#بلوں
Explore tagged Tumblr posts
Text
موسم سرما میں اضافی بجلی استعمال کرنیوالوں کو بلوں میں ریلیف ملے گا
(24 نیوز) حکومت نے موسم سرما اور بہار میں اضافی بجلی استعمال کرنے کے لیے ونٹر پیکج کا پلان تیار کرلیا۔ ذرائع کے مطابق موسم سرما میں اضافی بجلی کے استعمال کے لیے بنائے گئے ونٹر پیکج کو جنوری سےشروع کرنےکی تجویز دی گئی ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ بجلی کی طلب 8 ہزار سے 15 ہزار میگاواٹ بڑھانےکا پلان بنایا گیا ہے جب کہ اضافی بجلی استعمال پرصارفین کو ایک یونٹ پر 12 روپے تک ریلیف دینےکی تجویز ہے۔ مزید…
0 notes
Text
بجلی بلوں میں200یونٹ تک3ماہ کا ریلیف30ستمبر سے ختم ہوگا
وفاقی حکومت کی جانب سےبجلی بلوں میں200یونٹ تک کا3ماہ کاریلیف30 ستمبرسےختم ہوجائےگا۔ ذرائع کےمطابق30ستمبر سے200یونٹ تک کاریلیف ختم اوربنیادی ٹیرف فی یونٹ7.12روپےتک بڑھ جائےگا۔یکم اکتوبرسےماہانہ200 یونٹ تک صارفین کا بنیادی ٹیرف فی یونٹ7.12تک بڑھ جائےگا۔100یونٹ تک نان پروٹیکٹڈصارفین کا ٹیرف 7.11روپےبڑھ کر23.59روپےہوجائے گااور101سے200یونٹ تک نان پروٹیکٹڈ کا ٹیرف7.12روپے بڑھ کر30.07روپےہوجائے…
0 notes
Text
اسرائیل دنیا کو اپنے خلاف کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے
ہم اس مقام پر پہنچ گئے ہیں جہاں کسی کو کچھ پتہ نہیں کہ آگے کیا ہو گا۔ اسرائیل کو لگتا ہے کہ اس کے پاس مغرب کی طرف سے چار ہزار سے زائد بچوں سمیت ہزاروں فلسطینی شہریوں کو مارنے کے لیے مطلوبہ مینڈیٹ ہے۔ گنجان پناہ گزین کیمپوں پر گرائے گئے ایک ٹن وزنی مہیب بم اور ایمبولینسوں، سکولوں اور ہسپتالوں پر فضائی حملے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اسے حماس کی طرح عام شہریوں کی اموات کی کوئی پروا نہیں ہے۔ اسرائیل مہذب دنیا کی نظروں میں خود کو بدنام کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتا نظر آتا ہے۔ غزہ کے قتلِ عام سے پہلے بن یامین نتن یاہو کے فاشسٹوں اور بنیاد پرستوں کے ٹولے کے ذریعے اسرائیل کے عدالتی اداروں کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس نے امریکی لابی گروپ اے آئی پی اے سی کے پے رول پر موجود سیاست دانوں کی جانب سے اسرائیل کے جمہوری ملک ہونے اور اخلاقی طور پر برتر اور ترقی یافتہ ملک ہونے کے برسوں سے کیے جانے والے دعووں کی قلعی کھول کر رکھ دی۔ پچھلی دہائیوں میں، واحد بین الاقوامی آواز جو اہمیت رکھتی تھی وہ واشنگٹن کی تھی، جس میں یورپی اتحادی ہمنوا کی حیثیت سے ساتھ ساتھ تھے۔ لیکن 2020 کی کثیرالجہتی دہائی میں ایشیا، لاطینی امریکہ اور افریقہ میں ابھرتی ہوئی طاقتیں اسرائیل کی مذمت کرنے اور سفارتی تعلقات کو گھٹانے کے لیے قطار میں کھڑی ہیں۔
انصاف کے حامی بڑے حلقے غصے سے بھڑک اٹھے ہیں، یہاں تک کہ مغربی دنیا میں بھی۔ مسلمانوں، عربوں اور ترقی پسند رحجان رکھنے والے یہودیوں کے انتخابی لحاظ سے اہم طبقوں کے ساتھ ساتھ، یونیورسٹیاں نوجوانوں کی سیاست زدہ نسل سے فلسطین کی حامی سرگرمیوں کے لیے اہم مراکز بن گئی ہیں۔ جب دنیا بھر میں لاکھوں ��وگ سڑکوں پر نکل رہے ہیں، برطانیہ کی وزیر داخلہ بریورمین جیسے دائیں بازو کے کارکن فلسطینیوں کے حامی مظاہروں کو مجرمانہ بنانے کے لیے شہری آزادیوں پر غصے سے کریک ڈاؤن کر رہے ہیں، جسے وہ ’نفرت مارچ‘ کے طور پر بیان کرتی ہیں۔ وہ دور لد چکا جب اسرائیل کی حامی لابیوں نے بیانیے کو قابو میں کر رکھا تھا۔ سوشل میڈیا کی خوفناک تصاویر مظالم کو ریئل ٹائم میں سب کو دکھا رہی ہیں، جبکہ دونوں فریق بیک وقت ہمیں غلط معلومات اور پروپیگنڈے کے ذریعے بہکانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس ماحول میں مذہب پر مبنی کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اسلاموفوبیا پر مبنی حملوں میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا۔ جو بائیڈن اور ڈونلڈ ٹرمپ جیسے عمر رسیدہ امریکی سیاست دان ایک مٹتے ہوئے اسرائیل نواز اتفاقِ رائے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ خاص طور پر مشی گن جیسی اہم ’سوئنگ‘ ریاستوں میں بڑی مسلم، عرب اور افریقی نژاد امریکی کمیونٹیز بائیڈن کی اسرائیل کی پالیسی کے خلاف ہو رہی ہیں۔
اوباما نے اپنے جانشینوں کو خبردار کیا ہے، ’اگر آپ مسئلے کو حل کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو پوری سچائی کو اپنانا ہو گا۔ اور پھر آپ کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ کسی کے ہاتھ صاف نہیں ہیں، بلکہ ہم سب اس میں شریک ہیں۔‘ انہوں نے مزید کہا، ’اسرائیلی فوجی حکمت عملی جو انسانی جانوں کی اہیمت کو نظر انداز کرتی ہے بالآخر الٹا نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ اس موجودہ تباہی کے بعد بائیڈن کے پاس مشرق وسطیٰ میں امن کی بحالی کو فوری طور پر بحال کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہو گا۔ امریکہ کی ڈیموکریٹک پارٹی اپنے فلسطین کے حامی ترقی پسند ونگ کی طرف خاصا رجحان رکھتی ہے، جسے ایسے لوگوں کی وسیع بنیاد پر حمایت حاصل ہے جو آج غزہ کے قتل عام کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ ان ترقی پسندوں کو ایک دن قانون سازی کی مطلوبہ طاقت حاصل کرنے کے بعد اسرائیل کی فوجی امداد کے لیے کانگریس کے بلوں کو ویٹو کرنے میں کچھ پریشانی ہو گی۔ اسی قسم کا تناؤ یورپ بھر میں بھی چل رہا ہے۔ آئرلینڈ اور سپین واضح طور پر فلسطینیوں کے حامی ہیں، جب کہ ارسلا فان ڈیر لیین اور رشی سونک جیسی شخصیات اسرائیل کی حمایت میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے بےچین ہیں۔
فرانس اور جرمنی جیسی بڑی عرب اور مسلم آبادی والے ملک اپنی سیاسی بیان بازی کو اعتدال پر لانے پر مجبور ہیں۔ اسرائیل نے بین الاقوامی بائیکاٹ کی تحریکوں کے خلاف بھرپور طریقے سے جنگ لڑی ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ دشمنوں سے گھرے ہوئے اسرائیل کے لیے عالمی اقتصادی تنہائی کتنی تباہ کن ثابت ہو گی۔ غزہ کے باسیوں کی تسلی کے لیے اس طرح کے رجحانات بہت دور کی بات ہیں، لیکن ان سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ آنے والے برسوں میں فلسطین تنازع اسرائیل کی بڑھتی ہوئی بین الاقوامی تنہائی کے تناظر میں سامنے آئے گا۔ بین الاقوامی بار ایسوسی ایشن سمیت عالمی اداروں کے تمام حصوں نے بھرپور طریقے سے جنگ بندی کی وکالت کی ہے، اور اسرائیل کو انسانی حقوق کی عالمی ذمہ داریوں سے استثنیٰ نہ دینے پر زور دیا ہے۔ سات اکتوبر کو حماس کا حملہ اسرائیل کے لیے ایک بہت بڑا نفسیاتی دھچکہ تھا، جس نے بالآخر اسے یہ یہ تسلیم کرنے پر مجبور کر دیا ہے کہ جب تک وہ امن کی کوششوں کو مسترد کرتا رہے گا، اس کے وجود کو خطرات کا سامنا رہے گا۔ اس جیسے چھوٹے سے ملک میں بڑی تعداد میں لوگوں کو جنوبی اور شمالی اسرائیل کے بڑے علاقوں اور دیگر غیر محفوظ علاقوں سے باہر منتقل کر دیا گیا ہے، کچھ کو شاید مستقل طور پر، لیکن آبادی کے بڑے مراکز اب بھی حزب اللہ اور اسلامی جہاد کے راکٹوں کی آسانی سے پہنچ میں ہیں۔
نتن یاہو جیسے امن کو مسترد کرنے والوں کی ایک دوسرے سے ملتی جلتی کارروائیاں ہیں جنہوں نے امن کی میز پر فریقین کی واپسی کو ناگزیر بنا دیا ہے۔ فلسطینی اور اسرائیلی دونوں معاشروں میں اوسلو معاہدے کے برسوں سے سرگرم امن کیمپوں کو دوبارہ پروان چڑھانے کی ضرورت ہے جو انصاف، امن اور مفاہمت کے لیے مہم چلا سکیں۔ اسرائیل کی انتقامی پیاس نے انتہا پسند کیمپ کو طاقت بخشی ہے، جس کا دعویٰ ہے کہ غزہ کی فوجی مہم فلسطین کو عربوں سے پاک کرنے کے لیے بہترین دھواں دھار موقع پیش کرتی ہے۔ اسرائیل کی قومی سلامتی کونسل کے سابق سربراہ گیورا آئلینڈ نے اسرائیل پر زور دیا کہ وہ ’ایسے حالات پیدا کرے جہاں غزہ میں زندگی غیر پائیدار ہو جائے۔ ایسی جگہ جہاں کوئی انسان موجود نہ ہو‘ تاکہ غزہ کی پوری آبادی یا تو مصر چلی جائے، یا پھر مصر منتقل ہو جائے۔ ‘نتن یاہو مصر پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ غزہ کے لوگوں کے صحرائے سینا کی طرف ’عارضی‘ انخلا کو قبول کرے، جبکہ دوسری طرف وہ محصور آبادی کو بھوک سے مرنے اور کچلنے کے لیے سرگرم عمل ہے۔ فلسطینی صرف اتنا چاہتے ہیں کہ دنیا ان کی حالتِ زار کو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھے۔
فلسطین کی حمایت اور حماس کی حمایت ایک برابر نہیں ہیں۔ بلاروک ٹوک مغربی پشت پناہی نے اسرائیل کو یہ باور کروایا ہے کہ اسے کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا، جو نہ صرف مقبوضہ علاقوں میں انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے بلکہ اقوام متحدہ کی ان گنت قراردادوں اور عالمی نظام کے بنیادی اصولوں کو بھی زک پہنچا رہا ہے۔ اسرائیل کے ہاتھوں ایک مختصر دورانیے میں غزہ میں اقوام متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی کے 72 عملے کی اموات ایک ریکارڈ ہے، جب کہ الٹا اسرائیل نے اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل پر ’خون کی توہین‘ اور ’دہشت گردی کی کارروائیوں کو جواز فراہم کرنے‘ کا الزام لگایا ہے۔ اسرائیلی سمجھتے تھے کہ وقت ان کے ساتھ ہے۔ ایسا لگتا تھا کہ عرب ریاستیں دلچسپی کھو رہی ہیں، فلسطینی اپنے علاقوں کے ہر سال بڑھتے ہوئے نقصان پر خاموشی اختیار کرنے پر مجبور تھے، اور یہ سوچ تھی کہ جب 1947 اور 1967 کی نسلیں ختم ہو جائیں تو کیا ان کے ساتھ ہی قوم پرستانہ جذبات بھی فنا نہیں ہو جائیں گے؟ اس کے بجائے، نئی فلسطینی نسل اور ان کے عالمی حامی پہلے سے زیادہ پرجوش، پرعزم اور سیاسی طور پر مصروف ہیں۔ اور معقول طور پر، کیونکہ تمام تر مشکلات اور خونریزی کے باوجود ناقابل تسخیر عالمی رجحانات اس بات کی علامت ہیں کہ وقت، انصاف اور آخرِ کار تاریخ ان کے ساتھ ہے۔
اس طرح سوال یہ بنتا ہے کہ کتنی جلد کوتاہ اندیش اسرائیلی امن کے لیے ضروری سمجھوتوں کی وکالت شروع کر دیتے ہیں، کیوں کہ اسرائیل کو لاحق دفاعی خطرات بڑھ رہے ہیں اور ان کی ریاست کی جغرافیائی سیاسی طاقت ختم ہو رہی ہے۔
بارعہ علم الدین
نوٹ: کالم نگار بارعہ عالم الدین مشرق وسطیٰ اور برطانیہ میں ایوارڈ یافتہ صحافی اور براڈکاسٹر ہیں۔ وہ میڈیا سروسز سنڈیکیٹ کی مدیر ہیں۔
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
3 notes
·
View notes
Text
آکاشوانی چھتر پتی سنبھا جی نگر علاقائی خبریں تاریخ : 06 ؍نومبر 2024ء وقت : صبح 09.00 سے 09.10 بجے
پہلے خاص خبروں کی سر خیاں ...
٭ ریاست بھر میں اسمبلی انتخاب کی تشہیری مہم کا آغاز
٭ شیو سینا کے سربراہ ایکناتھ شندے نےعوام سے کیے 10؍ وعدے
٭ ریاستی ڈائریکٹر جنرل آف پولس عہدے پر سنجئے ورما کا تقرر
٭ پارلیمنٹ کا سر مائی اجلاس 25؍ نومبر سے
٭ ریاستی اسمبلی انتخاب کی تیاریاں آخری مراحل میں ‘ ایک لاکھ 186؍مرکز پر کی جائے گی ووٹنگ
اور
٭ مرکزی چُنائو کمیشن کے اعلیٰ افسران آج چھتر پتی سنبھا جی نگر میں لیں گے چُناوی تیاریوں کا جائزہ
اب خبریں تفصیل سے...
ریاستی اسمبلی انتخاب کی تشہیری مہم کا آغاز ہو چکا ہے ۔ کل سے تمام سیا سی جماعتوں کے رہنمائوں اور امید واروں نے تشہیر ی سر گر میاں شروع کر دی ہیں ۔ خیال رہے کہ یہ تشہیری مہم آئند ہ 14؍ دنوں تک جاری رہے گی ۔ اِسی سلسلے میں ��یو سینا کے سربراہ ایکناتھ شندے ‘ بی جے پی کے رہنما دیویندر پھڑ نویس اور راشٹر وادی کانگریس پارٹی کے سربراہ اجیت پوار کی موجود گی میں کل کولہا پور میں عظیم اتحاد کی تشہیر کا آغاز کیاگیا ۔ اِس موقعے پر جناب شندے نے عوام سے 10؍ وعدے کیے ۔ ان میں لاڈلی بہنوں کو 2100؍ روپئے ‘ کاشتکاروں کو قرض معافی ‘ بجلی بلوں میں 30؍ فیصد کی تخفیف اور 100؍ دنوں میں ویژن مہا راشٹر 2029ء پیش کرنے سمیت دیگر وعدے شامل ہیں ۔ بھارتیہ ریپبلیکن پارٹی کے سربراہ رام داس آٹھولے بھی جلسے میں موجود تھے ۔
***** ***** *****
شیو سینا اُدھو باڑا صاحیب ٹھاکرے پارٹی کے سربراہ اُدھو ٹھاکرے نے بھی کل کولہا پور میں تشہیری مہم کا آغاز کیا ۔ اِس کے بعد انھوں نے رتنا گیری میں جلسے عام سے خطاب کیا ۔
***** ***** *****
راشٹر وا دی کانگریس شرد چندر پوار پارٹی کے سربراہ شرد پوار نے کل بارامتی کے شِر سو پھڑ گاوں میں پارٹی کے امید وار یو گیندر پوار کے تشہیری جلسے میں خطاب کیا ۔ اِس موقعے پر انھوں نے کہا کہ آئندہ راجیہ سبھا میں جانا ہے یانہیں اِس پر غور کریں گے ۔ انھوں نے کہا کہ سیاست صرف انتخابات اور اقتدار کے لیے نہیں ہے بلکہ عوام کی زندگی کو بہتر بنا نے کے لیے بھی ہے ۔ اِس موقعے پر جناب شرد پوار نے حلقے میں کیے گئے تر قیاتی کاموں کا جائزہ بھی پیش کیا ۔
***** ***** *****
اورنگ آباد مشرق حلقہ انتخاب سے مہا وکاس آ گھاڑی کے امید وار راجو شندے نے ساتارا میں تشہیری مہم کا آغاز کیا ۔ اِسی طرح مجلس اتحاد المسلمین MIM کے رکن اسمبلی اکبر الدین اویسی نے شہر میں جلسے عام سے خطاب کرتے ہوئے پارٹی کے امید واروں کی تشہیرکا آغاز کیا ۔ اورنگ آباو وسط سے عظیم اتحاد کے امید وار پر دیپ جیسوال نے پیدل ریلی نکال کر شہر یان سے تبادلہ خیال کیا ۔
***** ***** *****
ونچت بہو جن آ گھاڑی کے سربراہ پر کاش امبیڈ کر نے کل پونا میں جیو تی با شاہو ‘ بابا صاحیب کے خیالات سے متاثرہ جو شا با سمتا پتر نامی منشور جاری کیا ۔
***** ***** *****
ریاستی اسمبلی انتخاب کے لیے کانگریس پارٹی کا منشور آج جاری کیا جائےگا ۔ لوک سبھا میں حزب مخالف کے قائد راہل گاندھی اور پارٹی کے قومی صدر ملکار جن کھر گے کے ہاتھوں آج ممبئی کی واندرہ کُر لا کامپلیکس میں یہ منشور جاری کیا جائے گی ۔ اِس کے بعد وہ مہا وِکاس آ گھاڑی کے جلسےمیں خطاب کریں گے ۔ اِس جلسے میں بزرگ سیاست داں شرد پوار ‘ اُدھو ٹھاکرے ‘ کانگریس پارٹی کے ریاستی صدر نانا پٹو لے سمیت مہا وِکاس آگھاڑی کےدیگر قائدین بھی موجود رہیں گے ۔
اِس سے قبل راہل گاندھی آج دوپہر ناگپور میں ’’ آئین کا احترام ‘‘ نامی جلسے میں شرکت کریں گے۔
***** ***** *****
ریاستی اسمبلی انتخاب کے پیش نظر وزیر اعظم نریندر مودی آئندہ 8؍ تاریخ سے 14؍ تاریخ کے دوران ریاست بھر میں 11؍ جلسوں سے خطاب کریں گے ۔ 8؍تاریخ کو وہ دھولیہ اور ناسک میں ‘ 9؍ تاریخ کو اکولا اور ناندیڑ میں 12؍ تاریخ کو چندر پور ‘ چِمور اور پونا میں جبکہ 14؍ تاریخ کو چھتر پتی سنبھاجی نگر ‘ نوی ممبئی اور ممبئی میں جلسہ عام سے خطاب کریں گے ۔
***** ***** *****
مہا راشٹر نو نِر مان سینا کے سر براہ راج ٹھاکرے آج لاتور ضلعے کے رینا پور میں لاتور دیہی اسمبلی حلقہ انتخاب سے منسے کے امید وار سنتوش ناگر گوجے کے تشہیری جلسے میں اظہار خیال کریں گے ۔
***** ***** *****
ریاست کے ڈائریکٹر جنرل آف پولس عہدے پر سنجئے ورما کا تقرر کیاگیا ہے ۔ وہ 1990ء دستے کے بھارتیہ پولس سروِس کے آفیسر ہیں ۔
***** ***** ***** ***** ***** *****
یہ خبریں آکاشوانی چھتر پتی سنبھا جی نگر سے نشر کی جا رہی ہیں
***** ***** ***** ***** ***** *****
پارلیمنٹ کا سر مائی اجلاس آئندہ 25؍ تاریخ سے شروع ہو گا ۔ پارلیمانی امور کے وزیر کِرن ریجی جو نے کل سوشل میڈیا پر یہ اطلاع دی ۔ انھوں نے بتا یا کہ یہ اجلاس 20؍ دسمبر تک جاری رہے گی ۔ اِس دوران 26؍ نومبر کے روز آئین کی منظوری کی 75؍ ویں سالگرہ منائی جائے گی ۔ جناب ریجی جو نے بتا یا کہ یہ تقریب دستور ساز اسمبلی کے مرکزی دفتر میں منعقد کی جائے گی ۔
***** ***** *****
ریاستی چیف الیکشن آفیسر ایس چوک لنگم نے بتا یا کہ ریاستی اسمبلی انتخاب کی تیاریاں آخری مراحل میں ہیں ۔ وہ کل ممبئی میں چُناوی تیاریوں سے متعلق تفصیلات پیش کر رہے تھے ۔ انھوں نے بتا یا کہ ریاست بھر میں رائے دہندگان کی تعداد کو مد نظر رکھتے ہوئے پولنگ مراکز کی تعداد میں اضا فہ کیاگیا ہے ۔ انھوں نے بتا یا کہ پولنگ کے لیے ایک لاکھ 186؍ مراکز تیار کیے گئے ہیں ۔ اِن میں شہری علاقوں میں 42؍ ہزار 604؍ رائے دہی مراکز اور دیہی علاقوں میں 57؍ ہزار 582؍ رائے دہی مراکز قائم کیے جائیں گے ۔
جناب ایس چوک لنگم نے مزید بتا یا کہ ریاست میں ضابطہ اخلاق کے نفاذ سے اب تک 46؍ ہزار 630؍ افراد پر امتناعی کارروائی کی جا چکی ہے ۔ انھوں نے بتا یا کہ اِس دوران ریاست بھر سے 252؍ کروڑ روپئے سے زیادہ مالیت کی ممنوعہ اشیاء بھی ضبط کی گئی ہیں ۔
اِس موقعے پر اپنی مخاطبت میں جناب ایس چوک لنگم نے رائے دہندگان سے آئندہ 20؍ تاریخ کےروز ضرور ووٹ دینے کی اپیل بھی کی ۔
***** ***** *****
سامعین ‘ اسمبلی انتخاب کے خصوص میں آکاشوانی کی جانب سے ہر شام 7؍ بج کر 10؍ منٹ پر نشر کیے جا رہے پروگرام
’’ آڈھا وا وِدھان سبھا متدار سنگھا چا ‘ میںآج ایوت محل ضلعے کے اسمبلی حلقوں کا جائزہ پیش کیا جائے گا ۔
***** ***** *****
مرکزی چنائو کمیشن کے 5؍ اعلیٰ افسران آج چھتر پتی سنبھا جی نگر میں انتخابی تیاریوں کا جائزہ لیں گے ۔ یہ جائزہ میٹنگ شہر کے اسمارٹ سٹی دفتر میں منعقد کی جائے گی ۔ اِس موقعے پر چھتر پتی سنبھا جی نگر ضلع سمیت ناگپور اور امرا وتی حلقے کا بھی جائزہ لیا جا ئے گا ۔ ضلع چنائو افسر دیویندر کٹکے نے کل چھتر پتی سنبھا جی نگر میں صحافیوں کو یہ معلومات دی ۔
***** ***** *****
رائے دہندگان کی حوصلہ افزائی کے لیے پر بھنی ضلع کلکٹر دفتر اور سب ڈویژنل دفتر کی جانب سے چنائو افسر ان و ملازمین کی گاڑیوں پر ’’ میں رائے دہی کروں گا ‘‘ کے اسٹیکر چسپاں کیے گئے ہیں ۔ اِسی طرح گاڑیوں پر لائوڈ اسپیکر لگا کر ووٹ دینے کی اپیل بھی کی جا رہی ہے ۔
***** ***** *****
دھاراشیو کے رکن اسمبلی رانا جگجیت سنگھ پاٹل نے بتا یا کہ دھا را شیو -تلجا پور ریلوے راستے میں 7؍ کلو میٹر راستے کا بنیادی تعمیری کام مکمل ہو چکا ہے ۔ انھوں نے کہا کہ اگر کام اِسی رفتار سے جاری رہا تو یہ ریلوے راستہ مقررہ مدت سے 24؍ مہینے پہلے ہی مکمل طور پر تعمیر ہو جائے گا ۔
***** ***** *****
جالنہ ضلعے میںسال 2023 - 24 ّ کے موسم خریف کی پیسے واری یعنی مالی منصوبہ بندی ظاہر کر دی گئی ہے ۔ اِس کے مطا بق ضلعے کے 971؍ دیہاتوں میں سے 462؍ دیہاتوں میں 50؍ پیسے سے کم اور 509؍ دیہاتوں میں 50؍ پیسے سے زیادہ پیسے واری کا اعلان کیاگیا ہے ۔
ضلع انتظامیہ کی جانب سے بتا یاگیا ہے کہ پر تور تعلقے کا رانی واہے گائوں پوری طرح نمن دودھنا پرو جیکٹ میں سما جانے کی وجہ سے اُس گائوں کی پیسے واری ظاہر نہیں کی گئ ۔
***** ***** *****
ضلع پریشد کی سجاوٹ پروگرام کے تحت کل پر بھنی ضلع پریشد کی خصو صی کا گذار افسر نتیشا ماتھُرنے ضلع پریشد دفتر میں شجر کاری کی ۔ یہ پروگرام شعبہ زراعت کی معرفت سے چلا یا جا رہا ہے ۔ اِس موقعے پر کرنج ‘ گل موہر‘ اشوک ‘ جامن اور کدم جیسے مختلف اقسام کے پودے لگائے گئے ۔
***** ***** *****
آخر میں اہم خبروں کی سر خیاں ایک بارپھر ...
٭ ریاست بھر میں اسمبلی انتخاب کی تشہیری مہم کا آغاز
٭ شیو سینا کے سربراہ ایکناتھ شندے نےعوام سے کیے 10؍ وعدے
٭ ریاستی ڈائریکٹر جنرل آف پولس عہدے پر سنجئے ورما کا تقرر
٭ پارلیمنٹ کا سر مائی اجلاس 25؍ نومبر سے
٭ ریاستی اسمبلی انتخاب کی تیاریاں آخری مراحل میں ‘ ایک لاکھ 186؍مرکز پر کی جائے گی ووٹنگ
اور
٭ مرکزی چُنائو کمیشن کے اعلیٰ افسران آج چھتر پتی سنبھا جی نگر میں لیں گے چُناوی تیاریوں کا جائزہ
علاقائی خبریں ختم ہوئیں
آپ یہ خبر نامہ ہمارے یو ٹیوب چینل AIR چھتر پتی سنبھا جی نگر پر دوبارہ کسی بھی وقت سن سکتے ہیں۔
٭٭٭
0 notes
Text
پریس ریلیز
*پنجاب میں کام ہو رہا ہے جبکہ فتنہ پارٹی فتنہ گردی م��ں مصروف ہے: عظمٰی بخاری*
*ایک صوبے کا ''مولا جٹ'' ہر روز فیڈریشن پر چڑھائی کرنے کی دھمکیاں دیتا ہے: عظمٰی بخاری*
*میڈیا کی ادائیگیوں کا سلسلہ ماہانہ کی بنیاد پر کرنے کا طریقہ کار وضع کیا جا رہا ہے: عظمٰی بخاری*
*صحافیوں کے لئے میرے دروازے ہمیشہ کھلے ہیں، ان کے مسائل کا حل میری پہلی ترجیح ہے: سید طاہر رضا ہمدانی*
*ڈی جی پی آر کو جدید تقاضوں اور ٹیکنالوجی سے آراستہ کرنا میرا مشن ہے: غلام صغیر شاہد*
لاہور30 ستمبر:- نئے تعینات ہونے والے ڈائریکٹر جنرل پبلک ریلیشنز غلام صغیر شاہد کی جانب سے نجی ہوٹل میں صحافیوں کے اعزاز میں ظہرانے کا اہتمام کیا گیا۔ وزیر اطلاعات پنجاب عظمٰی بخاری اور سیکریٹری انفارمیشن سید طاہر رضا ہمدانی نے خصوصی شرکت کی۔ بیٹ رپورٹرز، بیورو چیفس، کالم نگار اور نیوز ایڈیٹرز بھی ظہرانے میں مدعو تھے۔ اس موقع پر وزیر اطلاعات عظمٰی بخاری نے کہا کہ پنجاب میں کام ہو رہا ہے اور عوام کو ریلیف مل رہا ہے۔وزیراعلٰی پنجاب مریم نواز ہر روز عوام کے مسائل کے حل کے لئے گھنٹوں میٹنگز کرتی ہیں۔ پنجاب حکومت کی کارکردگی آپ سب کے سامنے ہے۔ اس لئے پنجاب کے لوگ فتنہ پارٹی کی فتنہ گردی کا حصہ نہیں بنتے۔ ایک صوبے کا مولا جٹ ہر روز فیڈریشن پر چڑھائی کرنے کی دھمکیاں دیتا ہے۔انکا کہنا تھا کہ ایک مخصوص جماعت اور اس کے کارندوں نے پاکستان میں افراتفری پھیلانے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے۔ لاہور کے ناکام جلسے اور راولپنڈی کے فلاپ احتجاج کے بعد یہ باولے ہو چکے ہیں۔ان کا اپنا صوبہ دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے لیکن ان کو فکر صرف پنجاب میں جلسے اور احتجاج کرنے کی ہے۔ ہم بھی چاہتے ہیں کہ خیبر پختون خواہ کے لوگوں کو بھی بجلی کے بلوں میں ریلیف ملے۔جس طرح پنجاب کے بچوں کو لیپ ٹاپس، سکالرشپس اور الیکٹرک بائکس مل رہی ہیں اسی طرح خیبر پختونخواہ کے بچوں کو بھی یہ سب کچھ ملے۔ وزیر اطلاعات نے کہا کہ میڈیا کی ادائیگیوں کا سلسلہ بڑی تیزی سے جاری ہے۔ ہم میڈیا کی ادائیگیوں کا سلسلہ ماہانہ کی بنیاد پر کرنے کا طریقہ کار وضع کر رہے ہیں اور وزیراعلی پنجاب جلد ڈی جی پی آر کا دورہ کریں گی۔ اس موقع پر سیکریٹری انفارمیشن سید رضا ہمدانی کا کہنا تھا کہ صحافیوں کے مسائل حل کرنا ہماری پہلی ترجیح ہے۔ میرے دروازے صحافیوں کے لئے ہمیشہ کھلے ہیں۔ صحافی کالونی کے مسائل ہوں یا صحافیوں کی گرانٹ کے، انکے حل کو ترجیح دی جائے گی۔ انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ نے ہمیشہ مثبت رول ادا کیا ہے اور یہ سلسلہ آگے بھی جاری رہے گا۔ ڈی جی پی آر غلام صغیر شاہد نے کہا کہ وزیر اطلاعات پنجاب نے جو ٹاسکس دیے ہیں انکو جلد از جلد پورا کریں گے۔ وزیراعلٰی پنجاب کے ویژن کے مطابق محکمہ اطلاعات کو چلایا جارہا ہے۔ ڈی جی پی آر کے آپریشنل ہیڈ متحرک اور موثر بنانا میرا مشن ہے۔ ہم نے آتے ہی میڈیا کے التواء شدہ بقایاجات میں سے 20 کروڑ ادا کئے ہیں۔ باقی ادائیگیاں آنے والے دنوں میں کردی جائیں گی۔ ڈی جی پی آر کو جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ کرنا بھی میرے ٹاسکس میں شامل ہے-
٭٭٭
0 notes
Text
سولر پینلز کی حفاظت کیسے کی جائے؟
بجلی کے مہنگے بلوں سے پریشان شہری تیزی سے شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنے والے سولر پینلز اپنے گھروں میں لگا رہے ہیں۔ یہ پینلز کافی حساس ہوتے ہیں، اگر آپ چاہتے ہیں کہ یہ بہتر کارکردگی پیش کریں، تو ضروری ہے کہ ان کی موسمی اثرات بالخصوص بارش سے حفاظت کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں۔ اگر ہم ان پینلز کی مناسب دیکھ بھال نہیں کریں گے تو مختلف موسمی حالات، خاص طور پر بارش سے انہیں نقصان پہنچنے کا قوی امکان ہے، کیونکہ بارش سولر پینلز کی کارکردگی کو کافی حد تک کم کر سکتی ہے اور اگر مناسب طریقے سے توجہ نہ دی جائے تو خرابی کی صورت میں اس کی مرمت پر کافی اخراجات بھی آ سکتے ہیں۔ یہاں چند ایسے آزمودہ اور موثر طریقے بتائے گئے ہیں جن سے برسات کے موسم میں سولر پینلز کی حفاظت یقینی بنائی جا سکتی ہے۔
صفائی اور دیکھ بھال گھروں کی چھتوں پر نصب ہونے کی وجہ سے سولر پینلز پر گرد و غبار تیزی سے جمع ہو جاتا ہے اور اگر آس پاس درخت ہوں تو درختوں کے پتے اور پرندوں کی گندگی بھی ان پر کثرت سے جمع ہو سکتی ہے، جو سورج کی روشنی براہِ راست ان پر پڑنے میں رکاوٹ کا سبب بنتی ہے۔ ضروری ہے کہ سولر پینلز کی دیکھ بھال کا خاص خیال رکھا جائے، انہیں باقاعدگی سے کسی نرم برش یا کپڑے سے صاف کریں لیکن یہ بھی خیال رکھیں کہ صفائی کے لیے کسی تیز کیمیکل کا استعمال نہ کریں، کیونکہ کیمیکل سولر پلیٹس کو خراش یا نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اس کے برعکس ضدی داغ دھبوں کی صفائی کے لیے ہلکے کلینر کا استعمال کریں اور انہیں کھرچنے سے گریز کریں۔ باقاعدگی سے سولز پینلز کا جائزہ لیں خاص طور سے بارش کے موسم میں تاکہ بروقت خرابی کا پتہ چل سکے، اگر کوئی مسئلہ نظر آئے تو اسے فوری طور پر حل کریں بصورتِ دیگر بھاری نقصان کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔
پینلز کی تنصیب میں معیار کا خیال سولر پینلز کی تنصیب کے لیے کسی اچھے ٹیکنیشن کا انتخاب کریں تاکہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ پینلز کی تنصیب ایسے زاویے اور سمت میں ہو کہ وہ سورج کی روشنی کو زیادہ سے زیادہ جذب کر سکیں اور ��ارش کے موسم میں پینلز پر پانی جمع نہ ہو۔ اعلیٰ معیار کے ماؤنٹنگ سسٹم کا استعمال کریں تاکہ تیز ہواؤں اور طوفانی بارش کے باوجود پینلز اپنی جگہ سے نہ ہٹیں، نہ ہلیں اور نہ ہی خراب ہوں۔ سولر پینلز کی تنصیب کے وقت اچھی کوالٹی کا میٹریل استعمال کریں، سستے سامان اور ٹیکنیشن سے انسٹالیشن آپ اور آپ کے اہلِ خانہ کے لیے جان لیوا خطرے کا باعث بن سکتی ہے۔
سولر پینلز کے لیے کور کا استعمال سولر پینلز کے لیے ایسے کورز کا استعمال کریں جو طوفانی بارشوں یا تیز ہواؤں کے دوران ان کی حفاظت کر سکیں اور موسم بہتر ہونے پر آسانی سے واپس اتارے جا سکیں اور اگر علاقے میں بارشیں کثرت سے ہوتی ہیں یا اکثر و بیشتر ہی تیز ہواؤں سے سامنا رہتا ہے تو مستقل بنیاد پر بھی پینلز پر کور لگوائے جا سکتے ہیں۔ ایسے فکسڈ کورز کم لچکدار ہونے کے باوجود بھی مناسب آپشن ہو سکتے ہیں، جو سولر پینلز کو مستقل تحفظ فراہم کرتے ہیں۔
سولر پینلز کی کوٹنگ سولر پینلز پر ہائیڈرو فوبک کوٹنگز چڑھوائیں تاکہ پینلز پانی سے محفوظ رہ سکیں، پانی سے کارکردگی کم ہونے کا خدشہ رہتا ہے، یہ کوٹنگز پینلز کو زنگ لگنے سے بھی بچا سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ اینٹی ریفلیکٹیو کوٹنگز سے بھی سولر پینلز کی کارکردگی کو بہتر بنا سکتے ہیں، کیونکہ یہ کوٹنگز چمک کو کم کرتی اور روشنی کو زیادہ جذب کرتی ہیں۔
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
استحکام پاکستان پارٹی کے رہنما محمود مولوی نے کہا کہ ہے کہ قوم کیلئے خوشخبری، بجلی کی قیمتوں میں 30 فیصد تک کمی کا اعلان جلد ہونیوالا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے سابق رکن قومی اسمبلی اور وزیراعظم عمران خان کے سابق مشیر برائے بحری امور محمود مولوی نے ایک بیان میں کہا کہ حکومت بجلی کی قیمتوں میں کمی کیلئے اقدامات کررہی ہے، جلد خوشخبری ملے گی۔ قوم کو جلد بجلی کی قیمتوں میں کمی کی خوشخبری ملے گی، وزیر اعظم محمود مولوی نے کہا کہ بجلی بلوں میں کمی سے ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا ساتھ ہی عوام اور تاجروں کے مسائل میں کمی آئے…
View On WordPress
0 notes
Text
بجلی 3 روپے 5 پیسے فی یونٹ مہنگی، اسی ماہ کے بلوں میں وصولی
نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے بجلی 3 روپے 5 پیسے فی یونٹ مہنگی کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا۔ اسلام آباد سے جاری نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ بجلی اکتوبر کی فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی مد میں مہنگی کی گئی ہے۔ نیپرا نوٹیفکیشن کے مطابق بجلی کی قیمتوں میں 3 روپے 5 پیسے کا اضافہ دسمبر کے بلوں میں وصول کیا جائے گا۔ نیپرا اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ لائف لائن صارفین اور کےالیکٹرک صارفین پر اس…
View On WordPress
0 notes
Text
کون کس سے فریاد کرے
پاکستانی سماج میں جو دکھ اور تکالیف کے مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں، اس کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ غریب طبقہ ہو یا مڈل کلاس یا لوئر مڈل کلاس، دیہی یا شہری افراد، کاروباری یا ملازم پیشہ افراد یا نئی نسل کی آوازیں ہوں ہمیں ��ن کا مشترکہ دکھ معاشی تکالیف کی شکل میں دیکھنے اور سننے کا موقع مل رہا ہے۔ گھر گھر کی کہانی معاشی بدحالی کے مختلف مناظر کے ساتھ لوگ بیان کرتے ہیں او ریہ سناتے وقت ان پر جو بے بسی یا مایوسی غالب ہے وہ بھی توجہ طلب مسئلہ ہے۔ آمدنی اور اخراجات کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج یا عدم توازن نے پورے سماج کی سطح پر گہری معاشی تقسیم پیدا کر دی ہے۔ بجلی، گیس، پٹرول، ڈیزل، چینی، آٹا، دالیں، گھی، گوشت، ادویات، تعلیم اور صحت کے اخراجات سمیت دیگر بنیادی ضرورتوں پر جو ضرب کاری لگی ہے اس پر سب ہی سر جھکائے بیٹھے ہیں۔ لوگوں کی کہانیاں سنیں تو اپنی کہانی کا دکھ پیچھے رہ جاتا ہے۔ یقین کریں لوگوں نے اپنے گھروں کی قیمتی اشیا کو بیچ کر بجلی کے بلوں کی آدائیگی کی ہے۔ ٹیکسوں کے ظالمانہ نظام اور ریاستی وحکومتی سطح سے عام لوگوں سے جبری بنیادوں پر ٹیکسوں کی وصولی کے پورا نظام نے ہی لوگوں کو عملی طور پر مفلوج کر دیا ہے۔ طاقتور طبقات کو نظرانداز کر کے یا ان کو سیاسی و معاشی ریلیف دے کر عام آدمی کی زندگی میں مسائل بڑھائے جارہے ہیں۔
سفید پوش طبقہ یا ملازم پیشہ افراد کی حالت سب سے زیادہ خراب ہے۔ یہ وہ طبقہ ہے جو اپنا دکھ کسی کو بیان کرنے کے لیے بھی تیار نہیں اور کوئی ایسا ریاستی , حکومتی یا ادارہ جاتی نظام موجود نہیں جو ان کی آوازوں کو بھی سن سکے یا ان کی شفافیت کی بنیاد پر داد رسی کر سکے۔ یہ ہی المیہ کی کہانی ہے جو آج پاکستان کی سیاست پر غالب ہے۔ آپ کسی بھی علمی یا فکری مجلس کا حصہ ہوں یا سیاسی مباحثوں کا یا کاروباری طبقات یا نوکری پیشہ افراد یا مزدود کہیں بھی بیٹھ جائیں تو دکھوں کی ایک لمبی کہانی سننے کو ملتی ہے۔ اس کہانی میں حکمرانی کے ظالمانہ نظام سے لے کر حکمران طبقات کی شاہانہ زندگی کے معاملات اور عام آدمی کو جو تکالیف ہیں سب کچھ سننے کو ملتا ہے۔ جس کی بھی کہانی ہو گی اس کا ایک ولن بھی ہو گا اور ہر فریق کا ولن ایک دوسرے سے مختلف ہے لیکن ان سب میں ایک مشترکہ دکھ حکمرانی کا بدترین نظام اور معاشی استحصال ہے۔ آپ لوگوں کے سامنے مستقبل کا نقشہ کھینچیں اور ان کو بتائیں کے حالات درست ہونے والے ہیں یا آپ امید رکھیں تو وہ مزید کڑوا ہو جاتا ہے اور اس میں مزید غصہ اور انتقام کا پہلو نمایاں ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ اس طرح کی جذباتیت پر مبنی کہانیاں کے حالات درست ہونے والے ہیں سن سن کر خود ہمت ہار بیٹھا ہے۔
حکومتی نظام برے طریقے سے اپنی اہمیت کھو بیٹھا ہے اور لوگوں کو اب اس نظام پر اعتماد نہیں رہا۔ یہ واقعی ایک بڑا المیہ ہے جو اس وقت ریاستی سطح پر ہمیں درپیش ہے۔ مسئلہ محض ماتم کرنا , دکھ بیان کرنا یا کسی کو بھی گالیاں دینا نہیں اور نہ ہی یہ مسائل کا حل ہے لیکن سوال یہ ہے طاقت ور طبقہ یا فیصلہ ساز قوتیں کیونکر لوگوں کی آوازوں کے ساتھ اپنی آواز نہیں ملا رہی اور کیوں لوگوں کے بنیادی نوعیت کے معالات کے حل کے بجائے اس سے فرار کا راستہ اختیار کیا جارہا ہے۔ ارباب اختیار میں یہ سوچ کیونکر غالب نہیں ہو رہی کہ ریاستی یا حکومتی نظام موجودہ طریقوں یا حکمت عملی یا عملدرآمد کے نظام سے نہیں چل سکے گا۔ ایسے لگتا ہے کہ ہمارا ریاستی و حکومتی نظام عملاً گونگا اور بہرہ ہو گیا ہے اور لوگوں کے دکھ اور آوازوں کو سننے کی صلاحیت سے محروم ہوتا جارہا ہے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ لوگوں اور حکمران طبقات کے درمیان خلیج بڑھتی جارہی ہے اور لوگ حکمران طاقتور طبقات کو اپنے مسائل کی جڑ سمجھ رہے ہیں۔ سب سے بڑا دکھ یہ ہے کہ سیاسی نظام , سیاسی جماعتیں، سیاسی قیادت اور سیاسی کارکن سب ہی غیر اہم ہوتے جارہے ہیں۔ جن سیاسی افراد نے ملک کے سیاسی نظام کی باگ ڈور کی قیادت کرنا تھی وہ کہیں گم ہو کر رہ گئے ہیں۔
لوگوں کو ایک ایسے ظالمانہ ادارہ جاتی نظام میں جکڑ دیا گیا ہے کہ لوگ خود کو ہی غیر اہم سمجھنے لگ گئے ہیں۔ ان کو لگتا ہے کہ ہم وہ طبقہ نہیں جن کے لیے یہ ملک بنایا گیا تھا بلکہ یہ ملک ایک خاص طبقہ کے مفادات کی تقویت کے لیے بنایا گیا اور ہم اس میں محض تماشائی کی حیثیت سے موجود ہیں۔ مجھے ذاتی طور پر کئی سیاسی افراد جو قومی اور صوبائی اسمبلیو ں کے سابق ارکان ہیں اور جنھوں نے آنے والے انتخابات میں حصہ لینا ہے سے ملنے کا موقع ملا ہے۔ ان کے بقول ہمیں یہ ہی سمجھ نہیں آرہی کہ اگر انتخابات ہونے ہیں تو ہم عوام کا سامنا کیسے کریں گے اور کیوں لوگ ہمیں ان حالات میں ووٹ دیں گے۔ کیونکہ ہم نے اپنے سیاسی حکمرانی کے نظام میں کچھ ایسا نہیں کیا کہ لوگ ہمارے ساتھ کھڑے ہو سکیں۔ اب سوال یہ ہے کہ لوگ کدھر جائیں اور کس سے فریاد کریں کیونکہ ان کی سننے والا کوئی نہیں۔ یہ تو شکر کریں کہ ان بدترین معاشی حالات میں ایسے خدا ترس لوگ یا خوشحال لو گ موجود ہیں جو اپنے اردگرد لوگوں کی خاموشی کے ساتھ مدد کر رہے ہیں ۔
میں کئی لوگوں کو انفرادی سطح پر جانتا ہوں جو بغیر کسی شور شرابے کے اپنے اردگرد ہمسائیوں یا رشتہ داروں یا دوست احباب کی مدد میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ ان خد ا ترس افراد کے مقابلے میں ریاستی اور حکومتی نظام کدھر ہے اور کیونکر لوگوں کے ساتھ لاتعلق ہوتا جارہا ہے ریاست اور حکومت کا جوابدہ ہونا , ذمے داری کا احساس ہونا , لوگوں کو ریلیف دینا اور ان کی زندگیوں میں خوشیا ں لانا ہی ریاستی نظام کی ساکھ کو قائم کرتا ہے۔ لوگوں کو اب طاقتور طبقات کی جانب سے امید نہیں چاہیے بلکہ وہ عملی بنیادوں پر اقدامات دیکھنا چاہتے ہیں اور وہ ��ھی فوری طور پر ایسے اقدامات جو ان کی زندگیوں میں کچھ مثبت نمایاں تبدیلیاں لا سکے۔ موجودہ حالات میں مڈل کلاس یا درمیانی درجے کی کلاس کو ہم نے واقعی مفلوج کر دیا ہے اور ان کو اپنے رہن سہن میں مختلف نوعیت کے معاشی سمجھوتے کرنے پڑرہے ہیں۔ ان حالات کے ذمے دار وہی ہیں جن کو حکمرانی کرنے کا حق ملا، اختیارات ملے، وسائل ملے اور لوگ ان ہی کو جوابدہ بنانا چاہتے ہیں۔
جنگ وہ نہیں جو اسلحہ کی بنیاد پر کسی دشمن ملک سے لڑی جائے، ایک جنگ پاکستان کے لوگ پاکستان کے اندر حکمرانی کے نظام سے لڑ رہے ہیں اور اس جنگ نے لوگوں کو سیاسی طور پر تنہا کر دیا ہے یا اس ریاستی نظام سے لاتعلق بھی۔ اس جنگ کا دشمن ظالمانہ حکمرانی کا نظام ہے اور اس میں زیادہ تر وہی لوگ ہیں جو عوام دشمنی کو بنیاد بنا کر اپنے لیے وسائل کو سمیٹ رہے ہیں۔ یہ جنگ عملاً ریاستی نظام کمزور کر رہی ہے اور لوگو ں کو مجبور کر رہی ہے کہ وہ اس ملک کو چھوڑ کر کسی اور دنیا میں اپنی منزل تلاش کریں۔ ہمیں اگر واقعی ملک میں سول نافرمانی سے بچنا ہے یا ملک کو ایک بڑی ہیجانی یا انتشار یا ٹکراو کی سیاست سے باہر نکالنا ہے تو ہمیں بہت کچھ نیا کرنا ہو گا۔ غیرمعمولی اقدامات ہماری بنیادی نوعیت کی ترجیحات ہونی چاہیے اور ایسی ترجیحات جس میں طاقتور طبقات کو قانون کے شکنجے میں لایا جائے اور عام آدمی کے مقدمہ کو زیادہ فوقیت دی جائے لیکن سوال یہ ہی ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا اور کون لوگوں کے دکھوں میں خود کو ایک بڑے سہارے کے طور پر پیش کریگا کیونکہ ریاستی اور حکومتی نظام آسانی سے تبدیل نہیں ہوتا اور نہ ہی طاقتور طبقہ اسے آسانی سے بدلنے کی اجازت دیتا ہے۔
یہ ایک سیاسی جدوجہد کی کہانی ہے جہاں ہمیں ریاستی یا حکومتی نظام پر ایک بڑے دباؤ کی سیاست پیدا کرنا ہوتی ہے۔ یہ کام سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادت کرتی ہیں لیکن وہ تو سیاسی بانجھ پن کا شکار ہیں اور ان کے مفادات عوامی مفادات کے برعکس نظر آتے ہیں۔ ایسے میں لوگ کدھر جائیں گے، ڈر ہے کہ لوگوں میں موجود غصہ ایک بڑے انتقام کی سیاست کی صورت میں آج نہیں تو کل سامنے آئے گا۔ سیاسی نظام کی قیادت سے لاتعلق عوامی ردعمل کسی بھی صورت میں ریاستی مفاد میں نہیں ہوتا کیونکہ یہ عمل حالات کو اور زیادہ خراب کرتا ہے۔ اس لیے اب بھی وقت ہے کہ ہم ہوش سنبھالیں اور خود کو عوام کے ساتھ جوڑیں یہ ہی حکمت عملی ہمیں کچھ بہتری کا راستہ دے سکتی ہے۔
سلمان عابد
بشکریہ ایکسپریس نیوز
#Economic crisis#Economy#Pakistan#Pakistan Economy#Pakistan Nation#Pakistan poverty#Pakistan Society#World
0 notes
Text
آئی پی پیز معاہدوں کی تجدید ملکی مفاد میں نہیں
اپنے گزشتہ کئی کالموں میں بار بار حکومت سے آئی پی پیز سے گئے معاہدوں اور ان سے بجلی خریدے بغیر کیپسٹی سرچارج کی مد میں ادائیگی پر گہری تشویش کا اظہار کر چکا ہوں۔ میں نے یہاں تک کہا ہے کہ یہ کینسر زدہ معاہدے پاکستان کے پاور سیکٹر اور معیشت کو ڈبو سکتے ہیں لہٰذا جلدازجلد پاور سیکٹر میں اصلاحات لا کر اِن معاہدوں کی تجدید پر نظرثانی کی جائے جو پاکستان کو تباہی کی طرف لے جا رہے ہیں۔ سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے بجلی کے حالیہ اجلاس میں اس بات کا انکشاف کیا گیا ہے کہ رواں مالی سال 2023-24 میں بجلی کے صارفین کیپسٹی سرچارج کی مد میں 1300 ارب روپے بجلی خریدے بغیر آئی پی پیز کو ادا کرینگے۔ کیپسٹی سرچارج میں اضافے کی وجوہات میں روپے کی قدر میں مسلسل کمی، درآمدی کوئلے، RLNG اور بینکوں کا شرح سود میں اضافہ شامل ہے۔ گزشتہ 20 سال میں حکومت آئی پی پیز کو کیپسٹی سرچارج کی مد میں 8000 ارب روپے ادا کر چکی ہے جبکہ صرف گزشتہ سال 2000 ارب روپے ادا کئے گئے جو فوج کے بجٹ 1800 ارب روپے سے بھی زیادہ ہیں۔ آج کیپسٹی سرچارج کا یہ کینسر بڑھکر صارفین کے بلوں کا آدھے سے زیادہ تک پہنچ چکا ہے۔ 2021-22ء میں پاور سیکٹر میں ٹرانسمیشن اینڈ ڈسٹری بیوشن کے نقصانات اور چوری بڑھکر 550 ارب روپے (17 فیصد) تک پہنچ چکی ہے جس میں پشاور الیکٹریسٹی کے صرف ایک سال میں 154 ارب روپے (37 فیصد) کے نقصانات شامل ہیں جس میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے جو پورے سسٹم کو تباہ کر رہا ہے۔
اسمارٹ گرڈ اور جدید ٹیکنالوجی سے ہم ترسیل کے نقصانات کو ایک سال میں 50 فیصد کم کر سکتے ہیں لیکن ہم IMF کے مطالبے پر ان نقصانات کو عام صارفین سے بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کر کے وصول کر رہے ہیں جس سے بجلی کے نرخ ناقابل برداشت حد تک پہنچ چکے ہیں۔ میرے دوست اور فیصل آباد کے سابق ضلعی ناظم رانا زاہد توصیف نے مطالبہ کیا ہے کہ آئی پی پیز معاہدوں کی انکوائری اور بجلی خریدے بغیر کیپسٹی سرچارج کی ادائیگی پر ایک انکوائری کمیشن بنایا جائے اور ان کالی بھیڑوں کو، جو آئی پی پیز میں کک بیکس اور غیر حقیقی مراعات حاصل کر رہی ہیں، بے نقاب کیا جائے جس نے ملکی صنعت کو بھی خطے میں غیر مسابقتی بنا دیا ہے جس کا اندازہ ڈالر کی قیمت میں اضافے کے باوجود ملکی ایکسپورٹس میں مسلسل کمی سے لگایا جاسکتا ہے۔ بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی وجوہات میں آئی پی پیز کو بجلی خریدے بغیر کیپسٹی سرچارج کی ادائیگی، ٹرانسمیشن اینڈ ڈسٹری بیوشن نقصانات اور چوری، بجلی کے بلوں کی عدم ادائیگی، بلوں میں ٹیکسوں کی بھرمار، درآمدی کوئلے، فرنس آئل اور RLNG سے مہنگی بجلی کی پیداوار، فاٹا اور ٹیوب ویل کے صارفین کو سبسڈی اور واپڈا کے افسران کو مفت بجلی کی فراہمی شامل ہے۔ یہ سب خامیاں اور کوتاہیاں غریب صارفین سے بجلی کے بلوں کے ذریعے وصول کی جارہی ہیں جو سراسر ناانصافی ہے۔
2018ء میں بجلی کا اوسط یونٹ 11.72 روپے تھا جسکے بعد PTI دور حکومت میں بجلی کے نرخ میں 60 فیصد اضافہ کیا گیا اور بجلی فی یونٹ تقریباً 18 روپے ہوگئی۔ PDM حکومت نے گزشتہ سوا سال میں 4 مرتبہ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کیا جس سے بجلی کی قیمت 50 روپے فی یونٹ سے بھی بڑھ گئی ہے جبکہ اسکی اصل لاگت 30 روپے سے بھی کم ہے۔ بجلی کے بلوں میں 14 ٹیکسز وصول کئے جاتے ہیں جن میں الیکٹریسٹی ڈیوٹی، جنرل سیلز ٹیکس، انکم ٹیکس، فیول پرائز ایڈجسٹمنٹ (FPA)، فنانشل کاسٹ سرچارج (FCS)، میٹر رینٹ، ریڈیو، ٹی وی ٹیکس، ایکسٹرا ٹیکس اور دیگر ٹیکسز شامل ہیں۔ بجلی کے بلوں پر سامنے آنے والا عوامی ردعمل فطری ہے۔ حکومت IMF کی منظوری کے بغیر عوام کو بجلی کے بلوں میں کوئی ریلیف نہیں دے سکتی۔ ملک میں معاشی اور صنعتی سرگرمیوں میں سست رفتاری کی وجہ سے بجلی کی طلب میں کمی آئی ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ملک میں معاشی اور صنعتی سرگرمیاں تیز ہوں اور آئی پی پیز کو بجلی خریدے بغیر ادائیگیاں کرنے کے بجائے بجلی خرید کر انہیں ادائیگیاں کی جائیں۔ حکومت نے 1995، 2002، 2012، 2015 اور 2020 کی پاور پالیسی کے تحت 42 آئی پی پیز سے 15663 میگاواٹ بجلی کے معاہدے کئے ہوئے ہیں جن میں سے زیادہ تر کی معیاد اس سال یا آئندہ سال ختم ہونیوالی ہے۔
سابق مشیر پیٹرولیم ندیم بابر نے حکومت سے سفارش کی تھی کہ آئی پی پیز معاہدوں کی پرانی شرائط پر تجدید نہ کی جائے بلکہ نئے معاہدوں میں ڈالر میں منافع اور کیپسٹی سرچارج کے بجائے صرف خریدی گئی بجلی کی ادائیگی Competative Bidding کے ذریعے سب سے کم نرخ والے آئی پی پیز سے بجلی خریدی جائے۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ زیادہ تر آئی پی پیز کی پلانٹ مشینری میں اوور انوائسنگ کی گئی ہے اور 10 سال میں 60 ارب روپے کی سرمایہ کاری پر 400 ارب منافع لے چکے ہیں اور اب یہ پلانٹ مفت ہو گئے ہیں اور ان سے بجلی کی پیداواری لاگت نہایت کم ہو گئی ہے۔ نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے آئی پی پیز معاہدوں کو غیر منصفانہ کہا ہے جبکہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے آئی پی پیز کو 10 سال میں کی گئی ادائیگیوں کی تفصیلات طلب کر لی ہیں۔ بجلی کی قیمتیں بڑھانے پر گزشتہ ایک ہفتے میں ایک درجن سے زائد افراد خود کشی کر چکے ہیں اور مہنگائی، غربت اور بیروزگاری کے ستائے لوگ سول نافر مانی کی طرف جارہے ہیں۔ نگراں حکومت کو چاہئے کہ آئی پی پیز معاہدوں کی پرانی شرائط پر تجدید نہ کی جائے۔ اسکے علاوہ درآمدی کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں کو تھرکول پر منتقل کیا جائے تاکہ مقامی کوئلے سے سستی بجلی پیدا کی جاسکے۔ یاد رکھیں کہ اس بار مہنگائی اور اضافی بلوں کا ڈسا مڈل کلاس طبقہ ہی الیکشن کا فیصلہ کریگا کیونکہ اسکے پاس اب کھونے کیلئے کچھ نہیں بچا۔
ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
لوگ کیک کیوں نہیں کھاتے؟عطا محمد تبسم
ملک میں کامیاب ہڑتال پر جماعت اسلامی خوش ہے، اور اسے ایک بڑی کامیابی خیال کیا جارہا ہے، جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے امارت کی دوسری ٹرم پوری کرنے سے پہلے ملکی سیاست میں پہلی بار بھرپور احتجاج کیا ہے۔ گو اس احتجاج میں جماعت اسلامی سے زیادہ مہنگائی سے تنگ آئی عوام اور بجلی کے بلوں میں بے تحاشا اضافے کے خلاف عوامی غم و غصہ کا زیادہ دخل نظر آتا ہے۔بجلی پیٹرول کے نرخوں میں اضافے اور مہنگائی کی…
View On WordPress
0 notes
Text
صارفین کیلئے بجلی بلوں کی اقساط کی سہولت ختم عوام سخت پریشان
(اویس کیانی) بجلی تقسیم کار کمپنیوں کی جانب سے بجلی صارفین کو اقساط کی سہولت ختم کرنے کے بعد عوام سخت پریشانی میں مبتلا ہیں۔ سفید پوش اور غریب صارفین جو مہنگے بجلی کے بلوں کی اقساط کروا کر ادائیگی کر دیتے تھے، اب مشکلات کا شکار ہو گئے ہیں۔ نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کے احکامات کے تحت سال میں صرف ایک بار ��سطوں کا موقع فراہم کیا جاتا ہے اور بل کی آخری تاریخ میں توسیع نہیں کی جاتی،…
0 notes
Text
بجلی بلوں کی مقررہ تاریخ میں 10روزکا اضافہ
وزیر اعظم کی ہدایت پربجلی کے بلوں کی مقررہ تاریخ میں 10 روز کا اضافہ کردیاگیا۔ ترجمان لیسکو کاکہنا ہے کہ لیسکو صارفین ویب سائٹس سے نیا بل وصول کر سکتے ہیں، لیسکوکی جانب سے ماہ جولائی کے بلوں کی تاریخ میں توسیع کی گئی ہے۔تاریخ میں توسیع ہونے سے صارفین پر عائد ہونیوالا جرمانہ بھی ختم کردیاگیا ہے۔ واضح رہے کہ چند روز قبل وزیراعظم شہبازشریف نے بجلی بلوں پر عوام سے لیٹ فیس جرمانہ وصول نہ کرنے کے…
0 notes
Text
پی ٹی وی کی بھی نجکاری کی جائے
ہماری لڑکھڑاتی معیشت اگر پی آئی اے اور سٹیل مل جیسے اداروں کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی تو کیا یہ پی ٹی وی کے لنگر خانے کا بوجھ اٹھا سکتی ہے؟ اگر دیگر اداروں کی نجکاری کا سوچا جا سکتا ہے تو کیا پی ٹی وی کے سفید ہاتھی کی نجکاری نہیں ہو سکتی؟ پبلک پرائیویٹ پارٹنر سکیم کا بڑا شہرہ ہے تو کیا اس سکیم کا اطلاق پی ٹی وی پر نہیں ہو سکتا؟ کیا عقل اور دلیل کی دنیا میں اس رویے کا کوئی اعتبار ہے کہ بجلی کے بلوں سے تیس پینتیس روپے ٹیکس کاٹ اس ادارے میں منظور نظر افراد کو نوازا جائے اور اندھا دھند نوازا جائے؟ یہ ایک قومی ابلاغی ادارہ ہے اور یہاں کوئی میرٹ ہے یا یہ محض اپنے اپنے حصے کے کارندوں کو نوازنے کے لیے ایک چراگاہ ہے؟ پی ٹی وی کی الیکشن ٹرانسمیشن اس وقت شہر اقتدار میں زیر بحث ہے۔ معلوم نہیں آپ میں سے کسی نے یہ ٹرانسمیشن دیکھی ہے یا نہیں لیکن واقفان حال کا دعوی ہے کہ یہ ایک ایسی واردات تھی کہ اپنی نوعیت میں یہ نیب کا کیس ہے۔ یہ ٹرانسمیشن صرف بیس بائیس روز چلی۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ اس مختصر مدت کے لیے جو دو اینکر رکھے گئے تھے ان کا معاوضہ کیا تھا؟ سر پیٹ لیجیے ، یہ رقم قریب پونے دو کروڑ روپے بنتی ہے۔ یعنی قریب 84 لاکھ فی کس۔
دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کیا ایک ماہ سے بھی کم مدت کے لیے ٹی وی شو کرنے پر کسی میزبان کو 84 لاکھ روپے معاوضہ دینے کا کوئی جواز بنتا ہے؟ چند روز کے پروگرام اور دو اینکروں کو پونے دو کروڑ روپے۔ اس بے رحمی سے تو کوئی مال غنیمت بھی تقسیم نہ کرتا ہو جس سفاک انداز سے پاکستان ٹیلی وژن کے وسائل کو لوٹا جا رہا ہے۔ اس رقم میں دنیا کا قابل ترین آدمی بلایا جا سکتا تھا اور اس سے پروگرام کرایا جا سکتا تھا۔ لیکن پی ٹی وی نے اس رقم سے جو اینکر رکھے، ان کی صلاحیت اور تعارف کیا ہے۔ یہ معاوضہ کیا انہیں ان کی صلاحیت پر دیا گیا یا اس کی وجوہات کچھ اور تھیں؟ یہ وجوہات کیا ہو سکتی ہیں؟ کیا کوئی فورم ہے جہاں پر اس بندر بانٹ کی بابت سوال پوچھا جا سکے؟ پی ٹی وی میں معاوضے دینے کا طریقہ کار کیا ہے؟ کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ کا کوئی اصول ہے یا یہ مال غنیمت ہے اور یہ بانٹنے والے کی مرضی ہے کس کو کتنا عطا فرما دے؟ اتنا بھاری معاوضہ جنہیں دیا گیا ان کا مارکیٹ ریٹ کیا ہے؟
یہی نہیں بلکہ ذرائع ابلاغ میں نشر ہونے والی اطلاعات کے مطابق پی ٹی وی کی اس الیکشن ٹرانسمیشن کا صرف کھانے کی مد میں آخری دو دن کا بل 48 لاکھ روپے بنا۔ کیا کوئی ہے جو پی ٹی وی انتظامیہ سے پوچھ سکے کہ ان دو دنوں میں اس ٹرانسمیشن کے مہمانوں نے ایسا کیا کھا لیا کہ اس کا بل 48 لاکھ روپے بنا؟ یہ لوگ کھانا کھاتے رہے یا سارے معززین نے مل بیٹھ کر پیسے ہی کھائے؟ اس سارے پینل کو تمام شرکا کو اور ٹیکنیکل سٹاف کو اکٹھا کر کے کسی فائیو سٹار ہوٹل میں بند کر دیجیے اور اسے کہیے کہ دو دن جب اور جتنا اور جو چاہو یہاں سے کھا لو۔ پھر دو دن کے بعد حساب کر لیجیے کہ کیا وہ 48 لاکھ کا کھانا کھا گئے؟ ٹرانسپورٹ کا بھی سن لیجیے، سینیہ گزٹ کی خوف ناک چیزوں کو تو چھوڑ ہی دیجیے ذرائع ابلاغ میں نشر ہونے والی اطلاعات کے مطابق ٹرانسپورٹ پر ایک کروڑ روپے کا خرچ آیا، قریب اتنا ہی خرچ لوگوں کی رہائش کی مد میں ڈالا گیا۔ یہ بے رحم اور سفاک اخراجات اس ادارے کے ہیں جو اپنے ذرائع خود تلاش کرنے کے قابل نہیں اور جسے چلانے کے لیے ہر گھر کے بجلی بل سے تیس روپے کا ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔
غریب اور مسکین لوگ بھی یہ ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ کیا اس لیے کہ پی ٹی وی میں منظور نظر افراد کو نوازا جائے۔ کیا قومی اداروں کے ساتھ یہ سلوک ہوتا ہے؟ اور کیا ایسا سلوک کرنے والے قومی مجرم نہیں؟ ایسا ہر گز نہیں کہ پی ٹی وی میں قابل سٹاف نہیں ہے، مسئلہ یہ ہے کہ وہاں کارندوں کو نوازا جاتا ہے اور اس انداز سے نوازا جاتا ہے کہ محنت کرنے والا کارکن مایوس ہو کر لا تعلق ہو جاتا ہے۔ ہزاروں میں پی ٹی وی کا سٹاف ہے لیکن ڈائریکٹر نیوز اور ڈائریکٹر کرنٹ افیئرز اور اس جیسے عہدے پر باہر سے منظور نظر کارندوں کو لا کر بٹھا دیا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ پی ٹی وی کا اپنا ریگولر سٹاف جب موجود ہے تو باہر سے کنٹریکٹ پر لوگوں کو بھاری معاوضے پر لا کر کیوں بٹھایا جاتا ہے؟ جو بندر بانٹ پر اعتراض کرتا ہے نشان عبرت بنا دیا جاتا ہے اور جو سہولت کار بن جاتا ہے وہ بیک وقت جی ایم ، نیوز کنٹرولر اور ڈائریکٹر کرنٹ افیئرز کے تین تین عہدوں پر فائز کر دیا جاتا ہے۔
پی ٹی وی ایک متفقہ چراگاہ بن چکا ہے۔ میرٹ نام کی یہاں کوئی چیز نہیں رہی۔ ہر حکومت اپنے منظور نظر لوگوں کو باہر سے لا کربٹھاتی ہے اور اس کی وجہ ان کی متعلقہ شعبوں میں مہارت نہیں ہوتی ۔ یہ امور دیگر ہوتے ہیں جو ان لوگوں کو منصب پر لا بٹھاتے ہیں۔ یہ سلسلہ اب ختم ہونا چاہیے ۔ موجودہ معاشی حالات اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ پی ٹی وی کو ایک چراگاہ کے طور پر چلایا جائے۔ اسے ایک ادارہ بنانا ہو گا۔ اور اگر یہ ممکن نہیں تو پھر سفید ہاتھی کو ختم کر دینا چاہیے۔ اس کا سنہرا دور گزر چکا۔ اب یہ ایک بوجھ ہے۔ س��اج پر بھی اور قومی خزانے پر بھی۔ قومی زندگی میں اس کا مثبت کردار عرصہ ہوا ختم ہو چکا ہے۔ نہ یہ اچھے ڈرامے بنا رہا ہے نہ کوئی ڈھنگ کی ڈاکومنٹری بن رہی ہے۔ سیاحت سے سماج تک کسی موضوع میں اس کا کوئی قابل ذکر کردار نہیں رہا۔ یہ صرف ایک چراگاہ بن چکا ہے۔ جہاں منظور نظر لوگ آتے ہیں تین چار ہفتوں میں اسی نوے لاکھ لے کر چلے جاتے ہیں۔
اب کچھ آئوٹ آف دی باکس سوچنا ہو گا۔ یا تو اسے ایک ادارے کے طور پر کھڑا کیا جائے اور بندر بانٹ کے خاتمے کو یقینی بنایا جائے اور اگر یہ ممکن نہیں تو جہاں سٹیل ملز اور پی آئی اے کی نجکاری کی جارہی ہے وہیں پی ٹی وی کی بھی نجکاری کر دی جائے۔ جتنے وسائل اور انفراسٹرکچر اس کے پاس ہے، اس میں پاکستان کے تمام چینل چل سکتے ہیں۔ اگر پی ٹی وی اپنے لیے مالی امکانات خود تلاش نہیں سکتا تو بجلی کے بلوں کی مد میں مہنگائی کے ستائے لوگوں سے ٹیکس لے لے کر اسے کیوں چلایا جائے۔ بجا کہ ریاستی ٹی وی کو نجی ٹی وی کے کاروباری ماڈل پر نہیں چلایا جا سکتا لیکن اسے موجودہ طرز پر بھی نہیں چلایا جا سکتا جہاں قومی وسائل کو مال غنیمت سمجھ کر بے رحمی سے منظور نظر افراد میں بانٹا جاتا ہے۔
آصف محمود
بشکریہ روزنامہ ٩٢نیوز
#Economy#Pakistan#Pakistan Economy#Pakistan Steel Mills#PIA#Privatization#PTV#PTV privatization#World
0 notes
Text
بجلی بلوں میں اضافے اور مہنگائی کیخلاف عوام سراپا احتجاج ، شٹرڈائون ہڑتال
http://dlvr.it/SvXPkW
0 notes
Text
پریس ریلیز
پنجاب کے لوگ عقلمند ہیں، بانی پی ٹی آئی یہاں مقبول نہیں: عظمی بخاری
کوئی شخص بانی پی ٹی آئی یا گنڈاپور کی طرح بات نہ کرے تو پی ٹی آئی میں رہ ہی نہیں سکتا: وزیراطلاعات پنجاب
لاہور 20 ستمبر:- وزیراطلاعات پنجاب عظمٰی بخاری نے کہا ہے کہ پنجاب کے لوگ عقلمند ہیں، کارکردگی پر توجہ دیتے ہیں، بانی پی ٹی آئی پنجاب میں مقبول نہیں۔ اسلام آباد کے جلسے میں صرف خیبرپختونخوا کے لوگ آئے، یہ لوگ ملک توڑنے کی بات کرتے ہیں اور اداروں کو دھمکیاں دیتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ خیبر پختوانخواہ والے6 ماہ سے صرف جلسے جلوس کھیل رہے ہیں، ان کا صوبہ ہزار ارب روپے کا مقروض ہے، جھوٹے بیانیے بنا کر یہ کب تک عوام کو دھوکہ دے سکتے ہیں۔عظمٰی بخاری نے کہا کہ یہ بدتمیز اور بد تہذیب لوگ ہیں، سلمان اکرم راجہ پڑھے لکھے ضرور ہیں لیکن ان کا لہجہ بھی پی ٹی ئی کے دوسرے لوگوں جیسا ہے۔ کوئی شخص بانی پی ٹی آئی یا علی امین گنڈاپور کی طرح بات نہ کرے تو وہ پی ٹی آئی میں رہ ہی نہیں سکتا۔انہوں نے کہا کہ ملک میں مہنگائی میں کمی ہو رہی ہے، بجلی کے بلوں میں ریلیف دیا گیا ہے، ایک صوبے کے وزیراعلی کو اسی صوبے کی خدمت کرنے کا مینڈیٹ ملا ہے، ایک صوبے کے وزیراعلٰی کو دوسرے صوبے پر یلغار کرنے کا مینڈیٹ نہیں ملا۔
٭٭٭٭
0 notes