#جھیل سیف الملوک
Explore tagged Tumblr posts
Text
youtube
#Ugly & Traveling#Ugly And Traveling#Saiful Muluk#Saif ul Malook#Saif ul Malook jheel#Saiful Muluk jheel#Saiful Muluk lake#saif ul malook#saiful muluk#saif al malook kalam#saif ul malook jheel#saif ul malook lake#saif ul malook de kalam#naran kaghan#kaghan valley#explore pakistan#travel pakistan#جھیل سیف الملوک#saif malook#saif al malook kalam pakistan#kalam pakistan#saif ul malook jheel pakistan#saif ul malook in summer#saif al malook drone video#travel blogger#travel backpack#traveling vlog#travel around the world#uglyandtraveling#travel vlog
0 notes
Text
ناران بابو سر ٹاپ اور جھیل سیف الملکوک میں شدید برفباری سیاحوں کا رش لگ گیا
(سید نعمان شاہ )مانسہرہ کے سیاحتی مقام ناران ، بابو سر ٹاپ، بیسر ،بٹہ کنڈی اور جھیل سیف الملوک پر شدید برفباری ، سیاحوں کا رش لگ گیا۔ مانسہرہ کے سیاحتی مقام ناراں میں بھی برف باری کے خوبصورت نظارے دیکھنے سیاح اُمنڈ آئے ,بابوسر ٹاپ، بیسر بٹہ کنڈی ،جھیل سیف الملوک میں شدید برف باری جاری ،مانسہرہ ناران سے بابو سرٹاپ اور جھیل روڈ برف باری کے باعث آمدورفت کے لئے بند ہوگئی ،مانسہرہ ناراں تک آمدورفت…
0 notes
Text
میں چاہتا ہوں وہ میری جبیں پہ بوسہ دے
مگر جلی ہوئی روٹی کو گھی نہیں لگتا
آج 5 دسمبر 1989 ہے عصرِ حاضر کے منفرد اور ممتاز شاعر تہذیب حافی کا جنم دن ۔
آئیے انکا ایک ایک شعر کمینٹ کرکے انہیں خراج تحسین پیش کریں 💚💚
تہذیب حافی بلاشبہ ایک منفرد اسلوب کے حامل شاعر ہیں جن کے ہاں نئی تشبیہات اور نئے استعارات ہیں ۔
اصل نام تہذیب الحسن قلمی نام تہذیب حافیؔ ۔ نئے انداز سے بھرپور، جدید اور خوبصورت لب و لہجے کے نوجوان شاعر تہذیب حافی 5 دسمبر 1989ء کو تونسہ شریف(ضلع ڈیرہ غازی خان ) میں پیدا ہوئے۔ مہران یونیورسٹی سے سافٹ وئیر انجینئرنگ کرنے کے بعد بہاولپور یونیورسٹی سے ایم اے اردو کیا۔ آج کل لاہور میں قیام پذیر ہیں۔
تہذیب حافی ان شعراء میں شامل ہے جن کو دیکھ سن کر نوجوان نسل شاعری کی طرف آئی ہے ۔ ان کے جنم دن پر ان کے کلام سے میرا انتخاب ۔
تیرا چپ رہنا مرے ذہن میں کیا بیٹھ گیا
اتنی آوازیں تجھے دیں کہ گلا بیٹھ گیا
��یں چاہتا ہوں وہ میری جبیں پہ بوسہ دے
مگر جلی ہوئی روٹی کو گھی نہیں لگتا
اگر ہم پر یقین آتے نہیں تو
کہیں لگوا لو انگوٹھے ہمارے
سفر سے باز رہنے کو کہا ہے
کسی نے کھول کر تسمے ہمارے
داستاں ہوں میں اک طویل مگر
تو جو سن لے تو مختصر بھی ہوں
میں اسے ہر روز بس یہی ایک جھوٹ سننے کو فون کرتا
سنو یہاں کوئی مسئلہ ہے تمہاری آواز کٹ رہی ہے
اگر کبھی تیرے نام پر جنگ ہو گئی تو
ہم ایسے بزدل بھی پہلی صف میں کھڑے ملیں گے
تمام ناخدا ساحل سے دور ہو جائیں
سمندروں سے اکیلے میں بات کرنی ہے
بتا اے ابر مساوات کیوں نہیں کرتا
ہمارے گاؤں میں برسات کیوں نہیں کرتا
صحرا سے ہو کے باغ میں آیا ہوں سیر کو
ہاتھوں میں پھول ہیں مرے پاؤں میں ریت ہے
اس نے ہمارے گاؤں سے جانے کی بات کی
اور سارے پیڑ شہر کے رستوں میں گر گئے
جھیل سیف الملوک پر جاؤں
اور کمرے میں کیمرہ رہ جائے
اب ترے راز سنبھالے نہیں جاتے مجھ سے
میں کسی روز امانت میں خیانت کروں گا
اشک گرنے سے کوئی لفظ نہ مٹ جائے کہیں
اُس کی تحریر کو عجلت میں پڑھا جاتا ہے
اک آستیں چڑھانے کی عادت کو چھوڑ کر
حافیؔ تم آدمی تو بہت شاندار ہو
ہم محبت میں ہارے ہوئے لوگ ہیں
اور محبت میں جیتا ہوا کون ہے
تیری خاطر تری خوشی کے لئے
میں نے سگریٹ بھی چھوڑ دی ہے دوست
اک شکایت مجھے بھی ہے تجھ سے
تو بہت جھوٹ بولتی ہے دوست
یقین کیوں نہیں آتا تمہیں مرے دل پر
یہ پھل تمہیں کہاں سے موسمی نہیں لگتا
میں چاہتا ہوں وہ میری جبیں پہ بوسہ دے
مگر جلی ہوئی روٹی کو گھی نہیں لگتا
چارپائی ہے کہیں شمع کہیں رکھی ہے
واقعی رات ہے یا میری غلط فہمی ہے
میں اسے چومتا رہتا ہوں کہ میں جانتا ہوں
چومتے رہنے سے تصویر نئی رہتی ہے
کچھ ضرورت سے کم کیا گیا ہے
تیرے جانے کا غم کیا گیا ہے
تا قیامت ہرے بھرے رہیں گے
ان درختوں پہ دم کیا گیا ہے
وہ پھول اور کسی شاخ پر نہیں کھلنا
وہ زلف صرف مرے ہاتھ سے سنورنی ہے
گلے ملا تھا کبھی دکھ بھرے دسمبر سے
مرے وجود کے اندر بھی دھند چھائی تھی
میں تیرے دشمن لشکر کا شہزادہ
کیسے ممکن ہے یہ شادی شہزادی
میں دشمنوں سے اگر جنگ جیت بھی جاؤں
تو ان کی عورتیں قیدی نہیں بناؤں گا
میں ایک فلم بناؤں گا اپنے ثروتؔ پر
اور اس میں ریل کی پٹری نہیں بناؤں گا
پہن تو لی ہے بدن پر تیرے وصال کی شال
میں جانتا ہوں کہ کپڑے نے رنگ چھوڑنا ہے
ساری عمر اس خواہش میں گزری ہے
دستک ہوگی اور دروازہ کھولوں گا
جنم دن بہت مبارک ہو ۔ آپ سے محبت اور پیار ہمیشہ رہے گا۔ آپ ہمیشہ آباد رہیں
2 notes
·
View notes
Text
02: My Ideal Role of Interpreter
My ideal role as an environmental interpreter would likely be as a conservationist/conservation scientist. This role would likely entail managing natural habitats and wildlife, as well as educating visitors on the importance of conservation and preservation. The skills required for this role are many; communication, critical thinking, analytical and problem-solving to name a few. That being said, almost anyone can obtain these skills if they try hard enough. What can't be as easily obtained is passion and a desire for change. As in the textbook, it was quickly seen that visitors not only desire guidance, but require it. Visitors with little experience in the outdoors desperately threw their cash at anyone able to guide them. Of course, for the right price anyone would, professional or not. They may have the surface skills required, but these “impromptu guides” are not doing so backed by a “passion for nature”. A successful conservationist must have the tools to inform and interest visitors in an enjoyable manner, and it is quite unlikely to do so if your heart isn't in it.
A blurry image of me annoying a Grand Canyon guide with millions of questions. Even at my young age, I could feel this mans love for his work.
Though conservationists are required all over the globe, my preferred place of work would be in Pakistan. Tilden mentioned that a love for the place and love for the visitors is a priceless ingredient in successfully guiding and educating. My trip to Northern Pakistan this past year confirmed I have love for both the people and the place. Though the nature in Pakistan is incredible, the lack of preservation and conservation by both the people and government is a significant cause of concern. Endangered species like the markhor, caracal, and snow leopard are suffering due to lack of education and nature conservation. I believe conservation work is severely lacking in developing countries and work should be done before it's too late. As a conservation scientist in Pakistan, I would be able to manage natural habitats and wildlife, as well as educate others and fight for preservation. I would be able to implement major learning theories and useful strategies for all learning types, to better cater to all visitors and further spread the message.
Heres me at Babusar Pass (درہ بابوسر): the highest point in the valley & one of the most dangerous and deadly routes in Gligit-Baltistan. But hey, the signs were great for visual learners!
Though religious and cultural backgrounds are at times a difficult conversation for nature interpreters, I believe sharing the history behind specific natural sites is crucial, especially in locations with history as rich as Pakistan.
A photo I took of one of Shah Allah Ditta’s Sadhu da Bagh caves: an ancient Buddhist monastic site. Though Pakistan is a majority Muslim country, the historical value of various religions is priceless when interpreting nature.
As a conservationist I would follow Enos Miller's steps; educating others in a less rigid and structured manner. I would choose inspiration over information (not to dismiss information of course, both are crucial). I know I am capable of successfully doing so as I have unknowingly followed Miller's formula of optimal nature guiding for years. As both a visual (35%) and tactile (35%) learner, I can proudly say I am a creative individual, breathing life into the unliving and storytelling to further interest myself and those listening. As we know, interpretation sometimes requires nothing but silence. Catering to my visual learning style, I completely agree. At times, less words may increase inspiration. Nature is so powerful, it may just interpret itself.
A photo I took at Saiful Maluk Lake (جھیل سیف الملوک). The local children asked me to help herd their sheep (an offer I simply couldn't refuse). Interestingly, this lake is named after a prince from a Pakistani folktale.
1 note
·
View note
Text
سانحہ مری کے بعد وادی کاغان سیاحوں کے لیے بند
سانحہ مری کے بعد وادی کاغان سیاحوں کے لیے بند
سانحہ مری کے بعد وادی کاغان میں کوائی کے مقام پر چیک پوسٹ قائم کرکے سیاحوں کا داخلہ بند کردیا گیا، ڈی سی نے پابندی کا نوٹیفکیشن جاری کردیا۔ برفباری کا آغاز ہوتے ہی ملک بھر سے سیاح دلفریب مناظر دیکھنے کے لیے بالائی علاقوں کا رخ کرتے ہیں تاہم گزشتہ روز مری میں پیش آنے والے افسوسناک سانحے کے بعد ناران، جھیل سیف الملوک اور اگلے تفریحی مقامات پر جانے والے سیاحوں کو روک دیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں…
View On WordPress
0 notes
Text
دریا ئے کنہار
بابو سرٹاپ سے بہنے والا دریائے کنہار 166 کلومیٹر طویل اور اپنے یخ بستہ پانی کے علاوہ ٹراؤٹ فش کیلئے بھی مشہور ہے۔ یہ دریا وادی کاغان کے حسن میں قدرتی اضافہ کرتا ہے۔ یہاں کی مچھلی اپنے ذائقے اور جسامت کے حساب سے بے مثال ہوتی ہے۔ کاغان ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے ٹرائوٹ مچھلی کی افزائش کیلئے خصوصی اقدامات کئے ہیں۔ جہاں ایک طرف خیبر پختونخوا انتظامیہ دریا کے گرد درخت لگا رہی ہے وہاں رواں سال ٹرائوٹ کی افزائش کیلئے تیس ہزار سے زائد ٹرائوٹ مچھلی کے بچے چھوڑے گئے۔ بے دریغ شکار کے باعث ٹرائوٹ کی نسل معدوم ہو رہی تھی جس کی وجہ سے اس کے شکار پر دو سال کیلئے پابندی لگائی گئی۔ ٹرافی فشنگ کا بھی انعقاد کیا جاتا ہے، جس میں کینیڈا اور اسکاٹ لینڈ سے تعلق رکھنے والے کچھ لوگ مدد فراہم کرتے ہیں ۔ سیاحتی مرکز کی وجہ سے ٹرائوٹ مچھلی کا شکار کر کے دوبارہ مچھلی دریا میں چھوڑ دی جاتی ہے۔
مچھلی کے شکار کی وجہ سے دریا کنارے ریسٹورنٹس کے کاروبار پر فرق پڑا ہے۔ تیز بہاؤ کے حامل اس دریا پر قبل ازیں سی پیک منصوبہ میں شامل'' سکی کناری ڈیم ‘‘ کی تعمیر کا کام جاری ہے جو آئندہ دو برس تک مکمل ہو گا جس کی تعمیر کے بعد 870 میگاواٹ بجلی پیدا ہو گی۔ دریائے کنہار کو وادی کاغان کی ریڑھ کی ہڈی کہا جاتا ہے کیونکہ 166 کلومیٹر طویل یہ دریا اپنی تمام تر دلکشی، خوبصورتی اور رعنائی کے ساتھ پوری وادی میں سانپ کی طرح بل کھاتا، مچلتا، گنگناتا اور محبتوں کے نغمے سناتا رواں دواں ہے۔ دریائے کنہار ناران سے 48 کلومیٹر اوپر 14000 فٹ کی بلندی پر واقع لالو سر جھیل سے اپنے سفر کا آغاز کرتا ہے لیکن ملکہ پربت کے گلیشیئرز اور دودی پت جھیل بھی اسے پانی فراہم کرنے کا ایک بڑا ذریعہ ہیں۔ ویسے تو دریائے کنہار کا ہر نظارہ دلوں کو چھو لینے والا ہے لیکن شہزادہ سیف الملوک اور پری بدیع الجمال کی محبتوں کی رازدار جھیل سیف الملوک کے ساتھ اس کا ملاپ لافانی شاہکار ہے۔
دریا کا پانی اس قدر شفاف ہے کہ ایک کلو میٹر کی بلندی سے بھی آپ اس کی تہہ میں پڑے کنکر اور پتھر دیکھ سکتے ہیں جبکہ اس کا پانی اس قدر یخ بستہ ہے کہ گرمیوں میں بھی لوگ اس میں نہانے سے گریزاں ہوتے ہیں۔ اس دریا میں دنیا کی سب سے خوبصورت اور لذیذ مچھلی ٹراؤٹ پائی جاتی ہے۔ دریا کا برفیلا پانی اس کی افزائش کے لیے بے حد موزوں ہے۔ کنہار، دو الفاط یعنی پہاڑ اور نہار یعنی نہریں کا مجموعہ ہے۔ اس کا پانی آنکھوں کے امراض کے لیے بے حد اکسیر ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک بار ہندوستان کی ملکہ نور جہاں کشمیر کی سیر کے لیے جارہی تھیں تو انہیں آشوب چشم ہو گیا، حکما ء کے مشورے پر ملکہ نے دریائے کنہار کے پانی سے اپنی آنکھیں دھوئیں تو انہیں آرام آگیا چنانچہ انہوں نے اسے دریائے نین سکھ کا نام دیا جوآج بھی زبان زد عام ہے۔ سڑک کے کنارے سفر کریں تو دریائے کنہار مسلسل پہاڑوں سے آنکھ مچولی کھیلتا نظر آتا ہے، کبھی پہاڑ اوجھل تو کبھی دریا اوجھل۔ اکثر لوگ دوران سفر اپنی گاڑیاں کھڑی کر کے دریا کے نظاروں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
دریا کے بے ترتیب پتھروں پر پاؤں رکھنا بعض اوقات جان لیوا ہوتا ہے لیکن اس کی نمی سے لبریز اور مختلف خوشبوؤں میں بسے ہوا کے دل آویز جھونکے دلوں پر ایک عجیب سی کیفیت طاری کر دیتے ہیں۔ رات کے وقت دریائے کنہار وادی کاغان میں چاندی کی ایک ٹیڑھی میڑھی لکیر کی طرح دکھائی دیتا ہے جو پہاڑوں اور چٹانوں سے لڑتا بھڑتا اپنی منزل کی طرف رواں دواں رہتا ہے۔ دریائے کنہار، وادی کاغان، جل کھنڈ، بالا کوٹ اور گڑھی حبیب اللہ سے گزرتا بالاآخر وادی کشمیر میں داخل ہو جاتا ہے اور مظفرآباد سے 30 کلومیٹر کے فاصلے پر پتن کے مقام پر دریائے جہلم اور نیلم سے جا ملتا ہے۔ آزاد کشمیر کے پرچم پر بنی چار لکیریں یہاں کے چار دریاؤں کی نمائندگی کرتی ہیں، کنہار بنیادی طور پر خیبر پختونخوا کا دریا ہے لیکن ان چار میں سے ایک لکیر دریائے کنہار کو آزاد کشمیر کا دریا ہونے کا اعزاز بھی بخشتی ہے۔
نازش حسن
بشکریہ دنیا نیوز
0 notes
Text
خوبصورت جھیل خرفاق جو سیف الملوک جھیل سے کم نہیں
پاکستان خوبصورت قدرتی مناظر سے مالا مال ہے لیکن حکومتوں نے سیاحت کی طرف کم توجہ دی اور قدرتی نظاروں تک پہنچے کیلئے جو ذرائع آمد و رفت آپ کو یورپی ممالک میں ملتے ہیں وہ یہاں دستیاب نہیں ۔ یورپ میں یہی سہولت قدرتی مناظر کو دنیا بھر میں پھیلا دیتی ہے اور جوق درجوق سیاح آتے ہیں جس سے مقامی آمدن میں اضافہ ہوتا ہے۔ پاکستان میں بھی شمالی علاقہ جات قدرتی مناظر سے بھرپور ہے لیکن وہ یا تو میڈیا کی نظروں سے اوجھل ہیں یا ان تک پہنچنا مشکل ہے۔ خوبصورتی کی ایسی ہی مثال'' جھیل خرفاق ‘‘ ہے۔ شمال میں چین کی سرحد اور واخان کی پٹی سے ملحقہ پاکستان کے آخری ضلع گانچھے کی تحصیل خپلو میں واقع ہے جس تک پہنچنے کیلئے سخت ہائیکنگ کرنا پڑتی ہے۔ سکردو سے اگر خرفاق جائیں تو براہ تک پونے دو گھنٹے کا سفر ہے لیکن اگر خپلو سے جائیں تو پچیس سے تیس منٹ لگتے ہیں ۔
راستہ بہت زیادہ دشوار گزار ہے۔ جھیل سے پہلے ایک دریا آتا ہے جہاں سے ہائیکنگ اور ٹریکنگ کرنا پڑتی ہے ۔ فور بائی فور گاڑی ہی کارگر ہوتی ہے ، یہاں سفر کرنا عام گاڑی کے بس کی بات نہیں ۔ جو لوگ ہائیکنگ اور ٹریکنگ کے دلدادہ ہیں وہ خرفاق جھیل تک پہنچنے میں آسانی محسوس کرینگے کیونکہ جھیل تک پہنچنے کیلئے بہت زیادہ پیدل چلنا پڑتا ہے ۔ یہاں چٹانوں کے پہاڑ کھلے کھلے ہیں درمیان میں کافی جگہ ہے اس لئے حکومت کو چاہیے کہ وہ جھیل تک پہنچنے کیلئے سڑک تعمیر کرے تاکہ سیاحت میں اضافہ ہو سکے ۔ جھیل کا پانی اوپر پہاڑوں سے آتا ہے جب برف پگھلتی ہے تو جھیل گہری ہو جاتی ہے اور اس کا سائز بڑا ہو جاتا ہے لیکن جب پانی خشک ہوتا ہے تو جھیل سکڑ جاتی ہے ۔ جھیل کا داہانہ یا بہائو زیر زمین ہے اور اس کا پانی ایک گائوں میں جاکر نکلتا ہے ۔
گھنٹوں کی ہائیکنگ کرتے کرتے جب سیاح تھک جاتے ہیں تو کسی مقامی رہائشی کا کوئی کمرہ استعمال کرتے ہیں جو مقامی فرد خوشی سے دے دیتا ہے کیونکہ وہاں ٹھہرنا تھوڑی دیر کیلئے ہوتا ہے ۔ مقامی آباد ی بہت ملنسار ہے۔ جھیل سے فاصلے پر کہیں کہیں آبادیاں ہیں، دریا کے ساتھ بھی گھر بنے ہوئے ہیں لیکن راستہ دشوار گزار ہونے کی وجہ سے بہت کم لوگ اس جھیل تک پہنچ پاتے ہیں ۔ تھکے ہارے سیاح جب کئی میل کا سفر کر کے اس جھیل کے پاس پہنچتے ہیں تو اس کا نیلگوں پانی دیکھ کر اس کی طرف لپکتے ہیں جیسے اسے اپنی بانہوں میں سمو لیں گے ۔ جھیل سے پہلے چٹانوں کے ٹوٹے پتھر آپ کا استقبال کرتے ہیں ۔ لیکن اس کا شفاف پانی دیکھ کر ساری تھکن اتر جاتی ہے ۔ یہ ایک بہت خاموش اور دنیا سے ہٹ کر جگہ ہے جہاں آپ سکون محسوس کرینگے ، یہاں کوئی شور نہیں سوائے پانی کے گرنے کے یا پرندوں کے چہچہانے کے ۔
یہ جھیل خوبصورتی میں جھیل سیف الملوک سے کم نہیں لیکن چونکہ اس تک پہنچنا بہت دشوار ہے اس لئے سیاح عموماً یہاں کا رخ نہیں کرتے لیکن اگر حکومت توجہ دے تو اسے جھیل سیف الملوک کی طرح کا سیاحتی مقام بنایا جا سکتا ہے۔ پانی کا ٹھہرائو آپ کو کسی حسین دلربا پانی کے خوبصورت منظر کی طرف لے جاتا ہے جہاں آنے والے لوگ عجیب ہی تروتازگی محسوس کرتے ہیں۔ یہ جھیل اپنے اندر اک خوشنما احساس تو رکھتی ہی ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ دل کو غمزدہ بھی کرتی ہے کہ اتنی خوبصورت جھیل عوام کی نظروں سے کیوں اوجھل ہے۔
زونیر کمبوہ
بشکریہ دنیا نیوز
0 notes
Video
youtube
Saif ul Malook Jheel (Urdu: جھیل سیف الملوک) Naran Valley #Explorefun-...
0 notes
Photo
About: Saiful Muluk (Urdu: جھیل سیف الملوک) is a mountainous lake located at the northern end of the Kaghan Valley, near the town of Naran in the Saiful Muluk National Park. At an elevation of 3,224 m (10,578 feet) above sea level, the lake is located above the tree line, and is one of the highest lakes in Pakistan. Folklore: The Lake Saiful Muluk is named after a legendary prince. A fairy tale called Saif-ul-Muluk, written by the Sufi poet Mian Muhammad Bakhsh, talks of the lake.[7][8] It tells the story of the prince of Persia named Prince Saiful Malook who fell in love with a fairy princess named Princess Badri-ul-Jamala at the lake. . . .#saifulmalook #nature #naranvalley #lake #finalyeardiaries #etribune #vscopakistan #like4like #traveldiaries #travelphotography #jheelsaifulmalook #peace #view #tosaifalmaluk #tourdepakistan #dawndotcom #vscocam #instapic #love #kaghanvalley #lakesaifulmulook #mesmerizing #spectacular #blackandwhite #pakistan #beautifulpakistan #picturepakistan #dawn #vsco #instalike (at Jheel Saif'ul'malook) https://www.instagram.com/p/CHAKdNflwiH/?igshid=1oweucje3hbhl
#saifulmalook#nature#naranvalley#lake#finalyeardiaries#etribune#vscopakistan#like4like#traveldiaries#travelphotography#jheelsaifulmalook#peace#view#tosaifalmaluk#tourdepakistan#dawndotcom#vscocam#instapic#love#kaghanvalley#lakesaifulmulook#mesmerizing#spectacular#blackandwhite#pakistan#beautifulpakistan#picturepakistan#dawn#vsco#instalike
0 notes
Photo
Posted @withregram • @fictionwithchocolate جشن آزادی مبارک 🇵🇰🎉 میرے خیال میں کوئی نارمل انسان جھیل، پہاڑوں، موسم کے بارے میں ایسی فیمنگز نہیں رکھ سکتا۔ لیکن اگر اس میں مستنصر حسین تارڑ جیسا کیڑا ہو پھر ہر قسم کے تشبیہ استعارہ کی توقع رکھی جا سکتی ہے۔ ناران کاغان کا یہ سفرنامہ مجھے بھی تیرہ سو فٹ کی بلندی پر لے گیا جہاں سترہ سالہ مستنصر حسین تارڑ سے ملاقات ہوئی۔ ان چھوئی جھیل سیف الملوک دیکھی پھر بوڑھے مستنصر حسین تارڑ کے ساتھ بدحال سیف الملوک پر افسوس کیا۔ فلٹرس ہلکی پھلکی تحریر۔ کتاب کا کور بہتر کیا جا سکتا تھا۔ بہت سی جھیلوں پھولوں کو پھلانگتے بڑا مزا آیا۔ آخری چیز کتاب میں ناران کاغان گھوم لیا اب جانے کا من نہیں کرتا۔ چند سطور کی تصاویر بھی لگائی ہیں۔ پاکستان میں آپ کا پسندیدہ علاقہ کون سا ہے گھر کے علاوہ؟ ۔ @fictionwithchocolate . #urduadab #urdufiction #urdubookreview #urdunovels #wattpadpakistan #safernama #mustanserhussaintarar #mobilephotography #bookstagrampakistan #nrbshoutouts #bookstagramit #urdulitrature https://www.instagram.com/p/CD3yVcVJlag/?igshid=1al2hjo0idhe5
#urduadab#urdufiction#urdubookreview#urdunovels#wattpadpakistan#safernama#mustanserhussaintarar#mobilephotography#bookstagrampakistan#nrbshoutouts#bookstagramit#urdulitrature
0 notes
Text
یہ موسم یہ مست نظارے،پیار کرو تو ان سے کرو رنگین نظاروں سے بھرا پاکستان
اسلام آباد(جی سی این رپورٹ)دنیا بھر میں ہر سال 19 اگست کو فوٹوگرافی کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد کیمرے کی آنکھ میں محفوظ ہونے والے حسین نظاروں کو دنیا کے سامنے پیش کرنا ہے۔اس دن کو منانے کا آغاز 1839 سے ہوا تھا جس کی وجہ 1837 میں فوٹوگرافی کی ایسی جدید تیکنیک daguerreotype کی ایجاد تھی جس نے تصاویر لینے کے عمل کو بہت مختصر بنادیا تھا۔19 اگست 1839 کو فرانسیسی حکومت نے اس ایجاد کو دنیا بھر کے لیے مفت فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے جبکہ پہلی بار کلر تصویر 1861 میں تھامس شٹن نے لی اور پہلی ڈیجیٹل تصویر 1957 میں لی گئی، دلچسپ بات یہ ہے کہ پہلا ڈیجیٹل کیمرا 20 سال بعد کوڈک نے تیار کیا۔پاکستان دنیا کے خوبصورت ترین ممالک میں سے ایک ہے جہاں کے قدرتی نظارے فوٹوگرافر کے لیے کسی جنت سے کم نہیں۔فوٹوگرافی کے عالمی دن کے موقع پر پاکستان کے چند خوبصورت علاقوں کی تصاویر دیکھیں جو ہوسکتا ہے آپ کے اندر اپنے ملک میں گھومنے کی خواہش کو بھی اجاگر کریں۔ وادی کاغان شٹر اسٹاک فوٹو یہ تصویر ضلع مانسہرہ کی خوبصورت وادی کی ہے یعنی اپر وادی کاغان کی، جہاں پہنچنے کے بعد اکثر افراد بس جھیل سیف الملوک تک جانا ہی پسند کرتے ہیں، مگر اس علاقے کی دیگر اہم جگہوں کو نظرانداز کردیتے ہیں۔ جھیل سیف الملوک
سطح سمندر سے 10578 فٹ بلند سیف الملوک جھیل ہمیشہ سے ملک بھر اور پوری دنیا کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنی رہتی ہے، یہاں تک پہنچنے کا سفر تو کافی خوفزدہ کردینے والا ہوتا ہے مگر اس جھیل کی دید سب کچھ بھلا دیتی ہے۔ بابوسر ولیج
ناران اور گلگت بلتستان کی سرحد پر واقع درہ بابوسر کے مقام سے نیچے دیکھیں تو گیتی داس کا ہموار میدان اور پولو گراؤنڈ نظر آتے ہیں۔ یہاں سال میں ایک بار پولو کا مقابلہ بھی منعقد ہوتا ہے جس میں چلاس کی ٹیمیں حصہ لیتی ہیں۔ بابو سر ٹاپ
بابوسر کو پار کر کے سڑک ٹھک نالے سے ہوتی ہوئے چلاس اور قراقرم ہائی وے کو جا ملتی ہے۔ وادی غذر
غذر رنگین پانیوں کی سرزمین ہے۔ درختوں میں گھِرا یہ علاقہ واقعی جنت نظیر ہے اور وادی پھنڈر اس علاقے کے سر کا موتیوں جڑا تاج۔ لفظ 'غذر' مقامی زبان کے لفظ 'غرض' سے نکلا ہے جس کے مقامی زبان میں معنیٰ 'پناہ گزین' کے ہیں۔
گوپس ضلع غذر کا مرکزی مقام ہے اور وہاں کی سڑک پر گزرتے ہوئے اس جھیل سے نظر لازمی پڑتی ہے جس کا نظارہ مسحور کردیتا ہے۔ وادی ہنزہ
گلگت بلتستان کی وادی ہنزہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو اس کے ساتھ خزاں کا ذکر بھی زیادہ تر ہوتا ہے کیونکہ اس موسم میں اس وادی کے رنگ دیکھنے والے ہوتے ہیں یعنی نارنجی، زرد، سرخ اور دیگر رنگ ہر جگہ پھیلے ہوتے ہیں۔
مگر اس وادی کی خوبصورتی خزاں کے موسم تک ہی محدود نہیں، اگر آپ کو بہار کے رنگ دیکھنے ہوں تو بھی اس وادی کا رخ کریں، وہاں کی خوبصورتی دنگ کرکے رکھ دے گی۔ پسو کونز
وادی گوجال کا مشہور سیاحتی مقام ہے جہاں ایک گلیشیئر بٹورا موجود ہے جس کی لمبائی 56 کلومیٹر ہے اور یہ سیاچن کے بعد پاکستان کا سب سے بڑا گلیشیئر مانا جاتا ہے، اس تصویر میں پسوکونز کی جانب جانے والی قراقرم ہائی وے کو دکھایا گیا ہے۔ عطا آباد جھیل
پاکستان کو چین سے ملانے والی شاہراہ قراقرم بھی وادی گوجال سے گزرتے ہوئے خنجراب کے مقام پر چین میں داخل ہوتی ہے۔ اس سفر کے دوران آپ ہنزہ، پسو کونز، گلمت، بورت جھیل، سوست اور متعدد خوبصورت علاقوں کی سیر بھی کرسکیں گے اور سب سے بڑھ کر عطا آباد جھیل جیسے عجوبے کو دیکھ سکیں گے۔ خوبصورت مگر نامعلوم مقام
یہاں ہوسکتا ہے آپ کسی جگہ گھوم رہے ہوں اور اچانک بادلوں کی ٹکڑیاں نیچے آکر آپ کو چھولیں بلکہ لپٹ جائیں، یعنی بادل آنکھوں کے عین سامنے آجائیں گے جو انتہائی شفاف ہوتے ہیں جن کے آرپار دیکھ سکیں۔
ان لمحات میں پورا وجود ملک کی محبت سے بھر جاتا ہے۔ سمجھ نہیں آتا کہ کن الفاظ میں اس احساس کو بیان کریں، مگر ہمارے وطن کے رنگ ایسے ہی سدا بہار ہیں جو دل کو جیت لیتے ہیں۔ Read the full article
0 notes
Photo
اعصار ادبی فورم : سلسلہ انتخاب 2 یہ شعری انتخاب معین نظامی صاحب کی غزلوں کے مجموعہ استخارہ سے ہے ۔ یہ مجموعہ 2008 میں شائع ہوا تھا ۔ کون سی منزلِ نماز تھی وہ میں کھڑا تھا امام سے آگے وہ ایک خیال ہے اور اس کو صدیوں سے وجود چاہیے ہے اعصاب الگ تھکے ہوۓ ہیں اور دل ہے کہ سرگراں الگ ہے لگتا ہے میں اجنبی ہوں تم میں لگتا ہے مری زباں الگ ہے ہجر پہ جتنے شعر تھے ، سبعہ معلقات میں آ گئے یاد ایک دم، مجھ کو سفر کی رات میں میری طرح معینؔ کل جکڑے ہوۓ تھے رات بھر ابر و مہ و ستارہ بھی ، قیدِ تکلفات میں پس خوردہ مرا ملے تو پی لو میں دُردِ سبوۓ صوفیا ہوں اِس گنبدِ مرمریں کے آگے میں اپنے ہی شہر میں گدا ہوں عزیزوں کی نمک پاشی کی خاطر ہماری خوۓ دل ریشی بہت ہے جو دل کا ظرف نہ ہوتا تو ہم سے دیوانے طلسمِ تنگیِ افلاک سے نکل جاتے کشش جو اصل کی ہے، چھوڑتی نہیں ہے معینؔ بشر نہ ہوتے تو ہم خاک سے نکل جاتے کچھ ہماری طرح بھی ہوتے ہیں سب کو نیت کا پھل نہیں ملتا کسی کے دوش پہ ہم نے نہ سرگرانی کی ہم اپنی ذات کے پھیلاؤ میں سمٹ آۓ غرورِ سَیلِ فنا ! اس قدر تو مہلت دے کہ میرا گاؤں مری ناؤ میں سمٹ آۓ کرنوں کی آہٹوں سے مری آنکھ کھُل گئی سورج نکل رہا تھا، اجالا کوئی نہ تھا اُن بستیوں کو دیکھ کے عبرت ہوئی مجھے سب جاں بلب تھے اور مسیحا کوئی نہ تھا دل نے ہر شے کو سرسری دیکھا دل نے ہر شے کو سرسری جانا میں چاندنی بنوں گا، جو عمرِ دگر ملے اک بار آ کے دیکھ لیا دامِ خاک میں مٹی سے ماورا بھی کوئی شے بدن میں ہے اک سطرِ نور بھی تو ہے پیغامِ خاک میں آبِ رواں کا عکس مثالِ سراب ہے دریا کو دیکھ کر بھی خیالِ سراب ہے دل مانتا نہیں کہ فریبِ نظر کہیں دل کی یہ کیفیت بھی کمالِ سراب ہے زمینیں جل رہی ہیں اور شجر سیراب ہیں سارے مناظر اِس نگر کے کس قدر شاداب ہیں سارے دھوئیں میں سانس لیتی ٹہنیوں پر چہچہاتے ہیں پرندے مختلف رنگوں کے، جو نایاب ہیں سارے جھیل سیف الملوک کہتی ہے آئیں اور میرے پانیوں میں رہیں برف زاروں کی چاندنی دیکھیں اپنے رب کی نشانیوں میں رہیں تھک گئے ہیں حقیقتوں سے بہت جا کے کچھ دن کہانیوں میں رہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ کچھ بھی نہ ہو اور ہم خوش گمانیوں میں رہیں حصارِ ہُو میں مصلیٰ بچھا ہوا ہے مرا فشارِ وقت سے باہر مزے میں رہتا ہوں طواف کرتی ہیں کرنیں مرا مدام کہ میں نظامِ نور کے اک مرکزے میں رہتا ہوں فلک پہ رہتے ہیں سوۓ زمیں نہیں جاتے ہم اپنے حجرے سے باہر کہیں نہیں جاتے خسرو کو اِس نیاز سے میں نے کیا ہے یاد خواجہ نظام بیٹھ گئے آ کے روح میں ہم شہر میں نہ ہوں تو یہاں قحطِ اشک ہو سرگشتگاں ہی گرمیِ بازارِ گریہ ہیں ہم تک پہنچ گئے ہو تو رونا ہے ناگزیر ہم خانقاہِ عشق میں دیوارِ گریہ ہیں مسند نشینِ نوحہ بناۓ گئے معینؔ جو دیکھتا ہے ، کہتا ہے، سرکارِ گریہ ہیں ہم اپنے دل کی چٹانوں سے پھوٹتے تھے معینؔ اور اس کے بعد زمان و مکاں میں بہتے تھے پھر ایک کپکپی شدت سے مجھ پہ طاری ہوئی لرزتا پھرتا تھا اک وجد کے وفور سے میں قریب تھا کہ میں مدہوش ہو کے گر جاتا کچھ ایسے مست ہوا لذتِ سرور سے میں زنہار بھول کر بھی صراحت نہ چاہیو ابہام کا محل ہے، زمانِ اشارہ ہے کسی سبب کی ضرورت نہیں پڑی ہے ہمیں کچھ ایسے عالمِ اسباب میں بسر کی ہے تمھاری تم کو خبر ہو معین ہم نے تو انھی کھنچے ہوۓ اعصاب میں بسر کی ہے کہانی مختصر ہے ایھا الناس مقامِ الحذر ہے ایھا الناس جسے جتنا ہے دعواۓ بصیرت وہ اتنا بے بصر ہے ایھا الناس گلی کوچوں میں درویشوں کی صورت خدا خود در بہ در ہے ایھا الناس مدارِ جسم و جاں کس چیز پر تھا مدار اِس چیز پر ہے ایھا الناس ہماری نیتوں کی گھاٹیوں میں ہمیں خود سے خطر ہے ایھا الناس روایت پر یقیں کرنا پڑے گا کہ راوی معتبر ہے ایھا الناس عیاں ہوئی وہ بیاضِ گنہ جو پنہاں تھی کھُلا وہ نامۂ اعمال جو حجاب میں تھا پھنسا ہوا کسی گرتی ہوئی عمارت میں میں ٹوٹ پھوٹ کی زد پر تھا، اضطراب میں تھا یقین ہی نہیں آتا وہ اشک میرے تھے دفینہ اتنا مرے خانۂ خراب میں تھا ذرا سی میں جو توجہ مزید کر لیتا تو آئنے سے وہ چہرہ کشید کر لیتا کسی کی یاد کے تنکوں کی ایک کٹیا ہے دعا کرو کہ ہمیں یہ مکاں مبارک ہو دعاۓ صبح گہی با مراد ہوتی ہے عطا ہوا ہے نیا بادباں، مبارک ہو مژہ سے چل کے پہنچتے ہیں عرش تک آنسو عروج کرتا ہوا کارواں مبارک ہو پہنچ گئے ہیں بالآخر جہاں پہنچنا تھا تھکن اتر گئی اے ہمرہاں مبارک ہو
0 notes
Photo
جمی ہوئی جھیل پر سکیٹنگ کے مزے #Winter #frozen #Lake #America #aajkalpk یورپی ممالک میں سردی کا موسم جہاں مشکلات کا سبب بنتا ہے وہیں ایڈونچر کے شوقین اس موسم میں بھی لطف اٹھانے کا کوئی نہ کوئی راستہ نکال لیتے ہیں۔ برفباری کے بعد جھیلوں اور دریاوں کی سطح جم جاتی ہے جس پر شوقین مزاج لوگ سکیٹنگ کر کے موسم کا مزہ دوبالا کرتے ہیں۔ یورپی ممالک میں رواں سال برفباری کا 30 سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا، جس پر وہاں کے رہائشیوں نے گرم کمروں میں گھس کر آگ تاپنے پر ہی اکتفا کیا تاہم منچلے نوجوانوں نے کچھ انوکھا سوچ کر اس پر عمل بھی کر ڈالا۔ مزید پڑھیں: جھیل سیف الملوک پرسیاحوں کو ہرممکن سہولیا ت فراہم ��یلئے فوری اقدامات امریکی ریاست مینیسوٹا میں دو منچلوں نے جمی ہوئی جھیل پر آئس سکیٹنگ کا منفرد انداز اپناتے ہوئے صوفے کو رسی کے ذریعے ٹریکٹر سے باندھ دیا۔ اس کے بعد ایک منچلے نے ٹریکٹر چلایا اور دوسرا منچلا نوجوان صوفے پر آرام سے بیٹھا آئس سکیٹنگ کا لطف اْٹھاتا رہا۔ سکیٹنگ کے انوکھے طریقے پر مبنی یہ دلچسپ ویڈیو سوشل میڈیا پر کافی مقبول ہو رہی ہے۔
0 notes
Photo
سیاحت کی ترقی خوشحالی کی نوید (1) ضمیر آفاقی عوام کی آواز سیاحت کی ترقی خوشحالی کی نوید (1) پاکستان کی حکمران اشرافیہ اگر اپنے ویژن کو تھوڑا سا بھی تبدیل کر لیتی تو آج ہمیں چند ٹکے قرض حاصل کرنے کے لئے دوسروں کی ”ڈرائیوری“ کرنے کے ساتھ گلی گلی ہاتھ نہ پھیلانے پڑتے ہم نے اپنی معیشت کو سیدھا رخ دینے کے بجائے دنیا کے ساتھ تجارت میں بھی دو نمبری کی اور خود اپنے ملک کے شہریوں کے ساتھ تو ”نمبری“ کا شمار ہی نہیں آج نہ دنیا ہمارا سامان خریدتی ہے اور نہ پاکستانی شہری کوئی وقعت دیتے ہیں۔ ملک بھیک یا قرض مانگنے سے نہیں چلتے اس کے لئے آپ کو اپنے دستیاب وسائل کو استعمال میں لا کر اپنی آمدن میںاضافہ کرنا پڑتا ہے ہم ایک ایسا خوش قسمت ترین ملک ہیں جہاں قدرتی وسائل سے لیکر انسانی وسائل(نوجوان) تک وافر دستاب ہیں لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ ہمیں حکمران اشرافیہ بدترین ملی اور پھر بات وہی ہے کہ ہمیں قرض مانگنے اور ایزی منی کی ایسی عادت پڑی کہ ہم کام کرنا اپنی توہین سمجھنے لگے نتیجہ ملکی تمام ادارئے خستہ حالی کا شکار ہیں اور سرکاری اہلکار کام کرنے کے لئے بلکل تیار نہیں ،اس وقت ہماری قومی مجموعی معیشت میں چالیس فیصد حصہ سروسز کا ہے۔ جبکہ ہم قومی پیدوار میں بہت پیچھے ہیں ہماری انڈسٹری آخری سانسیں لے رہی ہے اگر حکومتی سبسڈی ختم ہو جائے تو اس کی سانسیں بند ہونے سے اسے کوئی نہیں روک سکتا جلد یا بدیر یہ کرنا ہی پڑئے گا اس کے بعد کیا ہو گا یہ بتانے کی ضرورت نہیں سستی لیبر تو شائد ہم فراہم کر سکیں مگر انڈسٹری پر کوئی اور قابض ہو چکا ہو گا اور ہم غلامی کے ایک بدترین دور میں داخل ہو جائیں گے جس سے نجات؟ یہ سوال مجھے تو بہت خوف زدہ کرتا ہے۔ گزشتہ کالم میں بھی ہم نے گزارشات پیش کی تھیں کہ ہم اپنے کن وسائل اور شعبوں پر توجہ دے کر اپنی معیشت کو بہتر اور قرض کی دلدل سے نکال سکتے ہیں ۔ ہم نے عرض کیا تھا کہ فلم اور صنعت انڈسٹری دو ایسی صنعتیں ہیں جن میں حکومت کو پلے سے شائد کچھ زیادہ خرچ نہ کرنا پڑئے صرف سرپرستی کرنے سے ان صنعتوں کے زریعئے ہم قومی خزانے میں زرمبادلہ میں اضافے کے ساتھ ملک بھر میںمعاشی ریل پیل کرسکتے ہیں فلم انڈسٹری کے حوالے سے گزشتہ کالم میں فلمی معیشت میں دیگر ممالک کی آمدن کا زکر کیا تھا کہ کس طرح اربوں کھربوں روپیہ وہ صرف اس صنعت سے حاصل کر رہے ہیں اسی طرح کئی ملکوں کا تو دارو مدار ہی سیاحت پر ہے۔ (جس کا زکر آئندہ سطور میں آئے گا) سیاحتی صنعت کو فروغ دینے کے حوالے سے پاکستان ایک آئیڈیل ملک ہے ، دستیاب معلومات کے مطابق پاکستان جنوبی ایشاء کے شمال مغرب وسطی ایشیا اور مغربی ایشیا کے لیے دفاعی طور پر اہم حصے میں واقع ایک خود مختارملک ہے۔ 20 کروڑ سے زائدکی آبادی کے ساتھ یہ دنیا کا پانچواں بڑی آبادی والا ملک ہے۔ 796095 مربع کلومیٹر (307,374 مربع میل) کے ساتھ یہ دنیا کا چھتیسواں بڑے رقبے والا ملک ہے۔ اس کے جنوب میں 1046 کلومیٹر (650 میل) کی ساحلی پٹی ہے جو بحیرہ عرب سے ملتی ہے ،6,774کلومیٹر زمینی سرحد ہے۔۔پاکستان کے مشرق میں بھارت، شمال مشرق میں چین اور مغرب میں افغانستان اور ایران واقع ہیں۔ پاکستان کو شمال میں ایک تنگ واخان راہداری تاجکستان سے جدا کرتی ہے جبکہ اس ملک کی سمندری سرحدی حدود عمان کے سمندری حدود سے بھی ملتی ہیں۔پاکستان کا جغرافیہ اور آب و ہوا انتہائی متنوع ہے، پاکستان بے شمار جانداروں کا گھر ہے، بلکہ کہیں جانور اور پرندے ایسے بھی ہیں جو صرف پاکستان میں پائے جاتے ہیں۔ ۔پاکستان کے مشرقی، وسطی اور جنوبی علاقے میدانی ہیں جبکہ مغربی اور شمالی علاقے پہاڑی ہیں۔ پاکستان کا سب سے بڑا دریا دریائے سندھ ہے۔ یہ دریا پاکستان کے شمال سے شروع ہوتا ہے اور صوبہ خیبر پختونخوا، پنجاب اور سندھ سے گزر کر سمندر میں گرتا ہے۔ صوبہ خیبر پختونخوا کے جنوبی علاقے، صوبہ سندھ کے وسطی علاقے اور پنجاب کے شمالی، وسطی اور جنوبی علاقے میدانی ہیں۔ یہ علاقے نہری ہیں اور زیر کاشت ہیں۔ صوبہ سندھ کے مشرقی اور صوبہ پنجاب کے جنوب مشرقی علاقے صحرائی ہیں۔ زیادہ تر بلوچستان پہاڑی سلسلوں پر مشتمل ہے لیکن بلوچستان کا سبی علاقہ میدانی اور صحرائی ہے۔ خیبر پختونخوا کے مغربی علاقوں میں نیچے پہاڑ ہیں جبکہ شمالی خیبر پختونخوا اور شمالی علاقہ جات میں دنیا کا سب سے اونچا پہاڑی سلسلہ واقع ہے۔پاکستان اپنے نظاروں، لوگوں اور تہذیبوں کے حوالے سے ایک وسیع ملک ہے اور اسی وجہ سے سال 2012ء میں یہاں دس (10) لاکھ سیاح آئے تھے۔ پاکستان کی سیاحت کی صنعت 1970ء کے عشرے کے دوران میں عروج پر تھی جب یہاں ایک بہت بڑی تعداد میں سیاح آتے تھے۔ ان سیاحوں کے لیے سب سے زیادہ قابل دلچسپی جگہیں خیبر پاس، پشاور، کراچی، لاہور، سوات اور راولپنڈی تھیں۔ اس ملک کی حامل پرکشش جگہوں میں موہنجو داڑو، ٹیکسلا اور ہڑپہ جیسی تہذیبوں کے کھنڈر سے لیکر کوہ ہمالیہ کے پہاڑی مقامات تک ہیں۔ پاکستان 7000 میٹر سے زیادہ بلند کئی چوٹیوں کا مسکن ہے۔ پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں کئی پرانے قلعے ہیں، پرانے زمانے کی فن تعمیر، ہنزہ اور چترال کی وادیاں جو ایک چھوٹی سی خوبصورت اقلیت سماجی گروہ کیلاش کا مسکن ہے جو خود کو سکندر اعظم کی اولاد سے بتاتے ہیں۔پاکستان کے ثقافتی مرکز و صدر مقام لاہور میں مغل فن تعمیر کی بہت سی مثالیں موجود ہیں جیسے بادشاہی مسجد، شالیمار باغ، مقبرہ جھانگیر، اور قلعہ لاہور کے علاوہ بھی کئی قابل دید مقام شامل ہیں جو سارے سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز ہیں۔ کبھی پاکستان میں سالانہ دس لاکھ سے زائد سیاح آتے تھے۔ تاہم سال 2008ء سے پاکستان میں اندرونی غیریقینی صورتحال کی وجہ سے یہ تعداد کافی کم ہو گئی ہے۔اکتوبر 2005ءمیں کشمیر کے زلزلے کے بعد رسالہ دی گارڈین نے پاکستان کے پانچ مقبول ترین سیاحتی مقامات کے نام سے ایک مضمون شائع کیا تاکہ پاکستان کی سیاحتی صنعت کی مدد کر سکے۔ یہ پانچ مقامات ٹیکسلا، لاہور، شاہراہ قراقرم، کریم آباد، اور جھیل سیف الملوک تھے۔ عالمی معاشی فورم کے سفر اور سیاحت کے مقابلے کی رپورٹ نے پاکستان کو مقبول ترین 25 فیصد سیاحتی مقامات کا اعزاز عالمی ورثہ کے مقامات کے طور پر مقرر کیا۔ سیاحتی مقامات کی پہنچ جنوب میں مینگروو جنگلات سے وادءسندھ کی تہذیب کے موہنجو داڑو اور ہڑپہ جیسے 5000 سال پرانے شہروں تک ہے۔ دنیا کے متعدد ممالک ہیں جو سمندر سے محروم ہیں، کئی صحرا ہی صحرا پر مشتمل ہیں، کئی ہیں جو سال بھر برف سے ڈھکے ہوتے ہیں، لیکن پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو کراچی سے کشمیر اور گوادر سے خنجراب تک مختلف جغرافیائی اور موسمی خطوں پر مشتمل ہے۔ شمال میں دنیا کے تین عظیم ترین سلسلہ ہائے کوہ ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش ایک دوسرے سے ملتے ہیں جن میں دنیا کی بلند ترین 14 چوٹیوں میں سے پانچ بشمول ”کے ۔ٹو” جو دنیا کی دوسری سب سے اونچی چوٹی ہے، پاکستان میں موجود ہیں۔ پہاڑوں سے قدموں میں قطبین کے بعد دنیا میں سب سے بڑا برفانی خزانہ 5000 سے زائد گلیشئرز کی صورت پاکستان میں محفوظ ہے۔ پھر پاکستان کے بلند و بالا سرسبز جنگلات، چراگاہیں اور جھیلیں ہیں جن میں سطح سمندر سے 4000 میٹر بلند الپائن جنگلات، سطح مرتفع دیوسائی اور تین ہزار میٹر بلند فیری میڈوز مشہور ہیں۔ جنگلات اور چراگاہوں سے نیچے نظر ڈالیں تو دریائے سندھ کے میدانی علاقے جو اپنی زرخیزی کے باعث بریڈ باسکٹ آف پاکستان کہلاتے ہیں۔ پھر شمالی لینڈ اسکیپ سے بالکل مختلف سندھ اور بلوچستان کے خطے ہیں۔ جن کا اپنا انفرادی جغرافیہ ہے۔ ایک طرف سندھ کے گرم میدانی علاقے جو کھجور اور آم کی فصلوں کے لیے مشہور ہیں رفتہ رفتہ تھر پارکر کے عظیم صحرا میں تبدیل ہوجاتے ہیں جو بالآخر سندھ کے ساحلوں سے جا ملتے ہیں۔ دوسری جانب بلوچستان کا پتھریلا مگر خوبصورت لینڈاسکیپ ہے جسے ماونٹین اسکیپ یا راک اسکیپ کہنا زیادہ مناسب ہے، جس کے ساتھ بلوچستان کے ان چھوئے، خوبصورت اور شفاف پانیوں والے ساحل بچھے ہیں، پر پاکستان ان ساحلوں پر ختم نہیں ہوجاتا، سمندروں میں پاکستانی حدود میں متعدد جزائر ہیں جو سرزمین پاکستان کا حصہ ہیں۔ ان میں استولا، چرنا اور منوڑا مشہور ہیں ۔غرض پاکستان میں وہ سب کچھ ہے جس کے لیے کسی سیاح کو شاید کئی ملکوں جانا پڑے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں سیاحت کو وہ مقام نہیں ملا جو اس کا حق ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2010 میں بین الاقوامی سیاحت کا حجم تقریباً ساڑھے نو لاکھ سیاح تھا۔ جو کم ہو کر 2013 میں ساڑھے پانچ لاکھ رہ گیا تھا اور 2014 میں مزید کم ہوکرابتدائی چھ ماہ میں دولاکھ سیاحوں سے بھی کم رہ گیا تھا یعنی سال بھر میں کوئی چار لاکھ��(جاری ہے)
0 notes
Text
ہنہ جھیل : بلوچستان کا خوبصورت تفریحی مقام
بلوچستان کے جغرافیے اور موسم میں بہت تنوع پایا جاتا ہے۔ صوبے کا ایک بڑا حصہ پہاڑوں پر مشتمل ہیں۔ ان میں سے بعض سنگلاخ اور سبزے کے بغیر ہیں جبکہ بعض درختوں سے لدے ہوئے ہیں۔ یہاں آبشاریں اور جھیلیں بھی ہیں۔ ان میں سے ایک جھیل صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ یہ بلند پہاڑوں کے درمیان ایک خوبصورت جھیل ہے۔ اسے ہنّہ جھیل کہا جاتا ہے۔ کوئٹہ سے شمال کی طرف واقع سنگلاخ چٹانوں میں 1894ء میں تاج برطانیہ کے دور میں زیر زمین پانی کی سطح بلند رکھنے اور آس پاس کی اراضی کو سیراب کرنے کے لیے ہنہ جھیل کا قیام عمل میں لایا گیا۔ ہنہ جھیل موسم سرما میں مہاجر پرندوں کی آماجگاہ رہی۔
سائبیریا سے آنے والے آبی پرندوں جن میں بڑی تعداد میں مرغابیاں ہوتی ہیں، موسم سرما میں پہنچتے اور موسم بہار کی آمد تک یہیں رہتے اور افزائش نسل بھی کرتے تھے۔ 1818 ایکڑ رقبے پر پھیلی اس جھیل میں 32 کروڑ 20 لاکھ گیلن پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ اس کی گہرائی تقریباً 43 فٹ ہے بارشوں اور برفباری کا پانی مختلف گزرگاہوں سے ہوتا ہوا جھیل تک پہنچتا ہے۔ کوئٹہ اور آس پاس کے لوگوں کے لیے یہ کسی نعمت سے کم نہیں۔ یہ سیاحوں کے لیے ایک دلکش مقام ہے۔ یہاں ہر موسم میں سیاحوں آتے ہیں۔ چاروں جانب پہاڑوں کی موجودگی میں ہنہ جھیل ایک بہت ��ڑے پیالے کی صورت دکھائی دیتی ہے۔ بارش اور برف باری کے باعث یہ پانی سے بھری رہتی ہے۔ جھیل کا پانی زرعی مقاصد کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
اسے اطراف میں پھیلے ہوئے کھیتوں اور پھلوں کے باغات تک پہنچایا جاتا ہے اس طرح اس جھیل کو سیاحت کے ساتھ ساتھ زراعت اور باغبانی کے لحاظ سے بھی اہمیت حاصل ہے۔ جھیل سیف الملوک پاکستان کی بہت مشہور جھیل ہے۔ ہنہ اپنی نوعیت اور شکل و صورت کے لحاظ سے شمالی علاقے کی مشہور جھیل سیف الملوک سے ملتی جلتی ہے لیکن اسے جھیل سیف الملوک کی طرح خوبصورت درختوں اور سبزے سے ڈھکے ہوئے پہاڑوں والا ماحول میسر نہیں، اس کے اطراف میں پھیلے ہوئے بھورے اور مٹیالے پہاڑ، درختوں اور سبزے سے محروم ہیں اس کمی کو دور کرنے کے لیے ہنہ جھیل کے کنارے شجرکاری بھی کی گئی۔ وہاں کافی تعداد میں پائن، چنار اور ایش کے درختوں کے علاوہ پھلدار درخت بھی لگا دیئے گئے جس کی بدولت ماحول خوبصورت ہو گیا۔ مقامی اور بیرونی سیاحوں کے لیے اس کی دلکشی میں اضافہ ہو گیا ہے۔
فرزانہ خان
بشکریہ دنیا نیوز
0 notes
Text
پاکستان سیاحت کے لئے دنیا کے 10بہترین ممالک میں شامل
کراچی —
’نئے سال 2019 کا آج پہلا دن ہے ۔ اگر اس سال آپ قدرتی نظاروں کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں تو پاکستان کی سیر سے اچھا خیال بھلا اور کیا ہوسکتا ہے۔ ‘
یہ مشورہ امریکی میگزین ’فوربز‘ نے ان تمام لوگوں کو دیا ہے جو سیاحت کے شوقین ہیں اور 2019 میں آنے والی تعطیلات میں گھومنے پھرنے کی منصوبہ کر رہے ہیں۔
روایتی لباس میں ملبوس ایک کیلاشی خاتون
فوربز نے 2019 کے لئے جن 10 بہترین سیاحتی ملکوں کی فہرست جاری کی ہے ان میں پاکستان کا نام بھی شامل ہے، جبکہ پرتگال کا علاقہ ایزورس، مشرقی بھوٹان، میکسیکو کا لاس کابوس، کولمبیا، ایتھوپیا، مڈغاسکر، منگولیا، روانڈا اور ترکی کی ساحلی تفریح گاہیں بھی اس فہرست کا حصہ ہیں۔
یہ فہرست ٹریول بلاگراین ایبل نے دنیا کے مشہور ٹریول ایجنٹس سے گفتگو کے بعد تیار کی ہے۔
ایک ماہر سارہ باربری کے مطابق’ قدرتی نظاروں اور خوبصورت وادیوں کا لطف اٹھانا ہے تو ’قراقرم ہائی وے‘ کے ذریعے پاکستان کی وادی ہنزہ کا رخ کریں۔ شگر اور خپلو جائیں اور ہوش اڑا دینے والے قدرتی حسن کا نظارہ کریں۔‘
سارہ کے بقول’ پاکستان کے شمال مشرقی علاقوں میں کم لوگ جاتے ہیں۔ یہ وہ علاقے ہیں جہاں کے مناظر اتنے مسحورکن ہیں کہ آپ اپنی گاڑی کے شیشے سے باہر دیکھتے ہوئے پلک بھی اس خوف سے نہ جھپکائیں کہ کہیں کوئی منظر یا شاندار لینڈ اسکیپ مس نہ ہو جائے۔۔۔برف کے ٹکڑوں سے بھرے دریاؤں اور ان پرجھولتے پلوں کی خوبصورتی ناقابل بیان ہے۔‘
قدرتی طور پر وجود میں آنے والی عطا آباد جھیل
باربری کا یہ بھی کہنا ہے کہ’ گرم جوشی سے خیرمقدم کرتے لوگ، گلیشیر کے نیلے پانی سے بنی عطا آباد جھیل، ہریالی اور صدیوں پرانے خوبانی کے باغات میں پیدل گھومنا اور برف سے ڈھکی شاندار راکا پوشی کی چوٹی۔۔ یہ سب دیکھنا اور محسوس کرنا پوری زندگی کا ایک ناقابل فراموش تجربہ ہے۔‘
اس حوالے سے وائس آف امریکہ نے پاکستانی سیاحت کے ایک ماہر، کئی درجن کتابوں کے مصنف اور استاد صاحبزادہ محمد زابر سعید بدر سے بات کی تو ان کا کہنا تھا’ واقعی پاکستان قدرتی نظاروں سے بھرا پڑا ہے خاص کر شمالی و مشرقی علاقے۔ انہیں دیکھ کر بے اختیار منہ سے یہی نکلتا ہے کہ اگر اس زمین پر کہیں جنت ہے تو وہ یہیں ہے، یہیں ہے، یہیں ہے۔‘
انہوں نے وی او اے کو مزید بتایا ’گلگت جائیں یا چترال، سیف الملوک جائیں یا کمراٹ آسمان کو چھوتے دیو ہیکل پہاڑ گویا دیو ہیں جو ان خوبصورت وادیوں میں لہکتی اور مہکتی پریوں اور فرشتوں جیسی معصوم نیلی اور سبز آنکھوں والے بچوں کی دلفریب اور روح کو تازہ کر دینے والی مسکراہٹ کی حفاظت پر مامور نظر آتے ہیں۔‘
سیاحت کی شوقین اور پاکستان کے چپے چپے کو دیکھنے کا دعویٰ کرنے والی آمنہ نے وی او اے کو بتایا ’شمالی اور مشرقی پاکستان کے بل کھاتے دریاؤں کا شفاف میٹھا اور ٹھنڈا پانی، سنگلاخ چٹانوں میں گھری ایسی وادیاں جن میں گویا کھلتے سبز رنگ کی خوشبو دار فصل اگی ہو، جو ٹھنڈی اور معطر ہواؤں سے ہمیں ایک انجانی سی طلسماتی دنیا میں لے جاتی ہے، انہیں دیکھ کر دل چاہتا ہے کہ وقت یہیں تھم جائے اور ہم کئی صدیوں سے ٹھہرے ان خاموش لمحوں میں کھو جائیں جو ہزاروں سال کی تاریخ اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں۔‘
قراقرم ہائی وے پر واقع ایک مقام
آمنہ بتاتی ہیں’ ان وادیوں کو اداس کر دینے والے پہلو پر بھی ہماری نظر ہونی چاہئے کیوں کہ مسحور کر دینے والے یونانی حسن، وینس ڈی میلو کے چلتے پھرتے، ہنستے، مسکراتے، کھلکھلاتے، لہراتے اور بل کھاتے مرمریں مجسمے، معصوم فرشتے جن کی آنکھوں میں جیسے کئی صدیاں ٹھہر سی گئی ہوں، یہ حیرت اور معصومیت سے جب ہمیں دیکھتے ہیں تو ان کی غربت ایک حسرت بن کر گویا ہم سے سوال کرتی کہ یہ غربت، یہ افلاس یہ بے بسی ہمارا ہی مقدر کیوں ہے؟ وادی کیلاش بلاشبہ پاکستان ہی نہیں بلکہ روئے زمین کے چند حسین ترین علاقوں میں سے ایک ہے لیکن یہاں روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ‘
گلگت کا نظارہ اور ایک مقامی شخص روایتی ٹوپی پہنے ہوئے ہے
اس مسئلے کا حل پیش کرتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ بار ٹورازم کمیٹی کے سیکرٹری فیصل باسط جہانگیر وی او اے کو بتاتے ہوئے کہتے ہیں’ گزشتہ حکومتوں نے ان علاقوں کے انفرااسٹرکچر پرخاصا کام کیا ہے لیکن اب بھی بہت کام ہونا باقی ہے۔ اگر یہ انفرااسٹرکچر ایک دفعہ بن جائے تو پاکستان کو ہر سال اربوں روپے کا منافع ہو گا۔ اس میں کچھ رقم اس علاقے کے لوگوں کی غربت دور کرنے اور بے روزگاری ختم کرنے پر خرچ کی جائے تو اس سے نہ صرف دنیا بھر میں پاکستان کا امیج مثبت بنانے میں بھی مدد ملے گی بلکہ یہاں کے لوگوں کا رہن سہن بھی بہتر ہو گا۔ میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ اس کے بعد پاکستانیوں کو سوئٹزر لینڈ جانے کی ضرورت نہیں پڑے گی بلکہ سوئٹزر لینڈ اور دنیا بھر کے سیاح پاکستان آئیں گے اور ان مٹ یادیں لے کر اپنے اپنے وطن لوٹیں گے۔‘
The post پاکستان سیاحت کے لئے دنیا کے 10بہترین ممالک میں شامل appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain http://bit.ly/2Qg1vZ0 via Daily Khabrain
0 notes