عدد جعل سازی سے تبدیل کروا کر مثبت 0.3 فیصد کروایا ہے۔ دل تھام کر سنیے۔ ملک میں آبادی بڑھنے کی شرح دو فیصد ہے۔ اگر 0.3 فیصد ملکی ترقی کو تسلیم کر بھی لیا جائے۔ تب بھی ملکی معیشت 1.7 فیصد منفی ڈھلان پر ہے۔ یہ معاملات کسی بھی ملک کی بربادی کے لیے ضرورت سے زیادہ ہیں۔ ہمارے دشمن شادیانے بجا رہے ہیں۔ اندازہ فرمائیے کہ اس رپورٹ کے مطابق‘ موجودہ حکومت نے 2022ء کے سیلاب میں دس لاکھ جانوروں کے نقصان کا ڈھنڈورا پیٹا تھا۔ Livestock سیکٹر کی بات کر رہا ہوں۔ مگر BOS کے مطابق حکومت کے یہ اعداد بھی مکمل طور پر غلط ہیں۔
سرکاری ادارے کے مطابق جانوروں کا نقصان صرف دو لاکھ ہے۔ سوچیئے۔ عالمی برادری اور ادارے‘ ہمارے اوپر کس طرح قہقہے لگا رہے ہونگے۔ اس تجزیہ کے مطابق زراعت کے شعبہ میں نمو 1.6 فیصد رکھی گئی ہے۔ یہ عدد بھی کسی بنیاد کے بغیر ہوا میں معلق ہے۔ وجہ یہ کہ کپاس کی فصل اکتالیس فیصد کم ہوئی ہے۔ کپاس کو روئی بنانے کے عمل میں 23 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ چاول کی فصل میں اکیس فیصد کمی موجود ہے۔ یہ سب کچھ برادرم شہباز رانا کی شائع شدہ رپورٹ میں درج ہے۔ مگر ذرا میڈیا ‘ میڈیا رپورٹنگ پر نظر ڈالیے ۔ تو سوائے سیاست یا گالم گلوچ کے کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ وہاں کوئی بھی ’’مہاشے‘‘ ذکر نہیں کرتا کہ معیشت بھی مقدس ہے۔ اگر یہ بیٹھ گئی تو سب کچھ عملی طور پر ہوا میں اڑ جائے گا۔ مگر کسی بھی طرف سے کوئی سنجیدہ بات سننے کو نہیں آتی۔ وزیر خزانہ کے یہ جملے‘ ’’کہ ہر چیز ٹھیک ہو جائے گی‘‘۔ بس فکر کی کوئی بات نہیں۔ ان پر شائ�� میرے جیسے لا علم اشخاص تو یقین کر لیں۔ مگر سنجیدہ بین الاقوامی اقتصادی ادارے اور ماہرین صرف ان جملوں پر ہنس ہی سکتے ہیں۔
معیشت ڈوب گئی تو پچیس کروڑ انسان‘ کتنے بڑے عذاب میں غرقاب ہو جائیںگے۔ اس پر بھی کوئی بات نہیں کرتا۔ موجودہ حکومت کی سیاست‘ سیاسی بیانات اور کارروائیاں ایک طرف۔ مگر عملی طور پر ہماری معیشت دم توڑ چکی ہے۔ صرف سرکاری طور پر تسلیم نہیں کیا جا رہا۔ سوال ہو سکتا ہے کہ ملک چل کیسے رہا ہے۔ اس کا جواب صرف یہ ہے‘ کہ ہماری بلیک اکانومی حد درجہ مضبوط اور فعال ہے۔ یہ واحد وجہ ہے کہ ہم خانہ جنگی میں نہیں جا رہے۔ مگر شائد تھوڑے عرصے کے بعد‘ یہ آخری عذاب بھی بھگتنا پڑے۔ مگر حضور‘ تھوڑا سا سچ بول ہی دیجئے۔ مردہ معیشت کی تدفین کب کرنی ہے!
راؤ منظر حیات
بشکریہ ایکسپریس نیوز
2 notes
·
View notes