#خطرے
Explore tagged Tumblr posts
topurdunews · 16 days ago
Text
تھکاوٹ میں مبتلا عمر رسیدہ مرد  مہلک بیماری کا شکار؟ ماہرین نے خطرے کی گھنٹی بجادی 
(ویب ڈیسک) ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ تھکاوٹ کی شکایت کرنے والے عمر رسیدہ مردوں میں کینسر چار بڑی بیماریوں میں سے ایک ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ بہت سے لوگ تھکاوٹ کی نئی علامات کے ساتھ اپنے معالجین کے پاس جاتے ہیں، لیکن اس کی وجہ کیا ہے اس کا تعین کرنا مشکل ہوسکتا ہے۔ اس مطالعے میں 237 بیماریوں کا جائزہ لیا گیا جس میں معلوم ہوا کہ ڈپریشن، سانس کی نالی میں انفیکشن، بے خوابی اور تھائی…
0 notes
pinoytvlivenews · 2 months ago
Text
بانجھ پن کےعلاج سے پیدا ہونیوالوں بچوں میں دل کی بیماری کا امکان ، ماہرین نے خطرے کی گھنٹی بجادی
(ویب ڈیسک)نئی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ بانجھ پن کے جدید ٹیکنالوجی والے علاج کے ذریعے پیدا ہونے والے بچوں میں دل کی بیماری کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔  ماہرین نے بتایا کہ ان وٹرو فرٹیلائزیشن (IVF) جیسی تکنیکوں کے ذریعے حاملہ ہونے والی خواتین کے بچوں میں دل کی بیماری کا خطرہ 36 فیصد زیادہ تھا جبکہ دل کے کچھ پیدائشی نقائص جان لیوا بھی ثابت ہوسکتے ہیں۔ بڑھتا ہوا خطرہ خاص طور پر متعدد پیدائشوں کے ساتھ ظاہر…
0 notes
urdu-e24bollywood · 2 years ago
Text
وویک اگنی ہوتری کی زندگی خطرے میں!
وویک اگنی ہوتری کی زندگی خطرے میں!
سوشانت سنگھ کی جان کے ضیاع کیس کی جگہ: سوشانت سنگھ راجپوت نے ٹی وی کے کاروبار میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد بڑی ڈسپلے اسکرین پر قدم رکھا اور وہاں بھی اچھی طرح سے منافع بخش رہا۔ بہر حال، سوشانت کی لاش، جس نے کافی کامیابی حاصل کی تھی، 20 جون 2020 کو اس کے باندرہ کے فلیٹ سے برآمد ہوئی تھی۔ اب تک اسے خودکشی کے بارے میں سوچا جا رہا ہے، حالانکہ اس کیس کی جانچ کر رہی سی بی آئی نے اس پر کوئی ٹھوس دعویٰ…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
0rdinarythoughts · 9 months ago
Text
‫اس چھوٹے سے سیارہ "زمین" کے علاوہ آپ کو پوری کائنات میں کہیں "انسان" نہیں ملیں گے ہم ایک نایاب اور خطرے سے دوچار "species" ہیں۔اگر آپ کسی سے اختلاف رکھتے ہیں۔ تو اسے کم از کم "زندہ" رہنے کا حق ضرور دیں۔کیونکہ اربوں اور کھربوں کہکشاٶں میں بھی آپکو اس جیسا کوئی دوسرا نہیں ملے گا.‬
‏‫Apart from this small planet "Earth" you will not find "humans" anywhere in the entire universe. We are a rare and endangered "species". If you disagree with someone. So give him at least the right to be "alive" because even in billions and trillions of galaxies you will not find another one like him.‬
13 notes · View notes
emergingpakistan · 7 months ago
Text
ترکیہ اسرائیل تجارتی تعلقات منقطع
Tumblr media
دوسری عالمی جنگ کے بعد دنیا میں ہونے والی پیش رفت پر ترکیہ کو اپنی خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کرنا پڑی۔ سوویت یونین کے خطرے نے ترکیہ کو مغربی بلاک کے بہت قریب کر دیا اور اس دوران ترکیہ نے نیٹو میں شمولیت کی اپنی تیاریاں شروع کر دیں۔ ترکیہ نے 14 مئی 1948 کو قائم ہونے والی ریاست اسرائیل کو فوری طور پر تسلیم نہ کیا اور’’انتظار کرو اور دیکھو‘‘ کی پالیسی پر عمل کیا۔ ترکیہ نے 1948-1949 کی عرب اسرائیل جنگ میں بھی غیر جانبدار رہنے کا انتخاب کیا، جو اسرائیل کے قیام کے فوراً بعد شروع ہوئی تھی۔ تقریباً ایک سال بعد 24 مارچ 1949 کو ترکیہ اسرائیل کو تسلیم کرنے والا پہلا اسلامی ملک بن گیا اور ترکیہ کے اسرائیل کے ساتھ اقتصادی اور سیاسی تعلقات کی بنیادیں اس دور میں رکھی گئیں۔ ایردوان کے دور میں کئی بار اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں بڑے پیمانے پر کشیدگی بھی دیکھی گئی اور دونوں ممالک نےکئی بار سفیر کی سطح کے تعلقات کو نچلی سطح پر جاری رکھنے کو ترجیح دی۔ حالیہ کچھ عرصے کے دوران ترکیہ پر اسرائیل کو اسلحہ فروخت کرنے کا الزام لگایا گیا جس پر ترکیہ نے ان تمام الزامات کو یکسر مسترد کر دیا۔ ترکیہ اس وقت تک غزہ کو امداد فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔
گزشتہ ہفتے نماز جمعہ کے بعد صدر ایردوان نے اسرائیل پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے درمیان اس وقت 9.5 بلین ڈالر کا تجارتی حجم موجود ہے۔ اس سے اگرچہ ترکیہ کی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے لیکن یہ منفی اثرات غزہ پر معصوم انسانوں کی نسل کشی کے سامنے ہمارے لیے کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ اس طرح ترکیہ نے پہلی بار اسرائیل پر تجارتی پابندیاں لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ترکیہ کی وزارتِ تجارت نے اپنے بیان میں کہا کہ جب تک غزہ میں جنگ بندی کا اعلان نہیں کیا جاتا اسرائیل کیلئے 54 مختلف کٹیگریز سے مصنوعات کی برآمدات پر پابندی ہو گی اور پابندی کا اطلاق فوری طور پر ہو گا۔ ترکیہ کا یہ اعلان اسرائیل کی جانب سے ایئر ڈراپ یعنی فضا کے ذریعے امداد میں حصہ لینے کی ترکیہ کی درخواست مسترد کیے جانے کے بعد سامنے آیا ہے۔ ترکیہ کے شماریاتی ادارے (TUIK) کے اعداد و شمار کے مطابق، 2023 میں اسرائیل کو ترکیہ کی برآمدات 5.2 بلین ڈالر تھیں، اور اسرائیل سے اس کی درآمدات 1.6 بلین ڈالر تھیں۔ اس ایک سال کی مدت کے دوران دونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم تقریباً 6.8 بلین ڈالر تھا اور ترکیہ، اسرائیل کے ساتھ اپنی برآمدات کی فہرست میں 13 ویں نمبر پر ہے۔
Tumblr media
اسرائیل پر لگائی جانے والی تجارتی پابندیوں کے بعد ترکیہ کے وزیر خارجہ حقان فیدان نے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے کیے جانے والے ظلم و ستم کے باوجود وہ جوابدہ نہیں ہے اور نہ ہی اسے اب تک کسی قسم کی سزا کا سامنا کرنا پڑا ہے، انہوں نے کہا کہ یہ پوری امت کا فرض ہے کہ وہ فلسطینیوں کے دفاع کیلئے صف بندی کرے۔ یہ ہمارا امتحان ہے ہمیں ثابت کرنا چاہیے کہ ہم متحد ہو سکتے ہیں۔ ہمیں یہ دکھانا چاہیے کہ اسلامی دنیا سفارتی ذرائع سے اور جب ضروری ہو، زبردستی اقدامات کے ذریعے نتائج حاصل کر سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ قبضے کے خلاف مزاحمت اب اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جنگ نہیں ہے، بلکہ پوری دنیا کے ظالموں اور مظلوموں کے درمیان لڑائی ہے۔ وزیر خارجہ فیدان نے کہا کہ اگر ہم نے (غزہ میں) اس سانحے سے سبق نہ سیکھا اور دو ریاستی حل کی طرف گامزن نہ ہوئے تو یہ غزہ کی آخری جنگ نہیں ہو گی بلکہ مزید جنگیں اور آنسو ہمارے منتظر ہوں گے۔ ہمیں اسرائیل کو 1967 کی سرحدوں کو قبول کرنے پر مجبور کرنا ہو گا۔ 
حماس سمیت تمام فلسطینی 1967 کی بنیاد پر قائم ہونے والی فلسطینی ریاست کو قبول کرنے کیلئے تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ترکیہ نے دو ریاستی حل کیلئے اپنی کوششیں تیز کر دی ہیں اور عالم اسلام اب فلسطین کے مسئلے پر اتحاد کے ساتھ کام کر رہا ہے۔ یکم مئی کو ترکیہ نے جنوبی افریقہ کی طرف سے اسرائیل کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں دائر کردہ نسل کشی کے مقدمے میں مداخلت کرنے کے اپنے فیصلے کا اعلان کیا اور اس بات پر زور دیا کہ وہ تمام ممکنہ سفارتی ذرائع استعمال کرے گا اور اسرائیل کو روکنے کیلئے کسی بھی اقدام سے گریز نہیں کرے گا۔ ترکیہ کے اسرائیل کے ساتھ تجارتی تعلقات کو مکمل طور پر منقطع کرنے کے حوالے سے انقرہ میں فلسطینی سفیر مصطفیٰ نے کہا کہ ترکی کا یہ فیصلہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرنے والی ریاست پر اثر انداز ہونے کی جانب ایک عملی قدم کی نمائندگی کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ’’ ترکیہ نے یہ فیصلہ 9 اپریل تک غزہ کو ہوائی جہاز کے ذریعے انسانی امداد بھیجنے کی کوشش کو روکنے کے بعد کیا تھا اور 2 مئی کو دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات کو مکمل طور پر منقطع کر دیا گیا ہے۔ 
اس فیصلے پر اس وقت تک عمل درآمد ہوتے رہنا چاہیے جب تک غزہ کیلئے انسانی امداد کی بلاتعطل رسائی کیاجازت نہ مل جائے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ترکیہ اسرائیل کے حملے شروع ہونے کے وقت سے ہی غزہ کی پٹی میں فیلڈ ہسپتال تیار کررہا تھا اور ضروری سازو سامان العریش ہوائی اڈے اور بندرگاہ پر پہنچادیا گیا تھا لیکن اسرائیل نے ان آلات کو غزہ میں داخل ہونے سے روک دیا۔ اور ترکی کو فیلڈ ہسپتال بنانے کی اجازت نہیں دی بلکہ غزہ کی پٹی میں قائم واحد کینسر ہسپتال، جسے ترکیہ نے قائم کیا کیا تھا، کو بھی تباہ کر دیا ۔
ڈاکٹر فرقان حمید
بشکریہ روزنامہ جنگ
2 notes · View notes
muhammad-ubaidullah-khan · 1 year ago
Text
PREPOSITIONAL PHRASES
(1) کسی مضمون میں) طاق ہونا۔)
At home in.
(2) بالکل کمزور ہونا
At sea in.
(3) پہلو میں۔ پاس ہی
At the side of
(4) بلند آواز سے
At the top of one's voice.
(5) دشمنی رکھنا
At enmity with
(6) قریب
At the point of.
(7) اختلاف رکھنا
At variance with.
(8) خطرے میں ڈال کر
At the risk of.
(9) خاتمہ پر
At the conclusion of.
(10) بوجہ ۔ وجہ سے
Because of.
(11) زور سے ۔ بذریعہ
By dint of.
(12) زور سے ۔ بذریعہ
By force of.
(13) بذریعہ
By means of.
(14) پاس ہی
By the side of.
(15) بذریعہ
By virtue of.
(16) بطور
By way of.
(17) ڈر سے
For fear of.
(18) خاطر
For the sake of.
(19) کمی کی وجہ سے
For want of.
(20) کسی مطلب یا غرض کے لئے
For the purpose of.
(21) مطابق
In accordance with.
(22) بہ حالت
In case of.
(23) کسی کی طرف سے
In or on behalf of.
(24) بوجہ
In consequence of.
(25) متعلق
In connection with
(26) بلحاظ
In consideration of
(27) حق میں
In defense of.
(28) برخلاف
In defiance of.
(29) حق میں ۔ کسی کی خاطر
In favour of
(30) خوشی میں ۔ یاد میں
In honour of
(31) سامنے
In front of.
(32) بلحاظ
In point of.
(33) تلاش میں
In quest of.
(34) باوجود
In spite of.
(35) بجائے
Instead of.
(36) بجائے
In lieu of.
(37) خیال سے
In view of or in sight of.
(38) حالت میں
In the event of.
(39) سامنے ۔ موجودگی میں
In the face of.
(40) پیچھے میں
In the rear of.
(41) بھیس میں
In the guise of.
(42) مقابلہ میں ۔ برخلاف
In the teeth of
(43) امید پر
In the hope of.
(44) مطابق
In keeping with.
(45) بوجہ
On account of.
(46) تھوڑی دیر پیشتر
On the eve of.
(47) کنارے پر ۔ بلکل نزدیک
On the brink of.
(48) بوجہ
On the ground of or on the score of.
(49) بہانہ سے
On the pretence of
(50) اس مطلب سے
With a view to.
(51) اس خیال سے
With an eye to.
(52) متعلق
With reference to.
3 notes · View notes
moizkhan1967 · 1 year ago
Text
Tumblr media
جو گزاری نہ جا سکی ہم سے
ہم نے وہ زندگی گزاری ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور کیا چاہتی ہے گردش ایام کہ ہم
اپنا گھر بھول گئے ان کی گلی بھول گئے
۔۔۔۔۔...
کتنی دل کش ہو تم کتنا دل جو ہوں میں
کیا ستم ہے کہ ہم لوگ مر جائیں گے
۔۔۔۔۔۔۔
ایک ہی حادثہ تو ہے اور وہ یہ کہ آج تک
بات نہیں کہی گئی بات نہیں سنی گئی
۔۔۔۔۔۔۔
کون اس گھر کی دیکھ بھال کرے
روز اک چیز ٹوٹ جاتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔
ہم کو یاروں نے یاد بھی نہ رکھا
جون یاروں کے یار تھے ہم تو
۔۔۔۔۔۔۔
مجھ کو اب کوئی ٹوکتا بھی نہیں
یہی ہوتا ہے خاندان میں کیا
۔۔۔......
بولتے کیوں نہیں میرے حق میں
آبلے پڑ گئے زبان میں کیا
۔۔۔۔.....
یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا
ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا
۔۔۔۔۔۔۔
اب نہیں کوئی بات خطرے کی
اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے
۔۔۔۔۔۔...
ہم نے کئے گناہ تو دوزخ ملی ہمیں
دوزخ کا کیا گناہ کہ دوزخ کو ہم ملے
۔۔۔۔....
ہنسی آتی ہے مجھ کو مصلحت کے ان تقاضوں پر
کہ اب اک اجنبی بن کر اسے پہچاننا ہوگا
۔۔۔۔۔۔۔
آئینہ کہتا ہے کہنا تو ہمیں چاہئے تھا
تو زندہ ہے۔ رہنا تو نہیں چاہئے تھا
۔۔۔۔۔۔۔
ترک الفت سے کیا ہوا حاصل
تب بھی مرتا تھا اب بھی مرتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔
ذات ہے اعتبار ذات نہیں
اب تو میں خود بھی اپنے ساتھ نہیں
۔۔۔۔۔۔
میں رہا عمر بھر جدا خود سے
یاد میں خود کو عمر بھر آیا
۔۔۔۔۔۔
بے قراری سی بے قراری ہے
وصل ہے اور فراق طاری ہے
۔۔۔۔۔۔
میں خود یہ چاہتا ہوں کہ حالات ہوں خراب
میرے خلاف زہر اگلتا پھرے کوئی
۔۔۔۔۔۔۔
کس لیے دیکھتی ہو آئینہ
تم تو خود سے بھی خوب صورت ہو
۔۔۔۔۔۔۔
مستقل بولتا ہی رہتا ہوں
کتنا خاموش ہوں میں اندر سے
۔۔۔۔۔۔۔
اور تو کیا تھا بیچنے کے لئے
اپنی آنکھوں کے خواب بیچے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔
اب مری کوئی زندگی ہی نہیں
اب بھی تم میری زندگی ہو کیا
3 notes · View notes
risingpakistan · 1 year ago
Text
’مغربی میڈیا غزہ میں اپنے صحافی ساتھیوں کو بھی کم تر سمجھ رہا ہے‘
Tumblr media
عالمی میڈیا جیسے بی بی سی، سی این این، اسکائے نیوز اور یہاں تک کہ ترقی پسند اخبارات جیسے کہ برطانیہ کے گارجیئن کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ان کی ساکھ خراب ہوتی جارہی ہے۔ گزشتہ ماہ حماس کے اسرائیل پر حملے کے نتیجے میں تقریباً 400 فوجیوں سمیت 1200 اسرائیلی ہلاک ہوئے تھے۔ اس کے بعد اسرائیل کی جانب سے آنے والے غیر متناسب ردعمل کے حوالے سے ان صحافتی اداروں کی ادارتی پالیسی بہت ناقص پائی گئی۔ حماس کے عسکریت پسند اسرائیل سے 250 کے قریب افراد کو یرغمالی بنا کر اپنے ساتھ غزہ لے گئے کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ انہیں اسرائیلی جیلوں میں قید 8 ہزار فلسطینیوں میں سے کچھ کی رہائی کے لیے ان یرغمالیوں کی ضرورت ہے۔ اسرائیلی جیلوں میں قید ان فلسطینیوں جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں، ان میں ایک ہزار سے زائد قیدیوں پر کبھی کوئی الزام عائد نہیں کیا گیا۔ انہیں صرف ’انتظامی احکامات‘ کی بنیاد پر حراست میں لیا گیا بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ انہیں یرغمال بنا کر رکھا گیا ہے۔ غزہ شہر اور غزہ کی پٹی کے دیگر شمالی حصوں پر اسرائیل کی مشتعل اور اندھی کارپٹ بمباری میں 14 ہزار فلسطینی مارے گئے ہیں جن میں سے 60 فیصد سے زیادہ خواتین اور بچے تھے جبکہ امریکی قیادت میں مغربی طاقتوں نے اسرائیل کی جانب سے کیے گئے قتل عام، یہاں تک کہ نسل کشی کی یہ کہہ کر حمایت کی ہے کہ وہ اپنے دفاع کے حق کا استعمال کررہا ہے۔
افسوسناک طور پر ان صحافتی اداروں میں سے بہت سی تنظیموں نے اپنی حکومتوں کے اس نظریے کی عکاسی کی جس سے یہ تاثر دیا گیا کہ مشرق وسطیٰ کے تنازع کی ابتدا 7 اکتوبر 2023ء سے ہوئی نہ کہ 1948ء میں نکبہ سے کہ جب فلسطینیوں کو ان کی آبائی سرزمین سے بڑے پیمانے پر بے دخل کیا گیا۔ چونکہ ان کی اپنی حکومتیں قابض اسرائیل کے نقطہ نظر کی تائید کر رہی تھیں، اس لیے میڈیا اداروں نے بھی اسرائیلی پروپیگنڈے کو آگے بڑھایا۔ مثال کے طور پر غزہ میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد کو لے لیجیے، ان اعداد و شمار کو ہمیشہ ’حماس کے زیرِ کنٹرول‘ محکمہ صحت سے منسوب کیا جاتا ہے تاکہ اس حوالے سے شکوک پیدا ہوں۔ جبکہ ایمنسٹی انٹرنیشنل سے لے کر ہیومن رائٹس واچ اور غزہ میں کام کرنے والی چھوٹی تنظیموں تک سب ہی نے کہا کہ حماس کے اعداد و شمار ہمیشہ درست ہوتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جن اعداد و شمار میں تبدیلی تو اسرائیل کی جانب سے کی گئی جس نے حماس کے ہاتھوں مارے جانے والے اسرائیلیوں کی ابتدائی تعداد کو 1400 سے کم کر کے 1200 کر دیا۔ تاہم میڈیا کی جانب سے ابتدائی اور نظر ثانی شدہ اعداد وشمار کو کسی سے منسوب کیے بغیر چلائے گئے اور صرف اس دن کا حوالہ دیا گیا جس دن یہ تبدیلی کی گئی۔
Tumblr media
یہ تبدیلی اس لیے کی گئی کیونکہ اسرائیلیوں کا کہنا تھا کہ حماس نے جن کیبوتز پر حملہ کیا تھا ان میں سے کچھ جلی ہوئی لاشیں ملی تھیں جن کے بارے میں گمان تھا کہ یہ اسرائیلیوں کی تھیں لیکن بعد میں فرانزک ٹیسٹ اور تجزیوں سے یہ واضح ہوگیا کہ یہ لاشیں حماس کے جنگجوؤں کی ہیں۔ اس اعتراف کے باوجود عالمی میڈیا نے معتبر ویب سائٹس پر خبریں شائع کرنے کے لیے بہت کم کام کیا، حتیٰ کہ اسرائیلی ریڈیو پر ایک عینی شاہد کی گواہی کو بھی نظرانداز کیا گیا کہ اسرائیلی ٹینکوں نے ان گھروں کو بھی نشانہ بنایا جہاں حماس نے اسرائیلیوں کو یرغمال بنا رکھا تھا یوں دھماکوں اور اس کے نتیجے میں بھڑک اٹھنے والی آگ میں کئی لوگ ہلاک ہو گئے۔ اسرائیلی اپاچی (گن شپ) ہیلی کاپٹر پائلٹس کے بیانات کے حوالے سے بھی یہی رویہ برتا گیا۔ ان بیانات میں ایک ریزرو لیفٹیننٹ کرنل نے کہا تھا کہ وہ ’ہنیبل ڈائیریکٹوز‘ کی پیروی کررہے تھے جس کے تحت انہوں نے ہر اس گاڑی پر گولی چلائی جس پر انہیں یرغمالیوں کو لے جانے کا شبہ تھا۔ اس بارے میں مزید جاننے کے لیے آپ کو صرف ان میں سے کچھ مثالوں کو گوگل کرنا ہو گا لیکن یقین کیجیے کہ مغرب کے مین اسٹریم ذرائع ابلاغ میں اس کا ذکر بہت کم ہوا ہو گا۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ حماس کے عسکریت پسندوں نے اسرائیلی فوجیوں، عام شہریوں، بزرگ خواتین اور بچوں پر حملہ نہیں کیا، انہیں مارا نہیں یا یرغمال نہیں بنایا، حماس نے ایسا کیا ہے۔
آپ غزہ میں صحافیوں اور ان کے خاندانوں کو اسرائیل کی جانب سے نشانہ بنانے کی کوریج کو بھی دیکھیں۔ نیویارک ٹائمز کے صحافی ڈیکلن والش نے ایک ٹویٹ میں ہمارے غزہ کے ساتھیوں کو صحافت کے ’ٹائٹن‘ کہا ہے۔ انہوں نے اپنی جانوں کو درپیش خطرے کو نظر انداز کیا اور غزہ میں جاری نسل کشی کی خبریں پہنچائیں۔ آپ نے الجزیرہ کے نامہ نگار کے خاندان کی ہلاکت کے بارے میں سنا یا پڑھا ہی ہو گا۔ لیکن میری طرح آپ کو بھی سوشل میڈیا کے ذریعے اسرائیلی فضائیہ کی جانب سے کم از کم 60 صحافیوں اور ان کے خاندانوں میں سے کچھ کی ٹارگٹ کلنگ کا بھی علم ہو گا۔ یعنی کہ کچھ مغربی میڈیا ہاؤسز نے غزہ میں مارے جانے والے اپنے ہم پیشہ ساتھیوں کو بھی کم تر درجے کے انسان کے طور پر دیکھا۔ بہادر صحافیوں کی بے لوث رپورٹنگ کی وجہ سے اسرائیل کی جانب سے غزہ میں شہری آبادی کو بے دریغ نشانہ بنانے اور خون میں لت پت بچوں کی تصاویر دنیا کے سامنے پہنچ رہی ہیں، نسل کشی کرنے والے انتہائی دائیں بازو کے نیتن یاہو کو حاصل مغربی ممالک کی اندھی حمایت بھی اب آہستہ آہستہ کم ہورہی ہے۔
اسپین اور بیلجیئم کے وزرائےاعظم نے واضح طور پر کہا ہے کہ اب بہت ہو چکا۔ اسپین کے پیڈرو سانچیز نے ویلنسیا میں پیدا ہونے والی فلسطینی نژاد سیرت عابد ریگو کو اپنی کابینہ میں شامل کیا۔ سیرت عابد ریگو نے 7 اکتوبر کے حملے کے بعد کہا تھا کہ فلسطینیوں کو قبضے کے خلاف اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ پیڈرو سانچیز نے اسرائیل کے ردعمل کو ضرورت سے زیادہ قرار دیا ہے اور فلسطین کو تسلیم کرنے کے عزم کا اظہا�� کرتے ہوئے دو ریاستی حل پر زور دیا ہے۔ امریکا اور برطانیہ میں رائے عامہ کے جائزوں سے پتا چلتا ہے کہ جن جماعتوں اور امیدواروں نے اسرائیل کو غزہ میں بڑے پیمانے پر قتل عام کرنے کی کھلی چھوٹ دی ہے وہ اپنے ووٹرز کو گنوا رہے ہیں۔ گزشتہ صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابلے میں جو بائیڈن کی فتح کا فرق معمولی ہی تھا۔ اسے دیکھتے ہوئے اگر وہ اپنے ’جنگ بندی کے حامی‘ ووٹرز کے خدشات کو دور نہیں کرتے اور اگلے سال اس وقت تک ان ووٹرز کی حمایت واپس حاصل نہیں لیتے تو وہ شدید پریشانی میں پڑ جائیں گے۔
اسرائیل اور اس کے مغربی حامی چاہے وہ حکومت کے اندر ہوں یا باہر، میڈیا پر بہت زیادہ دباؤ ڈالتے ہیں۔ ایسے میں ایک معروضی ادارتی پالیسی چلانے کے بہت ہی ثابت قدم ایڈیٹرز کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس انتہائی مسابقتی دور میں میڈیا کی ساکھ بچانے کے لیے غیرجانبداری انتہائی ضروری ہے۔ سوشل میڈیا اب روایتی میڈیا کی جگہ لے رہا ہے اور اگرچہ ہم میں سے ہر ایک نے اکثر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر موجود منفی مواد کے بارے میں شکایت کی ہے لیکن دنیا بھر میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو ان پلیٹ فارمز کے شکر گزار ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شاید غزہ میں جاری نسل کشی کی پوری ہولناکی ان کے بغیر ابھر کر سامنے نہیں آسکتی تھی۔ بڑے صحافتی اداروں کی جانب سے اپنے فرائض سے غفلت برتی گئی سوائے چند مواقع کے جہاں باضمیر صحافیوں نے پابندیوں کو توڑ کر حقائق کی رپورٹنگ کی۔ اس کے باوجود یہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز تھے جنہوں نے اس رجحان کو بدلنے میں مدد کی۔ اگر ہم خوش قسمت ہوئے تو ہم روایتی میڈیا کو بھی خود کو بچانے کے لیے اسی راہ پر چلتے ہوئے دیکھیں گے۔
عباس ناصر   یہ مضمون 26 نومبر 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
بشکریہ ڈان نیوز
2 notes · View notes
drashfaqhealth · 7 months ago
Text
ناریل کے فائدے
New Post has been published on https://drashfaq.com/dr-ashfaq-tips/health-tips/889/
ناریل کے فائدے
ناریل کے فائدے
ناریل ایک مزیدار اور غذائیت سے بھرپور پھل ہے جو مختلف وٹامنز، معدنیات اور دیگر مفید غذائی اجزاء سے بھرپور ہوتا ہے۔ اس کا استعمال نہ صرف ذائقے میں اضافہ کرتا ہے بلکہ صحت کے لئے بھی بے حد مفید ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ ناریل کے کیا فوائد ہیں اور یہ کس طرح ہماری صحت کے لئے مفید ہے۔ ناریل کی غذائی اجزاء ناریل میں مختلف وٹامنز اور معدنیات پائے جاتے ہیں جو ہماری صحت کے لئے نہایت مفید ہیں۔ ناریل کی غذائی اجزاء میں شامل ہیں وٹامن سی: ناریل میں وٹامن سی موجود ہوتا ہے جو مدافعتی نظام کو مضبوط بناتا ہے وٹامن بی: ناریل میں وٹامن بی کی وافر مقدار ہوتی ہے جو جسم کی عمومی صحت کو بہتر بناتی ہے پوٹاشیم: ناریل میں پوٹاشیم موجود ہوتا ہے جو بلڈ پریشر کو کنٹرول کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے فائبر: ناریل میں فائبر کی وافر مقدار ہوتی ہے جو ہاضمہ کی صحت کے لئے مفید ہے میگنیشیم: ناریل میں میگنیشیم موجود ہوتا ہے جو اعصابی نظام کو مضبوط بناتا ہے اینٹی آکسیڈنٹس: ناریل میں اینٹی آکسیڈنٹس پائے جاتے ہیں جو جسم کی عمومی صحت کو بہتر بناتے ہیں اور مختلف بیماریوں سے بچانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں ناریل کے فوائد مدافعتی نظام کو مضبوط بناتا ہے ناریل مدافعتی نظام کو مضبوط بناتا ہے۔ ناریل میں موجود وٹامن سی اور دیگر ضروری غذائی اجزاء جسم کے مدافعتی نظام کو مضبوط بناتے ہیں اور جسم کو مختلف بیماریوں سے بچانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ ناریل کا باقاعدہ استعمال جسم کی عمومی صحت کو بہتر بناتا ہے اور مدافعتی نظام کو مضبوط کرتا ہے۔ ہاضمہ بہتر بناتا ہے ناریل ہاضمے کی صحت کے لئے بھی مفید ہے۔ ناریل میں موجود فائبر ہاضمے کو بہتر بناتا ہے اور آنتوں کی حرکت کو معمول پر رکھتا ہے۔ ناریل کا باقاعدہ استعمال ہاضمہ کی خرابی کو دور کرتا ہے اور ہاضمہ کی کارکردگی بہتر ہوتی ہے۔ جلد کی خوبصورتی بڑھاتا ہے ناریل جلد کی خوبصورتی کے لئے بھی مفید ہے۔ ناریل میں موجود اینٹی آکسیڈنٹس جلد کو نرم و ملائم بناتے ہیں اور جلد کی خشکی کو دور کرتے ہیں۔ ناریل کا باقاعدہ استعمال جلد کی نرمی بڑھاتا ہے اور جلد کی عمومی صحت کو بہتر بناتا ہے۔ دل کی صحت کے لئے مفید ناریل دل کی صحت کے لئے بھی مفید ہے۔ ناریل میں موجود پوٹاشیم اور اینٹی آکسیڈنٹس دل کی بیماریوں سے بچانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ ناریل کا باقاعدہ استعمال دل کی دھڑکن کو معمول پر رکھتا ہے اور بلڈ پریشر کو کنٹرول کرتا ہے۔ وزن کم کرنے میں مددگار ناریل وزن کم کرنے میں بھی مفید ثابت ہوتا ہے۔ ناریل میں کم کیلوریز اور زیادہ فائبر کی موجودگی وزن کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ ناریل کا باقاعدہ استعمال بھوک کو کم کرتا ہے اور جسم کو ہائیڈریٹ رکھتا ہے، جس سے وزن کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔ دماغی صحت بہتر بناتا ہے ناریل دماغی صحت کے لئے بھی مفید ہے۔ ناریل میں موجود اینٹی آکسیڈنٹس دماغ کی کارکردگی کو بہتر بناتے ہیں اور یادداشت کو مضبوط کرتے ہیں۔ ناریل کا باقاعدہ استعمال دماغی تناؤ کو کم کرتا ہے اور دماغی صحت کو بہتر بناتا ہے۔ آنکھوں کی صحت کے لئے مفید ناریل آنکھوں کی صحت کے لئے بھی مفید ہے۔ ناریل میں موجود وٹامن اے آنکھوں کی بصارت کو بہتر بناتا ہے اور آنکھوں کی بیماریوں سے بچانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ ناریل کا باقاعدہ استعمال آنکھوں کی صحت کو بہتر بناتا ہے اور آنکھوں کی بیماریوں سے بچاتا ہے۔ بلڈ پریشر کو کنٹرول کرتا ہے ناریل بلڈ پریشر کو کنٹرول کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوتا ہے۔ ناریل میں موجود پوٹاشیم بلڈ پریشر کو معمول پر رکھتا ہے اور بلڈ پریشر کی بیماریوں سے بچانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ ناریل کا باقاعدہ استعمال بلڈ پریشر کو کنٹرول کرتا ہے اور دل کی صحت کو بہتر بناتا ہے۔ خون میں شوگر کی مقدار کو کنٹرول کرتا ہے ناریل خون میں شوگر کی مقدار کو کنٹرول کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوتا ہے۔ ناریل میں موجود فائبر خون میں شوگر کی سطح کو معمول پر رکھتا ہے اور ذیابیطس کے خطرے کو کم کرتا ہے۔ ناریل کا باقاعدہ استعمال خون میں شوگر کی مقدار کو کنٹرول کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ کینسر کے خلاف مزاحمت ناریل میں موجود اینٹی آکسیڈنٹس کینسر کے خلیات کی نشوونما کو روکتے ہیں اور جسم کو کینسر سے بچانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ یہ جسم کے خلیات کو نقصان سے بچاتے ہیں اور صحت کو بہتر بناتے ہیں۔ کھانے کے مختلف طریقے ناریل کو مختلف طریقوں سے کھایا جا سکتا ہے تاکہ اس کے فوائد کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جا سکے تازہ ناریل: تازہ ناریل کھانا سب سے زیادہ فائدہ مند ہوتا ہے ناریل کا پانی: ناریل کا پانی پینا بھی مفید ثابت ہوتا ہے ناریل کی چٹنی: ناریل کی چٹنی بنا کر کھانا بھی فائدہ مند ہوتا ہے دیگر مفید غذائیں ناریل کے علاوہ کچھ دیگر مفید غذائیں بھی ہیں جو صحت کے لئے نہایت مفید ہیں سیب: سیب میں موجود فائبر ہاضمے کی صحت کے لئے مفید ہے نارنجی: نارنجی میں موجود وٹامن سی مدافعتی نظام کو مضبوط بناتا ہے گاجر: گاجر میں موجود وٹامن اے آنکھوں کی صحت کے لئے مفید ہے آخر میں ناریل ایک نہایت مفید پھل ہے جو صحت کے لئے بے حد مفید ہے۔ اس میں موجود وٹامنز، معدنیات، اور اینٹی آکسیڈنٹس جسم کی صحت کو بہتر بناتے ہیں اور مختلف بیماریوں کے علاج میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ ناریل کا باقاعدہ استعمال مدافعتی نظام کو مضبوط بناتا ہے، ہاضمہ بہتر بناتا ہے، جلد کی خوبصورتی بڑھاتا ہے، دل کی صحت کے لئے مفید ہے، وزن کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے، دماغی صحت کو بہتر بناتا ہے، آنکھوں کی صحت کے لئے مفید ہے، بلڈ پریشر کو کنٹرول کرتا ہے، خون میں شوگر کی مقدار کو کنٹرول کرتا ہے اور کینسر سے بچانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔
0 notes
fatimanaseems-blog · 10 days ago
Text
پاکستان کے تعلیمی نظام کا المیہ ۔ سرکاری اسکولوں کی بدحالی ۔ پرائیوٹ اسکولوں کی مہنگائی
پاکستان میں تعلیم ایک بنیادی حق ہونے کے باوجود، سرکاری اور پرائیویٹ اسکولوں میں موجود مختلف مسائل اس کے فروغ کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ سرکاری اسکولوں کی حالت بہت ہی تشویش ناک ہے، جبکہ پرائیویٹ اسکولوں میں مہنگائی کی شرح نے متوسط طبقے کو تعلیم سے محروم کر دیا ہے۔ دونوں کی موجودہ صورتحال اور ان کے اثرات پر ایک نظر ڈالنا ضروری ہے تاکہ ہم پاکستان کے تعلیمی نظام کی اصلاح کی طرف قدم بڑھا سکیں۔
سرکاری اسکولوں کا بدحال نظام ۔
Tumblr media
پاکستان میں سرکاری اسکولوں کا نظام اکثر نظرانداز کیا جاتا ہے اور ان کی حالت دن بدن خراب ہوتی جا رہی ہے۔ ان اسکولوں میں تعلیمی سہولتوں کی کمی، ناقص انفراسٹرکچر، اور اساتذہ کی غیر حاضری ایک معمول بن چکا ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ "گھوسٹ اساتذہ" کا ہے، جنہیں تنخواہ تو پوری ملتی ہے مگر وہ اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں کوتاہی برتتے ہیں۔ ایسے اساتذہ کے ہوتے ہوئے، بچوں کو معیاری تعلیم دینے کا تصور بھی ممکن نہیں رہتا۔ ان اساتذہ کی غیر حاضری اور لاپرواہی کے سبب تعلیمی معیار نہ صرف متاثر ہوتا ہے بلکہ بچوں کی تعلیم کا پورا نظام ہی داؤ پر لگ جاتا ہے۔
سرکاری اسکولوں میں انفراسٹرکچر کا فقدان بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ کلاس رومز کی حالت انتہائی خراب ہے، فرنیچر ٹوٹا پھوٹا ہے، اور تدریسی مواد کی کمی کا سامنا ہے۔ اس کے علاوہ، اسکولوں میں بنیادی سہولتیں جیسے پانی، ٹوائلٹس، اور صحت کی سہولتیں بھی اکثر غائب ہوتی ہیں۔ ایسے ماحول میں بچوں کا تعلیم حاصل کرنا اور کامیاب ہونا ایک چیلنج بن جاتا ہے۔
پرائیویٹ اسکولوں کی مہنگائی ۔
Tumblr media
دوسری طرف، پاکستان کے پرائیویٹ اسکولوں میں تعلیم کا معیار تو بہتر ہو سکتا ہے، لیکن ان اسکولوں کی فیسیں اتنی زیادہ ہیں کہ وہ متوسط طبقے کے لئے قابل برداشت نہیں رہیں۔ ماہانہ فیسوں کی قیمتیں اتنی بڑھ چکی ہیں کہ ایک خاندان کے لئے اپنے بچوں کو اچھے اسکول میں پڑھانا تقریباً ناممکن ہوگیا ہے۔ اس کے علاوہ، کتابوں کی قیمتیں بھی بے تحاشہ بڑھ گئی ہیں۔ والدین کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ مخصوص دکانوں سے ہی کتابیں اور یونیفارم خریدیں، جس سے ان پر مزید مالی بوجھ پڑتا ہے۔
پرائیویٹ اسکولوں کا ایک اور مسئلہ ان اسکولوں میں ہونے والے مختلف فنکشنز اور تقریبات ہیں۔ ہر ماہ کسی نہ کسی دن کو "چلڈرن ڈے"، "مدرز ڈے"، "فادرز ڈے" یا کسی اور تہوار کے طور پر منایا جاتا ہے، اور ان تقریبات کے لیے والدین سے ہزاروں روپے کی رقم وصول کی جاتی ہے۔ ان فنکشنز کا مقصد بچوں کی تفریح ہے، مگر اس کے بدلے والدین پر مزید مالی بوجھ ڈالا جاتا ہے، جو کہ پہلے ہی مہنگائی کے ہاتھوں پریشان ہیں۔
سرکاری اور پرائیویٹ اسکولوں کی
 اصلاح کی ضرورت ۔
پاکستان کے تعلیمی نظام کی اصلاح کے لئے دونوں سرکاری اور پرائیویٹ اسکولوں میں بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ سرکاری اسکولوں میں اساتذہ کی حاضری کو یقینی بنانے کے لیے سخت نگرانی اور چیک اینڈ بیلنس کا نظام ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ، اسکولوں میں بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کے لیے حکومت کو زیادہ فنڈز مختص کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بچے بہتر ماحول میں تعلیم حاصل کر سکیں۔
دوسری جانب، پرائیویٹ اسکولوں کی فیسوں میں کمی لانے کے لیے حکومت کو مناسب پالیسیز وضع کرنی چاہئیں تاکہ وہ صرف مالی منفعت کی بجائے تعلیمی معیار پر بھی توجہ دیں۔ اسکولوں کی فیسیں اس حد تک بڑھائی جائیں کہ وہ متوسط طبقے کے لوگوں کے لئے قابل برداشت ہوں اور بچوں کو معیاری تعلیم مل سکے۔ اسکولوں کی جانب سے غیر ضروری تقریبات اور فنکشنز پر خرچ کی جانے والی رقم کو کم کرنا بھی ضروری ہے۔
نتیجہ
پاکستان میں تعلیمی نظام کا بحران دونوں سرکاری اور پرائیویٹ اسکولوں کی ناکامی کی وجہ سے ہے۔ جہاں ایک طرف سرکاری اسکولوں کی حالت زار ہے، وہاں دوسری طرف پرائیویٹ اسکولوں کی مہنگائی نے بچوں کی تعلیم کو صرف امیروں تک محدود کر دیا ہے۔ ان مسائل کا حل صرف اس وقت ممکن ہے جب حکومت اور نجی ادارے مل کر تعلیمی اصلاحات کی طرف قدم بڑھائیں۔ اگر ہم نے اپنے تعلیمی نظام کو بہتر نہ کیا تو پاکستان کا مستقبل خطرے میں پڑ جائے گا۔
تحریر : فاطمہ نسیم
 تاریخ : 16 دسمبر 2024
0 notes
urdu-poetry-lover · 14 days ago
Text
کبھی باہر نہیں آتی سدا پردے میں رہتی ہے
خدا جانے تمنّا کس کے بہکاوے میں رہتی ہے
تمہارا ساتھ میری زندگی بھر کی کمائ تھی
گئے ہو جب سے تم یہ زندگی گھاٹے میں رہتی ہے
کماں سے تیر چھوٹے تو کبھی واپس نہیں آتا
مگر اس کو غلط فہمی میرے بارے میں رہتی ہے
جسے ہم لوگ مل کر آشرم میں چھوڑ آئے تھے
وہ چرخہ کاتتی ہے چاند کے چہرے میں رہتی ہے
اسے ہم پر تو دیتے ہیں مگر اڑنے نہیں دیتے
ہماری بیٹی بلبل ہے مگر پنجرے میں رہتی ہے
وہ جب تک لوٹ کر اسکول سے گھر آ نہیں جاتا
ہماری جان اٹکی ہر گھڑی بیٹے میں رہتی ہے
ٹھہرنے ہی نہیں دیتی ہیں گھر میں شہر کی خبریں
ذرا باہر نکلتے ہیں تو جاں خطرے میں رہتی ہے
ڈاکٹر رحمان مصور
1 note · View note
topurdunews · 1 month ago
Text
شام 5 بجے کے بعد کھانا کھانا مضرِ صحت ماہرین نے خطرے کی گھنٹی بجادی
(ویب ڈیسک)محققین کو ایک تحقیق میں معلوم ہوا ہے کہ شام پانچ بجے کے بعد روزمرہ کیلوریز کے کم از کم 45 فی صد حصے کا لیا جانا جسم کے بلڈ شوگر کی سطح کو قابو رکھنے صلاحیت کو نقصان پہنچاتا ہے، جبکہ رات کو دیر سے کھانا کھانا ذیا بیطس کے امکانات میں خطرناک حد تک اضافہ کرسکتا ہے۔ بارسلونا کی ایک یونیورسٹی اوبرٹا دکیٹیلُونیا اور کولمبیا یونیورسٹی میں کی جانےو الی تحقیق کے نتائج وقتی فاقوں والی ڈائٹ کے لیے…
0 notes
googlynewstv · 1 month ago
Text
آرٹیکل 245 کے تحت اسلام آباد میں فوج بلانے کا اصل مقصد کیا ہے؟
وفاقی حکومت کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت اسلام  آباد میں فوج بلانے کا بنیادی مقصد شر پسندوں یوتھیوں کو یہ تاثر دینا تھا کہ حکومت اور فوج ایک ہی صفحے پر موجود ہیں۔ فوج طمب کرنے کے سرکاری حکم نامے میں آئین کی شق 245 کا حوالہ دیا گیا ہے جس کے تحت حکومت کو اختیار ہے کہ وہ اندرونی یا بیرونی خطرے سے نمٹنے کے لیے سویلین انتظامیہ کی مدد کی خاطر فوج کو طلب کر سکتی ہے۔ تاہم ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ…
0 notes
hassanriyazzsblog · 2 months ago
Text
𝑨𝒍𝒍𝒂𝒉 𝒌 𝑵𝒂𝒂𝒎 𝒔𝒆, 𝑨𝒍𝒍𝒂𝒉 𝒌 𝑾𝒂𝒔'𝒕𝒆.
🌹🌹 𝗧𝗛𝗘 𝗠𝗜𝗗𝗗𝗟𝗘 𝗣𝗔𝗧𝗛:
♦️ *_"A journey towards excellence"_* ♦️
✨ *Set your standard in the realm of*
*love !*
*(اپنا مقام پیدا کر...)*
؏ *تم جو نہ اٹھے تو کروٹ نہ لے گی سحر.....*
🔹 *100 PRINCIPLES FOR PURPOSEFUL*
*LIVING* 🔹
7️⃣1️⃣ *of* 1️⃣0️⃣0️⃣
(ENGLISH/URDU/HINDI)
💠 𝗧𝗛𝗘 𝗠𝗜𝗗𝗗𝗟𝗘 𝗣𝗔𝗧𝗛:
𝗧𝗵𝗲 𝗣𝗿𝗼𝗽𝗵𝗲𝘁 𝗼𝗳 𝗜𝘀𝗹𝗮𝗺 𝘀𝗮𝗶𝗱 𝘁𝗵𝗮𝘁 𝘁𝗵𝗲 𝗺𝗶𝗱𝗱𝗹𝗲 𝗽𝗮𝘁𝗵 𝗶𝘀 𝘁𝗵𝗲 𝗯𝗲𝘀𝘁.
(Sahih al-Bukhari, Hadith, No. 3560)
● In today’s world, man has to coexist with many people.
● In such a situation, the best method is the one in which one’s path is not blocked by any obstacles, and without coming into collision with anyone.
● This is called the middle path, a moderate method that is always practical.
● In this way, one can move forward without putting oneself in great danger.
● In this path, nothing will shatter his whole plan, he will continue his journey to completion.
🌹🌹And Our ( Apni ) Journey Continues...
-------------------------------------------------------
7️⃣1️⃣ درمیانی راستہ:
پیغمبر اسلامﷺ نے فرمایا کہ درمیانی راستہ بہترین ہے۔
(صحیح البخاری، حدیث نمبر 3560)
● آج کی دنیا میں انسان کو بہت سے لوگوں کے ساتھ رہنا پڑتا ہے۔
● ایسی صورت حال میں بہترین طریقہ وہ ہے جس میں کسی کا راستہ روکا نہ جائے اور کسی سے ٹکراؤ نہ ہو۔
● اسے درمیانی راستہ کہا جاتا ہے، ایک معتدل طریقہ جو ہمیشہ عملی ہوتا ہے۔
● اس طرح کوئی بھی اپنے آپ کو بڑے خطرے میں ڈالے بغیر آگے بڑھ سکتا ہے۔
● اس راستے میں کوئی بھی چیز اس کے پورے منصوبے کو ناکام نہیں بنائے گی، وہ تکمیل تک اپنا سفر جاری رکھے گا۔
🌹🌹اور ہمارا سفر جاری ہے...
-----------------------------------------------------
7️⃣1️⃣ मध्य मार्ग:
पैगम्बरे इस्लामﷺ ने कहा है कि मध्यम मार्ग सर्वोत्तम है।
(साहिह अल-बुखारी, हदीस, नंबर 3560)
● आज की दुनिया में मनुष्य को कई लोगों के साथ मिलकर रहना पड़ता है।
● ऐसी स्थिति में सबसे अच्छा तरीका वही है जिसमें किसी भी बाधा से रास्ता अवरुद्ध न हो और किसी से टकराव भी न हो।
● इसे मध्यम मार्ग कहा जाता है, एक उदारवादी पद्धति जो सदैव व्यावहारिक होती है।
● इस तरह, कोई भी व्यक्ति स्वयं को किसी बड़े खतरे में डाले बिना आगे बढ़ सकता है।
● इस मार्ग में, कुछ भी उसकी पूरी योजना को नष्ट नहीं कर सकेगा, वह अपनी यात्रा को पूर्णता तक जारी रखेगा।
🌹🌹और हमारा सफर जारी है...
1 note · View note
0rdinarythoughts · 1 year ago
Text
یقیناً میں آپ کو تکلیف دوں گا۔ یقیناً آپ مجھے تکلیف دیں گے۔ یقیناً ہم ایک دوسرے کو تکلیف دیں گے۔ لیکن زندگی کی بقا کے لیے یہ ضروری ہے۔ آپ بہار بننا چاہتے ہیں تو خزاں کے آنے کے خطرے کو قبول کریں۔ کہیں پر موجود ہونا چاہتے ہیں تو غیر موجودگی کے خطرے کو قبول کریں۔
Of course I will hurt you. Of course you will hurt me. Of course we will hurt each other. But it is necessary for the survival of life. If you want to be spring, accept the risk of autumn. If you want to be present somewhere, accept the risk of absence.
~Antoine de Saint-Exupéry
13 notes · View notes
urduweb · 2 months ago
Text
وہ کونسی عادتیں ہیں جو دل کے دورے کے خطرے کو کم کرتی ہیں؟
پہلے وقتوں میں دل کا دورہ پڑنے کا خطرہ بہت کم ہوا کرتا تھا لیکن غیر صحت بخش طرز زندگی کی وجہ سے اب کم عمر لوگوں میں بھی دل کے دورے کا خطرہ بڑھتا جارہا ہے۔ صحت کا تعلق طرز زندگی سے جڑا ہوتا ہے، غیر صحت مند کھانے مثلاً چکنائی اور مرچ مصالحے والے کھانے دل سمیت بہت سی بیماریوں میں مبتلا کر دیتے ہیں مگر آپ چند آسان عادتوں کو اپنا کر دل کے دورے کے خطرے کو کم کرسکتے ہیں۔ مراقبہ مراقبہ کو انگریزی زبان…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes