#فیفا ایوارڈز
Explore tagged Tumblr posts
Text
میسی، ایمباپے ایرلنگ ہالینڈ فیفا کے بہترین کھلاڑیوں کے لیے شارٹ لسٹ
لیونل میسی، کائیلین ایمباپے اور ایرلنگ ہالینڈ فیفا کے بہترین مرد کھلاڑی کے ایوارڈ کے لیے شارٹ لسٹ کئے گئے ہیں، جب کہ اسپین کی ایتانا بونماٹی ورلڈ کپ میں گولڈن بال جیتنے پر بہترین خواتین کھلاڑی کے لیے نامزد ہونے والوں میں شامل ہیں۔ مردوں کے زمرے میں درجن بھر نامزد افراد میں سے نصف مانچسٹر سٹی کے 2022-23 کے ٹریبل جیتنے والے اسکواڈ کا حصہ تھے، جبکہ سٹی کے ہسپانوی مینیجر پیپ گارڈیوولا کو بہترین مردوں…
View On WordPress
0 notes
Text
میسی نے فیفا ورلڈ کپ جیتنے کیساتھ اہم اعزاز اپنے نام کرلیا
میسی نے فیفا ورلڈ کپ جیتنے کیساتھ اہم اعزاز اپنے نام کرلیا
دوحہ: قطر میں جاری فیفا ورلڈ کپ 2022 میں ٹرافی کے ساتھ ساتھ ایوارڈز کا میلہ بھی ارجنٹینا کے کھلاڑیوں نے جیت لیا۔ فاتح کپتان لیون میسی ٹورنامنٹ کے بہترین پلیئر قرار پائے جبکہ وہ دو گولڈن بال ایوارڈ جیتنے والے دنیا کے پہلے کھلاڑی بن گئے۔ فیفا فائنل میں پینلٹیز ناکام بنانے والے ارجنٹینا کے مارٹینیز گولڈن گلووز ایوارڈ لے اڑے۔ Leo Messi is the first player to score in EVERY knockout game of a men’s…
View On WordPress
0 notes
Text
فیفا ایوارڈز؛ لیوانڈوسکی اور الیسکیا پوٹیلاس نے میدان مارلیا - اردو نیوز پیڈیا
فیفا ایوارڈز؛ لیوانڈوسکی اور الی��کیا پوٹیلاس نے میدان مارلیا – اردو نیوز پیڈیا
اردو نیوز پیڈیا آن لائین پیرس: جرمن کلب بائرن میونخ کے پولش اسٹرائیکر روبرٹ لیوانڈوسکی نے فیفا کے بہترین پلیئر کا ایوارڈ جیت لیا۔ ویمنز ٹرافی الیسکیا پوٹیلاس کے حصے میں آگئی، جو بارسلونا ویمنز فٹبال ٹیم کی کپتان بھی ہیں،33 سالہ روبرٹ نے دوسری مرتبہ یہ ایوارڈ اپنے نام کیا، انھوں نے گزشتہ جرمن لیگ سیزن میں زیادہ گول کا ریکارڈ قائم کیا ہے، اس بار دوڑ م یں لیونل میسی اور محمد صلاح ان سے پیچھے رہ…
View On WordPress
0 notes
Text
فیفا ایوارڈز: رابرٹ لیوینڈوسکی، الیکسیا پوٹیلس نے اعلیٰ اعزاز حاصل کیا۔ ایرک لیمیلا نے پوسکاس جیت لیا۔
فیفا ایوارڈز: رابرٹ لیوینڈوسکی، الیکسیا پوٹیلس نے اعلیٰ اعزاز حاصل کیا۔ ایرک لیمیلا نے پوسکاس جیت لیا۔
فیفا ایوارڈز: رابرٹ لیوینڈوسکی نے پیر کو FIFA کے بہترین مرد کھلاڑی کا سال 2021 کا ایوارڈ جیتا، جس میں Alexia Putellas نے سال کی بہترین خواتین کھلاڑی کا ایوارڈ حاصل کیا۔ بایرن میونخ کے ریکارڈ قائم کرنے والے اسٹرائیکر رابرٹ لیوینڈوسکی نے پیر کو 2021 کی بہترین تقریب میں فیفا کے سال کے بہترین مینز پلیئر کا ٹائٹل برقرار رکھا کیونکہ بارسلونا کی کپتان الیکسیا پوٹیلس نے بہترین خواتین کھلاڑی کا ایوارڈ…
View On WordPress
0 notes
Photo
میسی اور رونالڈو میں سے کون زیادہ کامیاب رہا؟ @WeAreMessi @Cristiano #Football #Players #Game #aajkalpk بارسلونا:عہد حاضر کے دو عظیم کھلاڑی لائنل میسی اور کرسٹیانو رونال��و پورے سال خبروں کی زینت بنے رہے۔ تفصیلات کے مطابق روایتی حریف ارجنٹینا کے میسی اور پرتگال کے رونالڈو کے لیے سال 2018 ملا جلا رہا۔ دونوں کھلاڑی روس میں ہونے والے ورلڈ کپ کے اکھاڑے میں اس امید سے اترے تھے کہ وہ اپنی ٹیم کو ورلڈ کپ جتوائیں گے، مگر دونوں ہی کو اس محاذ پر ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ ارجنٹینا کو سیکنڈ راؤنڈ میں فرانس کے ہاتھوں بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا. اسی روز یوروگوائے نے پرتگال کو بھی نکال باہر کیا اور دونوں کھلاڑیوں کے مداحوں میں مایوسی کی لہر دوڑ گئی. اس ناکامی کے بعد یہ بحث بھی شروع ہوگئی کہ کیا دونوں عظیم کھلاڑی اپنا آخر ورلڈ کپ کھیل چکے ہیں۔ ورلڈ کپ کے بعد رونالڈ ایک بار پھر خبروں کی زینت بنے، جب وہ ریال میڈرڈ سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے اطالوی کلب اے سی میلان کا حصہ بن گئے. ادھر میسی بارسلونا ہی کا حصہ رہے۔ اگلا معاملہ ایوارڈز کا تھا. یوئیفا اور فیفا کے بہترین کھلاڑیوں کے ایوارڈز عام طور پر میسی اور رونالڈ ہی کے درمیان تقسیم ہوتے تھے، البتہ اس بار انھیں اس محاذ پر شکست ہوئی۔ مزید پڑھیں: ریپ الزامات: کرسٹیانو رونالڈو پرتگال کے آئندہ میچوں کے لیے سکواڈ سے باہر اپنی ٹیم کو ورلڈ کپ فائنل میں پہنچانے والے کروشیا کے کھلاڑی لوکا موڈرچ نے 2018 میںمیسی اور رونالڈو کو شکست دی اور تمام بڑے ایوارڈ لے اڑے۔ الغرض دونوں کھلاڑی اپنے کلبس کو جتوانے میں کامیاب رہے اور انفرادی طور پر بھی اچھی کمائی کی، مگر یہ سال ان کے لیے گذشتہ برسوں سے پست رہا۔
0 notes
Text
کرسٹیانو رونالڈو : اپنے دور کا بہترین کھلاڑی
'بڑے میچوں میں وہ ہمیشہ کارکردگی دکھاتا ہے۔ رونالڈو بلاشبہ اپنے دور کا بہترین کھلاڑئ ہے۔' یہ الفاظ تھے سابق فرانسیسی کپتان اور فٹبال لیجینڈ زینیدین زیدان کے۔ پرتگال اور ریال میڈرڈ کے لیے کھیلنے والے سٹار فٹبالر کرسٹیانو رونالڈو کو لندن میں منعقدہ فیفا ایوارڈز میں رواں سال کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا ہے۔ رونالڈو نے یہ ایوارڈ ارجنٹینا اور بارسلونا کی نمائندگی کرنے والے سٹار فٹبالر اور حریف لائنل میسی کو شکست دے کر حاصل کیا۔ چاہے وہ فٹبال کے چاہنے والے ہوں یا کھیل پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین رونالڈو اور میسی کی بحث ان کے لیے کبھی پرانی نہیں ہوتی۔
مجھے یاد ہے کہ میسی اور رونالڈو سے پہلے بالکل اسی انداز میں فٹبال شائقین زینیدین زیدان اور برازیل کی طرف سے کھیلنے والے سٹار کھلاڑی رونالڈو نزاریو کا موازنہ کرتے تھے۔ شائقین فٹبال میں اوریجینل رونالڈو یا رونالڈو نائن کے نام سے جانے جانے والے نزاریو کا کریئر اپنے عروج پر تھا جب انھیں گھٹنے کی انجری اور ہائپو تھائرائڈ کی بیماری لاحق ہو گئی۔ ماہرین فٹبال آج بھی اسے ’گریٹیسٹ سپورٹنگ ٹریجیڈی‘ یعنی کھیلوں کی دنیا کا سب سے بڑا سانحہ کہہ کر یاد کرتے ہیں۔ اپنے عروج پر رونالڈو نزاریو تقریبًا ہر میچ میں تین سے چار ڈیفینڈروں کے درمیان سے گیند نکال کر لے جاتے ہوئے نظر آتے تھے۔
برازیلین رونالڈو اگر کھیل جاری رکھتے تو وہ کہاں ہوتے اور ان کا مقام کیا ہوتا یہ ایک الگ بحث ہے لیکن یہاں جو بات قابل ذکر ہے وہ یہ ہے کہ اس زمانے میں لوئس فیگو، روبرٹبو کارلوس، مروسلو کلوزے اور راؤل جیسے کھلاڑی بھی موجود تھے۔ لیکن میڈیا اور شائقین کی زیادہ توجہ زیدان اور رونالڈو پر رہتی تھی جیسا کہ آج کے دور میں یہ توجہ کرسچیانو رونالڈو اور لائنل میسی پر مرکوز رہتی ہے۔ رونالڈو نزاریو کا کیریر اپنے عروج پر تھا جب انھیں گھٹنے کی انجری اور ہائپو تھائرائڈ کی بیماری لاحق ہو گئی. کہتے ہیں کہ تیس کا ہندسہ پار کرنے کے بعد فٹبال کھلاڑی اپنے کیریر کے آخری راؤنڈ میں داخل ہو جاتے ہیں، جہاں ان کے پاس 4 زیادہ سے زیادہ پانچ سال کے عرصہ کا فٹبال رہ جاتا ہے۔ رونالڈو اس وقت بتیس کے ہیں اور میسی 30 کے۔ تو ان دونوں کھلاڑیوں کے بعد کونسے ایسے کھلاڑی ہیں جو کہ ان کی جگہ لے سکتے ہیں۔ حال ہی میں پیرس سینٹ جرمین کو ٹرانسفر ہونے والے 25 سالہ نیمار جونئیر کا شمار دنیا فٹبال کے بہترین ڈربلرز میں سے ہوتا ہے۔
رونالڈہینیو، روبرٹو کارلوس اور رونالڈو نزاریو کے بعد بہت عرصے بعد برازیل کی طرف سے ایک مکمل کھلاڑی سامنے آیا ہے۔ خاص طور پر اس وقت جب فٹبال کا گھر لاطینی امریکہ سے تبدیل ہو کر کے یورپ ہو گیا ہے۔ نیمار نہ صرف جدید فٹبال کو سمجھتے ہیں بلکہ وہ ٹیم پلئیر بھی ہیں۔ بارسلونا کی طرف سے کھیلتے ہوئے نیمار، لوئس سواریز اور لائنل میسی نے شراکت میں تین سیزنز میں تین سو سے زیادہ گول کیے ۔ دوسرے نمبر پر ہیں چھبیس سالہ فرنچ کھلاڑی انٹوان گریزمن۔ ہسپانوی کلب ایتھلیٹکو میڈریڈ کی طرف سے کھیلنے والے گریزمن گزشتہ سیزن میں گولز کی تعداد ٹیبل پر رونالڈو اور میسی کے بعد تیسرے نمبر پر تھے۔ تیسرے نمبر پر ہیں انگلش کھلاڑی ہیری کین۔ چاہے وہ مڈفیلڈ سے تھرو پاس ہو یا پھر ونگر کی طرف سے بھیجا گیا کراس، ہیری کین اسے پلک چھپکتے گول میں تبدیل کر دیتے ہیں۔ ٹاٹنہم ہاٹ سپرز کی طرف سے فارورڈ کی پوزیشن پر کھیلنے والے ہیری کین کو 'ڈیڈلیئسٹ فنشرر آف دی گیم' کہا جا رہا ہے۔ انھوں نے پچھلے گیارہ میچوں میں پندرہ گول سکور کیے ہیں۔ چوتھے نمبر پر ہیں 18 سالہ کائلن ایمباپے۔ فرانس کی قومی ٹیم اور پی ایس جی کی طرف سے فارورڈ پوزیشن پر کھیلنے والے ایمباپے نے گزشتہ سیزن میں موناکو کی طرف سے کھیلتے ہوئے پندرہ گول کیے تھے۔
غضنفر حیدر بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لندن
0 notes
Text
لیونل میسی نے فیفا پلیئر آف دی ایئر ایوارڈ جیت لیا، رونالڈو تقریب میں نہیں آئے
لیونل میسی نے فیفا پلیئر آف دی ایئر ایوارڈ جیت لیا، رونالڈو تقریب میں نہیں آئے
میسی نے پہلی بار2016 سے دیا جانے والا ایوارڈ حاصل کیا ہے۔ فوٹو: سوشل میڈیا
میلان: ارجنٹائن کے لیونل میسی نے فیفا پلیئر آف دی ایئر ایوارڈ جیت لیا۔
ایک ماہ قبل یوئیفا اعزاز پانے والے ورجیل وان ڈیجک کو فیفا ایوارڈ کیلیے بھی فیورٹ قرار دیا جا رہا تھا۔ اس لیے میسی کے انتخاب پر حیرت ظاہر کی گئی، میسی نے پہلی بار2016 سے دیا جانے والا ایوارڈ حا��ل کیا ہے۔
ابتدائی دونوں ایوارڈز کرسٹیانورونالڈو کے…
View On WordPress
0 notes
Text
پناہ گزیں کیمپ سے فٹبال کے میدان تک
کہتے ہیں اگرخود پریقین ہوتو انسان ہمالیہ بھی سر کرسکتا ہے۔ ایسا ہی ایک مسلمان ترک فٹ بالرمسعود اوزل ہے جس نےجرمنی میں ایک پناہ گزیں کیمپ میں آنکھ کھولی لیکن آج اس کا شمار دنیا کے بہترین فٹ بالرز میں ہوتا ہے۔غربت کی گود میں آنکھ کھولی لیکن آج ان کی آمدنی ایک کروڑ 56لاکھ پاؤنڈزہے۔ آج کئی ملکوں میں اربوں کی مالیت کے عالیشان گھروں کے مالک ہیں۔ بادشاہوں جیسی زندگی گزار رہے ہیں۔ مسعوداوزل2014ورلڈ کپ چیمپئن جیتنےوالی ٹیم جرمنی کا حصہ تھے۔جرمن ٹیم کو فتوحات سے ہمکنار کرنے میں ترک نژاد فٹبالر کا کردار نہایت اہم تھا۔ ان کے خاندان کےساتھ 16ہزار پناہ گزیوں نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا کہ ان کی کمیونٹی سے ایک بچہعمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرکے دنیا کی توجہ حاصل کرلے گا۔ مسعود اوزل کے عزم و حوصلے نے ہی ان کو جرمنی کا بہترین کھلاڑی بنادیا۔انہیں جرمنی کے پہلے تاریکن وطن کھلاڑی بننے کا اعزاز ہے۔
مسعود اوزل 15 اکتوبر 1988 کو ویسٹ جرمنی ،گیلسن کرچین میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا ۔ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے ہیں۔بڑے بھائی متلو اوزل اور دوبہنیں نیسی اوزل اور ڈوگیو اوزل ہیں ۔1967 میںمسعود اوزل کے خاندان نے بہتر زندگی گزارنےکیلئے ترکی سے ہجرت کی اور جرمنی کے ضلع بسمارک پر آکر بس گئے ،جہاںان کے علاوہ مزیدتارکین وطن پناہ گزیں کیمپ میں رہائش پذیر تھے۔ ترکی سے ہجرت کرنے کےبعد بھی غربت نے ان کے خاندان کا پیچھا نہ چھوڑا۔وہ جب دنیا میں آئے تو اس وقت جرمنی میں صنعتی ادارے خسارےکا شکار تھے جس کی وجہ سے ملک میں بےروزگاری کی شرح بلند تھی۔ مسعودکے والد مصطفیٰ اوزل اور والدہ گلزار اوزل نےاپنی زندگی کی گاڑی چلانے کےلیے سخت محنت کی کئی چھوٹے موٹے کام کئے۔مصطفیٰ اوزل، ترکی سے ہجرت کرنے والےخاندن کی دوسری نسل سےہیں۔ ان کے والد 6سال کی عمر میں اپنے والد یعنی مسعود کے داداکے ساتھ ہجرت کرکے جرمنی آئے تھے۔ مسعود اوزل کے والد لوہار تھے جبکہ وہ اپنی جوانی کے دور میں مرغیوں سے تیار کردہ چیزیںفروخت کرتے تھے ۔مسعود اوزل کےانٹرنیشنل فٹبال میں ڈیبیو کرنے کے بعد ان کے والد ان کے منیجربھی بنے، جنہوں نےمسعود اوزل کا کیرئیر بہتر بنانے میں کلیدی کردار اد ا کیا۔ مسعود اوزل نے اپنی اور خاندان کی قسمت بدلنے اورغربت سے نجات حاصل کرنے کے لیےفٹبال کھیلنا شروع کیا۔ اسکولوں اور کالجوں میں ہونے والے فٹبال مقابلوں میں حصہ لیا،گرچہ اس دوران اوزل کوکئی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا لیکن اس کے باوجود وہ اپنی منزل مقصود پر پہنچنے کے لیے پرعزم تھے۔ مشکلات ان کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکیں۔
مسعود اوزل کی فٹبال سےمحبت اس وقت شروع ہوئی جب انہوں نےاپنےگھر کے قریب گراؤنڈ میں کھیلنا شروع کیا ۔اپنے بڑے بھائی متلواوزل سے بال پر کنٹرول کرنا سیکھا ۔بچپن میں انہیں فٹبال کھیلنے کا اتنا جنون تھا کہ وہ ہر وقت گیندکو اپنے ساتھ رکھتے تھے۔اور زیادہ سے زیادہ اپنے بھائی کے کھیل کوبغور دیکھتے رہتےتھے۔ انہوں نے علاقے کے کچھ دوستوں کےساتھ ’’منکی کیج‘‘ کے نام سے ٹیم بنائی جہاں اورگیند پاس کرنے کی خاص مہارت حاصل کی۔ ان کےبھائی کے مطابق ،’’بچپن میں اوزل کو فٹبال کا اتنا جنون تھا کہ چاہے سردی ہویا گرمی،سخت بارش ہویا برفباری، وہ روزانہ فٹبال کے میدان میں ضرور جاتا۔ اُس نے باضابطہ طور پر اسکول کے ایلمینڑی ٹیم میں اپنادرج کروایااور یہیں سے فٹبال کی دنیا میں قدم رکھا‘‘۔ اسکول میں جرمنی کے فٹبال ٹیم میں موجودہ پلیئر مینوئیل نیور بھی پڑھتے تھے لیکن وہ ان سے سینئر تھے۔مسعود نے کئی مقابلے میں حصہ لے کر اسکول کی نمائندگی کی پھر جب کالجکی دنیامیںداخل ہوئے توکالج کی کھڑکی سے شالکے کا ہوم گراؤنڈ، ویلٹنز ایرناکا نظارہ کرتے تھے۔ کھیل کے ساتھ ساتھ مسعود اوزل کواپنی شخصیت کے حوالے سے کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ بہت سنجیدہ، کم گو تھےلوگوں سے زیادہ گھلتے ملتے نہیں تھے۔ان کے اسکول ٹیچر ’’کربے‘‘نے ایک دفعہ کہا تھاکہ’’ جب میں نے مسعود کو پہلی بار دیکھا تو وہ جسمانی طور پر چھوٹااور کمزور نظر لگ رہا تھا لیکن جب میدان میں آیاتواس کی شخصیت اور باڈی لینگویج بالکل بدلی ہوئی لگی۔ اس نے عمدہ پرفارمنس کا مظاہرہ کرتے ہوئےسب کو بہت متاثر کیااوردیکھتے ہی دیکھتے ٹیم کا سپر اسٹار پلیئر بن گیا۔ ‘‘
انٹرنیشنل کیرئیر کا آغاز
29سالہمسعوداوزل مسلم فٹبالر2009میں انٹرنیشنل کیرئیر کا آغاز کیا۔فروری2009 میں ناروے کے خلاف فرینڈلی میچ سے ڈیبیو کیا۔ انہوں نے اپنے تیسرے میچ میں جنوبی افریقا کے خلاف میچ میں پہلی بار گیند کو جال کی راہ دکھائی،بعدازاںمسعودکو 2010فیفا ورلڈ کپ کےلئےمنتخب کیا گیا،جس میں اس نے گھانا کیخلاف میچ میں پہلا انٹرنیشنل گول کیا، جبکہ چار بار تھامس مولر کو اسسٹ کیا۔اب تک92میچز میں قومی ٹیم کی نمائندگی کرتے ہوئے 30گولکیے ہیں۔مسعودنے 2014کےورلڈ کپ میں ٹیم کو چوتھی بار عالمی چیمپئن بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ 2010 میں فیفا ورلڈ کپ کے مین آف دی میچ اور ٹاپ اسسٹ کا ایوارڈ بھی جیتااور2011،2012 ،2013 اور 2015میں جرمنی کے بہترین پلیئرکے ایوارڈز پر قبضہ بھی کیا۔ جرمنی کا’’ زیڈان‘‘ کا خطاب بھی دیا گیا۔ وہ 2010-2013تک ریال میڈرڈ سے وابستہ رہے۔ انہوں نے ٹیکنکل اوراٹیکنگ اسکلزکی بدولت ساری دنیا کی توجہ مبذول کروائی۔ ریال میڈرڈ کے سابق اور مانچسٹر یونائیٹڈ کے موجودہ منیجرجوز مورہینو مسعود اوزل کی پرفارمنس سے بہت متاثر تھےا ور بعض اوقات مسعود اوزل کا موازنہ فرانس کے لیجنڈ پلیئر زین الدین زیڈان سے سے کیا کرتے تھے۔
مسعو د2013 سےانگلش فٹبال کلب آرسنل کلب کی نمائندگی کررہے ہیں۔ اس سے قبل وہ ہسپانوی کلب ریال میڈرڈ،ورڈیر بریمین اور شالکے 04کی جانب سے بھی کھیل چکے ہیں۔ انہوں نے 2016 میں انگلش پریمیئر لیگ اور میں ٹاپ اسسٹ پروائیڈر کے ایوارڈز اپنے نام کئے۔ وہ آرسنل کو تین بار ایف اے کپ، ایف اے کمیوینٹی شیلڈ جتوا چکے ہیں ،اس کے علاوہ ریال میڈرڈ کو 2011-12 لالیگا ،2010-11کوپا ڈیل رے، 2012سپر کوپا ڈی اسپونئیل چیمپئن بنوانے میں اہم کردار ادا کیا۔
شطرنج میں قسمت آزامائی
مسعود اوزل نے شطرنج میں بھی قسمت آزمائی کی ،اسکول میں فٹبال کے مقابلوں میں حصہ لینے کے ساتھ شطرنج بھی کھیلتے تھے۔ انہیں اسکول کے زمانے سے ہی حساب کے میں بھی خاص دلچسپی تھی ۔ شطرنج اور حساب کے مضمون سے پیار ہی نے اوزلکیکھیلنے کی صلاحیت کو مزید نکھارنے میں اہم کردار ادا کیا۔
فلاحی کام
مسعود اوزل فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ انہوں نے 2014ورلڈ کپ میں ملنے والی انعامی رقم 5لاکھ ڈالر ایک تنظیم کودےدیئے،جو 23 برازیلی بچوں کی سرجری اور علاج معالجے پر خرچ کئے گئے۔2016 میں اردن میں پناہ گزیںکیمپ کا دورہ کیا، جہاں 80لاکھ شامی مہاجرین ہیں۔ وہ یہاں پر رہنے والے بچوں کیلئے بہت فکر مند ہیں۔ انہوں نے اپنے دورے کے دوران بچوں کو فٹبال، ٹی شرٹس تقسیم کیںاوراُن کے لیےکچھ کرنے کا ارادہ ہے،ایسا کچھ جس سے ان بچوںکا مستقبل سنورجائے۔
’’مسعوداوزل سپر اسٹار‘‘
مسعود اوزل سے والہانہ محبت کا اظہار کرتے ہوئے ان کےایک گمنام مداح نےان پر ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام’’میسوت اوزل سپر اسٹار‘‘ ہے لیکن مداح کی خواہش ہے کہ اس کا نام منظر عام پر لایا جائے۔مسعود اوزل کو مداح کی جانب سے یہ تحفہ بہت پسند آیا ، انہوں نے اپنےمداح سے ایک اور کتاب بہ عنوان’’ Gunning For Greatness ‘‘ لکھنےکی فرمائش کی ہے ۔
اسلام سے محبت
مسعوداوزل ہر میچ سے قبل تلاوت کرتے اور ہاتھ بلند کرکے اللہ تعالیٰ سےدعا مانگتے ہیں۔ وہ جرمنی کا قومی ترانہ پڑھنے کے بجائے قرآنی آیات پڑھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میں ہمیشہ میدان میں جانے سے پہلے قرآنی آیات کی تلاوت کرتااوراللہ سے دعا مانگتا ہوں۔میرے ساتھی جانتے ہیں اس لئے اس دوران وہ مجھے تنگ نہیں کرتے۔ وہ عمرہ کرنے کی سعادت بھی حاصل کرچکے ہیں ۔
نسل پرستی کا سامنا اور متنازع ریٹائرمنٹ
2018کےورلڈ کپ میں جرمنی کو جنوبی کوریا کے ہاتھوں اپ سیٹ شکست کے بعد مسعود اوزل کو، نسل پرستی کا سامنا کرنا پڑا۔ جرمن فٹبال حکام نے شکست کا سارا ملبہ مسعوداوزل پرڈال دیا۔ جرمن حکام ورلڈ کپ سے قبل اوزل کی ترک صدر رجب طیب اردوان سے ملاقات پر برہم تھے،اسی لیے روس میں ٹیم کی ناقص کارکردگی کا سارا غصہ اوزل پر اتار دیا۔ ترک صدر سے ملاقات کرنے پران کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا جس کے بعد اوزل نےفٹبال ایسوسی ایشن کے رویے سے دلبرداشتہ ہوکر انٹرنیشنل فٹبال سے کنارہ کشی اختیار کرنے کا اعلان کیا۔ انہوں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جرمن فٹبال حکام کی جانب سے نسلی تعصب کا نشانہ بنانے اور امتیازی سلوک روا رکھنے کے بارےمیں لکھا۔کہ’’ جرمن میڈیا نے ان کی ترک صدر کے ساتھ تصویر کو اُچھالابلکہ اس ملاقات کو مختلف رنگ بھی دیا۔حالاںکہ ترک صدر سے ملاقات میراکوئی سیاسی ایجنڈا نہیں تھا، اگر اس موقع پر کسی بھی ملک کا صدر ہوتا تو وہ اسی طرح ملتے جس طرح رجب طیب اردوان کے سےملے۔ ‘‘
گزشتہ دنوں مسعود اوزل نےمیڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ’’ جب ہم جیتے تومیں جرمن اور شکست ہوئی تو میں تارکین وطن،مہاجرہوگیا۔‘‘واضح رہے کہ انہوں نےمئی میں خیراتی تعلیمی ادارے سے متعلق تقریب کے دوران مانچسٹر سٹی کے مڈفیلڈر الکے گونڈوگان کے ساتھ ترک صدررجب طیب اردوگان سے ملاقات کی تھی۔ تر ک صدر کے ساتھ یہ مسعود کی دوسری ملاقات تھی۔ اس سے قبل 2010 میں ترکی اور جرمنی کے درمیان میچ سے قبل ملاقات کی تھی۔ جرمن فٹبال حکام نے ترک صدر سے ملاقات پر ان کو سخت تنقید کا نشانہ بنایاگیا۔ اس موقع پر جرمن فٹبال ایسوسی یشن کے صدر رینہارڈگرینڈیل نے کہا تھا کہ اوزل اور ر الکے گونڈوگان نے بہت بڑی غلطی کی ہے۔ اگر اوزل کسی انٹرویو میں جواب دینا نہیں دینا چاہتے ہیں تو ان کو میدان میں جواب دینا ہوگا۔‘‘
جرمن فٹبال حکام نے اوزل کے ساتھ نسلی تعصب روارکھنے کے دعویٰ کو مسترد کردیا۔ ان کا کہنا ہے کہ اوزل ملک کےلیے اب مزید کھیلنا ہی نہیں چاہتے۔ ہمیں ان کی ریٹائرمنٹ پر بہت افسوس ہے۔ ان کے ریٹائرمنٹ کے فیصلے سے دنیائے فٹبال میں ایک بحث شروع ہوچکی ہے۔جرمنی کے حکومتی ترجمان کا کہنا ہے کہ جرمن چانسلرانجیلا مرکل مسعوداوزل کےانٹرنیشنل فٹبال سے ریٹائرمنٹ کے فیصلے کا احترام کرتی ہیں۔ انہوں نے قومی ٹیم کی کامیابی کےلیے کئی کارنامے انجام دیئے ہیں۔ جسٹس منسٹر کترینا برلے نے ٹوئٹر پر لکھا کہ مسعود جیسے عظیم کھلاڑی ، جواب قومی ٹیم کی نمائندگی نہیں کرنا چاہتے، ہمارے لیےلمحہ فکریہ ہے۔ ادھر ترکی نے اوزل کے فیصلے کا ��یر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ اس نوجوان کھلاڑی کےلیےجس نے جرمنی فٹبال ٹیم کیلئے اپنا سب دیا اس کےساتھ مذہبی عقیدے کی وجہ سے اس قسم کے نسلی منافرت پر مبنی رویہ ناقابل برداشت ہے۔
The post پناہ گزیں کیمپ سے فٹبال کے میدان تک appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2Mun1Yc via Urdu News Paper
#urdu news paper#indian urdu news papers#inquilab urdu news paper#sahara urdu news paper#kashmir urdu
0 notes
Text
پناہ گزیں کیمپ سے فٹبال کے میدان تک
کہتے ہیں اگرخود پریقین ہوتو انسان ہمالیہ بھی سر کرسکتا ہے۔ ایسا ہی ایک مسلمان ترک فٹ بالرمسعود اوزل ہے جس نےجرمنی میں ایک پناہ گزیں کیمپ میں آنکھ کھولی لیکن آج اس کا شمار دنیا کے بہترین فٹ بالرز میں ہوتا ہے۔غربت کی گود میں آنکھ کھولی لیکن آج ان کی آمدنی ایک کروڑ 56لاکھ پاؤنڈزہے۔ آج کئی ملکوں میں اربوں کی مالیت کے عالیشان گھروں کے مالک ہیں۔ بادشاہوں جیسی زندگی گزار رہے ہیں۔ مسعوداوزل2014ورلڈ کپ چیمپئن جیتنےوالی ٹیم جرمنی کا حصہ تھے۔جرمن ٹیم کو فتوحات سے ہمکنار کرنے میں ترک نژاد فٹبالر کا کردار نہایت اہم تھا۔ ان کے خاندان کےساتھ 16ہزار پناہ گزیوں نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا کہ ان کی کمیونٹی سے ایک بچہعمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرکے دنیا کی توجہ حاصل کرلے گا۔ مسعود اوزل کے عزم و حوصلے نے ہی ان کو جرمنی کا بہترین کھلاڑی بنادیا۔انہیں جرمنی کے پہلے تاریکن وطن کھلاڑی بننے کا اعزاز ہے۔
مسعود اوزل 15 اکتوبر 1988 کو ویسٹ جرمنی ،گیلسن کرچین میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا ۔ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے ہیں۔بڑے بھائی متلو اوزل اور دوبہنیں نیسی اوزل اور ڈوگیو اوزل ہیں ۔1967 میںمسعود اوزل کے خاندان نے بہتر زندگی گزارنےکیلئے ترکی سے ہجرت کی اور جرمنی کے ضلع بسمارک پر آکر بس گئے ،جہاںان کے علاوہ مزیدتارکین وطن پناہ گزیں کیمپ میں رہائش پذیر تھے۔ ترکی سے ہجرت کرنے کےبعد بھی غربت نے ان کے خاندان کا پیچھا نہ چھوڑا۔وہ جب دنیا میں آئے تو اس وقت جرمنی میں صنعتی ادارے خسارےکا شکار تھے جس کی وجہ سے ملک میں بےروزگاری کی شرح بلند تھی۔ مسعودکے والد مصطفیٰ اوزل اور والدہ گلزار اوزل نےاپنی زندگی کی گاڑی چلانے کےلیے سخت محنت کی کئی چھوٹے موٹے کام کئے۔مصطفیٰ اوزل، ترکی سے ہجرت کرنے والےخاندن کی دوسری نسل سےہیں۔ ان کے والد 6سال کی عمر میں اپنے والد یعنی مسعود کے داداکے ساتھ ہجرت کرکے جرمنی آئے تھے۔ مسعود اوزل کے والد لوہار تھے جبکہ وہ اپنی جوانی کے دور میں مرغیوں سے تیار کردہ چیزیںفروخت کرتے تھے ۔مسعود اوزل کےانٹرنیشنل فٹبال میں ڈیبیو کرنے کے بعد ان کے والد ان کے منیجربھی بنے، جنہوں نےمسعود اوزل کا کیرئیر بہتر بنانے میں کلیدی کردار اد ا کیا۔ مسعود اوزل نے اپنی اور خاندان کی قسمت بدلنے اورغربت سے نجات حاصل کرنے کے لیےفٹبال کھیلنا شروع کیا۔ اسکولوں اور کالجوں میں ہونے والے فٹبال مقابلوں میں حصہ لیا،گرچہ اس دوران اوزل کوکئی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا لیکن اس کے باوجود وہ اپنی منزل مقصود پر پہنچنے کے لیے پرعزم تھے۔ مشکلات ان کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکیں۔
مسعود اوزل کی فٹبال سےمحبت اس وقت شروع ہوئی جب انہوں نےاپنےگھر کے قریب گراؤنڈ میں کھیلنا شروع کیا ۔اپنے بڑے بھائی متلواوزل سے بال پر کنٹرول کرنا سیکھا ۔بچپن میں انہیں فٹبال کھیلنے کا اتنا جنون تھا کہ وہ ہر وقت گیندکو اپنے ساتھ رکھتے تھے۔اور زیادہ سے زیادہ اپنے بھائی کے کھیل کوبغور دیکھتے رہتےتھے۔ انہوں نے علاقے کے کچھ دوستوں کےساتھ ’’منکی کیج‘‘ کے نام سے ٹیم بنائی جہاں اورگیند پاس کرنے کی خاص مہارت حاصل کی۔ ان کےبھائی کے مطابق ،’’بچپن میں اوزل کو فٹبال کا اتنا جنون تھا کہ چاہے سردی ہویا گرمی،سخت بارش ہویا برفباری، وہ روزانہ فٹبال کے میدان میں ضرور جاتا۔ اُس نے باضابطہ طور پر اسکول کے ایلمینڑی ٹیم میں اپنادرج کروایااور یہیں سے فٹبال کی دنیا میں قدم رکھا‘‘۔ اسکول میں جرمنی کے فٹبال ٹیم میں موجودہ پلیئر مینوئیل نیور بھی پڑھتے تھے لیکن وہ ان سے سینئر تھے۔مسعود نے کئی مقابلے میں حصہ لے کر اسکول کی نمائندگی کی پھر جب کالجکی دنیامیںداخل ہوئے توکالج کی کھڑکی سے شالکے کا ہوم گراؤنڈ، ویلٹنز ایرناکا نظارہ کرتے تھے۔ کھیل کے ساتھ ساتھ مسعود اوزل کواپنی شخصیت کے حوالے سے کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ بہت سنجیدہ، کم گو تھےلوگوں سے زیادہ گھلتے ملتے نہیں تھے۔ان کے اسکول ٹیچر ’’کربے‘‘نے ایک دفعہ کہا تھاکہ’’ جب میں نے مسعود کو پہلی بار دیکھا تو وہ جسمانی طور پر چھوٹااور کمزور نظر لگ رہا تھا لیکن جب میدان میں آیاتواس کی شخصیت اور باڈی لینگویج بالکل بدلی ہوئی لگی۔ اس نے عمدہ پرفارمنس کا مظاہرہ کرتے ہوئےسب کو بہت متاثر کیااوردیکھتے ہی دیکھتے ٹیم کا سپر اسٹار پلیئر بن گیا۔ ‘‘
انٹرنیشنل کیرئیر کا آغاز
29سالہمسعوداوزل مسلم فٹبالر2009میں انٹرنیشنل کیرئیر کا آغاز کیا۔فروری2009 میں ناروے کے خلاف فرینڈلی میچ سے ڈیبیو کیا۔ انہوں نے اپنے تیسرے میچ میں جنوبی افریقا کے خلاف میچ میں پہلی بار گیند کو جال کی راہ دکھائی،بعدازاںمسعودکو 2010فیفا ورلڈ کپ کےلئےمنتخب کیا گیا،جس میں اس نے گھانا کیخلاف میچ میں پہلا انٹرنیشنل گول کیا، جبکہ چار بار تھامس مولر کو اسسٹ کیا۔اب تک92میچز میں قومی ٹیم کی نمائندگی کرتے ہوئے 30گولکیے ہیں۔مسعودنے 2014کےورلڈ کپ میں ٹیم کو چوتھی بار عالمی چیمپئن بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ 2010 میں فیفا ورلڈ کپ کے مین آف دی میچ اور ٹاپ اسسٹ کا ایوارڈ بھی جیتااور2011،2012 ،2013 اور 2015میں جرمنی کے بہترین پلیئرکے ایوارڈز پر قبضہ بھی کیا۔ جرمنی کا’’ زیڈان‘‘ کا خطاب بھی دیا گیا۔ وہ 2010-2013تک ریال میڈرڈ سے وابستہ رہے۔ انہوں نے ٹیکنکل اوراٹیکنگ اسکلزکی بدولت ساری دنیا کی توجہ مبذول کروائی۔ ریال میڈرڈ کے سابق اور مانچسٹر یونائیٹڈ کے موجودہ منیجرجوز مورہینو مسعود اوزل کی پرفارمنس سے بہت متاثر تھےا ور بعض اوقات مسعود اوزل کا موازنہ فرانس کے لیجنڈ پلیئر زین الدین زیڈان سے سے کیا کرتے تھے۔
مسعو د2013 سےانگلش فٹبال کلب آرسنل کلب کی نمائندگی کررہے ہیں۔ اس سے قبل وہ ہسپانوی کلب ریال میڈرڈ،ورڈیر بریمین اور شالکے 04کی جانب سے بھی کھیل چکے ہیں۔ انہوں نے 2016 میں انگلش پریمیئر لیگ اور میں ٹاپ اسسٹ پروائیڈر کے ایوارڈز اپنے نام کئے۔ وہ آرسنل کو تین بار ایف اے کپ، ایف اے کمیوینٹی شیلڈ جتوا چکے ہیں ،اس کے علاوہ ریال میڈرڈ کو 2011-12 لالیگا ،2010-11کوپا ڈیل رے، 2012سپر کوپا ڈی اسپونئیل چیمپئن بنوانے میں اہم کردار ادا کیا۔
شطرنج میں قسمت آزامائی
مسعود اوزل نے شطرنج میں بھی قسمت آزمائی کی ،اسکول میں فٹبال کے مقابلوں میں حصہ لینے کے ساتھ شطرنج بھی کھیلتے تھے۔ انہیں اسکول کے زمانے سے ہی حساب کے میں بھی خاص دلچسپی تھی ۔ شطرنج اور حساب کے مضمون سے پیار ہی نے اوزلکیکھیلنے کی صلاحیت کو مزید نکھارنے میں اہم کردار ادا کیا۔
فلاحی کام
مسعود اوزل فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ انہوں نے 2014ورلڈ کپ میں ملنے والی انعامی رقم 5لاکھ ڈالر ایک تنظیم کودےدیئے،جو 23 برازیلی بچوں کی سرجری اور علاج معالجے پر خرچ کئے گئے۔2016 میں اردن میں پناہ گزیںکیمپ کا دورہ کیا، جہاں 80لاکھ شامی مہاجرین ہیں۔ وہ یہاں پر رہنے والے بچوں کیلئے بہت فکر مند ہیں۔ انہوں نے اپنے دورے کے دوران بچوں کو فٹبال، ٹی شرٹس تقسیم کیںاوراُن کے لیےکچھ کرنے کا ارادہ ہے،ایسا کچھ جس سے ان بچوںکا مستقبل سنورجائے۔
’’مسعوداوزل سپر اسٹار‘‘
مسعود اوزل سے والہانہ محبت کا اظہار کرتے ہوئے ان کےایک گمنام مداح نےان پر ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام’’میسوت اوزل سپر اسٹار‘‘ ہے لیکن مداح کی خواہش ہے کہ اس کا نام منظر عام پر لایا جائے۔مسعود اوزل کو مداح کی جانب سے یہ تحفہ بہت پسند آیا ، انہوں نے اپنےمداح سے ایک اور کتاب بہ عنوان’’ Gunning For Greatness ‘‘ لکھنےکی فرمائش کی ہے ۔
اسلام سے محبت
مسعوداوزل ہر میچ سے قبل تلاوت کرتے اور ہاتھ بلند کرکے اللہ تعالیٰ سےدعا مانگتے ہیں۔ وہ جرمنی کا قومی ترانہ پڑھنے کے بجائے قرآنی آیات پڑھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میں ہمیشہ میدان میں جانے سے پہلے قرآنی آیات کی تلاوت کرتااوراللہ سے دعا مانگتا ہوں۔میرے ساتھی جانتے ہیں اس لئے اس دوران وہ مجھے تنگ نہیں کرتے۔ وہ عمرہ کرنے کی سعادت بھی حاصل کرچکے ہیں ۔
نسل پرستی کا سامنا اور متنازع ریٹائرمنٹ
2018کےورلڈ کپ میں جرمنی کو جنوبی کوریا کے ہاتھوں اپ سیٹ شکست کے بعد مسعود اوزل کو، نسل پرستی کا سامنا کرنا پڑا۔ جرمن فٹبال حکام نے شکست کا سارا ملبہ مسعوداوزل پرڈال دیا۔ جرمن حکام ورلڈ کپ سے قبل اوزل کی ترک صدر رجب طیب اردوان سے ملاقات پر برہم تھے،اسی لیے روس میں ٹیم کی ناقص کارکردگی کا سارا غصہ اوزل پر اتار دیا۔ ترک صدر سے ملاقات کرنے پران کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا جس کے بعد اوزل نےفٹبال ایسوسی ایشن کے رویے سے دلبرداشتہ ہوکر انٹرنیشنل فٹبال سے کنارہ کشی اختیار کرنے کا اعلان کیا۔ انہوں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جرمن فٹبال حکام کی جانب سے نسلی تعصب کا نشانہ بنانے اور امتیازی سلوک روا رکھنے کے بارےمیں لکھا۔کہ’’ جرمن میڈیا نے ان کی ترک صدر کے ساتھ تصویر کو اُچھالابلکہ اس ملاقات کو مختلف رنگ بھی دیا۔حالاںکہ ترک صدر سے ملاقات میراکوئی سیاسی ایجنڈا نہیں تھا، اگر اس موقع پر کسی بھی ملک کا صدر ہوتا تو وہ اسی طرح ملتے جس طرح رجب طیب اردوان کے سےملے۔ ‘‘
گزشتہ دنوں مسعود اوزل نےمیڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ’’ جب ہم جیتے تومیں جرمن اور شکست ہوئی تو میں تارکین وطن،مہاجرہوگیا۔‘‘واضح رہے کہ انہوں نےمئی میں خیراتی تعلیمی ادارے سے متعلق تقریب کے دوران مانچسٹر سٹی کے مڈفیلڈر الکے گونڈوگان کے ساتھ ترک صدررجب طیب اردوگان سے ملاقات کی تھی۔ تر ک صدر کے ساتھ یہ مسعود کی دوسری ملاقات تھی۔ اس سے قبل 2010 میں ترکی اور جرمنی کے درمیان میچ سے قبل ملاقات کی تھی۔ جرمن فٹبال حکام نے ترک صدر سے ملاقات پر ان کو سخت تنقید کا نشانہ بنایاگیا۔ اس موقع پر جرمن فٹبال ایسوسی یشن کے صدر رینہارڈگرینڈیل نے کہا تھا کہ اوزل اور ر الکے گونڈوگان نے بہت بڑی غلطی کی ہے۔ اگر اوزل کسی انٹرویو میں جواب دینا نہیں دینا چاہتے ہیں تو ان کو میدان میں جواب دینا ہوگا۔‘‘
جرمن فٹبال حکام نے اوزل کے ساتھ نسلی تعصب روارکھنے کے دعویٰ کو مسترد کردیا۔ ان کا کہنا ہے کہ اوزل ملک کےلیے اب مزید کھیلنا ہی نہیں چاہتے۔ ہمیں ان کی ریٹائرمنٹ پر بہت افسوس ہے۔ ان کے ریٹائرمنٹ کے فیصلے سے دنیائے فٹبال میں ایک بحث شروع ہوچکی ہے۔جرمنی کے حکومتی ترجمان کا کہنا ہے کہ جرمن چانسلرانجیلا مرکل مسعوداوزل کےانٹرنیشنل فٹبال سے ریٹائرمنٹ کے فیصلے کا احترام کرتی ہیں۔ انہوں نے قومی ٹیم کی کامیابی کےلیے کئی کارنامے انجام دیئے ہیں۔ جسٹس منسٹر کترینا برلے نے ٹوئٹر پر لکھا کہ مسعود جیسے عظیم کھلاڑی ، جواب قومی ٹیم کی نمائندگی نہیں کرنا چاہتے، ہمارے لیےلمحہ فکریہ ہے۔ ادھر ترکی نے اوزل کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ اس نوجوان کھلاڑی کےلیےجس نے جرمنی فٹبال ٹیم کیلئے اپنا سب دیا اس کےساتھ مذہبی عقیدے کی وجہ سے اس قسم کے نسلی منافرت پر مبنی رویہ ناقابل برداشت ہے۔
The post پناہ گزیں کیمپ سے فٹبال کے میدان تک appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2Mun1Yc via Urdu News
0 notes
Text
پناہ گزیں کیمپ سے فٹبال کے میدان تک
کہتے ہیں اگرخود پریقین ہوتو انسان ہمالیہ بھی سر کرسکتا ہے۔ ایسا ہی ایک مسلمان ترک فٹ بالرمسعود اوزل ہے جس نےجرمنی میں ایک پناہ گزیں کیمپ میں آنکھ کھولی لیکن آج اس کا شمار دنیا کے بہترین فٹ بالرز میں ہوتا ہے۔غربت کی گود میں آنکھ کھولی لیکن آج ان کی آمدنی ایک کروڑ 56لاکھ پاؤنڈزہے۔ آج کئی ملکوں میں اربوں کی مالیت کے عالیشان گھروں کے مالک ہیں۔ بادشاہوں جیسی زندگی گزار رہے ہیں۔ مسعوداوزل2014ورلڈ کپ چیمپئن جیتنےوالی ٹیم جرمنی کا حصہ تھے۔جرمن ٹیم کو فتوحات سے ہمکنار کرنے میں ترک نژاد فٹبالر کا کردار نہایت اہم تھا۔ ان کے خاندان کےساتھ 16ہزار پناہ گزیوں نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا کہ ان کی کمیونٹی سے ایک بچہعمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرکے دنیا کی توجہ حاصل کرلے گا۔ مسعود اوزل کے عزم و حوصلے نے ہی ان کو جرمنی کا بہترین کھلاڑی بنادیا۔انہیں جرمنی کے پہلے تاریکن وطن کھلاڑی بننے کا اعزاز ہے۔
مسعود اوزل 15 اکتوبر 1988 کو ویسٹ جرمنی ،گیلسن کرچین میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا ۔ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے ہیں۔بڑے بھائی متلو اوزل اور دوبہنیں نیسی اوزل اور ڈوگیو اوزل ہیں ۔1967 میںمسعود اوزل کے خاندان نے بہتر زندگی گزارنےکیلئے ترکی سے ہجرت کی اور جرمنی کے ضلع بسمارک پر آکر بس گئے ،جہاںان کے علاوہ مزیدتارکین وطن پناہ گزیں کیمپ میں رہائش پذیر تھے۔ ترکی سے ہجرت کرنے کےبعد بھی غربت نے ان کے خاندان کا پیچھا نہ چھوڑا۔وہ جب دنیا میں آئے تو اس وقت جرمنی میں صنعتی ادارے خسارےکا شکار تھے جس کی وجہ سے ملک میں بےروزگاری کی شرح بلند تھی۔ مسعودکے والد مصطفیٰ اوزل اور والدہ گلزار اوزل نےاپنی زندگی کی گاڑی چلانے کےلیے سخت محنت کی کئی چھوٹے موٹے کام کئے۔مصطفیٰ اوزل، ترکی سے ہجرت کرنے والےخاندن کی دوسری نسل سےہیں۔ ان کے والد 6سال کی عمر میں اپنے والد یعنی مسعود کے داداکے ساتھ ہجرت کرکے جرمنی آئے تھے۔ مسعود اوزل کے والد لوہار تھے جبکہ وہ اپنی جوانی کے دور میں مرغیوں سے تیار کردہ چیزیںفروخت کرتے تھے ۔مسعود اوزل کےانٹرنیشنل فٹبال میں ڈیبیو کرنے کے بعد ان کے والد ان کے منیجربھی بنے، جنہوں نےمسعود اوزل کا کیرئیر بہتر بنانے میں کلیدی کردار اد ا کیا۔ مسعود اوزل نے اپنی اور خاندان کی قسمت بدلنے اورغربت سے نجات حاصل کرنے کے لیےفٹبال کھیلنا شروع کیا۔ اسکولوں اور کالجوں میں ہونے والے فٹبال مقابلوں میں حصہ لیا،گرچہ اس دوران اوزل کوکئی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا لیکن اس کے باوجود وہ اپنی منزل مقصود پر پہنچنے کے لیے پرعزم تھے۔ مشکلات ان کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکیں۔
مسعود اوزل کی فٹبال سےمحبت اس وقت شروع ہوئی جب انہوں نےاپنےگھر کے قریب گراؤنڈ میں کھیلنا شروع کیا ۔اپنے بڑے بھائی متلواوزل سے بال پر کنٹرول کرنا سیکھا ۔بچپن میں انہیں فٹبال کھیلنے کا اتنا جنون تھا کہ وہ ہر وقت گیندکو اپنے ساتھ رکھتے تھے۔اور زیادہ سے زیادہ اپنے بھائی کے کھیل کوبغور دیکھتے رہتےتھے۔ انہوں نے علاقے کے کچھ دوستوں کےساتھ ’’منکی کیج‘‘ کے نام سے ٹیم بنائی جہاں اورگیند پاس کرنے کی خاص مہارت حاصل کی۔ ان کےبھائی کے مطابق ،’’بچپن میں اوزل کو فٹبال کا اتنا جنون تھا کہ چاہے سردی ہویا گرمی،سخت بارش ہویا برفباری، وہ روزانہ فٹبال کے میدان میں ضرور جاتا۔ اُس نے باضابطہ طور پر اسکول کے ایلمینڑی ٹیم میں اپنادرج کروایااور یہیں سے فٹبال کی دنیا میں قدم رکھا‘‘۔ اسکول میں جرمنی کے فٹبال ٹیم میں موجودہ پلیئر مینوئیل نیور بھی پڑھتے تھے لیکن وہ ان سے سینئر تھے۔مسعود نے کئی مقابلے میں حصہ لے کر اسکول کی نمائندگی کی پھر جب کالجکی دنیامیںداخل ہوئے توکالج کی کھڑکی سے شالکے کا ہوم گراؤنڈ، ویلٹنز ایرناکا نظارہ کرتے تھے۔ کھیل کے ساتھ ساتھ مسعود اوزل کواپنی شخصیت کے حوالے سے کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ بہت سنجیدہ، کم گو تھےلوگوں سے زیادہ گھلتے ملتے نہیں تھے۔ان کے اسکول ٹیچر ’’کربے‘‘نے ایک دفعہ کہا تھاکہ’’ جب میں نے مسعود کو پہلی بار دیکھا تو وہ جسمانی طور پر چھوٹااور کمزور نظر لگ رہا تھا لیکن جب میدان میں آیاتواس کی شخصیت اور باڈی لینگویج بالکل بدلی ہوئی لگی۔ اس نے عمدہ پرفارمنس کا مظاہرہ کرتے ہوئےسب کو بہت متاثر کیااوردیکھتے ہی دیکھتے ٹیم کا سپر اسٹار پلیئر بن گیا۔ ‘‘
انٹرنیشنل کیرئیر کا آغاز
29سالہمسعوداوزل مسلم فٹبالر2009میں انٹرنیشنل کیرئیر کا آغاز کیا۔فروری2009 میں ناروے کے خلاف فرینڈلی میچ سے ڈیبیو کیا۔ انہوں نے اپنے تیسرے میچ میں جنوبی افریقا کے خلاف میچ میں پہلی بار گیند کو جال کی راہ دکھائی،بعدازاںمسعودکو 2010فیفا ورلڈ کپ کےلئےمنتخب کیا گیا،جس میں اس نے گھانا کیخلاف میچ میں پہلا انٹرنیشنل گول کیا، جبکہ چار بار تھامس مولر کو اسسٹ کیا۔اب تک92میچز میں قومی ٹیم کی نمائندگی کرتے ہوئے 30گولکیے ہیں۔مسعودنے 2014کےورلڈ کپ میں ٹیم کو چوتھی بار عالمی چیمپئن بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ 2010 میں فیفا ورلڈ کپ کے مین آف دی میچ اور ٹاپ اسسٹ کا ایوارڈ بھی جیتااور2011،2012 ،2013 اور 2015میں جرمنی کے بہترین پلیئرکے ایوارڈز پر قبضہ بھی کیا۔ جرمنی کا’’ زیڈان‘‘ کا خطاب بھی دیا گیا۔ وہ 2010-2013تک ریال میڈرڈ سے وابستہ رہے۔ انہوں نے ٹیکنکل اوراٹیکنگ اسکلزکی بدولت ساری دنیا کی توجہ مبذول کروائی۔ ریال میڈرڈ کے سابق اور مانچسٹر یونائیٹڈ کے موجودہ منیجرجوز مورہینو مسعود اوزل کی پرفارمنس سے بہت متاثر تھےا ور بعض اوقات مسعود اوزل کا موازنہ فرانس کے لیجنڈ پلیئر زین الدین زیڈان سے سے کیا کرتے تھے۔
مسعو د2013 سےانگلش فٹبال کلب آرسنل کلب کی نمائندگی کررہے ہیں۔ اس سے قبل وہ ہسپانوی کلب ریال میڈرڈ،ورڈیر بریمین اور شالکے 04کی جانب سے بھی کھیل چکے ہیں۔ انہوں نے 2016 میں انگلش پریمیئر لیگ اور میں ٹاپ اسسٹ پروائیڈر کے ایوارڈز اپنے نام کئے۔ وہ آرسنل کو تین بار ایف اے کپ، ایف اے کمیوینٹی شیلڈ جتوا چکے ہیں ،اس کے علاوہ ریال میڈرڈ کو 2011-12 لالیگا ،2010-11کوپا ڈیل رے، 2012سپر کوپا ڈی اسپونئیل چیمپئن بنوانے میں اہم کردار ادا کیا۔
شطرنج میں قسمت آزامائی
مسعود اوزل نے شطرنج میں بھی قسمت آزمائی کی ،اسکول میں فٹبال کے مقابلوں میں حصہ لینے کے ساتھ شطرنج بھی کھیلتے تھے۔ انہیں اسکول کے زمانے سے ہی حساب کے میں بھی خاص دلچسپی تھی ۔ شطرنج اور حساب کے مضمون سے پیار ہی نے اوزلکیکھیلنے کی صلاحیت کو مزید نکھارنے میں اہم کردار ادا کیا۔
فلاحی کام
مسعود اوزل فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ انہوں نے 2014ورلڈ کپ میں ملنے والی انعامی رقم 5لاکھ ڈالر ایک تنظیم کودےدیئے،جو 23 برازیلی بچوں کی سرجری اور علاج معالجے پر خرچ کئے گئے۔2016 میں اردن میں پناہ گزیںکیمپ کا دورہ کیا، جہاں 80لاکھ شامی مہاجرین ہیں۔ وہ یہاں پر رہنے والے بچوں کیلئے بہت فکر مند ہیں۔ انہوں نے اپنے دورے کے دوران بچوں کو فٹبال، ٹی شرٹس تقسیم کیںاوراُن کے لیےکچھ کرنے کا ارادہ ہے،ایسا کچھ جس سے ان بچوںکا مستقبل سنورجائے۔
’’مسعوداوزل سپر اسٹار‘‘
مسعود اوزل سے والہانہ محبت کا اظہار کرتے ہوئے ان کےایک گمنام مداح نےان پر ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام’’میسوت اوزل سپر اسٹار‘‘ ہے لیکن مداح کی خواہش ہے کہ اس کا نام منظر عام پر لایا جائے۔مسعود اوزل کو مداح کی جانب سے یہ تحفہ بہت پسند آیا ، انہوں نے اپنےمداح سے ایک اور کتاب بہ عنوان’’ Gunning For Greatness ‘‘ لکھنےکی فرمائش کی ہے ۔
اسلام سے محبت
مسعوداوزل ہر میچ سے قبل تلاوت کرتے اور ہاتھ بلند کرکے اللہ تعالیٰ سےدعا مانگتے ہیں۔ وہ جرمنی کا قومی ترانہ پڑھنے کے بجائے قرآنی آیات پڑھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میں ہمیشہ میدان میں جانے سے پہلے قرآنی آیات کی تلاوت کرتااوراللہ سے دعا مانگتا ہوں۔میرے ساتھی جانتے ہیں اس لئے اس دوران وہ مجھے تنگ نہیں کرتے۔ وہ عمرہ کرنے کی سعادت بھی حاصل کرچکے ہیں ۔
نسل پرستی کا سامنا اور متنازع ریٹائرمنٹ
2018کےورلڈ کپ میں جرمنی کو جنوبی کوریا کے ہاتھوں اپ سیٹ شکست کے بعد مسعود اوزل کو، نسل پرستی کا سامنا کرنا پڑا۔ جرمن فٹبال حکام نے شکست کا سارا ملبہ مسعوداوزل پرڈال دیا۔ جرمن حکام ورلڈ کپ سے قبل اوزل کی ترک صدر رجب طیب اردوان سے ملاقات پر برہم تھے،اسی لیے روس میں ٹیم کی ناقص کارکردگی کا سارا غصہ اوزل پر اتار دیا۔ ترک صدر سے ملاقات کرنے پران کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا جس کے بعد اوزل نےفٹبال ایسوسی ایشن کے رویے سے دلبرداشتہ ہوکر انٹرنیشنل فٹبال سے کنارہ کشی اختیار کرنے کا اعلان کیا۔ انہوں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جرمن فٹبال حکام کی جانب سے نسلی تعصب کا نشانہ بنانے اور امتیازی سلوک روا رکھنے کے بارےمیں لکھا۔کہ’’ جرمن میڈیا نے ان کی ترک صدر کے ساتھ تصویر کو اُچھالابلکہ اس ملاقات کو مختلف رنگ بھی دیا۔حالاںکہ ترک صدر سے ملاقات میراکوئی سیاسی ایجنڈا نہیں تھا، اگر اس موقع پر کسی بھی ملک کا صدر ہوتا تو وہ اسی طرح ملتے جس طرح رجب طیب اردوان کے سےملے۔ ‘‘
گزشتہ دنوں مسعود اوزل نےمیڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ’’ جب ہم جیتے تومیں جرمن اور شکست ہوئی تو میں تارکین وطن،مہاجرہوگیا۔‘‘واضح رہے کہ انہوں نےمئی میں خیراتی تعلیمی ادارے سے متعلق تقریب کے دوران مانچسٹر سٹی کے مڈفیلڈر الکے گونڈوگان کے ساتھ ترک صدررجب طیب اردوگان سے ملاقات کی تھی۔ تر ک صدر کے ساتھ یہ مسعود کی دوسری ملاقات تھی۔ اس سے قبل 2010 میں ترکی اور جرمنی کے درمیان میچ سے قبل ملاقات کی تھی۔ جرمن فٹبال حکام نے ترک صدر سے ملاقات پر ان کو سخت تنقید کا نشانہ بنایاگیا۔ اس موقع پر جرمن فٹبال ایسوسی یشن کے صدر رینہارڈگرینڈیل نے کہا تھا کہ اوزل اور ر الکے گونڈوگان نے بہت بڑی غلطی کی ہے۔ اگر اوزل کسی انٹرویو میں جواب دینا نہیں دینا چاہتے ہیں تو ان کو میدان میں جواب دینا ہوگا۔‘‘
جرمن فٹبال حکام نے اوزل کے ساتھ نسلی تعصب روارکھنے کے دعویٰ کو مسترد کردیا۔ ان کا کہنا ہے کہ اوزل ملک کےلیے اب مزید کھیلنا ہی نہیں چاہتے۔ ہمیں ان کی ریٹائرمنٹ پر بہت افسوس ہے۔ ان کے ریٹائرمنٹ کے فیصلے سے دنیائے فٹبال میں ایک بحث شروع ہوچکی ہے۔جرمنی کے حکومتی ترجمان کا کہنا ہے کہ جرمن چانسلرانجیلا مرکل مسعوداوزل کےانٹرنیشنل فٹبال سے ریٹائرمنٹ کے فیصلے کا احترام کرتی ہیں۔ انہوں نے قومی ٹیم کی کامیابی کےلیے کئی کارنامے انجام دیئے ہیں۔ جسٹس منسٹر کترینا برلے نے ٹوئٹر پر لکھا کہ مسعود جیسے عظیم کھلاڑی ، جواب قومی ٹیم کی نمائندگی نہیں کرنا چاہتے، ہمارے لیےلمحہ فکریہ ہے۔ ادھر ترکی نے اوزل کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ اس نوجوان کھلاڑی کےلیےجس نے جرمنی فٹبال ٹیم کیلئے اپنا سب دیا اس کےساتھ مذہبی عقیدے کی وجہ سے اس قسم کے نسلی منافرت پر مبنی رویہ ناقابل برداشت ہے۔
The post پناہ گزیں کیمپ سے فٹبال کے میدان تک appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2Mun1Yc via Urdu News
#Urdu News#Daily Pakistan#Today Pakistan#Pakistan Newspaper#World Urdu News#Entertainment Urdu News#N
0 notes
Text
پناہ گزیں کیمپ سے فٹبال کے میدان تک
کہتے ہیں اگرخود پریقین ہوتو انسان ہمالیہ بھی سر کرسکتا ہے۔ ایسا ہی ایک مسلمان ترک فٹ بالرمسعود اوزل ہے جس نےجرمنی میں ایک پناہ گزیں کیمپ میں آنکھ کھولی لیکن آج اس کا شمار دنیا کے بہترین فٹ بالرز میں ہوتا ہے۔غربت کی گود میں آنکھ کھولی لیکن آج ان کی آمدنی ایک کروڑ 56لاکھ پاؤنڈزہے۔ آج کئی ملکوں میں اربوں کی مالیت کے عالیشان گھروں کے مالک ہیں۔ بادشاہوں جیسی زندگی گزار رہے ہیں۔ مسعوداوزل2014ورلڈ کپ چیمپئن جیتنےوالی ٹیم جرمنی کا حصہ تھے۔جرمن ٹیم کو فتوحات سے ہمکنار کرنے میں ترک نژاد فٹبالر کا کردار نہایت اہم تھا۔ ان کے خاندان کےساتھ 16ہزار پناہ گزیوں نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا کہ ان کی کمیونٹی سے ایک بچہعمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرکے دنیا کی توجہ حاصل کرلے گا۔ مسعود اوزل کے عزم و حوصلے نے ہی ان کو جرمنی کا بہترین کھلاڑی بنادیا۔انہیں جرمنی کے پہلے تاریکن وطن کھلاڑی بننے کا اعزاز ہے۔
مسعود اوزل 15 اکتوبر 1988 کو ویسٹ جرمنی ،گیلسن کرچین میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا ۔ بہن بھائیوں میں سب سے چھ��ٹے ہیں۔بڑے بھائی متلو اوزل اور دوبہنیں نیسی اوزل اور ڈوگیو اوزل ہیں ۔1967 میںمسعود اوزل کے خاندان نے بہتر زندگی گزارنےکیلئے ترکی سے ہجرت کی اور جرمنی کے ضلع بسمارک پر آکر بس گئے ،جہاںان کے علاوہ مزیدتارکین وطن پناہ گزیں کیمپ میں رہائش پذیر تھے۔ ترکی سے ہجرت کرنے کےبعد بھی غربت نے ان کے خاندان کا پیچھا نہ چھوڑا۔وہ جب دنیا میں آئے تو اس وقت جرمنی میں صنعتی ادارے خسارےکا شکار تھے جس کی وجہ سے ملک میں بےروزگاری کی شرح بلند تھی۔ مسعودکے والد مصطفیٰ اوزل اور والدہ گلزار اوزل نےاپنی زندگی کی گاڑی چلانے کےلیے سخت محنت کی کئی چھوٹے موٹے کام کئے۔مصطفیٰ اوزل، ترکی سے ہجرت کرنے والےخاندن کی دوسری نسل سےہیں۔ ان کے والد 6سال کی عمر میں اپنے والد یعنی مسعود کے داداکے ساتھ ہجرت کرکے جرمنی آئے تھے۔ مسعود اوزل کے والد لوہار تھے جبکہ وہ اپنی جوانی کے دور میں مرغیوں سے تیار کردہ چیزیںفروخت کرتے تھے ۔مسعود اوزل کےانٹرنیشنل فٹبال میں ڈیبیو کرنے کے بعد ان کے والد ان کے منیجربھی بنے، جنہوں نےمسعود اوزل کا کیرئیر بہتر بنانے میں کلیدی کردار اد ا کیا۔ مسعود اوزل نے اپنی اور خاندان کی قسمت بدلنے اورغربت سے نجات حاصل کرنے کے لیےفٹبال کھیلنا شروع کیا۔ اسکولوں اور کالجوں میں ہونے والے فٹبال مقابلوں میں حصہ لیا،گرچہ اس دوران اوزل کوکئی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا لیکن اس کے باوجود وہ اپنی منزل مقصود پر پہنچنے کے لیے پرعزم تھے۔ مشکلات ان کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکیں۔
مسعود اوزل کی فٹبال سےمحبت اس وقت شروع ہوئی جب انہوں نےاپنےگھر کے قریب گراؤنڈ میں کھیلنا شروع کیا ۔اپنے بڑے بھائی متلواوزل سے بال پر کنٹرول کرنا سیکھا ۔بچپن میں انہیں فٹبال کھیلنے کا اتنا جنون تھا کہ وہ ہر وقت گیندکو اپنے ساتھ رکھتے تھے۔اور زیادہ سے زیادہ اپنے بھائی کے کھیل کوبغور دیکھتے رہتےتھے۔ انہوں نے علاقے کے کچھ دوستوں کےساتھ ’’منکی کیج‘‘ کے نام سے ٹیم بنائی جہاں اورگیند پاس کرنے کی خاص مہارت حاصل کی۔ ان کےبھائی کے مطابق ،’’بچپن میں اوزل کو فٹبال کا اتنا جنون تھا کہ چاہے سردی ہویا گرمی،سخت بارش ہویا برفباری، وہ روزانہ فٹبال کے میدان میں ضرور جاتا۔ اُس نے باضابطہ طور پر اسکول کے ایلمینڑی ٹیم میں اپنادرج کروایااور یہیں سے فٹبال کی دنیا میں قدم رکھا‘‘۔ اسکول میں جرمنی کے فٹبال ٹیم میں موجودہ پلیئر مینوئیل نیور بھی پڑھتے تھے لیکن وہ ان سے سینئر تھے۔مسعود نے کئی مقابلے میں حصہ لے کر اسکول کی نمائندگی کی پھر جب کالجکی دنیامیںداخل ہوئے توکالج کی کھڑکی سے شالکے کا ہوم گراؤنڈ، ویلٹنز ایرناکا نظارہ کرتے تھے۔ کھیل کے ساتھ ساتھ مسعود اوزل کواپنی شخصیت کے حوالے سے کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ بہت سنجیدہ، کم گو تھےلوگوں سے زیادہ گھلتے ملتے نہیں تھے۔ان کے اسکول ٹیچر ’’کربے‘‘نے ایک دفعہ کہا تھاکہ’’ جب میں نے مسعود کو پہلی بار دیکھا تو وہ جسمانی طور پر چھوٹااور کمزور نظر لگ رہا تھا لیکن جب میدان میں آیاتواس کی شخصیت اور باڈی لینگویج بالکل بدلی ہوئی لگی۔ اس نے عمدہ پرفارمنس کا مظاہرہ کرتے ہوئےسب کو بہت متاثر کیااوردیکھتے ہی دیکھتے ٹیم کا سپر اسٹار پلیئر بن گیا۔ ‘‘
انٹرنیشنل کیرئیر کا آغاز
29سالہمسعوداوزل مسلم فٹبالر2009میں انٹرنیشنل کیرئیر کا آغاز کیا۔فروری2009 میں ناروے کے خلاف فرینڈلی میچ سے ڈیبیو کیا۔ انہوں نے اپنے تیسرے میچ میں جنوبی افریقا کے خلاف میچ میں پہلی بار گیند کو جال کی راہ دکھائی،بعدازاںمسعودکو 2010فیفا ورلڈ کپ کےلئےمنتخب کیا گیا،جس میں اس نے گھانا کیخلاف میچ میں پہلا انٹرنیشنل گول کیا، جبکہ چار بار تھامس مولر کو اسسٹ کیا۔اب تک92میچز میں قومی ٹیم کی نمائندگی کرتے ہوئے 30گولکیے ہیں۔مسعودنے 2014کےورلڈ کپ میں ٹیم کو چوتھی بار عالمی چیمپئن بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ 2010 میں فیفا ورلڈ کپ کے مین آف دی میچ اور ٹاپ اسسٹ کا ایوارڈ بھی جیتااور2011،2012 ،2013 اور 2015میں جرمنی کے بہترین پلیئرکے ایوارڈز پر قبضہ بھی کیا۔ جرمنی کا’’ زیڈان‘‘ کا خطاب بھی دیا گیا۔ وہ 2010-2013تک ریال میڈرڈ سے وابستہ رہے۔ انہوں نے ٹیکنکل اوراٹیکنگ اسکلزکی بدولت ساری دنیا کی توجہ مبذول کروائی۔ ریال میڈرڈ کے سابق اور مانچسٹر یونائیٹڈ کے موجودہ منیجرجوز مورہینو مسعود اوزل کی پرفارمنس سے بہت متاثر تھےا ور بعض اوقات مسعود اوزل کا موازنہ فرانس کے لیجنڈ پلیئر زین الدین زیڈان سے سے کیا کرتے تھے۔
مسعو د2013 سےانگلش فٹبال کلب آرسنل کلب کی نمائندگی کررہے ہیں۔ اس سے قبل وہ ہسپانوی کلب ریال میڈرڈ،ورڈیر بریمین اور شالکے 04کی جانب سے بھی کھیل چکے ہیں۔ انہوں نے 2016 میں انگلش پریمیئر لیگ اور میں ٹاپ اسسٹ پروائیڈر کے ایوارڈز اپنے نام کئے۔ وہ آرسنل کو تین بار ایف اے کپ، ایف اے کمیوینٹی شیلڈ جتوا چکے ہیں ،اس کے علاوہ ریال میڈرڈ کو 2011-12 لالیگا ،2010-11کوپا ڈیل رے، 2012سپر کوپا ڈی اسپونئیل چیمپئن بنوانے میں اہم کردار ادا کیا۔
شطرنج میں قسمت آزامائی
مسعود اوزل نے شطرنج میں بھی قسمت آزمائی کی ،اسکول میں فٹبال کے مقابلوں میں حصہ لینے کے ساتھ شطرنج بھی کھیلتے تھے۔ انہیں اسکول کے زمانے سے ہی حساب کے میں بھی خاص دلچسپی تھی ۔ شطرنج اور حساب کے مضمون سے پیار ہی نے اوزلکیکھیلنے کی صلاحیت کو مزید نکھارنے میں اہم کردار ادا کیا۔
فلاحی کام
مسعود اوزل فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ انہوں نے 2014ورلڈ کپ میں ملنے والی انعامی رقم 5لاکھ ڈالر ایک تنظیم کودےدیئے،جو 23 برازیلی بچوں کی سرجری اور علاج معالجے پر خرچ کئے گئے۔2016 میں اردن میں پناہ گزیںکیمپ کا دورہ کیا، جہاں 80لاکھ شامی مہاجرین ہیں۔ وہ یہاں پر رہنے والے بچوں کیلئے بہت فکر مند ہیں۔ انہوں نے اپنے دورے کے دوران بچوں کو فٹبال، ٹی شرٹس تقسیم کیںاوراُن کے لیےکچھ کرنے کا ارادہ ہے،ایسا کچھ جس سے ان بچوںکا مستقبل سنورجائے۔
’’مسعوداوزل سپر اسٹار‘‘
مسعود اوزل سے والہانہ محبت کا اظہار کرتے ہوئے ان کےایک گمنام مداح نےان پر ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام’’میسوت اوزل سپر اسٹار‘‘ ہے لیکن مداح کی خواہش ہے کہ اس کا نام منظر عام پر لایا جائے۔مسعود اوزل کو مداح کی جانب سے یہ تحفہ بہت پسند آیا ، انہوں نے اپنےمداح سے ایک اور کتاب بہ عنوان’’ Gunning For Greatness ‘‘ لکھنےکی فرمائش کی ہے ۔
اسلام سے محبت
مسعوداوزل ہر میچ سے قبل تلاوت کرتے اور ہاتھ بلند کرکے اللہ تعالیٰ سےدعا مانگتے ہیں۔ وہ جرمنی کا قومی ترانہ پڑھنے کے بجائے قرآنی آیات پڑھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میں ہمیشہ میدان میں جانے سے پہلے قرآنی آیات کی تلاوت کرتااوراللہ سے دعا مانگتا ہوں۔میرے ساتھی جانتے ہیں اس لئے اس دوران وہ مجھے تنگ نہیں کرتے۔ وہ عمرہ کرنے کی سعادت بھی حاصل کرچکے ہیں ۔
نسل پرستی کا سامنا اور متنازع ریٹائرمنٹ
2018کےورلڈ کپ میں جرمنی کو جنوبی کوریا کے ہاتھوں اپ سیٹ شکست کے بعد مسعود اوزل کو، نسل پرستی کا سامنا کرنا پڑا۔ جرمن فٹبال حکام نے شکست کا سارا ملبہ مسعوداوزل پرڈال دیا۔ جرمن حکام ورلڈ کپ سے قبل اوزل کی ترک صدر رجب طیب اردوان سے ملاقات پر برہم تھے،اسی لیے روس میں ٹیم کی ناقص کارکردگی کا سارا غصہ اوزل پر اتار دیا۔ ترک صدر سے ملاقات کرنے پران کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا جس کے بعد اوزل نےفٹبال ایسوسی ایشن کے رویے سے دلبرداشتہ ہوکر انٹرنیشنل فٹبال سے کنارہ کشی اختیار کرنے کا اعلان کیا۔ انہوں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جرمن فٹبال حکام کی جانب سے نسلی تعصب کا نشانہ بنانے اور امتیازی سلوک روا رکھنے کے بارےمیں لکھا۔کہ’’ جرمن میڈیا نے ان کی ترک صدر کے ساتھ تصویر کو اُچھالابلکہ اس ملاقات کو مختلف رنگ بھی دیا۔حالاںکہ ترک صدر سے ملاقات میراکوئی سیاسی ایجنڈا نہیں تھا، اگر اس موقع پر کسی بھی ملک کا صدر ہوتا تو وہ اسی طرح ملتے جس طرح رجب طیب اردوان کے سےملے۔ ‘‘
گزشتہ دنوں مسعود اوزل نےمیڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ’’ جب ہم جیتے تومیں جرمن اور شکست ہوئی تو میں تارکین وطن،مہاجرہوگیا۔‘‘واضح رہے کہ انہوں نےمئی میں خیراتی تعلیمی ادارے سے متعلق تقریب کے دوران مانچسٹر سٹی کے مڈفیلڈر الکے گونڈوگان کے ساتھ ترک صدررجب طیب اردوگان سے ملاقات کی تھی۔ تر ک صدر کے ساتھ یہ مسعود کی دوسری ملاقات تھی۔ اس سے قبل 2010 میں ترکی اور جرمنی کے درمیان میچ سے قبل ملاقات کی تھی۔ جرمن فٹبال حکام نے ترک صدر سے ملاقات پر ان کو سخت تنقید کا نشانہ بنایاگیا۔ اس موقع پر جرمن فٹبال ایسوسی یشن کے صدر رینہارڈگرینڈیل نے کہا تھا کہ اوزل اور ر الکے گونڈوگان نے بہت بڑی غلطی کی ہے۔ اگر اوزل کسی انٹرویو میں جواب دینا نہیں دینا چاہتے ہیں تو ان کو میدان میں جواب دینا ہوگا۔‘‘
جرمن فٹبال حکام نے اوزل کے ساتھ نسلی تعصب روارکھنے کے دعویٰ کو مسترد کردیا۔ ان کا کہنا ہے کہ اوزل ملک کےلیے اب مزید کھیلنا ہی نہیں چاہتے۔ ہمیں ان کی ریٹائرمنٹ پر بہت افسوس ہے۔ ان کے ریٹائرمنٹ کے فیصلے سے دنیائے فٹبال میں ایک بحث شروع ہوچکی ہے۔جرمنی کے حکومتی ترجمان کا کہنا ہے کہ جرمن چانسلرانجیلا مرکل مسعوداوزل کےانٹرنیشنل فٹبال سے ریٹائرمنٹ کے فیصلے کا احترام کرتی ہیں۔ انہوں نے قومی ٹیم کی کامیابی کےلیے کئی کارنامے انجام دیئے ہیں۔ جسٹس منسٹر کترینا برلے نے ٹوئٹر پر لکھا کہ مسعود جیسے عظیم کھلاڑی ، جواب قومی ٹیم کی نمائندگی نہیں کرنا چاہتے، ہمارے لیےلمحہ فکریہ ہے۔ ادھر ترکی نے اوزل کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ اس نوجوان کھلاڑی کےلیےجس نے جرمنی فٹبال ٹیم کیلئے اپنا سب دیا اس کےساتھ مذہبی عقیدے کی وجہ سے اس قسم کے نسلی منافرت پر مبنی رویہ ناقابل برداشت ہے۔
The post پناہ گزیں کیمپ سے فٹبال کے میدان تک appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2Mun1Yc via India Pakistan News
0 notes
Text
پناہ گزیں کیمپ سے فٹبال کے میدان تک
کہتے ہیں اگرخود پریقین ہوتو انسان ہمالیہ بھی سر کرسکتا ہے۔ ایسا ہی ایک مسلمان ترک فٹ بالرمسعود اوزل ہے جس نےجرمنی میں ایک پناہ گزیں کیمپ میں آنکھ کھولی لیکن آج اس کا شمار دنیا کے بہترین فٹ بالرز میں ہوتا ہے۔غربت کی گود میں آنکھ کھولی لیکن آج ان کی آمدنی ایک کروڑ 56لاکھ پاؤنڈزہے۔ آج کئی ملکوں میں اربوں کی مالیت کے عالیشان گھروں کے مالک ہیں۔ بادشاہوں جیسی زندگی گزار رہے ہیں۔ مسعوداوزل2014ورلڈ کپ چیمپئن جیتنےوالی ٹیم جرمنی کا حصہ تھے۔جرمن ٹیم کو فتوحات سے ہمکنار کرنے میں ترک نژاد فٹبالر کا کردار نہایت اہم تھا۔ ان کے خاندان کےساتھ 16ہزار پناہ گزیوں نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا کہ ان کی کمیونٹی سے ایک بچہعمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرکے دنیا کی توجہ حاصل کرلے گا۔ مسعود اوزل کے عزم و حوصلے نے ہی ان کو جرمنی کا بہترین کھلاڑی بنادیا۔انہیں جرمنی کے پہلے تاریکن وطن کھلاڑی بننے کا اعزاز ہے۔
مسعود اوزل 15 اکتوبر 1988 کو ویسٹ جرمنی ،گیلسن کرچین میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا ۔ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے ہیں۔بڑے بھائی متلو اوزل اور دوبہنیں نیسی اوزل اور ڈوگیو اوزل ہیں ۔1967 میںمسعود اوزل کے خاندان نے بہتر زندگی گزارنےکیلئے ترکی سے ہجرت کی اور جرمنی کے ضلع بسمارک پر آکر بس گئے ،جہاںان کے علاوہ مزیدتارکین وطن پناہ گزیں کیمپ میں رہائش پذیر تھے۔ ترکی سے ہجرت کرنے کےبعد بھی غربت نے ان کے خاندان کا پیچھا نہ چھوڑا۔وہ جب دنیا میں آئے تو اس وقت جرمنی میں صنعتی ادارے خسارےکا شکار تھے جس کی وجہ سے ملک میں بےروزگاری کی شرح بلند تھی۔ مسعودکے والد مصطفیٰ اوزل اور والدہ گلزار اوزل نےاپنی زندگی کی گاڑی چلانے کےلیے سخت محنت کی کئی چھوٹے موٹے کام کئے۔مصطفیٰ اوزل، ترکی سے ہجرت کرنے والےخاندن کی دوسری نسل سےہیں۔ ان کے والد 6سال کی عمر میں اپنے والد یعنی مسعود کے داداکے ساتھ ہجرت کرکے جرمنی آئے تھے۔ مسعود اوزل کے والد لوہار تھے جبکہ وہ اپنی جوانی کے دور میں مرغیوں سے تیار کردہ چیزیںفروخت کرتے تھے ۔مسعود اوزل کےانٹرنیشنل فٹبال میں ڈیبیو کرنے کے بعد ان کے والد ان کے منیجربھی بنے، جنہوں نےمسعود اوزل کا کیرئیر بہتر بنانے میں کلیدی کردار اد ا کیا۔ مسعود اوزل نے اپنی اور خاندان کی قسمت بدلنے اورغربت سے نجات حاصل کرنے کے لیےفٹبال کھیلنا شروع کیا۔ اسکولوں اور کالجوں میں ہونے والے فٹبال مقابلوں میں حصہ لیا،گرچہ اس دوران اوزل کوکئی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا لیکن اس کے باوجود وہ اپنی منزل مقصود پر پہنچنے کے لیے پرعزم تھے۔ مشکلات ان کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکیں۔
مسعود اوزل کی فٹبال سےمحبت اس وقت شروع ہوئی جب انہوں نےاپنےگھر کے قریب گراؤنڈ میں کھیلنا شروع کیا ۔اپنے بڑے بھائی متلواوزل سے بال پر کنٹرول کرنا سیکھا ۔بچپن میں انہیں فٹبال کھیلنے کا اتنا جنون تھا کہ وہ ہر وقت گیندکو اپنے ساتھ رکھتے تھے۔اور زیادہ سے زیادہ اپنے بھائی کے کھیل کوبغور دیکھتے رہتےتھے۔ انہوں نے علاقے کے کچھ دوستوں کےساتھ ’’منکی کیج‘‘ کے نام سے ٹیم بنائی جہاں اورگیند پاس کرنے کی خاص مہارت حاصل کی۔ ان کےبھائی کے مطابق ،’’بچپن میں اوزل کو فٹبال کا اتنا جنون تھا کہ چاہے سردی ہویا گرمی،سخت بارش ہویا برفباری، وہ روزانہ فٹبال کے میدان میں ضرور جاتا۔ اُس نے باضابطہ طور پر اسکول کے ایلمینڑی ٹیم میں اپنادرج کروایااور یہیں سے فٹبال کی دنیا میں قدم رکھا‘‘۔ اسکول میں جرمنی کے فٹبال ٹیم میں موجودہ پلیئر مینوئیل نیور بھی پڑھتے تھے لیکن وہ ان سے سینئر تھے۔مسعود نے کئی مقابلے میں حصہ لے کر اسکول کی نمائندگی کی پھر جب کالجکی دنیامیںداخل ہوئے توکالج کی کھڑکی سے شالکے کا ہوم گراؤنڈ، ویلٹنز ایرناکا نظارہ کرتے تھے۔ کھیل کے ساتھ ساتھ مسعود اوزل کواپنی شخصیت کے حوالے سے کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ بہت سنجیدہ، کم گو تھےلوگوں سے زیادہ گھلتے ملتے نہیں تھے۔ان کے اسکول ٹیچر ’’کربے‘‘نے ایک دفعہ کہا تھاکہ’’ جب میں نے مسعود کو پہلی بار دیکھا تو وہ جسمانی طور پر چھوٹااور کمزور نظر لگ رہا تھا لیکن جب میدان میں آیاتواس کی شخصیت اور باڈی لینگویج بالکل بدلی ہوئی لگی۔ اس نے عمدہ پرفارمنس کا مظاہرہ کرتے ہوئےسب کو بہت متاثر کیااوردیکھتے ہی دیکھتے ٹیم کا سپر اسٹار پلیئر بن گیا۔ ‘‘
انٹرنیشنل کیرئیر کا آغاز
29سالہمسعوداوزل مسلم فٹبالر2009میں انٹرنیشنل کیرئیر کا آغاز کیا۔فروری2009 میں ناروے کے خلاف فرینڈلی میچ سے ڈیبیو کیا۔ انہوں نے اپنے تیسرے میچ میں جنوبی افریقا کے خلاف میچ میں پہلی بار گیند کو جال کی راہ دکھائی،بعدازاںمسعودکو 2010فیفا ورلڈ کپ کےلئےمنتخب کیا گیا،جس میں اس نے گھانا کیخلاف میچ میں پہلا انٹرنیشنل گول کیا، جبکہ چار بار تھامس مولر کو اسسٹ کیا۔اب تک92میچز میں قومی ٹیم کی نمائندگی کرتے ہوئے 30گولکیے ہیں۔مسعودنے 2014کےورلڈ کپ میں ٹیم کو چوتھی بار عالمی چیمپئن بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ 2010 میں فیفا ورلڈ کپ کے مین آف دی میچ اور ٹاپ اسسٹ کا ایوارڈ بھی جیتااور2011،2012 ،2013 اور 2015میں جرمنی کے بہترین پلیئرکے ایوارڈز پر قبضہ بھی کیا۔ جرمنی کا’’ زیڈان‘‘ کا خطاب بھی دیا گیا۔ وہ 2010-2013تک ریال میڈرڈ سے وابستہ رہے۔ انہوں نے ٹیکنکل اوراٹیکنگ اسکلزکی بدولت ساری دنیا کی توجہ مبذول کروائی۔ ریال میڈرڈ کے سابق اور مانچسٹر یونائیٹڈ کے موجودہ منیجرجوز مورہینو مسعود اوزل کی پرفارمنس سے بہت متاثر تھےا ور بعض اوقات مسعود اوزل کا موازنہ فرانس کے لیجنڈ پلیئر زین الدین زیڈان سے سے کیا کرتے تھے۔
مسعو د2013 سےانگلش فٹبال کلب آرسنل کلب کی نمائندگی کررہے ہیں۔ اس سے قبل وہ ہسپانوی کلب ریال میڈرڈ،ورڈیر بریمین اور شالکے 04کی جانب سے بھی کھیل چکے ہیں۔ انہوں نے 2016 میں انگلش پریمیئر لیگ اور میں ٹاپ اسسٹ پروائیڈر کے ایوارڈز اپنے نام کئے۔ وہ آرسنل کو تین بار ایف اے کپ، ایف اے کمیوینٹی شیلڈ جتوا چکے ہیں ،اس کے علاوہ ریال میڈرڈ کو 2011-12 لالیگا ،2010-11کوپا ڈیل رے، 2012سپر کوپا ڈی اسپونئیل چیمپئن بنوانے میں اہم کردار ادا کیا۔
شطرنج میں قسمت آزامائی
مسعود اوزل نے شطرنج میں بھی قسمت آزمائی کی ،اسکول میں فٹبال کے مقابلوں میں حصہ لینے کے ساتھ شطرنج بھی کھیلتے تھے۔ انہیں اسکول کے زمانے سے ہی حساب کے میں بھی خاص دلچسپی تھی ۔ شطرنج اور حساب کے مضمون سے پیار ہی نے اوزلکیکھیلنے کی صلاحیت کو مزید نکھارنے میں اہم کردار ادا کیا۔
فلاحی کام
مسعود اوزل فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ انہوں نے 2014ورلڈ کپ میں ملنے والی انعامی رقم 5لاکھ ڈالر ایک تنظیم کودےدیئے،جو 23 برازیلی بچوں کی سرجری اور علاج معالجے پر خرچ کئے گئے۔2016 میں اردن میں پناہ گزیںکیمپ کا دورہ کیا، جہاں 80لاکھ شامی مہاجرین ہیں۔ وہ یہاں پر رہنے والے بچوں کیلئے بہت فکر مند ہیں۔ انہوں نے اپنے دورے کے دوران بچوں کو فٹبال، ٹی شرٹس تقسیم کیںاوراُن کے لیےکچھ کرنے کا ارادہ ہے،ایسا کچھ جس سے ان بچوںکا مستقبل سنورجائے۔
’’مسعوداوزل سپر اسٹار‘‘
مسعود اوزل سے والہانہ محبت کا اظہار کرتے ہوئے ان کےایک گمنام مداح نےان پر ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام’’میسوت اوزل سپر اسٹار‘‘ ہے لیکن مداح کی خواہش ہے کہ اس کا نام منظر عام پر لایا جائے۔مسعود اوزل کو مداح کی جانب سے یہ تحفہ بہت پسند آیا ، انہوں نے اپنےمداح سے ایک اور کتاب بہ عنوان’’ Gunning For Greatness ‘‘ لکھنےکی فرمائش کی ہے ۔
اسلام سے محبت
مسعوداوزل ہر میچ سے قبل تلاوت کرتے اور ہاتھ بلند کرکے اللہ تعالیٰ سےدعا مانگتے ہیں۔ وہ جرمنی کا قومی ترانہ پڑھنے کے بجائے قرآنی آیات پڑھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میں ہمیشہ میدان میں جانے سے پہلے قرآنی آیات کی تلاوت کرتااوراللہ سے دعا مانگتا ہوں۔میرے ساتھی جانتے ہیں اس لئے اس دوران وہ مجھے تنگ نہیں کرتے۔ وہ عمرہ کرنے کی سعادت بھی حاصل کرچکے ہیں ۔
نسل پرستی کا سامنا اور متنازع ریٹائرمنٹ
2018کےورلڈ کپ میں جرمنی کو جنوبی کوریا کے ہاتھوں اپ سیٹ شکست کے بعد مسعود اوزل کو، نسل پرستی کا سامنا کرنا پڑا۔ جرمن فٹبال حکام نے شکست کا سارا ملبہ مسعوداوزل پرڈال دیا۔ جرمن حکام ورلڈ کپ سے قبل اوزل کی ترک صدر رجب طیب اردوان سے ملاقات پر برہم تھے،اسی لیے روس میں ٹیم کی ناقص کارکردگی کا سارا غصہ اوزل پر اتار دیا۔ ترک صدر سے ملاقات کرنے پران کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا جس کے بعد اوزل نےفٹبال ایسوسی ایشن کے رویے سے دلبرداشتہ ہوکر انٹرنیشنل فٹبال سے کنارہ کشی اختیار کرنے کا اعلان کیا۔ انہوں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جرمن فٹبال حکام کی جانب سے نسلی تعصب کا نشانہ بنانے اور امتیازی سلوک روا رکھنے کے بارےمیں لکھا۔کہ’’ جرمن میڈیا نے ان کی ترک صدر کے ساتھ تصویر کو اُچھالابلکہ اس ملاقات کو مختلف رنگ بھی دیا۔حالاںکہ ترک صدر سے ملاقات میراکوئی سیاسی ایجنڈا نہیں تھا، اگر اس موقع پر کسی بھی ملک کا صدر ہوتا تو وہ اسی طرح ملتے جس طرح رجب طیب اردوان کے سےملے۔ ‘‘
گزشتہ دنوں مسعود اوزل نےمیڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ’’ جب ہم جیتے تومیں جرمن اور شکست ہوئی تو میں تارکین وطن،مہاجرہوگیا۔‘‘واضح رہے کہ انہوں نےمئی میں خیراتی تعل��می ادارے سے متعلق تقریب کے دوران مانچسٹر سٹی کے مڈفیلڈر الکے گونڈوگان کے ساتھ ترک صدررجب طیب اردوگان سے ملاقات کی تھی۔ تر ک صدر کے ساتھ یہ مسعود کی دوسری ملاقات تھی۔ اس سے قبل 2010 میں ترکی اور جرمنی کے درمیان میچ سے قبل ملاقات کی تھی۔ جرمن فٹبال حکام نے ترک صدر سے ملاقات پر ان کو سخت تنقید کا نشانہ بنایاگیا۔ اس موقع پر جرمن فٹبال ایسوسی یشن کے صدر رینہارڈگرینڈیل نے کہا تھا کہ اوزل اور ر الکے گونڈوگان نے بہت بڑی غلطی کی ہے۔ اگر اوزل کسی انٹرویو میں جواب دینا نہیں دینا چاہتے ہیں تو ان کو میدان میں جواب دینا ہوگا۔‘‘
جرمن فٹبال حکام نے اوزل کے ساتھ نسلی تعصب روارکھنے کے دعویٰ کو مسترد کردیا۔ ان کا کہنا ہے کہ اوزل ملک کےلیے اب مزید کھیلنا ہی نہیں چاہتے۔ ہمیں ان کی ریٹائرمنٹ پر بہت افسوس ہے۔ ان کے ریٹائرمنٹ کے فیصلے سے دنیائے فٹبال میں ایک بحث شروع ہوچکی ہے۔جرمنی کے حکومتی ترجمان کا کہنا ہے کہ جرمن چانسلرانجیلا مرکل مسعوداوزل کےانٹرنیشنل فٹبال سے ریٹائرمنٹ کے فیصلے کا احترام کرتی ہیں۔ انہوں نے قومی ٹیم کی کامیابی کےلیے کئی کارنامے انجام دیئے ہیں۔ جسٹس منسٹر کترینا برلے نے ٹوئٹر پر لکھا کہ مسعود جیسے عظیم کھلاڑی ، جواب قومی ٹیم کی نمائندگی نہیں کرنا چاہتے، ہمارے لیےلمحہ فکریہ ہے۔ ادھر ترکی نے اوزل کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ اس نوجوان کھلاڑی کےلیےجس نے جرمنی فٹبال ٹیم کیلئے اپنا سب دیا اس کےساتھ مذہبی عقیدے کی وجہ سے اس قسم کے نسلی منافرت پر مبنی رویہ ناقابل برداشت ہے۔
The post پناہ گزیں کیمپ سے فٹبال کے میدان تک appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2Mun1Yc via Daily Khabrain
0 notes
Text
پناہ گزیں کیمپ سے فٹبال کے میدان تک
کہتے ہیں اگرخود پریقین ہوتو انسان ہمالیہ بھی سر کرسکتا ہے۔ ایسا ہی ایک مسلمان ترک فٹ بالرمسعود اوزل ہے جس نےجرمنی میں ایک پناہ گزیں کیمپ میں آنکھ کھولی لیکن آج اس کا شمار دنیا کے بہترین فٹ بالرز میں ہوتا ہے۔غربت کی گود میں آنکھ کھولی لیکن آج ان کی آمدنی ایک کروڑ 56لاکھ پاؤنڈزہے۔ آج کئی ملکوں میں اربوں کی مالیت کے عالیشان گھروں کے مالک ہیں۔ بادشاہوں جیسی زندگی گزار رہے ہیں۔ مسعوداوزل2014ورلڈ کپ چیمپئن جیتنےوالی ٹیم جرمنی کا حصہ تھے۔جرمن ٹیم کو فتوحات سے ہمکنار کرنے میں ترک نژاد فٹبالر کا کردار نہایت اہم تھا۔ ان کے خاندان کےساتھ 16ہزار پناہ گزیوں نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا کہ ان کی کمیونٹی سے ایک بچہعمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرکے دنیا کی توجہ حاصل کرلے گا۔ مسعود اوزل کے عزم و حوصلے نے ہی ان کو جرمنی کا بہترین کھلاڑی بنادیا۔انہیں جرمنی کے پہلے تاریکن وطن کھلاڑی بننے کا اعزاز ہے۔
مسعود اوزل 15 اکتوبر 1988 کو ویسٹ جرمنی ،گیلسن کرچین میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا ۔ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے ہیں۔بڑے بھائی متلو اوزل اور دوبہنیں نیسی اوزل اور ڈوگیو اوزل ہیں ۔1967 میںمسعود اوزل کے خاندان نے بہتر زندگی گزارنےکیلئے ترکی سے ہجرت کی اور جرمنی کے ضلع بسمارک پر آکر بس گئے ،جہاںان کے علاوہ مزیدتارکین وطن پناہ گزیں کیمپ میں رہائش پذیر تھے۔ ترکی سے ہجرت کرنے کےبعد بھی غربت نے ان کے خاندان کا پیچھا نہ چھوڑا۔وہ جب دنیا میں آئے تو اس وقت جرمنی میں صنعتی ادارے خسارےکا شکار تھے جس کی وجہ سے ملک میں بےروزگاری کی شرح بلند تھی۔ مسعودکے والد مصطفیٰ اوزل اور والدہ گلزار اوزل نےاپنی زندگی کی گاڑی چلانے کےلیے سخت محنت کی کئی چھوٹے موٹے کام کئے۔مصطفیٰ اوزل، ترکی سے ہجرت کرنے والےخاندن کی دوسری نسل سےہیں۔ ان کے والد 6سال کی عمر میں اپنے والد یعنی مسعود کے داداکے ساتھ ہجرت کرکے جرمنی آئے تھے۔ مسعود اوزل کے والد لوہار تھے جبکہ وہ اپنی جوانی کے دور میں مرغیوں سے تیار کردہ چیزیںفروخت کرتے تھے ۔مسعود اوزل کےانٹرنیشنل فٹبال میں ڈیبیو کرنے کے بعد ان کے والد ان کے منیجربھی بنے، جنہوں نےمسعود اوزل کا کیرئیر بہتر بنانے میں کلیدی کردار اد ا کیا۔ مسعود اوزل نے اپنی اور خاندان کی قسمت بدلنے اورغربت سے نجات حاصل کرنے کے لیےفٹبال کھیلنا شروع کیا۔ اسکولوں اور کالجوں میں ہونے والے فٹبال مقابلوں میں حصہ لیا،گرچہ اس دوران اوزل کوکئی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا لیکن اس کے باوجود وہ اپنی منزل مقصود پر پہنچنے کے لیے پرعزم تھے۔ مشکلات ان کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکیں۔
مسعود اوزل کی فٹبال سےمحبت اس وقت شروع ہوئی جب انہوں نےاپنےگھر کے قریب گراؤنڈ میں کھیلنا شروع کیا ۔اپنے بڑے بھائی متلواوزل سے بال پر کنٹرول کرنا سیکھا ۔بچپن میں انہیں فٹبال کھیلنے کا اتنا جنون تھا کہ وہ ہر وقت گیندکو اپنے ساتھ رکھتے تھے۔اور زیادہ سے زیادہ اپنے بھائی کے کھیل کوبغور دیکھتے رہتےتھے۔ انہوں نے علاقے کے کچھ دوستوں کےساتھ ’’منکی کیج‘‘ کے نام سے ٹیم بنائی جہاں اورگیند پاس کرنے کی خاص مہارت حاصل کی۔ ان کےبھائی کے مطابق ،’’بچپن میں اوزل کو فٹبال کا اتنا جنون تھا کہ چاہے سردی ہویا گرمی،سخت بارش ہویا برفباری، وہ روزانہ فٹبال کے میدان میں ضرور جاتا۔ اُس نے باضابطہ طور پر اسکول کے ایلمینڑی ٹیم میں اپنادرج کروایااور یہیں سے فٹبال کی دنیا میں قدم رکھا‘‘۔ اسکول میں جرمنی کے فٹبال ٹیم میں موجودہ پلیئر مینوئیل نیور بھی پڑھتے تھے لیکن وہ ان سے سینئر تھے۔مسعود نے کئی مقابلے میں حصہ لے کر اسکول کی نمائندگی کی پھر جب کالجکی دنیامیںداخل ہوئے توکالج کی کھڑکی سے شالکے کا ہوم گراؤنڈ، ویلٹنز ایرناکا نظارہ کرتے تھے۔ کھیل کے ساتھ ساتھ مسعود اوزل کواپنی شخصیت کے حوالے سے کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ بہت سنجیدہ، کم گو تھےلوگوں سے زیادہ گھلتے ملتے نہیں تھے۔ان کے اسکول ٹیچر ’’کربے‘‘نے ایک دفعہ کہا تھاکہ’’ جب میں نے مسعود کو پہلی بار دیکھا تو وہ جسمانی طور پر چھوٹااور کمزور نظر لگ رہا تھا لیکن جب میدان میں آیاتواس کی شخصیت اور باڈی لینگویج بالکل بدلی ہوئی لگی۔ اس نے عمدہ پرفارمنس کا مظاہرہ کرتے ہوئےسب کو بہت متاثر کیااوردیکھتے ہی دیکھتے ٹیم کا سپر اسٹار پلیئر بن گیا۔ ‘‘
انٹرنیشنل کیرئیر کا آغاز
29سالہمسعوداوزل مسلم فٹبالر2009میں انٹرنیشنل کیرئیر کا آغاز کیا۔فروری2009 میں ناروے کے خلاف فرینڈلی میچ سے ڈیبیو کیا۔ انہوں نے اپنے تیسرے میچ میں جنوبی افریقا کے خلاف میچ میں پہلی بار گیند کو جال کی راہ دکھائی،بعدازاںمسعودکو 2010فیفا ورلڈ کپ کےلئےمنتخب کیا گیا،جس میں اس نے گھانا کیخلاف میچ میں پہلا انٹرنیشنل گول کیا، جبکہ چار بار تھامس مولر کو اسسٹ کیا۔اب تک92میچز میں قومی ٹیم کی نمائندگی کرتے ہوئے 30گولکیے ہیں۔مسعودنے 2014کےورلڈ کپ میں ٹیم کو چوتھی بار عالمی چیمپئن بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ 2010 میں فیفا ورلڈ کپ کے مین آف دی میچ اور ٹاپ اسسٹ کا ایوارڈ بھی جیتااور2011،2012 ،2013 اور 2015میں جرمنی کے بہترین پلیئرکے ایوارڈز پر قبضہ بھی کیا۔ جرمنی کا’’ زیڈان‘‘ کا خطاب بھی دیا گیا۔ وہ 2010-2013تک ریال میڈرڈ سے وابستہ رہے۔ انہوں نے ٹیکنکل اوراٹیکنگ اسکلزکی بدولت ساری دنیا کی توجہ مبذول کروائی۔ ریال میڈرڈ کے سابق اور مانچسٹر یونائیٹڈ کے موجودہ منیجرجوز مورہینو مسعود اوزل کی پرفارمنس سے بہت متاثر تھےا ور بعض اوقات مسعود اوزل کا موازنہ فرانس کے لیجنڈ پلیئر زین الدین زیڈان سے سے کیا کرتے تھے۔
مسعو د2013 سےانگلش فٹبال کلب آرسنل کلب کی نمائندگی کررہے ہیں۔ اس سے قبل وہ ہسپانوی کلب ریال میڈرڈ،ورڈیر بریمین اور شالکے 04کی جانب سے بھی کھیل چکے ہیں۔ انہوں نے 2016 میں انگلش پریمیئر لیگ اور میں ٹاپ اسسٹ پروائیڈر کے ایوارڈز اپنے نام کئے۔ وہ آرسنل کو تین بار ایف اے کپ، ایف اے کمیوینٹی شیلڈ جتوا چکے ہیں ،اس کے علاوہ ریال میڈرڈ کو 2011-12 لالیگا ،2010-11کوپا ڈیل رے، 2012سپر کوپا ڈی اسپونئیل چیمپئن بنوانے میں اہم کردار ادا کیا۔
شطرنج میں قسمت آزامائی
مسعود اوزل نے شطرنج میں بھی قسمت آزمائی کی ،اسکول میں فٹبال کے مقابلوں میں حصہ لینے کے ساتھ شطرنج بھی کھیلتے تھے۔ انہیں اسکول کے زمانے سے ہی حساب کے میں بھی خاص دلچسپی تھی ۔ شطرنج اور حساب کے مضمون سے پیار ہی نے اوزلکیکھیلنے کی صلاحیت کو مزید نکھارنے میں اہم کردار ادا کیا۔
فلاحی کام
مسعود اوزل فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ انہوں نے 2014ورلڈ کپ میں ملنے والی انعامی رقم 5لاکھ ڈالر ایک تنظیم کودےدیئے،جو 23 برازیلی بچوں کی سرجری اور علاج معالجے پر خرچ کئے گئے۔2016 میں اردن میں پناہ گزیںکیمپ کا دورہ کیا، جہاں 80لاکھ شامی مہاجرین ہیں۔ وہ یہاں پر رہنے والے بچوں کیلئے بہت فکر مند ہیں۔ انہوں نے اپنے دورے کے دوران بچوں کو فٹبال، ٹی شرٹس تقسیم کیںاوراُن کے لیےکچھ کرنے کا ارادہ ہے،ایسا کچھ جس سے ان بچوںکا مستقبل سنورجائے۔
’’مسعوداوزل سپر اسٹار‘‘
مسعود اوزل سے والہانہ محبت کا اظہار کرتے ہوئے ان کےایک گمنام مداح نےان پر ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام’’میسوت اوزل سپر اسٹار‘‘ ہے لیکن مداح کی خواہش ہے کہ اس کا نام منظر عام پر لایا جائے۔مسعود اوزل کو مداح کی جانب سے یہ تحفہ بہت پسند آیا ، انہوں نے اپنےمداح سے ایک اور کتاب بہ عنوان’’ Gunning For Greatness ‘‘ لکھنےکی فرمائش کی ہے ۔
اسلام سے محبت
مسعوداوزل ہر میچ سے قبل تلاوت کرتے اور ہاتھ بلند کرکے اللہ تعالیٰ سےدعا مانگتے ہیں۔ وہ جرمنی کا قومی ترانہ پڑھنے کے بجائے قرآنی آیات پڑھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میں ہمیشہ میدان میں جانے سے پہلے قرآنی آیات کی تلاوت کرتااوراللہ سے دعا مانگتا ہوں۔میرے ساتھی جانتے ہیں اس لئے اس دوران وہ مجھے تنگ نہیں کرتے۔ وہ عمرہ کرنے کی سعادت بھی حاصل کرچکے ہیں ۔
نسل پرستی کا سامنا اور متنازع ریٹائرمنٹ
2018کےورلڈ کپ میں جرمنی کو جنوبی کوریا کے ہاتھوں اپ سیٹ شکست کے بعد مسعود اوزل کو، نسل پرستی کا سامنا کرنا پڑا۔ جرمن فٹبال حکام نے شکست کا سارا ملبہ مسعوداوزل پرڈال دیا۔ جرمن حکام ورلڈ کپ سے قبل اوزل کی ترک صدر رجب طیب اردوان سے ملاقات پر برہم تھے،اسی لیے روس میں ٹیم کی ناقص کارکردگی کا سارا غصہ اوزل پر اتار دیا۔ ترک صدر سے ملاقات کرنے پران کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا جس کے بعد اوزل نےفٹبال ایسوسی ایشن کے رویے سے دلبرداشتہ ہوکر انٹرنیشنل فٹبال سے کنارہ کشی اختیار کرنے کا اعلان کیا۔ انہوں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جرمن فٹبال حکام کی جانب سے نسلی تعصب کا نشانہ بنانے اور امتیازی سلوک روا رکھنے کے بارےمیں لکھا۔کہ’’ جرمن میڈیا نے ان کی ترک صدر کے ساتھ تصویر کو اُچھالابلکہ اس ملاقات کو مختلف رنگ بھی دیا۔حالاںکہ ترک صدر سے ملاقات میراکوئی سیاسی ایجنڈا نہیں تھا، اگر اس موقع پر کسی بھی ملک کا صدر ہوتا تو وہ اسی طرح ملتے جس طرح رجب طیب اردوان کے سےملے۔ ‘‘
گزشتہ دنوں مسعود اوزل نےمیڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ’’ جب ہم جیتے تومیں جرمن اور شکست ہوئی تو میں تارکین وطن،مہاجرہوگیا۔‘‘واضح رہے کہ انہوں نےمئی میں خیراتی تعلیمی ادارے سے متعلق تقریب کے دوران مانچسٹر سٹی کے مڈفیلڈر الکے گونڈوگان کے ساتھ ترک صدررجب طیب اردوگان سے ملاقات کی تھی۔ تر ک صدر کے ساتھ یہ مسعود کی دوسری ملاقات تھی۔ اس سے قبل 2010 میں ترکی اور جرمنی کے درمیان میچ سے قبل ملاقات کی تھی۔ جرمن فٹبال حکام نے ترک صدر سے ملاقات پر ان کو سخت تنقید کا نشانہ بنایاگیا۔ اس موقع پر جرمن فٹبال ایسوسی یشن کے صدر رینہارڈگرینڈیل نے کہا تھا کہ اوزل اور ر الکے گونڈوگان نے بہت بڑی غلطی کی ہے۔ اگر اوزل کسی انٹرویو میں جواب دینا نہیں دینا چاہتے ہیں تو ان کو میدان میں جواب دینا ہوگا۔‘‘
جرمن فٹبال حکام نے اوزل کے ساتھ نسلی تعصب روارکھنے کے دعویٰ کو مسترد کردیا۔ ان کا کہنا ہے کہ اوزل ملک کےلیے اب مزید کھیلنا ہی نہیں چاہتے۔ ہمیں ان کی ریٹائرمنٹ پر بہت افسوس ہے۔ ان کے ریٹائرمنٹ کے فیصلے سے دنیائے فٹبال میں ایک بحث شروع ہوچکی ہے۔جرمنی کے حکومتی ترجمان کا کہنا ہے کہ جرمن چانسلرانجیلا مرکل مسعوداوزل کےانٹرنیشنل فٹبال سے ریٹائرمنٹ کے فیصلے کا احترام کرتی ہیں۔ انہوں نے قومی ٹیم کی کامیابی کےلیے کئی کارنامے انجام دیئے ہیں۔ جسٹس منسٹر کترینا برلے نے ٹوئٹر پر لکھا کہ مسعود جیسے عظیم کھلاڑی ، جواب قومی ٹیم کی نمائندگی نہیں کرنا چاہتے، ہمارے لیےلمحہ فکریہ ہے۔ ادھر ترکی نے اوزل کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ اس نوجوان کھلاڑی کےلیےجس نے جرمنی فٹبال ٹیم کیلئے اپنا سب دیا اس کےساتھ مذہبی عقیدے کی وجہ سے اس قسم کے نسلی منافرت پر مبنی رویہ ناقابل برداشت ہے۔
The post پناہ گزیں کیمپ سے فٹبال کے میدان تک appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2Mun1Yc via Urdu News
0 notes
Text
پناہ گزیں کیمپ سے فٹبال کے میدان تک
کہتے ہیں اگرخود پریقین ہوتو انسان ہمالیہ بھی سر کرسکتا ہے۔ ایسا ہی ایک مسلمان ترک فٹ بالرمسعود اوزل ہے جس نےجرمنی میں ایک پناہ گزیں کیمپ میں آنکھ کھولی لیکن آج اس کا شمار دنیا کے بہترین فٹ بالرز میں ہوتا ہے۔غربت کی گود میں آنکھ کھولی لیکن آج ان کی آمدنی ایک کروڑ 56لاکھ پاؤنڈزہے۔ آج کئی ملکوں میں اربوں کی مالیت کے عالیشان گھروں کے مالک ہیں۔ بادشاہوں جیسی زندگی گزار رہے ہیں۔ مسعوداوزل2014ورلڈ کپ چیمپئن جیتنےوالی ٹیم جرمنی کا حصہ تھے۔جرمن ٹیم کو فتوحات سے ہمکنار کرنے میں ترک نژاد فٹبالر کا کردار نہایت اہم تھا۔ ان کے خاندان کےساتھ 16ہزار پناہ گزیوں نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا کہ ان کی کمیونٹی سے ایک بچہعمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرکے دنیا کی توجہ حاصل کرلے گا۔ مسعود اوزل کے عزم و حوصلے نے ہی ان کو جرمنی کا بہترین کھلاڑی بنادیا۔انہیں جرمنی کے پہلے تاریکن وطن کھلاڑی بننے کا اعزاز ہے۔
مسعود اوزل 15 اکتوبر 1988 کو ویسٹ جرمنی ،گیلسن کرچین میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا ۔ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے ہیں۔بڑے بھائی متلو اوزل اور دوبہنیں نیسی اوزل اور ڈوگیو اوزل ہیں ۔1967 میںمسعود اوزل کے خاندان نے بہتر زندگی گزارنےکیلئے ترکی سے ہجرت کی اور جرمنی کے ضلع بسمارک پر آکر بس گئے ،جہاںان کے علاوہ مزیدتارکین وطن پناہ گزیں کیمپ میں رہائش پذیر تھے۔ ترکی سے ہجرت کرنے کےبعد بھی غربت نے ان کے خاندان کا پیچھا نہ چھوڑا۔وہ جب دنیا میں آئے تو اس وقت جرمنی میں صنعتی ادارے خسارےکا شکار تھے جس کی وجہ سے ملک میں بےروزگاری کی شرح بلند تھی۔ مسعودکے والد مصطفیٰ اوزل اور والدہ گلزار اوزل نےاپنی زندگی کی گاڑی چلانے کےلیے سخت محنت کی کئی چھوٹے موٹے کام کئے۔مصطفیٰ اوزل، ترکی سے ہجرت کرنے والےخاندن کی دوسری نسل سےہیں۔ ان کے والد 6سال کی عمر میں اپنے والد یعنی مسعود کے داداکے ساتھ ہجرت کرکے جرمنی آئے تھے۔ مسعود اوزل کے والد لوہار تھے جبکہ وہ اپنی جوانی کے دور میں مرغیوں سے تیار کردہ چیزیںفروخت کرتے تھے ۔مسعود اوزل کےانٹرنیشنل فٹبال میں ڈیبیو کرنے کے بعد ان کے والد ان کے منیجربھی بنے، جنہوں نےمسعود اوزل کا کیرئیر بہتر بنانے میں کلیدی کردار اد ا کیا۔ مسعود اوزل نے اپنی اور خاندان کی قسمت بدلنے اورغربت سے نجات حاصل کرنے کے لیےفٹبال کھیلنا شروع کیا۔ اسکولوں اور کالجوں میں ہونے والے فٹبال مقابلوں میں حصہ لیا،گرچہ اس دوران اوزل کوکئی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا لیکن اس کے باوجود وہ اپنی منزل مقصود پر پہنچنے کے لیے پرعزم تھے۔ مشکلات ان کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکیں۔
مسعود اوزل کی فٹبال سےمحبت اس وقت شروع ہوئی جب انہوں نےاپنےگھر کے قریب گراؤنڈ میں کھیلنا شروع کیا ۔اپنے بڑے بھائی متلواوزل سے بال پر کنٹرول کرنا سیکھا ۔بچپن میں انہیں فٹبال کھیلنے کا اتنا جنون تھا کہ وہ ہر وقت گیندکو اپنے ساتھ رکھتے تھے۔اور زیادہ سے زیادہ اپنے بھائی کے کھیل کوبغور دیکھتے رہتےتھے۔ انہوں نے علاقے کے کچھ دوستوں کےساتھ ’’منکی کیج‘‘ کے نام سے ٹیم بنائی جہاں اورگیند پاس کرنے کی خاص مہارت حاصل کی۔ ان کےبھائی کے مطابق ،’’بچپن میں اوزل کو فٹبال کا اتنا جنون تھا کہ چاہے سردی ہویا گرمی،سخت بارش ہویا برفباری، وہ روزانہ فٹبال کے میدان میں ضرور جاتا۔ اُس نے باضابطہ طور پر اسکول کے ایلمینڑی ٹیم میں اپنادرج کروایااور یہیں سے فٹبال کی دنیا میں قدم رکھا‘‘۔ اسکول میں جرمنی کے فٹبال ٹیم میں موجودہ پلیئر مینوئیل نیور بھی پڑھتے تھے لیکن وہ ان سے سینئر تھے۔مسعود نے کئی مقابلے میں حصہ لے کر اسکول کی نمائندگی کی پھر جب کالجکی دنیامیںداخل ہوئے توکالج کی کھڑکی سے شالکے کا ہوم گراؤنڈ، ویلٹنز ایرناکا نظارہ کرتے تھے۔ کھیل کے ساتھ ساتھ مسعود اوزل کواپنی شخصیت کے حوالے سے کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ بہت سنجیدہ، کم گو تھےلوگوں سے زیادہ گھلتے ملتے نہیں تھے۔ان کے اسکول ٹیچر ’’کربے‘‘نے ایک دفعہ کہا تھاکہ’’ جب میں نے مسعود کو پہلی بار دیکھا تو وہ جسمانی طور پر چھوٹااور کمزور نظر لگ رہا تھا لیکن جب میدان میں آیاتواس کی شخصیت اور باڈی لینگویج بالکل بدلی ہوئی لگی۔ اس نے عمدہ پرفارمنس کا مظاہرہ کرتے ہوئےسب کو بہت متاثر کیااوردیکھتے ہی دیکھتے ٹیم کا سپر اسٹار پلیئر بن گیا۔ ‘‘
انٹرنیشنل کیرئیر کا آغاز
29سالہمسعوداوزل مسلم فٹبالر2009میں انٹرنیشنل کیرئیر کا آغاز کیا۔فروری2009 میں ناروے کے خلاف فرینڈلی میچ سے ڈیبیو کیا۔ انہوں نے اپنے تیسرے میچ میں جنوبی افریقا کے خلاف میچ میں پہلی بار گیند کو جال کی راہ دکھائی،بعدازاںمسعودکو 2010فیفا ورلڈ کپ کےلئےمنتخب کیا گیا،جس میں اس نے گھانا کیخلاف میچ میں پہلا انٹرنیشنل گول کیا، جبکہ چار بار تھامس مولر کو اسسٹ کیا۔اب تک92میچز میں قومی ٹیم کی نمائندگی کرتے ہوئے 30گولکیے ہیں۔مسعودنے 2014کےورلڈ کپ میں ٹیم کو چوتھی بار عالمی چیمپئن بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ 2010 میں فیفا ورلڈ کپ کے مین آف دی میچ اور ٹاپ اسسٹ کا ایوارڈ بھی جیتااور2011،2012 ،2013 اور 2015میں جرمنی کے بہترین پلیئرکے ایوارڈز پر قبضہ بھی کیا۔ جرمنی کا’’ زیڈان‘‘ کا خطاب بھی دیا گیا۔ وہ 2010-2013تک ریال میڈرڈ سے وابستہ رہے۔ انہوں نے ٹیکنکل اوراٹیکنگ اسکلزکی بدولت ساری دنیا کی توجہ مبذول کروائی۔ ریال میڈرڈ کے سابق اور مانچسٹر یونائیٹڈ کے موجودہ منیجرجوز مورہینو مسعود اوزل کی پرفارمنس سے بہت متاثر تھےا ور بعض اوقات مسعود اوزل کا موازنہ فرانس کے لیجنڈ پلیئر زین الدین زیڈان سے سے کیا کرتے تھے۔
مسعو د2013 سےانگلش فٹبال کلب آرسنل کلب کی نمائندگی کررہے ہیں۔ اس سے قبل وہ ہسپانوی کلب ریال میڈرڈ،ورڈیر بریمین اور شالکے 04کی جانب سے بھی کھیل چکے ہیں۔ انہوں نے 2016 میں انگلش پریمیئر لیگ اور میں ٹاپ اسسٹ پروائیڈر کے ایوارڈز اپنے نام کئے۔ وہ آرسنل کو تین بار ایف اے کپ، ایف اے کمیوینٹی شیلڈ جتوا چکے ہیں ،اس کے علاوہ ریال میڈرڈ کو 2011-12 لالیگا ،2010-11کوپا ڈیل رے، 2012سپر کوپا ڈی اسپونئیل چیمپئن بنوانے میں اہم کردار ادا کیا۔
شطرنج میں قسمت آزامائی
مسعود اوزل نے شطرنج میں بھی قسمت آزمائی کی ،اسکول میں فٹبال کے مقابلوں میں حصہ لینے کے ساتھ شطرنج بھی کھیلتے تھے۔ انہیں اسکول کے زمانے سے ہی حساب کے میں بھی خاص دلچسپی تھی ۔ شطرنج اور حساب کے مضمون سے پیار ہی نے اوزلکیکھیلنے کی صلاحیت کو مزید نکھارنے میں اہم کردار ادا کیا۔
فلاحی کام
مسعود اوزل فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ انہوں نے 2014ورلڈ کپ میں ملنے والی انعامی رقم 5لاکھ ڈالر ایک تنظیم کودےدیئے،جو 23 برازیلی بچوں کی سرجری اور علاج معالجے پر خرچ کئے گئے۔2016 میں اردن میں پناہ گزیںکیمپ کا دورہ کیا، جہاں 80لاکھ شامی مہاجرین ہیں۔ وہ یہاں پر رہنے والے بچوں کیلئے بہت فکر مند ہیں۔ انہوں نے اپنے دورے کے دوران بچوں کو فٹبال، ٹی شرٹس تقسیم کیںاوراُن کے لیےکچھ کرنے کا ارادہ ہے،ایسا کچھ جس سے ان بچوںکا مستقبل سنورجائے۔
’’مسعوداوزل سپر اسٹار‘‘
مسعود اوزل سے والہانہ محبت کا اظہار کرتے ہوئے ان کےایک گمنام مداح نےان پر ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام’’میسوت اوزل سپر اسٹار‘‘ ہے لیکن مداح کی خواہش ہے کہ اس کا نام منظر عام پر لایا جائے۔مسعود اوزل کو مداح کی جانب سے یہ تحفہ بہت پسند آیا ، انہوں نے اپنےمداح سے ایک اور کتاب بہ عنوان’’ Gunning For Greatness ‘‘ لکھنےکی فرمائش کی ہے ۔
اسلام سے محبت
مسعوداوزل ہر میچ سے قبل تلاوت کرتے اور ہاتھ بلند کرکے اللہ تعالیٰ سےدعا مانگتے ہیں۔ وہ جرمنی کا قومی ترانہ پڑھنے کے بجائے قرآنی آیات پڑھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میں ہمیشہ میدان میں جانے سے پہلے قرآنی آیات کی تلاوت کرتااوراللہ سے دعا مانگتا ہوں۔میرے ساتھی جانتے ہیں اس لئے اس دوران وہ مجھے تنگ نہیں کرتے۔ وہ عمرہ کرنے کی سعادت بھی حاصل کرچکے ہیں ۔
نسل پرستی کا سامنا اور متنازع ریٹائرمنٹ
2018کےورلڈ کپ میں جرمنی کو جنوبی کوریا کے ہاتھوں اپ سیٹ شکست کے بعد مسعود اوزل کو، نسل پرستی کا سامنا کرنا پڑا۔ جرمن فٹبال حکام نے شکست کا سارا ملبہ مسعوداوزل پرڈال دیا۔ جرمن حکام ورلڈ کپ سے قبل اوزل کی ترک صدر رجب طیب اردوان سے ملاقات پر برہم تھے،اسی لیے روس میں ٹیم کی ناقص کارکردگی کا سارا غصہ اوزل پر اتار دیا۔ ترک صدر سے ملاقات کرنے پران کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا جس کے بعد اوزل نےفٹبال ایسوسی ایشن کے رویے سے دلبرداشتہ ہوکر انٹرنیشنل فٹبال سے کنارہ کشی اختیار کرنے کا اعلان کیا۔ انہوں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جرمن فٹبال حکام کی جانب سے نسلی تعصب کا نشانہ بنانے اور امتیازی سلوک روا رکھنے کے بارےمیں لکھا۔کہ’’ جرمن میڈیا نے ان کی ترک صدر کے ساتھ تصویر کو اُچھالابلکہ اس ملاقات کو مختلف رنگ بھی دیا۔حالاںکہ ترک صدر سے ملاقات میراکوئی سیاسی ایجنڈا نہیں تھا، اگر اس موقع پر کسی بھی ملک کا صدر ہوتا تو وہ اسی طرح ملتے جس طرح رجب طیب اردوان کے سےملے۔ ‘‘
گزشتہ دنوں مسعود اوزل نےمیڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ’’ جب ہم جیتے تومیں جرمن اور شکست ہوئی تو میں تارکین وطن،مہاجرہوگیا۔‘‘واضح رہے کہ انہوں نےمئی میں خیراتی تعلیمی ادارے سے متعلق تقریب کے دوران مانچسٹر سٹی کے مڈفیلڈر الکے گونڈوگان کے ساتھ ترک صدررجب طیب اردوگان سے ملاقات کی تھی۔ تر ک صدر کے ساتھ یہ مسعود کی دوسری ملاقات تھی۔ اس سے قبل 2010 میں ترکی اور جرمنی کے درمیان میچ سے قبل ملاقات کی تھی۔ جرمن فٹبال حکام نے ترک صدر سے ملاقات پر ان کو سخت تنقید کا نشانہ بنایاگیا۔ اس موقع پر جرمن فٹبال ایسوسی یشن کے صدر رینہارڈگرینڈیل نے کہا تھا کہ اوزل اور ر الکے گونڈوگان نے بہت بڑی غلطی کی ہے۔ اگر اوزل کسی انٹرویو میں جواب دینا نہیں دینا چاہتے ہیں تو ان کو میدان میں جواب دینا ہوگا۔‘‘
جرمن فٹبال حکام نے اوزل کے ساتھ نسلی تعصب روارکھنے کے دعویٰ کو مسترد کردیا۔ ان کا کہنا ہے کہ اوزل ملک کےلیے اب مزید کھیلنا ہی نہیں چاہتے۔ ہمیں ان کی ریٹائرمنٹ پر بہت افسوس ہے۔ ان کے ریٹائرمنٹ کے فیصلے سے دنیائے فٹبال میں ایک بحث شروع ہوچکی ہے۔جرمنی کے حکومتی ترجمان کا کہنا ہے کہ جرمن چانسلرانجیلا مرکل مسعوداوزل کےانٹرنیشنل فٹبال سے ریٹائرمنٹ کے فیصلے کا احترام کرتی ہیں۔ انہوں نے قومی ٹیم کی کامیابی کےلیے کئی کارنامے انجام دیئے ہیں۔ جسٹس منسٹر کترینا برلے نے ٹوئٹر پر لکھا کہ مسعود جیسے عظیم کھلاڑی ، جواب قومی ٹیم کی نمائندگی نہیں کرنا چاہتے، ہمارے لیےلمحہ فکریہ ہے۔ ادھر ترکی نے اوزل کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ اس نوجوان کھلاڑی کےلیےجس نے جرمنی فٹبال ٹیم کیلئے اپنا سب دیا اس کےساتھ مذہبی عقیدے کی وجہ سے اس قسم کے نسلی منافرت پر مبنی رویہ ناقابل برداشت ہے۔
The post پناہ گزیں کیمپ سے فٹبال کے میدان تک appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2Mun1Yc via Today Urdu News
0 notes
Text
پناہ گزیں کیمپ سے فٹبال کے میدان تک
کہتے ہیں اگرخود پریقین ہوتو انسان ہمالیہ بھی سر کرسکتا ہے۔ ایسا ہی ایک مسلمان ترک فٹ بالرمسعود اوزل ہے جس نےجرمنی میں ایک پناہ گزیں کیمپ میں آنکھ کھولی لیکن آج اس کا شمار دنیا کے بہترین فٹ بالرز میں ہوتا ہے۔غربت کی گود میں آنکھ کھولی لیکن آج ان کی آمدنی ایک کروڑ 56لاکھ پاؤنڈزہے۔ آج کئی ملکوں میں اربوں کی مالیت کے عالیشان گھروں کے مالک ہیں۔ بادشاہوں جیسی زندگی گزار رہے ہیں۔ مسعوداوزل2014ورلڈ کپ چیمپئن جیتنےوالی ٹیم جرمنی کا حصہ تھے۔جرمن ٹیم کو فتوحات سے ہمکنار کرنے میں ترک نژاد فٹبالر کا کردار نہایت اہم تھا۔ ان کے خاندان کےساتھ 16ہزار پناہ گزیوں نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا کہ ان کی کمیونٹی سے ایک بچہعمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرکے دنیا کی توجہ حاصل کرلے گا۔ مسعود اوزل کے عزم و حوصلے نے ہی ان کو جرمنی کا بہترین کھلاڑی بنادیا۔انہیں جرمنی کے پہلے تاریکن وطن کھلاڑی بننے کا اعزاز ہے۔
مسعود اوزل 15 اکتوبر 1988 کو ویسٹ جرمنی ،گیلسن کرچین میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا ۔ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے ہیں۔بڑے بھائی متلو اوزل اور دوبہنیں نیسی اوزل اور ڈوگیو اوزل ہیں ۔1967 میںمسعود اوزل کے خاندان نے بہتر زندگی گزارنےکیلئے ترکی سے ہجرت کی اور جرمنی کے ضلع بسمارک پر آکر بس گئے ،جہاںان کے علاوہ مزیدتارکین وطن پناہ گزیں کیمپ میں رہائش پذیر تھے۔ ترکی سے ہجرت کرنے کےبعد بھی غربت نے ان کے خاندان کا پیچھا نہ چھوڑا۔وہ جب دنیا میں آئے تو اس وقت جرمنی میں صنعتی ادارے خسارےکا شکار تھے جس کی وجہ سے ملک میں بےروزگاری کی شرح بلند تھی۔ مسعودکے والد مصطفیٰ اوزل اور والدہ گلزار اوزل نےاپنی زندگی کی گاڑی چلانے کےلیے سخت محنت کی کئی چھوٹے موٹے کام کئے۔مصطفیٰ اوزل، ترکی سے ہجرت کرنے والےخاندن کی دوسری نسل سےہیں۔ ان کے والد 6سال کی عمر میں اپنے والد یعنی مسعود کے داداکے ساتھ ہجرت کرکے جرمنی آئے تھے۔ مسعود اوزل کے والد لوہار تھے جبکہ وہ اپنی جوانی کے دور میں مرغیوں سے تیار کردہ چیزیںفروخت کرتے تھے ۔مسعود اوزل کےانٹرنیشنل فٹبال میں ڈیبیو کرنے کے بعد ان کے والد ان کے منیجربھی بنے، جنہوں نےمسعود اوزل کا کیرئیر بہتر بنانے میں کلیدی کردار اد ا کیا۔ مسعود اوزل نے اپنی اور خاندان کی قسمت بدلنے اورغربت سے نجات حاصل کرنے کے لیےفٹبال کھیلنا شروع کیا۔ اسکولوں اور کالجوں میں ہونے والے فٹبال مقابلوں میں حصہ لیا،گرچہ اس دوران اوزل کوکئی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا لیکن اس کے باوجود وہ اپنی منزل مقصود پر پہنچنے کے لیے پرعزم تھے۔ مشکلات ان کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکیں۔
مسعود اوزل کی فٹبال سےمحبت اس وقت شروع ہوئی جب انہوں نےاپنےگھر کے قریب گراؤنڈ میں کھیلنا شروع کیا ۔اپنے بڑے بھائی متلواوزل سے بال پر کنٹرول کرنا سیکھا ۔بچپن میں انہیں فٹبال کھیلنے کا اتنا جنون تھا کہ وہ ہر وقت گیندکو اپنے ساتھ رکھتے تھے۔اور زیادہ سے زیادہ اپنے بھائی کے کھیل کوبغور دیکھتے رہتےتھے۔ انہوں نے علاقے کے کچھ دوستوں کےساتھ ’’منکی کیج‘‘ کے نام سے ٹیم بنائی جہاں اورگیند پاس کرنے کی خاص مہارت حاصل کی۔ ان کےبھائی کے مطابق ،’’بچپن میں اوزل کو فٹبال کا اتنا جنون تھا کہ چاہے سردی ہویا گرمی،سخت بارش ہویا برفباری، وہ روزانہ فٹبال کے میدان میں ضرور جاتا۔ اُس نے باضابطہ طور پر اسکول کے ایلمینڑی ٹیم میں اپنادرج کروایااور یہیں سے فٹبال کی دنیا میں قدم رکھا‘‘۔ اسکول میں جرمنی کے فٹبال ٹیم میں موجودہ پلیئر مینوئیل نیور بھی پڑھتے تھے لیکن وہ ان سے سینئر تھے۔مسعود نے کئی مقابلے میں حصہ لے کر اسکول کی نمائندگی کی پھر جب کالجکی دنیامیںداخل ہوئے توکالج کی کھڑکی سے شالکے کا ہوم گراؤنڈ، ویلٹنز ایرناکا نظارہ کرتے تھے۔ کھیل کے ساتھ ساتھ مسعود اوزل کواپنی شخصیت کے حوالے سے کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ بہت سنجیدہ، کم گو تھےلوگوں سے زیادہ گھلتے ملتے نہیں تھے۔ان کے اسکول ٹیچر ’’کربے‘‘نے ایک دفعہ کہا تھاکہ’’ جب میں نے مسعود کو پہلی بار دیکھا تو وہ جسمانی طور پر چھوٹااور کمزور نظر لگ رہا تھا لیکن جب میدان میں آیاتواس کی شخصیت اور باڈی لینگویج بالکل بدلی ہوئی لگی۔ اس نے عمدہ پرفارمنس کا مظاہرہ کرتے ہوئےسب کو بہت متاثر کیااوردیکھتے ہی دیکھتے ٹیم کا سپر اسٹار پلیئر بن گیا۔ ‘‘
انٹرنیشنل کیرئیر کا آغاز
29سالہمسعوداوزل مسلم فٹبالر2009میں انٹرنیشنل کیرئیر کا آغاز کیا۔فروری2009 میں ناروے کے خلاف فرینڈلی میچ سے ڈیبیو کیا۔ انہوں نے اپنے تیسرے میچ میں جنوبی افریقا کے خلاف میچ میں پہلی بار گیند کو جال کی راہ دکھائی،بعدازاںمسعودکو 2010فیفا ورلڈ کپ کےلئےمنتخب کیا گیا،جس میں اس نے گھانا کیخلاف میچ میں پہلا انٹرنیشنل گول کیا، جبکہ چار بار تھامس مولر کو اسسٹ کیا۔اب تک92میچز میں قومی ٹیم کی نمائندگی کرتے ہوئے 30گولکیے ہیں۔مسعودنے 2014کےورلڈ کپ میں ٹیم کو چوتھی بار عالمی چیمپئن بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ 2010 میں فیفا ورلڈ کپ کے مین آف دی میچ اور ٹاپ اسسٹ کا ایوارڈ بھی جیتااور2011،2012 ،2013 اور 2015میں جرمنی کے بہترین پلیئرکے ایوارڈز پر قبضہ بھی کیا۔ جرمنی کا’’ زیڈان‘‘ کا خطاب بھی دیا گیا۔ وہ 2010-2013تک ریال میڈرڈ سے وابستہ رہے۔ انہوں نے ٹیکنکل اوراٹیکنگ اسکلزکی بدولت ساری دنیا کی توجہ مبذول کروائی۔ ریال میڈرڈ کے سابق اور مانچسٹر یونائیٹڈ کے موجودہ منیجرجوز مورہینو مسعود اوزل کی پرفارمنس سے بہت متاثر تھےا ور بعض اوقات مسعود اوزل کا موازنہ فرانس کے لیجنڈ پلیئر زین الدین زیڈان سے سے کیا کرتے تھے۔
مسعو د2013 سےانگلش فٹبال کلب آرسنل کلب کی نمائندگی کررہے ہیں۔ اس سے قبل وہ ہسپانوی کلب ریال میڈرڈ،ورڈیر بریمین اور شالکے 04کی جانب سے بھی کھیل چکے ہیں۔ انہوں نے 2016 میں انگلش پریمیئر لیگ اور میں ٹاپ اسسٹ پروائیڈر کے ایوارڈز اپنے نام کئے۔ وہ آرسنل کو تین بار ایف اے کپ، ایف اے کمیوینٹی شیلڈ جتوا چکے ہیں ،اس کے علاوہ ریال میڈرڈ کو 2011-12 لالیگا ،2010-11کوپا ڈیل رے، 2012سپر کوپا ڈی اسپونئیل چیمپئن بنوانے میں اہم کردار ادا کیا۔
شطرنج میں قسمت آزامائی
مسعود اوزل نے شطرنج میں بھی قسمت آزمائی کی ،اسکول میں فٹبال کے مقابلوں میں حصہ لینے کے ساتھ شطرنج بھی کھیلتے تھے۔ انہیں اسکول کے زمانے سے ہی حساب کے میں بھی خاص دلچسپی تھی ۔ شطرنج اور حساب کے مضمون سے پیار ہی نے اوزلکیکھیلنے کی صلاحیت کو مزید نکھارنے میں اہم کردار ادا کیا۔
فلاحی کام
مسعود اوزل فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ انہوں نے 2014ورلڈ کپ میں ملنے والی انعامی رقم 5لاکھ ڈالر ایک تنظیم کودےدیئے،جو 23 برازیلی بچوں کی سرجری اور علاج معالجے پر خرچ کئے گئے۔2016 میں اردن میں پناہ گزیںکیمپ کا دورہ کیا، جہاں 80لاکھ شامی مہاجرین ہیں۔ وہ یہاں پر رہنے والے بچوں کیلئے بہت فکر مند ہیں۔ انہوں نے اپنے دورے کے دوران بچوں کو فٹبال، ٹی شرٹس تقسیم کیںاوراُن کے لیےکچھ کرنے کا ارادہ ہے،ایسا کچھ جس سے ان بچوںکا مستقبل سنورجائے۔
’’مسعوداوزل سپر اسٹار‘‘
مسعود اوزل سے والہانہ محبت کا اظہار کرتے ہوئے ان کےایک گمنام مداح نےان پر ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام’’میسوت اوزل سپر اسٹار‘‘ ہے لیکن مداح کی خواہش ہے کہ اس کا نام منظر عام پر لایا جائے۔مسعود اوزل کو مداح کی جانب سے یہ تحفہ بہت پسند آیا ، انہوں نے اپنےمداح سے ایک اور کتاب بہ عنوان’’ Gunning For Greatness ‘‘ لکھنےکی فرمائش کی ہے ۔
اسلام سے محبت
مسعوداوزل ہر میچ سے قبل تلاوت کرتے اور ہاتھ بلند کرکے اللہ تعالیٰ سےدعا مانگتے ہیں۔ وہ جرمنی کا قومی ترانہ پڑھنے کے بجائے قرآنی آیات پڑھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میں ہمیشہ میدان میں جانے سے پہلے قرآنی آیات کی تلاوت کرتااوراللہ سے دعا مانگتا ہوں۔میرے ساتھی جانتے ہیں اس لئے اس دوران وہ مجھے تنگ نہیں کرتے۔ وہ عمرہ کرنے کی سعادت بھی حاصل کرچکے ہیں ۔
نسل پرستی کا سامنا اور متنازع ریٹائرمنٹ
2018کےورلڈ کپ میں جرمنی کو جنوبی کوریا کے ہاتھوں اپ سیٹ شکست کے بعد مسعود اوزل کو، نسل پرستی کا سامنا کرنا پڑا۔ جرمن فٹبال حکام نے شکست کا سارا ملبہ مسعوداوزل پرڈال دیا۔ جرمن حکام ورلڈ کپ سے قبل اوزل کی ترک صدر رجب طیب اردوان سے ملاقات پر برہم تھے،اسی لیے روس میں ٹیم کی ناقص کارکردگی کا سارا غصہ اوزل پر اتار دیا۔ ترک صدر سے ملاقات کرنے پران کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا جس کے بعد اوزل نےفٹبال ایسوسی ایشن کے رویے سے دلبرداشتہ ہوکر انٹرنیشنل فٹبال سے کنارہ کشی اختیار کرنے کا اعلان کیا۔ انہوں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جرمن فٹبال حکام کی جانب سے نسلی تعصب کا نشانہ بنانے اور امتیازی سلوک روا رکھنے کے بارےمیں لکھا۔کہ’’ جرمن میڈیا نے ان کی ترک صدر کے ساتھ تصویر کو اُچھالابلکہ اس ملاقات کو مختلف رنگ بھی دیا۔حالاںکہ ترک صدر سے ملاقات میراکوئی سیاسی ایجنڈا نہیں تھا، اگر اس موقع پر کسی بھی ملک کا صدر ہوتا تو وہ اسی طرح ملتے جس طرح رجب طیب اردوان کے سےملے۔ ‘‘
گزشتہ دنوں مسعود اوزل نےمیڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ’’ جب ہم جیتے تومیں جرمن اور شکست ہوئی تو میں تارکین وطن،مہاجرہوگیا۔‘‘واضح رہے کہ انہوں نےمئی میں خیراتی تعلیمی ادارے سے متعلق تقریب کے دوران مانچسٹر سٹی کے مڈفیلڈر الکے گونڈوگان کے ساتھ ترک صدررجب طیب اردوگان سے ملاقات کی تھی۔ تر ک صدر کے ساتھ یہ مسعود کی دوسری ملاقات تھی۔ اس سے قبل 2010 میں ترکی اور جرمنی کے درمیان میچ سے قبل ملاقات کی تھی۔ جرمن فٹبال حکام نے ترک صدر سے ملاقات پر ان کو سخت تنقید کا نشانہ بنایاگیا۔ اس موقع پر جرمن فٹبال ایسوسی یشن کے صدر رینہارڈگرینڈیل نے کہا تھا کہ اوزل اور ر الکے گونڈوگان نے بہت بڑی غلطی کی ہے۔ اگر اوزل کسی انٹرویو میں جواب دینا نہیں دینا چاہتے ہیں تو ان کو میدان میں جواب دینا ہوگا۔‘‘
جرمن فٹبال حکام نے اوزل کے ساتھ نسلی تعصب روارکھنے کے دعویٰ کو مسترد کردیا۔ ان کا کہنا ہے کہ اوزل ملک کےلیے اب مزید کھیلنا ہی نہیں چاہتے۔ ہمیں ان کی ریٹائرمنٹ پر بہت افسوس ہے۔ ان کے ریٹائرمنٹ کے فیصلے سے دنیائے فٹبال میں ایک بحث شروع ہوچکی ہے۔جرمنی کے حکومتی ترجمان کا کہنا ہے کہ جرمن چانسلرانجیلا مرکل مسعوداوزل کےانٹرنیشنل فٹبال سے ریٹائرمنٹ کے فیصلے کا احترام کرتی ہیں۔ انہوں نے قومی ٹیم کی کامیابی کےلیے کئی کارنامے انجام دیئے ہیں۔ جسٹس منسٹر کترینا برلے نے ٹوئٹر پر لکھا کہ مسعود جیسے عظیم کھلاڑی ، جواب قومی ٹیم کی نمائندگی نہیں کرنا چاہتے، ہمارے لیےلمحہ فکریہ ہے۔ ادھر ترکی نے اوزل کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ اس نوجوان کھلاڑی کےلیےجس نے جرمنی فٹبال ٹیم کیلئے اپنا سب دیا اس کےساتھ مذہبی عقیدے کی وجہ سے اس قسم کے نسلی منافرت پر مبنی رویہ ناقابل برداشت ہے۔
The post پناہ گزیں کیمپ سے فٹبال کے میدان تک appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2Mun1Yc via Hindi Khabrain
#pakistani urdu newspaper daily#khabrain#the hindu newspaper#punjab news#bengali news#akhbar urdu pep
0 notes
Text
پناہ گزیں کیمپ سے فٹبال کے میدان تک
کہتے ہیں اگرخود پریقین ہوتو انسان ہمالیہ بھی سر کرسکتا ہے۔ ایسا ہی ایک مسلمان ترک فٹ بالرمسعود اوزل ہے جس نےجرمنی میں ایک پناہ گزیں کیمپ میں آنکھ کھولی لیکن آج اس کا شمار دنیا کے بہترین فٹ بالرز میں ہوتا ہے۔غربت کی گود میں آنکھ کھولی لیکن آج ان کی آمدنی ایک کروڑ 56لاکھ پاؤنڈزہے۔ آج کئی ملکوں میں اربوں کی مالیت کے عالیشان گھروں کے مالک ہیں۔ بادشاہوں جیسی زندگی گزار رہے ہیں۔ مسعوداوزل2014ورلڈ کپ چیمپئن جیتنےوالی ٹیم جرمنی کا حصہ تھے۔جرمن ٹیم کو فتوحات سے ہمکنار کرنے میں ترک نژاد فٹبالر کا کردار نہایت اہم تھا۔ ان کے خاندان کےساتھ 16ہزار پناہ گزیوں نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا کہ ان کی کمیونٹی سے ایک بچہعمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرکے دنیا کی توجہ حاصل کرلے گا۔ مسعود اوزل کے عزم و حوصلے نے ہی ان کو جرمنی کا بہترین کھلاڑی بنادیا۔انہیں جرمنی کے پہلے تاریکن وطن کھلاڑی بننے کا اعزاز ہے۔
مسعود اوزل 15 اکتوبر 1988 کو ویسٹ جرمنی ،گیلسن کرچین میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا ۔ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے ہیں۔بڑے بھائی متلو اوزل اور دوبہنیں نیسی اوزل اور ڈوگیو اوزل ہیں ۔1967 میںمسعود اوزل کے خاندان نے بہتر زندگی گزارنےکیلئے ترکی سے ہجرت کی اور جرمنی کے ضلع بسمارک پر آکر بس گئے ،جہاںان کے علاوہ مزیدتارکین وطن پناہ گزیں کیمپ میں رہائش پذیر تھے۔ ترکی سے ہجرت کرنے کےبعد بھی غربت نے ان کے خاندان کا پیچھا نہ چھوڑا۔وہ جب دنیا میں آئے تو اس وقت جرمنی میں صنعتی ادارے خسارےکا شکار تھے جس کی وجہ سے ملک میں بےروزگاری کی شرح بلند تھی۔ مسعودکے والد مصطفیٰ اوزل اور والدہ گلزار اوزل نےاپنی زندگی کی گاڑی چلانے کےلیے سخت محنت کی کئی چھوٹے موٹے کام کئے۔مصطفیٰ اوزل، ترکی سے ہجرت کرنے والےخاندن کی دوسری نسل سےہیں۔ ان کے والد 6سال کی عمر میں اپنے والد یعنی مسعود کے داداکے ساتھ ہجرت کرکے جرمنی آئے تھے۔ مسعود اوزل کے والد لوہار تھے جبکہ وہ اپنی جوانی کے دور میں مرغیوں سے تیار کردہ چیزیںفروخت کرتے تھے ۔مسعود اوزل کےانٹرنیشنل فٹبال میں ڈیبیو کرنے کے بعد ان کے والد ان کے منیجربھی بنے، جنہوں نےمسعود اوزل کا کیرئیر بہتر بنانے میں کلیدی کردار اد ا کیا۔ مسعود اوزل نے اپنی اور خاندان کی قسمت بدلنے اورغربت سے نجات حاصل کرنے کے لیےفٹبال کھیلنا شروع کیا۔ اسکولوں اور کالجوں میں ہونے والے فٹبال مقابلوں میں حصہ لیا،گرچہ اس دوران اوزل کوکئی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا لیکن اس کے باوجود وہ اپنی منزل مقصود پر پہنچنے کے لیے پرعزم تھے۔ مشکلات ان کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکیں۔
مسعود اوزل کی فٹبال سےمحبت اس وقت شروع ہوئی جب انہوں نےاپنےگھر کے قریب گراؤنڈ میں کھیلنا شروع کیا ۔اپنے بڑے بھائی متلواوزل سے بال پر کنٹرول کرنا سیکھا ۔بچپن میں انہیں فٹبال کھیلنے کا اتنا جنون تھا کہ وہ ہر وقت گیندکو اپنے ساتھ رکھتے تھے۔اور زیادہ سے زیادہ اپنے بھائی کے کھیل کوبغور دیکھتے رہتےتھے۔ انہوں نے علاقے کے کچھ دوستوں کےساتھ ’’منکی کیج‘‘ کے نام سے ٹیم بنائی جہاں اورگیند پاس کرنے کی خاص مہارت حاصل کی۔ ان کےبھائی کے مطابق ،’’بچپن میں اوزل کو فٹبال کا اتنا جنون تھا کہ چاہے سردی ہویا گرمی،سخت بارش ہویا برفباری، وہ روزانہ فٹبال کے میدان میں ضرور جاتا۔ اُس نے باضابطہ طور پر اسکول کے ایلمینڑی ٹیم میں اپنادرج کروایااور یہیں سے فٹبال کی دنیا میں قدم رکھا‘‘۔ اسکول میں جرمنی کے فٹبال ٹیم میں موجودہ پلیئر مینوئیل نیور بھی پڑھتے تھے لیکن وہ ان سے سینئر تھے۔مسعود نے کئی مقابلے میں حصہ لے کر اسکول کی نمائندگی کی پھر جب کالجکی دنیامیںداخل ہوئے توکالج کی کھڑکی سے شالکے کا ہوم گراؤنڈ، ویلٹنز ایرناکا نظارہ کرتے تھے۔ کھیل کے ساتھ ساتھ مسعود اوزل کواپنی شخصیت کے حوالے سے کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ بہت سنجیدہ، کم گو تھےلوگوں سے زیادہ گھلتے ملتے نہیں تھے۔ان کے اسکول ٹیچر ’’کربے‘‘نے ایک دفعہ کہا تھاکہ’’ جب میں نے مسعود کو پہلی بار دیکھا تو وہ جسمانی طور پر چھوٹااور کمزور نظر لگ رہا تھا لیکن جب میدان میں آیاتواس کی شخصیت اور باڈی لینگویج بالکل بدلی ہوئی لگی۔ اس نے عمدہ پرفارمنس کا مظاہرہ کرتے ہوئےسب کو بہت متاثر کیااوردیکھتے ہی دیکھتے ٹیم کا سپر اسٹار پلیئر بن گیا۔ ‘‘
انٹرنیشنل کیرئیر کا آغاز
29سالہمسعوداوزل مسلم فٹبالر2009میں انٹرنیشنل کیرئیر کا آغاز کیا۔فروری2009 میں ناروے کے خلاف فرینڈلی میچ سے ڈیبیو کیا۔ انہوں نے اپنے تیسرے میچ میں جنوبی افریقا کے خلاف میچ میں پہلی بار گیند کو جال کی راہ دکھائی،بعدازاںمسعودکو 2010فیفا ورلڈ کپ کےلئےمنتخب کیا گیا،جس میں اس نے گھانا کیخلاف میچ میں پہلا انٹرنیشنل گول کیا، جبکہ چار بار تھامس مولر کو اسسٹ کیا۔اب تک92میچز میں قومی ٹیم کی نمائندگی کرتے ہوئے 30گولکیے ہیں۔مسعودنے 2014کےورلڈ کپ میں ٹیم کو چوتھی بار عالمی چیمپئن بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ 2010 میں فیفا ورلڈ کپ کے مین آف دی میچ اور ٹاپ اسسٹ کا ایوارڈ بھی جیتااور2011،2012 ،2013 اور 2015میں جرمنی کے بہترین پلیئرکے ایوارڈز پر قبضہ بھی کیا۔ جرمنی کا’’ زیڈان‘‘ کا خطاب بھی دیا گیا۔ وہ 2010-2013تک ریال میڈرڈ سے وابستہ رہے۔ انہوں نے ٹیکنکل اوراٹیکنگ اسکلزکی بدولت ساری دنیا کی توجہ مبذول کروائی۔ ریال میڈرڈ کے سابق اور مانچسٹر یونائیٹڈ کے موجودہ منیجرجوز مورہینو مسعود اوزل کی پرفارمنس سے بہت متاثر تھےا ور بعض اوقات مسعود اوزل کا موازنہ فرانس کے لیجنڈ پلیئر زین الدین زیڈان سے سے کیا کرتے تھے۔
مسعو د2013 سےانگلش فٹبال کلب آرسنل کلب کی نمائندگی کررہے ہیں۔ اس سے قبل وہ ہسپانوی کلب ریال میڈرڈ،ورڈیر بریمین اور شالکے 04کی جانب سے بھی کھیل چکے ہیں۔ انہوں نے 2016 میں انگلش پریمیئر لیگ اور میں ٹاپ اسسٹ پروائیڈر کے ایوارڈز اپنے نام کئے۔ وہ آرسنل کو تین بار ایف اے کپ، ایف اے کمیوینٹی شیلڈ جتوا چکے ہیں ،اس کے علاوہ ریال میڈرڈ کو 2011-12 لالیگا ،2010-11کوپا ڈیل رے، 2012سپر کوپا ڈی اسپونئیل چیمپئن بنوانے میں اہم کردار ادا کیا۔
شطرنج میں قسمت آزامائی
مسعود اوزل نے شطرنج میں بھی قسمت آزمائی کی ،اسکول میں فٹبال کے مقابلوں میں حصہ لینے کے ساتھ شطرنج بھی کھیلتے تھے۔ انہیں اسکول کے زمانے سے ہی حساب کے میں بھی خاص دلچسپی تھی ۔ شطرنج اور حساب کے مضمون سے پیار ہی نے اوزلکیکھیلنے کی صلاحیت کو مزید نکھارنے میں اہم کردار ادا کیا۔
فلاحی کام
مسعود اوزل فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ انہوں نے 2014ورلڈ کپ میں ملنے والی انعامی رقم 5لاکھ ڈالر ایک تنظیم کودےدیئے،جو 23 برازیلی بچوں کی سرجری اور علاج معالجے پر خرچ کئے گئے۔2016 میں اردن میں پناہ گزیںکیمپ کا دورہ کیا، جہاں 80لاکھ شامی مہاجرین ہیں۔ وہ یہاں پر رہنے والے بچوں کیلئے بہت فکر مند ہیں۔ انہوں نے اپنے دورے کے دوران بچوں کو فٹبال، ٹی شرٹس تقسیم کیںاوراُن کے لیےکچھ کرنے کا ارادہ ہے،ایسا کچھ جس سے ان بچوںکا مستقبل سنورجائے۔
’’مسعوداوزل سپر اسٹار‘‘
مسعود اوزل سے والہانہ محبت کا اظہار کرتے ہوئے ان کےایک گمنام مداح نےان پر ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام’’میسوت اوزل سپر اسٹار‘‘ ہے لیکن مداح کی خواہش ہے کہ اس کا نام منظر عام پر لایا جائے۔مسعود اوزل کو مداح کی جانب سے یہ تحفہ بہت پسند آیا ، انہوں نے اپنےمداح سے ایک اور کتاب بہ عنوان’’ Gunning For Greatness ‘‘ لکھنےکی فرمائش کی ہے ۔
اسلام سے محبت
مسعوداوزل ہر میچ سے قبل تلاوت کرتے اور ہاتھ بلند کرکے اللہ تعالیٰ سےدعا مانگتے ہیں۔ وہ جرمنی کا قومی ترانہ پڑھنے کے بجائے قرآنی آیات پڑھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میں ہمیشہ میدان میں جانے سے پہلے قرآنی آیات کی تلاوت کرتااوراللہ سے دعا مانگتا ہوں۔میرے ساتھی جانتے ہیں اس لئے اس دوران وہ مجھے تنگ نہیں کرتے۔ وہ عمرہ کرنے کی سعادت بھی حاصل کرچکے ہیں ۔
نسل پرستی کا سامنا اور متنازع ریٹائرمنٹ
2018کےورلڈ کپ میں جرمنی کو جنوبی کوریا کے ہاتھوں اپ سیٹ شکست کے بعد مسعود اوزل کو، نسل پرستی کا سامنا کرنا پڑا۔ جرمن فٹبال حکام نے شکست کا سارا ملبہ مسعوداوزل پرڈال دیا۔ جرمن حکام ورلڈ کپ سے قبل اوزل کی ترک صدر رجب طیب اردوان سے ملاقات پر برہم تھے،اسی لیے روس میں ٹیم کی ناقص کارکردگی کا سارا غصہ اوزل پر اتار دیا۔ ترک صدر سے ملاقات کرنے پران کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا جس کے بعد اوزل نےفٹبال ایسوسی ایشن کے رویے سے دلبرداشتہ ہوکر انٹرنیشنل فٹبال سے کنارہ کشی اختیار کرنے کا اعلان کیا۔ انہوں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جرمن فٹبال حکام کی جانب سے نسلی تعصب کا نشانہ بنانے اور امتیازی سلوک روا رکھنے کے بارےمیں لکھا۔کہ’’ جرمن میڈیا نے ان کی ترک صدر کے ساتھ تصویر کو اُچھالابلکہ اس ملاقات کو مختلف رنگ بھی دیا۔حالاںکہ ترک صدر سے ملاقات میراکوئی سیاسی ایجنڈا نہیں تھا، اگر اس موقع پر کسی بھی ملک کا صدر ہوتا تو وہ اسی طرح ملتے جس طرح رجب طیب اردوان کے سےملے۔ ‘‘
گزشتہ دنوں مسعود اوزل نےمیڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ’’ جب ہم جیتے تومیں جرمن اور شکست ہوئی تو میں تارکین وطن،مہاجرہوگیا۔‘‘واضح رہے کہ انہوں نےمئی میں خیراتی تعلیمی ادارے سے متعلق تقریب کے دوران مانچسٹر سٹی کے مڈفیلڈر الکے گونڈوگان کے ساتھ ترک صدررجب طیب اردوگان سے ملاقات کی تھی۔ تر ک صدر کے ساتھ یہ مسعود کی دوسری ملاقات تھی۔ اس سے قبل 2010 میں ترکی اور جرمنی کے درمیان میچ سے قبل ملاقات کی تھی۔ جرمن فٹبال حکام نے ترک صدر سے ملاقات پر ان کو سخت تنقید کا نشانہ بنایاگیا۔ اس موقع پر جرمن فٹبال ایسوسی یشن کے صدر رینہارڈگرینڈیل نے کہا تھا کہ اوزل اور ر الکے گونڈوگان نے بہت بڑی غلطی کی ہے۔ اگر اوزل کسی انٹرویو میں جواب دینا نہیں دینا چاہتے ہیں تو ان کو میدان میں جواب دینا ہوگا۔‘‘
جرمن فٹبال حکام نے اوزل کے ساتھ نسلی تعصب روارکھنے کے دعویٰ کو مسترد کردیا۔ ان کا کہنا ہے کہ اوزل ملک کےلیے اب مزید کھیلنا ہی نہیں چاہتے۔ ہمیں ان کی ریٹائرمنٹ پر بہت افسوس ہے۔ ان کے ریٹائرمنٹ کے فیصلے سے دنیائے فٹبال میں ایک بحث شروع ہوچکی ہے۔جرمنی کے حکومتی ترجمان کا کہنا ہے کہ جرمن چانسلرانجیلا مرکل مسعوداوزل کےانٹرنیشنل فٹبال سے ریٹائرمنٹ کے فیصلے کا احترام کرتی ہیں۔ انہوں نے قومی ٹیم کی کامیابی کےلیے کئی کارنامے انجام دیئے ہیں۔ جسٹس منسٹر کترینا برلے نے ٹوئٹر پر لکھا کہ مسعود جیسے عظیم کھلاڑی ، جواب قومی ٹیم کی نمائندگی نہیں کرنا چاہتے، ہمارے لیےلمحہ فکریہ ہے۔ ادھر ترکی نے اوزل کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ اس نوجوان کھلاڑی کےلیےجس نے جرمنی فٹبال ٹیم کیلئے اپنا سب دیا اس کےساتھ مذہبی عقیدے کی وجہ سے اس قسم کے نسلی منافرت پر مبنی رویہ ناقابل برداشت ہے۔
The post پناہ گزیں کیمپ سے فٹبال کے میدان تک appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2Mun1Yc via Today Pakistan
0 notes