#رشتہ
Explore tagged Tumblr posts
topurdunews · 2 months ago
Text
وزیر داخلہ محسن نقوی کی سالگرہ ،رشتہ داروں ، دوستوں اور خیرخواہوں کا نیک خواہشات کا اظہار
(24نیوز)وفاقی وزیر داخلہ اور چیئرمین پی سی بی محسن نقوی نے زندگی کا نیا سنگ میل کامیابی سے طے کرلیا۔ تفصیلات کے مطابق   محسن نقوی کی سالگرہ پر دنیا بھر سے تہنیتی  پیغامات کا تانتا بندھ گیا، محسن نقوی کے رشتہ داروں ، دوستوں اور خیرخواہوں  نے  نیک خواہشات کا اظہار کردیا۔ محسن نقوی کو سیاسی، سماجی اور عوامی حلقوں کی جانب سے بھی مبارکباد کے پیغامات اور دعاؤں  کا سلسلہ جاری ہے۔محسن نقوی نےاپنی…
0 notes
urdu-e24bollywood · 2 years ago
Text
تمنا بھاٹیہ کا اس اداکار سے رشتہ ہے! گوا میں لپ کس مکمل
تمنا بھاٹیہ کا اس اداکار سے رشتہ ہے! گوا میں لپ کس مکمل
تمنا بھاٹیہ: آخری دن تمنا بھاٹیہ کے بارے میں اطل��ع ملی کہ وہ جلدی سے ایک بزنس مین سے شادی کرنے جارہی ہیں۔ بہر حال، اداکارہ اس معلومات کے بہانے کے طور پر کہا جاتا ہے. وہیں نئے سال کا جشن منانے کے بعد اداکارہ ایک بار پھر اپنی نجی زندگی کے حوالے سے سرخیوں میں آگئی ہیں۔ تمنا کا تعلق کسی بزنس مین سے نہیں بلکہ اس کے ذاتی شعبے کی اداکار ہے۔ تمنا بھاٹیہ کا بوائے فرینڈ مثال کے طور پر کہ تمنا بھاٹیہ حال…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
googlynewstv · 3 months ago
Text
سوزین فاطمہ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئیں
شوبز انڈسٹری سےوابستہ اداکارہ سوزین فاطمہ رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئیں۔  سوزین فاطمہ نےاپنی شادی کی تصاویرسوشل میڈیا کی ویب سائٹ انسٹاگرام پر شیئر کیں اوراپنی شادی کےحوالے سےمداحوں کوآگاہ کیا۔ اداکارہ نےاپنی پوسٹ میں لکھا کہ انہوں نےشادی گزشتہ سال دسمبرکی 16 تاریخ کو کی تھی تاہم سوزین کی جانب سےاپنی شادی کا خلاصہ تصاویر کے ساتھ گزشتہ روزکیا گیا۔ سوزین فاطمہ نےپوسٹ میں یہ بھی لکھا کہ دو لوگوں…
0 notes
qalbtalk · 4 months ago
Text
کچھ لوگوں سے صرف خوابوں، خیالوں، اور دعاؤں کا رشتہ ہوتا ہے۔
kuch logoon se sirf khwaboon, khayaloon, aur duaon ka rishta hota hai.
65 notes · View notes
thedelusionalselenophile · 4 months ago
Text
Tumblr media
شاید یوں ہی چلے گا تیرا میرا رشتہ عمر بھر
مل گئے تو باتیں لمبی ، نہ ملے تو یادیں لمبی ~
Shayed yun hi chale ga tera mera rishta umr bhar
Mil gaye tou baatain lambi, naa mille tou yaadain lambi ~
*Credits go to rightful owners
18 notes · View notes
urdu-poetry-lover · 3 months ago
Text
آخری بار ملو
آخری بار ملو ایسے کہ جلتے ہوئے دل
راکھ ہو جائیں کوئی اور تقاضہ نہ کریں
چاک وعدہ نہ سلے زخم تمنا نہ کھلے
سانس ہموار رہے شمع کی لو تک نہ ہلے
باتیں بس اتنی کہ لمحے انہیں آ کر گن جائیں
آنکھ اٹھائے کوئی امید تو آنکھیں چھن جائیں
اس ملاقات کا اس بار کوئی وہم نہیں
جس سے اک اور ملاقات کی صورت نکلے
اب نہ ہیجان و جنوں کا نہ حکایات کا وقت
اب نہ تجدید وفا کا نہ شکایات کا وقت
لٹ گئی شہر حوادث میں متاع الفاظ
اب جو کہنا ہے تو کیسے کوئی نوحہ کہیے
آج تک تم سے رگ جاں کے کئی رشتے تھے
کل سے جو ہوگا اسے کون سا رشتہ کہیے
پھر نہ دہکیں گے کبھی عارض و رخسار ملو
ماتمی ہیں دم رخصت در و دیوار ملو
پھر نہ ہم ہوں گے ��ہ اقرار نہ انکار ملو
آخری بار ملو
مصطفی زیدی
7 notes · View notes
hasnain-90 · 10 days ago
Text
کیا آپ نے دیکھا ہے ؟
جب تعلقات کے درمیان سے
محبت نکل جاتی ہے
تو گفتگو کیسے رسمی سی ہو جاتی ہـــے،
پھیکے پھیکے سے بے جان لہجے اس قدر سرد
ہو جاتے ہیں کہ
دور دور تک ان کی حرارت ہی محسوس نہیں ہوتی،
کسی بھی گرمجوشی سے خالی فقط ضرورت کی بات کی جاتی ہے ـ
اک دوجے سے نہ دکھ درد کو بیان کیا جاتا ہے اور نہ ہی خوشی و خوشخبریاں بانٹی جاتی ہیں
محبت کیا مر جاتی ہے
تعلق کی روح ہی ختم ہوجاتی ہے
اور قریب سے قریب تر رشتہ بھی
پرائے سے پرایا ہو کر رہ جاتا ہے 🥀
6 notes · View notes
emergingpakistan · 25 days ago
Text
وہ امریکہ اب نہیں رہا
Tumblr media
امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ اور کملا ہیرس کے درمیان صدارتی انتخاب ایک حقیقت کے سامنے بے بس تھا اور وہ ہے اکیسویں صدی میں امریکہ کی مسلسل تنزلی۔ امریکہ نے اپنی قیادت، اعتماد، اخلاقی ساکھ اور اقتصادی برتری کھو دی ہے۔ 20 جنوری 2025 کو صدر ٹرمپ ایک ہی وقت میں امریکی گھمنڈ کے تازہ ترین علمبردار اور امریکی تنزلی کے جنازہ بردار کا حلف اٹھائیں گے۔ 1987 میں پال کینیڈی کی کتاب ’دی رائز اینڈ فال آف دی گریٹ پاورز‘ نے اس وقت تنازعہ کھڑا کیا جب اس نے ’امپیریل اوور سٹریچ‘ یعنی طاقت سے زیادہ غیر معمولی پھیلاؤ کو امریکی زوال کی ممکنہ وجہ قرار دیا۔ اس وقت امریکہ کی سب سے بڑی پریشانی کا باعث جاپان تھا، جو اپنی نمایاں دولت، جدید ٹیکنالوجی اورمعاشی انتظام کے نئے طریقوں کے ساتھ امریکہ کو چیلنج کر رہا تھا۔ 1989 کا اہم سال افغانستان سے سوویت یونین کی واپسی کے ساتھ شروع ہوا۔ فرانسیس فوکویاما نے اپنے مضمون ’دی اینڈ آف ہسٹری‘ میں لبر�� جمہوریت اور سرمایہ داری کی تاریخ میں حتمی فتح کا اعلان کیا۔  دیوارِ برلن نومبر 1989 میں گری اور اس کے ساتھ ہی سوویت استبداد کا پردہ بھی گر گیا۔ امریکی فاتحین نے دعویٰ کیا کہ سوویت یونین نے ’اوور سٹریچ‘ کا شکار ہو کر شکست کھائی۔
سوویت یونین کی جانب سے 1990 میں جرمنی کے دوبارہ اتحاد پر اتفاق اور صدام حسین کے کویت پر حملے نے ’نیو ورلڈ آرڈر‘ کو جنم دیا۔ 1991 کا سال عراق میں امریکہ کی فتح سے شروع ہوا اور سوویت یونین کی تحلیل پر ختم ہوا۔ 1991 سے 2001 کا عشرہ امریکہ کے ہائپر پاور ہونے کا دور تھا۔ سوویت یونین کے بکھرنے، چین کی کمزوری اور انٹرنیٹ کے کمرشل استعمال میں آنے سے امریکہ نے ’غیر معمولی عظمت‘ کا لطف اٹھایا جیسا کہ ایڈورڈ گِبن نے اپنی کتاب ’دی ڈیکلائن اینڈ فال آف دی رومن ایمپائر‘ میں بیان کیا۔ امریکہ کے سامنے کوئی حریف نہیں تھا یوں لگتا تھا کہ 20ویں صدی کی طرح 21ویں صدی میں بھی امریکہ ہی مستقبل کی طاقت ہو گا۔ ستمبر 2001 کی ایک صبح، کئی سو سالوں سے موجود امریکی رجائیت اور اعتماد دہشت گردی کے سامنے ڈھیر ہو گئے اور ان کی جگہ تکبر اور تنگ نظر قومیت پرستی نے لے لی، جس کا اظہار امریکی ووٹروں نے ایک مرتبہ پھر ڈونلڈ ٹرمپ کو منتخب کر کے کیا ہے۔ 21ویں صدی کے پہلے عشرے میں دو جنگوں اور دو اقتصادی واقعات نے امریکی زوال کوتیز تر کیا۔
Tumblr media
اس وقت کی واحد سُپر پاور نے افغانستان پرغیظ وغضب کے ساتھ اور عراق پر تکبر کے ساتھ حملہ کیا۔ امریکہ کو دونوں جنگوں میں شکست ہوئی۔ 2003 میں عراق پرامریکی حملہ دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر کے سوویت یونین پر حملے کے بعد جنگی حکمت عملی کی سب سے بڑی غلطی تھی۔ افغانستان میں امریکہ کی شکست دہائیوں پر محیط، کئی کھرب ڈالر کی فوجی، تکنیکی، سٹریٹیجک اور سیاسی تباہی تھی۔ عراق اور افغانستان نے پروفیسر کینیڈی کے نظریے ’امپیریل اوور سٹریچ‘ کی تصدیق کر دی۔ 2000 میں چین کی ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (ڈبلیو ٹی او) میں شمولیت اور 2008 کے مالیاتی بحران نے امریکہ کو 9/11  سے زیادہ کمزور کیا۔ چین کی ڈبلیو ٹی او میں شمولیت نے امریکی صنعت کو کھوکھلا کر دیا۔ 2010 تک چین دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت بن چکا تھا۔ 2024 میں چینی معیشت جاپان، بھارت اور جرمنی کی مشترکہ معیشت سے بڑی ہو چکی ہے۔ 2008 کے مالیاتی بحران نے مغربی ��قتصادی ترقی کو تقریباً دو دہائیوں کے لیے سست کر دیا اور نیولبرل جمہوریت اور اس کی اقتصادی شاخ، گلوبلائزیشن میں مغربی عوام کے اعتماد کو ہلا کر رکھ دیا۔
جب مغربی جمہوریتوں کے ووٹر جمہوریت پر سوال اٹھا رہے تھے، چین ہر سال نہیں بلکہ ہر دہائی میں معاشی ترقی کے جھنڈے گاڑ رہا تھا۔ امریکہ اور مغرب نے اشتراکیت کے خلاف سرد جنگ اس لیے نہیں جیتی کہ ان کے نظریات بہتر تھے، بلکہ اس لیے جیتی کہ وہ دہائیوں تک کمیونسٹ بلاک کے مقابلے میں زیادہ دولت مند اور تکنیکی طور پر جدیدیت کے حامل تھے۔ چینی معاشی کارکردگی نے لبرل جمہوریت، اقتصادی ترقی اور تکنیکی جدت کے درمیان مغرب کا رشتہ کاٹ کر رکھ دیا ہے، کوئی تعجب نہیں کہ دنیا بھر میں ووٹر استبدادی عوامی قیادت کی طرف رجوع کر رہے ہیں، چاہے وہ انڈونیشیا ہو، بھارت ہو، ہنگری ہو، یا اب امریکہ ہو۔ امریکہ کی تنزلی کا آخری پہلو اخلاقی ہے جسے مورخ ایڈورڈ گِبن نے ’معاشرتی فضائل‘ کی کمی لکھا تھا۔ سیاہ فاموں کی غلامی سے لے ��رعراق کی ابو غریب جیل میں انسانی حقوق کی پامالی تک، امریکی طرز عمل میں منافقت ہمیشہ موجود رہی ہے۔ تاہم سرد جنگ کے دوران، جب تک سوویت یونین اور اس کے اتحادی اپنے شہریوں کی آزادیوں کو دباتے، ان کے اقتصادی حقوق چھینتے اور ان کی غریبی میں اضافہ کرتے رہے اور اس کے برعکس امریکہ ضرورت مند ممالک کی مدد کرتا رہا، ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی حملوں کی اخلاقی ہولناکی کو نظرا نداز کیا جاتا رہا۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ نے نئے بین الاقوامی اداروں کی تخلیق اور قیادت کی جو جنگ کو روکنے اور غریب ممالک کی مدد کے لیے بنائے گئے تھے۔ اقوام متحدہ، آئی ایم ایف، نیٹو اور ورلڈ بینک اس کی اہم مثالیں ہیں۔ ان اداروں کے فوائد پر بحث ہو سکتی ہے۔ جو چیز بحث سے بالاتر ہے وہ یہ ہے کہ یہ ادارے امریکی اولیت کو مضبوط کرتے ہیں اور ساتھ ہی امریکہ کو دوسرے ملکوں کو اخلاقی بھاشن دینے کا جواز فراہم کرتے ہیں۔ امریکہ اپنے حواری ملکوں کو کئی دہائیوں سے تحفظ فراہم کر رہا ہے، بین الاقوامی معاشی معاملات میں امریکہ نے ’قواعد پر مبنی بین الاقوامی نظام‘ کی تخلیق کی اور اس کا دفاع کیا۔ سوویت یونین کے خلاف سرد جنگ کو ایک اخلاقی جنگ میں تبدیل کیا، جس میں انسانی حقوق اور جمہوریت کے لیے بیانیے کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ امریکہ کی تنزلی صرف افغانستان اور عراق میں ہی نظر نہیں آتی بلکہ کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ اس کی ابتدا 1971 میں سونے کے معیار کو زبردستی ترک کرنے سے ہوئی۔ 1973 میں اوپیک تیل کے بائیکاٹ سے اس تنزلی میں تیزی پیدا ہوئی جوکہ 1974 میں صدر نکسن کے استعفے اور 1975 میں ویت نام سے شرمناک انخلا سے تیز تر ہوئی۔
1970 کی دہائی میں امریکی تنزلی کا اثر امریکی شہروں میں واضح طور پر نظر آیا۔ معاشرتی طور پر 1995 میں اوکلاہوما پر بمباری، 2005 میں قطرینا طوفان اور کووڈ 19 کے دوران 12 لاکھ سے زیادہ امریکیوں کی ہلاکت نے اس تنزلی کو دنیا پر واضح کر دیا۔ آج دنیا کے مستقبل کا استعارہ امریکی شہر نہیں بلکہ مشرق وسطیٰ اور مشرقی ایشیا کے شہر ہیں۔ امریکہ آج بھی دنیا میں فوجی اخراجات اور پوری دنیا میں فوجی طاقت کی موجودگی میں سب سے آگے ہے۔ امریکہ اپنے دفاع پر اگلے آٹھ ممالک سے زیادہ خرچ کرتا ہے۔ دفاعی اعتبار سے امریکہ اب بھی واحد سپر پاور ہے۔ امریکی معیشت آج بھی دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے، جس کی موجودہ سب سے بڑی طاقت انٹرنیٹ پر مبنی ہے۔ ہالی وڈ اور مقبول ثقافت کی نرم طاقت ابھی تک پُراثر ہے۔ امریکی ڈالر دنیا کی غالب کرنسی ہے اور امریکی استعمار کو قائم رکھنے میں طاقتور ہتھیار ہے۔ امریکہ زوال پذیر ہو رہا ہے، لیکن روم کی سلطنت کی طرح اس کا انہدام ابھی نظر نہیں آ رہا لیکن امریکی قوم کی سخاوت، کشادگی اور روح کے وسیع پن کا انہدام ہو گیا ہے۔
امریکی سیاسی قیادت کا معیاراتنی تیزی سے گرا ہے جتنا کہ اس کی جمہوریت کا معیار، جس کی واضح مثال 6 جنوری 2021 کو امریکی کانگرس پر ہونے والا مسلح حملہ ہے۔ اکتوبر 2023 کے بعد امریکہ نے اپنی اخلاقی حیثیت کے آخری چیتھڑے بھی کھو دیے ہیں، جب اس نے وہ ہتھیار فراہم کیے جو غزہ میں 42 ہزار سے زائد بے گناہ، نہتے انسانوں اور بچوں کی جان لے چکے ہیں اور جب امریکہ نے انسانی حقوق کو ملیامیٹ کرنے والی نسل کشی، ظالمانہ بمباری، جبری بے دخلی اور سفاک قتل عام پر آنکھیں بند کر لیں۔ یہ دلیل دی جاسکتی ہے کہ امریکہ دوسری جنگ عظیم سے پہلے کی صورت حال میں واپس جا رہا ہے، یعنی دنیا کی دوسری بڑی طاقتوں کے درمیان ایک طاقت، لیکن ہم نے پچھلی دہائیوں میں ایک کھلا، سخاوت سے بھرا اور خوش آمدید کہنے والا امریکہ بھی دیکھا ہے جو اپنی تمام خامیوں کے باوجود اپنے بنیادی جمہوری تصورات اور انسانی اصولوں پر عمل کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ وہ امریکہ اب نہیں رہا۔
خرم دستگیر خان  خرم دستگیر مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر برائے خارجہ امور اور سابق وزیرِ دفاع رہ چکے ہیں۔
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
2 notes · View notes
my-urdu-soul · 6 months ago
Text
اس وقت تو یوں لگتا ہے اب کچھ بھی نہیں ہے
مہتاب نہ سورج ، نہ اندھیرا نہ سویرا
آنکھوں کے دریچوں پہ کسی حسن کی چلمن
اور دل کی پناہوں میں کسی درد کا ڈیرا
ممکن ہے کوئی وہم تھا ، ممکن ہے سنا ہو
گلیوں میں کسی چھاپ کا اک آخری پھیرا
شاخوں میں خیالوں کے گھنے پیڑ کی شاید
اب آکے کرے گا نہ کوئی خواب بسیرا
اک بیر ، نہ اک مہر ، نہ اک ربط نہ رشتہ
تیرا کوئی اپنا ، نہ پرایا کوئی میرا
مانا کہ یہ سنسان گھڑی سخت کڑی ہے
لیکن میرے دل یہ تو فقط اک ہی گھڑی ہے
ہمت کرو جینے کو تو اک عمر پڑی ہے
- فیض احمد فیض
5 notes · View notes
urduclassic · 4 months ago
Text
پاکستانیوں کا فلسطین سے رشتہ کیا؟
Tumblr media
جس کے پاس کھونے کیلئے کچھ نہ ہو وہ اپنے طاقتور دشمن پر فتح پانے کیلئے موت کو اپنا ہتھیار بنا لیتا ہے۔ فلسطینیوں کی مزاحمتی تنظیم حماس کو بہت اچھی طرح پتہ تھا کہ اسرائیل پر ایک بڑے حملے کا نتیجہ غزہ کی تباہی کی صورت میں نکل سکتا ہے لیکن حماس نے دنیا کو صرف یہ بتانا تھا کہ اسرائیل ناقابل شکست نہیں اور مسئلہ فلسطین حل کئے بغیر مشرق وسطیٰ میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ اب آپ حماس کو دہشت گرد کہیں یا جنونیوں کا گروہ کہیں لیکن حماس نے دنیا کو بتا دیا ہے کہ کچھ عرب ممالک کے حکمران اسرائیل کے سہولت کار بن کر مشرق وسطیٰ میں امن قائم نہیں کرسکتے امن قائم کرنا ہے تو فلسطینیوں سے بھی بات کرنا پڑیگی۔ اس سوال پر بحث بے معنی ہے کہ اسرائیل اور امریکہ کی طاقتور انٹیلی جنس ایجنسیاں حماس کے اتنے بڑے حملے سے کیسے بے خبر رہیں؟ حماس کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ شیخ احمد یاسین نے تنظیم آزادی فلسطین (پی ایل او) کے سربراہ یاسر عرفات سے مایوسی کے بعد حماس قائم کی تھی۔
شیخ احمد یاسین کو 2004ء میں اسرائیل نے نماز فجر کے وقت میزائل حملے کے ذریعہ شہید کر دیا تھا لہٰذا حماس اور اسرائیل میں کسی بھی قسم کی مفاہمت کا کوئی امکان نہیں تھا۔ اگست 2021ء میں افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد یہ طے تھا کہ فلسطین اور کشمیر میں مزاحمت کی چنگاریاں دوبارہ بھڑکیں گی۔ فلسطین اور کشمیر کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے۔ یہ تعلق مجھے 2006ء میں لبنان کے شہر بیروت کے علاقے صابرہ اورشتیلا میں سمجھ آیا۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں اسرائیلی فوج نے 1982ء میں فلسطینی مہاجرین کا قتل عام کرایا تھا۔ 2006ء کی لبنان اسرائیل جنگ کے دوران میں کئی دن کیلئے بیروت میں موجود رہا۔ ایک دن میں نے اپنے ٹیکسی ڈرائیور کے سامنے مفتی امین الحسینی کا ذکر کیا تو وہ مجھے صابرہ شتیلا کے علاقے میں لے گیا جہاں شہداء کے ایک قبرستان میں مفتی امین الحسینی دفن ہیں۔ مفتی امین الحسینی فلسطینیوں کی تحریک مزاحمت کے بانیوں میں سےتھے۔ مفتی اعظم فلسطین کی حیثیت سے انہوں نے علامہ اقبال ؒ، قائد اعظم ؒ اور مولانا محمد علی جوہر ؒسمیت برصغیر کے کئی مسلمان رہنمائوں کو مسئلہ فلسطین کی اہمیت سے آشنا کیا۔
Tumblr media
2006ء میں امریکی سی آئی اے نے ان کے بارے میں ایک خفیہ رپورٹ کو ڈی کلاسیفائی کیا جو 1951ء میں تیار کی گئی تھی۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ مفتی امین الحسینی نے فروری 1951ء میں پاکستان کے شہر کراچی میں کشمیر پر منعقد ہونے والی ایک کانفرنس میں شرکت کی جس کے بعد وہ آزاد کشمیر کے علاقے اوڑی گئے اور انہوں نے کشمیریوں کی تحریک آزادی کی حمایت کی۔ اسی دورے میں وہ جنوبی وزیرستان کے علاقے وانا گئے اور وہاں کے قبائلی عمائدین سے ملاقات کی۔ ایک قبائلی رہنما نے مفتی امین الحسینی کو ایک سٹین گن کا تحفہ دیا جو اس نے 1948ء میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج سے چھینی تھی۔ مفتی صاحب نے وزیر قبائل سے درخواست کی کہ وہ پاکستان کے خلاف بھارتی سازشوں کا حصہ نہ بنیں۔ امریکی سی آئی اے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان سے مفتی صاحب کابل گئے اور انہوں نے بیت المقدس کے امام کی حیثیت سے افغان حکومت سے اپیل کی کہ وہ ’’پشتونستان‘‘ کی سازش کا حصہ نہ بنیں۔
ان کے مزار پر فاتحہ خوانی کے بعد مجھے ایک بزرگ فلسطینی ملا اور اس نے کہا کہ وہ بہت سوچتا تھا کہ مفتی اعظم فلسطین کو اتنی دور پاکستان جانے کی کیا ضرورت تھی اور کشمیریوں کی اتنی فکر کیوں تھی لیکن آج ایک پاکستانی کو ان کی قبر پر دیکھ کر سمجھ آئی کہ پاکستانیوں کو فلسطینیوں کے لئے اتنی پریشانی کیوں لاحق رہتی ہے۔ ہمارے بزرگوں نے تحریک پاکستان کے ساتھ ساتھ فلسطین اور کشمیر کیلئے تحریکوں میں بھی دل وجان سے حصہ لیا اس لئے عام پاکستانی فلسطین اور کشمیر کے درد کو اپنا درد سمجھتے ہیں۔ علامہ اقبالؒ نے 3 جولائی 1937ء کو اپنے ایک تفصیلی بیان میں کہا تھا کہ عربوں کو چاہئے کہ اپنے قومی مسائل پر غوروفکر کرتے وقت اپنے بادشاہوں کے مشوروں پر اعتماد نہ کریں کیونکہ یہ بادشاہ اپنے ضمیروایمان کی روشنی میں فلسطین کے متعلق کسی صحیح فیصلے پر نہیں پہنچ سکتے۔ قائد اعظم ؒنے 15 ستمبر 1937ء کو مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ لکھنؤمیں مسئلہ فلسطین پر تقریر کرتے ہوئے برطانیہ کو دغا باز قرار دیا۔
اس اجلاس میں ایک قرارداد کے ذریعہ تمام مسلم ممالک سے درخواست کی گئی کہ وہ بیت المقدس کو غیر مسلموں کے قبضے سے بچانے کیلئے مشترکہ حکمت عملی وضع کریں۔ پھر 23 مارچ 1940ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ لاہور میں بھی مسئلہ فلسطین پر ایک قرار داد منظور کی گئی۔ میں ان حقائق کو ان صاحبان کی توجہ کیلئے بیان کر رہا ہوں جو دعویٰ کیا کرتے تھے کہ قیام پاکستان تو دراصل انگریزوں کی سازش تھی اور قائد اعظم ؒنے 23 مارچ کی قرارداد انگریزوں سے تیار کرائی۔ ۔اگر قائداعظم ؒ انگریزوں کے ایجنٹ تھے تو انگریزوں کے دشمن مفتی امین الحسینی سے خط وکتابت کیوں کرتے تھے اور اسرائیل کے قیام کیلئے برطانوی سازشوں کی مخالفت کیوں کرتے رہے ؟ سچ تو یہ ہے کہ برطانوی سازشوں کے نتیجے میں قائم ہونے والی فلسطینی ریاست کو امریکہ کے بعد اگر کسی ملک کی سب سے زیادہ حمایت حاصل ہے تو وہ بھارت ہے۔ آج بھارت میں مسلمانوں کےساتھ وہی سلوک ہو رہا ہے جو اسرائیل نے فلسطینیوں کے ساتھ روا رکھا اور اس ظلم وستم کا ردعمل حماس کے حملے کی صورت میں سامنے آیا۔ علامہ اقبال ؒ نے فلسطینیوں کو بہت پہلے بتا دیا تھا کہ
تری دوا نہ جنیوا میں ہے نہ لندن میں فرنگ کی رگ جاں پن��ہ یہود میں ہے
سنا ہے میں نے غلامی سے امتوں کی نجات خودی کی پرورش و لذت نمود میں ہے
فیض احمد فیض نے تو فلسطین کی تحریک آزادی میں اپنے قلم کے ذریعہ حصہ لیا اور 1980ء میں بیروت میں یہ اشعار کہے۔
جس زمیں پر بھی کھلا میرے لہو کا پرچم لہلہاتا ہے وہاں ارض فلسطیں کا علم
تیرے اعدا نے کیا ایک فلسطیں برباد میرے زخموں نے کیے کتنے فلسطیں آباد
ابن انشاء نے ’’دیوار گریہ‘‘ کے عنوان سے اپنی ایک نظم میں عرب بادشاہوں پر طنز کرتے ہوئے کہا تھا
وہ تو فوجوں کے اڈے بنایا کریں آپ رونق حرم کی بڑھایا کریں
ایک دیوار گریہ بنائیں کہیں جس پر مل کے یہ آنسو بہائیں کہیں
اور حبیب جالب بھی کسی سے پیچھے نہ رہے انہوں نے فلسطینی مجاہدین کو کعبے کے پاسبان قرار دیتے ہوئے ان کے مخالفین کے بارے میں کہا۔
ان سامراجیوں کی ہاں میں جو ہاں ملائے وہ بھی ہے اپنا دشمن، بچ کے نہ جانے پائے
حامد میر 
بشکریہ روزنامہ جنگ
3 notes · View notes
0rdinarythoughts · 2 years ago
Text
Tumblr media
ہمیں ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو سامنے سے چھرا مارنے میں ماہر ہوں۔ ہماری کمر میں جگہ صرف عزیزوں اور رشتہ داروں کے لیے مخصوص ہے۔
We need people who are good at stabbing from the front. The space in our backs is reserved for loved ones and relatives only.
Fyodor Dostoyevsky
25 notes · View notes
zokoshok · 6 months ago
Text
Tumblr media
گلزار کی نظمیں
1
اکیلے
کس قدر سیدھا، سہل، صاف ہے رستہ دیکھو
نہ کسی شاخ کا سایہ ہے، نہ دیوار کی ٹیک
نہ کسی آنکھ کی آہٹ، نہ کسی چہرے کا شور
دور تک کوئی نہیں، کوئی نہیں، کوئی نہیں
چند قدموں کے نشاں ہاں کبھی ملتے ہیں کہیں
ساتھ چلتے ہیں جو کچھ دور فقط چند قدم
اور پھر ٹوٹ کے گر جاتے ہیں یہ کہتے ہوئے
اپنی تنہائی لیے آپ چلو، تنہا اکیلے
ساتھ آئے جو یہاں کوئی نہیں، کوئی نہیں
کس قدر سیدھا، سہل، صاف ہے رستہ دیکھو
2
نظم
نظم الجھی ہوئی ہے سینے میں
مصرعے اٹکے ہوئے ہیں ہونٹوں پر
لفظ کاغذ پہ بیٹھتے ہی نہیں
اڑتے پھرتے ہیں تتلیوں کی طرح
کب سے بیٹھا ہوا ہوں میں جانم
سادہ کاغذ پہ لکھ کے نام ترا
بس ترا نام ہی مکمل ہے
اس سے بہتر بھی نظم کیا ہوگی!
3
گرہیں
مجھ کو بھی ترکیب سکھا کوئی یار جلاہے
اکثر تجھ کو دیکھا ہے کہ تانا بنتے
جب کوئی تاگا ٹوٹ گیا یا ختم ہوا
پھر سے باندھ کے
اور سرا کوئی جوڑ کے اس میں
آگے بننے لگتے ہو
تیرے اس تانے میں لیکن
اک بھی گانٹھ گرہ بنتر کی
دیکھ نہیں سکتا ہے کوئی
میں نے تو اک بار بنا تھا ایک ہی رشتہ
لیکن اس کی ساری گرہیں
صاف نظر آتی ہیں میرے یار جلاہے!
4
بےخودی
دو سوندھے سوندھے سے جسم جس وقت
ایک مٹھی میں سو رہے تھے
لبوں کی مدھم طویل سرگوشیوں میں سانسیں الجھ گئی تھیں
مندے ہوئے ساحلوں پہ جیسے کہیں بہت دور
ٹھنڈا ساون برس رہا تھا
بس ایک روح ہی جاگتی تھی
بتا تو اس وقت میں کہاں تھا؟
بتا تو اس وقت تو کہاں تھی؟
5
دیکھو آہستہ چلو
دیکھو آہستہ چلو اور بھی آہستہ ذرا
دیکھنا سوچ سنبھل کر ذرا پاؤں رکھنا
زور سے بج نہ اٹھے پیروں کی آواز کہیں
کانچ کے خواب ہیں بکھرے ہوئے تنہائی میں
خواب ٹوٹے نہ کوئی جاگ نہ جائے دیکھو
جاگ جائے گا کوئی خواب تو مر جائے گا
6
اخبار
سارا دن میں خون میں لت پت رہتا ہوں
سارے دن میں سوکھ سوکھ کے کالا پڑ جاتا ہے خون
پپڑی سی جم جاتی ہے
کھرچ کھرچ کے ناخونوں سے
چمڑی چھلنے لگتی ہے
ناک میں خون کی کچی بو
اور کپڑوں پر کچھ کالے کالے چکتے سے رہ جاتے ہیں
روز صبح اخبار مرے گھر
خون میں لت پت آتا ہے
7
اسکیچ
یاد ہے اک دن
میری میز پہ بیٹھے بیٹھے
سگریٹ کی ڈبیہ پر تم نے
ایک اسکیچ بنایا تھا
آ کر دیکھو
اس پودے پر پھول آیا ہے!
8
لباس
میرے کپڑوں میں ٹنگا ہے
تیرا خوش رنگ لباس!
گھر پہ دھوتا ہوں ہر بار اسے اور سکھا کے پھر سے
اپنے ہاتھوں سے اسے استری کرتا ہوں مگر
استری کرنے سے جاتی نہیں شکنیں اس کی
اور دھونے سے گلے شکوؤں کے چکتے نہیں مٹتے!
زندگی کس قدر آساں ہوتی
رشتے گر ہوتے لباس
اور بدل لیتے قمیضوں کی طرح!
9
برف پگھلے گی
برف پگھلے گی جب پہاڑوں سے
اور وادی سے کہرا سمٹے گا
بیج انگڑائی لے کے جاگیں گے
اپنی السائی آنکھیں کھولیں گے
سبزہ بہہ نکلے گا ڈھلانوں پر
غور سے دیکھنا بہاروں میں
پچھلے موسم کے بھی نشاں ہوں گے
کونپلوں کی اداس آنکھوں میں
آنسوؤں کی نمی بچی ہوگی
10
دیر آمد
آٹھ ہی بلین عمر زمیں کی ہوگی شاید
ایسا ہی اندازہ ہے کچھ سائنس کا
چار اعشاریہ بلین سالوں کی عمر تو بیت چکی ہے
کتنی دیر لگا دی تم نے آنے میں
اور اب مل کر
کس دنیا کی دنیا داری سوچ رہی ہو
کس مذہب اور ذات اور پات کی فکر لگی ہے
آؤ چلیں اب
تین ہی بلین سال بچے ہیں
3 notes · View notes
moizkhan1967 · 8 months ago
Text
اس وقت تو یوں لگتا ہے اب کچھ بھی نہیں ہے​
مہتاب نہ سورج، نہ اندھیرا نہ سویرا​
آنکھوں کے دریچوں پہ کسی حسن کی چلمن​
اور دل کی پناہوں میں کسی درد کا ڈیرا​
ممکن ہے کوئی وہم تھا، ممکن ہے سنا ہو​
گلیوں میں کسی چاپ کا اک آخری پھیرا​
شاخوں میں خیالوں کے گھنے پیڑ کی شاید​
اب آ کے کرے گا نہ کوئی خواب بسیرا​
اک بَیر، نہ اک مہر، نہ اک ربط نہ رشتہ​
تیرا کوئی اپنا، نہ پرایا کوئی میرا​
مانا کہ یہ سنسان گھڑی سخت کڑی ہے​
لیکن مرے دل یہ تو فقط اک ہی گھڑی ہے​
ہمت کرو جینے کو تو اک عمر پڑی ہے!
فیض احمد فیض
4 notes · View notes
googlynewstv · 6 months ago
Text
چاہت فتح علی کا نصرت فتح علی خان کا رشتہ دار ہونے کادعویٰ
چاہت فتح علی کےنصرت فتح علی خان کا رشتہ دار ہونے کے دعوے پر 18کروڑ روپے ہرجانے کاقانونی نوٹس بھجوادیاگیا۔ رپورٹ کے مطابق چاہت فتح علی کو قانونی نوٹس ان کی برطانیہ کی رہائش گاہ پر ارسال کیاگیاہے۔نوٹس میں کہا گیا ہے کہ اگرچاہت فتح علی نے 15روز کے اندر معافی نہ مانگی تو قانونی کارروائی کیجائے گی ۔ نوٹس میں مزیدکہاگیا کہ چاہت فتح علی خان کے رشتہ دار ہونے کے دعوے کی وجہ سے فیصل آباد کی عوام کے جذبات…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
iamusn · 2 years ago
Text
Tumblr media
انسان کی پہلی ترجیح عزت ہونی چاہیے۔ رشتہ چاہے کوئی بھی ہو۔ محبت یکطرفہ چیز ہو سکتی ہے مگر عزت یکطرفہ کبھی نہیں ہو سکتی۔
The first priority of a human being should be respect. Regardless of the relationship, love can be one-sided, but respect can never be one-sided.
11 notes · View notes
shazi-1 · 2 years ago
Text
صورتِ حال
ڈیڑھ کمرے کی ایک دنیا میں
ایک بستر ہے، کچھ کتابیں ہیں
آنے جانے کا ایک دروازہ
خیر آتا بھی کون ہے گھر میں؟
نام لیوا رفاقتوں کے امیں
دُور کے کچھ قریبی رشتہ دار
کچھ نئے اور کچھ پرانے یار
لااُبالی سے چار چھ شاعر
ایک ذہنی مریضہ قتالہ
کچھ خواتین پختہ عمروں کی
سابقہ ایک میری معشوقہ
اور دیگر کہ جن کا ذکر نہیں
خیر مجھ کو بھی کوئی فکر نہیں
آئے جائے کوئی بلا سے مِری
دوستی ہو گئی قضا سے مِری
اب یہی طور چاہیے مجھ کو
چائے اک اور چاہیے مجھ کو
(عمار اقبال)
17 notes · View notes