#ریفرنڈم
Explore tagged Tumblr posts
Text
بجلی بل ادا نہ کرنےکافیصلہ عوامی ریفرنڈم سےہوگا،حافظ نعیم
امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمان نےکہاہے کہ بجلی کے بل ادا کرنےہیں یا نہیں،فیصلہ اب عوامی ریفرنڈم کےذریعے ہوگا۔ منصورہ میں پریس کانفرنس کرتےہوئے حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ جماعت اسلامی کی حق دو عوام کو تحریک کے دوسرے مرحلہ کا اعلان کررہا ہوں۔عوام کو حقوق و ریلیف دینے کی تحریک ہے، یہ بجلی کے بلوں، پیٹرول کی قیمتوں، تنخواہوں پر ٹیکسز کےخلاف تحریک ہے۔ حافظ نعیم کا کہنا تھا کہ حکومتی وزرا…
0 notes
Text
آئینی ترمیم کیخلاف اعلیٰ عدالت اور بجلی بلوں پر عوامی عدالت جائیں گے: حافظ نعیم
(24 نیوز) امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمٰن کا کہنا ہے کہ آئینی ترمیم کیخلاف اعلیٰ عدالت اور بجلی بلوں پر عوامی عدالت جائیں گے، ملک گیر ریفرنڈم کے بعد ’حق دو عوام کو تحریک‘ کا اہم مرحلہ شروع ہو گا۔ امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمٰن نے سرگودھا میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف اعلیٰ عدالت اور بجلی بلوں پر عوام کی عدالت جائیں گے، ملک گیر ریفرنڈم کے بعد ’حق دو عوام…
0 notes
Text
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ زرداری نے کام کیا، 15 سال کے ظلم کے خلاف 8 فروری کو ریفرنڈم ہوگا، فاروق ستار
ایم کیو ایم پاکستان کے ڈپٹی کنوینر ڈاکٹر فاروق ستارکہتےہیں کہ جو حسد اور جلن سندھ کے وڈیروں اور جاگیرداروں میں ہو رہی ہے وہ 8 فروری کو اور بھڑکے گی، 8 فروری انتخابات کا نہیں ریفرنڈم کا دن ہو گا، 15 سال کے ظلم اور جبر کے خلاف،آج لوگ تقسیم کرنے والوں کے خلاف کھڑے ہو رہے ہیں۔ ہجرت کالونی میں انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ آج لوگ ظلم کے خلاف کھڑے ہو رہے ہیں، الٹی ہو گئیں سب…

View On WordPress
0 notes
Text
میاں صاحب اور اتفاقیہ سیاست

ہماری پوری سیاست ’اتفاقیہ‘، ’حادثات‘ اور ’ردعمل‘ سے بھری پڑی ہے ایک کو گرانے کیلئے دوسرے کو لایا جاتا ہے اور پھر یہ عمل اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک معاملات لانے والوں کے کنٹرول میں رہتے ہیں۔ اس ’نظریہ سیاست‘ میں تیزی 70 کی دہائی کے بعد آئی نواز شریف اور عمران خان، اس کی زندہ مثالیں ہیں۔ کل کے غدار آج کے محب وطن اور کل کے محب وطن آج غدار ٹھہرائے جارہے ہیں۔ بظاہر یہ سلسلہ رکتا نظر نہیں آرہا اور اسی لئے آنے والا وقت نہ سیاست اور نہ ہی جمہوریت کیلئے کوئی بڑی ’خوشخبری‘ لارہا ہے۔ پاکستان کی سیاست ’سانپ سیڑھی‘ کی مانند ہے کب کوئی کہاں پہنچ جائے پتا ہی نہیں چلتا۔ 1977 کے مارشل لا کے بعد محض ایک مقبول رہنما کو راستے سے ہٹانے کی خاطر اس ملک کی سیاست، صحافت اور عدلیہ کو ہی نہیں پورے معاشرے کو تباہ و برباد کر دیا گیا کیونکہ ایک فوجی آمر ایک منتخب وزیراعظم کو ہر صورت ’پھانسی‘ دینا چاہتا تھا اور وہ کامیاب ہوا۔ اس کی مقبولیت پھر بھی کم نہ ہوئی تو اسکی جماعت کو ختم کرنے کیلئے ہر طرح کے حربے استعمال ہوئے جعلی ریفرنڈم، غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات اور اس طرز سیاست نے جنم لیا۔
ایک ’اتفاقیہ‘ سیاستدان کو، جن کے پورے خاندان کو نہ سیاست میں آنے کا شوق تھا نہ لگن مگر چونکہ اس ملک کے آمر کو ضرورت تھی پنجاب کی اشرافیہ میں سے کسی کی، تو جب سندھ کا محمد خان جونیجو بھی آزاد خیال اور جمہوری مزاج کا نکلا تو سیاست کی یہ ’لاٹری‘ میاں صاحب کے حصہ میں آئی۔ ان 40 برسوں میں ہماری سیاست میں کئی ایسے مراحل آئے جب اسی ’اتفاق‘ سے جنم لینے والے میاں محمد نوازشریف نے ’ڈکٹیشن نہ لینے کا فیصلہ‘ کیا تو انکے متبادل کی تلاش شروع ہو گئی۔ اس وقت تک بھٹو کی بیٹی بے نظیر بھٹو بھی ناقابل قبول ہو گئی تھی اس لئے ایک سازش کے تحت جس کا حصہ میاں صاحب خود بھی تھے اسے 1990 میں ہٹا کر، ایک جعلی الیکشن میں ہرا کر میاں صاحب کو وزیراعظم بنا دیا گیا (یقین نہ آئے تو اصغر خان کیس پڑھ لیں)۔ 1993 میں کراچی میں ایک غیر سیاسی ریلی 14؍ اگست کو نکالی گئی جس میں مولانا ایدھی کو زبردستی لایا گیا اس میں کئی سماجی رہنما، ہاکی اور کرکٹ کے کھلاڑیوں سمیت عمران خان بھی شامل تھے۔ پھر جنرل حمید گل نے، عمران خان اور ایدھی کو ملا کر جماعت بنانے کی کوشش کی۔ ایدھی صاحب لندن چلے گئے اور بیان دیا میری جان کو خطرہ ہے وصیت بھی لکھوا دی۔

ایک بار عمران سے میں نے پوچھا تو اس نے تصدیق کرتے ہوئے کہا ’’میں شروع میں حمید گل صاحب کے خیالات سے متاثر تھا، قریب گیا پھر اندازہ ہوا معاملہ کچھ اور ہے تو الگ ہو گیا‘‘۔ موصوف گل صاحب نے میاں صاحب کی بھی سیاسی تربیت کی پھر 1988 میں IJI بنائی تاکہ بی بی کی دو تہائی اکثریت کو روکا جائے۔ لہٰذا ہماری سیاست میں ایک پروجیکٹ لایا جاتا اس سے ’دل‘ بھر جاتا ہے تو دوسرا لے آتے ہیں جب تک یہ پروجیکٹ بنانے کی انڈسٹری بند نہیں ہوتی اس ملک کی درست سمت کا تعین نہیں ہو پائے گا۔ رہ گئی بات صحافت کی وہ پہلے بھی بہت معیاری نہ تھی مگر کچھ ضابطے ضرور تھے اب تو ’صحافی اور صحافت‘ دونوں ہی ’برائے فروخت‘ ہیں۔ میاں صاحب 3 بار وزیراعظم بنے مگر ہر بار ان کی اننگ نامکمل رہی۔ سب سے اچھا موقع ان کے پاس 1997 اور 2013 میں تھا۔ جب دو تہائی اکثریت ملی 1997 میں تو وہ سنبھال نہ پائے اور غیرضروری تنازعات کا شکار ہو گئے جنرل جہانگیر کرامت کا ہٹانا یا استعفیٰ جنرل مشرف کو لانا، صدر فاروق لغاری کی جگہ رفیق تارڑ کا آنا اور پھر سپریم کورٹ اور چیف جسٹس سجاد علی شاہ سے معاملات بگڑنا رہی سہی کسر انہوں نےآئین میں ترامیم لا کر کر دی اور امیر المومنین بننے کا خواب دیکھنے لگے۔
2013 کے الیکشن تک عمران خان سیاسی افق پر ابھر چکے تھے جس کی بڑی وجہ اسٹیبلشمنٹ کا میاں صاحب پر سے اعتماد اٹھنا اور مسلسل پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) حکومت کی خراب کارکردگی تھی ،جس میں خراب گورننس، کرپشن کے ساتھ ساتھ ایجنسیوں کی مسلسل مداخلت بھی رہی۔ مگر میری نظر میں سب سے بڑی وجہ بے نظیر بھٹو کی شہادت تھی جس کے بعد آصف زرداری پی پی پی کو اس انداز میں نہ سنبھال پائے کیونکہ وہ عوامی سیاست میں کمزور ثابت ہوئے۔ 2008 سے 2013 تک پنجاب میں پی پی پی کا ووٹر پی ٹی آئی میں چلا گیا اور اب تک وہ واپس نہیں آیا۔ لہٰذا جو ’سیاسی پروجیکٹ‘ عوام کے اندر سے آتا ہے اسے راستے سے ہٹا دیا جاتا ہے بھٹو اور بے نظیر اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں جس کے بعد گویہ پی پی پی سندھ تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ میاں صاحب کی تیسری اننگز کی ناکامی کی وجہ ان کا عمران کے مطالبے پر چار حلقے نہ کھول کر غیرضروری طور پر ان قوتوں کو موقع دینا تھا جو پہلے ہی ان سے ناخوش تھیں دوسری بات 2016 میں پانامہ لیک کے بعد جس میں ان کا نہیں مگر بیٹوں کا نام ضرور تھا اگر وہ اخلاقی طور پر استعفیٰ دے کر نئے انتخابات کی طرف جاتے یا خود کسی دوسرے کو وزیراعظم نامزد کرتے تو وہ زیادہ طاقتور بن کر سامنے آتے۔
تیسری بڑی غلطی پارلیمنٹ میں جانے کے بجائے سپریم کورٹ جانا اور پھر JIT کا بائیکاٹ نہ کرنا تھا۔ رہ گئی بات مینار پاکستان پر تقریر میں کہنے کی کہ 23 سال آپ یا تو جیل میں رہے یا جلاوطن یا مقدمات تو 2000 میں بھی آپ نے خود جلاوطنی کا آپشن لیا اور 2020 میں بھی ورنہ اگر ملک میں رہتے جیل ہو یا نظربندی تو آج آپ کو اپنے ہی ہوم گرائونڈ لاہور میں سیاسی طور پر ان مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔میاں صاحب اب اپنی چوتھی اور غالباً سیاسی طور پر آخری اننگز کا آغاز کر رہے ہیں اس بار وہ مقدمات اور نا اہلی کو ختم کروا کر ہی اس کا آغاز کرسکتے ہیں۔ اس ملک میں تباہی کی جتنی ذمہ دار عدلیہ ہے شاید ہی کوئی دوسرا ادارہ ہو۔ میاں صاحب کے خلاف 2017 کا فیصلہ غلط ہو سکتا ہے مگر تاحال یہ دو تلواریں تو موجود ہیں۔ ایک آخری درخواست یہ سارے پروجیکٹ بنانے والوں سے، خدارا خود ہی غور کریں اگر کوئی پروجیکٹ لاتے ہیں تو اسے چلنے تو دیا کریں، یہ چھوٹے بڑے پروجیکٹ ہر چند سال بعد لاکر ملک کی سیاست کو کہاں لاکھڑا کیا؟ اگر یہ سمجھتے ہیں کہ یہی طریقہ ہے سمت کے تعین کا تو آپ تاریخی غلطی کر رہے ہیں۔ غلطی کو سدھارنے کا درست طریقہ یہی ہے کہ جمہوری نظام کو آگے بڑھنے دیں سب اپنے اپنے حصے کا کام کریں۔ اس ’سانپ سیڑھی‘ کے کھیل کو ختم کریں ورنہ نہ معیشت آگے جائیگی نہ سیاست، ایسے میں ریاست ہو گی بھی تو کیسی؟۔
مظہر عباس
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
کیا ہماری قسمت میں یہی لوگ بچے ہیں؟

اس خطے کے عوام کو بس دو بار اپنے اظہار کا حقیقی موقع ملا۔ پہلی بار 1947 میں، جب اُن سے پوچھا گیا کہ نیا ملک چاہیے یا نہیں۔ انھوں نے کہا کیوں؟ جواب ملا تاکہ تم استحصال سے پاک ایک پُرامن آزاد زندگی بسر کر سکو۔ لوگوں نے کہا ٹھیک ہے، یہ بات ہے تو بنا لو پھر نیا ملک۔ دوسری بار دسمبر 1970 میں پوچھا گیا کہ تمہیں ایسا ہی ملک چاہیے جیسا چل رہا ہے یا کچھ اور چاہتے ہو؟ عوام نے کہا کچھ اور چاہتے ہیں۔ بالکل ویسا جیسا کہ ڈیل کرتے ہوئے وعدہ کیا گیا تھا۔ ان سے کہا گیا کہ وہ تو پرانی بات ہو گئی۔ رات گئی بات گئی۔ تمہاری بھلائی کس میں ہے یہ تم سے زیادہ ہم جانتے ہیں۔ جیسا تم چاہتے ہو ویسا ملک تو نہیں ملے گا، لہذا جیسا ہم چاہتے ہیں ویسا ہی تم بھی چاہو۔ عوام نے کہا تو پھر تمہاری ایسی کی تیسی۔ ان دو مواقع کے سوا یاد نہیں کہ عوام سے کب اور کس نے رجوع کیا ؟ تو کیا اس ملک میں انتخابات ایک درجن سے زائد بار نہیں ہوئے؟ جی ہاں ہوئے؟ کیا یہاں پونے دو درجن حکومتیں تبدیل نہیں ہوئیں؟ یقیناً ہوئیں۔ تو پھر تم کیسے کہہ سکتے ہو کہ عوام سے سوائے دو بار کے کبھی نہیں پوچھا گیا؟
اب جب آپ نے یہ سوال اٹھا ہی دیا ہے تو پھر جواب بھی تحمل سے سنیے۔ پہلی قانون ساز اسمبلی اور ستر کی قانون ساز اسمبلی تو ہماری مرضی سے بنی۔ کوئی تیسری قانون ساز اسمبلی ہماری مرضی سے بنی ہو تو بتائیے۔ پہلی نے ہمیں ملک دیا اور ستر والی نے آئین۔ دیگر اسمبلیوں نے دُکھ یا ربر سٹیمپ کے سوا کیا دیا۔ تراکیب و استعاروں میں تو ویسٹ منسٹر ڈھانچے کی خوب ��قالی کر لی۔ یہ عدلیہ ہے تو یہ ایوانِ بالا و زیریں ہے تو یہ کابینہ ہے اور یہ ہے آئینی دستاویز۔ مگر اس نظام کو چلانے کے لیے جو جمہوری روح درکار ہے وہ کہاں ہے۔ آپ کہتے ہیں ووٹر کو ضمیر کی آواز پر کُھلے ذہن سے سوچ سمجھ کے اپنا نمائندہ چننا چاہیے۔ لیکن اسی ضمیر کی آواز پر منتخب ہونے والا نمائندہ اپنا ضمیر گروی رکھنے پر مجبور ہے۔حالانکہ یہ سب کے سب صادق اور امین ہیں۔ یعنی عوام جو ووٹ حقیقی جمہوریت کی آس میں دیتے ہیں وہی ووٹ اوپر جا کر ایک غلام پارلیمانی پارٹی کی صورت میں پارٹی سربراہوں کی آمریت میں بدل جاتا ہے۔

گویا کسی ایک ڈکٹیٹر سے بچنے کے چکر میں پورا نظام آٹھ، دس منتخب یا نامزد پارلیمانی ڈکٹیٹرز کا غلام بن جاتا ہے اور وہ بھی قانون کی بھرپور پشت پناہی کے ساتھ۔ اور پھر ان آٹھ، دس ڈکٹیٹرز کو پردوں کے پیچھے بیٹھا سپر ڈکٹیٹر ریموٹ کنٹرول پر چلاتا ہے۔ یوں عوام کا من و رنجن ایک کورئیو گرافڈ پتلی تماشے سے ہوتا رہتا ہے۔ کہانی بھی اس کی، ڈور بھی اس کی، پتلی بھی اس کی۔ سندھی کا محاورہ ہے ’واردات بھی جہان خان کی اور فیصلہ بھی جہان خان کا‘ اور وہ بھی وسیع تر قومی مفاد کے نام پر۔ آپ کو ثبوت چاہیے؟ کیا سرد جنگ کی ابتدا ہی میں امریکہ کا میلا اٹھانے کا فیصلہ عوام سے پوچھ کے ہوا تھا؟ کیا فالج زدہ غلام محمد اور لومڑ صفت اسکندر مرزا کو عوام نے منتخب کیا تھا؟ کیا ون یونٹ کا مطالبہ عوام نے کیا تھا؟ کیا اعلی عدلیہ نے نظریہ ضرورت کا عدالتی بم اس ملک کے سیاسی مستقبل پر عوام کے وسیع تر مفاد میں گرایا تھا؟ کیا جنرل ایوب خان کو مشرقی و مغربی پاکستان کے ایک ملین لوگوں نے پیٹیشن بھیجی تھی کہ خدا کے واسطے ہمیں کرپٹ نظام سے مارشل لا کے ذریعے نجات دلاؤ۔
کیا باسٹھ کا صدارتی آئین کسی منتخب رہنما نے کسی عوامی ریفرنڈم میں منظور کروایا تھا؟ کیا یہ لوگوں کی فرمائش تھی کہ ہمیں مغربی طرز ِجمہوریت نہیں بلکہ بنیادی طرزِ جمہوریت درکار ہے۔ کیا پینسٹھ کی جنگ عام آدمی کی بنیادی ضرورت تھی؟ کیا یحیی خان نے ایوبی آمریت کے خلاف ایجی ٹیشن کرنے والوں کی تائید سے مارشل لا لگایا؟ ستر میں عوام کو رائے دینے کی تو انتخابی آزادی ملی لیکن پھر رائے کی دھجیاں ملک کے کون سے عظیم تر مفاد میں اڑا دی گئیں۔ جو قتل ہوئے ا�� میں سے کون کون ووٹر نہیں تھا؟ جنھوں نے مارا ان میں سے کون کون ووٹر نہیں تھا؟ جنھوں نے مروایا ان میں سے کون کون ووٹر نہیں تھا؟ بھٹو کو پھانسی عوام کے پرزور مطالبے پر دی گئی؟ افغان خانہ جنگی میں اگر ضیا الحق نہ کودتا تو کیا عوام اس کا تختہ الٹ دیتے؟ جماعتی کی جگہ غیر جماعتی نظام کیا جمہوریت کو آگے لے کے گیا یا رہا سہا ستر بھی چاک کر گیا؟
پروڈا، ایبڈو، ڈی پی آر، اٹھاون ٹو بی، اے ٹی اے، نیب، صادق اور امین، جبری گمشدگیاں، محکمہ زراعت، آر ٹی ایس، سلیکٹڈ، امپورٹڈ۔ کیا ہماری قسمت میں یہی ہے؟ جہادی کلچر ریاست نے عوام کو دیا یا عوام میں خود بخود پنپا؟ فرقہ واریت کا وائرس کسی نصابی لیبارٹری میں تیار کر کے رگوں میں اتارا گیا یا پہلے سے ہی ہر پاکستانی کے ڈی این اے میں تھا؟ قرضے عوام کے نام پر عوام کے لیے کس نے لیے۔ ان میں سے کتنے عوام پر اور کتنے اشرافی فیصلوں اور فصیلوں کی تعمیر پر لگے؟ یہ قرضے کون چکائے گا؟ باجوہ، عمران، شہباز، اسحاق، زرداری یا وہ سکیورٹی گارڈ جو پندرہ ہزار روپے تنخواہ میں سے بھی ہر شے پر براہ راست یا بلاواسطہ ٹیکس دے رہا ہے۔ دس دس لاکھ روپے پنشن پانے والے مفلوک الحال تو اعزازی گاڑی، سکیورٹی، رہائش، کوڑیوں کے مول کروڑوں کے پلاٹ، ٹول ٹیکس کی معافی، اشرافی کلب میں مفت کے بھاؤ لنچ، ڈنر، گالف، بہترین ملکی و غیرملکی طبی سہولتوں کے قانونی حق دار بن کے فصیلی کالونیوں میں رہیں اور عوام اپنے لیے صبح سے شام تک ایک ایک لمحہ خریدیں اور اسحاق ڈاروں کی مسلسل خوش خبریوں کی اذیت بھی سہیں جمہوریت، آمریت، مستقبل گئے بھاڑ میں۔ یہ بتائیے 22 کروڑ میں سے اکیس کروڑ ننانوے لاکھ انسانوں کا اب کیا کرنا ہے کہ جن کی اوقات کچرا برابر کر دی گئی ہے؟ ان میں سے کتنوں کو ٹائی ٹینک سے اُتاری جانے والی کشتیوں میں جگہ یا لائف جیکٹ یا کوئی ٹوٹا تختہ مل سکے گا؟
وسعت اللہ خان
بشکریہ بی بی سی اردو
#Constitution#Democracy#Pakistan#Pakistan History#Pakistan Parliament#Pakistan Politics#Politics#World
0 notes
Text
کشمیری پاکستان کیساتھ رہنا چاہتے ہیں یا آزاد، ہم ریفرنڈم کرائیں گے: وزیراعظم
کشمیری پاکستان کیساتھ رہنا چاہتے ہیں یا آزاد، ہم ریفرنڈم کرائیں گے: وزیراعظم
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے ذریعے عالمی برادری نے کشمیری عوام کو حق خود ارادیت دینے کا وعدہ کیا ہے۔ میری حکومت ریفرنڈم کرائے گی تاکہ کشمیر فیصلہ کریں کہ وہ پاکستان کیساتھ یا آزاد رہنا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جن لوگوں کی آزاد کشمیر میں حکومت ہے وہی دھاندلی کا شور مچا رہے ہیں۔ ن لیگ کو اپنے ایمپائرز کے ساتھ کھیلنے کی عادت ہے، انہوں نے آج تک…

View On WordPress
0 notes
Text
ذمہ دار بزنس انیشی ایٹو: سوئٹزرلینڈ کے ریفرنڈم سے عالمی اداروں کو انسانی حقوق کی پامالی کے لئے ذمہ دار بنایا جاسکتا ہے
ذمہ دار بزنس انیشی ایٹو: سوئٹزرلینڈ کے ریفرنڈم سے عالمی اداروں کو انسانی حقوق کی پامالی کے لئے ذمہ دار بنایا جاسکتا ہے
اس سوال نے اتوار کو ہونے والے ریفرنڈم سے پہلے ہی ملک کو تقسیم کردیا ہے ، اور اس سے ملٹی نیشنل کمپنیوں جیسے دوررس نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ نیسلے (NSRGY) اور کان کنی دیو گلینکور (جی ایل سی این ایف). ذمہ دار بزنس انیشی ایٹو کے حامیوں نے ملک بھر میں بالکونیوں اور باڑوں کے بینرز اور نشانات لٹکا دیئے ہیں۔ دریں اثنا ، سوئس بینکوں اور دیگر طاقتور کاروباروں نے مہنگے اخبارات کے اشتہار نکالے ہیں جو معیشت کے…

View On WordPress
#اداروں#انسانی#انیشی#ایٹو#بزنس#بنایا#پامالی#جاسکتا#حقوق#دار#ذمہ#ریفرنڈم#سوئٹزرلینڈ#سے#عالمی#کو#کی#کے#لئے#ہے
0 notes
Text
نیوزی لینڈ میں خالصتان کی آزادی کیلئے ریفرنڈم
نیوزی لینڈکےشہر آکلینڈ میں خالصتان کی آزادی کیلئے منعقد ریفرنڈم میں ووٹنگ کا عمل مکمل ہوگیا۔ ووٹنگ کاعمل شروع ہونےسےپہلے ہی لوگوں کی طویل قطاریں لگ گئیں تھی جس کےسبب ریفرنڈم کےمقررہ وقت میں ایک گھنٹے ااضافہ کرناپڑا،خالصتان ریفرنڈم میں شرکت کیلئے دیگر شہروں سے بھی سکھ کمیونٹی کی بڑی تعدادآکلینڈپہنچی تھی۔ غیر ملکی میڈیا کےمطابق ووٹ ڈالنےکیلئے آئےافراد نےبھارت کیخلاف نعرے بازی بھی کی جبکہ ووٹنگ…
0 notes
Text
نیوزی لینڈ نے ایک لازمی ریفرنڈم میں صغیر کو قانونی حیثیت دینے کے حق میں ووٹ دیا ، اور چرس کو "نہیں" کہا
نیوزی لینڈ نے ایک لازمی ریفرنڈم میں صغیر کو قانونی حیثیت دینے کے حق میں ووٹ دیا ، اور چرس کو “نہیں” کہا

نیوزی لینڈ کے عوام نے ایک لازمی ریفرنڈم میں ایتھنس کو قانونی حیثیت دینے کے حق میں ووٹ دیا تھا ، لیکن جمعہ کو جاری ابتدائی نتائج سے معلوم ہوا ہے کہ اس سے تفریح کے لئے چرس کے استعمال کو قانونی حیثیت نہیں دی جائے گی۔
تقریبا 83 83 فیص�� ووٹوں کی گنتی کے ساتھ ، نیوزی لینڈ کے لوگوں نے 65 فیصد کے حق میں اور 34 فیصد کے خلاف ووٹوں کی حمایت کی۔
چرس پر “نہیں” کا ووٹ بہت قریب تھا ، تفریحی استعمال کے ل…
View On WordPress
0 notes
Text
فاروق ستار نے حساس پولنگ سٹیشنز پر فوج کی تعیناتی کا مطالبہ کردیا
ایم کیو ایم کے رہنما فاروق ستار نے حساس پولنگ سٹیشنز پر فوج کی تعیناتی کا مطالبہ کردیا۔ کراچی کے علاقے شاہ رسول کالونی میں انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے فاروق ستار نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو 15سال کا حساب پیپلزپارٹی سے مانگنا چاہیے،ہمارا مطالبہ ہے حساس پولنگ اسٹیشنز پر فوج کو تعینات کیا جائے، یہ انتخابات نہیں ریفرنڈم ہے جس میں ایم کیو ایم کے امیدواروں کو بھاری کامیابی ہوگی۔ فاروق ستار نے کہا کہ…

View On WordPress
0 notes
Text
سیاست کا گجر نالہ
کراچی میں بارش ہو اور ’’گجر نالے‘‘ کا ذکر میڈیا پر نہ آئے یہ ممکن نہیں۔ ہر سال اس کی نام نہاد صفائی افسران کی کمائی کا دھندہ ہوتی تھی۔ اس بار لگتا ہے صفائی کچھ لمبی ہونے جارہی ہے۔ مگر کیا یہ گند دوبارہ نہیں آسکتا کہنا مشکل ہے۔ بہرحال اس بار وزیر اعظم نے مداخلت کر کے یہ کام NDMA اور FWO کو دیا ہے۔ دیکھیں وہ کیا کارنامہ کرتے ہیں۔ ہماری سیاست بھی اس نالہ کی مانند ہوتی جارہی ہے جہاں ہر طرح کا گند جمع ہو چکا ہے۔ یہ کام ویسے تو خود سیاسی جماعتوں کو کرنا چاہئے تھا تاکہ سیاست صاف ہوتی مگر اب نیب نے انجینئرز رکھ کر ’’انجینئرنگ‘‘ سے یہ صفائی مہم شروع کی ہوئی ہے۔ ہماری سیاست کی بھی عجب کہانی ہے۔ یہاں لیڈر جماعت سے زیادہ بڑا ہوتا ہے۔ وہ پارٹی کو جواب دہ نہیں ہوتا ورنہ تو سیاست میں گند جمع ہی نہ ہوتا۔ سیاست میں ’’لوٹے‘‘، ’’گندے انڈے‘‘، ’’وفاداریاں راتوں رات تبدیل کرنیوالے ‘‘ یہ سب اس گند کی وجہ سے ہے جس کی پارٹیوں نے حوصلہ افزائی کی۔ ایک وقت تھا جب لوگ سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں جیل جاتے تھے۔
قابل اعتراض لٹریچر، رسائل چھاپنے اور تقسیم پر سزا ہوتی تھی، پریس سیل ہو جاتا تھا۔ اب اربوں اور کھربوں کی کرپشن، ذخیرہ اندوزی، چینی اور گندم زیادہ بیچنے پر مقدمہ درج ہوتا ہے۔ پارٹیوں میں احتساب کا کلچر پروان ہی نہیں چڑھنے دیا گیا۔ باہر والے بھی موقع کی تلاش میں رہتے ہیں۔ صفائی کے نام پر آتے ہیں اور پھر کچھ گند کو نئے برانڈ کے ساتھ لے آتے ہیں۔ بدقسمتی سے یہ سیاسی گند لانے والے وہی لوگ ہیں جن کو بعد میں صفائی کا کام مل جاتا ہے۔ آتے ہیں تو سیاست ہی کی صفائی کرجاتے ہیں۔ ہوتی تھی کبھی سیاست اور سیاسی کلچر۔ ایسے ہی تو نہیں ایک زمانے میں فیض احمد فیض، سجاد ظہیر، مولانا مودودی، مولانا مفتی محمود، مولانا شاہ احمد نورانی، خان عبدالغفار خان، ولی خان، غوث بخش بزنجو، ذوالفقار علی بھٹو، مولانا بھاشانی، حسین شہید سہروردی، خواجہ ناظم الدین، محترمہ فاطمہ جناح جیسے لوگ سیاست میں تھے۔
نواب زادہ نصر اللہ خان، پروفیسر غفور، بیگم نصرت بھٹو، بے نظیر بھٹو۔ اختلاف اور شدید اختلافات کے باوجود احترام کا رشتہ برقرار رہتا تھا۔ سیاست میں ’’لوٹوں‘‘ کا کلچر آمرانہ خاص طور پر جنرل ضیا الحق کے دور میں آیا اور پروان چڑھا۔ جعلی ریفرنڈم کے ذریعہ مذہب کا نام استعمال کر کے اقتدار کو طول دیا گیا۔ یہ سیاست میں ’’گجر نالے‘‘ کی ابتدا تھی۔ پھر تو کچرہ جمع ہوتا چلا گیا۔ وقت کے ساتھ گندے انڈوں میں اضافہ ہوتا گیا اور پھر انڈوں کے بچے بھی گندگی ہی پھیلاتے گئے۔ جب سوال ہوتا کہ بھائی ان پر تو داغ لگا ہوا ہے تو جواب آتا ’’بھائی، داغ تو اچھے ہوتے ہیں!‘‘ 1985ء کی اسمبلی ایسے ہی معرض وجود میں آئی، اسلامی جمہوری اتحاد ایسے ہی بنا، اقتدار بھی ایسے ہی ملا۔ اب کیا محمد خان جونیجو اور کیا بے نظیر بھٹو۔ صفائی کرنے والے جب چاہتے ہیں سیاست دانوں کو گندا کہہ کر صفائی کر دیتے ہیں اور پھر انہی میں سے کچھ لوگوں کو واپس لا کر وہی جملہ دہراتے ہیں کہ، ’’داغ تو اچھے ہوتے ہیں‘‘۔
چلیں کچھ مثالیں دیتا چلوں تاکہ آپ کو سمجھ آجائے کہ سیاست کا گجرنالہ صاف کیوں نہیں ہوتا۔ 1990ء میں پی پی پی کی حکومت برطرف کی گئی تو نگراں وزیر اعظم غلام مصطفیٰ جتوئی اور سندھ کے نگراں وزیر اعلیٰ جام صادق علی بنے جب بے نظیر بھٹو جام کو کابینہ میں شامل کر رہی تھیں تو ایک ادارے نے رپورٹ دی کہ اس کا تعلق بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ سے ہے۔ بعد میں جام نے پی پی پی کے لوگوں کو ’’را‘‘ سے تعلق کے الزام میں بند کر دیا۔ اس وقت جناب امتیاز شیخ ان کے دست راست تھے۔ ماشاء اللہ آج وہ آصف زرداری صاحب کے ساتھ ہیں۔ جتوئی صاحب شریف آدمی تھے۔ شاید پی پی پی نہ چھوڑتے اگر بیٹے کے خلاف MRD کی تحریک میں قتل کا مقدمہ نہ بنتا اور ان پر دبائو نہ ڈالا جاتا۔ جام کی حکومت 1990ء میں الیکشن کے بعد بنی تو صفائی کرنے والوں نے پوری کی پوری ایم کیو ایم ان کے حوالے کر دی۔ کچھ عرصے بعد ’’نالہ‘‘ بھر گیا تو خود ہی صفائی کا عمل شروع کروا دیا۔
جام کا انتقال ہوا تو مظفر حسین شاہ کی حکومت بنانا مسئلہ ہو گیا کیونکہ ایم کیو ایم الگ ہو گئی تھی۔ لہٰذا ’’تھپکی‘‘ کا کام شروع ہو گیا اور بہت سے انڈے ان کے سپرد کر دئیے گئے۔ اسے کہتے ہیں ’’کمال سیاست‘‘ خود ہی گندگی کرو اور خود ہی صفائی۔ گندے انڈے ایک پلڑے سے دوسرے پلڑے میں کیسے ڈالے جاتے ہیں یہ ہم 1985ء سے دیکھ رہے ہیں۔ ایک بار تو پوری پنجاب اسمبلی کی اکثریت راتوں رات بدل گئی۔ سندھ میں یہ تجربات اکثر ہوتے ہیں۔ چند سیٹوں کی جماعتوں کی جھولی میں دیکھتے ہی دیکھتے اکثریت ڈال دی جاتی ہے۔ جام صادق، علی محمد مہر، مظفر حسین شاہ وغیرہ کی حکومتیں ایسے ہی نہیں بنیں۔ ماشاءاللہ جن کی اکثریت تھی یعنی پی پی پی انہوں نے بھی کبھی اپنے اندر کی گندگی صاف نہیں کی بلکہ اپنے خلاف زہر پھیلانےوالوں کو وزارتیں دیں۔
ہمارے وزیر اعظم عمران خان بھی یہ عزم لئے میدان میں آئے تھے کہ وہ سارا گند صاف کریں گے مگر حکومت ملی تو آدھا گند ان کے پلڑے میں تھا۔ اب ذرا سوچیں جو جماعتیں اور رہنما اس گندگی کی پیداوار ہوں وہ اتحادی بنیں گے تو صفائی کرنے کے لئے نہیں بلکہ ’’تعفن پھیلانے‘‘ کے لئے۔ اب تو دم گھٹنے لگا ہے۔ فیض احمد فیض تو راولپنڈی سازش کیس کے بعد یہ کہتے ہوئے پیچھے ہٹ گئے کہ ؎’’چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کر چلے‘‘ اور آج تک یہی ہو رہا ہے۔ سیاست کو اگر واقعی گندگی سے صاف کرنا ہے تو جماعتوں کو رہنمائوں سے بڑا بننا پڑے گا۔ حساب کتاب کرنا پڑے گا۔ ’’پہلے احتساب پھر انتخاب‘‘ کے نعرہ سے لے کر آج تک صرف صفائی کا نام استعمال ہوا ہے۔ صفائی انجینئرز کا کام نہیں ’’خاکروب‘‘ کا ہوتا ہے۔ انجینئر تو انجینئرنگ کر سکتا ہے۔ مجھے تو خدشہ ہے کہ اگر سیاست دانوں نے یہ کام نہ کیا تو یہ کام بھی کہیں NDMA کو نہ مل جائے۔
مظہر عباس
بشکریہ روزنامہ جنگ
1 note
·
View note
Text
نیوزی لینڈ کے انتخابات میں جیسینڈا آرڈرن کی ’تاریخی جیت‘
نیوزی لینڈ کے پارلیمانی انتخابات میں وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن کی لیبر پارٹی نے واضح کامیابی حاصل کر لی ہے۔ یوں آرڈرن کے لیے دوسری مرتبہ بھی وزیر اعظم بننے کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔ اس مرتبہ کے انتخابات میں آرڈرن کا مقاب��ہ دائیں بازو کی قدامت پسند رہنما جوڈتھ کولنز سے تھا۔ تاہم کولنز کی جماعت لیبر پارٹی سے 27 فیصد نشستیں حاصل کر پائی۔ لیبر پارٹی نے قریب 50 فیصد نشستیں حاصل کی ہیں۔ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ پارلیمان میں بائیں بازو کے اتحاد کو واضح اکثریت حاصل ہوئی ہے۔ قبل ازیں نیوزی لینڈ میں عام انتخابات کے لیے سنیچر 17 اکتوبر کی صبح مقامی وقت کے مطابق نو بجے پولنگ مراکز کھولے گئے اور لوگ بڑی تعداد میں ووٹ ڈالنے نکلے تھے۔ ملک میں تقریبا 35 لاکھ رجسٹرڈ ووٹرز ہیں جن میں سے تقریباﹰ نصف رائے دہندگان اپنا ووٹ پہلے ہی ڈال چکے تھے۔ کورونا وائرس کی وجہ سے یہ انتخابات تقریباﹰ ایک ماہ کی تاخیر سے ہو رہے ہیں۔ طے شدہ پروگرام کے تحت عام انتخابات کے لیے 19 ستمبر کو ووٹنگ ہونا تھی تاہم کووڈ 19 کی وجہ سے انہیں 17 اکتوبر تک کے لیے مؤخر کردیا گيا تھا۔
جیسنڈا آرڈرن دوسری مرتبہ بھی وزیر اعظم وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن دوسری بار تین برس کی معیاد کے لیے ملک کی قیادت سنبھالنے کے مقصد سے میدان میں اتری تھیں جبکہ ان کا مقابلہ اپوزیشن 'نیشنل پارٹی‘ کی رہنما جوڈتھ کولنز سے تھا۔ پولنگ سے پہلے کے مختلف جائزوں میں بتا دیا گیا تھا کہ آرڈرن کی جماعت لیبر پارٹی انتخابات میں دوبارہ کامیاب ہو جائے گی۔حکومت سازی کے لیے پارلیمان کی 61 نشستوں پر کامیابی ضروری ہوتی ہے ورنہ اکثریت نہ ملنے کی صورت میں دوسری جماعتوں کے ساتھ ملکر مخلوط حکومت بنانا پڑتی ہے۔ ملک میں سن 1996 میں پارلیمانی طرز حکومت کو اپنایا گيا او اس وقت سے اب تک کسی بھی جماعت کو انتخابات میں واضح اکثریت نہیں حاصل ہوئی ہے۔ تاہم لیبر پارٹی پہلی مرتبہ ایسا کرنے میں بھی کامیاب رہی ہے۔ نیوزی لینڈ میں قانون کے مطابق پولنگ کے دوران میڈیا کوریج اور سیاسی اشتہارات پر مکمل پابندی عائد ہے۔ پولنگ کے بعد ایگزٹ پول کی بھی اجازت نہیں ہے اس طرح ووٹنگ مکمل ہونے پر گنتی کے بعد ہی نتائج آنا شروع ہوتے ہیں۔
بھنگ اور ایتھنیزیا پر ریفرنڈم 40 سالہ وزیر اعظم جسینڈا آرڈرن کی جانب سے کورونا وائرس کی وبا اور کرائسٹ چرچ کی مسجد میں فائرنگ جیسے واقعات سے نمٹنے کی کوششوں کو کافی سراہا گيا ہے۔ لیکن 61 سالہ حزب اختلاف کی رہنما جوڈتھ کولنز کا کہنا ہے کہ ایسے وقت جب وبا کے خطرات کے سائے میں ملک معاشی مندی کی مار جھیل رہا ہے، وہ ملک کو بہتر سمت میں لے جانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ ان انتخابات کے ساتھ ملک میں گانجے یا بھنگ کے استعمال اور ایتھنیزیا (یعنی لا علاج بیماری کی صورت مریض کی خواہش کے مطابق نجات دینے کے لیے مریض کو آرام کی موت دینے) پر قانون بنانے کے حوالے سے بھی ریفرنڈم کرایا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے گزشتہ برس ایک ایکٹ پاس کیا گيا تھا اور اب عوام سے پوچھا گيا ہے کہ کیا اسے قانون بننا چاہیے یا نہیں۔ اس ریفرنڈم کے نتائج 30 اکتوبر سے پہلے نہیں جاری کیے جائیں گے۔
بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو
1 note
·
View note
Text
خالصتان ریفرنڈم کی رجسٹریشن، مودی حکومت کی نیندیں حرام ہوگئیں
خالصتان ریفرنڈم کی رجسٹریشن، مودی حکومت کی نیندیں حرام ہوگئیں
نئی دہلی (این این آئی) دنیا بھرکی سکھ تنظیموں کی طرف سے 4جولائی سے خالصتان کے لیے ریفرنڈم ٹوئنٹی 20 کی رجسٹریشن شروع کرنے کے اعلان سے بھارتی حکومت کی پریشانیوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔سکھوں کے لئے علیحدہ ملک خالصتان کی تحریک سے جڑی دنیابھرکی سکھ تنظیموں خاص طور پر سکھ فار جسٹس نے 4 جولائی سے خالصتان کے لئے ریفرنڈم ٹوئنٹی 20 کی رجسٹریشن شروع کرنے کا اعلان کیا ہے جب کہ ریفرنڈم کے لئے ووٹنگ نومبر2020…
View On WordPress
0 notes
Photo

مصری ریفرنڈم کے نتائج کا اعلان، السیسی کو 2030 تک اقتدار مل گیا #Egyptians #Approve #Extension #President #Sisis #Rule #aajkalpk قاہرہ: مصر میں الیکشن کمیشن نے ریفرنڈم کے نتائج کا اعلان کردیا جس کے تحت فوجی صدر السیسی کی سنہ دو ہزار تیس تک اقتدار میں رہنے کی راہ ہموار ہوگئی۔
0 notes
Text
وکلا ایکشن کمیٹی کاملک گیر تحریک شروع کرنے کا عندیہ
وکلا ایکشن کمیٹی نےسپریم کورٹ باراورپاکستان بار کونسل نے26ویں آئینی ترمیم کے معاملے پر ملک بھرمیں ریفرنڈم کروانےکا مطالبہ کرتےہوئے وکلا تحریک شروع کرنےکاعندیہ دےدیا۔ وکلا کےاجلاس کےبعد ایڈووکیٹ منیر اےملک کی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وکلا تحریک چلے گی نہیں چلے گی اس پرہم وکلا سرجوڑ کر بیٹھے ہیں، تحریک کی رفتارکیا ہوگی سلوہوگی تیز ہوگی اس پرغور کیا گیا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ سپریم کورٹ…
0 notes
Text
آج کا جلسہ عوامی ریفرنڈم، لاڈلے کو منہ چھپانے کی جگہ نہیں ملے گی: نواز شریف
Urdu News on https://goo.gl/iZTa21
آج کا جلسہ عوامی ریفرنڈم، لاڈلے کو منہ چھپانے کی جگہ نہیں ملے گی: نواز شریف
سابق وزیر اعظم نے جلسے سے خطاب میں کہا، ملک میں تبدیلی آگئی ہے اب عدل ��ور انصاف قائم ہوگا، یہ کیسا مذاق ہے کہ اقامے پر وزیراعظم کو نکال دیا گیا۔ نواز شریف کا کہنا ہے آج ثابت ہوگیا ہے کوٹ مومن مجھ سے محبت کرتا ہے، عوام نے فیصلہ دے دیا میری نا اہلی منظور نہیں۔ انہوں نے کہا آج کا جلسہ عوام کا ریفرنڈم ہے، لاڈلے کو منہ چھپانے کی کوئی جگہ نہیں ملے گی، 2018 کا الیکشن مسلم لیگ نواز جیتے گی، انتخابات جیت کر گھر گھر انصاف لے کر آئیں گے۔
سابق وزیراعظم نے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا ملک میں تبدیلی آگئی ہے، اب عدل اور انصاف قائم ہوگا، یہ کیسا مذاق ہے کہ اقامے پر وزیراعظم کو نکال دیا گیا۔ انہوں نے کہا نواز شریف کو عوام کی خدمت کا صلہ دیا جا رہا ہے، میرے خلاف کچھ نہیں ملا تو اقامہ پر نکال دیا گیا، کرپشن کی تو دور کی بات ایک دھیلے کا بھی ثبوت نہیں ملا، میں پوچھ رہا ہوں بتائیں کہاں کرپشن ہوئی؟ ان کا کہنا تھا لاڈلے کےعلاوہ سازشی کینیڈا سے آ کر یہاں بیٹھ گیا ہے،عمران خان مانتا ہے کہ اس نے لاکھوں پاؤنڈ کا کاروبار کیا، لوگ جانتے ہیں اسپتال کا پیسہ لاڈلے نے جوئے میں لگایا۔
نواز شریف نے مزید کہا کہ ملک کے موجودہ حالات میں شاہد خاقان عباسی کا کوئی قصور نہیں، وہ بہت محنت کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا شاہد خاقان عباسی ذمہ داری سے سب کام کر رہے ہیں، ملکی ترقی میں سست روی پاناما فیصلے کی وجہ سے ہوئی، اسٹاک ایکس چینج نیچےگر رہی ہے، مہنگائی نے سرا ٹھایا ہے تو اس فیصلے سے پوچھو۔ ان کا کہنا تھا حکومت میں آ کر ملک سے اندھیرے ختم کیے اور موٹروے بنائی، جب کوئی وعدہ کرتا ہوں تو پورا کر کے دکھاتا ہوں۔ سابق وزیراعظم نے 2018 کے انتخابات کے بعد کوٹ مومن میں یونیورسٹی بنانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کوئی مطالبہ ہے تو آج ہی کر دو، انشا اللہ اسے پورا کریں گے، کوٹ مومن کو موٹر وے بھی دی جائے گی۔ انہوں نے کہا نوجوانوں نے آج دل خوش کر دیا ہے، یہ نوجوانوں کی فوج پاکستان میں انقلاب برپا کرے گی۔
#Breaking Pakistani News#Daily Pakistan News#Online Pakistani News#Pakistan latest News#Pakistan News#Pakistan Urdu News#Pakistani Khabrain#Top Pakistani News#اج#جلسہ#جگہ#ریفرنڈم#شریف#عوامی#لاڈلے#ملے#منہ#نواز#نہیں#پاکستان#چھپانے#کا#کو#کی#گی
0 notes