#دسمبر
Explore tagged Tumblr posts
Text
اِن دنوں تعلق تھوڑا مضبوط رکھنا
سُنا ہے دسمبر کے بچھڑے کبھی نہیں ملتے
In dino'n taaluq thora mazbut rakhna
Suna hai december k bichray kabhi nahi miltay
#دسمبر#sadqay tumharay#Mahira khan#Urdu poetry#urdu shayri#urdu ghazal#desi tumblr#just desi things#desi larki#life of a desi girl#desi academia#pakistan#urdu aesthetic#urdu stuff#pakistani aesthetics#desi culture#pakistani ost#pakistani drama
67 notes
·
View notes
Text
لائیوسٹاک کارڈکی رجسٹریشن شروع، 15 دسمبر سے فنکشنل ہوگا، 80ہزار فارمرز مستفید ہونگے، 2لاکھ 70ہزار روپے تک بلا سود قرض ملے گا
لاہور ( ڈیلی پاکستان آن لائن ) :پنجاب کو صرف چند ماہ میں فارمر ترقی اور جدت کی راہ پرگامزن کرتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے بے مثال اور منفرد تاریخی سکیم متعارف کراد ی-مویشی پال فارمرز کے لیے 11ارب روپے کے بلا سود قرضوں کے پراجیکٹ کا آغاز کر دیا گیا۔وزیراعلیٰ لائیوسٹاک کارڈکی رجسٹریشن شروع ہوگئی ہے-پنجاب کا پہلا منفرد لائیو سٹاک کارڈ 15 دسمبر سے فنکشنل ہوگا-سی ایم لائیوسٹاک کارڈ کے ذریعے…
#2لاکھ#70ہزار#80ہزار#بلا#تک#دسمبر#رجسٹریشن#روپے#سود#سے#شروع#فارمرز#فنکشنل#قرض#کارڈکی#گا#لائیوسٹاک#مستفید#ملے#ہوگا#ہونگے
0 notes
Text
عبدالرحیم خان خاناں پیدائش 17 دسمبر
عبدالرحیم خان خاناں پیدائش 17 دسمبر
عبد الرحیم خان خاناں (پیدائش: 17 دسمبر 1556ء— وفات: 1626) مغل درباری جو بیرم خان اور سلیمہ سلطان بیگم کے اکلوتے بیٹے تھے۔ ولادت عبد الرحیم لاہور میں پیدا ہوئے بیرم خان کے بیٹے تھے جو اکبر کے اتالیق تھے۔ والد کے قتل کے بعد جب ابھی اُنکی عمر 5سال تھی تو بادشاہ اکبر نے اُنہیں اپنے پاس بُلا لیا اور شہزادوں کے ساتھ پرورش کی۔ اکبر نے بیرم خان کی دوسری بیوی سلیمہ سلطان بیگم سے شادی کرلی اس طرح رحیم خان…
View On WordPress
0 notes
Text
🌹🎂🌹🎂🌹ولادت باسعادت حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام وارثِ پیغمبر اکرم حضرت محمد مصطفی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی 11 جانشین حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام 10 ربیع الثّانی 232 ھجری بروز جمعرات بمطابق 6 دسمبر 846 عیسوی مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور چودہ معصومین علیہ السلام اور حضرت امام محمد مہدی علیہ السلام کی بارگاہ اقدس میں مبارک باد پیش کرتے ہیں🎂🌹🎂🌹🎂🌹
@zeshanali313
7 notes
·
View notes
Text
آج کی پوسٹ ان دیہاڑی داروں کے نام جو ہفتے میں ایک دفعہ اپنی بیٹی کا پسندیدہ انڈے والا بند کباب لاتے ہیں اور ساتھ اعلان بھی کرتے ہیں کہ انکا پسندیدہ کھانا تو بس روٹی اور چٹنی ہے👇
💕آج کی پوسٹ ان عظیم مردوں کے نام
جو رات کو اپنے چھالے بھرے ہاتھوں سے , اپنی ماں , بہن , بیوی , بیٹی کے لۓ گرما گرم مونگ پھلی لاتے ہیں اور ساتھ بیٹھ کر قہقہے لگا کر کہتے ہیں , تم لوگ کھاٶ میں تو راستے میں کھاتا آیا ہوں
💕آج کی پوسٹ ان عظیم جوانوں کے نام
جو شادی کے چند دن بعد پردیس کی فلاٸٹ پکڑتے ہیں اور پیچھے رہ جانے والوں کا ATM بن جاتے ہیں ۔ ۔ جنہیں اپنی بیوی کی جوانی اور اپنے بچوں کا بچپن دیکھنے کا موقع ہی نہیں ملتا
💕آج کی پوسٹ ان سب مزدوروں , سپرواٸزروں اور فیلڈ افسروں کے نام
جو دن بھر کی تھکان کے ٹوٹے بدن کے باوجود , اپنے بیوی بچوں کے مسکراتے چہرے دیکھنے کے لۓ رات کو واٸس ایپ (voice app)کال کرنا نہیں بھولتے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
💕آج کی پوسٹ ان سب دکانداروں اور سیلزمینوں کے نام "
جو سارا سارا دن اپنے وجود کے ساتھ لیڈیز سوٹ لگا کر کہتے ہیں : باجی دیکھیں کیسا نفیس پرنٹ اور رنگ ہے
💕" آج کی پوسٹ ان سب عظیم مردوں کے نام "
جو ملک کے کسی ایک کونے سے ڈراٸیو شروع کرتے ہیں اور پورے پاکستان میں اشیاء تجارت دے کر آتے ہوۓ اپنی بیٹی کے لۓ کسی اجنبی علاقے کی سوغات لانا نہیں بھولتے
💕آج کی پوسٹ ان معزز افسران کے نام
💕جو ویسے تو ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتے , مگر اپنے بچوں کے رزق کے لۓ سینٸیر اور سیٹھ کی گالیاں کھا کر بھی مسکرا دیتے ہیں ۔
" آج کی پوسٹ ان عظیم کسانوں کے نام "
جو دسمبر کی برستی بارش میں سر پر تھیلا لۓ پگڈنڈی پھر کر کسی کھیت سے پانی نکالتے ہیں اور کسی میں ڈالتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔
آج کی پوسٹ ��یرے والد صاحب کے نام
جنہوں نے مجھے زندگی دی اور زندگی بنا کر بھی دی
آج کی پوسٹ ہر نیک نفس , ایماندار اور محبت کرنے والے باپ , بھاٸی , شوہر اور بیٹے کے نام
جو اپنے لۓ نہیں اپنے گھر والوں کے لۓ کماتے ہیں
جنکا کوٸی عالمی دن نہیں ہوتا ۔ ۔
مگر ہر دن ان کے لۓ عالمی دن ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔
کیونکہ جن کے لۓ وہ محنت کرتے ہیں انکی چہروں پر مسکراہٹ ان لوگوں کی وجہ سے ہوتی ہے۔۔🇵🇰🇵🇰🇵🇰🇵🇰🌹🥀🌷🌺
11 notes
·
View notes
Text
آخری چند دن دسمبر کے
ہر برس ہی گراں گزرتے ہیں خواہشوں کے نگار خانے میں
کیسے کیسے گماں گزرتے ہیں رفتگاں کے بکھرتے سالوں کی
ایک محفل سی دل میں سجتی ہے فون کی ڈائری کے صفحوں سے
کتنے نمبر پکارتے ہیں مجھے جن سے مربوط بے نوا گھنٹی
اب فقط میرے دل میں بجتی ہے کس قدر پیارے پیارے ناموں پر
رینگتی بدنما لکیریں سی میری آنکھوں میں پھیل جاتی ہیں
دوریاں دائرے بناتی ہیں دھیان کی سیڑھیوں میں کیا کیا عکس
مشعلیں درد کی جلاتے ہیں ایسے کاغذ پہ پھیل جاتے ہیں
حادثے کے مقام پر جیسے خون کے سوکھے نشانوں پر
چاک کی لائنیں لگاتے ہیں ہر دسمبر کے آخری دن میں
ہر برس کی طرح اب بھی ڈائری ایک سوال کرتی ہے
کیا خبر اس برس کے آخر تک میرے ان بے چراغ صفحوں سے
کتنے ہی نام کٹ گئے ہونگے کتنے نمبر بکھر کے رستوں میں
گرد ماضی سے اٹ گئے ہونگے خاک کی ڈھیریوں کے دامن میں
کتنے طوفان سمٹ گئے ہونگے ہر دسمبر میں سوچتا ہوں میں
ایک دن اس طرح بھی ہونا ہے رنگ کو روشنی میں کھونا ہے
اپنے اپنے گھروں میں رکھی ہوئی ڈائری، دوست دیکھتے ہونگے
ان کی آنکھوں کے خاکدانوں میں ایک صحرا سا پھیلتا ہو گا
اور کچھ بے نشاں صفحوں سے نام میرا بھی کٹ گیا ہو گا
امجد اسلام امجد
4 notes
·
View notes
Text
یکم جنوری ہے نیا سال ہے, دسمبر میں پوچھوں گا کیا حال ہے -امیر قزلباش
Yakum january hai naya saal hai, december mein puchunga kya haal hai -Ameer Qazalbash
#urdushayari#urdu#urdu poetry#urdu posts#shayari#urdublr#urdu stuff#desiblr#desi tumblr#new year#2023#january 1st
11 notes
·
View notes
Text
چاند پر جانے کی وڈیو جعلی تھی
ایک اخباری کے مطابق :جو کہ امریکہ اور یورپ کے 12 دسمبر کے اخبارات میں چھپی ہے۔ خبر کا لنک بھی دے رہا ہوں۔
http://www.express.co.uk/news/science/626119/MOON-LANDINGS-FAKE-Shock-video-Stanley-Kubrick-admit-historic-event-HOAX-NASA
خبر کا خلاصہ کچھ یوں ہے
ہالی ووڈ کے معروف فلم ڈائریکٹر سٹینلے کبرک نے ایک ویڈیو میں تسلیم کیا ہے کہ امریکا کی جانب سے چاند پر مشن بھیجنے کا دعویٰ جعلی اور جھوٹ پر مبنی تھا اور میں ہی وہ شخص ہوں جس نے اس جھوٹ کو فلم بند کیا تھا ۔اس رپورٹ کے مطابق حال ہی میں ایک خفیہ ویڈیو ریلیز کی گئی ہے جس میں ہالی ووڈ کے آنجہانی ہدایتکار سٹینلے کبرک نے تسلیم کیا ہے کہ 1969ء میں چاند پر کوئی مشن نہیں گیا تھا بلکہ انہوں نے اس کی فلم بندی کی تھی۔ ہالی ووڈ کے ہدایتکار کی اس خفیہ ویڈیو کو 15 سال قبل فلم بند کیا گیا تھا۔ ان کی ویڈیو بنانے والے رپورٹر نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اس ویڈیو کو ان کی وفات کے 15 سال بعد افشاء کرے گا۔ اس کے چند ہی دن بعد سٹینلے کبرک کا انتقال ہو گیا تھا۔ اس خفیہ ویڈیو میں انہوں نے تسلیم کیا کہ چاند کی تسخیر پر اٹھائے جانے والے تمام سوالات درست ہیں یہ سب کچھ امریکی خلائی ادارے ناسا اور امریکی حکومت کی ایماء پر کیا گیا تھا۔اس وقت کے امریکی صدر جان ایف کینیڈی کو اس تمام معاملے کا علم تھا۔سٹینلے کبرک کا کہنا تھا کہ وہ امریکی عوام سے معذرت خواہ ہیں کیونکہ انہوں نے ان سے دھوکہ دہی کی ہے۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ میں نے امریکی حکومت اور ناسا کے کہنے پر مصنوعی چاند پر فلم بندی کی تھی میں اس فراڈ پر امریکی عوام کے سامنے شرمسار ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو یہ تھا اس وڈیو بنانے والا اصل کریکٹر جو اعتراف کرگیا کہ یہ سب کچھ جعلی تھا۔ اس سے پہلے میں اپنے دلچسپ معلومات پیج کے دوستوں کو اس کے بارے میں بتا چکا ہوں کہ اس وڈیو بنانے کی وجوہات اصل میں کیا تھیں۔ اور کچھ اس پر اٹھائے جانے والے اعتراضات بھی بتا چکا ہوں۔ یہ پوسٹ میں دوبارہ آپ کی دلچسپی اور علم میں اضافے کے لئے پیش کررہا ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چاند پر انسانی قدم کے ڈرامے کی وجوہات اور اعتراضات
چند دن پہلے میں نے "چاند پر قدم کا ڈرامہ" نامی آرٹیکل اس دلچسپ معلومات پیج پر پوسٹ کیا تھا ۔ جس پر کچھ دوستوں نے اعتراضات کئے تھے کہ "یہ سب بکواس ہے چاند پر قدم ایک حقیقت ہے"۔یا۔"خود تو کچھ کر نہیں سکتے اور دوسروں پر اعتراضات کرتے ہیں"۔ وغیرہ وغیرہ ۔اور بہت سارے دوست تو میری بات سے متفق بھی تھے۔ تو ان معترضین سے عرض یہ ہے کہ چاند پر قدم کا ڈرامہ کہنے والے پاکستان نہیں بلکہ خود امریکی اور یورپ کے ماہرین ہیں۔کیونکہ ہمارے پاس تو اتنی ٹیکنالوجی اور وسائل نہیں کہ ہم حقیقتِ حال جان سکیں۔ جن کے پاس تمام وسائل ہیں ان لوگوں نے ہی اس نظریے پر اعتراضات اٹھائے ہیں کہ یہ ایک باقاعدہ ڈرامہ تھا ��و امریکہ اور روس کی سرد جنگ کے درمیان امریکہ نے روس پر برتری حاصل کرنے کے لئے گڑھا تھا۔ آئیے ان اعتراضات پر ایک نظر ڈالتے ہیں ۔ذہن میں رہے یہ اعتراضات کوئی پاکستانی نہیں کررہا بلکہ امریکی کررہے ہیں۔جن کو میں اپنے دلچسپ معلومات پیج کو دوستوں سے شئیر کررہا ہوں۔
1969 میں امریکی خلانورد نیل آرمسٹرانگ نے گرد سے اٹی ہوئی جس سرزمین پر قدم رکھا تھا، کیا وہ چاند کی سطح تھی یا یہ ہالی وڈ کے کسی سٹوڈیو میں تخلیق کیا گیا ایک تصور تھا؟ بہت سے لوگوں کی نظر میں یہ حقیقت آج بھی افسانہ ہے۔کیونکہ کچھ ہی سالوں میں خود امریکہ میں اس بات پر شک و شبہ ظاہر کیا جانے لگا کہ کیا واقعی انسان چاند پر اترا تھا؟
15 فروری 2001 کو Fox TV Network سے نشر ہونے والے ایک ایسے ہی پروگرام کا نام تھا
Conspiracy Theory: Did We Land on the Moon?
اس پروگرام میں بھی ماہرین نے بہت سے اعتراضات اٹھائے ہیں۔ اسی طرح یوٹیوب پر بھی یہ دو ڈاکیومینٹری دیکھنے والوں کے ذہن میں اس بارے ابہام پیدا کرنے کے لئے کافی موثر ہیں۔
Did man really go to the moon
Did We Ever Land On The Moon
پہلے اس ڈرامے کی وجوہات پر ایک نگاہ ڈالتے ہیں۔کہ آخر کیا وجہ تھی کہ امریکہ نے اتنا بڑا(تقریباکامیاب) ڈرامہ بنایا۔
سرد جنگ کے دوران امریکہ کو شدید خطرہ تھا کہ نہ صرف اس کے علاقے روسی ایٹمی ہتھیاروں کی زد میں ہیں بلکہ سرد جنگ کی وجہ سے شروع ہونے والی خلائی دوڑ میں بھی انہیں مات ہونے والی ہے۔ کیونکہ روس کی سپیس ٹیکنالوجی امریکہ سے بہت بہتر تھی۔ جنگ ویتنام میں ناکامی کی وجہ سے امریکیوں کا مورال بہت نچلی سطح تک آ چکا تھا۔
پہلا مصنوعی سیارہ خلا میں بھیجنے کے معاملے میں روس کو سبقت حاصل ہو چکی تھی جب اس نے 4 اکتوبر 1957 کو Sputnik 1 کو کامیابی کے ساتھ زمین کے مدار میں بھیجا۔ روس 1959 میں بغیر انسان والے خلائی جہاز چاند تک پہنچا چکا تھا۔ 12 اپریل 1961 کو روسی خلا نورد یوری گگارین نے 108 منٹ خلا میں زمیں کے گرد چکر کاٹ کر خلا میں جانے والے پہلے انسان کا اعزاز حاصل کیا۔ 23 دن بعد امریکی خلا نورد Alan Shepard خلا میں گیا مگر وہ مدار تک نہیں پہنچ سکا۔ ان حالات میں قوم کا مورال بڑھانے کے لیئے صدر کینڈی نے 25 مئی 1961 میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ ہم اس دہائی میں چاند پر اتر کہ بخیریت واپس آئیں گے۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ دہائی کے اختتام پر بھی اسے پورا کرنا امریکہ کے لئے ممکن نہ تھا اس لیئے عزت بچانے اور برتری جتانے کے لیئے جھوٹ کا سہارا لینا پڑا۔ امریکہ کے ایک راکٹ ساز ادارے میں کام کرنے والے شخصBill Kaysing کے مطابق اس وقت انسان بردار خلائی جہاز کے چاند سے بہ سلامت واپسی کے امکانات صرف 0.017% تھے۔ اس نے اپولو مشن کے اختتام کے صرف دو سال بعد یعنی 1974 میں ایک کتاب شائع کی جسکا نام تھا
We Never Went to the Moon:
America's Thirty Billion Dollar Swindle
3 اپریل 1966 کو روسی خلائ جہاز Luna 10 نے چاند کے مدار میں مصنوعی سیارہ چھوڑ کر امریکیوں پر مزید برتری ثابت کر دی۔ اب امریکہ کے لئے ناگزیر ہوگیا تھا کہ کچھ بڑا کیا جائے تاکہ ہمارا مورال بلند ہو۔
21 دسمبر 1968 میں NASA نے Apollo 8 کے ذریعے تین خلا نورد چاند کے مدار میں بھیجے جو چاند کی سطح پر نہیں اترے۔ غالباً یہNASA کا پہلا جھوٹ تھا اور جب کسی نے اس پر شک نہیں کیا تو امریکہ نے پوری دنیا کو بے وقوف بناتے ہوئے انسان کے چاند پر اترنے کا یہ ڈرامہ رچایا اورہالی وڈ کے ایک اسٹوڈیو میں جعلی فلمیں بنا کر دنیا کو دکھا دیں۔ اپولو 11 جو 16جولائی 1969 کو روانہ ہوا تھا درحقیقت آٹھ دن زمین کے مدار میں گردش کر کے واپس آ گیا۔
1994 میں Andrew Chaikin کی چھپنے والی ایک کتاب A Man on the Moon میں بتایا گیا ہے کہ ایسا ایک ڈرامہ رچانے کی بازگشت دسمبر 1968 میں بھی سنی گئی تھی۔
اب ان اعتراضات کی جانب آتے ہیں جو سائنسدانوں نے اٹھائے ہیں۔
1- ناقدین ناسا کے سائنسدانوں کے عظیم شاہکار اپالو گیارہ کو ہالی وڈ کے ڈائریکٹروں کی شاندار تخلیق سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس سفر اور چاند پر انسانی قدم کو متنازعہ ماننے والوں کی نظر میں ناسا کی جانب سے جاری کی گئی تصاویر میں کئی نقائص ہیں، جن سے ایسا لگتا ہے کہ جیسے چالیس سال قبل انسان سچ مچ چاند پر نہیں پہنچا تھا۔
2۔اس سفر کی حقیقت سے انکار کرنے والوں کا خیال ہے کہ تصاویر میں خلانوردوں کے سائے مختلف سائز کے ہیں اور چاند کی سطح پر اندھیرا دکھایا گیا ہے۔
3۔ ان افراد کا یہ بھی کہنا ہے کہ چاند کی سطح پر لی گئی ان تصاویر میں آسمان تو نمایاں ہے مگر وہاں کوئی ایک بھی ستارہ دکھائی نہیں دے رہا حالانکہ ہوا کی غیر موجودگی اور آلودگی سے پاک اس فضا میں آسمان پر ستاروں کی تعداد زیادہ بھی دکھائی دینی چاہئے تھی اور انہیں چمکنا بھی زیادہ چاہئے تھا۔
4۔ ان لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ ناسا کی ویڈیو میں خلانورد جب امریکی پرچم چاند کی سطح پر گاڑ دیتے ہیں تو وہ لہراتا ہے جب کہ چاند پر ہوا کی غیر موجودگی میں ایسا ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔
5۔چاند کی تسخیر کو نہ ماننے والے ایک نکتہ یہ بھی اٹھاتے ہیں کہ اس ویڈیو میں ایک خلانورد جب زمین پر گرتا ہے تو اسے دوتین مرتبہ اٹھنے کی کوشش کرنا پڑتی ہے۔ چاند پر کم کشش ثقل کی وجہ سے ایسا ہونا خود ایک تعجب کی بات ہے۔
6۔زمین کے بہت نزدیک خلائی مداروں میں جانے کے لیئے انسان سے پہلے جانوروں کو بھیجا گیا تھا اور پوری تسلی ہونے کے بعد انسان مدار میں گئے لیکن حیرت کی بات ہے کہ چاند جیسی دور دراز جگہ تک پہنچنے کے لئے پہلے جانوروں کو نہیں بھیجا گیا اور انسانوں نے براہ راست یہ خطرہ مول لیا۔
7۔ کچھ لوگ یہ اعتراض بھی کرتے ہیں کہ اگر انسان چاند پر پہنچ چکا تھا تو اب تک تو وہاں مستقل قیام گاہ بن چکی ہوتی مگر معاملہ برعکس ہے اور چاند پر جانے کا سلسلہ عرصہ دراز سے کسی معقول وجہ کے بغیر بند پڑا ہے۔ اگر 1969 میں انسان چاند پر اتر سکتا ہے تو اب ٹیکنالوجی کی اتنی ترقی کے بعد اسے مریخ پر ہونا چاہیے تھا مگر ایسا نہیں ہے۔ ناسا کے مطابق دسمبر 1972 میں اپولو 17 چاند پر جانے والا آخری انسان بردار خلائی جہاز تھا۔ یعنی 1972 سے یہ سلسلہ بالکل بند ہے ۔
8۔ چاند پر انسان کی پہلی چہل قدمی کی فلم کا سگنل دنیا تک ترسیل کے بعد
slow scan television -SSTV
فارمیٹ پر اینالوگ Analog ٹیپ پر ریکارڈ کیا گیا تھا۔ ان ٹیپ پر ٹیلی میٹری کا ڈاٹا بھی ریکارڈ تھا۔ عام گھریلو TV اس فارمیٹ پر کام نہیں کرتے اسلیئے 1969 میں اس سگنل کو نہایت بھونڈے طریقے سے عام TV پر دیکھے جانے کے قابل بنایا گیا تھا۔ اب ٹیکنالوجی اتنی ترقی کر چکی ہے کہ ایسے سگنل کو صاف ستھری اور عام TV پر دیکھنے کے قابل تصویروں میں بدل دے۔ جب ناسا سےSSTV کے اصلی ٹیپ مانگے گئے تو پتہ چلا کہ وہ ٹیپ دوبارہ استعمال میں لانے کے لئے مٹائے جا چکے ہیں یعنی اس ٹیپ پر ہم نے کوئی اور وڈیو ریکارڈ کردی ہے۔ اورناسا آج تک اصلی ٹیپ پیش نہیں کر سکا ہے۔
9۔ اسی طرح چاند پر جانے اور وہاں استعمال ہونے والی مشینوں کے بلیو پرنٹ اور تفصیلی ڈرائنگز بھی غائب ہیں۔
ان لوگوں کا اصرار رہا ہے کہ ان تمام نکات کی موجودگی میں چاند کو مسخر ماننا ناممکن ہے اور یہ تمام تصاویر اور ویڈیوز ہالی وڈ کے کسی بڑے اسٹوڈیو کا شاخسانہ ہیں۔تو یہ کچھ اعتراضات تھے جن کے تسلی بخش جوابات دیتے ہوئے ناسا ہمیشہ سے کتراتا رہا ہے۔ جو اس نے جوابات دیئے بھی ہیں وہ بھی نامکمل اور غیرشعوری ہیں۔
#fakemoonlanding
#معلومات #عالمی_معلومات #دنیا_بھر_کی_معلومات #جہان_کی_تازہ_معلومات #دنیا_کی_تحریریں #عالمی_خبریں #دنیا_کی_تاریخ #جغرافیائی_معلومات #دنیا_بھر_کے_سفر_کی_کہانیاں #عالمی_تجارت #عالمی_سیاست #تاریخ #اردو #اردو_معلومات #اردوادب
#Infotainment #information #History #WorldHistory #GlobalIssues #SocialTopics #WorldPolitics #Geopolitics #InternationalRelations #CulturalHeritage #WorldCulture #GlobalLeadership #CurrentAffairs #WorldEconomy #Urdu
بہرحال ہر انسان کے سوچنے کا انداز مختلف ہوتا ہےمیرے موقف سے ہر ایک کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
#urdu shayari#urdu poetry#urdu#urdu shairi#urdupoetry#urdu quote#urdu poem#urduadab#poetry#urdu adab#urdu sher#urdu poems#urdu literature#urduposts#urdualfaz#urdushayri#urdushayari#اردو شعر#اردو غزل#اردو شاعری#اردو#اردو ادب#اردو زبان#اردو خبریں#حقیقت#realislam#reality
2 notes
·
View notes
Text
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی گرفتاری
پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک میں تو سابق کیا، موجودہ حکمرانوں کی گرفتاریاں، مقدمات حتیٰ کہ پھانسی کی سزائیں بھی ہوتی رہی ہیں لیکن تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ امریکہ جیسی سپر پاور کے ایک سابق صدر کو ایک دو نہیں 34 فوجداری الزامات میں گرفتار کر لیا گیا اور ملزم گرفتاری دینے کے لئے خود عدالتی کمپلیکس پہنچا۔ امریکہ میں تاریخ رقم کرنے والے یہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہیں جنہیں اپنے کاروبار سے متعلق جھوٹے بیانات پر گرفتار کر لیا گیا۔ ارب پتی ٹرمپ جو اپنی شعلہ بیانی اور بڑبولا ہونے کی شہرت رکھتے ہیں گرفتاری خود دی اور اس مقصد کے لئے فلوریڈا سے اپنے ذاتی ہوائی جہاز میں طویل فاصلہ طے کر کے نیویارک پہنچے ۔
عدالتی کمپلیکس کے باہر ان کے حامیوں اور مخالفین کی بڑی تعداد موجود تھی جو ان کے حق یا مخالفت میں نعرے لگارہے تھے تاہم اس موقع پر سخت سیکورٹی انتظامات کئے گئے تھے جس کی وجہ سے توڑ پھوڑ یا جلاؤ گھیراؤ کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا جس کا مظاہرہ حالیہ عرصے میں پاکستان میں اکثرکیا جاتا ہے۔ عدالت میں ٹرمپ کے فنگر پرنٹس لئے گئے اور تصویریں کھینچی گئیں۔ پھر رہا بھی کر دیا گیا۔ ان پر باقاعدہ مقدمہ کی کارروائی دسمبر تک ملتوی کر دی گئی۔ پاکستان ہوتا تو ٹرمپ گرفتاری دینے کے لئے اتنا کلف نہ کرتے اور کہہ دیتے کہ میں گرفتار ہونے کو تیار ہوں مگر میرے کارکن اجازت نہیں دیتے۔ مگر یہ امریکہ ہے جہاں اس کے ایک سابق طاقتور صدر نے بلا جوں وچرا خود کو قانون کے حوالے کر دیا۔ ان کے اس فعل کے پیچھے کئی سبق پنہاں ہیں جو پاکستان یا ایسے ہی دوسرے ممالک میں نظر نہیں آتے۔ قانون کی عملداری کی یہ نظیر امریکہ جیسے جمہوری ملکوں میں ہی دیکھی جاسکتی ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ
3 notes
·
View notes
Text
کچھ تو ہوا بھی سرد تھی کچھ تھا ترا خیال بھی
دل کو خوشی کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا ملال بھی
~پروین شاکر
Kuch tw hawaa bhi sard thi, kuch tha tera khayal bhi
Dil ko khushi k sath sath hota raha malaal bhi
-Parveen Shakir
#parveen shakir#پروین شاکر#اردو شاعری#اردو غزل#اردو ادب#اردوشاعری#دسمبر#urdupoetry#urdu shayari#urdu ghazal#urdu literature#urdu quote#urdu lines#urdu stuff#desi tumblr#just desi things#desi larki#life of a desi girl#desi academia#pakistan#urdu aesthetic#pakistani aesthetics#desi culture#islamabad#desi poetry#desi ghazal#desi people#desi life
25 notes
·
View notes
Text
پرائیویٹ سکولز مینجمنٹ ایسوسی ایشن کامیٹرک امتحانات کے شیڈول پر نظرثانی کا مطالبہ
(24نیوز)صدرشمالی پنجاب آل پاکستان پرائیویٹ سکولز مینجمنٹ ایسوسی ایشن ابرار احمدنے کہا ہے کہ موجودہ صورتحال کے پیش نظر ضلع راولپنڈی کے نجی تعلیمی ادارے کل بھی بند رہیں گے۔ ابرار احمد کاکہناتھا کہ احتجاجی دھرنوں کے باعث بچوں کی پڑھائی کا شیڈول بری طرح متاثر ہورہا ہے،پنجاب تعلیمی بورڈز نے 4 مارچ سے میٹرک امتحانات لینے کا فیصلہ کرلیا ہے،سیکرٹری ایجوکیشن پنجاب نے 20 دسمبر سے 10 جنوری تک موسم سرما کی…
0 notes
Text
محمد حمید اللہ وفات 17 دسمبر
محمد حمید اللہ وفات 17 دسمبر
ڈاکٹر محمد حمید اللہ (پیدائش: 9 فروری، 1908ء، انتقال : 17 دسمبر، 2002ء) معروف محدث، فقیہ، محقق، قانون دان اور اسلامی دانشور تھے اور بین الاقوامی قوانین کے ماہر سمجھے جاتے تھے۔ تاریخ حدیث پر اعلیٰ تحقیق، فرانسیسی میں ترجمہ قرآن اور مغرب کے قلب میں ترویج اسلام کا اہم فریضہ نبھانے پر آپ کو عالمگیر شہرت ملی۔ آپ 9 فروری، 1908ء کو اور بعض حوالوں کے مطابق 19 فروری، 1908 کو مملکت آصفیہ کے شہر حیدرآباد…
View On WordPress
0 notes
Text
🌹🎂🌹🎂🌹ولادت باسعادت حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام وارثِ پیغمبر اکرم حضرت محمد مصطفی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی 11 جانشین حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام 10 ربیع الثّانی 232 ھجری بروز جمعرات بمطابق 6 دسمبر 846 عیسوی مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور چودہ معصومین علیہ السلام اور حضرت امام محمد مہدی علیہ السلام کی بارگاہ اقدس میں مبارک باد پیش کرتے ہیں🎂🌹🎂🌹🎂🌹
6 notes
·
View notes
Text
الوداع اے ڈوبتے سورج کی افسردہ کرن
اے دسمبر کی ٹھٹھرتی آخری شام الوداع
4 notes
·
View notes
Text
ایک خواب جو تعبیر پا گیا
ادیب بھائی سے برسوں پرانا تعلق ہے، وہ ہمارا فخر ہیں۔ ان جیسی دردمندی ہر کسی میں نہیں ہوتی۔ ان کے جذبے اور لگن نے آج SIUT کو جو مقام دیا ہے وہ برسوں کی انتھک محنت کا نتیجہ ہے۔ ابھی حال ہی میں انھوں نے ریجنٹ پلازہ ہوٹل خرید کر وہاں SIUT کا اسپتال قائم کیا ہے۔ میں نہ صرف ان کی مزید کامیابی کی دعا گو ہوں بلکہ یہ خواہش بھی رکھتی ہوں کہ آنے والے وقت میں پاکستان میں بہت سے ادیب رضوی پیدا ہوں۔ پاکستان میں یورولوجی اور نیفرالوجی کے شعبے میں اگر کسی شخصیت نے اپنی بے لوث خدمات اور انسانی ہمدردی کے ذریعے انقلابی تبدیلی لائی ہے تو وہ ہیں ڈاکٹر ادیب رضوی۔ ڈاکٹر ادیب رضوی جو کہ سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن (SIUT) کے بانی ہیں انھوں نے اپنی زندگی غریبوں اور ضرورت مندوں کی خدمت میں گزاری ہے۔ ان کی رہنمائی کی بدولت SIUT نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں ایک مثال کے طور پر جانا جاتا ہے۔ ڈاکٹر ادیب رضوی نے ڈاؤ میڈیکل کالج کراچی سے میڈیکل کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد یورولوجی اور نیفرالوجی کی اعلیٰ تعلیم برطانیہ اور امریکا میں حاصل کی۔ ڈاکٹر رضوی نے جدید ترین طریقوں کو سیکھا، جو بعد میں انھوں نے پاکستان میں استعمال کیے۔
ان کی تعلیم نے انھیں نہ صرف جدید طبی علم سے آراستہ کیا بلکہ انھیں دنیا بھر میں صحت کے نظام کے بارے میں بھی آگاہی فراہم کی۔ اسی وقت انھوں نے یہ محسوس کیا کہ پاکستان میں صحت کے شعبے میں بہتری لانے کے لیے ایک نیا اور منفرد طریقہ کار اپنانا ہو گا، جو ذمے داری حکومت کو نبھانی چاہیے تھی وہ ڈاکٹر ادیب رضوی نے اپنے سر لے لی۔ 1980 کی دہائی میں پاکستان کو صحت کے شعبے میں سنگین مشکلات کا سامنا تھا۔ یورولوجی اور نیفرالوجی کے ماہرین کی کمی تھی اور جدید علاج کی سہولتیں بہت کم تھیں۔ ڈاکٹر ادیب رضوی نے اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے ایک ایسا ادارہ قائم کرنے کا عہد کیا جس میں عام آدمی کو معیاری اور سستی طبی خدمات فراہم کی جاسکیں۔ دسمبر 1985 میں ڈاکٹر ادیب رضوی اور ان کی ٹیم نے گردے کی پیوند کاری کا پہلا کامیاب آپریشن کیا جس پر پورے ملک میں نہ صرف خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی بلکہ ہر طرف اس کا ذکر تھا۔ یہ ایک بہت بڑی کامیابی تھی۔ ڈاکٹر ادیب اور ان کی ٹیم نے SIUT کو ایشیا کا سب سے بڑا اسپتال بنا دیا جہاں مریضوں کا مفت علاج ہوتا ہے۔
1989 میں سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن (SIUT) کا قیام ڈاکٹر ادیب رضوی کی نگرانی میں عمل میں لایا گیا شروع میں یہ ادارہ صرف گردوں کی ڈائیلاسس اور ٹرانسپلانٹیشن کی خدمات فراہم کرتا تھا، لیکن جلد ہی اس کا دائرہ کار بڑھا اور SIUT ایک عالمی سطح کی طبی ��ہولت بن گیا۔ ڈاکٹر رضوی کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ وہ صحت کی سہولیات ان لوگوں تک پہنچائیں جو مالی طور پر کمزور ہیں اور جو مہنگے نجی اسپتالوں میں علاج نہیں کرا سکتے۔ ڈاکٹر ادیب رضوی کو گردوں کی ٹرانسپلانٹیشن کے میدان میں ایک رہنما سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان میں گردوں کی ٹرانسپلانٹیشن بہت کم ہوتی تھی اور جو مریض اس عمل کے لیے بیرون ملک جاتے تھے، ان کے لیے یہ علاج بہت مہنگا پڑتا تھا۔ ڈاکٹر رضوی نے زندہ عطیہ کنندگان سے گردوں کی ٹرانسپلانٹیشن ک�� تصور کو متعارف کرایا، جس سے پاکستان میں گردوں کی منتقلی کے عمل کو ممکن بنایا گیا۔ انھوں نے (kidney paired donation) کا تصور بھی متعارف کرایا۔ کڈنی پیئرڈ ڈونیشن ایک طریقہ ہے جس کے ذریعے ایسے افراد کو گردے کی پیوندکاری (ٹرانسپلانٹ) فراہم کی جاتی ہے جنھیں اپنے متعلقہ عطیہ دہندگان سے گردہ نہیں مل پاتا کیونکہ دونوں کا جسمانی طور پر میچ نہیں ہوتا۔
اس طریقے میں، دو یا زیادہ افراد جو گردہ دینے کے لیے رضامند ہیں، مگر ان کا گردہ ایک دوسرے کے مریضوں کے ساتھ میل نہیں کھاتا، ایک دوسرے کے ساتھ تبادلہ کرتے ہیں۔ اس طرح، ہر مریض کو ایک ایسا گردہ مل جاتا ہے جو اس کے جسم کے لیے موزوں ہوتا ہے۔ ان کے کام نے نہ صرف پاکستان میں گردوں کی ٹرانسپلانٹیشن کے عمل کو فروغ دیا بلکہ عالمی سطح پر بھی اس کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ ڈاکٹر رضوی کی زندگی کا مقصد صرف علاج کرنا نہیں بلکہ صحت کے شعبے میں عوامی آگاہی بھی پیدا کرنا تھا۔ انھوں نے اعضاء کا عطیہ، خون کا عطیہ اور صحت کے بنیادی مسائل پر عوامی سطح پر مہم چلائی۔ ان کی کوششوں سے لوگوں میں گردوں کی بیماریوں، ان کے علاج اور پیشگی احتیاطی تدابیر کے بارے میں آگاہی پیدا ہوئی۔ ڈاکٹر رضوی نے پاکستان میں گردوں کی بیماری کی روک تھام کے لیے مختلف اقدامات کیے۔ انھوں نے خاص طور پر ذیابیطس اور ہائی بلڈ پریشر جیسے عوامل پر توجہ مرکوز کی، جو گردوں کی بیماری کا سبب بن سکتے ہیں۔ انھوں نے عوامی سطح پر ان بیماریوں کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے کے لیے مہم چلائی، تاکہ لوگ صحت مند طرز زندگی اپنا سکیں۔
آج SIUT ایک بین الاقوامی سطح کا طبی ادارہ بن چکا ہے، جو کہ گردوں کی بیماری، یورولوجی اور دیگر شعبوں میں دنیا بھر میں تسلیم کیا جاتا ہے۔ SIUT میں نہ صرف گردوں کا ڈائیلاسس اور ٹرانسپلانٹیشن کی سہولت فراہم کی جاتی ہے بلکہ یہ ادارہ یورولوجی سرجری، ریڈیالوجی جیسے مختلف شعبوں میں بھی خدمات فراہم کرتا ہے۔SIUT کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ یہ ادارہ اپنے مریضوں کو مفت علاج فراہم کرتا ہے۔ ان کے نیٹ ورک سے پورے پاکستان کے غریب اور ضرورت مند مریض فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اس ادارے کا مقصد صرف علاج کرنا نہیں بلکہ صحت کے شعبے میں بہتری لانے کے لیے تحقیق اور تعلیم کو فروغ دینا بھی ہے۔ ڈاکٹر ادیب رضوی کی خدمات کو عالمی سطح پر سراہا گیا ہے۔ انھیں ستارہ امتیاز جیسے اعلیٰ اعزازات مل چکے ہیں اور وہ عالمی صحت کی تنظیم ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) سے بھی ایوارڈز حاصل کر چکے ہیں۔ ان کی خدمات اور کامیابیاں نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں تسلیم کی گئی ہیں۔ ڈاکٹر رضوی نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا کہ صحت کا حق ہر انسان کو حاصل ہونا چاہیے اور اس حق کو پورا کرنے کے لیے حکومت کو زیادہ سرمایہ کاری کرنی ہو گی۔ ان کا ماننا ہے کہ SIUT کا ماڈل پاکستان کے دوسرے حصوں میں بھی اپنانا چاہیے تاکہ پورے ملک میں معیاری اور سستی صحت کی خدمات فراہم کی جا سکیں۔
ڈاکٹر ادیب رضوی کی زندگی کا مقصد صرف ایک طبی ادارہ قائم کرنا نہیں تھا، بلکہ وہ چاہتے تھے کہ وہ سماجی تبدیلی کا باعث بنیں، جہاں صحت کی خدمات ہر شخص کو اس کی مالی حیثیت سے قطع نظر دستیاب ہوں۔ ان کی بے لوث خدمات اور انسان دوستی نے SIUT کو ایک عالمی معیار کے صحت کی سہولت میں تبدیل کر دیا ہے۔ ڈاکٹر رضوی کی قیادت میں SIUT نے نہ صرف پاکستان میں بلکہ عالمی سطح پر گردوں کی بیماریوں کے علاج میں انقلاب برپا کیا۔ ان کی خدمات کا شمار نہ صرف طب کے شعبے میں بلکہ سماجی بہبود کے حوالے سے بھی ایک عظیم کارنامہ ہے۔ ڈاکٹر ادیب رضوی کا یہ کہنا کہ ان کا سب سے بڑا انعام مریضوں کی دعائیں اور ان کی خوشی ہے، ان کی یہ سوچ ان کے کے انسان دوست نقطہ نظر کی عکاسی کرتا ہے۔ آج SIUT اس بات کا گواہ ہے کہ ڈاکٹر رضوی اور ان کی ٹیم کی محنت، لگن اور انسان دوستی واقعی لوگوں کی زندگیوں میں تبدیلی لائی ہے۔ ڈاکٹر ادیب رضوی اور ان کی ٹیم نے جو اکیلے کر دکھایا وہ ان کی انسانیت سے محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے، جو کام ہماری حکومت نہیں کرسکی وہ اکیلے اس ایک انسان نے کر دکھایا۔ ان کی ڈاکٹروں کی ٹیم کی بھی جتنی تعریف کی جائے وہ کم ہے۔
پاکستان اور بیرون ملک پاکستانی دل کھول کر اور آنکھ بند کرکے SIUT کو عطیات دیتے ہیں کیونکہ ان کو یقین کامل ہوتا ہے کہ ان کی پائی پائی مریضوں کے کام آئے گی۔ دعا گو ہوں کے ادیب بھائی طویل عمر پائیں اور وہ یوں ہی انسانیت کی خدمت کرتے رہیں۔
زاہدہ حنا
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes