#Lakes in Pakistan
Explore tagged Tumblr posts
risingpakistan · 4 years ago
Text
پاکستان کے پہاڑوں میں قدرت کا حسن... شمشال جھیل
دنیا بھر میں دل جیسی منفرد شکل والی جھیلیں بہت کم تعداد میں ہیں لیکن شاید آپ کو یہ جان کر حیرت ہو کہ ان میں سب سے خوبصورت قرار دی جانے والی جھیل ’’شمشال‘‘ پاکستان میں واقع ہے۔ گلگت بلتستان کی وسیع و عریض شمشال وادی میں پہاڑوں سے گھری ہوئی یہ خوبصورت جھیل سیاحوں کےلیے ایک خوبصورت تفریحی مقام کا درجہ رکھتی ہے لیکن بہت کم لوگ اس بارے میں جانتے ہیں۔ وکی پیڈیا کے مطابق، وادی شمشال تک پہنچنے کا راستہ بہت مشکل ہوا کرتا تھا لیکن یہاں کے رہنے والوں نے کئی سال محنت کر کے ایک سڑک تعمیر کر لی جس کے بعد یہاں پہنچنا بہت آسان ہو گیا ہے۔ شمشال جھیل خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہے لیکن دنیا کے سامنے اس کی خوبصورتی اور انفرادیت اجاگر کرنے کے لیے سرکاری یا غیر سرکاری سطح پر کچھ خاص محنت نہیں کی گئی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ صرف چند ایک غیر ملکی سیاحوں اور فوٹوگرافروں نے ہی اس منفرد جھیل کی خوبصورتی کو کیمرے سے قید کیا ہے اور دنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
pakistan-journal · 5 years ago
Text
Rawal Lake : Calm And Peaceful Lake
Rawal Lake in Pakistan is an artificial reservoir that provides the water needs for the cities of Rawalpindi and Islamabad. Korang River along with some other small streams coming from Margalla Hills have been set to form this artificial lake which covers an area of 8.8 km². Korang River is the outlet stream of Rawal Dam. Rawal Lake is located within an isolated section of the Village Malpur, Bani Gala and Margalla Hills National Park.
The area around the lake has been planted with flowering trees and laid out with gardens, picnic spots, and secluded paths. The terraced garden and the lake are used for picnics, fishing and boating. The highest point in the garden offers a panoramic view of the lake, Margalla and Murree hills, Rawalpindi and Islamabad. Boating, sailing, water skating and diving facilities are organized by private clubs. To the west of the lake is the Islamabad Club, which offers different sporting facilities.
The reservoir is of considerable importance for wintering waterfowl, especially Anas platyrhynchos.
Resident mammals include the common Fox, Pangolin, Porcupine, Jungle cat, Jackal, Wild boar and yellow-throated marten. Reptiles include Indian Cobra and Russell's Viper. It is a good place for birds watching, as the majority of Birds of Islamabad are found here.
There are 15 fish species belonging to 11 genera that are present in Rawal Lake. The fish species in Rawal lake and its tributaries include: Doula (Channa channa), Rahu (Labeorohita), Thaila (Catla catla), Mori (Cirrhinus mrigala), Carp fish (Cyprinus carpio) and Talapia (Tilapia mossambica).
0 notes
citybookpak-blog · 5 years ago
Photo
Tumblr media
Swaik Lake, Kalar Kahar. Photo by Usman Sharif
0 notes
mypakistan · 8 years ago
Text
Hanna lake frozen in Quetta
People visit the Hanna Lake after a snowfall on the outskirts of Quetta, Pakistan.
0 notes
emergingkarachi · 9 years ago
Text
کینجھر جھیل - Keenjhar Lake or Kalri Lake Thatta
رچرڈ ایف برٹن نومبر 1845ء میں کراچی سے حیدرآباد جانے کے لیے نکلا تھا۔ ساتھ میں کچھ اونٹ بھی تھے، جن پر اس کا سامان لدا ہوا تھا اور اس سفر سے کچھ زیادہ خوش نہیں تھا۔ وہ مکلی اور ٹھٹہ سے ہوتا ہوا،جاڑوں کے ابتدائی دنوں میں یہاں ’’کینجھر‘‘پہنچا تھا۔ وہ لکھتا ہے کہ یہ مچھیروں کی ایک بستی ہے، یہاں میٹھے پانی کی جھیل ہے، جس کے کناروں پر سرکنڈے، پھوس، دوب اور دوسری جنگلی گھاس اُگی ہوئی ہے۔
 یہاں سے سامنے ایک چھوٹی سی پہاڑی پر سرخ پتھر کا مزار نظر آتا ہے۔ یہ جام تماچی کی گھر والی نوری کا مزار ہے۔ ابن ِبطوطہ 1333ء میں یہاں آیا تھا یا نہیں، اس کے متعلق یقین سے نہیں کہا جا سکتا۔ البتہ کینجھر کی قدامت کے متعلق سمہ  دور حکومت (1519ء-1351ء) میں اس جھیل کا تذکرہ اور نوری جام تماچی کی   داستان کا تفصیلی ذکر سننے کو ضرور ملتا ہے۔ کہتے ہیں کہ سمہ خاندان کے ایک مشہور حاکم جام تماچی کے عہد میں کینجھر جھیل کے اردگرد بہت سے مچھیرے رہا کرتے۔ 
وہ مچھلی پکڑتے اور بیچتے، بس زندگی کے شب و روز ایسے ہی گزرتے جاتے۔ 
   کہا جاتا ہے کہ نوری کو اس کی موت کے بعد کینجھر جھیل کے وسط میں دفن کیا گیا۔ ایک قبر بھی یہاں پر موجود ہے، مگر کچھ مؤرخین کا اس بارے میں اختلاف ہے۔ 
شاہ عبداللطیف بھٹائی بھی یہاں شاید جاڑوں کے موسم میں آئے ہوں گے۔ اپنی شاعری میں کینجھر کی خوبصورتی بڑے خوبصورت انداز میں بیان کی ہے۔ ایک شعر کا لب لباب یہ ہے : ’’کینجھر میں پانی اور اوپر پانی میں جھولتی ہوئی گھاس ہے۔ کناروں پر درختوں کی قطاریں ہیں، ایسے میں جب جاڑوں کا موسم آتا ہے اور شمال کی ٹھنڈی ہوائیں لگتی ہیں ،تو کینجھر جھولنے جیسی ہوجاتی ہے‘‘۔ مگر میں جب مئی میں جھیل کے مغربی کنارے پر پہنچا ،تو مغربی جنوبی ہوائیں اپنے زوروں پر تھیں اور تیز دھوپ تھی، جس کی وجہ سے آنکھیں چندھیا سی جاتیں، اور دور دیکھنے کے لیے سر پر ہتھیلی جمانی پڑتی۔ میں پتھریلے راستے پر چلتا جاتا کہ جھیل کے کنارے کھڑے پیپل کے پیڑ کے پاس پہنچ سکوں۔
 مٹیالے رنگ کے پتھر پاؤں کے نیچے آتے اور ایسی آواز آتی، جیسے ہم مصری کی ڈلی کو من�� میں رکھ کر توڑتے ہیں۔ میں جب پیپل کے پیڑ تک پہنچا تو پسینے سے تربتر تھا۔ ہوائیں شمال کی نہیں تھیں اس لیے جھیل بھی جھولنے جیسی نہیں تھی پر کنول کے پھول تھے، جو کنارے پر کھلتے تھے اور ساتھ میں پھوس بھی تھی ،جو کنول کے پھولوں کے ساتھ اُگی تھی۔صدیوں سے یہ جھیل یہیں پر ہے البتہ 60 کی دہائی میں اس کے شمال میں دوسری چھوٹی جھیل ’’سونہیری‘‘ کو اس سے ملا دیا گیا اور کینجھر کو وسعت دی گئی، تاکہ کراچی کو اسی جھیل سے پینے کا میٹھا پانی فراہم کیا جا سکے۔ 1976ء میں اس کی پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش بڑھائی گئی اور اب کوٹری بیراج جامشورو سے کلری بگھار فیڈرکے ذریعے جھیل کو پانی کی فراہمی ہوتی ہے اور جھیل سے کراچی کو پینے کا پانی فراہم کیا جاتا ہے۔
 کینجھر کو اس وقت دو اعزاز حاصل ہیں۔ ایک یہ کہ یہ ملک کی تازہ میٹھے پانی کی سب سے بڑی جھیل ہے ،جس کی لمبائی اندازاً 24 کلومیٹر اور چوڑائی 6 کلومیٹر سے زیادہ ہے۔ یہ اندازاً 13,470 ہیکٹرز میں پھیلی ہوئی ہے اور اس کی پانی کی گنجائش 0.53 ملین ایکڑ فٹ ہے۔ دوسرا یہ کہ اس کو رامسرسائٹ ہونے کا اعزاز ملا ہوا ہے، جو اُن جھیلوں کو دیا جاتا ہے، جو ماحولیاتی حوالے سے بڑی شاندار اور مالدار ہوتی ہیں۔ ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ   کی ایک رپورٹ کے مطابق یہاں سردیوں کے موسم میں انڈس فلائی وے زون کے راستے باہر سے آنے والے پرندوں کی تعداد 1 لاکھ تک ریکارڈ کی گئی ہے اور 1977ء سے اس جھیل کو وائلڈ لائف سینکچوئری قرار دیا گیا ہے۔
 جھیل کے کنارے برگد کے گھنے پیڑ ہیں ،جن کی گھنی چھاؤں آپ کو ٹھنڈک اور سکون کی لوری دیتی ہے۔ درختوں سے لمبے لمبے گچھے لٹک رہے ہیں۔برگد کے پیڑ کی چھاؤں گھنی تھی۔بہرحال میں کینجھر جھیل کے اس حصے کی طرف چل پڑا، جہاں گرمیوں میں لوگوں کے میلے لگتے ہیں،لیکن وہاں پہنچنے سے پہلے مجھے مچھیروں کی ان چھوٹی بستیوں سے گزرنا پڑا ،جہاں چھوٹے چھوٹے کچے گھروں کے آگے ان کے چھوٹے چھوٹے کچے آنگن بکھرے پڑے تھے۔ کچھ لوگ جھیل سے پھوس کاٹ رہے تھے۔ اس کام میں ان کے بچے بھی ان کی مدد کرتے اور ساتھ میں جھیل کے پانی میں ڈبکی بھی لگالیتے۔ صبح ہوتی، شام ہوتی، اور جھیل کے کناروں پر زندگی یوں ہی تمام ہوتی۔ 
میں کچھ گھروں میں بھی گیا۔ یہ درد کی ایک الگ داستان ہے ،جو پھر کبھی سہی۔۔۔! میں کینجھر کے اس کنارے پر آیا، جہاں گرمیوں میں لوگوں کا میلہ لگتا ہے اور وہاں میلہ ہی لگا ہوا تھا۔ لہریں کنارے کو چھو کر لوٹ جاتیں۔ بچے پانی میں نہاتے۔ بڑے بھی نہاتے۔ ہزاروں لوگوں سے بھرا ہوا کینجھر کا کنارہ۔ تب مجھے کسی نے بتایا کہ پاکستان فشر فوک فورم کے چیئرمین محمد علی شاہ یہاں کسی میٹنگ کے سلسلے میں آئے ہوئے ہیں۔ 
شاہ صاحب سے ملنے کا یہ موقع غنیمت تھا۔میں نے کینجھر کی بگڑتی ہوئی ماحولیاتی صورتحال کے حوالے سے سوال کیا۔ جواب میں شاہ صاحب نے کہاکہ مچھلی کے بیج کے اہم مس��لے کے علاوہ دوسرا اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ اس جھیل کو ماحولیاتی گندگی کے ذریعہ برباد کیا جا رہا ہے۔ کوٹری اور نوری آباد کی انڈسٹریوں کا اخراج اس جھیل میں ہوتا ہے۔ کے بی فیڈر میں جو پانی آتا ہے، اس میں شہروں کی گندگی کا اخراج ہوتا ہے۔ اب ایسی حالتوں میں ہم امید کریں کہ یہ جھیل ماحولیاتی آلودگی سے پاک ہو، تو یہ ایک دیوانے کا خواب ہی ہے اور اس ماحولیاتی بربادی کا سب سے بڑا اثر مقامی ماہی گیروں پر پڑا ہے۔ صدیوں پرانی اس جھیل کے کناروں پر نہ جانے کتنے لوگ آئے اور گئے، ہنسی اور خوشی کے کتنے کنول ان کناروں پر کھلے۔ 
الوداع کے کتنے موسم آنسوؤں کی چادر اوڑھے روتی ہوئی کوئلوں کی طرح کب کے اُڑ چکے۔ پہلی نظر کی کتنی فاختائیں کب کی پھر ہو چکیں، مگر کینجھر وہیں پر ہے، اس نے اپنی دین میں کوئی کمی نہیں کی۔اس کی خوبصورتی اور دین ہزاروں برس چَلے، اس کے لیے ہم سب کو سوچنا پڑے گاکیونکہ ہم چاہتے ہیں کہ ہماری آنے والی نسلیں ان کناروں پر آئیں اور اس جھیل کی خوبصورتی کو اپنے دل میں آخری دم تک سنبھال رکھیں۔ ابوبکر شیخ
0 notes
sawattourism · 8 years ago
Text
شمالی علاقوں کی جھیلیں اور گلیشیئر
اس کیبن کے سامنے ایک نوجوان میٹرس پر دراز تھا۔ اس کے جسم پر موجود ہائی آلٹی چیوڈ جیکٹ، بیشمار جیبیں رکھنے والا کاٹن کا نیلا ٹراؤزر، کیمپ شوز اور قیمتی چشمے اسے شوقیہ ’ٹریکر‘ سے کچھ اونچی چیز ثابت کر رہے تھے۔ خدوخال سے وہ مقامی لگتا تھا ابھی میں سوچ ہی رہا تھا کہ اسے ڈسٹرب کرنا مناسب بھی ہو گا یا نہیں کہ وہ خود ہی اٹھ بیٹھا۔ ’’السلام علیکم۔ ‘‘ ’’وعلیکم السلام۔ ‘‘ میں نے گرمجوشی سے ہاتھ ملایا۔ ’’مجھے عثمان ڈار کہتے ہیں۔ ‘‘ ’’میرا نام اقبال ہے، آپ کہاں سے آئے ہیں ؟‘‘ ’’گلگت سے۔ ‘‘ ’’اچھا؟ گلگت کے باسی بھی پہاڑوں کی سیر کے شوقین ہوتے ہیں ؟ ‘‘ وہ ہنسنے لگا۔ ’’ میں اس وقت گلگت سے آیا ہوں ورنہ میں اسلام آباد کا رہنے والا ہوں۔ ‘‘
’’گلگت بھی سیر کے لئے گئے تھے؟‘‘ ’’ وہاں ملازمت کے سلسلے میں گیا تھا۔ ‘‘ ’’آپ کونسے محکمے میں ہیں ؟‘‘ ’’ ذرا غیر معروف سا محکمہ ہے، واٹر ریسورسز ریسرچ انسٹیٹیوٹ اسلام آباد۔ ‘‘ ’’میں نے یہ نام پہلی بار سنا ہے۔ ‘‘ میں نے اعتراف کیا۔ ’’ آپ کا محکمہ کیا کرتا ہے؟‘‘ ’’ہم پاکستان کے آبی ذخائر پر ریسرچ کرتے ہیں۔ آجکل ایک خاص سروے کر رہے ہیں جس میں ہم یہ اندازہ لگانا چاہتے ہیں کہ پاکستان کے شمالی علاقوں میں کتنی گلیشیئر جھیلیں (Glacier Lakes) ہیں ا ور اِن میں سے کتنی ایسی ہیں جو خطرے کا باعث ہو سکتی ہیں۔ ‘‘
’’ گلیشیئر لیک کوئی خاص قسم کی جھیل ہے؟‘‘ ’’بالکل … کچھ تو مستقل جھیلیں ہوتی ہیں جیسے نلتر جھیل، کچورا جھیل یا پھر جھیل سیف الملوک۔۔۔ ’’جبکہ کچھ جھیلیں گلیشیئر کے پگھلنے کی وجہ سے گلیشیئر کے درمیان میں بنتی ہیں اور جب پورا گلیشیئر پگھل جاتا ہے، یعنی جھیل کی دیواریں ختم ہو جاتی ہیں تو پانی بہہ نکلتا ہے اور ارد گرد کے علاقوں کو خاصا نقصان پہنچتا ہے۔ ‘‘ ’’اس کا مطلب ہے آپ اس وقت ڈیوٹی پر ہیں ؟‘‘ ’’کسی حد تک۔۔۔ ورنہ کوہ پیمائی میرا ذاتی شوق ہے۔ ‘‘ ’’اگر کسی شخص کو اس کے شوق کے مطابق ہی جاب مل جائے تو اسے اللہ تعالیٰ کی خاص کرم نوازی سمجھنا چاہئے۔ 
کیا یہاں بھی کوئی گلیشیئر جھیل ہے؟‘‘ ’’بالکل ہے اور بہت خوبصورت منظر پیش کرتی ہے۔ اگر آپ ہائی کیمپ جائیں تو یہ جھیل دیکھ سکتے ہیں۔ ‘‘ ’’ہائی کیمپ ؟‘‘ میں نے سوالیہ انداز میں پوچھا۔ ’’اس جگہ کو لوئر بیس کیمپ کہتے ہیں ، سامنے والی پہاڑی کو کراس کر لیں تو ہائی کیمپ آ جاتا ہے۔ ‘‘ اس نے ایک پہاڑی کی طرف اشارہ کیا۔ ’’بس۔۔۔ بس۔۔۔۔ ‘‘ میں نے گھبرا کر کہا۔ ’’پہاڑی کراس کرنے کا نام نہ لیں ورنہ میں بیہوش بھی ہو سکتا ہوں۔ ‘‘ عثمان ہنسنے لگا۔ ’’اقبال صاحب۔۔۔ میرا تو آپ نے پورا انٹرویو لے ڈالا اور اپنا صرف نام بتایا ہے اور وہ بھی ادھورا۔۔۔ کیا یہ زیادتی نہیں؟‘‘ ’’سوری۔۔۔ ‘‘ میں نے شرمندگی سے کہا اور اپنا تعارف کروایا۔ ’’ڈاکٹر صاحب آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی اور حیرانی بھی، میرا خیال تھا کہ ڈاکٹروں کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ وہ ٹریکنگ جیسے مشاغل اپنائیں۔ ‘‘ 
’’میں نہ تو بہت مصروف ڈاکٹر ہوں اور نہ ہی باقاعدہ ٹریکر۔۔۔۔ اور ہمارے اس سفر کو آؤٹنگ تو کہا جا سکتا ہے، ٹریکنگ کہنا بے ایمانی ہو گی۔۔۔۔۔ خیر آپ یہ بتائیں کہ کیا آس پاس کوئی اور گلیشیئر لیک نہیں ہے جسے ذرا آسانی سے دیکھا جا سکے ؟‘‘ ’’اتفاق ہے کہ یہاں اور کوئی ایسی جھیل نہیں ہے ورنہ شمالی علاقہ جات میں پانچ ہزار دو سو اٹھارہ گلیشیئر جھیلیں پائی جاتی ہیں۔ ‘‘ ’’پانچ ہزار؟۔۔۔ واقعی۔۔۔۔ آپ پانچ سو تو نہیں کہنا چاہتے؟‘‘ ’’پانچ۔۔۔ ہزار جناب۔۔ لیکن اچھی بات یہ ہے کہ صرف تریپن ایسی ہیں جنہیں آبادی کے لئے خطرناک کہا جا سکتا ہے۔ ‘‘۔ ’’اور اِس جھیل کا راستہ خطرناک ہے۔ ‘‘ میں نے حسرت سے کہا۔ ’’کاش یہ نامعقول پہاڑی راہ میں حائل نہ ہوتی۔ ‘‘ ’’خطرناک؟ نہیں نہیں ، دْشوار تو کہہ سکتے ہیں لیکن خطرناک نہیں ہے۔ ‘‘ 
’’آپ وہاں سے ہو آئے ہیں ؟‘‘ ’’میں آج وہیں سے واپس آیا ہوں۔ ‘‘ ’’آپ وہاں کتنی دیر میں پہنچے اور۔۔۔ اور آپ نے وہاں کیا دیکھا؟‘‘ ’’میں چھ گھنٹے میں وہاں پہنچ گیا تھا، پھر میں نے پنگا لے لیا۔ ‘‘ ’’کیسا پنگا؟‘‘ ’’میں نے سوچا جس راستے سے آیا ہوں اْسی سے واپس جانے کی بجائے کیوں نہ گلیشیئر عبور کر کے پہاڑی کی دوسری جانب سے نیچے اتروں۔ ‘‘ ’’پھر؟‘‘ ’’پھر یہ کہ میں چلتے چلتے بے دم ہو گیا مگر سفر ختم نہیں ہو رہا تھا۔ بالآخر مجھے یقین ہو گیا کہ میں راستے سے بھٹک گیا ہوں۔ مجھے ٹینشن ہونے لگی اور اسی ٹینشن میں ایک جگہ میں پھسل گیا۔ ‘‘ ’’پھسل گئے ؟‘‘ میں نے خوفزدہ انداز میں دہرایا۔ میں اِن راستوں پر پھسلنے کے نتائج سے کسی حد تک آگاہ تھا۔ ’’ہا ں اور نیچے انتہائی گہری کھائی تھی۔ میں تقریباً تیس چالیس میٹر نیچے سلائڈ کر چکا تھا کہ میری سٹک ایک پتھر میں اٹک گئی اور خدا کا شکر ہے کہ میں سنبھل گیا۔ پھسلنے کے بعد ذرا عقل آ گئی تھی اس لئے قطب نما کا سہارا لیا اور شکر ہے راستہ ملتا گیا … واپسی کے سفر میں مجھے گیارہ گھنٹے لگے۔
ڈاکٹر محمد اقبال ہما
0 notes
risingpakistan · 4 years ago
Text
خوبصورت جھیل خرفاق جو سیف الملوک جھیل سے کم نہیں
پاکستان خوبصورت قدرتی مناظر سے مالا مال ہے لیکن حکومتوں نے سیاحت کی طرف کم توجہ دی اور قدرتی نظاروں تک پہنچے کیلئے جو ذرائع آمد و رفت آپ کو یورپی ممالک میں ملتے ہیں وہ یہاں دستیاب نہیں ۔ یورپ میں یہی سہولت قدرتی مناظر کو دنیا بھر میں پھیلا دیتی ہے اور جوق درجوق سیاح آتے ہیں جس سے مقامی آمدن میں اضافہ ہوتا ہے۔ پاکستان میں بھی شمالی علاقہ جات قدرتی مناظر سے بھرپور ہے لیکن وہ یا تو میڈیا کی نظروں سے اوجھل ہیں یا ان تک پہنچنا مشکل ہے۔ خوبصورتی کی ایسی ہی مثال'' جھیل خرفاق ‘‘ ہے۔ شمال میں چین کی سرحد اور واخان کی پٹی سے ملحقہ پاکستان کے آخری ضلع گانچھے کی تحصیل خپلو میں واقع ہے جس تک پہنچنے کیلئے سخت ہائیکنگ کرنا پڑتی ہے۔ سکردو سے اگر خرفاق جائیں تو براہ تک پونے دو گھنٹے کا سفر ہے لیکن اگر خپلو سے جائیں تو پچیس سے تیس منٹ لگتے ہیں ۔
راستہ بہت زیادہ دشوار گزار ہے۔ جھیل سے پہلے ایک دریا آتا ہے جہاں سے ہائیکنگ اور ٹریکنگ کرنا پڑتی ہے ۔ فور بائی فور گاڑی ہی کارگر ہوتی ہے ، یہاں سفر کرنا عام گاڑی کے بس کی بات نہیں ۔ جو لوگ ہائیکنگ اور ٹریکنگ کے دلدادہ ہیں وہ خرفاق جھیل تک پہنچنے میں آسانی محسوس کرینگے کیونکہ جھیل تک پہنچنے کیلئے بہت زیادہ پیدل چلنا پڑتا ہے ۔ یہاں چٹانوں کے پہاڑ کھلے کھلے ہیں درمیان میں کافی جگہ ہے اس لئے حکومت کو چاہیے کہ وہ جھیل تک پہنچنے کیلئے سڑک تعمیر کرے تاکہ سیاحت میں اضافہ ہو سکے ۔ جھیل کا پانی اوپر پہاڑوں سے آتا ہے جب برف پگھلتی ہے تو جھیل گہری ہو جاتی ہے اور اس کا سائز بڑا ہو جاتا ہے لیکن جب پانی خشک ہوتا ہے تو جھیل سکڑ جاتی ہے ۔ جھیل کا داہانہ یا بہائو زیر زمین ہے اور اس کا پانی ایک گائوں میں جاکر نکلتا ہے ۔ 
گھنٹوں کی ہائیکنگ کرتے کرتے جب سیاح تھک جاتے ہیں تو کسی مقامی رہائشی کا کوئی کمرہ استعمال کرتے ہیں جو مقامی فرد خوشی سے دے دیتا ہے کیونکہ وہاں ٹھہرنا تھوڑی دیر کیلئے ہوتا ہے ۔ مقامی آباد ی بہت ملنسار ہے۔ جھیل سے فاصلے پر کہیں کہیں آبادیاں ہیں، دریا کے ساتھ بھی گھر بنے ہوئے ہیں لیکن راستہ دشوار گزار ہونے کی وجہ سے بہت کم لوگ اس جھیل تک پہنچ پاتے ہیں ۔ تھکے ہارے سیاح جب کئی میل کا سفر کر کے اس جھیل کے پاس پہنچتے ہیں تو اس کا نیلگوں پانی دیکھ کر اس کی طرف لپکتے ہیں جیسے اسے اپنی بانہوں میں سمو لیں گے ۔ جھیل سے پہلے چٹانوں کے ٹوٹے پتھر آپ کا استقبال کرتے ہیں ۔ لیکن اس کا شفاف پانی دیکھ کر ساری تھکن اتر جاتی ہے ۔ یہ ایک بہت خاموش اور دنیا سے ہٹ کر جگہ ہے جہاں آپ سکون محسوس کرینگے ، یہاں کوئی شور نہیں سوائے پانی کے گرنے کے یا پرندوں کے چہچہانے کے ۔ 
یہ جھیل خوبصورتی میں جھیل سیف الملوک سے کم نہیں لیکن چونکہ اس تک پہنچنا بہت دشوار ہے اس لئے سیاح عموماً یہاں کا رخ نہیں کرتے لیکن اگر حکومت توجہ دے تو اسے جھیل سیف الملوک کی طرح کا سی��حتی مقام بنایا جا سکتا ہے۔ پانی کا ٹھہرائو آپ کو کسی حسین دلربا پانی کے خوبصورت منظر کی طرف لے جاتا ہے جہاں آنے والے لوگ عجیب ہی تروتازگی محسوس کرتے ہیں۔ یہ جھیل اپنے اندر اک خوشنما احساس تو رکھتی ہی ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ دل کو غمزدہ بھی کرتی ہے کہ اتنی خوبصورت جھیل عوام کی نظروں سے کیوں اوجھل ہے۔
زونیر کمبوہ
بشکریہ دنیا نیوز  
0 notes
risingpakistan · 6 years ago
Text
رش جھیل : پاکستان کی سب سے بلند جھیل
جھیلیں پانی ذخیرہ کرنے کے ساتھ ساتھ قدرتی خوبصورتی کا باعث بھی بنتی ہیں۔ جھیلوں کا نظارہ انجانے سے سکون سے آشنا کرتا ہے۔ پاکستان میں بہت سی جھیلیں میدانی علاقوں میں پائی جاتی ہیں جن تک رسائی نسبتاً آسان ہوتی ہے۔ تاہم پہاڑی علاقوں میں پائی جانے والی جھیلوں تک عام طور پر رسائی مشکل ہوتی ہے۔ رش جھیل کا شمار انہی میں ہوتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ اس کی بلندی ہے۔ یہ سطح سمندر سے 4697 میٹر بلند ہے۔ اس کا شمار دنیا کی بلند ترین جھیلوں میں ہوتا ہے۔
یہ پاکستان کی سب سے بلند جھیل ہے۔ رش جھیل پر وادیٔ ننگر اور وادی ہوپر کے راستے پہنچا جا سکتا ہے۔ رش جھیل گلگت بلتستان کی ننگروادی میں رش پہاڑی کے نزدیک واقع ہے۔ اس کے راستے میں ہوپر اور میار گلیشیر بھی آتا ہے۔ اس سفر میں بہت سی برف پوش چوٹیوں کا نظارہ کرنے کا موقع ملتا ہے۔ جھیل خود بھی برف پوش پہاڑیوں سے گھری ہوئی ہے۔ اس علاقے کا موسم بہت سرد ہے اسی لیے جھیل سال میں تقریباً نو ماہ جمی رہتی ہے۔  
محمد اقبال
2 notes · View notes
risingpakistan · 6 years ago
Text
سدپارہ جھیل : گلگت بلتستان میں واقع ایک قدرتی جھیل
سدپارہ جھیل گلگت بلتستان میں واقع ایک قدرتی جھیل ہے۔ یہ سطح سمندر سے تقریباً ساڑھے آٹھ ہزار فٹ کی بلندی پر ہے۔ یہ شہر سکردو سے تھوڑی سی مسافت پر ہے اور شہر کو پانی کی فراہمی کا ایک ذریعہ بھی ہے۔ جھیل بہت خوبصورت ہے اور اس کا پانی میٹھا ہے۔ اس کے اطراف میں سنگلاخ چٹانیں ہیں۔ موسم سرما میں ان پہاڑوں پر برف پڑتی ہے۔ گرمیاں شروع ہونے پر یہ برف پگھلنا شروع ہوتی ہے تو اس کا پانی جھیل میں جمع ہونے لگتا ہے۔ دیوسائی نیشنل پارک سے نکلنے والے قدرتی ندی نالوں کا پانی بھی بہتا ہوا اس جھیل میں آتا ہے۔ سدپارہ بلتی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں سات دروازے۔ اس نام کی وجہ ایک دیومالائی کہانی بتلائی جاتی ہے۔
محمد ریاض
0 notes
mypakistan · 8 years ago
Text
پاکستان کی خوبصورت جھیلیں
 ڈرگ جھیل کھارے پانی کی اس جھیل کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ زمانہ قدیم میں دریائے سندھ کی گزر گاہ رہی ہوگی۔ اس پانی میں مون سون کی بارشوں اور قریب کے ندری نالوں میں داخل ہوتا ہے۔ آبپاشی کے لیے پانی کا رخ موڑنے اور آبی پودوں کی بہتات سے اس کی سطح اور رقبے میں مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے۔ بگلوں کی کئی اقسام یہاںپر افزائش نسل میں مصروف رہتی ہے ۔ سردیوں میں ہزاروں آبی پرندے جھیل پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ جھیل میں آبی پرندوں کا شکار ممنوع ہے۔ 
کینجھر جھیل میٹھے پانی کی یہ بہت بڑی جھیل ٹھٹھہ شہر سے 19 کلومیٹر شمال مشرق میں ہے۔ اس کو کلری جھیل بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ دو جھیلوں کلری اور کینجھرکو ملانے پر وجود میں آئی ہے۔ جھیل میں پانی دریائے سندھ سے نہر کے ذریعے آتا ہے ۔ جھیل کے زیریں حصے پر ایک چھوٹا سا ڈیم بنا کر پانی کو روکا گیا ہے، یہی ڈیم جھیل سے پانی کے اخراج کے کام بھی آتا ہے۔ اس کے پانی سے کراچی اور اردگرد کی آبادی کی ضروریات پوری ہوتی ہیں۔ موسم سرما میں ہزاروں پرندے ہجرت کرکے اس جھیل کو اپنا عارضی مسکن بناتے ہیں ۔ جھیل میں واقع چھوٹے چھوٹے جزیرے پرند وں کو افزائش نسل کے لیے بہترین ماحول فراہم کرتے ہیں۔ یہاں پر آبی پرندوں کا شکار بھی ممنوع ہے۔ 
ہالیجی جھیل میٹھے پانی کی ایک جھیل کے اطراف مستقل رہنے والے پانی اور اس کی خوبصورتی میں اضافہ کر دیا ہے۔ جھیل کے چاروں اطراف بند بنا کر پانی ذخیرہ کیا گیا ہے ،یہ اپنے بہترین محل وقوع اور ماحول کی وجہ سے پرندوں کی جنت کہلاتی ہے اور اس کا شمار دنیا کی بہترین جھیلوں میں ہوتا ہے۔ نقل مکانی کے موسم میں ہزاروں پرندے اس جھیل پر آ��ے ہیں۔ یہ کئی اقسام کے آبی اور دیگر پرندوں کو ان افزائش کے لیے بہترین ماحول فراہم کرتی ہے۔ جھیل کی اہمیت کے پیش نظر اس پر ہر قسم کے شکار پر پابندی ہے۔
شیخ نوید اسلم
(پاکستان کی سیر گاہیں)  
0 notes
risingpakistan · 8 years ago
Text
Hanna lake frozen in Quetta
People visit the Hanna Lake after a snowfall on the outskirts of Quetta, Pakistan.
0 notes
risingpakistan · 8 years ago
Text
پاکستان کی خوبصورت جھیلیں
 ڈرگ جھیل کھارے پانی کی اس جھیل کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ زمانہ قدیم میں دریائے سندھ کی گزر گاہ رہی ہوگی۔ اس پانی میں مون سون کی بارشوں اور قریب کے ندری نالوں میں داخل ہوتا ہے۔ آبپاشی کے لیے پانی کا رخ موڑنے اور آبی پودوں کی بہتات سے اس کی سطح اور رقبے میں مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے۔ بگلوں کی کئی اقسام یہاںپر افزائش نسل میں مصروف رہتی ہے ۔ سردیوں میں ہزاروں آبی پرندے جھیل پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ جھیل میں آبی پرندوں کا شکار ممنوع ہے۔ 
کینجھر جھیل میٹھے پانی کی یہ بہت بڑی جھیل ٹھٹھہ شہر سے 19 کلومیٹر شمال مشرق میں ہے۔ اس کو کلری جھیل بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ دو جھیلوں کلری اور کینجھرکو ملانے پر وجود میں آئی ہے۔ جھیل میں پانی دریائے سندھ سے نہر کے ذریعے آتا ہے ۔ جھیل کے زیریں حصے پر ایک چھوٹا سا ڈیم بنا کر پانی کو روکا گیا ہے، یہی ڈیم جھیل سے پانی کے اخراج کے کام بھی آتا ہے۔ اس کے پانی سے کراچی اور اردگرد کی آبادی کی ضروریات پوری ہوتی ہیں۔ موسم سرما میں ہزاروں پرندے ہجرت کرکے اس جھیل کو اپنا عارضی مسکن بناتے ہیں ۔ جھیل میں واقع چھوٹے چھوٹے جزیرے پرند وں کو افزائش نسل کے لیے بہترین ماحول فراہم کرتے ہیں۔ یہاں پر آبی پرندوں کا شکار بھی ممنوع ہے۔ 
ہالیجی جھیل میٹھے پانی کی ایک جھیل کے اطراف مستقل رہنے والے پانی اور اس کی خوبصورتی میں اضافہ کر دیا ہے۔ جھیل کے چاروں اطراف بند بنا کر پانی ذخیرہ کیا گیا ہے ،یہ اپنے بہترین محل وقوع اور ماحول کی وجہ سے پرندوں کی جنت کہلاتی ہے اور اس کا شمار دنیا کی بہترین جھیلوں میں ہوتا ہے۔ نقل مکانی کے موسم میں ہزاروں پرندے اس جھیل پر آتے ہیں۔ یہ کئی اقسام کے آبی اور دیگر پرندوں کو ان افزائش کے لیے بہترین ماحول فراہم کرتی ہے۔ جھیل کی اہمیت کے پیش نظر اس پر ہر قسم کے شکار پر پابندی ہے۔
شیخ نوید اسلم
(پاکستان کی سیر گاہیں)  
0 notes
sawattourism · 8 years ago
Text
کنڈول جھیل کے پرمسرت نظارے
یہ کنڈول جھیل ہے وادی سوات اتروڑ میں واقع یہ جھیل گلیشئر سے بنی ہے ۔ جھیل تک پہنچنے کا راستہ انتہائی دشوار گزار ہے ۔ جھیل کے علاوہ وادی کنڈول میں جنگلی پھولوں کی بہار ہے ۔ ایسے پھول جنہیں آپ نے کہیں نہیں دیکھا ہو گا۔ کنڈول جھیل کے بارے میں ایک سیاح لکھتے ہیں ’’پہاڑ عبور کیا تو وادی کنڈول ہمارے ساتھ تھی ۔ سور ج غروب ہونے کے قریب تھا اور ڈوبتے سورج کی سنہری کرنوں سے کنڈول جھیل سیال سونے کی طرح جگمگا رہی تھی ۔ فی الواقع ایک مبہوت کرنے والا منظر ہمارے سامنے تھا ۔
ایسا منظر کہ ہم پر پیچ راستے ، بلندو بالا پہاڑوں کی خوفناک ڈھلانیں ، مشقتوں سے بھرا طویل سفر ، سوجے قدموں کی تکالیف سب بھول گئے ۔ کنڈول کے پرمسرت نظارے نے دلوں کو خوشی اور مسرت سے بھر دیا۔ پہاڑوں کے درمیان دور تک پھیلی ہوئی وسیع و عریض جھیل ، جھیل کے کنارے پر برف کے بڑے بڑے گلیشئر ، جھیل تک پہنچنے والے میدان میں ہر طرف داد دیتے خوبصورت پھول، نیلے نیلے، پیلے پیلے پیراہن ۔ ہمیں جھیل سیف الملوک کے نظارے بھی ہیچ نظر آئے۔ یہاں تک آنے کے پیسے پورے ہوگئے۔ 
(ہوائوں کے سنگ اور نیٹ سے ماخوذ)   
0 notes