#سیف الملوک
Explore tagged Tumblr posts
uglyandtraveling · 1 year ago
Text
youtube
0 notes
topurdunews · 1 month ago
Text
ناران بابو سر ٹاپ اور جھیل سیف الملکوک میں شدید برفباری سیاحوں کا رش لگ گیا
(سید نعمان شاہ )مانسہرہ کے سیاحتی مقام ناران ، بابو سر ٹاپ، بیسر ،بٹہ کنڈی اور جھیل سیف الملوک پر  شدید برفباری ، سیاحوں کا رش لگ گیا۔ مانسہرہ کے سیاحتی مقام ناراں میں بھی برف باری کے خوبصورت نظارے دیکھنے  سیاح اُمنڈ آئے ,بابوسر ٹاپ، بیسر بٹہ کنڈی ،جھیل سیف الملوک میں شدید برف باری جاری ،مانسہرہ ناران سے بابو سرٹاپ اور جھیل روڈ برف باری کے باعث آمدورفت کے لئے بند ہوگئی ،مانسہرہ ناراں تک آمدورفت…
0 notes
urduchronicle · 1 year ago
Text
فیملی بزنس: پنجاب میں مسلم لیگ ن کے 36 امیدوار آپس میں رشتہ دار، کوئی باپ بیٹا تو کوئی چچا بھتیجا، میاں بیوی بھی ٹکٹ لے اڑے
مسلم لیگ ن کے پنجاب میں قومی و صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے لیے پارٹی امیدواروں میں 36 امیدوار ایسے ہیں جو رشتے میں باپ بیٹا، باپ بیٹی، شوہر بیگم، بھائی بھائی، ماں بیٹا، سسر داماد اور چچا بھتیجا ہیں۔  لاہور سے میاں نواز شریف اور انکی بیٹی کو قومی اسمبلی کا الیکشن لڑیں گے۔ اسی طرح شہباز شریف اور انکے بیٹے حمزہ شہباز شریف بھی قومی اسمبلی کے الیکشن میں حصہ لیں گے۔ مسلم لیگ ن لاہور کے صدر سیف الملوک…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
iloveurdu · 3 years ago
Text
آئی دے دِن بَچدا ناہِیں، جے سو (100) پائییے پوہرے
لکھ دوا ہِک ککھ نہ لگدی، ہتھوں بَندے موہرے
موہرے: زہر
پوہرے: بچاون دے حیلے
Aai day din bachda nahiin, jay so (100) paiye pohray
Lakh dawa hik kakh na lagdi, hathoon bandday mohray
Pohray: bachwan day hiilay
Mohray: zehar
4 notes · View notes
45newshd · 5 years ago
Photo
Tumblr media
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شاہد کریم،ن لیگی رکن اسمبلی سیف الملوک کھوکھر بیٹے سمیت کورونا وائرس میں مبتلا لاہور( این این آئی)لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شاہد کریم بھی کرونا وائرس میں مبتلا ہو گئے ۔ لاہور ہائیکورٹ کے رجسٹرار آفس نے جسٹس شاہد کریم کا کرونا وائرس ٹیسٹ مثبت آنے کی تصدیق کی ہے ۔ کرونا ٹیسٹ مثبت آنے پر جسٹس شاہد کریم نے خود کر گھر میں قرنطینہ کر لیا ہے ۔چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس محمد قاسم خان نے کرونا وائرس سے متعلق ایس او پیز پر مزید سختی سے عملدرآمد کا حکم دیدیا ہے۔
0 notes
urdu-poetry-lover · 4 years ago
Text
Tumblr media
میں چاہتا ہوں وہ میری جبیں پہ بوسہ دے
مگر جلی ہوئی روٹی کو گھی نہیں لگتا
آج 5 دسمبر 1989 ہے عصرِ حاضر کے منفرد اور ممتاز شاعر تہذیب حافی کا جنم دن ۔
آئیے انکا ایک ایک شعر کمینٹ کرکے انہیں خراج تحسین پیش کریں 💚💚
تہذیب حافی بلاشبہ ایک منفرد اسلوب کے حامل شاعر ہیں جن کے ہاں نئی تشبیہات اور نئے استعارات ہیں ۔
اصل نام تہذیب الحسن قلمی نام تہذیب حافیؔ ۔ نئے انداز سے بھرپور، جدید اور خوبصورت لب و لہجے کے نوجوان شاعر تہذیب حافی 5 دسمبر 1989ء کو تونسہ شریف(ضلع ڈیرہ غازی خان ) میں پیدا ہوئے۔ مہران یونیورسٹی سے سافٹ وئیر انجینئرنگ کرنے کے بعد بہاولپور یونیورسٹی سے ایم اے اردو کیا۔ آج کل لاہور میں قیام پذیر ہیں۔
تہذیب حافی ان شعراء میں شامل ہے جن کو دیکھ سن کر نوجوان نسل شاعری کی طرف آئی ہے ۔ ان کے جنم دن پر ان کے کلام سے میرا انتخاب ۔
تیرا چپ رہنا مرے ذہن میں کیا بیٹھ گیا
اتنی آوازیں تجھے دیں کہ گلا بیٹھ گیا
میں چاہتا ہوں وہ میری جبیں پہ بوسہ دے
مگر جلی ہوئی روٹی کو گھی نہیں لگتا
اگر ہم پر یقین آتے نہیں تو
کہیں لگوا لو انگوٹھے ہمارے
سفر سے باز رہنے کو کہا ہے
کسی نے کھول کر تسمے ہمارے
داستاں ہوں میں اک طویل مگر
تو جو سن لے تو مختصر بھی ہوں
میں اسے ہر روز بس یہی ایک جھوٹ سننے کو فون کرتا
سنو یہاں کوئی مسئلہ ہے تمہاری آواز کٹ رہی ہے
اگر کبھی تیرے نام پر جنگ ہو گئی تو
ہم ایسے بزدل بھی پہلی صف میں کھڑے ملیں گے
تمام ناخدا ساحل سے دور ہو جائیں
سمندروں سے اکیلے میں بات کرنی ہے
بتا اے ابر مساوات کیوں نہیں کرتا
ہمارے گاؤں میں برسات کیوں نہیں کرتا
صحرا سے ہو کے باغ میں آیا ہوں سیر کو
ہاتھوں میں پھول ہیں مرے پاؤں میں ریت ہے
اس نے ہمارے گاؤں سے جانے کی بات کی
اور سارے پیڑ شہر کے رستوں میں گر گئے
جھیل سیف الملوک پر جاؤں
اور کمرے میں کیمرہ رہ جائے
اب ترے راز سنبھالے نہیں جاتے مجھ سے
میں کسی روز امانت میں خیانت کروں گا
اشک گرنے سے کوئی لفظ نہ مٹ جائے کہیں
اُس کی تحریر کو عجلت میں پڑھا جاتا ہے
اک آستیں چڑھانے کی عادت کو چھوڑ کر
حافیؔ تم آدمی تو بہت شاندار ہو
ہم محبت میں ہارے ہوئے لوگ ہیں
اور محبت میں جیتا ہوا کون ہے
تیری خاطر تری خوشی کے لئے
میں نے سگریٹ بھی چھوڑ دی ہے دوست
اک شکایت مجھے بھی ہے تجھ سے
تو بہت جھوٹ بولتی ہے دوست
یقین کیوں نہیں آتا تمہیں مرے دل پر
یہ پھل تمہیں کہاں سے موسمی نہیں لگتا
میں چاہتا ہوں وہ میری جبیں پہ بوسہ دے
مگر جلی ہوئی روٹی کو گھی نہیں لگتا
چارپائی ہے کہیں شمع کہیں رکھی ہے
واقعی رات ہے یا میری غلط فہمی ہے
میں اسے چومتا رہتا ہوں کہ میں جانتا ہوں
چومتے رہنے سے تصویر نئی رہتی ہے
کچھ ضرورت سے کم کیا گیا ہے
تیرے جانے کا غم کیا گیا ہے
تا قیامت ہرے بھرے رہیں گے
ان درختوں پہ ��م کیا گیا ہے
وہ پھول اور کسی شاخ پر نہیں کھلنا
وہ زلف صرف مرے ہاتھ سے سنورنی ہے
گلے ملا تھا کبھی دکھ بھرے دسمبر سے
مرے وجود کے اندر بھی دھند چھائی تھی
میں تیرے دشمن لشکر کا شہزادہ
کیسے ممکن ہے یہ شادی شہزادی
میں دشمنوں سے اگر جنگ جیت بھی جاؤں
تو ان کی عورتیں قیدی نہیں بناؤں گا
میں ایک فلم بناؤں گا اپنے ثروتؔ پر
اور اس میں ریل کی پٹری نہیں بناؤں گا
پہن تو لی ہے بدن پر تیرے وصال کی شال
میں جانتا ہوں کہ کپڑے نے رنگ چھوڑنا ہے
ساری عمر اس خواہش میں گزری ہے
دستک ہوگی اور دروازہ کھولوں گا
جنم دن بہت مبارک ہو ۔ آپ سے محبت اور پیار ہمیشہ رہے گا۔ آپ ہمیشہ آباد رہیں
2 notes · View notes
urduclassic · 6 years ago
Text
افسانہ نگاری کی روایت
کہنے کو تو کہا جا سکتا ہے کہ جب سے انسان اس زمین پر آیا، اپنے ساتھ ایک کہانی بھی لایا مگر واقعہ یہ ہے کہ اس کائنات کی ایک کہانی پہلے سے موجود تھی، انسان آیا تو اس کا ایک کردار بن گیا۔ ایک کردار نہیں بلکہ جتنے انسان اتنے ہی کردار، کہ ہر کردار اس کائنات کو وہاں سے دیکھ کر معنویت اخذ کر رہا تھا جہاں وہ خود تھا یا جس صورت حال میں اسے بسر کرنا پڑ رہی تھی۔ کہانی کہنے کی روایت قدیم سہی مگر اس کے فنی طور پر افسانہ بن جانے کی روایت اتنی قدیم نہیں ہے۔ بجا کہ انیسویں صدی کے آغاز ہی میں جرمنی، فرانس، امریکا، انگلستان اور روس میں ناول کے ساتھ ساتھ شارٹ سٹوری کا چلن ہونے لگا تھا مگر اردو میں افسانہ نگاری کا فن قدرے تاخیر سے آیا۔ یہ کہنا مناسب ہو گا کہ یہاں افسانہ تو موجود تھا مگر افسانہ نگاری کا فن ان تقاضوں کی جانب متوجہ نہ ہو پایا تھا۔
جب میں یہ کہتا ہوں کہ یہاں افسانہ، مغرب میں اس صنف کے بطور فن آنے سے پہلے موجودہ تھا، تو اس سے میری مراد یہ ہوتی ہے کہ جسے ہم آج افسانہ مانتے ہیں اس کے ابتدائی نقوش زمانہ قدیم میں داستان اور قصہ کہانی کی روایت میں بھی موجود تھے۔ اس سارے علاقے میں کہ جہاں اب اردو بولی اور سمجھی جاتی ہے، اس میں پہلے سے کئی زبانیں موجود تھیں اور اتنی ارتقا یافتہ تھیں کہ ان میں قصے کہانی کی روایت تحریری صورت میں مستحکم ہو چکی تھی۔ ویدی ادب میں لگ بھگ سو کے قریب کہانیاں مل جاتی ہیں جو بطور تمثیل بیان ہوئی ہیں۔ ویدوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ سن عیسوی کے آغاز سے ایک ہزار سال پہلے سے یہاں موجود رہی ہیں۔ 
اپنشد، جاتک، پنج تنتر اور پرہت کتھا کی قدامت تسلیم شدہ ہے اور یہ ادب اپنے اندر کہانی کی ایک خاص روایت رکھتا ہے۔ جین کتھا کوش، نندی سومتر، دس کمار چرتر، داسودتا، ہرش چرتر، کامبری، ہتوت دیش، کتھا سرت ساگر سے بیتال پچیسی اور سنگھاسن بتیس تک چلے آئیں، ہر کہیں کہانی کا چہرہ آپ کو لطف دے جائے گا۔ کہانی کی اسی روایت میں اس قصے کی روایت کو بھی شامل کر لیجیے جو ایران اور ترکی سے ہمارے ہاں آ رہی تھی۔ کہتے ہیں 550 میں ایران سے حکیم برزویہ ہندوستان آئے تو اپنے ساتھ کرتک اور دمنک کا قصہ بھی لے کر آئے تھے۔ یہ وہی قصہ ہے جو بعد میں کلیلہ و دمنہ کے نام سے مشہور ہوا تھا۔ وہ جو کہتے ہیں کہ کہانی کا اپنا وطن کوئی نہیں ہوتا، یہ نگر نگر گھومتی ہے اور جہاں پہنچتی ہے، وہیں کی ہو جاتی ہے، تو ہمارے ہاں بھی یہی ہو رہا تھا۔ یہاں کی کہانیاں باہر جا رہیں تھیں اوروہاں کی ادھر آتی تھیں۔ 
مگر لطف یہ کہ جب یہ کہانیاں ایک زبان سے دوسری میں منتقل ہونے کے بعد واپس اپنی زبان اور علاقے میں پہنچتی تھیں تو اتنی بدل چکی ہوتیں کہ پہچاننا مشکل ہو جاتا تھا۔ اسی باب کی ایک مثال ’’الف لیلہ‘‘ کی کہانیاں ہیں، جو فارسی سے عربی میں پہنچیں مگر جب واپس فارسی میں منتقل ہوئیں تو ان میں بہت سی اور کہانیاں شامل ہو چکی تھیں�� یاد رہے کہ دنیا کی ساری زبانوں میں کہانی پہلے نظم کی صورت میں آئی اور جوں جوں انسان کا شعور ترقی کرتا گیا یہ روایت بھی نثر میں منتقل ہوتی چلی گئی۔ اردو میں بھی قصہ کہانی کا آغاز مثنویوں کی صورت میں ہوتا ہے۔ یہ قصے اکثر دوسری زبانوں سے اردو میں منتقل ہو رہے تھے اور طبع زاد کم کم ہی ہوتے تھے۔ 
غواصی کی مشہور مثنوی ’’سیف الملوک‘‘ کے بارے میں روایت کیا جاتا ہے کہ یہ الف لیلہ کی ایک داستان کی منظوم شکل ہے جب کہ غواصی کی اور مثنوی ’’طوطی نامہ‘‘، بھی فارسی کے طوطی نامہ سے ماخوذ تھی۔ ابن نشاطی کی ’’پھول بن‘‘ فارسی سے ترجمہ ہو کر منظوم ہوئی۔ نصرتی کی مثنوی ’’گلشن عشق‘‘ میں بیان ہونے والا قصہ پہلے سے فارسی اور ہندی میں موجود تھا۔ خیر ان قصوں میں کئی ایسے ٹکڑے مل جاتے ہیں جن میں لکھنے والوں نے اپنے تخیل سے کام لیا اور یہی وہ ٹکڑے ہیں جو رفتہ رفتہ طبع زاد کہانی لکھنے کا جواز ہوئے۔ 
ملا وجہی کی سب رس کے آتے آتے یہ روایت نثر میں منتقل ہو گئی تھی۔ میر عطا حسین خان تحسین نے جب امیر خسرو کی فارسی تصنیف "قصہ چہار درویش" کو اردو میں ڈھالا تو نثر کی یہ روایت بھی مستحکم ہونا شروع ہو گئی تھی۔ اس کے استحکام میں کلکتہ میں قائم ہونے والے فورٹ ولیم کالج کی خدمات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ کہانی کی اس روایت میں اس پرتگالی جہاز کی کہانی کو بھی شامل کر لیجئے جو مالابار کے ساحل پر لگا تھا اور جس میں پرنٹنگ پریس کی مشینیں اور دوسرا سامان لدا ہوا تھا۔ 1803ء تک قائم ہونے والے کئی چھاپہ خانوں سمیت فورٹ ولیم کالج کے اس پرنٹنگ پریس تک سب نے کہانی کی روایت پر اثر ڈالا تھا۔ 
اس تفصیل میں جانے کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں یہ بات ذہن نشین رکھنا ہو گی کہ ہر علاقے کے ادب کی ایک اپنی روایت بھی ہوتی ہے، جو اسے دوسری زبانوں اور ملکوں کے ادب سے الگ شناخت عطا کرتی ہے۔ ادب اور ثقاقت میں دوسری تہذیبوں سے لین دین معمول کی بات سہی مگر اس لین دین کے بعد مقامی آہنگ میں ڈھلنے کا مرحلہ اسی روایت کے زیراثر طے پاتا ہے جو زمین میں جڑ پکڑے پہلے سے موجود ہوتی ہے۔
محمد حمید شاہد
7 notes · View notes
omega-news · 2 years ago
Text
سیف الملوک کھوکھر کا سیلاب زدگان کیلئے ایک سال کی تنخواہ اور دو کروڑ روپے دینے کا اعلان
سیف الملوک کھوکھر کا سیلاب زدگان کیلئے ایک سال کی تنخواہ اور دو کروڑ روپے دینے کا اعلان
مسلم لیگ ن کے رہنما اور رکن صوبائی اسمبلی سیف الملوک کھوکھر نے اپنی ایک سال کی تنخواہ اور 2 کروڑ روپے سے زائد امدادی اشیاءسیلاب زدگان کو دینے کا اعلان کر دیا انہوں نے یہ قدم سابق وزیر اعظم نواز شریف کی ہدایت کی روشنی میں اٹھایا ںؤاز شریف نے تمام رہنماوں کو ہدایت کی ہے سیلاب زدگان کی مدد کےلئے فوری طور پر آگے آئیں. سیف کھوکھر نے اپنے قائد کی آواز پر لبیک کہا اور قابل تقلید کام کر دیا.
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
apnibaattv · 2 years ago
Text
پنجاب اسمبلی کے اسپیکر کے انتخاب کے لیے اجلاس شروع
پنجاب اسمبلی کے اسپیکر کے انتخاب کے لیے اجلاس شروع
پی ٹی آئی کے سبطین خان اور مسلم لیگ ن کے سیف الملوک۔ – فیس بک/فائل لاہور: پنجاب اسمبلی کے نئے اسپیکر کے انتخاب کے لیے اجلاس شروع ہوگیا۔ پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ق) نے مشترکہ طور پر اپوزیشن کے امیدوار اور مسلم لیگ ن کے ایم پی اے ملک سیف الملوک کھوکھر کے مقابلے میں پارٹی کے سابق رکن صوبائی اسمبلی سبطین خان کو نامزد کیا ہے۔ پنجاب میں موجودہ حکمران اتحاد کی تعداد 186 ایم پی اے پر مشتمل ہے جب کہ مسلم…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urduchronicle · 1 year ago
Text
لاہور میں پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم کے لیے مسلم لیگ ن کا 5 رکنی کمیٹی بنانے کا فیصلہ
مسلم لیگ ن نے لاہور میں قومی اسمبلی کی 14 جبکہ صوبائی اسمبلی 30 نشستوں پر پارٹی ٹکٹوں کے اجرا پر کام کا آغاز کردیا۔۔لاہور میں پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم کے لیے پانچ رکنی کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پانچ رکنی کمیٹی میں کوآرڈینیٹر لاہورخواجہ سعد رفیق، صدر مسلم لیگ ن لاہور ملک سیف الملوک کھوکھر ،جنرل سیکرٹری خواجہ عمران نذیر ،ڈویژن صدر لاہور شیخ وسیم اختر، سعود مجید شامل ہونگے۔ ذرائع نے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
iloveurdu · 3 years ago
Text
آئی باہجھ نہ مردا کوئی، جے ڈِگے اسمانوں
توڑے وِچ سمندر ڈُبے، خوف نہیں کجھ جانوں
ڈِگے: گِرے
توڑے: بھاویں
Aai bahjh na marda koi, jay diggay asmanoon
Torray wich samandar dubbay, khouf nahin kujh janoon
Diggay: giray
Torray: bhawen
2 notes · View notes
oan-envs3000-w22 · 3 years ago
Text
02: My Ideal Role of Interpreter
My ideal role as an environmental interpreter would likely be as a conservationist/conservation scientist. This role would likely entail managing natural habitats and wildlife, as well as educating visitors on the importance of conservation and preservation. The skills required for this role are many; communication, critical thinking, analytical and problem-solving to name a few. That being said, almost anyone can obtain these skills if they try hard enough. What can't be as easily obtained is passion and a desire for change. As in the textbook, it was quickly seen that visitors not only desire guidance, but require it. Visitors with little experience in the outdoors desperately threw their cash at anyone able to guide them. Of course, for the right price anyone would, professional or not. They may have the surface skills required, but these “impromptu guides” are not doing so backed by a “passion for nature”. A successful conservationist must have the tools to inform and interest visitors in an enjoyable manner, and it is quite unlikely to do so if your heart isn't in it.
Tumblr media
A blurry image of me annoying a Grand Canyon guide with millions of questions. Even at my young age, I could feel this mans love for his work.  
Though conservationists are required all over the globe, my preferred place of work would be in Pakistan. Tilden mentioned that a love for the place and love for the visitors is a priceless ingredient in successfully guiding and educating. My trip to Northern Pakistan this past year confirmed I have love for both the people and the place. Though the nature in Pakistan is incredible, the lack of preservation and conservation by both the people and government is a significant cause of concern. Endangered species like the markhor, caracal, and snow leopard are suffering due to lack of education and nature conservation. I believe conservation work is severely lacking in developing countries and work should be done before it's too late. As a conservation scientist in Pakistan, I would be able to manage natural habitats and wildlife, as well as educate others and fight for preservation. I would be able to implement major learning theories and useful strategies for all learning types, to better cater to all visitors and further spread the message.
Tumblr media
Heres me at Babusar Pass (درہ بابوسر): the highest point in the valley & one of the most dangerous and deadly routes in Gligit-Baltistan. But hey, the signs were great for visual learners! 
Though religious and cultural backgrounds are at times a difficult conversation for nature interpreters, I believe sharing the history behind specific natural sites is crucial, especially in locations with history as rich as Pakistan.
Tumblr media
A photo I took of one of Shah Allah Ditta’s Sadhu da Bagh caves: an ancient Buddhist monastic site. Though Pakistan is a majority Muslim country, the historical value of various religions is priceless when interpreting nature.
 As a conservationist I would follow Enos Miller's steps; educating others in a less rigid and structured manner. I would choose inspiration over information (not to dismiss information of course, both are crucial). I know I am capable of successfully doing so as I have unknowingly followed Miller's formula of optimal nature guiding for years. As both a visual (35%) and tactile (35%) learner, I can proudly say I am a creative individual, breathing life into the unliving and storytelling to further interest myself and those listening. As we know, interpretation sometimes requires nothing but silence. Catering to my visual learning style, I completely agree. At times, less words may increase inspiration. Nature is so powerful, it may just interpret itself.
Tumblr media
A photo I took at Saiful Maluk Lake (جھیل سیف الملوک). The local children asked me to help herd their sheep (an offer I simply couldn't refuse). Interestingly, this lake is named after a prince from a Pakistani folktale. 
1 note · View note
umeednews · 3 years ago
Text
سانحہ مری کے بعد وادی کاغان سیاحوں کے لیے بند
سانحہ مری کے بع�� وادی کاغان سیاحوں کے لیے بند
سانحہ مری کے بعد وادی کاغان میں کوائی کے مقام پر چیک پوسٹ قائم کرکے سیاحوں کا داخلہ بند کردیا گیا، ڈی سی نے پابندی کا نوٹیفکیشن جاری کردیا۔ برفباری کا آغاز ہوتے ہی ملک بھر سے سیاح دلفریب مناظر دیکھنے کے لیے بالائی علاقوں کا رخ کرتے ہیں تاہم گزشتہ روز مری میں پیش آنے والے افسوسناک سانحے کے بعد ناران، جھیل سیف الملوک اور اگلے تفریحی مقامات پر جانے والے ��یاحوں کو روک دیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
sawattourism · 3 years ago
Text
دریا ئے کنہار
بابو سرٹاپ سے بہنے والا دریائے کنہار 166 کلومیٹر طویل اور اپنے یخ بستہ پانی کے علاوہ ٹراؤٹ فش کیلئے بھی مشہور ہے۔ یہ دریا وادی کاغان کے حسن میں قدرتی اضافہ کرتا ہے۔ یہاں کی مچھلی اپنے ذائقے اور جسامت کے حساب سے بے مثال ہوتی ہے۔ کاغان ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے ٹرائوٹ مچھلی کی افزائش کیلئے خصوصی اقدامات کئے ہیں۔ جہاں ایک طرف خیبر پختونخوا انتظامیہ دریا کے گرد درخت لگا رہی ہے وہاں رواں سال ٹرائوٹ کی افزائش کیلئے تیس ہزار سے زائد ٹرائوٹ مچھلی کے بچے چھوڑے گئے۔ بے دریغ شکار کے باعث ٹرائوٹ کی نسل معدوم ہو رہی تھی جس کی وجہ سے اس کے شکار پر دو سال کیلئے پابندی لگائی گئی۔ ٹرافی فشنگ کا بھی انعقاد کیا جاتا ہے، جس میں کینیڈا اور اسکاٹ لینڈ سے تعلق رکھنے والے کچھ لوگ مدد فراہم کرتے ہیں ۔ سیاحتی مرکز کی وجہ سے ٹرائوٹ مچھلی کا شکار کر کے دوبارہ مچھلی دریا میں چھوڑ دی جاتی ہے۔
مچھلی کے شکار کی وجہ سے دریا کنارے ریسٹورنٹس کے کاروبار پر فرق پڑا ہے۔ تیز بہاؤ کے حامل اس دریا پر قبل ازیں سی پیک منصوبہ میں شامل'' سکی کناری ڈیم ‘‘ کی تعمیر کا کام جاری ہے جو آئندہ دو برس تک مکمل ہو گا جس کی تعمیر کے بعد 870 میگاواٹ بجلی پیدا ہو گی۔ دریائے کنہار کو وادی کاغان کی ریڑھ کی ہڈی کہا جاتا ہے کیونکہ 166 کلومیٹر طویل یہ دریا اپنی تمام تر دلکشی، خوبصورتی اور رعنائی کے ساتھ پوری وادی میں سانپ کی طرح بل کھاتا، مچلتا، گنگناتا اور محبتوں کے نغمے سناتا رواں دواں ہے۔ دریائے کنہار ناران سے 48 کلومیٹر اوپر 14000 فٹ کی بلندی پر واقع لالو سر جھیل سے اپنے سفر کا آغاز کرتا ہے لیکن ملکہ پربت کے گلیشیئرز اور دودی پت جھیل بھی اسے پانی فراہم کرنے کا ایک بڑا ذریعہ ہیں۔ ویسے تو دریائے کنہار کا ہر نظارہ دلوں کو چھو لینے والا ہے لیکن شہزادہ سیف الملوک اور پری بدیع الجمال کی محبتوں کی رازدار جھیل سیف الملوک کے ساتھ اس کا ملاپ لافانی شاہکار ہے۔
دریا کا پانی اس قدر شفاف ہے کہ ایک کلو میٹر کی بلندی سے بھی آپ اس کی تہہ میں پڑے کنکر اور پتھر دیکھ سکتے ہیں جبکہ اس کا پانی اس قدر یخ بستہ ہے کہ گرمیوں میں بھی لوگ اس میں نہانے سے گریزاں ہوتے ہیں۔ اس دریا میں دنیا کی سب سے خوبصورت اور لذیذ مچھلی ٹراؤٹ پائی جاتی ہے۔ دریا کا برفیلا پانی اس کی افزائش کے لیے بے حد موزوں ہے۔ کنہار، دو الفاط یعنی پہاڑ اور نہار یعنی نہریں کا مجموعہ ہے۔ اس کا پانی آنکھوں کے امراض کے لیے بے حد اکسیر ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک بار ہندوستان کی ملکہ نور جہاں کشمیر کی سیر کے لیے جارہی تھیں تو انہیں آشوب چشم ہو گیا، حکما ء کے مشورے پر ملکہ نے دریائے کنہار کے پانی سے اپنی آنکھیں دھوئیں تو انہیں آرام آگیا چنانچہ انہوں نے اسے دریائے نین سکھ کا نام دیا جوآج بھی زبان زد عام ہے۔ سڑک کے کنارے سفر کریں تو دریائے کنہار مسلسل پہاڑوں سے آنکھ مچولی کھیلتا نظر آتا ہے، کبھی پہاڑ اوجھل تو کبھی دریا اوجھل۔ اکثر لوگ دوران سفر اپنی گاڑیاں کھڑی کر کے دریا کے نظاروں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
دریا کے بے ترتیب پتھروں پر پاؤں رکھنا بعض اوقات جان لیوا ہوتا ہے لیکن اس کی نمی سے لبریز اور مختلف خوشبوؤں میں بسے ہوا کے دل آویز جھونکے دلوں پر ایک عجیب سی کیفیت طاری کر دیتے ہیں۔ رات کے وقت دریائے کنہار وادی کاغان میں چاندی کی ایک ٹیڑھی میڑھی لکیر کی طرح دکھائی دیتا ہے جو پہاڑوں اور چٹانوں سے لڑتا بھڑتا اپنی منزل کی طرف رواں دواں رہتا ہے۔ دریائے کنہار، وادی کاغان، جل کھنڈ، بالا کوٹ اور گڑھی حبیب اللہ سے گزرتا بالاآخر وادی کشمیر میں داخل ہو جاتا ہے اور مظفرآباد سے 30 کلومیٹر کے فاصلے پر پتن کے مقام پر دریائے جہلم اور نیلم سے جا ملتا ہے۔ آزاد کشمیر کے پرچم پر بنی چار لکیریں یہاں کے چار دریاؤں کی نمائندگی کرتی ہیں، کنہار بنیادی طور پر خیبر پختونخوا کا دریا ہے لیکن ان چار میں سے ایک لکیر دریائے کنہار کو آزاد کشمیر کا دریا ہونے کا اعزاز بھی بخشتی ہے۔
نازش حسن
بشکریہ دنیا نیوز
0 notes
breakpoints · 3 years ago
Text
بزرگوں نے باڑہ میں ممکنہ اراضی پر قبضے کا انتباہ دیا۔
بزرگوں نے باڑہ میں ممکنہ اراضی پر قبضے کا انتباہ دیا۔
بارہ: شلوبر قبیلے کے بزرگوں نے ہفتے کے روز کہا کہ کچھ عناصر علاقے میں طاقت کے ذریعے ان کی زمینوں پر قبضہ کرنے کی سازش کر رہے ہیں۔ ایک میٹنگ میں حاجی صاحب خان ، حاجی سیف الملوک ، حاجی نسیم خان ، تاج محمد ، ریٹائرڈ صوبیدار سپن گل ، اور دیگر عمائدین نے کہا کہ کچھ عناصر شلوبر قبائلیوں کے ذیلی سیکشن بلوکی خیل میں زمین کا تنازعہ پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ کسی کو بھی بلوکی خیل کی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
omega-news · 2 years ago
Text
عطا تارڑ اور رانا مشہود سمیت 12 لیگی رہنماؤں کی گرفتاری کے وارنٹ جاری
عطا تارڑ اور رانا مشہود سمیت 12 لیگی رہنماؤں کی گرفتاری کے وارنٹ جاری
وزیراعظم شہباز شریف کے معاون خصوصی عطا تارڑ اور رانا مشہود سمیت 12 لیگی رہنماؤں کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کر دیے گئے ۔ لاہور پولیس کی جانب سے مسلم لیگ ن کے 12 رہنماؤں کو گرفتار کرنے کی اجازت کے لیے مجسٹریٹ کو درخواست جمع کرائی گئی تھی۔پولیس نے درخواست میں عطا تارڑ، رانا مشہود، اویس لغاری اور سیف الملوک کھوکھر سمیت دیگر لیگی رہنماؤں کے وارنٹ گرفتاری مانگے تھے۔مجسٹریٹ کو جمع کرائی گئی درخواست میں…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes