#حیدر علی
Explore tagged Tumblr posts
Text
ارشد ندیم کو گھر جاکر انعامات دیئے مجھے دفتر بلاکر ہی دے دیں حیدر علی
لاہور (ویب ڈیسک) پاکستان کے کامیاب ترین پیرا ایتھلیٹ حیدر علی کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں پیرالمپکس کو اولمپکس کے برابر ہی اہمیت دی جاتی ہے، پاکستان کیلئے پیرالمپکس میں4 میڈلز جیتے لیکن وہ پذیرائی نہیں ملی جس کے وہ مستحق ہیں۔ ارشد ندیم کے تو گھر جاکر انعامات دیئے گئے تھے، مجھے دفتر بلاکر ہی دے دیں۔ روزنامہ” جنگ” کے مطابق حیدر علی نے کہا کہ ارشد ندیم کو پالیسی سے بڑھ کر انعامات ملے اور مجھے پالیسی…
0 notes
Text
موج جدید اعدامها در ایران: دوازده زندانی در کرج، یزد، تبریز، شیراز و خواف اعدام شدند
Continue reading موج جدید اعدامها در ایران: دوازده زندانی در کرج، یزد، تبریز، شیراز و خواف اعدام شدند
#human rights#Human rights organization MKN#MKN314#Shiraz and Khaf#Tabriz#The new wave of executions in Iran: twelve prisoners were executed in Karaj#محمد کرمی زاده#یوسف کاظمزاده#Yazd#ایران-Iran#اسماعیل جوادی#اعدام#اعدام ها-Executions#جنایات جمهوری اسلامی-The crimes of the Islamic Republic#حقوق بشر#حقوق بشر - human rights#حیدر عرب#خبر فوری#سازمان حقوق بشری امکیان#سازمان حقوق بشریmkn#سازمان حقوق بشرmkn#علی سلیمی#عباس اعلایی آقبلاغ#عبدالرحمان دامنی
0 notes
Text
آپ کی نازک کمر پر بوجھ پڑتا ھے بہت
بڑھ چلے ہیں حد سے گیسو کچھ انہیں کم کیجیئے
حیدر علی آتش
5 notes
·
View notes
Text
پاکستانی گلوکار کا چاہت فتح علی خان کے ساتھ گانا گانے سے صاف انکار
معروف گلوکار اور موسیقار علی حیدر نے ایک نجی ٹی وی شو میں چاہت فتح علی خان کے ساتھ گانا گانے کے امکان کو سختی سے مسترد کر دیا، چاہے معاوضے کے طور پر 20 کروڑ روپے ہی کیوں نہ پیش کیے جائیں۔ شو کے میزبان نے علی حیدر سے سوال کیا کہ اگر انہیں 20 کروڑ روپے دیئےجائیں تو کیا وہ چاہت فتح علی خان کے ساتھ گانا گانے پر رضامند ہونگے؟ اس پرعلی حیدر نے جواب دیا، “میں چاہت فتح کے ساتھ گانا نہیں گاؤں گا۔” انہوں…
0 notes
Text
کراچی میں نئی بسوں کی آمد؟
بہت دیر کی مہرباں آتے آتے ۔ میں نے اپنی صحافت کا آغاز ہی بلدیاتی رپورٹنگ سے کیا تھا۔ اُس زمانے میں شام کے اخبارات شہری مسائل پر زیادہ توجہ دیتے تھے چاہے وہ پانی کا مسئلہ ہو، ٹرانسپورٹ کے مسائل ہوں یا شہر کا ’’ماسٹر پلان‘‘۔ کرائمز کی خبریں اس وقت بھی سُرخیاں بنتی تھیں مگر اُن کی نوعیت ذرا مختلف ہوتی تھی۔ مجھے میرے پہلے ایڈیٹر نے ’’ٹرانسپورٹ‘‘ کی خبریں لانے کی ذمہ داری سونپی، ساتھ میں کرائمز اور کورٹ رپورٹنگ۔ اب چونکہ خود بھی بسوں اور منی بسوں میں سفر کرتے تھے تو مسائل سے بھی آگاہ تھے۔ یہ غالباً 1984ء کی بات ہے۔ جاپان کی ایک ٹیم شہر میں ان مسائل کا جائزہ لینے آئی اور اُس نے ایک مفصل رپورٹ حکومت سندھ کو دی جس میں شہر میں سرکلر ریلوے کی بہتری کیساتھ کوئی پانچ ہزار بڑے سائز کی بسیں بشمول ڈبل ڈیکر لانے کا مشورہ دیا اور پرانی بسوں اور منی بسوں کو بند کرنے کا کیونکہ ان کی فٹنس نہ ہونے کی وجہ سے شدید آلودگی پھیل رہی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب غالباً ٹرام یا تو ختم ہو گئی تھی یا ��ُسے بند کرنے کی تیاری ہو رہی تھی۔ اُس وقت کراچی ٹرانسپورٹ اتحاد کے سربراہ چوہدری اسماعیل ہوتے تھے جن کے ماتحت کئی پرائیویٹ بسیں چلتی تھیں اور اُن کی گہری نظر تھی۔ اِن مسائل پر وہ اکثر کہتے تھے ’’ شہر جس تیزی سے پھیل رہا ہے ہم نے اس لحاظ سے ٹرانسپورٹ کا مسئلہ حل نہ کیا تو بات ہاتھوں سے نکل جائے گی‘‘۔
کوئی چالیس سال بعد مجھے یہ نوید سُنائی جا رہی ہے کہ اب انشا ءالله کئی سو نئی بسیں اور ڈبل ڈیکر بسیں بھی آرہی ہیں۔ مگر مجھے خدشہ ہے کے اِن ٹوٹی ہوئی سڑکوں پر یہ بسیں کیسے چلیں گی مگر خیر اب یہ بسیں آ رہی ہیں لہٰذا ان کا ’’خیر مقدم‘‘ کرنا چاہئے۔ میں نے حیدر آباد اور کراچی میں ڈبل ڈیکر بسوں میں سفر کیا ہے پھر نجانے یہ کیوں بند کر دی گئیں۔ ایک مضبوط کراچی ٹرانسپورٹ کارپوریشن کے تحت بڑی بڑی بسیں چلا کرتی تھیں جن کے شہر کے مختلف علاقوں میں ٹرمینل ہوتے تھے۔ اس کے اندر جس طرح لوٹ مار کی گئی اُس کی کئی خبریں میں نے ہیڈ لائن میں دی ہیں اور اچانک یہ بند ہو گئیں کیوں اور کیسے؟ پھر وہ بسیں کہاں گئیں ٹرمینلز کی زمینوں کا کیا بنا۔ ایسا ہی کچھ حال سرکلر ریلوے کا ہوا ورنہ تو یہ ایک بہترین سروس تھی، اب کوئی دو دہائیوں سے اس کی بحالی کی فائلوں پر ہی نجانے کتنے کروڑ خرچ ہو گئے۔ اس سارے نظام کو بہتر اور مربوط کیا جاتا تو نہ آج کراچی کی سڑکوں پر آئے دن ٹریفک جام ہوتا نہ ہی شہر دنیا میں آلودگی کے حوالے سے پہلے پانچ شہروں میں ہوتا۔
قیام پاکستان کے بعد بننے والا ’’کراچی ماسٹر پلان‘‘ اُٹھا لیں اور دیکھیں شہر کو کیسے بنانا تھا اور کیسا بنا دیا۔ ماسٹر پلان بار بار نہیں بنتے مگر یہاں تو کیونکہ صرف لوٹ مار کرنا تھی تو نئے پلان تیار کئے گئے۔ میں نے دنیا کے کسی شہر میں اتنے بے ڈھنگے فلائی اوور اور انڈر پاس نہیں دیکھے جتنے اس معاشی حب میں ہیں۔ عروس البلاد کراچی کی ایک دکھ بھری کہانی ہے اور یہ شہر ہر لحاظ سے اتنا تقسیم کر دیا گیا ہے کہ اسکی دوبارہ بحالی ایک کٹھن مرحلہ ہے۔ تاہم خوشی ہے کہ وزیر اطلاعات نے رنگ برنگی اے سی بسیں لانے کا وعدہ کیا ہے جن کا کرایہ بھی مناسب اور بکنگ آن لائن۔ یہ سب کراچی ماس ٹرانسزٹ کا حصہ تھا جو کوئی 30 سال پہلے بنایا گیا تھا۔ اُمید ہے یہ کام تیزی سے ہو گا کیونکہ جو حال پچھلے پانچ سال سے کراچی یونیورسٹی روڈ کا ہے اور وہ بھی ایم اے جناح روڈ تک، اللہ کی پناہ۔ شہر کی صرف دو سڑکیں ایم اے جناح روڈ اور شاہراہ فیصل، چلتی رہیں تو شہر چلتا رہتا ہے۔ حیرت اس بات کی ہے کہ چند سال پہلے ہی جیل روڈ سے لے کر صفورہ گوٹھ تک جہاں جامعہ کراچی بھی واقع ہے ایک شاندار سڑک کوئی ایک سال میں مکمل کی گئی، بہترین اسٹریٹ لائٹس لگائی گئیں جس پر ایک ڈیڑھ ارب روپے لاگت آئی اور پھر... یوں ہوا کہ اس سڑک کو توڑ دیا گیا۔ اب اس کا حساب کون دے گا۔
اگر ایک بہتر سڑک بن ہی گئی تھی تو چند سال تو چلنے دیتے۔ ہمیں تو بڑے پروجیکٹ بنانے اور چلانے بھی نہیں آتے صرف ’’تختیاں‘‘ لگوا لو باقی خیر ہے۔ دوسرا بسوں کا جال ہو یا پلوں کی تعمیر یہ کام دہائیوں کو سامنے رکھتے ہوئے کئے جاتے ہیں اس شہر کا کھیل ہی نرالا ہے یہاں پلان تین سال کا ہوتا ہے مکمل 13 سال میں ہوتا ہے۔ میں نے کئی بار شرجیل میمن صاحب کو بھی اور خود وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ صاحب کو بھی کہا کہ سڑکوں کا کوئی بڑا پروجیکٹ ہو، کوئی فلائی اوور یا انڈر پاس تو سب سے پہلے سائیڈ کی سڑکوں کو اور متبادل راستوں کو بہتر کیا جاتا ہے اور سڑکوں کی تعمیر یا مرمت سے پہلے متعلقہ اداروں سے پوچھا جاتا ہے کہ کوئی لائن و غیرہ تو نہیں ڈالنی؟ یہاں 80 فیصد واقعات میں واٹر بورڈ، سوئی گیس اور کے الیکٹرک والے انتظار کرتے ہیں کہ کب سڑک بنے اور کب ہم توڑ پھوڑ شروع کریں۔ اب دیکھتے ہیں ان نئی بسو ں کا مستقبل کیا ہوتا ہے کیونکہ 70 فیصد سڑکوں کا جو حال ہے ان بسوں میں جلد فٹنس کے مسائل پیدا ہونگے۔ مگر محکمہ ٹرانسپورٹ ذرا اس کی وضاحت تو کرے کہ چند سال پہلے جو نئی سی این جی بسیں آئی تھیں وہ کہاں ہیں کیوں نہیں چل رہیں اور ان پر لاگت کتنی آئی تھی۔
اگر یہ اچھا منصوبہ تھا تو جاری کیوں نہ رکھا گیا اور ناقص تھا تو ذمہ داروں کو سزا کیوں نہ ملی۔’’خدارا‘‘، اس شہر کو سنجیدگی سے لیں۔ ریڈ لائن، اورنج لائن، گرین لائن اور بلیو ��ائن شروع کرنی ہے تو اس کام میں غیر معمولی تاخیر نہیں ہونی چاہئے مگر اس سب کیلئے ٹریک بنانے ہیں تو پہلے سائیڈ ٹریک بہتر کریں ورنہ ایک عذاب ہو گا، یہاں کے شہریوں کیلئے بدترین ٹریفک جام کی صورت میں۔ سرکلر ریلولے بحال نہیں ہو سکتی اس پر پیسہ ضائع نہ کریں۔ اس کی وجہ سرکار بہتر جانتی ہے۔ جب بھی میں یا کوئی شہر کے مسائل کے حل کے اصل مسئلے پر آتا ہے تو اُسے سیاسی رنگ دے دیا جاتا ہے۔ کنٹونمنٹ بورڈ اور ڈیفنس والے بھی خوش نہیں ہوتے ایک ’’میٹرو پولیٹن سٹی‘‘، ایک میئر کے انڈر ہوتی ہے۔ اُس کی اپنی لوکل پولیس اور اتھارٹی ہوتی ہے۔ کیا وقت تھا جب ہم زمانہ طالب علمی میں نارتھ ناظم آباد کے حسین ڈسلوا ٹائون کی پہاڑیوں پر جایا کرتے تھے، ہاکس بے ہو یا سی ویو پانی اتنا آلودہ نہ تھا، بو نہیں مٹی کی خوشبو آتی تھی۔ جرم و سیاست کا ایسا ملاپ نہ تھا۔ اس شہر نے ہم کو عبدالستار ایدھی بھی دیئے ہیں اور ادیب رضوی بھی۔ اس شہر نے سب کے پیٹ بھرے ہیں اور کچھ نہیں تو اس کو پانی، سڑکیں اور اچھی بسیں ہی دے دو۔ دُعا ہے نئی بسیں آئیں تو پھر غائب نہ ہو جائیں، نا معلوم افراد کے ہاتھوں۔
مظہر عباس
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
بہ تسلیمات ڈسٹرکٹ انفارمیشن آفیسر ننکانہ صاحب
ننکانہ صاحب:11 اکتوبر 2024
ممبر قومی اسمبلی ڈاکٹر شذرہ منصب علی خان کھرل اور ممبر صوبائی اسمبلی کا محکمہ زراعت اور سوشل ویلفیئر کے دفتر کا دورہ
ممبر قومی و صوبائی اسمبلی نے کسان کارڈز اور ہمت کارڈز کی تقسیم کے عمل کا بغور جائزہ لیا
ڈپٹی کمشنر ننکانہ محمد تسلیم اختر راو نے وزیر اعلی پنجاب کے مثالی منصوبوں بارے ممبران اسمبلییز کو بریفنگ دی
حکومت پنجاب کی جانب سے ضلع ننکانہ صاحب کو 23 ہزار سے زائد کسانوں کی رجسٹریشن کا ٹارگٹ دیا گیا ہے۔بریفنگ
ضلعی انتظامیہ نے17 ہزار سے زائد کسانوں کی رجسٹریشن کا عمل مکمل کر لیا۔ڈی سی ننکانہ
ضلع ننکانہ کے 04 ہزار سے زائد زمینداروں میں کسان کارڈز تقسیم کیے جا چکے ہیں۔ڈپٹی کمشنر ننکانہ
ممبر قومی و صوبائی اسمبلی نے کسان کارڈز اور ہمت کارڈز کی تقسیم کے پراسس کا تفصیلی جائزہ لیا
ممبران اسمبلیز نے سرکاری دفاتر میں کسانوں اور معذور افراد کو دی جانے والی سہولیات کا بغور جائزہ بھی لیا
ممبر قومی و صوبائی اسمبلی نے سرکاری دفاتر میں موجود کسانوں اور معذور افراد میں کارڈز تقسیم کیے
اسسٹنٹ کمشنر ننکانہ وجیہہ ثمرین ، ڈپٹی ڈائریکٹر زراعت ، ڈپٹی ڈائریکٹر سوشل ویلفیئر سمیت دیگر افسران بھی موجود
وزیر اعلی پنجاب کی جانب سے زراعت کے شعبہ کی ترقی کے لیے کسان کارڈز کا اجراء انقلابی اقدام ہے۔ممبر قومی اسمبلی ڈاکٹر شذرہ منصب
موجودہ حکومت کا ویژن کسانوں کو معاشی طور پر مضبوط بنانا ہے۔ممبر قومی اسمبلی
کسان پاکستان کی ترقی کا ضامن ہے ، کسان خوشحال ہو گا تو پاکستان خوشحال ہو گا۔ڈاکٹر شذرہ منصب علی خان
کسان کسی بھی ملک کی معاشی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ممبر صوبائی اسمبلی آغا علی حیدر خان
ضلع ننکانہ کو ابتک 1 ہزار سے زائد معذور افراد کی درخواستیں موصول ہوئیں
حکومت پنجاب کی جانب سے ضلعی انتظامیہ کو 8 سو سے زائد معذور افراد کے ہمت کارڈز موصول ہو چکے
ضلع ننکانہ صاحب کے 2 سو سے زائد معذور افراد میں ہمت کارڈز تقسیم کیے جا چکے ہیں
معذور افراد میں امدادی رقوم کی تقسیم وزیر اعلی پنجاب کا انسان دوست اور غریب پرور مثالی اقدام ہے۔ممبر قومی اسمبلی ڈاکٹر شذرہ منصب علی خان کھرل
پنجاب کی تاریخ میں پہلی مرتبہ معذور افراد میں مالی امداد کی جا رہی ہے۔ممبر صوبائی اسمبلی آغا علی حیدر خان
ضلعی انتظامیہ کی جانب معذور افراد کو بلاتفریق اور باعزت طریقے سے رقوم کی تقسیم کا سلسلہ جاری ہے۔ممبر صوبائی اسمبلی
حکومت پنجاب کی جانب سے رجسٹرڈ معذور افراد کو 10 ہزار 5 سو روپے کی سہ ماہی قسط جاری کی جائیگی۔آغا علی حیدر خان
تمام رجسٹرڈ معذور افراد ہر تین ماہ بعد اپنے ہمت اے ٹی ایم کارڈز کے ذریعے کسی بھی بینک سے امدادی رقوم حاصل کر سکیں گے۔ممبر صوبائی اسمبلی
0 notes
Link
0 notes
Text
‼️حیدر علی بابایی #قم
‼️حیدر علی بابایی #قم وي مسئول عملیات پایگاه بسیج ميباشد. این مزدور در سرکوب قیام و اعتراضات آزادیخواهان قم نقش فعالی دارد . هرگونه اطلاعات و مشخصات ازاین مزدور را در اختیار راسویاب قرار دهید 🔸هشدار به تمامی مزدوران و سرکوبگران در نظام جمهوری اسلامی، براندازی این نظام در تمامیت آن، در چشم انداز است. صفوف خود را از این جانیان جدا کرده و به مردم بپیوندید. efshagar_rasu rasuyab 🔴این…
View On WordPress
0 notes
Text
پیپلز پارٹی نے خیبرپختونخوا کے 38 قومی اسمبلی حلقوں کے لیے امیدواروں کو ٹکٹ جاری کر دئیے
پیپلز پارٹی نے خیبر پختونخوا سے قومی اسمبلی کے لیے امیدواران کو ٹکٹ جاری کردئیے،،،، قومی اسمبلی کے لیے 38 امیدواروں کو ٹکٹ جاری کیے گئے۔ این اے ون چترال سے انجینئر فضل ربی، این اے ٹو سوات سے ڈاکٹر حیدر علی خان کو ٹکٹ جاری کیا گیا،این اے 3 سوات سے میاں گل شہریار امرزیب، این اے 7 لوئر دیر سے عالم زیب خان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑیں گے۔ این اے 5 اپر دیر سے نجم الدین خان،این اے 6 لوئر دیر1 سے…
View On WordPress
0 notes
Text
واش نام قدیمی این شهر است.واش کلمه ای به زبان بلوچی و به معنی وش، شیرین وخوش است.درسال ۱۳۰۸ توسط رضاشاه به خاش تغییر یافت. دهخدا در لغت نامه اش دربارهٔ معنی خاش مینویسد: خاش: خوش آب و هوا.[۲] در زبان فارسی، خاش را مادرزن نیز معنا کردهاند. که البته بعید به نظر میرسد معنی دوم دربارهٔ شهر خاش صدق کند.
قلعه حیدر آباد از آثار تاریخی و جاهای دیدنی خاش به شمار میرود. این قلعه توسط شخصی بنام حیدر علی خان کرد میربلوچ زهی ساخته شد بعدها و درسال ۱۲۹۹ هجری شمسی (۱۹۲۰ میلادی)محل سکونت شخصی به نام «عیدوخان» بودو تا سال ۱۳۰۷ هجری شمسی محل سکونت همین شخص و خانوادهاش بود. بعدها از این قلعه بهعنو��ن محل نگهداری آذوقه و مهمات نیروهای انگلیسی به سرپرستی ژنرال دایر استفاده کردند. این اثر در تاریخ ۱۸ اردیبهشت ۱۳۸۰ با شماره ثبت ۳۸۲۵ بهعنوان یکی از آثار ملی ایران به ثبت رسیده است.
0 notes
Text
1 note
·
View note
Text
چیف جسٹس کی زیر صدارت جوڈیشل کمیشن اجلاس 14 دسمبر کو ہوگا
(ملک اشرف)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی کی زیر صدارت جوڈیشل کمیشن اجلاس 14 دسمبر کو ہوگا ۔ جوڈیشل کمیشن اجلاس میں لاہور ہائیکورٹ کے ایڈیشنل ججز کی تعیناتی پر غور ہوگا،لاہور ہائیکورٹ کے ایڈیشنل ججز کی تعیناتی کے لئے زیرغور ناموں میں مزید دو وکلاء کے نام شامل ،سردار اکبر علی ڈوگر ایڈوکیٹ کانام بھی لاہور ہائیکورٹ کے ایڈیشنل جج کی تعیناتی کے لئے نامزد ،ملک وقار حیدر اعوان ایڈووکیٹ کا نام…
0 notes
Text
مرثیہ میر انیس بسلسلہ شہادت امیر المومنینؑ علی علیہ السلام
انیسویں تاریخ کی لکھی ہے یہ اخبار
مسجد میں گئے بہر عبادت شہہ ابرار
جب سجدہ اول میں گئے حیدر کرار
قاتل نے لگائی سر پُرنور پر تلوار
سر ہوگیا دو ٹکڑے محمد کے وصی کا
پھر دو سرے سجدے کو اٹھا سر نہ علی کا
دریا کی طرح خون ہوا زخموں سے ��اری
مسجد میں تڑپنے لگا وہ عاشق باری
طاقت نہ سنبھلنے کی رہی غش ہوا طاری
سرپیٹ کے سب کرنے لگے گریہ و زاری
رونے جو ملک ما سبق کن فیکون کو
اک زلزلہ تھا منبر و محراب و ستوں کو
افلاک پر سر پیٹ کے جبرئیل پکارے
فریاد ہے ظالم نے ید اللہ کو مارا
سر ہوگیا سجدے میں دو نمازی کا دو پارا
ہے غرق نجوں برج امامت کا ستارا
ماتم کا ہوا جوش صف جن و ملک میں
فرق آیا ضیائے ماہ و خورشید فلک میں
مارا اسے جو زینت افلاک و زمیں تھا
مارا اسے جو خاتم قدر کا نگیں تھا
مارا اسے جو راز امامت کا امیں تھا
مارا اسے جو شاہنشہاہ دیں تھا
پہنچاتا تھا جو روزہ کشائی فقراء کو
ان روزوں میں زخمی کیا مہمان خدا کو
کوفہ میں یکایک یہ خبر ہوئی جب تشہیر
سر پیٹتے مسجد میں گئے شبر و شبیر
روتے تھے جو لوگ ان سے یہ کی دونوں نے تقریر
تھا کون عدو کس نے لگائی ہے یہ شمشیر
ہم دیکھ لیں مہر رخ تابان علی کو
دو بہرہ خدا راہ یتیمان علی کو
شہزادوں کے منہ دیکھ کے خلقت نے جو دی راہ
ڈوبے ہوئے خون میں نظر آئے اسد اللہ
عماموں کو سر پر سے پٹک دونوں نے کی آہ
اور گر کے لگے آنکھوں سے ملنے قدم ِشاہ
چلاتے تھے بیٹوں کی کمر توڑ چلے آپ
دکھ سہنے کو دنیا میں ہمیں چھوڑ چلے آپ
بیٹوں کے جو رونے کی صدا کان میں آئی
تھے غش میں مگر چونک کے آواز سنائی
کیوں روتے ہو کیوں پیٹ کے دیتے ہو دھائی
ہوتی نہیں کیا باپ کی بیٹوں سے جدائی
تھا تنگ بہت فرقہ اعداء کے ستم سے
دنیا کے میں اب چھوٹ گیا رنج و الم سے
غش طاری ہے مسجد سے مجھے لے چلو اب گھر
گھر سے نہ چلی آئے کہیں زینب مضطر
بابا کو اٹھا لائے جو سبطین پیامبر
دروازے پہ روتے تھے حرم کھولے ہوئے سر
خوں دیکھا محاسن پہ امام مدنی کا
غل خانہ زہرا پہ ہوا سینہ زنی کا
فرزندوں نے حجرے میں جو بستر پر لٹایا
زینب کو پدر کا سر زخمی نظر آیا
چلائی کہ یہ کیا مجھے قسمت نے دکھایا
ماں سے بھی چھٹی باپ کا بھی اٹھتا ہے سایہ
کیوں دیدۂ حق بین کو نہیں کھولتے بابا
کیسا یہ غش آیا کہ نہیں بولتے بابا
یہ کہتی تھی اور باپ کا غم کھاتی تھی زینب
سم کا اثر اک ایک کو دکھلاتی تھی زینب
سر بھائی جو ٹکراتے تھے گھبراتی تھی زینب
تھے شیر خدا غش میں موئی جاتی تھی زینب
چلاتی تھی سر پیٹ کے اے وائے مقدر
میں ��اپ کے آگے نہ موئی ہائے مقدر
دو دون کبھی ہوشیار تھے حیدر کبھی بے ہوش
قاتل کو بھی بھیجا وہی جو آپ کیا نوش
ہاں حیدریوں بزم میں رقت کو ہواجوش
شمع حرم لم یزل ہوتی ہے خاموش
دعوی ہے اگر تم کو مولائے علی کا
مجلس میں ہو غل ہائے علی ، ہائے علی کا
چہرے میں جب ہویدا ہوئے جب موت کے آثار
سدھے ہوئے قبلہ کی طرف حیدر کرار
لب پہ صلوات اور کلمہ تھا جاری ہر بار
ہنگام قضا ہاتھ اٹھا کر بدل زار
فرزند و اقارب میں لگا چھاتی سے سب کو
دنیا سے سفر کر گئے اکیسویں شب کو
ہاں اہل عزا روؤ کہ یہ وقت بکا ہے
پیٹو کے محمد کا وصی قتل ہوا ہے
ہادی جو تمہارا تھا وہ دنیا سے اٹھا ہے
دن آج کا سوچو تو قیامت سے سوا ہے
اک شور ہے ماتم کا بپا گھر میں علی کے
بیٹے لیئے جاتے ہیں جنازہ کو علی کے
خاموش انیس اب کےنہیں طاقت گفتار
سینہ میں تپاں صورت بسمل ہے دل زار
خالق سے دعا مانگ کہ یا ایزد غفار
آباد رہیں خلق میں حیدر کے عزادار
کیا روتے ہیں ماتم میں امام ازلی کے
حقا کہ یہ سب عاشق صادق ہیں علی کے
0 notes
Text
اب شوقِ سفر ، خواہشِ یکجائی بہت ھے
دشمن ھی ملے ، راہ میں تنہائی بہت ھے
ھم کون سے غالب تھے کہ شہرت ھمیں ملتی
دنیا ، تری اتنی بھی پذیرائی بہت ھے
زخموں کی نمائش کا سلیقہ نہیں ھم کو
وہ ھیں کہ انہیں شوقِ مسیحائی بہت ھے
لوگوں سے تعارف نہ کوئی جان نہ پہچان
دل ھے کہ اسی بزم کا شیدائی بہت ھے
گلیوں میں مگر کوئی دریچہ نہیں کھلتا
آپس میں یہاں شورِ شناسائی بہت ھے
شامیں ھیں بہت سوختہ ، برسات میں
کہنے کو بھرا شہر ھے ، تنہائی بہت ھے
حیدر علی آتش
6 notes
·
View notes
Text
صدر آصف زرداری 3روزہ دورے پرلاہورپہنچ گئے
صدرمملکت آصف علی زرداری 3روزہ دورے پر لاہورپہنچ گئے۔ ذرائع کے مطابق اولڈ ائیر پورٹ پر گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر خان، چیف سیکرٹری زاہد زمان، آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور، پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر راجہ پرویز اشرف، سید حسن مرتضی، شہزاد سعید چیمہ نے آصف علی زرداری کا استقبال کیا۔ صدر مملکت آصف علی زرداری گورنر ہاؤس میں پارٹی رہنماؤں سے ملاقاتیں کریں گے۔آصف علی زرداری کل پروفیسر وارث میر کی برسی…
0 notes
Photo
حیدر علی اف در سال ۱۳۷۲ از جمهوری اسلامی درخواست کمک نظامی کرد. #جمهوری_اسلامی یک هیات نظامی به سرپرستی سردار وحیدی (فرمانده وقت #نیروی_قدس_سپاە_پاسداران و وزیر کشور فعلی) به آذربایجان اعزام نموده و متعاقب آن یک تیپ از #نیروی_زمینی_سپاه از #لشکر_۳۱_عاشورا_تبریز به آن کشور اعزام شدند. اما سیاست جمهوری اسلامی کمک به ارتش آذربایجان نبود بلکه دنبال ساخت یک نیروی شبه نظامی، شبیه حزب الله لبنان یا حشدالشعبی فعلی بودند. سپاه پس از ارزیابی افراد و جریانهای مختلف، نهایتا از «روشن جواد اف» که یک گروه شبه نظامی بنام «آمون» را رهبری میکرد حمایت نموده و چندین دوره آموزشی برای نیروهای وی که «کونوللی» یا داوطلب (معادل بسیجی) خوانده می شدند برگزار کرد. اما در جریان کودتای نافرجام «صورت حسین اف» بر علیه حیدر علی اف، روشن جواد اف و نیروهای تحت امرش، جانب کودتاگران را گرفتند. کودتا شکست خورد و جواد اف کشته شد و آمون بهم ریخت و جمهوری اسلامی و سپاه قدس نیز پس از بازداشت چند نفر از پرسنل اش، از آذربایجان اخراج شده و این کشور به سمت غرب و ترکیه کشیده شد. پس از آن بود که سراغ یک آخوند و طلبه آذربایجانی در #جامعة_المصطفی_العالمیة به نام «توحید ابراهیمی» رفتند و #حسینیون_آذربایجان یا همان #تیپ_حسینیون را با ادعای شرکت در #جنگ_سوریه و #مدافع_حرم راه انداختند، اما هدف همان دخالت در #جمهوری_آذربایجان بود. این روزها نیز که تنش ایران و آذربایجان به اوج خود رسیده ، باز بحث #تیپ_حسینیون مطرح شده و سپاه در حال فتنهگری است که آخرین آن ترور شب گذشته #فاضل_مصطفی است. لذا بر خلاف ادعاهای صورت گرفته در کمک به آذربایجان در #جنگ_قره_باغ ، جمهوری اسلامی عملا هیچ کمکی به آذربایجان نکرده و بلکه با بی تدبیریها و خیانتهای صورت گرفته، باعث پناه بردن آذربایجان به دیگر کشورها شد، و این همان جواب قاطعی بود که در روزهای گذشته رئیس جمهور آذربایجان به خامنهای داد که :« این شما بودید که باعث شدید پای اسرائیل به منطقه باز شود» #سپاه_تروریستی_پاسداران #وحشت_افکنان_خاورمیانه #شبه_نظامیان_خامنه_ای @irbr.news https://www.instagram.com/p/CqX0-slM8MH/?igshid=NGJjMDIxMWI=
#جمهوری_اسلامی#نیروی_قدس_سپاە_پاسداران#نیروی_زمینی_سپاه#لشکر_۳۱_عاشورا_تبریز#جامعة_المصطفی_العالمیة#حسینیون_آذربایجان#تیپ_حسینیون#جنگ_سوریه#مدافع_حرم#جمهوری_آذربایجان#فاضل_مصطفی#جنگ_قره_باغ#سپاه_تروریستی_پاسداران#وحشت_افکنان_خاورمیانه#شبه_نظامیان_خامنه_ای
0 notes