#قبضہ
Explore tagged Tumblr posts
Text
بھارتی فوج کا غیر قانونی قبضہ کشمیری آج یوم سیاہ منارہے ہیں
(ویب ڈیسک) مقبوضہ کشمیر پر بھارتی فوج کے غیر قانونی قبضے کے خلاف دنیا بھر میں بسنے والے کشمیری آج یوم سیاہ منا رہے ہیں۔ 27اکتوبر 1947 ء کو بھارت نے کشمیری عوام کی خواہشات اورامنگوں کے برخلاف اپنی فوجیں کشمیر میں اتار کر غیر قانونی طورپر قبضہ کرلیاتھا جس کی وجہ سے کشمیریوں کی مشکلات میں کئی گنا اضافہ ہو گیا،کشمیری ہرسال 27اکتوبر کو یوم سیاہ کے طورپر مناتے ہیں، کشمیری اس روز بھارت کو واضح پیغام…
0 notes
Text
کمپیوٹر نے ملازمتیں ختم کر دیں تو لوگ کیا کریں گے؟
ہم مستقبل سے صرف پانچ سال دور ہیں۔ تقریباً ایک صدی قبل ماہر معیشت جان مینارڈ کینز نے کہا تھا کہ ہم 2028 تک اپنی ایسی دنیا میں رہ رہے ہوں گے جہاں سہولتیں کثرت سے ہوں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ دنیا ٹیکنالوجی پر چلے گی۔ ہم دن میں تین گھنٹے کام کریں گے اور زیادہ تر کام محض اپنے آپ کو مصروف رکھنے کے لیے ہو گا۔ 1928 میں شائع ہونے والے اپنے ’مضمون ہمارے پوتے پوتیوں کے لیے معاشی امکانات‘ میں کینز نے پیش گوئی کی کہ ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی اپنے ساتھ ایسی صلاحیت لائے گی کہ کام کرنے کے ہفتے میں تبدیلی آئے گی۔ کوئی بھی اس بات سے انکار نہیں کرے گا کہ جس ٹیکنالوجی کی کینز نے پیشگوئی کی تھی وہ آج موجود ہے۔ لیکن کام کرنے کا ہفتہ اتنا زیادہ تبدیل نہیں ہوا۔ وہ مستقبل جس کا پانچ سال میں وعدہ کیا گیا تھا واقعی بہت دور محسوس ہوتا ہے۔ رواں ہفتے ایلون مسک نے جدید دور میں ماہرِ معاشیات کینز کا کردار ادا کیا جب انہوں نے برطانیہ ک�� مصنوعی ذہانت کے سرکردہ رہنماؤں کے اجلاس کے اختتام پر برطانوی وزیر اعظم رشی سونک سے کہا کہ ہم نہ صرف ملازمت میں کیے جانے والے کام میں کمی کرنے جا رہے ہیں بلکہ اس سے مکمل طور پر چھٹکارا حاصل کریں گے۔
جب وزیر اعظم نے مسک سے پوچھا کہ ان کے خیال میں مصنوعی ذہانت لیبر مارکیٹ کے لیے کیا کرے گی تو انہوں نے ایک ایسی تصویر پیش کی جو خوش کن یا مایوس کن ہو سکتی ہے جس کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ اسے کس طرح دیکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مصنوعی ذہانت ’تاریخ میں سب سے زیادہ خلل ڈالنے والی قوت‘ ہے۔ ’ہمارے پاس پہلی بار کوئی ایسی چیز ہو گی جو ذہین ترین انسان سے زیادہ سمجھدار ہو گی۔‘ اگرچہ ان کا کہنا تھا کہ پیش گوئی کرنا مشکل ہے لیکن انہوں نے کہا کہ ’ایک وقت آئے گا جب کسی نوکری کی ضرورت نہیں رہے گی‘۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ کام کرنے کی واحد وجہ ’ذاتی اطمینان‘ ہو گی، کیوں کہ ’مصنوعی ذہانت سب کچھ کرنے کے قابل ہو گی۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے نہیں معلوم کہ اس سے لوگوں کو آرام ملتا ہے یا بےآرامی۔‘ ’یہ اچھا اور برا دونوں ہے۔ مستقبل میں چیلنجوں میں سے ایک یہ ہو گا کہ اگر آپ کے پاس ایک جن ہے جو آپ کے لیے وہ سب کچھ کر سکتا ہے جو آپ چاہتے ہیں تو اس صورت میں آپ اپنی زندگی میں معنی کیسے تلاش کریں گے؟‘ سونک اپنی جگہ اس صورت حال کے بارے میں یقینی طور پر بےچین لگ رہے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ کام کرنے سے لوگوں کو معنی ملتے ہیں۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ مصنوعی ذہانت کام کی دنیا کو مکمل طور پر ختم کرنے کے بجائے اسے بہتر بنائے گی۔ دنیا ان دو آدمیوں کے درمیان ایک چوراہے پر کھڑی ہے اور یہ جاننا مشکل ہے کہ کس طرف جانا ہے۔ سوال کا ایک حصہ ٹیکنالوجی کے بارے میں ہے۔ اس کا کتنا حصہ انسانوں کے لیے قدرتی ہے اور کیا مشینیں آخر کار ہماری دنیا کے ہر حصے پر قبضہ کرنے کے قابل ہوں گی؟ لیکن ایک بہت گہرا اور زیادہ اہم سوال بالکل تکنیکی نہیں ہے یعنی ہم یہاں کس لیے ہیں اور ہم اپنی زندگیوں کے ساتھ کیا کرنا چاہتے ہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو ہم حال ہی میں اپنے آپ سے پوچھنے کے عادی ہو گئے ہیں۔ وبائی مرض نے کام کے مستقبل کے بارے میں ہر طرح کی سوچ کو جنم دیا اور یہ کہ لوگ کس طرح جینا چاہتے تھے اور کچھ نے اسے گہری اور دیرپا طریقوں سے اپنی زندگیوں کو تبدیل کرنے کے مواقع کے طور پر استعمال کیا۔ لیکن اس سوال کی نئی اور گہری شکل مصنوعی ذہانت کے ساتھ آ رہی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ہمیں طویل عرصے تک اس سوال کا جواب نہ دینا پڑے۔
مصنوعی ذہانت کی موجودہ رفتار اور جس جنون کے ساتھ اس پر بات کی جا رہی ہے، اس سے یہ سوچنا آسان ہو سکتا ہے کہ روبوٹ صرف چند لمحوں کے فاصلے پر انتظار کر رہے ہیں۔ وہ ہماری نوکریاں (اور شاید ہماری زندگیاں) لینے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن زیادہ تر ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بات کو قدرے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا اور کم از کم بہت سی صنعتیں طویل عرصے تک محفوظ رہ سکتی ہیں۔ تاہم ہمیں ابھی سے اس کے بارے میں ��وچنا شروع کرنا چاہیے کیوں ابھی نوبت یہاں تک نہیں پہنچی۔ ہمارے پاس تیاری کا موقع ہے کہ ہم ان ٹیکنالوجیوں کو کس طرح اپناتے ہیں۔ وہ انداز جو ہم نے پہلے کبھی نہیں اپنایا۔ مصنوعی ذہانت کے بارے میں زیادہ تر بحث خیالی باتوں اور سائنس فکشن کی طرف مائل ہوتی ہے۔ اس پر ہونے والی بحثیں اکثر پالیسی مباحثوں کی بجائے زیادہ تر مستقبل کی ٹرمینیٹر فلموں کے لیے کہانیاں تجویز کرنے والے لوگوں کی طرح لگ سکتی ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ ہم اس تجریدی بحث کو حقیقی ٹھوس سوچ کے ساتھ ملا دیں کہ ہم دنیا کو کس طرح دیکھنا چاہتے ہیں۔ کام، معلومات اور اس کے علاوہ بھی بہت کچھ کیسا دکھائی دینا چاہیے۔
لیکن اس کا جواب دینے کا مطلب مقصد، معنی اور ہم یہاں کیوں ہیں کے بارے میں مزید فلسفیانہ بحث کرنا ہوسکتا ہے۔ یہ وہ سوالات ہیں جن سے انسانی ذہانت ہزاروں سال سے نبرد آزما ہے لیکن مصنوعی ذہانت انہیں ایک نئی اور زیادہ فوری اہمیت دینے والی ہے۔ فی الحال بحثیں گھبراہٹ اور اضطراب کے ساتھ ہو رہی ہیں۔ سونک یقینی طور پر اکیلے نہیں ہیں جو آٹومیشن کے بارے میں مایوس کن نقطہ نظر کے بارے میں پریشان ہیں اور اس سے کتنی ملازمتیں ختم ہو جائیں گی۔ یہ ایک اور وجہ ہے کہ ہمیں اس بات پر تبادلہ خیال کرنا چاہیے کہ وہ خودکار مستقبل کیسا نظر آ سکتا ہے۔ کیوں کہ اسے کم خوفناک بنانے کا موقع موجود ہے۔ یہ یقینی طور پر مشینوں اور مصنوعی ذہانت کے نظام کے بارے میں گھبراہٹ کا سب سے بڑا حصہ جس کے بارے میں بات نہیں کی گئی ہے۔ یہ وہ روبوٹ نہیں ہیں جن سے ہم ڈرتے ہیں۔ یہ انسان ہیں۔ مصنوعی ذہانت کے حوالے سے پریشان کن صورت حال کے بارے میں تمام گھبراہٹ کی بنیاد یہ ہے کہ ملازمتوں کے خودکار ہونے کا کوئی بھی فائدہ ان انسانی کارکنوں کو نہیں جائے گا جو پہلے یہ ملازمت کرتے تھے۔
یہ اضطراب ہر جگہ موجود ہے اور رشی سونک نے ایلون مسک کے ساتھ اپنی گفتگو کے دوران نشاندہی کی کہ جب وہ دنیا میں لوگوں سے ملتے ہیں تو انہیں ذہانت یا کمپیوٹنگ کی حدود کے بڑے سوالات میں دلچسپی نہیں ہوتی بلکہ ملازمتوں میں دلچسپی ہوتی ہے۔ اگر لوگوں کو لگتا ہے کہ وہ آٹومیشن کے عمل کا حصہ ہیں اور وہ اس سے کچھ حاصل کریں گے تو دنیا کم پریشان کن جگہ ہو گی۔ یہ مقصد مختلف طریقوں سے حاصل کیا جاسکتا ہے لیکن یہ سب اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ہے کہ لوگ آٹومیشن کے ذریعہ پیدا ہونے والی پیداواری صلاحیت اور کارکردگی سے فائدہ اٹھا سکیں۔ اس سوال پر دنیا کا ملا جلا ٹریک ریکارڈ ہے۔ تکنیکی تبدیلی نے ہمیشہ لیبر مارکیٹ میں خرابی پیدا کی لیکن اس کے اثرات مختلف ہیں۔ اکثر وہ لوگ جو تاریخ میں مشینوں کی وجہ سے فالتو ہو گئے اور ان نئی ملازمتوں کی طرف چلے گئے جن عام طور پر خطرہ اور مشقت کم ہے۔ اگر ماضی میں لوگوں نے روبوٹس اور کمپیوٹرز والی ہماری دنیا کو دیکھا ہو تو وہ سوچیں گے کہ یہ ان کے پاس موجود خطرناک اور تھکا دینے والی ملازمتوں کے مقابلے میں ایک کامل اور مثالی جگہ ہے۔ ہمیں ان فوائد کو صرف وجہ سے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ اس وقت ہم انہیں معمولی سمجھتے ہیں۔
لیکن ہمارے پاس ہمیشہ وہ یوٹوپیا نہیں رہا جس کا وعدہ ماضی کے ان لوگوں نے ہم سے کیا تھا۔ جب 1928 میں کینز نے وعدہ کیا تھا کہ دنیا میں دن میں چند گھنٹے کام ہو گا تو اس میں امید کم اور پیشگوئی زیادہ تھی۔ مالی بحران کے وقت بھی انہوں نے ’بجلی، پیٹرول، فولاد، ربڑ، کپاس، کیمیائی صنعتوں، خودکار مشینوں اور بڑے پیمانے پر پیداوار کے طریقوں‘ جیسے وسیع پیمانے پر کام کرنے والی ٹیکنالوجیز کی طرف اشارہ کیا جو آج مصنوعی ذہانت کے فوائد کی بات کرنے والوں کی یاد دلاتا ہے۔ اس کا کوئی اچھا جواب نہیں ہے کہ ہمیں فراوانی اور آرام کی وہ دنیا کیوں نہیں ملی جس کا انہوں نے وعدہ کیا۔ اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ کینز نے پیش گوئی کی تھی کہ لوگ فرصت میں زیادہ وقت گزارنے کے لیے اضافی وسائل کا استعمال کریں گے۔ تاہم جو ہوا ہے وہ یہ ہے کہ ہم نے وسائل کو مزید چیزوں پر صرف کیا ہے۔ بڑے حصے کے طور پر ٹیکنالوجی کی معاشی ترقی صرف فون جیسی زیادہ ٹیکنالوجی خریدنے میں استعمال کی گئی۔ لیکن ایک اور وجہ بھی ہے کہ ہم نے اپنی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لیے ٹیکنالوجی کے فوائد کو استعمال کرنے کے بارے میں کبھی سنجیدہ بحث نہیں کی۔ کسی نے بھی دنیا سے یہ نہیں پوچھا کہ ہمیں ٹیکنالوجی کی کارکردگی کے ساتھ کیا کرنا چاہیے اور یہی وجہ ہے کہ ہم آج اس صورت کا سامنا کر رہے ہیں۔
اگرچہ انہوں نے فراوانی والی دنیا اور وقت کی فراوانی کی پیشگوئی کہ کینز نے رشی سونک سے مکمل طور پر اختلاف نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ ’خوف کے بغیر تفریح اور فراوانی کے دور کا انتظار‘ ناممکن ہے۔ اور یہ کہ ’ہمیں بہت طویل عرصے تک تربیت دی گئی ہے کہ ہم مشقت کریں اور لطف اندوز نہ ہوں۔‘ لوگوں کو فکر ہے کہ کام کے ذریعے دنیا سے جڑے بغیر ان کے پاس کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہوگا۔ کوئی خاص صلاحیت نہیں ہو گی۔ کوئی دلچسپی نہیں ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ آپ کو یہ جاننے کے لیے کہ زندگی گزارنا مشکل ہو سکتا ہے، صرف امیر لوگوں کو دیکھنا پڑے گا۔ لیکن لوگ اپنے آپ کو مطمئن رکھنے کے لیے دن میں تین گھنٹے کام کر سکتے ہیں۔ زیادہ تر کام اس لیے کیا جائے گا کہ ہمیں کچھ نہ کچھ کرنا ہے۔ ہم تنخواہ کی بجائے بنیادی طور پر کسی مقصد کے تحت کام کر رہے ہوں گے۔ لوگ اس مقصد کو کیسے تلاش کرتے ہیں؟ لوگ کا کیا مقصد ہے؟ ہم اپنا ’ایکی گائے‘ (جاپانی زبان کا لفظ جس مطلب مقصد حیات ہے) کیسے تلاش کرتے ہیں؟ مقصد زندگی کو گزارنے کے قابل بناتا ہے۔ سو سال پہلے جب کینز نے ہم سے پوچھا تو ہمارے پاس اچھا جواب نہیں تھا۔ اور نہ ہی ہزاروں سال پہلے اسی جیسے سوال کا جواب تھا جب افلاطون نے پوچھا۔ لیکن لیکن اب جدید ترین ٹیکنالوجی کی مدد سے ہمیں اس قدیم سوال کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
اینڈریو گرفن
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
38 notes
·
View notes
Text
اور کل جنت دریاؤں اور سائے سے چمکے گی۔
And tomorrow Paradise will shine with rivers and shadows
اور کل ہم بھول جاتے ہیں، اس لیے ہم اس ماضی پر غمزدہ نہیں ہوتے جس نے قبضہ کر لیا ہے۔
And tomorrow we forget, so we do not grieve over a past that has taken over
اور کل ہم خوشحال ہوں گے، اس لیے ہمیں غیب کی جگہ کا علم نہیں ہے۔
And tomorrow we prosper, so we don't know the unseen place
اور کل خوشحال حال کے لیے ہم کچھ نہیں جیتے سوائے اس کے
And tomorrow for the prosperous present we live nothing but
ام کلثوم نے آخر میں کہا:
Umm Kulthum concluded with:
"غیب میٹھا ہو سکتا ہے، لیک�� حال زیادہ میٹھا ہے۔"
“The unseen may be sweet, but the present is sweeter.”
45 notes
·
View notes
Text
طاقت سے مظلوم قوم کے جذبہ مزاحمت کو دبایا نہیں جاسکتا‘
اسرائیل-فلسطین تنازع اور غزہ میں جنگ ایک ایسا لاوا تھا جو طویل عرصے سے پک رہا تھا۔ فلسطین پر 7 دہائیوں کے وحشیانہ اسرائیلی قبضے کے باعث حالات اس نہج پر پہنچے۔ اسرائیل جو ہمیشہ سے ہی فلسطینیوں کے خلاف ’حالتِ جنگ‘ میں ہے، اس نے فلسطینیوں کے خلاف شدید جارحیت، آبادکاروں کی جانب سے تشدد، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، مقدس اسلامی مقامات کی بےحرمتی اور جدید تاریخ میں نسل پرستی کی بدترین مثال قائم کی ہے۔ فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے زبردستی بےدخل کیا گیا، انہیں ان کے گھروں سے محروم کیا گیا جبکہ انہیں ظلم، بلاوجہ گرفتاریاں اور اجتماعی سزاؤں کا بھی نشانہ بنایا گیا۔ ان کے پورے کے پورے محلوں کو مسمار کر دیا گیا اور ان کی جگہ اسرائیلیوں کی غیرقانونی آبادکاری کے لیے راہ ہموار کی گئی۔ ان مظالم نے بےگھر ہونے والے لوگوں کو ناقابلِ بیان مصائب میں مبتلا کیا ہے۔ غزہ کے 20 لاکھ سے زائد رہائشی گزشتہ 16 سال سے اسرائیل کی طرف سے مسلط کردہ ناکہ بندی اور ظالمانہ پابندیوں کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں اور ان پابندیوں نے ان کی زندگیوں کو تباہ کر دیا ہے۔ وہ ایسی جگہ رہتے ہیں جسے دنیا کی سب سے بڑی ’کھلی جیل‘ کہا جاتا ہے۔
ناانصافیوں کی اس تاریخ کو مدِنظر رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو فلسطینی مزاحمتی گروہ حماس کی جانب سے 7 اکتوبر کو بڑے پیمانے پر جنگ کا آغاز کرنا زیادہ حیران کن نہیں لگتا۔ اسرائیل کی جانب سے وحشیانہ اور بلاامتیاز جوابی کارروائی نے فلسطین کی المناک داستان میں ایک دردناک باب کا اضافہ کر دیا ہے۔ اسرائیل نے یہ عہد کیا ہے کہ وہ ’دردناک انتقام‘ لے گا اور ساتھ ہی غزہ کا محاصرہ کرلیا ہے۔ وہ اپنی فوجی طاقت کا مظاہرہ ایک تنگ، غریب، گنجان آباد پٹی پر کررہا ہے جبکہ رہائشی عمارتوں، پناہ گزین کیمپوں اور اسکولوں کو بمباری کا نشانہ بنارہا ہے جو کہ بلاشبہ جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے۔ اس بمباری سے 700 بچوں سمیت 2 ہزار 200 سے زائد فلسطینی جاں بحق ہوئے جبکہ تقریباً 5 لاکھ کے قریب فلسطینی بےگھر ہوچکے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے ہیومن رائٹس چیف نے اسرائیل کے محاصرے کو بین الاقوامی انسانی حقوق قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ یورپی یونین کے اعلیٰ سفارت کار جوسیپ بورل نے بھی غزہ کے محاصرے کو غیرقانونی قرار دیا ہے۔ غزہ کے لیے بجلی، پانی، خوراک اور ایندھن کی فراہمی بند کر کے اسرائیل نے ایک خوفناک صورتحال پیدا کر دی ہے۔ اسرائیلی فوج نے 11 لاکھ فلسطینیوں کو شمالی غزہ خالی کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔
اقوامِ متحدہ کی جانب سے تباہ کُن نتائج کے لیے خبردار کیا گیا ہے اور اب غزہ میں انسانی المیے کا سامنا ہے۔ اس المیے میں بین الاقوامی برادری کا بھی ہاتھ ہے۔ فلسطینیوں کی حالتِ زار کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے مغربی میڈیا اس مؤقف کی غیرمشروط حمایت کر رہا ہے کہ ’اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے‘۔ امریکا جو اسرائیل کا اہم اتحادی ہے اس نے اسرائیل کے لیے مکمل فوجی تعاون کا اعلان کیا ہے، ساتھ ہی مشرقی بحیرہ روم میں ایک طیارہ بردار بحری جہاز بھی بھیجا ہے اور اسرائیل کو ’جدید ہتھیار‘ بھی فراہم کیے ہیں۔ کوئی بھی اس اقدام کی حمایت نہیں کر��کتا جس کے تحت دونوں جانب بےگناہ افراد مارے گئے لیکن اس کے باوجود مغربی ممالک کی حکومتوں نے اسرائیلیوں کی اموات پر تو غم و غصے کا اظہار کیا مگر بے گناہ فلسطینیوں کے جاں بحق ہونے پر وہ چُپ سادھے بیٹھے ہیں۔ جس دوران اسرائیلی بمباری سے پوری کی پوری آبادیاں ملبے کا ڈھیر بن رہی تھیں اس دوران آرگنائزیشن آف اسلامک کارپوریشن (او آئی سی) نے بیان جاری کیا جس میں فلسطینی عوام پر اسرائیل کی عسکری جارحیت کی مذمت کی گئی اور کہا گیا کہ غیرمستحکم حالات کی وجہ اسرائیل کا فلسطین پر غاصبانہ قبضہ ہے۔
لیکن 57 مسلمان ممالک کی اس تنظیم نے فلسطین کے حق میں اجتماعی اقدامات پر غور نہیں کیا۔ نہ ہی ان عرب ممالک جو گزشتہ سالوں میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کر چکے ہیں، سے کہا گیا کہ وہ اسرائیل سے تعلقات منقطع کریں۔ درحقیقت نارملائزیشن کی اسی پالیسی کے سبب اسرائیل کو حوصلہ ملا ہے اور وہ آزادانہ طور پر غزہ میں اپنے حملوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ عرب لیگ کا ہنگامی اجلاس بھی بلایا گیا جس نے اسرائیل سے غزہ کا محاصرہ ختم کرنے کا مطالبہ کر کے خاموشی اختیار کر لی۔ ایک بار پھر اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل بین الاقوامی امن اور سلامتی کو برقرار رکھنے کی اپنی بنیادی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام رہی۔ 8 اکتوبر کو حالات پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے اس کا ہنگامی اجلاس بلایا گیا لیکن یہ اجلاس اس وقت تعطل کا شکار ہوا جب سیکیورٹی کونسل کوئی بیان ہی جاری نہ کرسکی۔ کہا جارہا ہے کہ مغربی ممالک چاہتے تھے کہ سلامتی کونسل حماس کی پُرزور اور سخت الفاظ میں مذمت کرے جبکہ کشیدگی کم کرنے پر ہرگز زور نہ دے۔
روسی نمائندے نے کونسل پر جنگ بندی اور بامعنیٰ مذاکرات کے لیے دباؤ ڈالا لیکن وہ کسی کام نہیں آیا۔ 13 اکتوبر کو ہونے والے سلامتی کونسل کے اجلاس میں بھی شدید اختلافات دیکھنے میں آئے۔ روس نے ’انسانی ہمدردی کی بنیاد پر جنگ بندی‘ کی تجویز دی اور شہریوں کے تحفظ پر زور دینے کے لیے قرارداد پیش کی۔ اس قرارداد کو پی 3 یعنیٰ امریکا، برطانیہ اور فرانس کی جانب سے کوئی توجہ نہ مل سکی جبکہ اس پر ووٹ ہونا ابھی باقی ہے لیکن اس قرارداد کو اکثریت کی حمایت ملنا ناممکن لگ رہا ہے۔ یوں سلامتی کونسل تشدد کو روکنے کا اپنا فرض ادا نہیں کر پائی ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ اقوامِ متحدہ کسی معاملے کو سلجھانے میں ناکام رہی ہو۔ مسئلہ کشمیر کی مثال ہمارے سامنے ہے جو تقریباً اقوامِ متحدہ کے آغاز سے ہی اس کے ایجنڈے میں شامل رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی کی متعدد قراردادوں میں اس مسئلے کو حل کرنے اور فلسطین پر اسرائیل کے غیرقانونی قبضے کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
فلسطین کے مسئلے پر کم از کم 88 قراردادیں سلامتی کونسل میں پیش کی گئیں۔ اس مسئلے کا سب سے پرانا حل جو سلامتی کونسل نے پیش کیا وہ دو ریاستی حل تھا جس کے تحت فلسطین عملی اور خودمختار ریاست ہو گا۔ لیکن اسرائیل کو برسوں پہلے سے مغربی ممالک کی حمایت حاصل تھی خاص طور پر ساب�� امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں نے دو ریاستی حل کو مسترد کیا اور اس کے بجائے ایک ریاست کا ’حل‘ پیش کیا جس کی وجہ سے غیرقانونی طور پر اسرائیلی بستیوں کی توسیع کر کے نہ صرف سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی کی گئی بلکہ اس آبادکاری کو روکنے کے لیے بین الاقوامی مطالبات کو بھی نظرانداز کر دیا گیا۔ ان قراردادوں پر عمل نہ کر کے عالمی قوتوں نے خود پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں کیونکہ یہ قوتیں حالات بدلنے کا اختیار رکھتی ہیں لیکن وہ اسر��ئیل کی غیرمشروط حمایت میں اس قدر اندھی ہو چکی ہیں کہ بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کے دعوے کے برعکس عمل کر رہی ہیں۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے کہا کہ موجودہ تنازع ’اچانک کھڑا نہیں ہوا ہے‘ بلکہ اس کے پیچھے ایک ’دیرینہ مسئلہ ہے جو 56 سال پرانے قبضے سے پروان چڑھا‘۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ خونریزی کو بند کیا جائے اور ’اقوامِ متحدہ کی قراردادوں میں پیش کردہ دو ریاستی حل کی روشنی میں مذاکرات کر کے امن بحال کیا جائے۔ اسی طرح اس سرزمین کے لوگوں اور مشرقِ وسطیٰ کے لیے پائیدار استحکام لایا جاسکتا ہے‘۔ انہوں نے اسرائیل پر یہ بھی زور دیا کہ وہ 11 لاکھ لوگوں کے انخلا کے اپنے حکم پر نظرثانی کرے۔ اس طرح کی اپیلوں پر اسرائیل بالکل بھی کان نہیں دھر رہا۔ اسرائیل کی غزہ پر زمینی کارروائی اور غزہ پر دوبارہ قبضے کی منصوبہ بندی کے باعث اس تنازع کے نتائج واضح نہیں ہیں۔ اس بات کا خطرہ بھی موجود ہے کہ یہ جنگ خطے میں پھیل سکتی ہے۔ ایک بات جو یقینی ہے وہ یہ ہے کہ خطے میں نارملائزیشن کی تمام کوششیں بالخصوص سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات بنانے کے تمام منصوبے ملیا میٹ ہو چکے ہیں۔ پھر گزشتہ 7 دہائیوں کا نتیجہ بھی ہمارے سامنے ہے اور وہ یہ ہے کہ طاقت اور جبر سے کوئی بھی مظلوم قوم کے جذبہ مزاحمت کو نہیں دبا سکتا ۔
ملیحہ لودھی یہ مضمون 16 اکتوبر 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
بشکریہ ڈان نیوز
2 notes
·
View notes
Text
جمادی الثانیہ 510ھ/ دسمبر 1174ء میں سلطان صلاح الدین ایوبی نے پورے شام پر قبضہ کرلیا۔
0 notes
Text
شام پر اسرائیل کے سیکڑوں حملے، فوجی اہداف کو نشانہ بنایا
اسرائیل کی جانب سےشام پرحملےجاری ہیں جس میں شامی فوجی اہداف کونشانہ بنایا گیا ہے۔ غیر ملکی میڈیا کےمطابق اسرائیلی جنگی طیاروں نےشام میں فضائی کارروائی تیزکرتے ہوئےگزشتہ 48 گھنٹوں میں اسٹریٹیجک فوجی اہداف پر480 حملے کیے۔ رپورٹس میں بتایا گیا ہےکہ اسرائیل نےزیر قبضہ گولان کی پہاڑیوں کےمشرق میں ایک بفر زون میں فوج بھیج دی ہے جس نے 70سے 80 فیصد شام کےاسٹریٹیجک فوجی اثاثوں کو تباہ کردیا ہے۔ شام:بشار…
0 notes
Text
فری بلوچستان موومنٹ نے ایران کیلئے جمہوری عبوری منصوبے کاروڈ میپ پیش کردیا۔ ترجمہ: ادارہ ہمگام
https://humgaam.net/?p=99577
فری بلوچستان موومنٹ نے قومی رہنما حیربیار مری کی سرابراہی میں ایران کے لیے جمہوری عبوری منصوبہ کا جامعہ روڈ میپ پیش کیا ہے ۔ یہ منصوبہ فری بلوچستان موومنٹ نے ایران میں موجود دیگر نسلی گروہوں، جیسے کرد، اہوازی، اور آذری اقوام کے سامنے پیش کیا ہے۔ اس منصوبے کو ان سب نے متفقہ طور پر منظور کر لیا ہے۔ فی الحال، یہ واحد منصوبہ ہے جس پر وسیع پیمانے پر تمام غیرفارسی اقوام نے اتفاق کیا ہے۔
موجودہ ایرانی تھیوکریٹک (مذہبی) حکومت کو فارسیوں اور غیر فارسیوں دونوں کی طرف سے عوامی مزاحمت کا سامنا ہے۔ کردستان اور بلوچستان جیسے علاقوں میں موجود مسلح قومی مزاحمتی گروہ حکومت کا تختہ الٹنے اور اپنی آزادی دوبارہ حاصل کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ لیکن تصور کریں کہ اگر حکومت آج گر جائے تو اس کے بعد کیا ہوگا؟
کیا بلوچ، کرد، عرب، اور ترک ملا رجیم کے بعد بھی ایران کے ساتھ تنازعے میں الجھ جائیں گے؟ کیا نئی حکومت بلوچستان، کردستان، الاحواز، اور ترک آذربائیجان میں آزادی کی عوامی تحریکوں کو دبانے کے لیے فوجی طاقت کا استعمال کرے گی؟کیا ایران دوبارہ ایک طویل مدتی تنازعے میں الجھ جائے گا؟ کیا فارسی ، غیر فارسی علاقوں میں نسلی تطہیر کرتے ہوئے وہاں فارسیوں کی آبادکاری کریں گے ؟”
اس مسئلے کو حل کرنے اور ایران میں داخلی تنازعے سے بچنے کا بہترین راستہ جمہوری عبوری منصوبہ ہے۔ منصوبے کے تفاصیل درج ہیں:
ایران کے لیے جمہوری عبوری منصوبہ کا مکمل متن:
تعارف
ایران، جسے مغربی دنیا میں 1935 تک فارس یا فارسی سلطنت کے نام سے جانا جاتا تھا، ایک جدید نوآبادیاتی جغرافیائی و سیاسی تشکیل ہے۔ اس کی موجودہ سرحدوں میں فارس، بلوچ، کرد، ترک، عرب، اور دیگر تاریخی اقوام کے علاقے شامل ہیں۔ “ایرانی” اور “فارسی” کے اصطلاحات کا اکثر مترادف کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، مگر علمِ بشریات کے مطابق، ایرانی قومیت اور ایرانی لوگوں کے بطور نسلی-لسانی گروہ کے مختلف تشریحات ہیں۔
جدید ایرانی اقوام میں بلوچ، کرد، لور، مازندرانی، اوسیٹین، تات، تاجک، تالش، پشتون، پامیری، فارسی، یغنوبی، وخی، اور گیلک شامل ہیں۔ یہ اقوام ایرانی سطح مرتفع (Iranian plateau)پر آباد ہیں، جو ایک جغرافیائی و سیاسی خطہ ہے اور جدید افغانستان، آذربائیجان، ایران، عراق (عراقی کردستان)، پاکستان (خیبر پختونخوا اور مقبوضہ بلوچستان) اور ترکمانستان کے کچھ حصوں پر مشتمل ہے۔
ایران/فارس
تاریخی طور پر، فارس قدیم فارسی سلطنت پر حکومت کرتے رہے، یہاں تک کہ سکندر اعظم نے ان کو شکست دے کر فتح کر لیا۔ سکندر کی وفات کے بعد، اس کی سلطنت اس کے جرنیلوں کےحکمرانی میں آ گئی۔ بعد ازاں، قدیم دور میں مختلف فارسی اور غیر فارسی خاندانوں نے اس خطے پر حکومت کی۔ تاہم، عربوں کی فتح کے بعد، یہ مسلسل غیر فارسی حکمرانوں کے زیرِ اثر رہا، یہاں تک کہ 20ویں صدی کے اوائل میں ایک فوجی افسر رضا میرپنج نے برطانوی حمایت کے ساتھ اقتدار پر قبضہ کیا اور قاجار سلطنت کو تحلیل کر دیا، جو کہ ایک ترک خاندان کی حکومت تھی۔
رضا میرپنج، جو بعد میں رضا پہلوی کہلایا، نے مغربی طاقتوں کی مدد سے موجودہ ایران کو مرکزیت دی اور غیر فارسی اقوام کی خودمختاری اور آزادی کو دبا دیا۔ رضا پہلوی نے فارسی قوم پرستی کو فروغ دیا اور دعویٰ کیا کہ یہ قدیم فارسی سلطنت کا تسلسل ہے۔ رضا اور اس کے جانشین محمد رضا نے موجودہ ایران میں مرکزیت Centralization))اور فارسیانے (Persianisation) کی پالیسیاں اپنائیں۔ ان پالیسیوں کا نتیجہ شہری بدامنی، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، اور سیاسی جبر کی صورت میں برآمد ہوا، جو بالآخر ایک انقلاب پر منتج ہوا جسے شیعہ ملاؤں نے اپنے قبضے میں لے لیا، کیونکہ اس وقت مذہبی گروہ سیاسی مخالفین کے مقابلے میں زیادہ منظم تھے۔
سال 1979 کے بعد سے، ایرانی ملا ایران پر حکومت کر رہے ہیں۔ یہ لوگ مذہبی انتہا پسند ہونے کے باوجود پہلوی خاندان کی طرح قوم پرست ہیں۔ انہوں نے غیر فارسی اقوام کے خلاف فارسیانے کی پالیسیوں کو جاری رکھا اور بلوچ، عرب، ترک، اور کرد اقوام کی نسلی تطہیر میں ملوث رہے۔
ایران جدید دور میں کبھی ایک واحد ملک نہیں رہا۔ ایران کا اتحاد ہمیشہ طاقت کے زور پر قائم کیا گیا، سامراجی مقاصد کے تحت جو فارسیوں کو نہ صرف فارسی سرزمین بلکہ ایران کے ان تمام علاقوں کا حکمران تصور کرتے تھے جو تاریخی طور پر مختلف اقوام کا وطن رہی ہیں۔ سامراج کا دور بہت پہلے ختم ہو چکا ہے۔ فارسیوں کے غیر جمہوری تجربے کے بدولت ہی آج ملّا اقتدار میں ہیں۔ لہٰذا، ایران کے مسئلے کے کسی بھی طویل مدتی حل کے لیے بنیادی مسئلے کو حل کرنا ہوگا، یعنی اقوام کے دور میں ایک سلطنت کی تشکیل۔
مسئلے کی بنیادی وجہ کا حل
ایران میں بحران کی بنیادی وجہ مختلف اقوام پر ایران کو بطور ملک مسلط کرنا ہے، جن کا اس کا حصہ بننے کا ارادہ نہیں، یا جن کی اپنی منفرد ریاستوں کی تاریخ ہے، یا جو ماضی کی ناانصافیوں کی وجہ سے محسوس کرتے ہیں کہ وہ آزاد اقوام بنے بغیر ترقی یا کامیابی حاصل نہیں کر سکتے، اپنے قوانین خود نہیں بنا سکتے۔
مثال کے طور پر، کچھ فارسی جمہوریہ (Republic) کے حق میں ہیں، جبکہ دیگر بادشاہت کی حمایت کرتے ہیں۔ اگر فارسیوں کی اکثریت بادشاہت کا انتخاب کرے تو بلوچوں، کردوں، عربوں، اور ترکوں کو کیوں مجبور کیا جائے کہ وہ ایک فارسی بادشاہ کو اپنا حکمران تسلیم کریں؟ 1979 کے انقلاب کے دوران فارسی اکثریت نے خمینی کی حمایت کی اور اس طرح مذہبی حکومت کو جائز قرار دیا۔ ایران کے بنیادی مسائل میں سے ایک یہ ہے کہ آیا فارس دیگر اقوام پر اپنی مرضی اور سیاسی فیصلے مسلط کریں، یا صرف اپنی قوم کے فیصلوں اور سیاسی ذمہ داریوں کے پابند ہوں۔ اگر ایک قوم کا دوسری قوم پر اپنی مرضی مسلط کرنا غلط ہے تو غیر فارسی اقوام کو فارسیوں کے فیصلوں کے نتائج کیوں بھگتنا پڑیں، جیسا کہ رضا شاہ کے 1921 کے بغاوت یا 1979 کے انقلاب میں ہوا، جو غیر فارسی اقوام کے لیے تباہی اور بدحالی کا باعث بنی۔
اسی طرح بلوچ، کرد، ترک، عرب اور دیگر اقوام کو بھی اپنے قومی حقِ خودارادیت کا حق حاصل ہونا چاہیے اور انہیں اپنے فیصلوں اور غلطیوں کی ذمہ داری آزاد اقوام کی حیثیت سے خود اٹھانی چاہیے۔ زیادہ تر جغرافیائی اقوام، یعنی وہ جو اپنے آبائی علاقے میں آباد ہیں اور اپنے تاریخی علاقوں میں اکثریت میں ہیں، اپنی ریاستیں قائم کرنے کی خواہش رکھتی ہیں۔ یہ اقوام آزاد ریاستوں جیسے بلوچستان، کردستان، ترک آذربائیجان، اور الاحواز کے قیام کی جدوجہد کر رہی ہیں۔
جمہوری حل ان اقوام کو ان کے قومی حقوق دینے کے ساتھ ساتھ ان کی آزادی کی امنگوں کا احترام کرے گا۔ لیکن یہ حقوق ایک مقررہ مدت کے اندر نافذ کیے جانے چاہییں تاکہ افراتفری، بدامنی اور عدم استحکام سے بچا جا سکے۔ اس طریقے سے ایران میں غیر فارسی اقوام کے قومی مسائل کو جمہوری اصولوں اور طریقوں کے تحت حل کرنے کی راہ ہموار ہوگی۔
جمہوری راستے سے قومی آزادی کا حل
موجودہ ایرانی تھیوکریٹک (مذہبی) حکومت کو فارسیوں اور غیر فارسیوں دونوں کی طرف سے عوامی مزاحمت کا سامنا ہے۔ کردستان اور بلوچستان جیسے علاقوں میں موجود مسلح قومی مزاحمتی گروہ حکومت کا تختہ الٹنے اور اپنی آزادی دوبارہ حاصل کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ لیکن تصور کریں کہ اگر حکومت آج گر جائے تو اس کے بعد کیا ہوگا؟
کیا بلوچ، کرد، عرب، اور ترک ملا رجیم کے بعد بھی ایران کے ساتھ تنازعے میں الجھ جائیں گے؟ کیا نئی حکومت بلوچستان، کردستان، الاحواز، اور ترک آذربائیجان میں آزادی کی عوامی تحریکوں کو دبانے کے لیے فوجی طاقت کا استعمال کرے گی؟کیا ایران دوبارہ ایک طویل مدتی تنازعے میں الجھ جائے گا؟ کیا فارسی ، غیر فارسی علاقوں میں نسلی تطہیر کرتے ہوئے وہاں فارسیوں کی آبادکاری کریں گے؟
ایران میں اس مسئلے کا بہترین حل اور داخلی تنازعے سے بچنے کا راستہ ایک جمہوری عبوری منصوبے کے ذریعے ممکن ہے۔ اس منصوبے کے تحت، ایرانی/فارسی قبضے میں رہنے والی اقوام فوری طور پر علیحدگی کا اعلان نہیں کریں گی، اور نہ ہی فارسیوں کو پہلوی خاندان کی طرح ایران پر غلبہ حاصل کرنے کی اجازت دی جائے گی۔ یہ مفاہمت تمام فریقین کے لیے فائدہ مند ہوگی اور امن، جمہوریت، آزادی، اور قومی آزادی کے حصول کا راستہ ہموار کرے گی۔
یہ جمہوری عبوری منصوبہ ایک معاہدے کی صورت میں ہوگا جس کے لیے بین الاقوامی ضامن موجود ہوں گے۔ اگر فارس یا کوئی اور گروہ اس منصوبے پر عملدرآمد میں رکاوٹ ڈالے تو غیر فارسی اقوام کو یکطرفہ آزادی کا قانونی حق حاصل ہوگا۔
پہلا مرحلہ: کونسل کا قیام اور اختیارات کی منتقلی
عبوری کونسل ایک انتظامی ادارے کے طور پر قائم کی جائے گی جو ایران کی عبوری حکومت کے طور پر کام کرے گی۔ اس کا مقصد موجودہ حکومت کو گرانا، مابعد ملا رجیم ایران کو چلانا، اور عبوری منصوبے پر عملدرآمد کرنا ہوگا۔ یہ کونسل اپوزیشن کے اکثریتی گروہوں کے درمیان معاہدے کے ذریعے تشکیل دی جائے گی، جو جغرافیائی بنیادوں پر اقوام اور فارسیوں کی بھی نمائندگی کرےگی۔
کونسل کا کوئی بھی فیصلہ، قرارداد، یا منصوبہ جو قومی حق خودارادیت، قومی آزادی، ریاستی خودمختاری کے حق، یا بین الاقوامی معاہدہ برائے شہری و سیاسی حقوق کے اصولوں کے منافی ہو، غیر قانونی اور کالعدم سمجھا جائے گا۔ عبوری کونسل کے قیام کی بنیادی شرط یہی ہوگی کہ وہ عبوری منصوبے پر عملدرآمد کو یقینی بنائے اور اقوام کو جمہوری طریقے سے اپنے قومی مستقبل کا تعین کرنے کا موقع فراہم کرے۔
کونسل میں ہر جغرافیائی قوم کو مساوی نمائندگی دی جائے گی، خواہ ان کی آبادی کا حجم کچھ بھی ہو۔ نمائندے ان سیاسی تحریکوں کے ذریعے مقرر کیے جائیں گے جو موجودہ ملا حکومت کو گرانے کے لیے کوشاں ہیں۔ تمام اقوام ایران کو آزاد کرانے اورموجودہ حکومت کو ختم کرنے کے لیے مسلح اور سیاسی مزاحمت کا حصہ بن کر مشترکہ جدوجہد کریں گی۔
ہر تاریخی لحاظ سے علاقہ دار قوم اپنی سرزمین کو ملا حکومت اور اس کی افواج سے آزاد کرانے کی ذمہ داری خود اٹھائے گی۔ عبوری کونسل ان اقوام کے اتحاد سے وجود میں آئے گی جو موجودہ حکومت کو ختم کرنے اور جمہوری نظام قائم کرنے کے لیے مل کر کام کریں گی۔
مثالی طور پر (ideally) ، عبوری کونسل حکومت کے خاتمے سے پہلے قائم کی جانی چاہیے۔ یہ کونسل سوئس فیڈرل کونسل کے ماڈل پر کام کرے گی، جس میں تمام اراکین اجتماعی طور پر ریاست اور ایران کی عبوری حکومت کے سربراہ کے طور پر خدمات انجام دیں گے۔ عبوری دور میں انتظامی اختیارات تمام اقوام کے درمیان مساوی طور پر تقسیم ہوں گے، اور تمام اقتصادی، سیاسی، اور فوجی فیصلے شامل اقوام کی متفقہ رضامندی سے کیے جائیں گے۔
ایران کی موجودہ حکومت 18 وزارتوں پر مشتمل ہے۔ عبوری دور میں ان وزارتوں میں سے بیشتر میں جامع اصلاحات کی جائیں گی اور ان کے اختیارات جزوی طور پر صوبوں کو منتقل کیے جائیں گے۔ عبوری کونسل صرف ان وزارتوں کو مرکزی کنٹرول میں رکھے گی جو ریاست کے بنیادی انتظامی امور کے لیے ضروری ہوں گی۔ ان میں دفاع، توانائی، معیشت، انصاف، پٹرولیم، اور خارجہ امور شامل ہیں، جو تیسرے مرحلے کی تکمیل تک مرکزی کنٹرول میں رہیں گی۔
صوبائی صلاحیت سازی کو فروغ دینے کے لیے، تمام وزارتیں سوائے خارجہ امور کے اپنے صوبائی دفاتر قائم کریں گی تاکہ وفاقی، کنفیڈرل، یا آزادی کی جانب ہموار منتقلی ممکن ہو سکے۔ وزارت خارجہ بین الاقوامی تعاون کو فروغ دینے اور عبوری منصوبے کے نفاذ میں کونسل کی مدد پر توجہ مرکوز کرے گی۔
تیسرے مرحلے کے بعد، صوبائی حکومتوں کو اپنے غیر ملکی نمائندہ دفاتر قائم کرنے کا اختیار حاصل ہوگا، جیسا کہ مغربی ممالک میں اسکاٹ لینڈ، کیوبیک، اور کیٹالونیا جیسے خودمختار علاقوں میں موجود ہے۔
انتظامی اختیارات حاصل کرنے کے فوراً بعد، عبوری کونسل اختیارات کی فوری منتقلی کے عمل کا آغاز کرے گی۔ یہ عمل صوبوں کو اپنی آئین سازی میں مدد فراہم کرے گا، جو تیسرے مرحلے کے دوران نافذ کی جائے گی۔ صوبائی گورنر اور اہم شعبوں کے سربراہوں کو 36 ماہ کی مدت کے لیے عبوری کونسل اور ��حریکوں کے نمائندوں کے ذریعے مشترکہ طور پر مقرر کیا جائے گا۔
فی الحال، ایران ایک انتہائی مرکزیت پسند ریاست ہے، جہاں تمام بڑے فیصلے تہران میں کیے جاتے ہیں۔ عبوری کونسل گورننس کے عمل کو غیر مرکزیت دے کر زیادہ تر مرکزی وزارتوں کو تہران سے صوبوں میں منتقل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ہر شعبے کی سربراہی ایک صوبائی وزیر کرے گا، جبکہ صوبے کے سربراہ کو گورنر کے طور پر مقرر کیا جائے گا۔ گورنر صوبے کا انتظامی اختیار رکھے گا، اور تمام شعبوں کے سربراہان صوبائی کابینہ تشکیل دیں گے۔
موجودہ صوبوں کو درج ذیل شعبوں کے انتظامی اختیارات دیے جائیں گے: • زراعت، جنگلات، اور ماہی گیری • سرحدی تحفظ • تعلیم • ماحولیات • ایمرجنسی خدمات • صحت اور سماجی دیکھ بھال • رہائش • قانون نافذ کرنے والے ادارے • مقامی حکومت • شاہراہیں اور نقل و حمل • صفائی ستھرائی اور فضلے کا انتظام
دوسرا مرحلہ: ایران کی تنظیمِ نو اندرونی سرحدوں کی نئی تشکیل اور اکائیوں کا قیام
حکومت کے خاتمے کے بعد اندرونی سرحدوں کے مسئلے پر توجہ دی جائے گی۔ تاریخی دستاویزات، نقشے، آبادی کے اعداد و شمار، اور دیگر متعلقہ عوامل کی بنیاد پر ایران کی اندرونی سرحدوں کو 36 ماہ کے اندر دوبارہ ترتیب دیا جائے گا۔ ایران میں موجودہ صوبائی اور انتظامی تقسیم غیر فارسی اقوام کے علاقوں کو تقسیم کرنے اور انہیں فارسی اکثریتی صوبوں میں ضم کرنے کے لیے جان بوجھ کر ترتیب دی گئی تھی، جو گزشتہ ایک صدی کے دوران گہری منصوبہ بندی کے تحت کی گئی حدبندی کی حکمت عملی تھی۔
کسی بھی جمہوری حل کے لیے، خواہ وہ وفاقی نظام ہو، کنفیڈرل نظام ہو، یا آزادی، کے لیے اندرونی سرحدوں کا مسئلہ حل کرنا اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ اس مسئلے کو حل کیے بغیر ایران میں کوئی جمہوری حل مؤثر طریقے سے نافذ نہیں کیا جا سکتا۔ اگر صوبائی سرحدیں متنازع رہیں تو وفاقیت کمزور پڑ جائے گی، اور علاقوں کی تقسیم اور ان کے فارسی خطوں میں انضمام سے جڑی تاریخی ناانصافیاں جوں کی توں برقرار رہیں گی۔کنفیڈریشن اس صورت میں ناممکن ہو گی اگر شریک اکائیاں تاریخی وطنوں پر مبنی نہ ہوں، جس کے نتیجے میں غیر فارسی قوموں کی بڑی تعداد فارسی حکمرانی کے ماتحت رہ جائے گی۔ اس اہم مسئلے کو نظرانداز کرنا خطے کو مسلسل بےچینی، نسلی کشیدگی، اور طویل تنازعات کی طرف دھکیل سکتی ہے۔
سب سے پہلے، عبوری کونسل غیر فارسی اقوام کو متاثر کرنے والی جغرافیائی حدود کے مسئلے کو ترجیح دے گی۔ 36 ماہ کے اندر ان علاقوں کو ان اقوام کے سپرد کیا جائے گا، جنہیں استعماری دور میں فارسی اکثریتی علاقوں میں ضم کیا گیا تھا۔ ایران کے صوبوں کو جغرافیائی طور پر خود مختار قومی خطوں میں سیاسی طور پر از سر نو منظم کیا جائے گا، تاکہ ہر قوم کے علاقے کو ایک واحد خطے میں متحد کیا جا سکے۔
یہ خطے عبوری ایران کے جزو کے طور پر تسلیم کیے جائیں گے، اور عبوری دور کے دوران ہر خطہ ایک مساوی اکائی کے طور پر تسلیم کیا جائے گا۔ یہ اکائیاں جغرافیائی طور پر متعین اقوام پر مبنی ہوں گی، جیسے عربستان -الاحواز، آذربائیجان، بلوچستان، گیلان، کردستان، فارس اور دیگر۔
کونسل ہر خطے کو اپنے قانونی، مالیاتی، سیاسی، اور فوجی ادارے قائم کرنے میں مدد فراہم کرے گی اور آزادانہ و منصفانہ انتخابات کے انعقاد کے لیے بین الاقوامی نگرانی میں معاونت کرے گی۔ ہر خطہ اپنا آئین، عملیاتی شعبہ، پارلیمنٹ، اور انتظامی ڈھانچہ قائم کرے گا۔
اگر 36 ماہ کے اندر کچھ علاقوں پر سرحدی تنازعات حل نہ ہو سک��ں، تو کونسل مخلوط قومی آبادی والے ان متنازعہ علاقوں کا نظم و نسق سنبھالے گی تاکہ استحکام، امن، اور ہمسایہ خطوں کے درمیان مثبت تعلقات کو یقینی بنایا جا سکے۔ کونسل، جو تمام قومیتوں کی نمائندگی کرے گی، ان علاقوں پر اس وقت تک اختیار رکھے گی جب تک کہ مسئلہ ریزیلیوشن کمیشن کے ذریعے حل نہ ہو جائے۔
اگر کمیشن 12 ماہ کے اندر تنازعہ حل کرنے میں ناکام رہے تو ملوث فریقین کو عدم جارحیت معاہدوں پر دستخط کرنے ہونگے۔ اس کے بعد کونسل متنازعہ علاقے کا انتظام کسی غیرجانبدار ادارے یا اداروں کو منتقل کرے گی۔ دعوے دار فریقین اس منتقلی کو روک نہیں سکیں گے، لیکن انہیں ممکنہ منتظم یا منتظمین پر باہمی اتفاق کرنا ہوگا۔
غیر جانبدار انتظامیہ کے دوران تنازعہ کسی بین الاقوامی عدالت یا ثالثی ٹریبونل کے سپرد کیا جائے گا۔ غیر جانبدار ادارے اس وقت تک علاقے کا انتظام سنبھالے رکھیں گے جب تک کہ حتمی فیصلہ نہیں آ جاتا۔ اس کے بعد علاقے کا اختیار عدالت یا ٹریبونل کے فیصلے کے مطابق متعلقہ خطے یا خطوں کو منتقل کر دیا جائے گا۔
تیسرا مرحلہ: خود مختار اکائیاں اور انتخابات
جب سرحدی تنازعات حل ہو جائیں اور ایران کو خود مختار اکائیوں میں سیاسی طور پر از سر نو منظم کیا جائے، تو عبوری کونسل بین الاقوامی برادری کی مدد اور نگرانی کے ساتھ ایک غیر جانبدار الیکشن کمیشن قائم کرے گی۔ یہ الیکشن کمیشن جس کی حمایت اور نگرانی بین الاقوامی برادری بھی کرے گی ، علاقائی پارلیمانوں اور انتظامیہ کے لیے آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے منصوبے، تیاری، اور انعقاد کا ذمہ دار ہوگا۔
عبوری دور میں، ہر خود مختار خطہ اپنے آئین، انتظامیہ اور قانون ساز ادارے کے ساتھ خود مختار طور پر کام کرے گا۔ خطے کے آئین میں انتخاب کا طریقہ، قانون سازوں کی مدت، قانون ساز اداروں کے اختیارات، انتظامیہ کے اختیارات، اور علاقائی گورننس کے لیے دیگر سیاسی ڈھانچے کی وضاحت ہوگی۔
چوتھا مرحلہ: آزادی، کنفیڈریشن، یا فیڈریشن
جب ایران کو تاریخی قومی سرحدوں پر مبنی خودمختار اکائیوں میں دوبارہ منظم کیا جائے گا، اور ان اکائیوں کو اپنے اداروں اور آئین کے ساتھ بااختیار بنا دیا جائے گا، تب چوتھے مرحلے کا آغاز ہوگا۔
پہلا ریفرنڈم
تیسرے مرحلے کی تکمیل کے 24 ماہ بعد، فارس کے علاوہ ہر خطہ یہ فیصلہ کرنے کے لیے ایک ریفرنڈم منعقد کرے گا کہ آیا وہ ایک آزاد ریاست بننا چاہتا ہے یا ایران/فارس کے ساتھ سیاسی اتحاد میں رہنا چاہتا ہے۔ ریفرنڈم کا سوال واضح طور پر مرتب کیا جائے گا، اور ہر خطے کے مستقل رہائشیوں اور مقامی باشندوں کو دو غیر مبہم انتخاب دیے جائیں گے۔ ہر خطے میں الگ ریفرنڈم منعقد ہوگا، تاکہ وہ اپنا سیاسی مستقبل آزادانہ طور پر طے کر سکیں۔
تاہم، وہ فارسی جو غیر فارسی اقوام کے علاقوں میں جان بوجھ کر ان خطوں کی آبادیاتی ساخت کو تبدیل کرنے کی پالیسی کے تحت آباد کیے گئے، ان ریفرنڈمز میں ووٹ دینے کے اہل نہیں ہوں گے۔
نتائج کا نفاذ
جو علاقے آزادی کے حق میں ووٹ دیں گے، انہیں خودمختاری دی جائے گی اور ایران کی طرف سے باضابطہ طور پر آزاد ریاستوں کے طور پر تسلیم کیا جائے گا۔ اس کے بعد، مالیات، جائیداد، اور اثاثوں سے متعلق مسائل پر بات چیت کی جائے گی۔ ان مذاکرات میں ایران/فارس اور نئی آزاد خودمختار ریاستوں کے درمیان ریاستی تعلقات کا قیام بھی شامل ہوگا۔
دوسرا ریفرنڈم
پہلے ریفرنڈم کے 12 ماہ بعد دوسرا ریفرنڈم منعقد ہوگا۔ اس ووٹ میں، خودمختار خطے جنہوں نے آزادی کو مسترد کیا اور ایران کے ساتھ سیاسی اتحاد کا انتخاب کیا، جمہوری عمل کے ذریعے ملک کے سیاسی نظام کا تعین کریں گے۔ فارس کی خودمختار ریاست بھی اس ریفرنڈم میں شریک ہوگی۔
سیاسی اتحاد کا انتخاب کرنے والے ہر خطے کی آبادی فیصلہ کرے گی کہ آیا ایران کو وفاقی (Federal) یا کنفیڈرل (Confederal) نظام اپنانا چاہیے۔
نتیجہ نافذ کرنے کا عمل
دوسرے ریفرنڈم کے بعد، ایک آئینی کمیشن بین الاقوامی نگرانی کے تحت قائم کیا جائے گا۔ وہ تمام سیاسی جماعتیں، جن کے خطوں نے ایران کے ساتھ اتحاد کا انتخاب کیا ہوگا، نئے آئین کی تشکیل میں شریک ہوں گی۔ آئین ریفرنڈم کے نتائج کی بنیاد پر تیار کیا جائے گا۔
اگر اکثریت وفاقیت کے حق میں ووٹ دے، تو کمیشن وفاقی آئین کا مسودہ تیار کرے گا۔ اس کے برعکس، اگر اکثریت کنفیڈریشن کے حق میں ووٹ دے، تو کمیشن کنفیڈرل آئین کا مسودہ تیار کرے گا۔آئین کے مسودے کی تیاری کا عمل شفاف ہونا ضروری ہے، جس میں عوام کی شرکت اور قانونِ آئین کے بین الاقوامی ماہرین سے مشاورت شامل ہوگی۔ نئے آئین کے حتمی مسودے کا ان تمام خطوں کی آئینی اسمبلیوں سے منظور ہونا ضروری قرار پائے گا جنہوں نے ایران کے ساتھ سیاسی اتحاد کے لیے ووٹ دیا۔
ایران اور نئی آزاد ریاستوں میں قومی اقلیتوں کا تحفظ
ایران کی اندرونی تنظیمِ نو اور خودمختار قومی خطوں کے قیام کے بعد بھی قومی اقلیتوں سے متعلق چیلنجز موجود رہیں گے۔ ہر خودمختار قوم میں ناگزیر طور پر دیگر اقوام کی چھوٹی آبادی شامل ہوگی، جنہیں قومی اقلیتوں کا درجہ حاصل ہوگا۔ ی�� وہ گروہ ہوں گے جو اپنی تاریخی سرزمینوں سے باہر رہ رہے ہوں گے، خواہ وہ نئی آزاد ریاستوں میں ہوں یا ایران کے اندر۔
یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ سیاسی سرحدوں کی از سرِ نو حد بندی کتنی ہی دانشمندانہ کیوں نہ ہو، نسلی یا قومی اقلیتوں سے متعلق پیچیدگیوں کو مکمل طور پر ختم نہیں کر سکتی۔ تمام فریقین خواہ وہ آزادی کا انتخاب کریں یا ایران کے ساتھ اتحاد میں رہیں کو قومی اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ایک معاہدے پر بات چیت اور اتفاق کرنا ہوگا۔
یہ کثیر الجہتی معاہدہ ان کی ثقافت، آزادی اور انسانی و شہری حقوق کے تحفظ کو مدنظر رکھتے ہوئے تیار کیا جائے گا۔ تجویز ہے کہ ایک جامع معاہدہ اور فریم ورک تیار کیا جائے، جو فریم ورک کنونشن فار دی پروٹیکشن آف نیشنل مائناریٹیز کے اصولوں کی بنیاد پر ہو۔
0 notes
Text
𝑨𝒍𝒍𝒂𝒉 𝒌 𝑵𝒂𝒂𝒎 𝒔𝒆, 𝑨𝒍𝒍𝒂𝒉 𝒌 𝑾𝒂𝒔'𝒕𝒆.
🌹🌹 𝗧𝗔𝗞𝗜𝗡𝗚 𝗠𝗢𝗥𝗘 𝗧𝗛𝗔𝗡 𝗬𝗢𝗨𝗥
𝗥𝗜𝗚𝗛𝗧:
♦️"𝘼 𝙟𝙤𝙪𝙧𝙣𝙚𝙮 𝙩𝙤𝙬𝙖𝙧𝙙𝙨 𝙚𝙭𝙘𝙚𝙡𝙡𝙚𝙣𝙘𝙚".♦️
✨ 𝗦𝗲𝘁 𝘆𝗼𝘂𝗿 𝘀𝘁𝗮𝗻𝗱𝗮𝗿𝗱 𝗶𝗻 𝘁𝗵𝗲 𝗿𝗲𝗮𝗹𝗺 𝗼𝗳
𝗹𝗼𝘃𝗲 ❗
*(اپنا مقام پیدا کر...)*
؏ *تم جو نہ اٹھے تو کروٹ نہ لے گی سحر.....*
🔹𝟭𝟬𝟬 𝗣𝗥𝗜𝗡𝗖𝗜𝗣𝗟𝗘𝗦 𝗙𝗢𝗥
𝗣𝗨𝗥𝗣𝗢𝗦𝗘𝗙𝗨𝗟 𝗟𝗜𝗩𝗜𝗡𝗚. 🔹
(ENGLISH/اردو/हिंदी)
7️⃣6️⃣ 𝗢𝗙 1️⃣0️⃣0️⃣
💠 𝗧𝗔𝗞𝗜𝗡𝗚 𝗠𝗢𝗥𝗘 𝗧𝗛𝗔𝗡 𝗬𝗢𝗨𝗥
𝗥𝗜𝗚𝗛𝗧:
𝗧𝗵𝗲 𝗣𝗿𝗼𝗽𝗵𝗲𝘁ﷺ 𝗼𝗻𝗰𝗲 𝘀𝗮𝗶𝗱 𝘁𝗵𝗮𝘁 𝗶𝗳 𝘁𝘄𝗼 𝗺𝗲𝗻 𝗮𝗽𝗽𝗿𝗼𝗮𝗰𝗵 𝗺𝗲 𝘄𝗶𝘁𝗵 𝗮 𝗹𝗮𝗻𝗱 𝗱𝗶𝘀𝗽𝘂𝘁𝗲, 𝗮𝗻𝗱 𝘁𝗵𝗲 𝗹𝗮𝗻𝗱 𝗶𝘀 𝗴𝗶𝘃𝗲𝗻 𝘁𝗼 𝘁𝗵𝗲 𝗼𝗻𝗲 𝘄𝗵𝗼 𝗰𝗹𝗲𝘃𝗲𝗿𝗹𝘆 𝗽𝘂𝘁𝘀 𝗳𝗼𝗿𝘄𝗮𝗿𝗱 𝗮 𝗳𝗮𝗹𝘀𝗲 𝗰𝗮𝘀𝗲, 𝘁𝗵𝗲𝗻 𝗶𝘁 𝗶𝘀 𝗮𝘀 𝗶𝗳 𝗵𝗲 𝗵𝗮𝘀 𝗯𝗲𝗲𝗻 𝗴𝗶𝘃𝗲𝗻 𝗮 𝗽𝗶𝗲𝗰𝗲 𝗼𝗳 𝗳𝗶𝗿𝗲.
(Musnad Ahmad, Hadith No. 26717)
● This shows that when something doesn’t belong to someone, and even if he gets a court order in his favor, it will not be his.
● No court decision can change reality and the truth.
● The fact is that illegal possession of something is wrong, and no court decision can justify a wrong.
● If a person’s conscience says that he possesses something that is not his, then the right thing for him to do is to hand it over to the rightful owner and not expropriate another person’s right.
● A person’s conscience is the ultimate court.
● The biggest decision is that which is issued by the court of conscience.
🌹🌹And Our ( Apni ) Journey Continues...
-------------------------------------------------------
؏ منزل سے آگے بڑھ کر منزل تلاش کر
مل جائے تجھکو دریا تو سمندر تلاش کر
6️⃣7️⃣ اپنے حق سے زیادہ لینا:
ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر دو آدمی زمین کا جھگڑا لے کر میرے پاس آئیں اور زمین چالاکی سے جھوٹا مقدمہ پیش کرنے والے کو دے دی جائے تو گویا اسے آگ کا ٹکڑا دے دیا گیا ہے۔
(مسند احمد، حدیث نمبر 26717)
● اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب کوئی چیز کسی کی نہیں ہوتی اور اگر اس کے حق میں عدالتی حکم بھی آجاتا ہے تو وہ اس کا نہیں ہوگا۔
● کوئی عدالتی فیصلہ حقیقت اور سچائی کو نہیں بدل سکتا۔
● حقیقت یہ ہے کہ کسی چیز پر غیر قانونی قبضہ غلط ہے، اور کوئی بھی عدالتی فیصلہ غلط کو درست ثابت نہیں کر سکتا۔
● اگر کسی شخص کا ضمیر یہ کہے کہ اس کے پاس کوئی ایسی چیز ہے جو اس کی نہیں ہے تو اس کے لیے صحیح کام یہ ہے کہ وہ اسے حق دار کے حوالے کرے اور کسی دوسرے کا حق غصب نہ کرے۔
● انسان کا ضمیر آخری عدالت ہے۔
● سب سے بڑا فیصلہ وہ ہوتا ہے جو ضمیر کی عدالت جاری کرتی ہے۔
🌹🌹اور ہمارا سفر جاری ہے...
-----------------------------------------------------
7️⃣6️⃣ अपने अधिकार से अधिक लेना:
पैगम्बर ने एक बार कहा था कि यदि दो व्यक्ति भूमि विवाद लेकर मेरे पास आएं और भूमि उस व्यक्ति को दे दी जाए जिसने चतुराई से झूठा मामला दर्ज कराया हो, तो यह ऐसा है जैसे उसे आग का टुकड़ा दे दिया गया हो।
(मुसनद अहमद, हदीस नं. 26717)
● इससे पता चलता है कि जब कोई चीज किसी की नहीं होती है, और भले ही वह अपने पक्ष में अदालती आदेश प्राप्त कर ले, तो भी वह उसकी नहीं होगी।
● कोई भी अदालती फैसला वास्तविकता और सच्चाई को नहीं बदल सकता।
● तथ्य यह है कि किसी चीज़ पर अवैध कब्ज़ा रखना गलत है, और कोई भी अदालती फैसला किसी गलत बात को उचित नहीं ठह��ा सकता।
● यदि किसी व्यक्ति का विवेक कहता है कि उसके पास कोई ऐसी चीज़ है जो उसकी नहीं है, तो उसके लिए सही यही होगा कि वह उसे उसके असली मालिक को सौंप दे, न कि किसी दूसरे व्यक्ति के अधिकार को छीन ले।
● किसी व्यक्ति का विवेक ही अंतिम न्यायालय है।
● सबसे बड़ा फैसला वह है जो अंतरात्मा की अदालत द्वारा जारी किया जाता है।
🌹🌹और हमारा सफर जारी है...
0 notes
Text
زمین گروی پر دیا اور لینے والا واپس نہیں کر رہا ہے تو کیا حکم ہے ؟
زمین گروی پر دیا اور لینے والا واپس نہیں کر رہا ہے تو کیا حکم ہے ؟ کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے با��ے میں کہ دوست محمد مغل نے اپنے سسر کو چار سو روپے قرضہ کے بدلے میں زمین گروی دی تو دوست محمد مغل کے سالوں نے زمین پر قبضہ کرلیا ہے اور واپس کرنے سے انکار کررہے ہیں۔ ان لوگوں کو اس گروی زمین سے نفع اٹھانا اور استعمال کرنا اور کھانا عند الشرع کیسا ہے جائز ہے کہ ناجائز ہے اگر…
0 notes
Text
غزہ تین سو پینسٹھ دن بعد
غزہ ایک برس بعد محض اکتالیس کلومیٹر طویل، چھ تا بارہ کلومیٹر چوڑی جغرافیائی پٹی سے اوپر اٹھ کے پورے عالم کی آنکھوں پر بندھی خونی پٹی میں بدل چکا ہے۔ یوں سمجھئے سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد کے آدھے رقبے پر سال بھر میں اتنا بارود فضا سے گرا دیا جائے جس کی طاقت ہیروشیما پر برسائے جانے والے چار ایٹم بموں کے برابر ہو تو سوچئے وہاں کیا کیا اور کون کون بچے گا ؟ پہلی اور دوسری عالمی جنگ سے لے کے ویتنام ، عراق اور افغانستان تک اتنے چھوٹے سے علاقے پر اتنی کم مدت میں اتنا بارود آج تک نہیں برسا۔ گزرے ایک برس میں غزہ کی دو فیصد آبادی مر چکی ہے۔ ایک لاکھ سے زائد زخمی ہیں۔ جتنے مر چکے لگ بھگ اتنے ہی لاپتہ ہیں۔ گمان ہے کہ وہ ملبے تلے دبے دبے انجر پنجر میں بدل چکے ہیں یا ان میں سے بہت سے بھوکے جانوروں کا رزق ہو چکے ہیں۔ بے شمار بچے بس چند گھنٹے پہلے پیدا ہوئے اور بم ، گولے ، گولی یا دھمک سے مر گئے۔ جانے پیدا ہی کیوں ہوئے ؟ یہ سب کے سب اسرائیل کے عسکری ریکارڈ میں دھشت گرد ہیں اور جو زندہ ہیں وہ بھی دھشت گرد ہیں اور جو ماؤں کے پیٹ میں ہیں وہ بھی دھشت گرد ہیں۔
اس ایک برس میں غزہ کے لیے نہ پانی ہے ، نہ بجلی، نہ ایندھن۔ نہ کوئی اسپتال یا کلینک، اسکولی عمارت، لائبریری ، سرکاری دفتر ، میوزیم سلامت ہے۔ نہ دوکان ، درخت اور کھیت نظر آتا ہے۔ نہ کہیں بھاگنے کا رستہ ہے اور نہ ہی پیٹ بھر خوراک ہے۔ نہ ہی کوئی ایک سائبان ہے جسے محفوظ قرار دیا جا سکے۔ اسی فیصد مساجد ، گرجے اور چالیس فیصد قبرستان آسودہِ خاک ہو چکے ہیں۔ منطقی اعتبار سے ان حالات میں اب تک غزہ کی پوری آبادی کو مر جانا چاہیے تھا۔ مگر تئیس میں سے بائیس لاکھ انسانوں کا اب تک سانس لینا زندہ معجزہ ہے۔ اے ثابت قدمی تیرا دوسرا نام فلسطین ہے۔ ان حالات میں حماس سمیت کسی بھی مسلح تنظیم کے پرخچے اڑ جانے چاہیے تھے یا جو بچ گئے انھیں غیرمشروط ہتھیار ڈال دینے چاہیے تھے۔پوری آبادی گیارہ مرتبہ تین سو پینسٹھ مربع کلومیٹر کے پنجرے کے اندر ہی اندر اب تک سترہ بار نقل مکانی کر چکی ہے۔ غزہ شہر ، خان یونس ، رفاہ اور ناصریہ ریفیوجی کیمپ چار چار بار کھنڈر کیے جا چکے ہیں۔ مگر آج بھی ��ہاں سے راکٹ اڑ کے اسرائیل تک پہنچ رہے ہیں۔
مقبوضہ مغربی کنارے پر بھی نہتے فلسطینیوں کے خلاف جون انیس سو سڑسٹھ کے بعد پہلی بار جنگی ہیلی کاپٹروں اور طیاروں کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ کل ملا کے بیس ہزار فلسطینی اسرائیلی جیلوں میں قید ہیں۔ موت ہو کہ قید ، بچے ، جوان ، بوڑھے ، عورت ، مرد سب برابر ہیں۔ مگر غزہ مرا نہیں بلکہ ایک آہ بن گیا ہے۔ اس آہ نے نہر سویز کی بحری ٹریفک خشک کر دی ہے۔ یمن سے گزر کے بحرہند سے ملنے والا بحیرہ قلزم تجارتی جہازوں کے لیے پھندہ بن گیا ہے۔ یمن پر پہلے برادر عرب بھائیوں نے پانچ برس تک مسلسل بمباری کی اور اب امریکا ، برطانیہ اور اسرائیل بمباری کر رہے ہیں مگر پھر بھی وہاں سے ڈرون اور میزائل اڑ اڑ کے اسرائیلی بندرگاہ ایلات اور تل ابیب تک پہنچ رہے ہیں۔ شمالی اسرائیل کے سرحدی علاقے حزب اللہ کی راکٹ باری کے سبب سنسان ہیں اور جنوبی لبنان میں اسرائیل کے زمینی دستے گھسنے کے باوجود کسی ایک گاؤں پر بھی قبضہ نہیں کر سکے ہیں۔ غزہ اور بیروت میں جو بھی تباہی پھیل رہی ہے وہ امریکی بموں سے لیس منڈلاتے اسرائیلی طیاروں کے ذریعے پھیل رہی ہے۔
اسرائیل نے حماس اور حزب اللہ کی بالائی قیادت کا تقریباً صفایا کر دیا ہے۔ پھر بھی مغرب کی لامحدود پشت پناہی ہوتے ہوئے وہ غزہ یا لبنان میں اپنا ایک بھی عسکری ہدف حاصل نہیں کر پایا۔ عالمی عدالتِ انصاف ہو کہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی یا انسانی حقوق سے متعلق کوئی بھی مقامی یا بین الاقوامی تنظیم۔ سب کے سب اسرائیل کو الٹی چپل دکھا رہے ہیں۔ مغربی میڈیا کی بھرپور یکطرفہ کوریج کے باوجود دنیا بھر کی سڑکوں اور یونیورسٹی کیمپسوں میں اسرائیل اپنی مظلومیت کا مزید منجن بیچنے سے قاصر ہے۔ جھنجھلاہٹ سے باؤلا ہونے کے سبب کبھی وہ عالمی عدالتِ انصاف کو دیکھ کے مٹھیاں بھینچتا ہے اور کبھی پوری اقوامِ متحدہ کو یہود دشمنی کا گڑھ قرار دیتا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے اسرائیل میں داخلے پر پابندی اسرائیلی بیانیے کے تابوت میں آخری کیل ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ آئرن ڈوم کے سبب اسرائیل فضا سے آنے والے راکٹوں اور میزائلوں سے بہت حد تک بچ رہا ہے۔ یہ درست ہے کہ اسے امریکا ، برطانیہ اور فرانس سمیت سلامتی کونسل کے پانچ میں سے تین ارکان کی اندھی حمائیت میسر ہے۔
یہ بھی تسلیم کہ کل کا یہود کش جرمنی آج اسرائیل کا اندھ بھگت بن کے اپنے تاریخی احساِسِ جرم کا قرض مرکب سود سمیت چکا رہا ہے۔ مگر انسانیت سوز جرائم کے انسداد کی عالمی عدالت کے نزدیک اسرائیلی قیادت جنگی مجرم ہے اور وہ اس وقت سوائے چار پانچ ممالک کے کہیں بھی نہیں جا سکتی۔ کیونکہ جنگی ملزموں کی گرفتاری میں تعاون ہر اس ملک کا قانونی فرض ہے جو عالمی عدالت برائے انسانی جرائم کے وجود کو باضابطہ تسلیم کر چکا ہے۔ وہ بوڑھے بھی اب باقی نہیں رہے جنھیں یہودیوں پر ہٹلر کے مظالم یاد تھے۔ آج کا لڑکا اور لڑکی تو ہٹلر کے روپ میں صرف نیتن یاہو کو جانتا ہے۔ آخر یہودیوں کی اسی برس پرانی نسل کشی کی ہمدردی تاقیامت ہر نسل کو پرانی تصاویر دکھا دکھا کے تو نہیں سمیٹی جا سکتی۔وہ بھی تب جب خود کو مظلوم کہہ کر ہمدردیاں سمیٹنے کا عادی اسرائیل عملاً نازی جرمنی کا دوسرا جنم ثابت ہو رہا ہو۔ اس ایک برس میں غزہ نے نہ صرف مغرب اور مغربی میڈیا کو ننگا کر دیا بلکہ خلیجی ریاستوں اور اسرائیل کے مابین ہونے والے معاہدہ ِ ابراہیمی کے ٹائروں سے بھی ہوا نکال دی۔ اخلاقی دباؤ اس قدر ہے کہ سعودی عرب نے بھی اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے کا ارادہ فی الحال طاق پر دھر دیا ہے۔
اگرچہ ایران کے سیکڑوں میزائلوں نے مادی اعتبار سے اسرائیل کا کچھ نہیں بگاڑا۔مگر اتنا ضرور ہوا کہ ایران کے مدِ مقابل عرب حکومتوں نے اسرائیل ایران دنگل میں غیر جانبدار رہنے کا اعلان کر دیا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اگر دو چار میزائل ’’ غلطی ‘‘ سے سمندر کے پرلی طرف نظر آنے والی آئل ریفائنریوں یا تیل کے کنوؤں یا کسی ڈیوٹی فری بندرگاہ پر گر گئے اور غلطی سے دنیا کے بیس فیصد تیل کی گزرگاہ آبنائے ہرمز میں دوچار آئل ٹینکر ڈوب گئے تو پھر کئی ریاستوں اور خانوادوں کے بوریے بستر گول ہو سکتے ہیں۔ نیتن یاہو کے بقول یہی سنہری موقع ہے خطے کا نقشہ بدلنے کا۔ نیتن یاہو کا یہ خواب بس پورا ہی ہوا چاہتا ہے۔ یہ خطہ عنقریب ایسا بدلنے والا ہے کہ خود اسرائیل چھوڑ امریکا سے بھی نہ پہچانا جاوے گا۔ پچھتر برس پہلے جس جن کو بوتل میں بند کیا گیا۔ بند کرنے والوں کے ہاتھوں سے وہ بوتل اچانک چھوٹ چکی ہے۔
وسعت اللہ خان
بشکریہ ایکسپریس نیوز
1 note
·
View note
Link
0 notes
Text
شام میں اب آگے کیا ہوگا? 3 متوقع منظرنامے سامنے آگئے
دمشق (ویب ڈیسک) شام میں حکومت کے خلاف لڑنے والوں نے غیر معمولی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ گزشتہ ہفتے ادلب پر مسلح دھڑوں نے اچانک حملہ کرکے حلب، پھر حمات اور اس کے بعد حمص کے شمالی دیہی علاقوں اور جنوب کے حصوں پر قبضہ لیا۔ آج نیوز کے مطابق عسکری امور کے مصری تجزیہ کار کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج کے مشیر میجر جنرل ہیثم حسین نے العربیہ اور الحدث سے گفتگو میں کہا کہ ایران کے لیے ممکن نہیں کہ اپنی سلامتی…
0 notes
Text
باتسلیمات ڈسٹرکٹ انفارمیشن آفس قصور
محکمہ تعلقات عامہ حکومت پنجاب
تاریخ 02 اکتوبر2024 ء ہینڈ آؤٹ نمبر (574)
٭٭٭٭٭٭
ٹیکرز برائے الیکٹرانک میڈیا
قصور۔ ڈپٹی کمشنر کی ہدایت پر اسسٹنٹ کمشنر پتوکی رانا امجد محمود کی قبضہ مافیاکے خلاف بڑی کاروائی۔
قصور۔پتوکی شوگر مل کے قبضہ سے 50کروڑ مالیت کی 301کنال سرکاری زمین واگزار۔
قصور۔اسسٹنٹ کمشنر کی ریونیو اور متعلقہ پولیس افسران کے ہمراہ چک 68پتوکی میں کاروائی۔
قصور۔ واگزا کروائی گئی زمین پر پتوکی شوگر مل کا گزشتہ 30سال سے قبضہ تھا۔اسسٹنٹ کمشنر پتوکی
قصور۔ واگزار کروائی گئی زمین پر لگائی گئی فصل بحق سرکار ضبط کر کے تقریباً 1کروڑ روپے تاوان عائد۔رانا امجد محمود
قصور۔واگزار کروائی گئی زمین کی مالیت کروڑوں روپے بنتی ہے۔ اسسٹنٹ کمشنر پتوکی
قصور۔ڈپٹی کمشنر کی زیر نگرانی سرکاری زمینوں پر قبضہ کرنیوالوں کے خلاف بھرپور کاروائیاں جاری ہیں۔رانا امجد محمود
قصور۔قبضہ مافیا کے خلاف کسی بھی قسم کی کوئی رعایت نہیں برتی جائیگی۔اسسٹنٹ کمشنر پتوکی
٭٭٭٭٭
0 notes
Text
فاتح اُندلس ۔ ۔ ۔ طارق بن زیاد : قسط نمبر 27═(قرطبہ پر قبضہ )═ http://dlvr.it/TD0NTX
0 notes
Text
جیسی قوم ویسے حکمران
آپ مانیں یا نہ مانیں جیسی قوم ہوتی ہے اسے ویسے ہی حکمران ملتے ہیں۔ جب ہم مظلوم تھے تو ہمیں محمد علی جناح ؒکی صورت میں ایک قائد ملا جس نے برطانوی سرکار کی طرف سے متحدہ ہندوستان کا وزیر اعظم بننے کی پیشکش ٹھکرا کر ہمیں پاکستان بنا کر دیا۔ ہمیں پاکستان تو مل گیا لیکن ہم نے پاکستان کی قدر نہ کی اور آزادی کے فوراً بعد آپس میں لڑنا شروع کر دیا لہٰذا قدرت نے ہم سے ہمارا قائد اعظم ؒقیام پاکستان کے ایک سال بعد واپس لے لیا۔ آج کے پاکستان میں قائدین کی بہتات ہے اور قیادت کا فقدان ہے عمران خان اپنے آپ کو پاکستان کی سب سے بڑی جماعت کا لیڈر قرار دیتے ہیں لیکن ان کی سیاست میں دور دور تک قائداعظمؒ کی تعلیمات کی جھلک نظر نہیں آتی۔ وہ عوام کی مدد سے نہیں بلکہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدد سے وزیر اعظم بنے اور اپنی حکومت میں اپنے ارکان اسمبلی کو آئی ایس آئی کے ذریعے کنٹرول کرتے تھے۔ بطور وزیر اعظم توشہ خانہ سے گھڑیاں اور ہار سستے داموں خرید کر جعلی رسیدیں توشہ خانہ میں جمع کراتے رہے۔ انکی سیاست کا محور سیاسی مخالفین پر مقدمے بنا کر انہیں جیل میں ڈالنا تھا وہ ریاست مدینہ کا نام لیتے رہے لیکن اتنی اخلاقی جرات نہ دکھا سکے کہ اپنی بیٹی کی ولدیت کو تسلیم کر لیں جو لندن میں انکے دو بیٹوں کے ساتھ انکی سابق اہلیہ کے ساتھ مقیم ہے۔
تحریک عدم اعتماد کے ذریعے حکومت سے نکلے تو انکے ساتھ بھی وہی سلوک ہوا جو انہوں نے اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ کیا تھا۔ 9 مئی کو انہیں اسلام آباد ہائیکورٹ سے گرفتار کیا گیا تو ان کے کارکنوں نے ملک بھر میں جلائو گھیرائو کیا۔ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کور کمانڈر لاہور کی رہائش گاہ جلائی گئی۔ سب سے پہلے میں نے ہی 9 مئی کی شب جیو نیوز پر کیپٹل ٹاک میں بتایا کہ کور کمانڈر لاہور کی رہائش گاہ دراصل قائد اعظم ؒکا گھر تھا جو قیام پاکستان سے قبل برطانوی فوج نے اپنے قبضے میں لے لیا اور قیام پاکستان کے بعد بھی قائد اعظم ؒکو واپس نہ کیا گیا۔ اس گھر کے متعلق فوجی حکام کےساتھ قائد اعظم ؒکی خط وکتابت ’’جناح پیپرز‘‘ میں محفوظ ہے جو ڈاکٹر زورار حسین زیدی نے بڑی محنت سے مرتب کئے۔ کور کمانڈر لاہور کے گھر پر حملہ اور اسے جلا دینا ایک قابل مذمت واقعہ تھا اور اس میں ملوث افراد کے خلاف سخت قانونی کارروائی ہونی چاہئے لیکن موجودہ حکمرانوں کی منافقت دیکھئے کہ وہ صرف عمران خان کی مذمت کیلئے یہ بیانیہ بنا رہے ہیں کہ تحریک انصاف والوں نے جناح ہائوس جلا دیا۔ کیا کوئی صاحب اختیار یہ بتانے کی زحمت کرے گا کہ جناح ہائوس کو قومی میوزیم بنانے کی بجائے کور کمانڈر کی رہائش گاہ میں کیوں تبدیل کیا گیا؟
قائد اعظمؒ ؒنے یہ گھر قاضی محمد عیسیٰ (قاضی فائز عیسیٰ کے والد) کے ذریعے موہن لال بھاسن سے خرید ا تھا 1944ء میں برطانوی فوج نے اس بنگلے کو ڈیفنس آف انڈیا رولز کے ذریعے اپنے قبضہ میں لے کر سات سو روپے ماہانہ کرایہ دینا شروع کر دیا۔ کرایہ داری کا معاہدہ 28 اپریل 1947ء کو ختم ہونا تھا لہٰذا 3 جنوری 1947ء کو قائد اعظم ؒ کو برطانوی فوج نے بتایا کہ ہم کرایہ داری معاہدہ کے بعد بھی آپ کو آپ کا گھر واپس نہ کر سکیں گے جس پر قائداعظم ؒنے قانونی کارروائی شروع کر دی۔ یکم اگست 1947ء کو قائد اعظم ؒ کو خط لکھا گیا کہ آپ کا گھر واپس کر دیا جائے گا۔ 31 جنوری 1948ء کو اس گھر کی توسیع شدہ لیز ختم ہو گئی لیکن قائد اعظم ؒکو اس گھر کا قبضہ نہ دیا گیا۔ قائد اعظم ؒکی وفات کے بعد اس گھر کو پاکستانی فوج کے دسویں ڈویژن کے جی او سی کی رہائش گاہ قرار دیکر محترمہ فاطمہ جناح کو پانچ سو روپیہ ماہوار کرایہ ادا کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ بعدازاں 1959ء میں جنرل ایوب خان کے حکم پر جناح ٹرسٹ میں ساڑھے تین لاکھ روپے جمع کروا کر اسے کور کمانڈر لاہور کی رہائش گاہ قرار دے دیا گیا۔ کچھ سال کے بعد محترمہ فاطمہ جناح نے جنرل ایوب خان کے خلاف صدارتی الیکشن میں حصہ لیا تو جنرل صاحب نے فاطمہ جناح کو انڈین ایجنٹ قرار دیدیا۔ جس جنرل ایوب خان نے قائد اعظم ؒکے گھر پر قبضہ کیا اس کا پوتا عمر ایوب خان آج تحریک انصاف میں شامل ہے۔
پی ڈی ایم اور اس کے اتحادیوں کی حکومت نے 9 مئی کو جناح ہائوس لاہور سمیت ملک کے مختلف شہروں میں پاک فوج کے شہداء کی یادگاروں اور فیصل آباد میں آئی ایس آئی کے دفتر پر حملہ کرنے والوں کے خلاف پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالتیں بنا کر کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ افسوس کہ ’’جناح ہائوس لاہور‘‘ پر حملے کی مذمت کرنے والی حکومت قائد اعظم ؒمحمد علی جناح کی تعلیمات کو نظر انداز کر رہی ہے۔ قائد اعظم ؒنے تمام عمر قانون کی بالادستی، شخصی آزادیوں اور صحافت کی آزادی کیلئے جدوجہد کی لیکن پی ڈی ایم اور اس کے اتحادیوں کی حکومت نے قائداعظم ؒکی تعلیمات کےساتھ ساتھ آئین پاکستان کے ساتھ بھی وہی سلوک شروع کر رکھا ہے جو تحریک انصاف نے 9 مئی کو جناح ہائوس لاہور کے ساتھ کیا۔ کیا وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ کو معلوم ہے کہ 1919ء میں محمد علی جناح نے متحدہ ہندوستان کی قانون ساز اسمبلی میں رولٹ ایکٹ کے خلاف تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ مناسب عدالتی انکوائری کے بغیر کسی انسان کی آزادی ایک لم��ہ کےلئے بھی نہیں چھینی جا سکتی۔ رولٹ ایکٹ کا مقصد پولیس کو نقص امن کے خدشات پر گرفتاریوں کے لامحدود اختیارات دینا تھا۔
ایک انگریز رکن اسمبلی آئرن سائڈ نے قائداعظم محمد علی جناح کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ رولٹ ایکٹ کا مقصد صرف چند شرپسندوں کو قابو کرنا ہے۔ قائد اعظم ؒنے اس دلیل کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہم تخریب کاروں اور بدمعاشوں کے خلاف کارروائی کی مذمت نہیں کر رہے لیکن کسی مہذب ملک میں عدالتی ٹرائل کے بغیر شہریوں کی آزادی سلب نہیں کی جاتی۔ قائد اعظم ؒکی مخالفت کے باوجود رولٹ ایکٹ منظور ہو گیا تو انہوں نے اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا کہ ’’یہ قانون ساز اسمبلی ایک جابرانہ حکومت کی آلہ کار بن گئی ہے اس لئے میں اس اسمبلی سے جا رہا ہوں۔‘‘ وہ قائد اعظم ؒجو ٹرائل کے بغیر گرفتاریوں کے خلاف اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہو گئے اسی قائد کے پاکستان میں جنرل ایوب خان نے 1960ء میں رولٹ ایکٹ کو ایم پی او کا نام دیکر دوبارہ نافذ کر دیا۔ افسوس کہ اس جابرانہ قانون کو عمران خان کی حکومت نے بھی استعمال کیا اور آج شہباز شریف کی حکومت بھی اسے استعمال کر کے سیاسی مخالفین کو گرفتار کر رہی ہے ایم پی او کےتحت گرفتاریاں توہین قائد اعظم ؒکے مترادف ہیں۔ حکمرانوں نے توہین پارلیمینٹ کا قانون تو منظور کر لیا لیکن توہین قائداعظم ؒکے مرتکب افراد کے خلاف کارروائی کون کرے گا؟ ہم قائد اعظم ؒکا نام تو لیتے ہیں لیکن انکی تعلیمات سے سینکڑوں میل دور ہیں۔ خود بھی جھوٹ بولتے ہیں اور ہمارے لیڈر بھی جھوٹے ہیں، جیسی قوم ویسے حکمران۔
حامد میر
بشکریہ روزنامہ جنگ
2 notes
·
View notes
Text
جمادی الثانیہ 510ھ/ دسمبر 1174ء میں سلطان صلاح الدین ایوبی نے پورے شام پر قبضہ کرلیا۔
0 notes