#ترسیلات زر
Explore tagged Tumblr posts
Text
دسمبرمیں ترسیلات زر میں اضافہ،اسٹیٹ بینک کی رپورٹ جاری
دسمبر 2024ء کےدوران ترسیلات زر میں 3.1 ارب ڈالر آئے جو ماہ بہ ماہ 5.6 فیصد اضافہ ہے۔اسٹیٹ بینک نےرپورٹ جاری کردی۔ ترسیلات زر میں مالی سال 25ء کی پہلی ششماہی کے دوران مجموعی طور پر 17.8 ارب ڈالر آئے جو مالی سال 24ء کی پہلی ششماہی کے موصول شدہ 13.4 ارب ڈالر کے مقابلے میں 32.8 فیصد اضافہ ہے۔نمو کے لحاظ سے ترسیلات زر دسمبر 2024ء سال بسال 29.3 فیصد اور ماہ بہ ماہ 5.6 فیصد بڑھ گئیں۔ دسمبر 2024ء کے…
0 notes
Text
سمندرپارپاکستانیوں کی ترسیلات زرمیں جون کے دوران ماہانہ بنیادوں پر4 فیصد اضافہ
سمندرپارپاکستانیوں کی ترسیلات زرمیں جون کے دوران ماہانہ بنیادوں پر4 فیصدکی نموریکارڈکی گئی ہے۔سٹیٹ بینک کی جانب سے اس حوالہ سے جاری کردہ اعدادوشمارکے مطابق جون میں سمندرپارپاکستانیوں کی ترسیلات زرکاحجم 2.184 ارب ڈالرریکارڈکیاگیا جومئی کے مقابلہ میں 4 فیصدزیادہ ہے، مئی میں سمندرپارپاکستانیوں نے2.103 ارب ڈالرکازرمبادلہ ملک ار��ال کیاتھا۔گزشتہ سال جون کے مقابلہ میں رواں سال جون میں سمندرپارپاکستانیوں…
![Tumblr media](https://64.media.tumblr.com/b66713ba679fbd75157321f3b5d0fbb0/16a4e34352b7f06b-b8/s540x810/cf190c89b6651be87227c2a8066240f09f1b88a1.jpg)
View On WordPress
0 notes
Text
ہم صحیح سمت پر گامزن ترسیلات زر بڑھ رہی ہیںمحمد اورنگزیب
(24نیوز)وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب کا کہنا ہے کہ ہم صحیح سمت میں جا رہے ہیں، طویل سفر باقی ہے،معیشت کا ڈی این اے ایکسپورٹ پر مبنی اکانومی کے ذریعے بدلنا ہو گا، آبادی کا بڑھنا ایسا بم ہے جو پھٹ چکا ہے۔ کراچی میں فیوچر سمٹ سے خطاب کرتے ہوئے محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ ترسیلات زر بڑھ رہی ہیں، زرمبادلہ زخائر مستحکم ہیں،رواں مالی سال کریڈٹ ریٹنگ بی کروانا چاہتے ہیں، صنعتکاروں کا سمجھنا چاہیے کہ ان…
0 notes
Link
[ad_1] پاکستان کی معیشت میں استحکام کے واضع اشارے مل رہے ہیں۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوا ہے جب کہ بیرون ملک سے ترسیلات زر میں بھی اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ میڈیا کی اطلاع کے مطابق دسمبر 2024میں ترسیلات زر29 فیصد اضافے کے ساتھ 3 ارب 10کروڑ ڈالر کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی ہیں۔ گزشتہ سال اسی ماہ میں ترسیلات زر2 ارب 38کروڑ ڈالر رہی تھیں۔میڈیا نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے حوالے سے بتایا ہے کہ نومبر2024کی ترسیلات زر2 ارب 92 کروڑ ڈالر تھیں جب کہ دسمبر2024میں ماہانہ بنیادوں پر 5.6 فیصد اضافہ ہوا ہے، رواں مالی سال کی پہلی ششماہی کے دوران ترسیلات زر کی مجموعی مالیت 17.8 ارب ڈالر ہوگئی ہے، جو گزشتہ مالی سال کے اسی دورانیے کے مقابلے میں32.8 فیصد زیادہ ہے۔ گزشتہ سال اس مدت کے دوران ترسیلات زر 13.4 ارب ڈالر رہی تھیں۔ یقینا یہ اعدادو شمار حوصلہ افزاء ہیں۔ ایک روز قبل گورنر اسٹیٹ بینک نے واضع کیا ہے کہ پاکستان معاشی اہداف حاصل کرنے کی راہ پر گامزن ہے اور قر��وں کی سطح اور ادائیگیوں کے توازن پر قابو پایا گیا ہے۔ انھوں نے توقع ظاہر کی تھی کہ رواں ماہ میں مہنگائی مزید کم ہوگی جب کہ قرضوں کی ادائیگی کی وجہ سے سود کی شرح بھی کم ہوگی۔ موجودہ حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد سے شرح سود میں مسلسل کمی ہورہی ہے ، جو معیشت میں استحکام کا واضع اشارہ ہے۔ پاکستان کو معاشی ترقی کی رفتار بڑھانے کے لیے برآمدات میں مزید اضافے کی ضرورت ہے، جوں جوں برآمدات میں اضافہ ہوگا، کرنٹ اکاؤنٹ اور ادائیگیوں کے توازن میں بہتری آئے گی۔ یہ امر اطمینان بخش ہے کہ پاکستان نے 944 ملین ڈالر کے بجٹ خسارے کو سرپلس میں بدل دیا ہے۔ شرح سود جو 22 فیصد تھی ، وہ اب 13 فیصد تک آچکی ہے اور اس میں مزید کمی کے اشارے مل رہے ہیں۔ شرح سود میں کمی نے نہ صرف قرضوں کے حصول کو آسان بنایا بلکہ کاروباری ماحول کو فروغ دیا، کلیدی شعبوں میں سرمایہ کاری کو تقویت بخشی اور اقتصادی ترقی کے نئے افق وا کیے۔ ترسیلات زر میں اضافہ بھی ایک صحت بخش پیش رفت ہے ،امید ظاہر کی جارہی ہے کہ رواں مالی سال کے اختتام تک ترسیلات زر کا حجم 35 ارب ڈالر سے بڑھ جائے گا۔ بلیک مارکیٹ اور انٹر بینک کے درمیان گیپ میں کمی ہوئی جب کہ روپے کی قدر میں بھی استحکام رہا ہے اور پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں کاروباری حالات بہتر ہیں، اسمگلنگ میں کمی ، حوالہ ہنڈی کے کاروباری پر سختی کی گئی ہے، ان تمام عوامل نے مل کر ماحول کو بہتر بنایا ہے جس کی وجہ سے ترسیلات زر میں اضافہ ہوا ہے ۔ آئی ایم ایف کے حکام بھی امید ظاہر کررہے ہیں کہ پاکستان کی معاشی ٹیم جس انداز میں کام کررہی ہے اور جو نتائج سامنے آرہے ہیں، اگر یہ عمل جاری رہتا ہے تو پاکستان کی جی ڈی پی کی شرح 2025تک 3.2 فیصد تک پہنچ جائے گی۔ عالمی مالیاتی ادارے پاکستان کی معاشی سمت کے بارے میں نئی امید کا اظہار کر رہے ہیں۔ 2024میں مہنگائی کی شرح 29فیصد سے کم ہو کر 7 فیصد تک آ گئی۔ سال کے اختتام تک، پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 12 بلین ڈالر تک پہنچ گئے، یہ اضافہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی طرف سے ترسیلاتِ زر، برآمدات میں مضبوط ترقی، اور مالیاتی پالیسیوں پر عمل درآمد کا نتیجہ ہے۔ سال 2024کے دوران پاکستان کی برآمدات میں قابلِ ذکر82 فیصد کا اضافہ ہوا، جو 72ارب ڈالر کی قابل رشک حد تک پہنچ گئیں۔ اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس نومبر میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 14 کروڑ 80 لاکھ ڈالرز تھا مگر رواں برس اسی عرصے میں 72 کروڑ 90 لاکھ ڈالرز سرپلس رہا۔ تقریباً دس سال بعد کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس بلند ترین سطح پر ہے اور لگاتار کئی ماہ سے سرپلس ہے، اس کی بڑی وجہ ملکی برآمدات اور ترسیلات ِزر میں اضافہ ہے، مالی سال کے پہلے پانچ ماہ میں بیرونی وصولیوں میں بھی 33فیصد اضافہ دیکھا گیا جو نومبر تک 15 ارب ڈالرز تک پہنچ گئیں۔ وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ دسمبر 2024 میں موصول ہونے والی 3 ارب 10 کروڑ ڈالر ترسیلات زر ہمارے بیرون ملک کام کرنے والے پاکستانی بھائیوں اور بہنوں کے ملک و قوم کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے کے آہنی عزم کی سند ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان معاشی استحکام کے بعد معاشی ترقی کی راہ پر گامزن ہو چکا ہے۔ حکومت پاکستان ملکی ترقی اور عوامی فلاح و بہبود کے لیے پر عزم ہے۔ ایک اور خبر کے مطابق وزیراعظم نے منی بجٹ کے امکانات کو مسترد کرتے ہوئے ٹیکس حکام کو 386 ارب کا ریونیو شارٹ فال ریکوراوران لینڈ ریونیو کے سپریم کورٹ اور اپیلٹ ٹریبونلز میں زیرالتوا مقدمات جلد نمٹانے کی ہدایت کی ہے۔ میڈیا کی ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ وزیراعظم نے ایک ہفتے میں ٹیکس معاملات کا جائزہ لینے کے لیے دو اجلاس بلائے ہیں۔ان میں ایک اجلاس جمعہ کو ہوا۔ اس اجلاس میں وزیراعظم کو ایف بی آرکی طرف سے ماہ جنوری کا 957 ارب روپے کا ٹیکس اہداف کے حوالے سے پیش آمد مشکلات کے بارے میں آگاہ کیا گیا ہے۔وزیراعظم نے عدالتوں میں رکے ہوئے محصولات کے کیسزجلد ازجلد نمٹانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ اپیلٹ ٹریبونلز میں بین الاقوامی معیار کی افرادی قوت کو مسابقتی تنخواہوں، مراعات اور پیشہ ورانہ ٹیلنٹ کی بنیاد پر تعینات کر کے محصولات کے کیسز فوری حل کیے جائیں۔ وزیراعظم نے کہا ایف بی آر اصلاحات پر کام تیزی سے جاری ہے۔حال ہی میں کراچی میں فیس لیس اسیسمنٹ نظام کا اجراء کیا گیا ہے۔جدید خودکار نظام سے کرپشن کا خاتمہ اور کسٹمز کلیئرنس کے لیے درکار وقت میں خاطر خواہ کمی آئی ہے۔ملک و قوم کی ایک ایک پائی کا تحفظ کریں گے۔غریب پر ٹیکس کا مزید بوجھ ڈالنے کے بجائے ٹیکس نا دہندگان سے ٹیکس وصول کریں گے ۔ ان سرگرمیوں سے واضع ہوتا ہے کہ حکومت معیشت کو بہتر بنانے اور ٹیکس سٹسم میں اصلاحات لانے کے لیے سخت اقدامات کررہی ہے جب کہ حکومت کی معاشی ٹیم نے جو روڈ میپ سیٹ کیا ہے، اس پر مسلسل کام کررہی ہے۔ادھر ساڑھے چار سال بعد پی آئی اے کی یورپ کے لیے پروازیں بحال ہوگئیں۔ ساڑھے چار سال تعطل کے بعد قومی ایٔرلائن کی پہلی پرواز 309 مسافروں کو لے کر پیرس پہنچ گئی۔ وفاقی وزیر ہوابازی خواجہ آصف نے کہا برطانیہ اور امریکا کے لیے عائد پابندیاں بھی جلد ختم ہوجائیں گی اور وہاں کے لیے بھی براہ راست پروازیں شروع ہو جائیں گی۔ پاکستان اور پاکستانیوں کے لیے یہ امر باعث مایوسی تھا کہ ملک کی قومی ائر لائن دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں کے ائر پورٹس پر نہیں اترسکتی۔ امریکا، کینیڈا اور یورپ میں مقیم پاکستانیوں کو غیرملکی ائرلائنز کے ذریعے وطن واپس آنا پڑتا تھا اور اسی طرح پاکستان سے یورپ جانے کے لیے انھیں براہ راست پروازیں میسر نہیں تھیں۔ ساڑھے 4سال ہمارے اوورسیز پاکستانی ڈائریکٹ یہاں نہیں آسکتے تھے۔ انھیں دبئی، دوحہ، ابوظہبی یا کہیں اور سے فلائٹ لے کر پاکستان آنا پڑتا تھا، سفر بھی مہنگا ہوگیا تھا۔ ساڑھے 4سال میں کئی سو ارب کا نقصان اٹھایا ۔ پاکستان کے لیے گزرے ��س برس انتہائی کٹھن رہے ہیں۔ ان برسوں کے دوران ملک کی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ غلط معاشی حکمت عملیوں اور ناعاقبت اندیش خارجہ پالیسی کی وجہ سے پاکستان کی معیشت عدم استحکام ہی نہیں بلکہ دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گئی۔ عالمی سطح پر پاکستان تنہائی کا شکار ہوا۔ پاکستان کا نام مسلسل کئی برس ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں رہا جس کی وجہ سے پاکستان کی معیشت کو بحران سے نکلنے کا موقع نہ مل سکا۔ داخلی پالیسیوں کی وجہ سے ملک کے اندر ناسازگار حالات رہے۔ امن وامان اور دہشت گردی کے حوالے سے جو پالیسی اختیار کی گئی، اس کے نتائج ملک اور قوم کے لیے اچھے نہیں نکلے۔ ملک میں مہنگائی کا طوفان آیا جب کہ اشیائے ضروریہ خصوصاً اناج واجناس جن میں آٹا، چینی، گھی اور دالیں وغیرہ شامل تھیں، ان کی شدید قلت پیدا ہوئی۔ موجودہ حکومت نے برسراقتدار آ کر ان عوامل پر کسی حد تک قابو پایا ہے۔ معیشت اب خاصی حد تک بحالی کی سطح پر آ گئی ہے۔ پاکستان کو ابھی مزید معاشی اصلاحات کی ضرورت ہے تاکہ ملکی معیشت مضبوط بنیادوں پر کھڑی ہو سکے۔ معاشی استحکام کی راہ میں ابھی بہت سی رکاوٹیں موجود ہیںتاہم یہ ایسی نہیں ہیں کہ جنھیں ہٹایا نہ جا سکے۔ [ad_2] Source link
0 notes
Link
[ad_1] پاکستان کی معیشت میں استحکام کے واضع اشارے مل رہے ہیں۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوا ہے جب کہ بیرون ملک سے ترسیلات زر میں بھی اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ میڈیا کی اطلاع کے مطابق دسمبر 2024میں ترسیلات زر29 فیصد اضافے کے ساتھ 3 ارب 10کروڑ ڈالر کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی ہیں۔ گزشتہ سال اسی ماہ میں ترسیلات زر2 ارب 38کروڑ ڈالر رہی تھیں۔میڈیا نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے حوالے سے بتایا ہے کہ نومبر2024کی ترسیلات زر2 ارب 92 کروڑ ڈالر تھیں جب کہ دسمبر2024میں ماہانہ بنیادوں پر 5.6 فیصد اضافہ ہوا ہے، رواں مالی سال کی پہلی ششماہی کے دوران ترسیلات زر کی مجموعی مالیت 17.8 ارب ڈالر ہوگئی ہے، جو گزشتہ مالی سال کے اسی دورانیے کے مقابلے میں32.8 فیصد زیادہ ہے۔ گزشتہ سال اس مدت کے دوران ترسیلات زر 13.4 ارب ڈالر رہی تھیں۔ یقینا یہ اعدادو شمار حوصلہ افزاء ہیں۔ ایک روز قبل گورنر اسٹیٹ بینک نے واضع کیا ہے کہ پاکستان معاشی اہداف حاصل کرنے کی راہ پر گامزن ہے اور قرضوں کی سطح اور ادائیگیوں کے توازن پر قابو پایا گیا ہے۔ انھوں نے توقع ظاہر کی تھی کہ رواں ماہ میں مہنگائی مزید کم ہوگی جب کہ قرضوں کی ادائیگی کی وجہ سے سود کی شرح بھی کم ہوگی۔ موجودہ حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد سے شرح سود میں مسلسل کمی ہورہی ہے ، جو معیشت میں استحکام کا واضع اشارہ ہے۔ پاکستان کو معاشی ترقی کی رفتار بڑھانے کے لیے برآمدات میں مزید اضافے کی ضرورت ہے، جوں جوں برآمدات میں اضافہ ہوگا، کرنٹ اکاؤنٹ اور ادائیگیوں کے توازن میں بہتری آئے گی۔ یہ امر اطمینان بخش ہے کہ پاکستان نے 944 ملین ڈالر کے بجٹ خسارے کو سرپلس میں بدل دیا ہے۔ شرح سود جو 22 فیصد تھی ، وہ اب 13 فیصد تک آچکی ہے اور اس میں مزید کمی کے اشارے مل رہے ہیں۔ شرح سود میں کمی نے نہ صرف قرضوں کے حصول کو آسان بنایا بلکہ کاروباری ماحول کو فروغ دیا، کلیدی شعبوں میں سرمایہ کاری کو تقویت بخشی اور اقتصادی ترقی کے نئے افق وا کیے۔ ترسیلات زر میں اضافہ بھی ایک صحت بخش پیش رفت ہے ،امید ظاہر کی جارہی ہے کہ رواں مالی سال کے اختتام تک ترسیلات زر کا حجم 35 ارب ڈالر سے بڑھ جائے گا۔ بلیک مارکیٹ اور انٹر بینک کے درمیان گیپ میں کمی ہوئی جب کہ روپے کی قدر میں بھی استحکام رہا ہے اور پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں کاروباری حالات بہتر ہیں، اسمگلنگ میں کمی ، حوالہ ہنڈی کے کاروباری پر سختی کی گئی ہے، ان تمام عوامل نے مل کر ماحول کو بہتر بنایا ہے جس کی وجہ سے ترسیلات زر میں اضافہ ہوا ہے ۔ آئی ایم ایف کے حکام بھی امید ظاہر کررہے ہیں کہ پاکستان کی معاشی ٹیم جس انداز میں کام کررہی ہے اور جو نتائج سامنے آرہے ہیں، اگر یہ عمل جاری رہتا ہے تو پاکستان کی جی ڈی پی کی شرح 2025تک 3.2 فیصد تک پہنچ جائے گی۔ عالمی مالیاتی ادارے پاکستان کی معاشی سمت کے بارے میں نئی امید کا اظہار کر رہے ہیں۔ 2024میں مہنگائی کی شرح 29فیصد سے کم ہو کر 7 فیصد تک آ گئی۔ سال کے اختتام تک، پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 12 بلین ڈالر تک پہنچ گئے، یہ اضافہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی طرف سے ترسیلاتِ زر، برآمدات میں مضبوط ترقی، اور مالیاتی پالیسیوں پر عمل درآمد کا نتیجہ ہے۔ سال 2024کے دوران پاکستان کی برآمدات میں قابلِ ذکر82 فیصد کا اضافہ ہوا، جو 72ارب ڈالر کی قابل رشک حد تک پہنچ گئیں۔ اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس نومبر میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 14 کروڑ 80 لاکھ ڈالرز تھا مگر رواں برس اسی عرصے میں 72 کروڑ 90 لاکھ ڈالرز سرپلس رہا۔ تقریباً دس سال بعد کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس بلند ترین سطح پر ہے اور لگاتار کئی ماہ سے سرپلس ہے، اس کی بڑی وجہ ملکی برآمدات اور ترسیلات ِزر میں اضافہ ہے، مالی سال کے پہلے پانچ ماہ میں بیرونی وصولیوں میں بھی 33فیصد اضافہ دیکھا گیا جو نومبر تک 15 ارب ڈالرز تک پہنچ گئیں۔ وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ دسمبر 2024 میں موصول ہونے والی 3 ارب 10 کروڑ ڈالر ترسیلات زر ہمارے بیرون ملک کام کرنے والے پاکستانی بھائیوں اور بہنوں کے ملک و قوم کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے کے آہنی عزم کی سند ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان معاشی استحکام کے بعد معاشی ترقی کی راہ پر گامزن ہو چکا ہے۔ حکومت پاکستان ملکی ترقی اور عوامی فلاح و بہبود کے لیے پر عزم ہے۔ ایک اور خبر کے مطابق وزیراعظم نے منی بجٹ کے امکانات کو مسترد کرتے ہوئے ٹیکس حکام کو 386 ارب کا ریونیو شارٹ فال ریکوراوران لینڈ ریونیو کے سپریم کورٹ اور اپیلٹ ٹریبونلز میں زیرالتوا مقدمات جلد نمٹانے کی ہدایت کی ہے۔ میڈیا کی ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ وزیراعظم نے ایک ہفتے میں ٹیکس معاملات کا جائزہ لینے کے لیے دو اجلاس بلائے ہیں۔ان میں ایک اجلاس جمعہ کو ہوا۔ اس اجلاس میں وزیراعظم کو ایف بی آرکی طرف سے ماہ جنوری کا 957 ارب روپے کا ٹیکس اہداف کے حوالے سے پیش آمد مشکلات کے بارے میں آگاہ کیا گیا ہے۔وزیراعظم نے عدالتوں میں رکے ہوئے محصولات کے کیسزجلد ازجلد نمٹانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ اپیلٹ ٹریبونلز میں بین الاقوامی معیار کی افرادی قوت کو مسابقتی تنخواہوں، مراعات اور پیشہ ورانہ ٹیلنٹ کی بنیاد پر تعینات کر کے محصولات کے کیسز فوری حل کیے جائیں۔ وزیراعظم نے کہا ایف بی آر اصلاحات پر کام تیزی سے جاری ہے۔حال ہی میں کراچی میں فیس لیس اسیسمنٹ نظام کا اجراء کیا گیا ہے۔جدید خودکار نظام سے کرپشن کا خاتمہ اور کسٹمز کلیئرنس کے لیے درکار وقت میں خاطر خواہ کمی آئی ہے۔ملک و قوم کی ایک ایک پائی کا تحفظ کریں گے۔غریب پر ٹیکس کا مزید بوجھ ڈالنے کے بجائے ٹیکس نا دہندگان سے ٹیکس وصول کریں گے ۔ ان سرگرمیوں سے واضع ہوتا ہے کہ حکومت معیشت کو بہتر بنانے اور ٹیکس سٹسم میں اصلاحات لانے کے لیے سخت اقدامات کررہی ہے جب کہ حکومت کی معاشی ٹیم نے جو روڈ میپ سیٹ کیا ہے، اس پر مسلسل کام کررہی ہے۔ادھر ساڑھے چار سال بعد پی آئی اے کی یورپ کے لیے پروازیں بحال ہوگئیں۔ ساڑھے چار سال تعطل کے بعد قومی ایٔرلائن کی پہلی پرواز 309 مسافروں کو لے کر پیرس پہنچ گئی۔ وفاقی وزیر ہوابازی خواجہ آصف نے کہا برطانیہ اور امریکا کے لیے عائد پابندیاں بھی جلد ختم ہوجائیں گی اور وہاں کے لیے بھی براہ راست پروازیں شروع ہو جائیں گی۔ پاکستان اور پاکستانیوں کے لیے یہ امر باعث مایوسی تھا کہ ملک کی قومی ائر لائن دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں کے ائر پورٹس پر نہیں اترسکتی۔ امریکا، کینیڈا اور یورپ میں مقیم پاکستانیوں کو غیرملکی ائرلائنز کے ذریعے وطن واپس آنا پڑتا تھا اور اسی طرح پاکستان سے یورپ جانے کے لیے انھیں براہ راست پروازیں میسر نہیں تھیں۔ ساڑھے 4سال ہمارے اوورسیز پاکستانی ڈائریکٹ یہاں نہیں آسکتے تھے۔ انھیں دبئی، دوحہ، ابوظہبی یا کہیں اور سے فلائٹ لے کر پاکستان آنا پڑتا تھا، سفر بھی مہنگا ہوگیا تھا۔ ساڑھے 4سال میں کئی سو ارب کا نقصان اٹھایا ۔ پاکستان کے لیے گزرے دس برس انتہائی کٹھن رہے ہیں۔ ان برسوں کے دوران ملک کی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ غلط معاشی حکمت عملیوں اور ناعاقبت اندیش خارجہ پالیسی کی وجہ سے پاکستان کی معیشت عدم استحکام ہی نہیں بلکہ دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گئی۔ عالمی سطح پر پاکستان تنہائی کا شکار ہوا۔ پاکستان کا نام مسلسل کئی برس ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں رہا جس کی وجہ سے پاکستان کی معیشت کو بحران سے نکلنے کا موقع نہ مل سکا۔ داخلی پالیسیوں کی وجہ سے ملک کے اندر ناسازگار حالات رہے۔ امن وامان اور دہشت گردی کے حوالے سے جو پالیسی اختیار کی گئی، اس کے نتائج ملک اور قوم کے لیے اچھے نہیں نکلے۔ ملک میں مہنگائی کا طوفان آیا جب کہ اشیائے ضروریہ خصوصاً اناج واجناس جن میں آٹا، چینی، گھی اور دالیں وغیرہ شامل تھیں، ان کی شدید قلت پیدا ہوئی۔ موجودہ حکومت نے برسراقتدار آ کر ان عوامل پر کسی حد تک قابو پایا ہے۔ معیشت اب خاصی حد تک بحالی کی سطح پر آ گئی ہے۔ پاکستان کو ابھی مزید معاشی اصلاحات کی ضرورت ہے تاکہ ملکی معیشت مضبوط بنیادوں پر کھڑی ہو سکے۔ معاشی استحکام کی راہ میں ابھی بہت سی رکاوٹیں موجود ہیںتاہم یہ ایسی نہیں ہیں کہ جنھیں ہٹایا نہ جا سکے۔ [ad_2] Source link
0 notes
Text
پریس ریلیز
جنوری 11
*شہباز شریف نے پاکستان کو نئی پہچان دی، بانی فتنہ پارٹی کا کوئی فون تک نہیں سنتا تھا: عظمٰی بخاری*
*سول نافرمانی کی کال کے باوجود ترسیلات زر میں اضافہ ہوا، اوورسیز پاکستانیوں نے تین ارب دس کروڑ ڈالر پاکستان بھیجے: عظمٰی بخاری*
*گنڈا پور سمیت کے پی گورنمنٹ کی پوری کابینہ کرپشن میں لت پت ہے: عظمٰی بخاری*
*بارہ سال سے نالائق شخص کی حکومت نے لوگوں کی تکلیف میں اضافہ کر دیا ہے: عظمٰی بخاری*
*بانی پی ٹی آئی جیل میں برانڈڈ چاکلیٹس اور بادام انجوائے کر رہا ہے: عظمٰی بخاری*
*قوم کو بانی پی ٹی آئی کی خراب حالت دکھا کر جذباتی کیا جاتا ہے: عظمٰی بخاری*
لاہور () وزیر اطلاعات پنجاب عظمٰی بخاری نے کہا ہے کہ شہباز شریف نے پاکستان کو نئی پہچان دی، بانی فتنہ پارٹی کا کوئی فون تک نہیں سنتا تھا۔ اڈیالہ جیل سے فتنہ خان نے فائنل کال دی وہ مس کال ثابت ہوئی۔ سول نافرمانی کی کال کے باوجود ترسیلات میں ریکارڈ اضافہ ہوا، اوورسیز پاکستانیوں نے تین ارب دس کروڑ ڈالر پاکستان بھیجے۔ سول نافرمانی کی تحریک سے پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی مگر فتنہ کی پالیسی کو کسی دوست ملک نے توجہ نہیں۔ اسلام آباد میں خواتین پرکانفرنس چل رہی ہے جہاں پچاس ملکوں سے زائد مندوبین موجود ہیں۔ فتنہ خان نے ملک کو تنہا کرنے کی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اگر پاکستان میں کوئی دوست ملک کا سربراہ آیا ہو تو یہ لوگ مہم جوئی شروع کر دیتے ہیں تاکہ پاکستان کے تعلقات خراب ہوں۔ انہوں نے کہا کہ گنڈا پور سمیت کے پی گورنمنٹ کی پوری کابینہ کرپشن میں لت پت ہے۔ بارہ سال سے نالائق شخص کی حکومت نے ہر شخص کی تکلیف میں اضافہ کر دیا ہے۔ ہمیں بتایا جائے کہ گنڈا پور صاحب میں ایسی کون سی قابلیت ہے کہ اسے سی ایم بنا دیا ہے۔ کے پی میں مساجد کے نام پر دو ارب روپے بانٹے گئے۔ بانی پی ٹی آئی جیل میں برانڈڈ چاکلیٹس اور بادام انجوائے کر رہا ہے۔ قوم کو بانی پی ٹی آئی کی خراب حالت دکھا کر جذباتی کیا جاتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے شاہدرہ میں سمیع اللہ خان کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ شاہدرہ کا علاقہ ن لیگ کبھی نہیں بھلا سکتی۔ شاہدرہ میں سیوریج کے بہت مسائل تھے جو کہ اب حل ہو رہے ہیں۔ یہاں کے لوگوں کی زندگیوں میں اب آسانی آئے گی۔ وزیر اعلٰی پنجاب مریم نواز کی قیادت میں پنجاب ترقی کی نئی بلندیوں کو چھو رہا ہے۔ یہاں صرف اعلانات نہیں ہوتےبلکہ کام کر کے دکھایا جاتا ہے۔ دھی رانی پروگرام میں مریم نواز ایک بڑے پروگرام کا آغاز کرنے جا رہی ہیں۔ سکالر شپ پروگرام سے تیس ہزار مستحق بچوں کو تعلیم ملے گی مگر فتنہ پارٹی کے اس پر بھی شرانگیزی کرنے کی کوشش کی ۔ وزیر اطلاعات نے کہا کہ مریم نواز نے لائیو سٹاک کارڈ پروگرام پاکپتن سے شروع کیا ہے جس سے مویشی پال لوگ اپنے لئے مویشی خریدیں گے اور روزگار کمائیں گے۔ بہت سارے دوست ممالک پاکستان سے مویشی خریدنا چاہتے ہیں۔ اس پروگرام سے پنجاب سے دوسرے ممالک کو جانور بیچیں جائیں گے۔ انتشار گروپ نے شہباز شریف کے بغض میں لیپ ٹاپ پروگرام کوبند کر دیا۔اب لیپ ٹاپ کی کھیپ پاکستان پہنچ چکی ہے، کوئی ایم این اے یا ایم پی اے لیپ ٹاپ پر سفارش نہیں کرسکتا۔ مریم نواز کی حکومت میں کسی کی سفارش کا کوئی نظریہ نہیں، جب لیڈر شپ محنتی ہو تو اللہ کا فضل ہوتاہے۔ ان کے دور میں انڈے، کٹے لنگر خانے، پناہ گاہیں اور بھنگ کی فیکٹریاں شروع کی گئیں۔ ادھر تو پھونکوں اور تعویزوں کی حکومت تھی۔ انتشار گروپ کے ��لاؤ گھیراؤ کے باوجود پاکستان آگے بڑھ رہا ہے۔ جو کہتا تھا کہ این آر او نہیں لون��ا وہ اب این آر او کیلئے ترلے کر رہا ہے۔اب تو خان کو اس کے گھر والے ملنے بھی نہیں جارہے، اگر کوئی ملنے جائے تو اس سےکہتا ہے مجھ سے جیل میں نہ ملو بلکہ مجھے کسی طرح این آر او دلواکر باہر نکالو۔ اس کے اپنے بچے لندن میں عیاشیاں کررہے ہیں اور قوم کے بچوں کے ہاتھ میں غلیلیں،اسلحہ اور پٹرول بمب تھمایا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کے پی حکومت کئی ہزار ارب روپے کی مقروض ہے وہاں نہ تو سکول ہیں اور نہ ہسپتال۔ وہاں لوگ ڈولیوں میں بیٹھ کر سفر کرتے ہیں۔ عوام پر توجہ دینے کی بجائے ان کے لوگوں کو صرف ایک ہی فکر ہے کہ خان کی اڈیالہ جیل میں بھنا ہوامرغا مل رہا ہے یا نہیں۔
0 notes
Text
عمران خان کا آخری کارڈ
![Tumblr media](https://64.media.tumblr.com/86bce2475f55e80267155ac9c7f74f19/e9ba60302b7dec8c-f1/s400x600/955f4fc6ce13adcac53af11160e8a50b2b1ec353.jpg)
تحریک انصاف کی تقریباً پوری قیادت حیران ہے کہ جیل میں قید اُن کے رہنما اور بانی چیئرمین نے اب یہ کیا اعلان کر دیا ہے۔ بغیر کسی سے مشاورت کیے عمران خان نے سول نافرمانی کا اعلان سوشل میٖڈیا کے ذریعے کر دیا اور پہلے مرحلے میں اگر اُن کے مطالبات نہ مانے گئے تو وہ بیرون ملک پاکستانیوں سے اپیل کریں گے کہ وہ پاکستان پیسے بھیجنا یعنی ترسیلات زر کو محدود کر دیں اور بائیکاٹ مہم چلائیں۔ اُنہوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ دوسرے مرحلے میں اس سے بھی آگے جائیں گے۔ دو مطالبات جو عمران خان نے حکومت کے سامنے رکھے، اُن میں ایک مطالبہ یہ ہے کہ انڈر ٹرائل سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے جبکہ دوسرا مطالبہ ہے کہ 9 مئی اور 26 نومبر کے واقعات کی شفاف تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن بنایا جائے۔ ان مطالبات کے ماننے کیلئے عمران خان نے 14 دسمبر تک کا وقت بھی دے دیا۔ تحریک انصاف کے کسی رہنما سے مشاورت کیے بغیر اس اعلان پر پارٹی رہنما پریشان ہیں کہ خان صاحب نے یہ پھر کی�� کر دیا۔ ایک تو گلہ یہ تھا کہ اتنا اہم اعلان کیا گیا اور بغیر کسی کی مشاورت اور بغیر کسی کو بتائے اور دوسرا ان رہنمائوں کا تقریباً اس بات پر اتفاق تھا کہ سول نافرمانی کی جس تحریک کا عمران خان نے اعلان کر دیا اُس پر عمل درآمد نہیں ہو سکتا اور ماضی کی طرح سول نافرمانی کی یہ تحریک بھی ناکام ہی ہو گی۔
![Tumblr media](https://64.media.tumblr.com/3be013419b9afa468b4b778cb2d0a22f/e9ba60302b7dec8c-f7/s400x600/599a3673df7a269fff0d774e020ea5d485dd1ea0.jpg)
عمران خان نے سوچا ہو گا کہ اُن کے اعلان کے بعد بیرون ملک بسنے والے پاکستانی پیسہ بھیجنا کم کر دیں گے جس سے پاکستان کی ترسیلات زر میں کمی ہو گی اور یوں ملک معاشی مشکلات کا شکار ہو گا جس سے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ عمران خان کے مطالبات ماننے پر مجبور ہو جائیں گی۔ ترسیلات زر کا تعلق اُن اوورسیز پاکستانیوں کے ساتھ ہے جو ہر ماہ یا کچھ عرصہ کے بعد پاکستان میں بسنے والے اپنے بیوی بچوں، ماں باپ یا خاندان کے دوسرے افراد اور رشتہ داروں کو خرچہ بھیجتے ہیں۔ اب اگر عمران خان یہ چاہتے ہیں کہ باہر کام کیلئے جانے والوں کی بڑی تعداد یا بیرون ملک بسنے والے پاکستانی اپنے بیوی بچوں، ماں باپ اور دوسرے رشتہ داروں کو بھیجا جانے والا خرچہ کم کر دیں تو ایسا تو ممکن نہیں ۔ نہ ہی کوئی اور اوورسیز پاکستانی جو یہاں اپنے لیے زمین اور گھر بنانا چاہ رہا ہے یا کوئی کاروبار کرنا چاہ رہا ہے وہ عمران خان کی بات سنے گا۔ ویسے جن اوورسیز پاکستانیوں خصوصاً امریکا، برطانیہ اور یورپ میں بسنے والے، جن کے پاس بہت پیسہ ہے وہ زیادہ تر اپنا پیسہ ملک سے باہر ہی رکھتے ہیں۔
عمران خان نے اپنی حکومت کے دوران ایسے پاکستانیوں سے توقع لگائی تھی کہ وہ اپنا پیسہ پاکستان لے کر آئیں گے۔ مراد سعید نے تو کہا تھا کہ بیرون ملک رہنے والے عمران خان کی حکومت میں اتنا پیسہ لائیں گے کہ سو ارب ڈالر کا بیرونی قرضہ اُن کے منہ پر ماریں گے۔ یہ بھی توقع تھی کہ جب عمران خان کی حکومت کا خاتمہ ہو گا تو بیرون ملک سے ترسیلات زر میں کمی ہو گی لیکن اس کے برعکس ترسیلات زر میں ریکارڈ اضافہ ہو رہا ہے۔ تحریک انصاف کے رہنمائوں کا بھی یہی خیال ہے کہ نہ تو اوورسیز پاکستانی پاکستان پیسہ بھیجنا بند کریں گے اور نہ ہی یہاں رہنے والے اپنے بجلی اور گیس کے بل جلائیں گے کیوں کہ ایسا نہ 2014 میں ہوا نہ اب ممکن ہے۔ ذرائع کے مطابق پارٹی رہنمائوں نے اپنی مشاورت کے دوران یہ بھی کہا کہ بجلی و گیس کے بل نہ دینا تو پارٹی رہنما ئوں کیلئے بھی ممکن نہیں ہو گا۔ 2014 کے دھرنے کے دوران عمران خان نے سول نافرمانی کی تحریک کا اعلان کیا، بجلی گیس کے بل جلائے اور عوام سے مطالبہ کیا کہ اس تحریک میں بھرپور حصہ ڈالیں لیکن بنی گالہ کے اپنے گھر کے بل جمع کرا دیے۔ وہ تحریک بھی ناکام ہوئی اور اب بھی ایسی کسی تحریک کا نتیجہ مختلف نہیں ہو گا۔ اب پارٹی رہنما عمران خان کو سمجھانے اور اس اعلان کو واپس لینے کیلئے جیل میں اُن سے ملاقات کریں گے۔ خان صاحب مانتے ہیں کہ نہیں اس کا کسی کو کوئی اندازہ نہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ عمران خان نے یہ اپنا آخری کارڈ کھیلا ہے۔ یہ جو بھی ہے عمران خان اپنا نقصان کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
آئی ایم ایف نے بجٹ کو مواقع ضائع کرنیوالا بجٹ قرار دیا
![Tumblr media](https://64.media.tumblr.com/e0f5ef711932e0b38ee3aa4d0b994c03/dbee70997255dc16-d3/s400x600/84be8263a1291d608f6db765837d52929a1eec8a.jpg)
آئی ایم ایف نے بجٹ کو معاشی بحالی کا موقع ضائع کرنے کے مترادف قرار دے دیا ہے۔ ایکسپریس ٹریبیون میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ آئی ایم ایف کی جانب سے تجویز کردہ اقدامات کے نتیجے میں مہنگائی اور قرضوں پر انحصار میں کمی، اور ڈیفالٹ کے امکانات کم ہونے تھے، لیکن وفاقی حکومت نے معاشی بحالی کا یہ موقع گنوا دیا ہے، تاہم ابھی بھی معاشی بحران کو کچھ طریقے اختیار کر کے ٹالا جاسکتا ہے، جیسا کہ حکومت کو آمدنی اور خرچ میں توازن لانا ہو گا۔ پاکستان کا نیٹ ریونیو 6,887 ارب روپے ہے جبکہ اخراجات کا تخمینہ 14,460 ارب روپے لگایا گیا ہے، جس کا کوئی جواز نہیں ہے، اخراجات میں کمی کیلیے حکومت کو دفاعی، تنخواہوں، پینشن اور وفاقی ترقیاتی منصوبوں کے فنڈز میں کمی کرنی ہو گی، لیکن حکومت نے بجٹ میں ان اخراجات میں 20 فیصد اضافہ کر دیا ہے، مہنگائی میں کمی کرنا ہو گی جو کہ 1957 سے بھی بلند سطح پر پہنچ چکی ہے اور مزید اضافے کا امکان ہے۔
![Tumblr media](https://64.media.tumblr.com/ce873281e262d9095235f974053b1139/dbee70997255dc16-73/s400x600/10ca675809b2353b96ab86320f0484663dba9732.jpg)
ترسیلات زر، ایکسپورٹس اور براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کے ذریعے ذرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کرنا ضروری ہے، حکومت نے ان میں اضافے کیلیے کچھ اقدامات کیے ہیں، جیسا کہ سمندر پار پاکستانیوں کیلیے ڈائمنڈ کارڈ اور لاٹری اسکیم وغیرہ کا اجراء کرنا، لیکن ایکسپورٹ اور براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں گزشتہ سال کے مقابلے میں کمی کا رجحان برقرار ہے، جس میں اضافے کیلیے مزید اقدامات کیے جانے کی ضرورت ہے، کرنسی کی قدر میں ریکارڈ 80 فیصد گراوٹ کے باجود اس میں اضافہ نہیں ہوا ہے۔ درآمدی ٹیرف کے نظام کو درست کرنے کی ضرورت ہے، اگرچہ بجٹ میں بیجوں، سولر ایکوپمنٹس، خام مال اور ذرعی مشینری پر ٹیکس چھوٹ دی گئی ہے، لیکن برآمدات کو بڑھانے کیلیے ضروری ہے کہ درآمدی ٹیرف میں مزید اصلاحات کی جائیں، پاکستان کیلیے سب سے اہم توانائی کے شعبوں میں بھی اصلاحات کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ بہت سے پری بجٹ سیمینارز میں وزیر خزانہ نے کہا کہ یہ اصلاحات کا وقت نہیں ہے، حالانکہ بہت سے ممالک ایسے ہی مواقع پر اصلاحات کر چکے ہیں، اسی لیے اس بجٹ کو مواقع ضائع کرنے والا بجٹ کیا گیا ہے۔
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
Text
رواں سال کےدوران ترسیلات زرمیں31 فیصد اضافہ
رواں سال کےپہلے11 ماہ کے دوران سمندر پارپاکستانیوں کی جانب سےبھیجی گئی ترسیلات زرمیں31 فیصد اضافہ ریکارڈ ہوا۔ سمندر پار پاکستانیوں نےجنوری سے نومبر تک21 ارب5 کروڑڈالر کی ترسیلات زر پاکستان بھیجی۔ مذکورہ عرصےکےدوران سب سےزیادہ7 ارب29 کروڑڈالر کی رقم سعودی عرب میں مقیم پاکستانیوں نےبھیجی، دوسرےنمبرپر سب سےزیادہ متحدہ عرب امارات میں مقیم پاکستانیوں سے6 ارب15کروڑڈالر کی ترسیلات زرموصول ہوئیں جوگزشتہ…
0 notes
Text
نگران وفاقی وزیر عمر سیف نے پے پال کے حوالے سے بڑی خوشخبری دے دی
نگراں حکومت نے فری لانسرز کی دیرینہ مانگ پوری کرتے ہوئے بین الاقوامی گیٹ وے ”پے پال“ کے ذریعے ترسیلات زر کی ترسیل قابل عمل بنانے کا اعلان کیا ہے۔ نگران وفاقی وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ ٹیلی کمیونیکیشن ڈاکٹر عمر سیف نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی وزارت پاکستان کو ایک ”ٹیک ڈیسٹینیشن“ بنانے کے لیے پے پال کے ذریعے ترسیلات زر کو چینلائز کرنے سمیت اگلے ہفتے کئی ڈیجیٹل اقدامات…
![Tumblr media](https://64.media.tumblr.com/e21f896067f12f71c8f74c2bab08b075/69410531e1b75ea0-de/s540x810/e7633e4860f4cc2800eb6bd19a4c67d85fde4d97.jpg)
View On WordPress
0 notes
Text
اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قدر میں تین روپے کا اضافہ
کراچی: جمعہ کو بھی انٹربینک میں ڈالر ریورس گئیر میں رہا لیکن اس کے برعکس اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی پرواز برقرار رہی اور اوپن ریٹ 292 روپے کی سطح پر آگئے۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق براہ راست بیرونی سرمایہ کاری اور سمندر پار مقیم پاکستانیوں کی ترسیلات زر کی آمد بڑھنے جیسے عوامل کے باعث جمعہ…اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قدر میں تین روپے کا اضافہ
View On WordPress
0 notes
Text
جنوری میں اوورسیز پاکستانیوں کی بھیجی گئی ترسیلات زر میں کمی ریکارڈ
کراچی: اوورسیز پاکستانیوں کی جانب سے گزشتہ ماہ بھیجی گئی ترسیلات زر میں سالانہ اور ماہانہ دونوں بنیادوں پر کمی ریکارڈ ہوئی ہے۔ جنوری 2023ء میں اوررسیز پاکستانیوں کی جانب سے بھجوائی جانے والی ترسیلات زر میں سالانہ بنیادوں پر 13.14فیصد کمی ریکارڈ ہوئی۔ اوور سیز پاکستانیوں نے گزشتہ ماہ ایک ارب 89کروڑ49 لاکھ ڈالر کی ترسیلات زر بھجوائیں۔ سالانہ کے علاوہ ماہانہ بنیاوں پر بھی اوورسیز پاکستانیوں کی…
![Tumblr media](https://64.media.tumblr.com/1ae8fa5c0d22b8eb92b3462e5acb8e35/521975ebbdc96cb9-09/s540x810/ce13a926e2d347c2670cc10a828c4e4e56808d07.jpg)
View On WordPress
0 notes
Text
ستمبر میں ترسیلات زر $ 2b سے زیادہ رہتے ہیں | ایکسپریس ٹریبون
ستمبر میں ترسیلات زر $ 2b سے زیادہ رہتے ہیں | ایکسپریس ٹریبون
![Tumblr media](https://64.media.tumblr.com/a0231a50ee9ca88a84fd4395281eb9a2/a9d6715b8d654343-30/s540x810/a1d8de5375ad4ed21c3b1f1d6bfde238641c276d.jpg)
[ad_1]
پاکستان کو ستمبر 2020 میں مسلسل چوتھے مہینے مزدوروں کی ترسیلات زر کے حساب سے 2 ارب ڈالر سے زائد کی آمدنی ہوئی ، جو کوڈ 19 کے باعث جولائی تا دسمبر کے عرصے میں بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے ذریعہ 12 سے 20 فیصد تک کمی کا خدشہ ہے۔ .
کوویڈ کے باوجود ، ہماری معیشت کے لئے مزید خوشخبری ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے لکھا ہے کہ ستمبر 2020 میں ہمارے محنتی بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی ترسیلات زر ستمبر…
View On WordPress
0 notes
Text
آئی ایم ایف کی 1998 جیسی سخت شرائط
![Tumblr media](https://64.media.tumblr.com/957c45e16c3fb51efd3d7cff3b937947/8dc96e025f1b7787-2d/s400x600/a31fde34eafb9367858d6fbb265797fd9410426f.jpg)
آئی ایم ایف کی اضافی شرائط اور پروگرام کی بحالی میں تاخیر سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس بار پاکستان کو آئی ایم ایف کی 1998 ء جیسی سخت شرائط کا سامنا ہے، جب پاکستان نے ایٹمی دھماکے کئے اور معاشی مشکلات کے باعث پاکستان کو 400 ملین ڈالر کے مالیاتی فرق کی وجہ سے آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا جس پر 1999 میں آئی ایم ایف نے پروگرام بحالی کیلئے 24 سخت شرائط رکھیں جنہیں پاکستان نے پورا کیا۔ اس بار بھی ہمیں معاہدے کی بحالی میں آئی ایم ایف کا رویہ سخت نظر آرہا ہے جس نے شرائط پر عمل کرنا نہایت مشکل بنا دیا ہے۔ حکومت نے آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کیلئے پہلے ہی تمام شرائط مان لی ہیں اور پارلیمنٹ سے اضافی ریونیو کیلئے 170 ارب روپے کا منی بجٹ بھی منظور کرا لیا ہے جبکہ اسٹیٹ بینک نے افراط زر پر قابو پانے کیلئے اپنے ڈسکائونٹ ریٹ میں 3 فیصد اضافہ کر کے 20 فیصد کر دیا ہے جس کے بعد آئی ایم ایف نے 4 پیشگی اقدامات کی اضافی شرائط رکھی ہیں جن میں گردشی قرضوں کو کنٹرول کرنے کیلئے تمام صارفین کیلئے بجلی کے نرخوں میں 3.82 روپے فی یونٹ چارج لگایا جانا، مارکیٹ کی بنیاد پر روپے کو فری فلوٹ رکھنا جس میں حکومت کی کوئی دخل اندازی نہ ہو اور بیرونی ادائیگیوں میں 7 ارب ڈالر کی کمی کو پورا کرنے کیلئے دوست ممالک سے سافٹ ڈپازٹس یا رول اوور کی ضمانت حاصل کرنا شامل ہے۔
اس کے علاوہ آئی ایم ایف نے پاکستانی روپے کے ایکسچینج ریٹ کو افغان بارڈر ریٹ سے منسلک کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے جو پاکستانی روپے کی قدر میں مزید کمی کا باعث ہو گا کیونکہ پاکستان اور افغانستان کے مابین ڈالر ریٹ میں تقریباً 20 روپے کا فرق پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے ہر سال تقریباً 2 ارب ڈالر پاکستان سے افغانستان اسمگل ہوتا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ موجودہ آئی ایم ایف معاہدہ جون 2023 میں ختم ہو جائے گا لہٰذا بجلی کے بلوں میں مستقل بنیادوں پر سرچارج لگانا مناسب نہیں۔ حکومت اور آئی ایم ایف کی بیرونی ادائیگیوں کے بارے میں بھی اختلاف ہے۔ حکومت کے مطابق ہمیں 5 ارب ڈالر جبکہ آئی ایم ایف کے حساب سے 7 ارب ڈالر کمی کا سامنا ہے۔ چین کی طرف سے پاکستان کو پہلے ہی 700 ملین ڈالر مل چکے ہیں اور 1.3 ارب ڈالر کی 3 قسطیں جلد ملنے کی توقع ہے۔ اس کے علاوہ سعودی عرب سے 2 ارب ڈالر، UAE سے 1 ارب ڈالر، ورلڈ بینک اور ایشین انفرااسٹرکچر بینک کے 950 ملین ڈالر کے اضافی ڈپازٹس ملنے کی توقع ہے جس سے جون 2023 تک پاکستان کے زرمبادلہ ذخائر موجودہ 4 ارب ڈالر سے بڑھ کر 10 ارب ڈالر ہو جائیں گے جو آئی ایم ایف کی شرط کو پورا کرتا ہے۔
![Tumblr media](https://64.media.tumblr.com/0cec6e155ceca7bf353cd2f22d7430a9/8dc96e025f1b7787-c0/s400x600/aa2245c52c6c2662f20e90a0bf3fc8e1c2f5aa04.jpg)
آئی ایم ایف کا پاکستان اور دیگر ممالک کو قرضے دینا احسان نہیں بلکہ یہ آئی ایم ایف کے ممبر ممالک کا حق ہے کہ مالی مشکلات کے وقت آئی ایم ایف ان کی مدد کرے۔ آئی ایم ایف سے قرض حاصل کرنے والے ممالک میں ارجنٹائن 150 ارب ڈالر قرضے کے ساتھ سرفہرست ہے جس کے بعد مصر 45 ارب ڈالر کے ساتھ دوسرے، ایکواڈور 40 ارب ڈالر کے ساتھ تیسرے، یوکرین 20 ارب ڈالر کے ساتھ چوتھے نمبر پر ہے جس کے بعد پاکستان، لاطینی امریکی ممالک اور کولمبیا آتے ہیں۔ پاکستان اب تک آئی ایم ایف کے ساتھ مجموعی 23.6 ارب ڈالر کے 22 سے زائد معاہدے کر چکا ہے لیکن ان سے صرف 14.8 ارب ڈالر کی رقم حاصل کی ہے اور باقی پروگرام مکمل ہوئے بغیر ختم ہو گئے۔ آئی ایم ایف کا موجودہ 6.5 ارب ڈالر کا توسیعی فنڈ پروگرام 2019 میں سائن کیا گیا تھا جس کو بڑھا کر 7.5 ارب ڈالر تک کر دیا گیا جو جون 2023 میں ختم ہو رہا ہے اور آئی ایم ایف پروگرام کے حالیہ نویں جائزے کی شرائط مکمل کرنے کے بعد پاکستان کو1.1 ارب ڈالر کی قسط ملے گی۔
حکومت کے آئی ایم ایف شرائط ماننے سے ملک میں مہنگائی کا طوفان آنے کے علاوہ بیرونی ممالک سے بھی شکایتیں اور دبائو بڑھ رہا ہے۔ پاکستان میں جرمنی کے سفیر الفریڈ گرناس نے وفاقی وزیر معاشی امور سردار ایاز صادق سے اسٹیٹ بینک کی جرمنی سے مرسڈیز، BMW اور Audi الیکٹرک گاڑیوں کی امپورٹ اور بینکوں کے LC کھولنے پر پابندی پر اعترا�� کیا ہے کہ یہ WTO معاہدے، جس کا پاکستان ممبر ملک اور دستخط کنندہ ہے، کے خلاف ہے لہٰذا جرمنی سے الیکٹرک گاڑیوں کی امپورٹ کی فوری اجازت دی جائے بصورت دیگر جرمنی، پاکستان کے یورپی یونین کے ساتھ GSP پلس ڈیوٹی فری معاہدے، جو 31 دسمبر 2023 کو ختم ہو رہا ہے، کی مزید 10 سال تجدید کیلئے پاکستان کو سپورٹ نہیں کرے گا اور اس پابندی سے پاکستان اور جرمنی کے تجارتی تعلقات پر اثر پڑے گا۔ اس کے علاوہ غیر ملکی ایئر لائنز کی 225 ملین ڈالرکی ترسیلات زر نہ ہونے کے باعث غیر ملکی ایئر لائنز نے پاکستان کیلئے سخت پالیسیاں اور ٹکٹ مہنگے کر دیئے ہیں جس میں حکومت کی حج زائرین کیلئے ڈالر کی فراہمی پر بھی نئی پابندیاں شامل ہیں۔
پاکستان ان شاء اللہ ڈیفالٹ نہیں ہو گا لیکن بے شمار قارئین نے مجھ سے ڈیفالٹ کے ملکی معیشت پر اثرات کے بارے میں پوچھا ہے۔ آسان الفاظ میں ایک خود مختار ملک کے واجب الادا قرضوں اور انٹرنیشنل مارکیٹ میں بانڈز کی ادائیگی میں ناکامی کو ’’ساورن ڈیفالٹ‘‘ کہا جاتا ہے جس کا حکومت رسمی اعلان کر سکتی ہے جیسے سری لنکا نے کیا یا پھر حکومت ان قرضوں کو ری اسٹرکچر یا ادائیگی میں تاخیر کی درخواست کرتی ہے جو تکنیکی اعتبار سے ڈیفالٹ ہی کہلاتا ہے۔ اس صورت میں مقامی کرنسی کی قدر کافی حد تک گر جاتی ہے اور بین الاقوامی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیاں اُس ملک کی ریٹنگ کم کر دیتی ہیں جس سے ملک کے بینکوں کا بین الاقوامی مارکیٹ میں تجارت کرنا مشکل ہو جاتا ہے، شرح سود میں اضافہ اور سپلائرز LCs پر غیر ملکی بینکوں کی کنفرمیشن مانگتے ہیں جس سے LCs اور امپورٹ کی لاگت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے UNCTD نے پاکستان کو دنیا کے اُن 5 ممالک کی فہرست میں شامل کیا ہے جن پر بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کا ناقابل برداشت دبائو ہے۔ ان ممالک میں پاکستان کے علاوہ سری لنکا، مصر، کولمبیا اور انگولا شامل ہیں۔ ایسی صورتحال میں چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے اپیل کی ہے کہ پاکستان کی موجودہ مالی مشکلات کا سبب کچھ ترقی یافتہ ممالک کی معاشی پالیسیاں ہیں، امیر ممالک کو چاہئے کہ وہ پاکستان کی مدد کریں جس کیلئے میرے نزدیک ملک میں سیاسی استحکام اشد ضروری ہے۔
ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
حکومت آئی ایم ایف کے سامنے بے بس
![Tumblr media](https://64.media.tumblr.com/696856b1f259ee23576c0336ab53b0fb/707c25a03b8d56e7-d0/s400x600/1826d82195bd5c2729c4517c3d00b5a6f1b6e914.jpg)
آئی ایم ایف مذاکراتی ٹیم کے حکومت کے ساتھ اسٹاف لیول معاہدے میں بیرونی فنانسنگ اور پاور سیکٹر خسارے پر تشویش پائی جاتی ہے لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں کہ آئی ایم ایف، حکومت کو نہایت ٹف ٹائم دے رہی ہے اور حکومت کے پاس ان شرائط کو ماننے کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے۔ پہلے مرحلے میں آئی ایم ایف نے بجٹ خسارے کو جی ڈی پی کا 4.9 فیصد رکھنے کا ہدف دیا ہے جبکہ معاشی اشاریوں کو دیکھتے ہوئے رواں مالی سال بجٹ خسارہ 6.5 سے 7 فیصد تک جا سکتا ہے جس کیلئے آئی ایم ایف نے 900 ارب روپے جو پاکستان کی جی ڈی پی کا تقریباً ایک فیصد بنتا ہے، خسارے کو کم کرنے کیلئے شرائط حکومت کو پیش کر دی ہیں جنہیں حکومت نے کافی حد تک مان لیا ہے جس میں ایکسپورٹ شعبے کو 110 ارب روپے کی بجلی اور گیس پر دی جانے والی سبسڈی کا خاتمہ، پیٹرولیم مصنوعات پر 17 فیصد سیلز ٹیکس کا نفاذ، پیٹرول اور ڈیزل پر پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی کی مد میں 855 ارب روپے کی وصولی کا ہدف دیا ہے جس کیلئے حکومت کو پیٹرول اور ڈیزل پر مجموعی 50 روپے فی لیٹر PDL لگانا ہو گا۔ آئی ایم ایف نے سیلاب متاثرین کی بحالی کیلئے 500 ارب روپے کے بجٹ خسارے، کسان پیکیج اور ٹیوب ویل سبسڈی کو مان لیا ہے لیکن آئی ایم ایف جی ایس ٹی کی شرح 17 فیصد سے بڑھا کر 18 فیصد کرنے پر آمادہ نہیں۔
اس کے علاوہ گردشی قرضوں میں نظرثانی ڈیٹ مینجمنٹ پلان کے ذریعے کمی اور حکومتی اخراجات میں 600 ارب روپے کی کمی تاکہ زیادہ سے زیادہ مالی خسارہ 400 سے 450 ارب روپے رہے جس کیلئے حکومت نے سگریٹ، مشروبات، جائیداد کے لین دین، بیرون ملک فضائی سفر پر ودہولڈنگ ٹیکسز، امیر طبقے، امپورٹس اور بینکنگ سیکٹر کے منافع پر سیلاب ٹیکس لگانے پر آمادگی ظاہر کی ہے جس پر منی بجٹ کے ذریعے عملدرآمد متوقع ہے۔ اس کے علاوہ آئی ایم ایف نے 30 جون تک زرمبادلہ کے ذخائر 16 ارب 20 کروڑ ڈالر تک لانا، امپورٹ پر عائد پابندیوں کا خاتمہ LCs کھولنے کیلئے 4 ارب ڈالر کی فراہمی اور بجلی گیس کے نرخوں میں 50 فیصد اضافے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ آئی ایم ایف نے ایف بی آر کو اس سال کا ریونیو ہدف 7470 ارب روپے دیا ہے جس کی ایف بی آر نے یقین دہانی کرائی ہے۔ ڈالر کے انخلا کو روکنے کیلئے اسٹیٹ بینک اور ایف بی آر نے بیرون ملک سفر کرنے والے افراد کیلئے زیادہ سے زیادہ غیر ملکی کرنسی بیرون ملک لے جانے کی حد کم کر کے 5000 ڈالر فی وزٹ اور 30000 ڈالر سالانہ مقرر کر دی ہے۔
![Tumblr media](https://64.media.tumblr.com/e2a094eb3678c9b0a6dcac4c4f2a0993/707c25a03b8d56e7-a2/s400x600/a882ec24b70140f7dcf64458e6e15606ba9f7f55.jpg)
اس وقت پاکستان کی معیشت کو سنگین چیلنجز کا سامنا ہے جن میں سیاسی عدم استحکام، مہنگائی یعنی افراط زر 32 فیصد، بیرونی ذخائر کم ہو کر 3 ارب ڈالر کی نچلی ترین سطح تک آجانا، ملکی ایکسپورٹس میں 18 فیصد، ترسیلات زر میں 10 فیصد، روشن ڈیجیٹل اکائونٹ (RDA) میں نومبر 2020ء سے مسلسل کمی، روپے کی قدر 20 فیصد کمی سے 277 سے 280 روپے تک پہنچ جانا اور موجودہ معاشی صورتحال میں ریونیو وصولی کے ہدف کو پورا کرنا ایک ٹاسک ہے جس سے ملک میں ایک معاشی بحران پیدا ہوا ہے۔ ڈالر نہ ہونے کی وجہ سے امپورٹ پر پابندیاں لگا کر سپلائی چین متاثر ہوئی ہے جس کا فائدہ ذخیرہ اندوز اشیاء کی قیمتیں بڑھا کر اٹھا رہے ہیں جس سے مہنگائی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بابائے قوم قائداعظم نے ایک زرعی صنعتی پاکستان کا خواب دیکھا تھا لیکن ہم نے زراعت اور صنعت کے شعبوں کو نظر انداز کر کے آج ملک کو ٹریڈنگ اسٹیٹ بنا دیا ہے۔ ہمیں دوبارہ پاکستان کی اصل طاقت زراعت کے شعبے کو ترجیح دینا ہو گی۔
یہ افسوس کی بات ہے کہ پہلے جن زرعی اجناس میں ہم نہ صرف خود کفیل تھے ��لکہ ایکسپورٹ بھی کرتے تھے، آج ہم انہیں امپورٹ کر رہے ہیں جس کیلئے ہمارے پاس ڈالر نہیں۔ آئی ایم ایف پروگرام سے نکلنے اور ڈالر روپے کے ریٹ کو مصنوعی طریقے سے روکنے سے انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ میں 30 روپے کے فرق کی وجہ سے 1.5 ارب ڈالر کی ترسیلات زر ہنڈی اور حوالہ سے بھیجی گئیں جس سے ملکی ترسیلات زر میں 1.5 ارب ڈالر کی کمی ہوئی جبکہ ڈالر کی مسلسل بڑھتی ہوئی قیمت کے مدنظر برآمدات کی رقوم باہر روکنے سے بھی ڈیڑھ ارب ڈالر ایکسپورٹ کم ہوئی۔ اگر آئی ایم ایف پروگرام جاری رہتا تو تقریباً 3 ارب ڈالر کی کمی کو روکا جاسکتا تھا۔ اس کے علاوہ آئی ایم ایف پروگرام میں رہتے ہوئے ہمیں ورلڈ بینک، ایشین ڈویلپمنٹ بینک اور اسلامک ڈویلپمنٹ بینک سے ملنے والے فنڈز نہیں روکے جاتے اور دوست ممالک کے سافٹ ڈپازٹس کو رول اوور کرنے کیلئے آئی ایم ایف پروگرام بحالی کی شرط نہ لگائی جاتی۔
قارئین! آئی ایم ایف کے معاہدے سے مہنگائی کا ایک طوفان آجائے گا جس کا مقابلہ کرنا غریب آدمی کیلئے نہایت مشکل ہو گا لیکن اگر حکومت آئی ایم ایف کی مطلوبہ اصلاحات کے ذریعے اپنی معیشت کو دستاویزی شکل دے کر اور جی ڈی پی میں ٹیکس کی شرح میں اضافہ کر کے پہلے مرحلے میں موجودہ 10 فیصد سے 15 فیصد تک لے آتی ہے تو اس کے ملکی معیشت پر دور رس نتائج مرتب ہوں گے۔ غریب عوام کی قربانیوں کے پیش نظر اگر ہم ملک میں کرپشن کے خاتمے، گڈ گورننس، شاہ خرچیوں اور پرتعیش اشیاء کی امپورٹ پر پابندی اور آمدنی کے مطابق حکومتی اخراجات میں کمی سے مستقبل میں پاکستان کو بار بار ہاتھ پھیلانے سے بچا سکتے ہیں۔ یہ بات نہایت تکلیف دہ ہے کہ آج 75 سالوں کے بعد جب ہمارے علاقائی ممالک دنیا میں معاشی رینکنگ میں تیزی سے اوپر جارہے ہیں، ہم ڈیل یا ڈیفالٹ کی باتیں کررہے ہیں۔
ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
ماہ جنوری،اوورسیزپاکستانیز کی ترسیلات زر3ارب ڈالرتک پہنچ گئیں
سال 2025 کے پہلے ماہ میں بیرون ملک مقیم (اوورسیز) پاکستانیوں کی ترسیلات زر 3ارب ڈالر تک پہنچ گئیں۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے جاری تفصیلات کے مطابق جنوری 2025 میں ورکرز ترسیلات 3 ارب ڈالر رہیں۔بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے جنوری 2024 کے مقابلے میں جنوری 2025 میں 25 فیصد زیادہ رقوم بھیجی ہیں۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق رواں مالی سال کے سات مہینوں کی ورکرز ترسیلات 20.8 ارب ڈالر رہیں۔ورکرز ترسیلات…
0 notes