#رواں سال
Explore tagged Tumblr posts
Text
وزیراعظم نے رواں سال کی پہلی پولیو مہم کا افتتاح کردیا
وزیراعظم شہبازشریف نے رواں سال کی پہلی انسداد پولیو مہم کا افتتاح کردیا۔ اسلام آباد میں قومی انسداد پولیو مہم کی افتتاحی تقریب منعقد ہوئی، تقریب سے خطاب میں شہباز شریف کاکہنا تھا کہ آج ہم2025 کی پہلی انسداد پولیو مہم کا آغاز کررہے ہیں اور اس تقریب میں معصوم بچوں کو پولیو کےقطرے پلائے گئے ہیں۔ملک سے پولیوکےخاتمے کیلئےپرعزم ہیں۔ شہبازشریف کاکہناتھا کہ یہ مہم پاکستان کےکروڑوں بچوں کوپولیو کےقطرے پلا…
0 notes
Text
رواں مالی سال میں تجارتی خسارہ کم ہو گیا ادارہ شماریات کی رپورٹ جاری
(وقاص عظیم) رواں مالی سال کے ابتدائی 4 ماہ میں تجارتی خسارہ بھی کم ہوگیا، و��اقی ادارہ شماریات نے تجارتی اعدادوشمار بھی جاری کردیئے۔ ادارہ شماریات کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق رواں مالی سال کےپہلے4 ماہ میں برآمدات 13.45فیصد بڑھیں، اکتوبر 2024 میں سالانہ بنیادوں پر برآمدات میں 10.64 فیصد اضافہ ہوا، ماہانہ بنیادوں پر اکتوبر میں برآمدات میں 4.9 فیصد اضافہ ہوا، اکتوبر 2024 میں برآمدات 2 ارب 97…
0 notes
Text
رواں سال اپریل کے مہینے میں بھی گندم درآمد کیے جانے کا انکشاف
اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن) رواں سال مسلسل 2 ماہ تک گندم درآمد کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے، تقریبا 64 ارب 19 کروڑ 20 لاکھ روپے مالیت کی گندم درآمد کی گئی ۔ 24 نیوز کے مطابق شہباز حکومت نے دوسرے ماہ یعنی اپریل میں بھی گندم کی درآمد جاری رکھی ، اپریل میں 86 ہزار800میٹرک ٹن گندم درآمد کی گئی ، اپریل2024 میں7ارب روپے مالیت سے زائد کی گندم درآمد ہوئی، موجودہ حکومت کے پہلے 2 ماہ میں تقریبا 7…
0 notes
Text
کمپیوٹر نے ملازمتیں ختم کر دیں تو لوگ کیا کریں گے؟
![Tumblr media](https://64.media.tumblr.com/a72eff49fb1bb00e9eeec281eb1d61da/43810f7bbf9a8df1-ae/s400x600/333e37787fa59b95e183816fa33175f9b0b58ce8.jpg)
ہم مستقبل سے صرف پانچ سال دور ہیں۔ تقریباً ایک صدی قبل ماہر معیشت جان مینارڈ کینز نے کہا تھا کہ ہم 2028 تک اپنی ایسی دنیا میں رہ رہے ہوں گے جہاں سہولتیں کثرت سے ہوں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ دنیا ٹیکنالوجی پر چلے گی۔ ہم دن میں تین گھنٹے کام کریں گے اور زیادہ تر کام محض اپنے آپ کو مصروف رکھنے کے لیے ہو گا۔ 1928 میں شائع ہونے والے اپنے ’مضمون ہمارے پوتے پوتیوں کے لیے معاشی امکانات‘ میں کینز نے پیش گوئی کی کہ ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی اپنے ساتھ ایسی صلاحیت لائے گی کہ کام کرنے کے ہفتے میں تبدیلی آئے گی۔ کوئی بھی اس بات سے انکار نہیں کرے گا کہ جس ٹیکنالوجی کی کینز نے پیشگوئی کی تھی وہ آج موجود ہے۔ لیکن کام کرنے کا ہفتہ اتنا زیادہ تبدیل نہیں ہوا۔ وہ مستقبل جس کا پانچ سال میں وعدہ کیا گیا تھا واقعی بہت دور محسوس ہوتا ہے۔ رواں ہفتے ایلون مسک نے جدید دور میں ماہرِ معاشیات کینز کا کردار ادا کیا جب انہوں نے برطانیہ کے مصنوعی ذہانت کے سرکردہ رہنماؤں کے اجلاس کے اختتام پر برطانوی وزیر اعظم رشی سونک سے کہا کہ ہم نہ صرف ملازمت میں کیے جانے والے کام میں کمی کرنے جا رہے ہیں بلکہ اس سے مکمل طور پر چھٹکارا حاصل کریں گے۔
جب وزیر اعظم نے مسک سے پوچھا کہ ان کے خیال میں مصنوعی ذہانت لیبر مارکیٹ کے لیے کیا کرے گی تو انہوں نے ایک ایسی تصویر پیش کی جو خوش کن یا مایوس کن ہو سکتی ہے جس کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ اسے کس طرح دیکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مصنوعی ذہانت ’تاریخ میں سب سے زیادہ خلل ڈالنے والی قوت‘ ہے۔ ’ہمارے پاس پہلی بار کوئی ایسی چیز ہو گی جو ذہین ترین انسان سے زیادہ سمجھدار ہو گی۔‘ اگرچہ ان کا کہنا تھا کہ پیش گوئی کرنا مشکل ہے لیکن انہوں نے کہا کہ ’ایک وقت آئے گا جب کسی نوکری کی ضرورت نہیں رہے گی‘۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ کام کرنے کی واحد وجہ ’ذاتی اطمینان‘ ہو گی، کیوں کہ ’مصنوعی ذہانت سب کچھ کرنے کے قابل ہو گی۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے نہیں معلوم کہ اس سے لوگوں کو آرام ملتا ہے یا بےآرامی۔‘ ’یہ اچھا اور برا دونوں ہے۔ مستقبل میں چیلنجوں میں سے ایک یہ ہو گا کہ اگر آپ کے پاس ایک جن ہے جو آپ کے لیے وہ سب کچھ کر سکتا ہے جو آپ چاہتے ہیں تو اس صورت میں آپ اپنی زندگی میں معنی کیسے تلاش کریں گے؟‘ سونک اپنی جگہ اس صورت حال کے بارے میں یقینی طور پر بےچین لگ رہے تھے۔
![Tumblr media](https://64.media.tumblr.com/bf73b049f020d2e7d56000b31a5e6f93/43810f7bbf9a8df1-70/s400x600/a746832983b0f28795a3d8944bde680c3a86c56a.jpg)
ان کا کہنا تھا کہ کام کرنے سے لوگوں کو معنی ملتے ہیں۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ مصنوعی ذہانت کام کی دنیا کو مکمل طور پر ختم کرنے کے بجائے اسے بہتر بنائے گی۔ دنیا ان دو آدمیوں کے درمیان ایک چوراہے پر کھڑی ہے اور یہ جاننا مشکل ہے کہ کس طرف جانا ہے۔ سوال کا ایک حصہ ٹیکنالوجی کے بارے میں ہے۔ اس کا کتنا حصہ انسانوں کے لیے قدرتی ہے اور کیا مشینیں آخر کار ہماری دنیا کے ہر حصے پر قبضہ کرنے کے قابل ہوں گی؟ لیکن ایک بہت گہرا اور زیادہ اہم سوال بالکل تکنیکی نہیں ہے یعنی ہم یہاں کس لیے ہیں اور ہم اپنی زندگیوں کے ساتھ ��یا کرنا چاہتے ہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو ہم حال ہی میں اپنے آپ سے پوچھنے کے عادی ہو گئے ہیں۔ وبائی مرض نے کام کے مستقبل کے بارے میں ہر طرح کی سوچ کو جنم دیا اور یہ کہ لوگ کس طرح جینا چاہتے تھے اور کچھ نے اسے گہری اور دیرپا طریقوں سے اپنی زندگیوں کو تبدیل کرنے کے مواقع کے طور پر استعمال کیا۔ لیکن اس سوال کی نئی اور گہری شکل مصنوعی ذہانت کے ساتھ آ رہی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ہمیں طویل عرصے تک اس سوال کا جواب نہ دینا پڑے۔
مصنوعی ذہانت کی موجودہ رفتار اور جس جنون کے ساتھ اس پر بات کی جا رہی ہے، اس سے یہ سوچنا آسان ہو سکتا ہے کہ روبوٹ صرف چند لمحوں کے فاصلے پر انتظار کر رہے ہیں۔ وہ ہماری نوکریاں (اور شاید ہماری زندگیاں) لینے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن زیادہ تر ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بات کو قدرے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا اور کم از کم بہت سی صنعتیں طویل عرصے تک محفوظ رہ سکتی ہیں۔ تاہم ہمیں ابھی سے اس کے بارے میں سوچنا شروع کرنا چاہیے کیوں ابھی نوبت یہاں تک نہیں پہنچی۔ ہمارے پاس تیاری کا موقع ہے کہ ہم ان ٹیکنالوجیوں کو کس طرح اپناتے ہیں۔ وہ انداز جو ہم نے پہلے کبھی نہیں اپنایا۔ مصنوعی ذہانت کے بارے میں زیادہ تر بحث خیالی باتوں اور سائنس فکشن کی طرف مائل ہوتی ہے۔ اس پر ہونے والی بحثیں اکثر پالیسی مباحثوں کی بجائے زیادہ تر مستقبل کی ٹرمینیٹر فلموں کے لیے کہانیاں تجویز کرنے والے لوگوں کی طرح لگ سکتی ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ ہم اس تجریدی بحث کو حقیقی ٹھوس سوچ کے ساتھ ملا دیں کہ ہم دنیا کو کس طرح دیکھنا چاہتے ہیں۔ کام، معلومات اور اس کے علاوہ بھی بہت کچھ کیسا دکھائی دینا چاہیے۔
لیکن اس کا جواب دینے کا مطلب مقصد، معنی اور ہم یہاں کیوں ہیں کے بارے میں مزید فلسفیانہ بحث کرنا ہوسکتا ہے۔ یہ وہ سوالات ہیں جن سے انسانی ذہانت ہزاروں سال سے نبرد آزما ہے لیکن مصنوعی ذہانت انہیں ایک نئی اور زیادہ فوری اہمیت دینے والی ہے۔ فی الحال بحثیں گھبراہٹ اور اضطراب کے ساتھ ہو رہی ہیں۔ سونک یقینی طور پر اکیلے نہیں ہیں جو آٹومیشن کے بارے میں مایوس کن نقطہ نظر کے بارے میں پریشان ہیں اور اس سے کتنی ملازمتیں ختم ہو جائیں گی۔ یہ ایک اور وجہ ہے کہ ہمیں اس بات پر تبادلہ خیال کرنا چاہیے کہ وہ خودکار مستقبل کیسا نظر آ سکتا ہے۔ کیوں کہ اسے کم خوفناک بنانے کا موقع موجود ہے۔ یہ یقینی طور پر مشینوں اور مصنوعی ذہانت کے نظام کے بارے میں گھبراہٹ کا سب سے بڑا حصہ جس کے بارے میں بات نہیں کی گئی ہے۔ یہ وہ روبوٹ نہیں ہیں جن سے ہم ڈرتے ہیں۔ یہ انسان ہیں۔ مصنوعی ذہانت کے حوالے سے پریشان کن صورت حال کے بارے میں تمام گھبراہٹ کی بنیاد یہ ہے کہ ملازمتوں کے خودکار ہونے کا کوئی بھی فائدہ ان انسانی کارکنوں کو نہیں جائے گا جو پہلے یہ ملازمت کرتے تھے۔
یہ اضطراب ہر جگہ موجود ہے اور رشی سونک نے ایلون مسک کے ساتھ اپنی گفتگو کے دوران نشاندہی کی کہ جب وہ دنیا میں لوگوں سے ملتے ہیں تو انہیں ذہانت یا کمپیوٹنگ کی حدود کے بڑے سوالات میں دلچسپی نہیں ہوتی بلکہ ملازمتوں میں دلچسپی ہوتی ہے۔ اگر لوگوں کو لگتا ہے کہ وہ آٹومیشن کے عمل کا حصہ ہیں اور وہ اس سے کچھ حاصل کریں گے تو دنیا کم پریشان کن جگہ ہو گی۔ یہ مقصد مختلف طریقوں سے حاصل کیا جاسکتا ہے لیکن یہ سب اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ہے کہ لوگ آٹومیشن کے ذریعہ پیدا ہونے والی پیداواری صلاحیت اور کارکردگی سے فائدہ اٹھا سکیں۔ اس سوال پر دنیا کا ملا جلا ٹریک ریکارڈ ہے۔ تکنیکی تبدیلی نے ہمیشہ لیبر مارکیٹ میں خرابی پیدا کی لیکن اس کے اثرات مختلف ہیں۔ اکثر وہ لوگ جو تاریخ میں مشینوں کی وجہ سے فالتو ہو گئے اور ان نئی ملازمتوں کی طرف چلے گئے جن عام طور پر خطرہ اور مشقت کم ہے۔ اگر ماضی میں لوگوں نے روبوٹس اور کمپیوٹرز والی ہماری دنیا کو دیکھا ہو تو وہ سوچیں گے کہ یہ ان کے پاس موجود خطرناک اور تھکا دینے والی ملازمتوں کے مقابلے میں ایک کامل اور مثالی جگہ ہے۔ ہمیں ان فوائد کو صرف وجہ سے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ اس وقت ہم انہیں معمولی سمجھتے ہیں۔
لیکن ہمارے پاس ہمیشہ وہ یوٹوپیا نہیں رہا جس کا وعدہ ماضی کے ان لوگوں نے ہم سے کیا تھا۔ جب 1928 میں کینز نے وعدہ کیا تھا کہ دنیا میں دن میں چند گھنٹے کام ہو گا تو اس میں امید کم اور پیشگوئی زیادہ تھی۔ مالی بحران کے وقت بھی انہوں نے ’بجلی، پیٹرول، فولاد، ربڑ، کپاس، کیمیائی صنعتوں، خودکار مشینوں اور بڑے پیمانے پر پیداوار کے طریقوں‘ جیسے وسیع پیمانے پر کام کرنے والی ٹیکنالوجیز کی طرف اشارہ کیا جو آج مصنوعی ذہانت کے فوائد کی بات کرنے والوں کی یاد دلاتا ہے۔ اس کا کوئی اچھا جواب نہیں ہے کہ ہمیں فراوانی اور آرام کی وہ دنیا کیوں نہیں ملی جس کا انہوں نے وعدہ کیا۔ اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ کینز نے پیش گوئی کی تھی کہ لوگ فرصت میں زیادہ ��قت گزارنے کے لیے اضافی وسائل کا استعمال کریں گے۔ تاہم جو ہوا ہے وہ یہ ہے کہ ہم نے وسائل کو مزید چیزوں پر صرف کیا ہے۔ بڑے حصے کے طور پر ٹیکنالوجی کی معاشی ترقی صرف فون جیسی زیادہ ٹیکنالوجی خریدنے میں استعمال کی گئی۔ لیکن ایک اور وجہ بھی ہے کہ ہم نے اپنی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لیے ٹیکنالوجی کے فوائد کو استعمال کرنے کے بارے میں کبھی سنجیدہ بحث نہیں کی۔ کسی نے بھی دنیا سے یہ نہیں پوچھا کہ ہمیں ٹیکنالوجی کی کارکردگی کے ساتھ کیا کرنا چاہیے اور یہی وجہ ہے کہ ہم آج اس صورت کا سامنا کر رہے ہیں۔
اگرچہ انہوں نے فراوانی والی دنیا اور وقت کی فراوانی کی پیشگوئی کہ کینز نے رشی سونک سے مکمل طور پر اختلاف نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ ’خوف کے بغیر تفریح اور فراوانی کے دور کا انتظار‘ ناممکن ہے۔ اور یہ کہ ’ہمیں بہت طویل عرصے تک تربیت دی گئی ہے کہ ہم مشقت کریں اور لطف اندوز نہ ہوں۔‘ لوگوں کو فکر ہے کہ کام کے ذریعے دنیا سے جڑے بغیر ان کے پاس کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہوگا۔ کوئی خاص صلاحیت نہیں ہو گی۔ کوئی دلچسپی نہیں ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ آپ کو یہ جاننے کے لیے کہ زندگی گزارنا مشکل ہو سکتا ہے، صرف امیر لوگوں کو دیکھنا پڑے گا۔ لیکن لوگ اپنے آپ کو مطمئن رکھنے کے لیے دن میں تین گھنٹے کام کر سکتے ہیں۔ زیادہ تر کام اس لیے کیا جائے گا کہ ہمیں کچھ نہ کچھ کرنا ہے۔ ہم تنخواہ کی بجائے بنیادی طور پر کسی مقصد کے تحت کام کر رہے ہوں گے۔ لوگ اس مقصد کو کیسے تلاش کرتے ہیں؟ لوگ کا کیا مقصد ہے؟ ہم اپنا ’ایکی گائے‘ (جاپانی زبان کا لفظ جس مطلب مقصد حیات ہے) کیسے تلاش کرتے ہیں؟ مقصد زندگی کو گزارنے کے قابل بناتا ہے۔ سو سال پہلے جب کینز نے ہم سے پوچھا تو ہمارے پاس اچھا جواب نہیں تھا۔ اور نہ ہی ہزاروں سال پہلے اسی جیسے سوال کا جواب تھا جب افلاطون نے پوچھا۔ لیکن لیکن اب جدید ترین ٹیکنالوجی کی مدد سے ہمیں اس قدیم سوال کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
اینڈریو گرفن
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
39 notes
·
View notes
Text
عمرِ رواں کے سال تو چہرے پہ درج ہیں 🥀
10 notes
·
View notes
Text
حرم مکی میں مسعی (سعی کی کرنے کی جگہ) کی توسیع کا منصوبہ
![Tumblr media](https://64.media.tumblr.com/f76f4917174c10ed07bd7948e2d00f5b/630a5c340f43c0cf-2f/s400x600/0fb1ae83957e61f4d0bec3d8cd6cede3a9650284.jpg)
مکہ مکرمہ میں مسجد الحرام میں مسعی (سعی کی کرنے کی جگہ) کے توسیعی م��صوبے کے نتیجے میں اب اس کی کُل منزلوں کی تعداد 4 ہو گئ�� ہے جن کا مجموعی رقبہ 87 ہزار مربع میٹر سے تجاوز کر چکا ہے۔ منصوبے کے ایک ذمہ دار کا کہنا ہے کہ "رواں سال رمضان المبارک میں مطاف کے میزانائن کو پُل کے ذریعے مسعی کے میزانائن سے ملا دیا گیا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ معذور افراد کے لیے داخل ہونے کے دو راستے ہیں۔ مغربی سمت سے آنے والوں کے لیے "جسر شبیکہ" اور جنوبی سمت سے آنے والوں کے لیے "جسر جیاد" ہے۔ سعودی حکومت کی جانب سے حرم شریف کی نئی توسیع کے نتیجے میں ایک گھنٹے کے اندر مجموعی طور پر 1 لاکھ 18 ہزار افراد سعی کرسکیں گے۔ مسعی کی بالائی منزلوں تک پہنچنے کے لیے خودکار متحرک زینوں اور لفٹوں کے علاوہ تین پُل بھی موجود ہیں۔
![Tumblr media](https://64.media.tumblr.com/8038364ef1e71591e24e2b12562e4ea7/630a5c340f43c0cf-c3/s400x600/67f5e9909004fc919fdbb205fb377eba9d556ead.jpg)
اس سلسلے میں معتمرین نے مسعی کی نئی توسیع پر مسرت و افتخار کے ملے جلے جذبات کا اظہار کیا۔ ایک بزرگ معتمر کے مطابق سابق فرماں روا شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کے دور سے موجودہ خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے دور تک ہونے والی توسیعات قابل تحسین ہیں۔ ایک دوسرے معتمر نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ صفا اور مروہ کے درمیان چار منزلہ مسعی نے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو اپنے اندر سمو لیا ہے اور حالیہ توسیع کے بعد معتمرین کو سو فی صد راحت اور آرام میسر آرہا ہے۔ مسعی کے منصوبے کی عمارت اپنی تمام منزلوں، سعی اور دیگر خدمات کے علاقوں سمیت مجموعی طور پر تقریبا 1 لاکھ 25 ہزار مربع میٹر پر مشتمل ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکام، اژدہام کو انتہائی حد تک کم کرنے اور مناسک کی ادائیگی کے لیے نقل و حرکت کو آسان بنانے کی کس قدر خواہش رکھتے ہیں۔
بشکریہ العربیہ اردو
3 notes
·
View notes
Text
کیا معیشت دم توڑ چکی ہے؟
![Tumblr media](https://64.media.tumblr.com/7708fcb356662e9a9bc8ebd9ec4236f3/7668d81b32bc77a2-2d/s400x600/6943c540b275530757a091adcc4b3a87ef48c7b5.jpg)
کمال فنکاری بلکہ اوج ثریا سے منسلک لازوال عیاری سے اصل معاملات چھپائے جا رہے ہیں۔ جذباتیت‘ شدید نعرے بازی اور کھوکھلے وعدوں سے ایک سموک سکرین قائم کی گئی ہے جس میں ملک کی ریڑھ کی ہڈی‘ یعنی معیشت کے فوت ہونے کے المیہ کو خود فریبی کا کفن پہنا کر چھپایا جا رہا ہے۔ ذمہ داری سے گزارش کر رہا ہوں کہ پاکستان کی معیشت دم توڑ چکی ہے۔ دھوکہ بازی کے ماہر بھرپور طریقے سے غلط اعداد فراہم کر رہے ہیں۔ قوم کو اصل حقیقت سے مکمل دور کر دیا گیا ہے۔ مگر انفارمیشن کے اس جدید دور میں لوگوں کو مسلسل فریب دینا ناممکن ہو چکا ہے۔ طالب علم کو کوئی غرض نہیں کہ سیاسی حالات کیا ہیں۔ کون پابند سلاسل ہے اور کون سا پنچھی آزاد ہوا میں لوٹن کتوبر کی طرح قلابازیاں کھا رہا ہے۔ اہم ترین نکتہ صرف ایک ہے کہ پاکستان کے معاشی حالات کیا ہیں؟ کیا وہ بہتری کی جانب رواں دواں ہیں یا ذلت کی پاتال میں گم ہو چکے ہیں۔ عوام کی بات کرنا بھی عبث ہے۔ اس لیے کہ اس بدقسمت خطے میں ڈھائی ہزار برس سے عام آدمی کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔
عام آدمی چندرگپت موریا اور اشوکا کے زمانے سے دربدر ہے۔ اور اگر ہمارے خطے میں جوہری تبدیلی نہ آئی یا نہ لائی گئی۔ تو یقین فرمائیے کہ کم از کم پاکستان میں حسب روایت اور تاریخ کے غالیچے پر براجمان طبقہ تباہی کا صور اسرافیل پھونک رہا ہے۔ معیشت کو ٹھیک سمت میں اگر موجودہ وزیراعظم اور وزیر خزانہ نہیں لے کر جائے گا تو پھر کون یہ اہم ترین کام کرے گا۔ غور کیجیے۔ اگر کوئی ایسی بیرونی اور اندرونی منصوبہ بندی ہے کہ پاکستان کو سابقہ سوویت یونین کی طرز پر آرے سے کاٹنا ہے ۔ تو پھر تو درست ہے ۔ مگر وہ کون لوگ اور ادارے ہیں جو جانتے بوجھتے ہوئے بھی ملکی معیشت کو دفنانے کی بھرپور کوشش میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ ہمیں تو بتایا گیا ہے کہ ریاستی اداروں کی عقابی نظرسے کوئی امر پوشیدہ نہیں ہے۔ تو پھر ملکی معیشت کا جنازہ کس طرح نکال دیا گیا۔ ڈاکٹر اشفاق حسین جیسے جید معیشت دان‘ گال پیٹ پیٹ کر ملک کی معاشی زبوں حالی کا ذکر عرصے سے کر رہے ہیں۔ کیوں ان جیسے دانا لوگوں کی باتوں کو اہمیت نہیں دی گئی۔ گمان تو یہ ہے کہ واقعی ایک پلان ہے‘ جس میں مرکزیت صرف ایک سیاسی جماعت کو ختم کرنا ہے۔ اس اثناء میں‘ اگر معیشت ختم ہو گئی تو اسے زیادہ سے زیادہ Collateral damage کے طور پر برداشت کرنا ہے۔
![Tumblr media](https://64.media.tumblr.com/e65ed2800254d016a164ced0490ff2d4/7668d81b32bc77a2-6f/s400x600/ee08308a7710bb78a7d9d7052c3c55dcae5e19ba.jpg)
صاحبان! اگر واقعی یہ سب کچھ آدھا جھوٹ اور آدھا سچ ہے۔ تب بھی مشکل صورتحال پیدا ہو چکی ہے۔ بین الاقوامی اقتصادی اداروں کے سامنے ہم گھٹنوں کے بل نہیں بلکہ سربسجود ہونے کے باوجود ’’ایک دھیلہ یا ایک پائی‘‘ کا قرضہ حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ یہ سچ بھرپور طریقے سے چھپایا جا رہا ہے۔ وزیرخزانہ کے نعروں کے باوجود ورلڈ بینک پاکستان کی کسی قسم کی کوئی مدد کرنے کو تیار نہیں ہے۔ اس پر کمال یہ ہے کہ وزیراعظم ‘ وزیراعلیٰ ‘ گورنر صاحبان ‘ وزراء اور ریاستی اداروں کے سربراہان ہر طرح کی مالی مراعات لے رہے ہیں۔ جن کا ترقی یافتہ ممالک میں بھی تصور نہیں کیا جا سکتا۔ سرکاری ہوائی جہاز‘ سرکاری ہیلی کاپٹر‘ حکومتی قیمتی ترین گاڑیاں‘ رکشے کی طرح استعمال کی جا رہی ہیں۔ چلیئے‘ اس ادنیٰ اداکاری کا کوئی مثبت نتیجہ نکل آئے۔ تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مگر ایک سال سے تو کسی قسم کا کوئی ٹھنڈی ہوا کا جھونکا نہیں آیا۔ کسی قسم کی ایسی بات نہیں کر رہا‘ جس کا ثبوت نہ ہو۔
ایکسپریس ٹربیون میں برادرم شہباز رانا کی ملکی معیشت کے متعلق رپورٹ رونگٹے کھڑے کر دینے والی ہے۔ یہ چھبیس مئی کو شائع ہوئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ‘ پاکستان کی معیشت سکڑ کر صرف اور صرف 341 بلین ڈالر تک آ چکی ہے۔ یہ ناقابل یقین کمی‘ ملکی معیشت کا نو فیصد ہے۔ یعنی گزشتہ ایک برس میں اقتصادی طور پر ملک خوفناک طور پر غرق کیا گیا ہے۔ یہ 34 بلین ڈالر کا جھٹکا ہے۔ اس کی وضاحت کون کرے گا۔ اس کا کسی کو بھی علم نہیں۔ انفرادی آمدنی‘ پچھلے اقتصادی برس سے گیارہ فیصد کم ہو کر 1568 ڈالر پر آ چکی ہے۔ یعنی یہ گیارہ فیصد یا 198 ڈالر کی کمی ہے۔ یہ اعداد و شمار کسی غیر سرکاری ادارے کے نہیں‘ بلکہ چند دن قبل نیشنل اکاؤنٹس کمپنی (NAC) میں سرکاری سطح پر پیش کئے گئے تھے۔ اور ان پر سرکار کی مہر ثابت ہو چکی ہے۔ معیشت کا سکڑنا اور انفرادی آمدنی میں مسلسل گراؤٹ کسی بھی حکومت کی ناکامی کا اعلانیہ نہیں تو اور کیا ہے۔ تف ہے کہ ملک کے ذمہ دار افراد میں سے کسی نے اس نوحہ پر گفتگو کرنی پسند کی ہو۔ ہاں۔ صبح سے رات گئے تک‘ سیاسی اداکار‘ سیاسی مخالفین کے لتے لیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اب تو سیاسی مخالفین کو غدار اور غیر محب وطن ہونے کے سرٹیفکیٹ بھی تواتر سے بانٹے جا رہے ہیں۔ ماضی میں یہ کھیل کئی بار کھیلا جا چکا ہے۔
ہم نے ملک تڑوا لیا۔ لیکن کوئی سبق نہیں سیکھا۔ یہ کھیل آج بھی جاری ہے۔ معیشت کے ساتھ ساتھ ملک کی سالمیت سے بھی کھیلا جا رہا ہے۔ عمران خان تو خیر‘ سیاست کی پیچیدگیوں سے نابلد انسان ہے۔ مگر موجودہ تجربہ کار قائدین کیوں ناکام ہو گئے ہیں۔ خاکم بدہن‘ کہیں ملک توڑنے کا نسخہ‘ دوبارہ زیر استعمال تو نہیں ہے۔ وثوق سے کچھ کہنا ناممکن ہے۔ معیشت پر برادرم شہباز رانا کی رپورٹ میں تو یہاں تک درج ہے کہ بیورو آف سٹیسٹسکس (BOS) کو جعلی اعداد و شمار دینے پر مجبور کیا گیا ہے۔ یہ دباؤ حکومت وقت کے سرخیل کی طرف سے آیا ہے۔ بیورو نے ملکی معیشت کو منفی 0.5 فیصد پر رکھا تھا۔ مگر اس رپورٹ کے بقول وزارت خزانہ اور دیگرطاقتور فریقین نے یہ ��دد جعل سازی سے تبدیل کروا کر مثبت 0.3 فیصد کروایا ہے۔ دل تھام کر سنیے۔ ملک میں آبادی بڑھنے کی شرح دو فیصد ہے۔ اگر 0.3 فیصد ملکی ترقی کو تسلیم کر بھی لیا جائے۔ تب بھی ملکی معیشت 1.7 فیصد منفی ڈھلان پر ہے۔ یہ معاملات کسی بھی ملک کی بربادی کے لیے ضرورت سے زیادہ ہیں۔ ہمارے دشمن شادیانے بجا رہے ہیں۔ اندازہ فرمائیے کہ اس رپورٹ کے مطابق‘ موجودہ حکومت نے 2022ء کے سیلاب میں دس لاکھ جانوروں کے نقصان کا ڈھنڈورا پیٹا تھا۔ Livestock سیکٹر کی بات کر رہا ہوں۔ مگر BOS کے مطابق حکومت کے یہ اعداد بھی مکمل طور پر غلط ہیں۔
سرکاری ادارے کے مطابق جانوروں کا نقصان صرف دو لاکھ ہے۔ سوچیئے۔ عالمی برادری اور ادارے‘ ہمارے اوپر کس طرح قہقہے لگا رہے ہونگے۔ اس تجزیہ کے مطابق زراعت کے شعبہ میں نمو 1.6 فیصد رکھی گئی ہے۔ یہ عدد بھی کسی بنیاد کے بغیر ہوا میں معلق ہے۔ وجہ یہ کہ کپاس کی فصل اکتالیس فیصد کم ہوئی ہے۔ کپاس کو روئی بنانے کے عمل میں 23 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ چاول کی فصل میں اکیس فیصد کمی موجود ہے۔ یہ سب کچھ برادرم شہباز رانا کی شائع شدہ رپورٹ میں درج ہے۔ مگر ذرا میڈیا ‘ میڈیا رپورٹنگ پر نظر ڈالیے ۔ تو سوائے سیاست یا گالم گلوچ کے کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ وہاں کوئی بھی ’’مہاشے‘‘ ذکر نہیں کرتا کہ معیشت بھی مقدس ہے۔ اگر یہ بیٹھ گئی تو سب کچھ عملی طور پر ہوا میں اڑ جائے گا۔ مگر کسی بھی طرف سے کوئی سنجیدہ بات سننے کو نہیں آتی۔ وزیر خزانہ کے یہ جملے‘ ’’کہ ہر چیز ٹھیک ہو جائے گی‘‘۔ بس فکر کی کوئی بات نہیں۔ ان پر شائد میرے جیسے لا علم اشخاص تو یقین کر لیں۔ مگر سنجیدہ بین الاقوامی اقتصادی ادارے اور ماہرین صرف ان جملوں پر ہنس ہی سکتے ہیں۔
معیشت ڈوب گئی تو پچیس کروڑ انسان‘ کتنے بڑے عذاب میں غرقاب ہو جائیںگے۔ اس پر بھی کوئی بات نہیں کرتا۔ موجودہ حکومت کی سیاست‘ سیاسی بیانات اور کارروائیاں ایک طرف۔ مگر عملی طور پر ہماری معیشت دم توڑ چکی ہے۔ صرف سرکاری طور پر تسلیم نہیں کیا جا رہا۔ سوال ہو سکتا ہے کہ ملک چل کیسے رہا ہے۔ اس کا جواب صرف یہ ہے‘ کہ ہماری بلیک اکانومی حد درجہ مضبوط اور فعال ہے۔ یہ واحد وجہ ہے کہ ہم خانہ جنگی میں نہیں جا رہے۔ مگر شائد تھوڑے عرصے کے بعد‘ یہ آخری عذاب بھی بھگتنا پڑے۔ مگر حضور‘ تھوڑا سا سچ بول ہی دیجئے۔ مردہ معیشت کی تدفین کب کرنی ہے!
راؤ منظر حیات
بشکریہ ایکسپریس نیوز
2 notes
·
View notes
Text
دنیا کے پچاس بہترین سیاحتی مقامات کی فہرست میں پاکستان بھی شامل
![Tumblr media](https://64.media.tumblr.com/3d4c6036037164b2b7fae00cb03f68d9/d8244d4fa363283f-8c/s400x600/c921f97403cbd0b568db1f5e5045e6d7259c228d.jpg)
برطانوی اخبار ’فنانشل ٹائمز‘ نے رواں سال سیاحت کے لیے دنیا کے 50 بہترین سیاحتی مقامات کی فہرست جاری کر دی۔ فنانشل ٹائمز نے پاکستان کے’گلگت بلتستان‘ کو بھی فہرست میں شامل کیا ہے۔ برطانوی اخبار نے لکھا ہے کہ گلگت بلتستان میں دنیا کے سب سے شاندار پہاڑی مناظر موجود ہیں، سیاح بہتر سیکیورٹی، آسان رسائی اور بہتر رہائش کی سہولتوں کی وجہ سے یہاں کا رخ کر رہے ہیں۔ فنانشل ٹائمز کے مطابق پاکستان نے گزشتہ سال اگست میں 120 سے زائد ممالک کے شہریوں کے لیے آن لائن ویزے کی سہولت فراہم کی اور اب اسکردو کے لیے پروازوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ برطانوی اخبار نے یہ بھی بتایا ہے کہ گلگت بلتستان میں 14 روزہ گروپ ٹورز بھی شروع کیے جا رہے ہیں، یہ ٹورز خطے کی ثقافت، تاریخ اور خوبصورت مناظر دیکھنے کا موقع فراہم کرتے ہیں اور اس میں 6 دن کی ٹریکنگ بھی شامل ہے۔ واضح رہے کہ رواں ماہ کے آغاز میں امریکی نشریاتی ادارے سی این این نے بھی گلگت بلتستان کو اس سال سیاحت کے لیے دنیا کے 25 بہترین مقامات کی فہرست میں شامل کیا ہے۔
![Tumblr media](https://64.media.tumblr.com/6c341a408026c30c9219569d69dfcfc0/d8244d4fa363283f-35/s400x600/750e323b9bf42fa40ff5911412b809fa1dd8989c.jpg)
![Tumblr media](https://64.media.tumblr.com/44a376e7224be40c64484e4e61baab19/d8244d4fa363283f-f6/s400x600/8d2c37099e1a1552cbd803395e130f56713b00d8.jpg)
0 notes
Link
[ad_1] پاکستان کی معیشت میں استحکام کے واضع اشارے مل رہے ہیں۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوا ہے جب کہ بیرون ملک سے ترسیلات زر میں بھی اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ میڈیا کی اطلاع کے مطابق دسمبر 2024میں ترسیلات زر29 فیصد اضافے کے ساتھ 3 ارب 10کروڑ ڈالر کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی ہیں۔ گزشتہ سال اسی ماہ میں ترسیلات زر2 ارب 38کروڑ ڈالر رہی تھیں۔میڈیا نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے حوالے سے بتایا ہے کہ نومبر2024کی ترسیلات زر2 ارب 92 کروڑ ڈالر تھیں جب کہ دسمبر2024میں ماہانہ بنیادوں پر 5.6 فیصد اضافہ ہوا ہے، رواں مالی سال کی پہلی ششماہی کے دوران ترسیلات زر کی مجموعی مالیت 17.8 ارب ڈالر ہوگئی ہے، جو گزشتہ مالی سال کے اسی دورانیے کے مقابلے میں32.8 فیصد زیادہ ہے۔ گزشتہ سال اس مدت کے دوران ترسیلات زر 13.4 ارب ڈالر رہی تھیں۔ یقینا یہ اعدادو شمار حوصلہ افزاء ہیں۔ ایک روز قبل گورنر اسٹیٹ بینک نے واضع کیا ہے کہ پاکستان معاشی اہداف حاصل کرنے کی راہ پر گامزن ہے اور قرضوں کی سطح اور ادائیگیوں کے توازن پر قابو پایا گیا ہے۔ انھوں نے توقع ظاہر کی تھی کہ رواں ماہ میں مہنگائی مزید کم ہوگی جب کہ قرضوں کی ادائیگی کی وجہ سے سود کی شرح بھی کم ہوگی۔ موجودہ حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد سے شرح سود میں مسلسل کمی ہورہی ہے ، جو معیشت میں استحکام کا واضع اشارہ ہے۔ پاکستان کو معاشی ترقی کی رفتار بڑھانے کے لیے برآمدات میں مزید اضافے کی ضرورت ہے، جوں جوں برآمدات میں اضافہ ہوگا، کرنٹ اکاؤنٹ اور ادائیگیوں کے توازن میں بہتری آئے گی۔ یہ امر اطمینان بخش ہے کہ پاکستان نے 944 ملین ڈالر کے بجٹ خسارے کو سرپلس میں بدل دیا ہے۔ شرح سود جو 22 فیصد تھی ، وہ اب 13 فیصد تک آچکی ہے اور اس میں مزید کمی کے اشارے مل رہے ہیں۔ شرح سود میں کمی نے نہ صرف قرضوں کے حصول کو آسان بنایا بلکہ کاروباری ماحول کو فروغ دیا، کلیدی شعبوں میں سرمایہ کاری کو تقویت بخشی اور اقتصادی ترقی کے نئے افق وا کیے۔ ترسیلات زر میں اضافہ بھی ایک صحت بخش پیش رفت ہے ،امید ظاہر کی جارہی ہے کہ رواں مالی سال کے اختتام تک ترسیلات زر کا حجم 35 ارب ڈالر سے بڑھ جائے گا۔ بلیک مارکیٹ اور انٹر بینک کے درمیان گیپ میں کمی ہوئی جب کہ روپے کی قدر میں بھی استحکام رہا ہے اور پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں کاروباری حالات بہتر ہیں، اسمگلنگ میں کمی ، حوالہ ہنڈی کے کاروباری پر سختی کی گئی ہے، ان تمام عوامل نے مل کر ماحول کو بہتر بنایا ہے جس کی وجہ سے ترسیلات زر میں اضافہ ہوا ہے ۔ آئی ایم ایف کے حکام بھی امید ظاہر کررہے ہیں کہ پاکستان کی معاشی ٹیم جس انداز میں کام کررہی ہے اور جو نتائج سامنے آرہے ہیں، اگر یہ عمل جاری رہتا ہے تو پاکستان کی جی ڈی پی کی شرح 2025تک 3.2 فیصد تک پہنچ جائے گی۔ عالمی مالیاتی ادارے پاکستان کی معاشی سمت کے بارے میں نئی امید کا اظہار کر رہے ہیں۔ 2024میں مہنگائی کی شرح 29فیصد سے کم ہو کر 7 فیصد تک آ گئی۔ سال کے اختتام تک، پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 12 بلین ڈالر تک پہنچ گئے، یہ اضافہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی طرف سے ترسیلاتِ زر، برآمدات میں مضبوط ترقی، اور مالیاتی پالیسیوں پر عمل درآمد کا نتیجہ ہے۔ سال 2024کے دوران پاکستان کی برآمدات میں قابلِ ذکر82 فیصد کا اضافہ ہوا، جو 72ارب ڈالر کی قابل رشک حد تک پہنچ گئیں۔ اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس نومبر میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 14 کروڑ 80 لاکھ ڈالرز تھا مگر رواں برس اسی عرصے میں 72 کروڑ 90 لاکھ ڈالرز سرپلس رہا۔ تقریباً دس سال بعد کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس بلند ترین سطح پر ہے اور لگاتار کئی ماہ سے سرپلس ہے، اس کی بڑی وجہ ملکی برآمدات اور ترسیلات ِزر میں اضافہ ہے، مالی سال کے پہلے پانچ ماہ میں بیرونی وصولیوں میں بھی 33فیصد اضافہ دیکھا گیا جو نومبر تک 15 ارب ڈالرز تک پہنچ گئیں۔ وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ دسمبر 2024 میں موصول ہونے والی 3 ارب 10 کروڑ ڈالر ترسیلات زر ہمارے بیرون ملک کام کرنے والے پاکستانی بھائیوں اور بہنوں کے ملک و قوم کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے کے آہنی عزم کی سند ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان معاشی استحکام کے بعد معاشی ترقی کی راہ پر گامزن ہو چکا ہے۔ حکومت پاکستان ملکی ترقی اور عوامی فلاح و بہبود کے لیے پر عزم ہے۔ ایک اور خبر کے مطابق وزیراعظم نے منی بجٹ کے امکانات کو مسترد کرتے ہوئے ٹیکس حکام کو 386 ارب کا ریونیو شارٹ فال ریکوراوران لینڈ ریونیو کے سپریم کورٹ اور اپیلٹ ٹریبونلز میں زیرالتوا مقدمات جلد نمٹانے کی ہدایت کی ہے۔ میڈیا کی ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ وزیراعظم نے ایک ہفتے میں ٹیکس معاملات کا جائزہ لینے کے لیے دو اجلاس بلائے ہیں۔ان میں ایک اجلاس جمعہ کو ہوا۔ اس اجلاس میں وزیراعظم کو ایف بی آرکی طرف سے ماہ جنوری کا 957 ارب روپے کا ٹیکس اہداف کے حوالے سے پیش آمد مشکلات کے بارے میں آگاہ کیا گیا ہے۔وزیراعظم نے عدالتوں میں رکے ہوئے محصولات کے کیسزجلد ازجلد نمٹانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ اپیلٹ ٹریبونلز میں بین الاقوامی معیار کی افرادی قوت کو مسابقتی تنخواہوں، مراعات اور پیشہ ورانہ ٹیلنٹ کی بنیاد پر تعینات کر کے محصولات کے کیسز فوری حل کیے جائیں۔ وزیراعظم نے کہا ایف بی آر اصلاحات پر کام تیزی سے جاری ہے۔حال ہی میں کراچی میں فیس لیس اسیسمنٹ نظام کا اجراء کیا گیا ہے۔جدید خودکار نظام سے کرپشن کا خاتمہ اور کسٹمز کلیئرنس کے لیے درکار وقت میں خاطر خواہ کمی آئی ہے۔ملک و قوم کی ایک ایک پائی کا تحفظ کریں گے۔غریب پر ٹیکس کا مزید بوجھ ڈالنے کے بجائے ٹیکس نا دہندگان سے ٹیکس وصول کریں گے ۔ ان سرگرمیوں سے واضع ہوتا ہے کہ حکومت معیشت کو بہتر بنانے اور ٹیکس سٹسم میں اصلاحات لانے کے لیے سخت اقدامات کررہی ہے جب کہ حکومت کی معاشی ٹیم نے جو روڈ میپ سیٹ کیا ہے، اس پر مسلسل کام کررہی ہے۔ادھر ساڑھے چار سال بعد پی آئی اے کی یورپ کے لیے پروازیں بحال ہوگئیں۔ ساڑھے چار سال تعطل کے بعد قومی ایٔرلائن کی پہلی پرواز 309 مسافروں کو لے کر پیرس پہنچ گئی۔ وفاقی وزیر ہوابازی خواجہ آصف نے کہا برطانیہ اور امریکا کے لیے عائد پابندیاں بھی جلد ختم ہوجائیں گی اور وہاں کے لیے بھی براہ راست پروازیں شروع ہو جائیں گی۔ پاکستان اور پاکستانیوں کے لیے یہ امر باعث مایوسی تھا کہ ملک کی قومی ائر لائن دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں کے ائر پورٹس پر نہیں اترسکتی۔ امریکا، کینیڈا اور یورپ میں مقیم پاکستانیوں کو غیرملکی ائرلائنز کے ذریعے وطن واپس آنا پڑتا تھا اور اسی طرح پاکستان سے یورپ جانے کے لیے انھیں براہ راست پروازیں میسر نہیں تھیں۔ ساڑھے 4سال ہمارے اوورسیز پاکستانی ڈائریکٹ یہاں نہیں آسکتے تھے۔ انھیں دبئی، دوحہ، ابوظہبی یا کہیں اور سے فلائٹ لے کر پاکستان آنا پڑتا تھا، سفر بھی مہنگا ہوگیا تھا۔ ساڑھے 4سال میں کئی سو ارب کا نقصان اٹھایا ۔ پاکستان کے لیے گزرے دس برس انتہائی کٹھن رہے ہیں۔ ان برسوں کے دوران ملک کی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ غلط معاشی حکمت عملیوں اور ناعاقبت اندیش خارجہ پالیسی کی وجہ سے پاکستان کی معیشت عدم استحکام ہی نہیں بلکہ دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گئی۔ عالمی سطح پر پاکستان تنہائی کا شکار ہوا۔ پاکستان کا نام مسلسل کئی برس ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں رہا جس کی وجہ سے پاکستان کی معیشت کو بحران سے نکلنے کا موقع نہ مل سکا۔ داخلی پالیسیوں کی وجہ سے ملک کے اندر ناسازگار حالات رہے۔ امن وامان اور دہشت گردی کے حوالے سے جو پالیسی اختیار کی گئی، اس کے نتائج ملک اور قوم کے لیے اچھے نہیں نکلے۔ ملک میں مہنگائی کا طوفان آیا جب کہ اشیائے ضروریہ خصوصاً اناج واجناس جن میں آٹا، چینی، گھی اور دالیں وغیرہ شامل تھیں، ان کی شدید قلت پیدا ہوئی۔ موجودہ حکومت نے برسراقتدار آ کر ان عوامل پر کسی حد تک قابو پایا ہے۔ معیشت اب خاصی حد تک بحالی کی سطح پر آ گئی ہے۔ پاکستان کو ابھی مزید معاشی اصلاحات کی ضرورت ہے تاکہ ملکی معیشت مضبوط بنیادوں پر کھڑی ہو سکے۔ معاشی استحکام کی راہ میں ابھی بہت سی رکاوٹیں موجود ہیںتاہم یہ ایسی نہیں ہیں کہ جنھیں ہٹایا نہ جا سکے۔ [ad_2] Source link
0 notes
Text
رواں سال کےدوران ترسیلات زرمیں31 فیصد اضافہ
رواں سال کےپہلے11 ماہ کے دوران سمندر پارپاکستانیوں کی جانب سےبھیجی گئی ترسیلات زرمیں31 فیصد اضافہ ریکارڈ ہوا۔ سمندر پار پاکستانیوں نےجنوری سے نومبر تک21 ارب5 کروڑڈالر کی ترسیلات زر پاکستان بھیجی۔ مذکورہ عرصےکےدوران سب سےزیادہ7 ارب29 کروڑڈالر کی رقم سعودی عرب میں مقیم پاکستانیوں نےبھیجی، دوسرےنمبرپر سب سےزیادہ متحدہ عرب امارات میں مقیم پاکستانیوں سے6 ارب15کروڑڈالر کی ترسیلات زرموصول ہوئیں جوگزشتہ…
0 notes
Text
وفاقی حکومت کا بجٹ رواں مالی سال کی پہلی سہہ ماہی میں ہی سرپلس میں چلاگیا
(وقاص عظیم) وفاقی حکومت کا بجٹ رواں مالی سال کی پہلی سہہ ماہی میں ہی سرپلس میں چلاگیا۔ مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں وفاقی حکومت کی آمدنی زیادہ اور اخراجات کم رہے،وزارت خزانہ نے مالی سال کی پہلی سہہ ماہی فسکل آپریشن رپورٹ جاری کردی جولائی تا ستمبر 2024 میں مجموعی آمدنی اخراجات سے 1696ارب روپے زیادہ رہی ، رپورٹ کے مطابق جولائی تا ستمبر مجموعی محصولات کا حجم 5827 ارب روپے رہا۔ رواں مالی سال کی پہلی…
0 notes
Link
[ad_1] پاکستان کی معیشت میں استحکام کے واضع اشارے مل رہے ہیں۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوا ہے جب کہ بیرون ملک سے ترسیلات زر میں بھی اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ میڈیا کی اطلاع کے مطابق دسمبر 2024میں ترسیلات زر29 فیصد اضافے کے ساتھ 3 ارب 10کروڑ ڈالر کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی ہیں۔ گزشتہ سال اسی ماہ میں ترسیلات زر2 ارب 38کروڑ ڈالر رہی تھیں۔میڈیا نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے حوالے سے بتایا ہے کہ نومبر2024کی ترسیلات زر2 ارب 92 کروڑ ڈالر تھیں جب کہ دسمبر2024میں ماہانہ بنیادوں پر 5.6 فیصد اضافہ ہوا ہے، رواں مالی سال کی پہلی ششماہی کے دوران ترسیلات زر کی مجموعی مالیت 17.8 ارب ڈالر ہوگئی ہے، جو گزشتہ مالی سال کے اسی دورانیے کے مقابلے میں32.8 فیصد زیادہ ہے۔ گزشتہ سال اس مدت کے دوران ترسیلات زر 13.4 ارب ڈالر رہی تھیں۔ یقینا یہ اعدادو شمار حوصلہ افزاء ہیں۔ ایک روز قبل گورنر اسٹیٹ بینک نے واضع کیا ہے کہ پاکستان معاشی اہداف حاصل کرنے کی راہ پر گامزن ہے اور قرضوں کی سطح اور ادائیگیوں کے توازن پر قابو پایا گیا ہے۔ انھوں نے توقع ظاہر کی تھی کہ رواں ماہ میں مہنگائی مزید کم ہوگی جب کہ قرضوں کی ادائیگی کی وجہ سے سود کی شرح بھی کم ہوگی۔ موجودہ حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد سے شرح سود میں مسلسل کمی ہورہی ہے ، جو معیشت میں استحکام کا واضع اشارہ ہے۔ پاکستان کو معاشی ترقی کی رفتار بڑھانے کے لیے برآمدات میں مزید اضافے کی ضرورت ہے، جوں جوں برآمدات میں اضافہ ہوگا، کرنٹ اکاؤنٹ اور ادائیگیوں کے توازن میں بہتری آئے گی۔ یہ امر اطمینان بخش ہے کہ پاکستان نے 944 ملین ڈالر کے بجٹ خسارے کو سرپلس میں بدل دیا ہے۔ شرح سود جو 22 فیصد تھی ، وہ اب 13 فیصد تک آچکی ہے اور اس میں مزید کمی کے اشارے مل رہے ہیں۔ شرح سود میں کمی نے نہ صرف قرضوں کے حصول کو آسان بنایا بلکہ کاروباری ماحول کو فروغ دیا، کلیدی شعبوں میں سرمایہ کاری کو تقویت بخشی اور اقتصادی ترقی کے نئے افق وا کیے۔ ترسیلات زر میں اضافہ بھی ایک صحت بخش پیش رفت ہے ،امید ظاہر کی جارہی ہے کہ رواں مالی سال کے اختتام تک ترسیلات زر کا حجم 35 ارب ڈالر سے بڑھ جائے گا۔ بلیک مارکیٹ اور انٹر بینک کے درمیان گیپ میں کمی ہوئی جب کہ روپے کی قدر میں بھی استحکام رہا ہے اور پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں کاروباری حالات بہتر ہیں، اسمگلنگ میں کمی ، حوالہ ہنڈی کے کاروباری پر سختی کی گئی ہے، ان تمام عوامل نے مل کر ماحول کو بہتر بنایا ہے جس کی وجہ سے ترسیلات زر میں اضافہ ہوا ہے ۔ آئی ایم ایف کے حکام بھی امید ظاہر کررہے ہیں کہ پاکستان کی معاشی ٹیم جس انداز میں کام کررہی ہے اور جو نتائج سامنے آرہے ہیں، اگر یہ عمل جاری رہتا ہے تو پاکستان کی جی ڈی پی کی شرح 2025تک 3.2 فیصد تک پہنچ جائے گی۔ عالمی مالیاتی ادارے پاکستان کی معاشی سمت کے بارے میں نئی امید کا اظہار کر رہے ہیں۔ 2024میں مہنگائی کی شرح 29فیصد سے کم ہو کر 7 فیصد تک آ گئی۔ سال کے اختتام تک، پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 12 بلین ڈالر تک پہنچ گئے، یہ اضافہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی طرف سے ترسیلاتِ زر، برآمدات میں مضبوط ترقی، اور مالیاتی پالیسیوں پر عمل درآمد کا نتیجہ ہے۔ سال 2024کے دوران پاکستان کی برآمدات میں قابلِ ذکر82 فیصد کا اضافہ ہوا، جو 72ارب ڈالر کی قابل رشک حد تک پہنچ گئیں۔ اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس نومبر میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 14 کروڑ 80 لاکھ ڈالرز تھا مگر رواں برس اسی عرصے میں 72 کروڑ 90 لاکھ ڈالرز سرپلس رہا۔ تقریباً دس سال بعد کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس بلند ترین سطح پر ہے اور لگاتار کئی ماہ سے سرپلس ہے، اس کی بڑی وجہ ملکی برآمدات اور ترسیلات ِزر میں اضافہ ہے، مالی سال کے پہلے پانچ ماہ میں بیرونی وصولیوں میں بھی 33فیصد اضافہ دیکھا گیا جو نومبر تک 15 ارب ڈالرز تک پہنچ گئیں۔ وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ دسمبر 2024 میں موصول ہونے والی 3 ارب 10 کروڑ ڈالر ترسیلات زر ہمارے بیرون ملک کام کرنے والے پاکستانی بھائیوں اور بہنوں کے ملک و قوم کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے کے آہنی عزم کی سند ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان معاشی استحکام کے بعد معاشی ترقی کی راہ پر گامزن ہو چکا ہے۔ حکومت پاکستان ملکی ترقی اور عوامی فلاح و بہبود کے لیے پر عزم ہے۔ ایک اور خبر کے مطابق وزیراعظم نے منی بجٹ کے امکانات کو مسترد کرتے ہوئے ٹیکس حکام کو 386 ارب کا ریونیو شارٹ فال ریکوراوران لینڈ ریونیو کے سپریم کورٹ اور اپیلٹ ٹریبونلز میں زیرالتوا مقدمات جلد نمٹانے کی ہدایت کی ہے۔ میڈیا کی ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ وزیراعظم نے ایک ہفتے میں ٹیکس معاملات کا جائزہ لینے کے لیے دو اجلاس بلائے ہیں۔ان میں ایک اجلاس جمعہ کو ہوا۔ اس اجلاس میں وزیراعظم کو ایف بی آرکی طرف سے ماہ جنوری کا 957 ارب روپے کا ٹیکس اہداف کے حوالے سے پیش آمد مشکلات کے بارے میں آگاہ کیا گیا ہے۔وزیراعظم نے عدالتوں میں رکے ہوئے محصولات کے کیسزجلد ازجلد نمٹانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ اپیلٹ ٹریبونلز میں بین الاقوامی معیار کی افرادی قوت کو مسابقتی تنخواہوں، مراعات اور پیشہ ورانہ ٹیلنٹ کی بنیاد پر تعینات کر کے محصولات کے کیسز فوری حل کیے جائیں۔ وزیراعظم نے کہا ایف بی آر اصلاحات پر کام تیزی سے جاری ہے۔حال ہی میں کراچی میں فیس لیس اسیسمنٹ نظام کا اجراء کیا گیا ہے۔جدید خودکار نظام سے کرپشن کا خاتمہ اور کسٹمز کلیئرنس کے لیے درکار وقت میں خاطر خواہ کمی آئی ہے۔ملک و قوم کی ایک ایک پائی کا تحفظ کریں گے۔غریب پر ٹیکس کا مزید بوجھ ڈالنے کے بجائے ٹیکس نا دہندگان سے ٹیکس وصول کریں گے ۔ ان سرگرمیوں سے واضع ہوتا ہے کہ حکومت معیشت کو بہتر بنانے اور ٹیکس سٹسم میں اصلاحات لانے کے لیے سخت اقدامات کررہی ہے جب کہ حکومت کی معاشی ٹیم نے جو روڈ میپ سیٹ کیا ہے، اس پر مسلسل کام کررہی ہے۔ادھر ساڑھے چار سال بعد پی آئی اے کی یورپ کے لیے پروازیں بحال ہوگئیں۔ ساڑھے چار سال تعطل کے بعد قومی ایٔرلائن کی پہلی پرواز 309 مسافروں کو لے کر پیرس پہنچ گئی۔ وفاقی وزیر ہوابازی خواجہ آصف نے کہا برطانیہ اور امریکا کے لیے عائد پابندیاں بھی جلد ختم ہوجائیں گی اور وہاں کے لیے بھی براہ راست پروازیں شروع ہو جائیں گی۔ پاکستان اور پاکستانیوں کے لیے یہ امر باعث مایوسی تھا کہ ملک کی قومی ائر لائن دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں کے ائر پورٹس پر نہیں اترسکتی۔ امریکا، کینیڈا اور یورپ میں مقیم پاکستانیوں کو غیرملکی ائرلائنز کے ذریعے وطن واپس آنا پڑتا تھا اور اسی طرح پاکستان سے یورپ جانے کے لیے انھیں براہ راست پروازیں میسر نہیں تھیں۔ ساڑھے 4سال ہمارے اوورسیز پاکستانی ڈائریکٹ یہاں نہیں آسکتے تھے۔ انھیں دبئی، دوحہ، ابوظہبی یا کہیں اور سے فلائٹ لے کر پاکستان آنا پڑتا تھا، سفر بھی مہنگا ہوگیا تھا۔ ساڑھے 4سال میں کئی سو ارب کا نقصان اٹھایا ۔ پاکستان کے لیے گزرے دس برس انتہائی کٹھن رہے ہیں۔ ان برسوں کے دوران ملک کی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ غلط معاشی حکمت عملیوں اور ناعاقبت اندیش خارجہ پالیسی کی وجہ سے پاکستان کی معیشت عدم استحکام ہی نہیں بلکہ دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گئی۔ عالمی سطح پر پاکستان تنہائی کا شکار ہوا۔ پاکستان کا نام مسلسل کئی برس ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں رہا جس کی وجہ سے پاکستان کی معیشت کو بحران سے نکلنے کا موقع نہ مل سکا۔ داخلی پالیسیوں کی وجہ سے ملک کے اندر ناسازگار حالات رہے۔ امن وامان اور دہشت گردی کے حوالے سے جو پالیسی اختیار کی گئی، اس کے نتائج ملک اور قوم کے لیے اچھے نہیں نکلے۔ ملک میں مہنگائی کا طوفان آیا جب کہ اشیائے ضروریہ خصوصاً اناج واجناس جن میں آٹا، چینی، گھی اور دالیں وغیرہ شامل تھیں، ان کی شدید قلت پیدا ہوئی۔ موجودہ حکومت نے برسراقتدار آ کر ان عوامل پر کسی حد تک قابو پایا ہے۔ معیشت اب خاصی حد تک بحالی کی سطح پر آ گئی ہے۔ پاکستان کو ابھی مزید معاشی اصلاحات کی ضرورت ہے تاکہ ملکی معیشت مضبوط بنیادوں پر کھڑی ہو سکے۔ معاشی استحکام کی راہ میں ابھی بہت سی رکاوٹیں موجود ہیںتاہم یہ ایسی نہیں ہیں کہ جنھیں ہٹایا نہ جا سکے۔ [ad_2] Source link
0 notes
Text
![Tumblr media](https://64.media.tumblr.com/9cb01609976d53a590b008eb1fc3dfb1/e5d7525be3626491-3c/s400x600/606dfb0d69106d8cfcc48f4c0e9a90009c4bef16.jpg)
رواں سال 7 نومبر کی شام ڈھوریہ تیاب دپ ضلع گوادر مقبوضہ بلوچستان سے نعمان اسحاق کو قابض پنجابی دہشتگرد ریاستی سکیورٹی فورسز نے جبری طور پر لاپتہ کردیا۔خاندانی زرائع
#ReleaseAllBalochMissingPersons
#StopBalochGenocide
#OccupiedBalochistan
#BalochistanIsNotPakistan
#pakistanaterroristcountry
0 notes
Text
ڈان اخبار اداریہ : ’کرم کے حالات پر قابو نہ پایا گیا تو فرقہ وارانہ تنازعات ملحقہ اضلاع میں پھیل سکتے ہیں‘
خیبرپختونخوا کے قبائلی ضلع کرم میں گزشتہ چند ماہ سے صورت حال عدم استحکام کا شکار ہے، ایسے میں جمعرات کو پیش آنے والا ہولناک واقعہ حیران کُن نہیں تھا۔ لوئر کرم میں گاڑیوں کے قافلے پر کیے جانے والے دہشتگردانہ حملے میں کم از کم 38 افراد جاں بحق ہوئے جوکہ رواں سال پیش آنے والے کسی انفرادی حملے میں ہونے والی ہلاکتوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ اس قافلے میں زیادہ تر شیعہ کمیونٹی کے افراد سوار تھے۔…
![Tumblr media](https://64.media.tumblr.com/50fbbb6a5c15c1bb4d5e7aea1ba52629/cf6d9d69ff34c33d-68/s500x750/0e606fee5e7164ad4acd9b98aaaabc8fbc6bac04.jpg)
View On WordPress
0 notes
Text
پریس ریلیز
نومبر 15
*پنجاب حکومت کے خسارے میں جانے کا پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے: عظمیٰ بخاری*
*رواں سال کے آخر میں پنجاب حکومت 680 ارب کا سرپلس دے گی: عظمیٰ بخاری*
*آئی ایم ایف نے تسلیم کیا ہے کہ پنجاب کے حوالے سے خسارے کی رپورٹ بالکل غلط ہے: عظمیٰ بخاری*
لاہور () وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے پنجاب حکومت کے پہلی ساماہی میں خسارے کی خبروں کی سختی سے تردید کردی اورآفیشل ڈاکومنٹ بھی جاری کردیا۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب حکومت کے خسارے میں جانے کاجھوٹا پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے۔ رواں سال کے آخر میں پنجاب حکومت 680 ارب کا سرپلس دے گی۔ آئی ایم ایف نے تسلیم کیا ہے کہ پنجاب کے حوالے سے خسارے کی رپورٹ ٹھیک نہیں ہیں۔ اس حوالے سے آئی ایم ایف جلد رپورٹ کو اپنی ویب سائٹ پر اپلوڈ کردے گا۔ انکا کہنا تھا کہ پنجاب حکومت نے پہلے کواٹر میں 40 بلین کا سرپلس دیا ہے۔ آئی ایم ایف نے تسلیم کیا پنجاب پہلے کواٹر میں 40 ارب سرپلس میں ہے اور پنجاب حکومت کی 200 ارب کی سرمایہ کاری ہے۔ایک میٹنگ میں آئی ایم ایف نے تسلیم کیا ہے کہ پنجاب کے حوالے سے جو خسارے کی رپورٹ آرہی ہیں وہ غلط ہے اسکو ٹھیک کردیا جائے گا۔وزیر اطلاعات پنجاب کا مزید کہنا تھا کہ مریم نواز کی حکومت نے 1952 کے بعد پہلی مرتبہ گندم کا واجب الادہ قرض صفر کردیا ہے۔ مریم نواز کے وزیراعلٰی بننے کے بعد پنجاب کے قرضوں میں بھی واضح کمی ہوئی ہے۔ میڈیا ملکی معیشت پر من گھڑت خبروں سے گریز کرے۔
0 notes