#خطرے
Explore tagged Tumblr posts
Text
تھکاوٹ میں مبتلا عمر رسیدہ مرد مہلک بیماری کا شکار؟ ماہرین نے خطرے کی گھنٹی بجادی
(ویب ڈیسک) ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ تھکاوٹ کی شکایت کرنے والے عمر رسیدہ مردوں میں کینسر چار بڑی بیماریوں میں سے ایک ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ بہت سے لوگ تھکاوٹ کی نئی علامات کے ساتھ اپنے معالجین کے پاس جاتے ہیں، لیکن اس کی وجہ کیا ہے اس کا تعین کرنا مشکل ہوسکتا ہے۔ اس مطالعے میں 237 بیماریوں کا جائزہ لیا گیا جس میں معلوم ہوا کہ ڈپریشن، سانس کی نالی میں انفیکشن، بے خوابی اور تھائی…
0 notes
Text
بانجھ پن کےعلاج سے پیدا ہونیوالوں بچوں میں دل کی بیماری کا امکان ، ماہرین نے خطرے کی گھنٹی بجادی
(ویب ڈیسک)نئی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ بانجھ پن کے جدید ٹیکنالوجی والے علاج کے ذریعے پیدا ہونے والے بچوں میں دل کی بیماری کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ ماہرین نے بتایا کہ ان وٹرو فرٹیلائزیشن (IVF) جیسی تکنیکوں کے ذریعے حاملہ ہونے والی خواتین کے بچوں میں دل کی بیماری کا خطرہ 36 فیصد زیادہ تھا جبکہ دل کے کچھ پیدائشی نقائص جان لیوا بھی ثابت ہوسکتے ہیں۔ بڑھتا ہوا خطرہ خاص طور پر متعدد پیدائشوں کے ساتھ ظاہر…
0 notes
Text
اس چھوٹے سے سیارہ "زمین" کے علاوہ آپ کو پوری کائنات میں کہیں "انسان" نہیں ملیں گے ہم ایک نایاب اور خطرے سے دوچار "species" ہیں۔اگر آپ کسی سے اختلاف رکھتے ہیں۔ تو اسے کم از کم "زندہ" رہنے کا حق ضرور دیں۔کیونکہ اربوں اور کھربوں کہکشاٶں میں بھی آپکو اس جیسا کوئی دوسرا نہیں ملے گا.
Apart from this small planet "Earth" you will not find "humans" anywhere in the entire universe. We are a rare and endangered "species". If you disagree with someone. So give him at least the right to be "alive" because even in billions and trillions of galaxies you will not find another one like him.
13 notes
·
View notes
Text
ترکیہ اسرائیل تجارتی تعلقات منقطع
دوسری عالمی جنگ کے بعد دنیا میں ہونے والی پیش رفت پر ترکیہ کو اپنی خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کرنا پڑی۔ سوویت یونین کے خطرے نے ترکیہ کو مغربی بلاک کے بہت قریب کر دیا اور اس دوران ترکیہ نے نیٹو میں شمولیت کی اپنی تیاریاں شروع کر دیں۔ ترکیہ نے 14 مئی 1948 کو قائم ہونے والی ریاست اسرائیل کو فوری طور پر تسلیم نہ کیا اور’’انتظار کرو اور دیکھو‘‘ کی پالیسی پر عمل کیا۔ ترکیہ نے 1948-1949 کی عرب اسرائیل جنگ میں بھی غیر جانبدار رہنے کا انتخاب کیا، جو اسرائیل کے قیام کے فوراً بعد شروع ہوئی تھی۔ تقریباً ایک سال بعد 24 مارچ 1949 کو ترکیہ اسرائیل کو تسلیم کرنے والا پہلا اسلامی ملک بن گیا اور ترکیہ کے اسرائیل کے ساتھ اقتصادی اور سیاسی تعلقات کی بنیادیں اس دور میں رکھی گئیں۔ ایردوان کے دور میں کئی بار اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں بڑے پیمانے پر کشیدگی بھی دیکھی گئی اور دونوں ممالک نےکئی بار سفیر کی سطح کے تعلقات کو نچلی سطح پر جاری رکھنے کو ترجیح دی۔ حالیہ کچھ عرصے کے دوران ترکیہ پر اسرائیل کو اسلحہ فروخت کرنے کا الزام لگایا گیا جس پر ترکیہ نے ان تمام الزامات کو یکسر مسترد کر دیا۔ ترکیہ اس وقت تک غزہ کو امداد فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔
گزشتہ ہفتے نماز جمعہ کے بعد صدر ایردوان نے اسرائیل پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے درمیان اس وقت 9.5 بلین ڈالر کا تجارتی حجم موجود ہے۔ اس سے اگرچہ ترکیہ کی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے لیکن یہ منفی اثرات غزہ پر معصوم انسانوں کی نسل کشی کے سامنے ہمارے لیے کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ اس طرح ترکیہ نے پہلی بار اسرائیل پر تجارتی پابندیاں لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ترکیہ کی وزارتِ تجارت نے اپنے بیان میں کہا کہ جب تک غزہ میں جنگ بندی کا اعلان نہیں کیا جاتا اسرائیل کیلئے 54 مختلف کٹیگریز سے مصنوعات کی برآمدات پر پابندی ہو گی اور پابندی کا اطلاق فوری طور پر ہو گا۔ ترکیہ کا یہ اعلان اسرائیل کی جانب سے ایئر ڈراپ یعنی فضا کے ذریعے امداد میں حصہ لینے کی ترکیہ کی درخواست مسترد کیے جانے کے بعد سامنے آیا ہے۔ ترکیہ کے شماریاتی ادارے (TUIK) کے اعداد و شمار کے مطابق، 2023 میں اسرائیل کو ترکیہ کی برآمدات 5.2 بلین ڈالر تھیں، اور اسرائیل سے اس کی درآمدات 1.6 بلین ڈالر تھیں۔ اس ایک سال کی مدت کے دوران دونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم تقریباً 6.8 بلین ڈالر تھا اور ترکیہ، اسرائیل کے ساتھ اپنی برآمدات کی فہرست میں 13 ویں نمبر پر ہے۔
اسرائیل پر لگائی جانے والی تجارتی پابندیوں کے بعد ترکیہ کے وزیر خارجہ حقان فیدان نے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے کیے جانے والے ظلم و ستم کے باوجود وہ جوابدہ نہیں ہے اور نہ ہی اسے اب تک کسی قسم کی سزا کا سامنا کرنا پڑا ہے، انہوں نے کہا کہ یہ پوری امت کا فرض ہے کہ وہ فلسطینیوں کے دفاع کیلئے صف بندی کرے۔ یہ ہمارا امتحان ہے ہمیں ثابت کرنا چاہیے کہ ہم متحد ہو سکتے ہیں۔ ہمیں یہ دکھانا چاہیے کہ اسلامی دنیا سفارتی ذرائع سے اور جب ضروری ہو، زبردستی اقدامات کے ذریعے نتائج حاصل کر سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ قبضے کے خلاف مزاحمت اب اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جنگ نہیں ہے، بلکہ پوری دنیا کے ظالموں اور مظلوموں کے درمیان لڑائی ہے۔ وزیر خارجہ فیدان نے کہا کہ اگر ہم نے (غزہ میں) اس سانحے سے سبق نہ سیکھا اور دو ریاستی حل کی طرف گامزن نہ ہوئے تو یہ غزہ کی آخری جنگ نہیں ہو گی بلکہ مزید جنگیں اور آنسو ہمارے منتظر ہوں گے۔ ہمیں اسرائیل کو 1967 کی سرحدوں کو قبول کرنے پر مجبور کرنا ہو گا۔
حماس سمیت تمام فلسطینی 1967 کی بنیاد پر قائم ہونے والی فلسطینی ریاست کو قبول کرنے کیلئے تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ترکیہ نے دو ریاستی حل کیلئے اپنی کوششیں تیز کر دی ہیں اور عالم اسلام اب فلسطین کے مسئلے پر اتحاد کے ساتھ کام کر رہا ہے۔ یکم مئی کو ترکیہ نے جنوبی افریقہ کی طرف سے اسرائیل کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں دائر کردہ نسل کشی کے مقدمے میں مداخلت کرنے کے اپنے فیصلے کا اعلان کیا اور اس بات پر زور دیا کہ وہ تمام ممکنہ سفارتی ذرائع استعمال کرے گا اور اسرائیل کو روکنے کیلئے کسی بھی اقدام سے گریز نہیں کرے گا۔ ترکیہ کے اسرائیل کے ساتھ تجارتی تعلقات کو مکمل طور پر منقطع کرنے کے حوالے سے انقرہ میں فلسطینی سفیر مصطفیٰ نے کہا کہ ترکی کا یہ فیصلہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرنے والی ریاست پر اثر انداز ہونے کی جانب ایک عملی قدم کی نمائندگی کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ’’ ترکیہ نے یہ فیصلہ 9 اپریل تک غزہ کو ہوائی جہاز کے ذریعے انسانی امداد بھیجنے کی کوشش کو روکنے کے بعد کیا تھا اور 2 مئی کو دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات کو مکمل طور پر منقطع کر دیا گیا ہے۔
اس فیصلے پر اس وقت تک عمل درآمد ہوتے رہنا چاہیے جب تک غزہ کیلئے انسانی امداد کی بلاتعطل رسائی کیاجازت نہ مل جائے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ترکیہ اسرائیل کے حملے شروع ہونے کے وقت سے ہی غزہ کی پٹی میں فیلڈ ہسپتال تیار کررہا تھا اور ضروری سازو سامان العریش ہوائی اڈے اور بندرگاہ پر پہنچادیا گیا تھا لیکن اسرائیل نے ان آلات کو غزہ میں داخل ہونے سے روک دیا۔ اور ترکی کو فیلڈ ہسپتال بنانے کی اجازت نہیں دی بلکہ غزہ کی پٹی میں قائم واحد کینسر ہسپتال، جسے ترکیہ نے قائم کیا کیا تھا، کو بھی تباہ کر دیا ۔
ڈاکٹر فرقان حمید
بشکریہ روزنامہ جنگ
2 notes
·
View notes
Text
PREPOSITIONAL PHRASES
(1) کسی مضمون میں) طاق ہونا۔)
At home in.
(2) بالکل کمزور ہونا
At sea in.
(3) پہلو میں۔ پاس ہی
At the side of
(4) بلند آواز سے
At the top of one's voice.
(5) دشمنی رکھنا
At enmity with
(6) قریب
At the point of.
(7) اختلاف رکھنا
At variance with.
(8) خطرے میں ڈال کر
At the risk of.
(9) خاتمہ پر
At the conclusion of.
(10) بوجہ ۔ وجہ سے
Because of.
(11) زور سے ۔ بذریعہ
By dint of.
(12) زور سے ۔ بذریعہ
By force of.
(13) بذریعہ
By means of.
(14) پاس ہی
By the side of.
(15) بذریعہ
By virtue of.
(16) بطور
By way of.
(17) ڈر سے
For fear of.
(18) خاطر
For the sake of.
(19) کمی کی وجہ سے
For want of.
(20) کسی مطلب یا غرض کے لئے
For the purpose of.
(21) مطابق
In accordance with.
(22) بہ حالت
In case of.
(23) کسی کی طرف سے
In or on behalf of.
(24) بوجہ
In consequence of.
(25) متعلق
In connection with
(26) بلحاظ
In consideration of
(27) حق میں
In defense of.
(28) برخلاف
In defiance of.
(29) حق میں ۔ کسی کی خاطر
In favour of
(30) خوشی میں ۔ یاد میں
In honour of
(31) سامنے
In front of.
(32) بلحاظ
In point of.
(33) تلاش میں
In quest of.
(34) باوجود
In spite of.
(35) بجائے
Instead of.
(36) بجائے
In lieu of.
(37) خیال سے
In view of or in sight of.
(38) حالت میں
In the event of.
(39) سامنے ۔ موجودگی میں
In the face of.
(40) پیچھے میں
In the rear of.
(41) بھیس میں
In the guise of.
(42) مقابلہ میں ۔ برخلاف
In the teeth of
(43) امید پر
In the hope of.
(44) مطابق
In keeping with.
(45) بوجہ
On account of.
(46) تھوڑی دیر پیشتر
On the eve of.
(47) کنارے پر ۔ بلکل نزدیک
On the brink of.
(48) بوجہ
On the ground of or on the score of.
(49) بہانہ سے
On the pretence of
(50) اس مطلب سے
With a view to.
(51) اس خیال سے
With an eye to.
(52) متعلق
With reference to.
#prepositional phrases#english grammar#English#urdu to english translation#Urdu#urdu translation#Urdu into english#اردو#اردو سے انگریزی ترجمہ#اردو کا انگریزی ترجمعہ#اردو سے انگریزی#انگریزی#انگریزی صرف و نحو
3 notes
·
View notes
Text
جو گزاری نہ جا سکی ہم سے
ہم نے وہ زندگی گزاری ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور کیا چاہتی ہے گردش ایام کہ ہم
اپنا گھر بھول گئے ان کی گلی بھول گئے
۔۔۔۔۔...
کتنی دل کش ہو تم کتنا دل جو ہوں میں
کیا ستم ہے کہ ہم لوگ مر جائیں گے
۔۔۔۔۔۔۔
ایک ہی حادثہ تو ہے اور وہ یہ کہ آج تک
بات نہیں کہی گئی بات نہیں سنی گئی
۔۔۔۔۔۔۔
کون اس گھر کی دیکھ بھال کرے
روز اک چیز ٹوٹ جاتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔
ہم کو یاروں نے یاد بھی نہ رکھا
جون یاروں کے یار تھے ہم تو
۔۔۔۔۔۔۔
مجھ کو اب کوئی ٹوکتا بھی نہیں
یہی ہوتا ہے خاندان میں کیا
۔۔۔......
بولتے کیوں نہیں میرے حق میں
آبلے پڑ گئے زبان میں کیا
۔۔۔۔.....
یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا
ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا
۔۔۔۔۔۔۔
اب نہیں کوئی بات خطرے کی
اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے
۔۔۔۔۔۔...
ہم نے کئے گناہ تو دوزخ ملی ہمیں
دوزخ کا کیا گناہ کہ دوزخ کو ہم ملے
۔۔۔۔....
ہنسی آتی ہے مجھ کو مصلحت کے ان تقاضوں پر
کہ اب اک اجنبی بن کر اسے پہچاننا ہوگا
۔۔۔۔۔۔۔
آئینہ کہتا ہے کہنا تو ہمیں چاہئے تھا
تو زندہ ہے۔ رہنا تو نہیں چاہئے تھا
۔۔۔۔۔۔۔
ترک الفت سے کیا ہوا حاصل
تب بھی مرتا تھا اب بھی مرتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔
ذات ہے اعتبار ذات نہیں
اب تو میں خود بھی اپنے ساتھ نہیں
۔۔۔۔۔۔
میں رہا عمر بھر جدا خود سے
یاد میں خود کو عمر بھر آیا
۔۔۔۔۔۔
��ے قراری سی بے قراری ہے
وصل ہے اور فراق طاری ہے
۔۔۔۔۔۔
میں خود یہ چاہتا ہوں کہ حالات ہوں خراب
میرے خلاف زہر اگلتا پھرے کوئی
۔۔۔۔۔۔۔
کس لیے دیکھتی ہو آئینہ
تم تو خود سے بھی خوب صورت ہو
۔۔۔۔۔۔۔
مستقل بولتا ہی رہتا ہوں
کتنا خاموش ہوں میں اندر سے
۔۔۔۔۔۔۔
اور تو کیا تھا بیچنے کے لئے
اپنی آنکھوں کے خواب بیچے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔
اب مری کوئی زندگی ہی نہیں
اب بھی تم میری زندگی ہو کیا
3 notes
·
View notes
Text
’مغربی میڈیا غزہ میں اپنے صحافی ساتھیوں کو بھی کم تر سمجھ رہا ہے‘
عالمی میڈیا جیسے بی بی سی، سی این این، اسکائے نیوز اور یہاں تک کہ ترقی پسند اخبارات جیسے کہ برطانیہ کے گارجیئن کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ان کی ساکھ خراب ہوتی جارہی ہے۔ گزشتہ ماہ حماس کے اسرائیل پر حملے کے نتیجے میں تقریباً 400 فوجیوں سمیت 1200 اسرائیلی ہلاک ہوئے تھے۔ اس کے بعد اسرائیل کی جانب سے آنے والے غیر متناسب ردعمل کے حوالے سے ان صحافتی اداروں کی ادارتی پالیسی بہت ناقص پائی گئی۔ حماس کے عسکریت پسند اسرائیل سے 250 کے قریب افراد کو یرغمالی بنا کر اپنے ساتھ غزہ لے گئے کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ انہیں اسرائیلی جیلوں میں قید 8 ہزار فلسطینیوں میں سے کچھ کی رہائی کے لیے ان یرغمالیوں کی ضرورت ہے۔ اسرائیلی جیلوں میں قید ان فلسطینیوں جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں، ان میں ایک ہزار سے زائد قیدیوں پر کبھی کوئی الزام عائد نہیں کیا گیا۔ انہیں صرف ’انتظامی احکامات‘ کی بنیاد پر حراست میں لیا گیا بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ انہیں یرغمال بنا کر رکھا گیا ہے۔ غزہ شہر اور غزہ کی پٹی کے دیگر شمالی حصوں پر اسرائیل کی مشتعل اور اندھی کارپٹ بمباری میں 14 ہزار فلسطینی مارے گئے ہیں جن میں سے 60 فیصد سے زیادہ خواتین اور بچے تھے جبکہ امریکی قیادت میں مغربی طاقتوں نے اسرائیل کی جانب سے کیے گئے قتل عام، یہاں تک کہ نسل کشی کی یہ کہہ کر حمایت کی ہے کہ وہ اپنے دفاع کے حق کا استعمال کررہا ہے۔
افسوسناک طور پر ان صحافتی اداروں میں سے بہت سی تنظیموں نے اپنی حکومتوں کے اس نظریے کی عکاسی کی جس سے یہ تاثر دیا گیا کہ مشرق وسطیٰ کے تنازع کی ابتدا 7 اکتوبر 2023ء سے ہوئی نہ کہ 1948ء میں نکبہ سے کہ جب فلسطینیوں کو ان کی آبائی سرزمین سے بڑے پیمانے پر بے دخل کیا گیا۔ چونکہ ان کی اپنی حکومتیں قابض اسرائیل کے نقطہ نظر کی تائید کر رہی تھیں، اس لیے میڈیا اداروں نے بھی اسرائیلی پروپیگنڈے کو آگے بڑھایا۔ مثال کے طور پر غزہ میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد کو لے لیجیے، ان اعداد و شمار کو ہمیشہ ’حماس کے زیرِ کنٹرول‘ محکمہ صحت سے منسوب کیا جاتا ہے تاکہ اس حوالے سے شکو�� پیدا ہوں۔ جبکہ ایمنسٹی انٹرنیشنل سے لے کر ہیومن رائٹس واچ اور غزہ میں کام کرنے والی چھوٹی تنظیموں تک سب ہی نے کہا کہ حماس کے اعداد و شمار ہمیشہ درست ہوتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جن اعداد و شمار میں تبدیلی تو اسرائیل کی جانب سے کی گئی جس نے حماس کے ہاتھوں مارے جانے والے اسرائیلیوں کی ابتدائی تعداد کو 1400 سے کم کر کے 1200 کر دیا۔ تاہم میڈیا کی جانب سے ابتدائی اور نظر ثانی شدہ اعداد وشمار کو کسی سے منسوب کیے بغیر چلائے گئے اور صرف اس دن کا حوالہ دیا گیا جس دن یہ تبدیلی کی گئی۔
یہ تبدیلی اس لیے کی گئی کیونکہ اسرائیلیوں کا کہنا تھا کہ حماس نے جن کیبوتز پر حملہ کیا تھا ان میں سے کچھ جلی ہوئی لاشیں ملی تھیں جن کے بارے میں گمان تھا کہ یہ اسرائیلیوں کی تھیں لیکن بعد میں فرانزک ٹیسٹ اور تجزیوں سے یہ واضح ہوگیا کہ یہ لاشیں حماس کے جنگجوؤں کی ہیں۔ اس اعتراف کے باوجود عالمی میڈیا نے معتبر ویب سائٹس پر خبریں شائع کرنے کے لیے بہت کم کام کیا، حتیٰ کہ اسرائیلی ریڈیو پر ایک عینی شاہد کی گواہی کو بھی نظرانداز کیا گیا کہ اسرائیلی ٹینکوں نے ان گھروں کو بھی نشانہ بنایا جہاں حماس نے اسرائیلیوں کو یرغمال بنا رکھا تھا یوں دھماکوں اور اس کے نتیجے میں بھڑک اٹھنے والی آگ میں کئی لوگ ہلاک ہو گئے۔ اسرائیلی اپاچی (گن شپ) ہیلی کاپٹر پائلٹس کے بیانات کے حوالے سے بھی یہی رویہ برتا گیا۔ ان بیانات میں ایک ریزرو لیفٹیننٹ کرنل نے کہا تھا کہ وہ ’ہنیبل ڈائیریکٹوز‘ کی پیروی کررہے تھے جس کے تحت انہوں نے ہر اس گاڑی پر گولی چلائی جس پر انہیں یرغمالیوں کو لے جانے کا شبہ تھا۔ اس بارے میں مزید جاننے کے لیے آپ کو صرف ان میں سے کچھ مثالوں کو گوگل کرنا ہو گا لیکن یقین کیجیے کہ مغرب کے مین اسٹریم ذرائع ابلاغ میں اس کا ذکر بہت کم ہوا ہو گا۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ حماس کے عسکریت پسندوں نے اسرائیلی فوجیوں، عام شہریوں، بزرگ خواتین اور بچوں پر حملہ نہیں کیا، انہیں مارا نہیں یا یرغمال نہیں بنایا، حماس نے ایسا کیا ہے۔
آپ غزہ میں صحافیوں اور ان کے خاندانوں کو اسرائیل کی جانب سے نشانہ بنانے کی کوریج کو بھی دیکھیں۔ نیویارک ٹائمز کے صحافی ڈیکلن والش نے ایک ٹویٹ میں ہمارے غزہ کے ساتھیوں کو صحافت کے ’ٹائٹن‘ کہا ہے۔ انہوں نے اپنی جانوں کو درپیش خطرے کو نظر انداز کیا اور غزہ میں جاری نسل کشی کی خبریں پہنچائیں۔ آپ نے الجزیرہ کے نامہ نگار کے خاندان کی ہلاکت کے بارے میں سنا یا پڑھا ہی ہو گا۔ لیکن میری طرح آپ کو بھی سوشل میڈیا کے ذریعے اسرائیلی فضائیہ کی جانب سے کم از کم 60 صحافیوں اور ان کے خاندانوں میں سے کچھ کی ٹارگٹ کلنگ کا بھی علم ہو گا۔ یعنی کہ کچھ مغربی میڈیا ہاؤسز نے غزہ میں مارے جانے والے اپنے ہم پیشہ ساتھیوں کو بھی کم تر درجے کے انسان کے طور پر دیکھا۔ بہادر صحافیوں کی بے لوث رپورٹنگ کی وجہ سے اسرائیل کی جانب سے غزہ میں شہری آبادی کو بے دریغ نشانہ بنانے اور خون میں لت پت بچوں کی تصاویر دنیا کے سامنے پہنچ رہی ہیں، نسل کشی کرنے والے انتہائی دائیں بازو کے نیتن یاہو کو حاصل مغربی ممالک کی اندھی حمایت بھی اب آہستہ آہستہ کم ہورہی ہے۔
اسپین اور بیلجیئم کے وزرائےاعظم نے واضح طور پر کہا ہے کہ اب بہت ہو چکا۔ اسپین کے پیڈرو سانچیز نے ویلنسیا میں پیدا ہونے والی فلسطینی نژاد سیرت عابد ریگو کو اپنی کابینہ میں شامل کیا۔ سیرت عابد ریگو نے 7 اکتوبر کے حملے کے بعد کہا تھا کہ فلسطینیوں کو قبضے کے خلاف اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ پیڈرو سانچیز نے اسرائیل کے ردعمل کو ضرورت سے زیادہ قرار دیا ہے اور فلسطین کو تسلیم کرنے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے دو ریاستی حل پر زور دیا ہے۔ امریکا اور برطانیہ میں رائے عامہ کے جائزوں سے پتا چلتا ہے کہ جن جماعتوں اور امیدواروں نے اسرائیل کو غزہ میں بڑے پیمانے پر قتل عام کرنے کی کھلی چھوٹ دی ہے وہ اپنے ووٹرز کو گنوا رہے ہیں۔ گزشتہ صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابلے میں جو بائیڈن کی فتح کا فرق معمولی ہی تھا۔ اسے دیکھتے ہوئے اگر وہ اپنے ’جنگ بندی کے حامی‘ ووٹرز کے خدشات کو دور نہیں کرتے اور اگلے سال اس وقت تک ان ووٹرز کی حمایت واپس حاصل نہیں لیتے تو وہ شدید پریشانی میں پڑ جائیں گے۔
اسرائیل اور اس کے مغربی حامی چاہے وہ حکومت کے اندر ہوں یا باہر، میڈیا پر بہت زیادہ دباؤ ڈالتے ہیں۔ ایسے میں ایک معروضی ادارتی پالیسی چلانے کے بہت ہی ثابت قدم ایڈیٹرز کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس انتہائی مسابقتی دور میں میڈیا کی ساکھ بچانے کے لیے غیرجانبداری انتہائی ضروری ہے۔ سوشل میڈیا اب روایتی میڈیا کی جگہ لے رہا ہے اور اگرچہ ہم میں سے ہر ایک نے اکثر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر موجود منفی مواد کے بارے میں شکایت کی ہے لیکن دنیا بھر میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو ان پلیٹ فارمز کے شکر گزار ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شاید غزہ میں جاری نسل کشی کی پوری ہولناکی ان کے بغیر ابھر کر سامنے نہیں آسکتی تھی۔ بڑے صحافتی اداروں کی جانب سے اپنے فرائض سے غفلت برتی گئی سوائے چند مواقع کے جہاں باضمیر صحافیوں نے پابندیوں کو توڑ کر حقائق کی رپورٹنگ کی۔ اس کے باوجود یہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز تھے جنہوں نے اس رجحان کو بدلنے میں مدد کی۔ اگر ہم خوش قسمت ہوئے تو ہم روایتی میڈیا کو بھی خود کو بچانے کے لیے اسی راہ پر چلتے ہوئے دیکھیں گے۔
عباس ناصر یہ مضمون 26 نومبر 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
بشکریہ ڈان نیوز
2 notes
·
View notes
Text
بہ تسلیمات نظامت اعلیٰ تعلقات عامہ پنجاب
لاہور، فون نمبر:99201390
ڈاکٹر محمد عمران اسلم/پی آر او ٹو سی ایم
ہینڈ آؤٹ نمبر64
”اقلیتیں …………سر کا تاج“مریم نواز شریف نے وعدہ سچ کر دکھایا
پاکستان کی تاریخ کا پہلا مینارٹی کارڈکی لانچنگ،وزیر اعلیٰ مریم نواز کا مینارٹی کارڈ50 سے75 ہزار کرنے کا اعلان
وزیراعلیٰ مریم نوازشریف نے تقریب کے دوران سونیا بی بی کے مینارٹی کا رڈ کے ذریعے اے ٹی ایم مشین سے ٹرانزیکشن کے عمل کا مشاہدہ کیا
ایوان اقبال کمپلیکس میں ''چیف منسٹر مینارٹی کارڈ''لانچنگ کی تقریب،ہندو، سکھ اور کرسچن سمیت دیگر برادری کے مرد وخواتین کی شرکت
تقریب کے شرکا نے پاکستان زندہ باد کے نعروں سے وزیر اعلیٰ مریم نواز کا خیر مقدم کی،اقلیتی مرد وخواتین خواتین کو مینارٹی کارڈ تقسیم کئے
اقلیتی برادری کی حفاظت اور زندگیوں میں بہتری لانا ہماری ذمہ داری ہے،مینارٹیز کی حفاظت کا فرض پوری ذمہ دار ی سے نبھارہی ہوں:مریم نوازشریف
اقلیتی برادری کے جان و مال کو خطرے میں ڈالنے والوں کا راستہ پوری قوت سے روکیں گے،پاکستان کی تعمیر و ترقی میں اقلیتوں کا بھی مساوی کردار ہے
اقلیتوں کے لئے کوئی بھی خطرناک صورتحال ہو تو خود نگرانی کرتی ہوں،پہلے دن ہی کہا کہ مینارٹی ہمارے لیے سرکا تاج ہیں
مینارٹی بہن، بھائی، بزرگوں اور بچوں کیلئے کیا ان کو احساس ہو کہ وہ بھی پاکستانی اور پنجابی ہیں،سیاسی بیان نہیں بلکہ سب احساس ہوجائے کہ مینارٹی بھی وطن عزیزکا اتنا ہی حصہ ہیں جنتا دوسرے پاکستانیوں کا ہے
حقدار کو حق ملنے پر خوشی ہے، سب مذاہب ایک مضبوط لڑی میں پروئے ہیں، سبز ہلالی پرچم بھی بھی سفید رنگ کے بغیر مکمل نہیں ہوتا
قیامت کے دن میں اس کے خلاف گواہ بنوں گا،اقلیتوں کے بارے میں نبی کریم ؐ کی یہ حدیث اسلام کے اقلیتوں کے بارے میں رویے کا درس ہے
اقلیتوں کے بارے میں میرے والد محمد نوازشریف نے ہمیشہ اقلیت کہنے سے منع کیا، تعداد میں تو کم ہونگے مگر پاکستانیت اور انسانیت میں سے کسی سے کم نہیں
پاکستان کی تاریخ میں پہلی بلکہ پنجاب کی تاریخ میں پہلی مرتبہ مینارٹی کارڈ لانچ کیا ہے،ہماری حکومت نے اقلیتی امور کے ڈیپارٹمنٹ کے بجٹ کو بڑھایا ہے
مینارٹی کارڈ سے 50ہزار گھرانوں ساڑھے 10ہزار روپے ہر تین ماہ ملے گا،ساڑھے 10ہزار رقم کوئی زیادہ نہیں،آئندہ چند سالوں میں اس رقم کو بڑھائیں گے
50ہزار گھرانوں کو 75ہزار گھرانوں تک لیکر جائیں گے،ساڑھے 10ہزار روپے نہیں بلکہ محمد نوازشریف اور پنجاب حکومت کی طرف سے ہدیہ اور تحفہ ہے
تہواروں پر مینارٹی گرانٹ 10ہزار سے بڑھا کر 15 ہزار کر دی گئی ہے،وزیر اعلیٰ مریم نوازشریف کا منیارٹی کارڈ کی لانچنگ تقریب سے خطاب
لاہور22 - جنوری:……''اقلیتیں۔۔۔۔۔۔ سر کاتاج''،مریم نواز شریف نے وعدہ سچ کر دکھایا۔وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف نے مینارٹی کارڈ 50 سے 75 ہزار کرنے کا اعلان کیاہے۔وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے پاکستان کا پہلا ''چیف منسٹر مینارٹی کارڈ'' لانچ کردیا۔ایوان اقبال کمپلیکس میں ہندو، سکھ اور کرسچن سمیت دیگر برادری کے مرد وخواتین نے شرکت کی۔تقریب کے شرکا نے پاکستان زندہ باد کے نعروں سے وزیر اعلیٰ مریم نواز کا خیر مقدم کی۔وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف شرکا کے درمیان بیٹھ گئیں۔بشپ ندیم کامران اور سردار سرنجیت سنگھ، پنڈت لال نے دعائیں اور پراتھنا کیں۔وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف نے چیف منسٹر مینارٹی کارڈ کی لانچنگ کردی۔وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف نے اقلیتی مرد وخواتین خواتین کو مینارٹی کارڈ تقسیم کئے۔وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف نے اے ٹی ایم مشین کے ذریعے سونیا بی بی کے مینارٹی کارڈ کی ٹرانزیکشن کا مشاہدہ کیا۔پنجاب میں 50 ہزار خاندانوں کو سہ ماہی 10500 روپے ملیں گے۔صوبائی وزیراقلیتی امور رمیش سنگھ اروڑہ نے پنجابی میں خطاب کیااور وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف کا شکریہ ادا کیا۔وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف نے مینارٹی کارڈ حاصل کرنیوالے مرد وخواتین کو مبارکباد دی۔وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نوازشریف نے منیارٹی کارڈ کی لانچنگ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اقلیتی برادری کی حفاظت اور زندگیوں میں بہتری لانا ہماری ذمہ داری ہے۔مینارٹیز کی حفاظت کا فرض پوری ذمہ دار ی سے نبھارہی ہوں۔ اقلیتی برادری کے جان و مال کو خطرے میں ڈالنے والوں کا راستہ پوری قوت سے روکیں گے۔ پاکستان کی تعمیر و ترقی میں اقلیتوں کا بھی مساوی کردار ہے۔اقلیتوں کے لئے کوئی بھی خطرناک صورتحال ہو تو خود نگرانی کرتی ہوں۔پہلے دن ہی کہا کہ مینارٹی ہمارے لیے سرکا تاج ہیں۔وزیراعلیٰ مریم نوازشریف نے کہا کہ مینارٹی بہن، بھائی، بزرگوں اور بچوں کے لئے کیا ان کو احساس ہو کہ وہ بھی پاکستانی اور پنجابی ہیں۔سیاسی بیان نہیں بلکہ سب احساس ہوجائے کہ مینارٹی بھی وطن عزیزکا اتنا ہی حصہ ہیں جنتا دوسرے پاکستانیوں کا ہے۔پاکستان میں مینارٹی نام رکھ دیا گیا جس میں اتفاق نہیں کرتی۔مینارٹی والے کی یہ پہچان یہ نہیں کہ آپ غیر مسلم ہیں بلکہ آپ کی پہچان سچے اور پکے پاکستانی ہے۔ تقریب میں ہندوؤں برادری، کرسیچن اور سکھ برادری اور دوسرے مذاہب کے لوگ بھی موجود ہیں۔حقدار کو حق ملنے پر خوشی ہے، سب مذاہب ایک مضبوط لڑی میں پروئے ہیں۔ سبز ہلالی پرچم بھی بھی سفید رنگ کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ وزیراعلیٰ مریم نوازشریف نے کہا کہ پاکستان اور پنجاب کے پہلے کابینہ میں سکھ منسٹر کی تعیناتی پر پوری دنیا سے مبارکباد کے پیغام آئے۔انہوں نے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ نبی کریم ؐ نے فرمایا جو شخص کسی غیر مسلم پر ظلم کرے گا،حق چھینے گا، طاقت سے زیادہ بوجھ ڈالے گا یا اس کی کوئی چیز اس کی مرضی کے بغیر لے گا تو قیامت کے دن میں اس کے خلاف گواہ بنوں گا۔ اقلیتوں کے بارے میں نبی کریم ؐ کی یہ حدیث اسلام کے اقلیتوں کے بارے میں رویے کا درس ہے۔ اقلیتوں کے بارے میں میرے والد محمد نوازشریف نے ہمیشہ اقلیت کہنے سے منع کیا۔ تعداد میں تو کم ہونگے مگر پاکستانیت اور انسانیت میں سے کسی سے کم نہیں۔ سکھ، ہندو اور عیسائی برادری کے ہر تہوار میں شامل ہونا ضروری سمجھتی ہوں۔ سب سے پہلے مریم آباد چرچ میں گئی تو بتایا گیا کہ یہاں 103سال بعد کوئی حکمران آیا ہے۔ ہر کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کو ہولی اورایسٹر سمیت کسی بھی مذہب کا تہوار پر اقلیتی عبادت گاہوں اور ان کے محلوں کو سجانے کی ہدایت کی۔وزیراعلیٰ مریم نوازشریف نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بلکہ پنجاب کی تاریخ میں پہلی مرتبہ مینارٹی کارڈ لانچ کیا ہے۔ منیارٹی کارڈ کے اجراء پرصوبائی وزیر اقلیتی امور رمیش سنگھ اروڑہ،ان کی ٹیم اور بینک آف پنجاب کا شکریہ ادا کرتی ہوں۔ ہماری حکومت نے اقلیتی امور کے ڈیپارٹمنٹ کے بجٹ کو بڑھایا ہے۔ مینارٹی کارڈ سے 50ہزار گھرانوں ساڑھے 10ہزار روپے ہر تین ماہ ملے گا۔ ساڑھے 10ہزار رقم کوئی زیادہ نہیں،آئندہ چند سالوں میں اس رقم کو بڑھائیں گے۔ 50ہزار گھرانوں کو 75ہزار گھرانوں تک لیکر جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ ساڑھے 10ہزار روپے نہیں بلکہ محمد نوازشریف اور پنجاب حکومت کی طرف سے ہدیہ اور تحفہ ہے۔ہماری کوشش ہے کہ اقلیتی برادری کے عبادت گاہوں کو سجائیں گے۔اقلیتی برادری کو احساس دلایا ہے آپ بھی ہمارے دل کے بہت قریب ہیں۔انہوں نے کہاکہ تہواروں پر مینارٹی گرانٹ 10ہزار سے بڑھا کر 15 ہزار کر دی گئی ہے۔ اقلیتی برادری کے محلوں اور مذہبی مقامات کو بھی ڈویلپ کررہے ہیں۔ مسیحی برادری کیلئے قبرستان چند ماہ میں تیار ہوجائے گا۔ اقلیتی برادری کے لئے سالانہ ترقیاتی بجٹ میں 60فیصد اضافہ کر دیا گیا ہے۔
0 notes
Text
آپ کو چہرے سے بھی بیمار ہونا چاہئے
عشق ہے تو عشق کا اظہار ہونا چاہئے
آپ دریا ہیں تو پھر اس وقت ہم خطرے میں ہیں
آپ کشتی ہیں تو ہم کو پار ہونا چاہئے
ایرے غیرے لوگ بھی پڑھنے لگے ہیں ان دنوں
آپ کو عورت نہیں اخبار ہونا چاہئے
زندگی تو کب تلک در در پھرائے گی ہمیں
ٹوٹا پھوٹا ہی سہی گھر بار ہونا چاہئے
اپنی یادوں سے کہو اک دن کی چھٹی دے مجھے
عشق کے حصے میں بھی اتوار ہونا چاہئے
منور رانا
0 notes
Text
Yourself And Others At Risk
Don't put yourself and others at risk on New Year's Eve.
نئے سال پر خود کو اور دوسروں کو خطرے میں مت ڈالیں
For more updates: https://dawateislami.net/
0 notes
Text
شام 5 بجے کے بعد کھانا کھانا مضرِ صحت ماہرین نے خطرے کی گھنٹی بجادی
(ویب ڈیسک)محققین کو ایک تحقیق میں معلوم ہوا ہے کہ شام پانچ بجے کے بعد روزمرہ کیلوریز کے کم از کم 45 فی صد حصے کا لیا جانا جسم کے بلڈ شوگر کی سطح کو قابو رکھنے صلاحیت کو نقصان پہنچاتا ہے، جبکہ رات کو دیر سے کھانا کھانا ذیا بیطس کے امکانات میں خطرناک حد تک اضافہ کرسکتا ہے۔ بارسلونا کی ایک یونیورسٹی اوبرٹا دکیٹیلُونیا اور کولمبیا یونیورسٹی میں کی جانےو الی تحقیق کے نتائج وقتی فاقوں والی ڈائٹ کے لیے…
0 notes
Text
پاکستانی ڈرامے ہمیشہ سے معاشرتی تبدیلی اور اصلاح کا ایک اہم ذریعہ رہے ہیں۔ گزشتہ چند دہائیوں میں ہمیں ایسے ڈرامے دیکھنے کو ملے ہیں جو نہ صرف عوامی رائے کو متاثر کرتے ہیں بلکہ معاشرتی برائیوں کو اجاگر کر کے ان کے خلاف جنگ کا آغاز بھی کرتے ہیں۔ مگر موجودہ دور میں یہ سوال اٹھنا ضروری ہے کہ کیا وہ مقصد جو پاکستانی ڈراموں نے ابتدا میں اختیار کیا تھا، وہ ابھی بھی موجود ہے؟ یا پ��ر یہ ڈرامے خود اصلاح کی راہ پر گامزن ہیں؟
ڈراموں کا مقصد ۔
پاکستانی ڈرامے ہمیشہ سے عوامی ذہن سازی اور معاشرتی مسئلوں پر روشنی ڈالنے کے لئے بنائے ��ئے تھے۔ ان ڈراموں میں اکثر وہ موضوعات چُنے جاتے تھے جو ہماری روزمرہ کی زندگی کا حصہ ہوتے تھے، جیسے غربت، ظلم و ستم، خواتین کے حقوق، طبقاتی فرق، اور اخلاقی پستی۔ ان ڈراموں نے ہماری سوچ کو بدلنے کی کوشش کی اور معاشرتی اصلاح کا بیڑہ اٹھایا۔ مثلاً "دھوپ کنارے"، "میرے پاس تم ہو" اور "زہر زبانی" جیسے ڈرامے عوامی سطح پر بہت مقبول ہوئے کیونکہ انہوں نے انسانوں کی فطری کمزوریوں کو اور ان کے درمیان تعلقات کو بہت خوبصورتی سے پیش کیا۔
موجودہ دور: اصلاح کی ضرورت؟
تاہم، موجودہ پاکستانی ڈرامے اگرچہ تکنیکی طور پر بہت آگے جا چکے ہیں، لیکن ان کی کہانیاں، کرداروں اور پیغامات میں ایک واضح تبدیلی آئی ہے۔ آج کل زیادہ تر ڈرامے حب و محبت، شادیوں، اور خاندانی تنازعات کے گرد گھومتے ہیں۔ اگرچہ یہ موضوعات بھی اہم ہیں، لیکن ان کی پیشکش میں اخلاقی و معاشرتی پہلو کو نظر انداز کیا گیا ہے۔
پاکستانی ڈرامے جہاں لوگوں کی تفریح کا ذریعہ بن چکے ہیں، وہاں یہ اپنے بنیادی مقصد سے ہٹ گئے ہیں۔ ڈراموں میں جنسی اشتعال، غیر حقیقت پسندانہ رومانی، اور کرداروں کی اخلاقی گراوٹ نے ان کی معاشرتی اصلاحی حیثیت کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ ان میں اکثر دیکھنے کو ملتا ہے کہ محبت اور رشتہ فقط ایک جذباتی ترغیب بن کر رہ گئے ہیں، جن کا حقیقی معاشرتی اقدار سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
معاشرتی حقیقت یا فریب؟
آج کل کے پاکستانی ڈراموں میں ہمیں وہ حقیقی زندگی کا عکس نظر نہیں آتا جسے ہم اپنے معاشرتی ڈھانچے میں دیکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر، کئی ڈراموں میں خواتین کو محض نظرین کی طرح دکھایا جاتا ہے، جہاں ان کی آزادی اور خود مختاری کے بارے میں کوئی بات نہیں کی جاتی۔ اسی طرح، کچھ ڈراموں میں لڑکوں کے لیے غیر اخلاقی رویوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے، جیسے جھوٹ بولنا یا دھوکہ دینا، جس کا معاشرتی سطح پر برا اثر پڑتا ہے۔
اس کے برعکس، ڈراموں کو معاشرتی اصلاحی افکار کی طرف واپس لانا ضروری ہے، تاکہ یہ نہ صرف لوگوں کو محظوظ کریں بلکہ ان میں اچھے اخلاق، کردار کی مضبوطی، اور مثبت معاشرتی رویے پیدا کریں۔
خود اصلاح کی ضرورت ۔
پاکستانی ڈرامے جو کبھی معاشرتی اصلاح کے پیغام کے حامل تھے، اب خود اصلاح کے عمل سے گزرنے کی ضرورت ہے۔ ان ڈراموں کو حقیقت پسندانہ موضوعات اور کرداروں کے ذریعے ہماری ثقافت اور اخلاقی اقدار کو دوبارہ زندہ کرنا چاہیے۔ انہیں اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ صرف تفریح نہیں بلکہ لوگوں کی زندگیوں میں بہتری لانے کی بھی کوشش کی جائے۔ اگر ڈرامے حقیقت سے ہٹ کر محض رومانی اور جذباتی مواد فراہم کرتے رہیں گے تو وہ خود بھی اپنی معاشرتی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں ناکام رہیں گے۔
نتیجہ ۔
پاکستانی ڈراموں کا مقصد معاشرتی اصلاح ہونا چاہیے، نہ کہ محض تفریح اور جذبات کی عکاسی۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ یہ ڈرامے اپنے تاریخی مقصد کو دوبارہ زندہ کریں، تو انہیں اخلاقی پیغامات اور حقیقت پر مبنی کہانیوں کو اجاگر کرنا ہوگا۔ موجودہ ڈراموں کو اصلاح کی ضرورت ہے، تاکہ وہ نہ صرف ہمارے وقت کی عکاسی کریں بلکہ معاشرتی اقدار کو فروغ دینے میں اپنا کردار ادا کریں۔ اس طرح، پاکستانی ڈرامے دوبارہ وہ طاقت بن سکتے ہیں جو ایک وقت میں ہمارے معاشرتی ڈھانچے کی مضبوطی کا باعث بنتے تھے۔
قلم کار : فاطمہ نسیم
تاریخ : 27 دسمبر 2024
0 notes
Text
آرٹیکل 245 کے تحت اسلام آباد میں فوج بلانے کا اصل مقصد کیا ہے؟
وفاقی حکومت کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت اسلام آباد میں فوج بلانے کا بنیادی مقصد شر پسندوں یوتھیوں کو یہ تاثر دینا ��ھا کہ حکومت اور فوج ایک ہی صفحے پر موجود ہیں۔ فوج طمب کرنے کے سرکاری حکم نامے میں آئین کی شق 245 کا حوالہ دیا گیا ہے جس کے تحت حکومت کو اختیار ہے کہ وہ اندرونی یا بیرونی خطرے سے نمٹنے کے لیے سویلین انتظامیہ کی مدد کی خاطر فوج کو طلب کر سکتی ہے۔ تاہم ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ…
0 notes
Text
یقیناً میں آپ کو تکلیف دوں گا۔ یقیناً آپ مجھے تکلیف دیں گے۔ یقیناً ہم ایک دوسرے کو تکلیف دیں گے۔ لیکن زندگی کی بقا کے لیے یہ ضروری ہے۔ آپ بہار بننا چاہتے ہیں تو خزاں کے آنے کے خطرے کو قبول کریں۔ کہیں پر موجود ہونا چاہتے ہیں تو غیر موجودگی کے خطرے کو قبول کریں۔
Of course I will hurt you. Of course you will hurt me. Of course we will hurt each other. But it is necessary for the survival of life. If you want to be spring, accept the risk of autumn. If you want to be present somewhere, accept the risk of absence.
~Antoine de Saint-Exupéry
13 notes
·
View notes
Text
𝑨𝒍𝒍𝒂𝒉 𝒌 𝑵𝒂𝒂𝒎 𝒔𝒆, 𝑨𝒍𝒍𝒂𝒉 𝒌 𝑾𝒂𝒔'𝒕𝒆.
🌹🌹 𝗧𝗛𝗘 𝗠𝗜𝗗𝗗𝗟𝗘 𝗣𝗔𝗧𝗛:
♦️ *_"A journey towards excellence"_* ♦️
✨ *Set your standard in the realm of*
*love !*
*(اپنا مقام پیدا کر...)*
؏ *تم جو نہ اٹھے تو کروٹ نہ لے گی سحر.....*
🔹 *100 PRINCIPLES FOR PURPOSEFUL*
*LIVING* 🔹
7️⃣1️⃣ *of* 1️⃣0️⃣0️⃣
(ENGLISH/URDU/HINDI)
💠 𝗧𝗛𝗘 𝗠𝗜𝗗𝗗𝗟𝗘 𝗣𝗔𝗧𝗛:
𝗧𝗵𝗲 𝗣𝗿𝗼𝗽𝗵𝗲𝘁 𝗼𝗳 𝗜𝘀𝗹𝗮𝗺 𝘀𝗮𝗶𝗱 𝘁𝗵𝗮𝘁 𝘁𝗵𝗲 𝗺𝗶𝗱𝗱𝗹𝗲 𝗽𝗮𝘁𝗵 𝗶𝘀 𝘁𝗵𝗲 𝗯𝗲𝘀𝘁.
(Sahih al-Bukhari, Hadith, No. 3560)
● In today’s world, man has to coexist with many people.
● In such a situation, the best method is the one in which one’s path is not blocked by any obstacles, and without coming into collision with anyone.
● This is called the middle path, a moderate method that is always practical.
● In this way, one can move forward without putting oneself in great danger.
● In this path, nothing will shatter his whole plan, he will continue his journey to completion.
🌹🌹And Our ( Apni ) Journey Continues...
-------------------------------------------------------
7️⃣1️⃣ درمیانی راستہ:
پیغمبر اسلامﷺ نے فرمایا کہ درمیانی راستہ بہترین ہے۔
(صحیح البخاری، حدیث نمبر 3560)
● آج کی دنیا میں انسان کو بہت سے لوگوں کے ساتھ رہنا پڑتا ہے۔
● ایسی صورت حال میں بہترین طریقہ وہ ہے جس میں کسی کا راستہ روکا نہ جائے اور کسی سے ٹکراؤ نہ ہو۔
● اسے درمیانی راستہ کہا جاتا ہے، ایک معتدل طریقہ جو ہمیشہ عملی ہوتا ہے۔
● اس طرح کوئی بھی اپنے آپ کو بڑے خطرے میں ڈالے بغیر آگے بڑھ سکتا ہے۔
● اس راستے میں کوئی بھی چیز اس کے پورے منصوبے کو ناکام نہیں بنائے گی، وہ تکمیل تک اپنا سفر جاری رکھے گا۔
🌹🌹اور ہمارا سفر جاری ہے...
-----------------------------------------------------
7️⃣1️⃣ मध्य मार्ग:
पैगम्बरे इस्लामﷺ ने कहा है कि मध्यम मार्ग सर्वोत्तम है।
(साहिह अल-बुखारी, हदीस, नंबर 3560)
● आज की दुनिया में मनुष्य को कई लोगों के साथ मिलकर रहना पड़ता है।
● ऐसी स्थिति में सबसे अच्छा तरीका वही है जिसमें किसी भी बाधा से रा��्ता अवरुद्ध न हो और किसी से टकराव भी न हो।
● इसे मध्यम मार्ग कहा जाता है, एक उदारवादी पद्धति जो सदैव व्यावहारिक होती है।
● इस तरह, कोई भी व्यक्ति स्वयं को किसी बड़े खतरे में डाले बिना आगे बढ़ सकता है।
● इस मार्ग में, कुछ भी उसकी पूरी योजना को नष्ट नहीं कर सकेगा, वह अपनी यात्रा को पूर्णता तक जारी रखेगा।
🌹🌹और हमारा सफर जारी है...
1 note
·
View note
Text
وہ کونسی عادتیں ہیں جو دل کے دورے کے خطرے کو کم کرتی ہیں؟
پہلے وقتوں میں دل کا دورہ پ��نے کا خطرہ بہت کم ہوا کرتا تھا لیکن غیر صحت بخش طرز زندگی کی وجہ سے اب کم عمر لوگوں میں بھی دل کے دورے کا خطرہ بڑھتا جارہا ہے۔ صحت کا تعلق طرز زندگی سے جڑا ہوتا ہے، غیر صحت مند کھانے مثلاً چکنائی اور مرچ مصالحے والے کھانے دل سمیت بہت سی بیماریوں میں مبتلا کر دیتے ہیں مگر آپ چند آسان عادتوں کو اپنا کر دل کے دورے کے خطرے کو کم کرسکتے ہیں۔ مراقبہ مراقبہ کو انگریزی زبان…
View On WordPress
0 notes