#جیتنے
Explore tagged Tumblr posts
Text
عمران اعجاز نے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ جیتنے والی پاکستانی بلائنڈ ٹیم کے لیے تیس لاکھ روپے انعام کا اعلان کردیا
پاکستان(ڈیلی پاکستان آن لا) انٹرنیشنل بلائنڈ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ ورلڈ کپ 2024جیتنے والی قومی ٹیم پر انعامات کی بارش کا سلسلہ جاری ہے ،پہلے پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے قومی بلائنڈ کرکٹ ٹیم کے لیے ایک کروڑ روپے انعام کا اعلان کیا گیا تو اب ٹی ٹونٹی کرکٹ ورلڈ کپ 2024کے آفیشل اسپانسر اور پاکستان کے معروف فاسٹ فوڈ برانڈ کے مالک عمران اعجاز نے قومی بلائنڈ کرکٹ ٹیم کو ان کی تاریخی فتح پرمبارکباد پیش کرتے…
#اعجاز#اعلان#انعام#بلائنڈ#پاکستانی#تیس#ٹوئنٹی#ٹی#ٹیم#جیتنے#روپے#عمران#کا#کپ#کردیا#کے#لاکھ#لیے#نے#والی#ورلڈ
0 notes
Text
امن کا نوبیل انعام جیتنے والے جاپان کے توشیوکی فلسطینیوں کے قتلِ عام پر رو پڑے
ٹوکیو (ڈیلی پاکستان آن لائن )جاپانی تنظیم نیہون ہیڈان��یو کی جانب سے اینٹی نیوکلیئر مہم چلانے والے توشیوکی میماکی نوبیل انعام جیتنے کے بعد اپنی گفتگو میں بولے کہ غزہ کو ہر حال میں جنگ جیتنا ہوگی۔ان کا کہنا تھا حیران ہوں کہ غزہ اور اسرائیل کی جنگ بندی کے لئے کام کرنے والوں کے بجائے ہمیں نوبیل انعام کا حق دار ٹھہرایا گیا۔ اشکبار آنکھوں کے ساتھ توشیوکی نے کہا کہ غزہ میں بچوں کی خون آلود تصاویر دیکھ…
0 notes
Text
سکون مطلوب نہیں
ایک کہاوت ہے کہ جہاز بندر گاه میں زیاده محفوظ رہتے ہیں- مگر جہاز اس لئے نہیں بنائے گئے کہ وه بندر گاه میں کهڑے رہیں :
Ships are safer in the harbour , but they are not meant for that purpose.
انسان اگر اپنے ٹهکانے پر بیٹها رہے، وه نہ سفر کرے، نہ کوئی کام شروع کرے، نہ کسی سے معاملہ کرے، تو ایسا آدمی بظاہر محفوظ اور پر سکون هو گا- مگر انسان کو پیدا کرنے والے نے اس کو اس لئے پیدا نہیں کیا ہے کہ وه پر سکون طور پر ایک جگہ رہے اور پهر وه قبر میں چلا جائے-
انسان کو اس لیے پیدا کیا گیا ہے کہ وه کام کرے- وه دنیا میں ایک زندگی کی تعمیر کرے- اس مقصد کے لیے اس کو دنیا کے ہنگاموں میں داخل هونا پڑے گا- وه ہارنے اور جیتنے کے تجربات اٹهائے گا- اس کو کبهی نقصان هو گا اور کبهی فائده- اس قسم کے واقعات کا پیش آنا عین فطری ہے- اور ایسے واقعات و حوادث کا اندیشہ هونے کے باوجود انسان کے لئے یہ مطلوب ہے کہ وه زندگی کے سمندر میں داخل هو اور اپنی جدوجہد میں کمی نہ کرے-
مزید یہ کہ پر سکوں زندگی کوئی مطلوب زندگی نہیں- کیونکہ جو آدمی مستقل طور پر سکوں کی حالت میں هو اس کا ارتقاء روک جائے گا- ایسے آدمی کے امکانات بیدار نہیں هوں گے- ایسے آدمی کی فطرت میں چهپے هوئے خزانے باہر آنے کا موقع نہ پا سکیں گے-
اس کے برعکس ایک آدمی جب زندگی کے طوفان میں داخل هوتا ہے تو اس کی چهپی هوئی صلاحیتیں جاگ اٹهتی ہیں- وه معمولی انسان سے اوپر اٹهہ کر غیر معمولی انسان بن جاتا ہے- پہلے اگر وه چهوٹا سا بیج تها تو اب وه ایک عظیم الشان درخت بن جاتا ہے-
زندگی جدوجہد کا نام ہے- زندگی یہ ہے کہ آدمی مقابلہ کر کے آگے بڑهے- زندگی وه ہے جو سیلاب بن جائے نہ کہ وه جو ساحل پر ٹهہری رہے-
الرسالہ، جون 2000
مولانا وحیدالدین خان
7 notes
·
View notes
Text
جیتنے والوں کا ہم کو نہیں کچھ علم کہ ہم
ہار کر سوچتے رہتے ہیں کہ ہارا کیا ہے 🥀
8 notes
·
View notes
Text
پی ٹی آئی کا ووٹ بینک کہاں جائے گا؟
![Tumblr media](https://64.media.tumblr.com/dda304db58e5e04ce5e87aef39544347/e93a0d8da1669272-66/s400x600/938c8babbb79c79eb543aecec372f2440d956fc7.jpg)
9 مئی کو ہونے والی ہنگاموں کے ملکی سیاست پر فوری اور اہم نتائج سامنے آئے۔ 9 مئی کو ہونے والے پُرتشدد واقعات چیئرمین پاکستان تحریکِ انصاف کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ جاری تصادم کی ایک کڑی تھے جس کے نتیجے میں ملک بھر میں پی ٹی آئی کارکنان کے خلاف کریک ڈاؤن شروع ہوا۔ پھر یہ جماعت بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونا شروع ہو گئی کیونکہ اس کے زیادہ تر رہنماؤں اور سابق اراکینِ پارلیمنٹ نے منظم عمل کے تحت پارٹی سے استعفے دینا شروع کر دیے اور یہ عمل اب بھی جاری ہے۔ تمام منحرف اراکین نے ایک ہی ا��کرپٹ دہرائی جس میں انہوں نے فوجی تنصیبات پر حملے کی مذمت کی اور پارٹی کو اشتعال انگیزی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے پارٹی سے علحیدگی اختیار کی۔ حکمران اتحاد کی جانب سے چیئرمین پی ٹی آئی پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔ وزرا نے خبردار کیا ہے کہ 9 مئی کے واقعات کے ’ماسٹر مائنڈ‘ ہونے کے الزام پر انہیں فوجی عدالت میں مقدمے کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جبکہ ان کی جماعت پر پابندی بھی لگائی جاسکتی ہے۔ مشکل حالات کا شکار چیئرمین پی ٹی آئی جو اب متعدد عدالتی مقدمات کا بھی سامنا کررہے ہیں، انہوں نے سختی سے ان الزامات کی تردید کی ہے۔
انہوں بڑے پیمانے پر ہونے والی گرفتاریوں اور جبری اقدمات کی مذمت کرتے ہوئے چیئرمین پی ٹی آئی نے یہ دعویٰ کیا کہ پارٹی رہنماؤں کو پارٹی چھوڑنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ اس کے باوجود اپنی سابقہ پوزیشن سے ڈرامائی انداز میں پیچھے ہٹتے ہوئے انہوں نے حکومت کو مذاکرات کی پیشکش کی ہے۔ تاہم، وزیراعظم شہباز شریف نے ان کی اس پیشکش کو ٹھکرا دیا اور ان لوگوں کے ساتھ بات چیت کے امکان کو مسترد کر دیا ہے جنہیں انہوں نے ’انتشار پسند اور اشتعال پسند‘ قرار دیا جو ’سیاستانوں کا لبادہ اوڑھتے ہیں لیکن ریاستی تنصیبات پر حملہ کرتے ہیں‘۔ پی ٹی آئی کی ٹوٹ پھوٹ نے سیاسی منظرنامے کو ایک نئی شکل دینا شروع کر دی ہے۔ اگرچہ سیاسی صف بندی ممکنہ طور پر اس وقت تک جاری رہے گی جب تک کہ انتخابات کا حتمی اعلان نہیں ہو جاتا، لیکن اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انتخابی صورت حال کیا ہو گی۔ ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ پی ٹی آئی کا ووٹ بینک کہاں جائے گا؟ جہانگیر خان ترین کی جانب سے ایک ایسی پارٹی بنانے کی کوششیں جاری ہیں جو پی ٹی آئی چھوڑنے والے ’الیکٹ ایبلز‘ کو اپنی جانب متوجہ کرے اور ووٹرز کو ’تیسرا آپشن‘ مہیا کرے۔
![Tumblr media](https://64.media.tumblr.com/a71e5cc223a1b4fd9fdf67a14cc05248/e93a0d8da1669272-6b/s400x600/db93abb0476f34409a03262723c6fb15aff572ea.jpg)
تاہم جہانگیر ترین جیسے ایک ہوشیار سیاست دان اور متحرک کاروباری شخصیت کو اس طرح کا اہم کردار ادا کرنے کے لیے پہلے خود پر لگا نااہلی کا داغ ہٹانا ہو گا۔ یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہو گا کہ وہ پارٹی کے قیام میں کس حد تک کامیاب ہوں گے جبکہ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اگر انہوں نے پی ٹی آئی ��ے سابق ارکان کو شمولیت پر آمادہ کر لیا تو کیا وہ پی ٹی آئی کے ووٹرز کو بھی اپنے ساتھ لائیں گے۔ اس معاملے نے ملک کی انتخابی سیاست کو بہت زیادہ متحرک کر دیا ہے۔ پنجاب ایک ایسا میدانِ جنگ ہے جہاں سے جیتنے والی پارٹی ممکنہ طور پر وفاق میں حکومت بناتی ہے، اگر اس صوبے میں جماعتوں کے درمیان ووٹ بینک تقسیم ہو جاتا ہے تو مرکز میں کوئی بھی جماعت اکثریت حاصل نہیں کر پائے گی اور ایک ایسی پارلیمنٹ وجود میں آئے گی جس میں کسی بھی پارٹی کے پاس واضح اکثریت نہیں ہو گی۔ کیا پی ٹی آئی کے ووٹرز یہ جانتے ہوئے بھی ووٹ ڈالنے آئیں گے کہ ان کی جماعت تتربتر ہو چکی ہے اور ان کے لیڈر کے خلاف قانونی مقدمات ہیں اس لیڈر کا اقتدار میں واپس آنے کا بہت کم امکان ہے؟ خاص طور پر اب جب نوجوان ووٹرز رائے دہندگان کا ایک بڑا حصہ ہیں تو اس صورتحال کا مجموعی ووٹرز ٹرن آؤٹ پر گہرا اثر پڑے گا۔
اس بات کا امکان نہایت کم ہے کہ پی ٹی آئی کے سپورٹرز پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور مسلم لیگ (ن) جیسی دو روایتی پارٹیوں کی حمایت کرنے پر آمادہ ہوں، حالانکہ پی پی پی نے جنوبی پنجاب میں منحرف ووٹرز کو اپنی جانب راغب کیا ہے۔ آخر ان دونوں جماعتوں کو مسترد کرنے کے بعد ہی پی ٹی آئی کو لوگوں نے سپورٹ کرنا شروع کیا۔ کیا جہانگیر ترین کی نئی جماعت انہیں اپنی جانب راغب کر پائے گی؟ یہ بات بھی مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ ماضی میں ووٹروں نے وفاداریاں تبدیل کرنے والے امیدواروں کو ووٹ دینے سے گریز کیا ہے۔ تو اگر پی ٹی آئی کا ووٹ تقسیم ہوتا ہے تو کیا اس سے روایتی جماعتوں میں سے کسی ایک کو فائدہ پہنچے گا؟ اس وقت بہت زیادہ غیر یقینی پائی جاتی ہے خاص طور پر ایسے حالات میں کہ جب حکومت کی جانب سے انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔ چونکہ پارلیمنٹ کی مدت 16 اگست کو ختم ہو رہی ہے اس لیے انتخابات میں تاخیر نہیں ہو سکتی، اس وجہ سے جب انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہو گا تو انتخابی اعداد و شمار سیاسی صف بندیوں کا تعین کرنا شروع کر دیں گے اور انتخابی مقابلے کی نوعیت کے بارے میں تصویر واضح طور پر سامنے آئے گی۔
لیکن اس وقت کوئی بھی سیاسی جماعت اپنے پالیسی پروگرامز یا ملک کے مستقبل کے حوالے سے وژن طے کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ ملک کو درپیش مسائل سے کیسے نمٹا جائے، اس حوالے سے کسی بھی سیاسی جماعت نے کوئی تجویز پیش نہیں کی ہے۔ سیاسی جماعتیں اقتدار کی کشمکش میں ��صروف ہیں اور مستقبل کے لیے پالیسی منصوبے تیار کرنے کے بجائے اپنے سیاسی مخالفین کو زیر کرنے کی کوشش میں نظر آرہی ہیں۔ یہ غیریقینی کی صورتحال ہماری ملک کی سیاست کے لازمی جز کی طرح ہو چکی ہے۔ البتہ جو چیز یقینی ہے وہ ہے ہماری معیشت کا عدم استحکام۔ تمام معاشی اشاریے بدستور خراب ہوتے جا رہے ہیں جبکہ پی ڈی ایم کی حکومت میں ہماری معیشت تیزی سے زوال کی جانب جارہی ہے۔ حکومت کی طرف سے ڈیفالٹ کے امکانات رد کرنے کے باوجود ملک اب بھی اپنے قرضوں پر ڈیفالٹ کے دہانے پر کھڑا ہے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے بیل آؤٹ ملنے کے امکان بھی مبہم ہیں۔ وزیراعظم نے حال ہی میں آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا سے تعطل کا شکار پروگرام دوبارہ شروع کرنے کے حوالے سے بات کی۔
تاہم آئی ایم ایف نے تب تک اسٹاف لیول معاہدہ نہ کرنے کا کہا جب تک پاکستان اس مالی سال (جو 30 جون کو ختم ہو رہا ہے) کے اختتام تک اپنے کرنٹ اکاؤنٹ میں 6 بلین ڈالر کے خلا کو پُر کرنے کے لیے فنانسنگ کا بندوبست نہیں کر تا۔ ملک کے ذخائر تقریباً 4 ارب ڈالرز تک آگئے ہیں جو درآمدات پر عائد پابندیوں کے باوجود ایک ماہ سے بھی کم کی درآمدات کے لیے ہی پورے ہو سکتے ہیں۔ حکومت نے پاکستان میں ادائیگیوں کے توازن کے بدترین بحران کو ختم کرنے کے لیے درآمدی کنٹرولز لگانے جیسے وقتی اقدامات کے ذریعے معیشت کو سنبھالنے کی کوشش کی ہے۔ اس نے اقتصادی صورتحال پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ حالیہ مالی سال کے لیے سرکاری طور پر تخمینہ شدہ جی ڈی پی کی شرح نمو گزشتہ مالی سال کے 6 فیصد کے مقابلے میں 0.3 فیصد ہے۔ لیکن اس مایوس کن تعداد پر بھی سب کو یقین نہیں ہے۔ صنعتی شعبہ بھی 3 فیصد تک سکڑ گیا ہے جس کی وجہ سے بہت سے کاروبار بند ہو رہے ہیں، لوگوں کی ملازمتیں ختم ہو رہی ہیں اور اشیا کی قلت پیدا ہو رہی ہے۔
گزشتہ سال آنے والے تباہ کُن سیلاب کے نتیجے میں ملک میں زرعی شعبے پر شدید اثرات مرتب ہوئے اور پیداوار میں واضح کمی دیکھی گئی ہے۔ درآمدات پر پابندیوں اور خام مال کی قلت کے باعث ملک کی برآمدات میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔ دوسری جانب افراطِ زر بلند ترین شرح کو چھو رہی ہے جبکہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں ریکارڈ کمی واقع ہوئی ہے۔ کہا جارہا ہے کہ انتخابات کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت اب ’ریلیف بجٹ‘ پیش کرنے جارہی ہے جس میں عوام کے مفاد میں اقدامات لیے جانے کی توقع کی جارہی ہے۔ اس سے ملک میں معاشی بحران کی صورتحال مزید پیچیدہ ہو گی۔ سیاست کو معیشت پر فوقیت دینے کی وجہ سے ہمارے ملک کی صورتحال زوال کی جانب جارہی ہے۔ ملک کا مستقبل سیاسی غیریقینی اور معاشی بحران کی صورتحال سے گھرا ہوا ہے جسے حل کرنے کے لیے ساختی اصلاحات اور فیصلہ کُن اقدامات کی ضرورت ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان کے پاس ایسی کوئی قیادت ہے جو ان تمام حالات کو سمجھتی ہو اور ملک کے مفادات کو اپنے مفادات پر ترجیح دینے کے قابل ہو۔
ملیحہ لودھی
یہ مضمون 6 جون 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
بشکریہ ڈان نیوز
9 notes
·
View notes
Text
پرسکون زندگی گذارنے کے گُر
![Tumblr media](https://64.media.tumblr.com/19aaa088bea876a6cb1115011300b1cb/19121953006f8821-c5/s400x600/b29fb59a6c7763397d252498f5c4af77b19f07b1.jpg)
زندگی کسی کی بھی پرسکون نہیں ہوتی، کیونکہ ہر کسی کے راستے میں بہت سی مشکلات اور چیلنجز ہوتے ہیں جن سے روزانہ کی بنیاد پر نمٹنا پڑتا ہے۔ درحقیقت زندگی کو آسان اور پرسکون بنانا پڑتا ہے جس کےلیے تگ و دو کرنا پڑتی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ مشکلات کم نہیں ہوتیں بلکہ ہم ان سے نمٹنے کا طریقہ سیکھ لیتے ہیں اور اپنے آپ کو اس قابل بنا لیتے ہیں کہ پریشانیوں اور مصائب کا سامنا کر سکیں۔ زندگی کو آسان بنانے کےلیے چند گُر ایسے ہیں جو اگر آپ سیکھ لیں تو زندگی میں کسی حد تک خوشگواری کی کیفیت پیدا کی جاسکتی ہے۔
رویوں میں لچک پیدا کیجیے جیسے جیسے ہماری عمر بڑھتی ہے ہمارے خیالات اور نظریات پختہ ہونے لگتے ہیں۔ ہم اپنی باتوں پر ڈٹ جاتے ہیں اور بہت کم کسی دوسرے کی سنتے ہیں۔ ہم دوسروں کو تو تبدیل کرنا چاہتے ہیں لیکن خود اپنی سوچ اور رائے ان پر مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ اس رویے سے ہمارے وقار میں کمی آتی ہے۔ زندگی بدلتی رہتی ہے، حالات اور واقعات کبھی ایک جیسے نہیں رہتے، وقت کے ساتھ ساتھ ہمیں نئی مہارتیں اور نئی چیزیں سیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے اور ساتھ ہی اپنے رویوں کو تبدیل کرنا بھی ضروری ہو جاتا ہے۔
![Tumblr media](https://64.media.tumblr.com/ca843820860334d3adad896466754fc4/19121953006f8821-bb/s400x600/3ef66dcaa6694c780b71394b430745f6e08d4452.jpg)
اچھا سامع بنیے ہم ہمیشہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں سب کچھ معلوم ہے اور لوگوں کو ہماری قابلیت کا لازمی علم ہونا چاہیے۔ جبکہ ایسا نہیں ہوتا کیونکہ علم اور مہارت مختلف نوعیت کی ہوتی ہے اور ہمیں اس حقیققت کو قبول کرنا چاہیے۔ ہمیں دوسروں کے علم سے بھی فائدہ اٹھانا چاہیے۔ ایسا صرف اسی صورت میں ہوسکتا ہے جب ہم اچھے سامع ہوں۔ لوگوں کی باتوں کو سنیں۔ ہم بہت سی باتیں محض جواب دینے کے لیے سنتے ہیں ان کو سمجھنے کےلیے نہیں سنتے۔ فوری جواب دینے یا ردعمل سے ہمارا دوسروں پر زیادہ اچھا تاثر نہیں پڑتا۔
دوسروں کو نہ جانچنا یہ ایک بہت بڑی خوبی ہے۔ ہم دنیا میں طرح طرح کے لوگوں سے ملتے ہیں جن کی عادات مختلف ہوتی ہیں اور ماحول بھی الگ ہوتا ہے۔ تعلیم و تربیت کا فرق بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ کسی کی اچھی بات سے متاثر ہو کر اس پر رشک کرنا یا کسی کی غلطی پر اس کو مکمل ہی غلط سمجھ لینا دانش مندی نہیں۔ جو لوگ دوسروں کو جج کرتے ہیں اور اس کے بعد ان سے تعلقات قائم کرتے ہیں، کوئی بھی ان کا قدردان نہیں ہوتا۔ لوگوں کا اعتماد جیتنے کےلیے ضروری ہے کہ آپ انھیں عزت دیں۔ زندگی میں سمجھوتہ کریں۔ کسی کو عقل کل اور بالکل غلط نہ سمجھیں۔ اپنے تجربات اور مشاہدات کی بنا پر لوگوں سے ان کی فطرت اور عادت کے مطابق تعلقات قائم کریں۔
دل میں میل نہ رکھنا انسانی فطرت ہے کہ ہم لوگوں کی غلط باتوں سے دل برداشتہ ہوتے ہیں اور ہمیں ان کے رویے تکلیف پہنچاتے ہیں لیکن زندگی گزارنے کےلیے بہت سی تکلیف دہ باتوں کو بھلانا پڑتا ہے تاکہ لوگوں کے ساتھ افہام و تفہیم کے ساتھ بات چیت آگے بڑھائی جاسکے۔ دوسروں کو معاف کرنا زندگی میں ہمارے اپنے سکون کے لیے بہت ضروری ہے۔
بے جا تنقید نہ کرنا یہ ایک ایسی خوبی ہے جو آپ کو بہت جلد ممتاز بنا دیتی ہے۔ دنیا میں ہر شخص بندے کو تعریف چاہیے، تنقید سے ہر کوئی گھبراتا ہے اور خاص طور پر بے جا تنقید کرنے والے کو کوئی پسند نہیں کرتا لیکن تعمیری تنقید ہمیشہ بہت کام بھی آتی ہے اور لوگ اس کا خیر مقدم بھی کرتے ہیں۔
اپنی غلطی پر معذرت خواہ ہونا دوسروں کو معاف کرنا تو اہم ہے ہی، اس کے ساتھ ساتھ اپنی غلطی پر معذرت خواہ ہونا ایک اچھے انسان ہونے کی دلیل ہے۔ تاہم ہمیشہ یہ خیال رکھنا چاہیے کہ آپ ہر وقت معذرت خواہانہ انداز نہ اپنائیں اور صرف اپنی غلطی ہر ہی معافی مانگیں۔
دوسروں کو توجہ دینا انسان کا ہر رشتہ توجہ اور وقت مانگتا ہے۔ اگر رشتوں کو وقت نہ دیا جائے اور اہمیت کا احساس نہ دلایا جائے تو اچھے تعلقات کبھی قائم نہیں رہ سکتے۔ جو لوگ خود سے وابستہ رشتوں کی قدر کرتے ہیں، ��نھیں اہمیت دیتے اور ان کا خیال کرتے ہیں وہ پرسکون زندگی گزارتے ہیں۔
اپنی صحت کا خیال رکھنا آخر میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ پرسکون زندگی اور صحت مند جسم کا گہرا تعلق ہے۔ جو شخص اپنی صحت کا خیال نہیں رکھ سکتا وہ کسی دوسرے شخص کا خیال بھی نہیں رکھ سکتا۔ تندرستی ہزار نعمت ہے لہٰذا ہر کسی کو اپنی صحت کا ہر ممکن خیال رکھنا چاہیے۔ پرسکون زندگی کا معیار اور تصور ہر کسی کےلیے مختلف ہوسکتا ہے، لیکن مندرجہ بالا تمام خصوصیات کا ہونا ایک مطمئن زندگی کے لیے بہت ضروری ہے۔
راضیہ سید
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
Text
نیشنل سکاوٹس اعزاز۔کمشنر لاہور زید بن مقصود سے ڈی پی ایس لاہور کے ہونہار طلباء کی ملاقات
کمشنر لاہور کی ڈی پی ایس لاہور طلباء کو صدارتی ایوارڈ سکاوٹس اور چیف کمشنر پنجاب سکاوٹس ایوارڈ ملنے پر مبارکباد
ڈی پی ایس لاہور کے معیز اجمل کاکڑ کو نیشنل سکاوٹس میں بہترین کارکردگی اور نظم و ضبط پر صدارتی ایوارڈ ملا
ڈی پی ایس لاہور کے محمد فرقان طاہر کو پنجاب میں بہترین کارکردگی و نظم و ضبط پر چیف کمشنر پنجاب ایوارڈ ملا
کمشنر لاہور زید بن مقصود سے دونوں طلباء کی ملاقات۔کمشنر لاہور نے شاباش دی۔خراج تحسین کا اظہار کیا
کمشنر لاہور نے دونوں طلباء سے ایوارڈ جیتنے کے مراحل پر تفصیلی بات چیت کی۔خوشی کا اظہار کیا
کمشنر لاہور نے دونوں طلباء کی حوصلہ افزائی کیلئے اعزازی شیلڈز دیں
دونوں طلباء کے ایوارڈ انکی کارکردگی۔اساتذہ کی محنت،والدین کی دعاوں کا نتیجہ ہیں۔کمشنر لاہور
سکاوٹنگ تربیت سے طلباو طالبات تعلیمی اداروں اور معاشرے کے بہترین فرد بنتے ہیں۔کمشنر لاہور
سکاوٹس کیمپس نظم و ضبط اور ذمہ داری سکھاتے ہیں۔اضلاع میں سکاوٹنگ کو فعال کررہے ہیں۔کمشنر لاہور
تمام ڈی سی ز کو سکاوٹس کیمپس کو بہترین طریقے سے منظم کرنے کیلیے ہدایات دے چکا ہوں۔کمشنر لاہور
تقریب میں پرنسپل ڈی پی ایس بریگیڈیر ر خرم محمود۔سکاوٹس ٹیچرز اور والدین کی شرکت
0 notes
Text
Get Your Samsung Galaxy A53 Today – A Masterpiece of Modern Technology!
اپنا Samsung Galaxy A53 ابھی حاصل کریں!
![Tumblr media](https://64.media.tumblr.com/73a1d6ae80f67597e6916849abb5450a/deb0150cec5fe471-42/s250x250_c1/5c1dabd7ebb80cca9d9b9c3aacf1b4afede399e6.jpg)
#SamsungGalaxyA53#ModernTechnology#SmartphoneDeal#Samsung5G#BestCameraPhone#StylishDesign#SamsungInnovation#TechUpgrade
0 notes
Text
گولڈ میڈلسٹ ارشد ندیم کیلئےغیر ملکی کوچ کی خدمات لینے کا فیصلہ
جولین تھرو میں گولڈ میڈل جیتنے والےارشد ندیم سمیت دیگر کھلاڑیوں کی تربیت کیلئےغیر ملکی کوچ کی خدمات لینےکا فیصلہ کرلیا گیا۔ اتھلیٹکس فیڈریشن آف پاکستان سےالحاق رکھنے والے یونٹس کی بڑی تعداد جس میں صوبے اور ڈیپارٹمنٹس بھی شامل تھے کے نمائندوں نے شرکت کی، اجلاس کی صدارت بریگیڈئر (ر) وجاہت حسین نے کی۔ پیرس اولمپکس میں پاکستان کیلئےگولڈ میڈل جیتنے والے ارشد ندیم کوخراج تحسین پیش کیا گیا اور اس بات…
0 notes
Text
ٹرمپ کے جیتنے کے بعد ایلون مسک کی دولت میں ہوشربا اضافہ
نیویارک (ویب ڈیسک) ایلون مسک کی دولت ریکارڈ 347.8 ڈالرز کے ہندسے کو چھونے میں کامیاب ہوگئی ہے۔ تفصیلات کے مطابق ایلون مسک کی دولت میں اچانک بھاری اضافہ ان کی کمپنی ٹیسلا کے حصص کی قیمتوں میں اچانک بھاری اضافے کے باعث ہواہے ۔ امریکی صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کے بعد سے ایلون مسک کی دولت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔اس سے قبل نومبر 2021 میں ایلون مسک کی دولت 340 ارب ڈالرز تک پہنچی تھی جو…
0 notes
Text
ملتان ٹیسٹ میں کامیابی کس کی محنت کا نتیجہ ہے چیئرمین پی سی بی کا اہم بیان
لاہور(ڈیلی پاکستان آن لائن)چئیرمین پاکستان کرکٹ بورڈ محسن نقوی نے ملتان ٹیسٹ جیتنے پر پاکستانی ٹیم کو مبارکباد پیش کی ہے۔ چئیرمین پاکستان کرکٹ بورڈمحسن نقوی نےاپنے بیان میں کہاہے کہ ساجدخان اور نعمان علی نےشاندار باؤلنگ کرکے فتح میں اہم کردارادا کیا، کامران غلام نےپہلےہی می�� میں سنچری سکورکرکے اپنی بھرپورصلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ چئیرمین پی سی بی نے مزید نےکہاطویل عرصے کے بعد ہوم ٹیسٹ میچ میں…
0 notes
Text
آنکھ بھر آئی کسی سے جو ملاقات ہوئی
خشک موسم تھا مگر ٹوٹ کے برسات ہوئی
دن بھی ڈوبا کہ نہیں یہ مجھے معلوم نہیں
جس جگہ بجھ گئے آنکھوں کے دئے رات ہوئی
کوئی حسرت کوئی ارماں کوئی خواہش ہی نہ تھی
ایسے عالم میں مری خود سے ملاقات ہوئی ۔۔۔
اسی ہونی کو تو قسمت کا لکھا کہتے ہیں
جیتنے کا جہاں موقع تھا وہیں مات ہوئی
اس طرح گزرا ہے بچپن کہ کھلونے نہ ملے
اور جوانی میں بڑھاپے سے ملاقات ہوئی
منظرؔ بھوپالی
2 notes
·
View notes
Text
بڑے انعامات دیکھنے اور جیتنے کے لیے ابھی PIN درج کریں!
Claim Now:
#one direction#harry styles#larry stylinson#liam payne#zayn malik#thanks for sharing#zayn#animation#art#artists on tumblr#artwork#bill cipher#billford#batman#animals#agatha all along#baby animals
0 notes
Text
ڈونلڈ ٹرمپ کے دوبارہ صدر بننے کے بعد امریکا کیسا ہو گا؟
![Tumblr media](https://64.media.tumblr.com/b5994839daa25262a88d95167099405f/61f8e60e036338a1-5b/s400x600/14530eb1bc0cd7592367c5ab4e03752bf01a5c77.jpg)
امریکی صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی جماعت ریپبلکن پارٹی کی شاندار کامیابی کے بعد اب امریکا کیسا ہو گا؟ یہ سوال امریکا سمیت دنیا بھر میں گردش کر رہا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت نے امریکی اور بین القوامی سیاسی منظر نامے میں ہلچل پیدا کر دی ہے۔ امریکی صدارتی انتخابات میں عوام کی بڑی تعداد نے ڈونلڈ ٹرمپ کے جارحانہ طرزِ سیاست اور تبدیل شدہ امریکی پالیسیوں کو واپس لانے کی خواہش ظاہر کی۔
صدارتی الیکشن جیتنے والے ٹرمپ سے متعلق دلچسپ حقیقت امریکا میں ووٹرز کی اکثریت معاشی مسائل، امیگریشن قوانین کی سختی اور امریکی حکومت میں ڈرامائی تبدیلیاں چاہتی تھی، جسے ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے منشور میں جگہ دی اور پھر کامیابی سے ہم کنار ہوئے۔ اس کامیابی کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ ایک ایسی حکومت کی تشکیل کا ارادہ رکھتے ہیں جو ان کے مخالفین پر کڑی نظر رکھے، بڑے پیمانے پر تارکینِ وطن کو نکالے اور امریکی اتحادیوں کے لیے سخت پالیسی بنائے۔ مذکورہ اقدامات کے ذریعے ٹرمپ ایک مضبوط امریکی قوم کا جو نظریہ پیش کر رہے تھے وہ نوجوان ووٹرز میں مقبول ہوا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ بھی کہا تھا کہ ان کی حکومت میں کوئی روایتی رکاوٹ نہیں ہو گی کیونکہ انہوں نے پہلے سے ہی اپنی ایڈمنسٹریشن میں وفادار افراد کو اہم عہدوں پر تعینات کرنے کا عندیہ دیا ہے جو ان کے ہر حکم کو نافذ العمل کریں گے۔ اب صدارتی انتخابات میں ٹرمپ کی کامیابی کے بعد امریکی سیاست کے مستقبل پر کئی سوالات اٹھ رہے ہیں اور یہ دیکھنا دلچسپ ہو گا کہ وہ اپنی پالیسیوں پر کس حد تک عمل کروانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔
صدارتی انتخابات کے نتائج کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے 295 الیکٹورل ووٹس کے ساتھ برتری حاصل کی ہے جبکہ کملا ہیرس کو صرف 226 الیکٹورل ووٹس ملے۔ یہاں اس بات کا ��کر کرنا بھی اہم ہے کہ امریکی صدارتی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے کسی بھی امیدوار کو 270 الیکٹورل ووٹس حاصل کرنے ہوتے ہیں۔ ریپبلکن پارٹی نے سینیٹ کی 52 نشستوں پر کامیابی حاصل کی اور ڈیموکریٹس پارٹی 43 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی، یوں اب ریپبلکن پارٹی کو سینیٹ میں اکثریت حاصل ہے۔ ایوان نمائندگان کانگریس میں ریپبلکن پارٹی نے 222 نشستیں حاصل کیں جبکہ ڈیموکریٹس پارٹی کو 213 نشستوں پرکامیابی ملی یعنی ریپبلکن پارٹی کو معمولی برتری حاصل ہے۔ ریاستی سطح پر گورنرز کی تعداد دیکھیں تو ریپبلکن پارٹی کے 27 امیدوار بطور گورنر منتخب ہوئے جبکہ ڈیموکریٹس پارٹی کے 23 امیدوار کامیاب ہوئے۔
![Tumblr media](https://64.media.tumblr.com/863190cb11946d88ba039bf2f26d6d2d/61f8e60e036338a1-32/s400x600/7ca396eaf9c1c7512444a1309aca54be10ff7e1b.jpg)
جب ریپبلکن پارٹی نے ایوانِ نمائندگان کانگریس میں اکثریت حاصل کر لی ہے تو قانون سازی میں ان کا غلبہ متوقع ہے اور سینیٹ میں بھی ان کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، اس لیے ڈیموکریٹس پارٹی کے لیے کسی بھی بل کی منظوری میں مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ اسی طرح گورنرز کی تعداد میں بھی ریپبلکن پارٹی کی برتری برقرار ہے، لیکن ڈیموکریٹس پارٹی نے واشنگٹن، ڈیلاویئر اور نارتھ کیرولائنا جیسی اہم ریاستوں میں کامیابی حاصل کر لی ہے اور گورنرز ریاستوں کی سطح پر اہم فیصلوں میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں جن میں تعلیم، صحت اور گن کنٹرول جیسے موضوعات شامل ہیں تو یہ ترتیب ڈونلڈ ٹرمپ کے آئندہ ایجنڈے پر اثر ڈال سکتی ہے۔ حالیہ صدارتی انتخابات کے بعد امریکی عوام کو ریپبلکن پارٹی کی حکمتِ عملی سے جو توقعات ہیں ان میں معاشی اصلاحات، امیگریشن کنٹرول اور امریکا کی عالمی پوزیشن کو دوبارہ مضبوط کرنا شامل ہیں۔
کانگریس اور سینٹ میں اکثریت ہونے کی وجہ سے ریپبلکن پارٹی کو اپنے قوانین اور پالیسیز نافذ کرنے میں ڈیموکریٹس پارٹی کی مخالفت کا سامنا کم کرنا پڑے گا۔ ان پالیسیوں کے نتیجے میں امریکی عوام ٹیکس میں چھوٹ، قومی سلامتی میں سختی اور عالمی اتحادیوں کے ساتھ محتاط رویہ اختیار کیے جانے کی توقع کر رہے ہیں۔ دوسری جانب ڈیموکریٹس پارٹی شکست کے بعد اب ایک چیلنجنگ پوزیشن میں آ گئی ہے جہاں انہیں ایوان میں اپنے ایجنڈے کو برقرار رکھنے کے لیے کوئی زبردست حکمتِ عملی اپنانی ہو گی کیونکہ وہ مستقبل میں اپوزیشن کی حیثیت سے کام کریں گے اور ہو سکتا ہے کہ وہ ممکنہ طور پر بعض اقدامات کو روکنے کے لیے مختلف فورمز پر اپنی آواز بھی بلند کریں۔ حالیہ صدارتی انتخابات امریکی سیاسی نظام کے مستقبل کو ایک نئی سمت کی طرف لے گئے ہیں اور عوام کے لیے یہ تبدیلی کئی اہم معاملات پر اثر انداز ہو گی۔
ٹرمپ کی پالیسیاں ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں کا مرکز سب سے پہلے امریکا ہے اور ان کی معاشی پالیسی امریکا میں کاروبار اور ملازمتوں کو فروغ دینے کے لیے ٹیکس کٹوتیاں اور تجارتی معاہدوں میں ترامیم ہیں جن کا مقصد ملک کی معیشت کو مضبوط بنانا ہے۔
ٹرمپ کی خارجہ پالیسی ڈونلڈ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی میں نیٹو اور عالمی اداروں میں امریکی اخراجات پر نظر، چین کے ساتھ تجارتی جنگ، ایران پر دباؤ ڈالنا اور مشرق وسطیٰ میں امریکا کی موجودگی کو کم کرنا ہے۔ وہ امیگریشن پالیسی میں سرحدی حفاظت اور غیر قانونی امیگریشن روکنے کے لیے سخت اقدامات اور دیوار کی تعمیر پر زور بھی دیتے ہیں۔
ماحولیاتی پالیسی ماحولیاتی پالیسی میں ڈونلڈ ٹرمپ صنعتی ترقی کے لیے ماحولیاتی پابندیوں کو کم کر کے اور پیرس معاہدے سے علیحدگی اختیار کرناچاہیں گے، یہ تمام پالیسیاں بقول ان کے امریکی معیشت، سماج، اور دفاع کو مستحکم بنانے کے لیے ہیں۔
ٹرمپ کے مسلمانوں کے بارے میں خیالات ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ بیانات کی روشنی میں یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ مسلمان کاروباری افراد اور نوجوانوں کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کریں گے۔
ٹرمپ سپریم کورٹ پر کیسے اثر انداز ہو سکتے ہیں؟ ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت دہائیوں تک سپریم کورٹ میں قدامت پسند اکثریت کو یقینی بنا سکتی ہے، ویسے وہ اپنے پہلے پچھلے دورِ اقتدار میں 3 سپریم کورٹ کے ججز تعینات کر چکے ہیں جبکہ اب اپنے دوسرے دورِ اقتدار میں انہیں مزید 2 ججز نامزد کرنے کا بھی موقع مل سکتا ہے جس سے ایک ایسی سپریم کورٹ تشکیل پائے گی جس میں ان کے تعینات کردہ ججز کی اکثریت دہائیوں تک قائم رہے گی۔ یہ فیصلہ کن نتیجہ عدالت کو انتخابی تنازعات میں الجھنے سے محفوظ رکھے گا اور اس سے امیگریشن جیسے اہم معاملات کے مقدمات کی نوعیت بھی تبدیل ہو سکتی ہے۔ اس وقت امریکی سپریم کورٹ میں 2 معمر ترین ججز موجود ہیں جن میں 76 سالہ جسٹس کلیرنس تھامس اور دوسرے 74 سالہ جسٹس سیموئل الیٹو ہیں گو کہ امریکا میں ججز کی تعیناتی تاحیات ہوتی ہے لیکن یہ دونوں اپنی عمر کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ریٹائر بھی ہو سکتے ہیں۔ یوں ڈونلڈ ٹرمپ کو اگر 2 نئے ججز تعینات کرنے کا موقع ملا تو وہ ایسے ججز نامزد کریں گے جو جسٹس کلیرنس تھامس اور جسٹس سیموئل الیٹو سے تقریباً 3 دہائیاں کم عمر ہوں اور اس طرح سپریم کورٹ پر طویل عرصے تک قدامت پسندانہ ججز کا غلبہ یقینی ہو گا۔
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
یوسف ڈکیچ: اولمپکس میں چاندی کا تمغہ جیتنے والے ترکش شوٹر جن کا موازنہ ہالی وڈ کردار ’جان وک‘ سے کیا جا رہا ہے
http://dlvr.it/TBRjkj
0 notes
Text
بہ تسلیمات نظامت اعلیٰ تعلقات عامہ پنجاب
لاہور، فون نمبر:99201390
ڈاکٹر محمد عمران اسلم/پی آر او ٹو سی ایم
ہینڈ آؤٹ نمبر 1007
وزیر اعلیٰ مریم نواز کی مکسڈمارشل آرٹ سٹار شاہ زیب رند کو سنگاپور میں کراٹے کمبیٹ چیمپئن شپ کا فائنل جیتنے پر مبارکباد
لاہور20 ستمبر:……وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے مکسڈمارشل آرٹ سٹار شاہ زیب رند کو سنگاپور میں کراٹے کمبیٹ چیمپئن شپ کے فائنل میں برازیل کے برونو روبرٹو ڈی ایسی کو شکست دینے پر مبارکباد دی ہے-وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف نے شاہ زیب رند کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کیا-شاہ زیب رند کی انٹرنیشنل ایونٹ میں جیت پر قوم کو فخر ہے -
٭٭٭٭
0 notes